دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)12%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272261 / ڈاؤنلوڈ: 6389
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

دین حق

مذہبِ اہلِ بیت(ع)

تالیف

آیت اﷲ عبدالحسین شرف الدین موسوی قدس سرہ

ناشر

تبلیغات ایمانی  ہند

۱

کتاب دین حق، مذہب اہل بیت(ع)

تالیف آیت اﷲ عبدالحسین شرف الدین(رح)

کتابت سید جعفر صادق

ناشر   تبلیغات ایمانی ھند ۱۵۹ـنجفی ہاؤس۔ نشان پاڑہ روڈ بمبئی ۹

تعداد ۵۰۰۰

صفحات ۶۴۰

اشاعت کاسال       اگست ۱۹۸۷ء

۲

پیش لفظ

شہرہ آفاق کتاب ” المراجعات “ کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں لبنان اور ایران سے کئی مرتبہ چھپ چکی ہے۔ اردو کا ترجمہ بھی اب تک تقریبا تین دفعہ چھپ چکا ہے۔

شیعہ سنی اختلاف پر اب تک بے انتہاء کتابیں چھپ چکی ہیں لیکن اس موضوع پر تحریر کی جانے والی کتب میں سے یہ کتاب اپنےمنفرد انداز و خصوصیات کی وجہ سے ایک خاص مقام رکھتی ہے۔

پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ اس کتاب کے دونوں فریقین جن کے درمیان یہ خط وکتابت انجام پائی ہے ، ہر قسم کے بغض و کینہ اور قوی تعصبات سے پاک ہیں، دونوں میں اسلامی مقاصد و مصالح کے حصول کا جذبہ بطور کامل موجود ہے۔ امت مسلمہ پر گزرنے والی روئیداد سے آشنا ہوتے ہوئے عالم

۳

اسلام کے زبردست حامی ہیں۔ ان دونوں کا مقصد ہرگز شیعہ سنی بحث کو چھیڑنا اور اس کے نتیجہ میں امت کی صفوف میں اخلافات اور تفرقہ کے مواقع فراہم کرنا نہیں بلکہ نہایت ہی شائستہ ماحول میں ” مذہبِ اہلبیت(ع)“ کو سمجھنا اور اس سلسلہ میں موجود مغرض اور متعصب و جاہل افراد کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہے، ” مذہبِ اہل بیت(ع)“ پر سے پڑے ہوئے ان پردوں کو ہٹانا ہے جنھیں تنگ نظر اور منفعت پرست افراد نے ڈال کر امتِ مسلمہ کو اس مکتب عظیم سے دور کیا ہے۔

سنی و شیعہ دونوں ہی عالم دین، اسلامی روح سے سرشار نظر آتے ہیں۔ حق پرستی کا جوہر کتاب کے مختلف حصوں میں بکثرت قابلِ مشاہدہ ہے۔ پھر دونوں ہی اپنے اپنے مکتبہ فکر میں صف اول کے علماء میں سے ہیں، اور اپنے زمانہ میں حرفِ آخر شمار کیے جاتے تھے۔ اہل سنت کے محترم عالم جناب شیخ سلیم البشری ہیں جو اہلسنت والجماعت کی بین الاقوامی مرکزی علمی درسگاہ جامعة الازہر کے شیخ اور سربراہ ہیں۔ دوسری طرف حضرت آیت اﷲ سید شرف الدین الموسوی ہیں جو اس زمانے میں شیعوں کے سب سے بڑے علمی مرکز نجف اشرف میں صف اول کے اساتید میں شمار ہوتے تھے۔

مناظرہ کی اکثر کتب میں جدال و خطابہ کا رنگ غالب ںظر آتا ہے جب کہ اس کتاب کے امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں پر اکثر علمی و برھانی روشِ استدلال کو اختیار کیا گیا ہے۔ آیت اﷲ مرحوم کا استدلال مضبوط اور مستحکم ادلہ پر استوار نظر آتا ہے۔ مسئلہ کے اختلافی و حساس ہونے کے باوجود، ادب و متقابل احترام کے دائرہ میں رہتے ہوئے نہایت شستہ زبان استعمال کی گئی ہے۔

۴

پھر کچھ ایسے مسائل اور موضوعات بھی مختلف مناسبتوں سے زیر بحث آئے ہیں جو کلام یا دوسری کتابوں میں کمتر پائے جاتے ہیں۔ مثلا تاریخ اسلام میں شیعوں کا حصہ۔ شیعہ اصحاب روایت کی علمی خدمات اور ان کا سنی کتب و مصادر میں تذکرہ، ایسے موضوعات ہیں جن میں کم از کم اردو زبان میں بہت کم لکھا اور بولا گیا ہے۔

ان تمام خصوصیات اور بہت سی دوسری خوبیوں نے اس کتاب کی افادیت و اہمیت میں خاطر خواہ اضافہ کردیا ہے  جس کی وجہ سے یہ کتاب کلام کی علمی کتب میں شمار کی جاتی ہے۔

ہم نے اسے طباعت کے زیور سے از سر نو آراستہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے کہ حق کے متلاشیوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکے گی۔

                                             ناشر

۵

عالیجناب شیخ سلیم البشری

( عالم اہل سنت کے مختصر حالات زندگی)

جناب شیخ سلیم البشری جو مالکی مسلک رکھتے تھے سنہ۱۲۴۸ھ مطابق سنہ۱۸۳۲ء میں ضلع سجیزہ کے محلہ بشر میں پیدا ہوئے اور جامعہ الازہر ( قاہرہ، مصر) میں تعلیم حاصل کی۔

بعد میں دو مرتبہ اس عظیم الشان درسگاہ کے انچارج بھی قرار پائے۔ ایک دفعہ سنہ۱۳۱۷ھ مطابق سنہ۱۹۰۰ء سے سنہ۱۳۲۰ھ مطابق سنہ۱۹۰۴ھ تک اور دوسری دفعہ سنہ۱۳۲۷ھ مطابق سنہ۱۹۰۵ء سے سنہ ۱۳۳۵ھ مطابق سنہ۱۹۱۶ء تک۔

آپ ہی کے زمانہ میں جامعہ الازہر میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے خواہشمند حضرات کے لیے امتحان کی بنیاد رکھی گئی جس میں بکثرت اہل علم نے شرکت کی۔

آپ نے جامعہ الازہر کو پورے نظم و ضبط کے ساتھ چلایا اور انچارج

۶

 ہونے کی حیثیت سے  جو ذمہ داریاں آپ پر عائد تھیں انھیں درس و تدریس میں حائل نہ  ہونے دیا ( بلکہ شیخ الجامعہ ہونے کے ساتھ ساتھ طلبہ کو درس بھی دیتے رہے)

آپ کی قلمی نگارشات بہت ہیں جن کا زیادہ حصہ قدیم علماء کی کتابوں پر حاشیہ اور گفتار مقدم کے عنوان سے ہے۔ مثلا :

 ادب کے موضوع پر  : حاشة تحفة الطلاب لشرح رسالة الآداب

 توحید کے موضوع پر :حاشية علی رسالة الشيخ علی

  علم نحو کے موضوع پر : الاستئناس فی بيان الاعلام و اسماء الاحباس جس میں نحوی مطالب پر بحث کی گئی ہے اور یہ ( اتنی اعلی درجہ کی کتاب ہے کہ) جامعة الازہر میں درس و تدریس کے سلسلہ میں اس کتاب پر بہت زیادہ اعتماد کیا گیا ہے۔

جناب شیخ سلیم البشری نے سنہ۱۳۳۵ھ مطابق سنہ ۱۹۱۶ء میں وفات پائی (۱)

--------------

۱:- حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو کتاب “ الازہر فی ۱۲ عاما” صفحہ ۵۳

۷

عالی جناب آقائے سید عبدالحسین شرف الدین موسوی ( علیہ الرحمہ)

کے مختصر حالات زندگی

( ممتاز شیعہ عالم) جناب علامہ سید عبدالحسین شرف الدین موسوی علیہ الرحمہ کاظمین( عراق) میں سنہ۱۲۹۰ھ مطابق سنہ۱۸۷۲ء میں پیدا ہوئے۔ کاظمین اور نجف اشرف میں تعلیم حاصل کی اور اس زمانے کے انتہائی بلند مرتبہ عالم دین جناب آقائے شیخ کاظم الخراسانی ( صاحب  کفایہ)  سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔

عراق کی سرزمین پر فرانس کی سامراجی حکومت کے خلاف انقلابی اقدامات آپ ہی کے زمانہ میں شروع ہوئے جن میں آپ مثبت حصہ لیا۔ جس کی پاداش میں آپ کے اس نہایت قیمتی کتب خانہ کو جلا دیا گیا جو اسلامی علوم و معارف کا خزینہ تھا۔ اس میں آپ کے نہایت بیش قیمت مخطوطات بھی نذر آتش کردیے گئے اور آپ کو گرفتار کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

۸

اس موقع پر آپ نے مناسب سمجھا کہ اپنی آواز کو تمام اسلامی ممالک تک پہنچانے کے لیے سفر کریں، چنانچہ آپ دمشق تشریف لے گئے اور وہاں سے فلسطین اور مصر کا سفر کیا۔

اور مصر ہی میں اس زمانہ کے شیخ الازھر جناب شیخ سلیم البشری سے آپ کے مسلسل مذاکرات ہوئے اور ان ہی مذاکرات کے نتیجے میں یہ کتاب ترتیب پائی۔

مولانائے موصوف نے متعدد موضوعات پر نہایت قیمتی کتابیں تحریر فرمائی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :

۱ـ المرجعات ۲ـ الفصول المهمه ۳_ اجوبه مسائل جار الله ۴_ الکلمه الغراء فی تفضيل الزهراء. ۵_ المجالس الفاخره ۶_ النص والاجتهاد. ۷_  فلسبه الميساق والولايه ۸_ ابوهريره بغيه الراغبين ۹_ المسائل الفقهيه ۱۰_ ثبت الاثبات فی سلسله الرواه ۱۱_ الی المجمع العلمی العربی بدمشق.۱۲_ رسائل و مسائل ۱۳_ رساله کلاميه.....

اور ان کے علاوہ وہ بکثرت تالیفات جنھیں دشمنان دین و ادب نے نذر آتش کردیا۔

آپ نے اس کے ساتھ بہت سے دینی و اجتماعی منصوبے بھی شروع کیے تھے جن کے ذکر کا موقع نہیں۔

آقائے شرف الدین موسوی نے سنہ۱۳۷۷ھ مطابق سنہ۱۹۵۷ء میں رحلت فرمائی۔

۹

کتاب ہذا سے متعلق علمائے اعلام کے مکتوبات

شام کے ایک معزز عالم دین

علامہ شیخ محمد ناجی غفری کا مکتوب گرامی

آقائے محترم و استاد مکرم آقائے شرف الدین عبدالحسین صاحب قبلہ دام مجدہ

قبلہ محترم !

میں نے آپ کی کتاب “ المراجعات” کا مطالعہ کیا اور اسے ایک ایسی کتاب پایا جو روشن و محکم دلائل و براہین سے مالال مال ہے۔ پروردگار عالم آپ کو پوری قوم کی طرف سے جزائے خیر دے کہ آپ نے حکمت و دانائی اور فیصلہ کن انداز اختیار فرمایا ہے۔

اگر کوچھ دشواریاں اور مشکلات سدِ راہ نہ ہوتیں تو اب تک میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دست بوسی کا شرف حاصل کرچکا ہوتا لیکن امید ہے کہ بہت جلد میں آپ کے چہرہ انور کی زیارت کی سعادت حاصل کرسکوں گا۔

میں نے ( آپ کی کتاب پرھنے کے بعد) اپنا سابق مذہب حنفی ترک

۱۰

کردیا اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے مذہب کو اختیار کر لیا ہے۔

آپ سے التماس ہے کہ کوئی ایسی کتاب میرے لیے بھیجیں جس سے میں اس مذہب کے احکام  ومعارف سے پوری طرح واقف ہوسکوں۔

                                                             والسلام

                                             محمد ناجی غفری(۱۸ صفر سنہ ۱۳۷۰ھ)

ان ہی عالم دین کا دوسرا مکتوب گرامی

بخدمت عالیجناب آقائے سید عبدالحسین شرف الدین صاحب دام مجدہ

سلام علیکم : مزاج شریف !

جناب محترم شرف الدین صاحب ! آپ تو میرے مہربان و پاسبان، میرے رشد اور راہ حق و صراطِ مستقیم تک پہنچنے کا سب سے بڑا وسیلہ ثابت ہوئے۔ میں حضرت محمد و آل محمد علیہم السلام کے وسیلہ سے پروردگار عالم کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ آپ کا سایہ مومنین کے سروں پر تا دیر سلامت رکھے کیوںکہ ان کی سعادت و خیر خواہی آپ کی ذاتِ والا صفات سے وابستہ ہے۔

میں خداوند عالم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے آج تک نہ آپ جیسا کوئی عالم ملا، نہ میں نے آپ جیسی صفات رکھنے والے کسی عالم کے بارے میں سنا۔ آپ اپنے جد اعلیٰ حضرت رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کی شریعتِ مقدسہ کی طرف سے دفاع کررہے ہیں اور وہ منحرف و گمراہ لوگ جو حق پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں ان کی سازشوں کو طشت ازبام کر رہے ہیں اور ان کے سامنے ایسی محکم دلیلیں اور روشن برہان قائم کر رہے ہیں جن کا نہ تو کوئی جواب سے سکتے ہیں۔ نہ ان دالائل

۱۱

سے انکار کی ہمت کرسکتے ہیں( اور گو ایسی روشن دلیلوں کے بعد بھی) جو لوگ مذہبِ حق کو قبول نہ کریں اور حق وباطل میں امتیاز نہ کریں ان کے لیے بدبختی اور عذاب یقینی ہے۔ پروردگار عالم آپ کو جزائے خیر دے ( کہ آپ نے حق کو آشکار کیا)

                                                             والسلام

                                             محمد ناجی غفری۔ ۱۵ ربیع الثانی سنہ۱۳۷۰ھ

مولانائے موصوف کا تیسرا مکتوب گرامی

بخدمت جناب آقائے سید عبدالحسین شرف الدین موسوی دام مجدہ

سلام علیکم!

جناب محترم !

میں آپ کی ذاتِ والا صفات پر فخر کرتا ہوں۔ میرا دل بلکہ میرے تمام اعضاء و جوارح آپ کی عظمت کے تصور سے مالا مال ہیں اور دنیا بھر کے اہل علم کے درمیان آپ کے فضل و شرف کا بھر پورا اعتراف کرتے ہیں۔

کیوںکہ آپ نے اپنے قلم مبارک سے بہت سی اقوام و ملل کو حیات نو بخشی اور ضلالت و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر انھیں ہدایت کی روشنی سے منور کیا اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا انکار کرنے والا یا تو اپنی جہالت کے سبب انکار کرے گا یا طبیعت کی سرکشی اور عناد کی بناء پر۔

اور دارالسلطنت میں میں نے جناب۔۔۔۔۔ سے ملاقات کی اور ان سے مذاکرات بھی کیے۔

۱۲

وہ حضرت ۔۔۔۔(۱) ۔۔۔۔ بہت بڑے قاضی کے منصب پر فائز ہیں ( اور بہت زیادہ اثر و رسوخ کے مالک بھی ہیں) میں نے ان سے بحث و مباحثہ کیا تو بحمدہ تعالی وہ پوری طرح سے مذہب حق کی طرف مائل ہوگئے ہیں۔

چنانچہ آپ کی کتاب “ المراجعات” میں نے ان کی خدمت میں پیش کر دی ہے جسے انھوں نے پڑھا اور آپ کے حیرت انگیز دلائل نے انھیں تعجب و مسرت کے دوراہے پر پہنچا دیا۔

کیونکہ آپ نے اپنے علم کے بحر ذخائر اور قلم کے شاہکار سے ان کے لیے اس امر کو ممتاز و نمایاں کردیا کہ دونوں راستوں میں سے حق و صداقت کا راستہ کون سا ہے۔

                                                             والسلام ۔ آپ کا مخلص

                                                             محمد ناجی غفری۔ ۱۷ محرم سنہ۱۳۷۳ھ

حجہ الاسلام علامہ شیخ محمد حسین المظفر

کا مکتوب گرامی

مجاہد ملت حجہ الاسلام علامہ سید عبدالحسین شرف الدین دامت برکاتہ کے نام۔۔۔۔

سلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ!

آپ کی مساعی جمیلہ کو شرق غربِ عالم میں جو پذیرائی اور مقبولت و محبوبیت

--------------

۱:- بعض خصوصی مصالح کی بناء پر اس جگہ قاضی مذکور کا نام اور ان سے متعلق متعدد باتیں جو خط کے اندر موجود تھیں اس کتاب کی طباعت کے موقع پر حذف کردی گئی ہیں۔

۱۳

حاصل ہوئی ہے وہ لائق تعجب ہرگز نہیں ہے کیونکہ آپ راہِ خدا کے ایک ایسے مجاہد اور حق کا ایسا دفاع کرنے والے ہیں جو عنفوانِ حیات سے مسلسل خدمتِ دین اور نصرتِ شریعت سید المرسلین صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کے خوگر ہیں۔

آپ کو دین کی خدمت کرتے ہوئے نہ کسی قسم کی تکان محسوس ہوتی ہے نہ پریشانی۔ نہ اضطراب نہ تردد( بلکہ جہاد مسلسل کو آپ نے اپنی زندگی کا شعار بنا رکھا ہے اور پروردگار عالم کا وعدہ ہے کہ ) :

ووالذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا

( اور جو لوگ ہماری راہوں میں جہاد کرتے ہیں ان کے لیے ہم راہوں کو نمایاں کر دیتے ہیں) اور یقینا ان مجاہدین کو صراط مستقیم پر گامزن رکھتا ہے۔

اور مجھے اس دن انتہائی مسرت ہوئی جب حلب ( شام ) کے شیخ محمد۔۔۔۔ کا مجھے خط موصول ہوا۔

۱۴

مکتوب نمبر ۱

میرا سلام ہو شریف النفس عالم بزرگ جناب عبدالحسین شرف الدین موسوی اور ان پر خدا کی رحمت و برکت ہو۔

جناب عالی ، میں زمانہ گزشتہ میں شیعوں کے اندرونی مسائل سے با خبر نہیں تھا اور نہ مجھے ان کے سلوک و رفتار کی خبر تھی ۔ کیوںکہ میری نہ کسی کے ساتھ نشست و برخاست تھی اور نہ ان کے عوام الناس کے اندرونی حالات کا میں نے جائزہ لیا تھا۔ مجھے یہ شوق تو تھا کہ میں ان کے بزرگان کی تقریر سنوں لیکن عالم پبلک سےمیں ہمیشہ دور رہا نہ ان کے افکار اور آراء سے بحث کی اور نہ ان کے نظرایات  میں مداخلت کی۔

۱۵

البتہ جب خداوند عالم نے مجھے یہ توفیق عطا کی کہ میں آپ کے علوم و معارف کے سمندر کے کنارے پہنچوں اور ساغرِ لبریز سے اپنی پیاس بجھاؤں تو بحمد اﷲ آپ نے نہایت شیرین پانی سے مجھے سیراب کیا۔ میری علمی تشنگی کو دور کیا اور علوم الہی کے شہر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اور باب مدینہ علم حضرت علی مرتضی علیہ السلام جو آپ کے اجداد کرام تھے ان کے معارف سے مجھے اس طرح سیراب کیا کہ اس سے زیادہ شیرین جام کسی پیاسے کو نہ ملا ہوگا اور نہ کسی بیمار کو ایسی شفا ملی ہوگی جیسی شفا مجھے آپ کے بحرِ ذخار سے ملی۔

میں لوگوں سے سنتا رہتا تھا کہ آپ شیعہ حضرات اپنے سنی بھائیوں سے ملنا پسند نہیں کرتے ان سے اجتناب کرتے ہیں، تنہائی کو پسند کرتے ہیں اور ہمیشہ گوشہ نیشینی اختیار کیے رہتے ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔اور اسی قسم کی باتیں میں سنا کرتا تھا۔

لیکن جب میں آپ کو دیکھا تو پتہ چلا کہ آپ انتہائی لطیف اور پاکیزہ مزاج کے انسان ہیں۔ بحث و مباحثہ کی گہرائی تک اترتے ہیں، تبادلہ خیالات کے آزرو مند رہتے ہیں، مناظرہ میں انتہائی قوی اور بہادر ہیں، آپ کی گفتگو بہت پاکیزہ، آپ کا سلوک بہت شریفانہ ، آپ سے تعلق لائق تشکر اور آپ سے گفتگو بہایت لائق تحسین ہے۔ اس لیے اب میری رائے یہ ہے کہ شیعہ حضرات محفل کی خوشبو اور ادب و تہذیب کی آرزوں کا مرکز ہیں۔

مناظرہ کی اجازت

جناب عالی ! اب جبکہ میں آپ کے اوقیانوسِ علم کے ساحل پر کھڑا ہوں آپ سے اجازت طلب کرتا ہوں کہ مجھے اس کی گہرائیوں تک اترنے کا اور

۱۶

جواہر تلاش کرنے کا موقع عطا فرمائیے۔ تو اگر آپ نے مجھے اجازت دی تو میں ان باریکیوں اور الجھنوں کو آپ کی خدمت میں پیش کروں گا جو مدت دراز سے میرے سینہ میں موجزن ہیں اور اگر آپ نے اجازت نہ عطا فرمائی تو بھی آپ مختار کل ہیں کیونکہ میں جن باتوں کو پوچھنا چاہتا ہوں ان میں نہ تو کسی لغزش کا طلب گار ہوں نہ کسی بات کا پردہ فاش کرنا چاہتا ہوں ۔ نہ فتنہ انگیزی میرا مقصود ہے اور نہ اس سلسلہ میں کوئی برا ارادہ رکھتا ہوں بلکہ ایک تلاش گمشدہ کی طرح میں اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتا ہوں اور حقیقت کو پہچاننا چاہتا ہوں۔ کیونکہ حق اگر واضح ہوجائے تو انسان کو اسی کی پیروی کرنا چاہئیے اور اگر حق واضح نہ بھی ہوسکا تو میں شاعر کے اس شعر پر عمل پیرا رہوں گا کہ :

                                     نحن بما عندنا و انت بما عندک

                                     راض      والرای      مختلف

“ اگر چہ ہماری رائیں مختلف ہیں لیکن آپ اپنے نظریہ پر خوش رہیں ہم اپنے مسلک پر راضی رہیں ۔ ”

اگر آپ نے بحث کی اجازت دے دی تو میں صرف دو مسائل پر آپ سے رائے طلب کروں گا۔

نمبر ۱ ۔ آپ کے مذہب میں امامت کی اصول اور فروعی حیثیت ۔

اور نمبر ۲ ۔ وہ عمومی امامت جو حضرت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے طور پر کسی کو حاصل ہوتی ہے۔

میں اپنے ہر خط کے اختتام پر دستخط کی جگہ “ س” لکھا کروں گا اور آپ اپنے دستخط کی جگہ “ ش” لکھ دیا کیجیے گا۔ آخر میں اپنی ممکنہ لغزشوں سے معذرت چاہتا ہوں۔

۱۷

جوابِ مکتوب

مناظرہ کی اجازت

عالیجناب شیخ الاسلام دام مجدہ

اسلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ

آپ کا مکتوب گرامی موصول ہوا۔ آپ نے خط کی شکل میں وہ نعمتِ فراواں بھیجی اور میرے لیے ایسے نفیس خیالات کا اظہار کیا جن کا حق ادا کرنے سے زبان قاصر ہے اور جس کے شکریے سے میں زندگی بھر عاجز ہوں۔

آپ نے اپنی آرزؤوں کو مجھ سے وابستہ کیا اور بلند توقعات قائم کیں جبکہ آپ کی ذات لوگوں کی امیدوں کا مرکز اور ان کے افکار و نظریات کی پناہ گاہ ہے جہاں لوگوں کی امیدیں آپ سے وابستہ رہتی ہیں اور وہ آپ کے وسیع و عریض دہلیز پر اتر کر آپ کے علم سے فیضیاب ہوتے ہیں، آپ کے فضل و شرف  کی بارش سے سیراب ہوتے ہیں، اس لیے مجھے امید ہے کہ میں بھی اپنی امیدوں میں کامیاب ہوں گا اور جو تمنائیں میں نے وابستہ کر رکھی ہیں وہ قوی ثابت ہوں گی۔

آپ نے گفتگو کی اجازت چاہی ہے جبکہ آپ صاحب اختیار ہیں جیسا حکم فرمائیں جس بات کے بارے میں چاہیں دریافت کریں۔ جس طرح چاہیں ارشاد فرمائیں آپ صاحب فضل بھی ہیں آپ کی گفتگو فیصلہ کن بھی ہوگی اور انشاء اﷲ آپ جو حکم فرمائیں گے وہ عدل کے مطابق ہوگا۔

                                             والسلام

۱۸

مکتوب نمبر۲

شیعہ بھی حضرات اہلسنت کا مسلک کیوں نہیں اختیار کر لیتے؟

مولانائے محترم ! تسلیمات زاکیات!!

اس کی وجہ آپ بتاسکتے ہیں کہ آخر آپ لوگ بھی وہی مذہب کیوں نہیں اختیار کر لیتے جو جمہور مسلمین کا مذہب ہے؟

جمہور مسلمین کا مذہب یہ ہے کہ وہ اصول دین اور عقائد میں اشاعرہ کے ہم خیال ہیں اور فروع دین میں ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل میں سے کسی ایک کے مقلد ہیں۔ آپ بھی اصولِ دین میں اشاعرہ کا مسلک اختیار فرمائیں اور فروعِ دین فرائض و عبادات میں مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک  کے پابند ہوجائیے، چاہے امام ابو حنیفہ کی تقلید کیجیے یا امام شافعی کی یا امام مالک کی ایا احمد بن حنبل کی ۔ کیونکہ یہی مذہب ایک ایسا مذہب ہے کہ

۱۹

 سلف صالحین بھی اسی کے پابند رہے اور اسی کو بہتر و افضل سمجھتے رہے۔ نیز ہر زمانہ اور ہر خطہء ارض کے جملہ مسلمانوں کا مذہب بھی یہی رہا اور سب کے سب ان ائمہ اربعہ کی عدالت ، اجتہاد، زہد و ورع ، تقدس و پرہیز گاری، پاکیزہ نفسی، حسنِ سیرت اور علمی و عملی جلالتِ قدر پر ابتدا سے لے کر آج تک بیک دل و زبان  متفق رہے ہیں۔

اتحاد و اتفاق کی ضرورت

یہ بھی غور فرمائیے کہ اس زمانے میں ہم لوگوں کے لیے اتحاد و اتفاق کس قدر ضروری ہے۔ دشمنانِ اسلام ، ہم مسلمانوں کے خلاف محاذ قائم کیے ہوئے ہیں، ایذا رسانی پر کمر باندھ لی ہے دل و دماغ اور زبان کی ساری طاقتیں ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں۔

اتحاد جہور اہلسنت کا مذہب اختیار کرنے ہی سے ہوسکتا ہے۔

ہم لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور فرقہ بندی سے اپنے خلاف دشمنوں کی مدد کررہے ہیں۔ لہذا ایسی حالت میں ہم لوگوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ ایک مرکز پر جمع ہوجائیں۔ ایک نقطہ پر سمٹ آئیں اور یہ اتفاق و اتحاد جب ہی ہوسکتا ہے کہ ہمارا مسلک و مذہب بھی ایک ہو، آپ لوگ بھی اس مذہب کو اختیار کر لیں جسے عامة المسلمین اختیار کیے ہوئے ہیںِ۔

کیا میرا رائے سے آپ کو اختلاف ہے ؟ خدا کرے اس پراگندگی

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

آیت ۴۶

( أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ )

كيا ان لوگوں نے زمين ميں سير نہيں كى ہے كہ ان كے پاس ايسے دل ہو تو جو سمجھ سكتے اور ايسے كان ہوتے جو سن سكتے اس لئے كہ در حقيقت آنكھيں اندھى نہيں ہوتى ہيں بلكہ وہ دل اندھے ہوتے ہيں جو سينوں كے اندر پائے جاتے ہيں (۴۶)

۱ _ صدر اسلام كے كافروں اور جھٹلانے والوں كى اس وجہ سے سرزنش اور توبيخ كہ انہوں نے ماضى كى ہلاك ہوجانے والى اقوام كے انجام سے عبرت حاصل نہيں كى اور ان كے متروك اور ويران سرزمينوں اور شہروں كے باقى ماندہ آثار سے سبق نہيں سيكھا _فكا يّن من قرية ا هلكنها ا فلم يسيروا فى الأرض

جملہ''ا فلم يسيروا فى الا رض'' ميں استفہام توبيخى ہے اور ''يسيرون'' كے مصدر ''سير'' كا معنى سير و سياحت كرنااور ''الا رض'' كا ''ال'' عہد حضورى كيلئے اور ''ا رض'' كا معنى ہے سرزمين اور ''يسيرون'' كى ضمير فاعل كا مرجع صدر اسلام كے حق دشمن مشركين اور تكذيب كرنے والے ہيں _

۲ _ ويران ہوجانے والے شہروں كا مشاہدہ كرنے اور تاريخ كے ستمگروں كے برے انجام كا مطالعہ كرنے كيلئے زمين كى سير كرنا خداتعالى كى طرف سے مستكبرين اور حق دشمن عناصر كو نصيحت_ا فلم يسيروا فى الأرض فتكون لهم قلوب يعقلون به

۳ _ تاريخ كے كافر اور غير منصف معاشروں كے انجام كا مطالعہ كرنا اور ان كے ويران شدہ شہروں اور سرزمينوں (وہ شہر جو غضب الہى كے عذاب كے

۵۶۱

ساتھ تہہ و بالا ہوگئے) كا مشاہدہ كرنا عبرت حاصل كرنے كيلئے مناسب سامان اور دلوں كى بيدارى كا كارساز ذريعہ ہے_

ا فلم يسيروا فى الأرض فتكون و لكن تعمى القلوب التى فى الصدور

۴ _ انبياء (ع) الہى كو جھٹلانا اور ان كے خلاف برسرپيكاررہنا نصيحت حاصل نہ كرنے اور كور باطن ہونے كى علامت ہے_و إن يكذبوك فتكون لهم قلوب يعقلون القلوب التى فى الصدور

۵ _ ہلاكت كا شكار ہوجانے والى اقوام كے باقى ماندہ بلند و بالا محلات اور رہائش گاہيں عصربعثت كے لوگوں كى دسترسى ميں _فكا يّن من قرية ا هلكنها ا فلم يسيروا فى الأرض

۶ _ عصر بعثت كے حق دشمن اور تكذيب كرنے وا لے مشركين ،نصيحت كو قبول نہ كرنے و الے اور كو رباطن لوگ تھے_

و إن يكذبوك ا فلم يسيروا فى الأرض القلوب التى فى الصدور

۷ _ دل اور كان حقائق كے درك اور شناخت كا ذريعہ ہيں _فتكون لهم قلوب يعقلون بها ا و ء اذان يسمعون به

۸ _ دل كا اندھا ہونا حقائق كو سمجھنے اور نصيحت كو قبول كرنے سے محروميت كا سبب ہے_

افلم يسيروا فإنها لا تعمى الا بصار و لكن تعمى القلوب التى فى الصدور

۹ _ انسان كى حقيقى بينائي يہ ہے كہ وہ ضمير آگاہ اور گوش شنوا ركھتا ہو _فتكون لهم قلوب يعقلون بها ا و ء اذان يسمعون بها فى الصدور

۱۰ _ سينہ ،انسان كے دل كا مقام_فتكون لهم قلوب و لكن تعمى القلوب التى فى الصدور

۱۱ _ كفار اور انبياء (ع) كى تكذيب كرنے والے حقيقى نابينا ہيں اور يہ دل كى بينائي سے محروم ہيں _

ا فلم يسيروا فى الا رض و لكن تعمى القلوب التى فى الصدور

۱۲ _ دل ، انسان كى بينائي، شنوائي اور آگاہى كا مركز _فإنها لا تعمى الا بصار و لكن تعمى القلوب التى فى الصدور

آثار قديمہ:يہ صدر اسلام ميں ۵; اس سے عبرت حاصل كرنا۱; ان كا مطالعہ ۳

انبياء (ع) :انكى تكذيب ۴; انہيں جھٹلانے والوں كا كور باطن ہونا ۱۱

بصيرت: اس كا پيش خيمہ ۹

۵۶۲

بينائي:اس كا مركز ۱۲

تاريخ:اس سے عبرت حاصل كرنا ۱،۲، ۳; اس كا مطالعہ ۳

متنبہ ہونا:اس كا پيش خيمہ ۳

حق:حق دشمنوں كو نصيحت ۲

حقائق:انكے درك سے محروميت كے عوامل ۸; ان كے درك كا مركز ۷

خداتعالى :اسكى نصيحت ۲; اسكى طرف سے مذمت ۱

سياحت:اسكى نصيحت ۲

سينہ:اس كا كردار ۱۰

شناخت:اس كا ذريعہ ۷

شنوائي:اس كا مركز ۱۲; اس كا كردار ۹

سركش لوگ:ان كو نصيحت۲

ظالم لوگ:ان كى تقدير كا مطالعہ ۳; ان كے انجام كا مطالعہ ۲

عبرت:اسكے عوامل ۲، ۳; اسكے موانع ۸; اسے قبول نہ كرنے كى نشانياں ۴

علم:اس كا مقام ۱۲

دل:اسكى جگہ ۱۰; اسكے فوائد ۷، ۱۲

كفار:صدر اسلام كے كفار كى سرزنش ۱; صدر اسلام كے كفار كا عبرت حاصل نہ كرنا ۱; ان كا كور باطن ہونا ۱۱

كور باطن ہونا :اسكے اثرات ۸; اسكى نشانياں ۴

كان:اسكے فوائد ۷

گذشتہ اقوام:ان سے عبرت حاصل كرنا۱; ان كا انجام ۱

مشركين:صدر اسلام كے حق دشمن مشركين ۶; صدر اسلام كے مشركين كا عبرت حاصل نہ كرنا۶; صدر اسلام كے مشركين كا كور باطن ہونا۶

۵۶۳

آیت ۴۷

( وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْماً عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ )

پيغمبر يہ لوگ آپ سے عذاب ميں عجلت كا تقاضا كر رہے ہيں حالانكہ خدا اپنے وعدہ كے خلاف ہرگز نہيں كر سكتا ہے اور آپ كے پروردگار كے نزديك ايك دن بھى ان كے شمار كے ہزار سال كے برابر ہوتا ہے (۴۷)

۱ _ عصر بعثت كے كفار اور تكذيب كرنے والوں كو مہلك عذاب كى دہمكي_و إن يكذبوك و يستعجلونك بالعذاب

''العذاب'' ميں ''ال'' عہد كيلئے اور اس عذاب كى طرف اشارہ ہے كہ جس كا تكذيب كرنے والے مشركين كو وعدہ ديا گيا تھا_

۲ _ عصر بعثت كے كفار عذاب كے وعدے كو جھوٹا سمجھتے اور اس كا مسخرہ كرتے_و يستعجلونك بالعذاب

چونكہ تكذيب كرنے والے پيغمبراكرم(ص) سے مطالبہ كرتے تھے كہ وہ اپنے وعدہ كو عملى كريں اور جلدى سے جلدى ان پر عذاب نازل كريں اس كا مطلب يہ ہے كہ وہ پيغمبراكرم(ص) كى دھمكى كوبے سقتسمجھتے تھے اور اس ميں جلدى كى درخواست كركے اس كا مسخرہ كرتے تھے_

۳ _ پيغمبراكرم(ص) كى تكذيب كرنے والے عذاب كے بلا تأخير اور جلدى نزول كے خواہان تھے_و يستعجلونك بالعذاب

۴ _ خداتعالى نے عصر بعثت كے كافروں پر عذاب كے نزول كو قطعى قرار ديا_و يستعجلونك بالعذاب و لن يخلف الله وعده

۵ _ خداتعالى كے وعدے قطعى اور حتمى ہيں _و لن يخلف الله وعده

۶ _ عصر بعثت كے كفار كا عذاب الہى كو باور نہ كرنا اور اس كا مسخرہ كرنا ان كے كور باطن ہونے كا ايك مظہر_

و لكن تعمى القلوب التى فى الصدورو يستعجلونك بالعذاب

۵۶۴

۷ _ خداتعالى ،انسانوں كا پروردگار ہے_و ان يوماً عند ربك

۸ _ خداتعالى اور انسان كے نزديك وقت كا معيار كا مختلف ہونا_و إن يوما عند ربك كا لف سنة مما تعدون

''يوم'' (''ا يام''كا مفرد) ايك دن كے معنى ميں ہے اور ''عند ربك'' يوم كى صفت ہے يعنى خدا كا ايك دن تمہارے ہزار سال كے برابر ہے مقصود يہ ہے كہ اگرچہ وعدہ عذاب كے وقت سے اب تك كئي دن حتى كئي سال گزرچكے ہيں اور يہ عرصہ تمہارى نظر ميں لمبا عرصہ ہے اسى وجہ سے سمجھتے ہو كہ وہ دھمكى جھوٹى تھى ليكن جان لو كہ وہ سارا عرصہ خدا كے نزديك چند لمحوں كے برابر ہے كيونكہ خدا كا ايك دن تمہارے ہزارسال كے برابر ہے_

۹ _ خدا كا ايك دن انسانوں كے ہزار سال كے برابر ہے_و إن يوماً عند ربك كا لف سنة مما تعدون

انسان:اس كا رب ۷

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كو جھٹلانے والوں كے مطالبے ۳

عدد:ہزار كا عدد ۹

ڈرانا:مہلك عذاب سے ڈرانا۱

خداتعالى :اسكے عذاب كا اڑانا ۲، ۶; اسكے وعدوں كا مذاق اڑانا ۲ ; اسكے وعدوں كا حتمى ہونا ۵; اسكى ربوبيت ۷; اسكے ايك دن كى مدت ۹; اسكے عذاب كو جھٹلانے والے ۲; اسكے وعدوں كو جھٹلانے والے ۲

وقت:اسكى حقيقت ۸

عذاب:اس ميں جلدى كى درخواست ۳

كفار:صدر اسلام كے كفار كا مذاق اڑانا ۲، ۶; صدر اسلام كے كفار كو ڈرانا ۱; صدر اسلام كے كفار كى سوچ ۲; صدر اسلام كے كفار كے عذاب كا حتمى ہونا۴ ; صدر اسلام كے كفار كے اندرہے پن كى نشانياں ۶

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۷

۵۶۵

آیت ۴۸

( وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَمْلَيْتُ لَهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ أَخَذْتُهَا وَإِلَيَّ الْمَصِيرُ )

اور كتنى ہى بستياں تھيں جنہيں ہم نے مہلت دى حالانكہ وہ ظالم تھيں پھر ہم نے انہيں اپنى گرفت ميں لے ليا اور بالاخر سب كى بازگشت ہمارى ہى طرف ہے (۴۸)

۱ _ بہت سارے گذشتہ معاشروں كى مہلك عذاب كے ساتھ ہلاكتو كا يّن من قرية ا مليت لها و هى ظالمة

( ''ا مليت'' كا مصدر) ''إملا''،''ملو''سے ہے اور اس كا معنى ہے فرصت دينا ''لہا'' ''لا ہلہا'' كى تقدير ميں اور ''ہى ظالمة'' ''وا ہلہا ظالمة'' كى تقدير ميں ہے اور (''ا خذت'' كے مصدر) ''ا خذ'' كا معنى ہے پكڑنا اور يہاں پر ہلاك و نابود كرنے سے كنايہ ہے_

۲ _ ظلم و بے انصافى گذشتہ معاشروں كى ہلاكت اور ان كے غضب الہى (مہلك) كے عذاب ميں گرفتار ہونے كا اصلى سبب_و كا يّن من قرية ا مليت لها و هى ظالمة ثم ا خذته

۳ _ خداتعالى عذاب نازل كرنے سے پہلے ہر ظالم معاشرے كو فرصت ديتا تھا تا كہ شايد وہ متنبہ ہوجائيں اور اپنے پيغمبر(ص) كى مخالفت سے ہاتھ كھينچ ليں _و كا يّن من قرية ا مليت لها و هى ظالمة ثم ا خذته

۴ _ عصر بعثت كے مشركين كے عذاب ميں تأخير ان كيلئے ايك مہلت تھى كہ شايد وہ بيدار ہوجائيں اور اسلام كى طرف مائل ہوجائيں _و يستعجلونك بالعذاب و كا يّن من قرية ا مليت له

۵ _ خداتعالى كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) كى تكذيب كرنے والوں كو نصيحت كى گئي كہ وہ فرصت سے فائدہ اٹھائيں اور اپنے آپ كو سابقہ معاشروں كى

۵۶۶

طرح غضب الہى ميں گرفتار نہ كريں _و إن يكذبوك و كا يّن من قرية ا مليت لها ا خذته

۶ _ سب انسانوں كى بازگشت صرف خدا كى طرف ہے_و إليّ المصير

''مصير'' مصدر ميمى اور لوٹنے كے معنى ميں ہے_ اور ''إليّ'' (خبر) كى ''مصير'' (مبتدا) پر تقديم حصر كا فائدہ ديتى ہے يعنى''ليس الرجوع إلا إلّي''

۷ _ دنيوى عذاب و ہلاكت كے بعد اخروى عذاب ستمگروں كى انتظار ميں ہے_و كا يّن من قرية وإليّ المصير

ہوسكتا ہے جملہ''إليّ المصير'' ظالم افراد كے دنيوى عذاب (ثم ا خذتها ) كے بعد انہيں اخروى عذاب كى دھمكى ہو_

اس كا انجام ۶

خدا كى طرف بازگشت ۶

آنحضرت(ص) :صدر اسلام كے مشركين كے اسلام كا پيش خيمہ ۴; صدر اسلام كے مشركين كے متنبہ ہونے كا پيش خيمہ ۴; صدر اسلام كے مشركين كو مہلت دينے كا فلسفہ ۴

خداتعالى :اس كا اتمام حجت كرنا ۳; اسكى مہلت كا فلسفہ ۳; اسكى مہلت ۵; اس كا متنبہ كرنا۵

ظالمين:ا ن كا اخروى عذاب ۷; ان كى ہلاكت ۷

عذاب:اہل عذاب ۱; اسے موخر كرنا۴; مہلك عذاب كے اسباب ۲

گذشتہ اقوام:ان كے ظلم كے اثرات ۲; انكى نابودى ۱; ان كى تاريخ ۱، ۲; ان كے متنبہ ہونے كا پيش خيمہ ۳; ان كا مہلك عذاب۱; انكى نابودى كے عوامل ۲; ان كى ہلاكت كے عوامل ۲; انكو مہلت دينا۳; انكى ہلاكت۱

معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۲

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات۶

۵۶۷

آیت ۴۹

( قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ )

آپ كہہ ديجئے كہ انسانو ميں تمہارے لئے صرف واضح طور پر ڈرانے والا ہوں (۴۹)

۱ _ كفار و مشركين كا آخرت ميں برا انجام ہے_قل يا ا يها الناس إنما ا نا لكم نذير

''الناس''سے مراد مشركين او ر بت پرست لوگ ہيں اور ''نذير''،''منذر'' كے معنى ميں ہے اور ( ''منذر'' كے مصدر) انذار كا معنى ہے كسى كام كے عواقب كے آنے سے پہلے ان سے ڈرانا _

۲ _ توحيد اور يكتاپرستى انسان كو اخروى بدبختيوں سے نجات دينے والى ہے_قل نذير مبين

۳ _ لوگوں كو شرك كے عواقب سے آگاہ كرنا اور انہيں اسكے اخروى نتائج سے ڈرانا، پيغمبراكرم(ص) كى رسالت كا بنيادى مقصدہے_قل يا ا يها الناس

۴ _ پيغمبراكرم(ص) كا متنبہ كرنا واضح و روشن اور ہر قسم كے ابہام سے خالى تھا_إنما ا نا لكم نذير مبين

۵ _ انبياء كى بعثت اور اديان كى تعليمات، انسان كى منفعت او رفائدے كيلئے ہيں _إنما ا نا لكم نذير مبين

ہوسكتا ہے ''لكم'' كا لام انتفاع مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہو_

۶ _ تبليغ اور عوام كى ہدايت كيلئے ايسى روش سے استفادہ كرنا ضرورى ہے كہ جو واضح اور ابہام سے خالى ہو_

إنما ا نا لكم نذير مبين

۷ _ پيغمبراكرم(ص) كا فريضہ صرف ڈراناہے نہ لوگوں كو ايمان لانے پر مجبور كرناہے_إنما ا نا لكم نذير

انذار:

۵۶۸

شرك انجام سے انذار ۳

انسان:اسكے منافع ۵

تبليغ:اسكى روش۶

توحيد:اسكے اثرات ۲

دين:اس كا فلسفہ ۵; اس ميں مجبور كرنے كى نفى ۷

شقاوت:اخروى شقاوت كے موانع ۳

كفار:ان كا اخروى انجام ۱; ان كا برا انجام ۱

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا انذار ۳; آپ(ص) كى رسالت ۳; آپ(ص) كے انذار كى صراحت ۴; آپ(ص) كى ذمہ دارى كا دائرہ كار ۷

مشركين:ان كا اخروى انجام ۱; ان كا دنيوى انجام ۱; ان كا برا انجام

نبوت:اس كا فلسفہ ۵

ہدايت:اسكى روش ۶

آیت ۵۰

( فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ )

پھر جو لوگ ايمان لے آئے اور انہيں نے نيك اعمال كئے ہيں ان كے لئے مغفرت اور بہترين رزق ہے (۵۰)

۱ _ مغفرت الہى اور عمدہ و پاكيزہ رزق آخرت ميں نيك كردار مؤمنين كا اجر_فالذين ء امنوا و عملوا و رزق كريم

''رزق كريم'' يعنى پاكيزہ اور عمدہ رزق

۲ _ ايمان كا عمل صالح كے ہمراہ اجر الہى سے بہرہ مند ہونے كى شرط_فالذين ء امنوا و عملوا الصلحت و رزق كريم

۳ _ گناہوں كى بخشش، انسان كے اخروى نعمتوں سے بہرہ مند ہونے كا پہلا مرحلہ ہے_

۵۶۹

لهم مغفرة و رزق كريم

''مغفرت'' كو ''رزق كريم'' پر مقدم كرنے كو مدنظر ركھتے ہوئے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۴ _ عمل صالح كے ہمراہ ايمان ،بخشش كا سبب اور شرك و كفر كى گناہ كے اثرات كو زائل كرنے والاہے_

فالذين ء امنوا لهم مغفرة

۵ _ خدائے يكتا پر ايمان (توحيد اور نفى شرك) بخشش الہى كے حصول كا ذريعہ ہے اور عمل صالح بہشت كى نعمتوں سے بہرہ مند ہونے كا سبب ہے_فالذين ء امنوا و عملوا الصلحت لهم مغفرة ورزق كريم

مذكورہ مطلب اس نكتے كے پيش نظر ہے كہ مغفرت، ايمان سے مربوط ہو اور ''رزق كريم'' عمل صالح سے مربوط ہو_

ايمان:اسكے اثرات ۲، ۴; توحيد پر ايمان كے اثرات ۵

بخشش:اسكے اثرات ۳; اسكے عومل ۴، ۵

بہشت:اسكے اسباب ۵

خداتعالى :اسكے اجر كے شرائط ۲

روزي:عمدہ روزى ۱

صالحين:ان كى بخشش ۱; ان كا اخروى اجر۱; انكى دنيوى روزى ۱

عمل صالح:اسكے اثرات ۲، ۴،۵

گناہ:اسكى بخشش ۳; اسكے كفارے كے عوامل ۴

مؤمنين:انكى بخشش ۱; انكى اخروى پاداش۱; انكى اخروى روزى ۱

نعمت:اس كا پيش خيمہ ۵; اس كا اخروى پيش خيمہ ۳

۵۷۰

آیت ۵۱

( وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ )

اور جن لوگوں نے ہمارى نشانيوں كے بارے ميں كوشش كى كہ ہم كو عاجز كرديں وہ سب كے سب جہنم ميں جانے والے ہيں (۵۱)

۱ _ آيات الہى (قرآن) كے خلاف اور پيغمبر(ص) كو اپنى دعوت سے ناكام كرنے كيلئے عصربعثت كے مشركين كى مسلسل كوشش_و الذين سعوا فى ء آيا تنا معجزين ا ولئك ا صحاب الجحيم

(''سعوا'' كے مصدر) ''سعي'' كا معنى ہے كوشش كرنا اور ''فى ء اياتنا'' فى ابطال ''ء اى تنا'' كى تقدير ميں ہے (''معاجزين'' كا مصدر) ''معاجزہ'' اگر ''عجز'' (پچھلا حصہ ) سے مشتق ہو تو اس كا معنى ہے كسى چيز سے سبقت لينا اور اسے پيچھے چھوڑدينا اور اگر يہ ''عجز'' ( ناتواني) سے مشتق ہو تو اس كا معنى ہے ناتوان كرنا بہرحال ''معاجزين'' ''سعوا'' كے فاعل كيلئے حال ہے اور اس كا مفعول محذوف ہے اور اسكى تقدير ممكن ہے ''معاجزينا'' يا ''معاجزين رسولنا'' ہو اور ''جحيم'' كا معنى ہے دہكتى اور شعلے نكالتى ہوئي آگ_

۲ _ انبياء (ع) كے انذار اورخطرات سے آگاہ كرنے كے مقابلے ميں انسان دو قسم كے ہيں مؤمن اور كافر_

يا ا يها الناس إنما ا نا لكم نذير مبين فالذين ء امنوا و الذين سعوا فى ء اى تن

۳ _ قرآن، خداتعالى كى نشانيوں كا مجموعہ ہے_فى ء اى تن

۴ _ قرآن كى ساخت ٹكڑوں كى صورت ميں ہے اور ہر ٹكڑے كا نام آيت ہے_فى ء اى تن

۵ _ جہنم ميں ہميشہ رہنا ،آيات الہى (قرآن) كا مقابلہ كرنے والوں كى سزاہے_

و الذين سعوا فى ء آيا تنا معجزين ا ولئك ا صحب الجحيم

۵۷۱

۶ _ جحيم دوزخ كا ايك نام ہے_ا ولئك ا صحب الجحيم

مذكورہ مطلب اس نكتے كى وجہ سے حاصل ہوتا ہے جو بعض لوگوں نے لكھا ہے كہ ''جحيم'' آگ كا ايك نام ہے_

۷ _ دوزخ، دہكتى اور شعلے نكالتى ہوئي آگ ركھتى ہے_ا ولئك ا صحب الجحيم

آيات الہي:ان كے خلاف سازش ۱; ان كے مقابلے كى سزا ۵

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے خلاف سازش ۱

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱

انبياء (ع) :ان كا انذار ۲

جہنم:اسكى آگ ۷ ;۱س ميں ہميشہ رہنے والے ۵; اسكے نام ۶; اسكى خصوصيات ۷

جحيم : ۶قرآن:اس كا آيت آيت ہونا ۴; اسكے خلاف سازش ۱; اسكى ساخت۴; يہ آيات الہى ميں سے ۳; اسكے مقابلے كى سزا ۵; اسكى خصوصيات ۴

كفار: ۲معاشرتى گروہ ۲

مؤمنين: ۲مشركين:صدر اسلام كے مشركين كى كوشش ۱; صدر اسلام كے مشركين كى سازش ۱

۵۷۲

آیت ۵۲

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ )

اور ہم نے آپ سے پہلے كوئي ايسا رسول يا نبى نہيں بھيجا ہے كہ جب بھى اس نے كوئي نيك آرزو كى تو شيطان نے اس كى آرزو كى راہ ميں ركاوٹ ڈال دى تو پھر خدا نے شيطان كى ڈالى ہوئي ركاوٹ كو مٹا ديا اور پھر اپنى آيات كو مستحكم بنا ديا كہ وہ بہت زيادہ جاننے والا اور صاحب حكمت ہے (۵۲)

۱ _ پيغمبران الہى دو قسم كے ہيں رسول اور نبى _و ما ا رسلنا من قبلك من رسول و لا بنى إلاّ إذا تمنى ا لقى الشيطان فى ا منيتّه (''تمنى '' كا مصدر) ''تمنى '' جب بھى كتاب اور اسكى مانند كى طرف مضاف ہو تو اس كا معنى ہوتا ہے تلاوت كرنا اور پڑھنا_ ''تمنى الكتاب'' يعنى اس نے نوشتے كو پڑھا (مختار الصحاح) مذكورہ آيت ميں ''تمنى '' كا مفعول محذوف ہے اور جملہ ''ثم يحكم الله آيتہ'' قرينہ ہے كہ يہ ''إذا تمنى آياتنا'' كى تقدير ميں ہے_ (''ا لقى '' كا مصدر) ''إلقائ'' جب بھى ''في'' كے ساتھ استعمال ہو تو اس كا معنى ہوتا ہے ركھنا پس مذكورہ جملے كا معنى يوں ہوگا ہم نے تجھ سے پہلے كسى رسول اور پيغمبر كو نہيں بھيجا مگر يہ كہ جب بھى اس نے ہمارى آيات كى تلاوت كى تو شيطان نے اسكى تلاوت ميں شبہہ ڈال ديا ہے_

۲ _ مقام رسالت كو نبوت پر برترى اور فضيلت_و ما ا رسلنا من قبلك من رسول و لا نبي

''رسول'' كے ''نبي'' پر مقدم ہونے سے مذكورہ مطلب حاصل ہوتا ہے_

۳ _ لوگوں كے سامنے آيات الہى كى تلاوت، پيغمبروں كى تبليغى روش ہے_و ما ا رسلنا من قبلك من رسول و لا نبى إلاّ إذا تمنّى فى ا مينته

۴ _ انبياء (ع) كى لوگوں كے سامنے آيات الہى كى تلاوت كے وقت شيطان كا شبہ ڈالنا_

و ما ا رسلنا من قبلك من رسول و لا نبى إلّا إذا تمنّى فى ا مينته

۵۷۳

۵ _ شيطان دھوكے باز اور گمراہ كرنے والا ہے_الا اذا تمنى القى الشيطان فى امنيته

۶_ انبياء (ع) كى طرف سے تلاوت كردہ آيات سے شيطانى وسوسوں اور شبہات كا زائل ہونا اور اردہ الہى سے ان كا محكم ہوجانا_فينسخ الله ما يلقى الشيطان ثم يحكم الله ء اى ته

(''ينسخ'' كے مصدر) نسخ كا معنى ہے زائل كرنا، باطل كرنا اور دور كرنا (''ينسخ'' كا مفعول) ''ما'' ان شبہات سے كنايہ ہے كہ جو انبياء (ع) كى طرف سے آيات الہى كى تلاوت كے وقت شيطان ان ميں ڈالتا تھا اور ''احكام'' كا معنى ہے محكم كرنا پس مذكورہ جملے كا معنى يہ ہوگا اس وقت خداتعالى شيطان كے شبہات كو زائل كرديتا اور ان شبہات كى وجہ سے آيات كے كمزور ہوجانے كے بعد انہيں محكم اور استوار كرديتا_

۷ _ پيغمبر اسلام(ص) كى طرف سے لوگوں كيلئے آيات الہى كى تلاوت كے وقت شيطان كا شبہہ ڈالنا _و ما ا رسلنا يلقى الشيطان فى ا منيته

۸ _ ايك طرف سے شيطان كو آيات وحى كے بارے ميں شكوك و شبہات پيدا كرنے كى سلسلے ميں آزاد چھوڑنا اور دوسرى طرف سے ان شبہات كو زائل كر كے آيات كو محكم كردينا خداتعالى كے علم و حكمت كا ايك جلوہ ہے_

ا لقى الشيطان و الله عليم حكيم

۹ _ خداوند متعال عليم (جاننے والا) اور حكيم (صاحب حكمت) ہے_و الله عليم حكيم

آيات الہي:ان كى تلاوت ۳، ۴

اسما و صفات:حكيم ۹; عليم ۹

انبياء (ع) :ان كى تبليغ ۴; انكى تبليغ كى روش ۳

آنحضرت(ص) :آپ كى تلاوت قرآن كى وقت شيطان ۷

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۶; اسكى حكمت كى نشانياں ۸; اسكے علم كى نشانياں ۸

رسالت:اسكے مقام كى فضيلت ۲

پيغمبران خدا:ان كى تبليغ كى روش ۳

۵۷۴

شيطان:اسكى آزادى ۸; اس كا گمراہ كرنا ۵; اسكى دھوكہ بازى ۵، ۷، ۸; اس كا شبہہ ڈالنا ۴، ۷، ۸

قرآن:اس كا محكم ہونا ۶; اس سے شبہات كو دور كرنا ۶، ۸; اس ميں شبہہ ڈالنا ۸

نبوت:اسكے مقام كى فضيلت ۲

آیت ۵۳

( لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ )

تا كہ وہ شيطانى القاء كو ان لوگوں كے لئے آزمائش بنا دے جن كے قلوب ميں مرض ہے اور جن كے دل سخت ہوگئے ہيں اور ظالمين يقينا بہت دور رس نافرمانى ميں پڑے ہوئے ہيں (۵۳)

۱ _ خداتعالى كى طرف سے آيات الہى كے بارے ميں شبہات پيدا كرنے كيلئے شيطان كو آزاد چھوڑنے كى حكمت يہ تھى كہ بيمار دل اور قسى القلب لوگ گمراہ ہوجائيں اور شيطان كے فتنوں كے جال ميں پھنس جائيں _

و ما ا رسلنا من قبلك ا لقى الشيطان فى ا منيته ليجعل و القاسية قلوبهم

''فتنة'' چند معنوں كو بيان كرنے كيلئے استعمال ہوتا ہے اسكے معانى ميں سے ايك كہ جس ميں يہ اس آيت ميں استعمال ہوا ہے_ اضلال اور گمراہ كرنا ہے پس مذكورہ جملے كا معنى يوں بنے گا ''تا كہ خدا اس چيز كو جو شيطان القاء كرتا ہے ان لوگوں كيلئے كہ جن كے دلوں ميں بيمارى ہے نيز ان لوگوں كيلئے كہ جو سنگدل ہيں گمراہى كا سامان قرار دے'' قابل ذكر ہے كہ گذشتہ آيت سے دو مطلب حاصل ہوتے ہيں _ ۱_ خداتعالى اجازت ديتا تھا تا كہ شيطان آيات وحى _ كہ جنكى انبيا(ع) ء تلاوت كرتے تھے_ ميں شبہ ڈالے ۲_ خداتعالى شيطان كے شبہات كو محو كرديتا اور اسے اپنى آيات كے چہرے سے زائل كرديتا_ مذكورہ آيت پہلے مطلب كى علت كو بيان كررہى ہے يعنى خداتعالى اسلئے آيات كى تلاوت ميں شيطان كو شبہہ ڈالنے كى اجازت ديتا تا كہ انہيں بيمار دل اور سنگ دل لوگوں كيلئے ضلالت اور گمراہى كا ذريعہ قرار دے_

۵۷۵

۲ _ بيمار دل اور قسى القلب ہونا، شيطان كے فتنوں اور دھوكوں ميں گرفتار ہونے كا مناسب سامان فراہم كرتا ہے_

ليجعل ما يلقى الشيطان فتنة و القاسية قلوبهم

۳ _ طول تاريخ ميں كفر و شرك كا محاذ، بيمار دل اور قسى القلب لوگوں سے تشكيل پاتا رہا ہے_

و ما أرسلنا من قبلك من رسول للذين فى قلوبهم مرض و القاسية قلوبهم

۴ _ بيمار دل اور سنگ دل افراد، ظالم اور غير منصف لوگ ہيں _للذين فى قلوبهم مرض و القاسية قلوبهم و إنّ الظلمين لفى شقاق بعيد ''ستمگروں '' سے مراد بيمار دل اور قسى القلب لوگ ہيں اور ''شقاق'' كا معنى ہے مخالفت اور دشمنى كرنا اور ''بعيد''، ''شقاق'' كى صفت اور دور دراز كے معنى ميں ہے يعنى يہ ستمگر گروہ حق كے ساتھ دور دراز دشمنى كرنے ميں ہيں مقصود يہ ہے كہ ان كے اور حق كے درميان فاصلہ اسقدر زيادہ ہے كہ ان كے حق كے ساتھ مخالفت اور دشمنى سے دست بردار ہونے كى كوئي اميد نہيں ہے در حقيقت يہ پيغمبراكرم(ص) كو ايك نصيحت ہے كہ ان سے اميد منقطع كرليں اور ان كے ايمان لانے كے ساتھ دل نہ لگائيں _

۵ _ صدر اسلام ميں پيغمبراكرم(ص) كے مخالفين ، بيمار دل، قسى القلب اور ستمگر لوگ تھے _ليجعل ما يلقى الشيطان و إنّ الظلمين لفى شقاق بعيد

۶ _ تاريخ كے غير منصف كفار، حق دشمن اور آيات وحى و انبيا(ع) ء الہى كے ساتھ كسى صورت ميں موافقت نہ كرنے والے لوگ تھے_و إنّ الظلمين لفى شقاق بعيد

۷ _ خداتعالى كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) كو نصيحت كہ وہ بيمار دل اور قسى القلب حق دشمنوں سے اميد منقطع كرليں اور ان كے ايمان لانے كے ساتھ دل نہ لگائيں _و ان الظلمين لفى شقاق بعيد

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كے مخالفين كے دل كى بيمارى ۵; آپ(ص) كى نصيحت ۷; آپ(ص) كے مخالفين كا ظلم ۵; آپ(ص) كے مخالفين كے دل كى قساوت ۵

آيات الہي:ان كے دشمن ۶/اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۵

انبياء (ع) :ان كے دشمن۶/دھوكہ كھانا:اس كا پيش خيمہ ۲

بيمار دل لوگ:ان كا دھوكہ كھانا ۱; انكى گمراہى كا پيش خيمہ ۱; انكا ظلم۴

شيطان:

۵۷۶

اسكے دھوكہ دينے كے اثرات ۲; اسكى آزادى كا فلسفہ ۱

ظالم لوگ۴:انكى حق دشمنى ۶; انكى دشمنى ۶

دل:اسكى بيمارى كے اثرات ۲; اسكى قساوت كے اثرات ۲

كفار:ان كے دل كى بيمارى ۳; انكى حق دشمنى ۶; انكى دشمنى ۶; ان كے دل كى قساوت ۳

مشركين:ان كے دل كى بيمارى ۳; ان كے دل كى قساوت ۳

نااميدي:بيماردلوں كے ايمان سے نااميدى ۷; حق دشمنوں كے ايمان سے نااميدى ۷; سنگدلوں كے ايمان سے نااميد ۷

آیت ۵۴

( وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُوا بِهِ فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ اللَّهَ لَهَادِ الَّذِينَ آمَنُوا إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )

اور اس لئے بھى كہ صاحبان علم كو معلوم ہو جائے كہ يہ وحى پروردگار كى طرف سے بر حق ہے اور اس طرح وہ ايمان لے آئيں اور پھر ان كے دل اس كى بارگاہ ميں عاجزى كا اظہار كريں اور يقينا اللہ ايمان لانے والوں كو سيدھے راستہ كى طرف ہدايت كرنے والا ہے (۵۴)

۱ _ ارادہ الہى كے ساتھ آيات وحى كے چہرے سے شيطانى شبہات كا زائل ہونا اس خاطر تھا تا كہ نعمت معرفت و دانش سے بہرہ مند لوگ اسكى حقانيت كو پاليں اور اطمينان خاطر كے ساتھ اس پر ايمان لائيں _

فينسخ الله ما يلقى الشيطان و ليعلم الذين أوتوا العلم فتخبت له قلوبهم

''أنّہ الحق'' كى ضمير كا مرجع قرآن ہے كہ جس كا ۵۲ نمبر آيت ميں ضمنى طور پر تذكرہ ہوچكا ہے (''تخبت'' كا مصدر) ''اخبات''، ''خبت'' سے مشتق ہے اور ''خبت'' اس وسيع اور ہموار زمين كو كہاجاتا ہے جس ميں نشيب و فراز نہ ہو ''قلب مخبت'' يعنى وہ دل جو مطمئن ، پر سكون اور شك و اضطراب سے خالى ہو_ مذكورہ آيت جملہ ''فينسخ الله ما يلقى الشيطان ...'' كى علت ہے يعنى خداتعالى آيات وحى سے شيطان كے شبہات كو زائل كرتا ہے تا كہ جو لوگ نعمت دانش سے بہرہ مند ہيں جان ليں كہ قرآن حق ہے اور پروردگار كى جانب سے نازل ہوا ہے اور اس سلسلے ميں ان كے دل مطمئن ہوجائيں _

۵۷۷

۲ _ نور دانش و معرفت، نعمت الہى اور خداد ادى قدر ہے_و ليعلم الذين اوتوا العلم

عبارت''الذين أوتوا العلم'' اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ علم و معرفت ايسى نعمت ہے جو خداتعالى كى طرف سے علماء كو دى گئي ہے_

۳ _ اہل دانش و معرفت، سالم اور نرم دل ركھتے ہيں _ليجعل للذين فى قلوبهم مرض و القاسية قلوبهم و ليعلم الذين اوتوا العلم

۵ _ دل كا سالم و نرم ہونا ،حق كى طرف مائل ہونے اور اسے قبول كرنے كا مناسب ذريعہ ہے_ليجعل للذين فى قلوبهم مرض و القاسية قلوبهم و ليعلم ألذين اوتوا العلم أنه الحق فتخبت له قلوبهم

۶ _ علم، دل و جان كى سلامتى او رجہل ،دل كى بيمارى اور قساوت قلبى كا سبب ہے_ليجعل للذين فى قلوبهم مرض و القاسية قلوبهم و ليعلم ألذين اوتوا العلم أنه الحق من ربك

۷ _ قرآن ايسى كتاب ہے جو حق كے ساتھ آميختہ اور ہر قسم كے باطل سے مبرّا ہے_أنه الحق

۸ _ قرآن ايسى كتاب ہے جو خداتعالى كى جانب سے نازل ہوئي ہے_أنه الحق من ربك

۹ _ خداتعالى ، انسانوں كا پرورگار ہے_أنه الحق من ربك

۱۰ _ خدا تعالى ،اہل ايمان كا رہنما ہے_و إن الله لهاد الذين أمنو

۱۱ _ قرآن، كتاب ہدايت ہے_انّه الحقّ من ربّك و انّ الله لهاد الذين ء امنوا إلى صراط مستقيم

۱۲ _ توحيد اور يكتا پرستي، راہ ہدايت اور صراط مستقيم ہے_أنه الحق من ربك و إن الله إلى صراط مستقيم

اقدار: ۲انسان:اس كا رب ۹

ايمان:حقانيت قرآن پر ايمان ۱

توحيد:اس كا معادى ہونا ۱۲

جہل:

۵۷۸

اسكے اثرات ۶

حق:اسے قبول كرنے كا پيش خيمہ ۵

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۱; اسكى ربوبيت ۹

شيطان:اسكے شبہہ ڈالنے كا غير مؤثر ہونا ۱

صراط مستقيم:اسكے موارد ۱۲

علم:اسكے اثرات ۶; اسكى قدر و قيمت ۲; اس كا سرچشمہ۲

علمائ:ان كے دل كا اطمينان ۱; ان كا ايمان ۱; ان كے دل كا نرم ہونا ۴; ان كے فضائل ۴; ان كا قلب سليم ۴

قرآن:اس كا منزہ ہونا ۷; اسكى حقانيت ۷; اس سے شبہے كو دور كرنے كا فلسفہ ۱; اس كا سرچشمہ ۷; اس كا وحى ہونا ۸; اسكى خصوصيات ۷، ۱۱; اس كا ہادى ہونا ۱۱; اسكى ہدايات ۱۰

قلب:اسكے نرم ہونے كے اثرات ۵; اسكى سلامتى كا پيش خيمہ ۶; اسكى قساوت كے عوامل ۶

مؤمنين:ان كا علم ۳; ان كے فضائل ۳; ان كى نعمتيں ۳; انكى ہدايت ۱۰

نعمت:علم والى نعمت ۲

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۹

آیت ۵۵

( وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ )

اور يہ كفر اختيار كرنے والے ہميشہ اس كى طرف سے شبہ ہى ميں رہيں گے يہاں تك كہ اچانك ان كے پاس قيامت آجائے يا كسى منحوس دن كا عذاب وارد ہوجائے (۵۵)

۱ _ صدر اسلام كے مشركين كا قرآن اور اسكے الہى ہونے كے بارے ميں شك و ترديد، گہرا اور ناقابل زوال تھا_و لايزال الذين كفروا فى مرية منه حتى تأتيهم الساعة

''كفروا'' كا متعلق محذوف ہے اور (سابقہ آيت ميں )''أنه الحق من ربك'' قرينہ ہے كہ يہ در اصل''كفروا بالقرآن'' ہے ''مرية'' فعل''امترى يمتري'' كا مصدر اور شك و ترديد كے معنى ميں ہے اور ''الساعة'' يعنى اس گھڑى اور يہ اشارہ ہے قيامت كے برپا ہونے اور لوگوں كے ميدان محشر ميں حاضر ہونے كى طرف _''بغت بغتة'' يعنى اچانك _

۵۷۹

۲ _ خداتعالى كى طرف سے پيغمبراكرم(ص) كو نصيحت كى گئي ہے كہ حق دشمن كافروں سے اميد منقطع كرليں اور ان كے ايمان لانے كے ساتھ اميد نہ باندہيں _حتى تأتيهم الساعة بغتة خداتعالى كا خبر دينا كہ پيغمبر اكرم(ص) كے مخالفين ہرگز قرآن پر ايمان نہيں لائيں گے ہوسكتا ہے پيغمبراكرم (ص) كو نصيحت كرنے كيلئے ہو كہ انہيں ان كے كفر و بے ايمانى ميں چھوڑ ديں اور ان كے قرآن و اسلام كى طرف آنے كى اميد نہ ركھيں _

۳ _ قيامت كا برپا ہونا اور لوگوں كا ميدان محشر ميں جمع ہونا، ايك اچانك اور حيران كردينے والا واقعہ ہے_حتى تأتيهم الساعة بغتة

۴ _ قيامت برپا ہونے كا وقت خداتعالى كے ہاں مشخص اور معين ہے_حتى تأتيهم الساعة بغتة ''ساعة'' كا الف و لام عہد كے ساتھ استعمال مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۵ _ صدر اسلام كافروں كو تہس نہس كردينے والے عذاب كى دھمكى _أو يأتيهم عذاب يوم عقيم

مذكورہ جملے ميں عذاب سے مراد مہلك عذاب ہے، ''عذاب'' كى يوم كى طرف اضافت ظرفيہ اور در اصل ''عذاب فى يوم عقيم'' ہے اور ''عقيم'' ،''يوم'' كى صفت اور بانجھ كے معنى ميں ہے اور ''يوم'' كى ''عقيم'' كے ساتھ توصيف اس لحاظ سے ہے كہ جس دن مہلك عذاب نازل ہوگا وہ كافروں كى زندگى كا آخرى دن ہوگا اور اسكے بعد ان كيلئے اور دن نہيں ہوگا_

۶ _ مہلك عذاب كے نازل ہونے كا دن كافروں كى زندگى كا آخرى دن ہوگا اور ان كا اس سے نجات حاصل كرنا ممكن ہے_أو يأتيهم عذاب يوم عقيم

۷ _ مہلك عذاب كافروں كے دلوں سے آيات الہى كى نسبت ہر قسم كے شك و ريب كو ختم كرديگا_او يأتيهم عذاب يوم عقيم ايمان:بے فائدہ ايمان ۸; يہ عذاب كے وقت ۸آيات الہي:ان سے شك كو دور كرنے كے عوامل ۷آنحضرت(ص) :آپ(ص) كو نصيحت ۲ڈرانا:مہلك عذاب سے ڈرانا ۵

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639