دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)12%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272306 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

 اور فرقہ واریت سے نجات کی راہ نکلے اور ہم لوگوں کے متحد ہوجانے ی سبیل پیدا ہو۔

                                                             س

جواب مکتوب

شرعی دلیلیں مجبور کرتی ہیں کہ مذہب اہلبیت(ع) کو اختیار کیا جائے

مکرمی تسلیم !

گرامی نامہ ملا۔ عرض یہ ہےکہ ہم جو اصولِ دین میں اشاعرہ کے ہم خیال نہیں اور فروع دین میں اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید نہیں کرتے تو یہ کسی تعصب یا فرقہ پرستی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ شرعی دلیلیں ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم مذہب اہلبیت(ع) ہی کو اختیار کریں۔ یہی وجہ ہے جو ہم جمہور سے الگ ہو کر اصول و فروع دین میں بس ارشاداتِ ائمہ طاہرین(ع) ہی کے پابند ہیں۔ کیونکہ ادلہِ و براہین کا یہی فیصلہ ہے اور سنتِ نبوی کی پابندی بھی بس اسی صورت سے ہوسکتی ہے اگر دلیلیں ہمیں ذرا بھی مخالفت اہل بیت(ع) کی اجازت دیں یا ان کے مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کی پابندی میں تقربِ الہی ممکن ہوتا تو ہم ضرور جہمور ہی کی روش پر چلتے تاکہ باہمی رشتہء اخوت اچھی طرح استوار رہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ قطعی اور محکم دلیلیں سنگِ راہ بنی ہوئی ہیں اور کسی طرح مذہب اہلبیت(ع) چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔

۲۱

جمہور اہلسنت کا مسلک اختیار کرنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی

اس کے علاوہ چاروں مذاہب کو کسی قسم کی ترجیح بھی تو نہیں۔ ان مذاہب کی پابندی کا واجب ولازم ہونا تو اور چیز ہے، ان کے بہتر اور قابل ترجیح ہونے پر جمہور کوئی دلیل بھی پیش نہیں کرسکتے۔ ہم نے تو جمہور مسلمین کے ادلا کو پوری تحقیق سے دیکھا۔ ہمیں تو ایک دلیل بھی ایسی نہ ملی جو ان ائمہ اربعہ کی تقلید و پیروی کو واجب بتاتی ہو۔ بس لے دے کے یہی ایک چیز ملی ہے جسے آپ نے بھی ذکر کیا ہے یعنی یہ کہ وہ مجتہد و عادل اور بڑے جلیل القدر علماء تھے لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ اجتہاد ، امانت، عدالت، جلالتِ علمی، یہ ان ہی چاروں پزرگوں کے ساتھ مختص تو نہیں، انھیں میں منحصر تو نہیں لہذا معین طور پر فقط ان ہی کی پیروی اور ان ہی کے مذاہب میں سے کسی نہ کسی ایک کا پابند ہو رہنا واجب ہوجائے گا؟ اور میرا یہ دعوی ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ نکلے گا جو یہ کہہ سکے یہ چاروں ائمہ اہلسنت ائمہ علیہم السلام سے علم یا عمل کسی ایک چیز میں بڑھ کر تھے۔ ہمارے ائمہ تو اہل بیت طاہرین(ع) ہیں۔ جو سفینہ نجات ہیں۔ امتِ اسلام کے لیے بابِ حطہ ہیں۔ ستارہ ہدایت ہیں اور ثقل پیغمبر(ص) ہیں۔ امت میں رسول(ص) کی چھوڑی ہوئی نشانی ہیں۔ جن کے متعلق رسول(ص) کا یہ ارشاد ہے کہ

                     “ دیکھو ان سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور نہ انھیں پیچھے کردینا

 ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور انھیں سکھانا

۲۲

 پڑھانا نہیں ، یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔”

لیکن کیا کہا جائے کہ رسول (ص) کے مرنے کے بعد سیاست نےکیا کیا کرشمے دکھائے اور کیا سلوک کیا گیا اہلبیت(ع) کے ساتھ؟

آپ کے اس جملہ نے کہ سلفِ صالحین بھی اسی مسلک پرگامزن رہے اور انھوں نے اسیی کو معتدل و معتبر مذہب سمجھا، مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ شاید آپ نہیں جانتے کہ مسلمانوں میں تقریبا آدھی تعداد شیعوں کی ہے اور شیعیان آل محمد(ص) کے سلف و خلف اس زمانے کے شیعہ ہوں یا اس زمانے کے پہلی صدی ہجری سے لے کر اس چودھویں صدی تک مذہب اہلبیت(ع) کے پابند ہیں۔ شیعہ مسلک اہلبیت(ع) کی اتباع عہدِ امیرالمومنین(ع) اور جناب سیدہ(س) سے کررہے ہیں جب کہ نہ اشعری کا وجود تھا اور نہ ائمہ اربعہ میں سے کوئی عالم وجود میں آیا تھا۔

پہلے زمانہ کے لوگ جہمور کے مذہب کو جانتے ہی نہ تھے

اس کے علاوہ زمانہ پیغمبر(ص) سے قریب زمانہ کے مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا  سنی انھوں نے ان مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کو اختیار ہی نہیں کیا۔ ان میں سے کسی ایک کے پابند ہی نہیں ہوئے اور ان مذاہب کو وہ اختیار بھی کرتے تو کیسے جب کہ ان مذاہب کا اس زمانے میں وجود بھی نہ تھا۔ اشعری( اصول دین میں آپ لوگ جن کے پیرو ہیں) سنہ270ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ320ھ میں انتقال کیا۔ ظاہر ہے کہ سنہ270ھ کے قبل کے مسلمان عقائد میں اشعری کیسے کہے جاسکتے ہیں۔ احمد بن حنبل سنہ164ھ

۲۳

میں پیدا ہوئے اور سنہ241ھ میں انتقال کیا۔ شافعی سنہ150ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ204ھ میں انتقال کیا۔ امام مالک سنہ95ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ 169ھ میں انتقال کیا۔ امام ابو حنیفہ سنہ 80 ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ150ھ میں انتقال کیا۔

خدا کے لیے انصاف تو فرمائیے کہ  جب اصول دین میں آپ کے پیشوا اشعری سنہ270ھ میں پیدا ہوں اور فروع دین میں آپ کے ائمہ اربعہ ابتداء زمانہ اسلام سے اتنے زمانہ کے بعد عالمِ وجود میں آئیں ، پھر اس سے پہلے کے مسلمانوں کے متعلق ، یہ کہنا کیونکر روا ہے کہ وہ بھی ان ہی مذاہب اربعہ کے پابند تھے اور ان کا مذہب بھی وہی تھا جو آج کل جمہور مسلمین کا ہے۔

ہم شیعیان اہلبیت(ع) تو ائمہ اہلبیت(ع) کے پیرو ہیں اور آپ لوگ یعنی جمہور مسلمین ، اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر صحابہ اور تابعین صحابہ کے پیرو ہیں۔ تو دورِ اول کے بعد کے تمام مسلمانوں پر ان مذاہب میں سے کسی نہ کسی ایک کو اختیار کرلینا۔ کسی نہ کسی ایک کا پابند ہو رہنا واجب کیونکر ہوگیا اور ان چاروں مذاہب سے پیشتر جو مذاہب رائج تھے ان میں کیا خامی تھی کہ ان سے کنارہ کشی کر لی گئی اور آپ کے ان مذاہب میں جو بہت بعد میں عالمِ وجود میں آئے ایسی کیا خوبی تھی کہ اہلبیت(ع) سے روگردانی کی گئی جو ہم پایہ کتابِ الہی کشتی نجات اور معدن رسالت ہیں۔

اجتہاد کا  دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے

یہ بھی غور طلب امر ہے کہ اجتہاد کا دروازہ اب کیوں بند ہوگیا جب کہ ابتدائے زمانہء اسلام میں پاٹوں پاٹ کھلا ہوا تھا۔ ہاں اب اگر اپنے کو

۲۴

 بالکل عاجز قرار دے لیا جائے یہ طے کر لیا جائے کہ ہم اجتہاد کرنا بھی چاہیں تو اب ہم سے نہیں ہوسکتا۔ ہم اس شرف سے محروم ہی رہیں گے تو یہ دوسری بات ہے ورنہ کون شخص اس کا قائل ہونا پسند کرسکتا ہے کہ خداواند عالم نے حضرت خاتم المرسلین(ص) کو بہترین شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا اور تمام کتب سماویہ سے افضل و اشرف کتاب قرآن مجید نازل کی۔ دین کو مکمل اور اپنی نعمتوں کو تمام کیا اور آںحضرت(ص) کو آئیند و گزشتہ باتیں بتا کر بھیجا تو وہ صرف اس لیے کہ یہی ائمہ اربعہ شریعت کے مالک و مختار ہو رہیں۔ انھیں سے پوچھے ، انھیں سے معلوم کرے ، ان کو چھوڑ کر دوسرے ذریعے سے حاصل کرنا چاہے خود جدوجہد کرکے معلوم کرنا چاہے تو نہ معلوم کرسکے۔ مختصر یہ کہ پوری شریعتِ اسلامیہ قرآنِ مجید، سنتِ رسول(ص) تمام دلائل و بینات سمیت ان کی جاگیر ہوجائے، ملکیتِ خاص بن جائے، ان کے حکم و رائے کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی رائے پر عمل کرنے کی کسی کو اجازت ہی نہ ہو۔

کیا یہی ائمہ اربعہ وارثِ نبوت تھے یا انھیں پر خداوند عالم نے ائمہ و اوصیاء کا سلسلہ ختم کیا، کیا انھیں کو آیندہ و گزشتہ کے علوم ودیعت کیے اور کیا بس انھیں کو وہ صلاحیتیں ملیں جو دینا بھر میں کسی اور کو نہیں ملیں، میرے خیال میں کوئی مسلمان بھی اس کا قائل نہ ملے گا۔

اتحاد کی آسان صورت یہ ہے کہ مذہب اہلبیت(ع) کو معتبر سمجھا جائے

 آپ نے جس اہم امر کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے یعنی یہ کہ فرقہ واریت ختم کی جائے اور تمام مسلمان شیعہ سنی ایک ہوجائیں تو بسم اﷲ یہ بہت مستحسن

۲۵

 اقدام ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کا ہونا بس اسی پر موقوف و منحصر نہیں کہ شیعہ اپنا مذہب چھوڑ دیں یا اہلسنت اپنے مذہب سے الگ ہوجائیں اور خاص کر شیعوں سے یہ کہنا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دیں ترجیح بلا مرجح ہے بلکہ در حقیقت مرجح کو ترجیح دینا ہے۔ ہاں یہ پراگندگی تب ہی دور ہوسکتی ہے اور اتحاد و اتفاق جب ہی پیدا ہوسکتا ہے جب آپ مذہب اہلبیت(ع) کو بھی مذہب سمجھیں اور اس کو بھی ان چاروں مذہبوں میں سے کسی ایک جیسا قرار دیں تاکہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، شیعہ کو بھی ان ہی نظروں سے دیکھیں جن نظروں سے آپس میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔اگر آپ جائزہ لیں تو خود مذاہب اہلسنت میں جتنے اختلاف موجود ہیں وہ شیعہ سنی اختلافات سے  کم نہیں ۔ لہذا صرف غریب شیعوں پر عتاب کیوں کیا جاتا ہے کہ وہ اہلسنت کے برخلاف ہیں۔ حضرات اہلسنت کو بھ شیعوں کی مخالفت پر سرزنش کیوں نہیں کی جاتی۔ بلکہ خود اہلسنت میں جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں کوئی حنفی ہے کوئی شافعی، کوئی مالکی ہے کوئی حنبلی تو انھیں اختلاف سے منع کیوں نہیں کیا جاتا لہذا جب ملتِ اسلامیہ میں چار مذہب ہوسکتے ہیں۔ چار مذہب ہونے پر کوئی لب کشائی نہیں کرتا تو پانچ ہونے میں کیا قیامت ہے؟ کس عقل میں یہ بات آسکتی ہے کہ چار مذاہب تک ہونے  میں کوئی خرابی نہیں، چار مذہبوں میں بٹ کر مسلمان متحد رہ سکتے ہیں اتحاد و اتفاق باقی رہ سکتا ہے لیکن اگر چار سے برھ کر پانچ ہوجائیں تو اتحاد رخصت ہوجائے گا۔ جمعیت اسلام پراگندہ و منتشر ہوجائے گی۔

آپ نے ہم شیعوں کو مذہبی وحدت کی طرف جو دعوت دی ہے کاش کہ آپ یہی دعوت مذاہب اربعہ کے دیتے یہ دعوت آپ کے لیے بھی آسان تھی اور ان کے لیے بھی یہ ہمیں کو مخصوص کر کے دعوت کیوں دی گئی ؟

۲۶

کیا آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اہلبیت(ع) کی اتباع و پیروی میں اتحاد رخصت ، رشتہء اخوت منقطع ، اہلبیت(ع) کی پیروی کرنے والوں کا دیگر مسلمانوں سے کوئی واسطہ نہیں، کوئی رابطہ نہیں اور اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر جس کی بھی پیروی کی جائے جسے بھی امام بنا لیا جائے دل ملے رہیں گے۔ عزائم ایک رہیں گے چاہے مذاہب مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ رائیں ایک دوسرے کے برخلاف ہی کیوں نہ ہوں، خواہشیں ایک دوسرے سے متضاد ہی کیوں نہ ہوں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کا بھی یہ خیال نہ ہوگا اور نہ آپ کو رسول(ص) کے اہلبیت(ع) سے اتنی پرخاش ہوگی آپ تو دوستدار قرابت داران پیغمبر(ص) ہیں۔

                                                     ش

۲۷

مکتوب نمبر 3

مولانائے محترم تسلیم !

آپ کا مفصل گرامی نامہ ملا۔ اس میں شک نہیں کہ آپ نے وصول و فروعِ دین دونوں میں جمہور کے مذہب کی پیروی واجب نہ ہونے کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ اجتہاد کا دروازہ ہنوز کھلے رہنے کو بھی تشفی بخش طور پر ثابت کیا۔ آپ نے گرامی نامہ میں ان دونوں مسئلوں پر ایسے ناقابل رد دلائل و براہین اکھٹا کردیئے ہیں کہ انکار یا تامل کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اب تو میں بھی آپ کا ہم خیال ہوں کہ یقینا جہمور کے مسالک کا اتباع کوئی ضروری نہیں نیز یہ کہ اجتہاد کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے۔

میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ لوگ بھی وہی مذہب کیوں اختیار نہیں کر لیتے جو جمہور مسلمین کا مسلک ہے۔ تو آپ نے یہ فرمایا کہ اس کے سبب ادلہ

۲۸

شرعیہ ہیں۔ آپ کو چاہیے تھا کہ اس چیز کو ذرا تفصیل سے بیان کرتے بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ کلام مجید یا احادیث نبوی(ص) سے ایسی قطعی دلیلیں پیش کریں جن سے یہ معلوم ہو کہ ائمہ اہل بیت(ع) ہی کی پیروی واجب و لازم ہے نہ کہ ان کے غیر کی۔

                                                             س

جواب مکتوب

مکرمی تسلیم !

آپ بحمدہ زیرک و دانا ہیں اسی لیے میں نے بجائے شرح و بسط کے اشارتا کچھ باتیں ذکر کر دی تھیں۔ توضیح کی ایسی کوئی ضرورت نہیں معلوم ہوتی تھی میرا خیال ہے کہ آپ کو ائمہ اہل بیت(ع) کے متعلق کسی قسم کا تردد نہ ہوگا۔ نہ ان کو ان کے غیروں پر ترجیح دینے میں کسی قسم کا پس و پیش ہونا چاہیے ۔ اہلبیت(ع) کی ذوات مقدسہ گمنام ہستیاں نہیں۔ ان کی عظمت و جلالت اظہر من الشمس ہے۔

اتباعِ اہلبیت(ع) کے وجوب پر ایک ہلکی سی روشنی

ان کا کوئی ہمسر ہوا نہ نظیر، انھوں نے پیغمبر(ص) سے تمام علوم سیکھے، اور دین و دنیا دونوں کے احکام حاصل کیے، اسی وجہ سے پیغمبر(ص) نے انھیں قرآن کا مثل ، صاحبانِ عقل و بصیرت کے لیے ہادی و پیشوا اور نفاق کے کی بخشش یقینی ہوگئی۔ عروہ وثقی ( مضبوط رسی) فرمایا جو کبھی ٹوٹے گی نہیں۔

۲۹

امیرالمومنین(ع) کا دعوت دینا مذہب اہلبیت(ع) کی طرف

اور حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں۔

     “ تم کہاں جارہے ہو؟ کدھر بھٹک رہے ہو ؟ حالانکہ علم ہدایت نصب ہیں، نشانیاں واضح ہیں، منارے کھڑے ہیں۔ تمہاری یہ سرگردانی کہاں پہنچائے گی تمہیں، بلکہ میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ تم بھٹک کیسے رہے ہو حالانکہ تمہارے درمیان اہلِ بیت(ع) پیغمبر(ص) موجود ہیں جو حق کی زمام ہیں، دین کے جھنڈے ہیں، سچائی کی زبان ہیں لہذا انھیں بھی قرآن کی طرح اچھی منزل پر رکھو اور تحصیل علم کے لیے ان کی خدمت میں پہنچو، جس طرح پیاسے اور تھکے ہارے چوپائے نہر کے کنارے پہنچتے ہیں، اے لوگو ! یہ یاد رکھو یہ ارشادِ پیغمبر(ص) ہے کہ ہم میں(1) سے کسی شخص کو اگر موت آجائے تو ظاہری حیثیت سے وہ مرجائے گا لیکن در حقیقت زندہ ہوگا اور یوں اس کا جسم خاک میں مل جائے گا لیکن واقعا خاک میں نہ ملے گا لہذا تم جو باتیں جانتے نہیں ہو اس کے متعلق لب کشائی نہ کرو کیونکہ زیادہ تر وہی باتین حق ہیں جن کا تم انکار کرتے ہو۔ معانی مانگو اس سے جس پر تم غلبہ نہیں پاسکتے اور وہ میں ہوں ۔ کیا میں نے تمھارے درمیان

--------------

1:-کیونکہ ان کی روح عالم ظہور میں کارفرما ہے۔ دنیا کو منور بنائے ہوئے ہے جیسا کہ شیخ محمد عبدہ مفتی دیار مصر وغیرہ نے کہا ہے۔

۳۰

 ثقل اکبر( یعنی قرآن) پر عمل نہیں کیا ؟ اور تم میں ثقلِ اصغر ( یعنی اپنے دونوں جگر گوشے حسن(ع) و حسین(ع) ) چھوڑنے والا نہیں ہوں؟ کیا میں نے تمہارے درمیان ایمان کا جھنڈا نہیں گاڑا؟”

نیز حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں :

“ اپنے نبی(ص) کے اہل بیت(ع)(1) پر نظر رکھو، ان کی پہچان کا پورا دھیان رہے، ان کے نقشِ قدم پر چلتے رہو، یہ تمہیں راہِ راست سے الگ نہ کریں گے اور نہ ہلاکت میں دالیں گے، اگر وہ ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر چل کھڑے ہوں تو تم بھی چل پڑو۔ ان سے آگے نہ  بڑھ جانا کہ گمراہ ہوجاؤ اور نہ پیچھے رہ جانا کہ ہلاکت میں پڑ جاؤ۔”

ایک مرتبہ آپ(ع) نے اہلبیت(ع) کا ذکر فرماتے ہوئے کہا:

“ وہ علم کی زندگی ہیں(2) ( ان کے دم سے علم زندہ ہے) جہالت کے لیے (پیام) موت ہیں۔ ان کے عمل کو دیکھ کر تم ان کے علم کا اندازہ کر سکو گے ، ان کے ظاہر کو دیکھ کر ان کے باطن کا اندازہ تمہاری سمجھ میں آجائے گا۔ ان کے سکوت سے تم سمجھو گے کہ ان کا کلام کس قدر جچاتلا ہوگا۔ نہ تو وہ حق کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ ان کے مابین حق میں اختلاف ہوتا ہے۔ وہ اسلام

--------------

1:-نہج البلاغہ، جلد اول، صفحہ 179 خطبہ93

2:-نہج البلاغہ، جلد2، صفحہ259، خطبہ234

۳۱

کے ستون ہیں، مضبوط سہارا ہیں۔ ان ہی کے ذریعے حق اپنی منزل پر ہنچا۔ باطل کو زوال ہوا اور باطل کی زبان جڑ سے کٹ گئی انھوں نے دین کو حاصل کیا۔ اس پر عمل کرنے اور ذہن نشین کرنے کے لیے صرف سننے سنانے کے لیے نہیں کیونکہ علم کے راوی تو بہت ہیں لیکن علم پر عمل کرنے والے، علم کا حق ادا کرنے والے بہت کم ہیں۔”

ایک دوسرے خطبہ میں آپ(ع) فرماتے ہیں :

“ پیغمبر(ص) کی عترت(1) عترتوں میں بہترین عترت ہے۔ آپ کا گھرانا تمام گھرانوں سے بہتر گھرانا ہے، آپ کا شجرہ بہترین شجرہ ہے۔ حرم کی چار دیواری میں وہ روئیدہ ہوا۔ اوج بزرگی تک بلند ہوا۔ اس درخت کی شاخین دراز اور پھل اس کے ناممکن الحصول ہیں۔”

نیز حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں:

“ ہم(2) ہی پیغمبر(ص) کی نشانیاں ہیں، ہم ہی اصحاب ہیں، ہم ہی خزینہ دار ہیں، ہم ہی دروازے ہیں، گھروں میں دروازے ہی سے آیا جاتا ہے۔جو شخص دروازے سے نہ آئے اسے چور کہا جاتا ہے۔ ”

آگے چل کر آپ اہل بیت(ع) کی توصیف فرماتے ہیں :

“ انھیں کی شان میں کلامِ مجید  کی بہترین آیتیں نازل ہوئیں یہی

--------------

1:-نہج البلاغہ، جلد اول، صفحہ 175، خطبہ 190

2:-نہج البلاغہ، جلد 1، صفحہ 58، خطبہ 150

۳۲

 اہل بیت(ع) خدا کے خزانے ہیں۔ اگر بولیں گے تو سچ بولیں گے، اور اگر خاموش رہیں گے تو ان پر سبقت نہ کی جا سکے گی۔”

ایک اور خطبہ میں آپ فرماتے ہیں :

“ سمجھ(1) رکھو تم ہدایت کو اس وقت تک جان نہیں سکتے جب تک تم یہ نہ جان لو کہ کون راہِ ہدایت سے منحرف ہے۔ کتابِ خدا کے عہد و پیمان پر عمل نہیں کرسکتے جب تک تم یہ نہ معلوم کر لو کہ کس کس نے عہد شکنی کی۔ قرآن سے اس وقت تک متسک نہیں ہوسکتے جب تک قرآن چھوڑ دینے والوں کو پہچان نہ لو۔ لہذا اس کو قرآن والوں سے پوچھو ، اہل بیت(ع) سے دریافت کرو وہ علم کی زندگی ہیں جہالت کے لیے موت ہیں۔ اہل بیت(ع) ہی ایسے ہیں کہ ان کے حکم سے تمہیں پتہ چلے گا کہ کتنا علم رکھتے ہیں۔ ان کی خاموشی سے تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ کس قدر متین اور جچی تلی گفتگو کرنے والے ہیں۔ ان کے ظاہر کو دیکھ کر تمہیں ان کے باطن کا اندازہ ہوگا۔ نہ تو وہ دین کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ دین میں ان کے مابین کوئی اختلاف ہوتا ہے۔ پس گویا دین ان کے درمیان شاہد بھی ہے، صادق بھی، خاموش بھی ہے گویا بھی۔”

اس موضوع پر بکثرت ارشادات آپ کے موجود ہیں چنانچہ ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

      “ ہم ہی سے تم نے تاریکیوں میں ہدایت پائی۔ ہمارے ہی ذریعہ

--------------

1:-نہج البلاغہ، جلد2، صفحہ73، خطبہ 14

۳۳

 بلندیوں پر فائز ہوئے۔ ہماری ہی وجہ سے تاریکیوں سے نکلے بہرے ہوجائیں وہ کان جو سنیں اور سن کر یاد نہ رکھیں(1) ۔” 

ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

             “ اے(2) لوگو! روشنی حاصل کرو اس شخص کے چراغ کی لو سے جو تمہیں نصیحت کرنے والا بھی ہے اور خود بھی مطابق نصیحت عمل کرنے والا ہے اور پانی بھر لو اس پاک و صاف چشمہ سے جس کا پانی نتھرا ہوا ہے۔”

ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

             “ ہم شجرہ نبوت(3) (ص) ہیں۔ ہم منزل رسالت ہیں، ہم ملائکہ کی جائے آمدو رفت ہیں، علم کے خازن ہیں، حکمتوں کے سرچشمہ ہیں، ہمارے مددگار اور دوست منتظرِ رحمت اور ہمارے دشمن ہم سے کینہ رکھنے والے خدا کے قہر و غضب کے منتظر ہیں۔”

ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

                     “ کہاں(4) گئے وہ جو ہم سے سرکشی کر کے ہم پر کذب و افترا کر کے ہمارے

--------------

1 ـ  نہج البلاغہ، جلد 1، صفحہ33، خطبہ3

2 ـ  نہج البلاغہ، جلداول، خطبہ301

3 ـ  نہج البلاغہ، جلد اول، صفحہ214 خطبہ 105 ابن عباس کا قول ہے کہ ہم اہل بیت(ع) شجرہ نبوت ہیں، ملائکہ کی جائے آمدو رفت ہیں۔ رسالت کے گھرانے والے ہیں، رحمت کے گھر والے ہیں، علم کے معدن ہیں، ان کے اس فقرہ کو محققین علماء اہلسنت نے نقل کیا ہے۔ چنانچہ صواعق محرقہ صفحہ 143 پر بھی منقول ہے۔

4 ـ  نہج البلاغہ، جلد 2، صفحہ36

۳۴

 مقابلے میں اپنے کو راسخون فی العلم بتاتے تھے آئیں اور دیکھیں کہ ہم کو خدا نے رفعت بخشی انھیں پست کیا، ہمیں مالا مال کردیا انھیں محروم رکھا، ہمیں اپنی رحمت میں رکھا انھیں نکال باہر کیا ہم سے ہدایت چاہی جاتی ہے، ہم سے آنکھوں میں نور لیا جاتا ہے ، یقینا ائمہ قریش ہی سے جو ہاشم کی نسل سے ہوں گے امامت بنی ہاشم کے سوا کسی کے لیے لائق و سزاوار ہی نہیں اور نہ بنی ہاشم کے علاوہ کسی کو  حکومت زیب دے سکتی ہے ۔۔۔۔”

اسی سلسلہ میں آپ نے اپنے مخالفین سے فرمایا :

     “ ۔۔۔۔ انھوں نے دنیا کو اختیار کیا اور آخرت کو پیچھے کردیا۔ پاک و صاف چشمے کو چھوڑ کر گدلے پانی سے سیراب ہوئے۔ ”اسی طرح آخرِ خطبہ تک عنوان کلام ہے۔

آپ ہی کا یہ قول بھی ہے کہ :

“ تم میں(1) سے جو شخص اپنے بستر پر مرے اور وہ اپنے پروردگار اپنے رسول(ص) اور اہلبیت(ع) رسول(ص) کے حقوق کو پہچانتا ہوا مرے تو شہید مرے گا۔ اس کا اجر خدا کے ذمہ ہوگا اور جس نیک کام( جہاد فی سبیل اﷲ) کی نیت رکھتا تھا اس کی بھی جزا پائے گا۔ اور اس کی نیت اس کی تلوار کشی کی قائم مقام ہوجائے گی۔”

ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا:

             “ ہم(2) ہی شرفاء ہیں ہمارے بزرگ بزرگانِ انبیاء ہیں ہماری

--------------

1 ـ  نہج البلاغہ، جلد2، صفحہ156، خطبہ85

2 ـ  صواعق محرقہ، صفحہ142

۳۵

 جماعت خدا کی جماعت ہے اور باغی گروہ شیطان کی جماعت ہے۔ جو شخص ہمیں اور ہمارے دشمن کو برابر رکھے وہ ہم سے نہیں۔”

امام حسن(ع) نے ایک موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا :

             “ ہمارے بارے میں خدا سے ڈرو کیونکہ ہم تمھارے امیر و حاکم ہیں(1) ۔”

امام زین العابدین(ع) کا ارشادِ گرامی

امام زین العابدین علیہ السلام جب اس آیت کی تلاوت فرماتے :

             “ اے لوگو ! خدا سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔”

تو آپ دیر تک خدا سے دعا فرماتے جس میں صادقین کے درجے سے ملحق ہونے اور اندراج عالیہ کی خواستگاری فرماتے، مصائب و شدائد کا ذکر کرتے اور ائمہ دین خانوادہ رسالت(ص) کو چھوڑ دینے والے بدعتی لوگوں نے جن چیزوں کی دین کی طرف نسبت دے رکھی ہے اس کا تذکرہ کرتے پھر فرماتے :

             “  اور کچھ لوگ ہمیں ہمارے درجے سے گھٹانے پر اتر آئے۔ کلام مجید کی متشابہ آیتوں سے کام نکالنے لگے۔ انھوں نے ان آیتوں کی من مانی تاویلیں کیں اور ہمارے متعلق جو کچھ ارشاداتِ پیغمبر(ص) ہیں ان کو متہم قرار دے دیا۔”

اسی سلسلہ میں آپ فرماتے :   “ اے پالنے والے ! اس امت کی نافرمانی کی کس سے فریاد کی جائے حالت یہ ہے کہ اس ملت کی نشانیاں خاک  میں مل گئیں اور امت

--------------

1 ـ  صواعق محرقہ، صفحہ134

۳۶

نے فرقہ پرستی اور اختلاف کو اپنا دین بنالیا۔ایک دوسرے کو کافر بتانے لگے۔ حالانکہ خداوند عالم کا ارشاد ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو فرقہ فرقہ ہوگئے اور اختلافات میں پڑگئے۔ بعد اس کے کہ ان کے پاس روشن نشانیاں آچکی تھیں لہذا حجت پہنچانے اور حکم کی تاویل میں  سوا ان کے جو ہم پلہ کتاب الہی ہیں ابنائے ائمہ ہدایت ہیں، تاریکیوں کے روشن چراغ ہیں، جن کے ذریعہ خدا نے بندوں پر اپنی حجت قائم کی اور اپنی مخلوق کو بغیر اپنی حجت  کے نہیں چھوڑا کون بھروسہ کے قابل ہوسکتا ہے۔ تم انھیں پہچاننا اور پانا چاہو تو شجرہ مبارکہ کی شاخ اور ان پاک و پاکیزہ ذوات کے بقیہ افراد پاؤ گے جن سے خدا نے ہر گندگی کو دور رکھا اور ان کی طہارت کی تکمیل کی۔ انھیں تمام آفتوں سے بری رکھا اور کلام مجید میں ان کی محبت واجب کی۔(1)

یہ امام(ع) کی اصل عبارت کا ترجمہ ہے ۔ غور سے ملاحظہ فرمائیے ۔ یہ عبارت اور امیرالمومنین(ع) کے جتنے فقرے ہم نے ذکر کیے یہ نمایاں طور پر مذہب شیعہ کو پیش کرتے ہیں۔ ایسے ہی متواتر اقوال دیگر ائمہ کرام کے ہمارے صحاح میں موجود ہیں۔

                                                             ش

--------------

1 ـ  صواعق محرقہ، تفسیر آیتواعتصموا ----الخ فصل اول، باب 11، صفحہ90

۳۷

مکتوب نمبر4

کلام مجید یا احادیثِ پیغمبر(ص) سے دلیل کی خواہش

مولانا ئے محترم !

کلام مجید یا حدیثِ نبوی(ص) سے کوئی ایسی دلیل پیش کیجیے جسے سے معلوم ہو کہ ائمہ اہل بیت(ع) ہی کی پیروی واجب ہے۔ قرآن و حدیث کے ماسوا چیزوں کو رہنے دیجیے۔ کیونکہ آپ کے ائمہ کا کلام مخالفین کے لیے حجت نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کے کلام سے استدالال اس مسئلہ پر دور کا مستلزم ہے۔ آپ ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی واجب ہے اور آپ دلیل میں انھیں ائمہ اہلبیت(ع) کا قول پیش کرتے ہیں جن کی پیروی سی محل بحث ہے۔

                                                             س

۳۸

جواب مکتوب

ہماری تحریر پر غور نہیں کیا گیا

آپ نے غور نہیں کیا ۔ ہم نے حدیث سے ابتدا ہی میں ثبوت پیش کردیا تھا۔ اپنے مکتوب میں یہ لکھتے ہوئے کہ بس ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی ہم پر واجب ہے نہ کسی غیر کی۔ ہم نے حدیث اشارتا ذکر کردی تھی۔ ہم نے یہ لکھا تھا کہ پیغمبر(ص) نے انھیں کتاب خدا کے مقارن صاحبانِ عقل کے لیے مقتدی، نجات کا سفینہ، امت کے لیے امان قرار دیا ہے، باب حطہ فرمایا۔ تو میری یہ عبارت انھیں مضامین کی احادیث کی طرف اشارہ تھی جو کہ اکثر و بیشتر کتبِ احادیث میں موجود ہیں۔ ہم نے یہ بھی لکھ دیا تھا کہ آپ ماشاء اﷲ ان لوگوں میں ہیں جن کے لیے اشارہ ہی کافی ہے، تصریح کی ضرورت نہیں۔ لہذا جب ہمارے ائمہ کی اطاعت و پیروی کے متعلق اتنی کثرت سے احادیث موجود ہیں تو اب ان کے اقوال مخالفین کے مقابلہ میں بطور استدالال پیش کیے جاسکتے ہیں اور کسی طرح دور لازم نہیں آتا ۔ ہم نے اقوال پیغمبر(ص) کی طرف ابتداء میں اشارہ جو کیا تھا ان کی تفصیل بھی کیے دیتے ہیں۔ پیغمبر(ص) نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمایا :

حدیثِ ثقلین

ببانگ دہل اعلان فرمایا :

“يا ايها الناس انی تارک --------الخ ”

۳۹

             “ اے لوگو! میں تم  میں ایسی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم انھیں اختیار کیے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتابِ خدا دوسرے میرے اہل بیت(ع)(1) ۔”

یہ بھی ارشاد فرمایا :

             “ میں نے تم میں ایسی چیزیں چھوڑیں کہ اگر تم ان سے محبت کرو تو کبھی گمراہ نہ ہو۔ ایک کتابِ خدا جو ایک رسی ہے آسمان سے زمین تک کھینچی ہوئی، دوسرے میرے عترت و اہلبیت(ع)۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوضِ کوثر پر پہنچیں۔ دیکھنا میرے بعد تم ان سے کیونکر پیش آتے ہو(2) ۔”

یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ:

             “ میں تم میں اپنے دو جانشین چھوڑے جاتا ہوں، ایک کتابِ خدا جو ایک دراز رسی ہے آسمان سے لے کر زمین تک۔ دوسرے میری عترت و اہل بیت(ع)۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں(3) ۔”

--------------

1 ـ  ترمذی و نسائی نے جناب جابر سے روایت کی ہے اور ان دونوں سے ملا متقی نے کنزالعمال جلد اول صفحہ44۔ باب اعتصام الکتاب والسنہ کے شروع میں نقل کیا ہے۔

2 ـ  ترمذی نے زید ابن ارقم سے روایت کی ہے کنزالعمال جلد اول صفحہ 44 پر بھی موجود ہے۔

3 ـ  امام احمد نے زید ابن ثابت سے دو صحیح طریقوں سے اس کی روایت کی ہے پہلے مسند صفحہ 183۔184 جلد 5، کے بالکل آخر میں طبرانی نے بھی معجم کبیر میں زید بن ثابت سے روایت کیا ہے کنزالعمال جلد اول صفحہ 44 پر بھی موجود ہے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

موالات رکھی اس نے خدا اور رسول(ص) سے موالات رکھی اور جس نے علی سے عداوت رکھی اس نے خدا و رسول(ص) سے عداوت رکھی(۱) ۔ جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے خدا و رسول(ص) کو اذیت دی(۲) ۔ جس نے علی(ع) کو سب وشتم کیا اس نے خدا و رسول(ص) کو سب و شتم کیا(۳) ۔ علی(ع) نیکوکاروں کے اما م، بدکاروں کے قتل کرنے والے ہیں ۔ جس نے علی (ع) کی مدد کی وہ منصور ہوا، جس نے علی(ع) کی مدد سے گریز کیا ذلیل و خوار ہوا۔(۴) ، علی(ع) مسلمانوں کے سردار ،متقین کے امام، روشن پیشانی والوں کو جنت تک لے جانے والے ہیں(۵) ۔ علی (ع) ہدایت کا علم ہیں، اولیائے خدا کے امام ہیں، نور ہیں، فرمانبردارانِ الہی کے لیے ، اور وہ کلمہ ہیں جسے خدا نے متقین پر لازم کیا ہے۔(۶)

--------------

۱ـ صفحہ ۲۹۴ کی حدیث نمبر۲۳ سے اس کی وضاحت ہوتی ہے نیز رسول(ص) کا یہ ارشاد“ اللَّهُمَّ وَالِ‏ مَنْ‏ وَالاهُ‏ وَ عَادِ مَنْ عَادَاه‏”   ہی  کافی ہے اس کے ثبوت کے لیے۔

۲ـ اس کے ثبوت کے لیے عمرو بن شاس والی حدیث سن چکے ہیں جس میں رسول(ص) نے فرمایا کہ جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی” عمرو بن شاس کی حدیث کو امام احمد نے مسند ج۳ صفحہ۴۷۳ پر امام حاکم نے مستدرک ج۳ صفحہ۱۲۴ پر ذہبی نے تلخیص مستدرک میں اسی صفحہ پر اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے ذکر کیا ہے ۔ نیز بخاری نے تاریخ میں ابن سعد نے طبقات میں ابن ابی شیبہ نے اپنے مسند میں طبرانی نے معجم کبیر میں بھی اس کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال ج۶ صفحہ ۴۰۰ پر بھی موجود ہے۔

۳ـ جیسا کہ صفحہ ۲۸۹ میں اٹھارہویں  حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔

۴ـ جیسا کہ صفحہ ۲۷۷ کی پہلی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔

۵ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ ۲۷۷ پر حدیث نمبر۲َ ، ۳، ۴، ۵۔

۶ـ صفحہ ۲۷۷ پر چھٹی حدیث ملاحظہ کیجیے۔

۴۰۱

یہی  علی(ع) صدیق اکبر ہیں، اس امت کے فاروق ہیں، مومنین کے سردار ہیں(۱) ، یہ بمنزلہ فرقانِ عظیم اور ذکر حکیم کے ہیں(۲) ۔ علی (ع) رسول(ص) کے لیے ایسے ہیں جیسے موسی(ع) کے لیے ہارون تھے۔(۳)

علی(ع) کو رسول(ص) سے وہی منزلت حاصل ہے جو منزلت رسول(ص) کو خدا سے ہے(۴) ۔ علی(ع) رسول(ص) کے لیے ایسے ہیں جیسے بدن کے لیے سر(۵) ، علی (ع) مثلِ نفس رسول(ص) کے ہیں(۶) ۔ خداوندِ عالم نے تمام روئے زمین کے باشندوں پر نظر ڈالی اور رسول(ص) و علی(ع) کو منتخب کیا(۷) ۔ رسول(ص) کا ایک یہی ارشاد لے لیجیے جو آپ نے حجة الوداع کے موقع پر یوم عرفات فرمایا تھا کہ میرے فرائض کی ادائگی علی(ع) ہی کرسکتے ہیں۔(۸)

--------------

۱ـ جیسا کہ صفحہ ۲۸۰ کی حدیث نمبر۷ سے واضح ہوتا ہے۔

۲ـ مکتوب نمبر ۴ میں آپ صحیح حدیثیں اس کے ثبوت میں سن چکے ہیں ان احادیث کے دیکھنے کے بعد صاحب بصیرت کے لیے تو پھر کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ صفحہ ۳۱۵ پر یہ حدیث بھی ذکر کی گئی “إِنَّ عَلِيّاً مَعَ‏ الْقُرْآنِ‏، وَ الْقُرْآنَ مَعَ عَلِيٍّ، لَا يَفْتَرِقَان‏” علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے ۔

۳ـ جیسا کہ م ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، اور ۱۷ تک ہماری تحریر سےوضاحت ہوتی ہے۔

۴ـ جیسا کہ صفحہ۲۸۵ کی تیرہویں حدییث سے ثابت ہوتا ہے۔

۵ـ صفحہ ۳۱۶ پر حدیث  “عَلِيٌّ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ رَأْسِي‏ مِنْ‏ بَدَنِي‏.” ذکر کی جاچکی ہے۔

۶ـ جیسا کہ آیت مباہلہ بتاتی ہے نیز عبدالرحمن بن عوف کی حدیث جسے ہم نے صفحہ ۳۱۶ کے آخر میں درج کیا ہے۔

۷ـ جیسا کہ ہم صفحہ ۴۰۹ تا صفحہ ۴۱۰ پر اس کے متعلق صریحی احادیث ذکر کرچکے ہیں۔

۸ـ ملاحظہ ہو صفحہ ۲۸۵ پر حدیث نمبر۱۵ اور اس حدیث پر جو ہم نے حاشیہ تحریر کیا ہے وہ بھی دیکھیے۔

۴۰۲

اس کے علاوہ بکثرت ایسی خصوصیات سے پیغمبرف(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو سرفراز کیا جو صرف وصی ہی کے لیے زیب دیتی ہیں اور قائم مقام پیغمبر ہی کے لیے مناسب ہیں۔

لہذا ان خصوصیات اور مخصوص فضائل و کمالات کے بعد امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے سے انکار کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے کتنی حدیثوں کو جھتلایا جائے گا اور کہاں تک جھٹلایا جاسکتا ہے۔

حضرات اہل سنت جو امیرالمومنین (ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے سے انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر امیرالمومنین(ع)ٰ کو وصی رسول(ص) تسلیم کر لیا جائے تو پھر خلفائے ثلاثہ کی خلافت باطل ہوجاتی ہے۔

اور بخاری وغیرہ نے طلحہ بن مصرف والی حدیث جو ذکر کی ہے جس میں ہے ک میں نے عبداﷲ بن ابی اوفیٰ سے پوچھا کہ کیا رسول(ص) نے وصیت فرمائی؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں ۔ میں نے کہا: رسول(ص) لوگوں پر تو وصیت کرنا واجب کریں اور خود وصیت نہ کریں ۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ آںحضرت(ص) نے کتابِ خدا کے متعلق وصیت فرمائی۔ یہ حدیث ہمارے لیے حجت نہیں اور نہ ہمارے جواب میں پیش کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ہم لوگوں کے یہاں  یہ ثابت نہیں۔ مزید برآں یہ تو سیاست کی کارسازیاں تھیں۔ حکومت کے جبر و تشدد کا نتیجہ ہے۔ ان سب باتوں  سے قطع نظر سچی بات تو یہ ہے کہ امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کے متعلق ائمہ طاہرین(ع) سے صحیح و متواتر حدیثیں موجود ہیں لہذا ان حدیثوں کی معارض حدیثیں رد کردی جائینگی ۔

اس کے علاوہ امیرالمومنین(ع) کا وصی پیغمبر(ص) ہونا تو ایسا اظہر من الشمس ہے جس پر دلیل و برہان پیش کرنے کی ضروت ہی نہیں۔ خود عقل(۱) بتاتی ہے ۔ وجدان

--------------

۱ـ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ رسول(ص) اپنی امت کو تو وصیت کا حکم دیں اتنی سختی فرمائیں اور خود وصیت نہ کریں در آنحالیکہ  اوروں کی نسبت پیغمبر(ص) کا وصیت فرمانا زیادہ ضروری تھا کیونکہ کسی اور مرنے والے نے نہ تو ایسا ترکہ چھوڑا جیسا رسول(ص) نے چھوڑا اور نہ ایسے ایتام چھوڑے جیسے رسول(ص) نے چھوڑے نہ کسی اور کے متروکات نہ ورثہ نگران کار و سرپرست کے ایسے محتاج ہوئے جیسا رسول(ص) کی چھوڑی ہوئی  چیزیں کسی منتظم و نگران کی محتاج تھیں۔ یا

۴۰۳

رسول(ص) کے چھوڑے ہوئے ایتام سرپرست کے ضرورت مند تھے پناہ بخدا رسول(ص) بھلا اپنے قیمتی ترکہ یعنی شریعت الہیہ ، احکام الہی کو یونہی چھوڑ جائیں اور اپنے ایتام یعنی تمام روئے زمین کے باشندوں کو یونہی بے سہارا چھوڑ دیں کہ وہ ٹھوکریں کھاتے پھرین اور اپنی خواہشوں کے مطابق چلتے پھرتے رہیں اور ایسا نگران و منتظم نہ چھوڑیں جس کے ذریعہ بندوں پر خدا کی حجت تمام ہو۔ علاوہ اس کے وجدان بھی یہی کہتا ہے کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو اپنا وصی ضرور مقرر کیا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو اپنے غسل و حنوط و کفن و دفن کا حکم دیا ۔ دیون کی ادائگی ذمہ داریوں سے بری الذمہ بنانے اور اختلاف کے وقت حق کی وضاحت کرنے کی تاکید کی ، نیز لوگوں کو بھی با خبر کردیا کہ ہمارے بعد علی(ع) تمھارے ولی ہیں ۔ اس کے علاوہ اور خصوصیات امیرالمومنین(ع) کے بھی ان کے گوش گزار کردیے جنھیں ہم اس کے شروع میں اشارتا ذکر کرچکے ہیں لہذا ہمارا وجدان بتاتا ہے کہ یقینا رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کو اپنا وصی فرمایا ہوگا اور بغیر وصی بنائے دنیا سے نہیں اٹھے۔

۴۰۴

 دلالت کرتا ہے کہ یقینا رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو اپنا وصی مقرر فرمایا۔

اور بخاری نے ابن ابی اوفیٰ سے یہ جو روایت کی ہے کہ آںحضرت(ص) نے کتاب خدا کے متعلق وصیت فرمائی تو یہ درست ہے مگر رسول(ص) کا پورا ارشاد نہیں ذکر کیا گیا۔ کیونکہ رسول(ص) نے جہاں کتاب خدا کے متعلق وصیت فرمائی وہاں اہل بیت(ع) سے تمسک کرنے  کا بھی حکم دیا۔ ایک ساتھ دونوں سے تمسک کی

۴۰۵

 تاکید کی اور امت سے فرمایا تھا کہ خداوندعالم کی دونوں رسیوں کو مضبوطی سے تھامے رہنا اور ڈرا دیا تھا کہ اگر دونوں سے تمسک نہ کروگے تو گمراہ ہوجاؤ گے اور یہ بھی امت کے جتادیا تھا کہ قرآن و اہلبیت(ع) کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں۔

اس باب میں بکثرت متواتر حدیثیں ائمہ طاہرین(ع) سے مروی ہیں اہلبیت طاہرین(ع) کے علاوہ اغیار  کی روایت ہوئی متعدد حدیثیں ہم گزشتہ اوراق میں ذکر کرچکے ہیں۔     ش

۴۰۶

مکتوب نمبر۳۶

افضل ازواج

 یہ آخر آپ جناب عائشہ ام المومنین جو افضل ازواج نبی(ص) ہیں ان سے کیوں روگردان ہیں کہ آپ نے ان کی حدیث کو پس پشت ڈال دیا؟ گویا کچھ حقیقت ہی نہیں اس کی ۔ حالانکہ انھیں کا قول فیصلہ کن ہے ۔  جو وہ فیصلہ فرمادیں وہی مبنی بر انصاف ہوگا۔ پھر بھی آپ کی جو رائے ہو اس اعراض کی وجہ بتائیے کہ ہم بھی سوچیں سمجھے۔                 س

۴۰۷

جوابِ مکتوب

جناب عائشہ افضل ازواج نبی(ص) نہ تھیں

جناب عائشہ کا افضل ازواج نبی(ص) ہوناتسلیم  کے قابل نہیں۔ جناب عائشہ افضل ازواج نبی(ص) ہوبھی کیونکر سکتی ہیں، ان کی رد میں خود ان سے صحیح حدیث مروی ہے۔ جناب عائشہ فرماتی ہیں کہ :

“ ایک دن پیغمبر(ص) نے جناب خدیجہ کا تذکرہ فرمایا تو مجھے برا معلوم ہوا۔ میں نے کہا: وہ تو بڑھیا تھیں ایسی تھیں ویسی تھیں اور خداوند عالم نے آپ کو ان سے اچھی بیوی دی( اشادہ تھا اپنی طرف) آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا : خداوند عالم نے اس سے اچھی بیوی مجھے نہیں دی۔ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب سب میرا انکار کرتے تھے اور اس وقت میری تصدیق کی جب سب جھٹلاتے تھے اور اس وقت انھوں نے اپنے مال میں شریک بنایا جب سب نے مجھے محروم کر رکھا تھا اور خدا نے مجھے ان سے اولاد مرحمت کی اور دوسری بیویوں سے اولاد نہ دی۔”(۱)

--------------

۱ـ یہ حدیث اور اس کے بعد والی حدیث بہت مشہور صحیح احادیث میں سے ہے ملاحظہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جو میں نے ابھی عرض کیے یہ دونوں حدیثیں موجود ہیں قریب قریب انھیں الفاظ کے ساتھ بخاری و مسلم نے بھی اپنی صحیحین میں ان دونوں حدیثوں کو ذکر کیا ہے۔

۴۰۸

جناب خدیجہ تمام ازواج میں افضل ہیں

جناب عائشہ سے یہ حدیث بھی مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ :“ رسول اﷲ(ص) جب تک خدیجہ کا ذکر نہ کر لیتے اور ان کی خوب مدح و ثناء نہ فرما لیتے گھر سے جاتے نہیں ۔ ایک دن آپ نے حسب دستور خدیجہ کا ذکر فرمایا تو مجھے بڑی غیرت معلوم ہوئی میں نے

کہا: ہو تو بڑھیا تھیں اور اب خدا نے ان سے بہتر بیوی آپ کو کو دی یہ سن کر رسول(ص) غصہ سے بھر گئے ۔ غیظ و غضب کا یہ عالم تھا کہ سر کے آگے کے بال غصہ کے مارے ہلنے لگے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا : خدا کی قسم ان سے بہتر بیوی مجھے نہیں ملی۔ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب سب لوگ کفر اختیار کیے ہوئے تھے۔ اس وقت میری تصدیق کی جب سب مجھے جھٹلاتے تھے اور اپنا کل مال و زر میرے حوالے کردیا، جب سب مجھے محروم کیے ہوئے تھے اور انھیں کے بطن سے خدا نے مجھے اولاد مرحمت فرمائی ۔ اور دوسری بیویوں سے کوئی اولاد مجھے نہ دی۔”

لہذا ازواج رسول(ص) میں سب سے افضل و اشرف جناب خدیجہ الکبری ہیں جو اس امت کی صدیقہ ہیں جو سب سے پہلے ایمان لائیں جنھوں نے سب سے پہلے کتاب خدا کی تصدیق کی، رسول(ص) سے ہمدردی کی ، رسول(ص) پر وحی

۴۰۹

 نازل ہوئی تھی کہ جناب خدیجہ کو بشارت(۱) دے دیں کہ ان کے لیے جنت میں جواہرات کا گھر ہے۔ رسول(ص) نے صاف لفظوں میں صراحت فرمادی تھی کہ جناب خدیجہ سب سے افضل و اشرف ہیں چنانچہ آپ نے فرمایا:

“ جنت کی عورتوں میں چار عورتیں سب سے بہتر ہیں۔ خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بن محمد(ص)، آسیہ بن مزاحم، مریم بنت عمران”

آںحضرت(ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا :

“ تمام عالم کی عورتوں میں سب سے بہتر مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بن محمد(ص)، اور آسیہ زن فرعون ہیں۔”

اسی طرح اور بہت سی صریحی حدیثیں پیغمبر(ص) کی ہیں جو جملہ احادیث نبوی(ص) اور ارشادات پیغمبر(ص) میں صحیح تر اور ثابت تر ہیں۔(۲)

اس کے علاوہ ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جناب خدیجہ کے علاوہ دیگر ازواج پیغمبر(ص) سے بھی جناب عائشہ کو افضل کہنا درست نہیں۔ صحیح حدیثیں ، معتبر روایات و اخبار بتاتے ہیں کہ جناب عائشہ کو دیگر ازواج پر کوئی فضیلت نہ تھی جیسا کہ صاحبان نظر و ارباب عقل سے پوشیدہ نہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ جناب عائشہ نے اپنے کو نمقابلہ دیگر ازواج پیغمبر افضل و اشرف خیال کیا مگر رسول(ص) نےے تردید کر دی جیسا کہ جناب صیغہ بنت حی کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے۔

--------------

۱ـ جیسا کہ امام بخاری نے صحیح بخاری جلد۳ صفحہ۱۷۵ باب غیرة النساء اواخر کتاب النکاح میں روایت کی ہے

۲ـ ہم نے اپنی کتاب کلمہ غراء میں اسے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

۴۱۰

“ رسول(ص) جناب صفیہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں۔ آپ نے رونے کی وجہ پوچھی ۔ صفیہ نے جواب دیا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ عائشہ اور حفصہ میری برائیاں کرتی رہتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم صفیہ سے بہتر ہیں۔ آںحضرت (ص) نے فرمایا : تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ تم دونوں مجھ سے بہتر کیونکر ہوسکتی ہو ۔ میرے مقابلہ میں تمھاری کیا حقیقت ہے؟ میرے باپ جناب ہارون(ع)، اور چچا جناب موسی(ع)، شوہر محمد مصطفی(ص) ہیں جو خاتم النبیین(ص) ہیں۔(۱) جناب عائشہ کے حالات ملاحظہ فرمائیے ، ان کے افعال و اقوال میں ان کی حرکتوں کا جائزہ لیجیے تو ہمارے قول کی صداقت آپ پر واضح ہوجائے گی۔

رہ گیا یہ کہ وصیت پیغمبر(ص) کے متعلق جو حدیث وہ بیان کرتی ہیں اسے ہم کیوں نہیں مانتے تو مختصر یہ سمجھ لیجیے کہ ان کی حدیث حجت نہیں۔ اب کیوں نہیں حجت ہے؟ کن اسباب کے پیش نظر ہم ان کی حدیث کو قابل اعتبا نہیں سمجھتے اسے نہ پوچھیے تو بہتر ہے۔

                                                             ش

--------------

۱ـ ترمذی نے بطریق کنانہ مولی ام المومنین صفیہ سے روایت کی ہے اس حدیث کی اور ابن عبدالبر نے حالات صفیہ کے ذیل میں استیعاب میں اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اور ابن حجر عسقلانی نے بھی اپنی اصابہ میں ضمن حالات جناب صفیہ اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ نیز شیخ رشید رضا نے اپنے جریدہ شمارہ نمبر ۱۰ صفحہ ۵۸۹ پر ذکر کیا ہے ۔ اس کے علاوہ اور بہت سے حضرات نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔

۴۱۱

مکتوب نمبر ۳۷

آپ ان لوگوں میں ہیں جو نہ کسی کو دھوکا دیتے ہیں نہ مکرو فریب سے کام لیتے ہیں اور نہ ان لوگوں میں سےہیں جو دل میں کچھ اور زبان سے کچھ کہتے ہیں آپ براہ کرم تفصیل فرمائیے ۔ یہ بہت ضروری ہے ، میں حق کا طلبگار ہوں لہذا بجز تشریح و تفصیل آپ کے لیے کوئی چارہ نہیں۔

                                                             س

جواب مکتوب

حضرت عائشہ سے اعراض کے وجوہ

آپ تفصیل پر مجھے مجبور کر رہے ہیں حالانکہ تشریح و تفصیل آپ کے لیے

۴۱۲

چندان ضروری نہ تھی کیونکہ آپ بے خبر نہیں کہ سب عائشہ ہی کا کیا دھرا ہے

                                ع   اے باد صبا این ہمہ آوردہ تست۔(۱)

انھیں کی وجہ سے ہم لوگوں کو یہ دن دیکھنے میں آئے ۔ انھیں نے امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کو نسیا منسیا کیا۔ دنیا سے چھپایا کسی کو خبر نہ ہونے دی اور اگر کسی دوسرے ذریعہ سے پتہ چل بھی گیا تو غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ صاف و صریح ارشادات پیغمبر(ص) واضح نصوص کو محو کرنے مٹانے کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کردیں۔ جتنی آفتیں ٹوٹیں انھیں کی وجہ سے ۔ اہل بیت(ع) پر جتنی مصیبتیں نازل ہوئیں آپ ہی کی بدولت ، سارے فتنہ و فساد ، ہر بلا و مصیبت کی جڑ یہی ہیں جنھوں نے امیرالمومنین(ص) سے جنگ کرنے کے لیے شہر بہ شہر دورہ کیا اور آپ کی خلافت چھیننے اور تخت سلطنت الٹنے کی فکر میں لشکر لے کر حملہ آور ہوئیں۔ جو کچھ ہوا اس کا کیا ذکر کروں آپ اچھے ہی خیالات رکھیے ۔ حقیقت کا سوال نہ کیجیے۔ لہذا امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) نہ ہونے پر جناب عائشہ کے قول سے استدلال کرنا ( وہ عائشہ جوسخت ترین دشمن امیرالمومنین(ع) تھیں) ہٹ دھرمی ہے جس کی کسی منصف مزاج سے توقع نہیں۔علی(ع) پر عائشہ کی طرف سے ایک مصیبت نازل نہیں ہوئی نہ معلوم انھوں نے کتنی آفتیں ڈھائی ہیں۔ امیرالمومنین(ع) کی وصایت سے انکار کہیں کم ہے۔ جنگ جمل اصغر(۲) اور جنگ جمل اکبر سے جس میں دل کی حالت آئینہ ہوگئی

--------------

۱ـ جیساکہ صحیح حدیثوں کافیصلہ ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر ص۱۲۵ جلد۲ ب ماجاء فی بیوت ازواج النبی(ص)۔

۲ـ جنگ جملِ اصغر کا واقعہ بصرہ میں ۲۵ ربیع الثانی سنہ۳۶ھ کو امیرالمومنین(ع) کے وارد بصرہ ہونے کے قبل پیش آیا تھا۔ امیرالمومنین(ع) ابھی پہنچنے نہ پائے تھے کہ جناب عائشہ بصرہ پر حملہ کر بیٹھیں ۔ ان کے ساتھ طلحہ و زبیر بھی تھے۔ اس وقت بصرہ کے حاکم عثمان بن حنیف اںصاری تھے۔ اس جنگ میں چار شیعیان امیرالمومنین(ع) مسجد کے اندر شہید ہوئے اور ستر طرفداران عائشہ قتل ہوئے عثمان بن حنیف گرفتار کر لیے گئے۔ یہ بڑے جلیل القدر صحابی پیغمبر(ص) تھے لوگوں نے چاہا کہ انھیں بھی قتل کر ڈالیں مگر ڈرے کے کہیں ان کے بھائی اور انصار ان کا انتقام لینے پر نہ تل جائیں۔ اس لیے قتل تو نہ کیا صرف داڑھی مونچھ ، بھنووں اور سر کے بال مونڈ ڈالے، رد و کوب کیا کچھ دن قید میں رکھ کر بصرہ سے نکال دیا۔ حکیم بن جبلہ جوصاحب بصرہ ، زیرک و دانا بزرگ تھے۔ حضرت عائشہ کے مقابلہ کے لیے اپنے قبیلہ بنو عبدالقیس کی معیت میں کمر بستہ ہوئے۔ ان کے ساتھ قبیلہ ربیعہ کی بھی ایک جماعت ہوگئی۔ جنگ ہوئی مگر سب ایک ایک کر کے شہید ہو۔ حکیم کے ساتھ ان کے فرزند اشرف اور ان کے بھائی رعل بھی شہید ہوئے۔ اور بصرہ فتح ہوگیا۔ پھر امیرالمومنین(ع) تشریف لائے تو اپنے لشکر کو لے کر صف آرائیں اور اس مرتبہ جنگ جمل اکبر پیش آئی ۔ ان دونوں جنگوں کی پوری تفصیل تاریخ کامل و طبری اور دیگر کتب سیر و اخبار میں موجود ہے۔ 

۴۱۳

 پوشیدہ عداوت آشکار

ہوگئی۔ امیرالمومنین(ع) سے برسرپیکار ہونے سے قبل جو دلی عناد تھا آپ کو یا لڑائیوں کے بعد جو پیچ و تاب غم و غصہ امیرالمومنین(ع) کی طرف مرتے دم تک رہا حتی کہ آپ نے امیرالمومنین(ع) کی خبر انتقال سن کر سجدہ شکر کیا۔(۱) اور خوشی کے اشعار پڑھے ان سب باتوں کا نمونہ آپ نے اس جنگ میں پیش کردیا تھا۔ اگر آپ فرمائیں تو میں انھیں کی روایت کردہ حدیثوں سے

--------------

۱ـ جیسا کہ ثقہ راویاں حدیث و ارباب تاریخ نے ذکر کیا جیسے علامہ ابو الفرج اصفہانی کہ انھوں نے بھی اپنی کتاب مقاتل الطالبین میں بسلسلہ احوال امیرالمومنین(ع) بیان کیا ہے۔

۴۱۴

 چند نمونے پیش کروں جن سے آپ کو اندازہ ہو کہ وہ امیرالمومنین(ع) کی عداووت میں کس انتہا کو پہنچی ہوئی تھیں ۔ سنیے : جناب عائشہ فرماتی ہیں کہ :

“ رسول(ص)(۱) پر مرض کی زیادتی ہوئی اور اذیت بہت بڑھ گئی تو آپ برآمد ہوئے اس حالت میں کہ دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے تھے اور آپ کے پیر زمین پر گھسٹتے جاتے تھے جن دو آدمیوں کا آپ سہارا کر نکلے تھے ان میں ایک تو عباس بن عبدالمطلب تے اور دوسرا ایک اور شخص تھا۔”

جس شخص نے اس حدیث کو جناب عائشہ سے روایت کیا ہے یعنی عبیداﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ بن مسعود۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے عبداﷲ بن عباس سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم جانتے ہو وہ دوسرا شخص کون تھا۔ جس کا نام عائشہ نے نہیں لیا۔ کہا : نہیں ۔ کہا : وہ علی(ع) ہیں۔

پھر عبداﷲ بن عباس نے کہا:

“ علی (ع) کی کوئی اچھائی عائشہ کو بھلی معلوم نہیں ہوئی۔”(۲)

---------------

۱ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے جو بخاری نے صحیح بخاری جلد۲ صفحہ ۶۲ باب مرض النبی و وفات میں روایت کی ہے۔

۲ـ یہ کلمہ خاص کر یعنی ابن عباس کا فقرہ عائشة لا تظیب لہ نفس بخیر بخاری نہیں لکھا بلکہ صرف اوپر والی عبارت لکھ کر چھوڑ  دیا ہے جیسا کہ الفاظ حدیث میں کتر بیونت کی پرانی عادت ہے لیکن بے شمار اصحاب سنن جہاں اس حدیث کو لکھا ہے وہاں ابن عباس کا یہ فقرہ بھی ضرور لکھا ہے جیسے علامہ ابن سعد کو انھوں نے طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۲۹ پر اس حدیث کو بسلسلہ اسناد درج کیا ہے اور سلسلہ اسناد کے کل کے کل رجال حجت ہیں۔

۴۱۵

میں کہتا ہوں کہ جب جناب عائشہ کو امیرالمومنین(ع) کی کوئی خوبی گوارا نہ تھی اور وہ ان لوگوں تک کےساتھ علی(ع) کا نام لینا پسند نہ کرتی تھیں جو رسول(ص) کے ساتھ ایک قدم چلے تو وہ علی(ع) کے وصی رسول(ص) ہونے کو بیان کرنا کیسے پسند کرسکتی تھیں جو تمام خوبیوں کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند جلد۶ صفحہ۱۱۳ پر جناب عائشہ کی ایک حدیث عطاء بن یسار سے نقل کی ہے۔ عطا بن یسار کہتے ہیں کہ :

“ ایک شخص جناب عائشہ کی خدمت میں آیا اور حضرت علی(ع) اور جناب عمار کا گالیاں دیتے لگا ۔ اس پر جناب عائشہ بولیں علی(ع) کو گالیاں دینے سے منع نہیں کرتی لیکن عمار کو گالیاں نہ دو میں نے رسول(ص) کو عمار کے متعلق کہتے سنا ہے کہ عمار وہ شخص ہیں کہ اگر انھیں دو چیزوں کو درمیان اختیار دیا جائے تو وہ وہی اختیار کریں گے جو زیادہ بہتر اور زیادہ موجبِ رستگاری ہو۔”

اﷲ اکبر! عمار کو گالیاں دینے سے جناب عائشہ تو منع کریں ۔ رسول(ص) کے صرف اس قول کی بنا پر کہ عمار کو اگر دو چیزوں میں اختیار دیا جائے تو وہ وہی اختیار کریں گے جو بہتر و افضل ہو۔ اور علی(ع) کے متعلق ناسزا کلمات کہنے سے نہیں منع کرتیں ۔ وہ علی(ع) جو رسول(ص) کے بھائی ہیں، رسول(ص) کے ولی ہیں، رسول(ص) کے لیے ایسے ہیں جیسے جناب ہارون (ع) موسی(ع) کے یے تھے۔ رسول(ص) کے ہمدم و ہمراز ہیں۔ امت رسول(ص) میں سب سے جچاتلا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ شہر علم پیغمبر(ص) کے دروازہ ہیں اور وہ ہیں جن کو خدا و رسول(ص) دوست رکھتے ہیں اور وہ بھی خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتے ہیں

۴۱۶

جو تمام مسلمانوں میں سب سے پہلے اسلام لائے ، جنھوں نے سب سے پہلے ایمان قبول کیا، جو سب سے زیادہ علم کے

مالک تھے ، جن کے فضائل بے حساب ہیں۔ افسوس ، معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جناب عائشہ جانتی ہی نہ تھیں کہ علی(ع) کو خدا کے یہاں کیا منزلت حاصل ہے، رسول(ص) کے دل میں علی(ع) کی کیا جگہ ہے؟ اسلام میں کیا درجہ ہے ان کا، اسلام کی راہ میں کتنی سختیاں جھیلی ہیں انھوں نے ، کتنی آزمائشوں میں ثابت قدم رہے اور غالبا جناب عائشہ نے نہ تو امیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل و وارد کلام مجید کی آیتیں سنیں نہ احادیث پیغمبر(ص) سے کہ کم سے کم عمار کے برابر تو رکھتیں جس طرح عمار کو گالیاں دینے سے منع کیا علی(ع) کے متعلق بھی منع فرماتیں، جناب عائشہ کے اس جملہ پر کہ

“ میں نے رسول(ص) کو دیکھا ، در آںحالیکہ انھیں اپنے سینہ پر لٹائے ہوئے تھی۔ آپ نے طشت منگایا، اس کی طرف جھکے۔ اسی حالت میں آپ کا دم نکل گیا اور مجھے خبر بھی نہ ہوئی ۔ لہذا علی(ع) سے انھوں نے وصیت کہاں فرمائی؟”

جب غور کرتا ہوں تو میری حیرت کا ٹھکانا نہیں رہتا ، سمجھ میں نہیں آتا کہ میں ان کے اس جملہ کے کس کس گوشے پر تبصرہ کروں، ان کا یہ فقرہ مختلف جہتوں سے قابل بحث ہے۔

خدا کے لیے مجھے کوئی سمجھادے کہ آںحضرت(ص) کا اس طرح انتقال فرمانا جیسا کہ جناب عائشہ بیاں کرتی ہیں یہ کیونکر دلیل ہے کہ آپ نے وصیت نہ فرمائی ، اس طرح انتقال کرنے سے یہ کب لازم آتاہے کہ آپ بے وصیت کیے ہیں انتقال کر گئے۔ کیا جناب عائشہ کی رائے میں وصیت اسی وقت صحیح ہوسکتی ہے جب دم نکل رہا ہو ورنہ نہیں ۔ میرے خیال میں اس کا تو دنیا کے پردے پر کوئی

۴۱۷

بھی قائل نظر نہ آئے گا۔ حقیقت کو جھٹلانے والا جو دلیل بھی پیش کرے وہ ٹک نہیں سکتا ۔ خداوند عالم نے اپنی محکم کتاب میں رسول(ص) کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا ہے۔

 “ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْراً الْوَصِيَّةُ ” ( بقرہ، ۱۸۰)

“ تم لوگوں پر واجب کیا گیا ہے ، فرض قرار دیا گیا ہے کہ جب موت آئے تو مرنے سے پیشتر اچھی وصیت ک جائے”

تو کیا جناب عائشہ کے خیال میں رسول(ص) کتاب خدا کے مخالف عمل کرتے تھے اس کے احکام سے بے رخی برتتے تھے۔ پناہ بخدا جناب عائشہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ رسول(ص) قدم بہ قدم قرآن کی پیروی کرتے ہیں۔ ہر فعل و ہر عمل مطابق کلام الہی ہے ۔ کلام مجید کے اوامر و نواہی کی پابندی میں سب سے پیش پیش رہے۔ کلام مجید کی جملہ باتوں پر عمل کرنے میں درجہ انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ یقینا جناب عائشہ نے رسول(ص) کو یہ(۱) ارشاد فرماتے بھی سنا ہوگا:

“ مرد مسلمان اگر ایک چیز بھی قابل وصیت رکھتا ہو۔ اس کے لیے جائز نہیں کہ اس چیز کے متعلق بغیر وصیت نامہ لکھے وئے دو راتیں گزار دے ۔”

اس قسم کے دیگر ارشادات پیغمبر(ص) بھی جناب عائشہ نے ضرور سنے ہوں گے

--------------

۱ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے  جو بخاری نے صحیح بخاری جلد۲ صفحہ ۸۳ کتاب الوصایا کے شروع میں اور مسلم نے صحیح مسلم جلد۱ ص۱۰ کتاب الوصیہ میں روایت کی ہے۔

۴۱۸

 کیونکہ دینا جانتی ہے کہ وصیت کے متعلق آںحضرت(ص) نے بڑے سخت احکام دیے ہیں اور یہ نہ تو آںحضرت(ص) کےلیے جائز ہے اور نہ جملہ انبیاء میں سے کسی نبی کے لیے جائز رہا ہے کہ لوگوں کو تو کسی چیز کا حکم دیں اور خود اس حکم کی پابندی نہ کریں یا دوسروں کو تو کسی بات سے منع کریں مگر خود انھیں اس سے پرہیز نہ رہے۔ غیر ممکن ہے محال ہے کہ کسی نبی کسی رسول(ص) سے ایسے بات کبھی بھی سرزد ہوئی ہو اور امام مسلم وغیرہ نے جناب عائشہ سے یہ حدیث جو روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے نہ کوئی دینار چھوڑا ،نہ درہم ، نہ بکری نہ اونٹ نہ کسی چیز کے متعلق وصیت فرمائی ۔ یہ بھی پہلی ہی حدیث کی طرح قابل قبول نہیں علاوہ اس کے اگر جناب عائشہ کا یہ مقصد ہے کہ آپ نے قطعی طور پر ایک چیز بھی نہ چھوڑی اور آپ ہر وصیت کیے جانے کے لائق چیز سے بالکل خالی ہاتھ تھے تو بھی صحیح نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آپ دنیا کی فضولیات چھوڑ کر نہیں مرے جیسا کہ دنیا والے چھوڑ کر مرتے ہیں۔

عقل بتاتی ہے کہ پیغمبر(ص) نے یقینا وصیت فرمائی

اس لیے کہ آںحضرت(ص) تو دنیا بھر کے لوگوں سے زیادہ زاہد و پرہیزگار تھے آںحضرت(ص) نے جس وقت دنیا سے انتقال کیا

اس(۱) وقت آپ کے ذمہ کچھ  قرضے

-------------

۱ـ معمر قتادہ سے روایت کر کے بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی(ع) نے بعد وفات رسول(ص) چند باتیں انجام دیں جن میں زیادہ تر وعدے تھے جسے امیرالمومنین(ع) نے بعد پیغمبر(ص) پورا کیا۔ میرا خیال ہے کہ قتادہ نے پانچ لاکھ درہم کہے تھے جو علی(ع) نے رسول(ص) کی جانب سے ادا کیے ملاحظہ فرمائیے ۔ کنزالعمال ج۴ ص۶۔

۴۱۹

تھے، کچھ کیے ہوئے وعدے تھے، کچھ لوگوں کی امانتیں تھیں۔ جن کے متعلق آپ کا وصیت کر جانا ضروری تھا۔ آپ نے اپنے بعد بس اتنا مال چھوڑا جس سے آپ کے دیون ادا ہو جائیں۔ آپ نے جن لوگوں سے وعدے کر رکھا تھا ۔ وہ وعدے پورے ہوجائیں اور ان دونوں باتوں سے جو کچھ فاضل بچ رہے وہ آپ کی وارث جناب سیدہ(س) کے ملے جیسا کہ جناب سیدہ(س) کے مطالبہ میراث پیغمبر(ص) سے ثابت ہوتا ہے۔(۱)

علاوہ اس کے رسول اﷲ(ص) نے ایسی قابلِ وصیت چیزیں اپنے بعد چھوڑیں جیسی دنیا سے کسی اٹھنے والے نہیں چھوڑیں۔ آپ اسی کو لے لیجیے کہ آپ نے دین خدا کو چھوڑا جس کی ابھی ابتدا ابتدا تھی۔ بالکل تازہ تازہ تھا۔ اور یہ بہ نسبت طلا، نقرہ، مکان و جائداد ، کھیتی و مویشی کے زیادہ وصی کا محتاج و ضرورتمند تھا اور آپ کی پوری امت، امت کے ایتام بھی، بیوائیں بھی بہت زیادہ جبور و مضطر تھے۔ بے حد ضرورت مند و محتاج تھے کہ رسول(ص) کا کوئی نہ کوئی وصی ضرور ہو جو آپ کی جگہ پر ان کے امورع کا نگران ہو، ان کے دینی و دنیوی حالات کا مدبر و منتطم ہو۔ خدا کے رسول(ص) کے لیے یہ بات ناممکن تھی، محال تھی کہ وہ دینِ خدا کو ( جو ابھی گہوارہ میں تھا) خواہشوں کے حوالے کرجاتے یا اپنی شریعت کی حفاظت کے لیے خیالات و آراء پر بھروسہ کر لیتے اور اپنا وصی مقرر نہ کر جاتے جسے آپ دین و دنیا کے امور کی نگرانی کے لیے وصیت کرجاتے اور جو آپ کا ایسا

--------------

۱ـ جیسا کہ بخاری نے صحیح بخاری جلد۳ ص۳۰ پر باب غزوہ خیبر کے آخر میں بیان کیا اور امام مسلم نے قول پیغمبر(ص) لا نورث ما ترکناہ صدقہ کے ضمن میں لکھا ہے ملاحظہ ہو صحیح مسلم جلد۲ ص۷۲ کتاب الجہاد۔

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639