دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)9%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272397 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

رہے ہیں کہ آپ اپنے بیٹے کی بات سنین اور ان کی اطاعت کریں۔”

پیغمبر(ص) کی اس نص کا تذکرہ کن کن کتابوں میں موجود ہے

پیغمبر(ص) کے اس خطبہ کو بعینہ انہی الفاظ میں اکثر علمائے کبار و اجلہ محدثین نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ جیسے ان اسحاق ، ابن جریر، ابنِ ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابونعیم  اور امام بیہقی نے اپنے سنن اور دلائل دونوں مٰیں ثعلبی اور طبری نے اپنی اپنی عظیم الشان تفسیروں میں سورہ شعراء کی تفسیر کے ذیل میں نیز علامہ طبری نے اپنی تاریخ طبری کی دوسری جلد صفحہ217 میں بھی مختلف طریقوں سے اس کو لکھا ہے اور علامہ ابن اثیر جزری نے تاریخ کامل کی دوسری جلد صفحہ22 میں بطور مسلمات ذکر کیا ہے۔

مورخ ابو الفداء نے اپنی تاریخ کی پہلی جلد صفحہ116 میں سب سے پہلے اسلام لانے والے کے ذکر میں درج کیا ہے۔ امام ابوجعفر اسکافی معتزلی نے اپنی کتاب نقض عثمانیہ میں اس حدیث کی صحت کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے( شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ263) علامہ حلبی نے آںحضرت(ص) اور اصحاب کے دار ارقم میں روپوش ہونے کے واقعہ کے ضمن میں بیان کیا ہے(1)   (سیرت حلبیہ ج، صفحہ381) ان کے علاوہ تھوڑے بہت لفظی تغیر کےساتھ مگر مفہوم و معنی

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ 381 جلد اول سیرة حلبیہ۔ ابن تیمیہ نے اس حدیث کو جھٹلانے اور غلط ثابت کرنے کی جو کوششیں کی ہیں۔ اپنی مشہور عصبیت کی وجہ سے وہ در خور اعتنا نہیں اس حدیث کو مصر کے سوشلسٹ ادیب محمد حسین ہیکل نے بھی لکھا ہے ملاحظہ فرمائیے ان کے رسالہ سیاست شمارہ نمبر2751 صفحہ 5 جپر عمود ثانی جو 12 ذیقعد سنہ1350ھ میں شائع ہوا۔ انھوں نے کافی تفصیل سے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور شمارہ نمبر2685 صفحہ 6 پر عمود رابع میں انھوں نے اس حدیث کو صحیح مسلم، مسند امام احمد اور عبداﷲ بن احمد کی زیارات مسند اور ابن حجر ہیثمی کی جمع الفوائد، ابن قتیبہ کی عیون الاخبار، احمد بن عبدربہ قرطبی کی عقد الفرید، علامہ جاحظ کے رسالہ بنی ہاشم، امام ثعلبی کی تفسیر ، مذکورہ بالا تمام کتب سے نقل کیا ہے۔ مزید برآں جرجس انکلیزی سے اپنی کتاب مقالہ فی الاسلام مٰیں بھی اس حدیث کو درج کیا ہے جس کا بروتستانت کے ملحد نےعربی میں ترجمہ کیا ہے جس نے اپنا نام ہاشم عربی رکھا ہے۔ اس حدیث کی ہمہ گیر شہرت کی وجہ سے متعدد مورخین فرنگ نے فرانسیسی ، جرمنی، انگریزی تاریخوں میں اس کو ذکر کیا ہے اور ٹامنس کارلائل نے اپنی کتاب ابطال میں مختصر کر کے لکھا ہے۔

۱۶۱

کے لحاظ سے بالکل ایک ہی مضمون ۔ بہتیرے اعیان اہل سنت اور ائمہ احادیث نے اپنی اپنی کتابوں میں اس واقعہ کو تحریر کیا ہے جیسے علامہ طحاوی اور ضیاء مقدسی نے مختارہ ،سعید بن منصور نے سنن میں تحریر کیا ہے۔

سب سے قطع نظر امام احمد نے اپنی مسند جلد اول صفحہ 159 پر حضرت علی (ع) سے روایت کی ہے ۔ پھر اسی جلد کے صفحہ331 پر ابن عباس سے بڑی عظیم الشان حدیث اس مضمون کی روایت کی ہے، جس میں حضرت علی(ع) کی دس ایسی خصوصیتیں مذکور ہیں جن کی وجہ سے حضرت علی(ع) اپنے تمام ماسوا سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ اسی جلیل الشان حدیث کو امام نسائی نے بھی اپنی کتاب خصائص صفحہ 60پر ابن عباس سے روایت کر کے لکھا ہے اور امام حاکم نے صحیح مستدرک

۱۶۲

 جلد3 صفحہ 132 پر اور علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔

کنزالعمال جلد6 ملاحظہ فرمائیے(1) ۔ اس میں بھی یہ واقعہ بہت تفصیل سے موجود ہے۔ منتخب کنزالعمال کو دیکھیے جو مسند احمد بن حنبل کے حاشیہ پر طبع ہوا ہے۔ حاشیہ مسند جلد5 صفحہ 41 تا صفحہ42 پر اس واقعہ کا ذکر موجود ہے اور پوری تفصیل کے ساتھ۔

میرے خیال میں یہی ایک واقعہ جسے تمام علماء محدثین ومورخین بالاتفاق اپنی کتابوں میں لکھتے آئے ہیں حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت کا بین ثبوت اور صریحی دلیل ہے۔ کسی دوسری دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔

                                                                     ش

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال صفحہ 392 حدیث نمبر6008 جو ابن جریر سے منقول ہے صفحہ 396 پر حدیث 6045 جو امام احمد کی مسند نیز ضیاء مقدسی کی مختارہ ، طحاوی و ابن جریر کی صحیح سے منقول ہے صفحہ 397 پر حدیث 6056 جو ابن اسحق ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، اور ابو نعیم نیز بیہقی کی شعب الایمان اور دلائل سے منقول ہے صفحہ 401 پر حدیث 6102 جو ابن مردویہ سے منقول ہے صفحہ 408 پر حدیث 6155 جو امام احمد کی مسند اور ابن جریر اور صیاء مقدسی کی مختارہ سے منقول ہے۔ کنزالعمال میں یہ حدیث اور بھی مقامات پر مذکور ہے۔ شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 255 پر یہ طولانی حدیث بہت تفصیل سے مذکور ہے۔

۱۶۳

مکتوب نمبر11

حدیث مذکورہ بالا کی سند میں تردد

تسلیم زاکیات!

آپ کا مخالف اس حدیث کی سند کو معتبر نہیں سمجھتا نہ کسی طرح اس حدیث کو صحیح سمجھنے پر تیار ہے کیونکہ شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اس حدیث کو نہیں لکھا۔ نیز شیخین کے علاوہ دیگر اصحاب صحاح نے بھی نہیں لکھا ۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ یہ حدیث معتبر و معتمد راویاں اہلسنت سے مروی ہی نہیں ہوئی اور غالبا آپ بھی بطریق اہل سنت اسے صحیح نہ سمجھتے ہوں گے۔

                                                             س

۱۶۴

جواب مکتوب

نص کا ثبوت

اگر میرے نزدیک اس حدیث کی صحت خود بطریق اہلسنت ثابت نہ ہوتی تو میں اس محل پر اس کا ذکر ہی نہیں  کرتا۔ مزید برآں اس حدیث کی صحت تو ایسی اظہر من الشمس ہے کہ ابن جریر اور امام ابو جعفر اسکافی نے اس حدیث کو بطور مسلمات ذکر کیا ہے(1) ۔ اور کبار محققین اہل سنت نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث کی صحت کا مختصرا آپ اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ اصحاب صحاح جن ثقہ اور معتبر راویوں کی روایتوں سے استدلال کرتے ہیں اور آنکھ بند کرکے بڑی خوشی سے جن کی روایتوں کو لے لیتے ہیں انھیں معتبر و ثقہ راویوں کے طریقوں سے اس حدیث کی صحت ثابت ہے۔ اس حدیث کی روایت انھیں معتبر و موثق اشخاص نے کی ہے جن کی روایت کردہ حدیثیں صحاح میں موجود ہیں۔

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال جلد6 صفحہ 396 پر حدیث 6045 جہاں آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن جریر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ حاشیہ مسند احمد حنبل جلد5 صفحہ73 پر منتخب کنزالعمال میں بھی آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن جریر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام ابو جعفر اسکافی نے تو اس حدیث کو بڑی پختگی کے ساتھ صحیح قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ان کی کتاب نقض عثمانیہ شرح نہج البلاغہ جلد3، صفحہ363

۱۶۵

مسند احمد بن حنبل جلد اول صفحہ 111 ملاحظہ کیجیے۔ انھوں نے اس حدیث کو(1) اسود بن عامر سے انھوں نے شریک(2) سے انھوں نے اعمش(3) سے انھوں نے منہال(4) سے انھوں نے عباد(5) بن عبداﷲ اسدی سے انھوں نے حضرت علی(ع) سے مرفوعا روایت کرکے لکھا ہے۔ اس سلسلہ اسناد کے کل کے کل راوی مخالف

--------------

1 ـ امام بخاری و مسلم دونوں نے اس کی حدیث سے احتجاج کیا ہے ۔ شعبہ نے امام بخاری و امام مسلم دونوں کی صحت میں اسود سے روایت کر کے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا اور عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے امام بخاری کو ان سے روایت کرتے ہوئے اور زہیر بن معاویہ اور حماد بن سلمہ نے امام مسلم کو ان سے روایت کرتے ہوئے سنا۔ صحیح بخاری میں محمد بن حاتم بزیع کی ان سے روایت کی ہوئی حدیث موجود ہے اور صحیح مسلم میں ہارون بن عبداﷲ اور ناقد اور ابن ابی شیبہ اور ابو زہیر کی ان سے روایت کردہ حدیثیں موجود ہیں۔

2 ـ امام مسلم نے ان حدیثوں سے اپنے صحیح مسلم میں احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم نے صفحہ134 رپ ان کا تذکرہ کے ضمن میں وضاحت کی ہے۔

3 ـ ان سے امام بخاری و مسلم دونوں نے اپنے اپنے صحیح میں احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم نے صفحہ134 پر وضاحت کی ہے۔

4ـ امام بخاری نے ان سے احتجاج کیا ہے ملاحظہ ہو صفحہ166۔

5 ـ ان کا سلسلہ نسب یہ ہے عباد بن عبداﷲ بن زہیر بن عوام قرشی اسدی۔ ان سے بخاری و مسلم دونوں نے اپنے اپنے صحیح میں احتجاج کیا ہے۔ انھوں نے ابوبکر کی دونوں صاحبزادیوں عائشہ اور اسماء سے حدیثیں سنیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان سے ابی ملیکہ اور محمد بن جعفر بن زہیر اور ہشام و عروہ کی روایت کردہ حدیثیں موجود ہیں۔

۱۶۶

کے نزدیک حجہ ہیں اور یہ تمام کے تمام رجال صحابہ ہیں۔ چنانچہ علامہ قیسرانی نے اپنی کتاب الجمع بین رجال الصحیحین  میں ان کا ذکر کیا ہے۔ لہذا اس حدیث کو صحیح ماننے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ حدیث صرف اسی طریقہ وسلسلہ اسناد سے نہیں بلکہ اور بھی ب شمار طریقوں سے مروی ہے اور ہر طریقہ دوسرے طریقہ کا موید ہے۔

نص سے کیوں اعراض کیا؟

اور شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اس لیے اس روایت کو اپنی کتاب میں  جگہ نہیں دی کہ یہ روایت مسئلہ خلافت میں ان کی ہمنوائی نہیں کرتی تھی ان ک منشاء کے خلاف تھی اسی وجہ سے انھوں نے اس حدیث نیز دیگر بہتیری ایسی حدیثوں سے جو امیر المومنین(ع) کی خلافت پر صریحی ںص تھیں گریز کیا اور اپنی کتاب میں درج نہ کیا۔ وہ ڈرتے تھے کہ یہ شیعوں کے لیے اسلحہ کا کام دیں گی لہذا انھوں نے جان بوجھ کر اس کو پوشیدہ رکھا۔

بخاری و مسلم ہی نہیں بلکہ بہتیرے شیوخ اہل سنت کا وتیرہ یہی تھا۔ اس قسم کی ہر چیز کو وہ چھپانا ہی بہتر سمجھتے تھے۔ ان کا یہ کتمان کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ ان کی یہ پرانی اور مشہور عادت ہے چنانچہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں علماء سے نقل بھی کیا ہے، امام بخاری نے بھی اس مطلب میں ایک خاص باب قرار دیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری(1) حصہ اول کے کتاب العلم میں انھوں نے یہ عنوان قائم کیا ہے :

             “باب من خص بالعلم قوما دون قوم ۔”

--------------

1 ـ صفحہ51۔

۱۶۷

             “ باب بیان میں اس کےجو ایک قوم کو مخصوص کر کے علم تعلیم کرے اور دوسرے کو نہیں۔”

امیرالمومنین(ع) کےمتعلق امام بخاری کو روش اور آپ کے ساتھ نیز جملہ اہل بیت(ع) کے ساتھ ان کے سلوک سے جو واقف ہے اور یہ جانتا ہے کہ ان کا قلم امیرالمومنین (ع) واہل بیت(ع) کی شان میں ارشادات و نصوص پیغمبر(ص) کے بیان سے گریزاں رہتا ہے اور ان کے خصائص و فضائل بیان کرتے وقت ان کے دوات کی روشنائی خشک ہوجاتی ہے۔ اس لیے امام بخاری کی اس حدیث یا اس جیسی دیگر حدیثوں کے ذکر نہ کرنے پر تعجب نہ ہونا چاہیے۔

                                                                     ش

۱۶۸

مکتوب نمبر12

حدیث کی صحت کا اقرار

چونکہ دعوت عشیرہ والی حدیث حدِ تواتر کو نہیں پہنچتی اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مخصوص قسم کی خلافت ثابت ہوتی ہے۔

آپ کے ارشاد کے بموجب میں نے مسند احمد بن حنبل جلد اول کے صفحہ 111 پر اس حدیث کو دیکھا جن رجال سے یہ حدیث مروی ہے ان کی چھان بین کی۔ آپ کے کہنے کےمطابق وہ سب کے سب ثقات اہل سنت نکلے ۔ پھر میں نے اس حدیث کے دوسرے تمام طریق کو بغائر نظر مطالعہ کیا۔ بے شمار و بے اندازہ طریقے نظر آئے۔ ہر طریقہ دوسرے طریقہ کا موئد ہے۔ مجھے ماننا پڑا کہ یقینا یہ

۱۶۹

 حدیث پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس کے ثابت و مسلم ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

البتہ ایک بات ہے آپ لوگ اثبات امامت میں اس حدیث صحیح سے استدلال کرتے ہیں جو متواتر بھی ہو کیونکہ امامت آپ کے نزدیک اصول دین سے ہے اور یہ حدیث جو آپ نے پیش فرمائی ہے اس کے متعلق یہ کہنا غیر ممکن ہے کہ یہ تواتر تک پہنچی ہوئی اور جب حد تواتر تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ تو اس سے آپ لوگ استدلال بھی نہیں کرسکتے ۔

یہ حدیث منسوخ ہوگئی تھی

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث صرف یہ بتاتی ہے کہ حضرت علی(ع) رسول(ص) کے جانشین تو تھے مگر خاص کر اہلبیت (ع) پیغمبر(ص) میں جانشین تھے۔ لہذا تمام مسلمانوں کا خلیفہ ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے ؟ اس حدیث سے خلافت عامہ کہاں ثابت ہوتی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہوگئی تھی اس لیے کہ آںحضرت(ص) نے اس حدیث کے مفاد کی طرف کبھی توجہ نہ کی اسی وجہ سے صحابہ کو خلفاء ثلاثہ کی بیعت میں کوئی مانع نہ نظر آیا۔

                                                             س

جواب مکتوب

اس حدیث سے استدلال کرنے کی وجہ

حضرات اہلسنت امامت کے اثبات میں ہر حدیث صحیح سے استدلال

۱۷۰

 کرتے ہیں خواہ کرتے ہیں خواہ وہ متواتر ہو یا غیر متواتر ۔ لہذا خود حضرات اہلسنت جس چیز کو حجہ سمجھتے ہیں ہم اسی چیز کو ان پر بطور حجت پیش کرتے ہیں۔ جس چیز کو وہ خود مانتے ہیں ہم اسی سے انھیں قائل کرتے ہیں۔

رہ گیا یہ کہ ہم جو اس حدیث سے امامت پر استدلال کرتے ہیں تو اسکی وجہ ظاہر ہے کیونکہ یہ حدیث ہم لوگوں کے طریق سے صرف صحیح ہی نہیں بلکہ حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہے۔

مخصوص خلافت کو کوئی بھی قائل نہیں

یہ دعوی کرنا کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی(ع) خاص کر اہلبیت(ع) میں جانشین پیغمبر(ص) تھے مہمل ہے کیونکہ جو شخص اہل بیت(ع) رسول(ص) میں حضرت علی(ع) کو جانشین رسول(ص) سمجھتا ہے وہ عامہ مسلمین میں بھی جانشین سمجھتا ہے اور جو عامہ مسلمین میں جانشین رسول(ص) نہیں مانتا وہ اہل بیت(ع) میں بھی نہیں مانتا۔ آج تک بس یہ دو ہی قسم کے لوگ نظر آئے۔ آپ نے یہ فرق کہاں سے پیدا کیا جس کا آج تک کوئی قائل نہیں ۔ یہ تو عجیب قسم کا فیصلہ ہے جو اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔

حدیث کا منسوخ ہونا ناممکن ہے

یہ کہنا کہ یہ حدیث منسوخ ہوچکی تھی یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس کا منسوخ ہونا عقلا و شرعا دونوں جہتوں سے محال ہے کیونکہ وقت آنے کے پہلے ہی کسی حکم کا منسوخ ہونا۔ بداہتا باطل ہے۔ اس کے علاوہ اس حدیث کو منسوخ کرنے والی آپ کے خیال کی بنا پر زیادہ سے زیادہ ایک چیز نکلتی ہے اور

۱۷۱

 وہ یہ کہ رسول اﷲ(ص) نے مفادِ حدیث کی طرف پھر توجہ نہ کی، پھر اعادہ نہ کیا۔ مگر یہ بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ رسول(ص) نے مفاد حدیث سے کبھی بے توجہی نہیں کی۔ بلکہ اس حدیث کے ارشاد فرمانے کے بعد بھی وضاحت کرتے رہے۔ کھلے لفظوں میں، بھرے مجمع میں، سفر میں، حضر میں، ہر موقع ہر محل ہر صراحتہ اعلان فرماتے رہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آپ صرف دعوت عشیرہ ہی کے موقع پر حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین فرما کے رہ گئے پھر کبھی اس کی وضاحت نہیں کی تب بھی یہ کیسے معلوم کہ رسول(ص) نے بعد میں مفاد حدیث ؟؟؟؟؟ کیا آگے چل کر آپ کا خیال بدل گیا اپنے قول سے پلٹ گیا۔

“ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَ ما تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَ لَقَدْ جاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدى‏”(نجم، 23)

             “ وہ صرف گمان اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پروردگار کا جانب سے ہدایت آچکی ہے۔”

                                                                     ش

۱۷۲

مکتوب نمبر13

میں نے ان ںصوص کے آستانے پر اپنی پیشانی جھکا دی۔ کچھ اور مزید ثبوت۔ خدا آپ کا بھلا کرے۔

                                                                     س

جوابِ مکتوب

حضرت علی(ع) کی دس(10) ایسی فضیلتیں جس میں کی کوئی ایک بھی کسی دوسرے کو حاصل نہیں اور جس سے آپ(ع) کی خلافت کی صراحت ہورہی ہے۔

دعوت ذوالعشیرہ والی حدیث کے علاوہ یہ دوسری حدیث ملاحظہ ملاحظہ کیجیے جسے امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند کی پہلی جلد صفحہ 330 پر ، امام نسائی نے

۱۷۳

 اپنی کتاب خصائص علویہ کے صفحہ 6 پر ، امام حاکم نے اپنے صحیح مستدرک کی تیسری جلد کے صفحہ 123 پر ، علامہ ذہبی نے اپنی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے نیز دیگر ارباب حدیث نے ایسے طریقوں سے جن کی صحت پر اہل سنت کا اجماع و اتفاق ہے نقل کیا ہے۔

عمروہ بن میمون سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ان کے پاس 9 سرداران قابل آئے۔ انھوں نے ابن عباس سے کہا کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ اٹھ چلیے یا اپنے پاس کے بیٹھے ہوئے لوگوں کو ہٹا کر ہم سے تخلیہ میں گفتگو کیجیے۔

ابن عباس نے کہا ۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ خود ہی چلا چلتا ہوں۔ ابن عباس کی بینائی چشم اس وقت باقی تھی۔ ابن عباس نے ان سے کہا:

                     “ کہیے کیا کہنا ہے؟”

گفتگو ہونے لگی ۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کیا گفتگو ہوئی۔ ابن عباس وہاں سے دامن جھٹکتے ہوئے آئے ۔ کہنے لگے:

             “ وائے ہو۔ یہ لوگ ایسےشخص کے متعلق بدکلامی کرتے ہیں جس کی دس سے زیادہ ایسی فضیلتیں ہیں جو کسی دوسرے  کو نصیب نہیں۔ یہ لوگ بدکلامی کرتے ہیں ایسے شخص کے متعلق جس کے بارے میں رسول(ص) نے فرمایا :

لأبعثنّ رجلا لا يخزيه اللّه أبدا، يحبّ اللّه و رسوله، و يحبّه اللّه و رسوله»، فاستشرف لها من استشرف فقال: «أين عليّ؟»، فجاء و هو أرمد لا يكاد أن يبصر، فنفث في عينيه،

۱۷۴

ثمّ هزّ الراية ثلاثة، فأعطاها إيّاه، فجاء عليّ بصفيّة بنت حيي. قال ابن عباس: ثمّ بعث رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم) فلانا بسورة التوبة، فبعث عليّا خلفه، فأخذها منه، و قال: «لا يذهب بها إلّا رجل منّي و أنا منه»، قال ابن عباس: و قال النبيّ لبني عمّه: «أيّكم يواليني في الدنيا و الآخرة»، قال:- و عليّ جالس معه- فأبوا، فقال عليّ: أنا أوالئك في الدنيا و الآخرة، فقال لعليّ: «أنت وليّي في الدنيا و الآخرة». قال ابن عباس: و كان عليّ أوّل من آمن من الناس بعد خديجة. قال: و أخذ رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم) ثوبه فوضعه على عليّ و فاطمة و حسن و حسين، و قال:إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً . قال: و شرى عليّ نفسه فلبس ثوب النبيّ، ثمّ نام مكانه، و كان المشركون يرمونه [إلى أن قال:] و خرج رسول اللّه في غزوة تبوك، و خرج الناس معه،

۱۷۵

فقال له عليّ: أخرج معك؟ فقال (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «لا»، فبكى عليّ، فقال له رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «أما ترضى أن تكون منّي بمنزلة هارون من موسى إلّا أنّه لا نبي بعدي، إنّه لا ينبغي أن أذهب إلّا و أنت خليفتي». و قال له رسول اللّه: «أنت وليّ كلّ مؤمن بعدي و مؤمنة». قال ابن عباس: و سدّ رسول اللّه أبواب المسجد غير باب عليّ، فكان‌يدخل المسجد جنبا و هو طريقه ليس له طريق غيره، و قال رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «من كنت مولاه فإنّ مولاه عليّ.» الحديث.

“ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جسے خدا کبھی ناکام نہ کرے گا۔ وہ شخص خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہیں۔کس کس کے دل میں اس فضیلت کی تمنا پیدا نہ ہوئی مگر رسول(ص) نے ایک کی تمنا خاک میں ملا دی اور صبح ہوئی تو دریافت فرمایا کہ علی(ع) کہاں ہیں؟ حضرت علی(ع) تشریف لائے حالانکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ دیکھ نہیں پاتے تھے۔ رسول(ص) نے ان کی آنکھیں پھونکیں ، پھر تین مرتبہ علم کو حرکت دی اور حضرت علی(ع) کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ حضرت علی(ع) جنگ فتح کر کے مرحب کو مار کر اور اس کی بہن صفیہ کو لے کر خدمت رسول(ص) میں پہنچے ۔ پھر

۱۷۶

 رسول اﷲ(ص) نے ایک بزرگ کو سورہ توبہ دے کر روانہ کیا۔ ان کے بعد پیچھے فورا ہی حضرت علی(ع) کو روانہ کیا اور حضرت علی(ع) نے راستہ ہی میں ان سے سورہ لے لیا کیونکہ رسول(ص) کا حکم تھا کہ یہ سورہ بس وہی شخص پہنچا سکتا ہے جو مجھ سے ہے اورمیں اس سے ہوں۔ اور رسول(ص) نے اپنے رشتہ داروں، قرابت مندوں سےکہا کہ تم میں کون ایسا ہے جو دنیا و آخرت میں میرا ساتھ دے۔ میرے کام آئے۔ حضرت علی(ع) نے کہا میں اس خدمت کو انجام دوں گا۔ میں دین و دنیا میں آپ کی خدمت کروں گا۔ آپ(ص) نے فرمایا ۔ اے علی(ع) ! دین و دنیا دونوں میں تم ہی میرے ولی ہو۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے حضرت علی(ع) کو بٹھا کے پھر لوگوں سے اپنی بات دہرائی اور پوچھا کہ تم میں کون شخص ہے جو میرا مددگار ہو دنیا میں اور آخرت میں۔ سب نے انکار کیا صرف ایک حضرت علی(ع) ہی تھے جنھوں نے کہا کہ میں آپ کی مدد و نصرت کروں گا دین و دنیا دونوں میں یا رسول اﷲ(ص) رسول اﷲ(ص) نے فرمایا کہ علی(ع) تم ہی میرے ولی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ علی(ع) پہلے وہ شخص ہیں جو جناب خدیجہ کے بعد رسول(ص) پر ایمان لائے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے اپنی ردا لی اور اسے علی(ع) وفاطمہ(س) و حسن(ع) و حسین(ع) کو اوڑھایا اور اس آیت کی تلاوت کی :

۱۷۷

 “ إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً.”

“ اے اہل بیت(ع) ! خدا بس یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر برائی اور گندگی کو اس طرح دور رکھے جیسا کہ دور رکھنا چاہیئے۔”

ابن عباس کہتے ہیں : اور علی(ع) ہی نے اپنی جان راہ خدا میں فروخت کی اور رسول اﷲ(ص) کی چادر اوڑھ کر رسول(ص) کی جگہ پر سورہے۔ در آںحالیکہ مشرکین پتھر برسارہے تھے۔

اسی سلسلہ کلام میں ابن عباس کہتے ہیں: کہ پیغمبر جنگ تبوک کے ارادے سے نکلے۔ لوگ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ حضرت علی(ع) نے پوچھا: یا رسول اﷲ(ص) ! میں بمرکاب رہوں گا؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، تم نہیں رہوگے۔ اس پر حضرت علی(ع) آبدیدہ ہوگئے تو آپ نے فرمایا : کہ یا علی (ع) ! تم اسے پسند نہیں کرتے کہ تم میرے لیے وسیے ہی یو جیسے موسی(ع) کے لیے ہارون تھے۔ البتہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہے۔ جنگ میں میرا جانا بس اسی صورت میں ممکن ہے کہ میں تمھیں اپنا قائم مقام چھوڑ کے جاؤں۔

نیز حضرت سرورِ کائنات(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:  کہ اے علی(ع) ! میرے بعد تم ہر مومن و مومنہ کے ولی ہو۔ ابن عباس کہتے ہیں:  کہ رسول اﷲ(ص) نے مسجد کی طرف سب کے دروازے بند کرادیے بس صرف علی(ع) کا دروازہ کھلا رکھا اور حضرت علی(ع) جنب کی حالت میں بھی مسجد

۱۷۸

 سے گزر جاتے تھے۔ وہی ایک راستہ تھا دوسرا کوئی راستہ ہی نہ تھا۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ (ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: میں جس کا مولا ہوں علی(ع) اس کے مولا ہیں۔”

اس حدیث میں من کنت مولاہ کو امام حاکم نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اگر چہ شیخین بخاری و مسلم نے اس نہج سے ذکر نہیں کیا۔

علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

اس حدیث سے ثبوت خلافت امیرالمومنین(ع)

اس عظیم الشان حدیث میں امیرالمومنین(ع) کے ولی عہد رسول(ص) اور بعد رحلت سرورِ کائنات خلیفہ و جانشین ہونے کے بعد جو قطعی دلائل اور روشن براہین ہیں وہ آپ کی نگاہوں سے مخفی نہ ہوں گے۔ ملاحظہ فرماتے ہیں آپ اندازہ پیغمبر(ص) کا کہ حضرت علی(ع) کو دینا و آخرت میں اپنا ولی قرار دیتے ہیں۔ اپنے تمام رشتے داروں، قرابت داروں میں بس علی(ع) ہی کو اس اہم منصب کے لیے منتخب فرماتے ہیں۔ دوسرے موقع پر حضرت علی(ع) کو وہ منزلت و خصوصیت عطا فرماتے ہیں جو جناب ہارون کو جناب موسی(ع) سے تھی۔ جتنے مراتب و خصوصیات جناب ہارون کو جناب موسی(ع) سے حاصل تھے۔ وہ سب کے سب حضرت علی(ع) کو مرحمت فرمائے جاتے ہیں سوائے درجہ نبوت کے ۔ نبوت کو مستثنی کرنا دلیل ہے کہ نبوت کو چھوڑ کر جتنے خصوصیات

۱۷۹

جناب ہارون کو حاصل تھے وہ ایک ایک کر کے حضرت علی(ع) کی ذات میں مجتمع تھے۔

آپ اس سے بھی بے خبر نہ ہوں گے کہ جناب ہارون کو منجملہ  دیگر خصوصیات کے سب سے بڑی خصوصیت جو جناب موسی(ع) سے تھی وہ یہ کہ جناب ہارون جناب موسی(ع) کے وزیر تھے۔ آپ کے قوت بازو تھے۔ آپ کے شریک معاملہ تھے اور آپ کی غیبت میں آپ کے قائم مقام ، جانشین و خلیفہ ہوا کرتے اور جس طرح جناب موسی(ع) کی اطاعت تمام امتِ پر فرض تھی اسی طرح جناب ہارون کی اطاعت بھی تمام امت پر واجب و لازم تھی اس کے ثبوت میں یہ آیات ملاحظہ فرمایئے:

             خداوند عالم نے جناب موسی(ع) کی دعا کلام مجید میں نقل فرمائی ۔ جناب موسی نے دعا کی تھی۔

“وَ اجْعَل لىّ‏ِ وَزِيرًا مِّنْ أَهْلىِ هَارُونَ أَخِى اشْدُدْ بِهِ أَزْرِى‏ وَ أَشْرِكْهُ فىِ أَمْرِى‏”

“ معبود میرے گھر والوں میں سے ہارون کو میرا وزیر بنا ان سے میری کمر مضبوط کر اور انھیں میرے کارِ نبوت میں شریک بنا۔”

دوسرے موقع پر جناب موسی (ع) کا قول خداوند عالم نے قرآن میں نقل کیا ہے:

“اخْلُفْني‏ في‏ قَوْمي‏ وَ أَصْلِحْ وَ لا تَتَّبِعْ سَبيلَ الْمُفْسِدينَ” ( اعراف، 142)

“ اے ہارون تم میری امت میں میرے جانشین رہو،

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

 اور متواتر نصوص موجود ہیں۔ اگر اہل بیت(ع) سے قطع نظر کر کے بطریق اغیار آپ نصِ پیغمبر(ص) کے متلاشی ہیں تو مکتوب نمبر۱۰ پر ایک نظر پھر کر لیں جس میں رسول(ص) کی حدیث میں نے ذکر کی ہے کہ آںحضرت (ص) نےامیرالمومنین(ع) کی گردن پر ہاتھ رکھ کر ارشادا فرمایا کہ :

“  هَذَا أَخِي‏ وَ وَصِيِّي وَ خَلِيفَتِي فِيكُمْ فَاسْمَعُوا لَهُ وَ أَطِيعُوا ”

“ یہ میرے بھائی ہیں، میرے وصی ہیں اور تم میں میرے خلیفہ ہیں، ان کا حکم سنو اور ان کی اطاعت کرو۔”

اور محمد بن حمید  رازی سے، سلمہ ابرش سے ، انھوں نے ابن ابی اسحاق سے ، انھوں نے شریک سے، انھوں نے ابوربیعہ ایادی سے، انھوں نے بریدہ سے اور بریدہ نے رسول اﷲ(ص) سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا :

“ لِكُلِ‏ نَبِيٍ‏ وَصِيٌ‏ وَوَارِث وَ إِنَّ وَصِيِّي  وَوَارِثِی عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ”

“ ہر نبی کا وصی اور وارث ہوتا ہے اور میرے وصی و وارث علی بن ابی طالب(ع) ہیں۔”(۱)

--------------

۱ـ اس حدیث کو امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں بسلسلہ حالات شریک ذکر کیا ہے اور شریک کو جھٹلایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ شریک نے اس کو کسی سے نہیں سنا۔ محمد بن حمید رازی کے متعلق کیا ہے کہ وہ معتبر نہیں۔ علامہ ذہبی کا جواب یہ ہی کہ امام احمد بن حنبل امام بغوی ، امام طبری اور ضمن جرح و تعدیل کے امام ابن معین وغیرہ نے محمد بن حمید کو ثقہ سمجھا ہے اور ان سے حدیثیں بھی ہیں اس لحاظ سے محمد بن حمید مذکورہ بالا علمائے احادیث کے شیخ اور معتمد ہیں چنانہ عالامہ ذہبی نے بھی محمد بن حمید کے تذکرہ میں اس چیز کو لکھا ہے۔ محمد بن حمید پر تشیع یا رفض کا الزام کبھی لگایا نہیں گیا۔ یہ محمد بن حمید علامہ ذہبی کے بزرگوں میں سے ہیں لہذا محض اس حدیث میں ان کو جھوٹا بتانا کیونکر روا ہوسکتا ہے۔

۳۸۱

اور طبرانی نے معجم کبیر میں بسلسلہ اسناد جناب سلمان فارسی سے روایت کی ہے۔ سلمان کہتے ہیں کہ:

ارشاد فرمایا پیغمبر(ص) نے کہ:

“إن‏ وصيّي‏ و موضع‏ سري‏ و خير من أترك بعدي ينجز عدتي و يقضي ديني علي بن أبي طالب.”

“ میرے وصی اور میرے رازوں کی جگہ اور بہترین وہ ہستی جسے میں اپنے بعد چھوڑ جانے والا ہوں ، جو تیرے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرے گا ، میرے دیون کو ادا کرے گا علی بن ابی طالب(ع) ہیں۔(۱)

یہ حدیث نص صریح ہے کہ حضرت علی (ع) وصی رسول(ص) تھے اور صریح ہے کہ آپ بعدِ رسول(ص) افضلِ خلائق تھے۔ غور سے دیکھا جائے تو اس حدیث سے آپ کی خلافت و امامت بھی ثابت ہوتی ہے۔

--------------

۱ـ یہ حدیث بعینہ انھیں اسناد کے ساتھ کنزالعمال جلد۶ صفحہ۱۵۴ پر موجود ہے اور منتخب کنزالعمال میں بھی حاشیہ مسند پر چھپائے موجود ہے۔ ملاحظہ ہو مسند ج۵، صفحہ۳۲۔

۳۸۲

ابو نعیم نے حلیة الاولیاء میں انس سے روایت کی ہے کہ :

“ يا أنس  أول من يدخل عليك من هذا الباب إمام‏ المتقين‏ و سيد المسلمين‏ و يعسوب الدين و خاتم الوصيين و قائد الغر المحجلين قال أنس  فجاء علي  فقام إليه مستبشرا فاعتنقه فقال له أنت تؤدي عني و تسمعهم صوتي و تبين لهم ما اختلفوا فيه بعدي‏ ”

“ اے انس پہلا وہ شخص جو اس دروزے سے تمھارے پاس آئے گا وہ امام المتقین ، سید المسلمین، یعسوب الدین، خاتم الوصین، قائد الغر المحجلین ہوگا۔ انس کہتے ہیں کہ ناگاہ حضرت علی (ع) تشریف لائے ۔ رسول(ص) انھیں دیکھتے ہوئے ہشاش بشاش ہوکر ان کی طرف بڑھے اور گلے سے لگایا اور فرمایا : تم  میری جانب سے حقوق ادا کرو گے ، تم میری آواز لوگوں کو سناؤ گے اور میرے بعد جب لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگا تو حق واضح کرو گے۔”(۱)

طبرانی نے معجم الکبیر میں بسلسلہ اسناد ابو ایوب انصاری سے روایت کی ہے کہ آںحضرت (ص) نے اپنی پارہ جگر جناب سیدہ (س) سے فرمایا :

--------------

۱ـ شرح نہج البلاغہ جلد دوم صفحہ۴۵ ، ہم صفحہ ۲۷۹ پر بھی ذکر کرچکے ہیں۔

۳۸۳

“ اے فاظمہ(س) کیا تمھیں معلوم نہیں کہ خداوند عالم نے روئے زمین کے باشندوں پر ایک نگاہ ڈالی اور تمھارے باپ کو منتخب کیا اور انھیں رسالت پر فائز کیا۔ پھر دوبارہ نگاہ ڈالی تو تمھارے شوہر کو منتخب کیا اور مجھے وحی فرمائی تو میں نے تمھارا نکاح ان سے کردیا اور ان کو اپنا وصی بنایا ۔”(۱)

غور فرمائیے کہ کس طرح خداوند عالم نے حضرت خاتم النبیین(ص) کو منتخب کرنے کے بعد تمام روئے زمین کے باشندوں میں

حضرت علی(ع) کو منتخب فرمایا ۔ اور یہ بھی ملاحظہ کیجیے کہ خداوند عالم نے جس طرح نبی کا انتخاب فرمایا، ٹھیک اسی طرح وصی نبی کو بھی منتخب فرمایا۔

یہ بھی دیکھیے کہ کیونکر خداوند عالم نے اپنے پیغمبر(ص) پر وحی فرمائی کہ ان سے اپنی بیٹی بیاہ دو اور انھیں اپنا وصی بناؤ۔

یہ بھی سوچیے کہ آںحضرت(ص) کے قبل دیگر انبیاء کے خلفاء و جانشین کیا ان کے اوصیاء کے علاوہ اور بھی کوئی ہوئے اور کیا خدا کے منتخب کیے ہوئے خاتم النبیین(ص) کے وصی کے موخر کردینا اور غیروں کو اس پر مقدم کرنا جائز ہے؟ اور کیا کسی شخص کے لیے سزاوار ہے کہ ان حکمران بن بیٹھے ۔ خود خلیفہ بن جائے اور وصی رسول(ص) کو عوام اور رعایا جیسا بنا دے اور کیا عقلا ممکن ہے کہ زبردستی مسندِ خلافت پر بیٹھ جانے والے شخص کی پیروی ایسے شخص کے لیے واجب ہو جسے خدا نے نبی(ص)

--------------

۱ـ یہ حدیث بعینہ انھیں الفاظ و انھیں اسناد کےساتھ کنزالعمال کی حدیث ۲۵۴۱ ہے ملاحظہ ہو جلد۶ صفحہ ۱۵۳ ۔ منتخب کنزالعمال  میں بھی مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد جلد۵ صفحہ۳۱

۳۸۴

 کی طرح منتخب کیا ہو۔ بھلا یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ خدا اور رسول(ص) تو اور کسی کو منتخب کریں اور ہم ان کے انتخاب کو ٹھکرا کر کسی دوسرے کو منتخب کر لیں۔

“ وَ ما كانَ‏ لِمُؤْمِنٍ‏ وَ لا مُؤْمِنَةٍ- إِذا قَضَى اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ‏ ”

“ کسی مومن و مومنہ کو یہ حق نہیں کہ خدا و رسول(ص) جب کسی امر میں اپنا حکم صادر کر دیں تو  وہ اپنے پسند و اختیار کو دخل دے۔”

بے شمار حدیثیں اس  مضمون کی کتب احادیث میں پائی جاتی ہیں کہ اہل نفاق و حسد کو جب یہ معلوم ہوا کہ رسول(ص) اپنی بیٹی علی(ع) سے بیاہنے والے ہیں ( جو در حقیقت فخرِ مریم اور سیدہ نساء جنت ہیں) تو انھیں حضرت علی(ع) سے بہت بڑا حسد پیدا ہوا اور اس معاملہ کو انھوں نے بہت عظیم  سمجھا۔ خصوصا ان لوگوں کے جلنے کو تو کچھ نہ پوچھیے جو رسول(ص) کی  خدمت

میں خواستگاری کر کے کورا جواب پاچکے تھے۔”(۱)

--------------

۱ـ ابن ابی حاتم نے انس سے روایت کی ہے  انس کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر و عمر رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور جناب سیدہ(س) کے لیے خواستگاری کی۔ رسالت ماب(ص) نے سکوت فرمایا کوئی جواب نہ دیا۔ وہاں سے وہ دونوں حضرت علی(ع) کے پاس پہنچے یہ کہنے کے لیے کہ ہم لوگوں نے خواستگاری کی مگر رسول(ص) نے کوئی جواب نہ دیا۔ اب آپ درخواست کیجیے۔ ابن ابی حاتم کی اس روایت کو بہت سے نامور علماءئے اہل سنت نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ چنانچہ علامہ ابن حجر نے صواعق باب ۱۱ کے شروع میں نقل کیا ہے۔ اسی موقع پر امام احمد نے بھی اسی جیسی حدیث نقل کی ہے۔ جسے انھوں نے انس سے روایت کی ہے اور اسی صواعق محرقہ باب۱۱ میں ابو داؤد سجستانی کی روایت کردہ حدیث منقول ہے کہ حضرت ابوبکر نے جناب رسالت ماب(ص) کی خدمت میں سیدہ(ع) کی خواستگاری کی آپ نے منہ پھیر لیا۔ پھر عمر نے خواستگاری کی اس مرتبہ بھی آںحضرت (ص) نے منہ پھیر لیا۔ پھر یہ دونوں حضرات علی(ع) کے پاس تشریف لائے  اور کہا اب آپ خواستگاری کیجیے۔ اور حضرت علی(ع) سے منقول ہے کہ ابوبکر و عمر نے رسول سے سندہ کی خواستگاری کی آںحضرت(ص) نے انکار فرمایا۔ حضرت عمر نے حضرت علی(ع) سے کہا اب آپ خواستگاری کیجیے آپ ہی کو یہ شرف حاصل ہوگا ابن جریر نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے اور دولابی نے بھی ذریت طاہرہ (ع) میں اس کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ ملاحظہ ہو حدیث ۶۰۰۷ صفحہ ۳۹۲ جلد ۶۔

۳۸۵

ان جلنے والوں نے سوچا کہ سیدہ(س) کا علی(ع) سے منسوب ہونا علی(ع) کے لیے ایسا شرف و امتیاز کا باعث ہوگا کہ پھر علی(ع) کے مقابلہ میں کوئی آہنی نہ سکے گا۔ لہذا انھوں نے ریشہ دوانیاں شروع کیں۔ بڑی بڑی تدبیریں کیں ۔ اپنے گھر کی عورتوں کی جناب سیدہ(س) کی خدمت میں اس غرض سے بھیجا کہ انھیں حضرت علی(ع) کی طرف سے متنفر بنایا جائے۔ ان کے دل میں نفرت پیدا کی جائے۔ ان کی عورتوں نے اور جو باتیں کیں اس میں ایک بات یہ بھی کہی تھی علی(ع) تو فقیر ہیں کچھ پاس رکھتے ہی نہیں ، لیکن جناب سیدہ(س) ان عورتوں کے مکرو فریب میں نہ آئیں اور آپ اس سے بھی با خبر تھیں کہ ان عورتوں کی زبان سے کن لوگوں کی دلی ترجمانی ہورہی ہے۔ باوجود حقیقیت حال سے با خبر ہونے کے جناب سیدہ نے ان عورتوں سے کچھ کہا نہیں ۔ جب عقد انجام پاگیا ، خدا  ورسول(ص) کا مقصد پورا ہوگیا۔ اس وقت جنابِ سیدہ(س) نے ضرورت سمجھی کہ اب علی(ع) کے

۳۸۶

فضائل ظاہر کرنے کو موقع ہے تاکہ آپ کے دشمن و بدخواہ ذلیل و خوار ہوں آپ نے آںحضرت(ص) سے عرض کی:

"بابا جان آپ نے مجھے فقیر ونادار شیخص سے بیاہ دیا "

اس موقع پر آنحضرت (ص) یہ کلمات ارشاد فرمائے جو ابھی آپ نے سنے

وإذا أرادالله نشرفضيلة

طويت اتاح لهالسان حسود

“ جب خداوندِ عالم کسی ڈھکی چھپی فضیلت کو ظاہر کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے حاسد کی زبان مقرر کرتا ہے”

خطیب نے اپنی کتاب متفق میں معتبر اسناد سے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ:

“ جب آںحضرت (ص) نے اپنی  پارہ جگر کی علی(ع) سے شادی کی تو جناب فاطمہ(س) نے رسول(ص) کی خدمت میں عرض کی: بابا جان آپ نے مجھے نادار شخص سے بیاہ دیا جس کے پاس کچھ بھی نہیں تو آنحضرت (ع) نے فرمایا کہ : تمھیں یہ پسند نہیں کہ خداوندِ عالم نے روئے زمین کے باشندوں سے دو شخصیوں کے منتخب کیا ایک تمھارا باپ دوسرا تمھارا شوہر۔”(۱)

امام حاکم نے مستدرک ج۳ صفحہ ۱۲۹ پر باب مناقب امیرالمومنین(ع) میں

--------------

۱ـ یہ حدیث بعینہ انھیں الفاظ اور اسی سند کے ساتھ کنزالعمال جلد۶ صفحہ ۲۹۱ پر موجود ہے۔ ملاحظہ ہو حدیث ۹۵۹۲ ۔ صاحب کنزالعمال نے اس حدیث کے اسناد کے حسن ہونے کی تصریح بھی کی ہے۔

۳۸۷

 سریج بن یونس سے ، انھوں نے حفص ابار سے، انھوں نے اعمش سے انھوں نے ابو صالح سے انھوں نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ:

“ فاطمہ(س) نے رسول(ص) کی خدمت میں عرض کی : یا رسول اﷲ(ص) ! آپ نے میری شادی علی(ع) سے کی ہے اور وہ فقیر ہیں ، کوئی مال  و زر نہیں رکھتے ۔ آپ نے فرمایا کہ اے فاطمہ(س) ! کیا تم پر راضی و خوشنودی نہیں ہوکہ خداوند کریم نے روئے زمین کے باشندوں پر ایک نگاہ ڈالی اور دو شخصوں کو منتخب کیا ایک تمھارا باپ دوسرا تمھارا شوہر ۔”

اور ابن عباس سے روایت ہے کہ آںحضرت نے فرمایا :

“ کیا تم اس راضی و خوشنود نہیں کہ میں نے تمھیں اس شخص سے بیاہا ہے جو تمام مسلمانوں میں سب سے پہلا اسلام لانے والا ہر ایک سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔ اور تم میری امت کی تمام عورتوں کی سردار ہو۔ اسی طرح جس طرح مریم(ع) اپنی قوم کی کل عورتوں کی سردار تھیں۔ کیا تمھیں اس سے خوشی نہیں کہ خدا نے روئے زمین کے باشندوں پر نگاہ دالی اور دو(۲) افراد کو منتخب کیا ۔ ایک کو تمھارا باپ بنایا دوسرے کو تمھارا شوہر۔”(۱)

--------------

۱ـ یہ حدیث ٹھیک انھیں الفاظ اور اسی سلسلہ سند سے کنز العمال جلد۶ صفحہ۱۵۴ پر موجود ہے ۔ منتخب کنزالعمال میں بھی موجود ہے ملاحظہ ہو حاشیہ مسند ص۳۹ جلد۵ سطر اول۔ علامہ ابی حدید معتزلی نے بھی ؟؟؟؟؟؟ مسند احمد سے نقل کیا ہے۔

۳۸۸

اس کے بعد آںحضرت(ص) کا طرز عمل یہ رہا کہ جب جناب سیدہ(س) کو دنیوی پریشانیاں لاحق ہوتی تھیں تو آپ خدا و رسول(ص) کی اس نعمت و رحمت کو یاد دلاتے کہ تمھارا عقد ایسے شخص سے کیا گیا جو امت میں سب سے زیادہ اشرف و افضل ہے۔ یہ اس لیے تاکہ جناب سیدہ (س) کا دل چھوٹا نہ ہو، زمانہ کی نیرنگوں اور تکلیفوں سے دل تنگ نہ ہوں۔ اس کے ثبوت میں وہی روایت آپ کے لیے کافی ہے جسے امام احمد نے مسند جلد۵ صفحہ ۲۶ پر درج کیا ہے۔ معقل بن یسار کی حدیث ہے کہ :

“ ایک مرتبہ سیدہ عالم(س) بیمار ہوئیں ، رسول (ص) عیادت کے لیے تشریف لائے ۔ پوچھا کہ : پارہ جگر! اپنے کو کیسا پا رہی ہو آپ نے فرمایا : خدا کی قسم میری تکلیفیں حد سے زیادہ ہوگئیں ، فاقہ کی مصیبت ناقابل برداشت ہوگئی اور علالت کا سلسلہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا : پارہ جگر کیا
تم اس سے راضی و خوشنود نہیں ہو کہ میں نے تمھاری شادی ایسے شخص سے کی جو میری امت میں سب سے پہلے اسلام لایا ، جو سب سے زیادہ علم والا ہے  اور سب سے زیادہ حلم رکھتا ہے۔”

اس باب میں بے شمار حدیثیں موجود ہیں مکتوب میں اتنی گنجائش نہیں کہ سب ذکر کی جائیں۔

                                                                     ش

۳۸۹

مکتوب نمبر ۳۵

اہلسنت و جماعت حضرت علی(ع) کے وصی  رسول(ص) ہونے کو نہیں مانتے وہ اس حدیث سے استدالال کرتے ہیں جسے بخاری نے صحیح بخاری میں اسود سے روایت کیا ہے ۔ اسود کہتے ہیں کہ :

“ جناب عائشہ کی خدمت میں ذکر آیا کہ رسول(ص) اپنا وصی حضرت علی(ع) کو بنایا۔(۱) ۔ جناب عائشہ بولیں: یہ کون کہتا ہے؟ میں نے رسول(ص) کو دیکھا ۔ میں اپنے سینہ پر رسول کو لٹائے

---------------

۱ـ اس حدیث کو امام بخاری نے صحیح بخاری جلد۲ صفحہ کتاب الوصایا میں نیز صحیح بخاری جلد۳ صفحہ۶۴ باب مرض النبی و وفات میں درج کیا ہے امام مسلم نے صحیح مسلم میں کتاب الوصایا میں نقل کیا ہے۔

۳۹۰

ہوئے تھی۔ آںحضرت(ص) نے طشت طلب کیا۔ اس پر جھکے اور انتقال کر گئے اور مجھے پتہ بھی نہ چلا لہذا حضرت علی(ع) کو وصی بنانے اور علی (ع) سے وصیت کرنے کا موقع کہاں ملا؟”(۱)

نیز امام بخاری نے صحیح بخاری میں متعدد طریقوں سے اس روایت کو لکھا ہے کہ :

“ جناب عائشہ فرمایا کرتیں کہ آںحضرت(ص) نے میری آغوش میں

--------------

۱ـ آپ بے خبر نہ ہوں گے کہ شیخین نے اس حدیث میں رسول(ص) کے علی(ع) سے وصیت نہ فرمانے کی جو روایت کی ہے وہ بے قصد و ارادہ ایسا کر گئے اگر متوجہ ہوتے تو شاید اس حدیث کو لکھتے ہی نہیں۔ اس لیے کہ جن لوگوں نے جناب عائشہ سے یہ ذکر چھیڑا تھا کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو وصی بنایا وہ امت سے خارج نہیں تھے بلکہ وہ صحابہ میں سے تھے جنھیں ام المومنین کے سامنے ایسی بات کے انکشاف کی جرائت پیدا ہوئی جو ام المومنین کی ناگواری کا باعث تھی اور اس عہد کی سیاست کے خلاف تھی اسی وجہ سے جناب عائشہ ان لوگوں کی یہ حدیث ( جن میں حضرت علی(ع) کے وصی بنائے جانے کا ذکر تھا )سن کر بڑے شش و پنچ میں پڑگئیں اور ان کی رد میں مہمل و رکیک باتیں کہنے لگیں۔ امام نسائی نے سنن نسائی جلد۶ صفحہ ۲۴۱ میں اس حدیث پر جو حاشیہ تحریر فرمایا ہے اس میں لکھتے ہیں کہ یہ بات مخفی نہ ہوگی کہ جناب عائشہ کا ارشاد اس سے مانع نہیں کہ آںحضرت وصی بنا چکے ہوں نیز ان کا ارشاد اس کا بھی مقتضی نہیں کہ رسول(ص) دفعتا انتقال فرماگئے ہوں اور آپ کو وصیت کرنے کا موقع ہی نہ ملا ہو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ پیغمبر(ص) بیمار ہونے سے پہلے ہی با خبر تھے کہ اب زندگی کےدن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ اس عبارت پر غور فرمائیے ۔ کس قدر سنجیدہ و متین عبارت ہے حقیقت بالکل منکشف ہو جاتی ہے۔

۳۹۱

دم توڑا اور یہ بھی فرمایا کرتیں کہ میری گردن و سینہ پر لیٹے لیٹے رسول(ص) کا انتقال ہوا۔ کبھی فرمایا کہ رسول(ص) کا سر میرے زانو پر تھا کہ ملک الموت قبضِ روح کو آئے۔(۱)   ۔ لہذا ایسی حالت میں اگر رسول(ص) وصیت فرماتے تو وہ حضرت عائشہ کو معلوم ضرور ہوتا۔”

صحیح مسلم میں جناب عائشہ سے مروی ہے  وہ فرماتی ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے نہ درہم چھوڑا نہ اونٹ ، نہ بکری نہ کسی چیز کے متعلق آپ نے وصیت فرمائی ۔”(۲)

اور صحیحین(۳) میں طلحہ بن مصرف سے روایت ہے کہ :

“ میں نے عبداﷲ بن اوفیٰ سے پوچھا کہ کیا پیغمبر(ص) نے اپنا وصی مقرر فرمایا؟ انھوں نے کہا : نہیں۔ تو میں نے کہا کہ یہ کیونکر ۔ خود دوسروں کےلیے تو رسول(ص) نے وصیت کرنا واجب قرار دیا۔ اور خود وصیت نہ کی۔ تو انھوں نے کہا کہ پیغمبر(ص) نے کتابِ خدا کے متعلق وصیت کی۔”

--------------

۱ـ جناب عائشہ کا قول مات بین حافتیی و ذاقنتی نیز مات بین سحری و ںحری یہ دونوں صحیح بخاری کے باب مرض النبی و وفات میں موجود ہیں نیز جناب عائشہ کا یہ قول نزل بہ و راسہ علی فخذی رسول(ص) کا سر میرے زانو پر تھا کہ ملک الموت قبض روح کو آئے ۔ باب آخر ماتکلم بہ رسول کے آخری الفاظ کے باب میں موجود ہے ۔ جو باب مرض النبی و وفات کے فورا ہی بعد مذکور ہے۔

۲ـ ملاحظہ فرمائیے صحیح مسلم کتاب الوصیہ جلد۲ صفحہ۱۴۔

۳ـ ملاحظہ فرمائیے صحیح مسلم و صحیح بخاری دونوں کی کتاب الوصایا

۳۹۲

چونکہ آپ نے جو حدیثیں ذکر کی ہیں ان سے یہ حدیثیں زیادہ صحیح ہیں کیونکہ بخاری و سلم دونوں میں موجود ہیں لہذا انھیں حدیثوں کو مقدم  سمجھا جائے گا اور انھیں پر اعتماد کیا جائے گا۔

                                                             س

جوابِ مکتوب

پیغمبر(ص) کا حضرت علی(ع) سے وصیت فرمانا ایسی بات ہے جس سے انکار ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آںحضرت(ص) نے حضرت علی(ع) سے وصیت فرمائی تھی ۔ قول و قرار فرمایا تھا( بعد اس کے کہ آپ انھیں اپنے علم و حکمت کا وارث(۱) بنا چکے تھے) کہ حضرت علی(ع) ہی آپ کو غسل دیں۔(۲) تجہیز و تکفین کریں۔ آںحضرت(ص) کے دیون ادا کریں ۔ رسول(ص) کے کیے ہوئے وعدوں

--------------

۱ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ ۴۰۰ تا ۴۰۵ ۔ وہاں آپ کو اچھی طرح وضاحت نطر آئے گی حضرت سرورکائنات(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو اپنے علم وحکمت کا وارث بنایا

۲ـ ابن سعد نے طبقات ابن سعدف جلد۲ قسم ثانی ص۶۱ پر امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں کہ رسول(ص) نے وصیت فرمائی کہ سوائے میرے انھیں کوئی غسل نہ دے اور ابو الشیخ اور ابن نجار نے امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے ( ملاحظہ ہو کنزل العمال جلد۴ ص۵۴) کہ رسول(ص) نے مجھ سے وصیت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ جب میں مرجاؤں تو مجھے سات مشکوں سے غسل دینا۔  ابن سعد نے طبقات جلد۲ قسم ۲ صفحہ ۶۳

پر عبدالواحد بن ابی عوانہ سے روایت کی ہے کہ رسالت ماب(ص) نے بحالت مرض موت فرمایا کہ اے علی(ع) جب میں مرجاؤں تو تم مجھے غسل دینا عبدالواحد کہتے ہیں کہ حضرت علی(ع) نے ارشاد فرمایا کہ : میں نے رسول(ص) کو غسل دیا، میں جس حصہ جس کو غسل کے ارادے سے اٹھاتا تھا وہ میری متابعت کرتا تھا۔ امام حاکم نے مستدرک ج۳ صفحہ۵۵ پر اور علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں بسلسلہ اسناد امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے اور دونوں نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول(ص) کو غسل دیا اور مردوں سے جو بات دیکھنے میں آتی ہے منتطر تھا کہ رسول(ص) سے بھی ظہور پذیر ہوتی ہے کہ نہیں۔ میں نے ایک بات بھی نہ دیکھی ۔ رسول(ص) زندہ اور مردہ دونوں حالتوں میں مجسم خوشبو رہے۔ اس حدیث کو سعید بن منصور نے اپنے سنن میں، مروزی نے اپنی کتاب  جنائزہ میں، ابو داوؤد نے مراسلہ میں ابن منیع اور ابن ابی شیبہ نے سنن میں درج کیا ہے اور کنزالعمال جلد۴ ص۵۵ پر بھی

۳۹۳

موجود ہے۔ جناب ابن عباس سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ علی(ع) کو چار باتیں ایسی حاصل ہیں جو کسی اور کو حاصل نہیں ہوئیں۔علی (ع) پہلے وہ شخص ہیں جنھوں نے رسول(ص) کے ساتھ نماز پڑھی ۔ علی(ع) ہر معرکہ میں علمدار پیغمبر(ص) رہے، علی(ع) ہی رسول(ص) کے پاس اس دن ثابت قدم رہے جب کہ ہر شخص رسول(ص) کو چھوڑ کر بھاگ گیا تھا اور علی(ع) ہی وہ ہیں جنھوں نے رسول(ص) کو غسل دیا اور قبر میں لٹایا ، اس روایت کو ابن عبدالبر نے استیعاب میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) اور حاکم نے مستدرک جلد۳ ص۱۸؟؟؟ پر درج کیا ہے۔ ابو سعید خدری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسالت ماب(ص) نے ارشاد فرمایا : “ اے علی(ع) تم ہی مجھے غسل دو گے اور میرے دیون ادا کروگے اور قبر میں مجھے دفن کرو گے۔ ” ملاحظہ ہو کنز العمال ج۶ ص۵۵ حضرت عمر سے ایک حدیث مروی ہے جس میں رسول(ص) نے علی(ع) سے فرمایا : تم ہی مجھے غسل دینے والے ہو، مجھے دفن کرنے والے ہو۔ کنزالعمال جلد۶ ص۲۹۳ و منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند امام احمد جلد۵ ص۵۴ حضرت علی(ع) سے مروی ہے : آپ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول(ص) کو یہ کہتے سنا خدا نے مجھے ( علی میں) پانچ چیزیں ایسی عطا کیں جو مجھ سے پیشتر انبیاء کو کسی میں عطا نہیں ہوئیں پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ میرے دیون ادا کریں گے اور مجھے دفن کریں گے۔ کنزالعمال جلد۶ ص۴۰۳ جب رسول(ص۹ کا جنازہ تیار ہوا اور لوگوں نے نماز جنازہ پڑھنا چاہی تو حضرت علی(ع) نے کہا کہ رسول(ص) کی نماز میں کوئی شخص امام نہ ہوگا۔ وہ تم تمھارے امام ہیں زندگی میں بھی اور مرنے پر بھی لہذا لوگ تھوڑی تھوڑی دیر بعد آتے اور صف بہ صف نماز پڑھتے لیکن امامت کسی نے نہ کی وہ لوگ تکبیر کہتے اور حضرت علی(ع) جنازہ رسول(ص) کے مقابل کھرے ہوکر فرماتے : سلام ہو آپ پر اے پیغمبر(ص) خدا اور رحمت ہو اﷲ کی۔ خداوند ا ہم گواہی دیتے ہیں کہ جو کچھ تو نے نازل کیا وہ رسول(ص) نے ہم تک پہنچایا ۔ امت کی پوری خیر خواہی کی۔ تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک  کہ تونے ان کے دین کو قوت بخشی اور ان کے کلمہ کو پورا کیا۔ خداوندا پس ہمیں قرار دے ان لوگوں میں جو پیغمبر(ص) پر تیرے نازل کیے ہوئے احکام کی پیروی کرتے ہیں اور رسول(ص) کے اٹھ جانے کے بعد ہی ثابت قدم رکھ اور ہمیں ہمارے رسول(ص) سے ملا۔ حضرت علی(ع) یہ فرماتے اور لوگ آمین آمین کہتے اسی طرح مردوں نےنماز پڑھی پھر عورتوں نے پھر بچوں نے ۔ یہ کل مضمون بعینہ انہی الفاظ میں جو ہم نے ذکر کیا ابن سعد نے اپنی طبقات میں پیغمبر(ص) کے غسل کےبیان میں ذکر کیا ہے ۔ رسول(ص) کےجنازے پر سب سے پہلے بنی ہاشم آئے۔ پھر مہاجرین پھر انصار ، پھر دوسرے لوگ اور سب سے پہلے حضرت علی(ع) اور جناب عباس نے نماز پڑھی یہ دونوں حضرات ایک صف میں کھڑے ہوئے اور پانچ تکبیریں کہیں۔

۳۹۴

 کو پورا کریں۔ رسول(ص) کی ذمہ داریاں اپنے سر لیں۔(۱) اور رسول(ص) کے مرنے کے بعد

--------------

۱ـ ان سب مذکورہ بالا امور کے متعلق ائمہ طاہرین (ع) سے متواتر حدیثیں موجود ہیں۔ اہلبیت(ع) سے قطع نظر غیروں میں طبرانی نے معجم کبیر میں ابن عمر سے ابو یعلی نے اپنی مسند میں حضرت علی(ع) سے جو روایت کی ہے تو ملاحظہ فرمائیے طبرانی کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ اے علی(ع) تم میرے بھائی، میرے وزیر، میرے دیون ادا کروگے، میرے وعدوں کو پورا کرو گے اور میری ذمہ داریوں سے مجھے سبکدوش بناؤگے ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد۶ ص۱۵۵ پر ابن عمر سے اسناد کر کے یہ حدیث مذکور ہے اور جلد۶ صفحہ ۴۰۴ پر حضرت علی(ع) کی طرف اسناد کر کے مذکورہ ہے۔ اسی جگہ علامہ بوصیری سے منقول ہے کہ اس حدیث کے کل راوی ثقہ ہیں۔ ابن مردویہ و دیلمی نے جناب سلمان فارسی سے روایت کی ہے ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد۶ صفحہ ۱۵۵ کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا : علی(ع) میرے وعدوں کو پورا کریں گے اور میرے دیون ادا کریں گے اسی مضمون کی حدیث انس سے بزار نے روایت کی ہے۔ ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد۶ ص۱۵۳ امام احمد بن حنبل نے مسند جلد۴ صفحہ ۱۶۴ پر حبشی بن جنادة سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول(ص) کو کہتے سنا : میرے دیون سوائے میرے یا علی(ع) کے کوئی اور میرے اور ادا نہیں کرسکتا اور ابن مردویہ نے امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد۶ ص۱۰۴ کہ جب آیہ وانذر نازل ہوا تو آںحضرت (ص) نے فرمایا : علی(ع) میرے دیوان ادا کریں گے میرے وعدوں میں کو پورا کریں گے۔ سعد سے روایت ہے کہ میں نے یوم حجفہ رسول(ص) کو کہتے سنا۔: آپ نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑا اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ بعد حمد و ثنائے الہی کے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! میں تمھارا ولی ہوں۔ لوگوں نے کہا بے شک یا رسول اﷲ(ص) ، پھر آپ نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ اٹھا کر فرمایا یہ میرے ولی ہیں اور یہی میری جانب سے میرے دیون ادا کریں گے۔ اس حدیث کو آپ صفحہ ۳۳۲ پر ملاحظہ فرماچکے ہیں۔ عبدالرزاق نے اپنی جامع میں معمر سے انھوں نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ علی(ع) نے رسول(ص) کے بعد چند امور انجام دیے جن دیے جن میں زیادہ تر رسول(ص) کے کیے ہوئے وعدے ننھے جنھیں آپ نے پورا کیا۔ میرا خیال ہے کہ انھوں نے پانچ لاکھ درہم کہے تھے۔ عبدالرزاق سے پوچھا گیا کہ کیا رسول(ص) نے علی(ع) کو اس کے متعلق وصیت بھی کی تھی انھوں نے جواب دیا کہ ہاں مجھے کوئی شک نہیں اس میں کہ رسول(ص) نے ضرور علی(ع) سے اس کی بابت وصیت کی تھی  اور اگر رسول(ص) وصیت نہ فرما گئے ہوتے تو لوگ علی(ع) کو رسول(ص) کے دیون نہ ادا کرنے دیتے۔ اس حدیث کو صاحب کنزالعمال نے جلد۴ ص۶۰ پر درج کیا ہے ملاحظہ ہو حدیث نمبر۱۱۷۰۔ 

۳۹۵

جب لوگوں میں اختلاف پیدا ہو تو احکام الہی اور امورِ شریعت واضح کردیں اور آپ امت سے فرماچکے تھے کہ : “ یہ علی(ع) ہی تمھارے ولی(۱) ہیں میرے بعد(۲) اور میرے بھائی(۳) ہیں، میرے نواسوں کے باپ ہیں(۴) ۔ میرے وزیر(۵) ہیں۔

--------------

۱ـ بکثرت صریحی نصوص موجود ہیں کہ آںحضرت (ص) نے امیرالمومنین(ع) سے وصیت فرمائی تھی کہ آپ کے انتقال کے بعد امت میں کسی مسئلہ میں اختلاف پیدا ہو تو اس کی وضاحت کریں ۔ ملاحظہ ہو صفحہ ۲۸۳ پر حدیث نمبر۱۱ ، نمبر۱۲ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں جن میں سے بعض ہم نے ذکر کی ہیں اور بعض کو شہرت کی حیثیت سے ذکر کرنا ضروری نہ سمجھا ۔

۲ـ گزشہ صفحات میں بیشتر مقامات پر اس پر روشنی ڈالی جاچکی ہے۔

۳ـ رسول(ص) اور حضرت علی(ع) میں مواخات کا قائم ہونا متواتر احادیث سےثابت ہے ہم نے اس پر کافی ثبوت فراہم کردیے ہیں اس مسئلہ میں۔

۴ـ امیرالمومنین (ع) کا فرزندان رسول(ص) کا باپ ہونا وجدانی طور پر واضح ہے۔ حضرت سرور کائنات(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا کہ تم میرے بھائی ہو، میرے نور چشموں کے باپ ہو۔ تم میری سنت کی حمایت میں جہاد کروگے، اس حدیث کو ابویعلی نے اپنی مسند میں درج کیا ہے ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد۶ صفحہ ۴۰۴ اور اس کے رواة سب کے سب معتبر ہیں جیسا کہ علامہ بوصیری نے تصریح کی ہے ۔ امام احمد نے بھی اس حدیث کو مناقب میں درج کیا ہے جیسا کہ صواعق محرقہ ص۷۵ باب فصل ثانی سے پتہ چلتا ہے اور آںحضرت(ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے  کہ خداوند عالم نے ہر نبی کی ذریت کو اس کے سلب میں ودیعت فرمایا اور میری ذریت کو سلب علی(ع) میں قرار دیا۔ اس حدیث کو طبرانی نےمعجم کبیر میں جناب جابر سے اور خطیب نے اپنی تاریخ میں ابن عباس سے روایت کیا ہے اور کنزالعمال جلد۶ ص۱۵۵ پر موجود ہے ۔ آںحضرت (ص) نے یہ بھی فرمایا کہ ہر دختری اولاد اپنے قبیلہ و خاندان کی طرف منسوب ہوتی ہے سوائے فرزندان فاطمہ(س) کے ۔ کہ میں ان کا ولی ہوں۔ میں ہی ان کا بزرگ خاندان ہوں، میں ہی ان کا باپ ہوں۔ اس حدیث کو طبرانی نے جناب سیدہ سے روایت کیا ہے اور یہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جسے ابن حجر نے صواعق باب ۱۱ ص۱۱۲ پر نقل کیا ہے۔ اسی حدیث کو طبرانی نے ابن عمر سے بھی روایت کیا ہے جیسا کہ اسی صفحہ پر مذکور ہے۔ اسی جیسی حدیث مستدرک جلد۲ صفحہ ۱۶۴ پر جناب جابر سے روایت کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر شیخین نے اپنے صحیحین میں درج نہیں کیا ۔ ایک اور حدیث امام حاکم نے مستدرک میں اور ذہبی نے تلخیص مستدرک میں لکھی ہے اور شیخین کے معیار پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اس حدیث میں ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ مگر اے علی(ع) تم میرے نور چشمون کے باپ ہو،مجھ سے ہو، مجھ تک ہو اور بھی بہیتری صحیح حدیثیں ہیں ۔

۳۹۶

۵- حضرت علی(ع) کے وزیر ہونے کے متعلق منجملہ اور ارشادات کے ایک حدیث انت منی بمنزلة ہارون من موسی” ہی کافی ہوگی۔ جیسا کہ ہم م ۱۰ اور م ۱۳ پر توضیح کرچکے ہیں۔ نیز دعوت عشیرہ کے موقع پر جو آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا تھا اسی کو لے لیجیے ۔فَأَيُّكُمْ يُوَازِرُنِي‏ عَلَى أَمْرِي هَذَا فقال علیُ أَنَا يَا رَسولَ اللَّهِ أَكُونُ وَزِيرَكَ عَلَيْهِ ” رسول(ع) نے مجمع سے پوچھا تھا کہ تم میں کون شخص ایسا ہے جو کارِ رسالت میں میرا بوجھ بٹائے ۔ جب سب خاموش رہے تو حضرت علی(ع) اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا : میں آپ کا بوجھ بٹانے والا ہوں گا۔ اور اس حدیث کو بھی آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں خدا بھلا کرے امام بوصیری کا کیا اچھے اشعار کہے ہیں۔ اپنے قصیدہ میں فرماتے ہیں :لم يزده کشف الغطاء يقينا    بل هو الشمس ما عليه الغطاء “ پردے اٹھنے کے بعد بھی آپ کے یقین میں اضافہ کی گنجائش نہ تھی بلکہ آپ تو آفتاب ہیں جس پر کوئی پردہ نہیں۔

۳۹۷

 میرے ہمراز(۱) ہیں، میرے ولی(۲) ہیں، وصی(۳) ہیں، میرے شہر علم کا

--------------

۱ـ تمام امت اسلامیہ کا اتفاق ہے کہ کلام مجید میں ایک ایسی آیت ہے جس پر سوائے امیرالمومنین(ع) کے کسی نے عمل نہیں کیا ۔ نہ آپ کے بعد قیامت تک  کوئی اس پر عمل کرسکے گا اور وہ سورہ مجادلہ کی آیت نجوی ہے ۔ اس پر دوست و دشمن ہر ایک بہ لفظ و زبان متفق ہے اور اس کے متعلق شیخین کے معیار پر صحیح صریحی احادیث موجود ہیں جسے امت اسلام کا ہر نیک و بد فرد جانتا ہے ۔ ملاحہ ہو مستدرک جلد۲ ص۴۸۲ اور اسی صفحہ پر علامہ ذہبی کی تلخیص مستدرک اور دیکھیے تفسیر ثعلبی ، طبری ، سیوطی ، زمخشری، رازی وغیرہ کی تفاسیر آگے چل کر آپ ام سلمہ اورعبداﷲ بن عمر کی حدیث ملاحظہ فرمائیں گے جس میں وفات سے چند لمحہ پیشتر آںحضرت(ص) اور امیرالمومنین(ع) کی سرگوشی کا ذکر ہے۔ وہیں آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا۔ کہ طائف میں بھی ایسا ہی موقع پیش آیا تھا اور رسول(ص) نے ارشاد فرمایا تھا کہ میں نے اپنے جی سے علی(ع) سے سرگوشی نہیں کی بلکہ خدا نے خود ایسا کیا ہے اسی کے حکم سے میں نے ان سے سرگوشی کی وہیں ہم اس کی طرف بھی اشادہ کریں گے کہ ، آںحضرت(ص) اور امیرالمومنین(ع) نے جناب عائشہ کے متعلق بھی سرگوشی کی۔

۲ـ امیرالمومنین (ع) کے ولی ہونے کے متعلق آںحضرت(ص) کا یہ قول کافی ہے جو ابن عباس کی حدیث میں مذکور ہے جسے ہم گزشتہ صفحات میں ذکر کرچکے ہیں : “ اے علی(ع) تم دنیا و آخرت میں میرے ولی ہو” اس کے علاوہ یہ تو ایسی واضح چیز ہے جس  کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔

۳ـ م ۱۳ میں اس کے متعلق نصوص ذکر کیے جاچکے ہیں۔

۳۹۸

 دروازہ(۱) ہیں ، میری حکمت(۲) کے گھر کا دروازہ ہیں، اس امت کے لیے باب حطہ(۳) ہیں،

امت کے لیے امان اور سفینہ نجات(۴) ہیں ان کی اطاعت بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح میری اطاعت فرض ہے، ان کی نافرمانی اسی طرح باعث ہلاکت ہے جس طرح میری نافرمانی(۵) ، علی(ع) کی پیروی میری پیروی ہے اور ان سے جدائی مجھ جدائی ہے۔”

( جیسا کہ صفحہ ۲۸۸ کی سترھویں حدیث سے ثابت ہوتا ہے) علی(ع) سے جو صلح رکھے اس سے رسول(ص) کی بھی صلح ہے اور جس نے علی(ع) سے جنگ کی اس سے رسول(ص) بھی برسرجنگ(۶) ہیں۔ جس نے علی سے موالات کی رسول(ص) بھی اس کے ولی ہیں،

--------------

۱ـ ملاحظہ ہو صفحہ ۲۸۲ میں حدیث نمبر۹ اور اس پر جو حاشیہ ہم نے سپرد قلم کیا ہے وہ بھی دیکھیے۔

۲ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ ۲۸۳ میں حدیث ۱۰۔

۳ـ ملاحظہ ہو صفحہ ۲۸۵ میں حدیث ۱۴۔

۴ـ جیسا کی ان احادیث کا فیصلہ ہے جو ہم نے صفحہ ۶۷ تا صفحہ ۶۸ پر بیان کیں۔

۵ـ جیساکہ صفحہ ۲۸۸ کی حدیث ۱۶ سے معلوم ہوتا ہے۔

۶ـ امام احمد نے مسند ج۲ صفحہ ۴۴۲ پر ابوہریرہ سے ایک حدیث روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے علی (ع) و فاطمہ(س) ، حسن (ع) و حسین(ع) کی طرف نظر کر کے ارشاد فرمایا : میں برسر جنگ ہوں اس سے جو تم سے جنگ کرے اور میری بھی صلح ہے اس سے جو تم سے صلح رکھے۔” اور جس دن آپ نے ان حضرات کو اپنی چادر اڑھائی تھی اس دن کے متعلق بھی حدیث صحیح میں ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا تھا، أَنَا حَرْبٌ‏ لِمَنْ حَارَبَهُمْ وَ سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَهُمْوَ عَدُوٌّ لِمَنْ‏ عَادَاهُم‏ چنانچہ علامہ حجر مکی نے فضائل اہلبیت(ع) میں پہلی آیت جو لکھی ہے اس کی تفسیر میں اس حدیث کو لکھا ہے ۔ رسول(ص) کا یہ قول تو کافی مشہور ہوچکا ہے : “حَرْبُ علی حَرْبِي وَ حَرْبِي حَرْبُ اللَّهِ وَ سِلْمُهُ‏ سِلمِی ”  علی(ع) کی جنگ میری جنگ ہے اور علی(ع) کی صلح میری صلح ہے۔

۳۹۹

اور جس نے علی(ع) کو دشمن رکھا رسول(ص) بھی اس کے دشمن ہیں(۱) ۔ جس نے علی (ع) کو دوست رکھا۔

اس نے خدا اور خدا کے رسول(ص) کو دوست رکھا۔ جس نے علی(ع) سے بغض رکھا اس نے خدا اور اس کے رسول(ص) سے بغض رکھا(۲) جس نے علی(ع) سے

--------------

۱ـ ملاحظہ فرمائیے ہمارے صفحہ ۲۹۱ پر حدیث نمبر۲۰ کے ، علاوہ اس کے رسول(ص) کا یہ ارشاد“ُ اللَّهُمَّ وَالِ‏ مَنْ‏ وَالاهُ‏ وَ عَادِ مَنْ عَادَاه‏” (خداوندا تو دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے) جو حد تواتر تک پہنچا ہوا ہے یہی کافی ہے نیز مکتوب نمبر۱۸ پر بریدہ کی حدیث ملاحظہ فرماچکے ہیں جس میں آںحضرت(ص) کا یہ قول ہے کہ جس نے علی(ع) سے جدائی اختیار کی اس نے مجھ سے جدائی اختیار کی ہے ۔ یہ حدیث بھی حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہے“لَا يُحِبُّهُ‏ إِلَّا مُؤْمِنٌ‏ وَ لَا يُبْغِضُهُ إِلَّا مُنَافِقٌوَ اللَّهِ إِنَّهُ لَعَهِدَ النَّبِيُ‏ الْأُمِّي‏” علی(ع) کو مومن ہی دوست رکھے گا اور  علی(ع) کا دشمن منافق ہی ہوگا۔ یہ قول و قرار ہے نبی (ص)  امی کا۔

۲ـ جیسا کہ م ۲۴ پر بیان کی ہوئی حدیث نمبر۹، ۲۰، ۲۱ سے ثابت ہوتا ہے۔

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639