دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)9%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272406 / ڈاؤنلوڈ: 6392
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

فطر بن خلیفہ حناط کوفی

عبداﷲ بن احمد نے اپنے والد امام احمد حنبل سے فطر کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا :

             “ثقة صالح  الحديث ، حديثة حديث رجل کيس الا ان ه يتشيع ۔”

             “ فطر ثقہ ہیں، صالح الحدیث ہیں۔ ان کی حدیثیں زیرک و دانا لوگوں جیسی ہیں لیکن یہ کہ وہ شیعہ تھے۔”

ابن معین کا قول ہے کہ فطر بن خلیفہ ، ثقہ اور شیعہ ہیں۔ صحٰیح بخاری و سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ253ھ میں انتقال کیا۔

م :

 ابوغسان مالک بن اسماعیل بن زیاد بن درہم کوفی

امام بخاری کے شیخ ہیں۔ ابن سعد طبقات جلد6 صفحہ 272 پر ان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں کہ

“ ابو غسان ثقہ اور صدوق اور بڑے شیدید قسم کے شیعہ تھے”

علامہ ذہبی نے بھی ان کی عدالت و جلالت قدر پر روشنی ڈالی ہے اور وضاحت کی ہے کہ انھوں نے مذہب تشیع اپنے استاد حسن صالح سے حاصل کیا۔ اور ابن معین کہا کرتے کہ کوفہ میں ابو غسان جیسا ٹھوس آدمی نہیں ۔ ابوحاتم بھی ان کے متعلق یہی رائے رکھتے تھے۔ امام بخاری نے

۱۴۱

بلاواسطہ ان سے متعدد حدیثیں روایت کی ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ 219ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن خازم

جو ابو معاویہ ضریر تمیمی کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

“ یہ بڑے ثقہ، ٹھوس اور یکے از ائمہ اعلام تھے۔ میری دانست میں کسی نے بھی ان کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں کہی جو ان کی شان کے منافی ہو۔”

امام حاکم فرماتے ہیں کہ ان کی حدیثوں سے بخاری و مسلم دونوں نے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے ۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ بڑے غالی شیعہ تھے۔ ان کی حدیثوں سے جملہ ارباب صحاح ستہ نے احتجاج کیا ہے اور  سبھی صحاح میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ112ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ195ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن عبداﷲ نیشاپوری مشہور بہ امام حاکم

یہ بزرگ حفاظ و محدثین کے امام اور سینکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں تحصیل علم کی خاطر ملک ملک کے سفر کیے اور دو ہزار شیوخ حدیث سے احادیث کا استفادہ کیا۔ ان کے زمانہ کے مرجع انام علمائے اعلام جیسے صعلو کی امام ابن فورک اور دیگر جمیع ائمہ اعلام انھیں اپنے سے مقدم و بہتر سمجھتے تھے اور آپ کے علم وفضل کا  لحاظ رکھتے تھے ۔ معزز و محترم ہونے کے معترف اور بے شک و شبہ امام سمجھتے تھے۔ ان کے بعد کے جتنے محدثین ہوئے وہ سب آپ کے

۱۴۲

خواں علم کے زلہ خوار ہیں۔ بزرگ اکابر شیعہ اور شریعت مصطفوی کے حافظوں میں سے تھے۔ جیسا کہ علامہ ذہبی کی تذکرة الحفاظ میں صراحت موجود ہے نیز میزان الاعتدال میں بھی بسلسلہ حالات امامِ موصوف تصریح ہے ۔ سنہ 321ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ405ھ میں انتقال کیا۔

محمد بن عبیداﷲ بن ابی رافع مدنی

ان کا پورا خاندان شیعہ تھا۔ ان کے خاندان والوں کی تصانیف دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حضرات شیعیت میں کتنے راسخ اور ثابت قدم تھے۔ محمد بن عبیداﷲ کو ابن عدی نے کوفہ کے سربرآوردہ شیعوں میں شمار کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال علامہ ذہبی۔

ترمذی و دیگر اصحاب سنن نے ان کی حدیثیں  اپنے صحاح میں درج کی ہیں۔ طبرانی نے اپنی معجم کبیر میں بسلسلہ اسناد محمد بن عبیداﷲ سے اور انھوں نے اپنے باپ دادا کی وساطت سے حضرت پیغمبر خدا(ص) کی یہ حدیث روایت کی ہے کہ آنحضرت(ص) سے حضرت علی(ع) سے ارشاد فرمایا :

“ کہ سب سے پہلے ہم اور تم اور حسن(ع) و حسین(ع) جنت میں جائیں گے ہمارے پیچھے ہم لوگوں کی اولاد رہے گی اور ہم لوگوں کے شیعہ ہمارے دائیں اور بائیں رہیں گے۔”

ابوعبدالرحمن محمد بن فضیل بن غزوان کوفی

ابن قتیبہ نے اپنی معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ابن سعد نے اپنی طبقات جلد6 صفحہ271 پر ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

۱۴۳

“ کہ یہ ثقہ ، صدوق اور اکثر الحدیث ہیں۔ یہ شیعہ تھے۔ بعض علماء ان کی حدیثوں سے احتجاج نہیں کرتے ۔”

علامہ ذہبی نے انھیں میزان میں کئی جگھوں پر صدوق اور شیعہ لکھا ہے۔ امام احمد نے ان کے متعلق فرمایا کہ ان کی حدیثیں پاکیزہ ہیں اور یہ شیعہ ہیں۔

امام ابو داؤد نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ بڑے سخت و شدید شیعہ تھے۔ حدیث و معرفت والے ہیں اور حمزہ  سے انھوں نے علم قرآن حاصل کیا۔ ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام احمد و نسائی نے ان کی حدیثوں  میں کوئی مضائقہ نہیں دیکھا۔ ان کی حدیثوں صحیح بخاری و مسلم اور دیگر صحاح میں موجود ہیں۔

محمد بن مسلم بن طائفی

یہ امام جعفر صادق(ع) کے سربرآودہ اصحاب میں سے تھے۔ شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی نے اپنی کتاب رجال الشیعہ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ حسن بن حسین بن داؤد نے ثقہ لوگوں کے سلسلہ میں ان کا ذکر کیا ہے۔

علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں بکثرت جلیل القدر محدثین اہلسنت کے اقوال ان کے ثقہ ہونے کے متعلق نقل کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم میں موجود ہیں۔

محمد بن موسیٰ بن عبداﷲ الفطری المدنی

ابو حاتم نے ان کے شیعہ اور ترمذی نے ان کے ثقہ ہونے کی صراحت کی صراحت کی ہے( میزان الاعتدال علامہ ذہبی) ان کی حدیثیں صحیح مسلم و دیگر سنن

۱۴۴

 میں موجود ہیں۔

معاویہ بن عمار دہنی بجلی کوفی

یہ بزرگ علمائے  امامیہ کے نزدیک بھی بڑے معزز و محترم اور علمائے اہلسنت کے نزدیک بھی بڑے ثقہ، عظیم المرتبت اور جلیل القدر میں انے کے والد عمار حق پروری، حق کوشی کا بہترین نمونہ تھے۔ شیعیت کے جرم میں دشمنانِ آل محمد(ص) نے ان کے پیر قطع کردیے تھے۔ بیٹا وہی، قدم بہ قدم ہو جو باپ کے۔ معاویہ بھی اپنے باپ کی مکمل شیبہ تھے۔ امام جعفر صادق(ع)  و موسیٰ کاظم(ع) کی صحبت میں رہے اور آپ کے علوم کے حامل ہوئے۔ آپ کی حدیثیں صحیح مسلم میں موجود ہیں۔

معروف بن خربوذ کرخی

ذہبی نے میزان الاعتدال میں انھیں صدوق و شیعہ لکھا ہے۔ نیز یہ کہ بخاری و مسلم اور ابو داؤد نے ان کی حدیثٰیں اپنے صحاح میں درج کی  ہیں۔ ابن خلسکان نے وفسیات الاعیان میں امام علی رضا(ع) کے موالی میں انھیں ذکر کیا ہے صحیح مسلم میں ان کی حدثیں موجود ہیں۔ سنہ200ھ میں بغداد میں انتقال فرمایا۔ ان کی قبر زیارت گاہ عوام خواص ہے۔ سری سقطی مشہور مشہور صونی ان کے تلامذہ میں سے تھے۔

منصور بن المعتمر بن عبداﷲ بن ربیعہ کوفی

امام محمد باقر(ع) و امام جعفر صادق(ع) کے اصحاب سے تھے۔ جیسا کہ صاحبِ

۱۴۵

منتہی المقال نے وضاحت کی ہے۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ یہ وہی منصور ہیں جن کے متعلق جوزجانی کا یہ فقرہ ہے کہ

“ کوفہ کچھ ایسے افراد تھے کہ لوگ ان کے عقائد کو ناپسند سمجھتے تھے مگر ان کی بیان کردہ حدیثوں کو ان کی غیر معمولی صداقت ودیانت کی وجہ سے آنکھوں پر رکھا جیسے ابو اسحاق، منصور ، زبیدیامی اور اعمش وغیرہ۔۔۔۔”

جملہ ارباب صحاح و سنن نے ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے صحیح بخاری و مسلم سب ہی میں ان کی حدیثوں موجود ہیں۔

مہنال بن عمرو تابعی

کوفہ کے مشہور شیعوں میں سے تھے۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم و بخاری میں موجود ہیں۔

موسیٰ بن قیس حضرمی

ان کی کنیت ابو محمد تھی۔ عقیلی نے انھیں غالی رافضیوں میں شمار کیا ہے ان سے سفیان نے حضرت علی(ع) اور ابوبکر کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا کہ علی(ع) مجھ کو بہت زیادہ محبوب ہیں۔

موسیٰ نے بسلسلہ اسناد جناب ام سلمہ زوجہ پیغمبر(ص) سے روایت کی ہے کہ جناب ام سلمہ(رض) فرمایا کرتیں کہ علی(ع) حق جپر ہے جو علی(ع) کی پیروی کرے گا وہی حق پر ہوگا۔ اور جس نے علی(ع) کو چھوڑا اس نے حق کو چھوڑا۔

موسیٰ نے فضائل اہبیت(ع) میں بہت سی صحیح حدیثیں روایت کی ہیں جو عقیلی

۱۴۶

 پر شاق گزریں اور انھیں غالی رافضیوں میں قرار دیا۔

ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام ابی داؤد اور دیگر اصحابِ سنن نے ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے۔ ان کی حدیثیں سنن میں موجود ہیں۔

ن :

 ابو داؤد نفیع بن حارث نخعی کوفی

عقیلی ان کے متعلق کہتے ہیں کہ رفض میں بہت غلو سے کام لیتے تھے بخاری فرماتے ہیں کہ لوگ ان کے متعلق لب کشائی کرتے ہیں۔ ( ان کی شیعیت کی وجہ سے) ان سب کے باوجود محدثین علماء نے ان سے استفادہ کیا اور ان کی حدیثوں سے کام لیا۔ ان کی حدیثیں جامع ترمذی میں موجود ہیں۔

نوح بن قیس بن رباح الحدانی

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ صالح الحدیث ہیں۔

امام احمد و ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ شیعیت کی طرف مائل تھے۔

نسائی نے فرمایا کہ ان میں کوئی مضائقہ نہیں۔

مسلم و دیگر اصحاب سنن نے ان کی حدیثیں اپنے صحاح میں درج کی ہیں۔

۱۴۷

ھ :

 ہارون بن سعد عجلی کوفی

ذہبی ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ فی نفسہ صدوق ہیں لیکن سخت قسم کے رافضی ہیں۔ ابن معین ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ بڑے غالی شیعہ تھے۔ صحیح مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ابو علی ہاشم بن برید کوفی

ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اس اقرار کے ساتھ کہ وہ رافضی تھے امام احمد نے ان کی حدیثوں میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا ۔ ان کی حدیثیں سنن ابی داؤد ، سنن نسائی میں موجود ہیں۔ یہ ہاشم مشہور شیعہ گھرانے کے فرد تھے جیسا کہ علی بن ہاشم، کے  حالات میں ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔

ہیبرہ بن بریم حمیری

امیرالمومنین(ع) کے صحابی ہیں۔ امام احمد ان کی حدیثوں میں کوئی مضائقہ نہیں تصور فرماتے۔ شہرستانی نے ملل ونحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے ان کا شیعہ ہونا مسلمات سے ہے۔ سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ابوالمقدام ہشام بن زیاد بصری

شہرستانی نے ملل و نحل میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ ان کی

۱۴۸

حدیثیں صحیح ترمذی وغیرہ میں موجود ہیں۔

ابوالولید ہشام بن عمار بن نصیر بن میسرہ

انھیں  ظفری دمشقی بھی کہتے ہیں۔ امام بخاری کے شیخ ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔ ذہبی نے انھیں امام ، خطیب ، محدث، عالم، صدوق، بہت زیادہ حدیثوں کا راوی لکھا ہے بخاری نے صحیح میں بہت سی حدیثیں ان سے بلاواسطہ روایت کی ہیں۔ سنہ153ھ میں پیدا ہوئے۔ سنہ245ھ میں انتقال کیا۔

ہیشم بن بشیر بن قاسم بن دینار سلمی واسطی

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔امام احمد اور ان کے ہمعصر علما کے استاد ہیں۔ ذہبی نے انھیں حفاظ اور یکے از علمائے اعلام لکھا ہے۔ ان کی حدیثیں صحیح بخاری و مسلم اور باقی سبھی صحاح میں موجود ہیں۔

و :

  وکیع بن جراح بن ملیح بن عدی

ان کی کنیت ابوسفیان تھی۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں قرار دیا ہے۔

ابن مدینی نے بھی تہذیب میں ان کی شیعیت کی صراحت کی ہے مروان بن معاویہ ان کےشیعہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں کرتے۔ ان کی حدیثوں سے

۱۴۹

 جملہ ارباب صحاح ستہ نے احتجاج کیا ہے۔ صحیح مسلم وغیرہ سبھی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ی :

 یحیٰ بن جزار عرفی کوفی

یہ امیرالمومنین(ع) کے صحابی ہیں۔ علامہ ابن سعد نے طبقات جلد6 صفحہ206 میں انھیں شیعہ لکھا ہے۔ نیز یہ کہ یہ شیعیت میں غلو کیا کرتے تھے اور محدثین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اور انھوں نے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں۔

ذہبی نے انھیں صدوق اور ثقہ لکھا ہے ۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم و دیگر سنن میں موجود ہیں۔

یحیٰ بن سعید قطان

ان کی کنیت ابوسعید تھی اپنے زمانہ کے محدث ہیں۔ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ جملہ ارباب صحاح ستہ نے ان کی حدیثوں سے احتجاج کیا ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور سبھی صحاح میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

یزید بن ابی زیاد کوفی

ابن فضیل ان کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ یہ کبار علماء شیعہ سے ہیں

۱۵۰

 ذہبی نے بھی لکھا ہے کہ یہ کوفہ کے مشہور علماء میں سے ہیں۔ مگر لوگوں نے ان سے تعصب برتا جس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے بسلسلہ اسناد ابوبرزہ یا ابو بردہ سے روایت کی ہے کہ :

“ ہم لوگ پیغمبر(ص)  کے ساتھ تھے کہ پیغمبر(ص) نے گانے کی آواز سنی پتہ چلا کہ معاویہ اور عمرو بن العاص گارہے ہیں۔ اس پر پیغمبر(ص) نے بد دعا فرمائی کہ خداوندا! دونوں کو فتنہ میں اچھی طرح مبتلا کر اور آتش جہنم کی طرف بلا۔”

صحیح مسلم و سنن اربعہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ نوے (90) برس کی عمر میں سنہ136ھ میں انتقال کیا۔

ابو عبداﷲ جدلی

ذہبی نے انھیں شدید سخت شیعہ لکھا ہے۔ جوزجانی نے ان کے متعلق بیان کیا ہے کہ یہ مختار کے علمدار لشکر تھے۔ امام احمد انھیں ثقہ قرار دیتے ہیں۔ شہرستانی نے بھی ملل و نحل میں شیعہ لکھا ہے۔

ابن قتیبہ نے معارف میں غالی ، رافضی ذکر کیا ہے۔ ان کی حدیثیں جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد اور دیگر سنن و مسانید میں موجود ہیں۔ علامہ ابن سعد نے طبقات جلد6 صفحہ 159 پر انھیں شدید التشیع شیعہ لکھا ہے نیز کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مختار کے سپاہیوں کے افسر تھے۔ مختار نے انھیں عبداﷲ بن زبیر کی طرف آٹھ سوسپاہیوں کے ساتھ روانہ کیا تاکہ ابن زبیر سے جنگ کر کے محمد ابن حنفیہ کو ان کی قید سے نکال لیں۔ ابن زبیر نے محمد ابن حنفیہ اور بنی ہاشم کو محصور کر رکھا تھا اور لکڑیاں اکٹھی کی تھیں کہ

۱۵۱

 انھیں جلا ڈالیں کیونکہ ان لوگوں نے ابن زبیر کی بیعت سے انکار گیا تھا۔ ابو عبداﷲ جدلی نے پہیچ کر ان حضرت کو رہا کیا۔

یہ سنیکڑوں میں سے چند نام نے درج کیے ہیں۔ یہ لوگ علوم اسلام کے خزینہ دار ہیں۔ ان سے آثار نبوی(ص) محفوظ ہوئے اور ان پر صحاح وسنن ومسانید کامدار رہا ہے۔

ہم نے آپ کو خواہش کے مطابق ان کے متعلق علمائے اہلسنت کی توثیق اور ان سے احتجاج کو بھی ذکر کیا۔ اس سے آپ رائے میں ضرور تبدیلی ہوگی کہ اہل سنت رجال شیعہ سے احتجاج نہیں کرتے۔ اگر شیعوں کی حدیثیں صرف ان کے تشیع کے تشیع کے جرم میں رد کردی جائیں تو جیسا کہ ذہبی نے میزان میں ابان بن تغلب کے ذکر میں کہا ہے۔ کل آثارِ نبوی ضائع و برباد ہوجائیں۔

ان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے شیعہ ہیں جن سے اہل سنت نے احتجاج کیا ہے اور وہ ان سے بھی سند کے اعتبار سے اور کثرتِ حدیث سے زیادہ کشادہ دامن اور علم کے اعتبار سے  زیادہ وسیع النظر تھے اور زمانے کے لحاظ سے ان سے بھی مقدم تھے اور ان سے بھی زیادہ ان کے قدم تشیع میں راسخ تھے اصحاب رسول(ص) میں بڑی تعداد رجال شیعہ کی ہے جنھیں ہم نے فصول مہمہ کے آخر میں بیان کیا ہے تابعین میں ایسے حافظ و صدوق و ثقہ شیعہ ہیں جو محبت اہلبیت(ع) کی قربانی پر بھینٹ چڑھتے رہے۔ جنھیں جلا وطن کیا گیا۔ سزائیں دی گئیں۔ قتل کیا گیا۔ سولیاں دی گئیں۔ اور جو علوم و فنون کے موسس و موجد ہوئے۔ یہ صدوق و دیانت ورع و تقوی زہد و عبادت و اخلاص کے روشن سنارے تھے۔ اور ان سے دین الہی کو لامتناہی فائدے پہنچے۔ اور ان کی خدمات کی برکتوں سے اسلام کا بحر بے کنار آج بھی موجزن ہے۔

                                                             ش

۱۵۲

مکتوب نمبر9

تسلیم !

میں نے آپ ایسا تازہ دم سریع الخاطر و زود فکر نہیں دیکھا اور نہ میرے کانوں نے آپ سے زیادہ صاحب بصیرتِ شخص کا ذکر سنا۔ آپ کی نرم گفتاری، شیریں بیانی قابل داد ہے۔ آپ کےکل مکاتیب میں آپ کو شیوا بیانی دامن دل کو کھینچتی ہے۔ آپ دل و دماغ ، ہوش و حواس پر چھا جاتے ہیں۔ آپ کی مدلل و سنجیدہ تحریر نے گردنیں جھکادیں اور ضلالت کو حق کے سامنے سرنگوں کر دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ سنی کے لیے کوئی مانع نہیں ہے کہ اپنے شیعہ بھائی سے احتجاج کرے جبکہ شیعہ معتبر ہو۔ لاریب اس موضوع میں آپ کی رائے حق و صداقت پر مبنی ہے منکر کی رائے عناد و تنگ ولی ہے۔

۱۵۳

ہم کل آیات الہی پر ایمان لائے اور ان اکثر آیات الہی پر بھی ایمان لائے جن میں سے اکثر کو آپ نے ذکر کیا ہے جو امیرالمومنین(ع) اور ائمہ اہل بیت(ع) کے فضل و شرف پر دلالت کرتی ہیں۔ اﷲ ہی جانے کہ اہل قبلہ نے ائمہ اہل بیت(ع) سے کیوں بے اعتنائی کی؟ اور اصول وفروع میں ان کے مسلک سے دورہے اور اختلافی مسائل میں ان کے پیرو نہ ہوئے ۔ علمائے امت نے اہل بیت(ع) کا افکار و خیالات سے بحث نہ کی بلکہ بجائے ان کی تقلید کے ان سے معارضہ کرتے رہے اور ان کی مخالفت کی پروانہ کی اور سلف سے لے کر خلف تک عوام امت، غیر اہلبیت(ع) کے آستانوں پر نظر آئے۔ لہذا کلام مجید کی آیتیں اور صحیح اور مسلم الثبوت حدیثیں اگر ائمہ اہلبیت(ع) اطاعت و پیروی کے واجب و فرض ہونے کے متعلق نص صریح ہوتیں تو جمہور اہل سنت کو پیروی اہلبیت(ع) کے سوا چارہ کارہی نہ ہوتا۔ اور ائمہ اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر وہ کسی کو اپنا مقتدا پیشوا بنانا پسندی ہی نہیں کرتے لیکن وہ آیات الہی اور احادیث پیغمبر(ع) کو سمجھتے نہٰیں۔ وہ ان آیات اور ان احادیث کو جن میں اہل بیت(ع) کے شرف وکمال کو بیان کیا گیا ہے، صرف مدح و ثنا سمجھے اور یہ کہ ان سے محبت رکھنا اور ان کی عزت و تعظیم کرنا واجب ہے ان کے نزدیک ان آیات و احادیث کا ماحصل یہ ہے کہ اہل بیت(ع) سے مودت و محبت و اخلاص واجب ہے اور ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اگر آیات قرآن مجید و احادیثِ پیغمبر(ص) میں تصریح ہوتی کہ بس ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی فرض ہے تو اہلِ قبلہ علمائے اہلبیت سے انحراف نہ کرتے۔ اور نہ بجائے ان کے کسی دوسرے کی طرف رجوع کرتے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اگلے بزرگ زیادہ صحیح سمجھنے والے تھے اور کتاب الہی واحادیث پیغمبر(ص) کا مطلب آج کل کے لوگوں سے بہتر سمجھتے تھے۔

                                                             س

۱۵۴

جواب مکتوب

اس ناچیز سے آپ کے حسنِ ظن کا شکریہ۔ آپ کے لطف وعنایات کے سامنے میرا دل جھکا جاتا ہے اور آپ کی مہربانی و حق جوئی کی بیبت مجھ پر مسلط ہے لیکن میں آپ سے یہ گزارش کرنے کی اجازت  چاہتا ہوں کہ آپ اپنے مکتوب پر نظر ثانی کریں جس میں آپ لکھا ہے کہ اہل قبلہ نے اہل بیت(ع) سے عدول کیا۔ یہ لفظ زیادہ وسیع استعمال ہوگیا۔ اہل قبلہ تو شیعہ بھی ہیں انھوں نے ابتدا سے آج تک اصول و فروع کسی چیز میں اہل بیت کے مسلک سے انحراف نہیں کیا۔ شیعہ تو مسلک اہل بیت(ع) پر عمل واجب سمجھتے ہیں۔ اہل بیت(ع) سے عدول رؤسا ملت نے کیا جب کہ نص کے ہوتے ہوئے صاف صاف تصریح خلافت و امامت کے متعلق ہوتے ہوئے امیرالمومنین(ع) کو حق خلافت سے محروم کیا گیا اور اصول و فروع میں اہل بیت(ع) کو چھوڑ کر دوسرے مرکز بنائے گئے اور کتاب وسنت کی مصالح کے لحاظ  سے تاولیں کی گئیں۔ امامت ائمہ سے عدول کرنا ہی سبب ہوا کر فروع میں بھی ان سے علیحدگی اختیار کی جائے۔

قطع نظر کیجیے ان ںصوص و ادلہ سے جن سے اہل بیت(ع) سے تمسک کرنا وا جب ثابت ہوتا ہے صرف اہلبیت(ع) کے علم و عمل اور تقوی کو دیکھیے۔ امام اشعری اور ائمہ اربعہ کے مقابلہ میں ان کی کیا کمی پائی گئی کہ اطاعت و اتباع کے معاملہ میں اہل بیت(ع) پیچھے کردیے گئے۔ اور یہ افراد قابل ترجیح سمجھے گئے۔ کون سامحکمہ اںصاف ہے جو یہ فیصلہ کرے کہ اہل بیت(ع) سے تمسک کرنے والے ان کی ہدایات پر چلنے والے گمراہ ہیں۔ اہل سنت کے لیے ایسا فیصلہ ناممکن معلوم ہوتا ہے۔

                                                                     ش

۱۵۵

مکتوب نمبر10

واقعہ یہ ہے کہ پیروانِ اہلبیت(ع) کو از روئے عدل و اںصاف گمراہی کہا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ائمہ اہلبیت(ع) دیگر ائمہ سے لائق پیروی و اقتدا ہونے میں کسی طرح کم تھے۔ جس طرح اربعہ میں سے کسی امام کی تقلید کر کے انسان بری الذمہ ہوسکتا ہے اسی طرح ائمہ اہلبیت(ع) کی پیروی کرکے بھی۔

بلکہ یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ ائمہ اہلبیت(ع) بہ نسبت ائمہ اربعہ وغیرہ کے اتباع و پیروی کے زیادہ سزاوار ہیں۔ اس لیے ائمہ اثنا عشر کا مسلک و مذہب اصول و فروع سب میں ایک ہے ان میں باہم کوئی اختلاف نہیں۔ سب کی نگاہ ایک ہی مرکز پر کرکوز ہوئی اور اسی پر سب کے سب متفق رہے۔ برخلاف ائمہ اربعہ وغیرہ کے کہ ان کا باہمی اختلاف دنیا جانتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ بارہ شخص غور و فکر کر کے ایک نتیجہ پر پہنچیں ایک رائے قائم کریں اور اکیلا شخص دوسری

۱۵۶

رائے قائم کرے تو بارہ(12) کے متفقہ فتوی کے مقابلہ میں سے اس ایک اور اکیلے کا فتوی کوئی وزن نہ رکھے گا۔

اس میں کسی منصف مزاج کو عذر ہونا چاہیے۔

ہاں ایک بات ہے ناصبی خیال کے آگ آپ لوگوں کے مذہب کو مذہب اہلبیت( ع) ماننے میں تامل کرتے ہیں۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ آگے چل کر اس پر روشی ڈالیں کہ مذہب تشیع مذہب اہلبیت(ع) ہی ہے انھیں حضرات سے ماخوذ ہے ۔ فی الحال میری گزارش ہے کہ آپ لوگ حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت پر جن نصوص کے مدعی ہیں وہ نصوص صاف صاف ذکر فرمائیں۔

                                                                     س

۱۵۷

باب دوم

امامت عامہ یعنی خلافتِ پیغمبر(ص) 

جوابِ مکتوب

اگر سرورِ کائنات (ص) کے حالاتِ زندگی کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے۔ دولتِ اسلامیہ کی بنیاد قائم کرنے۔ احکام مقرر کرنے ، اصول و قواعد بنانے۔ دستور مرتب کرنے، سلطنت کے انتظام اںصرام غرض جملہ حالات میں ہر پہلو سے آپ کی سیرت کا جائزہ لیا جائے تو حضرت امیرالمومنین(ع) رسالت ماب(ص) کے ہر معاملہ میں بوجھ بٹانے والے ، دشمنون کے مقابلہ میں پشت پناہ آپ کے علوم  کا گنجینہ ، آپ کے علم و حکمت کے وارث ، آپ کی زندگی میں آپ کے ولی عہد اور آپ کے بعد آپ کے جانشین، اور آپ کے تمام امور کے ممالک و مختار نظر آئیں گے۔

اول یوم بعثت سے پیغمبر(ص) کی رحلت کے وقت تک سفر میں، حضر میں

۱۵۸

اٹھتے بیٹھے ، آپ کے افعال ، آپ کے اقوال کی چھان بین کی جائے۔ تو حضرت علی(ع) کی خلافت کے متعلق بکثرت صاف و تصریح حد تواتر تک پہنچے ہوئے واضح نصوص ملیں گے۔ آںحضرت(ص) نے ہر محل پر اپنی رفتار و گفتار ، کردار اور ہر ممکن ذریعہ سے اپنی جانشینی کے مسئلہ کی وضاحت کردی تاکہ کسی کے لیے تامل کی گنجائش نہ رہ جائے ۔

دعوت عشیرہ کے موقع پر پیغمبر(ص) کا خلافت امیرالمومنین(ع) پر ںص فرمایا

پہلا واقعہ دعوت ذوالعشیرہ ہی کا لے لیجیے جو اسلام کے ظاہر ہونے کے قبل مکہ میں پیش آیا جب آیہ

“      وَ أَنْذِرْ عَشيرَتَكَ الْأَقْرَبينَ ” ( شعراء، 214)

نازل ہوا اور رسول(ص) مامور ہوئے کہ خاص خاص رشتہ داروں کو بلا کر دعوتِ اسلام دیں۔ تو حضرت سرورکائنات نے تمام بنی ہاشم کو جو کم بیش چالیس نفر تھے جس میں آپ کے چچا ابو طالب ، حمزہ ، عباس اور ابولہب بھی تھے اپنے چچا ابو طالب کے گھر میں دعوت دی۔ دعوت کے بعد آپ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ تمام کتبِ احادیث  و سیر و تواریخ میں موجود ہے۔ اسی خطبہ میں آپ نے فرمایا :

 “ فَقَالَ: يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي وَ اللَّهِ مَا أَعْلَمُ شَابّاً فِي الْعَرَبِ جَاءَ قَوْمَهُ بِأَفْضَلَ مِمَّا جِئْتُكُمْ بِهِ، إِنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِخَيْرِ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ، وَ قَدْ أَمَرَنِي اللَّهُ (عَزَّ وَ جَلَّ) أَنْ أَدْعُوَكُمْ إِلَيْهِ، فَأَيُّكُمْ يُؤْمِنُ بِي وَ يُؤَازِرُنِي عَلَى أَمْرِي، فَيَكُونَ أَخِي وَ وَصِيِّي وَ وَزِيرِي وَ خَلِيفَتِي فِي أَهْلِي مِنْ بَعْدِي قَالَ: فَأَمْسَكَ الْقَوْمُ، وَ أَحْجَمُوا عَنْهَا جَمِيعاً.

۱۵۹

 قَالَ: فَقُمْتُ وَ إِنِّي لَأَحْدَثُهُمْ سِنّاً، وَ أَرْمَصُهُمْ عَيْناً، وَ أَعَْمُهُمْ بَطْناً، وَ أَحْمَشُهُمْ سَاقَا. فَقُلْتُ: أَنَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَكُونُ وَزِيرَكَ عَلَى مَا بَعَثَكَ اللَّهُ بِهِ. قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِي ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هَذَا أَخِي وَ وَصِيِّي وَ وَزِيرِي وَ خَلِيفَتِي فِيكُمْ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَ أَطِيعُوا.قَالَ: فَقَامَ الْقَوْمُ يَضْحَكُونَ، وَ يَقُولُونَ لِأَبِي طَالِبٍ: قَدْ أَمَرَكَ أَنْ تَسْمَعَ لِابْنِكَ وَ تُطِيعَ.”

“ فرزندانِ عبدالمطلب ! جتنی بہتر شے( یعنی اسلام ) میں تمھارے پاس لے کر آیا ہوں میں تو نہیں جانتا کہ عرب کا کوئی نوجوان اس سے بہتر چیز اپنی قوم کے پاس لایا ہو۔ میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی لے کر آیا ہوں اور خداوند عالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف دعوت دوں۔ اب بتاؤ تم میں کون ایسا ہے جو اس کام میں میرا بوجھ بٹائے تاکہ تمھارے درمیان میرا بھائی وصی اور خلیفہ ہو؟ تو علی(ع) کے سوا سب خاموش رہے۔ حضرت علی(ع) جو اس وقت بہت ہی کم سن ننھے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا : یا رسول اﷲ(ص) ! میں آپ کا بوجھ بٹاؤں گا۔ رسول اﷲ(ص) نے آپ کی گردن پر ہاتھ رکھا اور پورے مجمع کو دکھا کر ارشاد فرمایا: کہ یہ میرا بھائی بنے میرا وصی ہے اور تم میں میرا جانشین ہے۔ اس کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔ یہ سن کر لوگ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوطالب سے کہنے لگے کہ یہ محمد(ص) آپ کو حکم دے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

 وغیرہ ۔ جس کے نتیجہ میں وہ بد دعائے امیرالمومنین(ع) کا شکار ہوئے۔ غرضیکہ باوجود ان سب باتوں کے ۳۰ صحابی اٹھ کھڑے ہوئے اور گواہی دی اگر امیرالمومنین(ع) کو موقع ملتا کہ آپ اس محل پر رحبہ کے دن ہر بقید حیات مرد و زن ، ہر صنف کے اصحاب کو اکٹھا کر سکتے ۔ اور ان کو ویسی ہی قسم دیکر گواہی طلب کرتے جیسی آپ نے رحبہ میں قسم دے کر گواہی مانگی تھی تو نامعلوم ایسے کتنے تیس گواہی دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ یہ خیال تو رحبہ کے دن کے متعلق ہے جو واقعہ غدیر کے پچیس برس گزرنے کے بعد ہوا۔

اب ذرا سوچیے کہ اگر امیرالمومنین(ع) کو ایسا موقع سرزمین حجاز پر ملتا اور واقعہ غدیر کو اتنی مدت نہ گزری ہوتی جتنی رحبہ

۳۲۱

کے دن تک گزر چکی تھی اور آپ اسی طرح قسم دے کر لوگوں سے  گواہی طلب کرتے تو اس صورت میں کتنے لوگ اٹھ کھڑے ہوتے اور گواہی دیتے۔

آپ اسی پر اچھی طرح غور کریں تو اسی ایک واقعہ کو حدیث غدیر کے تواتر کی قوی ترین دلیل پائیں گے۔ واقعہ رحبہ کے متعلق جو روایات کتب احادیث وسنن میں موجود ہیں انھیں بھی ذرا دیکھیے۔

چنانچہ امام احمد نے مسند جلد۴ صفحہ۳۷۰ پر زید بن ارقم کی حدیث ابوطفیل سے روایت کر کے لکھی ہے، ابوطفیل فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین(ع) نے رحبہ میں لوگوں کو جمع کر کے  ارشاد فرمایا :

“ کہ ہر مرد مسلم کو جس نے رسول(ص) کو غدیر خم میں ارشاد فرماتے سنا ہو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اٹھ کھڑے ہو۔”

آپ کے اس قسم دینے پر ۳۰ افراد اٹھ کھڑے ہوئے۔ امام احمد کہتے ہیں کہ ابونعیم کا بیان ہے کہ بہت سے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے اس موقع پر چشم دید گواہی دی۔ جب رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر خطاب کیا تھا کہ:

“ کیا تم جانتے ہو کہ میں مومنین سے زیادہ ان کے نفوس پر قدرت و اختیار رکھتا ہوں؟ سب نے کہا: بیشک یا رسول اﷲ(ص)، آںحضرت(ص) نے فرمایا : تو جس جس کا میں مولیٰ ہوں علی(ع) اس کے مولیٰ ہیں۔ خداوندا ! تو دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے۔ اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے۔”

ابوطفیل کہتے ہیں کہ میں رحبہ سے نکلا اور میرے دل میں بڑا خلجان

۳۲۲

 تھا( آخر جمہور مسلمین نے اس حدیث پر کیوں عمل نہیں کیا ) میں زید بن ارقم کی خدمت میں پہنچا اور ان سے رحبہ کا واقعہ بیان کیا کہ حضرت علی(ع) کو میں نے ایسا ایسا کہتے سنا۔ زید بن ارقم نے جواب میں کہا کہ :

“ تم اسے غلط نہ سمجھنا میں نے خود بھی رسول(ص) کو ایسا کہتے سنا ہے۔”

میں کہتا ہوں کہ زید بن ارقم کی گواہی کو رحبہ میں امیرالمومنین(ع) کے بیان کے ساتھ ملایا جائے تو اس حدیث کے ۳۲ گواہ ہوجاتے ہیں۔ ایک امیرالمومنین(ع) دوسرے زید بن ارقم اور وہ ۳۰ صحابی جنھوں نے رحبہ میں گواہی دی تھی۔

امام احمد نے مسند جلد۱ صفحہ ۱۱۹ پر حضرت علی(ع) کی حدیث عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کر کے لکھی ہے۔ عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ :

“ میں رحبہ میں اس موقع پر موجود تھا اور میں نے خود حضرت علی(ع) کو لوگوں کو قسم دیتے سنا۔ آپ فرمارہے تھے کہ میں قسم دیتا ہوں ہراس شخص کو جس نے غدیر خم میں رسول(ص) کو :

“من كنت مولاه فهذا علي مولاه”کہتے سنا ہو اٹھ کھڑے جہو اور گواہی دے اور وہی شخص اٹھے جس نے اپنی آنکھوں سے رسول(ص) کو دیکھا ہو اور اپنے کانوں سے کہتے سنا ہو۔”

عبد الرحمن کہتے ہیں کہ:

“ بارہ بدری صحابی اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں آج تک وہ منظر بھولا نہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسول(ص) کو غدیر خم میں کہتے سنا کہ کیا میں مومنین سے
۳۲۳

 زیادہ ان کے نفوس کا مالک و مختار نہیں اورمیری ازواج کیا ان کی مائیں نہیں؟ ہم سب نے کہا : بے شک یا رسول اﷲ(ص) ، تب آںحضرت(ص) نے فرمایا : کہ جس جس کا میں مولیٰ ہوں علی(ع) اس کے مولیٰ ہیں۔ خداوندا تو دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے۔”

اسی صفحہ کے آخر میں امام مذکور نے دوسرے طریقے سے اسی روایت کو لکھا ہے جس میں ہے کہ :

“  آںحضرت(ص) نے فرمایا: کہ  خداوندا تو دوست رکھ اس کو جو ان کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو ان کو دشمن رکھے۔اور مدد کر اس کی جو اس کی مدد کرے اور ذلیل و خوار کر اسے جو ان کی مدد نہ کرے۔”

عبدالرحمن کہتے ہیں کہ :

“سب اٹھ کھڑے ہوئے، تین آدمی باوجودیکہ وہ واقعہ غدیر خم میں موجود تھے لیکن گواہی دینے کے لیے نہ کھڑے ہوئے۔ امیرالمومنین(ع) نے ان کے لیے بد دعا فرمائی اور وہ سب آپ کی بد دعا کا شکار ہوئے۔”

اگر آپ حضرت علی(ع) اور زید ابن ارقم کو بھی ان بارہ(۱۲) بدری اصحاب کے ساتھ ملا لیں تو چودہ(۱۴) بدری اصحاب ہوجاتے ہیں۔ واقعہ رحبہ کے متعلق جو حدیثیں اور روایات کتب احادیث وسنن میں موجود ہیں ان پر غور فرمائیے توآپ کو اندازہ ہوگا کہ اس واقعہ میں امیرالمومنین(ع) کی کیا حکمت

۳۲۴

 فضائل جس میں یہ بھی ہے کہ آںحضرت(ص) نے آپ کو اپنا جانشین بنایا اور یومِ غدیر آپ کی خلافت کا اعلان فرمایا۔ ان سب باتوں کی گواہی پر مشتمل ہے شیعہ ہر سال ایسا کرتے ہیں، ان کا وتیرہ بن چکا ہے ۔ شیعوں کے خطباء و مقررین کا دستور ہے ک وہ ہر شہر میں ہر مقام پر ہر اپنی تقریر میں حدیث غدیر کو بہترین اسلوب اور بہت ہی عمدہ پیرایہ میں بیان کرتے ہیں، ان کی کوئی تقریر حدیث غدیر کے تذکرہ سے خالی نہیں ہوتی۔ اسی طرح قدیم شعراء اور نئے دور کے شعراء کی بھی یہ عادت ہمیشہ رہی کہ وہ اپنے قصائد میں واقعہ غدیر کو نظم کرتے آئے ہیں۔(۱)

لہذا شیعوں کے یہاں جس حدیث کو اتنی اہمیت حاصل ہو اس کے بطریق اہل بیت(ع) و شیعیانِ اہلبیت(ع) متواتر ہونے میں تو کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کیونکہ انھوں نے اس حدیث کو بعینہ اس کے الفاظ میں محفوظ رکھنے میں جتنی احتیاط کی اور اس کے تحفظ و انضباط نشرو اشاعت میں جتنی کدو کاوش سے کام لیا وہ انتہا درجہ کو پہنچی ہوئی تھی۔

آپ شیعہ کتب احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔ ان میں یہ حدیث بے شمار طرق و

--------------

۱ـ جناب کمیت ابن زید کے کچھ اشعار ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں جن کا ایک شعر یہ تھا:

وَ يَوْمَ الدَّوْحِ دَوْحِ غَدِيرِ خُمٍ‏

 أَبَانَ لَنَا الْوَلَايَةَ لَوْ أُطِيعَا

 غدیر خم کے میدان میں حضرت سرورکائنات(ص) نے آپ کی خلافت کا اعلان کیا۔ کاش پیغمبر(ص) کی بات مانی جاتی)

مشہور شاعر ابوتمام نے اپنے قصیدہ میں کہا ( یہ اشعار اس کے دیوان میں موجود ہیں)

و يوم‏ الغدير استوضح الحق أهله‏

 بفيها و ما فيها حجاب و لا ستر

(الی آخر کلام)

۳۲۵

 اسناد سے مروی ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس کی زحمت گوارا  فرمائیں تو شیعوں کے نزدیک اس حدیث کا متواتر ہونا روزِ روشن کی طرح واضح وجائے۔

بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ بلحاظ اصولِ فطرت حضراتِ اہلسنت کے یہاں بھی اس حدیث کے متواتر ہونے میں کوئی شک نہیں۔ صاحب فتاوائے حامدیہ ایسا متعصب شخص مگر انھوں نے بھی اپنی کتاب الصلاة الفاخر فی الاحادیث المتواترہ میں اس حدیث کے متواتر ہونے کا صاف صاف اقرار کیا ہے۔

علامہ سیوطی اور انھیں جیسے دیگر حافظانِ حدیث نے بھی اس کے تواتر کی تصریح کی ہے۔

علامہ جریر طبری جن کی تفسیر مشہور ہے اور تاریخ بھی اور احمد بن محمد ابن سعید بن عقدہ اور محمد بن احمد بن عثمان ذہبی نے تو اس حدیث کو اتنا اہم سمجھا کہ مستقل کتابیں مخصوص حدیث غدیر پر لکھیں اور ان تمام طریقوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی جن طریقوں سے یہ حدیث مروی ہے۔

علامہ طبری نے اپنی کتاب میں پچھتر(۷۵) طریقوں سے اور ابن عقدہ نے اپنی کتاب میں ایک سو پانچ(۱)   طریقوں سے اس حدیث کو لکھا ہے۔

--------------

۱ـ صاحب غایةالمرام نے اپنی کتاب کے سولہویں باب صفحہ ۸۹ پر تصریح کی ہے کہ ابن جریر نے حدیچ غدیر کی ۹۵ طریقوں سے روایت کی ہے اور اس کے لیے انھون نے ایک مستقل کتاب الولایہ تصنیف کی اسی طرح ابن عقدہ نے بھی حدیث غدیر کے موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی اور اس میں ایک سو پانچ طریقوں سے اس حدیث کی روایتیں درج کیں اور علامہ احمد بن محمد بن صدیق مغربی نے صراحت کی ہے کہ ذہبی اور ابن عقدہ دونوں نے  اس حدیث غدیر پر مستقل کتابیں لکھیں، ملاحظہ ہو علامہ موصوف کی کتاب فتح الملک العلی بصحت حدیث باب مدینة العلم علی کا خطبہ۔

۳۲۶

علامہ ذہبی ایسے متعصب شخص نے بھی اکثر و بیشتر طرق کو صحیح قرار دیا ہے۔(۱)

غایة المرام کے سولہویں باب میں ۸۹ حدیثیں بطریق  اہل سنت مذکور ہیں جس میں واقعہ غدیر کا ذکر ہے اور لطف یہ ہے کہ یہ ۸۹ حدیثیں ان روایتوں کے علاوہ ہیں جو ترمذی ، نسائی، طبرانی، بزار، ابو یعلی نیز اور بہت سے علماء احادیث نے ذکر کی ہیں۔

اور علامہ سیوطی نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں بضمن حالات امیرالمومنین(ع) اس حدیث کو ترمذی سے نقل کیا ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ :

“  اس حدیث کو امام احمد نے حضرت علی(ع)، ابو ایوب اںصادی، زید بن ارقم ، اور عمر، و ذی مر(۲) سےروایت کیا ہے۔”
“ ابو یعلیٰ نے ابوہریرہ سے اور طبرانی نے ابن عمر، مالک بن حویرث، حبشی بن جنادة ، جریر، سعد بن ابی وقاص، ابو سعید خدری اور انس سے روایت کیا ۔”

اس کے بعد لکھتے ہیں کہ : “ بزار نے ابن عباس و عمارہ اور بریدہ سے روایت کیا ۔۔۔۔۔الخ”

--------------

۱ـ علامہ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ باب اول فصل پنجم میں اس کی وضاحت کی ہے۔

۲ـ مسند جلد اول کے صفحہ ۱۲۱ پر ابن عباس کی حدیث سے بھی اس کی روایت کی ہے نیز مسند جلد۴ صفحہ ۲۰۱ پر براء عازب کی حدیث سے بھی روایت کی ہے۔

۳۲۷

اس حدیث کے بیش از بیش معروف و مشہور ہونے پر منجملہ اور ادلہ کے ایک وہ روایت بھی ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں ریاح بن حارث(۱) سے دو طریقوں سے روایت کی ہے۔ ریاح کہتے ہیں کہ :

“ ایک جماعت مسلمانوں کی امیرالمومنین (ع) کی خدمت میں آئی اور یہ کہہ کر سلام کیا کہ سلام ہو آپ پر اے
ہمارے آقا و مولیٰ، امیرالمومنین(ع)  نے پوچھا : کون ہیں آپ لوگ ؟ انھوں نے جواب دیا : کہ ہم آپ کے موالی ہیں، یا امیرالمومنین(ع)، آپ نے فرمایا: میں تمھارا مولیٰ کیسے ہوا؟ حالانکہ تم قوم عرب ہو، انھوں نے کہا : ہم نے رسول(ص) کو غدیر خم میں کہتے سنا کہ “ من كنت مولاه فهذا علي مولاه ” میں جس کا مولیٰ ہوں علی(ع) اس کے مولیٰ ہیں۔”

ریاح کہتے ہیں کہ :

“ جب وہ چلنے لگے تو میں بھی پیچھے پیچھے چلا۔ میں نے ان کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ چند اںصار تھے جن میں ابو ایوب اںصاری بھی تھے۔”

منجملہ ان ادلہ کے جو اس حدیث غدیر کے تواتر پر دال ہیں ایک وہ حدیث بھی ہے  جو اسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں بسلسلہ تفسیر سورہ معارج دو معتبر سندوں سے ذکر کی ہے کہ :

“ رسول اﷲ(ص) نے غدیر خم کے دن لوگوں میں منادی کرادی ۔سب

--------------

۱ـ دیکھیے مسند جلد۵ صفحہ۴۱۹

۳۲۸

 اکٹھے ہوگئے تو آپ نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اس کے علی(ع) مولیٰ ہیں۔” یہ بات ہر طرف سے مشہور ہوگئی اور ہر شہر میں اس واقعہ کی خبر پہنچی۔ حارث بن نعمان فہری کو بھی معلوم ہوئی۔ وہ یہ سن کر ایک ناقہ پرسوار ہو کر رسول(ص) کی خدمت میں پہنچا۔ ناقہ کو بٹھا کر اترا اور کہا یا محمد(ص) آپ نے ہم کو حکم دیا کہ خدا کی وحدانیت اور آپ کی رسالت کی گواہی دیں۔ ہم نے آپ کے اس حکم کو مانا آپ نے حکم دیا ک پانچ وقت نماز پڑھیں۔ ہم نے اسے بھی قبول کیا۔ آپ نے حکم دیا کہ ہم زکوة دیں۔ ہم نے اس حکم کی بھی تعمیل کی۔ آپ نے حکم دیا کہ ہم حج کریں۔ ہم نے حج بھی کیا ہم نے اتنی باتیں آپ کی مانیں اور آپ اس پر بھی راضی نہ ہوئے اور آپ نے یہ کیا کہ اپنے چچا زاد بھائی علی(ع) کو آستیں پکڑ کر ان کو کھڑا کیا ان کو ہم لوگوں پر فضیلت دی اور ان کے متعلق فرمایا کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اس کے یہ علی(ع) مولیٰ ہیں۔ یہ بات آپ کی جانب سے تھی یا خدا کی جانب سے؟ آںحضرت(ص) نے فرمایا: قسم ہے اس اﷲ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہ خدا کی جانب سے تھا اور اسی کے حکم سے ایسا میں نے کیا۔ یہ سن کر حارث پلٹا اور اپنی سواری کی طرف بڑھا یہ کہتے ہوئے کہ پروردگار! محمد(ص) جو کہہ رہے ہیں اگر سچ ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا دردناک عذاب ہم پر بھیج۔”

وہ ابھی اپنے مرکب تک پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ خداوند عالم نے اسے اپنے

۳۲۹

 عذاب میں مبتلا کیا۔ ایک پتھر آسمان سے اس کی کھوپڑی پر گرا جو سر کو توڑتا ہوا اسفل سے نکل گیا اور اس نے وہیں جان دیے دی اور اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔: ( یہاں تک اصل عبارت کو ترجمہ تھا۔)(۱)

اور بہت سےعلمائے اہلسنت نے اس حدیث کو بطور مسلمات ذکر کیا ہے۔(۲)

                                                     ش

--------------

۱ـ ثعلبی سے ایک جماعت نے علماء اہل سنت کی جیسے علامہ شلنجی نے نور الابصار صفحہ۱۷۱ پر احوال امیرالمومنین(ع) میں لکھا ہے۔

۲ـ حلبی نے سیرہ حلبیہ صفحہ ۳۷۴ جلد۳ میں احوال حجة الوداع میں لکھا ہے۔

۳۳۰

مکتوب نمبر۲۹

چونکہ ہم مجبور ہیں کہ صحابہ کو صحیح سمجھیں لہذا اس حدیث کی تاویل کرنا ضروری ہے۔ تاویل کے علاوہ ہمارے لیے کوئی چارہ کار ہی نہیں خواہ یہ حدیث متواتر ہو یا غیر متواتر۔ اسی وجہ سے حضرات اہل سنت کہتے ہیں کہ لفظ مولیٰ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے چنانچہ خود قرآن میں بھی یہ لفظ کئی معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ کبھی تو اولیٰ کے معنوں میں جیسے خداوند عالم کا یہ قول جو اس نے کفار سے خطاب کر کے فرمایا ہے :

 “مَأْواكُمُ النَّارُ هِيَ مَوْلاكُمْ ” (حدید، ۱۵ )

“ تمھارا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہی تمھارا مولیٰ ہے۔”
یعنی تمھارے لائق ہے ۔ اور کبھی ناصر کے معنوں میں جیسے ارشاد خداوند عالم ہے:
۳۳۱

 “ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذينَ آمَنُوا وَ أَنَّ الْكافِرينَ لا مَوْلى‏ لَهُمْ ” (محمد : ۱۱ ) 

“ خدا ایمان لانے والوں کا مدد گار ہے مگر کافروں کا کوئی مددگار نہیں ۔”

اور کبھی وارث کے معنوں میں جیسے خداوند عالم کا قول :

 “وَ لِكُلٍّ جَعَلْنا مَوالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوالِدانِ وَ الْأَقْرَبُونَ ” (النساء : ۳۳ )

“ ہم نے ہر ایک کے لیے مولیٰ قرار دیے ہیں یعنی وارث قرار دیے ہیں۔”

کبھی بمعنی جماعت استعمال ہوا ہے۔ جیسے ارشاد خداوند عالم ہے:

 “ وَ إِنِّي خِفْتُ الْمَوالِيَ ” (مریم، ۵ )

“ میں اپنے گروہ والوں سے ڈرا”

کبھی دوست کے معنوں میں جیسے قول باری تعالی :

 “يَوْمَ لا يُغْني‏ مَوْلًى عَنْ مَوْلًى شَيْئاً ” (الدخان : ۴۱ )

“ یاد کرو اس دن کو جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہ آئے گا۔”
اسی طرح لفظ اولیٰ بالتصرف کے معنوں میں آتا ہے جیسے ہم لوگوں کا قول کہ فلاں ، فلاں کا ولی ہے۔
کبھی ناصر و محبوب کے معنوں میں تو حضرات اہلسنت کہتے ہیں کہ غالبا حدیث کے معنی یہ ہیں کہ میں جس کا مددگار ہوں یا دوست ہوں یا حبیب ہوں اس کے علی(ع) مددگار ہیں یا دوست ہیں یا حبیب ہیں
۳۳۲

 یہ معنی اگر مان لیے جائیں تو سلف صالحین کے عزت و احترام میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اور خلفاء ثلاثہ کی خلافت بھی بچ جاتی ہے۔

حدیثِ غدیر کی تاویل پر قرینہ

حضرات اہل سنت کہتے ہیں کہ یہی معنی مراد پیغمبر(ص) ہونے پر یہ قرینہ ہے کہ جب حضرت علی(ع) یمن تشریف لے کگئے تھے اور مسلمانوں کی ایک جمعیت آپ کے ساتھ تھی اور کچھ لوگوں کو آپ کی سخت گیری سے تکلیف پہنچی  انھوں نے رسول(ص) کی خدمت میں پہنچ کر آپ کی شکایت کی اور آپ کی برائیاں کیں۔ اسی سبب سے آںحضرت نے غدیر خم میں آپ کی مدح و ثناء بیان کرنے میں اتنا اہتمام کیا۔ آپ کے فضائل و محامد بیان فرمائیے۔ اس سے غرض یہ تھی کہ لوگوں کو حضرت علی(ع) کی جلالت قدر معلوم ہوجائے اور جو ان کے دشمن ہیں ان کی آنکھیں کھل جائیں۔ اس کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ آںحضرت(ص) نے اپنی تقریر میں حضرت علی(ع) کا ذکر خصوصیت سے کیا اور فرمایا کہ جس کا میں مولیٰ ہوں علی(ع) اس کے ولی ہیں۔ اہلبیت(ع) کا ذکر عام طور پر کیا کہ میں تم میں دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ ایک کتاب خدا اور دوسرے میرے عترت و اہلبیت(ع)۔ گویا یہ مسلمانوں سے رسول اﷲ(ص) کی چلتے چلاتے وصیت تھی کی علی(ع) کےساتھ سلوک کرنے میں خصوصیت کے ساتھ میرے حقوق کی حفاظت کا خیال رہے اور اہل بیت(ع) کے متعلق جن سلوک کی عام وصیت تھی۔

حضرات اہل سنت کہتے ہیں کہ اس بناء پر حدیث سے نہ تو یہ ثابت ہے کہ حضرت نے آپ کو اپنا جانشین بنایا اور نہ آپ کے امام ہونے پر یہ حدیث

۳۳۳

 دلالت کرتی ہے۔

                                                     س

  جوابِ مکتوب

حدیث غدیر کی تاویل ممکن نہیں

مجھے یقین ہے کہ آپ نے جو کچھ فرمایا  اس سے خود بھی مطمئن نہیں اور نہ آپ کا میلان ہے اس طرف ، آپ کو آںحضرت کی حکمت بالغہ، شانِ عصمت اور حیثیتِ خاتمیت کا پورا اندازہ ہے، آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ حضرت ختمی مرتبت(ص) تمام اہل حکمت کے سید و سردار اور تمام نبیوں کے خاتم تھے۔ آپ اپنی  خواہش نفسانی سے کبھی تکلم فرماتے ہی نہ تھے ۔ جو کچھ فرماتے وہ ترجمانی ہوتی تھی وحی ربانی کی۔ خداوند عالم نے آپ کو تعلیم دے کر دنیا میں بھیجا تھا۔

سوچیے تو اگر غیر مسلم فسلفی آپ سے واقعہ غدیر کے متعلق پوچھے اور کہے کہ آخر یہ رسول(ص) نے ان لاکھوں مسلمانوں کو غدیر خم میں پہنچ کر سفر جاری رکھنے سے کیوں روک دیا۔ کس لیے ان کو چلچلاتی دوپہر میں تپتی زمین پر ٹھہرایا اور یہ اتنا اہتمام کس مقصد کے لیے تھا کہ جو آگے بڑھ گئے تھے ان کو واپس بلایا اور جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا اور آخر یہ کس لیے چٹیل میدان میں انھیں منزل کرنے پر مجبور کیا جہاں پانی تھا نہ سبزہ، پتھریلی زمین تھی۔ ٹھیک ایسی جگہ پہنچ کر جہاں راہیں بدلتی تھیں، لوگ جدا ہونے والے  تھے۔ آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا تاکہ حاضرین غیر حاضر

۳۳۴

 اشخاص کو پہنچادیں اور آخر یہ ضرورت کون سی آپڑی تھی کہ آپ نے سلسلہ تقریر میں اپنے وقت رحلت قریب ہونے کی خبر دی ۔ چنانچہ آپ نے فرمایا :

“ قریب ہے کہ میرے پروردگار مجھے بلاوا آپہنچے اور مجھے وہاں جانا پڑے۔ وہاں مجھ سے بھی سوال کیا جائے گا اور تم سے بھی بازپرس ہوگی۔”

وہ بات کونسی تھی جس کے متعلق رسول(ص) سے پوچھا جانے والا تھا کہ آپ نے اسے پہنچایا یا نہیں اور امت سے بازپرس کی جانے والی تھی کہ رسول(ص) کی اس بات میں اطاعت کی گئی یا نہیں؟

رسول(ص) کے یہ سوال کرنے کی وجہ کیا تھی کہ کیا تم لوگ گواہی نہیں دیتے کہ بس معبود حقیقی وہی خداوند عالم ہے اور محمد(ص) اس کے بندے اور رسول(ص) ہیں اور جنت حق ہے، جہنم حق ہے موت برحق ہے اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا حق ہے۔ قیامت آنے والی ہے اس کےمتعلق کوئی شبہ نہیں اور خداوند عالم قبروں کے تمام مردوں کو زندہ کرے گا۔

لوگوں نے کہا: بے شک یا رسول اﷲ(ص) ! ہم اس کی گواہی دیتے ہیں اور یہ آخر کس لیے رسول(ص) نے فورا علی(ع) کا ہاتھ پکڑا اور اتنا اونچا کیا کہ سپیدی بغل نمایاں ہوئی اور ارشاد فرمایا:

“ اے لوگو! خداوند عالم میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کا مولیٰ ہوں۔”
اور آپ نے اپنے اس جملہ کی کہ میں مومنین کا مولیٰ ہوں یہ تشریح کیوں فرمائی
“ کہ میں ان پر ان کے نفوس سے زیادہ تصرف و اقتدار رکھتا ہوں۔”

اوریہ تفسیر فرمانے کے بعد آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ :

۳۳۵

“ جس جس کا میں مولیٰ ہوں یہ علی(ع) اس  کے مولیٰ ہیں۔ ” یا جن کا میں ولی ہوں علی(ع) اس کے ولی ہیں۔” خداوندا تو دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے۔ مدد کر اس کی جو علی(ع) کی مدد کرے اور ترکِ نصرت کر اس کی جو علی(ع) کی مدد سے گریز کرے۔”
یہ آخر رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کے لیے خصوصیت سے ایسی دعا کیوں فرمائی جو صرف ائمہ برحق اور سچے خلفاء کے لائق و سزاوار ہے اور یہ کیوں آپ نے مجمع سے پہلے گواہی لے لی تھی یہ کہہ کر کہ “
“ کیا میں تمھارے نفوس پر تم سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا؟”
لوگوں نے کہا: بے شک ، تویہ گواہی لے لینے کے بعد آپ نے فرمایا :
“ کہ میں جس کا مولیٰ ہوں یہ علی(ع) اس کے مولیٰ ہیں” یا “ جس کا میں مولیٰ ہوں یہ علی(ع) اس کے مولیٰ ہیں۔”

اور آخر کس وجہ سے اہل بیت(ع) اور کتاب الہی کو ہم پلہ قرار دیا آپ نے؟ اور صاحب عقل و فہم کے لیے روز قیامت تک انھیں مبتدا اور پیشوا کیوں فرمایا ؟ کس چیز کے لیے حکیمِ اسلام اتنا زبردست اہتمام فرمارہے تھے وہ کونسی مہم تھی جس کے لیے اتنی پیش بندی کی ضرورت لاحق ہوئی وہ کون سی غرض تھی جس کی تکمیل  آپ کو لوگوں کے بھرے مجمع میں مدنظر تھی۔ وہ بات کیا تھی جس کے پہنچانے کا خداوند عالم کی جانب سے اتنا تاکیدی حکم ہوا او آیت اتری کہ :

“ اے رسول(ص) پہنچا دو اس پیغام کو جو تمھارے پروردگار کی جانب سے نازل ہوا ہے اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا کار رسالت ہی انجام نہ دیا۔”
۳۳۶

یہ اتنی شدید تاکید اور دھمکی سے ملتا جلتا حکم دینے کی خدا کو ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ وہ بات کیا تھی جس کے پہنچانے میں رسول(ص) ڈر رہے تھے کہ کہیں فتنہ نہ کھڑا ہوجائے اور اس کے بیان کرنے میں منافقین کی ایذا رسانیوں سے بچنے کے لیے خدا کی حفاظت و حمایت کے ضرورت مند ہورہے تھے۔ اگر یہ سوالات آپ سے کیے جائیں تو کیا آپ اتنی عقل اور سمجھ رکھتے ہوئے یہی جواب دیں گے کہ ان تمام باتوں سے خدا و رسول(ص) کی غرض صرف یہ ظاہر کرنا تھا کہ علی(ع) مسلمانوں کے مددگار اور دوست ہیں۔ میرا تو یہی خیال ہے کہ آپ یہ جواب دینا کبھی بھی پسند نہ کریں گے۔ مجھے وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا  کہ آپ اس قسم کی باتیں اس حکیم مطلق، رب الارباب کے لیے جائز سمجھیں گے۔ نہ حکیم اسلام خاتم النبیین(ص) کے لیے۔ آپ سے بعید ہے کہ آپ رسول(ص) کے لیے یہ جائز و مناسب قرار دیں کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں اور پوری پوری کوشش ایسی چیز واضح کرنے میں صرف کر دیں جو خود روشن اور واضح ہو۔ جس کی وضاحت کی کوئی ضرورت ہی نہ ہو یا ایسے عمل کی وضاحت فرمائیں جسے وجدان و عقل سلیم واضح سمجھیں۔ مجھے تو کوئی شک نہیں کہ آپ یقینا پیغمبر(ص) کے اقوال و افعال کو اس سے بلند و برتر سمجھتے ہوں گے کہ ار باب عقل اس کو معیوب سمجھیں یا فلاسفہ و صاحبان حکمت نکتہ چینی کریں۔

کوئی شبہ نہیں  کہ آپ رسول(ص) کے قول و فعل کی قدر ومنزلت سے واقف ہیں۔ آپ معرفت رکھتے ہیں کہ رسول(ص) کے افعال و اقوال کس قدر حکمت سے لبریز اور شان عصمت کے حامل ہوتے ہیں۔ خداوندِ عالم جس کے متعلق فرمائے :

 “إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ذِى قُوَّةٍ عِندَ ذِى الْعَرْشِ

۳۳۷

مَكِين‏مُّطَاعٍ ثمَ‏َّ أَمِينٍ وَ مَا صَاحِبُكمُ بِمَجْنُون‏

“ بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتہ ( جبریل(ع)) کی زبان کا پیغام جو بڑا قوی، عرش کےمالک کی بارگاہ میں بلند رتبہ ہے۔ سب فرشتوں کا سردار ، امانتدار ہے اور ( مکہ والو) تمھارے ساتھی(محمد(ص)) دیوانے نہیں ہیں۔”

وہ واضح باتوں کی وضاحت اور بدیہی چیزوں کے بیان کرنے کے لیے اتنا اہتمام کرے گا اور ان اظہر من الشمس چیزوں کو واضح کرنے کے لیے ایسا سازو سامان فراہم کرے گا۔ ایسی بے تکی و بے ربط پیش بندیاں کرے گا۔ خدا و رسول(ص) کی ذات ان مہملات سے کہیں پاک وصاف اور بزرگ و برتر ہے۔

آپ یقینا یہ جانتے ہوں گے کہ اس چلچلاتی دوپہر میں، اس موقع و محل کے مناسب اور غدیر کے دن کے افعال اقوال کے لائق و سزاوار یہی بات تھی کہ آپ اپنی ذمہ داری پوری کردیں اور اپنے بعد کے لیے جانشین معین فرمائیں۔

آںحضرت(ص) کا انداز گفتگو جچے تلے الفاظ، واضح عبارت بھی یہی کہتی ہے اور عقلی دلیلوں سے بھی اسی بات کا قطع و یقین ہوتا ہے کہ آںحضرت(ص) کا مقصد اس دن یہی تھا کہ حضرت علی(ع) کو اپنا ولیعہد اور اپنے بعد جانشین و قائم مقام کر جائیں۔

لہذا یہ حدیث ان تمام قرائن کے ساتھ جسے الفاظ حدیث اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں، امیرالمومنین(ع) کی خلافت و امامت کے متعلق صریحی نص ہے کسی تاویل کی گنجائش نہیں اور نہ اس معنی کو چھوڑ کر دوسرے معنی مراد لینے  کی گنجائش نکلتی ہے۔ یہ تو ایسی واضح چیز ہے کہ کسی دلیل کی ضرورت ہی

۳۳۸

 نہیں بشرطیکہ انسان چشم بینا اور گوش شنوا رکھے۔

اور آپ حضرات اہل سنت جس قرینہ کا ذکر فرماتے ہیں وہ بہت ہی رکیک اور بالکل ہی غلط بیانی ہے۔ اس لیے کہ آںحضرت(ص) نےعلی(ع) کو دو مرتبہ یمن کی جانب بھیجا پہلی مرتبہ سنہ۸ ھ میں اس مرتبہ لوگوں نے امیرالمومنین (ع) کے

متعلق تہمت تراشی کی اور مدینہ واپس آکر رسول(ص) کی خدمت میں شکایتیں کیں جو رسول(ص) کو بہت ناگوار گزریں۔(۱) یہاں تک کہ غیظ و غضب کے آثار آپ کے چہرے سے نمایاں ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پھر کسی کو جسارت ایسا  کرنے کہ نہ ہوئی۔

اور دوسری مرتبہ سنہ۱۰ھ میں گئے۔ اس مرتبہ آپ نے حضرت علی(ع) کو علم لشکر دیا اور سر پر عمامہ باندھا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ روانہ ہو اور ادِھر اُدھر  توجہ نہ کرنا۔ حضرت علی(ع) روانہ ہوئے وہاں پہنچ کر رسول(ص) کے امور انجام دیے اور وہاں سے مکہ پہنچ کر حجة الوداع میں رسولص) کے ساتھ ہوگئے۔ اس مرتبہ نہ تو کسی کینہ ور کو کینہ ظاہر کرنے کی نوبت آئی نہ کسی دشمن کو دشمنی کرنے کا موقع ملا۔ لہذا یہ کہنا کیونکر درست ہوسکتا ہے کہ رسول(ص۹ نےغدیر خم میں جو کچھ کہا اس کا سبب وہی علی(ع) پر اعتراض کرنے والے ہیں یا آںحضرت(ص) نے دشمنان و مخالفین امیرالمومنین(ع) کی رد میں ایسا کیا۔

علاوہ اس کے محض علی(ع) کی مخالفت و دشمنی تو ایسی چیز نہیں ہوسکتی کہ اس کے سبب رسول(ص) علی(ع) کی مدح و ثنا کرنے کے لیے اتنا اہتمام فرمائیں۔ تپتی زمین پر جلتی دھوپ میں مسلمانوں کو بٹھا کے پالانوں کا منبر تیار کرا کے اس شد ومد سے علی(ع) کےفضائل بیان کریں۔ ہاں معاذ اﷲ رسول(ص) کو اگر اپنے افعال و

--------------

۱ـ ملاحظہ کیجیے صفحہ۲۴۴ تا صفحہ ۲۵۰۔

۳۳۹

 اقوال ، اپنے قصد و ارادہ میں اس قدر ہرزہ کار سمجھ لیا

جائے تو یہ دوسری بات ہے۔ آپ کی شانِ حکیمانہ اور انداز عصمت ان مزخرفات و مہملات سے کہیں پاک و صاف ہے۔ خداوند عالم تو اپنے رسول(ص) کےمتعلق فرماتا ہے:

إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ  قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ وَ لَا بِقَوْلِ كاَهِنٍ  قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ

تَنزِيلٌ مِّن رَّبّ‏ِ الْعَالَمِين‏

اگر صرف حضرت علی(ع) کے فضائل کا بیان کرنا یا مخالفین کی رد ہی آںحضرت(ص) کو مقصود ہوتی تو آپ کہہ سکتے تھے کہ یہ میرے چچا زاد بھائی ہیں، میرے داماد ہیں، میرے نواسوں کے باپ ہیں، میرے اہلبیت کے سید و سردار ہیں۔ تم لوگ ان کے ساتھ بدسلوکی کرکے مجھے اذیت نہ پہنچانا یا اسی جیسی اور باتیں فرماسکتے تھے جن سے صرف آپ کا فضل و شرف اور جلالت قدر ظاہر ہوتی حالانکہ الفاظ حدیث سے وہی باتیں ذہن میں آتی ہیں جو ہم نے بیان کیں۔

لہذا حدیث کے بیان کا کوئی سبب بھی ہو الفاظ سے جو معنی فورا زہن میں آتے ہیں وہی مراد ہوں گے اور اسباب پر اعتنا نہ کی جائے گی۔

اس حدیث غدیر میں اہل بیت(ع) کا جو ذکر ہوا تو یہ ہمارے ہی بیان کیے ہوئے معنی کا موئد ہے۔ ہم نے جو کچھ سمجھا ہے اسی کی تائید ہوتی ہے کیونکہ رسول(ص) نے اس حدیث میں اہل بیت(ع) کو قرآن مجید کا ہم پلہ قرار دیا ہے اور ارباب عقل کے لیے نمونہ ہدایت فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ م“ میں تم میں ایسی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم مضبوطی سے تھامے رکھو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتاب خدا، دوسرے عترت و اہلبیت(ع)۔ آپ نے ایسا

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639