دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 262530
ڈاؤنلوڈ: 6008

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 262530 / ڈاؤنلوڈ: 6008
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 وہ فائز نہیں یعنی خدا کا بیٹا کہہ دیا۔”(1)

36ـ“‏ السُّبَّقُ‏ ثَلَاثَةٌ فَالسَّابِقُ إِلَى مُوسَى يُوشَعُ بْنُ نُونٍ وَ السَّابِقُ إِلَى عِيسَى صَاحِبُ يَاسِينَ وَ السَّابِقُ إِلَى مُحَمَّدٍ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع.

“ سابقین تین ہیں : ایک تو وہ جس نے موسی(ع) کی طرف سبقت کی، یعنی یوشع بن نون۔ جو سب سے پہلے موسی(ع) پر ایمان لائے۔ دوسرے وہ جس نے عیسی(ع) کی طرف سبقت کی یعنی صاحب یاسین، تیسرے میری طرف سبقت کرنے والا اور وہ علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔”(2)

37ـ“‏ الصِّدِّيقُونَ‏ ثَلَاثَةٌ حَبِيبٌ النَّجَّارُ مُؤْمِنُ آلِ يس الَّذِي‏ قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ‏ وَ حِزْقِيلُ مُؤْمِنُ آلِ فِرْعَوْنَ الَّذِي قَالَ‏ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ‏ وَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ [ع‏] الثَّالِثُ وَ هُوَ أَفْضَلُهُمْ.

“ صدیق تین ہیں: حبیب نجار، مومن آل یاسین،

--------------

1ـ مستدرک ج3 ، صفحہ122۔

2ـ طبرانی و ابن مردویہ نے ابن عباس سے اس حدیث کی روایت کی ہے کہ اور دیلمی نے جناب عائشہ سے ۔ یہ حدیث بہت مشہور حدیثون میں سے ہے۔

۲۸۱

 جنھوں نے کہا تھا کہ اے قوم والمرسلین کی اطاعت کرو، دوسرے حزقیل، مومن آل فرعون، جنھوں نے کہا تھا کہ کیا تم کسی شخص کو صرف یہ کہنے پر قتل کر ڈالوگے کہ میرا پروردگار اﷲ ہے اور تیسرے علی ابن ابی طالب(ع) ، اور وہ تینوں میں افضل ہیں۔”(1)

38ـ “إن الامّة ستغدر بك بعدي، و أنت تعيش على ملّتي، و تقتل‏ على‏ سنّتي‏. من أحبّك أحبني و من أبغضك أبغضني، و أن هذه ستخضب من هذا- يعني لحيته من رأسه-.

“ میری امت میرے بعد تم سے بے وفائی کرے گی تم میرے ہی دین پر زندہ رہوگے اور میری ہی سنت پر رہتے ہوئے قتل کیے  جاؤ گے۔ جس نے تمھیں محبوب رکھا اس نے مجھے محبوب رکھا اور جس نے تم سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور (تمھاری یہ ڈاڑھی) تمھارے اس سر

--------------

1ـ ابو نعیم و ابن عساکر نے وبو یعلی سے مرفوعا اس حدیث کی روایت کی ہے اور ابن نجار نے ابن عباس سے مرفوعا اس کی روایت کی ہے ملاحظہ ہو  حدیث نمبر30، 31، باب 9 فصل 2 صواعق محرقہ صفحہ74، 75،

۲۸۲

 کے خون سے رنگین ہوگی۔”(1)

اور امیرالمومنین(ع) سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ :

“ رسول(ص) نے مجھے آگاہی دی تھی کہ امتِ اسلام رسول(ص) کے بعد مجھ سے بے وفائی کرے گی۔”(2)

ابن عباس سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ :

“ رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے ارشاد فرمایا : کہ میرے بعد تمھیں بہت مشقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حضرت علی(ع) نے پوچھا : کہ میرا دین محفوظ رہے گا آپ(ص) نے فرمایا کہ ہاں تمھارا دین محفوظ رہے گا۔”

39ـ “إِنَ‏ مِنْكُمْ‏ مَنْ‏ يُقَاتِلُ‏ عَلَى تَأْوِيلِ الْقُرْآنِ كَمَا قَاتَلْتُ عَلَى تَنْزِيلِهِ فَاسْتَشْرَفَ لَهَا الْقَوْمُ فیهم ابو بکر و عمر ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا هُوَ قَالَ لَا قَالَ عُمَرُ أَنَا هُوَ قَالَ لَا وَ لَكِنْ هُوَ خَاصِفُ

--------------

1ـ مستدرک جلد3 صفحہ147 علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے۔

2_ـ یہ حدیث اور اس کے بعد والی حدیث ابن عباس ان دونوں حدیثوں کو امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ140 پر درج کیا ہے۔ نیز ان دونوں کو علامہ ذہبی نے بھی  تلخیص مستدرک میں بیان کیا ہے اور تصریح کی ہے کہ دونوں حدیثیں بخاری و مسلم کے معیار پر صحیح ہیں۔

۲۸۳

النَّعْلِ يَعْنِي عَلِيّاً

“ تم میں ایک شخص وہ بھی ہے جو قرآن کی تاویل کے متعلق اسی طرح قتال کرے گا جس طرح میں نے اس کی تنزیل کے متعلق قتال کیا ہے لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے۔ ان میں ابوبکر و عمر بھی تھے۔ ابوبکر نے پوچھا وہ شخص میں ہوں یا رسول اﷲ(ص)؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ عمر نے پوچھا : میں ہوں یا رسول اﷲ(ص) ؟ آپ نے فرمایا : نہیں لیکن “ وہ جوتیوں کا ٹانکنے والا۔” یعنی حضرت علی(ع)۔ جو اس وقت آپ کی نعلین مبارک درست رکرہے تھے۔”

ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) کی زبان سے یہ الفاظ سن کر ہم حضرت علی(ع) کے پاس آئے اور یہ خوشخبری سنائی تو حضرت علی(ع) اپنے کام میں اسی طرح مشغول رہے، گردن بھی نہ اٹھائی۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ پیغمبر(ص) سے پہلے ہی سن چکے تھے۔”(1)

--------------

1ـ امام حاکم نے اس حدیث پر مستدرک ج3 صفحہ 122 پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث بشرائط شیخین صحیح ہے مگر ان دونوں نے اس کا ذکر نہیں کیا علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک  میں اس حدیث کو لکھا ہے اور اعتراف کیا ہے کہ یہ حدیث بشرائط شیخین صحیح ہے، امام احمد نے مسند جلد3 صفحہ 82، 32 پر ابوسعید کی حدیث سے درج کیا ہے۔ بیہقی نے شعب الایمان میں، سعید بن منصور انے اپنی سنن میں ابونعیم نے اپنے حلیتہ میں ابویعلیٰ نے اپنے سنن درج کیا ہے۔ کنزالعمال جلد6 صفحہ155 پر بھی یہ حدیث موجود ہے۔ ملاحظہ ہو حدیث نمبر2585۔

۲۸۴

اسی جیسی ایک حدیث ابو ایوب  انصاری کی بھی ہے۔ خلافت عمر کے باب میں جس میں وہ فرماتے ہیں(1) کہ :

“ رسول اﷲ(ص) نے حضرت علی(ع) کو بیعت توڑنے والوں ، جادہ اعتدال سے باہر نکل جانے والوں اور دین سے خارج ہونے والوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے۔”

ایک حدیث جناب عمار سے منقول ہے جس میں یہ جملہ ہے :

“يا على‏ ستقاتلك‏ الفئة الباغية و انت على الحقّ فمن لم ينصرك يومئذ فليس منّي”

 “ رسول(ص) نے فرمایا: کہ اے علی(ع) عنقریب تم باغی گروہ سے جنگ کروگے اور تم حق پر ہوگے اس دن  جو بھی تمھاری مدد نہ کرے گا وہ مجھ سے نہ ہوگا۔”

جناب ابوذر کے حدیث ہے جس میں یہ جملہ ہے :

“وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ فِيكُمْ رَجُلًا

--------------

1ـ امام حاکم نے اس حدیث کو دو طریقوں سے لکھا ہے ، مستدرک جلد3 صفحہ 139 و 141۔

۲۸۵

 يُقَاتِلُ‏ النَّاسَ‏  مِن بعدِی عَلَى تَأْوِيلِ الْقُرْآنِ كَمَا قَاتَلْتُ الْمُشْرِكِينَ عَلَى تَنْزِيلِهِ”

“ آںحضرت(ص)(1) نے فرمایا: قسم اس ذات اقدس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں ایک ایسا شخص بھی ہے جومیرے بعد لوگوں سے تاویل قرآن میں قتال کرے گا جیسا کہ میں نے مشرکین سے اس کی تنزیل پر قتال کیا ہے۔”

اور محمد بن عبداﷲ بن ابی رافع نے اپنے دادا سے روایت کی ہے۔ ابو رافع کہتے ہیں کہ : آںحضرت(ص) نے فرمایا :

يَا أَبَا رَافِعٍ سَيَكُونُ بَعْدِي قَوْمٌ يُقَاتِلُونَ‏ عَلِيّاً حَقٌّ عَلَى اللَّهِ جِهَادُهُمْ فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ جِهَادَهُمْ بِيَدِهِ فَبِلِسَانِهِ، فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِلِسَانِهِ فَبِقَلْبِهِ”

“ اے ابا رافع! میرے بعد ایک جماعت ایسی بھی ہوگی جو علی(ع) سے جنگ کریگی۔ جو ان لوگوں سے جہاد کرے اس کا خدا پر حق ہے جو شخص ہاتھ سے جہاد نہ کرسکے وہ زبان سے کرے

--------------

1ـ دیلمی نے اس کی روایت کی ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد6 صفحہ155 پر ہے۔

۲۸۶

اور جو زبان سے نہ کرسکے وہ دل سے کرے۔”(1)

اخضر انصاری کی حدیث ہے جس میں رسول(ص) نے فرمایا :

“ انا اقاتل علی تنزيل القرآن، و علی يقاتل علی تاويله”

“ میں تنزیل قرآن کے متعلق قتال کرتا ہوں اور علی تاویل قرآن کے متعلق قتال کریں گے۔”(2)

40ـ “يَا عَلِيُ‏ أَخْصِمُكَ‏ بِالنُّبُوَّةِ وَ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي وَ تَخْصِمُ النَّاسَ بِسَبْعٍ أَنْتَ أَوَّلُهُمْ إِيمَاناً بِاللَّهِ وَ أَوْفَاهُمْ بِعَهْدِ اللَّهِ وَ أَقْوَمُهُمْ بِأَمْرِ اللَّهِ وَ أَقْسَمُهُمْ بِالسَّوِيَّةِ وَ أَعْدَلُهُمْ فِي الرَّعِيَّةِ وَ أَبْصَرُهُمْ فِي الْقَضِيَّةِ وَ أَعْظَمُهُمْ

--------------

1ـ طبرانی نے کبیر میں اس کی روایت کی ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد6 صفحہ155 پر مذکور ہے۔

2ـ یہ ابن ابی الاخضر ہیں ابن سکن نے ان کا ذکر کیا ہے اور ان سے اس حدیث کی بطریق حارث بن حصیرہ عن جابر الجعفی عن الامام الباقر عن ابیہ الامام زین العابدین عن الاخضر عن النبی(ص) روایت کی ہے ابن سکن کہتے ہیں کہ اخضر صحابہ میں مشہور نہیں اور ان کی حدیث کے اسناد میں تاویل و نظر ہے۔ یہ تمام باتیں عسقلانی نے حالاتِ اخضر میں اصابہ کے اندرلکھی ہیں اور دار قطنی نے افراد میں اس حدیث کو لکھا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کے تنہا راوی جابر جعفی ہیں اور دار قطنی ہیں۔

۲۸۷

عِنْدَ اللَّهِ مَزِيَّةً.”

“ اے علی(ع) ! میں تم سے بہ سبب نبوت بڑھ گیا۔ میرے بعد باب نبوت بند ہے اور تم لوگوں سے سات چیزوں میں فوقیت رکھتے ہو، تم سب سے پہلے خدا پر ایمان لانے والے ہو، سب سے زیادہ خدا سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرنے والے ہو، اور رعیت میں سب سے زیادہ انصاف برتنے والے ہو اور
قضیوں میں تم ہی سب سے زیادہ بالغ نظر ہو، بلحاظ فضل و شرف خدا نزدیک تم ہی سب سے عظیم تر ہو۔”(1)

اور ابو سعید خدری سے مروی ہے۔ ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ : آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا :

يا عليّ‏ لك‏ سبع‏ خصال‏ لا يحاجّك فيهنّ أحد يوم القيامة: أنت أوّل المؤمنين باللّه إيمانا، و أوفاهم بعهد اللّه، و أقومهم بأمر اللّه، و أرأفهم بالرعيّة، و أعلمهم بالقضية، و أعظمهم مزية.

--------------

1ـ ابو نعیم نے معاذ کی حدیث سے اس کی روایت کی ہے اور اس کے بعد والی حدیث یعنی حدیث ابو سعید کو حلیہ میں درج کیا ہے اور یہ دونوں حدیثیں کنزالعمال جلد6 صفحہ156 پر موجود ہیں۔

۲۸۸

“ اے علی(ع) ! تمھیں سات ایسی خصوصیات حاصل ہیں کہ کوئی شخص بھی ان میں سے کسی چیز میں تمھارے مقابلہ پر آمادہ نہ ہوگا۔ تم سب سے پہلے خدا پر ایمان لانے والے ہو، سب سے زیادہ خدا کے وعدے کو پورا کرنے والے ہو، سب سے زیادہ امور خداوندی کو درست کرنے والے ہو رعیت پر سب سے زیادہ مہربان ، مقدمات میں سب سے زیادہ علم کے حامل اور  خدا کے نزدیک بلحاظ فضل و شرف سب سے عظیم ہو۔”

کہاں تک لکھا جائے یہ چالیس حدیثیں درج کی گئی ہیں ۔ ان جیسی بے حد و حساب حدیثیں سنن و صحاح میں موجود ہیں۔ سب کے سب اجتماعی طور پر ایک ہی مطلب پر دلالت کرتی ہیں، ان سب کا ماحصل بس ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین(ع) بعد رسول(ص) اس امت میں ثانی رسول(ص) تھے۔ اس امت پر بعد رسول(ص) انھیں وہی حکومت و اقتدار حاصل ہے جو خود رسول(ص) کو اپنی زندگی میں حاصل تھا۔ یہ وہ حدیثیں ہیں جو معنا متواتر ہیں، ایک ہی مقصود ہے سب کا اگرچہ لفظا متواتر نہیں۔ الفاظ بدلے ہوئے ہیں یہی آپ کے لیے مکمل حجت ہوں گی۔

                                                                     ش  

۲۸۹

مکتوب نمبر25

امیرالمومنین(ع) کے فضائل کا اعتراف

احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ حضرت علی(ع) کی شان میں جتنی آیتیں اور حدیثیں وارد ہوئی ہیں اتنی کسی اور صحابی پیغمبر(ص) کے متعلق نہیں(1) ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ کتاب الہی کی آیات جتنی حضرت علی(ع) کے متعلق نازل ہوئیں اتنی کسی اور کے متعلق نہیں(2) ۔ پھر دوسری مرتبہ فرمایا(3) : حضرت علی(ع) کی شان میں تین سو آیتیں نازل

--------------

1ـ مستدرک صفحہ107

2ـ ابن عساکر اور دیگر ارباب سنن نے اس کی روایت کی ہے۔

3ـ ابن عساکر نے اس کی روایت کی ہے۔

۲۹۰

ہوئیں۔ تیسری مرتبہ فرمایا(1) :

جس جس مقام پر خداوند عالم نے یا ایہاالذین آمنوا فرمایا وہاں راس و رئیس حضرت علی(ع) ہی ہیں۔ خدا وند عالم نے اکثر و بیشتر مقامات پر اصحاب پیغمبر(ص) پر عتاب فرمایا مگر حضرت علی(ع) کا ذکر ہمیشہ اچھائی سے کیا۔

عبداﷲ بن عیاش بن ابی ربیعہ کہتے ہیں کہ حضرت علی(ع) کو علم میں پوری پوری گہرائی حاصل تھی۔ آپ سب سے پہلے اسلام لائے۔ اور رسول اﷲ(ص) کی دامادی کا شرف آپ ہی کو حاصل ہوا۔ احادیث سمجھنے کی مکمل صلاحیت آپ ہی میں تھی۔ میدان جنگ میں بہادری و شجاعت حاصل تھی۔ بذل و عطا(2)   میں نظیر نہیں رکھتے تھے۔

امام احمد بن حنبل سے علی(ع) و معاویہ(3) کے متعلق پوچھا گیا تو جواب دیا :

“ کہ علی(ع) کے بہت دشمن تھے۔ ان دشمنوں نے بڑی کوشش کی کہ علی(ع) میں کوئی عیب نکل آئے۔ لیکن ڈھونڈسے بھی کوئی عیب نہ ملا تو مجبورا وہ ایک ایسے شخص کی طرف مائل ہوئے جس نے علی(ع) سے جنگ و جدال کیا تھا۔ انھوں نے علی(ع) کی شان گھٹانے اور دنیا والوں کو دھوکے میں ڈالنے

--------------

1ـ طبرانی اور ابن ابی حاتم اور دیگر اصحاب سنن نے اس حدیث کو لکھا ہے۔ ابن حجر مکی نے اسے اور اس حدیث کے قبل جو تین حدیثیں ہیں ان سب کو فصل 3 باب 9 صفحہ 76 پر صواعق محرقہ میں نقل کیا ہے۔

2ـ ابن عیاش سے اہل اخبار و اصحاب سنن نے نقل کیا ہے صواعق محرقہ میں بھی موجود ہے۔

3ـ سلفی نے طیوریات میں اس کی روایت کی ہے۔ اور علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ میں نقل کیا ہے۔

۲۹۱

کے لیے یہ چال چلی کہ اس کی بے انتہا مدح سرائیاں کیں۔ اس کی مدح میں خوب خوب مبالغے کیے۔”

قاضی اسماعیل، امام نسائی اور ابو علی نیشاپوری(1) وغیرہ نے کہا ہے کہ جس قدر صحیح اور عمدہ اسناد سے حضرت علی(ع) کی شان میں حدیثیں مروی ہیں کسی صحابی کے بارے میں نہیں۔

ان سب باتوں میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ ہم بھی سب مانتے ہیں، کلام یہ ہے کہ رسول خدا(ص) نے آپ کو اپنا خلیفہ کب بنایا؟ یہ احادیث و سنن جو آپ نے ذکر فرمائے بیشک صحیح ہیں اور ہماری معتبر کتابوں میں موجود ہیں لیکن یہ آپ کی خلافت و امامت پر صریحی نصوص تو نہیں۔ یہ تو آپ کے خصائص پر مشتمل ہیں۔ آپ کے فضائل و کمالات کی جامع ہیں۔

فضائل مستلزم خلافت نہیں۔

ہم خود کہتے ہیں کہ آپ کے فضائل بے حدو حساب ہیں دفتروں میں نہیں سماسکتے۔ ہم یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ امیرالمومنین(ع) ان تمام فضائل و مناقب کے اہل تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ کے سزاوار تھے۔ یہ بھی درست ہے کہ ان احادیث و سنن میں آپ کے مستحقِ خلافت ہونے کی طرف اشارے بھی موجود ہیں لیکن مستحق خلافت ہونے سے یہ کب لازم آتا ہے کہ رسول(ص) نے آپ کو اپنا خلیفہ و جانشین بنا دیا۔

                                                                             س

--------------

1ـ جیسا کہ ان حضرات سے مشہور ہے اور علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ باب 9 فصل ثانی صفحہ 72 پر نقل کیا ہے۔

۲۹۲

جوابِ مکتوب

امیرالمومنین(ع) کے فضائل سے آپ کی  خلافت پر استدلال

آپ ایسے بافہم ، صائب نظر ، کلام کے محل و موقع سے واقف ، مطالب و معانی سے با خبر ، رسول خدا(ص) اور آپ کی حکمت بالغہ اور نبوت خاتمہ کی معرفت رکھنے والے، آںحضرت(ص) کی رفتار و گفتار کی قدر و منزلت جاننے والے جس کا ایمان ہو اس پر کہ رسول(ص) کی ہر جنبش لب و زبان ترجمان وحی ہوتی تھی ایسے شخص سے ان سنن، احادیث کے معانی و مطالب پوشیدہ تو نہیں رہنے چاہیں اور لوازم عقلی و عرفی مخفی تو نہیں ہوں گے ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ان حدیثوں کے فرمانے سے رسول(ص) کا جو مقصد تھا جس مطلوب کو پیش نظر رکھ کر آپ نے یہ ارشادات فرمائے اسے آپ سمجھ ہی نہ سکے ہوں۔

آپ جو عرب کے نزدیک مسلم الثبوت حیثیت رکھتے ہیں اس سے بے خبر تو نہ ہوں گے کہ ان سنن و احادیث سے حضرت علی(ع) کا وہ درجہ و مرتبہ ثابت ہوتا ہے جو سوا جانشین پیغمبر(ص) کسی کا ہو ہی نہیں سکتا۔ ممکن ہی نہیں کہ خدا یا اس کا رسول(ص) یہ مدارج و مراتب اپنے خلیفہ و جانشین کے علاوہ کسی اور کو بخش دیں اگر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ ان احادیث میں حضرت علی(ع) کو صاف صاف الفاظ میں خلیفہ و جانشین نہیں فرمایا گیا تب بھی ان احادیث کا نتیجہ وہی نکلتا ہے۔

۲۹۳

آںحضرت(ص) کی ذاتِ گرامی بلند و برتر ہے اس سے  کہ آپ مدارج رفیعہ بجز اپنے وصی و جانشین کے کسی اور کو مرحمت فرمائیں۔ علاوہ اس کے ک اگر آپ ان تمام احادیث کو جو خاص کر حضرت علی(ع) کی شان میں وارد ہوئیں گہری نظر سے دیکھیں تو در انصاف کی نظر سے ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ وہ سب کی سب سوا معدودے چند کے صریحی طور پر آپ کی امامت ثابت کرتی ہیں۔ یا تو صاف صاف ان میں اعلان ہے آپ کی امامت و خلافت کا جیسے وہ احادیث جو ہم گزشتہ  مکتوبات کے جواب میں عرض کرچکے ہیں۔ یا اگر صراحتا آپ کی امامت کا اعلان نہیں مگر لازمتا نتیجہ کاران احادیث کا آپ کی امامت ہی نکلتی ہے جیسے وہ حدیثیں جو مکتوب نمبر4 پر بیان ہوئیں اور جیسے رسول(ص) کی یہ حدیث :

“عَلِيٌ‏ مَعَ‏ الْقُرْآنِ‏ وَ الْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.”(1)

“ علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے۔

-------------

1ـ امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ24 پر یہ حدیث درج کی ہے اور علامہ ذہبی نے بھی تلخیض مستدرک میں اسی مذکورہ بالا صفحہ پر یہ حدیث لکھی ہے دونوں حضرات نے صحیح ہونے کی صراحت کی ہے یہ حدیث منجملہ احادیث مشہورہ ہے اور واقعہ بھی یہ ہے کہ حدیث ثقلین کو دیکھتے ہوئے علی و قرآن کے لازم و ملزوم ہونے سے کون انکار کرسکتا ہے ہم ابتداء میں صفحہ 59 تا صفحہ 66 حدیث ثقلین پر روشنی ڈال چکے ہیں۔

۲۹۴

مکتوب نمبر26

صحابہ کے فضائل کی حدیثوں سے معارضہ

اگر فضائل ہی پر امامت و خلافت کی بنا ہے تو بہت سی حدیثین خلفاء ثلاثہ نیز وہ مہاجرین و اںصار جو اول ایمان لائے تھے ان کی شان میں بھی وارد ہوئی ہیں اگر ان روایات کو مقابلہ میں پیش کیا جائے تو آپ کیا فرمائیں گے؟

                                                                     س

جوابِ مکتوب

دعوائے معارضہ کی رد

سابقین و مہاجرین و انصار کے فضل و شرف سے ہمیں انکار نہیں۔ بے شک ان کے بہت سے فضائل ہیں، بے حد و حساب ، کلام مجید

۲۹۵

 میں بہت سی آیتیں ان کی مدح میں نازل ہوئیں اور صحیح حدیثیں بھی بکثرت ہیں ہم نے ان تمام احادیث و آیات پر جو ان بزرگوں میں ملتی ہیں، اچھی طرح غور و فکر کی مگر ہمیں تو کوئی ایسی چیز بھی نہ ملی جو ان ںصوص کی معارض ہوسکتی جو حضرت علی(ع) کی شان میں موجود ہیں اور نہ ان آیات و احادیث سے مہاجرین و اںصار کی کوئی ایسی خصوصیت ثابت ہوئی جو حضرت علی(ع) کی کسی خصوصیت کے معارض ہوتی۔ مقابلہ و معارضہ کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے ۔ بحث تو امامت و خلافت کی ہے۔ حضرت علی(ع) کے متعلق بے شمار آیات و احادیث موجود ہیں جن سے آپ کا مستحق و سزاوارِ امامت ہونا مترشح ہوتا ہے اور مہاجرین و اںصار کے متعلق جو آیات و احادیث ہیں وہ ان کے فضل و شرف کو ضرور ظاہر کرتی ہیں مگر ان کے مستحق امامت و خلافت ہونے کا وہم و گمان بھی نہیں پیدا ہوتا ۔

ہمارے مخالفین صحابہ کے فضائل میں کچھ ایسی حدیثیں ضرور روایت کرتے ہیں جن کا ہمارے یہاں کوئی وجود نہیں۔ فقط تنِ تنہا ہمارے مخالفین ہی اس کے راوی ہیں تو ایسی حدیثوں کو ہمارے مقابلہ میں پیش کرنا دعوی بلا دلیل ہے۔ جس کی توقع کٹھ حجتی اور ہٹ دھرمی کرنے والے ہی سے ہوسکتی ہے۔ ایسی روایتیں جو صرف مخالف کے نزدیک معتبر ہوں ہمارے یہاں ان کا کوئی وجود نہ ہو ہمارے نزدیک قابلِ اعتبار نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۹۶

 ہمارے یہاں پائی جاتی ہیں آپ کے یہاں نہیں ۔ جیسے غدیر یا اس جیسی دیگر حدیثیں کہ ان کے بیان سے آپ کے یہاں کی کتابیں بھی بھری پڑی ہیں۔

علاوہ اس کے ہم نے اس پہلو کو بھی نہ چھوڑا ، ہم نے ان حدیثوں کو بھی چھان بین کی جو مہاجرین و اںصار کے فضائل پر مشتمل ہیں، اور جسے فقط آپ ہی لوگوں نے درج کیا ہے۔ ہمارے یہاں ان کا وجود نہیں مگر باجود تلاش و جستجو کے بھی کوئی ایسی حدیث نہ ملی جو ان احادیث کی معارض ہوسکتی جو امیرالمومنین(ع) کے متعلق وارد ہوئیں۔ معارض تو معارض ہمیں کوئی حدیث بھی ایسی نہیں ملی جس سے ان حضرات کے استحقاق امامت و خلافت کا ذہن میں خطور تک پیدا ہوتا یہی وجہ سے کہ آج تک آپ میں سے کسی شخص نے بھی خلفائے ثلاثہ کی خلافت کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ان روایات سے کام نہیں لیا۔ ان روایات کی طرف کسی نے توجہ بھی نہ کی۔

                                                                     ش

۲۹۷

مکتوب نمبر27

حدیثِ غدیر کی بابت استفسار

آپ نے بار بار حدیث غدیر کا ذکر کیا۔ اگر حدیث غدیر بطریق اہلسنت مروی ہو تو تحریر فرمائیے ہم بھی ذرا غور کریں۔

                                                                     س

جواب مکتوب

طبرانی نے اور ان کے علاوہ دیگر محدثین نے بھی ایسے سلسلہ اسناد سے جس کی صحت پر محدثین کا اتفاق و اجماع(1) ہے زید بن ارقم سے روایت

--------------

1ـ اس حدیث کے صحیح ہونے کی اکثر علمائے اسلام نے تصریح کی ہے یہاں تک کہ خود علامہ ابن حجر نے اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔ ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب اول فصل خاص صفحہ25۔

۲۹۸

 کی ہے۔ زید بن ارقم کہتے ہیں کہ حضرت سرور کائنات(ص) نے غدیر خم میں ارشاد فرمایا:

“ أيها الناس  يوشك أن أدعي فأجيب و إني‏ مسئول‏ و إنكم‏ مسئولون‏ فما ذا أنتم قائلون قالوا نشهد أنك قد بلغت و جاهدت و نصحت فجزاك الله خيرا فقال أ ليس تشهدون أن لا إله إلا الله و أن محمدا عبده و رسوله و أن جنته حق و أن ناره حق و أن الموت حق و أن البعث حق بعد الموت‏وَ أَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لا رَيْبَ فِيها وَ

أَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ قالوا بلى نشهد بذلك قال اللهم‏اشهد ثم قال يا أيها الناس إن الله مولاي و أنا مولى المؤمنين و أنا أولى بهم من أنفسهم فمن كنت مولاه فهذا مولاه يعني عليا اللهم وال من والاه و عاد من عاداه”

“ اے لوگو! قریب ہے کہ مجھے بلایا جائے اور مجھے جانا پڑے(1)

--------------

1ـ پہلے حضرت سرور کائنات نے اپنی وفات کے دن قریب آنے کی خبر سنائی ۔ اس سے یہ مقصود تھی کہ وقت آگیا ہے کہ اپنے بعد کے لیے خلیفہ معین کردیا جائے اب دیر کرنے کا محل نہیں کیونکہ اندیشہ ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملہ خلافت کو اچھی طرح استوار کرنے کے پہلے پیام مرگ آپہنچے۔

۲۹۹

مجھ سے بھی سوال ہوگا(1) اور تم سے بھی پوچھا جائے گا(2) تم بتاؤ تم لوگ کیا کہنے والے ہو۔ سارے مجمع نے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے پوری تبلیغ فرمائی۔ ہمیں راہ راست پر لانے کے لیے بے حد جد وجہد کی، ہماری خیر خواہی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی آپ

-------------

1ـ چونکہ حضرت سرورکائنات(ص) کا اپنے بھائی کو اپنا ولیعہد مقرر کرنا اہل نفاق و بغض و حسد پر بہت گراں تھا آپ نے چاہا کہ قبل اعلان خلافت عذر معذرت کردی جائے۔ غرض یہ تھی کہ ان کا دل نہ میلا ہو نیزان کے شور و شغب اور چراغ پا ہوجانے کا اندیشہ بھی تھا اس لیے آپ نے فرمایا کہ انی مسئول مجھ سے پوچھا جائے گا۔ یہ جملہ اسی لیے آپ نے فرمایا تھا کہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ پیغمبر(ص) مامور ہیں اور آپ سے پوچھا جائے گا کہ تم نے میرے اس حکم کو انجام دیا یا نہیں لہذا اس حکم کو ملتوی کرنے کی اب راہ ہی نہیں  امام واحدی نے اپنی کتاب اسباب النزول میں بسلسلہ اسناد ابو سعید خدری سے روایت کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ آیة بلغ یوم غدیر خم نازل ہوئی حضرت علی(ع) کے بارے میں۔

2ـ غالبا آںحضرت(ص) نے وانکم مسئولون اور تم سے بھی پوچھا جائے گا فرماکر اشارہ فرمایا ہے اس مطلب کی طرف جس کی دیلمی وغیرہ نے ( جیسا کہ صواعق محرقہ میں ہے) ابو سعید سے روایت کی ہے ابو سعید کہتے ہیں کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا  قول باری تعالیٰ  وقفوہم انھم مسئولون ٹھہراؤ انھیں ان سے پوچھا جائے گا میں مقصود یہ ہے کہ ان سے ولایت امیرالمومنین(ع) واہلبیت(ع) کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ امام واحدی فرماتے ہیں کہ انھم مسئولون سے غرض تہدید ہے دھمکانا ہےان لوگوں کو جو ولی و وصی پیغمبر(ص) کے مخالف ہیں۔

۳۰۰