دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)6%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272427 / ڈاؤنلوڈ: 6392
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

موالات رکھی اس نے خدا اور رسول(ص) سے موالات رکھی اور جس نے علی سے عداوت رکھی اس نے خدا و رسول(ص) سے عداوت رکھی(۱) ۔ جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے خدا و رسول(ص) کو اذیت دی(۲) ۔ جس نے علی(ع) کو سب وشتم کیا اس نے خدا و رسول(ص) کو سب و شتم کیا(۳) ۔ علی(ع) نیکوکاروں کے اما م، بدکاروں کے قتل کرنے والے ہیں ۔ جس نے علی (ع) کی مدد کی وہ منصور ہوا، جس نے علی(ع) کی مدد سے گریز کیا ذلیل و خوار ہوا۔(۴) ، علی(ع) مسلمانوں کے سردار ،متقین کے امام، روشن پیشانی والوں کو جنت تک لے جانے والے ہیں(۵) ۔ علی (ع) ہدایت کا علم ہیں، اولیائے خدا کے امام ہیں، نور ہیں، فرمانبردارانِ الہی کے لیے ، اور وہ کلمہ ہیں جسے خدا نے متقین پر لازم کیا ہے۔(۶)

--------------

۱ـ صفحہ ۲۹۴ کی حدیث نمبر۲۳ سے اس کی وضاحت ہوتی ہے نیز رسول(ص) کا یہ ارشاد“ اللَّهُمَّ وَالِ‏ مَنْ‏ وَالاهُ‏ وَ عَادِ مَنْ عَادَاه‏”   ہی  کافی ہے اس کے ثبوت کے لیے۔

۲ـ اس کے ثبوت کے لیے عمرو بن شاس والی حدیث سن چکے ہیں جس میں رسول(ص) نے فرمایا کہ جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی” عمرو بن شاس کی حدیث کو امام احمد نے مسند ج۳ صفحہ۴۷۳ پر امام حاکم نے مستدرک ج۳ صفحہ۱۲۴ پر ذہبی نے تلخیص مستدرک میں اسی صفحہ پر اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے ذکر کیا ہے ۔ نیز بخاری نے تاریخ میں ابن سعد نے طبقات میں ابن ابی شیبہ نے اپنے مسند میں طبرانی نے معجم کبیر میں بھی اس کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال ج۶ صفحہ ۴۰۰ پر بھی موجود ہے۔

۳ـ جیسا کہ صفحہ ۲۸۹ میں اٹھارہویں  حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔

۴ـ جیسا کہ صفحہ ۲۷۷ کی پہلی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔

۵ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ ۲۷۷ پر حدیث نمبر۲َ ، ۳، ۴، ۵۔

۶ـ صفحہ ۲۷۷ پر چھٹی حدیث ملاحظہ کیجیے۔

۴۰۱

یہی  علی(ع) صدیق اکبر ہیں، اس امت کے فاروق ہیں، مومنین کے سردار ہیں(۱) ، یہ بمنزلہ فرقانِ عظیم اور ذکر حکیم کے ہیں(۲) ۔ علی (ع) رسول(ص) کے لیے ایسے ہیں جیسے موسی(ع) کے لیے ہارون تھے۔(۳)

علی(ع) کو رسول(ص) سے وہی منزلت حاصل ہے جو منزلت رسول(ص) کو خدا سے ہے(۴) ۔ علی(ع) رسول(ص) کے لیے ایسے ہیں جیسے بدن کے لیے سر(۵) ، علی (ع) مثلِ نفس رسول(ص) کے ہیں(۶) ۔ خداوندِ عالم نے تمام روئے زمین کے باشندوں پر نظر ڈالی اور رسول(ص) و علی(ع) کو منتخب کیا(۷) ۔ رسول(ص) کا ایک یہی ارشاد لے لیجیے جو آپ نے حجة الوداع کے موقع پر یوم عرفات فرمایا تھا کہ میرے فرائض کی ادائگی علی(ع) ہی کرسکتے ہیں۔(۸)

--------------

۱ـ جیسا کہ صفحہ ۲۸۰ کی حدیث نمبر۷ سے واضح ہوتا ہے۔

۲ـ مکتوب نمبر ۴ میں آپ صحیح حدیثیں اس کے ثبوت میں سن چکے ہیں ان احادیث کے دیکھنے کے بعد صاحب بصیرت کے لیے تو پھر کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ صفحہ ۳۱۵ پر یہ حدیث بھی ذکر کی گئی “إِنَّ عَلِيّاً مَعَ‏ الْقُرْآنِ‏، وَ الْقُرْآنَ مَعَ عَلِيٍّ، لَا يَفْتَرِقَان‏” علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے ۔

۳ـ جیسا کہ م ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، اور ۱۷ تک ہماری تحریر سےوضاحت ہوتی ہے۔

۴ـ جیسا کہ صفحہ۲۸۵ کی تیرہویں حدییث سے ثابت ہوتا ہے۔

۵ـ صفحہ ۳۱۶ پر حدیث  “عَلِيٌّ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ رَأْسِي‏ مِنْ‏ بَدَنِي‏.” ذکر کی جاچکی ہے۔

۶ـ جیسا کہ آیت مباہلہ بتاتی ہے نیز عبدالرحمن بن عوف کی حدیث جسے ہم نے صفحہ ۳۱۶ کے آخر میں درج کیا ہے۔

۷ـ جیسا کہ ہم صفحہ ۴۰۹ تا صفحہ ۴۱۰ پر اس کے متعلق صریحی احادیث ذکر کرچکے ہیں۔

۸ـ ملاحظہ ہو صفحہ ۲۸۵ پر حدیث نمبر۱۵ اور اس حدیث پر جو ہم نے حاشیہ تحریر کیا ہے وہ بھی دیکھیے۔

۴۰۲

اس کے علاوہ بکثرت ایسی خصوصیات سے پیغمبرف(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو سرفراز کیا جو صرف وصی ہی کے لیے زیب دیتی ہیں اور قائم مقام پیغمبر ہی کے لیے مناسب ہیں۔

لہذا ان خصوصیات اور مخصوص فضائل و کمالات کے بعد امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے سے انکار کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے کتنی حدیثوں کو جھتلایا جائے گا اور کہاں تک جھٹلایا جاسکتا ہے۔

حضرات اہل سنت جو امیرالمومنین (ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے سے انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر امیرالمومنین(ع)ٰ کو وصی رسول(ص) تسلیم کر لیا جائے تو پھر خلفائے ثلاثہ کی خلافت باطل ہوجاتی ہے۔

اور بخاری وغیرہ نے طلحہ بن مصرف والی حدیث جو ذکر کی ہے جس میں ہے ک میں نے عبداﷲ بن ابی اوفیٰ سے پوچھا کہ کیا رسول(ص) نے وصیت فرمائی؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں ۔ میں نے کہا: رسول(ص) لوگوں پر تو وصیت کرنا واجب کریں اور خود وصیت نہ کریں ۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ آںحضرت(ص) نے کتابِ خدا کے متعلق وصیت فرمائی۔ یہ حدیث ہمارے لیے حجت نہیں اور نہ ہمارے جواب میں پیش کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ہم لوگوں کے یہاں  یہ ثابت نہیں۔ مزید برآں یہ تو سیاست کی کارسازیاں تھیں۔ حکومت کے جبر و تشدد کا نتیجہ ہے۔ ان سب باتوں  سے قطع نظر سچی بات تو یہ ہے کہ امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کے متعلق ائمہ طاہرین(ع) سے صحیح و متواتر حدیثیں موجود ہیں لہذا ان حدیثوں کی معارض حدیثیں رد کردی جائینگی ۔

اس کے علاوہ امیرالمومنین(ع) کا وصی پیغمبر(ص) ہونا تو ایسا اظہر من الشمس ہے جس پر دلیل و برہان پیش کرنے کی ضروت ہی نہیں۔ خود عقل(۱) بتاتی ہے ۔ وجدان

--------------

۱ـ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ رسول(ص) اپنی امت کو تو وصیت کا حکم دیں اتنی سختی فرمائیں اور خود وصیت نہ کریں در آنحالیکہ  اوروں کی نسبت پیغمبر(ص) کا وصیت فرمانا زیادہ ضروری تھا کیونکہ کسی اور مرنے والے نے نہ تو ایسا ترکہ چھوڑا جیسا رسول(ص) نے چھوڑا اور نہ ایسے ایتام چھوڑے جیسے رسول(ص) نے چھوڑے نہ کسی اور کے متروکات نہ ورثہ نگران کار و سرپرست کے ایسے محتاج ہوئے جیسا رسول(ص) کی چھوڑی ہوئی  چیزیں کسی منتظم و نگران کی محتاج تھیں۔ یا

۴۰۳

رسول(ص) کے چھوڑے ہوئے ایتام سرپرست کے ضرورت مند تھے پناہ بخدا رسول(ص) بھلا اپنے قیمتی ترکہ یعنی شریعت الہیہ ، احکام الہی کو یونہی چھوڑ جائیں اور اپنے ایتام یعنی تمام روئے زمین کے باشندوں کو یونہی بے سہارا چھوڑ دیں کہ وہ ٹھوکریں کھاتے پھرین اور اپنی خواہشوں کے مطابق چلتے پھرتے رہیں اور ایسا نگران و منتظم نہ چھوڑیں جس کے ذریعہ بندوں پر خدا کی حجت تمام ہو۔ علاوہ اس کے وجدان بھی یہی کہتا ہے کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو اپنا وصی ضرور مقرر کیا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو اپنے غسل و حنوط و کفن و دفن کا حکم دیا ۔ دیون کی ادائگی ذمہ داریوں سے بری الذمہ بنانے اور اختلاف کے وقت حق کی وضاحت کرنے کی تاکید کی ، نیز لوگوں کو بھی با خبر کردیا کہ ہمارے بعد علی(ع) تمھارے ولی ہیں ۔ اس کے علاوہ اور خصوصیات امیرالمومنین(ع) کے بھی ان کے گوش گزار کردیے جنھیں ہم اس کے شروع میں اشارتا ذکر کرچکے ہیں لہذا ہمارا وجدان بتاتا ہے کہ یقینا رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کو اپنا وصی فرمایا ہوگا اور بغیر وصی بنائے دنیا سے نہیں اٹھے۔

۴۰۴

 دلالت کرتا ہے کہ یقینا رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو اپنا وصی مقرر فرمایا۔

اور بخاری نے ابن ابی اوفیٰ سے یہ جو روایت کی ہے کہ آںحضرت(ص) نے کتاب خدا کے متعلق وصیت فرمائی تو یہ درست ہے مگر رسول(ص) کا پورا ارشاد نہیں ذکر کیا گیا۔ کیونکہ رسول(ص) نے جہاں کتاب خدا کے متعلق وصیت فرمائی وہاں اہل بیت(ع) سے تمسک کرنے  کا بھی حکم دیا۔ ایک ساتھ دونوں سے تمسک کی

۴۰۵

 تاکید کی اور امت سے فرمایا تھا کہ خداوندعالم کی دونوں رسیوں کو مضبوطی سے تھامے رہنا اور ڈرا دیا تھا کہ اگر دونوں سے تمسک نہ کروگے تو گمراہ ہوجاؤ گے اور یہ بھی امت کے جتادیا تھا کہ قرآن و اہلبیت(ع) کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں۔

اس باب میں بکثرت متواتر حدیثیں ائمہ طاہرین(ع) سے مروی ہیں اہلبیت طاہرین(ع) کے علاوہ اغیار  کی روایت ہوئی متعدد حدیثیں ہم گزشتہ اوراق میں ذکر کرچکے ہیں۔     ش

۴۰۶

مکتوب نمبر۳۶

افضل ازواج

 یہ آخر آپ جناب عائشہ ام المومنین جو افضل ازواج نبی(ص) ہیں ان سے کیوں روگردان ہیں کہ آپ نے ان کی حدیث کو پس پشت ڈال دیا؟ گویا کچھ حقیقت ہی نہیں اس کی ۔ حالانکہ انھیں کا قول فیصلہ کن ہے ۔  جو وہ فیصلہ فرمادیں وہی مبنی بر انصاف ہوگا۔ پھر بھی آپ کی جو رائے ہو اس اعراض کی وجہ بتائیے کہ ہم بھی سوچیں سمجھے۔                 س

۴۰۷

جوابِ مکتوب

جناب عائشہ افضل ازواج نبی(ص) نہ تھیں

جناب عائشہ کا افضل ازواج نبی(ص) ہوناتسلیم  کے قابل نہیں۔ جناب عائشہ افضل ازواج نبی(ص) ہوبھی کیونکر سکتی ہیں، ان کی رد میں خود ان سے صحیح حدیث مروی ہے۔ جناب عائشہ فرماتی ہیں کہ :

“ ایک دن پیغمبر(ص) نے جناب خدیجہ کا تذکرہ فرمایا تو مجھے برا معلوم ہوا۔ میں نے کہا: وہ تو بڑھیا تھیں ایسی تھیں ویسی تھیں اور خداوند عالم نے آپ کو ان سے اچھی بیوی دی( اشادہ تھا اپنی طرف) آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا : خداوند عالم نے اس سے اچھی بیوی مجھے نہیں دی۔ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب سب میرا انکار کرتے تھے اور اس وقت میری تصدیق کی جب سب جھٹلاتے تھے اور اس وقت انھوں نے اپنے مال میں شریک بنایا جب سب نے مجھے محروم کر رکھا تھا اور خدا نے مجھے ان سے اولاد مرحمت کی اور دوسری بیویوں سے اولاد نہ دی۔”(۱)

--------------

۱ـ یہ حدیث اور اس کے بعد والی حدیث بہت مشہور صحیح احادیث میں سے ہے ملاحظہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جو میں نے ابھی عرض کیے یہ دونوں حدیثیں موجود ہیں قریب قریب انھیں الفاظ کے ساتھ بخاری و مسلم نے بھی اپنی صحیحین میں ان دونوں حدیثوں کو ذکر کیا ہے۔

۴۰۸

جناب خدیجہ تمام ازواج میں افضل ہیں

جناب عائشہ سے یہ حدیث بھی مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ :“ رسول اﷲ(ص) جب تک خدیجہ کا ذکر نہ کر لیتے اور ان کی خوب مدح و ثناء نہ فرما لیتے گھر سے جاتے نہیں ۔ ایک دن آپ نے حسب دستور خدیجہ کا ذکر فرمایا تو مجھے بڑی غیرت معلوم ہوئی میں نے

کہا: ہو تو بڑھیا تھیں اور اب خدا نے ان سے بہتر بیوی آپ کو کو دی یہ سن کر رسول(ص) غصہ سے بھر گئے ۔ غیظ و غضب کا یہ عالم تھا کہ سر کے آگے کے بال غصہ کے مارے ہلنے لگے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا : خدا کی قسم ان سے بہتر بیوی مجھے نہیں ملی۔ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب سب لوگ کفر اختیار کیے ہوئے تھے۔ اس وقت میری تصدیق کی جب سب مجھے جھٹلاتے تھے اور اپنا کل مال و زر میرے حوالے کردیا، جب سب مجھے محروم کیے ہوئے تھے اور انھیں کے بطن سے خدا نے مجھے اولاد مرحمت فرمائی ۔ اور دوسری بیویوں سے کوئی اولاد مجھے نہ دی۔”

لہذا ازواج رسول(ص) میں سب سے افضل و اشرف جناب خدیجہ الکبری ہیں جو اس امت کی صدیقہ ہیں جو سب سے پہلے ایمان لائیں جنھوں نے سب سے پہلے کتاب خدا کی تصدیق کی، رسول(ص) سے ہمدردی کی ، رسول(ص) پر وحی

۴۰۹

 نازل ہوئی تھی کہ جناب خدیجہ کو بشارت(۱) دے دیں کہ ان کے لیے جنت میں جواہرات کا گھر ہے۔ رسول(ص) نے صاف لفظوں میں صراحت فرمادی تھی کہ جناب خدیجہ سب سے افضل و اشرف ہیں چنانچہ آپ نے فرمایا:

“ جنت کی عورتوں میں چار عورتیں سب سے بہتر ہیں۔ خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بن محمد(ص)، آسیہ بن مزاحم، مریم بنت عمران”

آںحضرت(ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا :

“ تمام عالم کی عورتوں میں سب سے بہتر مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بن محمد(ص)، اور آسیہ زن فرعون ہیں۔”

اسی طرح اور بہت سی صریحی حدیثیں پیغمبر(ص) کی ہیں جو جملہ احادیث نبوی(ص) اور ارشادات پیغمبر(ص) میں صحیح تر اور ثابت تر ہیں۔(۲)

اس کے علاوہ ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جناب خدیجہ کے علاوہ دیگر ازواج پیغمبر(ص) سے بھی جناب عائشہ کو افضل کہنا درست نہیں۔ صحیح حدیثیں ، معتبر روایات و اخبار بتاتے ہیں کہ جناب عائشہ کو دیگر ازواج پر کوئی فضیلت نہ تھی جیسا کہ صاحبان نظر و ارباب عقل سے پوشیدہ نہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ جناب عائشہ نے اپنے کو نمقابلہ دیگر ازواج پیغمبر افضل و اشرف خیال کیا مگر رسول(ص) نےے تردید کر دی جیسا کہ جناب صیغہ بنت حی کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے۔

--------------

۱ـ جیسا کہ امام بخاری نے صحیح بخاری جلد۳ صفحہ۱۷۵ باب غیرة النساء اواخر کتاب النکاح میں روایت کی ہے

۲ـ ہم نے اپنی کتاب کلمہ غراء میں اسے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

۴۱۰

“ رسول(ص) جناب صفیہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں۔ آپ نے رونے کی وجہ پوچھی ۔ صفیہ نے جواب دیا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ عائشہ اور حفصہ میری برائیاں کرتی رہتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم صفیہ سے بہتر ہیں۔ آںحضرت (ص) نے فرمایا : تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ تم دونوں مجھ سے بہتر کیونکر ہوسکتی ہو ۔ میرے مقابلہ میں تمھاری کیا حقیقت ہے؟ میرے باپ جناب ہارون(ع)، اور چچا جناب موسی(ع)، شوہر محمد مصطفی(ص) ہیں جو خاتم النبیین(ص) ہیں۔(۱) جناب عائشہ کے حالات ملاحظہ فرمائیے ، ان کے افعال و اقوال میں ان کی حرکتوں کا جائزہ لیجیے تو ہمارے قول کی صداقت آپ پر واضح ہوجائے گی۔

رہ گیا یہ کہ وصیت پیغمبر(ص) کے متعلق جو حدیث وہ بیان کرتی ہیں اسے ہم کیوں نہیں مانتے تو مختصر یہ سمجھ لیجیے کہ ان کی حدیث حجت نہیں۔ اب کیوں نہیں حجت ہے؟ کن اسباب کے پیش نظر ہم ان کی حدیث کو قابل اعتبا نہیں سمجھتے اسے نہ پوچھیے تو بہتر ہے۔

                                                             ش

--------------

۱ـ ترمذی نے بطریق کنانہ مولی ام المومنین صفیہ سے روایت کی ہے اس حدیث کی اور ابن عبدالبر نے حالات صفیہ کے ذیل میں استیعاب میں اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اور ابن حجر عسقلانی نے بھی اپنی اصابہ میں ضمن حالات جناب صفیہ اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ نیز شیخ رشید رضا نے اپنے جریدہ شمارہ نمبر ۱۰ صفحہ ۵۸۹ پر ذکر کیا ہے ۔ اس کے علاوہ اور بہت سے حضرات نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔

۴۱۱

مکتوب نمبر ۳۷

آپ ان لوگوں میں ہیں جو نہ کسی کو دھوکا دیتے ہیں نہ مکرو فریب سے کام لیتے ہیں اور نہ ان لوگوں میں سےہیں جو دل میں کچھ اور زبان سے کچھ کہتے ہیں آپ براہ کرم تفصیل فرمائیے ۔ یہ بہت ضروری ہے ، میں حق کا طلبگار ہوں لہذا بجز تشریح و تفصیل آپ کے لیے کوئی چارہ نہیں۔

                                                             س

جواب مکتوب

حضرت عائشہ سے اعراض کے وجوہ

آپ تفصیل پر مجھے مجبور کر رہے ہیں حالانکہ تشریح و تفصیل آپ کے لیے

۴۱۲

چندان ضروری نہ تھی کیونکہ آپ بے خبر نہیں کہ سب عائشہ ہی کا کیا دھرا ہے

                                ع   اے باد صبا این ہمہ آوردہ تست۔(۱)

انھیں کی وجہ سے ہم لوگوں کو یہ دن دیکھنے میں آئے ۔ انھیں نے امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کو نسیا منسیا کیا۔ دنیا سے چھپایا کسی کو خبر نہ ہونے دی اور اگر کسی دوسرے ذریعہ سے پتہ چل بھی گیا تو غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ صاف و صریح ارشادات پیغمبر(ص) واضح نصوص کو محو کرنے مٹانے کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کردیں۔ جتنی آفتیں ٹوٹیں انھیں کی وجہ سے ۔ اہل بیت(ع) پر جتنی مصیبتیں نازل ہوئیں آپ ہی کی بدولت ، سارے فتنہ و فساد ، ہر بلا و مصیبت کی جڑ یہی ہیں جنھوں نے امیرالمومنین(ص) سے جنگ کرنے کے لیے شہر بہ شہر دورہ کیا اور آپ کی خلافت چھیننے اور تخت سلطنت الٹنے کی فکر میں لشکر لے کر حملہ آور ہوئیں۔ جو کچھ ہوا اس کا کیا ذکر کروں آپ اچھے ہی خیالات رکھیے ۔ حقیقت کا سوال نہ کیجیے۔ لہذا امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) نہ ہونے پر جناب عائشہ کے قول سے استدلال کرنا ( وہ عائشہ جوسخت ترین دشمن امیرالمومنین(ع) تھیں) ہٹ دھرمی ہے جس کی کسی منصف مزاج سے توقع نہیں۔علی(ع) پر عائشہ کی طرف سے ایک مصیبت نازل نہیں ہوئی نہ معلوم انھوں نے کتنی آفتیں ڈھائی ہیں۔ امیرالمومنین(ع) کی وصایت سے انکار کہیں کم ہے۔ جنگ جمل اصغر(۲) اور جنگ جمل اکبر سے جس میں دل کی حالت آئینہ ہوگئی

--------------

۱ـ جیساکہ صحیح حدیثوں کافیصلہ ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر ص۱۲۵ جلد۲ ب ماجاء فی بیوت ازواج النبی(ص)۔

۲ـ جنگ جملِ اصغر کا واقعہ بصرہ میں ۲۵ ربیع الثانی سنہ۳۶ھ کو امیرالمومنین(ع) کے وارد بصرہ ہونے کے قبل پیش آیا تھا۔ امیرالمومنین(ع) ابھی پہنچنے نہ پائے تھے کہ جناب عائشہ بصرہ پر حملہ کر بیٹھیں ۔ ان کے ساتھ طلحہ و زبیر بھی تھے۔ اس وقت بصرہ کے حاکم عثمان بن حنیف اںصاری تھے۔ اس جنگ میں چار شیعیان امیرالمومنین(ع) مسجد کے اندر شہید ہوئے اور ستر طرفداران عائشہ قتل ہوئے عثمان بن حنیف گرفتار کر لیے گئے۔ یہ بڑے جلیل القدر صحابی پیغمبر(ص) تھے لوگوں نے چاہا کہ انھیں بھی قتل کر ڈالیں مگر ڈرے کے کہیں ان کے بھائی اور انصار ان کا انتقام لینے پر نہ تل جائیں۔ اس لیے قتل تو نہ کیا صرف داڑھی مونچھ ، بھنووں اور سر کے بال مونڈ ڈالے، رد و کوب کیا کچھ دن قید میں رکھ کر بصرہ سے نکال دیا۔ حکیم بن جبلہ جوصاحب بصرہ ، زیرک و دانا بزرگ تھے۔ حضرت عائشہ کے مقابلہ کے لیے اپنے قبیلہ بنو عبدالقیس کی معیت میں کمر بستہ ہوئے۔ ان کے ساتھ قبیلہ ربیعہ کی بھی ایک جماعت ہوگئی۔ جنگ ہوئی مگر سب ایک ایک کر کے شہید ہو۔ حکیم کے ساتھ ان کے فرزند اشرف اور ان کے بھائی رعل بھی شہید ہوئے۔ اور بصرہ فتح ہوگیا۔ پھر امیرالمومنین(ع) تشریف لائے تو اپنے لشکر کو لے کر صف آرائیں اور اس مرتبہ جنگ جمل اکبر پیش آئی ۔ ان دونوں جنگوں کی پوری تفصیل تاریخ کامل و طبری اور دیگر کتب سیر و اخبار میں موجود ہے۔ 

۴۱۳

 پوشیدہ عداوت آشکار

ہوگئی۔ امیرالمومنین(ع) سے برسرپیکار ہونے سے قبل جو دلی عناد تھا آپ کو یا لڑائیوں کے بعد جو پیچ و تاب غم و غصہ امیرالمومنین(ع) کی طرف مرتے دم تک رہا حتی کہ آپ نے امیرالمومنین(ع) کی خبر انتقال سن کر سجدہ شکر کیا۔(۱) اور خوشی کے اشعار پڑھے ان سب باتوں کا نمونہ آپ نے اس جنگ میں پیش کردیا تھا۔ اگر آپ فرمائیں تو میں انھیں کی روایت کردہ حدیثوں سے

--------------

۱ـ جیسا کہ ثقہ راویاں حدیث و ارباب تاریخ نے ذکر کیا جیسے علامہ ابو الفرج اصفہانی کہ انھوں نے بھی اپنی کتاب مقاتل الطالبین میں بسلسلہ احوال امیرالمومنین(ع) بیان کیا ہے۔

۴۱۴

 چند نمونے پیش کروں جن سے آپ کو اندازہ ہو کہ وہ امیرالمومنین(ع) کی عداووت میں کس انتہا کو پہنچی ہوئی تھیں ۔ سنیے : جناب عائشہ فرماتی ہیں کہ :

“ رسول(ص)(۱) پر مرض کی زیادتی ہوئی اور اذیت بہت بڑھ گئی تو آپ برآمد ہوئے اس حالت میں کہ دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے تھے اور آپ کے پیر زمین پر گھسٹتے جاتے تھے جن دو آدمیوں کا آپ سہارا کر نکلے تھے ان میں ایک تو عباس بن عبدالمطلب تے اور دوسرا ایک اور شخص تھا۔”

جس شخص نے اس حدیث کو جناب عائشہ سے روایت کیا ہے یعنی عبیداﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ بن مسعود۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے عبداﷲ بن عباس سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم جانتے ہو وہ دوسرا شخص کون تھا۔ جس کا نام عائشہ نے نہیں لیا۔ کہا : نہیں ۔ کہا : وہ علی(ع) ہیں۔

پھر عبداﷲ بن عباس نے کہا:

“ علی (ع) کی کوئی اچھائی عائشہ کو بھلی معلوم نہیں ہوئی۔”(۲)

---------------

۱ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے جو بخاری نے صحیح بخاری جلد۲ صفحہ ۶۲ باب مرض النبی و وفات میں روایت کی ہے۔

۲ـ یہ کلمہ خاص کر یعنی ابن عباس کا فقرہ عائشة لا تظیب لہ نفس بخیر بخاری نہیں لکھا بلکہ صرف اوپر والی عبارت لکھ کر چھوڑ  دیا ہے جیسا کہ الفاظ حدیث میں کتر بیونت کی پرانی عادت ہے لیکن بے شمار اصحاب سنن جہاں اس حدیث کو لکھا ہے وہاں ابن عباس کا یہ فقرہ بھی ضرور لکھا ہے جیسے علامہ ابن سعد کو انھوں نے طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۲۹ پر اس حدیث کو بسلسلہ اسناد درج کیا ہے اور سلسلہ اسناد کے کل کے کل رجال حجت ہیں۔

۴۱۵

میں کہتا ہوں کہ جب جناب عائشہ کو امیرالمومنین(ع) کی کوئی خوبی گوارا نہ تھی اور وہ ان لوگوں تک کےساتھ علی(ع) کا نام لینا پسند نہ کرتی تھیں جو رسول(ص) کے ساتھ ایک قدم چلے تو وہ علی(ع) کے وصی رسول(ص) ہونے کو بیان کرنا کیسے پسند کرسکتی تھیں جو تمام خوبیوں کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند جلد۶ صفحہ۱۱۳ پر جناب عائشہ کی ایک حدیث عطاء بن یسار سے نقل کی ہے۔ عطا بن یسار کہتے ہیں کہ :

“ ایک شخص جناب عائشہ کی خدمت میں آیا اور حضرت علی(ع) اور جناب عمار کا گالیاں دیتے لگا ۔ اس پر جناب عائشہ بولیں علی(ع) کو گالیاں دینے سے منع نہیں کرتی لیکن عمار کو گالیاں نہ دو میں نے رسول(ص) کو عمار کے متعلق کہتے سنا ہے کہ عمار وہ شخص ہیں کہ اگر انھیں دو چیزوں کو درمیان اختیار دیا جائے تو وہ وہی اختیار کریں گے جو زیادہ بہتر اور زیادہ موجبِ رستگاری ہو۔”

اﷲ اکبر! عمار کو گالیاں دینے سے جناب عائشہ تو منع کریں ۔ رسول(ص) کے صرف اس قول کی بنا پر کہ عمار کو اگر دو چیزوں میں اختیار دیا جائے تو وہ وہی اختیار کریں گے جو بہتر و افضل ہو۔ اور علی(ع) کے متعلق ناسزا کلمات کہنے سے نہیں منع کرتیں ۔ وہ علی(ع) جو رسول(ص) کے بھائی ہیں، رسول(ص) کے ولی ہیں، رسول(ص) کے لیے ایسے ہیں جیسے جناب ہارون (ع) موسی(ع) کے یے تھے۔ رسول(ص) کے ہمدم و ہمراز ہیں۔ امت رسول(ص) میں سب سے جچاتلا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ شہر علم پیغمبر(ص) کے دروازہ ہیں اور وہ ہیں جن کو خدا و رسول(ص) دوست رکھتے ہیں اور وہ بھی خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتے ہیں

۴۱۶

جو تمام مسلمانوں میں سب سے پہلے اسلام لائے ، جنھوں نے سب سے پہلے ایمان قبول کیا، جو سب سے زیادہ علم کے

مالک تھے ، جن کے فضائل بے حساب ہیں۔ افسوس ، معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جناب عائشہ جانتی ہی نہ تھیں کہ علی(ع) کو خدا کے یہاں کیا منزلت حاصل ہے، رسول(ص) کے دل میں علی(ع) کی کیا جگہ ہے؟ اسلام میں کیا درجہ ہے ان کا، اسلام کی راہ میں کتنی سختیاں جھیلی ہیں انھوں نے ، کتنی آزمائشوں میں ثابت قدم رہے اور غالبا جناب عائشہ نے نہ تو امیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل و وارد کلام مجید کی آیتیں سنیں نہ احادیث پیغمبر(ص) سے کہ کم سے کم عمار کے برابر تو رکھتیں جس طرح عمار کو گالیاں دینے سے منع کیا علی(ع) کے متعلق بھی منع فرماتیں، جناب عائشہ کے اس جملہ پر کہ

“ میں نے رسول(ص) کو دیکھا ، در آںحالیکہ انھیں اپنے سینہ پر لٹائے ہوئے تھی۔ آپ نے طشت منگایا، اس کی طرف جھکے۔ اسی حالت میں آپ کا دم نکل گیا اور مجھے خبر بھی نہ ہوئی ۔ لہذا علی(ع) سے انھوں نے وصیت کہاں فرمائی؟”

جب غور کرتا ہوں تو میری حیرت کا ٹھکانا نہیں رہتا ، سمجھ میں نہیں آتا کہ میں ان کے اس جملہ کے کس کس گوشے پر تبصرہ کروں، ان کا یہ فقرہ مختلف جہتوں سے قابل بحث ہے۔

خدا کے لیے مجھے کوئی سمجھادے کہ آںحضرت(ص) کا اس طرح انتقال فرمانا جیسا کہ جناب عائشہ بیاں کرتی ہیں یہ کیونکر دلیل ہے کہ آپ نے وصیت نہ فرمائی ، اس طرح انتقال کرنے سے یہ کب لازم آتاہے کہ آپ بے وصیت کیے ہیں انتقال کر گئے۔ کیا جناب عائشہ کی رائے میں وصیت اسی وقت صحیح ہوسکتی ہے جب دم نکل رہا ہو ورنہ نہیں ۔ میرے خیال میں اس کا تو دنیا کے پردے پر کوئی

۴۱۷

بھی قائل نظر نہ آئے گا۔ حقیقت کو جھٹلانے والا جو دلیل بھی پیش کرے وہ ٹک نہیں سکتا ۔ خداوند عالم نے اپنی محکم کتاب میں رسول(ص) کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا ہے۔

 “ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْراً الْوَصِيَّةُ ” ( بقرہ، ۱۸۰)

“ تم لوگوں پر واجب کیا گیا ہے ، فرض قرار دیا گیا ہے کہ جب موت آئے تو مرنے سے پیشتر اچھی وصیت ک جائے”

تو کیا جناب عائشہ کے خیال میں رسول(ص) کتاب خدا کے مخالف عمل کرتے تھے اس کے احکام سے بے رخی برتتے تھے۔ پناہ بخدا جناب عائشہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ رسول(ص) قدم بہ قدم قرآن کی پیروی کرتے ہیں۔ ہر فعل و ہر عمل مطابق کلام الہی ہے ۔ کلام مجید کے اوامر و نواہی کی پابندی میں سب سے پیش پیش رہے۔ کلام مجید کی جملہ باتوں پر عمل کرنے میں درجہ انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ یقینا جناب عائشہ نے رسول(ص) کو یہ(۱) ارشاد فرماتے بھی سنا ہوگا:

“ مرد مسلمان اگر ایک چیز بھی قابل وصیت رکھتا ہو۔ اس کے لیے جائز نہیں کہ اس چیز کے متعلق بغیر وصیت نامہ لکھے وئے دو راتیں گزار دے ۔”

اس قسم کے دیگر ارشادات پیغمبر(ص) بھی جناب عائشہ نے ضرور سنے ہوں گے

--------------

۱ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے  جو بخاری نے صحیح بخاری جلد۲ صفحہ ۸۳ کتاب الوصایا کے شروع میں اور مسلم نے صحیح مسلم جلد۱ ص۱۰ کتاب الوصیہ میں روایت کی ہے۔

۴۱۸

 کیونکہ دینا جانتی ہے کہ وصیت کے متعلق آںحضرت(ص) نے بڑے سخت احکام دیے ہیں اور یہ نہ تو آںحضرت(ص) کےلیے جائز ہے اور نہ جملہ انبیاء میں سے کسی نبی کے لیے جائز رہا ہے کہ لوگوں کو تو کسی چیز کا حکم دیں اور خود اس حکم کی پابندی نہ کریں یا دوسروں کو تو کسی بات سے منع کریں مگر خود انھیں اس سے پرہیز نہ رہے۔ غیر ممکن ہے محال ہے کہ کسی نبی کسی رسول(ص) سے ایسے بات کبھی بھی سرزد ہوئی ہو اور امام مسلم وغیرہ نے جناب عائشہ سے یہ حدیث جو روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے نہ کوئی دینار چھوڑا ،نہ درہم ، نہ بکری نہ اونٹ نہ کسی چیز کے متعلق وصیت فرمائی ۔ یہ بھی پہلی ہی حدیث کی طرح قابل قبول نہیں علاوہ اس کے اگر جناب عائشہ کا یہ مقصد ہے کہ آپ نے قطعی طور پر ایک چیز بھی نہ چھوڑی اور آپ ہر وصیت کیے جانے کے لائق چیز سے بالکل خالی ہاتھ تھے تو بھی صحیح نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آپ دنیا کی فضولیات چھوڑ کر نہیں مرے جیسا کہ دنیا والے چھوڑ کر مرتے ہیں۔

عقل بتاتی ہے کہ پیغمبر(ص) نے یقینا وصیت فرمائی

اس لیے کہ آںحضرت(ص) تو دنیا بھر کے لوگوں سے زیادہ زاہد و پرہیزگار تھے آںحضرت(ص) نے جس وقت دنیا سے انتقال کیا

اس(۱) وقت آپ کے ذمہ کچھ  قرضے

-------------

۱ـ معمر قتادہ سے روایت کر کے بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی(ع) نے بعد وفات رسول(ص) چند باتیں انجام دیں جن میں زیادہ تر وعدے تھے جسے امیرالمومنین(ع) نے بعد پیغمبر(ص) پورا کیا۔ میرا خیال ہے کہ قتادہ نے پانچ لاکھ درہم کہے تھے جو علی(ع) نے رسول(ص) کی جانب سے ادا کیے ملاحظہ فرمائیے ۔ کنزالعمال ج۴ ص۶۔

۴۱۹

تھے، کچھ کیے ہوئے وعدے تھے، کچھ لوگوں کی امانتیں تھیں۔ جن کے متعلق آپ کا وصیت کر جانا ضروری تھا۔ آپ نے اپنے بعد بس اتنا مال چھوڑا جس سے آپ کے دیون ادا ہو جائیں۔ آپ نے جن لوگوں سے وعدے کر رکھا تھا ۔ وہ وعدے پورے ہوجائیں اور ان دونوں باتوں سے جو کچھ فاضل بچ رہے وہ آپ کی وارث جناب سیدہ(س) کے ملے جیسا کہ جناب سیدہ(س) کے مطالبہ میراث پیغمبر(ص) سے ثابت ہوتا ہے۔(۱)

علاوہ اس کے رسول اﷲ(ص) نے ایسی قابلِ وصیت چیزیں اپنے بعد چھوڑیں جیسی دنیا سے کسی اٹھنے والے نہیں چھوڑیں۔ آپ اسی کو لے لیجیے کہ آپ نے دین خدا کو چھوڑا جس کی ابھی ابتدا ابتدا تھی۔ بالکل تازہ تازہ تھا۔ اور یہ بہ نسبت طلا، نقرہ، مکان و جائداد ، کھیتی و مویشی کے زیادہ وصی کا محتاج و ضرورتمند تھا اور آپ کی پوری امت، امت کے ایتام بھی، بیوائیں بھی بہت زیادہ جبور و مضطر تھے۔ بے حد ضرورت مند و محتاج تھے کہ رسول(ص) کا کوئی نہ کوئی وصی ضرور ہو جو آپ کی جگہ پر ان کے امورع کا نگران ہو، ان کے دینی و دنیوی حالات کا مدبر و منتطم ہو۔ خدا کے رسول(ص) کے لیے یہ بات ناممکن تھی، محال تھی کہ وہ دینِ خدا کو ( جو ابھی گہوارہ میں تھا) خواہشوں کے حوالے کرجاتے یا اپنی شریعت کی حفاظت کے لیے خیالات و آراء پر بھروسہ کر لیتے اور اپنا وصی مقرر نہ کر جاتے جسے آپ دین و دنیا کے امور کی نگرانی کے لیے وصیت کرجاتے اور جو آپ کا ایسا

--------------

۱ـ جیسا کہ بخاری نے صحیح بخاری جلد۳ ص۳۰ پر باب غزوہ خیبر کے آخر میں بیان کیا اور امام مسلم نے قول پیغمبر(ص) لا نورث ما ترکناہ صدقہ کے ضمن میں لکھا ہے ملاحظہ ہو صحیح مسلم جلد۲ ص۷۲ کتاب الجہاد۔

۴۲۰

 قائم مقام ہوتا جس پر پورا پورا بھروسہ کیا جاسکتا۔ رسول(ص) سے بعید ہے آپ اپنے ایتام ( یعنی تمام روئے زمین کے باشندوں کو) مثل اس بکری کے چھوڑ جائیں جو جاڑے کی رات میں ادھر ادھر ماری ماری پھرے اور اس کا کوئی حفاظت کرنے والا چرواہا نہ ہو اور پناہ بخدا کہ رسول(ص) وصیت نہ کرجائیں حالانکہ اس وصیت کے متعلق ان پر وحی نازل ہوچکی تھی اورع آپ اپنی امت کو وصیت کرنے کا حکم دے چکے  تھے۔ سختی سے تاکید کر چکے تھے۔ لہذا وصیت سے انکار کرنے والوں پر عقل کان ہی نہیں دھرتی۔ چاہیے انکار کرنے والے بڑی شخصیت کے مالک ہی کیوں نہ ہوں۔ یقینا رسول اﷲ(ص) نے ابتدائے دعوت اسلام میں جب مکہ میں ابھی اسلام چھی طرح ظاہر بھی نہیں ہوا تھا یعنی دعوت عشیرہ کے موقع پر امیرالمومنین (ع) کو اپنا وصی مقرر فرمایا۔ جیسا کہ ہم مکتوب نمبر10 پر مفصلا بیان کرچکے ہیں۔

اس کے بعد بھی تکرار آپ کو وصی فرماتے رہے اور جب موقع ملا یکے بعد دیگرے اپنے ان ارشادات کے ذریعے جس کا ذکر ہم سابق میں کر چکے ہیں وصیت پر تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ جب رسول(ص) کے انتقال کا وقت آیا تو آپ نے ارادہ کیا کہ ہم اب تک علی(ع) کے متعلق لفظی طور پر جن باتوں کی تاکید کرتے رہے ہیں قولا جو کچھ ان کے متعلق کہا کیے اب  بصورت تحریر وصیت نامہ بھی علی(ع) کو لکھ دیں تاکہ اب تک جو کچھ کہا یا بیان کیا اس کی تاکید و توثیق ہوجائے۔ قلم سے لکھ کر قطعی طور پر طے کروں اس مرحلہ کو۔ اسی وجہ سے ، آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ:

“ میرے پاس قلم و دوات لاؤ۔ میں ایسا وصیت نامہ تمھارے لیے لکھ جاؤں کہ پھر تم کبھی گمراہ نہ ہو”

رسول(ص) کا یہ جملہ سن کر لوگ آپس میں جھگڑنے لگے ۔ حالانکہ رسول(ص) کی خدمت

۴۲۱

 میں جھگڑنا کہاں تک مناسب ہے۔ بعض کہنے لگے کہ رسول اﷲ(ص) معاذ اﷲ ہذیان بک رہے ہیں۔ جب رسول(ص) نے یہ سنا تو آپ نےیقین کر لیا کہ ان کے اس فقرے کے بعد وصیت نامہ لکھنا بیکار ہے۔ تحریر کا کوئی اثر نہ ہوگا ، سوائے اس کے کہ اور فتنہ بڑھ جائے آپ نے ان سے فرمایا کہ :

“ میرے پاس سے اٹھ جاؤ”

اور آپ زبانی طور پر اب تک جو کچھ کہہ سکتے تھے اسی پر اکتفا کیا پھر بھی آپ نے چلتے چلاتے لوگوں کو تین باتوں کی وصیت فرمائی۔

ایک تویہ کہ علی (ع) کو اپنا ولی مقرر کردیں، دوسرے یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال باہر کریں اور جس طرح آپ وفد بھیجا کیے وہ بھی وفد بھیجتے رہیں۔

لیکن اس زمانے کی سیاست اور حکومت محدثین کو کب اجازت دے سکتی تھی کہ وہ وصیت کے پہلے جز کو بیان کرتے۔ لہذا محدثین نے بات نہ بنائی کہ پہلی بات ہم بھول گئے۔

امام بخاری نے اس حدیث کے آخر میں جس میں رسول(ص) کا قلم دوات مانگنا اور لوگوں کا کہنا کہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں مذکور ہے۔ لکھتے ہیں۔

“ ان کی اصل عبارت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ۔“ رسول(ص) نے بہ وقتِ انتقال تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ ایک تو یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو، دوسرے یہ کہ جس طرح میں وفد بھیجا کرتا تھا تم بھی بھیجنا۔”

یہ لکھ کر کہتے ہیں :“ اور تیسری بات میں بھول گیا۔”

اسی طرح امام مسلم نے بھی اپنے صحیح میں اور جملہ ارباب سنن و مسانید

۴۲۲

 نے ایسا ہی لکھا ہے۔ ہر ایک تیسری بات کو بھول گیا۔ کسی کو بھی یاد نہ رہا۔

حضرت عائشہ کا دعویٰ معارض ہے دیگر احادیث سے

رہ گیا ام المومنین کا یہ دعوی کرنا کہ رسول(ص) کا جب وصال ہوا تو آپ ان کے سینہ پر تھے۔ یہ معارض ہے ان احادیث کے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے ایسی حالت میں انتقال فرمایا جب آپ اپنے بھائی ، اپنے وصی علی ابن ابی طالب(ع) کے آغوش میں تھے جیسا کہ ائمہ طاہرین(ع) سے مروی متواتر احادیث کا فیصلہ ہے۔ نیز حضرات اہل سنت کی کتب احادیث میں بھی صحیح حدیثیں موجود ہیں جو یہی بتلاتی ہیں۔ اگر آپ تلاش و جستجو کی زحمت گوارا فرمائٰیے تو آپ کو پتہ چلے۔

                                                                             ش

۴۲۳

مکتوب نمبر38

حضرت عائشہ اپنی حدیثوں میں جذبات سے کام نہ لیتی تھیں

جناب عائشہ اور ان کی صریحی حدیث ( کہ رسول(ص) بغیر وصیت کیے دنیا سے اٹھ گئے) کے متعلق آپ نے جو کچھ فرمایا اس کا محور دو باتیں ہیں اور انھیں دوباتوں کے گرد آپ کا کلام دائر ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ جناب عائشہ چونکہ امیرالمومنین(ع) سے برگشتہ تھیں اس لیے وہ امیرالمومنین(ع) کےوصی پیغمبر(ص) ہونے سے سوائے انکار کے کر بھی کیا سکتی تھی ۔ اس کے خلاف کی ان سے توقع ہی نہیں رکھنی چاہیے اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی سیرہ پر نظر کرنے سے یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہ رسول اﷲ(ص) سے حدیث روایت کرنے میں طبعی میلان کی پرواہ نہیں کرتی تھیں اور نہ اپنی خواہش اور ذاتی غرض ملحوظ رکھتیں لہذا انھوں نے رسول(ص)

۴۲۴

 سے جتنی  باتیں نقل کیں ان میں ان پر اتہام نہیں لگایا جاسکتا۔ ہو حدیثیں خواہ ان اشخاص سے متعلق ہوں جنھیں آپ محبوب رکھتی  ہیں یا ان افراد سے متعلق ہوں جن سے آپ کو عداوت تھی دونوں آپ کے نزدیک یکساں تھے۔ پناہ بخدا کہ جناب عائشہ ایسی ہی ہستی پر غرض غالب ہو اور وہ حق کے مقابلہ میں اپنی غرض کو ترجیح دینے کے لیے رسول(ص) کی طرف نسبت دے کر خلاف واقع باتیں کرنے لگیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ عقل جناب عائشہ کی روایت کردہ حدیث کی سچائی نا ممکن سمجھتی ہے کیونکہ اس حدیث کا مفہوم ناممکن و محال ہے۔ حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول(ص) بغیر وصیت کیے انتقال فرماگئے اور رسول(ص) کا بغیر وصیت کیے انتقال فرمانا محال ہے کیونکہ رسول(ص) کے لیے کسی طرح جائز نہیں ہوسکتا کہ وہ دین خدا کو جو ابھی ابتدائی منزل میں تھا اور بندگانِ خڈا جو پرانی فطرت ( یعنی کفر و شرک) سے نکل کر نئی فطرت اسلام میں تازہ تازہ آئے تھے کہ یونہی چھوڑ دیں اور بغیر اپنا وصی مقرر کیے اور ان کے امور کے متعلق تاکیدی طور پر وصیت کیے دینا سے رخصت ہوجائیں۔

حسن و قبح اہل سنت کے یہاں عقلی نہیں شرعی ہیں

اس بات کا جواب یہ ہے کہ رسول(ص) کے لیے ایسی بات کا جائز نا جائز ہونا یہ موقوف ہے حسن و قبح کے عقلی ہونے پر اور اہل سنت اس کے قائل نہیں ۔ کیونکہ حضرات اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ عقل نہ تو کسی چیز کے حسن ہونے کو فیصلہ کرسکتی ہے اور نہ کسی چیز کے قبیح ہونے کا۔ بلکہ تمام

۴۲۵

افعال میں حسن و قبح کا فیصلہ کرنے والی فقط شرع ہے۔ شرع جس چیز کو حسن بتائے وہی حسن ہے چاہیے وہ عقل کے نزدیک قبیح ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح شرع جس چیز و قبیح کہے وہ قبیح ہی ہے ، چاہیے عقل کے نزدیک وہ حسن ہی کیون نہ ہو۔ بہر حال عقل کو کسی قسم کا دخل نہیں۔

دعویٰ عائشہ کے معارض کوئی حدیث نہیں

 اور آپ نے اپنے مکتوب کے آخر میں جو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جناب عائشہ کا یہ دعوی کہ رسول(ص) نے میرے سینے پر دم توڑا یہ معارض ہے دوسری ایسی حدیثوں کے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) کی  آغوش میں رحلت فرمائی تو اس کے متعلق کہنا یہ ہے کہ ہم ایک حدیث بھی بطریق اہلسنت ایسی نہیں پاتے جو جناب عائشہ کی حدیث سے معارض ہو۔ ہاں اگر آپ کے علم میں کوئی ایسی حدیث ہو جن کے راوی و ناقل حضرات اہلسنت ہوں اور وہ جناب عائشہ کی حدیث کے معارض ہو تو براہ کرم تحریر فرمائیے۔

                                                             س

جواب مکتوب

حضرت عائشہ کا روایتِ احادیث میں جذبات سے مجبور ہونا

آپ نے پہلی بات کے جواب میں فرمایا ہے کہ جناب عائشہ کی سیرت سے یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہ رسول(ص) کی حدیث بیان فرمانے میں اپنے طبعی میلان کی پرواہ نہیں کرتی تھیں اور اپنی ذاتی اغراض کا کوئی

۴۲۶

 خیال نہیں فرماتی تھیں۔ میری درخواست ہے آپ سے کہ ذرا چند لمحوں کے لیے تقلید اور جنبہ داری سے الگ ہو کر پھر ایک نظر ان کی سیرت پر ڈالیں ، ذرا چھان بین کیجیے کہ وہ جسے محبوب رکھتی تھیں اس کے بارے میں ان کا کیا خیال تھا اور جس سے انھیں عداوت تھی اس کے ساتھ ان کی کیا روش تھی؟ وہاں آپ کو ان کا طبعی میلان بہت واضح اور بہت روشن نظر آئے گا۔

جناب عثمان کے ساتھ قولا اورفعلا ان کا(1) جو طرز رہا اور حضرت علی(ع) جناب سیدہ(س) ، حسنین(ع) کے ساتھ در پردہ اور کھلم کھلا جو ان کا برتاؤ رہا اور دیگر ازواج رسول(ص) ، امہات المومنین کے ساتھ جو سلوک رہا ۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ رسول(ص) کے ساتھ جس طرح سے وہ پیش آیا کیں اسے نہ بھولیے گا۔ وہاں آپ کو ان کی طبعی میلان اور غرض عریاں طور پر نظر آئے گی۔

مثال کے طور پر آپ جناب ماریہ والے واقعہ کو لے لیجیے ۔ جب فریبی چالباز افراد نے جناب ماریہ اور ان کے فرزند جناب ابراہیم ک متعلق تہمت تراشی کی تو انھیں جناب عائشہ نے اپنے میلان طبیعت سے مجبور ہو کر اتہام رکھنے والوں کی تاکید کی۔ وہ تو کہیے کہ خداوندِ عالم جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت میں ڈالتا ہے۔ جناب عائشہ کی کوششیں بار آوردہ نہ

ہوسکیں اور خداوند عالم نے جناب ماریہ اور

--------------

1ـ ملاحظہ فرمائیے شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی جلد3 ص77، 487 اور ص497 آپ کو پتہ چلے گا کہ جناب عائشہ کا کیا سلوک تھا؟ حضرت عثمان اور امیرالمومنین(ع) و جناب سیدہ(ع) کے ساتھ۔

۴۲۷

 ابراہیم دونوں کو بری قرار دیا اور امیرالمومنین(ع) کے ذریعہ  دشمنوں کے مظالم سے محفوظ  رکھا اور کلام مجید میں خداوند عالم نے ان کافرون کی تردید کردی۔(1)

اگر آپ مزید سننا چاہتے ہیں تو وہ واقعہ یاد کیجیے جب جناب عائشہ نے رسول اﷲ(ص) سے کہا(2) تھا کہ :

“ مجھے آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے”

اس میں بھی کا طبعی میلان اور ذاتی جذبہ کار فرماتھا ۔ غرض یہ تھی کہ آںحضرت(ص) جناب زینب کے پاس نہ جائیں، نہ شہد نوش فرمائیں۔ لہذا جب ایسی رکیک غرض جناب عائشہ کے لیے قسم کی باتیں جائز قرار دے سکتی ہے تو امیرالمومنین(ع) کےوصی پیغمبر(ص) ہونے سے ان کا انکار کیونکر بعید ہوگا؟ اور ان کے انکار پر آپ کیونکر کان دھرسکتے ہیں۔

وہ واقعہ یاد کیجیے کہ جب اسماء بنت نعمان دلہن بنا کر رسول(ص) کی خدمت میں پیش کی گئیں تو جناب عائشہ نے انھیں(3) پٹی پڑھائی کہ رسول اﷲ(ص)

--------------

1ـ اس المناک سرگزشت کی تفصیل دیکھنا ہو تو ملاحظہ فرمائیے مستدرک امام حاکم جلد4 ص29 و تلخیص مستدرک علامہ ذہبی

2ـ ملاحظہ فرمائیے صحیح بخاری کی روایت بسلسلہ تفسیر سورہ تحریم جلد3 ص 136 اسی محل پر متعدد حدیثیں عمر سے مروی ہیں جن میں ہے کہ وہ دو عورتیں جنھوں نے پیغمبر(ص) سے سرکشی کی وہ عائشہ اور حفصہ تھیں نیز اسی جگہ ایک طولانی حدیث ہے ان تمام احادیث میں یہی مضمون ہے۔

3ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے جو امام حاکم نےمستدرک ج3 ص27 میں بسلسلہ حالات اسماء لکھے ہیں نیز ابن سعد سے طبقات جلد2 ص104 میں اسماء کے حالات میں درج کیا ہے یہ واقعہ بہت مشہور ہے علامہ ابن عبدالبر نے استیعاب میں ابن حجر عسقلانی نے اصابہ میں نیز انب جریر نے اس کی روایت کی ہے۔

۴۲۸

 اس عورت سے بہت خوش ہوتے ہیں جو رسول(ص) کے پاس آنے پر اعوذ باﷲ منک ( خدا مجھے آپ سے بچائے) کہے ۔ یہ واقعہ طبعی میلان کا نتیجہ تھا اور اس سے جناب عائشہ کی غرض یہ تھی کہ رسول اﷲ(ص) کو اس تازہ عروس سے متنفر کردیں اور اس غریب کو آپ کی نظروں سے گرادیں۔ جناب عائشہ اپنی غرض کی دھن میں اس قسم کی حدیثیں بخوبی جائز سمجھتی تھیں چاہے وہ غرض ذلیل و رکیک بلکہ حرام ہی کیوں نہ ہو۔

رسول اﷲ(ص) نے ایک مرتبہ جناب عائشہ سے ایک عورت کے متعلق کچھ باتیں دریافت کرنے  کا کہا۔ جناب عائشہ نے اپنی غرض کے خیال سے رسول(ص) کو غلط سلط باتیں(1) بتادیں۔ صحیح حالات کا علم ہی نہیں ہونے دیا۔

ایک مرتبہ اپنے باپ کے سامنے رسول(ص) سے جھگڑ پڑیں۔ اس کا سبب بھی وہی میلان طبیعت ، ذاتی جذبات و اغراض تھے اور رسول(ص) سے بولیں کہ اںصاف سے کام لیجیے(2) ۔ جس پر جناب ابوبکر نے ایک طمانچہ ان کے اتنے زور سے مارا کہ ان کے کپڑوں تک خون بہہ کر آیا۔

ایک مرتبہ رسول(ص) سے بگڑ گئیں اور غصہ سے بولیں:

“ آپ(3) ہی ہیں وہ جو دعوے کرتے ہیں کہ میں خدا کا نبی ہوں۔”

اس جیسی بہت سی مثالیں آپ کو ملیں گی۔ اس مختصر سے مکتوب میں کہاں تک

--------------

1ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال جلد6  ص294 طبقات ابن سعد جلد8 ص115۔

2ـ کنزالعمال جلد7 ص116 احیاء العلوم امام غزالی جلد2 ص35 کتاب آداب النکاح نیز امام غزالی کی کتاب کاشفہ القلوب باب 94 ص238۔

3ـ جیسا کہ علامہ غزالی نے مذکورہ بالا باتوں میں ذکر کیا ہے۔

۴۲۹

 بیان کی جائیں۔ ہم نے جتنا ذکر کردیا یہی ہمارے مطلب کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

حسن و قبح کے عقلی ہونے کا ثبوت

آپ نے دوسری بات کے جواب میں فرمایا ہے کہ اہل سنت حسن و قبح کے عقلی ہونے کے قائل نہیں تو مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ بھی ایسا مہمل عقیدہ رکھتے ہوں گے۔ ایسی رکیک بات کے قائل ہوں گے۔ یہ تو بالکل سوفسطائیوں جیسا عقیدہ ہے جو محسوس ہونے واہے حقائق تک کے منکر ہیں۔ دیکھیے بعض افعال تو وہ ہیں جن کی اچھائی اور خوبی کو ہم یقنی طور پر جانتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس کام کےکرنے پر ہمیں اچھی جزا ملے گی، لوگ ہماری تعریف کریں گے جیسے احسان ، عدل ، اںصاف اور

بعض افعال وہ ہیں جن کی برائی کا ہمیں یقین ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس کام کے کرنے پر ہم سزا کے مستحق ہوں گے اور لوگ مذمت کریں گے جیسے بدسلوکی ، ظلم ، حسد وغیرہ ہر با عقل شخص جانتا ہے کہ احسان و عدل کا اچھا ہونا اور ظلم و جور کا برا ہونا خود عقل بتاتی ہے خود عقل فیصلہ کن ہے اور جس طرح صاحبان عقل اس کا یقین رکھتے ہیں کہ ایک نصف ہے دو کا۔ اسی طرح ان کے اس یقین سے حسن و قبح کے عقلی ہونے کا یقین بھی کم نہیں۔

عقل ہمیشہ احسان کرنے والے اور ہمیشہ برائی کرنے والے کے فرق کو محسوس کرتی ہی۔ پہلے کو اچھا کہتی ہے اور دوسرے کو برا۔ محسن کو مستحق مدح و جزا اور بد معاملہ کو مستحق مذمت و قصاص قرار دیتی ہے جو عقل کے اس فیصلہ کو نہ مانے وہ ہٹی ہے۔

۴۳۰

اور اگر حسن و قبح عقلی نہ ہوں، شرعی مان لیے جائیں ، شریعت ہی کو معیار قرار دے لیا جائے کہ شریعت جس کو حسن بتائے وہی حسن ہے، اور شریعت جس کو قبیح بتائے وہی قبیح ہے ،عقل کو اس میں کوئی دخل نہیں نہ عقل کا فیصلہ قابل اعتنا ہے تو چاہیے تھا کہ وہ لوگ جو شریعت کے مانتے ہی نہیں شریعت کے قائل ہی نہیں ، وہ نہ کسی چیز کو حسن سمجھیں نہ کسی چیز کو قبیح جیسے لامذہب دہریے حضرات جو مذہب کے دشمن ہیں، شریعت کے منکر ہیں چاہیے تھا کہ ان کے نزدیک نہ کوئی چیز اچھی ہو نہ بری۔ مگر باوجود منکر دین و شریعت ہونے کے وہ بھی احسان و عدل کو اچھا ہی سمجھتے ہیں اور اس کے کرنے  والے کو مستحق مدح و ثناء لائق انعام و اکرام جانتے ہیں اور اسی طرح ظلم و سرکشی کے قبیح ہونے میں بھی انھیں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اور ظلم وسرکشی کرنے والے کو پاداش میں قصاص کا سزاوار قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ فیصلہ حسن کو حسن سمجھنا ، قبیح کو قبیح جاننا ہی کی بنا پر ہے اور کسی چیز کی وجہ سے نہیں۔ لہذا آپ ان لوگوں کی باتوں پر توجہ ہی نہ  کیجیے جو عقل کے مقابلہ میں ہٹ دھرمی سے کام لیں وجدان کے جھٹلائیں اور جسے ہر صحیح الدماغ مانتا اور جانتا ہے اس سے انکار کریں اور جس فطرت پر خدا نے انھیں پیدا کیا ہے اس فطرت کے فیصلہ کے خلاف فیصلہ صادر کریں۔

خداوند عالم نے جس طرح حس و شعور کے ذریعہ اشیاء کے ذریعہ اشیاء کا معلوم کرنا بندوں کی فطرت میں داخل کیا ہے اسی طرح اکثر حقائق کو عقل کے ذریعہ جاننا بھی فطری قرار دیا ہے لہذا خود ہماری فطرت مقتضی ہے کہ ہم عدل کی اچھائی کو ظلم وجور کی برائی کو عقل سے جانیں جس طرح  ذائقہ سے شہد کی مٹھاس اور ایلوے کا کڑواپن جانتے ہیں۔ جیسے قوتِ شامہ

۴۳۱

کے ذریعہ مشک کی خوشبو اور مردار کی بدبو سنونگھتے ہیں۔ ہاتھ سے چھو کر چکناپن اور کھردارپن معلوم کرتے ہیں۔ آنکھ سے دیکھ کرخوبصورت و بدصورت میں فرق کرتے ہیں۔ کانوں سے سن کر گدھوں کی آواز اور بانسری کی آواز میں تمیز کرتے ہیں۔ اسی طرح عقل کے ذریعہ نیکی ، انصاف کی اچھائی ، ظلم و ایذا رسانی کی برائی معلوم کرتے ہیں۔ یہ ہماری وہ فطرت و خلقت ہے جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے خدا کی خلق میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔

اشاعرہ چاہتے تھے کہ شرع پر ایمان رکھنے اور اس کے حکم کو تسلیم کرنے میں ہم انتہا کو پہنچ جائیں لہذا انھوں نے عقل کے فیصلہ ہی سے انکار کر دیا : اور کہنے لگے کہ بس جس بات کو شریعت کہے وہی قابل تسلیم اور اگر شریعت نہ کہے تو نا قابل تسلیم اور دنیا بھر میں جو عقلی قاعدہ جاری و ساری ہے بلکہ جس بات کو عقل کہے گی اس بات کو شرع بھی کہے گی اسے فراموش کر بیٹھے اور اس کا خیال ہی نہ رہا کہ اس رائے کو اختیار کر کے خود اپنے کو الجھن میں مبتلا کر لیا۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ بس جس چیز کو مذہب اچھا کہے وہی اچھا ہے اور جسے مذہب برا کہے وہی برا ہے تو پھر مذہب کی پابندی اور شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا وجوب کیونکر ثابت ہوگا۔ کوئی پوچھے کہ مذہب کو ماننا اور مذہب کےاحکام پر عمل کرنا کیوں اچھا ہے؟ اور نہ ماننا اور نہ عمل کرنا کیوں برا ہے؟ اس کے جواب میں اگر آپ کہیں کہ مذہب اچھا کہتا ہے اور مذہب برا بتاتا ہے تو یہ کھلا ہوا دور و تسلسل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر عقل مجبور بنانے والی اور سرتسلیم خم کرا دینے والی نہ ہوتی تو منقولات کے ذریعہ استدلال دعوی بلا دلیل ہی ہوتا بلکہ اگر عقل نہ ہوتی تو نہ کوئی خدا کی عبادت کرنے والا ہوتا نہ اس کی تمام مخلوقات میں کوئی اس کی معرفت حاصل کرپاتا۔ تفصیلی بحث ہمارے علماء کی تصنیفات

۴۳۲

میں آپ کو نظر آئے گی جو انھوں نے اس موضوع پر تحریر فرمائے ہیں۔

صحیح حدیثیں مخالف ہیں دعوی عائشہ کے

اور جناب عائشہ کا یہ دعوی کہ رسول(ص) نے اس حالت میں انتقال کیا جب وہ میرے سینے پر تھے ۔ یہ معارض ہے ان صحیح و متواتر احادیث کے جو ائمہ طاہرین(ع) سے مروی ہیں۔

ائمہ طاہرین(ع) کے علاوہ غیروں کی حدیث اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں تو ملاحظہ فرمائیے طبقات ابن سعد(1) جلد2 قسم ثانی صفحہ51 اور کنزالعمال جلد4 صفحہ55 جن میں بسلسلہ اسناد امیرالمومنین (ع) سے روایت کی گئی ہے:

“ حضرت علی(ع) فرماتے ہیں : کہ رسالت ماب(ص) کا جب دم واپسین آیا تو آپ نے فرمایا : میرے بھائی کو بلا دو، یہ سن کر میں آپ کے قریب آیا ، آںحضرت(ص) نے فرمایا : کہ اور نزدیک آؤ۔ میں اور نزدیک آگیا۔ رسول(ص) نے میرا سہارا لیا اور آخر وقت تک مجھ پر سہارا کیے مجھ سے باتیں کرتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ کا لعاب دہن بھی مجھ پر گرا اور اسی حالت میں آپ نے انتقال فرمایا۔”

ابو نعیم نے اپنےحلیہ میں ، احمد فرضی نے اپنے نسخہ میں نیز بہت سے صاحبان سنن نے امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے، آپ فرماتے ہیں:

“ اس وقت رسول(ص) نے مجھے ہزار باب علم کے تعلیم کیے۔

--------------

1ـ طبقات ابن سعد جلد2 قسم ثانی ص51 اور کنزالعمال جلد4 ص55 حدیث 1107

۴۳۳

ہر باب(1) سے مجھ پر ہزار باب کھل گئے۔”

حضرت عمر کی یہ حالت تھی کہ جب آپ سے رسول(ص) کے آخری حالاتِ زندگی وغیرہ کے متعلق پوچھا جاتا تو بس یہی کہتے کہ علی(ع) سے جا کر پوچھ کیونکہ انھیں کے ہاتھوں تمام امور انجام پائے چنانچہ جناب جابر  بن عبداﷲ انصاری سے  روایت ہے کہ کعب الاحبار نے حضرت عمر سے پوچھا کہ رسول(ص) کا آخری کلام کیا تھا؟ حضرت عمر نے ( حسب دستور) جواب دیا:

“ علی (ع) سے پوچھو”

کعب نے علی (ع) سے آکر پوچھا، حضرت علی(ع) نے فرمایا کہ :

“ میں نے رسول(ص) کو اپنے سینہ پر لٹایا ۔ آںحضرت(ص) نے میرے کاندھوں پر اپنا سر ڈال دیا اور فرمایا : الصلوة ، الصلوة۔ نماز ، نماز۔”

کعب نے یہ سن کر کہا کہ تمام انبیاء کی آخری وصیت یہی ہوا کی۔ اسی کی تاکید پر وہ مامور ہوئے اور اسی پر وہ رسول بنا کر بھیجے گئے۔

کعب نے پھر حضرت عمر سے پوچھا کہ غسل کس نے دیا؟ آپ نے جواب دیا کہ:

“ علی(ع) سے جاکر پوچھو۔”

کعب نے پھر آکر امیرالمومنین(ع) سے دریافت کیا۔ تو آپ نے جواب دیا کہ :

“ میں نے غسل دیا ۔”(2)

جناب عبداﷲ ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ کیا کہتے ہیں۔ کیا

--------------

1ـ کنزالعمال جلد6 ص392حدیث 6009

2ـطبقات ابن سعد جلد2 قسم ثانی ص50 اور کنزالعمال جلد4 ص55

۴۳۴

رسول اﷲ(ص) نے اس طرح انتقال فرمایا کہ آپ کا سر کسی کی آغوش میں تھا؟

جناب عبداﷲ بن عباس نے کہا: ہاں! رسول(ص) نے جب انتقال کیا تو آپ حضرت علی(ع) کے سینے پر تکیہ کیے ہوئے تھے۔

اس پر ان سے کہا گیا کہ :

“ عروہ تو جناب عائشہ سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے ان کے سینہ پر انتقال کیا۔”

جناب عباس نے اس کا انکار کیا اور کہا کہ :

“ تمھاری عقل میں یہ بات آتی ہے ؟ قسم بخدا رسول(ص) نے تو اس حالت میں انتقال کیا کہ آپ علی(ع) کے سینہ پر تکیہ کیے ہوئے تھے اور علی(ع) ہی نے آپ کو غسل بھی(1) دیا۔”

اور ابن سعد نے بسلسلہ اسناد امام زین العابدین(ع)(2) سے روایت کی ہے :

“ امام زین العابدین(ع) فرماتے ہیں : کہ جب رسول(ص) کا انتقال ہوا تو آپ کا سر حضرت علی(ع) کی گود میں تھا۔”
میں کہتا ہوں کہ اس کے متعلق تو ائمہ طاہرین(ع) سے بکثرت متواتر حدیثیں مروی ہیں۔ ائمہ طاہرین(ع) سے انحراف کرنے والے بھی اس حقیقت کے معترف ہیں یہاں تک کہ ابن سعد(3) نے بسلسلہ اسناد شعبی سے روایت کی ہے:
 “ شعبی کہتے ہیں کہ رسول(ص) نے جب انتقال کیا تو آپ کا سر

--------------

1ـ طبقات ابن سعد جلد2 قسم ثانی ص55

2ـ طبقات ابن سعد جلد2 قسم ثانی ص55

3ـ  طبقات ابن سعد جلد2 قسم ثانی ص55

۴۳۵

 امیرالمومنین (ع) کی آغوش میں تھا اور حضرت علی(ع) ہی نے آپ کو غسل دیا، امیرالمومنین(ع) بھرے مجمع میں اپنے سلسلہ تقریر میں اس کا ذکر کیا کرتے ۔ ملاحظہ فرمائیے ( نہج البلاغہ(1) جلد2 ص196)

امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں :

“ اصحاب رسول(ص) جانتے ہیں کہ میں نے کسی گھڑی خدا و رسول(ص) کا کہنا نہیں ٹالا۔ میں نے ! ایسے ایسے مہلکوں میں اپنی جان پر کھیل کر سول(ص) کی جان بچائی۔ جہاں بڑے بڑے شجاعان عرب کے پیر اکھڑ  گئے، قدم پیچھے ہٹ گئے یہ میری شجاعت و طاعت تھی جس سے خدا نے مجھے سرفراز فرمایا اور آںحضرت(ص) نے جب انتقال فرمایا تو آپ کا سر میرے سینے پر تھا اور آپ کا لعاب دہن میرے ہاتھ پر گرا جسے میں نے اپنے منہ پر مل لیا میں ہی رسول(ص) کے غسل کا منتظم ہوا جس میں ملائکہ میرے مددگار تھے۔ ملائکہ کی وجہ سے مکان اور صحن آوازوں سے گونجنے لگا۔ ایک گروہ آتا تھا دوسرا گروہ جاتا تھا ۔ ان کی آوازوں کو میرے کانوں نے سنا۔ وہ آپ پر نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ میں نے آپ کو سپرد خاک کیا۔ لہذا مجھ سے زیادہ رسول(ص)  کا آپ کی زندگی میں بھی اور آپ کے مرنے کے بعد بھی کون حقدار ہوسکے گا۔”

اسی جیسے آپ کے وہ فقرات ہیں جو آپ نے جناب سیدہ(س) کو دفن کر کے کہے(2) :

--------------

1ـ نہج البلاغہ جلد2 ص196 و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد2 ص561

2ـ نہج البلاغہ جلد2 ص207 و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد2 ص590

۴۳۶

“ سلام ہو آپ پر اے رسولِ خدا(ص) ! میری جانب سے بھی اور آپ کی دختر کی طرف سے بھی جو آپ کے جوار میں پہنچ گئیں۔ اور آپ کی خدمت میں جلد پہنچنے والی ہیں۔ یا رسول اﷲ(ص)! آپ کی  اس پاکیزہ دختر کی جدائی پر دامن صبر ہاتھوں سے چھوٹا جارہا ہے اور میرا صبر وضبط جواب دیے جارہا ہے۔ ہاں! آپ کی گراں تر جدائی اور آپ کی موت سے ہم پر سخت ترین مصیبت پڑی ہے۔ اس کو سوچتے ہوئے اس تازہ مصیبت پر صبر آتا ہے۔ ( جب) میں نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے آغوش لحد میں لٹایا اور میرے سر و سینہ پر آپ نے دم توڑا ( تو اتنی بڑی مصیبت جھیلنے کے بعد اب جو بھی مصیبت مجھ پر پڑے وہ سبک ہے) انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔”

اور جناب ام سلمہ سے یہ حدیث مروی ہے ۔ آپ فرماتی ہیں :

“ قسم بخدا علی(ع) و رسول(ص) کی خدمت میں سب سے زیادہ آخر وقت تک باریاب رہے۔ جس دن آپ کی رحلت ہوئی اس دن ہم لوگ آپ کی عیادت میں مصروف تھے اور آپ فرمارہے تھے۔ علی(ع) آئیے؟ علی(ع) آئے؟ جناب سیدہ(س) بولیں: بابا جان معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے انھیں کسی ضروری کام سے بھیجا ہے۔ جناب ام سلمہ کہتی ہے کہ تھوڑی دیر کے بعد حضرت علی(ع) آئے۔ ہم لوگوں کو خیال ہوا کہ شاید رسول(ص) تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سب وہاں سے اٹھ کر دروازے پر آبیٹھے۔ میں دروازے سے بہت قریب بیٹھی
۴۳۷

 تھی۔ میں نے دیکھا کہ رسول(ص) حضرت علی(ع) پر جھک پڑے اور باتیں کرنا شروع کیں اور باتیں کرتے ہی کرتے آپ نے انتقال فرمایا۔ لہذا علی(ع) سب سے آخر تک
پیغمبر(ص) کی خدمت میں باریاب رہنے والے تھے۔”(1)

اور جناب عبداﷲ بن عمر(2) سے مروی ہے کہ رسالت ماب(ص) نے جب آپ

--------------

1ـ اس حدیث کا امام حاکم مستدرک جلد3 ص139 پر روایت کر کے لکھے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر بخاری و مسلم نے درج نہیں کیا۔ میں کہتا ہوں اس حدیث کی صحت کا علامہ ذہبی نے بھی اعتراف کیا ہے چنانچہ انھوں نے تلخیص مستدرک میں بھی اس حدیث کو لکھا ہے ۔ ابن ابی شیبہ نے بھی سنن میں اس کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال جلد6 ص46 پر بھی موجود ہے ۔ ملاحظہ ہو حدیث 6096۔

2ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے جو ابو یعلیٰ نے کامل بن طلحہ سے انھوں نے حی بن عبدمغافری سے انھوں نے عبدالرحمن حبلی سے انھوں نے عبداﷲ بن عمرو سے مرفوعا روایت کی ہے نیز ابو نعیم نے اپنے حلیہ میں اور ابو احمد فرضی نے اپنے نسخہ میں روایت کی ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد2 ص392 پر مذکور ہے اور طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کی ہے کہ غزوہ طائف میں رسول(ص) کھڑے ہوئے اور کچھ دیر تک حضرت علی(ع) سے چپکے چپکے باتیں کرتے رہے، اس کے بعد تشریف لے گئے۔ اس پر حضرت ابوبکر نے رسول(ص) سے کہا کہ آج تو آپ علی(ع) سے بہت طولانی سرگوشی کرتے رہے ۔ پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ میں نے سرگوشی نہیں کی بلکہ خداوند عالم نے کی ہے کنزالعمال میں بھی یہ حدیث موجود ہے ملاحظہ ہو جلد6 صفحہ 399 حدیث نمبر75، 60 ۔ حضرت سرورکائنات(ص) عموما تنہائی میں حضرت علی(ع) سے باتیں کیا کرتے ۔ ایک دن پیغمبر(ص) اور امیرالمومنین(ع) تنہا بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ عائشہ آپہنچیں اور حضرت علی(ع) سے کہنے لگیں کہ اے علی(ع) تو دنوں میں مجھے ایک دن ملتا ہے ( پیغمبر(ص) کی نوبیویاں تھیں اس لحاظ سے نو دن میں ایک دن پیغمبر(ص) جناب عائشہ کے یہاں آرام فرماتے) کیا تم مجھے میرے دن میں بھی چین سے نہ رہنے دوگے۔ یہ سن کر سرورکائنات(ص) کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ حمیدی جلد2 ص78

۴۳۸

  بستر مرگ پر تھے فرمایا کہ میرے بھائی کو بلااؤ۔ ابو بکر سامنے آئے۔تو آپ نے منہ پھیر لیا ۔ پھر آپ نے کہا کہ میرے بھائی کو بلاؤ۔ حضرت عمر سامنے آئے تو آںحضرت(ص) نے منہ پھیرلیا ۔ کوئی بڑھ کر حضرت علی(ع) کو بلایا ۔ جب علی(ع) آئے تو آپ انھیں اپنی چادر میں لے لیا اور آپ پر جھک کر باتیں کرنے لگے۔ حضرت علی(ع) باہر آئے تو ان سے پوچھا گیا کہ رسول(ص) کیا کہہ رہے تھے آپ سے ؟

آپ نے کہا : رسول(ص) نے مجھے ہزار باب علم کے تعلیم کیے اور ہر باب سے ہزار باب مجھ پر کھل گئے۔

آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہی باتیں مناسب حال انبیاء ہیں اور جناب عائشہ جو کچھ فرماتی ہیں وہ تو ہوس پرستوں کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔

اگر کوئی چرواہا اس طرح مرے کہ اس کا سر اس کی بیوی کے سینہ پر ہو یا ٹھڈی اور ناف کے درمیان یا بیوی کی ران پر ہو اور وہ اپنے مویشی کی حفاظت و نگہداشت کی وصیت بیوی کو نہ کرے تو یقینا وہ زیاں کار اور تباہ و برباد کرنے والا ہوگا۔

خدا معاف کرے جناب عائشہ کو کاش ( جب انھوں نے یہی تہیہ کر لیا

۴۳۹

تھا کہ یہ فضیلت علی(ع) کے لیے  نہ ہونے پائے تو ) اپنے باپ کی طرف اس کو منسوب کرتے ہوئے یہ بیان کرتیں کہ میرے باپ کے سینے پر رسول(ص) کا دم نکلا لیکن اپنے باپ کی طرف وہ اس کی نسبت دے بھی کیسے سکتی تھیں کیونکہ انھیں تو رسول(ص) نے خود اسامہ کا ماتحت بنا کر لشکر کے ساتھ روانہ کیا تھا جو مدینہ کے باہر جا کر پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔

بہر حال جناب عائشہ کا یہ کہنا کہ رسول(ص) نے ان کی گود میں دم توڑا صرف جناب عائشہ ہی کی طرف منسوب ہے فقط وہی اس کی بیان کرنے والی ہیں اور یہ قول کہ رسول(ص) نے علی(ع) کی گود میں دم توڑا بکثرت لوگوں کی طرف منسوب ہے۔ بہت سے بیان کرنے والے ہیں۔ جیسے حضرت علی(ع)، عبداﷲ بن عباس، عبداﷲ بن عمر، شبی ، امام زین العابدین(ع)، اور جملہ ائمہ طاہرین(ع) لہذا یہ قول اپنی سند کے لحاظ سے بھی قابل ترجیح ہے اور رسول اﷲ(ص) کی شان کے بھی زیادہ مناسب ہے۔

ام سلمہ کی حدیث مقدم ہے حضرت عائشہ پر

جناب عائشہ کی حدیث اتنے حضرات کی احادیث سے معارض ہے اگر ان حضرات سے قطع نظر صرف جناب ام سلمہ ہی کی حدیث سے معارض ہوتی تو اس صورت میں بھی متعدد وجوہ سے جناب ام سلمہ ہی کا قول قابل قبول ہوتا انھیں کی حدیث کو ترجیح دی جاتی۔

                                                             ش

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639