دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 262535
ڈاؤنلوڈ: 6008

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 262535 / ڈاؤنلوڈ: 6008
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مکتوب نمبر21

آپ کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ لفظ “ الذین آمنوا ” جمع ہے اور امیرالمومنین(ع) شخص واحد ہیں لہذا جمع کا اطلاق مفرد پر کیونکر صحیح ہے؟

                                                             س

جواب مکتوب

اہل عرب عموما جمع بول کر مفرد مراد لیا کرتے ہیں اس سے ایک خاص نکتہ ملحوظ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایسا کرتے ہیں۔

اس کے ثبوت میں سورہ آل عمران کی یہ آیت پڑھیے :

 “  الَّذينَ قالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا

۲۴۱

 لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزادَهُمْ إيماناً وَ قالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَكيلُ”( آل عمران، 173)

“ وہ لوگ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمھارے خلاف ایکا کر لیا ہے، تم ڈرو ان سے مگر ان کے ایمان میں اور اضافہ ہی ہوا، انھوں نے کہا کہ خدا ہمارے لیے کافی ہے اور وہی بہترین وکیل ہے۔”

آیت میں ہے کہ لوگوں نے کہا ۔ ناس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ تمام مفسرین و محدثین و اہل اخبار کا اجماع ہے کہ کہنے والا فقط ایک تھا نعیم بن مسعود اشجعی ۔ خداوند عالم نے صرف ایک نعیم بن مسعود پر جو مفرد ہے لفظ ناس کا اطلاق کیا ہے جو جماعت کے لیے بولا جاتا ہے ۔ ایسا کیوں کیا گیا۔ ان لوگوں کی عظمت و جلالت ظاہر کرنے کے لیے جنھوں نے نعیم بن مسعود کی باتوں پر توجہ نہ کی اور اس کے ڈرانے سے ڈرے نہیں۔ واقعہ یہ تھا کہ ابوسفیان نے نعیم بن مسعود کو دس اونٹ اس شرط پر دیے کہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرے اور مشرکین سے خوف دلائے اور اس نے ایسا ہی کیا تو نعیم نے اس دن جو باتیں کہی تھیں انھیں میں سے یہ جملہ بھی تھا۔ لوگوں نے تمھارے خلاف ایکا کر لیا ہے ۔ تم ڈرو ان سے، اس کے ڈرانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر مسلمان جنب میں جانے سے گھبرا گئے لیکن پیغمبر(ص) 70 سواروں کو لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ اور صحیح و سالم واپس آئے۔ اس موقع پر یہ آیت ان ستر مسلمانوں کی مدح میں نازل ہوئی جو رسول(ص) کے ہمراہ گئے اور ڈرانے والے کے کہنے سے ڈرے نہیں خداوند عالم نے یہاں مفرد ( یعنی نعیم بن مسعود) پر ناس کا لفظ جو بولا

۲۴۲

تو عجیب پاکیزہ نکتہ ہے اس میں۔ کیونکہ اس ستر کی تعریف جو رسول(ص) کے ہمراہ گئے یہ کہہ کر کرنا کہ وہ لوگوں کے کہنے اور ڈرانے سے نہیں ڈرے کہیں بلیغ تر ہے بہ نسبت اس کے کہ اگر یہ کہا جاتا کہ وہ ایک شخص کے ڈرانے سے نہیں ڈرے ( کیونکہ ایک شخص کا خوف دلانا اتنا خوف کا باعث نہیں ہوتا جتنا ایک جماعت کا ڈرانا خوف کا باعث ہوتا ہے۔)

اس جیسی بہت سی مثالیں آپ کو کلام مجید، احادیثِ پیغمبر(ص) اور کلام عرب میں ملیں گی۔ کلام مجید ہی میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے :

“يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَنْ يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ”( مائدہ ، 11)

“ اے لوگو!  جو ایمان لائے خدا کے اس نعمت و احسان کو یاد کرو جب ایک قوم نے ارادہ کیا کہ تمھاری طرف برائی کا ہاتھ بڑھائے تو خداوند عالم نے اس کے ہاتھ کو تم سے روک دیا۔”

اس آیت میں قوم کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ قوم نے برائی کا ہاتھ بڑھایا حالانکہ ہاتھ بڑھانے والا صرف ایک شخص تھا۔ قبیلہ محارب سے جس کا نام غورث تھا۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ وہ بنی نضیر کا ایک شخص عمرو بن جحاش تھا جس نے کسی قضیہ میں جس کا مفسرین و محدثین اہل اخبار نے بھی ذکر کیا ہے تلوار کھیچ لی تھی اور چاہتا تھا کہ رسول(ص) کو قتل کر ڈالے ، مگر خدا نے آپ کی حفاظت کی۔ ابن ہشام نے اپنی سیرة کی جلد3 میں اسے غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر لکھا ہے۔ تو خداوند عالم نے اس

۲۴۳

ایک اکیلے شخص کے لیے جو مفرد ہے لفظ قوم استعمال کیا جو جماعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس مقصود رسول(ص) کی سلامتی میں جو نعمت الہی تھی اس کی عظمت و جلالت جتانا تھا۔

اس طرح یہ آیہ مباہلہ میں خداوند عالم نے لفظ ابناء ، نساء اور انفس کے الفاظ جو حقیقتا عموم کے لیے ہیں حسنین(ع) و فاطمہ(س) و حضرت علی علیہم السلام کےلیے خاص کر استعمال کیے ہیں۔ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ الفاظ صرف انہی حضرات کے لیے استعمال ہوئے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کی عظمت شان و جلالتِ قدر کا اظہار مقصود تھا اور بھی بہت سے نظائر ہیں بے شمار و بے حساب۔ یہ چند مثالیں بطور دلیل نقل کر دی گئیں کہ جمع کا لفظ مفرد پر بھی بول سکتے ہیں، جبکہ کوئی خاص غرض کوئی مخصوص نکتہ پیش نظرہو۔

علامہ زمخشری کا نکتہ

علامہ طبری تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کی تفسیر لکھتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ اس آیت میں امیرالمومنین(ع) کے لیے جمع کا لفظ استعمال کرنے میں قدرت کو نکتہ یہ ملحوظ تھا کہ آپ کی بزرگی ظاہر کرے۔ عظمت و جلالت بیان کرے۔ اہل لغت بطور تعظیم جمع بول کر واحد مراد لیا کرتے ہیں اور یہ ان کی بہت مشہور عادت ہے۔ اس پر کسی دلیل کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔

علامہ ذمخشری نے تفسیر کشاف میں ایک دوسرا نکتہ ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں :

۲۴۴

“ اگر تم یہ کہو اس آیت کا حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہونا کیسے صحیح ہے حالانکہ لفظ جمع استعمال ہوا ہے تو میں کہوں گا کہ گو یہ آیت شخص واحد ہی کے متعلق ہے مگر لفظ جمع اس لیے لایا گیا ہے تاکہ دوسروں کو بھی ان کے جیسا کرنے کی رغبت پیدا ہو۔ وہ بھی ایسی جزا پائیں جیسی علی(ع) کو ملی۔

ایک تو وجہ یہ تھی ، دوسری وجہ یہ تھی کہ خداوند عالم متنبہ کرنا چاہتا تھا کہ دیکھو مومنین کی خصلت ایسی ہونی چاہیے نیکی و احسان کرنے اور نادار و صاحبان احتیاج کی تلاش و جستجو میں اس درجہ آرزو مند ہونا چاہیے کہ اگر وہ نماز کی حالت میں بھی ہوں تو اسے نماز سے فراغت پر نہ اٹھا سکیں ۔ بلکہ نماز ہی کی حالت میں بجالائیں۔”

ایک اور لطیف نکتہ

میرے ذہن میں ایک بہت ہی لطیف و باریک نکتہ آیا وہ یہ کہ خداوند عالم نے مفرد لفظ چھوڑ کر جمع کا لفظ جو استعمال فرمایا تو اکثر لوگوں پر اس کا بڑا فضل و کرم ہوا بڑی عنایت ہوئی خداوند عالم کی کیونکہ دشمنان علی(ع) اور اعداء بنی ہاشم اور تمام منافقین اور حسد وکینہ رکھنے والے اس آیت کو بصیغہ مفرد سننا برداشت کیسے  کرتے وہ تو اس طمع میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے کہ ممکن ہے کہ کسی دن ںصیبا یاوری کرے اور رسول کی آنکھ بند ہونے کے بعد ہم حاکم بن جائیں ۔ جب ان کو یہ پتہ چل جاتا کہ خداوند عالم نےحکومت بس تین ہی ذاتوں میں منحصر کردی، خدا و رسول(ص) اور علی(ع) ہی بس

۲۴۵

 حاکم ہیں۔ تو وہ مایوس ہو کر نہ معلوم کیا کیا آفتیں برپا کرتے اور اسلام کو کن کن خطرات کا سامنا کرنا پڑتا۔ ان کے فتنہ و فساد ہی کے خوف سے آیت میں باوجود علی(ع) کے شخص واحد ہونے کے جمع کا لفظ استعمال کیا گیا ۔ پھر بعد میں رفتہ رفتہ مختلف پیرایہ  میں متعدد مقامات پر تصریح  ہوتی رہی اور ولایت امیرالمومنین(ع) بہت سے دلوں پر شاق تھی اس لیے فورا ہی کھلم کھلا اعلان نہیں کردیا گیا۔

اگر اس آیت میں مخصوص عبارت لا کر مفرد کا استعمال کر کے آپ کی ولایت کا اعلان کردیا جاتا تو لوگ کا نوں میں انگلیاں دے لیتے او سرکشی پر اڑ جاتے۔ یہی انداز حکیمانہ قرآن مجید کی ان تمام آیات میں جاری و ساری ہے جو اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئیں۔ ہم نے اپنی کتاب سبیل المومنین میں اس کی با قاعدہ توضیح کی ہے۔ محکم ادلہ و براہین ذکر کیے ہیں۔

                                                                             ش

۲۴۶

مکتوب نمبر22

یہاں آیت دلالت کرتی ہے کہ ولی سے دوست یا اسی جیسے معنی مراد ہیں

خدا آپ  کا بھلا کرے ۔ آپ نے میرے شکوک دور کردیے۔ شبہات کے بادل چھٹ گئے۔ حقیقت نکھر گئی۔ البتہ ایک کھٹک رہی جاتی  ہے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیت اس موقع کی ہے جہاں خداوند عالم نے کافرین کو دوست بنانے سے منع کیا ہے۔ جیسا کہ قبل و بعد کی آیات سے پتہ چلتا ہے ۔ لہذا سلسلہ آیت قرینہ ہے کہ اس جگہ ولی سے مراد دوست یا محب یا مددگار کے ہیں ۔ اس کا آپ کیا جواب دیں گے؟

                                                                             س

۲۴۷

جوابِ مکتوب

سیاق آیت سے اس قسم کی معنی نہیں نکلتے

اس کا جواب یہ ہے کہ مطالعہ سے آسانی سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ آیت اپنے ماقبل کی ان آیتوں سے جن میں کفار کو دوست بنانے سے نہی کی  گئی ہے کوئی تعلق نہیں رکھتی اس سلسلہ سے اسے کوئی واسطہ نہیں بلکہ یہ امیرالمومنین(ع) کی مدح و ثنا میں نازل ہوئی ہے کیونکہ اس میں مرتدین کو آپ کی شجاعت سے خوف دلایا گیا ہے۔ آپ کے سطوت و غلبہ کی دھمکی دی گئی ہے اور من جملہ ان آیات کے ہے جن میں امیرالمومنین(ع) کے سزاوارِ امامت و خلافت ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہےاس لیے کہ اس آیت کے پہلے بالکل ہی متصل جو آیت ہے یعنی :

 “يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكافِرينَ يُجاهِدُونَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ وَ لا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتيهِ مَنْ يَشاءُ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ ” (مائده، 54)

“ اے ایمان والو جو شخص تم میں سے اپنے دین سے پھرا ( وہ یاد رکھے) کی جلد ہی خدا ایک ایسی قوم کو لائے گا جسے خدا بھی محبوب رکھتا ہے اور وہ لوگ بھی خدا کو محبوب رکھتے ہیں

۲۴۸

 مومنین کے آگے منکسر مزاج و خکسار ہیں ۔ کافروں کے مقابلہ میں قوت و طاقت والے ہیں۔ خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتے یہ خدا کا فضل و کرم ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے توازتا ہے اور خدا بہت و سیع علم رکھنے والا ہے۔”

یہ آیت خاص کر امیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل ہوئی جس میں آپ اور آپ کے اصحاب کی ہیبت و شجاعت سے خوف دلایا گیا ہے جیسا کہ خود امیرالمومنین(ع) نے جنگ جمل میں اس کی صراحت کی ہے نیز امام محمد باقر(ع) و جعفر صادق(ع)  نے بھی تصریح فرمائی ہے ۔ ثعلبی نے بھی اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے اور صاحب مجمع البیان نے جناب عمار، حذیفہ، ابن عباس ان تمام بزرگوں سے مروی روایات ذکر کی ہیں۔

مختصر یہ کہ ہم شیعوں کے یہاں اس آیت کا امیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل ہونا اجماعی مسئلہ ہے اور ائمہ طاہرین(ع) سے بکثرت صحیح اور حدِتواتر تک پہنچی ہوئی روایات بھی مروی ہیں لہذا اس بنا پر یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ پہلی آیت سے خداوند عالم نے پہلے ولایت امیرالمومنین(ع) کا اشارة ذکر فرمایا ۔ آپ کی امامت کا مجمل لفظوں میں ذکر کیا اور اس کے بعد آیت انما نازل فرما کر سابقہ اجمال کی تفصیل فرمادی۔ اس اشارہ کو واضح کردیا۔ لہذا یہ کہنا کیونکر صحیح ہے کہ یہ آیت انما ان آیتوں کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے جن میں کفار کو دوست بنانے کی نہی کی گئی ہے۔

۲۴۹

سیاقِ آیت ادلہ کے قابلہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا

علاوہ اس کے سروکائنات(ص) نے اپنے اہل بیت(ع) کو بمنزلہ قرآن قرار دیا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ :

“ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے”

لہذا  اہل بیت(ع) ہم پلہ کتاب الہی ہیں اور انھیں سےحقیقت  و واقعیت کا پتہ چل سکتا ہے ۔ کلام مجید اور اس کی آیتوں کے متعلق ان کے اقوال جتنے معتبر ہوں گے کسی اور کے نہیں۔ حضرات اہل بیت(ع) نے برابر اسی آیت سے اپنی حقیقت پر استدلال کیا۔ اسی کو بطور حجت پیش کیا۔ انھوں نے ولی کو وہی تفسیر فرمائی ہے جو ہم نے بیان کیا لہذا ان حضرات کے اقوال کے سامنے سیاق کو کوئی وزن نہیں دیا جاسکتا۔ اور اگر سیاق کلام کو ہم تسلیم بھی کرلیں کہ وہ ان کی نصوص و تصریحات کے معارض ہے تو ایک تو نص کے مقابلہ میں ظاہر کا وزن ہی کیا دوسرے یہ کہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ سیاق کے مقابلہ میں ادلہ کو ترجیح حاصل ہے۔ دلیلوں کے مقابلے میں سیاق کو کوئی حقیقت نہیں اسی وجہ سے اگر کسی موقع پر سیاق اور دلیل کے درمیان تعارض پیدا ہوجاتا ہے تو سیاق کے مدلول پر عمل نہیں کیا جاتا بلکہ اسے چھوڑ کر دلیل کے حکم کی پابندی کی جاتی ہے اور اس کا راز یہ ہے کہ جس موقع پر سیاق آیت اور دلیل میں تعارض پیدا ہوتا ہے تو اس آیت کی اسی سیاق اور اسی سلسلہ کلام میں نازل ہونے کا وثوق نہیں ہوتا ۔ یقینی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ آیت اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ کیونکہ اس سے کسی کو بھی انکار

۲۵۰

نہیں ہے کہ کلام مجید جمع کرتے وقت آیتوں کی وہی ترتیب نہیں رکھی گئی جس ترتیب سے وہ نازل ہوئیں۔ کلام مجید کا مطالعہ کیجیے۔ آپ کو بہت سی آیتیں ملیں گی جو نظم آیات سے کوئی رابطہ نہیں رکھتیں۔ ان آیات میں سے کچھ بیان کیا گیا ہے اور اس کی ماقبل کی آیات کا سلسلہ بیان کچھ اور ہے جیسے آیہ تطہیر ہی کو لیجیے جس کا پنجتن پاک کی شان میں نازل ہونا ثابت و مسلم ہے ، مخصوص ہے بس انھیں خمسہ نجباء سے لیکن ذیل میں واقع ہوئی ہے تذکرہ ازواج پیغمبر(ص) کے۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس آیہ انما سے ایسے معنی کا مراد و مقصود ہونا جو مفہوم سیاق کے مغائر ہے اس سے نہ تو کلام مجید کی شان اعجاز پر کوئی حرف آتا ہے اور نہ اس کی بلاغت میں کوئی کمی پیدا ہوتی ہے چونکہ قطعی دلیلیں موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہ انما ولیکم اﷲ سے مراد اولیٰ بالتصرف ہی ہے نہ کہ غیر ۔ لہذا کوئی چارہ کار ہی نہیں سوائے اس کے کہ اس آیت کو سیاق کے مخالف مفہوم پر حمل کیا جائے اور ولی سے مراد اولی بالتصرف لیا جائے نہ کہ دوست یا محب۔

                                                             ش

۲۵۱

مکتوب نمبر23

مراد آیت میں تاویل ضروری ہے تاکہ سلف پر آنچ نہ آئے

اگر درمیان میں خلفائے راشدین کی خلافت نہ ہوتی جس کے صحیح ہونے پر ہم لوگ ایمان لائے بیٹھے ہیں تو ہماری بھی وہی رائے ہوتی جو  آپ کی رائے ہے اور آیت کے معنی وہی سمجھتے جو آپ سمجھتے ہیں۔ لیکن ان ہر بزرگواروں کی خلافت میں شک و شبہ کرنے کی گنجائش ہی نہیں لہذا بچنے کی صرف یہی صورت ہے کہ اس آیت کی ہم تاویل کردیں۔ تاکہ ہم ان خلفاء کو بھی صحیح و درست سمجھیں اور ان لوگوں کو بھی جنھوں نے بیعت کر کے ان کو خلیفہ تسلیم کیا۔

                                                                             س

۲۵۲

جوابِ مکتوب

سلف کا احترام مستلزم نہیں کہ آیت کے معنی میں تاویل کی جائے ۔ تاویل ہو بھی کیا جاسکتی ہے

خلافت خلفائے راشدین ہی کے متعلق تو بحث ہے۔ اسی پر تو گفتگو ہورہی ہے۔ لہذا ادلہ کے مقابلہ میں ان کی خلافت کو لانا کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔

دوسرے یہ کہ ان خلفاء کو اور ان کی بیعت کرنے والوں کو صحت و درستی پر سمجھنے کے لیے یہ کب ضروری ہے کہ آپ ادلہ میں تاویل کرنے لگیں آپ ان کو معذور سمجھ سکتے ہیں۔ اگر ضرورت ہوئی تو ہم آئندہ اس پر روشنی ڈالیں گے۔

ہم نے جن نصوص کا ذکر کیا ہے یا دیگر نصوص جن کے ذکر کی کوئی نوبت نہیں آئی ہے جیسے نص غدیر یا نصوص وصیت۔ آپ ان کی تاویل کر بھی کیا سکتے ہیں؟ خصوصا ان نصوص کو جب بے شمار ایسی احادیث بھی موئد ہوں جو بجائے خود نصوص صریحہ سے کم وزن نہیں رکھتیں۔

نصوص صریحہ کو الگ رکھیے صرف انھیں احادیث پر اگر انصاف سے کام لیتے ہوئے غور کیجیے تو صرف انھیں احادیث ہی کو آپ قطعی دلیلیں اور بین ثبوت پائیں گے۔ جنھیں سوا تسلیم کرنے کے کوئی چارہ کار نظر نہ آئے گا آپ کو۔

                                                                     ش

۲۵۳

مکتوب نمبر 24

آپ نے جن احادیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ بھی نصوص کی موئد ہیں آپ ن ان کی تفصیل نہیں فرمائی۔ براہ کرم اس کی بھی تشریح فرمائیں۔

                                                                             س

۲۵۴

جوابِ مکتوب

ان نصوص کی موئد صرف چالیس حدیثین ہم اس مقام پر ذکر کرتے ہیں امید ہے کہ یہی آپ کے لیے کافی ہوں گی۔

1ـ  سروکائنات(ص) نے حضرت علی(ع) کی گردن پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا :

 “ هذا إِمَامُ‏ الْبَرَرَةِ وَ قَاتِلُ الْفَجَرَةِ

۲۵۵

مَنْصُورٌ مَنْ نَصَرَهُ مَخْذُولٌ مَنْ خَذَلَهُ ”

“ یہ علی(ع) نیکو کاروں کے امام اور فاجروں کو قتل کرنے والے ہیں جس نے ان کی مدد کی وہ کامیاب ہوا اور جس نے ان کی مدد سے منہ موڑا اس کی بھی مدد نہ کی جائے گی۔”

یہ کہتے کہتے آپ کی آواز بلند ہوگئی۔”

امام حاکم اس حدیث کو مستدرک(1) ج2 صفحہ 129 پر جناب جابر سے مروی احادیث کے ذیل میں درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

“ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن نخاری و مسلم نے درج نہیں کیا۔”

2ـآنحضرت(ص) نے فرمایا :

“ أُوحِيَ إِلَيَّ فی عَلِي ثلاث سَيِّدُ المسلمين وَ إِمَامُ الْمُتَّقِينَ وَ قَائِدُ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ”

“ علی(ع) کے متعلق مجھے تین باتیں بذریعہ وحی بتائی

--------------

1ـ کنزالعمال میں بھی یہ حدیث موجود ہے ملاحظہ ہو حدیث نمبر2527 صفحہ 153 جلد 6 ۔ نیز ثعلبی نے اپنی تفسیر کبیر میں بلسلہ تفسیر آیت ولایت جناب ابوذر کی حدیثوں کے سلسلہ میں اس حدیث کو لکھا ہے۔

۲۵۶

 گئی ہیں۔ علی(ع) مسلمانوں کے سردار ہیں، متقین کے امام ہیں اور روشن جبین نمازیوں کے  قائد ہیں۔”

اس حدیث کو امام حاکم مستدرک ج 3 صفحہ 138 پر درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

“ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری و مسلم نے ذکر نہیں کیا(1) ۔”

3ـ علی(ع) کے متعلق مجھے بذریعہ وحی بتایا گیا کہ وہ مسلمانوں کے سردار ، متقین کے ولی اور روشن پیشانی والوں کے قائد ہیں۔”(2)

اس حدیث کو ابن نجار اور بہت سے ارباب سنن نے ذکر کیا ہے۔

4ـ آںحضرت(ص) نے علی(ع) سے فرمایا :

 “ مَرْحَباً بِسَيِّدِ الْمُسْلِمِينَ‏ وَ إِمَامِ الْمُتَّقِينَ ”

اس حدیث کو حلیتہ الاولیاء میں ابن نعیم نے درج کیا ہے۔(3)

--------------

1ـبارودی ، ابن قانع ، ابونعیم نے اس حدیث کو درج کیا ہے۔ کنزالعمال جلد6 صفحہ 151 پر بھی موجود ہے۔ حدیث 2628 ملاحظہ ہو۔

2ـکنزالعمال جلد6 صفحہ157 حدیث 263۔

3ـ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ ج 2 صفحہ 450 پر اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔ کنز العمال میں بھی یہ حدیث موجود ہے ملاحظہ ہو حدیث 2627 کنزالعمال جلد6 صفحہ 157۔

۲۵۷

“ اول من يدخل من هذا الباب  إمام المتّقين، وسيد المسلمين، و يعسوب الدين و خاتم الوصيين وقائد الغُرّ المحجَّلين ”

“ پہلا وہ شخص جو اس دروازے سے داخل ہوگا وہ متقین کا امام ۔ مسلمین کا سردار، اور دین کا امیراور وصییوں کا خاتم اور رشن پیشانی والوں کا قائد ہے۔”

سب سے پہلے حضرت علی(ع) آئے رسول(ص) نے دیکھا ۔ تو آپ کا چہرہ کھل گیا۔ دوڑ کر علی(ع) کو گلے سے لگا لیا اور آپ کی پیشانی کا پسینہ پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے :

“ تم میری طرف سے حقوق ادا کرو گے، تم میرا پیام لوگوں تک پہنچاؤ گے اور میرے بعد جب اختلافات پیدا ہوں گے تو تم ہی راہ حق واضح کرو گے۔”(1)

 “إن اللّه عهد إلى في علي أنّه راية الهدى‏ و إمام أوليائي و نور من أطاعني و هو الكلمة التي ألزمتها المتقين”

--------------

1ـ حلیتہ الاولیاء ابونعیم اصفہانی و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد2 صفحہ 450

۲۵۸

“ علی(ع) کے متعلق مجھے خداوند عالم نے جتادیا ہے کہ وہ علم ہدایت ہیں، میرے دوستوں کے امام ہیں اور میری اطاعت کرنے والوں کے لیے نور ہیں علی(ع) ہی وہ کلمہ ہیں جسے میں نے متقین کے لیے لازم کر دیا ہے۔”(1)

آپ دیکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا حدیثوں حضرت علی(ع) کی امامت کے متعلق کتنی صاف اور صریحی نصوص ہیں آپ کی اطاعت و فرمانبرداری واجب و لازم ہونے کے روشن ثبوت ہیں۔

7ـ“إِنَّ هَذَا أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِي وَ هَذَا أَوَّلُ مَنْ يُصَافِحُنِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ هَذَا الصَّدِّيُقِ الْأَكْبَرُ، وَ هَذَا فَارُوقُ هَذِهِ الْأُمَّةِ يُفَرِّقُ بَيْنَ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ وَ هَذَا يَعْسُوبُ‏ الْمُؤْمِنِين

“یہ علی(ع) پہلے وہ شخص ہیں جو مجھ پر ایمان لائے ۔ قیامت کے دن سب سے پہلے یہی مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ یہی صدیق اکبر ہیں، یہی اس امت کے فاروق ہیں جو حق کو باطل سے جدا کریں گے۔ یہی مومنین کے سردار ہیں۔”(2)

--------------

1ـ حلیتہ الاولیاء ابونعیم اصفہانی و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد2 صفحہ 449۔

2ـ معجم کبیر طبرانی سنن بیہقی کامل، ابن عدی و کنز العمال جلد6 صفحہ 156 حدیث2608۔

۲۵۹

8ـ “يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَ لَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَداً قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ هَذَا عَلِيٌ‏ فَأَحِبُّوهُ‏ بِحُبِّي وَ أَكْرِمُوهُ بِكَرَامَتِي فَإِنَّ جَبْرَئِيلَ ع أَمَرَنِي بِالَّذِي قُلْتُ لَكُمْ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَ عَلَا.”

“ اے گروہ اںصار میں تمھیں ایسی چیز نہ بتادوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو۔ دیکھو یہی علی(ع) وہ ہیں تم مجھے جس طرح محبوب رکھتے ہو انھیں بھی محبوب رکھنا، میری جیسی عزت کرتے ہو ان کی بھی عزت کرنا یہ بات میں اپنے دل سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ امین وحی جبرئیل(ع) خدا کی طرف سے یہ حکم لے کر ؤئے ہیں۔”(1)

--------------

1ـ معجم کبیر طبرانی ، کنزالعمال جلد6 صفحہ 157 حدیث 2625 علامہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ 450 پر درج کیا ہےملاحظہ فرمائیے کہ پیغمبر(ص) نے ان کے گمراہ ہونے کو شرط کیا ہے علی(ع) کے تمسک سے ۔ جب تک علی (ع) کا دامن پکڑے رہیں گے تب تک گمراہ نہ ہوں گے۔ اس کا صریحی مطلب یہ ہوا کہ جس نے علی(ع) سے تمسک نہ کیا وہ ضرور گمراہ ہوگا۔ نیز یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ پیغمبر(ص) حکم دیتے ہیں کہ علی(ع) کے ساتھ بعینہ ویسی محبت کرو جیسی خود میرے ساتھ کرتے ہو اور ویسی ہی عزت کرو  جیسی میری عزت کرتے ہو۔ یہ بات اس شخص کے لیے ہوسکتی ہے جو آپ(ص) کا ولیعہد ہو اور آپ کے بعد مالک و مختار اور فرمانبروا ہو ۔ جب آپ آںحضرت(ص) کے اس جملہ پر کہ “ میں نے جو کچھ کہا ہے اس کا حکم جبرئیل خدا کے یہاں سے لے کر آئے تھے۔” خود غور فرمائیں گے تو حقیقت اچھی طرح منکشف ہوجائے گی۔

۲۶۰