دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)9%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272308 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

'' لا جبرولا تفو یض ولکن أمر بین أمر ین، قال قُلتُ: و ما أمر بین أمر ین؟ قال مثل ذلک رجل رأ یته علیٰ معصية ٍ فنهیتهُ فلم ینته فتر کته ففعل تلک المعصية، فلیس حیثُ لم یقبل منک فتر کته کنت أنت الذّی أمر ته بالمعصية'' ( ۱ )

نہ جبرہے اور نہ تفو یض ، بلکہ ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز ہے، راوی کہتا ہے : میں نے کہا : ان دونوں کے درمیا ن ایک چیز کیا ہے؟ فر مایا: اس کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو گنا ہ کی حا لت میں ہو اور تم اسے منع کرو اور وہ قبول نہ کر ے اس کے بعد تم اسے اس کی حالت پر چھو ڑ دو اور وہ اس گناہ کو انجام دے ، پس چونکہ اس نے تمہا ری بات نہیں مانی اور تم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ، لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ تم ہی نے اسے گناہ کی دعوت دی ہے۔

۲'' ما استطعت أن تلو م العبد علیه فهو منه و ما لم تستطع أن تلو م العبد علیه فهو من فعل ﷲ، یقول ﷲ للعبد: لم عصیت؟ لم فسقت؟لم شربت الخمر؟ لم ز نیت؟ فهذا فعل العبد ولا یقول له لم مر ضت؟ لم قصرت؟ لم ابیضضتَ؟ لم اسو ددت؟ لأنه من فعل ﷲ تعا لیٰ'' ( ۲ )

جس کام پر بندہ کو ملا مت و سر زنش کر سکو وہ اس کی طرف سے ہے اور جس کام پرملا مت وسر زنش نہ کرسکو وہ خدا کی طرف سے ہے، خدا اپنے بندوں سے فرما تا ہے : تم نے کیوں سر کشی کی ؟ کیوں نافرمانی کی ؟کیوں شراب پی؟ کیوں زنا کیا؟ کیو نکہ یہ بندے کا کام ہے ، خدا اپنے بندوں سے یہ نہیں پو چھتا : کیو ں مر یض ہوگئے ؟ کیوں تمہا را قد چھوٹاہے؟ کیوں سفید رنگ ہو؟ کیوں سیا ہ رو ہو؟ کیو نکہ یہ سارے امور خدا کے ہیں ۔

روایات کی تشریح

جبر وتفویض کے دوپہلو ہیں :

۱۔ ایک پہلو وہ ہے جو خدا اوراس کے صفا ت سے متعلق ہے۔

۲۔ دوسرا پہلووہ ہے جس کی انسان اوراس کے صفا ت کی طر ف بازگشت ہو تی ہے۔

'' جبر و تفویض'' میں سے جو کچھ خدا اوراس کے صفات سے مر بوط اور متعلق ہے ، اس بات کا سزا وار

____________________

(۱) کافی،ج، ۱، ص ۱۶۰ اور توحید صدو ق، ص ۳۶۲.(۲)بحار ج۵،ص۵۹ح۱۰۹

۱۸۱

ہے کہ اس کو خدا،اس کے انبیا ء اور ان کے اوصیا ء سے اخذ کر یں اور جو چیز انسا ن اوراس کے صفات اور افعال سے متعلق ہو تی ہے ، اسی حد کافی ہے کہ ہم کہیں : میں یہ کام کر وں گا ، میں وہ کام نہیں کرو ں گا تا کہ جانیں جو کچھ ہم انجام دیتے ہیں اپنے اختیا ر سے انجام دیتے ہیں ، گزشتہ بحثو ں میں بھی ہم نے یہ بھی جانا کہ انسا ن کی زندگی کی رفتا ر ذ رہ ، ایٹم، سیارات اور کہکشا نو ں نیز خدا کے حکم سے دیگر مسخرات کی رفتار سے حرکات اور نتا ئج میں یکساں نہیں ہے ،یہ ایک طرف ، دو سری طرف خدا وند سبحا ن نے انسا ن کوا س کے حال پر نہیں چھو ڑا اوراسے خود اس کے حوالے نہیں کیا تا کہ جو چا ہے ، جس طرح چاہے اور نفسیا نی خو اہشا ت جس کاحکم دیںاسی کو انجام دے ، بلکہ خدا وند عالم نے اپنے انبیا ء کے ذریعہ اس کی راہنما ئی کی ہے : اسے قلبی ایمان کی راہ بھی حق کے ساتھ دکھا ئی نیزاعمال شائستہ جو اس کے لئے جسمانی اعتبار سے مفید ہیں ان کی طرف بھی راہنمائی کی اور نقصا ن دہ اعمال سے بھی آگا ہ کیا ہے، اگر وہ خدا کی ہدا یت کا اتبا ع کرے اور ﷲ کی سیدھی را ہ پر ایک قد م آگے بڑھ جا ئے تو خدا وند عا لم اسے اس کا ہا تھ پکڑ کر اسے دس قد م آگے بڑھا دیتا ہے پھر دنیا و آخرت میں آثار عمل کی بناء پر اس کوسات سو گنازیادہ جزا دیتا ہے اور خدا وند عالم اپنی حکمت کے اقتضاء اور اپنی سنت کے مطابق جس کے لئے چا ہتا ہے اضا فہ کرتاہے۔

ہم نے اس سے قبل مثا ل دی اور کہا: خدا وند عا لم نے اس دنیا کو'' سلف سروس''والے ہوٹل کے مانندمو من اور کا فر دو نوں کے لئے آما دہ کیا ہے، جیسا کہ سورۂ اسرا ء کی بیسویں آیت میں فرماتا ہے:

( کلاًّ نمدّ هٰؤلا ء و هٰؤٰلآء من عطا ئِ ربّک و ما کان عطائُ ربِّک محظورا )

ہم دو نو ں گروہوںکوخواہ یہ خواہ وہ تمہا رے رب کی عطا سے امداد کر تے ہیں ، کیو نکہ تمہا رے ربّ کی عطاکسی پربند نہیں ہے۔

یقینا اگر خدا کی امداد نہ ہو تی اور خدا کے بند ے جسمی اور فکر ی توا نائی اور اس عا لم کے آمادہ و مسخر اسباب و وسا ئل خدا کی طرف سے نہ رکھتے تو نہ راہ یا فتہ مو من عمل صا لح اور نیک و شا ئستہ عمل انجام دے سکتا تھا اور نہ ہی گمرا ہ کا فر نقصا ن دہ اور فا سد اقدامات کی صلا حیت رکھتا، سچ یہ ہے کہ اگر خدا ایک آن کے لئے اپنی عطا انسا ن سے سلب کر لے چا ہے اس عطا کا ایک معمو لی اور ادنیٰ جز ہی کیوں نہ ہوجیسے بینائی، سلا متی، عقل اور خرد وغیرہ... تویہ انسان کیا کر سکتا ہے ؟ اس لحا ظ سے انسا ن جو بھی کر تا ہے اپنے اختیا رسے اور ان وسا ئل و اسباب کے ذریعہ کرتاہے جو خدا نے اسے بخشے ہیں لہٰذا انسا ن انتخاب اور اکتسا ب میں مختار ہے۔

۱۸۲

جی ہاں ،انسا ن اس عالم میں مختارکل بھی نہیں ہے جس طرح سے وہ صرف مجبور بھی نہیں ہے، نہ اس عالم کے تمام اموراس کے حوالے اور سپرد کر دئے گئے ہیں اور نہ ہی اپنے انتخا ب کر دہ امور میں مجبور ہے، بلکہ ان دو نوں کے درمیا ن ایک امر ہے اور وہ ہے( امر بین امرین) اوریہ وہی خدا کی مشیت اور بند وں کے افعال کے سلسلے میں اس کا قا نو ن اور سنت ہے، '' ولن تجد لسنة ﷲ تبد یلا ً'' ہر گز سنت الٰہی میں تغیر و تبد یلی نہیں پا ؤ گے!

چند سوال ا و ر جو اب

اس حصّہ میں د ر ج ذیل چا ر سوا ل پیش کئے جا رہے ہیں:

۱۔ انسا ن جو کچھ کر تا ہے ا س میں مختار کیسے ہے، با وجو د یکہ شیطا ن اس پر تسلط اور غلبہ رکھتا ہے جب کہ وہ دکھا ئی بھی نہیں دیتا آد می کو اغوا( گمراہ) کرنے کے چکر میں لگا رہتا ہے اوراس کے دل میں و سو سہ ڈالتا رہتاہے اور اپنے شر آمیز کاموں کی دعوت دیتا ہے؟

۲۔انسان فا سد ماحول اور برے کلچرمیں بھی ایسا ہی ہے، وہ فسا د اور شر کے علا وہ کو ئی چیز نہیں دیکھتا پھر کس طرح وہ اپنے اختیا ر سے عمل کر تاہے ؟

۳۔ایسا انسا ن جس تک پیغمبروں کی دعو ت نہیں پہنچی ہے اوردور درازافتادہ علا قہ میں زند گی گزا رتا ہے وہ کیا کرے ؟

۴۔'' زنا زا دہ'' کا گنا ہ کیا ہے ؟( یعنی نا جا ئز بچہ کاکیا گنا ہ ہے) کیوں وہ دو سر وں کی رفتا ر کی بنا ء پر شر پسند ہوتا ہے اور شرار ت و برائی کر تا ہے؟

پہلے اور دوسرے سوال کا جو اب:

ان دو سو الوں کا جواب ابتدا ئے کتاب میں جو ہم نے میثا ق کی بحث کی ہے ا س میں تلا ش کیجئے۔( ۱ )

وہاں پر ہم نے کہا کہ خدا نے انسا ن پر اپنی حجت تمام کردی ہے ا ور تمام موجودات کے سبب سب کے متعلق جستجواور تلاش کے غریزہ کو ودیعت کرکے اس کی بہانہ بازی کا دروازہ بند کردیا ہے، لہٰذااسے چاہیئے کہ اس غریزہ کی مدد سے اس اصلی سبب سازتک پہنچے ، اسی لئے سورۂ اعرا ف کی ۱۷۲ ویں آ یت میں میثا ق خدا وند ی سے متعلق ارشاد فرما یا:

____________________

(۱)اسی کتاب کی پہلی جلد، بحث میثاق .ملاحظہ ہو.

۱۸۳

( أن تقولوا یو م القیامة اِنّا کُناعن هذا غا فلین )

تا کہ قیا مت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم اس (پیمان ) سے غا فل تھے ہمیں ۔

انسا ن جس طر ح ہر حا لت میں بھو ک کے غر یزہ سے غا فل نہیں ہو تا ہے جب تک کہ اپنی شکم کو غذا سے سیر نہ کرلے ، اسی طرح معر فت طلبی کے غر یزہ سے بھی غا فل نہیں ہو تا یہاں تک کہ حقیقی مسب الاسباب کی شناخت حا صل کرلے۔

تیسر ے سوال کا جو اب:

ہم اس سوال کے جواب میں کہیںگے : خداو ند سبحا ن نے سورہ بقرہ کی ۲۸۶ ویں آیت میں ارشا د فرما یا:

( لایکلف ﷲ نفساًاِلاّوسعها )

خدا کسی کو بھی اس کی طا قت سے زیا دہ تکلیف نہیں دیتا۔

چو تھے سوا ل کا جو اب:

نا جا ئز اولا د بھی بُرے کا م انجام دینے پر مجبو ر نہیں ہے ، جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ بد کار مرد اور عو رت کی روحی حالت اور کیفیت ارتکاب گناہ کے وقت اس طرح ہوتی ہے کہ خو د کو سما جی قوا نین کا مجرم اور خا ئن تصور کرتے ہیں اور یہ بھی جا نتے ہیں کہ معا شرہ ان کے کام کو برااور گناجا نتا ہے اور اگر ان کی رفتا ر سے آگا ہ ہو جائے اورایسی گند گی اور پستی کے ارتکاب کے وقت دیکھ لے تو ان سے دشمنی کر تے ہو ئے انھیں اپنے سے دور کر دیگا اور یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام نیکو کار ، پا کیز ہ کر دار اور اخلاق کر یمہ کے ما لک ایسے کا م سے بیزاری کرتے ہیں یہ رو حی حا لت اور اندرونی کیفیت نطفہ پر اثر اندا ز ہو تی ہے اور میرا ث کے ذریعہ اس نو مو لو د تک منتقل ہو تی ہے اورنوزاد پر اثر انداز ہوتی ہے جواسے شر دوست اور نیکیوں کا دشمن بنا تی ہے اور سما ج کے نیک افراد اور مشہو ر و معروف لو گوں سے جنگ پر آمادہ کرتی ہے اس سیرت کا بارز نمو نہ'' زیا د ابن ابیہ'' اور اس کا بیٹا ابن زیاد ہے کہ انھوں نے عرا ق میں اپنی حکومت کے دوران جو نہیں کر نا چا ہئے تھا وہ کیا ،با لخصوص'' ابن زیاد'' کہ اسکے حکم سے امام حسین کی شہا دت کے بعد آپ اور آپ کے پا کیزہ اصحاب کے جسم اطہر کو مثلہ کیاگیا اور سروں کو شہروں میں پھرایا گیا اور رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حرم کو اسیر کر کے کو فہ و شام پہنچا یا گیا اور دیگر امور جو اس کے حکم سے انجام پا ئے اور یہ ایسے حا ل میں ہو اکہ حضرت امام حسین کی شہا دت کے بعد کو ئی فرد ایسی نہیں بچی تھی جو ان لوگوںکی حکو مت کا مقا بلہ کر ے

۱۸۴

اور کسی قسم کی تو جیہ اس کے ان افعا ل کیلئے نہیں تھی، بجز اس کے کہ وہ شر و برا ئی کا خو گر تھا اس کی خو اہش یہ تھی کہ عرب اور اسلام کے شریف ترین گھرا نے کی شا ن و شو کت، عظمت و سطو ت ختم کرکے انھیں بے اعتبار بنا دے، ہاں وہ ذا تی طور پر برا ئی کا دوست اور نیکیوں کا دشمن تھا اور سماج و معا شرہ کے کریم و شر یف افراد سے بر سر پیکا ر تھا۔( ۱ )

اس بنا پر ( صحیح ہے اور ہم قبو ل کر تے ہیں کہ) شر سے دوستی، نیکی سے دشمنی، نیکو کاروں کو آزار و اذیت دنیا اور سماج کے پا کیز ہ لو گوں کو تکلیف پہنچا نا زنا زادہ میں حلال زادہ کے بر خلاف تقریباًاس کی ذات اور فطرت کا حصہ ہے، لیکن ان تمام باتوں کے با وجو د ان دو میں سے کو ئی بھی خواہ امور خیر ہوں یا شر جو وہ انجام دیتے ہیں یا نہیں دیتے مجبو ر ،ان پر نہیں ہیں، ان دو نوں کی مثال ایک تندرست و صحت مند ، با لغ و قوی جوان اور کمر خمیدہ بوڑھے مر د کی سی ہے: پہلا جسما نی شہو ت میں غرق اور نفسانی خوا ہشا ت تک پہنچنے کا خواہاں ہے اور دوسرا وہ ہے جس کے یہا ں جو انی کی قوت ختم ہو چکی ہے اور جسمانی شہو ت کا تارک ہے! ایسے حال میں واضح ہے کہ کمر خمیدہ مرد '' زنا ''نہیں کر سکتا اور وہ جوان جس کی جنسی تو انا ٰئی اوج پر ہے وہ زنا کرنے پر مجبو ر بھی نہیں کہ مجبوری کی حالت میں وہ ایسے نا پسندیدہ فعل کا مر تکب ہو تومعذور کہلا ئے، بلکہ اگر زنا کا مو قع اور ما حو ل فر اہم ہو اور وہ ''خا ف مقا م ربہ'' اپنے رب کے حضور سے خو فز دہ ہو، ( ونھیٰ النفس عن الھوی) اور اپنے نفس کو بیجا خو اہشوں سے رو ک رکھے تو( فاِنّ الجنة ھی المأویٰ) یقینا اس کا ٹھکا نہ بہشت ہے۔( ۲ )

اس طرح ہم اگر انسان کی زندگی کے پہلؤوں کی تحقیق کر یں اور ان کے بارے میں غور و فکر کر یں، تو اسے اپنے امور میں صا حب اختیا ر پا ئیں گے، جز ان امور کے جو غفلت اور عدم آگا ہی کی بنیا د پر صا در ہوتے ہیں اور اخروی آثا ر نہیںرکھتے ہیں ۔

یہاں تک مباحث کی بنیاد قرآن کر یم کی آیات کی روشنی میں '' عقائد اسلام '' کے بیان پر تھی آئندہ بحثوں میں انشاء ﷲ خدا کے اذ ن سے مبلغین الٰہی کی سیرت کی قرآ ن کریم کی رو سے تحقیق و بررسی کر یں گے اور جس قدر توریت ،انجیل اور سیرت کی کتابوں سے قرآن کریم کی آیات کی تشریح و تبیین میں مفید پا ئیں گے ذکر کر یں گے۔

''الحمد لله ربّ العا لمین''

____________________

(۱)زیادکے الحاق ( معاویہ کا اسے اپنا پدری بھائی بنانے ) کی بحث آپ کتاب عبدﷲ بن سبا کی جلد اول میں ، اور شہادت امام حسین کی بحث معالم المدر ستین کی جلد ۳ میں ملاحظہ کریں. (۲)سورۂ ناز عا ت کی چا لیسویں آیت ''و امّا من خاف...'' سے اقتبا س ہے.

۱۸۵

(۹)

ملحقات

اسلا می عقا ئد میں بحث و تحقیق کے راستے اور راہ اہل بیت کی فوقیت و بر تری( ۱ )

اسلا می عقا ئد ہمیشہ مسلما نوں اور اسلامی محققین کی بحث و تحقیق کا موضوع رہے ہیں اور تمام مسلما نو ں کا نظر یہ یہ ہے کہ اسلا می عقا ئد کا مر جع قرآ ن اور حدیث ہی ہے ، وہ اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود گز شتہ زمانے میں صدیو ں سے، مختلف وجوہ اور متعدد اسباب( ۲ ) کی بنا پر مختلف خیا لات اور نظریات اسلا می عقائد کے سلسلہ میں پیدا ہوئے کہ ان میں بعض اسباب کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ بحث وتحقیق اور استنبا ط کے طریقے اور روش میں اختلا ف.

۲۔ علما ئے یہو د و نصا ریٰ (احبار و رہبا ن)کا مسلما نو ں کی صفو ں میں نفو ذ اور رخنہ انداز ی اور اسلا می رو ایا ت کا ''اسرا ئیلیا ت''اور جعلی داستانوں سے مخلوط ہونا۔

۳۔ بد عتیں اور اسلا می نصو ص کی غلط اور نا درست تا ویلیں اور تفسیر یں۔

۴۔سیا سی رجحا نا ت اور قبا ئلی جھگڑے۔

۵۔ اسلا می نصوص سے ناواقفیت اور بے اعتنا ئی ۔

ہم اس مقا لہ میں سب سے پہلے سبب '' راہ اور روش میں اختلا ف ''کی تحقیق وبر رسی کر یں گے اور اسلامی عقائد کی تحقیق و بر رسی میں جو مو جو دہ طریقے اور را ہیں ہیں ان کا اہل بیت کی راہ و روش سے موازنہ کر کے قا رئین کے حو الے کر یں گے ، نیز آخری روش کی فو قیت وضا حت کے ساتھ بیان کر یں گے ۔

____________________

(۱) مجمع جہانی اہل البیت ، تہران کے نشریہ رسالة الثقلین نامی مجلہ میں آقا شیخ عباس علی براتی کے مقالہ کا ترجمہ ملاحظہ ہونمبر ۱۰، سال سوم ۱۴۱۵ ھ، ق.(۲) مقدمہ کتاب '' فی علم الکتاب '' : ڈاکٹر احمد محمود صبحی ج۱، ص ۴۶پانچواں ایڈیشن، بیروت، ۱۴۰۵ھ، ۱۹۸۵ ئ.

۱۸۶

عقید تی اختلا فا ت اور اس کی بنیاد اور تا ریخ

مسلما نوں کے درمیا ن فکر ی اور عقید تی اختلا ف پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے سے ہی ظا ہر ہو چکا تھا ،لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ، کلامی اور فکر ی مکا تب و مذاہب کے وجو د کا سبب قرار پائے، کیو نکہ رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بنفس نفیس اس کا تدارک کرتے تھے اور اس کے پھیلنے کی گنجا ئش با قی نہیں ر کھتے تھے ، بالخصوص روح صدا قت وبرا دری، اخوت و محبت اس طرح سے اسلامی معاشرہ پر حا کم تھی کہ تا ریخ میں بے مثا ل یا کم نظیر ہے۔

نمو نہ کے طور پر اورانسا نو ں کی سر نو شت '' قدر'' کا مو ضو ع تھا جس نے پیغمبر کے اصحا ب اور انصا ر کے ذہن و فکر کو مکمل طور پر اپنے میں حصار میں لے لیا تھا اور انھیں اس کے متعلق بحث کر نے پر مجبور کردیا تھا ، یہاں تک کہ آخر میں بات جنگ و جدا ل اور جھگڑے تک پہنچ گئی جھگڑے کی آ واز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کان سے ٹکر ائی توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (جیسا کہ حدیث کی کتا بو ں میں ذ کر ہوا ہے) اس طرح سے ان لو گو ں کو اس مو ضو ع کے آگے بڑھانے کے عواقب و انجام سے ڈرایا:

احمد ابن حنبل نے عمر و بن شعیب سے اس نے اپنے با پ سے اور اس نے اپنے جد سے رو ایت کی ہے کہ انھو ں نے کہا : ایک دن رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھر سے باہر نکلے تو لو گو ں کو قدر کے مو ضو ع پر گفتگو کرتے دیکھا،راو ی کہتا ہے : پیغمبر اکر م کے چہر ہ کا رنگ غیظ و غضب کی شدت سے اس طرح سر خ ہو گیا تھا، گو یا انار کے دانے ان کے رخسا ر مبارک پربکھرے ہوئے ہو ں! فر مایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ کتاب خدا کی جر ح وتعدیل اور تجزیہ و تحلیل کر رہے ہو اسکے بعض حصّہ کا بعض سے مو از نہ کر رہے ہو( اس کی نفی و اثبات کرر ہے ہو )؟ تم سے پہلے وا لے افراد انہی کا موں کی و جہ سے نا بو د ہو گئے ہیں۔( ۱ )

قرآن کر یم اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت میں اسلامی عقا ئد کے اصو ل اور اس کے بنیادی مبا نی بطو ر کلی امت اسلام کے لئے بیا ن کیے گئے ہیںبعد میں بعض سو الات اس لئے پیش آئے کہ ( ظا ہر اً)قرآن و سنت میں ان کا صریح اور واضح جو اب ان لوگوںکے پاس نہیں تھا اورمسلمان اجتہا د و استنبا ط کے محتا ج ہو ئے تو یہ ذ مہ داری عقا ئد و احکام میں فقہا ء و مجتہد ین کے کا ند ھوں پر آئی، اس لئے اصحا ب پیغمبر بھی کبھی کبھی اعتقا دی مسا ئل میں ایک دوسرے سے اختلا ف رائے ر کھتے تھے ، اگر چہ پیغمبر کی حیات میں ان کے اختلاف کے آثا ر و نتائج، بعد کے

____________________

(۱)مسند احمد ج۳،ص۱۷۸تا ۱۹۶.

۱۸۷

زمانوں میں ان کے اختلاف کے آثار و نتائج سے مختلف تھے ،کیو نکہ ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی حیات میں خو د ہی ان کے درمیا ن قضا وت کر تے تھے اور اپنی را ہنما ئی سے اختلا ف کی بنیا د کواکھاڑ دیتے تھے !( ۱ )

لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد لو گ مجبو ر ہو ئے کہ کسی صحا بی یا ان کے ایک گروہ سے( جوکہ خلفا ء و حکا م کے بر گز یدہ تھے) اجتہا د کا سہا را لیں اور ان سے قضا وت طلب کر یں جب کہ دو سرے اصحا ب اپنے آرا ء ونظریات کو محفو ظ ر کھتے تھے ( اور یہ خو د ہی اختلا ف میں اضا فہ کا سبب بنا ) اس اختلا ف کے واضح نمونے مند ر جہ ذ یل باتیں ہیں۔

۱۔ پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفا ت کے بعد امت کا خلا فت اور اما مت کے بارے میں اختلاف۔( ۲ )

۲۔ زکو ة نہ دینے وا لو ں کا قتل اور یہ کہ آیا زکو ة نہ دینا ارتد اد اور دین سے خا رج ہو نے کا با عث ہے یا نہیں؟اس طرح سے ہر اختلا ف،خاص آراء و خیا لا ت ، گروہ اور کلا می اور اعتقا دی مکا تب کی پید ائش کا سر چشمہ بن گیاجس کے نتیجہ میں ہر ایک اس رو ش کے ساتھ جو اس نے استد لا ل و استنبا ط میں اختیا ر کی تھی اپنے آ را ء و عقا ئد کی تر ویج و تد وین میں مشغول ہوگیا ، ہما ری تحقیق کے مطا بق ان مکا تب میں اہم تر ین مکاتب مند ر جہ ذیل ہیں :

۱۔خالص نقلی مکتب۔

۲۔ خالص عقلی مکتب

۳۔ ذو قی و اشراقی مکتب

۴۔ حسّی و تجر بی مکتب

۵۔ فطر ی مکتب

الف ۔ خالص نقلی مکتب:

'' احمد ابن حنبل'' حبنلی مذ ہب کے امام ( متو فی ۲۴۱ ھ) اپنے زمانے میں اس مکتب کے پیشوا اور پیشر و شما ر کئے جاتے تھے، یہ مکتب ،اہل حد یث ( اخبار یین عا مہ) کے مکتب کے مانند ہے: ان لو گو ں کارو ایات

____________________

(۱)سیرہ ٔ ابن ہشام ، ص ۳۴۱،۳۴۲ ،اورڈاکٹرمحمد حمیدﷲ مجموعة الوثائق السیاسةج۱،ص۷.(۲)اشعری '' مقا لات الاسلامیین و اختلاف المصلین '' ج ۱، ص ۳۴، ۳۹ اور ابن حزم '' الفصل فی الملل والاہواء والنحل '' ج ۲، ص ۱۱۱ اور احمد امین '' فجر الاسلام ''.

۱۸۸

کی حفا ظت وپا سدا ری نیز ان کے نقل کر نے کے علا وہ کوئی کام نہ تھااوران کے مطا لب میں تد بر اور غور خوض کرنے نیزصحیح کو غلط سے جدا کرنے سے انھیںکوئی تعلق نہ تھا ،اس طرح کی جہت گیر ی کو آخری زمانوں میں ''سلفیہ'' کہتے ہیں، اور فقہ میں اہل سنت کے حنبلی مذہب والے میں اس روش کی پیر وی کرتے ہیں، وہ لوگ دینی مسا ئل میں رائے و نظر کو حرام( سبب و علت کے بارے میں ) سوال کو بدعت اور تحقیق اور استد لال کو بدعت پرستی اورہوا پر ستوں کے مقا بلے میں عقب نشینی جانتے ہیں، اس گروہ نے اپنی سا ری طاقت سنت کے تعقل وتفکرسے خالی درس و بحث پر وقف کر دی اوراس کو سنت کی پیر وی کرنااوراس کے علاوہ کو ''بد عت پرستی'' کہتے ہیں۔

ان کی سب سے زیادہ اور عظیم تر ین کو شش و تلا ش یہ ہے کہ اعتقا دی مسا ئل سے مر بو ط احا دیث کی تدوین اور جمع بندی کرکے اس کے الفا ظ و کلما ت اور اسنا د کی شر ح کریں جیسا کہ بخا ر ی ، احمد ابن حنبل ، ابن خز یمہ، بیہقی اور ابن بطّہ نے کیا ہے، وہ یہاںتک آگے بڑھ گئے کہ عقید تی مسا ئل میں علم کلا م اور عقلی نظر یا ت کو حرا م قراردے دیا،ان میں سے بعض نے اس سلسلہ میں مخصوص رسا لہ بھی تد وین کیا ، جیسے ابن قدامہ نے''تحریم النظر فی علم الکلا م''نا می رسا لہ تحریر کیا ہے۔

احمد ابن حنبل نے کہا ہے: اہل کلام کبھی کا میاب نہیں ہو ں گے ، ممکن نہیں کہ کوئی کلام یا کلامی نظر یہ کا حامل ہو اور اس کے دل میں مکر و حیلہ نہ ہو،اس نے متکلمین کی اس درجہ بد گو ئی کی کہ حا رث محا سبی جیسے (زا ہد و پرہیز گا ر) انسا ن سے بھی دور ہو گیا اور اس سے کنا رہ کشی اختیا ر کر لی، کیو نکہ اس نے بد عت پرست افراد کی رد میں کتا ب تصنیف کی تھی احمد نے اس سے کہا : تم پر وا ئے ہو! کیا تم پہلے ان کی بد عتوں کا ذکر نہیں کروگے تاکہ بعد میں اس کی رد کر و؟ کیا تم اس نوشتہ سے لوگوں کو بد عتوں کا مطا لعہ اور شبہو ں میں غو ر و فکر کرنے پر مجبور نہیں کروگے یہ بذات خود ان لو گو ں کو تلا ش و جستجو اورفکرونظر کی دعوت دینا ہے۔

احمد بن حنبل نے یہ بھی کہا ہے: علما ئے کلا م ز ند یق اور تخریب کا ر ہیں۔

زعفرا نی کہتا ہے :شا فعی نے کہا : اہل کلام کے بارے میں میرا حکم یہ ہے کہ انھیں کھجور کی شاخ سے زدو کوب کرکے عشا ئر اور قبا ئل کے درمیا ن گھما ئیں اور کہیں: یہ سزا اس شخص کی ہے جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر علم کلام سے وابستہ ہوگیا ہے!

تمام اہل حدیث سلفیو ں(اخبار یین عا مہ) کا اس سلسلہ میں متفقہ فیصلہ ہے اور متکلمین کے مقا بل ان کے عمل کی شد ت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا لوگوں نے نقل کیا ہے، یہ لو گ کہتے ہیں : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحا ب باوجو د یکہ حقائق کے سب سے زیا دہ عا لم اور گفتا ر میں دوسرو ں سے زیا دہ محکم تھے، انہوں نے عقائد سے متعلق با ت کر نے میں اجتنا ب نہیں کیا مگر صرف اس لئے کہ وہ جا نتے تھے کہ کلام سے شر و فسا د پیدا ہوگا۔ یہی و جہ ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ہی جملے کی تین با ر تکرا ر کی اور فر مایا :

۱۸۹

(هلک المتعمقون، هلک المتعمقون ،هلک المتعمقون )

غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے وا لے ہلا ک ہو گئے، غو ر وخو ض کر نے والے ہلا ک ہو گئے، یعنی (دینی) مسا ئل گہرائی کے ساتھ غور و فکر کر نے والے ہلا ک ہوگئے!

یہ گروہ(اخبا ریین عا مہ) عقیدہ میں تجسیم اور تشبیہ(یعنی خدا کے جسم اور شبا ہت) کا قائل ہے ، '' ْقدر'' اور سر نوشت کے ناقابل تغییر ہونے اور انسا ن کے مسلو ب الا را دہ ہونے کا معتقدہے۔( ۱ )

یہ لو گ عقا ئد میں تقلید کو جا ئز جا نتے ہیں اور اس کے سلسلہ میں را ئے و نظر کو جیسا کہ گز ر چکا ہے حرام سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر احمد محمود صبحی فر ماتے ہیں:

'' با وجو د یکہ عقا ئد میں تقلید- عبد ﷲ بن حسن عنبری، حشویہ اور تعلیمیہ( ۲ ) کے نظریہ کے بر خلا ف نہ ممکن ہے اور نہ جائز ہے،یہی نظریہ ''محصل '' میں فخر رازی کا ہے( ۳ )

اورجمہو ر کا نظریہ یہ ہے کہ عقائد میں تقلیدجائز نہیں ہے اور استاد ابو اسحا ق نے ''شرح التر تیب'' میں اس کی نسبت اجماع اہل حق اور اس کے علاوہ کی طرف دی ہے اور امام الحرمین نے کتاب''الشامل'' میں کہا ہے کہ حنبلیوں کے علا وہ کو ئی بھی عقائد میں تقلید کا قائل نہیں ہے ، اس کے با وجود ، امام شو کا نی نے لو گو ں پر عقائد میں غور و فکر کو واجب جاننے کو''تکلیف مالایطاق'' (ایسی تکلیف جو قدرت و توانائی سے باہر ہو) سے تعبیر کیا ہے، وہ بزرگان دین کے نظریات اور اقوال پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں: خدا کی پناہ !یہ کتنی عجیب و غریب باتیں ہیں یقیناً یہ ، لوگوں کے حق میں بہت بڑا ظلم ہے کہ امت مرحومہ کو ایسی چیز کا مکلف بنایا جائے جس کی ان میں قدرت نہیں ہے،(کیا ا یسا نہیں ہے ) وہی صحا بہ کا حملی اور تقلیدی ایمان جو اجتہا د و نظر کی منزل تک نہیں پہنچے تھے، بلکہ اس سے نزدیک بھی نہیں ہوئے تھے ، ان کے لئے کافی ہو ؟۔

____________________

(۱)صابونی ؛ ابو عثمان اسماعیل ؛رسالة عقیدةالسلف و اصحاب الحدیث(فی الرسائل المنیرة).

(۲)آمری؛ ''الاحکام فی اصول الاحکام'' ،ج۴ ، ص ۳۰۰.

(۳)شوکانی: '' ارشاد الفحول '' ص۲۶۶-۲۶۷.

۱۹۰

انھوں نے اس سلسلے میں نظر دینے کو بہت سارے لو گو ں پر حرا م اور اس کو گمرا ہی اور نا دانی میں شما ر کیا ہے ۔( ۱ )

اس لحا ظ سے ان کے نز دیک علم منطق بھی حرا م ہے اور ان کے نزدیک منطق انسانی شنا خت اور معرفت تک رسا ئی کی رو ش بھی شما ر نہیں ہو تی ہے، با وجودیکہ علم منطق ایک مشہو ر ترین اور قدیم تر ین مقیاس و معیا ر ہے یہ ایک ایسا علم ہے جس کو ارسطو نے'' ار غنو ن'' نامی کتاب میں تد وین کیا ہے اور اس کا نام علم سنجش و میز ان رکھا ہے۔

اس روش کو اپنا نے والوں کی نظر میں تنہا علم منطق ذہن کو خطا و غلط فہمی سے محفو ظ رکھنے کے لئے کا فی نہیں ہے ،یہ لوگ کہتے ہیں بہت سارے اسلامی مفکرین جیسے کندی .فا رابی، ابن سینا ، امام غزالی ، ابن ماجہ ، ابن طفیل اور ابن رشد علم منطق میں ممتا ز حیثیت کے مالک ہیں، لیکن آرا ء وافکا ر اور نظریاتمیں آپس میں شد ید اور بنیا دی اختلا فات کا شکا ر ہو گئے ہیں،لہٰذا منطق حق و با طل کی میزان نہیں ہے ۔

البتہ آخری دورمیں اس گروہ کا موقف علم منطق اور علم کلا م کے مقابلہ میں بہت نرم ہو گیا تھا جیسے ابن تیمیہ کے موقف کو علم کلام کے مقا بل مضطرب دیکھتے ہیں ،وہ علم کلام کو کلی طور پر حرا م نہیں کرتا بلکہ اگر ضرو رت اقتضا ء کرے اور کلا م عقلی اور شرعی دلائل پر مستند ہو اور تخریب کا روں، زند یقوں اور ملحدوں کے شبہو ں کو جدا کرنے کا سبب ہو توا سے جائز سمجھتا ہے۔( ۲ )

اس کے با وجود اس نے منطق کو حرا م کیا اور اس کی ردّ میں '' رسا لة الر د علیٰ المنطقین'' نا می رسا لہ لکھا ہے: اور اس کے پیرو کہتے ہیں:'' ڈیکا رٹ فر انسیسی''(۱۵۹۶۔۱۶۵۰ئ) نے خطا وصوا ب کی تشخیص کے لئے ارسطا طا لیس کی منطق کے بجا ئے ایک نئی میزا ن اور معیا ر اخترا ع کیا اور تا کید کی کہ اگر انسا ن اپنے تفکر میں قدم بہ قدم اس کے اختر اعی مقیا س کو اپنا ئے تو صواب کے علا وہ کو ئی اور راہ نہیں پا ئے گا'' ڈکا رٹ'' کی رو ش کا استعمال کر نا یقین آور نتیجہ دیتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور دورمعاصرمیں ڈکا رٹ کی روش سے جو امیدیں جاگیں تھیں ان کا حال بھی منطق ارسطو سے پائی جانے والی امیدوںکی طرح رہا اور میلاد مسیح سے لے کر اب تک کے موضوع بحث مسائل ویسے کے ویسے پڑے رہ گئے۔( ۳ )

____________________

(۱) امام جوینی: '' الار شاد الی قواطع الادلة '' ص۲۵، غزالی '' الجام العوام عن العلم الکلام '' ص ۶۶، ۶۷.ڈاکٹر احمد محمود صبحی : '' فی علم الکلام'' مقدمہ ٔ جلد اول

(۲)ابن تیمیہ :''مجموع الفتاوی ''ج۳ ،ص ۳۰۶ ، ۳۰۷.(۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود : '' التوحید الخالص'' ، ص ۵تا ۲۰.

۱۹۱

یہ و ہی چیز ہے جس کے باعث بہت سارے پہلے کے مسلما ن مفکر ین منجملہ امام غزا لی(۴۵۰۔۵۰۵ھ) روش عقلی کے ترک کر نے اور اسے مطر ود قرار دینے کے قا ئل ہوئے ، غز الی اپنی کتا ب ( تھا فة الفلاسفہ) میں عقلی دلا ئل سے فلسفیوں کے آراء و خیا لا ت کو باطل اور رد کرتا ہے ، غزالی کی اس کتاب میں دقت ا س بات کی گواہ ہے کہ وہ عقل جو کہ دلا ئل کا مبنیٰ ہے، وہی عقل ہے جو ان سب کو برباد کر دیتی ہے۔

غزالی ثابت کرتاہے کہ عالم الٰہیات اور اخلا ق میں انسا نی عقل سے ظن و گمان کے علاوہ کچھ حا صل ہونے والا نہیں ہے۔

اسلامی فلسفی ابن رشد اند لسی(متوفی ۔۵۹۵ھ) نے اپنی کتاب ( تھا فةالتہافت) میں غزا لی کے آراء و خیا لات کی رد کی ہے ، ابن رشد وہ شخص ہے جو اثبا ت کرتا ہے کہ عقل صریح اور نقل صحیح کے درمیا ن کسی قسم کا کوئی تعا رض نہیں ہے ، اوریہ بات ا س کی کتاب (فصل المقال بین الحکمة و الشر یعة من الا تصا ل) سے واضح ہو تی ہے ، حیرت انگیز یہ ہے کہ وہ اس موقف میں '' ابن تیمیہ'' کے ساتھ اپنی کتاب ( عقل صریح کی نقل صحیح سے مو افقت) میں ایک نتیجہ پر پہنچے ہیں۔

پھر ابن تیمیہ کے دو نوں موقف: '' عقلی روش سے مخالفت اور عقل صریح کے حکم سے موافقت''کے درمیان جمع کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ نہیں معلوم ۔

مکتب خلفا ء کے اہل حدیث اور مکتب اہل بیت کے اخباریوں کی روش ؛ نصوص شر عی،آیات وروا یات کے ظواہر کی پیروی کرنا اوررائے و قیا س سے حتی الامکان اجتناب کرنا ہے۔( ۱ ) ( سلفی مکتب) یا اہل حدیث کا مر کز اس وقت جز یرة العر ب (نجد کا علا قہ) ہے نیز ان کے کچھ گروہ عرا ق، شام اور مصر میں بھی پا ئے جاتے ہیں۔( ۲ )

ب: خالص عقلی مکتب

اس مکتب کے ماننے وا لے عقل انسا نی کی عظمت و شان پر تکیہ کر تے ہو ئے، شنا خت و معر فت کے اسباب و وسا ئل کے مانند، دوسروں سے ممتاز اور الگ ہیں ، یہ لوگ اسلامی نقطہ نظر سے ''مکتب رائے''کے ماننے والے اور عقیدہ میں ''معتز لہ '' کہلاتے ہیں ۔

____________________

(۱) شیخ مفید ، '' اوائل المقالات ''؛سیوطی'' صون المنطق والکلام عن علمی المنطق والکلام'' ص ۲۵۲.شوکانی : ارشاد الفحول ؛ ص ۲۰۲ ؛ علی سامی النشار : ''مناھج البحث عند مفکری الاسلام''ص ۱۹۴ تا ۱۹۵،علی حسین الجابری ،الفکرالسلفی عند الاثنی عشر یہ ،ص ۱۵۴، ۱۶۷، ۲۰۴ ، ۲۴۰ ، ۴۲۴، ۴۳۹ .(۲)قاسمی '' تاریخ الجہمیہ والمعتزلة ''ص ۵۶۔ ۵۷.

۱۹۲

اس مکتب کی پیدائش تاریخ اسلام کے ابتدا ئی دور میں ہوئی ہے ، سب سے پہلے مکتب اعتزال کی بنیاد'' واصل ابن عطا( ۸۰ھ، ۱۳۱ ھ) اور اس کے ہم کلا س '' عمر و بن عبید''( ۸۰ ھ۔ ۱۴۴ھ) منصور دوا نقی کے معاصر نے ڈالی ، اس کے بعد مامون عباسی کے وزیر'' ابی داؤد''اور قاضی عبد الجبا ر بن احمدہمدا نی،متوفی ۴۱۵''جیسے کچھ پیشوا اس مکتب نے پیدا کئے اس گروہ کے بزرگوں میں '' نظّا م''''ابو ہذ یل علاّف''''جا حظ'' اور جبا ئیان کا نام لیا جا سکتا ہے۔

اس نظر یہ نے انسا نی عقل کو بہت اہمیت دی ،خدا وند سبحا ن اور اس کے صفات کی شناخت اور معرفت میں اسے اہم ترین اور قوی ترین شما ر کرتا ہے، شریعت اسلامی کا ادراک اور اس کی تطبیق و موا زنہ اس گروہ کی نگاہ میں ، عقل انسا نی کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔

یہ مکتب ( معتز لہ) ہمارے زمانے میں اس نام سے اپنے پیرو اور یار ویاور نہیں رکھتا صرف ا ن کے بعض افکار'' زید یہ'' اور ابا ضیہ فرقے میں دا خل ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ'' معتزلہ'' کے ساتھ بعض افکار ونظریات میں شر یک ہیں اسی طرح '' معتز لہ'' شیعہ اثنا عشری اور اسما علیہ کے ساتھ بعض جو انب کے لحاظ سے ایک ہیں ،اہل حدیث( اخباریین عا مہ) نے'' معتزلہ'' کواس لحا ظ سے کہ ارادہ اور انتخاب میں انسان کی آزا دی کے قا ئل ہیں'' قدر یہ'' کالقب دیا ہے۔

عقائد میں ان کی سب سے اہم کتاب'' شر ح الاصول الخمسة'' قا ضی عبد الجبا ر معتزلی کی تا لیف اور ''رسائل العدل والتو حید'' ہے جو کہ معتز لہ کے رہبروں کے ایک گروہ جیسے حسن بصری ، قاسم رسی اور عبد الجبا ر بن احمد کی تالیف کردہ کتاب ہے۔

معتزلہ ایسے تھے کہ جب بھی ایسی قرا نی آیات نیز مروی سنت سے رو برو ہو تے تھے جو ان کے عقائد کے بر خلا ف ہو تی تھی اس کی تا ویل کرتے تھے اسی لئے انھیں '' مکتب تاویل'' کے ماننے والوں میں شما ر کیا جاتاہے، اس کے با وجود ان لوگوں نے اسلام کیلئے عظیم خد متیں انجام دی ہیں اور عباسی دور کے آغا ز میں جب کہ اسلام کے خلاف زبردست فکری اور ثقا فتی یلغا ر تھی اس کے مقا بلہ کے لئے اٹھ کھڑ ے ہوئے ، بعض خلفاء جیسے'' مامون'' اور'' معتصم ''ان سے منسلک ہو گئے ، لیکن کچھ دنوں بعد ہی'' متو کل'' کے زمانے میں قضیہ برعکس ہو گیا اور ان کے نقصا ن پر تمام ہو ا اور کفر و گمرا ہی اور فسق کے احکا م یکے بعد دیگرے ان کے خلا ف صادر ہوئے، بالکل اسی طرح جس طرح خود یہ لوگ درباروں پر اپنے غلبہ و اقتدار کے زمانے میں اپنے مخالفین کے ساتھ کرتے تھے اور جو ان کے آراء و نظریات کوقبول نہیں کرتے تھے انھیں اذیت و آزار دیتے تھے۔

۱۹۳

اس کی مزید وضاحت معتزلہ کے متعلق جد ید اور قدیم تا لیفا ت میں ملا حظہ کیجئے ۔( ۱ )

فرقۂ معتز لہ حسب ذیل پانچ اصول سے معروف و مشہور ہے :

۱۔توحید، اس معنی میں کہ خدا وند عالم مخلو قین کے صفات سے منزہ ہے اور نگا ہوں سے خدا کو دیکھنا بطور مطلق ممکن نہیں ہے ۔

۲۔ عدل، یعنی خدا وند سبحا ن نے اپنے بندوں پر ظلم نہیں کیا ہے اور اپنی مخلو قات کو گناہ کر نے پر مجبور نہیں کرتا ہے

۳۔ ''المنز لة بین المنز لتین''

یعنی جو گناہ کبیرہ انجام دیتا ہے نہ مو من ہے نہ کافر بلکہ فا سق ہے۔

۴۔ وعدو وعید، یعنی خدا پر واجب ہے کہ جو وعدہ ( بہشت کی خو شخبری) اور وعید ( جہنم سے ڈرا نا) مومنین اور کا فرین سے کیا ہے اسے وفا کرے۔

۵۔ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر، یعنی ظالم حکام جو اپنے ظلم سے باز نہیں آ تے ،ان کی مخا لفت وا جب ہے۔( ۲ )

مکتب اشعر ی :ما تر یدی یا اہل سنت میں متوسط راہ

'' مکتب اشعر ی'' کہ آج زیا دہ تر اہل سنت اسی مکتب کے ہم خیال ہیں،'' معتزلہ مکتب'' اور اہل حدیث کے درمیان کا راستہ ہے ، اس کے بانی شیخ ابو الحسن اشعر ی(متوفی ۳۲۴ ھ ) خودابتدا میں ( چا لیس سال تک) معتز لی مذ ہب رکھتے تھے ،لیکن تقریبا ۳۰۰ ھ کے آس پاس جا مع بصرہ کے منبر پر جا کر مذ ہب اعتزا ل سے بیزا ری اور مذہب سنت وجما عت کی طر ف لوٹنے کا اعلان کیا اور اس بات کی کوشش کی کہ ایک میا نہ اور معتدل روش جو کہ معتزلہ کی عقلی روش اور اہل حد یث کی نقلی روش سے مرکب ہو ، لوگوں کے درمیان عام

____________________

(۱)زھدی حسن جار ﷲ:( المعتز لة) طبع بیروت، دار الا ھلےة للنشر و التو زیع، ۱۹۷۴ ئ.

(۲) قاسم رسی،'' رسا ئل العدل و التو حید و نفی التشبیہ عن ﷲ الوا حد الصمد'' ج،۱،ص ۱۰۵۔

۱۹۴

کریں، وہ اسی تگ ودو میں لگ گئے، تا کہ مکتب اہل حدیث کو تقو یت پہنچائیں اور اس کی تائید و نصرت کریں، لیکن یہ کام معتزلہ کی اسی بروش یعنی : عقلی اور بر ہا نی استد لا ل سے انجام دیاکرتے تھے اس وجہ سے معتز لہ اور اہل حدیث کے نز دیک مردود و مطرود ہو گئے اور دونو ں گر وہوں میں سے ہر ایک اب تک اہم اور اساسی اعترا ضا ت وارد کر کے ا ن کی روش کو انحرا فی اور گمراہ کن جانتا ہے، یہا ں تک کہ ان کے بعض شد ت پسند وں نے ان کے کفر کا فتویٰ د ے دیا ۔

ایک دوسرا عالم جو کہ اشعری کا معاصر تھا ، بغیر اس کے کہ اس سے کو ئی را بطہ اورتعلق ہو،اس بات کی کوشش کی کہ اسی راہ وروش کو انتخاب کر کے اسے با قی رکھے اور آگے بڑھائے ، وہ ابو منصور ما تر ید ی سمرقندی(متوفی ۳۳۳ھ) ہے وہ بھی اہل سنت کے ایک گروہ کا عقید تی پیشوا ہے، یہ دو نو ں رہبرمجمو عی طور پر آپس میں آراء و نظریات میں اختلا ف بھی رکھتے ہیں بعض لوگو ں نے ان میں سے اہم ترین اختلاف کو گیا رہ تک ذکرکیا ہے ۔( ۱ )

اشعر ی مکتب کی سب سے اہم خصو صیت یہ ہے کہ ایک طرف آیات و روایات کے ظا ہری معنی کی تاویل سے شدت کے ساتھ اجتناب کرتا ہے، دوسری طرف کوشش کرتا ہے کہ''بلا کیف'' کے قول کے ذریعہ یعنی یہ کہ با ری تعا لیٰ کے صفا ت میں کیفیت کا گزر نہیں ہے '' تشبیہ و تجسیم'' کے ہلا کت بار گڈ ھے میں سے فرار کرتا ہے اور'' با لکسب'' کے قول سے یعنی یہ کہ انسان اپنے کردار میں جو کچھ انجام دیتا ہے کسب کے ذریعہ ہے نہ اقدا م کے ذریعہ ''جبر'' کی دلدل میں پھنسنے سے دوری اختیار کر تا ہے، اگر چہ علماء کے ایک گروہ کی نظر میں یہ روش بھی فکری واعتقا دی مسا ئل کے حل کے لئے نا کافی اور ضعیف و ناتواں شمار کی گئی ہے ،'' اشعری مکتب'' نے تدریجا ً اپنے استقلا ل اور ثبات قدم میں اضا فہ کیا ہے اور اہل حدیث ( اخبا ریین عا مہ) کے بالمقابل استقا مت کا مظا ہر ہ کیا اور عا لم اسلام میں پھیل گیا۔( ۲ )

____________________

(۱)دیکھئے: محمد ابو زہر ہ؛ '' تاریخ المذ اھب الاسلا مےة'' قسم الا شا عرہ و الما تر یدےة، آےة ﷲ شیخ جعفر سبحانی ، ا لملل والنحل، ج، ۱،۲، ۴، الفر د بل : ( الفرق الا سلا مےة فی الشما ل الا فر یقی) ص ۱۱۸۔ ۱۳۰، احمد محمود صبحی: ( فی علم الکلا م)

(۲)سبکی : ''الطبقات الشافعیة ج ۳، ص ۳۹۱ الیافعی '' مرآة الجنان '' ج ۳، ص۳۴۳. ابن کثیر ؛ '' البدایة والنہایة '' ج ۱۴، ص ۷۶.

۱۹۵

ج:۔ ذو قی و اشر اقی مکتب

بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہیں اور ایک علیحدہ اور جدا گانہ روش کہ جس میں کلامی مسائل جن کا اپنے

محور بحث اور منا قشہ ہے ان سے آزاد ہو کر صو فیوں کے رمزی اور عشقی مسلک کی پیروی کرتے ہیں، یہ مسلک تمام پہلؤوں میں فلسفیو ں اور متکلمین کی روش کا جوکہ عقل و نقل پر استوار ہے، مخا لف رہا ہے.'' منصور حلاج'' (متوفی ۳۰۹ھ) کوبغدا د میں اس مذ ہب کا با نی اور '' امام غزا لی'' کو اس کا عظیم رہبر شمار کیا ہے، غزالی اپنی کتاب''الجام العوا م عن علم الکلا م'' میں کہتا ہے ! یہ راہ '' خواص'' اوربر گز یدہ افراد کی راہ ہے اور اس راہ کے علاوہ( کلام و فلسفہ وغیرہ)''عوام'' اور کمتر در جے وا لوں نیزان لوگو ں کی راہ ہے جن کے اور عوام کے درمیان فرق صرف ادلہ کے جاننے میں ہے اور صرف ادلہّ سے آگا ہی استد لال نہیں ہے۔( ۱ )

بعض محققین نے عقائد اسلامی کے دریا فت کرنے میں امام غزالی اور صو فیوں کی روش کے بارے میں مخصوص کتا ب تا لیف کی ہے ۔( ۲ ) ڈاکٹر صبحی، غزا لی کی راہ و روش کو صحیح درک کر نے کے بعد کہتے ہیں:

اگر چہ غزالی ذا ت خدا وندی کی حقیقت کے بارے میں غو ر و خوض کرنے کو عوام پر حرا م جانتے ہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا ان کے متعلق کوئی انکار نہیں کرتا ، لیکن انھوں نے اد بائ، نحو یوں، محد ثین ،فقہاء اور متکلمین کو عوام کی صف میں قرار دیا ہے اور تاویل کو راسخون فی العلم میں محدود و منحصر جا نا ہے اور وہ لوگ ان کی نظر میں اولیا ء ہیں جو معرفت کے دریا میں غر ق اور نفسانی خواہشات سے منزہ ہیں اور یہ عبارت بعض محققین کے اس دعویٰ کی صحت پر خود ہی قر ینہ ہے کہ'' غزا لی'' حکمت اشرا قی و ذوقی وغیرہ... میں ایک مخصوص اور مرموز عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ ان کے عام اور آشکار اعتقاد کے مغائر ہے کہ جس کی بنا ء پروہ لوگو ں کے نز دیک حجةالاسلام کی منزل پر فا ئز ہوئے ۔

ڈ اکٹر صبحی سوال کرتے ہیں:

کیا حقیقت میں را سخون فی العلم صرف صو فی حضرا ت ہیں اور فقہا ئ، مفسر ین اور متکلمین حضرات ان سے خارج ہیں؟!

اگر ایسا ہے کہ فن کلام کی پیدا ئش اور اس کے ظاہر ہو نے سے برائیوں میں اضافہ ہوا ہے توکیا یہ استثنائ(صرف صو فیوںکو را سخون فی العلم جاننا ) ان کے لئے ایک خاص مو قع فراہم نہیں کرتا ہے کہ وہ اس خاص موقع سے فائدہ اٹھائیں اور نا روا دعوے اور نازیباگستا خیا ں کریں؟

____________________

(۱)''الجام العوام عن علم الکلام '' ص ۶۶تا ۶۷.

(۲) ڈاکٹر سلیمان دنیا ؛ '' الحقیقة فی نظر الغزالی ''

۱۹۶

تصوف فلسفی کے نظر یات جیسے فیض، اشرا ق اوراس کے ( شرع سے) بیگا نہ اصول بہت زیا دہ واضح ہیں،اور ان کا اسلا می عقائد کے سلسلے میں شر و نقصا ن متکلمین کے شرور سے کسی صورت میں کم نہیں ہے۔( ۱ )

لیکن بہر صورت ، اس گروہ نے اسلامی عقائد میں صو فیا نہ طر ز کے کثرت سے آثا ر چھو ڑے ہیں کہ ان کے نمو نوں میں سے ایک نمو نہ'' فتو حات مکیہ'' نامی کتاب ہے۔( ۲ )

د: حسی و تجر بی مکتب( آج کی اصطلا ح میں علمی مکتب)

یہ روش اسلامی فکر میں ایک نئی روش ہے کہ بعض مسلما ن دا نشو روں نے آخری صدی میں ، یو رپ کے معا صرفکر ی رہبر وںکی پیر وی میں اس کو بنایاہے ، اس روش کا اتباع کر نے والے جد ید مصر، ہند، عرا ق اور ان دیگر اسلا می مما لک میں نظر آتے ہیںجو غرب کے استعما ری تمد ن اور عا لم اسلا م پر وارد ہو نے والی فکری امواج سے متاثر ہوگئے ہیں۔

وہ لوگ انسا نی معرفت و شنا خت کے وسا ئل کے بارے میں مخصوص نظر یات رکھتے ہیں، حسی اور تجر بی رو شوں پر مکمل اعتماد کر نا اور پر انی عقلی راہ وروش اور ارسطو ئی منطق کو با لکل چھو ڑ دینا ان کے اہم خصو صیات میں سے ہے. یہ لوگ کو شش کرتے ہیں کہ'' معا رف الٰہی'' کی بحث اور ما وراء الطبیعت مسا ئل کو'' علوم تجربی''کی رو شوں سے اور میدان حس وعمل میں پیشکریں۔( ۳ )

اس جدید کلامی مکتب کے منجملہ آثار میں سے معجز ات کی تفسیر اس دنیا کی ما دی علتوں کے ذریعہ کرنا ہے ، اور نبو ت کی تفسیر انسا نی نبوغ اورخصو صیا ت سے کرنا ہے، بعض محققین نے ان نظر یات کی تحقیق و بر رسی کے لئے مستقل کتا ب تا لیف کی ہے۔( ۴ )

اس نظریہ کے کچھ نمو نے ہمیں '' سرسید احمد خان ہندی'' کے نو شتوں میں ملتے ہیں اگرانھیں اس مکتب کا پیرو نہ ما نیں ، تب بھی وہ ان لو گوں میں سے ضرور ہیں جو اس نظر یہ سے ہمسوئی اور نزدیکی رکھتے ہیں، اس نزدیکی کا

____________________

(۱) ڈاکٹر احمد محمود صبحی ؛ '' فی علم الکلام '' ج ۲، ص۰۴ ۶تا۶۰۶. (۲) شعرانی عبد الوہاب بن احمد ؛ '' الیواقیت والجواہر فی بیان عقاید الاکابر '' سمیع عاطف الزین ؛ '' الصوفیة فی نظر الاسلام '' تیسرا ایڈیشن ، دار الکتاب اللبنانی ، ۱۴۰۵ ھ ، ۱۹۸۵ ئ. (۳)ڈاکٹر عبد الحلیم محمود: '' التو حید الخا لص اوا لا سلا م و العقل'' ، مقدمہ.

(۴)ڈا کٹر عبد الر زّ اق نو فل؛ '' المسلمو ن و العلم الحدیث''. فر ید وجدی؛'' الا سلام فی عصر العلم''.

۱۹۷

سبب بھی یہ ہے کہ انھوں نے غرب کے جد ید دا نشو روں کے آراء و نظریات کو قرآن کی تفسیر میں پیش کرکے اوراپنی تفسیر کو ان نظر یات سے پُر کر کے یہ کو شش کی ہے کہ یہ ثا بت کر یں کہ قرآ ن تمام جد ید انکشا فات سے مو ا فق اور ہماہنگ ہے،سر سیداحمد خا ن ہندی بغیر اس کے کہ اپنے نظریئے کے لئے کوئی حد ومر ز مشخص کریں، اوردینی مسا ئل اور جد ید علمی مبا حث میں اپنا ہد ف، روش اور مو ضو ع واضح کریں، ایک جملہ میں کہتے ہیں:'' پو را قرآ ن علوم تجر بی انکشافات سے مو افق اور ہم آہنگ ہے''۔( ۱)

ھ:اہل بیت کا مکتب راہ فطرت

اس مکتب یعنی راہ فطرت کاخمیر، اہل بیت کی تعلیمات میں مو جو د ہے، ان حضرات نے لوگو ں کے لئے بیا ن کیا ہے :'' اسلامی عقائد کا صحیح طریقہ سے سمجھنا انسانی فطرت سے ہم آہنگی اور مطا بقت کے بغیر ممکن نہیں ہے'' اس بیان کی اصل قرآن و سنت میں مو جود ہے ، کیو نکہ قرآ ن کریم جہا ں با طل کا کسی صورت سے گزر نہیں ہے اس میں ذکر ہوا ہے:

(( فطرة ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لکن اکثر الناس لایعلمون ) سورہ روم :۳۰.

ﷲ کی وہ فطرت جس پر اس نے انسا نوں کو خلق کیا ہے ، ﷲ کی آفر ینش میں کوئی تغیر اور تبد یلی نہیں ہے ، یہ ہے محکم آئین لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے!

پروردگا ر عا لم نے اس آیت میں اشارہ فرمایا: دینی معارف تک پہنچنے کی سب سے اچھی راہ انسان کی فطر ت سلیم ہے، ایسی فطرت کہ جسے غلط اور فا سد معاشرہ نیز بری تربیت کاما حول بھی بد ل نہیں سکتا اوراسے خواہشات ، جنگ و جدا ل محوا ورنابود نہیں کر سکتے اور اس بات کی علت کہ اکثر لوگ حق و حقیقت کو صحیح طر یقے سے درک نہیں کر سکتے یہ ہے کہ خود خواہی ( خود پسند ی) اور بے جا تعصب نے ان کے نور فطرت کو خا موش کر دیا ہے، اور ان کے اور ﷲ کے واقعی علوم و حقائق کے اور ان کی فطری درک و ہدایت کے درمیا ن طغیا نی اور سرکشی حا ئل ہو گئی ہے اور دونو ں کے درمیا ن فا صلہ ہو گیا ہے۔

____________________

(۱)۔محمود شلو ت '' تفسیر القرآن الکریم'' الا جزاء العشر ة الا ولی'' ص ۱۱ ۔ ۱۴، اقبال لاہو ری: ( احیا ئے تفکر دینی در اسلا م) احمد آرام کا تر جمہ ص ۱۴۷۔۱۵۱ ، سید جمال الدین اسد آبادی: ( العر وة الو ثقیٰ) شمار ہ ۷ ،ص ۳۸۳ ، روم، اٹلی ملا حظہ ہو.

۱۹۸

اس معنی کی سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی تا کید ہو ئی ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت میں مذ کور ہے :

''کل مولودٍ یو لد علی الفطر ةِ فا بوٰ اه یهو دٰ ا نه او ینصرٰا نه او يُمجسانه' '( ۱ )

ہر بچہ ﷲ کی پا کیزہ فطرت پرپیداہوتاہے یہ تو اس کے ماں باپ ہیں جواسے ( اپنی تربیت سے) یہودی، نصرا نی یا مجو سی بنا دیتے ہیں۔

راہ فطرت کسی صورت عقل و نقل، شہود و اشرا ق ، علمی وتجر بی روش سے استفادہ کے مخا لف نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ یہ راہ شنا خت کے اسباب و وسا ئل میں سے کسی ایک سبب اور وسیلہ میں محدود و منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اپنی جگہ پر خداوند عا لم کی ہدایت کے مطابق میں استعمال کرتی ہے ، وہ ہدا یت جس کے بارے میں قرآن کریم خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یمنو ن علیک أن أسلموا قل لاتمنوا علیّ اِسلا مکم بل ﷲ یمن علیکم أن هدا کم للاِیمان اِن کنتم صا دقینَ ) ( ۲ )

(اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )وہ لوگ تم پر اسلا م لانے کا احسان جتا تے ہیں ، تو ان سے کہہ دو! اپنے اسلام لا نے کا مجھ پر احسان نہ جتا ؤ ، بلکہ خدا تم پر احسان جتا تا ہے کہ اس نے تمھیں ایما ن کی طر ف ہدا یت کی ہے، اگر ایمان کے دعوے میں سچے ہو !

دوسری جگہ فرماتا ہے :( و لولا فضل ﷲ علیکم و رحمته ما زکیٰ منکم من أحدٍ أبدا ) () ( ۳ )

اگر خدا کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہو تی تو تم میں سے کو ئی بھی کبھی پاک نہ ہو تا ۔

اس راہ کا ایک امتیاز اور خصو صیت یہ ہے کہ اس کے ما ننے وا لے کلا می منا ظر ے اور پیچیدہ شکو ک و شبہات میں نہیں الجھتے اور اس سے دور ی اختیا ر کرتے ہیںاور اس سلسلے میں اہل بیت کی ان احا دیث سے استنا د کرتے ہیں جو دشمنی اور جنگ و جدا ل سے رو کتی ہیں، ان کی نظر میں وہ متکلمین جنھیں اس راہ کی تو فیق نہیں ہو ئی ہے ان کے اختلا ف کی تعداد ایک مذ ہب کے اعتقادی مسا ئل میں کبھی کبھی ( تقریبا)سینکڑوں مسائل تک پہنچ جاتی ہے۔( ۴ )

____________________

(۱) صحیح بخاری: کتاب جنائز و کتاب تفسیر ؛ صحیح مسلم : کتاب قدر ، حدیث ۲۲تا ۲۴.مسند احمد : ج ۲، ص ۲۳۳، ۲۷۵، ۲۹۳، ۴۱۰، ۴۸۱، ج۳،ص ۳۵۳؛ صراط الحق: آصف محسنی (۲)سورہ حجرات ۱۷

(۳)سورہ ٔ نور ۲۱.

(۴) علی ابن طاؤوس ، ''کشف المحجة لثمرة الحجة '' ص ۱۱اور ص ۲۰، پریس داروی قم

۱۹۹

یہ پا کیزہ '' فطرت'' جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے ، اہل بیت کی روایات میں کبھی ''طینت اور سرشت'' اور کبھی'' عقل طبیعی'' سے تعبیر ہو تی ہے، اس مو ضو ع کی مز ید معلو مات کے لئے اہل بیت کی گرانبہا میرا ث کے محا فظ اور ان کے شیعوں کی حد یث کی کتا بوں کی طرف رجو ع کر سکتے ہیں۔( ۱ )

اسلامی عقا ئد کے بیان میں مکتب اہل بیت کے اصول و مبا نی

عقائد میں ایک مہم ترین بحث اس کے ماخذ و مدارک کی بحث ہے ، اسلامی عقائد کے مدا رک جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے،صرف کتاب خدا وندی اور سنت نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں، لیکن مکتب اہل بیت اور دیگرمکاتب میں بنیا دی فرق یہ ہے کہ مکتب اہل بیت پوری طرح سے اپنے آپ کو ان مدا رک کا تا بع جانتا ہے اور کسی قسم بھی کی خو اہشات ، ہوائے نفس اوردلی جذ با ت اور تعصب کو ان پر مقدم نہیںکرتا اور ان دونوں مر جع سے عقائد حاصل کرنے میں صرف قرآ ن کریم اور روایات رسول اسلام میں اجتہاد کے اصول عامہ کو ملحوظ رکھتا ہے ، ا ن میں سے بعض اصول یہ ہیں:

۱۔ان نصوص و تصر یحا ت کے مقا بلے میں ، جو معا رض سے خالی ہوں یا معارض ہو لیکن نص کے مقا بل استقا مت کی صلا حیت نہ رکھتا ہو، کبھی اجتہا د کو نص پر مقد م نہیں رکھتے اس حال میں کہ بعض ہوا پر ستوں اور نت نئے مکتب بنا نے وا لوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لغو اور بیہودہ تا ویلا ت کے ذریعہ اپنے آپ کو نصوص کی قید سے آزا د کر لیں ،عنقریب اس کے ہم چند نمو نوںکی نشان دہی کریں گے۔

حضرت امام امیر المو منین ـ ''حارث بن حوط'' کے جو اب میں فرما تے ہیں :

''انک لم تعرف الحقّ فتعرف من اتاه و لم تعرف البا طل فتعرف مَن أتا ه ''( ۲ )

تم نے حق ہی کو نہیں پہچا ناکہ اس پر عمل کرنے والوں کو پہچا نو اور تم نے باطل ہی کو نہیں پہچا نا کہ اس پر عمل کر نے والوں کو پہچا نو۔

۲۔ دوسرے لفظوںمیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں: مکتب اہل بیت کے ما ننے وا لے کسی چیز کو نص اوراس روایت پر جو قطعی اور متو اتر ہو مقدم نہیں کرتے اور یہ اسلام کے عقیدہ میں نہایت اہم اصلی ہے ، کیو نکہ عقائد میں ظن و گما ن اور اوہام کا گزر نہیں ہے ، اس پر ان لوگوں کو توجہ دینی چاہیئے جو کہ ''سلفی'' نقطۂ نظر رکھتے ہیں ، نیز

____________________

(۱)کافی کلینی: ترجمہ ، ج۳، ص ۲، باب طینة المؤمن والکافر ، چوتھا ایڈیشن ، اسلامیہ تہران ، ۱۳۹۲ ھ.(۲)نہج البلا غہ، حکمت:۲۶۲:

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

۲۶ـ جناب صدوق نے اسی امالی میں امیرالمومنین(ع) سے روایت کر کے ایک حدیث لکھی ہے:

“ امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ : اے علی(ع) ! تم میرے بھائی ہو اور میں تمھارا بھائی ہوں۔ میں نبوت کےلیے پسند کیا گیا ۔ تم امامت کے لیے منتخب ہوئے۔ میں صاحب تنزیل ہوں تم صاحبِ تاویل ہو اور تم اس امت ے باپ ہو۔ اے علی(ع) تم میرے وصی ہو، میرے خلیفہ ہو، میرے وزیر ہو، میرے وارث ہو، میرے بچوں کے باپ ہو۔”

۲۷ـ اسی امالی میں جناب صدوق بسلسلہ اسناد ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے ایک دن فرمایا، جب کہ آپ مسجد قبا میں تشریف فرما تھے اور اصحاب کے گرد اکٹھے تھے: اے علی(ع) ! تم میرے بھائی ہو اور میں تمھارا بھائی ہوں۔ تم میرے وصی ہو، میرے خلیفہ ہو۔ میرے بعد میری امت کے امام ہو۔ خدا دوست رکھے اسے جو تمھیں دوست رکھے، دشمن رکھے اسے جو تمھیں دشمن رکھے۔”

۲۸ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے ایک طولانی حدیث جناب ام سلمہ سے روایت کی ہے جس میں آںحضرت(ص) نے ام سلمہ سے فرمایا : کہ

“ اے ام سلمہ سنو اور گواہ رہو کہ یہ علی ابن ابی طالب(ع) میرے وصی ہیں، میرے خلیفہ ہیں اور میرے کیے
۳۶۱

 ہوئے وعدوں کو پورا کرنے والے ہیں اور میرے حوض کوثر پر سے منافقین کو بھگانے والے ہیں۔”

۲۹ـ اسی امالی میں بسلسلہ اسناد سلمان فارسی سے روایت ہے جناب سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ :

“ میں نے رسول(ص) کو کہتے سنا : اے گروہ مہاجرین و اںصار ! کیا میں تمھاری رہبری اس ذات کی طرف نہ کردوں کہ اگر تم اس کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہو تو کبھی میرے بعد گمراہ نہ ہو۔ لوگوں نے کہا ضرور یا رسول اﷲ(ص) ، فرمایا : یہ علی(ع) میرے بھائی ہیں۔ میرے وصی ہیں، میرے وزیر ہیں، میرے خلیفہ ہیں اور تمھارے امام ہیں۔ لہذا جس طرح مجھے دوست رکھتے ہو انھیں بھی دوست رکھو اور جس طرح میری عزت و تکریم کرتے ہو ان کی بھی کرو۔ مجھ سے جبریل امین نے کہا ہے کہ میں یہ بات تم سے کہوں۔”

۳۰ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے بسلسلہ اسناد زید بن ارقم سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ :

“ رسول(ص) نے فرمایا : کہ میں تمھاری رہبری اس شخص کی طرف نہ کروں کہ اگر تم اس کا مضبوطی سے دامن پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو نہ ہلاک ہو۔ فرمایا آںحضرت(ص) نے کہ تمھارے امام اور ولی علی بن ابی طالب(ع)
۳۶۲

 ہیں۔ ان کا بوجھ بٹاؤ ان کی خیر خواہی کرو، ان  کی تصدیق کرو۔ جبرئیل نے مجھے اس بات کے کہنے کا حکم دیا ہے”

۳۱ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے ابن عباس سے روایت کی ہے جس میں ہے کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : اے علی(ع) ! تم میری امت کے امام ہو اور میرے بعد امت پر میرے خلیفہ ہو۔”

۳۲ـ اسی امالی میں جناب صدوق ابن عباس سے روایت کی ہے کہ:

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : کہ خداوند عالم نے مجھ پر وحی فرمائی کہ وہ میری امت سے ایک شخص کو میرا بھائی، میرا وارث خلیفہ اور وصی بنانے والا ہے۔ میں نے درگاہ الہی میں سوال کیا، پروردگار وہ کون ہے؟ تو خدا نے مجھ پر وحی فرمائی کہ وہ تمھاری امت کا امام اور میری حجت ہے۔ اس پر میں نے عرض کیا : الہی وہ کون ہے؟ ارشاد ہوا: وہ، وہ ہے جسے میں بھی دوست رکھتا ہوں اور وہ بھی مجھے دوست رکھتا ہے۔یہاں تک کہ آپ نے سلسلہ بیان میں فرمایا : کہ وہ علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔”

۳۳ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے امام جعفر صادق(ع) سے اور انھوں نے اپنے آباء طاہرین(ع) سے روایت کی ہے کہ:

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : جب مجھے شب معراج آسمان
۳۶۳

 پر لے جایا گیا تو خداوند عالم نے مجھ سے علی(ع) کے متعلق عہد و پیمان فرمائے کہ وہ امام المتقین ، قائد غرالمحجلین ، یعسوب المومنین ہیں۔

۳۴ـ اسی امالی میں جناب صدوق نے بسلسلہ اسناد امام رضا(ع) سے انھوں نے اپنے آباء طاہرین(ع) سے روایت کی ہےکہ:

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔ خدا ہلاک کرے گا اسے جو علی(ع) سے جنگ کرے علی(ع) میرے بعد خلائق کے امام ہیں۔”

۳۵ـ جناب شیخ الطائفہ  ابو جعفرر محمد بن حسن طوسی نے اپنی امالی میں بسلسلہ اسناد جناب عمار یاسر سے روایت کی ہے، جنابِ عمار فرماتے ہیں کہ:

“ رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) نے ارشاد فرمایا : کہ خدا نے تمھیں ایسی زینت سے سنوارا ہے کہ جس زینت سے زیادہ محبوب زینت بندوں کو نہیں بخشی۔”

۳۶ـ جناب شٰیخ نے اپنی  اسی امالی میں بسلسلہ اسناد امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے :

“ امیرالمومنین(ع) نے ایک دن منبر کوفہ پر خطبہ میں ارشاد فرمایا : اے لوگو! مجھے رسول(ص) سے دس خصوصیات ایسی حاصل ہوئیں جو روئے زمین کی تمام چیزوں سے زیادہ مجھے محبوب ہیں۔ مجھ سے آںحضرت(ص) نے فرمایا : اے علی(ع) ! تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔ اور
۳۶۴

بروزِ قیامت تمام خلائق سے زیادہ مجھ سے قریب ہوگے اور جنت میں تمھاری قیام گاہ میری قیام گاہ کے سامنے ہوگی۔ تم میرے وارث ہو، تم ہی میرے بعد میرے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرنے والے ہو اور میرے گھر والوں کے وصی ہو ۔ اور میری عدم موجودگی میں میرے اہلبیت(ع) کے تم ہی محافظ ہو اور تم ہی میرے ولی ہو۔ اور میرا ولی خدا کا ولی ہے اور تمھارا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے۔”

۳۷ـ جناب صدوق نے کتاب ںصوص علی الائمہ، میں بسلسلہ اسناد امام حسن بن علی(ع) سے روایت کہ ہے:

“ امام حسن(ع) فرماتے ہیں: کہ میں نے رسول(ص) کو امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) سے کہتے سنا: تم میرے علوم کے وارث ہو، میری حکمتوں کے معدن ہو، میرے بعد امام ہو۔”

۳۸ـ جناب صدوق نے کتاب نصوص میں بسلسلہ اسناد عمران بن حصین سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ :

“ میں نے رسول(ص) کو امیرالمومنین(ع) سے کہتے سنا: تم ہی امام ہو اور میرے بعد خلیفہ ہو۔”

۳۹ـ اسی کتاب ںصوص میں بسلسلہ اسناد امیرالمومنین(ع) سے ایک حدیث مذکور ہے کہ :

“ آںحضرت(ص) نے فرمایا : اے علی(ع) تم میرے اہلبیت(ع) کے
۳۶۵

 مرنے والوں کے وصی اور میری امت کے زندہ افراد پر خلیفہ ہو۔”

۴۰ـ اسی کتاب ںصوص میں بسلسلہ اسناد امام حسین(ع) سے ایک حدیث مروی ہے۔ امام مظلوم فرماتے ہیں کہ:

“ خداوند عالم نے جب یہ آیت نازل فرمائی کہ بعض اولی الارحام بعض سے زیادہ حقدار ہیں۔” میں نے رسول(ص) سے اس کی تاویل کےمتعلق پوچھا، آںحضرت(ص) نے فرمایا تم لوگ اولی الارحام ہو۔ پس جب میں مرجاؤں تو تمھارے پدر بزرگوار مجھ سے زیادہ خصوصیت و قرابت رکھتے ہیں۔ اورمیری جگہ کے زیادہ حقدار سزاوار ہیں جب وہ دنیا سے اٹھیں تو تمھارے بھائی حسن(ع) اس عہدہ کے سزاوار ہیں اور جب حسن(ع) بھی دنیا سے اٹھ جائیں تو تم اس منصب کے سزاوار ہو۔”
یہ اتنی حدیثیں میں اس مختصر رسالہ میں درج کر رہاں ہوں۔ یہ اتنے نصوص باقی نصوص سے ایسی نسبت رکھتے ہیں جیسے ایک پھول کو باغ سے یا ایک قطرے کو بحر بے پایان سے  نسبت ہوتی ہے ۔ پھر بھی اگر انصاف سے کام لیا جائے تو بعض حدیثیں ہی کفائت کریں۔(۱)

                                                     ش

--------------

۱ـ ہم نے چالیس (۴۰) کی تعداد میں اس لیے حدیثیں بیان کی ہیں کہ ہماری کتب احادیث میں امیرالمومنین(ع) علی بن ابی طالب(ع) ، عبداﷲ بن عباس، عبداﷲ بن مسعود، عبداﷲ بن عمر، ابو سعید خدری، ابو دردا، ابو ہریرہ ، انس بن مالک ، معاذ بن جبل وغیرہ بزرگوں میں سے ہر ہر شخص سے یہ حدیث بکثرت طریقوں سے مروی ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا : جس نے چالیس حدیثیں امر دین کے متعلق میری امت میں یاد کیں خدا اسے بروزِ قیامت فقہاء علماء کے گروہ میں اٹھائے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ خدا اسے فقیہ و عالم کی حیثیت سے اٹھائے گا ۔ ابو درداء کی روایت میں ہے کہ میں بروز حشر اس کا شفیع و گواہ رہوں گا۔ ابن مسعود کی روایت میں ہے کہ میں اس سے کہوں گے کہ جنت کے جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ، ابن عمر کی روایت میں ہے اسے زمرہ علماء مین شامل کیا جائے گا اور اسے شہداء کے زمرہ میں مبعوث کیا جائے گا۔ اور ہمارے لیے ان چالیس حدیثوں کے حفظ کے لیے رسول(ص) کا یہ قول کافی ہے خدا اس شخص کے چہرے کو شاداب رکھے جو میری بات سنے اور محفوظ رکھے اور جس طرح سنا ہے اسی طرح اسے پہنچا دے۔ آپ کا یہ قول بھی کافی ہے جن لوگوں نے سنا ہے وہ ان لوگوں کو پہنچائیں جو موجود نہیں ہیں۔

۳۶۶

مکتوب نمبر۳۲

شیعوں کی حدیثیں حجت نہیں اگر یہ حدیثیں صحیح ہیں تو اہلسنت نے کیوں نہیں ان کی روایت کی ،مزید نصوص ذکر فرمائیں

یہ نصوص جو آپ نے ذکرفرمایئے یہ حضرات اہل سنت کے یہاں ثابت نہیں ۔لہذا ان پر حجت بھی نہیں ہوسکتے

اگر ان حضرات اہلسنت کے یہاں نصوص ثابت ہیں تو انھوں نے کیوں ذکر کیا ۔ لہذا وہی اگلا سلسلہ آپ جاری رکھیے یعنی موضوع پر حضرات اہلسنت کے یہاں جو احادیث موجود ہیں انھیں بیان فرمائیے۔

س

۳۶۷

جواب مکتوب

ہم نے ان ںصوص کو اس لیے بیان کیا کہ آپ بھی واقف ہوجائیں اور آپ نے خود ہی خواہش ظاہر کی تھی۔

آپ پر حجت قائم کرنے کے لیے وہی حدیثیں کافی ہیں جنھیں ہم نے گزشتہ اوراق میں خود آپ کے صحاح سے بیان کیا ہے۔

رہ گیا یہ کہ ان نصوص کو اہل سنت نے کیوں نہیں ذکر کیا تو اسے آپ کیا پوچھتے ہیں۔ یہ تو آل محمد(ص) سے پر خاش اور ان کی طرف سے دل میں کینہ رکھنے والے دورِ اول کےارباب تسلط و اقتدار کی پرانی عادت ہے۔ جنھوں نے فضائل اہلبیت(ع) پر پردہ ڈالنے اور ان کے نور کو بجھانے کے لیے کوئی کوشش اٹھا نہ رکھی۔ سلطنت کے خزانے لٹا دیے، اپنی تونائیاں صرف کردیں اور ہر ہر شخص کو لالچ دے کر، ڈرا دھمکا کر آیا وہ کیا کہ اہل بیت(ع) کے مناقب و فضائل مخصوص کو چھپائے، جھتلائے۔ اس مقصد کے لیے درہم و دینار سے کام لیا گیا۔ بڑے بڑے وظیفے مقرر کیے گئے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا اور جو ان ترکیبوں سے قابو میں نہیں آیا اسے کوڑوں تلواروں سے زیر کیا گیا۔

یہ فرعون خصلت ، نمرود سرشت افراد فضائل اہلبیت(ع) کی تکذیب کرنے والوں کو تو قربت بخشے، مقرب بارگاہ بناتے اور تصدیق کرنے والوں کو گھر سے بے گھر کرتے۔ جلا وطن کرتے، ان کے مال و اسباب کو لوٹ لیتے یا قتل کر دیتے۔

۳۶۸

آپ سے یہ حقیقت مخفی نہ ہوگی کہ امامت و خلافت کے متعلق نصوص و ارشادات پیغمبر(ص) ایسی چیز تھی جس سے غاصب و ظالم سلاطین بے حد خطرہ محسوس کرتے تھے۔ ہر وقت انھیں خدشہ رہتا تھا کہ یہ حدیثیں کہیں ہمارا تختہ نہ الٹ دیں۔ بنیاد سلطنت ن ڈھادیں لہذا ان صریحی نصوص و احادیث کا ان سلاطین جور اور ان کے ہوا خواہوں سے بچ رہنا اور متعدد اسناد و طرق مختلف سے ہم تک پہنچ جانا راستی و سچائی کا ایک کرشمہ اور حق و صداقت کا بہت بڑا معجزہ ہے کیونکہ اس وقت کی حالت یہ تھی کہ جو لوگ حقوق اہلبیت(ع) کا غصب کیے بیٹھے تھے اور ان کے مدارج و مراتب کے چھینے ہوئے تھے جس پر خداوندِ عالم نے ان اہلبیت علیہم السلام کو فائز کیا تھا۔ ان کا وتیرہ یہ تھا کہ محبت اہلیت(ع) کا جس پر الزام قائم ہو جاتا اسے درناک و بدترین عذاب میں مبتلا کرتے، اس کی ڈاڑھی مونڈ دیتے اور بازاروں میں تشہیر کرتے تھے۔ اسے ذلیل وخوار کرتے اور جملہ حقوق سے محروم کردیتے ۔ یہاں تک کہ اس کے لیے حکام کی عدالت کا دروازہ(۱) بھی بند ہوجاتا اور سماج میں رسائی بھی  ناممکن ہوجاتی  اگر کوئی شخص اچھائی کے ساتھ علی(ع) کا ذکر کرتا تو حکومت اس سے بری الذمہ ہوجاتی۔ آفتیں اس پر ٹوٹ پڑتیں۔ اس کا مال آپس میں

بانٹ لیا جاتا اور اس کی گردن مار دی جاتی۔ نہ معلوم کتنی زبانیں انھوں نے گدیوں سے کھینچ لیں۔ محض اس جرم میں کہ انھوں نے فضائل علی(ع) بیان کیے ۔ کتنی آنکھیں ضائع

--------------

۱ـ ملاحظہ فرمائیے شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ ۱۵ علامہ ابن ابی الحدید معتزلی نے ایک مختصر سا تذکرہ ان مظالم کا کیا ہے جو دورِ اموی و عباسی میں اہل بیت(ع) و شیعیان اہلبیت پر روا رکھے جاتے تھے

۳۶۹

 کردیں اس قصور میں کہ علی(ع) کو احترام کی نظروں سے دیکھا ، کتنے ہاتھ کاٹ ڈالے اس پاداش میں کہ علی(ع) کی کسی فضیلت و منقبت کی طرف اشارہ کیا۔ کتنے پیر گھسیٹے گئے۔ اس خطا پر کہ وہ علی(ع) کی طرف چلے تھے ۔ علی(ع) کے دوستوں کے نہ جانے کتنے گھر جلا ڈالے گئے ۔ ان کے باغ اور کھیتیاں لوٹ لی گئیں اور درختوں پر انھیں سولی بھی دے دی گئی یا ان کو گھر سے بے گھر کر کے نکال باہر کیا گیا۔ نا معلوم طریقوں سے ایذا پہنچائی گئی۔

اس وقت حاملین حدیث و حافظین آثار کی ایک بہت بڑی جماعت ایسی تھی جو خدا کو چھوڑ کر ان جابر بادشاہوں اور ان کے افسروں کی پرستش کرتے تھے۔ ان کی خوشامد اور چاپلوسی میں کسی بات سے دریغ نہ کرتے تھے۔ حدیثوں میں الٹ پھیر کردینا۔ عبارت کچھ سے کچھ کردینا۔ ضعیف کو قوی اور قوی کو ضعیف کر کے پیش کرنے میں انھیں کوئی باک ہی نہ تھا جیسے ہم آجکل اپنے زمانے میں حکومت کے پٹھو اور تنخواہ دار علماء اور قاضیوں کو دیکھتے ہیں کہ حکام کو راضی کرنے کے لیے کتنی انتھک کوشیشیں کرتے ہیں ان کی حکومت چاہیے عادل ہو یا جابر، احکام ان کے صحیح ہوں یا غلط ، مگر ہر معاملہ میں ان کی تائید ہی کریں گے ۔ حاکم کو جب بھی اپنے حاکم کی موافقت میں یا حکومت کے مخالف افراد کا قلع  قمع کرنے کے لیے فتوی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ علماء فورا ایسے فتوے صادر کردیتے ہیں جو ان حکام کی خواہش کے عین مطابق اور ان کی سیاسی اغراض کے لیے مفید و ضروری ہوتے ہیں۔ چاہیے ان کے فتوے قرآن و حدیث کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کے فتوے کی وجہ سے اجماع امت۔ شکست و ریخت ہی کیوں نہ ہوجائے ۔ اجماع کی صریحی مخالفت ہی کیوں نہ ہوتی ہو۔ لیکن انھیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی ۔انھیں تو

۳۷۰

غرض ہوتی ہے منصب و عہدہ کی۔ ڈرتے ہیں کہ کہیں حکام ناراض ہوکر معزول نہ کر دیں۔ یا یہ لالچ ہوتا ہے کہ خوش ہو کر ہمیں منصب عطا کر دیں گے۔

آج کل کے علماء اور اس زمانے کے علماء میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آج کل کے علماء حکومت کی نگاہ میں کوئی وزن نہیں رکھتے لیکن اس زمانہ کے علماء کی حالت جداگانہ تھی۔ سلاطین خود ان کے محتاج ہوا کرتے تھے کیونکہ اس وقت کے سلاطین علماء کو آلہ ء کار بنا کر گویا خدا و رسول(ص) سے جنگ کرتے تھے۔

اسی وجہ سے یہ علماء سلاطین اور ان کے اعلیٰ عہداروں کے نزدیک  بڑی قدر و منزلت رکھتے تھے اور ہر فرمائش ان کی پوری کی جاتی تھی جس کے نتیجہ میں یہ خود شاہانہ جاہ و جلال اور دولت و امارت کے مالک ہوتے ان کی یہ حالت تھی کہ وہ صحیح حدیثیں جس میں علی(ع) یا اہل بیت(ع) کی کوئی فضیلت مذکور ہوتی ان میں تعصب سے کام لیتے۔ بڑی سختی سے ان کی تردید کرتے پایہء اعتبار سے گرانے میں پوری طاقت سے کام لیتے۔ اس حدیث کے راویوں  کو رافضی قرار دیتے۔( اور رافضی ہونا ان کے نزدیک بدترین جرم تھا۔)

نہ  ان کا طرز عمل ان تمام احادیث کے متعلق تھا جو حضرت علی(ع) کی شان میں وارد ہوئی ہیں خصوصا وہ حدیثیں جن سے شیعیان علی(ع) تمسک کرتے ۔ ان حدیثوں سے تو اور بھی کد تھی انھیں۔

ان علماء کے کچھ ممتاز و با اثر افراد ہر قریہ و ہر شہر میں ہوتے جو ان کا پرپیگنڈا کیا کرتے ۔کچھ دنیا دار طلبا ہوتے جو ان کے فتاوے ان کے اقوال و آراء کی ترویج کرتے۔

۳۷۱

کچھ ریا کار عابد و زاہد ہوتے کچھ رؤسائے قوم، شیوخ قبائل ہوتے ۔ جب یہ اشخاص ان صحیح احادیث کی رد میں ان علماء کے اقوال سنتے تو انھیں کو حجت بنا لیتے اور عوام جاہل پبلک میں خوب ان  اقوال کی ترویج کرتے اور ہر شہر میں اس کی اشاعت کرتے اور اصول دین میں ایک اصل بنادیتے۔

اسی زمانہ اور اسی مقام پر کچھ ایسے علماء احادیث بھی تھے جنھوں نے خوف و ہراس سے مجبور ہوکر وہ حدیثیں ہی بیان کرنا چھوڑ دیں جو امیرالمومنین(ع) اور اہل بیت(ع) کے فضائل میں پائی جاتی تھیں۔ ان غریبوں کی حالت یہ تھی کہ جب ان سے پوچھا جاتا تھا کہ یہ لوگ جو علی(ع) و اہل بیت(ع) کی شان میں وارد صحیح حدیث کی رد کررہے ہیں آپ کا کیا خیال ہے ان کے متعلق ۔ ان احادیث کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ تو وہ ڈرتے تھے کہ اگر صحیح بات کہہ دیتے ہیں تو آفت نہ ٹوٹ پڑے، مجبورا وہ حقیقت ظاہر نہ کر پاتے اور نجات اسی میں دیکھتے کہ معارض اقوال بیان کردیے جائیں۔ اس ڈر سے کہ کہیں یہ سرکاری علماء درپے ایذا رسانی نہ ہوجائیں۔

سلاطین اور ان کے عہدیداروں نے حکم دے رکھا تھا کہ امیرالمومنین(ع) پر لعنت کریں۔ اس بارے میں بڑی سختی سے کام لیتے ۔ علی(ع) کی برائی اور مذمت کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعہ سے لوگوں کو آمادہ کرتے۔ مال و دولت دے کر ، طرح طرح کے وعدے کر کے ، ڈرا دھمکا کر اور ان سب سے بھی قابو نہ پاتے تو  فوج کشی کر کے اپنے مکتوبات میں امیرالمومنین(ع) کی ایسی تصویر کشی کرتے جسے پڑھ کر ہر شخص نفرت و بیزاری کرنے لگے۔

مجلسوں میں امیرالمومنین(ع) کے متعلق ایسی باتیں بیان کرتے کہ کانوں کو ان کے تذکرے سے اذیت ہونے لگے۔ مبزوں پر لعنت بھیجنا ، عیدین اور جمعہ کے

۳۷۲

 سنن و مستحبات میں سے قرار دے لیا تھا۔

اگر یہ حقیقت نہ ہوتی کہ

                             نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

                             پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

خدا کا نور نہ بجھتا ہے اور نہ اولیاء خدا کے فضائل مخفی رہتے ہیں۔ تو امیرالمومنین(ع) کی خلافت و امامت اور فضائل کے متعلق کوئی صحیح و صریح حدیث ہم تک پہنچتی ہی نہیں، نہ بطریق اہل سنت، نہ بطریق شیعہ۔ اہل سنت بھلا کا ہے کو اسی حدیث بیان کرنے لگے جو ان کی ساختہ عمارت ہی کو متزلزل کردے اور شیعہ گلے پر چھری اور دہنوں پر قفل لگے ہونے کی وجہ سے بیان کرنے ہی سے مجبور تھے۔

مگر خدا کا یہ کرشمہ ہے، حقانیت و صداقت کا معجزہ ہے۔ باوجودیکہ دشمنوں نے فضائل کو چھپانے اور مٹانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا، مگر حق کا بول بالا ہو کے رہا۔ مجھے تو قسم بخدا حیرت ہے کہ خلاقِ عالم نے بندہ خاص اپنے رسول(ص) کے بھائی علی بن ابی طالب(ع) کو کیا فضیلت بخشی تھی کہ لاکھوں پردوں میں سے بھی جس کی روشنی پھوٹ کر رہی ، گہری تاریکیوں میں بھی جس کا اجالا ہوکے رہا۔

امیرالمومنین(ع) کی خلافت و امامت کے متعلق جو قطعی دلیلیں آپ نے سماعت  فرمائیں۔ مزید برآں آپ حدیث وراثت ہی کو لے لیجیے جو بجائے خود بہت بڑی دلیل ہے۔

                                                                     ش

۳۷۳

مکتوب نمبر۳۳

حدیث وراثت کو بطریق اہل سنت تحریر فرمائیے؟

                                             س

  جوابِ مکتوب

علی(ع) وارثِ پیغمبرصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم

کوئی شبہ نہیں کہ آںحضرت(ص) نے حضرت علی(ع) کو اپنے علم و حکمت کا اسی طرح وارث بنایا جس طرح دیگر انبیاء کرام نے اپنے اوصیاء کو بنایا۔ چنانچہ خود آںحضرت (ص) کے ارشادات ہیں :

۳۷۴

“ أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا- فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ.”

 “میں شہر علم ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ۔ جو علم کا طلبگار ہو وہ دروازے سے آئے۔”(۱)

“ أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا.”

“ میں حکمت کا گھر ہوں اورعلی(ع) اس کا دروازہ ۔”

“  عَلِيٌّ بَابُ‏ عِلْمِي‏ وَ مُبَيِّنٌ لِأُمَّتِي مَا أُرْسِلْتُ بِهِ مِنْ بَعْدِي حُبُّهُ إِيمَانٌ وَ بُغْضُهُ نِفَاقٌ ”

“ علی میرے علم کا دروازہ ہیں اور میں جن چیزوں کولے کر مبعوث ہوا، میرے بعد میری امت سے ان چیزوں کو علی(ع) ہی بیان کرنے والے ہیں، ان کی محبت ایمان اور ان کی دشمنی نفاق ہے۔”

زید بن ابی اوفیٰ کی حدیث میں ہے۔(۲) :

“  وَ أَنْتَ‏ أَخِي‏ وَ وَارِثِي قَالَ وَ مَا أَرِثُ مِنْكَ ؟ قَالَ مَا وَرَّثَتِ الْأَنْبِيَاءُ مِنْ قَبْلِي ”

“ پیغمبر(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا : تم میرے بھائی ہو، تمھیں

--------------

۱ـ اس حدیث کو نیز اس کے بعد کی دو حدیثوں کو ہم م ۲۴ میں درج کر چکے ہیں۔ نیز صفحہ ۲۸۲ کی حدیث نمبر۹ ، ۱۰، ۱۱ بھی ملحوظ رہے اور وہاں جو ہم ن حاشیہ لکھا ہے اس کا بھی خیال رہے

۲ـ ہم اس حدیث کا م۱۶ پر ذکر کرچکے ہیں۔

۳۷۵

 میرے وارث ہو۔ امیرالمومنین(ع) نے پوچھا : میں آپ کی کس چیز کا وارث ہوں؟ فرمایا  : مجھ سے پیشتر کے انبیاء نے اپنے اوصیاء کو جن چیزوں کا وارث بنایا انھیں چیزون کے تم بھی وارث ہوگے۔”

بریدہ کی حدیث میں صاف صاف تصریح ہے کہ وارث پیغمبر(ص) علی(ع) ہی ہیں۔(۱)

دعوتِ عشیرہ کے موقع پر جو کچھ رسول(ص) نے فرمایا تھا اسی پر غور کیجیے وہی آپ کی تسلی کے لیے کافی ہوگا۔ اسی وجہ سے حضرت علی(ع) رسول(ص) کی زندگی میں فرمایا کرتے تھے کہ:

“ قسم بخدا میں رسول(ص) کا بھائی ہوں، ان کا ولیعہد ہوں، ان کے چچا کا بیٹا ہوں، ان کے علم کا وارث ہوں، لہذا مجھ سے زیادہ حقدار کون ہوسکتا ہے؟”(۲)

ایک مرتبہ امیرالمومنین(ع) سے پوچھا گیا کہ چچا کے رہتے ہوئے آپ رسول(ص) کے وارث کیونکر ہوگئے؟ آپ نے فرمایا کہ :

“ آںحضرت (ص) نے کل اولاد عبدالمطلب کو جمع کیا جو گروہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ سب کے سب پر خور و پر نوش تھے، آںحضرت(ص) نے ۱۳ چھٹانک وزن کے کھانے سے ان کی دعوت کی سب

--------------

۱ـ اس کو م ۲۴ میں ملاحظہ فرمائیے

۲ـ یہ کلمہ بعینہ انھیں الفاظ میں امیرالمومنین(ع) سے ثابت ہے جسے امام حاکم نے مستدرک ج۲ صفحہ۱۲ صحیح اسناد سے ذکر کیا ہے اور بخاری و مسلم دونوں کے معیار پر صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔

۳۷۶

 نے کھایا اور پیٹ بھر کر کھایا اور کھانا اسی طرح بچ رہا جس طرح تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے کچھ چھوا ہی نہیں۔ آںحضرت(ص) نے کھانے سے فراغت کے بعد ارشاد فرمایا : “ اے فرزندان عبدالمطلب ! میں خاص کر تمھاری طرف اور عام طور پر لوگوں پر مبعوث ہوا ہوں، لہذا تم میں کون اس شرط پر میری بیعت کرتا ہے کہ وہ میرا بھائی ہو، میرا ساتھی ہو، میرا وارث بنے۔” رسول(ص) کے اس ارشاد کے بعد کوئی بھی نہ کھڑا ہوا۔ میں البتہ کھڑا ہوگیا اگر چہ سب میں چھوٹا تھا۔ رسول(ص) نے مجھ سے کہا : تم بیٹھ جاؤ، پھر تین مرتبہ آپ نے اسی مطلب کا اعادہ فرمایا اور ہر مرتبہ میں کھڑا ہوتا رہا اور آپ بٹھایا کیے ۔ تیسری مرتبہ
جب کوئی کھڑا ہوا تو رسول(ص) نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا اسی وجہ سے میں اپنے چچا کے بیٹے ( حضرت رسول خدا(ص)) کا وارث ہوا اور چچا وارث نہ ہوسکے۔”(۱)

امام حاکم نے مستدرک ج ۳ صفحہ ۱۳۵ پر ایک روایت در ؟؟ اور علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اسے نقل کیا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کو صحت کا قطع و یقین ہے۔ اس حدیث میں ہے کہ قثم بن عباس

--------------

۱ـ یہ حدیث ثابت و مشہور ہے۔ ضیا مقدسی نے مختارہ میں ابن جریر نے تہذیب ؟؟؟ کیا ہے کنزالعمال جلد۶ ص۴۰۸ پر بھی موجود  ہے۔ امام نسائی نے خصائص ؟؟ ہے ابن ابی الحدید نے اپنی شرح جلد۳ ص۲۵۵ پر طبری نے بھی اس کو ؟؟ مسند احمد ج۱ ص۱۵۹ پر ملتے جلتے لفظوں میں یہ حدیث موجود ہے۔

۳۷۷

 نے پوچھا ؟

“ آپ لوگوں کے رہتے ہوئے علی(ع) کے وارث کیسے بن گیے؟”

قثم نے جواب دیا :

“ اس لیے کہ وہ ہم میں سب سے پہلے اسلام لائے اور سب سے زیادہ رسول(ص) سے وابستہ و پیوستہ رہے۔”(۱)
 میں کہتا ہوں کہ تمام لوگ یہی جانتے ہیں کہ رسول(ص) کے وارث علی(ع) ہی ہیں۔ عباس یا دیگر بنی ہاشم رسول(ص) کے وارث نہیں۔ یہ بات اتنی آشکارا تھی کہ اسے بطور مسلمات ذکر کیا کرتے لیکن ان لوگوں کو اس کا سبب معلوم نہیں تھا کہ چچا کے ہوتے ہوئے علی(ع) جو چچا زاد بھائی تھے وہ کیونکر وارثِ رسول ہوگئے۔ اسی وجہ سے ان لوگوں نے کبھی خود حضرت علی(ع) سے اس کی وضاحت چاہی کبھی قثم سے پوچھا اور ان دونوں بزرگواروں نے جو جواب دیا وہ آپ سن چکے ۔ یہ جواب ان لوگوں کی عقل

و فہم کو دیکھتے ہوئے بہت ، مناسب جواب ہے اور ان کو سمجھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ یہی جواب دیا جاسکتا ہے ورنہ واقعی  وحقیقی جواب تو یہ ہے کہ خداوند عالم نے روئے زمین کے باشندوں پر ایک نظر ڈال کر محمد مصطفی(ص) کو منتخب کیا اور انھیں خاتم النبیین(ص) بنایا۔ پھر دوسری مرتبہ زمین پر نگاہ کی اور حضرت علی(ع) کو منتخب کیا اور اپنے رسول(ص) پر وحی فرمائی کہ علی(ع) کو اپنا وارث اور وصی مقرر کردیں۔

--------------

۱-۔۔۔۔۔۔۔

۳۷۸

امام حاکم مستدرک ج۳ صفحہ۱۲۵ پر قثم والی اس حدیث کو جسے ابھی ابھی آپ نے سنا ۔ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

“ مجھ سے قاضی القضاة ابو الحسن محمد بن صاع ہاشمی نے بیان کیا ، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابو عمرو وقاص سے سنا ، انھوں نے اسماعیل بن اسحاق قاضی سے سنا ۔ اسمعیل بن اسحاق سے قثم بن عباس کے اس قول کا ذکر آیا تو انھوں نے فرمایا : وارث یا تو نسب کی وجہ سے وارث ہوتا ہے یا ولا کی وجہ سے اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ چچا کی موجودگی میں چچا زاد بھائی وارث نہیں ہوسکتا ۔”

اسماعیل بن اسحاق فرماتے ہیں کہ :

 “ اس اتفاق و اجماع کی وجہ سے ظاہر ہوا کہ علی(ع) رسول(ص) کے علم کے وارث ہوئے ان کے سوا اور کوئی وارث نہیں ہوا۔”

میں کہتا ہوں کہ وراثتِ امیرالمومنین(ع) کے متعلق متواتر حدیثیں موجود ہیں۔ خصوصا بطریق اہلبیت(ع) تو بہت ہی زیادہ ۔اگر اںصاف سے کام لیا جائے تو حضرت علی(ع) کا وصی رسول(ص) ہونا ہی اس مسئلہ میں قطعی فیصلہ کن ہے۔

ش

۳۷۹

مکتوب نمبر۳۴

بحثِ وصیت

ہم اہلسنت کو معلوم نہیں کہ رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو کب وصی بنایا، نہ اس کےمتعلق ارشادات و تصریحات پیغمبر(ص) کا علم ہے مہربانی ہوگی اس کی وضاحت فرمائیے۔

                                                                     س

جوابِ مکتوب

امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کے

 متعلق پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات

امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کے متعلق اہل بیت (ع) سے صریحی

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639