دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 262527
ڈاؤنلوڈ: 6008

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 262527 / ڈاؤنلوڈ: 6008
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

26ـ جناب صدوق نے اسی امالی میں امیرالمومنین(ع) سے روایت کر کے ایک حدیث لکھی ہے:

“ امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ : اے علی(ع) ! تم میرے بھائی ہو اور میں تمھارا بھائی ہوں۔ میں نبوت کےلیے پسند کیا گیا ۔ تم امامت کے لیے منتخب ہوئے۔ میں صاحب تنزیل ہوں تم صاحبِ تاویل ہو اور تم اس امت ے باپ ہو۔ اے علی(ع) تم میرے وصی ہو، میرے خلیفہ ہو، میرے وزیر ہو، میرے وارث ہو، میرے بچوں کے باپ ہو۔”

27ـ اسی امالی میں جناب صدوق بسلسلہ اسناد ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے ایک دن فرمایا، جب کہ آپ مسجد قبا میں تشریف فرما تھے اور اصحاب کے گرد اکٹھے تھے: اے علی(ع) ! تم میرے بھائی ہو اور میں تمھارا بھائی ہوں۔ تم میرے وصی ہو، میرے خلیفہ ہو۔ میرے بعد میری امت کے امام ہو۔ خدا دوست رکھے اسے جو تمھیں دوست رکھے، دشمن رکھے اسے جو تمھیں دشمن رکھے۔”

28ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے ایک طولانی حدیث جناب ام سلمہ سے روایت کی ہے جس میں آںحضرت(ص) نے ام سلمہ سے فرمایا : کہ

“ اے ام سلمہ سنو اور گواہ رہو کہ یہ علی ابن ابی طالب(ع) میرے وصی ہیں، میرے خلیفہ ہیں اور میرے کیے
۳۶۱

 ہوئے وعدوں کو پورا کرنے والے ہیں اور میرے حوض کوثر پر سے منافقین کو بھگانے والے ہیں۔”

29ـ اسی امالی میں بسلسلہ اسناد سلمان فارسی سے روایت ہے جناب سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ :

“ میں نے رسول(ص) کو کہتے سنا : اے گروہ مہاجرین و اںصار ! کیا میں تمھاری رہبری اس ذات کی طرف نہ کردوں کہ اگر تم اس کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہو تو کبھی میرے بعد گمراہ نہ ہو۔ لوگوں نے کہا ضرور یا رسول اﷲ(ص) ، فرمایا : یہ علی(ع) میرے بھائی ہیں۔ میرے وصی ہیں، میرے وزیر ہیں، میرے خلیفہ ہیں اور تمھارے امام ہیں۔ لہذا جس طرح مجھے دوست رکھتے ہو انھیں بھی دوست رکھو اور جس طرح میری عزت و تکریم کرتے ہو ان کی بھی کرو۔ مجھ سے جبریل امین نے کہا ہے کہ میں یہ بات تم سے کہوں۔”

30ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے بسلسلہ اسناد زید بن ارقم سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ :

“ رسول(ص) نے فرمایا : کہ میں تمھاری رہبری اس شخص کی طرف نہ کروں کہ اگر تم اس کا مضبوطی سے دامن پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو نہ ہلاک ہو۔ فرمایا آںحضرت(ص) نے کہ تمھارے امام اور ولی علی بن ابی طالب(ع)
۳۶۲

 ہیں۔ ان کا بوجھ بٹاؤ ان کی خیر خواہی کرو، ان  کی تصدیق کرو۔ جبرئیل نے مجھے اس بات کے کہنے کا حکم دیا ہے”

31ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے ابن عباس سے روایت کی ہے جس میں ہے کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : اے علی(ع) ! تم میری امت کے امام ہو اور میرے بعد امت پر میرے خلیفہ ہو۔”

32ـ اسی امالی میں جناب صدوق ابن عباس سے روایت کی ہے کہ:

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : کہ خداوند عالم نے مجھ پر وحی فرمائی کہ وہ میری امت سے ایک شخص کو میرا بھائی، میرا وارث خلیفہ اور وصی بنانے والا ہے۔ میں نے درگاہ الہی میں سوال کیا، پروردگار وہ کون ہے؟ تو خدا نے مجھ پر وحی فرمائی کہ وہ تمھاری امت کا امام اور میری حجت ہے۔ اس پر میں نے عرض کیا : الہی وہ کون ہے؟ ارشاد ہوا: وہ، وہ ہے جسے میں بھی دوست رکھتا ہوں اور وہ بھی مجھے دوست رکھتا ہے۔یہاں تک کہ آپ نے سلسلہ بیان میں فرمایا : کہ وہ علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔”

33ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے امام جعفر صادق(ع) سے اور انھوں نے اپنے آباء طاہرین(ع) سے روایت کی ہے کہ:

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : جب مجھے شب معراج آسمان
۳۶۳

 پر لے جایا گیا تو خداوند عالم نے مجھ سے علی(ع) کے متعلق عہد و پیمان فرمائے کہ وہ امام المتقین ، قائد غرالمحجلین ، یعسوب المومنین ہیں۔

34ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے بسلسلہ اسناد امام رضا(ع) سے انھوں نے اپنے آباء طاہرین(ع) سے روایت کی ہےکہ:

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔ خدا ہلاک کرے گا اسے جو علی(ع) سے جنگ کرے علی(ع) میرے بعد خلائق کے امام ہیں۔”

35ـ جناب شیخ الطائفہ  ابو جعفرر محمد بن حسن طوسی نے اپنی امالی میں بسلسلہ اسناد جناب عمار یاسر سے روایت کی ہے، جنابِ عمار فرماتے ہیں کہ:

“ رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) نے ارشاد فرمایا : کہ خدا نے تمھیں ایسی زینت سے سنوارا ہے کہ جس زینت سے زیادہ محبوب زینت بندوں کو نہیں بخشی۔”

36ـ جناب شٰیخ نے اپنی  اسی امالی میں بسلسلہ اسناد امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے :

“ امیرالمومنین(ع) نے ایک دن منبر کوفہ پر خطبہ میں ارشاد فرمایا : اے لوگو! مجھے رسول(ص) سے دس خصوصیات ایسی حاصل ہوئیں جو روئے زمین کی تمام چیزوں سے زیادہ مجھے محبوب ہیں۔ مجھ سے آںحضرت(ص) نے فرمایا : اے علی(ع) ! تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔ اور
۳۶۴

بروزِ قیامت تمام خلائق سے زیادہ مجھ سے قریب ہوگے اور جنت میں تمھاری قیام گاہ میری قیام گاہ کے سامنے ہوگی۔ تم میرے وارث ہو، تم ہی میرے بعد میرے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرنے والے ہو اور میرے گھر والوں کے وصی ہو ۔ اور میری عدم موجودگی میں میرے اہلبیت(ع) کے تم ہی محافظ ہو اور تم ہی میرے ولی ہو۔ اور میرا ولی خدا کا ولی ہے اور تمھارا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے۔”

37ـ جناب صدوق نے کتاب ںصوص علی الائمہ، میں بسلسلہ اسناد امام حسن بن علی(ع) سے روایت کہ ہے:

“ امام حسن(ع) فرماتے ہیں: کہ میں نے رسول(ص) کو امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) سے کہتے سنا: تم میرے علوم کے وارث ہو، میری حکمتوں کے معدن ہو، میرے بعد امام ہو۔”

38ـ جناب صدوق نے کتاب نصوص میں بسلسلہ اسناد عمران بن حصین سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ :

“ میں نے رسول(ص) کو امیرالمومنین(ع) سے کہتے سنا: تم ہی امام ہو اور میرے بعد خلیفہ ہو۔”

39ـ اسی کتاب ںصوص میں بسلسلہ اسناد امیرالمومنین(ع) سے ایک حدیث مذکور ہے کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : اے علی(ع) تم میرے اہلبیت(ع) کے
۳۶۵

 مرنے والوں کے وصی اور میری امت کے زندہ افراد پر خلیفہ ہو۔”

40ـ اسی کتاب ںصوص میں بسلسلہ اسناد امام حسین(ع) سے ایک حدیث مروی ہے۔ امام مظلوم فرماتے ہیں کہ:

“ خداوند عالم نے جب یہ آیت نازل فرمائی کہ بعض اولی الارحام بعض سے زیادہ حقدار ہیں۔” میں نے رسول(ص) سے اس کی تاویل کےمتعلق پوچھا، آںحضرت(ص) نے فرمایا تم لوگ اولی الارحام ہو۔ پس جب میں مرجاؤں تو تمھارے پدر بزرگوار مجھ سے زیادہ خصوصیت و قرابت رکھتے ہیں۔ اورمیری جگہ کے زیادہ حقدار سزاوار ہیں جب وہ دنیا سے اٹھیں تو تمھارے بھائی حسن(ع) اس عہدہ کے سزاوار ہیں اور جب حسن(ع) بھی دنیا سے اٹھ جائیں تو تم اس منصب کے سزاوار ہو۔”
یہ اتنی حدیثیں میں اس مختصر رسالہ میں درج کر رہاں ہوں۔ یہ اتنے نصوص باقی نصوص سے ایسی نسبت رکھتے ہیں جیسے ایک پھول کو باغ سے یا ایک قطرے کو بحر بے پایان سے  نسبت ہوتی ہے ۔ پھر بھی اگر انصاف سے کام لیا جائے تو بعض حدیثیں ہی کفائت کریں۔(1)

                                                     ش

--------------

1ـ ہم نے چالیس (40) کی تعداد میں اس لیے حدیثیں بیان کی ہیں کہ ہماری کتب احادیث میں امیرالمومنین(ع) علی بن ابی طالب(ع) ، عبداﷲ بن عباس، عبداﷲ بن مسعود، عبداﷲ بن عمر، ابو سعید خدری، ابو دردا، ابو ہریرہ ، انس بن مالک ، معاذ بن جبل وغیرہ بزرگوں میں سے ہر ہر شخص سے یہ حدیث بکثرت طریقوں سے مروی ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا : جس نے چالیس حدیثیں امر دین کے متعلق میری امت میں یاد کیں خدا اسے بروزِ قیامت فقہاء علماء کے گروہ میں اٹھائے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ خدا اسے فقیہ و عالم کی حیثیت سے اٹھائے گا ۔ ابو درداء کی روایت میں ہے کہ میں بروز حشر اس کا شفیع و گواہ رہوں گا۔ ابن مسعود کی روایت میں ہے کہ میں اس سے کہوں گے کہ جنت کے جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ، ابن عمر کی روایت میں ہے اسے زمرہ علماء مین شامل کیا جائے گا اور اسے شہداء کے زمرہ میں مبعوث کیا جائے گا۔ اور ہمارے لیے ان چالیس حدیثوں کے حفظ کے لیے رسول(ص) کا یہ قول کافی ہے خدا اس شخص کے چہرے کو شاداب رکھے جو میری بات سنے اور محفوظ رکھے اور جس طرح سنا ہے اسی طرح اسے پہنچا دے۔ آپ کا یہ قول بھی کافی ہے جن لوگوں نے سنا ہے وہ ان لوگوں کو پہنچائیں جو موجود نہیں ہیں۔

۳۶۶

مکتوب نمبر32

شیعوں کی حدیثیں حجت نہیں اگر یہ حدیثیں صحیح ہیں تو اہلسنت نے کیوں نہیں ان کی روایت کی ،مزید نصوص ذکر فرمائیں

یہ نصوص جو آپ نے ذکرفرمایئے یہ حضرات اہل سنت کے یہاں ثابت نہیں ۔لہذا ان پر حجت بھی نہیں ہوسکتے

اگر ان حضرات اہلسنت کے یہاں نصوص ثابت ہیں تو انھوں نے کیوں ذکر کیا ۔ لہذا وہی اگلا سلسلہ آپ جاری رکھیے یعنی موضوع پر حضرات اہلسنت کے یہاں جو احادیث موجود ہیں انھیں بیان فرمائیے۔

س

۳۶۷

جواب مکتوب

ہم نے ان ںصوص کو اس لیے بیان کیا کہ آپ بھی واقف ہوجائیں اور آپ نے خود ہی خواہش ظاہر کی تھی۔

آپ پر حجت قائم کرنے کے لیے وہی حدیثیں کافی ہیں جنھیں ہم نے گزشتہ اوراق میں خود آپ کے صحاح سے بیان کیا ہے۔

رہ گیا یہ کہ ان نصوص کو اہل سنت نے کیوں نہیں ذکر کیا تو اسے آپ کیا پوچھتے ہیں۔ یہ تو آل محمد(ص) سے پر خاش اور ان کی طرف سے دل میں کینہ رکھنے والے دورِ اول کےارباب تسلط و اقتدار کی پرانی عادت ہے۔ جنھوں نے فضائل اہلبیت(ع) پر پردہ ڈالنے اور ان کے نور کو بجھانے کے لیے کوئی کوشش اٹھا نہ رکھی۔ سلطنت کے خزانے لٹا دیے، اپنی تونائیاں صرف کردیں اور ہر ہر شخص کو لالچ دے کر، ڈرا دھمکا کر آیا وہ کیا کہ اہل بیت(ع) کے مناقب و فضائل مخصوص کو چھپائے، جھتلائے۔ اس مقصد کے لیے درہم و دینار سے کام لیا گیا۔ بڑے بڑے وظیفے مقرر کیے گئے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا اور جو ان ترکیبوں سے قابو میں نہیں آیا اسے کوڑوں تلواروں سے زیر کیا گیا۔

یہ فرعون خصلت ، نمرود سرشت افراد فضائل اہلبیت(ع) کی تکذیب کرنے والوں کو تو قربت بخشے، مقرب بارگاہ بناتے اور تصدیق کرنے والوں کو گھر سے بے گھر کرتے۔ جلا وطن کرتے، ان کے مال و اسباب کو لوٹ لیتے یا قتل کر دیتے۔

۳۶۸

آپ سے یہ حقیقت مخفی نہ ہوگی کہ امامت و خلافت کے متعلق نصوص و ارشادات پیغمبر(ص) ایسی چیز تھی جس سے غاصب و ظالم سلاطین بے حد خطرہ محسوس کرتے تھے۔ ہر وقت انھیں خدشہ رہتا تھا کہ یہ حدیثیں کہیں ہمارا تختہ نہ الٹ دیں۔ بنیاد سلطنت ن ڈھادیں لہذا ان صریحی نصوص و احادیث کا ان سلاطین جور اور ان کے ہوا خواہوں سے بچ رہنا اور متعدد اسناد و طرق مختلف سے ہم تک پہنچ جانا راستی و سچائی کا ایک کرشمہ اور حق و صداقت کا بہت بڑا معجزہ ہے کیونکہ اس وقت کی حالت یہ تھی کہ جو لوگ حقوق اہلبیت(ع) کا غصب کیے بیٹھے تھے اور ان کے مدارج و مراتب کے چھینے ہوئے تھے جس پر خداوندِ عالم نے ان اہلبیت علیہم السلام کو فائز کیا تھا۔ ان کا وتیرہ یہ تھا کہ محبت اہلیت(ع) کا جس پر الزام قائم ہو جاتا اسے درناک و بدترین عذاب میں مبتلا کرتے، اس کی ڈاڑھی مونڈ دیتے اور بازاروں میں تشہیر کرتے تھے۔ اسے ذلیل وخوار کرتے اور جملہ حقوق سے محروم کردیتے ۔ یہاں تک کہ اس کے لیے حکام کی عدالت کا دروازہ(1) بھی بند ہوجاتا اور سماج میں رسائی بھی  ناممکن ہوجاتی  اگر کوئی شخص اچھائی کے ساتھ علی(ع) کا ذکر کرتا تو حکومت اس سے بری الذمہ ہوجاتی۔ آفتیں اس پر ٹوٹ پڑتیں۔ اس کا مال آپس میں

بانٹ لیا جاتا اور اس کی گردن مار دی جاتی۔ نہ معلوم کتنی زبانیں انھوں نے گدیوں سے کھینچ لیں۔ محض اس جرم میں کہ انھوں نے فضائل علی(ع) بیان کیے ۔ کتنی آنکھیں ضائع

--------------

1ـ ملاحظہ فرمائیے شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 15 علامہ ابن ابی الحدید معتزلی نے ایک مختصر سا تذکرہ ان مظالم کا کیا ہے جو دورِ اموی و عباسی میں اہل بیت(ع) و شیعیان اہلبیت پر روا رکھے جاتے تھے

۳۶۹

 کردیں اس قصور میں کہ علی(ع) کو احترام کی نظروں سے دیکھا ، کتنے ہاتھ کاٹ ڈالے اس پاداش میں کہ علی(ع) کی کسی فضیلت و منقبت کی طرف اشارہ کیا۔ کتنے پیر گھسیٹے گئے۔ اس خطا پر کہ وہ علی(ع) کی طرف چلے تھے ۔ علی(ع) کے دوستوں کے نہ جانے کتنے گھر جلا ڈالے گئے ۔ ان کے باغ اور کھیتیاں لوٹ لی گئیں اور درختوں پر انھیں سولی بھی دے دی گئی یا ان کو گھر سے بے گھر کر کے نکال باہر کیا گیا۔ نا معلوم طریقوں سے ایذا پہنچائی گئی۔

اس وقت حاملین حدیث و حافظین آثار کی ایک بہت بڑی جماعت ایسی تھی جو خدا کو چھوڑ کر ان جابر بادشاہوں اور ان کے افسروں کی پرستش کرتے تھے۔ ان کی خوشامد اور چاپلوسی میں کسی بات سے دریغ نہ کرتے تھے۔ حدیثوں میں الٹ پھیر کردینا۔ عبارت کچھ سے کچھ کردینا۔ ضعیف کو قوی اور قوی کو ضعیف کر کے پیش کرنے میں انھیں کوئی باک ہی نہ تھا جیسے ہم آجکل اپنے زمانے میں حکومت کے پٹھو اور تنخواہ دار علماء اور قاضیوں کو دیکھتے ہیں کہ حکام کو راضی کرنے کے لیے کتنی انتھک کوشیشیں کرتے ہیں ان کی حکومت چاہیے عادل ہو یا جابر، احکام ان کے صحیح ہوں یا غلط ، مگر ہر معاملہ میں ان کی تائید ہی کریں گے ۔ حاکم کو جب بھی اپنے حاکم کی موافقت میں یا حکومت کے مخالف افراد کا قلع  قمع کرنے کے لیے فتوی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ علماء فورا ایسے فتوے صادر کردیتے ہیں جو ان حکام کی خواہش کے عین مطابق اور ان کی سیاسی اغراض کے لیے مفید و ضروری ہوتے ہیں۔ چاہیے ان کے فتوے قرآن و حدیث کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کے فتوے کی وجہ سے اجماع امت۔ شکست و ریخت ہی کیوں نہ ہوجائے ۔ اجماع کی صریحی مخالفت ہی کیوں نہ ہوتی ہو۔ لیکن انھیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی ۔انھیں تو

۳۷۰

غرض ہوتی ہے منصب و عہدہ کی۔ ڈرتے ہیں کہ کہیں حکام ناراض ہوکر معزول نہ کر دیں۔ یا یہ لالچ ہوتا ہے کہ خوش ہو کر ہمیں منصب عطا کر دیں گے۔

آج کل کے علماء اور اس زمانے کے علماء میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آج کل کے علماء حکومت کی نگاہ میں کوئی وزن نہیں رکھتے لیکن اس زمانہ کے علماء کی حالت جداگانہ تھی۔ سلاطین خود ان کے محتاج ہوا کرتے تھے کیونکہ اس وقت کے سلاطین علماء کو آلہ ء کار بنا کر گویا خدا و رسول(ص) سے جنگ کرتے تھے۔

اسی وجہ سے یہ علماء سلاطین اور ان کے اعلیٰ عہداروں کے نزدیک  بڑی قدر و منزلت رکھتے تھے اور ہر فرمائش ان کی پوری کی جاتی تھی جس کے نتیجہ میں یہ خود شاہانہ جاہ و جلال اور دولت و امارت کے مالک ہوتے ان کی یہ حالت تھی کہ وہ صحیح حدیثیں جس میں علی(ع) یا اہل بیت(ع) کی کوئی فضیلت مذکور ہوتی ان میں تعصب سے کام لیتے۔ بڑی سختی سے ان کی تردید کرتے پایہء اعتبار سے گرانے میں پوری طاقت سے کام لیتے۔ اس حدیث کے راویوں  کو رافضی قرار دیتے۔( اور رافضی ہونا ان کے نزدیک بدترین جرم تھا۔)

نہ  ان کا طرز عمل ان تمام احادیث کے متعلق تھا جو حضرت علی(ع) کی شان میں وارد ہوئی ہیں خصوصا وہ حدیثیں جن سے شیعیان علی(ع) تمسک کرتے ۔ ان حدیثوں سے تو اور بھی کد تھی انھیں۔

ان علماء کے کچھ ممتاز و با اثر افراد ہر قریہ و ہر شہر میں ہوتے جو ان کا پرپیگنڈا کیا کرتے ۔کچھ دنیا دار طلبا ہوتے جو ان کے فتاوے ان کے اقوال و آراء کی ترویج کرتے۔

۳۷۱

کچھ ریا کار عابد و زاہد ہوتے کچھ رؤسائے قوم، شیوخ قبائل ہوتے ۔ جب یہ اشخاص ان صحیح احادیث کی رد میں ان علماء کے اقوال سنتے تو انھیں کو حجت بنا لیتے اور عوام جاہل پبلک میں خوب ان  اقوال کی ترویج کرتے اور ہر شہر میں اس کی اشاعت کرتے اور اصول دین میں ایک اصل بنادیتے۔

اسی زمانہ اور اسی مقام پر کچھ ایسے علماء احادیث بھی تھے جنھوں نے خوف و ہراس سے مجبور ہوکر وہ حدیثیں ہی بیان کرنا چھوڑ دیں جو امیرالمومنین(ع) اور اہل بیت(ع) کے فضائل میں پائی جاتی تھیں۔ ان غریبوں کی حالت یہ تھی کہ جب ان سے پوچھا جاتا تھا کہ یہ لوگ جو علی(ع) و اہل بیت(ع) کی شان میں وارد صحیح حدیث کی رد کررہے ہیں آپ کا کیا خیال ہے ان کے متعلق ۔ ان احادیث کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ تو وہ ڈرتے تھے کہ اگر صحیح بات کہہ دیتے ہیں تو آفت نہ ٹوٹ پڑے، مجبورا وہ حقیقت ظاہر نہ کر پاتے اور نجات اسی میں دیکھتے کہ معارض اقوال بیان کردیے جائیں۔ اس ڈر سے کہ کہیں یہ سرکاری علماء درپے ایذا رسانی نہ ہوجائیں۔

سلاطین اور ان کے عہدیداروں نے حکم دے رکھا تھا کہ امیرالمومنین(ع) پر لعنت کریں۔ اس بارے میں بڑی سختی سے کام لیتے ۔ علی(ع) کی برائی اور مذمت کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعہ سے لوگوں کو آمادہ کرتے۔ مال و دولت دے کر ، طرح طرح کے وعدے کر کے ، ڈرا دھمکا کر اور ان سب سے بھی قابو نہ پاتے تو  فوج کشی کر کے اپنے مکتوبات میں امیرالمومنین(ع) کی ایسی تصویر کشی کرتے جسے پڑھ کر ہر شخص نفرت و بیزاری کرنے لگے۔

مجلسوں میں امیرالمومنین(ع) کے متعلق ایسی باتیں بیان کرتے کہ کانوں کو ان کے تذکرے سے اذیت ہونے لگے۔ مبزوں پر لعنت بھیجنا ، عیدین اور جمعہ کے

۳۷۲

 سنن و مستحبات میں سے قرار دے لیا تھا۔

اگر یہ حقیقت نہ ہوتی کہ

                             نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

                             پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

خدا کا نور نہ بجھتا ہے اور نہ اولیاء خدا کے فضائل مخفی رہتے ہیں۔ تو امیرالمومنین(ع) کی خلافت و امامت اور فضائل کے متعلق کوئی صحیح و صریح حدیث ہم تک پہنچتی ہی نہیں، نہ بطریق اہل سنت، نہ بطریق شیعہ۔ اہل سنت بھلا کا ہے کو اسی حدیث بیان کرنے لگے جو ان کی ساختہ عمارت ہی کو متزلزل کردے اور شیعہ گلے پر چھری اور دہنوں پر قفل لگے ہونے کی وجہ سے بیان کرنے ہی سے مجبور تھے۔

مگر خدا کا یہ کرشمہ ہے، حقانیت و صداقت کا معجزہ ہے۔ باوجودیکہ دشمنوں نے فضائل کو چھپانے اور مٹانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا، مگر حق کا بول بالا ہو کے رہا۔ مجھے تو قسم بخدا حیرت ہے کہ خلاقِ عالم نے بندہ خاص اپنے رسول(ص) کے بھائی علی بن ابی طالب(ع) کو کیا فضیلت بخشی تھی کہ لاکھوں پردوں میں سے بھی جس کی روشنی پھوٹ کر رہی ، گہری تاریکیوں میں بھی جس کا اجالا ہوکے رہا۔

امیرالمومنین(ع) کی خلافت و امامت کے متعلق جو قطعی دلیلیں آپ نے سماعت  فرمائیں۔ مزید برآں آپ حدیث وراثت ہی کو لے لیجیے جو بجائے خود بہت بڑی دلیل ہے۔

                                                                     ش

۳۷۳

مکتوب نمبر33

حدیث وراثت کو بطریق اہل سنت تحریر فرمائیے؟

                                             س

  جوابِ مکتوب

علی(ع) وارثِ پیغمبرصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم

کوئی شبہ نہیں کہ آںحضرت(ص) نے حضرت علی(ع) کو اپنے علم و حکمت کا اسی طرح وارث بنایا جس طرح دیگر انبیاء کرام نے اپنے اوصیاء کو بنایا۔ چنانچہ خود آںحضرت (ص) کے ارشادات ہیں :

۳۷۴

“ أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا- فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ.”

 “میں شہر علم ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ۔ جو علم کا طلبگار ہو وہ دروازے سے آئے۔”(1)

“ أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا.”

“ میں حکمت کا گھر ہوں اورعلی(ع) اس کا دروازہ ۔”

“  عَلِيٌّ بَابُ‏ عِلْمِي‏ وَ مُبَيِّنٌ لِأُمَّتِي مَا أُرْسِلْتُ بِهِ مِنْ بَعْدِي حُبُّهُ إِيمَانٌ وَ بُغْضُهُ نِفَاقٌ ”

“ علی میرے علم کا دروازہ ہیں اور میں جن چیزوں کولے کر مبعوث ہوا، میرے بعد میری امت سے ان چیزوں کو علی(ع) ہی بیان کرنے والے ہیں، ان کی محبت ایمان اور ان کی دشمنی نفاق ہے۔”

زید بن ابی اوفیٰ کی حدیث میں ہے۔(2) :

“  وَ أَنْتَ‏ أَخِي‏ وَ وَارِثِي قَالَ وَ مَا أَرِثُ مِنْكَ ؟ قَالَ مَا وَرَّثَتِ الْأَنْبِيَاءُ مِنْ قَبْلِي ”

“ پیغمبر(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا : تم میرے بھائی ہو، تمھیں

--------------

1ـ اس حدیث کو نیز اس کے بعد کی دو حدیثوں کو ہم م 24 میں درج کر چکے ہیں۔ نیز صفحہ 282 کی حدیث نمبر9 ، 10، 11 بھی ملحوظ رہے اور وہاں جو ہم ن حاشیہ لکھا ہے اس کا بھی خیال رہے

2ـ ہم اس حدیث کا م16 پر ذکر کرچکے ہیں۔

۳۷۵

 میرے وارث ہو۔ امیرالمومنین(ع) نے پوچھا : میں آپ کی کس چیز کا وارث ہوں؟ فرمایا  : مجھ سے پیشتر کے انبیاء نے اپنے اوصیاء کو جن چیزوں کا وارث بنایا انھیں چیزون کے تم بھی وارث ہوگے۔”

بریدہ کی حدیث میں صاف صاف تصریح ہے کہ وارث پیغمبر(ص) علی(ع) ہی ہیں۔(1)

دعوتِ عشیرہ کے موقع پر جو کچھ رسول(ص) نے فرمایا تھا اسی پر غور کیجیے وہی آپ کی تسلی کے لیے کافی ہوگا۔ اسی وجہ سے حضرت علی(ع) رسول(ص) کی زندگی میں فرمایا کرتے تھے کہ:

“ قسم بخدا میں رسول(ص) کا بھائی ہوں، ان کا ولیعہد ہوں، ان کے چچا کا بیٹا ہوں، ان کے علم کا وارث ہوں، لہذا مجھ سے زیادہ حقدار کون ہوسکتا ہے؟”(2)

ایک مرتبہ امیرالمومنین(ع) سے پوچھا گیا کہ چچا کے رہتے ہوئے آپ رسول(ص) کے وارث کیونکر ہوگئے؟ آپ نے فرمایا کہ :

“ آںحضرت (ص) نے کل اولاد عبدالمطلب کو جمع کیا جو گروہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ سب کے سب پر خور و پر نوش تھے، آںحضرت(ص) نے 13 چھٹانک وزن کے کھانے سے ان کی دعوت کی سب

--------------

1ـ اس کو م 24 میں ملاحظہ فرمائیے

2ـ یہ کلمہ بعینہ انھیں الفاظ میں امیرالمومنین(ع) سے ثابت ہے جسے امام حاکم نے مستدرک ج2 صفحہ12 صحیح اسناد سے ذکر کیا ہے اور بخاری و مسلم دونوں کے معیار پر صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔

۳۷۶

 نے کھایا اور پیٹ بھر کر کھایا اور کھانا اسی طرح بچ رہا جس طرح تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے کچھ چھوا ہی نہیں۔ آںحضرت(ص) نے کھانے سے فراغت کے بعد ارشاد فرمایا : “ اے فرزندان عبدالمطلب ! میں خاص کر تمھاری طرف اور عام طور پر لوگوں پر مبعوث ہوا ہوں، لہذا تم میں کون اس شرط پر میری بیعت کرتا ہے کہ وہ میرا بھائی ہو، میرا ساتھی ہو، میرا وارث بنے۔” رسول(ص) کے اس ارشاد کے بعد کوئی بھی نہ کھڑا ہوا۔ میں البتہ کھڑا ہوگیا اگر چہ سب میں چھوٹا تھا۔ رسول(ص) نے مجھ سے کہا : تم بیٹھ جاؤ، پھر تین مرتبہ آپ نے اسی مطلب کا اعادہ فرمایا اور ہر مرتبہ میں کھڑا ہوتا رہا اور آپ بٹھایا کیے ۔ تیسری مرتبہ
جب کوئی کھڑا ہوا تو رسول(ص) نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا اسی وجہ سے میں اپنے چچا کے بیٹے ( حضرت رسول خدا(ص)) کا وارث ہوا اور چچا وارث نہ ہوسکے۔”(1)

امام حاکم نے مستدرک ج 3 صفحہ 135 پر ایک روایت در ؟؟ اور علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اسے نقل کیا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کو صحت کا قطع و یقین ہے۔ اس حدیث میں ہے کہ قثم بن عباس

--------------

1ـ یہ حدیث ثابت و مشہور ہے۔ ضیا مقدسی نے مختارہ میں ابن جریر نے تہذیب ؟؟؟ کیا ہے کنزالعمال جلد6 ص408 پر بھی موجود  ہے۔ امام نسائی نے خصائص ؟؟ ہے ابن ابی الحدید نے اپنی شرح جلد3 ص255 پر طبری نے بھی اس کو ؟؟ مسند احمد ج1 ص159 پر ملتے جلتے لفظوں میں یہ حدیث موجود ہے۔

۳۷۷

 نے پوچھا ؟

“ آپ لوگوں کے رہتے ہوئے علی(ع) کے وارث کیسے بن گیے؟”

قثم نے جواب دیا :

“ اس لیے کہ وہ ہم میں سب سے پہلے اسلام لائے اور سب سے زیادہ رسول(ص) سے وابستہ و پیوستہ رہے۔”(1)
 میں کہتا ہوں کہ تمام لوگ یہی جانتے ہیں کہ رسول(ص) کے وارث علی(ع) ہی ہیں۔ عباس یا دیگر بنی ہاشم رسول(ص) کے وارث نہیں۔ یہ بات اتنی آشکارا تھی کہ اسے بطور مسلمات ذکر کیا کرتے لیکن ان لوگوں کو اس کا سبب معلوم نہیں تھا کہ چچا کے ہوتے ہوئے علی(ع) جو چچا زاد بھائی تھے وہ کیونکر وارثِ رسول ہوگئے۔ اسی وجہ سے ان لوگوں نے کبھی خود حضرت علی(ع) سے اس کی وضاحت چاہی کبھی قثم سے پوچھا اور ان دونوں بزرگواروں نے جو جواب دیا وہ آپ سن چکے ۔ یہ جواب ان لوگوں کی عقل

و فہم کو دیکھتے ہوئے بہت ، مناسب جواب ہے اور ان کو سمجھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ یہی جواب دیا جاسکتا ہے ورنہ واقعی  وحقیقی جواب تو یہ ہے کہ خداوند عالم نے روئے زمین کے باشندوں پر ایک نظر ڈال کر محمد مصطفی(ص) کو منتخب کیا اور انھیں خاتم النبیین(ص) بنایا۔ پھر دوسری مرتبہ زمین پر نگاہ کی اور حضرت علی(ع) کو منتخب کیا اور اپنے رسول(ص) پر وحی فرمائی کہ علی(ع) کو اپنا وارث اور وصی مقرر کردیں۔

--------------

1-۔۔۔۔۔۔۔

۳۷۸

امام حاکم مستدرک ج3 صفحہ125 پر قثم والی اس حدیث کو جسے ابھی ابھی آپ نے سنا ۔ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

“ مجھ سے قاضی القضاة ابو الحسن محمد بن صاع ہاشمی نے بیان کیا ، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابو عمرو وقاص سے سنا ، انھوں نے اسماعیل بن اسحاق قاضی سے سنا ۔ اسمعیل بن اسحاق سے قثم بن عباس کے اس قول کا ذکر آیا تو انھوں نے فرمایا : وارث یا تو نسب کی وجہ سے وارث ہوتا ہے یا ولا کی وجہ سے اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ چچا کی موجودگی میں چچا زاد بھائی وارث نہیں ہوسکتا ۔”

اسماعیل بن اسحاق فرماتے ہیں کہ :

 “ اس اتفاق و اجماع کی وجہ سے ظاہر ہوا کہ علی(ع) رسول(ص) کے علم کے وارث ہوئے ان کے سوا اور کوئی وارث نہیں ہوا۔”

میں کہتا ہوں کہ وراثتِ امیرالمومنین(ع) کے متعلق متواتر حدیثیں موجود ہیں۔ خصوصا بطریق اہلبیت(ع) تو بہت ہی زیادہ ۔اگر اںصاف سے کام لیا جائے تو حضرت علی(ع) کا وصی رسول(ص) ہونا ہی اس مسئلہ میں قطعی فیصلہ کن ہے۔

ش

۳۷۹

مکتوب نمبر34

بحثِ وصیت

ہم اہلسنت کو معلوم نہیں کہ رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو کب وصی بنایا، نہ اس کےمتعلق ارشادات و تصریحات پیغمبر(ص) کا علم ہے مہربانی ہوگی اس کی وضاحت فرمائیے۔

                                                                     س

جوابِ مکتوب

امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کے

 متعلق پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات

امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کے متعلق اہل بیت (ع) سے صریحی

۳۸۰