دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 262405
ڈاؤنلوڈ: 6008

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 262405 / ڈاؤنلوڈ: 6008
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 کو خداوند عالم جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ نے فرمایا کہ تم اس کی گواہی نہیں دیتے کہ بس معبود حقیقی اﷲ تعالی ہے اور محمد(ص) خدا کے بندے اور اس کے رسول(ص) ہیں اور جنت حق ہے، جہنم حق ہے، موت کے بعد پھر

زندہ ہونا حق ہے اور قیامت آکر رہے گی۔ کوئی شک و شبہ نہیں اس کے آنے میں اور یہ کہ خداوند عالم تمام قبروں سے مردوں کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا لوگوں نے کہا ہاں ہم گواہی دیتے ہیں اس(1) کی آںحضرت(ص) نے فرمایا

--------------

1ـ اس خطبہ کو ذرا غور سے ملاحظہ فرمائیے جو شخص بھی اس خطبہ کو گہری نظر سے دیکھے اور فکر و تامل سے کام لے اس پر یہ حقیقت اچھی طرح منکشف ہوجائے گی کہ ولایت امیرالمومنین(ع) اصول دین سے ہے جیسا کہ شیعوں کا مسلک ہے کیونکہ حضرت سرورکائنات(ص) پہلے پوچھتے ہیں کہ کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ کوئی معبود نہیں سوائے معبود حقیقی کے اور محمد خدا(ص) کے بندے ہیں اور اس کے رسول(ص) ہیں اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے اس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں اور خدا قبر سے مردوں کو نکالے گا۔ ان امور کے اقرار و اعتقاد کا سوال کرنے کے بعد ہی آپ نے ولایت کا تذکرہ فرمایا تاکہ ہر شخص سمجھ لے کہ اس کی بھی اہمیت ویسی ہی ہے جیسی مذکورہ بالا امور کی جب کے قائل و معتقد ہونے کے متعلق پیغمبر(ص) نے ابھی سوال کیا تھا۔ یہ بات ایسی واضح و ظاہر ہے کہ ہر وہ شخص جو اسلوب کلام اور مقصود کلام سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے سمجھ سکتا ہے۔

۳۰۱

: خداوندا تو بھی گواہ رہنا۔ پھر آپ نے فرمایا ، اے لوگو ! خداوندِ عالم میرا مولیٰ ہے اور میں تمام مومنین کا مولیٰ ہوں اور میں ان کی جانوں پر اس سے زیادہ قدرت و اختیار رکھتا ہوں۔(1) تو یاد رکھنا کہ جس جس کا میں مولیٰ و آقا ہوں۔ یہ یعنی علی(ع) بھی اس کے مولیٰ و آقا ہیں۔ خداوندا تو دوست رکھ اسے جو انھیں دوست رکھے اور دشمن رکھ اسے جو انھیں دشمن رکھے پھر آپ نے فرمایا : اے لوگو! میں تم سے پہلے پہنچنے والا ہوں اور تم بھی حوض کوثر پر آنے والے ہو۔ وہ ایسا حوض ہے جس کی چوڑان بصری سے صنعا تک کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ ہے۔ اس میں چاندی کے اتنے پیالے ہیں جتنے آسمان پر ستارے جب تم حوض کوثر پر میرے پاس پہنچو گے تو میں اس وقت تم سے ثقلین کے متعلق پوچھوں گا کہ میرے بعد تم نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ ثقل اکبر کتاب الہی ہے جس کا ایک کنارا خدا کے ہاتھوں میں ہے دوسرا تمھارے ہاتھوں میں لہذا مضبوطی سے پکڑے رہنا، گمراہ نہ ہونا نہ اس میں

--------------

1 ـ رسولص(ص) کا یہ فقرہ وانا اولیٰ لفظی قرینہ ہے کہ مولیٰ سے مراد اولیٰ ہے لہذا مطلب یہ ہوگا کہ خداوند عالم مجھ سے زیادہ قدرت و اختیار رکھتا ہے اور میں مومنین پر ان سے بڑھ کر قدرت و اختیار رکھتا ہوں اور میں جس جس کے نفس پر اس سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں۔ علی(ع) بھی اس پر اس سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں۔

۳۰۲

 تغیر و تبدل کرنا، دوسرے میرے عترت واہلبیت(ع) ہیں۔ ان کے متعلق خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ روز قیامت میرے پاس حوض کوثر پر پہنچیں۔”(1)

اور امام حاکم نے مستدرک کے باب مناقب(2) علی(ع) میں زید بن ارقم سے ایک حدیث دو طریقوں سے درج کی ہے اور ان دونوں طریقوں کو مسلم و بخاری کے شرائط و معیار پر صحیح قرار دیا ہے۔

امام بخاری و امام مسلم نے کسی روایت کی صحت کے لیے جو شرائط قرار دیے وہ تمام شرائط اس حدیث میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ:

“ رسول(ص) جب حجة الوداع سے فارغ ہوکر پلٹے تو مقام غدیر خم پر اتر پڑے اور کجادون کا منبر تیار فرما کر بالائے منبر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا : مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مجھے بلایا جارہا ہے اور میں جانے والا ہوں میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں جن میں ایک کا دوسرے سے بزرگ تر ہے۔

--------------

یہ زید بن ارقم سے روایت کردہ حدیث کی اصل عبارت ہے جو طبرانی ، ابن جریر اور حکیم و امام ترمذی نے اپنی حدیث کی کتابوں میں لکھی ہے۔ علامہ ابن حجر نے بھی اس حدیث کو طبرانی سے نقل کیا ہے اور اس کی صحت کو مسلمات میں قرار دیا ہے ملاحظہ فرمائیے صواعق صفحہ25۔

2ـ صفحہ 109 جلد3

۳۰۳

 ایک کتابِ خدا دوسرے میری عترت ۔اب دیکھنا ہے کہ میرے بعد تمھارا ان دونوں کے ساتھ کیسا سلوک رہتا ہے یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں۔”
پھر آپ نے فرمایا :

“أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ مَوْلَايَ وَ أَنَا مَوْلَى کل الْمُؤْمِنِين ثم اَخَذ بِيَد عَلِی(ع) فَقَالَ مَنْ‏ كُنْتُ‏ مَوْلَاهُ‏ فَهَذَا ولَيهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاه‏”

خداوند عالم میرا مولیٰ ہے اور میں ہر مومن کا مولیٰ ہوں۔ پھر آںحضرت(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا : جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ مولیٰ ہیں۔ خداوندا تو دوست رکھ اس کو جو ان کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو ان کو دشمن رکھے۔”

یہ پوری طولانی حدیث امام حاکم نے درج کی ہے اور علامہ ذہبی نے بھی تلخیص میں اس کو درج کیا ہے۔ اسی حدیث کو امام حاکم نے زید بن ارقم کے حالات(1) لکھتے ہوئے دوبارہ لکھا ہے اور اس کے صحیح ہونے کی وضاحت بھی کردی ہے ۔ علامہ ذہبی باوجود اپنے تشدد کے انھوں نے بھی تلخیص مستدرک کے اسی باب میں اس کو درج کیا ہے اور اس کے

--------------

1ـ جلد3 صفحہ 533

۳۰۴

صحیح ہونے کی صراحت کی ہے۔

اور امام احمد نے زید بن ارقم سے دریافت کر کے یہ حدیث لکھی ہے وہ فرماتے ہیں کہ :

“ ہم لوگ رسول(ص) کے ساتھ ساتھ ایک وادی میں اترے ۔ جسے وادی خم کہتے ہیں۔ آںحضرت(ص) نے نماز کا حکم دیا اور اسی دوپہر میں نماز ادا ہوئی۔ پھر آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا رسول(ص) کے لیے ایک درخت پر کپڑا ڈال کر سایہ کردیا گیا تھا خطبہ میں آپ نے ارشاد فرمایا :

“ الستم تعلمون اولستم تشهدون اني‏ أَوْلى‏ بکل مومن من نفسه قالوا: بلى، قال:فمن كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه‏”

“ کیا تم نہیں جانتے ، کیا تم نہیں گواہی دیتے کہ میں ہر مومن پر اس سے زیادہ تصرف و اقتدار رکھتا ہوں۔(1) لوگوں نے کہا بے شک۔ آپ نے فرمایا : تو جس کا میں مولیٰ ہوں علی(ع) اس کے مولیٰ ہیں۔ خداوندا تو دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو ان کو دشمن رکھے۔”

امام نسائی زید بن ارقم سے روایت کرتے ہیں۔ زید بن ارقم فرماتے

--------------

2ـ مسند جلد14 صفحہ372۔

۳۰۵

 ہیں(1) کہ رسول(ص) حج آخر سے فارغ ہوکر پلٹے اور مقام غدیر خم پر اترے ، وہاں آپ نے کجادوں کا منبر تیار کرایا جس پر جا کر ارشاد فرمایا :

كَأَنِّي قَدْ دُعِيتُ فَأَجَبْتُ، أَنِّي تاَرك فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الْآخَرِ، كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِّي فِيهِمَا فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، ثُمَّ قَالَ:إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ مَوْلَايَ وَ أَنَا مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ» ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ: مَنْ كُنْتُ وَلِيُّهُ فَهَذَا وَلِيُّهُ، ....

“ مجھے ایسا معلوم ہورہا ہے کہ میری طلبی ہے اور میں جانے والا ہوں، میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں جن میں ایک کا دوسرے سے بزرگ تر ہے، ایک کتاب خدا اور دوسرے میرے اہلبیت(ع) ۔ اب دیکھنا ہے کہ تم ان دونوں سے کیا طرز عمل اختیار کرتے ہو۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ خدا میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔ پھر آپ نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا : جس کا میں ولی ہوں علی(ع) اس کے

--------------

1ـ خصائص نسائی صفحہ21 جس موقع پر امام نسائی نے پیغمبر(ص) کا یہ ارشاد لکھا ہے :مَنْ كُنْتُ وَلِيُّهُ فَهَذَا وَلِيُّهُ ۔

۳۰۶

 ولی ہیں۔ خداوندا تو دوست رکھ اس کو جو ان کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو ان کو دشمن رکھے۔”

ابوالطفیل کہتے ہیں کہ میں نے زید سے پوچھا(1) کہ آپ نے خود رسول(ص) کو ایسا فرماتے ہوئے سنا ؟ زید نے جواب دیا : مجمع میں جتنے لوگ موجود تھے سب رسول(ص) کو  اپنی آںکھوں سے دیکھ رہے تھے اور اپنے کانوں سے آپ کا الفاظ سن رہے تھے۔

--------------

1ـ ابوالطفیل کا یہ سوال امت کے تعجب کا ظاہر کرتا ہے کہ باوجودیکہ امت اسلام غدیر کے دن امیرالمومنین(ع) کے متعلق پیغمبر(ص) کے ان ارشادات کو روایت کرتی ہے جمہور مسلمین بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے غدیر خم میں بالائے منبر علی(ع) کو مولیٰ فرمایا مگر باوجود ان احادیث کی روایت کے جمہور مسلمین نے علی(ع) کے ہاتھوں میں زمام حکومت نہ جانے دی اور دوسروں کو خلیفہ مقرر کر لیا اور گویا ابوالطفیل کو شک پیدا ہوا کہ امت اسلام ان احادیث کو جو روایت کرتی ہے تو واقعا یہ حدیثینں صحیح بھی ہیں یا یونہی وضع کر لی گئی ہیں اسی وجہ سے انھوں نے زید سے اس حدیث کو سن کر دریافت کیا کہ آیا آپ نے خود رسول(ص) سے یہ حدیث سنی ہے جیسے متحیر و متعجب حیران و سرگشتہ اور شک و شبہ میں مبتلا انسان جسے واقعیت و حقیقت کا پتہ چلانا دشوار ہوتا ہے سوال کرتا ہے اسی طرح ابوالطفیل نے سوال کیا تو زید نے جواب دیا کہ اس دم باوجود اس اژدھام اور انبوہ خلائق کے مجمع میں کوئی متنفس بھی ایسا نہ تھا جس نے رسول(ص) کو اپی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو اور اپنے کانوں سے یہ ارشاد فرماتے ہوئے نہ سنا ہو۔ زید کے جواب کو سننے کے بعد ابوالطفیل کو پتہ چلا کہ بات ٹھیک ہے اور ایسا ہی ہے جیساکہ کمیت نے کہا ہے ۔ کمیت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

وَ يَوْمَ الدَّوْحِ دَوْحِ غَدِيرِ خُمٍ‏

 أَبَانَ لَنَا الْوَلَايَةَ لَوْ أُطِيعَا

 غدیر خم کے میدان میں حضرت سرورکائنات(ص) نے آپ کی خلافت کا اعلان کیا۔ کاش پیغمبر(ص) کی بات مانی جاتی

وَ لَكِنَّ الرِّجَالَ تَبَايَعُوهَا

فَلَمْ أَرَ مِثْلَهَا أَمْراً شَنِيعاً

            لیکن لوگوں نے اس خلافت کو بذریعہ بیعت طے کیا۔                     میں نے ایسی اہم بات پر بیعت ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔

                 وَ لَمْ أَرَ مِثْلَ ذَاكَ الْيَوْمِ يَوْماً

 وَ لَمْ أَرَ مِثْلَهُ حَقّاً أُضِيعَا

             نہ تو غدیر کے جیسا اہم دن میں نے دیکھا                             اور نہ ایسا حق کبھی ضائع ہوتے دیکھا۔

۳۰۷

امام مسلم نے بھی اس حدیث کو باب فضائل امیرالمومنین(ع) میں زید بن ارقم سے متعدد(1) طریقوں سے نقل کیا لیکن انھوں نے عبارت مختصر اور قطع و برید کر کے لکھی ہے  اور یہ کوئی نئی بات نہیں( این گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند)

امام احمد نے براء بن عازب کی حدیث دو طریقوں سے لکھی ہے۔

براء بن عازب(2) کہتے ہیں کہ :

“ ہم لوگ رسول(ص) کے ہمراہ تھے۔ اثناء راہ میں مقام غدیر خم پر ہم لوگ اترے۔ نماز با جماعت کا اعلان ہوا ، درختوں پر چادر تان کر رسول(ص) کے لیے سایہ کیا گیا۔ آپ نے ظہر کی نماز پڑھی اور پھر حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر مجمع سے خطاب کیا:

“ الستم تعلمون اني‏ أَوْلى‏ بالمومنين من انفسهم قالوا: بلى، قال: الستم تعلمون اني‏ أَوْلى‏ بکل مومن

--------------

1ـ صفحہ 325 ج2

2ـ مسند ج 1 صفحہ 281

۳۰۸

 من نفسه قالوا: بلى قال: فاخذ بيد علی، فقال : فمن كنت مولاه فعلي مولاه”

“ کیا تم نہیں جانتے کہ میں مومنین کی جانوں پر ان سے زیادہ قدرت و اختیار رکھتا ہوں ۔ لوگوں نے کہا: بے شک ، آپ نے پھر پوچھا: کیا تم جانتے کہ میں ہر مومن کی جان کا ان سے زیادہ مالک ہوں، لوگوں نے کہا : بے شک ، تو آپ نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ۔ جس جس کا میں مولیٰ ہوں علی(ع) اس کے مولیٰ ہیں۔ خداوندا تو دوست رکھ اس کو جو ان کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو ان کو دشمن رکھے۔”

براء بن عازب کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت عمر، حضرت علی(ع) کی ملاقات کو آئے اور کہا:

“ مبارک ہو آپ کو اے علی(ع) ابن ابی طالب ، آپ ہر مومن و مومنہ کے مولیٰ ہوگئے۔”

امام نسائی عائشہ بنت سعد(1) سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ :

“ میں نے اپنے باپ کو کہتے سنا وہ کہتے تھے کہ مین نے یوم جحفہ رسول(ص) سے سنا۔ رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑا اور خطبہ ارشاد فرمایا جس میں بعد حمد و ثناء الہی کے ارشاد فرمایا:

“ أيّها الناس! إنّي‏ وليّكم‏.قالوا: صدقت يا رسول اللّه. ثمّ رفع بيد عليّ عليه السلام فقال:هذا وليّي، و يؤدّي عنّي

--------------

1ـ خصائص نسائی صفحہ 4 و صفحہ25۔

۳۰۹

ديني، و أنا موال من والاه، و معاد من عاداه.”

“ اے لوگو ! میں تمھارا ولی ہوں، لوگوں نے کہا: بے شک یا رسول اﷲ(ص) آپ سچ فرماتے ہیں۔ پھر آپ نے حضرت علی(ع) کو اونچا کر کے فرمایا کہ یہ میرے ولی ہیں اورمیرے مرنے کے بعد میرے دیوان ادا  کریں گے۔ جو ان کو دوست رکھے گا اس کا میں دوست ہوں اور جو ان کو دشمن رکھے گا۔ اس کا میں دشمن ہوں۔”

انھیں سعد(1) سے یہ حدیث بھی مروی ہے ۔ سعد کہتے ہیں کہ “

“ ہم رسول(ص) کے ساتھ تھے جب آپ مقام غدیر خم پر پہنچے لوگوں کو ٹھہرایا ، جو آگے بڑھ چکے تھے ان کو واپس بلایا۔ جو پیچھے تھے ان کا انتظار کیا جب سب جمع ہوگئے تو آپ نے ارشاد فرمایا :

“يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ‏ وَلِيُّكُمْ‏ قَالُوا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ ثم اخذ بيد علی فاقامه، ثم قال من کان اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وليه فهذا وليه،  اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاه‏”

“ اے لوگو! تمھارا ولی کون ہے؟ لوگوں نے کہا : کہ اﷲ اور اس کا رسول(ص) ۔ یہ سنکر آپ نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑکر انھیں کھڑا کیا اور ارشاد فرمایا ۔ اﷲ و رسول(ص) جس کے ولی ہیں یہ بھی اس کے ولی ہیں۔ خداوندا ! تو دوست

--------------

1ـ خصائص نسائی صفحہ25۔

۳۱۰

 رکھ اس کو جو ان کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو ان کو دشمن رکھے۔”

واقعہ غدیر کے متعلق بے حدو حساب حدیثیں موجود ہیں اور وہ سب کی سب صریحی نصوص ہیں اس بارے میں کہ حضرت علی(ع) ـآپ کے ولی عہد تھے اور آپ کے بعد آپ کے جملہ امور کے مالک و مختار بھی آپ ہی تھے جیسا کہ فضل بن عباس ابن ابی لہب کا ایک شعر بھی ہے

و كان‏ ولىّ‏ العهد بعد محمّد

علىّ و في كلّ المواطن صاحبه‏(1)

“ رسول(ص) کے ولی عہد علی ابن ابی طالب(ع) ہیں اور ہر مقام پر آپ کے رفیق کار بھی ۔”

                                                                     ش

--------------

1ـ خصائص نسائی صفحہ21 جس موقع پر امام نسائی نے پیغمبر(ص) کا یہ ارشاد لکھا ہے من کنت ولیہ فہذا ولیہ۔__

۳۱۱

مکتوب نمبر28

بالاتفاق تمام حضرات شیعہ مسئلہ خلافت میں جن احادیث سے استدلال کرتے ہیں ان احادیث کا متواتر ہونا بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔ بس ان ہی حدیثوں سے کام لیتے ہیں جو حدِ تواتر پر پہنچی ہوئی ہوں کیونکہ امامت حضرات شیعہ کے یہاں اصول دین سے ہے۔

لہذا آپ اس حدیث غدیر سے کیوں استدلال فرمارہے ہیں؟ کیونکہ اگر یہ حدیث حضرات اہل سنت کے یہاں صحیح طریقوں سے ثابت و مسلم بھی ہے تو متواتر قطعا نہیں۔

                                                                     س

۳۱۲

جوابِ مکتوب

حدیثِ غدیر کا تواتر اور اس کی غیر معمولی اہمیت

ہم جن وجوہ سے اس حدیث کو استدلال میں پیش کرتے ہیں وہ م 12 پر تفصیلا ہم بیان کرچکے ہیں براہ کرم ایک نظر پھر دیکھ جائیے۔

اس کے علاوہ حدیث غدیر کا متواتر ہونا تو ایسا یقینی امر ہے جس مین کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں۔ اس کے توتر پر انسانی فطرت گواہ ہے فطرت کے اصول شاہد ہیں جس طرح دنیا کے اور بہت سےعظیم ترین تاریخی واقعے جو اپنے مخصوص حالات و کیفیات کی وجہ سے نسلا بعد نسل تازہ رہے ہر زمانہ و ہر دور میں لوگوں کی زبان پر جن کا تذکرہ رہا اسی طرح بالکل واقعہ غدیر خم ہے جس میں بانی اسلام نے انتہائی اہتمام فرمایا جس کی اہمیت جتلانے کے لیے غیر معمولی سازو سامان کیا۔ مختلف ملکوں ، دور و دراز مقامات کے لاکھوں آدمیوں کے مجمع میں دوپہر کا وقت ، گرمی کی شدت، عرب کا بیابان تپتی زمین جہاں ببول کے درکتوں کے علاوہ کسی درخت کا سایہ بھی نہیں۔ ایسے مقام پر آپ منزل فرماتے ہیں۔ پیچھے آنے والوں کا انتظار فرماتے ہیں۔ آگے چلے جانے والوں کو الٹے پیروں واپس بلاتے ہیں جب سب اکٹھا ہولیتے ہیں تو کجادوں کا منبر تیار کیا جاتا ہے۔ آپ بالائے منبر تشریف لے جاتے ہیں۔ جمع مین بے چینی ہے۔ ایک اضطراب ہے سبب کھلتا نہیں کہ آخر یہ بے منزل کی منزل کیسی؟ یہ اتنی تیاری کس

۳۱۳

مقصد کے لیے؟ مگر راز کھلتا نہیں، سب کی آنکھیں رسول(ص) کے چہرے پر جمی ہوئی ہیں، سب کے کان آپ کی آواز پر لگے ہوئے، رسول(ص) منبر پر پہنچ کر فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرماتے ہیں ۔ اس کے بعد سارے مجمع سے اپنے مالک و مختار ہونے کا اقرار لیتے ہیں۔ تمام مجمع سے آواز بلند ہوتی ہے۔ کہ بے شک آپ ہماری جانوں پر ہم سے زیادہ قدرت و اختیار رکھتے ہیں۔ اس اقرار لینے کے بعد آپ حضرت علی(ع) کو منبر پر اپنے برابر کھڑا کرتے ہیں۔ تمام مجمع کو دکھا کرفرماتے ہیں کہ جس جس کامیں مولیٰ ہوں اس کے یہ مولیٰ ہیں ۔ یہ سارا اہتمام اور اتنے عظیم الشان مجمع میں رسول(ص) کے اس اعلان سے مقصود صرف یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ علی(ع) کے جانشین ہونے سے واقف ہوجائیں اور اپنے اپنے مقام پر پہنچ کر ہر شخص دوسروں کو اس کی خبر دے تاکہ وہ سپیدہ سحر کی طرح بحرو بر میں پھیل جائے۔

لہذا جو واقعہ اتنی اہمیت کا حامل ہو، جس میں اتنا اہتمام کیا جائے تو کیا اسے اخبار احاد میں شمار کیا جائے گا؟ ایسے واقعہ کے متعلق یہ بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایک دو آدمی اس کے راوی ہیں۔ اس واقعہ کی خبر تو یوں دنیا میں پھیلی ہوگی جیسے طلوع آفتاب کے وقت آفتاب کی کرنیں چپہ چپہ کو منور کر دیتی ہیں۔ خشکی و تری دونوں میں اجالا پھیل جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث غدیر سرچشمہ عنایات الہی ہے۔ نمونہ ہے اس کے لطف و کرم کا۔ سموکر نازل فرمایا ۔ وہ کلام مجید جس کی تلاوت صبح و شام اہلِ اسلام جسے خلوت و جلوت میں اپنے اوراد و وظائف ہیں، نمازوں میں، منبروں پر، مناروں پر پڑھتے ہیں۔

۳۱۴

يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ”

 “ اے رسول(ص) پہنچا دو اس چیز کو جو(1) تم پر نازل کی گئی اور اگر تم نے نہ پہنچایا تو گویا تم نے کار رسالت ہی انجام نہیں دیا ڈرو  نہیں۔ خدا تم کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔”

--------------

1ـ اس آیت کا بروز غدیر خم ولایت امیرالمومنین(ع) کے متعلق نازل ہونا شیعوں کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ اس باب میں جو روایتیں ائمہ طاہرین(ع) سے مروی ہیں وہ متواتر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حضرات اہل سنت کی روایتوں سے اس کا ثبوت چاہتے ہیں۔ تو ملاحظہ فرمائیے وہ حدیث جو امام واحدی نے سورہ مائدہ کی اس تفسیر میں کتاب اسباب النزول صفحہ150 پر دو معتبر طریقوں سے روایت کی ہے۔ عطیہ جناب ابوسعید خدری صحابی پیغمبر(ص) سے ناقل ہیں کہ یہ آیت یا ایہا الرسول بلغ بروز غدیر خم علی بن ابی طالب کےمتعلق نازل ہوئی اسی مضمون کی حدیث حافظ ابونعیم نے اپنی کتاب نزول القرآن میں سندوں سے روایت کی ہے ایک ابوسعید سے دوسرے ابو رافع سے نیز علامہ حموینی شافعی نے اپنی کتاب فرائد السمطین میں متعدد طریق سے روایت کیا ہے۔ ابو اسحاق ثعلبی نے بھی اپنی تفسیر کبیر میں اس آیت کے متعلق اسی مضمون کی حدیث درج کی ہے۔ مزید برآں قابل غور ہے یہ امر کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ہی نماز رائج ہوچکی تھی، زکوة فرض ہوچکی تھی، روزے رکھے جارہے تھ، ہر سال حج بھی کیا جاتا تھا۔ شریعت کے احکام مدون ہوچکے تھے۔ اب سوائے پیغمبر(ص) کی جانشینی کے اعلان کے کون  سی بات ایسی باقی بچ رہی تھی۔ جس کے لیے خداوند عالم کی تاکید اتنے شدید پیمانہ پر ہوئی اور اتنے سخت و شدید الفاظ استعمال کیے گیے جو دھمکی سے مشابہ تھےوَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ ۔ اگر تم نے اے رسول(ص) یہ بات لوگوں تک نہ پہنچائی تو تم نے کار رسالت انجام ہی نہ دیا۔ اور خلافت کے سوائے کون سی ایسی بات ہوسکتی ہے جس کے اظہار سے پیغمبر(ص) اتنے ہراساں تھے فتنہ و فساد کا اندیشہ لاحق تھا قلبِ پیغمبر(ص) کو اور اس کے اعلان کے بعد پیغمبر(ص) خداوند عالم کی حمایت و حفاظت کے محتاج تھے۔

۳۱۵

اور جب رسول(ص) نے وہ پیغام پہنچا دیا ۔ بھرے مجمع میں علی(ع) کے امام اور اپنے جانشین ہونے کا اعلان کردیا ۔ تو خداوند عالم آیت نازل فرمائی:

 “الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً(1) ( المائدة : 3)

“ آج کے دن ہم نے تمھارے لیے تمھارے دین کو کامل کیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کیں اور دین اسلام کو تمھارا دین بننا پسند کیا۔”

جو شخص بھی ان آیا ت کا مطالعہ کرے ، غور و فکر سے کام لے تو خداوند عالم کی ان عنایات ومنت ہائے بے پایان پر سرجھکا کر رہے گا۔

جبکہ توجہ الہی اس مسئلہ پر اس حد تک تھی تو تعجب نہیں ہے رسول(ص) کے سامنے یہ مسئلہ انتہائی اہمیت کے ساتھ آیا ہو اس لیے کہ جب آںحضرت(ص)

--------------

1ـ ہمارے یہاں کی صحیح حدیثیں روز غدیر اس آیت کے نازل ہونے کے متعلق ائمہ طاہرین(ع) کے اسناد سے متواتر ہیں اگر چہ بخاری نے زمانہ نزول یوم عرفہ لکھا ہے مگر گھر والے گھر کی بات سے زیادہ واقف ہوتے ہیں۔

۳۱۶

 کی وفات کا وقت پہنچا اور آپ کو اندازہ ہوگیا کہ اب زندگی کے دن تھوڑے رہ گئے تو آںحضرت(ص) نے بحکم خدا طے کیا کہ حج اکبر کے موقع پر بھرے مجمع میں علی(ع) کی ولایت و جانشینی کا اعلان کردیا جائے۔ گو اس سے پہلے آپ ہر موقع و محل پر اعلان فرماچکے تھے۔ اول اول جب اعلان رسالت فرمایا تھا اسی وقت علی(ع) کی جانشینی کا اعلان بھی کردیا تھا۔ اس کے بعد جب بھی موقع ملا اعلان فرماتے رہے جیسا کہ ہم گزشتہ اوراق میں بیان کر چکے ہیں لیکن ان اعلانات کو آپ نے کافی نہیں سمجھا۔ آپ نے منادی کرادی کہ ہم اس سال حج آخری کرنے والے ہیں۔

رسول(ص) کے اس اعلان سے ظاہر ہے جو قدرتا نتیجہ مرتب ہوا ہوگا۔ ہر گوشہ سے مسلمان سمٹ کر آگئے کہ رسول(ص) کےساتھ اس عبادت میں شرکت کا ثواب حاصل کریں۔ رسول(ص) ایک لاکھ سے زیادہ(1) مسلمان کے ہمراہ مدینہ سے نکلے ۔ جب عرفات کا دن آیا تو آپ نے تمام مسلمانوں سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا:

 “ علی (ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں میرے امور یا تو

--------------

1ـ زینی و حلان نے ( باب حجة الوداع ) میں لکھا ہے کہ حضرت کے ساتھ مدینے سے ایک لاکھ چوبیس ہزار آدمی نکلے ۔ اس سے زیادہ تعداد بھی بتائی جاتی ہے۔ یہ شمار ان لوگوں کا ہے جو مدینہ سے حضرت کے ساتھ ہوگئے تھے اور ان کا شمار جنھوں نے حضرت کے ساتھ حج کیا اس سے بھی زیادہ ہے  اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حج سے پلٹنے والوں کی  تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی اور ان سب نے حدیث غدیر سنی۔

۳۱۷

 میں خود ادا کرسکتا ہوں یا علی(ع)”(1)

اور جب آپ ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کےہمراہ حج کر کے پلٹے اور وادی خم میں پہنچے اور روح الامین آیہ بلغ لے کر آپ کی خدمت میں نازل ہوئے، آپ وہاں اتر پڑے ، منزل فرمائی، جولوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ آپہنچے اور جو آگے بڑھ گئے تھے وہ لوٹ آئے۔ جب سب اکٹھا ہوئے آپ نے نماز جماعت پڑھائی پھر بالائے منبر جاکر خطبہ ارشاد فرمایا اور صاف صاف کھلے لفظوں میں حضرت علی(ع) کی جانشینی و خلافت کا اعلان فرمایا ۔ جس کی قدرے تفصیل آپ سن چکے ہیں اور آپ کے اس اعلان کو مجمع کے تمام مسلمانوں نے بھی سنا جو ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھے اور مختلف مقامات کے رہنے والے تھے۔

لہذا خداوندِ عالم کا وہ طریقہ جو اس کی مخلوقات میں جاری و ساری ہے جس میں کبھی تغیر و تبدل نہیں ہوتا اس کا تقاضہ یہی ہے کہ حدیث غدیر متواتر ہی ہو خواہ نقل میں کیسے ہی موانع ہوں۔ مزید برآں اتمہ طاہرین(ع) نے بڑے حکیمانہ انداز سے اس کی نشر و اشاعت فرمائی۔

حدیث غدیر کے متواتر ہونے کا اندازہ آپ ایک اسی واقعہ سے کیجیے کہ جب امیرالمومنین(ع) نے  اپنے زمانہ خلافت میں کوفہ کے میدان رحبہ میں لوگوں کو جمع کیا اور ارشاد فرمایا کہ :

“ میں قسم دیتا ہوں کہ ہر وہ مسلمان جس نے یوم غدیر خم رسول(ص)

--------------

1ـ ملاحظہ ہو م24 جہاں ہم نے یہ حدیث حوالہ کے ساتھ درج کی ۔ اس حدیث پر جو تبصرہ ہم نے کیا ہے وہ خاص طور پر قابل غور ہے۔

۳۱۸

 کو بالائے منبر اعلان فرماتے سنا ہو کھڑا ہوجائے اور جو کچھ رسول(ص) کو کہتے سنا ہو اس کی گواہی دے ، لیکن وہی کھڑا ہو جس نے اپنی آنکھوں سے غدیر خم میں رسول(ص) کو دیکھا اور اپنے کانوں سے رسول(ص) کو کہتے سنا ہو۔”

حضرت کے اس قسم دینے پر 30 صحابی اٹھ کھڑے ہوئے جن میں صرف 12 تو وہ تھے جو غزوہ بدر میں بھی شریک رہ چکے تھے۔ ان سب نے گواہی دی کہ اس روز رسول(ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا:
“ کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں مومنین پر ان سے زیادہ قدرت و اختیار رکھتا ہوں۔؟ لوگوں نے کہا: بے شک یا رسول اﷲ(ص) ، آپ نے فرمایا : میں جس جس کا مولیٰ ہوں، یہ علی(ع) بھی اس کے مولیٰ ہیں۔ خداوندا تو دوست رکھ اس کو جو ان کو دوست رکے اور دشمن رکھ اس کو جو ان کو دشمن رکھے۔”
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ 30 صحابیوں کو جھوٹ پر اتفاق کر لینا عقلا کس قدر ناممکن ہے لہذا صرف انھیں 30 صحابیوں کی گواہی کو اگر لیا جائے تو اس حدیث کا متواتر ہونا قطعی و یقینی طور پر ثابت و مسلم ہے۔
پھر اس حدیث کو ان 30 صحابیوں سے مجمع کے ان تمام لوگوں نے سنا جو میدان رحبہ میں اکٹھا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنے اپنے مقام پر جاکر ہر شہر و ہر قریہ میں اسے بیان کیا۔ ہر شخص سے نقل کیا اور حدیث کی پوری پوری اشاعت ہوئی۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ رحبہ کا واقعہ زمانہء خلافت امیرالمومنین(ع) میں پیش آیا۔
۳۱۹

امیرالمومنین(ع) کی بیعت سنہ35ھ میں ہوئی اور واقعہ غدیر سنہ10 ھ میں پیش آیا۔ ان دونوں کی درمیانی مدت کم سے کم پچیس (25) برس ہوتی ہے اور اسی پچیس برس میں عمواس کا طاعون بھی آیا اور بہت سی لڑائیاں اور فتوحات بھی خلفاء ثلاثہ کے زمانہ میں پیش آئیں۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس اتنی طولانی مدت میں جو ایک جوتھائی صدی کے برابر تھی جس میں نہ جانے کتنی لڑائیاں ہوئیں، کتنے فتنہ و فساد اور تباہ کاریوں کا سامنا ہوا اور طاعونِ عمواس کی وبا پھیلی ۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ واقعہ غدیر میں شریک اشخاص اپنی موت مرچکے ہوں گے۔ کتنے نوجوان شوق جہاد میں میدان کارزار کام آئے ہوں گے۔ مرنے والوں کی بہ نسبت زندہ رہنے والوں کی کتنی مختصر تعداد ہوگی اور جو زندہ بھی رہے ہوں گے۔ وہ ایک جگہ تو ہوں گے نہیں۔ متفرق مقامات پر منتشر ہوں گے۔ کوئی کہیں ہوگا کوئی کہیں ( کیونکہ رحبہ میں تو وہی لوگ آئے ہوں گے  جو امیرالمومنین(ع) کے ہمراہ عراق میں موجود تھے) باوجود ان سب باتوں کے امیرالمومنین(ع) کے کہنے پر 30 صحابی اٹھ کھڑے ہوئے جن صرف 12 تو بدری تھے  اور ان سب نے گواہی دی کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے رسول(ص) کو منبر پر دیکھا اور اپنے کانوں سے رسول(ص) کو یہ حدیث ارشاد فرماتے سنا۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ واقعہ غدیر کے شاہد صرف یہی تیس(30) صحابی نہ رہے ہوں بلکہ ان کے علاوہ اور بھی کچھ افراد اس مجمع میں موجود ہوں۔ مگر وہ اپنے بغض و کینہ کی وجہ سے نہ اٹھے نہ گواہی دی جیسے انس بن مالک(1)

--------------

1ـ حضرت امیرالمومنین(ع) نے انس سے فرمایا کیوں ؟ تم بھی دیگر اصحاب پیغمبر(ص) کی طرح بروز غدیر پیغمبر(ص) کے ارشادات جو تم نے سنے ہیں کھڑے ہو کر کیوں نہیں اس اسکی گواہی دیتے؟ انھوں نے کہا حضور میں بڈھا ہوگیا ہوں پوری طرح یاد بھی نہیں رہا۔ امیرالمومنین(ع) نے فرمایا : اگر تم نے یہ جھوٹ بولا ہے تو خدا تمھیں ایسا سپید داغ لگا دے جس کو عمامہ بھی چھپاسکے۔ انس ابھی اٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ ان کا چہرہ برص کی وجہ سے سپید ہوگیا۔ اس واقعہ کے بعد انس کہا کرتے تھے اصابتنی دعوة العبد الصالح ۔ نیک بندے ( امیرالمومنین) کی بد دعا مجھے لگ گئی۔ یہ پورا واقعہ ابن قتیبہ نے معارف صفحہ194 پر درج کی اہے اما احمد نے مسند جلد1 صفحہ19 پر جو روایت درج کی ہے اس سے بھی اس واقعہ پر روشنی پڑتی ہے۔ اس روایت کے الفاظ ہیں: فقاموا الا ثلاثہ لم یقوموا فاصابتہم  دعوتہ ۔ امیرالمومنین(ع) کے فرمانے پر تمام صحابہ نے اٹھ کر گواہی دی۔ تین شخص نہ اٹھے وہ آپ کے بد دعا کا شکار ہوئے۔          

۳۲۰