دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)9%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272313 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

“‏ أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ‏ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا- فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ”

“ میں شہر علم ہوں، علی(ع) اس کا دروازہ ہیں، جو شخص علم حاصل کرنا چاہیے وہ دروازے سے آئے۔”(1)

--------------

1ـ طبرانی نے کبیر میں ابن عباس سے اس حدیث کی روایت کی ہے، جیسا کہ سیوطی کی جامع صغیر صفحہ 107 پر مذکور ہے اور امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 227 پر باب مناقب علی(ع) میں دو صحیح سندوں سے اس حدیث کی روایت کی ہے ایک عبدا ﷲ بن عباس سے جو دو صحیح طریقوں سے ہے دوسری جابر بن عبداﷲ انصاری سے ۔ اس کے طریق کی صحت پر انھوں نے قطعی دلیلیں قائم کی کی ہیں۔ امام احمد بن صدیق مغربی وارد قاہر نے ایک مستقل عظیم الشان کتاب خاص کر اس حدیث کی صحت ثابت کرنے کے لیے تحریر فرمائی ہے۔ کتاب کا نام فتح الملک العلی بصحت حدیث ثابت مدینہ العلم علی ہے۔ یہ کتاب 1345ھ میں مطبع الاسلامیہ مصر میں طبع ہوچکی ہے۔ تشگان علوم کو چاہیے کہ اس کتاب کو ضرور ملاحظہ فرمائیں کہ علوم کثیرہ پر مشتمل ہے ناصبی حضرات اس مشہور ومعروف حدیث کو متعلق جوہر خاص و عام کے ورد زبان ہے، ہر شہری و دیہاتی اس کا جانتا ہے جو بکواس کرتے ہیں اس کا کوئی وزن نہیں ہے۔ ہم نے ان کے اعتراضات کے غائر نظر سے دیکھا سوا زبردستی اور کٹھ حجتی ہمیں اور کوئی بات نظر نہ آئی سوائے اس کے کہ انھوں نے رکیک اعتراضات کر کے تعصب کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک دلیل بھی تو ٹھکانے کی نہیں ذکر کی۔ جیسا کہ حافظ صلاح الدین علائی نے علامہ ذہبی وغیرہ کے قول در بطلان حدیث ان مدینہ العلم کو نقل کرنے کے بعد تصریح کی ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے ایک بات بھی درست نہیں پیش کی جو قادح ہو اس حدیث کی صحت میں سوا وضعیت کے دعوی کے۔

۲۶۱

10ـ “أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا.”

“ میں حکمت  کا گھر ہوں، علی(ع) اس کا دروازہ ہیں۔”(1)

11ـ“‏ عَلِيٌّ بَابُ‏ عِلْمِي‏ وَ مُبَيِّنٌ لِأُمَّتِي مِنْ بَعْدِي مَا أُرْسِلْتُ بِهِ حُبُّهُ إِيمَانٌ وَ بُغْضُهُ نِفَاقٌ ”

“  علی(ع) میرے علم کا دروازہ ہیں اور میں جن چیزوں کو لے کر مبعوث ہوا، میرے بعد یہی ان چیزوں کو میری امت سے بیان کریں گے۔ ان کی محبت ایمان اور ان کا بغض نفاق ہے۔”(2)

--------------

1ـ اس حدیث کو امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی میں درج کیا ہے نیز ابن جریر نے بھی لکھا ہے اور ترمذی و ابن جریر، بہتر علمائے اعلام نے نقل کیا ہے مثلا علامہ متقی ہندی ملاحظہ ہو کنز العمال جلد6 صفحہ 401 نیز علامہ متقی لکھتے ہیں کہ ابن جریر نے کہا ہے کہ اس حدیث کو اسناد ہمارے یہاں صحیح ہیں اور ترمذی سے جلال الدین سیوطی نے جامع الجوامع صغیر کے حرف ہمزہ میں نقل کیا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے جامع صغیر صفحہ170 جلد اول۔

2ـ دیلمی نے جناب ابوذر سے اس کی روایت کی ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد6 صفحہ 156 پر ہے۔

۲۶۲

12ـ “أَنْتَ‏ تُبَيِّنُ‏ لِأُمَّتِي مَا اخْتَلَفُوا فِيهِ بَعْدِي.”

“ اے علی(ع) میرے بعد جب میری امت اختلاف میں مبتلا ہوگی تو تم ہی راہ حق واضح کرو گے۔”

اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک(1) ج3 صفحہ 122 پر درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ :

“ یہ حدیث مسلم و بخاری دونوں کےبنائے ہوئے معیار پر صحیح ہے لیکن ان دونوں نے ذکر نہیں کیا۔”

ان احادیث پر غور کرنے کے بعد یہ حقیقت باکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت علی(ع) کی رسول(ص) کے نزدیک وہی منزلت جو خود رسول(ص) کی خدا کے نزدیک تھی۔ جو بات قدرت نے رسول(ص) کے متعلق فرمائی بعینہ ویسی بات رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کے متعلق۔ قدرت کا ارشاد ہوا :

 “وَ ما أَنْزَلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فيهِ وَ هُدىً وَ رَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ”(النحل، 64  )

“ میں نے تم پر جو کتاب نازل کی وہ صرف اس لیے کہ لوگ جس مسئلہ میں اختلاف کریں تم راہِ حق واضح کر دو گے اور یہ کلام مجید وجہ

--------------

1ـ دیلمی میں انس سے روایت کی ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد6 صفحہ 156 پر مذکور ہے۔

۲۶۳

ہدایت اور رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لیے۔”

اور رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کے متعلق فرمایا :

“ تم میری امت کے اختلاف میں مبتلا ہونے کے وقت راہِ حق واضح کرو گے۔”

13ـ ابن سماک نے حضرت ابوبکر سے مرفوعا روایت کی ہے :

علي مني بمنزلتي‏ من‏ ربي‏

“ علی(ع) کو مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو مجھے خدا کی بارگاہ میں حاصل ہے۔”(1)

14ـ دار قطنی نے افراد میں ابن عباس سے مرفوعا روایت کی ہے :

علِی بن ابِی طالِب بَابِ‏ حِطَّةٍ مَنْ دَخَلَ من ه كَانَ مُؤْمِناً وَ مَنْ خَرَجَ مِنْهُ كَانَ كَافِراً

“ علی(ع) باب حطہ ہیں، جو اس باب میں داخل ہوا وہ مومن ہے اور جو نکل گیا وہ کافر ہے۔”(2)

15ـ آںحضرت(ص) نے حج آخری میں مقامِ عرفات پر فرمایا :

 “عَلِيٌ‏ مِنِّي‏ وَ أَنَا من عليّ ، ولَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ.”

“ علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔ اور

--------------

1ـ صواعق محرقہ ، باب 11، صفحہ106۔

2ـ کنزالعمال ج6 صفحہ 153 حدیث 2528۔

۲۶۴

 کار رسالت کی ادائیگی یا تو میں کروں گا یا علی(ع)۔”(1)

یہ قول معزز پیغامبر(ص) کا جو قوت والا ہے خدا کے نزدیک جسے منزلت حاصل ہے۔

--------------

1ـ ابن ماجہ نے سنن ابن ماجہ صفحہ92 جلد اول باب فضائل الصحابہ میں اس کی روایت کی ہے۔ ترمذی اور نسائی نے اپنی صحیح میں نیز کنزالعمال جلد6 صفحہ153 حدیث 2530 ۔ امام احمد نے مسند جلد4 صفحہ 164 پر حبشی بن جنادہ کی حدیث سے متعدد طریقوں سے اس حدیث کی روایت کی ہے اور سب کے سب طریقے صحیح ہیں۔ مختصرا یہ سمجھ لیجیے کہ انھوں نے اس حدیث کو یحی بن آدم سے انھوں نے اسرائیل بن یونس سے انھوں نے اپنے دادا ابو اسحق سبیعی سے انھوں نے  نے حبشی سے روایت کیا ہے اور یہ کل کے کل بخاری و مسلم کے نزدیک حجت ہیں اور ان دوںوں نے ان سب سے اپنے اپنے صحیح استدلال کیا ہے ۔ مسند احمد میں اس حدیث کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث آںحضرت(ص) سے حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمائی جس کے بعدآپ اس دار فانی میں بہت تھوڑے دنوں زندہ رہے۔ اس کے قبل آپ نے ابوبکر کو سورہ برائت کی دس آیتیں دے کر بھیجا تھا کہ وہ اہل مکہ کو جاکر پڑھ کر سنا دیں۔ پھر آپ نے حضرت علی(ع) کو بلایا ( جیسا کہ امام احمد نے مسند جلد اول صفحہ 151 پر روایات کی ہے) اور فرمایا کہ جلد جاکر ابوبکر سے ملو جہاں بھی ان سے ملاقات ہو ان سے نوشتہ لے لو اور خود لے کر اہل مکہ کی طرف جاؤ اور پڑھ کر سناؤ۔ حضرت علی(ع) مقام جحفہ پر ان سے ملے اور ان سے وہ نوشتہ لے لیا اور حضرت ابوبکر رسول(ص) کی خدمت میں پلٹ آئے اور آکر کہا کہ یا رسول اﷲ(ص) کیا میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ نہیں۔ لیکن جبرئیل آئے اور انھوں نے کہا کہ تم اپنی طرف سے اپنے امور کی انجام دہی یا تو خود کرو یا وہ جو تم سے ہو اور دوسری حدیث میں ہے ( جسے امام احمد نے مسند ج اول صفحہ150 پر امیرالمومنین(ع) سے روایت کیا ہے) کہ رسول اﷲ(ص) نے جب حضرت علی(ع) کو سورة برائت پہنچانے کے لیے روانہ کیا تو فرمایا کہ اے علی(ع) کوئی چارہ کار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل کو ہدایت بخشے گا

۲۶۵

خدا را آپ ہی فرمائیں ان احادیث سے کون سی راہ فرار آپ نکال سکتے ہیں۔ ایسے صحیح احادیث اور صریحی ںصوص کے مقابل مین آپ کیا فرماسکیں گے ۔ اگر آپ اس وقت کا تصور فرمائیں اور حکیمِ اسلام کی اس گہری حکمت کو سوچیں کہ آپ ایسے موقع پر یعنی فریضہ حج بجالاتے ہوئے مقامِ عرفات پر لاکھوں مسلمانوں کے ہجوم میں یہ اعلان فرماتے ہیں تو آپ پر حقیقت اچھی طرح روشن ہوجائے۔ رسول(ص) کے الفاظ دیکھیے کتنے مختصر ہیں لیکن یہ مختصر الفاظ کتنے جلیل القدر معانی و مطالب کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں چند الفاظ میں آپ نے مطالب کے دفتر سمودیے : “و لَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ

 “ میرے فرائض رسالت کی ادائیگی کسی سے ممکن نہیں سوا میرے یا علی(ع) کے ۔”
۲۶۶

اس جملہ کے بعد اب کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔ سوا علی(ع) کے کسی شخص کے لیے اس بات کی اہلیت اور صلاحیت ہی نہیں نکلتی کہ وہ کارِ رسالت سے کسی چیز کی ادائیگی کرسکے، فریضہ تبلیغ میں رسول(ص) کا ہاتھ بٹاسکے اور ہو بھی کیسے سکتا ہے ۔ علی(ع) کے سوا کسی اور میں گنجائش نکل بھی کیسے سکتی ہے اس لیے کہ نبی کے امور یا تو خود نبی سے انجام پاتے ہیں یا پھر اس کے وصی کے ذریعہ انجام پائیں گے۔ نبی کا قائم نبی کا جانشین اور ولیعہد ہی ہوسکتا ہے۔

16ـ  “ من‏ أطاعني‏ فقد أطاع اللّه عزّ و جلّ، و من عصاني فقد عصى اللّه، و من أطاع عليّا فقد أطاعني، و من عصى عليّا فقد عصاني”

“ جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی ۔ جس نے علی(ع) کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔”

اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 121 پر درج کیا ہے اور علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں ذکر کیا اور ان دونوں نے تصریح کی ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں کے معیار پر صحیح ہے۔

17ـ  “ يا علی مَنْ فَارَقَنِي‏ فَقَدْ فَارَقَ اللَّهَ

۲۶۷

وَ مَنْ فَارَقَکَ فَقَدْ فَارَقَنِي‏

“ اے علی(ع)! جو مجھ سے برگشتہ ہوا وہ خدا سے برگشتہ ہوا اور جو تم سے برگشتہ ہوا وہ مجھ سے برگشتہ ہوا۔”

اس حدیث کو امام حاکم مستدرک ج3 صفحہ 124 پر درج کر کے لکھتے ہیں کہ :

“ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری و مسلم نے اسے ذکر نہیں کیا ہے۔”

18ـ ام سلمہ(رض) کی حدیث میں ہے:

“وَ مَنْ‏ سَبَ‏ عَلِيّاً ع فَقَدْ سَبَّنِي.”

“ جس نے علی(ع) کو دشنام دی اس نے مجھے دشنام دی۔”

حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 121 پر اسے درج کیا اور مسلم و بخاری دونوں کے معیار پر صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں اس کی صحت کی صراحت کرتے ہوئے درج کیا ہے۔ نیز امام احمد نے ام سلمہ سے یہ حدیث مسند ج6 صفحہ 323 پر اور نسائی نے خصائص علویہ صفحہ17 پر نقل کیا ہے۔ نیز دیگر اجلہ علماء محدیثین نے اس کی روایت کی ہے اسی جیسا رسول کاوہ قول بھی ہے جو عمرو بن شاس(1) کی حدیث میں منقول ہے :

مَنْ‏ آذَى‏ عَلِيّاً فَقَدْ آذَانِي

--------------

1ـ عمرو بن شاس کی حدیث صفحہ 247 کے حاشیہ پر گزر چکی ہے۔

۲۶۸

“ جس علی(ع) کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔”

19ـ “مَنْ‏ أَحَبَ‏ عَلِيّاً فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَ مَنْ أَبْغَضَ عَلِيّاً فَقَدْ أَبْغَضَنِي

“ جس نے علی(ع) کو محبوب رکھا اس نے مجھے محبوب رکھا اور جس نے علی(ع) سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔”

امام حاکم نے اس حدیث کو مستدرک ج3 صفحہ 130 پر درج کیا اور بشرائط شیخین اسے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں مذکورہ بالا معیار پر اس کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے درج کیا ہے۔اسی جیسا خود حضرت علی(ع) کا قول(1)   ہے۔ آپ فرماتے تھے :

 “ قسم ہے اس ذات کی جس نے زمین سے دانہ کو روئیدہ کیا اور ہو چلائی۔ رسول(ص) مجھ سے قول و قرار فرماچکے ہیں کہ مجھے وہی دوست رکھے گا جو

--------------

1ـ صحیح مسلم کتاب ایمان صفحہ 46 جلد اول ابن عبدالبر نے استعیاب میں بسلسلہ حالات امیرالمومنین(ع) اس حدیث کے مضمون کو صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کیا ہے م18 پر بریدہ کی حدیث درج کی جاچکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ۔ آںحضرت کا یہ قول حد تواتر کو پہنچ چکا ہے “ اللہم وآل من والاہ و عاد من عاداہ “ جیسا کہ صاحب فتاوی حامدیہ نے انے رسالہ موسومہ بہ صلوة الفاخرہ فی الاحادیث المتواترہ میں اعتراف کیا ہے۔

۲۶۹

 مومن ہوگا، وہی دشمن رکھے گا جو منافق ہوگا۔”

20ـ “  يا عَلِيِّ أَنْتَ‏ سَيِّدٌ فِي‏ الدُّنْيَا وَ سَيِّدٌ فِي الْآخِرَةِ حبيبک َحبِيبِي وَ حَبِيبِي حَبِيبُ اللَّهِ وَ عَدُوُّكَ عَدُوِّي وَ عَدُوِّي عَدُوُّ اللَّهِ وَالويْل لِمَنْ أَبْغَضَكَ مِنْ بَعْدِي.”

“ تم دنیا میں بھی سید و سردار ہو اور آخرت میں بھی، تمھیں دوست رکھنے والا مجھے دوست رکھنے والا ہے اور مجھے دوست رکھنے والا خدا کو دوست رکھنے والا ہے، اور تمھارا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ ہلاکت و تباہی نصیب ہو اسے جو میرے بعد تم سے بغض رکھے۔”

اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 128 پر درج کیا ہے اور بشرائط شیخین صحیح قرار دیا ہے۔(1)

--------------

1ـ  امام حاکم نے اس حدیث کو بطریق ازہر عبدالرزاق سے انھوں نے زہری سے انھوں نے عبیداﷲ بن عبداﷲ  سے انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔ سب کے سب اشخاص حجت ہیں۔ اسی وجہ سے امام حاکم  نے اس حدیث کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام حاکم فرماتے ہیں کہ میں نے ابو عبداﷲ قرشی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے احمد بن یحی حلوانی سے سنا وہ کہتے تھے کہ جب ابو الازہر صنعا سے آئے اور اہل بغداد سے اس حدیث کا ذکر کیا تو یحی بن معین نے اس کا انکار کیا ۔ جب ان کے نشست کا دن  ہوا تو انھوں نے صحبت میں کہا کہ وہ کذاب نیشاپوری کہاں ہے جو عبدالرزاق سے اس حدیث کو بیان کرتا ہے۔ یہ سن کر ابو الازہر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ وہ میں ہوں ان کے اٹھنے اور یہ کہنے پر یحی بن معین ہنس پڑے ۔ پھر ان کو اپنے قریب بلایا اور اپنے سے نزدیک کیا۔ پھر ابو الازہر سے پوچھا کہ عبدالرزاق نے تم سے یہ حدیث کیونکر بیان کی حالانکہ تمھارے سوا کسی اور سے انھوں نے یہ حدیث نہیں بیان کی۔ ابوالازہر بولے سنیے میں صنعا میں پہنچا معلوم ہوا کہ عبدالرزاق موجود نہیں وہ ایک دور کے قریہ میں فروکش ہیں۔ میں ان کے پاس پہنچا میں بیمار بھی تھا۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے مجھ سے خراسان کی بابت دریافت کیا میں نے حالات بیان کیے ان سے حدیثیں لکھیں ۔ پھر ان کے ساتھ صنعاء واپس ہوا۔جب میں رخصت ہونے لگا تو عبدالرزاق نے کہا کہ تمھارا حق مجھ پر واجب ہے۔ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جس کو تمھارے سوا کسی اور نے مجھ سے نہیں سنا یہ کہہ کر انھوں نے قسم بخدا یہ حدیث بیان فرمائی۔ یہ سن کر یحی ابن معین نے ان کی تصدیق کی اور پھر معافی چاہی ، معذرت کی۔ علامہ ذہبی نے تلخیص میں اس حدیث کے رواة کے ثقہ ہونے کا اعتراف کیا ہے اور ابو الازہر کے ثقہ ہونے کی خاص کر صراحت کی ہے اور پھر باوجود ان سب باتوں کے انھوں نے اس حدیث کی صحت میں شک کیا مگر سوائے ہٹ دھرمی اور کٹھ حجتی کے کوئی ایسی بات نہیں پیش کی جو اس حدیث میں قادح ہو۔ رہ گیا یہ کہ عبدالرزاق اس حدیث کو کیوں چھپاتے تھے اس کی وجہ ظاہر ہے انھوں نے ظالمین کے سطوت و قہرو غلبہ کے خوف سے ایسا کیا جیسا کہ سعید بن جبیر نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ تم بڑے بے خوف و بے پروا معلوم ہوتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔درج نہیں کیا ہے

۲۷۰

21ـ “يا علي‏ طوبى‏ لمن أحبك و صدق عليك، و ويل لمن أبغضك و كذب عليك.”

“اے علی(ع) بشارت جنت ہو اسے جو تمہیں دوست رکھے اور تمہارے معاملہ میں سچائی برتے اور ہلاکت ہو اسے جو تمہیں دشمن رکھے اور تمھارے متعلق جھوٹ بولے۔”
۲۷۱

امام حاکم نے مستدرک ج3 صفحہ 135 پر درج کیا ہے اور درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :

“ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری و مسلم نے درج نہیں کیا ۔”

22ـ“‏ مَنْ أَراد أَنْ يَحْيَا حَيَاتِي‏ وَ يَمُوتَ مَمَاتِي وَ يَسکن جَنَّةَ الخلد الَّتِي

۲۷۲

 وَعَدَنِي رَبِّي فَلْيَتَوَلَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ع فَإِنَّهُ لَا يُخْرِجُكُمْ مِنَ ْهُدَى وَ لَا يُدْخِلُكُمْ فِي ضَلَالَةٍ.”

“ جو شخص میری زنگی جینا اور میری موت مرنا اور سدابہار باغِ جنت میں جس کا خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے رہنا چاہتا ہو وہ علی(ع) کو دوست رکھے کیونکہ علی(ع) تم کو راہ ہدایت سے کبھی الگ نہ کریں گے اور نہ گمراہی میں کبھی ڈالیں گے۔”(1)

23ـ “أوصي من آمن بي و صدّقني بولاية عليّ ابن ابی طالب، فمن‏ تولّاه‏ فقد تولّاني، و من تولّاني فقد تولّى اللّه، و من أحبّه فقد أحبّني، و من أحبّني فقد أحبّ اللّه، و من أبغضه فقد أبغضني و من أبغضني فقد أبغض اللّه عز وجل.”

“میں وصیت کرتا ہوں ہر اس شخص کو جومجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی کہ علی(ع) کا تابع فرمان رہے جس نے علی(ع) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ۔ اور جس نے علی(ع) کو

--------------

1ـ دیکھیے یہی کتاب صفحہ72، 75۔

۲۷۳

دوست رکھا اس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے مجھے دوست رکھا اس نے خدا کو دوست رکھا اور جس نے علی(ع) سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے خدا سے بغض رکھا۔”(1)

24ـ“‏مَنْ سَرَّهُ ان يَحْيَى حياتى، وَ يَمُوتَ مماتى وَ يَسْكُنَ جُنَّةَ عَدْنٍ غَرَسَهَا ربى فَلْيُوَالِ عَلِيّاً مِنْ بعدى، وَ لْيُوَالِ‏ وَلِيَّهُ‏، وَ لْيَقْتَدِ بالائمة مِنْ بعدى، فانهم عترتى خُلِقُوا مِنْ طينتى رُزِقُوا فَهْماً وَ عِلْماً، وَ وَيْلٌ لِلْمُكَذِّبِينَ بفضلهم مِنْ امتى الْقَاطِعِينَ فِيهِمْ صلتى لَا انالَهُمُ اللَّهُ شفاعتى.

“ جسے یہ خوشگوار معلوم ہو کہ میری زندگی جیے اور میری موت مرے اور باغ عدن میں رہے وہ میرے بعد علی(ع) کو اپنا امیر سمجھے اور علی(ع) کے بعد ان کے جانشین کی اطاعت کرے اور میرے بعد میرے اہل بیت(ع) کی پیروی اختیار کرے کیونکہ

--------------

1ـ دیکھیے یہی کتاب صفحہ 76۔

۲۷۴

میرے اہل بیت(ع) میری عترت ہیں، میری طینت سے پیدا ہوئے ہیں، انھیں میرا ہی فہم و علم بخشا گیا، پس ہلاکت ہو میری امت کے ان لوگوں کے لیے جو میری اہل بیت (ص) کے فضل و شرف کو جھٹلائیں اور میری قرابت کا خیال نہ کریں۔ خدا ان کو میری شفاعت سے محروم رکھے۔”

25ـ “مَنْ‏ أَحَبَ‏ أَنْ‏ يَحْيَا حَيَاتِي‏ وَ يَمُوتَ مِيتَتِي وَ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ الَّتِي وَعَدَنِي رَبِّي، وَ هِيَ جَنَّةُ الْخُلْدِ قَضِيباً غَرَسَهُ بِيَدِهِ، فَلْيَتَوَلَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَ ذُرِّيَّتَهُ مِنْ بَعْدِهِ فَإِنَّهُمْ لَنْ يُخْرِجُوهُمْ مِنْ بَابِ هُدًى وَ لَنْ يُدْخِلُوهَا فِي بَابِ ضَلَالَةٍ.”

“جسے یہ پسندیدہ ہو کہ میری زندگی جیے اور میری موت مرے اور اس جنت میں داخل ہو جس کا میرے
پروردگار نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے اور جنت خلد ہے پس وہ علی(ع) اور علی(ع) کے بعد ان کی ذریت کی اطاعت و فرمانبرداری کرے کیونکہ وہ تمہیں راہ راست سے کبھی علیحدہ نہ کریں گے اور نہ گمراہی میں کبھی ڈالیں گے۔ (1)

--------------

1ـ دیکھیے صفحہ 74۔

۲۷۵

26ـ “يَا عَمَّارُ إِذَا رَأَيْتَ‏ عَلِيّاً سَلَكَ وَادِياً وَ سَلَكَ النَّاسُ وَادِياً غَيْرَهُ فَاسْلُكْ مَعَ عَلِيٍّ وَ دَعِ النَّاسَ فَإِنَّهُ لَنْ يَدُلَّكَ عَلَى رَدًى وَ لَنْ يُخْرِجَكَ مِنْ هُدًى

“ اے عمار ! جب تم علی(ع) کو دیکھنا کہ وہ اور کسی راستہ پر جارہے ہیں اور لوگ کسی اور راستہ پر چل رہے ہیں تو تم اسی راستہ کو اختیار کرنا جس پر علی(ع) ہیں۔ وہ تمھیں کبھی ہلاکت میں نہ ڈالیں گے نہ راہ راست سے جدا کریں گے۔”(1)

27ـ “كَفِّي‏ وَ كَفُ‏ عَلِيٍّ فِي الْعَدْلِ سَوَاءٌ.

“ میرا ہاتھ اور علی(ع) کا ہاتھ عدل میں برابر ہے۔”(2)

28ـ“يا فاطم ه أما ترضين‏ أنّ اللّه اطّلع إلى أهل الأرض فاختار رجلين، أحدهما أبوك، و الآخر بعلك.”

“ اے میری پارہ جگر فاطمہ(س) کیا تم اس سے خوش

--------------

1ـ دیلمی نے عمار و ابو ایوب سے اس کی روایت کی ہے۔ جیسا کہ کنزالعمال جلد6 صفحہ156 پر مذکور ہے۔

2ـ کنزالعمال جلد6 صفحہ 153 حدیث 2539۔

۲۷۶

نہیں ہو کہ خداوند عالم نے روئے زمین کے باشندوں پر ایک نظر کی تو دو شخص منتخب کیے ایک تمھارا باپ دوسرا تمھارا شوہر۔”(1)

29ـ “أَنَا الْمُنْذِرُ وَ عَلِيٌّ الْهَادِي يَا عَلِيُّ بِكَ يَهْتَدِي الْمُهْتَدُونَ مِنْ بَعْدِي.”

“ میں منذر ڈرانے والا ہوں اور علی(ع) ہادی ہیں ۔ اے علی(ع) تمھارے ہی ذریعہ میرے بعد ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے۔”(2)

30ـ“  يا على‏ لا يحلّ‏ لاحد يجنب في هذا المسجد غيرى و غيرك. ”

“ اے علی(ع) ! میرے اور تمھارے سوا کسی اور تیسرے کے لیے جائز نہیں کہ وہ مسجد میں بحالت جنابت ہو۔”(3)

اسی جیسی طبرانی کی حدیث ام سلمہ(رض) سے اور بزار(4) سے منقول ہے۔ انھوں نے سعد سے روایت کی ہے۔ سعد

--------------

1ـ مستدرک ج3 صفحہ129 اور بھی بکثرت اصحاب سنن نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

2ـ دیلمی نے ابن عباس کی حدیثوں میں اس کو لکھا ہے ۔ کنزالعمال جلد6 صفحہ 150 پر بھی موجود ہے ۔ ملاحظہ ہو حدیث 2631۔

3ـ دیکھیے م 17 وہاں ہم نے اس حدیث پر جو حاشیہ لکھا ہے اسے ضرور ملاحظہ فرمائیں اور اس موقع پر جو حدیثیں ذکر کی ہیں ان پر بھی غائر نگاہ ڈالیں۔

4ـ ابن حجر نے صواعق محرقہ میں اس حدیث کو لکھا ہے ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب 9۔

۲۷۷

کہتے ہیں کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا :

“لا يحل‏ لأحد أن يجنب في هذا المسجد إلّا أنا و عليّ .”

“ کسی شخص کے لیے بھی جائز نہیں کہ مسجد مین بحالتِ جنابت ہو سوا میرے اور علی(ع) کے۔

31ـ“أَنَا وَ هَذَا يعنی عليا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَى أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ.”

میں اور یہ ، یعنی علی(ع) قیامت کے دن میری امت پر حجت ہوں گے۔”

خطیب نے انس کی حدیث(1) سے اس کو نقل کیا ہے۔ قابل غور یہ ہے کہ امیرالمومنین(ع) نبی کی طرح کیونکر حجت تھے۔

آپ کا بعینہ نبی کی طرح حجت ہونا تو اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے جبکہ آپ رسول(ص) کے ولی عہد ہوں اور آپ کے بعد امور کے مالک و مختار ہوں۔

32ـ “مكتوب‏ على‏ باب‏ الجنّة: لا إله إلّا اللّه، محمّد رسول اللّه، عليّ أخو رسول اللّه ”

“ جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے۔ معبود حقیقی بس اﷲ ہی ہے اور محمد مصفطی(ص) خدا کے

--------------

1ـ کنزالعمال حدیث 2632 جلد6 صفحہ 157۔

۲۷۸

 رسول(ص) ہیں اور علی(ع) رسول(ص) کے بھائی ہیں۔”(1)

33ـ “مكتوب‏ على‏ ساق‏ العرش‏:  لا إله الّا اللّه محمّد رسول اللّه أيّدته بعليّ و نصرته بعلی.”

“ ساق العرش پر لکھا ہوا ہے : معبود حقیقی بس اﷲ ہی ہے اور محمد مصطفی(ص) خدا کے رسول ہیں جن کو علی(ع) کے ذریعہ تقویت بخشی اور علی(ع) سے جن کی مدد کی ۔”(2)

24ـ “من‏ أراد أن‏ ينظر إلى‏ نوح‏ في عزمه و إلى آدم في علمه و إلى إبراهيم في حلمه و إلى موسى في فطنته و إلى عيسى في زهده فلينظر إلى علي بن أبي طالب‏

“ جو شخص یہ چاہے کہ نوح(ع) کو ان کے محکم ارادہ میں، آدم(ع) کو ان کے علم میں، ابراہیم(ع) کو ان کے حلم میں ، موسیٰ(ع) کو ان کی تیزی ذہانت میں، عیسیٰ(ع)

--------------

1ـ طبرانی نے واسطہ میں، خطیب نے المتفق میں درج کیا ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد6 صفحہ 159 پر مذکورہ ہے ہم اسے صفحہ 233 پر ذکر کرچکے اور ایک مفید حاشیہ بھی تحریر کیا ہے۔

2ـ طبرانی نے کبیر میں اور ابن عساکر نے ابوالحمراء سے مرفوعا اس کی روایت کی ہے ملاحظہ ہو کنزالعمال جلد6 صفحہ158۔

۲۷۹

 کو ان کے زہد میں دیکھے وہ علی(ع) کی طرف دیکھے۔”

اس حدیث کو بیہقی نے اپنے صحیح میں اور امام احمد بن حنبل نے مسند میں درج کیا ہے۔(1)

35ـ “يَا عَلِيُّ إِنَّ فِيكَ مِنْ‏ عِيسَى‏ مَثَلًا أَبْغَضَتْهُ الْيَهُودُ حَتَّى بَهَتُوا أُمَّهُ وَ أَحَبَّتْهُ النَّصَارَى حَتَّى أَنْزَلُوهُ بِالْمَنْزِلَةِ الَّتِي لَيْسَتْ لَهُ.”

“ اے علی(ع) ! تم میں عیسی(ع) سے مشابہت ہے۔ یہودیوں نے عیسی(ع) کو دشمن رکھا اور  دشمنی میں اتنے بڑھے کہ انھوں نے ان کی  ماں پر بہتان باندھا اور نصاری نے انھیں دوست رکھا اور اتنا غلو کیا کہ اس منزل پر پہنچا دیا جس پر

--------------

1ـ شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ 149 امام رازی نے بھی اپنی تفسیر کبیر صفحہ 288 جلد 2 میں اس حدیث کو بسلسلہ تفسیر آیہ مباہلہ درج کیا ہے اور موافق و مخالف دونوں کے نزدیک بطور مسلمات ہونا لکھا ہے۔ ابن بطہ نے ابن عباس کی حدیث سے اس کی روایت کی ے جیسا کہ احمد بن محمد بن حسنی مغربی وارد قاہرہ کی کتاب فتح الملک بصحت حدیث باب مدینہ العلم علی(ع) کے صفحہ 24 پر مذکور ہے۔ منجملہ ان اشخاص کے جنھوں نے اعتراف و اقرار کیا ہے کہ علی(ع) تمام انبیاء(ع) کے اسرار کے جامع تھے محی الدین ابن عربی ہیں جیسا کہ عارف شعرانی نے کتاب الیواقیت والجواہر صفحہ 72 مبحث 32 میں ابن عربی سے نقل کیا ہے۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

موالات رکھی اس نے خدا اور رسول(ص) سے موالات رکھی اور جس نے علی سے عداوت رکھی اس نے خدا و رسول(ص) سے عداوت رکھی(۱) ۔ جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے خدا و رسول(ص) کو اذیت دی(۲) ۔ جس نے علی(ع) کو سب وشتم کیا اس نے خدا و رسول(ص) کو سب و شتم کیا(۳) ۔ علی(ع) نیکوکاروں کے اما م، بدکاروں کے قتل کرنے والے ہیں ۔ جس نے علی (ع) کی مدد کی وہ منصور ہوا، جس نے علی(ع) کی مدد سے گریز کیا ذلیل و خوار ہوا۔(۴) ، علی(ع) مسلمانوں کے سردار ،متقین کے امام، روشن پیشانی والوں کو جنت تک لے جانے والے ہیں(۵) ۔ علی (ع) ہدایت کا علم ہیں، اولیائے خدا کے امام ہیں، نور ہیں، فرمانبردارانِ الہی کے لیے ، اور وہ کلمہ ہیں جسے خدا نے متقین پر لازم کیا ہے۔(۶)

--------------

۱ـ صفحہ ۲۹۴ کی حدیث نمبر۲۳ سے اس کی وضاحت ہوتی ہے نیز رسول(ص) کا یہ ارشاد“ اللَّهُمَّ وَالِ‏ مَنْ‏ وَالاهُ‏ وَ عَادِ مَنْ عَادَاه‏”   ہی  کافی ہے اس کے ثبوت کے لیے۔

۲ـ اس کے ثبوت کے لیے عمرو بن شاس والی حدیث سن چکے ہیں جس میں رسول(ص) نے فرمایا کہ جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی” عمرو بن شاس کی حدیث کو امام احمد نے مسند ج۳ صفحہ۴۷۳ پر امام حاکم نے مستدرک ج۳ صفحہ۱۲۴ پر ذہبی نے تلخیص مستدرک میں اسی صفحہ پر اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے ذکر کیا ہے ۔ نیز بخاری نے تاریخ میں ابن سعد نے طبقات میں ابن ابی شیبہ نے اپنے مسند میں طبرانی نے معجم کبیر میں بھی اس کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال ج۶ صفحہ ۴۰۰ پر بھی موجود ہے۔

۳ـ جیسا کہ صفحہ ۲۸۹ میں اٹھارہویں  حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔

۴ـ جیسا کہ صفحہ ۲۷۷ کی پہلی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔

۵ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ ۲۷۷ پر حدیث نمبر۲َ ، ۳، ۴، ۵۔

۶ـ صفحہ ۲۷۷ پر چھٹی حدیث ملاحظہ کیجیے۔

۴۰۱

یہی  علی(ع) صدیق اکبر ہیں، اس امت کے فاروق ہیں، مومنین کے سردار ہیں(۱) ، یہ بمنزلہ فرقانِ عظیم اور ذکر حکیم کے ہیں(۲) ۔ علی (ع) رسول(ص) کے لیے ایسے ہیں جیسے موسی(ع) کے لیے ہارون تھے۔(۳)

علی(ع) کو رسول(ص) سے وہی منزلت حاصل ہے جو منزلت رسول(ص) کو خدا سے ہے(۴) ۔ علی(ع) رسول(ص) کے لیے ایسے ہیں جیسے بدن کے لیے سر(۵) ، علی (ع) مثلِ نفس رسول(ص) کے ہیں(۶) ۔ خداوندِ عالم نے تمام روئے زمین کے باشندوں پر نظر ڈالی اور رسول(ص) و علی(ع) کو منتخب کیا(۷) ۔ رسول(ص) کا ایک یہی ارشاد لے لیجیے جو آپ نے حجة الوداع کے موقع پر یوم عرفات فرمایا تھا کہ میرے فرائض کی ادائگی علی(ع) ہی کرسکتے ہیں۔(۸)

--------------

۱ـ جیسا کہ صفحہ ۲۸۰ کی حدیث نمبر۷ سے واضح ہوتا ہے۔

۲ـ مکتوب نمبر ۴ میں آپ صحیح حدیثیں اس کے ثبوت میں سن چکے ہیں ان احادیث کے دیکھنے کے بعد صاحب بصیرت کے لیے تو پھر کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ صفحہ ۳۱۵ پر یہ حدیث بھی ذکر کی گئی “إِنَّ عَلِيّاً مَعَ‏ الْقُرْآنِ‏، وَ الْقُرْآنَ مَعَ عَلِيٍّ، لَا يَفْتَرِقَان‏” علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے ۔

۳ـ جیسا کہ م ۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶، اور ۱۷ تک ہماری تحریر سےوضاحت ہوتی ہے۔

۴ـ جیسا کہ صفحہ۲۸۵ کی تیرہویں حدییث سے ثابت ہوتا ہے۔

۵ـ صفحہ ۳۱۶ پر حدیث  “عَلِيٌّ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ رَأْسِي‏ مِنْ‏ بَدَنِي‏.” ذکر کی جاچکی ہے۔

۶ـ جیسا کہ آیت مباہلہ بتاتی ہے نیز عبدالرحمن بن عوف کی حدیث جسے ہم نے صفحہ ۳۱۶ کے آخر میں درج کیا ہے۔

۷ـ جیسا کہ ہم صفحہ ۴۰۹ تا صفحہ ۴۱۰ پر اس کے متعلق صریحی احادیث ذکر کرچکے ہیں۔

۸ـ ملاحظہ ہو صفحہ ۲۸۵ پر حدیث نمبر۱۵ اور اس حدیث پر جو ہم نے حاشیہ تحریر کیا ہے وہ بھی دیکھیے۔

۴۰۲

اس کے علاوہ بکثرت ایسی خصوصیات سے پیغمبرف(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو سرفراز کیا جو صرف وصی ہی کے لیے زیب دیتی ہیں اور قائم مقام پیغمبر ہی کے لیے مناسب ہیں۔

لہذا ان خصوصیات اور مخصوص فضائل و کمالات کے بعد امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے سے انکار کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے کتنی حدیثوں کو جھتلایا جائے گا اور کہاں تک جھٹلایا جاسکتا ہے۔

حضرات اہل سنت جو امیرالمومنین (ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے سے انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر امیرالمومنین(ع)ٰ کو وصی رسول(ص) تسلیم کر لیا جائے تو پھر خلفائے ثلاثہ کی خلافت باطل ہوجاتی ہے۔

اور بخاری وغیرہ نے طلحہ بن مصرف والی حدیث جو ذکر کی ہے جس میں ہے ک میں نے عبداﷲ بن ابی اوفیٰ سے پوچھا کہ کیا رسول(ص) نے وصیت فرمائی؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں ۔ میں نے کہا: رسول(ص) لوگوں پر تو وصیت کرنا واجب کریں اور خود وصیت نہ کریں ۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ آںحضرت(ص) نے کتابِ خدا کے متعلق وصیت فرمائی۔ یہ حدیث ہمارے لیے حجت نہیں اور نہ ہمارے جواب میں پیش کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ہم لوگوں کے یہاں  یہ ثابت نہیں۔ مزید برآں یہ تو سیاست کی کارسازیاں تھیں۔ حکومت کے جبر و تشدد کا نتیجہ ہے۔ ان سب باتوں  سے قطع نظر سچی بات تو یہ ہے کہ امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کے متعلق ائمہ طاہرین(ع) سے صحیح و متواتر حدیثیں موجود ہیں لہذا ان حدیثوں کی معارض حدیثیں رد کردی جائینگی ۔

اس کے علاوہ امیرالمومنین(ع) کا وصی پیغمبر(ص) ہونا تو ایسا اظہر من الشمس ہے جس پر دلیل و برہان پیش کرنے کی ضروت ہی نہیں۔ خود عقل(۱) بتاتی ہے ۔ وجدان

--------------

۱ـ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ رسول(ص) اپنی امت کو تو وصیت کا حکم دیں اتنی سختی فرمائیں اور خود وصیت نہ کریں در آنحالیکہ  اوروں کی نسبت پیغمبر(ص) کا وصیت فرمانا زیادہ ضروری تھا کیونکہ کسی اور مرنے والے نے نہ تو ایسا ترکہ چھوڑا جیسا رسول(ص) نے چھوڑا اور نہ ایسے ایتام چھوڑے جیسے رسول(ص) نے چھوڑے نہ کسی اور کے متروکات نہ ورثہ نگران کار و سرپرست کے ایسے محتاج ہوئے جیسا رسول(ص) کی چھوڑی ہوئی  چیزیں کسی منتظم و نگران کی محتاج تھیں۔ یا

۴۰۳

رسول(ص) کے چھوڑے ہوئے ایتام سرپرست کے ضرورت مند تھے پناہ بخدا رسول(ص) بھلا اپنے قیمتی ترکہ یعنی شریعت الہیہ ، احکام الہی کو یونہی چھوڑ جائیں اور اپنے ایتام یعنی تمام روئے زمین کے باشندوں کو یونہی بے سہارا چھوڑ دیں کہ وہ ٹھوکریں کھاتے پھرین اور اپنی خواہشوں کے مطابق چلتے پھرتے رہیں اور ایسا نگران و منتظم نہ چھوڑیں جس کے ذریعہ بندوں پر خدا کی حجت تمام ہو۔ علاوہ اس کے وجدان بھی یہی کہتا ہے کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو اپنا وصی ضرور مقرر کیا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول(ص) نے علی(ع) کو اپنے غسل و حنوط و کفن و دفن کا حکم دیا ۔ دیون کی ادائگی ذمہ داریوں سے بری الذمہ بنانے اور اختلاف کے وقت حق کی وضاحت کرنے کی تاکید کی ، نیز لوگوں کو بھی با خبر کردیا کہ ہمارے بعد علی(ع) تمھارے ولی ہیں ۔ اس کے علاوہ اور خصوصیات امیرالمومنین(ع) کے بھی ان کے گوش گزار کردیے جنھیں ہم اس کے شروع میں اشارتا ذکر کرچکے ہیں لہذا ہمارا وجدان بتاتا ہے کہ یقینا رسول(ص) نے حضرت علی(ع) کو اپنا وصی فرمایا ہوگا اور بغیر وصی بنائے دنیا سے نہیں اٹھے۔

۴۰۴

 دلالت کرتا ہے کہ یقینا رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو اپنا وصی مقرر فرمایا۔

اور بخاری نے ابن ابی اوفیٰ سے یہ جو روایت کی ہے کہ آںحضرت(ص) نے کتاب خدا کے متعلق وصیت فرمائی تو یہ درست ہے مگر رسول(ص) کا پورا ارشاد نہیں ذکر کیا گیا۔ کیونکہ رسول(ص) نے جہاں کتاب خدا کے متعلق وصیت فرمائی وہاں اہل بیت(ع) سے تمسک کرنے  کا بھی حکم دیا۔ ایک ساتھ دونوں سے تمسک کی

۴۰۵

 تاکید کی اور امت سے فرمایا تھا کہ خداوندعالم کی دونوں رسیوں کو مضبوطی سے تھامے رہنا اور ڈرا دیا تھا کہ اگر دونوں سے تمسک نہ کروگے تو گمراہ ہوجاؤ گے اور یہ بھی امت کے جتادیا تھا کہ قرآن و اہلبیت(ع) کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں۔

اس باب میں بکثرت متواتر حدیثیں ائمہ طاہرین(ع) سے مروی ہیں اہلبیت طاہرین(ع) کے علاوہ اغیار  کی روایت ہوئی متعدد حدیثیں ہم گزشتہ اوراق میں ذکر کرچکے ہیں۔     ش

۴۰۶

مکتوب نمبر۳۶

افضل ازواج

 یہ آخر آپ جناب عائشہ ام المومنین جو افضل ازواج نبی(ص) ہیں ان سے کیوں روگردان ہیں کہ آپ نے ان کی حدیث کو پس پشت ڈال دیا؟ گویا کچھ حقیقت ہی نہیں اس کی ۔ حالانکہ انھیں کا قول فیصلہ کن ہے ۔  جو وہ فیصلہ فرمادیں وہی مبنی بر انصاف ہوگا۔ پھر بھی آپ کی جو رائے ہو اس اعراض کی وجہ بتائیے کہ ہم بھی سوچیں سمجھے۔                 س

۴۰۷

جوابِ مکتوب

جناب عائشہ افضل ازواج نبی(ص) نہ تھیں

جناب عائشہ کا افضل ازواج نبی(ص) ہوناتسلیم  کے قابل نہیں۔ جناب عائشہ افضل ازواج نبی(ص) ہوبھی کیونکر سکتی ہیں، ان کی رد میں خود ان سے صحیح حدیث مروی ہے۔ جناب عائشہ فرماتی ہیں کہ :

“ ایک دن پیغمبر(ص) نے جناب خدیجہ کا تذکرہ فرمایا تو مجھے برا معلوم ہوا۔ میں نے کہا: وہ تو بڑھیا تھیں ایسی تھیں ویسی تھیں اور خداوند عالم نے آپ کو ان سے اچھی بیوی دی( اشادہ تھا اپنی طرف) آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا : خداوند عالم نے اس سے اچھی بیوی مجھے نہیں دی۔ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب سب میرا انکار کرتے تھے اور اس وقت میری تصدیق کی جب سب جھٹلاتے تھے اور اس وقت انھوں نے اپنے مال میں شریک بنایا جب سب نے مجھے محروم کر رکھا تھا اور خدا نے مجھے ان سے اولاد مرحمت کی اور دوسری بیویوں سے اولاد نہ دی۔”(۱)

--------------

۱ـ یہ حدیث اور اس کے بعد والی حدیث بہت مشہور صحیح احادیث میں سے ہے ملاحظہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جو میں نے ابھی عرض کیے یہ دونوں حدیثیں موجود ہیں قریب قریب انھیں الفاظ کے ساتھ بخاری و مسلم نے بھی اپنی صحیحین میں ان دونوں حدیثوں کو ذکر کیا ہے۔

۴۰۸

جناب خدیجہ تمام ازواج میں افضل ہیں

جناب عائشہ سے یہ حدیث بھی مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ :“ رسول اﷲ(ص) جب تک خدیجہ کا ذکر نہ کر لیتے اور ان کی خوب مدح و ثناء نہ فرما لیتے گھر سے جاتے نہیں ۔ ایک دن آپ نے حسب دستور خدیجہ کا ذکر فرمایا تو مجھے بڑی غیرت معلوم ہوئی میں نے

کہا: ہو تو بڑھیا تھیں اور اب خدا نے ان سے بہتر بیوی آپ کو کو دی یہ سن کر رسول(ص) غصہ سے بھر گئے ۔ غیظ و غضب کا یہ عالم تھا کہ سر کے آگے کے بال غصہ کے مارے ہلنے لگے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا : خدا کی قسم ان سے بہتر بیوی مجھے نہیں ملی۔ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب سب لوگ کفر اختیار کیے ہوئے تھے۔ اس وقت میری تصدیق کی جب سب مجھے جھٹلاتے تھے اور اپنا کل مال و زر میرے حوالے کردیا، جب سب مجھے محروم کیے ہوئے تھے اور انھیں کے بطن سے خدا نے مجھے اولاد مرحمت فرمائی ۔ اور دوسری بیویوں سے کوئی اولاد مجھے نہ دی۔”

لہذا ازواج رسول(ص) میں سب سے افضل و اشرف جناب خدیجہ الکبری ہیں جو اس امت کی صدیقہ ہیں جو سب سے پہلے ایمان لائیں جنھوں نے سب سے پہلے کتاب خدا کی تصدیق کی، رسول(ص) سے ہمدردی کی ، رسول(ص) پر وحی

۴۰۹

 نازل ہوئی تھی کہ جناب خدیجہ کو بشارت(۱) دے دیں کہ ان کے لیے جنت میں جواہرات کا گھر ہے۔ رسول(ص) نے صاف لفظوں میں صراحت فرمادی تھی کہ جناب خدیجہ سب سے افضل و اشرف ہیں چنانچہ آپ نے فرمایا:

“ جنت کی عورتوں میں چار عورتیں سب سے بہتر ہیں۔ خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بن محمد(ص)، آسیہ بن مزاحم، مریم بنت عمران”

آںحضرت(ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا :

“ تمام عالم کی عورتوں میں سب سے بہتر مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بن محمد(ص)، اور آسیہ زن فرعون ہیں۔”

اسی طرح اور بہت سی صریحی حدیثیں پیغمبر(ص) کی ہیں جو جملہ احادیث نبوی(ص) اور ارشادات پیغمبر(ص) میں صحیح تر اور ثابت تر ہیں۔(۲)

اس کے علاوہ ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جناب خدیجہ کے علاوہ دیگر ازواج پیغمبر(ص) سے بھی جناب عائشہ کو افضل کہنا درست نہیں۔ صحیح حدیثیں ، معتبر روایات و اخبار بتاتے ہیں کہ جناب عائشہ کو دیگر ازواج پر کوئی فضیلت نہ تھی جیسا کہ صاحبان نظر و ارباب عقل سے پوشیدہ نہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ جناب عائشہ نے اپنے کو نمقابلہ دیگر ازواج پیغمبر افضل و اشرف خیال کیا مگر رسول(ص) نےے تردید کر دی جیسا کہ جناب صیغہ بنت حی کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے۔

--------------

۱ـ جیسا کہ امام بخاری نے صحیح بخاری جلد۳ صفحہ۱۷۵ باب غیرة النساء اواخر کتاب النکاح میں روایت کی ہے

۲ـ ہم نے اپنی کتاب کلمہ غراء میں اسے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

۴۱۰

“ رسول(ص) جناب صفیہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں۔ آپ نے رونے کی وجہ پوچھی ۔ صفیہ نے جواب دیا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ عائشہ اور حفصہ میری برائیاں کرتی رہتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم صفیہ سے بہتر ہیں۔ آںحضرت (ص) نے فرمایا : تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ تم دونوں مجھ سے بہتر کیونکر ہوسکتی ہو ۔ میرے مقابلہ میں تمھاری کیا حقیقت ہے؟ میرے باپ جناب ہارون(ع)، اور چچا جناب موسی(ع)، شوہر محمد مصطفی(ص) ہیں جو خاتم النبیین(ص) ہیں۔(۱) جناب عائشہ کے حالات ملاحظہ فرمائیے ، ان کے افعال و اقوال میں ان کی حرکتوں کا جائزہ لیجیے تو ہمارے قول کی صداقت آپ پر واضح ہوجائے گی۔

رہ گیا یہ کہ وصیت پیغمبر(ص) کے متعلق جو حدیث وہ بیان کرتی ہیں اسے ہم کیوں نہیں مانتے تو مختصر یہ سمجھ لیجیے کہ ان کی حدیث حجت نہیں۔ اب کیوں نہیں حجت ہے؟ کن اسباب کے پیش نظر ہم ان کی حدیث کو قابل اعتبا نہیں سمجھتے اسے نہ پوچھیے تو بہتر ہے۔

                                                             ش

--------------

۱ـ ترمذی نے بطریق کنانہ مولی ام المومنین صفیہ سے روایت کی ہے اس حدیث کی اور ابن عبدالبر نے حالات صفیہ کے ذیل میں استیعاب میں اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اور ابن حجر عسقلانی نے بھی اپنی اصابہ میں ضمن حالات جناب صفیہ اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ نیز شیخ رشید رضا نے اپنے جریدہ شمارہ نمبر ۱۰ صفحہ ۵۸۹ پر ذکر کیا ہے ۔ اس کے علاوہ اور بہت سے حضرات نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔

۴۱۱

مکتوب نمبر ۳۷

آپ ان لوگوں میں ہیں جو نہ کسی کو دھوکا دیتے ہیں نہ مکرو فریب سے کام لیتے ہیں اور نہ ان لوگوں میں سےہیں جو دل میں کچھ اور زبان سے کچھ کہتے ہیں آپ براہ کرم تفصیل فرمائیے ۔ یہ بہت ضروری ہے ، میں حق کا طلبگار ہوں لہذا بجز تشریح و تفصیل آپ کے لیے کوئی چارہ نہیں۔

                                                             س

جواب مکتوب

حضرت عائشہ سے اعراض کے وجوہ

آپ تفصیل پر مجھے مجبور کر رہے ہیں حالانکہ تشریح و تفصیل آپ کے لیے

۴۱۲

چندان ضروری نہ تھی کیونکہ آپ بے خبر نہیں کہ سب عائشہ ہی کا کیا دھرا ہے

                                ع   اے باد صبا این ہمہ آوردہ تست۔(۱)

انھیں کی وجہ سے ہم لوگوں کو یہ دن دیکھنے میں آئے ۔ انھیں نے امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کو نسیا منسیا کیا۔ دنیا سے چھپایا کسی کو خبر نہ ہونے دی اور اگر کسی دوسرے ذریعہ سے پتہ چل بھی گیا تو غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ صاف و صریح ارشادات پیغمبر(ص) واضح نصوص کو محو کرنے مٹانے کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کردیں۔ جتنی آفتیں ٹوٹیں انھیں کی وجہ سے ۔ اہل بیت(ع) پر جتنی مصیبتیں نازل ہوئیں آپ ہی کی بدولت ، سارے فتنہ و فساد ، ہر بلا و مصیبت کی جڑ یہی ہیں جنھوں نے امیرالمومنین(ص) سے جنگ کرنے کے لیے شہر بہ شہر دورہ کیا اور آپ کی خلافت چھیننے اور تخت سلطنت الٹنے کی فکر میں لشکر لے کر حملہ آور ہوئیں۔ جو کچھ ہوا اس کا کیا ذکر کروں آپ اچھے ہی خیالات رکھیے ۔ حقیقت کا سوال نہ کیجیے۔ لہذا امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) نہ ہونے پر جناب عائشہ کے قول سے استدلال کرنا ( وہ عائشہ جوسخت ترین دشمن امیرالمومنین(ع) تھیں) ہٹ دھرمی ہے جس کی کسی منصف مزاج سے توقع نہیں۔علی(ع) پر عائشہ کی طرف سے ایک مصیبت نازل نہیں ہوئی نہ معلوم انھوں نے کتنی آفتیں ڈھائی ہیں۔ امیرالمومنین(ع) کی وصایت سے انکار کہیں کم ہے۔ جنگ جمل اصغر(۲) اور جنگ جمل اکبر سے جس میں دل کی حالت آئینہ ہوگئی

--------------

۱ـ جیساکہ صحیح حدیثوں کافیصلہ ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر ص۱۲۵ جلد۲ ب ماجاء فی بیوت ازواج النبی(ص)۔

۲ـ جنگ جملِ اصغر کا واقعہ بصرہ میں ۲۵ ربیع الثانی سنہ۳۶ھ کو امیرالمومنین(ع) کے وارد بصرہ ہونے کے قبل پیش آیا تھا۔ امیرالمومنین(ع) ابھی پہنچنے نہ پائے تھے کہ جناب عائشہ بصرہ پر حملہ کر بیٹھیں ۔ ان کے ساتھ طلحہ و زبیر بھی تھے۔ اس وقت بصرہ کے حاکم عثمان بن حنیف اںصاری تھے۔ اس جنگ میں چار شیعیان امیرالمومنین(ع) مسجد کے اندر شہید ہوئے اور ستر طرفداران عائشہ قتل ہوئے عثمان بن حنیف گرفتار کر لیے گئے۔ یہ بڑے جلیل القدر صحابی پیغمبر(ص) تھے لوگوں نے چاہا کہ انھیں بھی قتل کر ڈالیں مگر ڈرے کے کہیں ان کے بھائی اور انصار ان کا انتقام لینے پر نہ تل جائیں۔ اس لیے قتل تو نہ کیا صرف داڑھی مونچھ ، بھنووں اور سر کے بال مونڈ ڈالے، رد و کوب کیا کچھ دن قید میں رکھ کر بصرہ سے نکال دیا۔ حکیم بن جبلہ جوصاحب بصرہ ، زیرک و دانا بزرگ تھے۔ حضرت عائشہ کے مقابلہ کے لیے اپنے قبیلہ بنو عبدالقیس کی معیت میں کمر بستہ ہوئے۔ ان کے ساتھ قبیلہ ربیعہ کی بھی ایک جماعت ہوگئی۔ جنگ ہوئی مگر سب ایک ایک کر کے شہید ہو۔ حکیم کے ساتھ ان کے فرزند اشرف اور ان کے بھائی رعل بھی شہید ہوئے۔ اور بصرہ فتح ہوگیا۔ پھر امیرالمومنین(ع) تشریف لائے تو اپنے لشکر کو لے کر صف آرائیں اور اس مرتبہ جنگ جمل اکبر پیش آئی ۔ ان دونوں جنگوں کی پوری تفصیل تاریخ کامل و طبری اور دیگر کتب سیر و اخبار میں موجود ہے۔ 

۴۱۳

 پوشیدہ عداوت آشکار

ہوگئی۔ امیرالمومنین(ع) سے برسرپیکار ہونے سے قبل جو دلی عناد تھا آپ کو یا لڑائیوں کے بعد جو پیچ و تاب غم و غصہ امیرالمومنین(ع) کی طرف مرتے دم تک رہا حتی کہ آپ نے امیرالمومنین(ع) کی خبر انتقال سن کر سجدہ شکر کیا۔(۱) اور خوشی کے اشعار پڑھے ان سب باتوں کا نمونہ آپ نے اس جنگ میں پیش کردیا تھا۔ اگر آپ فرمائیں تو میں انھیں کی روایت کردہ حدیثوں سے

--------------

۱ـ جیسا کہ ثقہ راویاں حدیث و ارباب تاریخ نے ذکر کیا جیسے علامہ ابو الفرج اصفہانی کہ انھوں نے بھی اپنی کتاب مقاتل الطالبین میں بسلسلہ احوال امیرالمومنین(ع) بیان کیا ہے۔

۴۱۴

 چند نمونے پیش کروں جن سے آپ کو اندازہ ہو کہ وہ امیرالمومنین(ع) کی عداووت میں کس انتہا کو پہنچی ہوئی تھیں ۔ سنیے : جناب عائشہ فرماتی ہیں کہ :

“ رسول(ص)(۱) پر مرض کی زیادتی ہوئی اور اذیت بہت بڑھ گئی تو آپ برآمد ہوئے اس حالت میں کہ دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے تھے اور آپ کے پیر زمین پر گھسٹتے جاتے تھے جن دو آدمیوں کا آپ سہارا کر نکلے تھے ان میں ایک تو عباس بن عبدالمطلب تے اور دوسرا ایک اور شخص تھا۔”

جس شخص نے اس حدیث کو جناب عائشہ سے روایت کیا ہے یعنی عبیداﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ بن مسعود۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے عبداﷲ بن عباس سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم جانتے ہو وہ دوسرا شخص کون تھا۔ جس کا نام عائشہ نے نہیں لیا۔ کہا : نہیں ۔ کہا : وہ علی(ع) ہیں۔

پھر عبداﷲ بن عباس نے کہا:

“ علی (ع) کی کوئی اچھائی عائشہ کو بھلی معلوم نہیں ہوئی۔”(۲)

---------------

۱ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے جو بخاری نے صحیح بخاری جلد۲ صفحہ ۶۲ باب مرض النبی و وفات میں روایت کی ہے۔

۲ـ یہ کلمہ خاص کر یعنی ابن عباس کا فقرہ عائشة لا تظیب لہ نفس بخیر بخاری نہیں لکھا بلکہ صرف اوپر والی عبارت لکھ کر چھوڑ  دیا ہے جیسا کہ الفاظ حدیث میں کتر بیونت کی پرانی عادت ہے لیکن بے شمار اصحاب سنن جہاں اس حدیث کو لکھا ہے وہاں ابن عباس کا یہ فقرہ بھی ضرور لکھا ہے جیسے علامہ ابن سعد کو انھوں نے طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۲۹ پر اس حدیث کو بسلسلہ اسناد درج کیا ہے اور سلسلہ اسناد کے کل کے کل رجال حجت ہیں۔

۴۱۵

میں کہتا ہوں کہ جب جناب عائشہ کو امیرالمومنین(ع) کی کوئی خوبی گوارا نہ تھی اور وہ ان لوگوں تک کےساتھ علی(ع) کا نام لینا پسند نہ کرتی تھیں جو رسول(ص) کے ساتھ ایک قدم چلے تو وہ علی(ع) کے وصی رسول(ص) ہونے کو بیان کرنا کیسے پسند کرسکتی تھیں جو تمام خوبیوں کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند جلد۶ صفحہ۱۱۳ پر جناب عائشہ کی ایک حدیث عطاء بن یسار سے نقل کی ہے۔ عطا بن یسار کہتے ہیں کہ :

“ ایک شخص جناب عائشہ کی خدمت میں آیا اور حضرت علی(ع) اور جناب عمار کا گالیاں دیتے لگا ۔ اس پر جناب عائشہ بولیں علی(ع) کو گالیاں دینے سے منع نہیں کرتی لیکن عمار کو گالیاں نہ دو میں نے رسول(ص) کو عمار کے متعلق کہتے سنا ہے کہ عمار وہ شخص ہیں کہ اگر انھیں دو چیزوں کو درمیان اختیار دیا جائے تو وہ وہی اختیار کریں گے جو زیادہ بہتر اور زیادہ موجبِ رستگاری ہو۔”

اﷲ اکبر! عمار کو گالیاں دینے سے جناب عائشہ تو منع کریں ۔ رسول(ص) کے صرف اس قول کی بنا پر کہ عمار کو اگر دو چیزوں میں اختیار دیا جائے تو وہ وہی اختیار کریں گے جو بہتر و افضل ہو۔ اور علی(ع) کے متعلق ناسزا کلمات کہنے سے نہیں منع کرتیں ۔ وہ علی(ع) جو رسول(ص) کے بھائی ہیں، رسول(ص) کے ولی ہیں، رسول(ص) کے لیے ایسے ہیں جیسے جناب ہارون (ع) موسی(ع) کے یے تھے۔ رسول(ص) کے ہمدم و ہمراز ہیں۔ امت رسول(ص) میں سب سے جچاتلا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ شہر علم پیغمبر(ص) کے دروازہ ہیں اور وہ ہیں جن کو خدا و رسول(ص) دوست رکھتے ہیں اور وہ بھی خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتے ہیں

۴۱۶

جو تمام مسلمانوں میں سب سے پہلے اسلام لائے ، جنھوں نے سب سے پہلے ایمان قبول کیا، جو سب سے زیادہ علم کے

مالک تھے ، جن کے فضائل بے حساب ہیں۔ افسوس ، معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جناب عائشہ جانتی ہی نہ تھیں کہ علی(ع) کو خدا کے یہاں کیا منزلت حاصل ہے، رسول(ص) کے دل میں علی(ع) کی کیا جگہ ہے؟ اسلام میں کیا درجہ ہے ان کا، اسلام کی راہ میں کتنی سختیاں جھیلی ہیں انھوں نے ، کتنی آزمائشوں میں ثابت قدم رہے اور غالبا جناب عائشہ نے نہ تو امیرالمومنین(ع) کی شان میں نازل و وارد کلام مجید کی آیتیں سنیں نہ احادیث پیغمبر(ص) سے کہ کم سے کم عمار کے برابر تو رکھتیں جس طرح عمار کو گالیاں دینے سے منع کیا علی(ع) کے متعلق بھی منع فرماتیں، جناب عائشہ کے اس جملہ پر کہ

“ میں نے رسول(ص) کو دیکھا ، در آںحالیکہ انھیں اپنے سینہ پر لٹائے ہوئے تھی۔ آپ نے طشت منگایا، اس کی طرف جھکے۔ اسی حالت میں آپ کا دم نکل گیا اور مجھے خبر بھی نہ ہوئی ۔ لہذا علی(ع) سے انھوں نے وصیت کہاں فرمائی؟”

جب غور کرتا ہوں تو میری حیرت کا ٹھکانا نہیں رہتا ، سمجھ میں نہیں آتا کہ میں ان کے اس جملہ کے کس کس گوشے پر تبصرہ کروں، ان کا یہ فقرہ مختلف جہتوں سے قابل بحث ہے۔

خدا کے لیے مجھے کوئی سمجھادے کہ آںحضرت(ص) کا اس طرح انتقال فرمانا جیسا کہ جناب عائشہ بیاں کرتی ہیں یہ کیونکر دلیل ہے کہ آپ نے وصیت نہ فرمائی ، اس طرح انتقال کرنے سے یہ کب لازم آتاہے کہ آپ بے وصیت کیے ہیں انتقال کر گئے۔ کیا جناب عائشہ کی رائے میں وصیت اسی وقت صحیح ہوسکتی ہے جب دم نکل رہا ہو ورنہ نہیں ۔ میرے خیال میں اس کا تو دنیا کے پردے پر کوئی

۴۱۷

بھی قائل نظر نہ آئے گا۔ حقیقت کو جھٹلانے والا جو دلیل بھی پیش کرے وہ ٹک نہیں سکتا ۔ خداوند عالم نے اپنی محکم کتاب میں رسول(ص) کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا ہے۔

 “ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْراً الْوَصِيَّةُ ” ( بقرہ، ۱۸۰)

“ تم لوگوں پر واجب کیا گیا ہے ، فرض قرار دیا گیا ہے کہ جب موت آئے تو مرنے سے پیشتر اچھی وصیت ک جائے”

تو کیا جناب عائشہ کے خیال میں رسول(ص) کتاب خدا کے مخالف عمل کرتے تھے اس کے احکام سے بے رخی برتتے تھے۔ پناہ بخدا جناب عائشہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ رسول(ص) قدم بہ قدم قرآن کی پیروی کرتے ہیں۔ ہر فعل و ہر عمل مطابق کلام الہی ہے ۔ کلام مجید کے اوامر و نواہی کی پابندی میں سب سے پیش پیش رہے۔ کلام مجید کی جملہ باتوں پر عمل کرنے میں درجہ انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ یقینا جناب عائشہ نے رسول(ص) کو یہ(۱) ارشاد فرماتے بھی سنا ہوگا:

“ مرد مسلمان اگر ایک چیز بھی قابل وصیت رکھتا ہو۔ اس کے لیے جائز نہیں کہ اس چیز کے متعلق بغیر وصیت نامہ لکھے وئے دو راتیں گزار دے ۔”

اس قسم کے دیگر ارشادات پیغمبر(ص) بھی جناب عائشہ نے ضرور سنے ہوں گے

--------------

۱ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے  جو بخاری نے صحیح بخاری جلد۲ صفحہ ۸۳ کتاب الوصایا کے شروع میں اور مسلم نے صحیح مسلم جلد۱ ص۱۰ کتاب الوصیہ میں روایت کی ہے۔

۴۱۸

 کیونکہ دینا جانتی ہے کہ وصیت کے متعلق آںحضرت(ص) نے بڑے سخت احکام دیے ہیں اور یہ نہ تو آںحضرت(ص) کےلیے جائز ہے اور نہ جملہ انبیاء میں سے کسی نبی کے لیے جائز رہا ہے کہ لوگوں کو تو کسی چیز کا حکم دیں اور خود اس حکم کی پابندی نہ کریں یا دوسروں کو تو کسی بات سے منع کریں مگر خود انھیں اس سے پرہیز نہ رہے۔ غیر ممکن ہے محال ہے کہ کسی نبی کسی رسول(ص) سے ایسے بات کبھی بھی سرزد ہوئی ہو اور امام مسلم وغیرہ نے جناب عائشہ سے یہ حدیث جو روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے نہ کوئی دینار چھوڑا ،نہ درہم ، نہ بکری نہ اونٹ نہ کسی چیز کے متعلق وصیت فرمائی ۔ یہ بھی پہلی ہی حدیث کی طرح قابل قبول نہیں علاوہ اس کے اگر جناب عائشہ کا یہ مقصد ہے کہ آپ نے قطعی طور پر ایک چیز بھی نہ چھوڑی اور آپ ہر وصیت کیے جانے کے لائق چیز سے بالکل خالی ہاتھ تھے تو بھی صحیح نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آپ دنیا کی فضولیات چھوڑ کر نہیں مرے جیسا کہ دنیا والے چھوڑ کر مرتے ہیں۔

عقل بتاتی ہے کہ پیغمبر(ص) نے یقینا وصیت فرمائی

اس لیے کہ آںحضرت(ص) تو دنیا بھر کے لوگوں سے زیادہ زاہد و پرہیزگار تھے آںحضرت(ص) نے جس وقت دنیا سے انتقال کیا

اس(۱) وقت آپ کے ذمہ کچھ  قرضے

-------------

۱ـ معمر قتادہ سے روایت کر کے بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی(ع) نے بعد وفات رسول(ص) چند باتیں انجام دیں جن میں زیادہ تر وعدے تھے جسے امیرالمومنین(ع) نے بعد پیغمبر(ص) پورا کیا۔ میرا خیال ہے کہ قتادہ نے پانچ لاکھ درہم کہے تھے جو علی(ع) نے رسول(ص) کی جانب سے ادا کیے ملاحظہ فرمائیے ۔ کنزالعمال ج۴ ص۶۔

۴۱۹

تھے، کچھ کیے ہوئے وعدے تھے، کچھ لوگوں کی امانتیں تھیں۔ جن کے متعلق آپ کا وصیت کر جانا ضروری تھا۔ آپ نے اپنے بعد بس اتنا مال چھوڑا جس سے آپ کے دیون ادا ہو جائیں۔ آپ نے جن لوگوں سے وعدے کر رکھا تھا ۔ وہ وعدے پورے ہوجائیں اور ان دونوں باتوں سے جو کچھ فاضل بچ رہے وہ آپ کی وارث جناب سیدہ(س) کے ملے جیسا کہ جناب سیدہ(س) کے مطالبہ میراث پیغمبر(ص) سے ثابت ہوتا ہے۔(۱)

علاوہ اس کے رسول اﷲ(ص) نے ایسی قابلِ وصیت چیزیں اپنے بعد چھوڑیں جیسی دنیا سے کسی اٹھنے والے نہیں چھوڑیں۔ آپ اسی کو لے لیجیے کہ آپ نے دین خدا کو چھوڑا جس کی ابھی ابتدا ابتدا تھی۔ بالکل تازہ تازہ تھا۔ اور یہ بہ نسبت طلا، نقرہ، مکان و جائداد ، کھیتی و مویشی کے زیادہ وصی کا محتاج و ضرورتمند تھا اور آپ کی پوری امت، امت کے ایتام بھی، بیوائیں بھی بہت زیادہ جبور و مضطر تھے۔ بے حد ضرورت مند و محتاج تھے کہ رسول(ص) کا کوئی نہ کوئی وصی ضرور ہو جو آپ کی جگہ پر ان کے امورع کا نگران ہو، ان کے دینی و دنیوی حالات کا مدبر و منتطم ہو۔ خدا کے رسول(ص) کے لیے یہ بات ناممکن تھی، محال تھی کہ وہ دینِ خدا کو ( جو ابھی گہوارہ میں تھا) خواہشوں کے حوالے کرجاتے یا اپنی شریعت کی حفاظت کے لیے خیالات و آراء پر بھروسہ کر لیتے اور اپنا وصی مقرر نہ کر جاتے جسے آپ دین و دنیا کے امور کی نگرانی کے لیے وصیت کرجاتے اور جو آپ کا ایسا

--------------

۱ـ جیسا کہ بخاری نے صحیح بخاری جلد۳ ص۳۰ پر باب غزوہ خیبر کے آخر میں بیان کیا اور امام مسلم نے قول پیغمبر(ص) لا نورث ما ترکناہ صدقہ کے ضمن میں لکھا ہے ملاحظہ ہو صحیح مسلم جلد۲ ص۷۲ کتاب الجہاد۔

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639