دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)3%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272413 / ڈاؤنلوڈ: 6392
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

 اس لیے کیا اور اس وجہ سے فرمایا کہ امت والے جان لیں، سمجھ لیں کہ رسول(ص) کی آنکھ بند ہونے کے بعد بس ان ہی دو چیزوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے، یہی دونوں بھروسہ کے لائق ہیں۔ ائمہ اہلبیت(ع) کی اطاعت و اتباع واجب ولازم ہونے کا آپ اسی سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ آںحضرت(ص) نے انھیں کتابِ خدا کے برابر قرار دیا ہے۔ کتاب خدا جس کے پاس باطل کا گزر تک نہیں اس کا پم پلہ انھیں فرمایا ہے لہذا جس طرح کتاب الہی کو چھوڑ کر کسی دوسری کتاب کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں ہوسکتا۔ بعینہ اسی طرح ائمہ اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر ان کے مختلف کسی امام کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں۔ اور آںحضرت(ص) کا یہ فرمانا کہ یہ دونوں کبھی ختم نہ ہوں گے یا کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچیں۔ دلیل ہے اور واضح دلیل ہے کہ آںحضرت(ص) کے بعد زمین ان ائمہ اہل بیت(ع) سے خالی نہیں ہوسکتی ۔ ان میں کا کوئی نہ کوئی فرد ہر زمانہ اور ہر وقت میں ضرور موجود رہے گا۔ جو ہم پلہ کتاب الہی کا ہوگا۔

اگر آپ اس حدیث پر اچھی طرح غور و تدبر فرمائیں تو یہ حقیقت آپ پر منکشف ہوگی کہ آںحضرت(ص) نے یہ ارشاد فرما کر خلافت کو ائمہ طاہرین (ع) ہی میں منحصر کردیا ہے ۔ ان کے علاوہ کی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے امام احمد نے اپنی مسند جلد۵ صفحہ۱۳۲ پر زید بن ثابت سے روایت کی ہے۔ زید بن ثابت کہتے ہیں:

“ کہ آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا : میں تم میں اپنے دو جانشین چھوڑے جاتا ہوں کتاب خدا جو ایک رسی ہے جس کا سلسلہ آسمان سے زمین تک ہے دوسرے میری عترت  و اہلبیت(ع) ۔”
۳۴۱

آپ بے خبر نہ ہوں گے کہ عترت کی اتباع کو واجب ولازم کرنا بعینہ امیرالمومنین(ع) کی اطاعت و اتباع کو واجب کرنا ہے۔ اس لیے کہ آپ راس و رئیس اہلبیت(ع) تھے لہذا حدیثِ غدیر ہو یا اس جیسی دیگر حدیثیں سب کی سب حضرت علی(ع) ہی کی امامت و خلافت کی ںصوص صریحہ ہیں۔ سب سے آپ ہی کی امامت ثابت ہوتی ہے۔ جو حدیثیں اہلبیت(ع) کے متعلق ہیں جن میں اہلبیت(ع) کی اطاعت و اتباع کو واجب فرمایا ہے رسول(ص) کی ان حدیثوں سے آپ کی امامت یوں ثابت ہوتی ہے کہ آپ راس و رئیس تھے عترت و اہلبیت(ع) کے۔ وہ اہلبیت(ع) جن کی منزلت خدا و رسول(ص) کے نزدیک کلام الہی جیسی تھی اور جو روایتیں خود امیرالمومنین(ع) کے متعلق وارد ہوئی ہیں ان سے بلحاظ آپ کی گراں قدر شخصیت اور جلالت و عظمت کے آپ کی امامت ثابت ہوتی ہے اور یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ ہر اس شخص کے ولی تھے جس کے رسول اﷲ(ص) ولی تھے۔

                                             فقط و السلام

                                                             ش

۳۴۲

مکتوب نمبر۳۰

حق کا بول بالا

آپ ایسے نرم لب ولہجہ میں اپنا مطلب بیان کرنے والا میں نے نہیں پایا اور نہ آپ کا زور استدلال کسی میں دیکھا ۔ آپ نے جن قرائن کا ذکر کیا ان پر غور کرنے سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں وہی ٹھیک ہے۔ شک و شبہات کے بادل چھٹ گئے اور یقین کے چہرے سے شکوک کے پردے اٹھ گئے۔ اب ہمیں کوئی تردید باقی نہ رہا کہ یقینا حدیث غدیر میں لفظ ولی و مولیٰ سے مراد اولی بالتصرف ہے ، نہ کہ کچھ اور۔ کیونکہ اگر اس لفظ سے ناصر یا محب وغیرہ مقصود ہوتے تو پھر حارث کو عذاب کا سوال کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی لہذا لفظ مولیٰ کے متعلق آپ کی جو

۳۴۳

 رائے ہے وہی پایہء تحقیق کو پہنچتی ہے اور وہی درست ہے۔

اچھا ایسا کیوں نہیں کہ آپ بھی اس حدیث کی تفسیر میں وہی مسلک اختیار کریں جو ہمارے بعض علماء مثلا علامہ ابن حجر مکی نے اپنی کتاب صواعق محرقہ میں اور علامہ حلبی نے سیرتِ حلبیہ میں اس حدیث کی تفسیر میں اختیار کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت علی(ع) اولیٰ بالامامت تھے۔ آپ ہی کے لیے امامت زیبا تھی۔ لیکن مقصود نتیجہ کا رد مالِ کار ہے یعنی رسول(ص) کا مقصد یہ تھا کہ جب خلفاء ثلاثہ کا دور گزر جائے گا اور حضرت علی(ع) کو لوگ اپنا امام منتخب کریں گے تو اس وقت صرف حضرت علی(ع) ہی اولیٰ بالامامت ہوں گے۔ اگر یہ معنی نہ لیے جائیں تو خرابی یہ لازم آتی ہے کہ آنحضرت(ص) کی موجودگی ہی میں حضرت علی(ع) کا امام ہونا لازم آتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ آںحضرت (ص) کے حینِ حیات آپ کے امام ہونے کے کوئی معنی نہیں ۔ لہذا مقصود پیغمبر(ص) یہ تھا کہ جب مرگ آپ کی بیعت کریں، آپ کو خلیفہ منتخب کریں، آپ کی امامت پر اجماع کریں اجماع کریں اس وقت آپ ہی اولیٰ بالامامت ہیں۔

اگر یہ معنی لیے جائیں تو خلفاء ثلاثہ کی خلافت معرض خطر میں نہیں پڑتی۔ اگر یہ معنی لیے جائیں تو سلف صالحین جو حضرت علی(ع) کو چوتھا خلیفہ مانتے ہیں ان کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں آتا اور آپ جو ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ بھی ثابت ہوجائے گا۔

                                                                     س

جواب مکتوب

آپ نے فرمایا کہ ہم آپ کے کہنے سے یہ مان لیں کہ حدیثِ غدیر

۳۴۴

 میں حضرت علی(ع) کو جو اولیٰ کہا گیا ہے اس سے یہ مطلب ہے کہ حضرت علی(ع) اس وقت اولیٰ بالامامت تھے جب مسلمان آپ کو امامت کے لیے منتخب کر لیں اور آپ کی بیعت کریں۔ لہذا آپ کے قول کی بنا پر حضرت علی(ع) کا اولیٰ ہونا جس کا اعلان رسول(ص) نے بروز غدیر کیا تھا باعتبار مال و نتیجہ کے تھا۔ حضرت علی(ع) زمانہء آیندہ میں اولیٰ بالامامت تھے، فی الحال نہیں۔ جس وقت رسول(ص) نے فرمایا تھا اس وقت نہیں۔ دوسرے الفاظ میں آپ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی(ع) بالقوہ اولی بالامامت تھے، بالفعل نہیں تاکہ یہ حدیث آپ کے پہلے تین خلفاء کی خلافت کے منافی نہ ہو۔ بہت اچھا ، بہتر ہے ، مگر ہم آپ کو عدل و انصاف کا واسطہ دیتے ہیں آپ سے بقسم پوچھتے ہیں کہ آپ اپنے قول پر جمے رہیں گے۔ اس سے ہٹیں گے تو نہیں؟ تاکہ ہم بھی آپ کے قدم بہ قدم چلیں، آپ ہی کی روش اختیار کریں۔

اور کیا آپ راضی ہیں اس پر کہ یہ  سہرا آپ ہی کے سر باندھا جائے یا اس قول کی آپ کی طرف نسبت دی جائے کہ ہم بھی آپ کے ہم خیال و ہمنوا ہوجائیں۔

مجھے تو یقین ہے اور کامل یقین ہے کہ نہ تو آپ اس معنی پر جمے رہیں گے اور نہ اس پر راضی ہوں گے۔ ہمیں تو یقینی طور پر علم ہے اس کا کہ آپ خود ان لوگوں پر تعجب کرتے ہوں گے جو اس معنی کے مراد ہونے کا احتمال پیدا کرتے ہیں حالانکہ نہ تو الفاظ حدیث اس معنی کو بتاتے ہیں نہ حدیث سن کر کسی سننے والے کے ذہن مین یہ معنی آتے ہیں اور نہ یہ معنی حکیم اسلام کی حکمت و بلاغت سے لگاؤ رکھتا ہے نہ غدیر کےدن حضرت (ص) کے غیر معمولی افعال و اقوال سے اس معنی کو کوئی مناسبت ہے اور نہ ان

۳۴۵

 قطعی قرائن سے جن کا ہم نے سابق میں ذکر کیا کوئی ربط ہے اور نہ حارث بن نعمان فہری کے سمجھے ہوئے معنی سے کوئی تعلق ہے ۔ علاوہ اس کے آپ کا یہ کہنا کہ حضرت علی(ع) اولی بالامامت جو تھے وہ باعتبار نتیجہ و مال کار کے تھے یہ عموم حدیث سے مرتبط ہی نہیں، الفاظِ حدیث بتاتے ہیں کہ حضرت علی(ع) ہر اس شخص کے مولی تھے جس کے رسول(ص) مولیٰ تھے اور آپ کے قول کی بنا پر صرف اپنے ہی زمانہ خلافت کے لوگوں کے مولیٰ ثابت ہوتے ہیں لہذا آپ کے قول کی بنا پر نہ تو حضرت علی(ع) خلفاء ثلاثہ کے مولیٰ ہوئے اور نہ ان لوگوں میں سے کسی ایک کے مولیٰ ہوئے جو زمانہء خلافت خلفاء ثلاثہ میں انتقال کرگئے اور یہ صریحی طور پر ارشاد رسول(ص) کے مغائر ہے ۔ رسول(ص) نے تو ان لوگوں سے پوچھا تھا ۔ کیا میں  مومنین سے اولی نہیں؟ لوگوں نے کہا تھا۔ بے شک ۔ آپ ہم سب کے مولیٰ ہیں۔ اس پر آںحضرت(ص) نے فرمایا تھا تو میں جس جس کا ( فردا فردا) مولی تھا علی(ع) اس کے مولیٰ ہیں۔ بغیر کسی استثناء کے آپ نے حضرت علی(ع) کو ہر ہر شخص کا مولیٰ قرار دیا۔ لطف یہ ہے کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر(۱) نے روز غدیر جب رسول(ص) کا یہ ارشاد سنا تو امیر المومنین(ع) سے کہا تھا:

“ اے فرزند ابوطالب! آپ ہر مومن اور مومنہ کے مولیٰ ہوگئے۔”

ان دونوں بزرگواروں نے تصریح کردی ہے کہ حضرت علی(ع) ہر مومن ومومنہ

--------------

۱ـ جیسا کہ دار قطنی کی روایت ہے ۔ ملاحظہ ہو صواعق محرقہ صفحہ۲۶ باب اول فصل خامس ان کے علاوہ بکثرت محدثین نے اپنے اپنے طرق و اسناد سے اس کی روایت کی ہے امام احمد نے اس قول کو بسلسلہ احادیث براء بن عازب مسند جلد۴ صفحہ ۲۸۵ پر درج کیا ہے صفحہ ۲۷۲ پر سابقا ہم ذکر کرچکے ہیں۔

۳۴۶

 کے ولی تھے۔ علی سبیل الاستغراق کوئی فرد مستثنی نہ تھا۔

ایک مرتبہ حضرت عمر(۱) سے کہا گیا کہ آپ حضرت علی(ع) کے ساتھ ایسا مخصوص برباؤ کرتے ہیں جیسا کہ صحابی پیغمبر(ص) کے ساتھ نہیں کرتے۔ حضرت عمر نے جواب دیا ۔ یہ میرے مولیٰ ہیں۔

حضرت عمر کا صریحی اقرار ہے کہ آپ ان کے مولیٰ تھے۔ حالانکہ اس وقت نہ تو لوگوں نے آپ کو خلافت کے لیے منتخب کیا

تھا اور نہ آپ کی بیعت ہی کی تھی۔ لہذا قطعی طور پر ثابت ہوا کہ حضرت علی(ع) حالا مولی تھے جس وقت پیغمبر(ص) نے خدا کے حکم سے برسر منبر اس کا اعلان کیا اس وقت سے مولی ہوگئے۔

دو اعرابی کسی نزاعی مسئلہ میں حضرت عمر کے پاس فیصلہ کے لیے آئے۔ حضرت عمر نے حضرت علی(ع) سے کہا کہ آپ فیصلہ کریں۔ ان میں سے ایک سے کہا : یہ ہمارا چکائیں گے؟ حضرت عمر نے لپک(۲) کر اس اعرابی کی گردن پکڑ لی اور کہنے لگے:

“ کم بخت جانتا ہے یہ کون ہے؟ یہ تمھارے مولیٰ ہیں۔ اور ہر مومن کے مولیٰ ہیں اور جس کے یہ مولیٰ نہیں وہ مومن ہی نہیں۔”

اس بارے میں بہت سی روایات و احادیث موجود ہیں۔

آپ اس سے بھی بے خبر نہ ہوں گے کہ علامہ ابن حجر مکی اور ان کے ہم خیالوں کی اپج جو انھوں نے حدیث غدیرمیں نکالی ہے صحیح سمجھ لی جائے

--------------

۱ـ جیسا کہ وار قطنی کی روایت ہے۔ ملاحظہ ہو صواعق محرقہ ص۲۶

۲ـ دار قطنی نے اس واقعہ کی روایت کی ہے۔ ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب ۱۱ فصل اول۔

۳۴۷

 تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاذ اﷲ پیغمبر(ص) کا غدیر کے دن ہر قول و فعل بیہودہ و مہمل سمجھا جائے ، رسول(ص) ہرزہ کار سمجھے جائیں۔ کیونکہ علامہ ابن حجر کی اس نرالی منطق کی بنا پر غدیر کے دن اس سارے ساز و سامان ، غیر معمولی اہتمام کا مقصد ہی کچھ نہیں نکلتا۔ سوا اس کے کہ رسول(ص) یہ بیان کرنا چاہتے تھے کہ علی(ع) کی جب لوگ بیعت

کرلیں تب یہ اولیٰ بالامامت ہوں گے اور یہ معنی تو ایسے ہیں کہ سمجھ والے تو سمجھ والے، ناسمجھ بھی ہنس دیں گے۔ اس معنی کے بنا پر امیرالمومنین(ع) کو اعتبار ہی کیا حاصل ہوا۔ دوسروں کے مقابلہ میں آپ کی خصوصیت ہی کیا ثابت ہوئی۔ اس لیے کہ جس کی بیعت ہوجاتی امامت کے لیے جس کو بھی مسلمان منتخب کر لیتے۔ اولی بالامامت ہوتا ۔ اس معنی سے تو حضرت علی(ع) اور آپ کے ماسوا تمام صحابہ سب ہی برابر ہوئے۔ اگر آپ کی نرالی منطق درست سمجھ لی جائے تو یوم غدیر رسول(ص) نے چلچلاتی دھوپ

میں تپتی زمین پر لاکھوں مسلمانوں کو روک کر اتنا زبردست اہتمام فرماکر کون سی اہم بات فرمائی ، بمقابلہ دیگر اصحاب کون سی مخصوص فضیلت حضرت علی(ع) کی بیان کی۔

علامہ ابن حجر وغیرہ کا یہ کہنا کہ حضرت علی(ع) کا اولی بالامامت ہونا مالا اگر نہ مانا جائے تو اس صورت میں حضرت علی(ع) کا رسول(ص) کے جیتے جی امام ہونا لازم آگے گا۔ تو یہ نرالی فریب دہی ہے۔ اور انبیاء وخلفاء و ملوک و امراء کا جو دستور ہمیشہ سے چلا آرہا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی زندگی ہی میں اپنا جانشین مقرر کرتے آئے اس سے غفلت شعاری اور تغافل کیسی ہے حدیث “ انت منی بمنزلة ہارون من موسیٰ” جس مطلب پر دلالت کرتی ہے اس سے عمدا نا واقفیت کا اظہار اور دعوتِ غشیرہ کے موقع پر آںحضرت(ص) نے جو فرمایا تھا۔“ فاسمعوا لہ و اطیعوا”

۳۴۸

 ان کی بات سننا اور ان کی اطاعت کرنا یا اسی جیسے دیگر ارشادات پیغمبر(ص) کو بھلا دینا ہے۔

علاوہ اس کے اگر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ علی(ع) کا اولیٰ بالامامت ہونا غیر ممکن ہے کیونکہ رسول(ص) کی زندگی ہی میں ان

کا امام ہونا لازم آئے گا تو کم سے کم رسول(ص) کی آنکھ بند ہونے کے بعد سے تو حضرت علی(ع) ہی کو اولیٰ بالامامت ہونا چاہیے۔بیچ میں فاصلہ تو نہ ہونا چاہیے جیسا کہ طے شدہ مسئلہ ہے۔ علمائے معانی و بیان کا بنایا ہوا قاعدہ ہے کہ جب کسی حقیقی معنی پر عمل کرنا دشوار ہوتو مجازی معنوں میں جو معنی قریب ترین ہو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ لہذا من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ ۔ میں لفظ مولیٰ کو اگر اس کے حقیقی معنی اولی بالامامت پر حمل کرنا دشوار سمجھتے ہیں کیونکہ نبی کی زندگی میں امام لازم آئے گا تو اس کے یہ معنی سمجھیے کہ رسول(ص) کی آنکھ بند ہوتے ہی بغیر کسی فصل کے یہ اولیٰ بالامامت ہیں۔

رہ گیا یہ کہ مولیٰ سے اولیٰ بالامامت اگر مالا مراد لیا جائے تو سلف صالحین کا احترام باقی رہے گا اور حالا اولیٰ بالامامت سمجھا جائے تو نہیں۔ تو یہ بالکل ہی غلط ہے ۔ مولیٰ سے اولیٰ بالامامت حالا مراد لینے پر بھی سلف صالحین کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں آسکتا ان کا احترام تاویل کے بغیر بھی باقی رہتا ہے۔ جیسا ہم آئندہ اگر ضرورت پیش آئی تو اس کی وضاحت کریں گے۔

                                                                     ش

۳۴۹

مکتوب نمبر۳۱

شیعوں کے سلسلہ سے ںصوص کی خواہش

جب سلف صالحین کا احترام محفوظ ہے تو آپ نے حضرت علی(ع) کی امامت کے متعلق جتنی حدیثیں ذکر فرمائیں خواہ حدیث غدیر ہو یا ددیگر احادیث تو کوئی حرج نہیں اور ہمیں ان میں خواہ مخواہ تاویل کی بھی ضرورت نہیں۔ شاید آپ کے یہاں اس مسئلہ سے متعلق اور بھی حدیثیں ہیں۔ جن سے اہلسنت بے خبر ہیں۔ بڑی مہربانی ہوگی آپ اپنے یہاں کی ان احادیث کو بھی ذکر فرمائیے تاکہ ہمیں بھی واقفیت حاصل ہو۔

                                                                     س

۳۵۰

جوابِ مکتوب

ہاں ہمارے یہاں اور بھی بہت سی صریحی نصوص امامت و خلافتِ امیرالمومنین(ع) کے متعلق کتب احادیث میں موجود ہیں جن کی اہلسنت کو خبر نہیں۔ وہ تمام کی تمام حدیثیں صحیح ہیں، بطریق اہلبیت طاہرین(ع) مروی ہیں۔ ہم چالیس(۴۰) حدیثیں آپ کو سناتے ہیں:

۱ـ جناب صدوق محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی نے اپنی کتاب اکمال الدین و اتمام النعمہ میں عبدالرحمن بن سمرہ سے اسناد کر کے آںحضرت(ص) سے ایک حدیث درج فرمائی ہے

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : اے ابن سمرہ ، جب خواہشیں لوگوں کی باہم مخالف ہوں اور خیالات مختلف ہوں تو تم علی(ع۹ ابن ابی طالب کا دامن پکڑے رہنا ۔ وہ میری امت کے امام اورمیرے بعد میرے خلیفہ و جانشین ہیں۔”

۲ـ جنابِ صدوق نے اپنی اسی کتاب اکمال میں، ابن عباس سے روایت کی ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ :

“ رسول(ص) نے فرمایا :  کہ خداوند عالم نے زمین پر نگاہ ڈالی۔ تمام روئے زمین کے باشندوں میں  مجھے منتخب فرماکر نبی بنایا پھر دوسری مرتبہ نگاہ کی اور علی(ع) کو منتخب فرما کر امام بنایا، پھر مجھے حکم دیا کہ میں
۳۵۱

 انھیں اپنا بھائی، ولیعہد، وصی، جانشین اور وزیر بناؤں ۔”

۳ـ اسی کتاب اکمال میں بسلسلہ اسناد امام جعفر صادق(ع) اور انھوں نے اپنے آباء طاہرین علیہم السلام سے روایت کی ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا :

“ جبرئیل امین(ع) نے مجھ سے منجانب پروردگار عالم بیان کیا کہ جو شخص علم رکھتا ہو کہ کوئی معبود نہیں سوائے میری ذات دیکتا کے اور محمد(ص) میرے بندے اور میرے رسول(ص) اور علی بن ابی طالب(ع) میرے خلیفہ اور ان کی اولاد میں گیارہ امام میری حجتیں ہیں۔ تو میں اس شخص کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کروں گا۔”

۴ـ اسی اکمال میں جناب صدوق نے بسلسلہ اسناد امام جعفر صادق(ع) سے اور انھوں نے اپنے آبا و اجداد طاہرین(ع) سے روایت کی ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ :

“ میرے بعد بارہ(۱۲) امام ہوں گے ۔ سب سے پہلے علی(ع) اور سب کے آخر میں قائم ہیں۔ یہ میرے بارہ(۱۲) خلفاء اور میرے اوصیاء ہیں۔”

۵ـ اسی اکمال میں جناب صدوق بسلسلہ اسناد اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں۔ اصبغ کہتے ہیں کہ :

“ ایک دن امیرالمومنین(ع) ہمارے پاس تشریف لائے اس طرح کہ آپ کا ہاتھ آپ کے فرزند امام حسن(ع) کے
۳۵۲

 ہاتھ میں تھا۔ امیرالمومنین(ع) فرمارہے تھے کہ رسول اﷲ(ص) بھی ہم لوگوں کے درمیان ایک دن اسی طرح تشریف لائے اور ان کے ہاتھ میں میرا ہاتھ تھا اور آپ فرمارہے تھے کہ میرے بعد بہترین خلائق اور ان کا سید و سردار و میرا بھائی ہے۔ یہ میرے بعد ہر مسلم اور ہر مومن کا امیر ہے۔”

۶ـ اسی اکمال میں جناب صدوق بسلسلہ اسناد امام رضا(ع) سے اور وہ اپنے آباء طاہرین(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : جو شخص یہ چاہتا ہے کہ میرے دین پر قائم رہے اور میرے نجات کی کشتی پر سوار ہو، وہ علی(ع) کی پیروی کرے وہ میرے وصی اورمیری امت میں میرے جانشین وخلیفہ ہیں۔ میری زندگی میں بھی اور میرے مرنے کے بعد بھی۔”

۷ـ اسی اکمال میں جناب صدوق بسلسلہ اسناد امام رضا(ع) سے اور وہ اپنے آباء طاہرین(ع) سے روایت کرتے ہیں :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : میں اور علی(ع) اس امت کے باپ ہیں جس نے ہمیں پہچانا اس نے خدا کو پہچانا اور جس نے ہمیں نہ پہچانا اس نے خدا کو نہ پہچانا اور علی(ع) ہی کے فرزند امت کے سبطین ہیں اور سرداران جوانانِ جنت ہیں یعنی حسن(ع) و حسین(ع) اور حسین(ع) کے نو فرزند ہوں گے ان کی اطاعت میری
۳۵۳

 اطاعت اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی ہے۔ نواں فرزند قائم اور مہدی ہوگا۔”

۸ـ اسی اکمال میں امام حسن عسکری(ع) سے مروی ایک حدیث جناب صدوق نے لکھی ہے ۔ امام حسن عسکری(ع) نے اپنے آباء طاہرین(ع) روایت کی ہے کہ :

“ آںحضرت (ص) نے فرمایا : اے ابن مسعود! علی بن ابی طالب(ع) میرے بعد تمھارے امام ہیں اور تم میں میرے جانشین ہیں۔”

۹ـ اسی اکمال میں بسلسلہ اسناد جناب سلمان فرماتے ہیں کہ :

“ میں رسول(ص) کی خدمت میں پہنچا دیکھا کہ حسین(ع) آپ کے زانو پر بیٹھے ہیں اور رسول(ص) ان کے ہونٹوں کو چوم رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں، تو سید وسردار ہے۔ سید و سردار کا بیٹا ہے ، تو امام ہے، امام کا بھائی ہے، امام کا بیٹا ہے اور اماموں کا باپ ہے، تو خدا کی حجت ہے ، خدا کی حجت کا فرزند ہے اور خدا کی نو حجتوں کا باپ ے جو سب کے سب تیرے سلب سے ہوں گے۔ نواں قائم ہوگا۔”

۱۰ـ اسی اکمال میں جناب صدوق بسلسلہ اسناد جناب سلمان سے روایت کرتے ہیں۔ ایک طولانی حدیث ہے جس کا ٹکڑا یہ ہے کہ :

“ آںحضرت (ص) نے اپنی پارہ جگر جناب سیدہ (س) سے فرمایا :
۳۵۴

 کیا تم جانتی نہیں کہ ہم وہ اہل بیت(ع) ہیں کہ خداوند عالم نے ہمارے لیے بمقابلہ دینا ، آخرت کو پسند کیا اور خداوند عالم نے ایک نگاہ روئے زمین پر ڈالی اور تمام خلائق میں مجھے منتخب کیا۔ پھر دوبارہ نگاہ کی اور تمھارے شوہر کو منتخب کیا اور خداوند عالم نے مجھے وحی فرمائی کہ تمھاری شادی ان سے کردوں اور انھیں اپنا ولی بناؤں اور وزیر بناؤں اور اپنی امت میں اپنا جانشین مقرر کروں پس تمھارا باپ تمام انبیاء سے بہتر اور تمھارا شوہر تمام اوصیاء سے بتر اور تم پہلی وہ فرد ہو جو مجھ سے ملحق ہوگی۔”

۱۱ـ جناب صدوق نے اسی اکمال میں ایک  طولانی حدیث درج کی ہے جس میں ذکر ہے کہ :

“ دو(۲) سو سے زیادہ مہاجرین و انصار عہد حضرت عثمان میں مسجد کے اندر جمع ہوئے۔ علمی تذکرہ اور فقہ کی باتیں ہونے لگیں اور آگے چل کر فخر و مباہات ہونے لگی ۔ حضرت علی(ع) چپ تھے۔ لوگوں نے حضرت علی(ع) سے کہا آپ کچھ کیوں نہیں فرماتے ۔ تو آپ نے ان کو رسول(ص) کا وہ ارشاد یاد دلایا  جس میں آںحضرت(ص) نے فرمایا تھا کہ علی(ع) میرے بھائی ہیں، میرے وزیر ہیں۔ میرے وارث ہیں، وصی ہیں اور میری امت میں میرے جانشین  ہیں اور میرے بعد
۳۵۵

 ہر مومن کے  ولی ہیں تو سارے مجمع نے اقرار کیا کہ بے شک رسول(ص)نے آپ کے متعلق یہ فرمایا تھا۔”

۱۲ـ اسی اکمال میں جناب صدوق نے عبداﷲ بن جعفر، امام حسن(ع) ، امام حسین(ع) ، عبداﷲ بن عباس، عمر بن ابی سلمہ، اسامہ بن زید سلمان ، ابوذر ، اور مقداد مندرجہ بالا حضرات میں سے ہر بزرگ سے روایت کی ہے۔ ان میں سے ہر شخص کا بیان ہے کہ :

“ ہم نے رسول(ص) کو کہتے سنا : کہ میں تمام مومنین میں ان سے بڑھ کر صاحبِ اختیار ہوں، پھر میرے بھائی علی(ع) مومنین کے مالک و مختار ہیں۔”

۱۳ـ اسی کمال میں جناب صدوق نے اصبغ بن نباتہ سے روایت کی ہے انھوں نے ابن عباس سے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ:

“ میں نے رسول(ص) کو کہتے سنا کہ : میں اور علی(ع) اور حسن(ع) و حسین(ع) اور حسین(ع) کے نو فرزند پاک و پاکیزہ ہیں۔”

۱۴ـ اسی اکمال میں جناب صدوق نے غبایہ بن ربعی سے انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : میں نبیوں کا سردار ہوں اور علی(ع) تمام اوصیاء کے سردار ہیں۔”

۱۵ـ اسی اکمال میں جناب صدوق نے امام جعفر صادق(ع) سے انھوں نے اپنے آباء طاہرین (ع) سے روایت کی ہے کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : خداوند عالم نے تمام انبیاء کے درمیان مجھے منتخب کیا اور مجھ سے علی(ع) کو منتخب کیا۔
۳۵۶

 اور انھیں تمام اوصیاء پر فضیلت بخشی اور علی(ع) سے حسن(ع) و حسین(ع) کو منتخب کیا اور حسین(ع) سے ان کی نسل میں اوصیاء کا انتخاب فرمایا جو دین سے غالیوں کی تحریف اور باطل کاروں کی تہمت تراشی اور گمراہوں کی تاویل کو دور رکھیں گے”

۱۶ـ اسی اکمال میں جناب صدوق نے امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے امیرالمومنین (ع) فرماتے ہیں کہ :

“ حضرت سرور کائنات(ص) نے فرمایا : میرے بعد بارہ(۱۲) امام ہوں گے ان سب کے اول تم ہو اے علی(ع) اور سب سے آخر قائم ہیں جن کے ہاتھوں پر خداوند عالم مشرق و مغرب کو فتح کرے گا۔ ( اکمال الدین و اتمام النعمة باب ۲۴ صفحہ۱۴۹ تا ۱۶۷ یہ حدیثیں اور اس کے اوپر کی حدیثیں مذکور ہیں۔)

۱۷ـ جناب صدوق نے امالی میں امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے جسے انھوں نے اپنے آباء طاہرین(ع) سے مرفوعا بیان کیا کہ :

“ آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا : علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔ علی(ع) میری طینت سے پیدا ہوئے اور میری سنت کے جس مسئلہ میں امت کے درمیان اختلاف پیدا ہوگا۔ یہ علی(ع) ہی اس کی وضاحت کریں گے یہ مومنین کے امیر ہیں اور روشن پیشانی والے مومنین کے قائد ہیں اور تمام اوصیاء میں سب سے بہتر ہیں۔”

۱۸ـ اسی امالی میں جناب صدوق امیرالمومنین(ع) سے بسلسلہ اسناد روایت

۳۵۷

 کرتے ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا علی(ع) مومنین کے امیر ہیں، خداوندِ عالم نے خود عرش پر ان کو ولی مقرر کیا اور علی(ع) خدا کے خلیفہ اور حجت ہیں اور یہی علی(ع) مسلمانوں کے امام ہیں۔”

۱۹ـ اسی امالی میں جناب صدوق ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : اے علی(ع) تم امام المسلمین اور امیرالمومنین اور روشن پیشانی والوں کے قائد ہو، میرے بعد خدا کی حجت ہو اور تمام اولیاء کے سید و سردار ہو۔”

۲۰ـ اسی امالی میں جناب صدوق ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ:

“ آںحضرت (ص) نے فرمایا: اے علی(ع) تم میری امت پر میرے خلیفہ ہو اور تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے آدم(ع) کے لیے شیث تھے۔”

۲۱ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے بسلسلہ اسناد جناب ابی ذر سے روایت کی ہے۔ جناب ابوذر فرماتے ہیں :

“ ایک دن ہم لوگ رسول(ص) کی خدمت میں مسجد میں بیٹھے تھے، آںحضرت(ص) نے فرمایا تمھارے پاس اس دروازے سے ایک شخص آئے گا وہی امیرالمومنین اور امام المتقین ہوگا۔ ناگاہ امیرالمومنین(ع) علی بن ابی طالب(ع) آتے
۳۵۸

 دکھائی دیے۔ رسول(ص) نے آگے بڑھ کر استقبال کیا ۔ پھر آپ ہم لوگوں کی طرف مڑے اور ارشاد فرمایا : یہی میرے بعد تم لوگوں کے امام ہیں۔”
( یہ حدیث اور اس کی اوپر کی چاروں حدیثیں علامہ سید بحرینی نے اپنی امالی میں جناب صدوق سے نقل کی ہیں اور اس کے بعد کی تمام حدیثیں غایة المرام باب ۱۳ میں مذکور ہیں۔)

۲۲ـ اسی امالی میں جناب صدوق جابر بن عبداﷲ انصاری ےس روایت کرتے ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : علی بن ابی طالب(ع) سب سے پہلے اسلام لانے والے سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا : یہی امام ہیں اور میرے بعد خلیفہ۔”

۲۳ـ اسی امالی میں بسلسلہ اسناد ابن عباس سے روایت ہے کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : اے گروہ مردم خدا سے زیادہ گفتار میں بہتر کون ہوسکتا ہے۔ تمھارے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے ک میں تمھارے لیے علی(ع) کو امام ، خلیفہ اور وصی مقرر کردوں، اپنا بھائی اور اپنا وزیر بنا دوں۔”

۲۴ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے بسلسلہ اسناد ابن عباس سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں :

“ رسول(ص) بالائے منبر تشریف لے گئے ۔ خطبہ ارشاد فرمایا
۳۵۹

پھر وہ خطبہ ذکر کیا ۔ اسی خطبہ میں ہے کہ میرے چچا کے بیٹے علی(ع) میرے بھائی میرے وزیر ہیں اور یہی میرے خلیفہ اور میری جانب سے تبلیغ کرنے والے ہیں۔”

۲۵ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے بسلسلہ اسناد امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے :

“ امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول(ص) نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے فرمایا : اے لوگو خدا کا مہینہ ( رمضان ) آرہا ہے۔”
پھر وہ پوری حدیث مذکور ہے جو آپ نے ماہ رمضان کی فضیلت میں فرمائی ہے :
“ امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں کہ میں دریافت کیا: یا رسول اﷲ(ص) اس مہینہ میں بہترین اعمال کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا : خدا کی حرام کی ہوئی  چیزوں سے پرہیز۔ پھر آںحضرت(ص) گریہ فرمانے لگے۔ میں نے عرض کی یا رسول اﷲ(ص) گریہ کیوں فرمانے لگے۔ آپ نے فرمایا : میں اس ظلم پر رو رہا ہوں جو تم پر اس مہینہ میں روا رکھا جائے گا۔ یہاں تک کہ فرمایا ، اے علی(ع) تم میرے وصی، خلیفہ ہو، میری زندگی میں بھی ، میرے مرنے کے بعد بھی ۔ تمھارا حکم دینا میرا حکم دینا ہے اور تمھارا منع کرنا میرا منع کرنا ہے۔”
۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639