دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)6%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272387 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

 قائم مقام ہوتا جس پر پورا پورا بھروسہ کیا جاسکتا۔ رسول(ص) سے بعید ہے آپ اپنے ایتام ( یعنی تمام روئے زمین کے باشندوں کو) مثل اس بکری کے چھوڑ جائیں جو جاڑے کی رات میں ادھر ادھر ماری ماری پھرے اور اس کا کوئی حفاظت کرنے والا چرواہا نہ ہو اور پناہ بخدا کہ رسول(ص) وصیت نہ کرجائیں حالانکہ اس وصیت کے متعلق ان پر وحی نازل ہوچکی تھی اورع آپ اپنی امت کو وصیت کرنے کا حکم دے چکے  تھے۔ سختی سے تاکید کر چکے تھے۔ لہذا وصیت سے انکار کرنے والوں پر عقل کان ہی نہیں دھرتی۔ چاہیے انکار کرنے والے بڑی شخصیت کے مالک ہی کیوں نہ ہوں۔ یقینا رسول اﷲ(ص) نے ابتدائے دعوت اسلام میں جب مکہ میں ابھی اسلام چھی طرح ظاہر بھی نہیں ہوا تھا یعنی دعوت عشیرہ کے موقع پر امیرالمومنین (ع) کو اپنا وصی مقرر فرمایا۔ جیسا کہ ہم مکتوب نمبر۱۰ پر مفصلا بیان کرچکے ہیں۔

اس کے بعد بھی تکرار آپ کو وصی فرماتے رہے اور جب موقع ملا یکے بعد دیگرے اپنے ان ارشادات کے ذریعے جس کا ذکر ہم سابق میں کر چکے ہیں وصیت پر تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ جب رسول(ص) کے انتقال کا وقت آیا تو آپ نے ارادہ کیا کہ ہم اب تک علی(ع) کے متعلق لفظی طور پر جن باتوں کی تاکید کرتے رہے ہیں قولا جو کچھ ان کے متعلق کہا کیے اب  بصورت تحریر وصیت نامہ بھی علی(ع) کو لکھ دیں تاکہ اب تک جو کچھ کہا یا بیان کیا اس کی تاکید و توثیق ہوجائے۔ قلم سے لکھ کر قطعی طور پر طے کروں اس مرحلہ کو۔ اسی وجہ سے ، آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ:

“ میرے پاس قلم و دوات لاؤ۔ میں ایسا وصیت نامہ تمھارے لیے لکھ جاؤں کہ پھر تم کبھی گمراہ نہ ہو”

رسول(ص) کا یہ جملہ سن کر لوگ آپس میں جھگڑنے لگے ۔ حالانکہ رسول(ص) کی خدمت

۴۲۱

 میں جھگڑنا کہاں تک مناسب ہے۔ بعض کہنے لگے کہ رسول اﷲ(ص) معاذ اﷲ ہذیان بک رہے ہیں۔ جب رسول(ص) نے یہ سنا تو آپ نےیقین کر لیا کہ ان کے اس فقرے کے بعد وصیت نامہ لکھنا بیکار ہے۔ تحریر کا کوئی اثر نہ ہوگا ، سوائے اس کے کہ اور فتنہ بڑھ جائے آپ نے ان سے فرمایا کہ :

“ میرے پاس سے اٹھ جاؤ”

اور آپ زبانی طور پر اب تک جو کچھ کہہ سکتے تھے اسی پر اکتفا کیا پھر بھی آپ نے چلتے چلاتے لوگوں کو تین باتوں کی وصیت فرمائی۔

ایک تویہ کہ علی (ع) کو اپنا ولی مقرر کردیں، دوسرے یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال باہر کریں اور جس طرح آپ وفد بھیجا کیے وہ بھی وفد بھیجتے رہیں۔

لیکن اس زمانے کی سیاست اور حکومت محدثین کو کب اجازت دے سکتی تھی کہ وہ وصیت کے پہلے جز کو بیان کرتے۔ لہذا محدثین نے بات نہ بنائی کہ پہلی بات ہم بھول گئے۔

امام بخاری نے اس حدیث کے آخر میں جس میں رسول(ص) کا قلم دوات مانگنا اور لوگوں کا کہنا کہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں مذکور ہے۔ لکھتے ہیں۔

“ ان کی اصل عبارت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ۔“ رسول(ص) نے بہ وقتِ انتقال تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ ایک تو یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو، دوسرے یہ کہ جس طرح میں وفد بھیجا کرتا تھا تم بھی بھیجنا۔”

یہ لکھ کر کہتے ہیں :“ اور تیسری بات میں بھول گیا۔”

اسی طرح امام مسلم نے بھی اپنے صحیح میں اور جملہ ارباب سنن و مسانید

۴۲۲

 نے ایسا ہی لکھا ہے۔ ہر ایک تیسری بات کو بھول گیا۔ کسی کو بھی یاد نہ رہا۔

حضرت عائشہ کا دعویٰ معارض ہے دیگر احادیث سے

رہ گیا ام المومنین کا یہ دعوی کرنا کہ رسول(ص) کا جب وصال ہوا تو آپ ان کے سینہ پر تھے۔ یہ معارض ہے ان احادیث کے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے ایسی حالت میں انتقال فرمایا جب آپ اپنے بھائی ، اپنے وصی علی ابن ابی طالب(ع) کے آغوش میں تھے جیسا کہ ائمہ طاہرین(ع) سے مروی متواتر احادیث کا فیصلہ ہے۔ نیز حضرات اہل سنت کی کتب احادیث میں بھی صحیح حدیثیں موجود ہیں جو یہی بتلاتی ہیں۔ اگر آپ تلاش و جستجو کی زحمت گوارا فرمائٰیے تو آپ کو پتہ چلے۔

                                                                             ش

۴۲۳

مکتوب نمبر۳۸

حضرت عائشہ اپنی حدیثوں میں جذبات سے کام نہ لیتی تھیں

جناب عائشہ اور ان کی صریحی حدیث ( کہ رسول(ص) بغیر وصیت کیے دنیا سے اٹھ گئے) کے متعلق آپ نے جو کچھ فرمایا اس کا محور دو باتیں ہیں اور انھیں دوباتوں کے گرد آپ کا کلام دائر ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ جناب عائشہ چونکہ امیرالمومنین(ع) سے برگشتہ تھیں اس لیے وہ امیرالمومنین(ع) کےوصی پیغمبر(ص) ہونے سے سوائے انکار کے کر بھی کیا سکتی تھی ۔ اس کے خلاف کی ان سے توقع ہی نہیں رکھنی چاہیے اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی سیرہ پر نظر کرنے سے یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہ رسول اﷲ(ص) سے حدیث روایت کرنے میں طبعی میلان کی پرواہ نہیں کرتی تھیں اور نہ اپنی خواہش اور ذاتی غرض ملحوظ رکھتیں لہذا انھوں نے رسول(ص)

۴۲۴

 سے جتنی  باتیں نقل کیں ان میں ان پر اتہام نہیں لگایا جاسکتا۔ ہو حدیثیں خواہ ان اشخاص سے متعلق ہوں جنھیں آپ محبوب رکھتی  ہیں یا ان افراد سے متعلق ہوں جن سے آپ کو عداوت تھی دونوں آپ کے نزدیک یکساں تھے۔ پناہ بخدا کہ جناب عائشہ ایسی ہی ہستی پر غرض غالب ہو اور وہ حق کے مقابلہ میں اپنی غرض کو ترجیح دینے کے لیے رسول(ص) کی طرف نسبت دے کر خلاف واقع باتیں کرنے لگیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ عقل جناب عائشہ کی روایت کردہ حدیث کی سچائی نا ممکن سمجھتی ہے کیونکہ اس حدیث کا مفہوم ناممکن و محال ہے۔ حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول(ص) بغیر وصیت کیے انتقال فرماگئے اور رسول(ص) کا بغیر وصیت کیے انتقال فرمانا محال ہے کیونکہ رسول(ص) کے لیے کسی طرح جائز نہیں ہوسکتا کہ وہ دین خدا کو جو ابھی ابتدائی منزل میں تھا اور بندگانِ خڈا جو پرانی فطرت ( یعنی کفر و شرک) سے نکل کر نئی فطرت اسلام میں تازہ تازہ آئے تھے کہ یونہی چھوڑ دیں اور بغیر اپنا وصی مقرر کیے اور ان کے امور کے متعلق تاکیدی طور پر وصیت کیے دینا سے رخصت ہوجائیں۔

حسن و قبح اہل سنت کے یہاں عقلی نہیں شرعی ہیں

اس بات کا جواب یہ ہے کہ رسول(ص) کے لیے ایسی بات کا جائز نا جائز ہونا یہ موقوف ہے حسن و قبح کے عقلی ہونے پر اور اہل سنت اس کے قائل نہیں ۔ کیونکہ حضرات اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ عقل نہ تو کسی چیز کے حسن ہونے کو فیصلہ کرسکتی ہے اور نہ کسی چیز کے قبیح ہونے کا۔ بلکہ تمام

۴۲۵

افعال میں حسن و قبح کا فیصلہ کرنے والی فقط شرع ہے۔ شرع جس چیز کو حسن بتائے وہی حسن ہے چاہیے وہ عقل کے نزدیک قبیح ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح شرع جس چیز و قبیح کہے وہ قبیح ہی ہے ، چاہیے عقل کے نزدیک وہ حسن ہی کیون نہ ہو۔ بہر حال عقل کو کسی قسم کا دخل نہیں۔

دعویٰ عائشہ کے معارض کوئی حدیث نہیں

 اور آپ نے اپنے مکتوب کے آخر میں جو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جناب عائشہ کا یہ دعوی کہ رسول(ص) نے میرے سینے پر دم توڑا یہ معارض ہے دوسری ایسی حدیثوں کے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) کی  آغوش میں رحلت فرمائی تو اس کے متعلق کہنا یہ ہے کہ ہم ایک حدیث بھی بطریق اہلسنت ایسی نہیں پاتے جو جناب عائشہ کی حدیث سے معارض ہو۔ ہاں اگر آپ کے علم میں کوئی ایسی حدیث ہو جن کے راوی و ناقل حضرات اہلسنت ہوں اور وہ جناب عائشہ کی حدیث کے معارض ہو تو براہ کرم تحریر فرمائیے۔

                                                             س

جواب مکتوب

حضرت عائشہ کا روایتِ احادیث میں جذبات سے مجبور ہونا

آپ نے پہلی بات کے جواب میں فرمایا ہے کہ جناب عائشہ کی سیرت سے یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہ رسول(ص) کی حدیث بیان فرمانے میں اپنے طبعی میلان کی پرواہ نہیں کرتی تھیں اور اپنی ذاتی اغراض کا کوئی

۴۲۶

 خیال نہیں فرماتی تھیں۔ میری درخواست ہے آپ سے کہ ذرا چند لمحوں کے لیے تقلید اور جنبہ داری سے الگ ہو کر پھر ایک نظر ان کی سیرت پر ڈالیں ، ذرا چھان بین کیجیے کہ وہ جسے محبوب رکھتی تھیں اس کے بارے میں ان کا کیا خیال تھا اور جس سے انھیں عداوت تھی اس کے ساتھ ان کی کیا روش تھی؟ وہاں آپ کو ان کا طبعی میلان بہت واضح اور بہت روشن نظر آئے گا۔

جناب عثمان کے ساتھ قولا اورفعلا ان کا(۱) جو طرز رہا اور حضرت علی(ع) جناب سیدہ(س) ، حسنین(ع) کے ساتھ در پردہ اور کھلم کھلا جو ان کا برتاؤ رہا اور دیگر ازواج رسول(ص) ، امہات المومنین کے ساتھ جو سلوک رہا ۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ رسول(ص) کے ساتھ جس طرح سے وہ پیش آیا کیں اسے نہ بھولیے گا۔ وہاں آپ کو ان کی طبعی میلان اور غرض عریاں طور پر نظر آئے گی۔

مثال کے طور پر آپ جناب ماریہ والے واقعہ کو لے لیجیے ۔ جب فریبی چالباز افراد نے جناب ماریہ اور ان کے فرزند جناب ابراہیم ک متعلق تہمت تراشی کی تو انھیں جناب عائشہ نے اپنے میلان طبیعت سے مجبور ہو کر اتہام رکھنے والوں کی تاکید کی۔ وہ تو کہیے کہ خداوندِ عالم جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت میں ڈالتا ہے۔ جناب عائشہ کی کوششیں بار آوردہ نہ

ہوسکیں اور خداوند عالم نے جناب ماریہ اور

--------------

۱ـ ملاحظہ فرمائیے شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی جلد۳ ص۷۷، ۴۸۷ اور ص۴۹۷ آپ کو پتہ چلے گا کہ جناب عائشہ کا کیا سلوک تھا؟ حضرت عثمان اور امیرالمومنین(ع) و جناب سیدہ(ع) کے ساتھ۔

۴۲۷

 ابراہیم دونوں کو بری قرار دیا اور امیرالمومنین(ع) کے ذریعہ  دشمنوں کے مظالم سے محفوظ  رکھا اور کلام مجید میں خداوند عالم نے ان کافرون کی تردید کردی۔(۱)

اگر آپ مزید سننا چاہتے ہیں تو وہ واقعہ یاد کیجیے جب جناب عائشہ نے رسول اﷲ(ص) سے کہا(۲) تھا کہ :

“ مجھے آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے”

اس میں بھی کا طبعی میلان اور ذاتی جذبہ کار فرماتھا ۔ غرض یہ تھی کہ آںحضرت(ص) جناب زینب کے پاس نہ جائیں، نہ شہد نوش فرمائیں۔ لہذا جب ایسی رکیک غرض جناب عائشہ کے لیے قسم کی باتیں جائز قرار دے سکتی ہے تو امیرالمومنین(ع) کےوصی پیغمبر(ص) ہونے سے ان کا انکار کیونکر بعید ہوگا؟ اور ان کے انکار پر آپ کیونکر کان دھرسکتے ہیں۔

وہ واقعہ یاد کیجیے کہ جب اسماء بنت نعمان دلہن بنا کر رسول(ص) کی خدمت میں پیش کی گئیں تو جناب عائشہ نے انھیں(۳) پٹی پڑھائی کہ رسول اﷲ(ص)

--------------

۱ـ اس المناک سرگزشت کی تفصیل دیکھنا ہو تو ملاحظہ فرمائیے مستدرک امام حاکم جلد۴ ص۲۹ و تلخیص مستدرک علامہ ذہبی

۲ـ ملاحظہ فرمائیے صحیح بخاری کی روایت بسلسلہ تفسیر سورہ تحریم جلد۳ ص ۱۳۶ اسی محل پر متعدد حدیثیں عمر سے مروی ہیں جن میں ہے کہ وہ دو عورتیں جنھوں نے پیغمبر(ص) سے سرکشی کی وہ عائشہ اور حفصہ تھیں نیز اسی جگہ ایک طولانی حدیث ہے ان تمام احادیث میں یہی مضمون ہے۔

۳ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے جو امام حاکم نےمستدرک ج۳ ص۲۷ میں بسلسلہ حالات اسماء لکھے ہیں نیز ابن سعد سے طبقات جلد۲ ص۱۰۴ میں اسماء کے حالات میں درج کیا ہے یہ واقعہ بہت مشہور ہے علامہ ابن عبدالبر نے استیعاب میں ابن حجر عسقلانی نے اصابہ میں نیز انب جریر نے اس کی روایت کی ہے۔

۴۲۸

 اس عورت سے بہت خوش ہوتے ہیں جو رسول(ص) کے پاس آنے پر اعوذ باﷲ منک ( خدا مجھے آپ سے بچائے) کہے ۔ یہ واقعہ طبعی میلان کا نتیجہ تھا اور اس سے جناب عائشہ کی غرض یہ تھی کہ رسول اﷲ(ص) کو اس تازہ عروس سے متنفر کردیں اور اس غریب کو آپ کی نظروں سے گرادیں۔ جناب عائشہ اپنی غرض کی دھن میں اس قسم کی حدیثیں بخوبی جائز سمجھتی تھیں چاہے وہ غرض ذلیل و رکیک بلکہ حرام ہی کیوں نہ ہو۔

رسول اﷲ(ص) نے ایک مرتبہ جناب عائشہ سے ایک عورت کے متعلق کچھ باتیں دریافت کرنے  کا کہا۔ جناب عائشہ نے اپنی غرض کے خیال سے رسول(ص) کو غلط سلط باتیں(۱) بتادیں۔ صحیح حالات کا علم ہی نہیں ہونے دیا۔

ایک مرتبہ اپنے باپ کے سامنے رسول(ص) سے جھگڑ پڑیں۔ اس کا سبب بھی وہی میلان طبیعت ، ذاتی جذبات و اغراض تھے اور رسول(ص) سے بولیں کہ اںصاف سے کام لیجیے(۲) ۔ جس پر جناب ابوبکر نے ایک طمانچہ ان کے اتنے زور سے مارا کہ ان کے کپڑوں تک خون بہہ کر آیا۔

ایک مرتبہ رسول(ص) سے بگڑ گئیں اور غصہ سے بولیں:

“ آپ(۳) ہی ہیں وہ جو دعوے کرتے ہیں کہ میں خدا کا نبی ہوں۔”

اس جیسی بہت سی مثالیں آپ کو ملیں گی۔ اس مختصر سے مکتوب میں کہاں تک

--------------

۱ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال جلد۶  ص۲۹۴ طبقات ابن سعد جلد۸ ص۱۱۵۔

۲ـ کنزالعمال جلد۷ ص۱۱۶ احیاء العلوم امام غزالی جلد۲ ص۳۵ کتاب آداب النکاح نیز امام غزالی کی کتاب کاشفہ القلوب باب ۹۴ ص۲۳۸۔

۳ـ جیسا کہ علامہ غزالی نے مذکورہ بالا باتوں میں ذکر کیا ہے۔

۴۲۹

 بیان کی جائیں۔ ہم نے جتنا ذکر کردیا یہی ہمارے مطلب کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

حسن و قبح کے عقلی ہونے کا ثبوت

آپ نے دوسری بات کے جواب میں فرمایا ہے کہ اہل سنت حسن و قبح کے عقلی ہونے کے قائل نہیں تو مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ بھی ایسا مہمل عقیدہ رکھتے ہوں گے۔ ایسی رکیک بات کے قائل ہوں گے۔ یہ تو بالکل سوفسطائیوں جیسا عقیدہ ہے جو محسوس ہونے واہے حقائق تک کے منکر ہیں۔ دیکھیے بعض افعال تو وہ ہیں جن کی اچھائی اور خوبی کو ہم یقنی طور پر جانتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس کام کےکرنے پر ہمیں اچھی جزا ملے گی، لوگ ہماری تعریف کریں گے جیسے احسان ، عدل ، اںصاف اور

بعض افعال وہ ہیں جن کی برائی کا ہمیں یقین ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس کام کے کرنے پر ہم سزا کے مستحق ہوں گے اور لوگ مذمت کریں گے جیسے بدسلوکی ، ظلم ، حسد وغیرہ ہر با عقل شخص جانتا ہے کہ احسان و عدل کا اچھا ہونا اور ظلم و جور کا برا ہونا خود عقل بتاتی ہے خود عقل فیصلہ کن ہے اور جس طرح صاحبان عقل اس کا یقین رکھتے ہیں کہ ایک نصف ہے دو کا۔ اسی طرح ان کے اس یقین سے حسن و قبح کے عقلی ہونے کا یقین بھی کم نہیں۔

عقل ہمیشہ احسان کرنے والے اور ہمیشہ برائی کرنے والے کے فرق کو محسوس کرتی ہی۔ پہلے کو اچھا کہتی ہے اور دوسرے کو برا۔ محسن کو مستحق مدح و جزا اور بد معاملہ کو مستحق مذمت و قصاص قرار دیتی ہے جو عقل کے اس فیصلہ کو نہ مانے وہ ہٹی ہے۔

۴۳۰

اور اگر حسن و قبح عقلی نہ ہوں، شرعی مان لیے جائیں ، شریعت ہی کو معیار قرار دے لیا جائے کہ شریعت جس کو حسن بتائے وہی حسن ہے، اور شریعت جس کو قبیح بتائے وہی قبیح ہے ،عقل کو اس میں کوئی دخل نہیں نہ عقل کا فیصلہ قابل اعتنا ہے تو چاہیے تھا کہ وہ لوگ جو شریعت کے مانتے ہی نہیں شریعت کے قائل ہی نہیں ، وہ نہ کسی چیز کو حسن سمجھیں نہ کسی چیز کو قبیح جیسے لامذہب دہریے حضرات جو مذہب کے دشمن ہیں، شریعت کے منکر ہیں چاہیے تھا کہ ان کے نزدیک نہ کوئی چیز اچھی ہو نہ بری۔ مگر باوجود منکر دین و شریعت ہونے کے وہ بھی احسان و عدل کو اچھا ہی سمجھتے ہیں اور اس کے کرنے  والے کو مستحق مدح و ثناء لائق انعام و اکرام جانتے ہیں اور اسی طرح ظلم و سرکشی کے قبیح ہونے میں بھی انھیں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اور ظلم وسرکشی کرنے والے کو پاداش میں قصاص کا سزاوار قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ فیصلہ حسن کو حسن سمجھنا ، قبیح کو قبیح جاننا ہی کی بنا پر ہے اور کسی چیز کی وجہ سے نہیں۔ لہذا آپ ان لوگوں کی باتوں پر توجہ ہی نہ  کیجیے جو عقل کے مقابلہ میں ہٹ دھرمی سے کام لیں وجدان کے جھٹلائیں اور جسے ہر صحیح الدماغ مانتا اور جانتا ہے اس سے انکار کریں اور جس فطرت پر خدا نے انھیں پیدا کیا ہے اس فطرت کے فیصلہ کے خلاف فیصلہ صادر کریں۔

خداوند عالم نے جس طرح حس و شعور کے ذریعہ اشیاء کے ذریعہ اشیاء کا معلوم کرنا بندوں کی فطرت میں داخل کیا ہے اسی طرح اکثر حقائق کو عقل کے ذریعہ جاننا بھی فطری قرار دیا ہے لہذا خود ہماری فطرت مقتضی ہے کہ ہم عدل کی اچھائی کو ظلم وجور کی برائی کو عقل سے جانیں جس طرح  ذائقہ سے شہد کی مٹھاس اور ایلوے کا کڑواپن جانتے ہیں۔ جیسے قوتِ شامہ

۴۳۱

کے ذریعہ مشک کی خوشبو اور مردار کی بدبو سنونگھتے ہیں۔ ہاتھ سے چھو کر چکناپن اور کھردارپن معلوم کرتے ہیں۔ آنکھ سے دیکھ کرخوبصورت و بدصورت میں فرق کرتے ہیں۔ کانوں سے سن کر گدھوں کی آواز اور بانسری کی آواز میں تمیز کرتے ہیں۔ اسی طرح عقل کے ذریعہ نیکی ، انصاف کی اچھائی ، ظلم و ایذا رسانی کی برائی معلوم کرتے ہیں۔ یہ ہماری وہ فطرت و خلقت ہے جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے خدا کی خلق میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔

اشاعرہ چاہتے تھے کہ شرع پر ایمان رکھنے اور اس کے حکم کو تسلیم کرنے میں ہم انتہا کو پہنچ جائیں لہذا انھوں نے عقل کے فیصلہ ہی سے انکار کر دیا : اور کہنے لگے کہ بس جس بات کو شریعت کہے وہی قابل تسلیم اور اگر شریعت نہ کہے تو نا قابل تسلیم اور دنیا بھر میں جو عقلی قاعدہ جاری و ساری ہے بلکہ جس بات کو عقل کہے گی اس بات کو شرع بھی کہے گی اسے فراموش کر بیٹھے اور اس کا خیال ہی نہ رہا کہ اس رائے کو اختیار کر کے خود اپنے کو الجھن میں مبتلا کر لیا۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ بس جس چیز کو مذہب اچھا کہے وہی اچھا ہے اور جسے مذہب برا کہے وہی برا ہے تو پھر مذہب کی پابندی اور شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا وجوب کیونکر ثابت ہوگا۔ کوئی پوچھے کہ مذہب کو ماننا اور مذہب کےاحکام پر عمل کرنا کیوں اچھا ہے؟ اور نہ ماننا اور نہ عمل کرنا کیوں برا ہے؟ اس کے جواب میں اگر آپ کہیں کہ مذہب اچھا کہتا ہے اور مذہب برا بتاتا ہے تو یہ کھلا ہوا دور و تسلسل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر عقل مجبور بنانے والی اور سرتسلیم خم کرا دینے والی نہ ہوتی تو منقولات کے ذریعہ استدلال دعوی بلا دلیل ہی ہوتا بلکہ اگر عقل نہ ہوتی تو نہ کوئی خدا کی عبادت کرنے والا ہوتا نہ اس کی تمام مخلوقات میں کوئی اس کی معرفت حاصل کرپاتا۔ تفصیلی بحث ہمارے علماء کی تصنیفات

۴۳۲

میں آپ کو نظر آئے گی جو انھوں نے اس موضوع پر تحریر فرمائے ہیں۔

صحیح حدیثیں مخالف ہیں دعوی عائشہ کے

اور جناب عائشہ کا یہ دعوی کہ رسول(ص) نے اس حالت میں انتقال کیا جب وہ میرے سینے پر تھے ۔ یہ معارض ہے ان صحیح و متواتر احادیث کے جو ائمہ طاہرین(ع) سے مروی ہیں۔

ائمہ طاہرین(ع) کے علاوہ غیروں کی حدیث اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں تو ملاحظہ فرمائیے طبقات ابن سعد(۱) جلد۲ قسم ثانی صفحہ۵۱ اور کنزالعمال جلد۴ صفحہ۵۵ جن میں بسلسلہ اسناد امیرالمومنین (ع) سے روایت کی گئی ہے:

“ حضرت علی(ع) فرماتے ہیں : کہ رسالت ماب(ص) کا جب دم واپسین آیا تو آپ نے فرمایا : میرے بھائی کو بلا دو، یہ سن کر میں آپ کے قریب آیا ، آںحضرت(ص) نے فرمایا : کہ اور نزدیک آؤ۔ میں اور نزدیک آگیا۔ رسول(ص) نے میرا سہارا لیا اور آخر وقت تک مجھ پر سہارا کیے مجھ سے باتیں کرتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ کا لعاب دہن بھی مجھ پر گرا اور اسی حالت میں آپ نے انتقال فرمایا۔”

ابو نعیم نے اپنےحلیہ میں ، احمد فرضی نے اپنے نسخہ میں نیز بہت سے صاحبان سنن نے امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے، آپ فرماتے ہیں:

“ اس وقت رسول(ص) نے مجھے ہزار باب علم کے تعلیم کیے۔

--------------

۱ـ طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۱ اور کنزالعمال جلد۴ ص۵۵ حدیث ۱۱۰۷

۴۳۳

ہر باب(۱) سے مجھ پر ہزار باب کھل گئے۔”

حضرت عمر کی یہ حالت تھی کہ جب آپ سے رسول(ص) کے آخری حالاتِ زندگی وغیرہ کے متعلق پوچھا جاتا تو بس یہی کہتے کہ علی(ع) سے جا کر پوچھ کیونکہ انھیں کے ہاتھوں تمام امور انجام پائے چنانچہ جناب جابر  بن عبداﷲ انصاری سے  روایت ہے کہ کعب الاحبار نے حضرت عمر سے پوچھا کہ رسول(ص) کا آخری کلام کیا تھا؟ حضرت عمر نے ( حسب دستور) جواب دیا:

“ علی (ع) سے پوچھو”

کعب نے علی (ع) سے آکر پوچھا، حضرت علی(ع) نے فرمایا کہ :

“ میں نے رسول(ص) کو اپنے سینہ پر لٹایا ۔ آںحضرت(ص) نے میرے کاندھوں پر اپنا سر ڈال دیا اور فرمایا : الصلوة ، الصلوة۔ نماز ، نماز۔”

کعب نے یہ سن کر کہا کہ تمام انبیاء کی آخری وصیت یہی ہوا کی۔ اسی کی تاکید پر وہ مامور ہوئے اور اسی پر وہ رسول بنا کر بھیجے گئے۔

کعب نے پھر حضرت عمر سے پوچھا کہ غسل کس نے دیا؟ آپ نے جواب دیا کہ:

“ علی(ع) سے جاکر پوچھو۔”

کعب نے پھر آکر امیرالمومنین(ع) سے دریافت کیا۔ تو آپ نے جواب دیا کہ :

“ میں نے غسل دیا ۔”(۲)

جناب عبداﷲ ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ کیا کہتے ہیں۔ کیا

--------------

۱ـ کنزالعمال جلد۶ ص۳۹۲حدیث ۶۰۰۹

۲ـطبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۰ اور کنزالعمال جلد۴ ص۵۵

۴۳۴

رسول اﷲ(ص) نے اس طرح انتقال فرمایا کہ آپ کا سر کسی کی آغوش میں تھا؟

جناب عبداﷲ بن عباس نے کہا: ہاں! رسول(ص) نے جب انتقال کیا تو آپ حضرت علی(ع) کے سینے پر تکیہ کیے ہوئے تھے۔

اس پر ان سے کہا گیا کہ :

“ عروہ تو جناب عائشہ سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے ان کے سینہ پر انتقال کیا۔”

جناب عباس نے اس کا انکار کیا اور کہا کہ :

“ تمھاری عقل میں یہ بات آتی ہے ؟ قسم بخدا رسول(ص) نے تو اس حالت میں انتقال کیا کہ آپ علی(ع) کے سینہ پر تکیہ کیے ہوئے تھے اور علی(ع) ہی نے آپ کو غسل بھی(۱) دیا۔”

اور ابن سعد نے بسلسلہ اسناد امام زین العابدین(ع)(۲) سے روایت کی ہے :

“ امام زین العابدین(ع) فرماتے ہیں : کہ جب رسول(ص) کا انتقال ہوا تو آپ کا سر حضرت علی(ع) کی گود میں تھا۔”
میں کہتا ہوں کہ اس کے متعلق تو ائمہ طاہرین(ع) سے بکثرت متواتر حدیثیں مروی ہیں۔ ائمہ طاہرین(ع) سے انحراف کرنے والے بھی اس حقیقت کے معترف ہیں یہاں تک کہ ابن سعد(۳) نے بسلسلہ اسناد شعبی سے روایت کی ہے:
 “ شعبی کہتے ہیں کہ رسول(ص) نے جب انتقال کیا تو آپ کا سر

--------------

۱ـ طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۵

۲ـ طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۵

۳ـ  طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۵

۴۳۵

 امیرالمومنین (ع) کی آغوش میں تھا اور حضرت علی(ع) ہی نے آپ کو غسل دیا، امیرالمومنین(ع) بھرے مجمع میں اپنے سلسلہ تقریر میں اس کا ذکر کیا کرتے ۔ ملاحظہ فرمائیے ( نہج البلاغہ(۱) جلد۲ ص۱۹۶)

امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں :

“ اصحاب رسول(ص) جانتے ہیں کہ میں نے کسی گھڑی خدا و رسول(ص) کا کہنا نہیں ٹالا۔ میں نے ! ایسے ایسے مہلکوں میں اپنی جان پر کھیل کر سول(ص) کی جان بچائی۔ جہاں بڑے بڑے شجاعان عرب کے پیر اکھڑ  گئے، قدم پیچھے ہٹ گئے یہ میری شجاعت و طاعت تھی جس سے خدا نے مجھے سرفراز فرمایا اور آںحضرت(ص) نے جب انتقال فرمایا تو آپ کا سر میرے سینے پر تھا اور آپ کا لعاب دہن میرے ہاتھ پر گرا جسے میں نے اپنے منہ پر مل لیا میں ہی رسول(ص) کے غسل کا منتظم ہوا جس میں ملائکہ میرے مددگار تھے۔ ملائکہ کی وجہ سے مکان اور صحن آوازوں سے گونجنے لگا۔ ایک گروہ آتا تھا دوسرا گروہ جاتا تھا ۔ ان کی آوازوں کو میرے کانوں نے سنا۔ وہ آپ پر نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ میں نے آپ کو سپرد خاک کیا۔ لہذا مجھ سے زیادہ رسول(ص)  کا آپ کی زندگی میں بھی اور آپ کے مرنے کے بعد بھی کون حقدار ہوسکے گا۔”

اسی جیسے آپ کے وہ فقرات ہیں جو آپ نے جناب سیدہ(س) کو دفن کر کے کہے(۲) :

--------------

۱ـ نہج البلاغہ جلد۲ ص۱۹۶ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد۲ ص۵۶۱

۲ـ نہج البلاغہ جلد۲ ص۲۰۷ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد۲ ص۵۹۰

۴۳۶

“ سلام ہو آپ پر اے رسولِ خدا(ص) ! میری جانب سے بھی اور آپ کی دختر کی طرف سے بھی جو آپ کے جوار میں پہنچ گئیں۔ اور آپ کی خدمت میں جلد پہنچنے والی ہیں۔ یا رسول اﷲ(ص)! آپ کی  اس پاکیزہ دختر کی جدائی پر دامن صبر ہاتھوں سے چھوٹا جارہا ہے اور میرا صبر وضبط جواب دیے جارہا ہے۔ ہاں! آپ کی گراں تر جدائی اور آپ کی موت سے ہم پر سخت ترین مصیبت پڑی ہے۔ اس کو سوچتے ہوئے اس تازہ مصیبت پر صبر آتا ہے۔ ( جب) میں نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے آغوش لحد میں لٹایا اور میرے سر و سینہ پر آپ نے دم توڑا ( تو اتنی بڑی مصیبت جھیلنے کے بعد اب جو بھی مصیبت مجھ پر پڑے وہ سبک ہے) انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔”

اور جناب ام سلمہ سے یہ حدیث مروی ہے ۔ آپ فرماتی ہیں :

“ قسم بخدا علی(ع) و رسول(ص) کی خدمت میں سب سے زیادہ آخر وقت تک باریاب رہے۔ جس دن آپ کی رحلت ہوئی اس دن ہم لوگ آپ کی عیادت میں مصروف تھے اور آپ فرمارہے تھے۔ علی(ع) آئیے؟ علی(ع) آئے؟ جناب سیدہ(س) بولیں: بابا جان معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے انھیں کسی ضروری کام سے بھیجا ہے۔ جناب ام سلمہ کہتی ہے کہ تھوڑی دیر کے بعد حضرت علی(ع) آئے۔ ہم لوگوں کو خیال ہوا کہ شاید رسول(ص) تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سب وہاں سے اٹھ کر دروازے پر آبیٹھے۔ میں دروازے سے بہت قریب بیٹھی
۴۳۷

 تھی۔ میں نے دیکھا کہ رسول(ص) حضرت علی(ع) پر جھک پڑے اور باتیں کرنا شروع کیں اور باتیں کرتے ہی کرتے آپ نے انتقال فرمایا۔ لہذا علی(ع) سب سے آخر تک
پیغمبر(ص) کی خدمت میں باریاب رہنے والے تھے۔”(۱)

اور جناب عبداﷲ بن عمر(۲) سے مروی ہے کہ رسالت ماب(ص) نے جب آپ

--------------

۱ـ اس حدیث کا امام حاکم مستدرک جلد۳ ص۱۳۹ پر روایت کر کے لکھے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر بخاری و مسلم نے درج نہیں کیا۔ میں کہتا ہوں اس حدیث کی صحت کا علامہ ذہبی نے بھی اعتراف کیا ہے چنانچہ انھوں نے تلخیص مستدرک میں بھی اس حدیث کو لکھا ہے ۔ ابن ابی شیبہ نے بھی سنن میں اس کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال جلد۶ ص۴۶ پر بھی موجود ہے ۔ ملاحظہ ہو حدیث ۶۰۹۶۔

۲ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے جو ابو یعلیٰ نے کامل بن طلحہ سے انھوں نے حی بن عبدمغافری سے انھوں نے عبدالرحمن حبلی سے انھوں نے عبداﷲ بن عمرو سے مرفوعا روایت کی ہے نیز ابو نعیم نے اپنے حلیہ میں اور ابو احمد فرضی نے اپنے نسخہ میں روایت کی ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد۲ ص۳۹۲ پر مذکور ہے اور طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کی ہے کہ غزوہ طائف میں رسول(ص) کھڑے ہوئے اور کچھ دیر تک حضرت علی(ع) سے چپکے چپکے باتیں کرتے رہے، اس کے بعد تشریف لے گئے۔ اس پر حضرت ابوبکر نے رسول(ص) سے کہا کہ آج تو آپ علی(ع) سے بہت طولانی سرگوشی کرتے رہے ۔ پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ میں نے سرگوشی نہیں کی بلکہ خداوند عالم نے کی ہے کنزالعمال میں بھی یہ حدیث موجود ہے ملاحظہ ہو جلد۶ صفحہ ۳۹۹ حدیث نمبر۷۵، ۶۰ ۔ حضرت سرورکائنات(ص) عموما تنہائی میں حضرت علی(ع) سے باتیں کیا کرتے ۔ ایک دن پیغمبر(ص) اور امیرالمومنین(ع) تنہا بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ عائشہ آپہنچیں اور حضرت علی(ع) سے کہنے لگیں کہ اے علی(ع) تو دنوں میں مجھے ایک دن ملتا ہے ( پیغمبر(ص) کی نوبیویاں تھیں اس لحاظ سے نو دن میں ایک دن پیغمبر(ص) جناب عائشہ کے یہاں آرام فرماتے) کیا تم مجھے میرے دن میں بھی چین سے نہ رہنے دوگے۔ یہ سن کر سرورکائنات(ص) کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ حمیدی جلد۲ ص۷۸

۴۳۸

  بستر مرگ پر تھے فرمایا کہ میرے بھائی کو بلااؤ۔ ابو بکر سامنے آئے۔تو آپ نے منہ پھیر لیا ۔ پھر آپ نے کہا کہ میرے بھائی کو بلاؤ۔ حضرت عمر سامنے آئے تو آںحضرت(ص) نے منہ پھیرلیا ۔ کوئی بڑھ کر حضرت علی(ع) کو بلایا ۔ جب علی(ع) آئے تو آپ انھیں اپنی چادر میں لے لیا اور آپ پر جھک کر باتیں کرنے لگے۔ حضرت علی(ع) باہر آئے تو ان سے پوچھا گیا کہ رسول(ص) کیا کہہ رہے تھے آپ سے ؟

آپ نے کہا : رسول(ص) نے مجھے ہزار باب علم کے تعلیم کیے اور ہر باب سے ہزار باب مجھ پر کھل گئے۔

آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہی باتیں مناسب حال انبیاء ہیں اور جناب عائشہ جو کچھ فرماتی ہیں وہ تو ہوس پرستوں کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔

اگر کوئی چرواہا اس طرح مرے کہ اس کا سر اس کی بیوی کے سینہ پر ہو یا ٹھڈی اور ناف کے درمیان یا بیوی کی ران پر ہو اور وہ اپنے مویشی کی حفاظت و نگہداشت کی وصیت بیوی کو نہ کرے تو یقینا وہ زیاں کار اور تباہ و برباد کرنے والا ہوگا۔

خدا معاف کرے جناب عائشہ کو کاش ( جب انھوں نے یہی تہیہ کر لیا

۴۳۹

تھا کہ یہ فضیلت علی(ع) کے لیے  نہ ہونے پائے تو ) اپنے باپ کی طرف اس کو منسوب کرتے ہوئے یہ بیان کرتیں کہ میرے باپ کے سینے پر رسول(ص) کا دم نکلا لیکن اپنے باپ کی طرف وہ اس کی نسبت دے بھی کیسے سکتی تھیں کیونکہ انھیں تو رسول(ص) نے خود اسامہ کا ماتحت بنا کر لشکر کے ساتھ روانہ کیا تھا جو مدینہ کے باہر جا کر پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔

بہر حال جناب عائشہ کا یہ کہنا کہ رسول(ص) نے ان کی گود میں دم توڑا صرف جناب عائشہ ہی کی طرف منسوب ہے فقط وہی اس کی بیان کرنے والی ہیں اور یہ قول کہ رسول(ص) نے علی(ع) کی گود میں دم توڑا بکثرت لوگوں کی طرف منسوب ہے۔ بہت سے بیان کرنے والے ہیں۔ جیسے حضرت علی(ع)، عبداﷲ بن عباس، عبداﷲ بن عمر، شبی ، امام زین العابدین(ع)، اور جملہ ائمہ طاہرین(ع) لہذا یہ قول اپنی سند کے لحاظ سے بھی قابل ترجیح ہے اور رسول اﷲ(ص) کی شان کے بھی زیادہ مناسب ہے۔

ام سلمہ کی حدیث مقدم ہے حضرت عائشہ پر

جناب عائشہ کی حدیث اتنے حضرات کی احادیث سے معارض ہے اگر ان حضرات سے قطع نظر صرف جناب ام سلمہ ہی کی حدیث سے معارض ہوتی تو اس صورت میں بھی متعدد وجوہ سے جناب ام سلمہ ہی کا قول قابل قبول ہوتا انھیں کی حدیث کو ترجیح دی جاتی۔

                                                             ش

۴۴۰

مکتوب نمبر 39

جناب ام سلمہ کی حدیث کو ترجیح کیوں کر۔۔۔۔۔؟

آپ نے جناب ام سلمہ کی حدیث کو ترجیح دینے میں جو کچھ کہا اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ اس کے دعویدار ہیں کہ بہت سی وجہوں سے جناب ام سلمہ کی حدیث قابل ترجیح ہے۔ تو براہ کرم وہ بہت سی وجہیں بھی ذکر کردیجیے کوئی وجہ چھوڑیے گا نہیں۔ کیونکہ یہ بحث و مباحثہ اور افادہ و استفادہ کا محل ہے۔

                                                                     س

۴۴۱

جواب مکتوب

جناب ام سلمہ کی حدیث کے مقدم و ارجح ہونے کے اسباب

جناب ام سلمہ(1) کے کج ہو جانے پر قرآن نے ںص نہیں کی۔ انھیں کلام مجید میں توبہ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ نبی(ص) سے  سرکشی کرنے پر کلام مجید میں ان کے متعلق کوئی آیت نہیں اتری نہ انھوں نے بعد رسول(ص) ، رسول(ص) کے وصی(2) سے سرکشی کی، نہ ان کے مقابلہ میں رسول(ص) کی مدد کرنے کے لیے خدا کو جبرئیل(ع)

--------------

1ـ اشادہ ہے خداوند عالم کے قول  “إِنْ تَتُوبا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُما” کی طرف

2ـ وصی رسول(ص) سے سرکشی یوں کہ ان کے وصی رسول(ص) ہونے سے انکار کیا اور حضرت سرورکائنات(ص) کے بعد جتنے دن جیتی رہیں حضرت علی(ع) کی طرف سے انتہائی عداوت دل میں لیے رہیں۔ رسول(ص) کے ساتھ ان کی سرکشی اور خداوند عالم کا اپنے رسول(ص) کی مدد کے لیے آمادہ ہونا تو اس پر خود یہ آیت دلالت کرتی ہے “وَ إِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ وَ جِبْريلُ وَ صالِحُ الْمُؤْمِنينَ وَ الْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهيرٌ ” اگر تم دونوں یعنی عائشہ و حفصہ رسول(ص) سے سرکشی کرو گی  تو سمجھ لو رسول(ص) کا خدا مددگار ہے اور جبریل اور صالح المومنین اور اس کے بعد ملائکہ بھی پشت پناہ ہیں۔

۴۴۲

 امین کو اور صالح المومنین کو اور ملائکہ کو آمادہ ہونا پڑا۔ نہ انھیں خدا نے طلاق کی دھمکی دی نہ ان کو اس سے ڈرایا گیا کہ تمھارے بدلہ میں تم سے بہتر زوجہ(1) کو

ملے گی نہ انھیں زوجہ نوح(ع) و زنِ لوط(ع)(2) سے مثال دی گئی انھوں نے کبھی ایسا نہ کیا کہ رسول(ص) پر ایسی چیز حرام کر دی ہو جو خدا نے رسول(ص) کے لیے جائز کی تھی(3) ۔ رسول اﷲ(ص) نے منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ فرماتے ہوئے ان کے گھر کی طرف اشارہ نہیں کیا کہ ھا ھنا الفتنہ ” یہیں فتنہ ہے جہاں شیطان کا سینگ ابھرتا نظر آرہا ہے۔(4)

جناب ام سلمہ کے آداب ایسے نہیں تھے کہ رسول(ص) نماز پڑھ رہے ہوں

--------------

1ـ یہ فقرہ اور اس کے قبل کا جملہ اشارہ ہے قول خداوند عالم کی طرف “عَسى‏ رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْواجاً خَيْراً مِنْكُنَّ مُسْلِماتٍ مُؤْمِناتٍ ”

2ـ اشارہ ہے طرف آیہ “ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَ امْرَأَتَ لُوطٍ ” کے ۔

3ـ اشارہ ہے طرف آیہ “يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغي‏ مَرْضاتَ أَزْواجِكَ ”

4ـ اس حدیث کو بخاری نے باب ما جاء فی بیوت ازواج النبی کتاب الجہاد والسیر صحیح بخاری جلد2 ص125 پر درج کیا ہے اور صحیح مسلم کی عبارت یہ “خَرَجَ النَّبِيُّ ص مِنْ بَيْتِ عَائِشَةَ فَقَالَ رَأْسُ‏ الْكُفْرِ مِنْ‏ هَاهُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ .” ملاحظہ ہو صحیح مسلم جلد2 صفحہ503۔

۴۴۳

 اور وہ آپ کی جائے سجدہ پر پیر پھیلائے ہوئے ہوں اور رسول(ص) کے سجدے کرتے وقت بھی پیر نہ سمیٹیں(1) جب رسول(ص) پیر کو دبائیں تو وہ سمیٹ لیں، پھر جب رسول(ص) سجدے  کر کے کھڑے ہوجائیں تو دوبارہ پھر اسی طرح پیر پھیلا دیں اور اس طرح پوری نماز میں یہی حرکت کرتی رہیں۔

جناب ام سلمہ جناب عثمان کی دشمن نہیں ہوئیں نہ آپ کی جان لینے پر تلیں نہ نعثل کہہ کر پکارا نہ یہ کہا کہ اس نعثل کو قتل کر ڈالو۔ یہ کافر ہوگیا ہے(2) ۔    جناب ام سلمہ اپنے گھر سے نہیں نکلیں جس میں رہنے کی خدا نے تاکید کی تھی۔(3)

--------------

1ـ صحیح بخاری جلد1 صفحہ 143 باب ما یجوز من العمل فی الصلوة۔

2ـ جناب عائشہ کا قولا و فعلا حضرت عثمان کے خلاف جذبہء تنفر اظہار عداوت و بغض و عناد اور ان کا کہنا کہ اس نعثل کو قتل کر ڈالو یہ کافر ہوگیا ہے۔ ایسی مشہور بات ہے جس کے ذکر سے تاریخ کی کوئی کتاب جس میں عہد حضرت عثمان کے حالات و حوادث کا ذکر ہے خالی نہ ملے گی صرف تاریخ ابن جریر طبری و تاریخ کامل ابن اثیر جزری کو لے لیجیے بے کم و کاست حالات پوری تفصیل سے آپ کو معلوم ہوں گے۔ حضرت عائشہ کے زمانہ کے لوگوں نے حضرت عائشہ کی عثان دشمنی پر انھیں سرزنش بھی کی منہ پر برا بھلا کہا۔ چنانچہ تاریخ کامل ابن اثیر جزری صفحہ 80 جلد3 واقعہ جمل کے حالات میں

 (بقیہ صفحہ قبل) یہ اشعار موجود ہیں۔

فمنك البداة و منك‏ الغير

 و منك الرياح و منك المطر

و أنت أمرت بقتل الإمام‏

 و قلت لنا انّه قد كفر

آپ ہی سے ان فسادات کی ابتدا ہوئی آپ ہی رنگ بدلتی رہیں آپ ہی سے ہوائیں چلیں آپ ہی سے بارش ہوئی آپ ہی نے خلیفہ کے قتل کا حکم دیا۔ آپ ہی نے ہم سے کہا کہ وہ کافر ہوگئے ہیں۔

3ـ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے “وَ قَرْنَ في‏ بُيُوتِكُنَّ وَ لا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجاهِلِيَّةِ الْأُولى‏ ” اپنے گھروں میں رہو اور اگلی جاہلیت کی طرح بنو ٹھنو نہیں۔ وہ اونٹ جس پر سوار ہو کر جناب عائشہ فوج کی کمان کرنے نکلیں اس کا نام عسکر تھا۔ یعلی ابن فیہہ وہ اونٹ لے کر عائشہ کے پاس پہنچا وہ اونٹ بڑے ڈیل ڈول کا تھا جب جناب نے دیکھا تو بہت خوش ہوئیں جب معلوم ہوا کہ اس اونٹ کا نام عسکر ہے تو پیروں تلے زمین نکل گئی انا ﷲ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہا اسے واپس لے جاؤ اس اونٹ کی مجھے ضرورت نہیں اور بیان کیا عائشہ نے کہ حضرت سرورکائنات(ص) نے یہ نام ان سے ذکر کیا تھا اور اس پر سوار ہونے سے منع بھی فرمایا تھا۔ لوگوں نے اس اونٹ کے جھول اتار کر دوسرے جھول پہنادیے اور آکر کہا کہ آپ کے لیے اس اونٹ سے بھی بڑا اور طاقت ور اونٹ ہمیں ہاتھ لگ گیا۔ جناب عائشہ اس مرتبہ راضی ہوگئیں۔ اس واقعہ کو اکثر اہل سیر و اخبار نے ذکر کیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیے شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ 80۔

۴۴۴

جناب ام سلمہ نے اونٹ پر سوار ہو کر فوج کی کمان کبھی نہیں کی اور وہ جو کبھی وادی میں لے جارہا ہو کبھی پہاڑ پر چڑھ رہا ہو۔ یہاں تک کہ چشمہء حواب کے کتے بھونکنے لگے ہوں جس سے رسول(ص) نے پہلے ہی ڈرا دیا(1) تھا مگر ڈری نہیں اور نہ اس لشکر گراں کی قیادت کرنے سے باز رہیں

--------------

1ـ اس بارے میں بہت مشہور حدیث ہے اور وہ حدیث نبوت کے علامات اور اسلام کی روشن نشانیوں میں سے ہے ۔ اس حدیث کو مختصر کر کے امام احمد نے اپنی مسند ج6 صفحہ52، 97 میں ذکر کیا۔ نیز اسی طرح مختصر کر کے امام حاکم نے مستدرک جلد3 صفحہ 120 پر درج کیا ہے نیز علامہ ذہبی نے بھی اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے اور خود تلخیص مستدرک میں نقل کیا ہے۔

۴۴۵

جسے امام کے مقابلے میں جمع کیا تھا۔

لہذا جناب عائشہ کا قول کہ رسول اﷲ(ص) نے میرے سینے پر دم توڑا، ان کے اس قول سے مرتبط سمجھیے کہ رسول اﷲ()ص نے حبشیوں کو دیکھا وہ مسجد میں ہتھیاروں سے کھیل رہے ہیں آپ نے عائشہ سے کہا کہ کیا تم ان کا تماشہ دیکھنا چاہتی ہو؟

وہ بولیں : ہاں۔

عائشہ کہتی ہیں کہ اس پر رسول(ص) نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا کہ میرا رخسارہ رسول(ص) کے رخسارہ پر تھا اور رسول(ص) فرماتے تھے ہاں! ہاں! اے بنی ارفدہ۔

مطلب یہ تھا کہ وہ اور سرگرمی سے اپنا کھیل دکھائیں تاکہ عائشہ خوش ہوں۔ جناب عائشہ کہتی ہیں کہ جب میں تھک گئی تو آپ نے پوچھا کہ بس۔؟

میں نے کہا : “ہاں!” تو آپ نے فرمایا : اچھا جاؤ۔(1)

چاہے ان کے اس قول سے مرتبط کیجیے:

“ رسول اﷲ(ص) میرے پاس ایک دن آئے اور میرے پاس دو کنیزیں گارہی تھیں۔ رسول(ص) آکر بستر پر لیٹ گئے اس کے بعد ابوبکر آئے انھوں نے جب دیکھا تو مجھے جھڑ کا اور کہا کہ رسول(ص) کے پاس اور شیطان کی بانسری؟”

جناب عائشہ کہتی ہیں کہ :

“ رسول(ص) ابوبکر کی طرف متوجہ ہو کر بولے : ان دونوں

--------------

1ـ صحیح بخاری جلد اول صفحہ 116 کتاب العیدین و صحیح مسلم جلد اول صفحہ 327 مسند احمد ج6 صفحہ57۔

۴۴۶

 کو گانے دو۔(1)

اور چاہے تو ان کے اس قول سے مرتبط سمجھیے کہ :

 “ ایک(2) مرتبہ ہم میں اور رسول(ص) میں دوڑ ہوئی۔ میں رسول(ص) سے آگے نکل گئی ۔ اسے کچھ دن گزر گئے اورمیرے بدن پر گوشت چڑھ آیا۔ پھر دوڑ ہوئی تو اب کی رسول(ص) آگے نکل گئے۔ آپ نے فرمایا : کہ لو میں نے بدلہ اتار دیا۔”

یا ان کے اس قول سے مرتبط سمجھیے کہ :

“ میں لڑکیوں کے ساتھ کھیلا کرتی اورمیری سہلیاں آتیں اور میرے ساتھ کھیلتیں اور رسول اﷲ(ص) خود ان لڑکیوں کو بلا کر میرے پاس لاتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتیں ۔”

یا ان کے اس قول سے مرتبط سمجھیے کہ :

“ مجھ میں سات(3) خوبیاں ایسی ہیں کہ کسی میں پائی نہ گئیں سوا ایک کے۔ جو جناب مریم میں تھی۔ایک تویہ کہ فرشتہ میری صورت میں نازل ہوا۔ دوسرے یہ کہ رسول(ص) کی کل ازواج میں بس میں ہی باکرہ تھی اور رسول (ص) پر وحی اتری اس حالت

--------------

1ـ بخاری و مسلم و امام احمد نے اس حدیث کی انھیں صفحات و ابواب میں روایت کی ہے جو ہم اس کے اوپر کے حاشیے میں بیان کرچکے ۔

2ـ مسند احمد جلد6 صفحہ57۔

3ـ ابن ابی شیبہ نے اس کی روایت کی ہے اور یہ حدیث کنزالعمال میں بھی موجود ہے ملاحظہ ہو حدیث نمبر1017 جلد7۔

۴۴۷

میں کہ میں اور وہ ایک لحاف میں تھے۔ میں رسول(ص) کی سب سے زیادہ چہیتی تھی۔ میری شان میں کلام مجید کی ایسی آیتیں اتریں کہ قریب تھا کہ امت ان آیات میں ہلاک ہوجائے میں نے جناب جبرئیل(ع) کا دیکھا اور دوسری بیویوں میں سے کسی نے نہ دیکھا ۔ رسول(ص)
کا انتقال میرے گھر میں ہوا۔ میرے سوا رسول(ص) کے پاس کوئی نہ تھا(1) ۔ میں اور ملک ۔۔۔۔۔الخ”

اسی طرح اور بہت سی حدیثیں جناب عائشہ نے بیان فرمائی ہیں جن میں اپنی مدح سرائی کی ہے اور اپنے خصوصیات کی لمبی چوڑی فہرست گنائی ہے وہ سب اسی جیسی ہیں لیکن جناب ام سلمہ تو وہ یہی کافی سمجھتی تھیں کہ وہ اپنے ولی اور پیغمبر(ص) کے وصی سے موالات رکھیں، آپ صائب الرائے اور کامل عقل وفہم غیر متزلزل دین رکھنے والی معظمہ تھیں، آپ نے جنگ حدیبیہ کے موقع پر رسول(ص) کو جو مشورہ دیا تھا وہ بین ثبوت ہے کہ آپ کتنی عقلمند ، کتنی صائب نظر و صائب رائے اور بلند مرتبہ خاتوں تھیں۔

--------------

1ـ اس پر اتفاق و اجماع ہے کہ رسول(ص) کے انتقال کے وقت حضرت علی(ع) موجود تھے وہی تیمارداری کرتے تھے لہذا حضرت عائشہ کا یہ کہنا کیونکر صحیح ہے کہ جس وقت رسول(ص) کا انتقال ہوا کوئی رسول(ص) کے پاس موجود نہ تھا سوا جناب عائشہ کے اور ملک کے۔ علی(ع) کہاں تھے، عباس کہاں تھے ، جناب فاطمہ(س) اور صفیہ رسول خدا(ص) کی پھوپھی کہاں تھیں؟ رسول(ص)کی دوسری بیویاں کہاں تھیں ؟ بنی ہاشم سب کے سب کہاں تھے؟ اور کیونکر انھوں نے رسول(ص) کو تن و تنہا عائشہ کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ پھر یہ بات مخفی نہ رہی کہ مریم میں ان ساتویں باتوں میں سے ایک بھی نہیں پائی جاتی ہے جو جناب عائشہ نے ذکر کیں لہذا ان کا یہ کہنا کیونکر صحیح ہے کہ صرف جناب مریم میں ان سات باتوں میں سے ایک بات پائی جاتی ہے ان کا جناب مریم کو مستثنیٰ کرنا کیونکر صحیح ہے۔

۴۴۸

مکتوب نمبر40

اجماع و خلافت

آپ نے جتنی باتیں کہیں مان بھی لی جائیں کہ امیرالمومنین(ع) وصی پیغمبر(ص) تھے اور آپ کے بارےمیں صریحی نصوص موجود ہیں تو آپ اس کو کیا کریں گے کہ امت نے حضرت ابوبکر کی بیعت پر اتفاق کر لیا۔ انھیں اجماعی طور پر خلیفہ تسلیم کرلیا اور امت کا اجماع قطعی حجت ہے کیونکہ رسول(ص) خود ارشاد فرماچکے ہیں:

“لَا تَجْتَمِعُ‏ أُمَّتِي‏ عَلَى خَطَإٍ.”

“ میری امت خطا پر کبھی اجماع نہ کرے گی۔”

نیز یہ بھی فرمایا :“لَا تَجْتَمِعُ‏ أُمَّتِي‏ عَلَى ضَلَالَةٍ ”

۴۴۹

“ میری امت گمراہی پر کبھی اجماع نہ کرے گی۔”

اس کا آپ کے پاس کیا جواب ہے ؟

                                                                     س

جواب مکتوب

اجماع ہوا ہی نہیں

ہم یہ کہیں گے کہ رسالت ماب(ص) نے یہ جو فرمایا ہے کہ میری امت کبھی خطا پر اجماع نہ کرے گی اور گمراہی پر کبھی اجماع نہ کرے گی اس کا مطلب یہ ہے کہ جس امر کو امت والے باہم رائے مشورہ کر کے اپنی پسند و اختیار سے اتفاق آراء سے طے کر لیں اس میں خطا و گمراہی نہ ہوگی۔ حدیثوں کو دیکھنے سے یہی مطلب سمجھ میں آتا ہے اور کوئی دوسرا مطلب سمجھ میں نہیں آتا لیکن وہ امر جس کوامت کے صرف چند نفر طے کر لیں اور اس پر تل جائیں اور اس پر اہل حل وعقد کووہ مجبور بنالیں تو اس کی صحت پر کوئی دلیل نہیں۔

سقیفہ کی بیعت باہمی مشورہ سے نہیں ہوئی۔ اس کے کرتا دھرتا تو حضرت عم اور ابو عبیدہ اور چند گنتی کے لوگ تھے۔ انھیں دو چار آدمیوں نے یہ طے کیا اور ناگہانی طور پر ارباب حل و عقد پر یہ چیز پیش کی۔ اس وقت کی نزاکت حالات نے مساعدت کی اور جو وہ چاہتے تھے ہوگیا۔ خود حضرت ابوبکر نے صاف صاف لفظوں میں اقرار کیا ہے کہ میری بیعت باہمی مشورہ سے نہیں ہوئی۔ نہ غور و فکر کر کے سوچ سمجھ کے ہوئی۔

۴۵۰

 چنانچہ اپنی خلافت کے شروع میں بطور معذرت خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو کہا کہ :

“ میری بیعت نا گہانی تھی۔ خدا نے اس کے شر سے محفوظ رکھا ورنہ مجھے تو فتنہ و فساد برپا ہونے کا بڑا خوف تھا۔”(1)

حضرت عمر نے بھی بھرے مجمع میں اس کی گواہی دی چنانچہ اپنے آخری زمانہء خلافت میں جمعہ کے دن منبر رسول(ص) پر انھوں نے کہا۔ ان کا یہ خطبہ بہت مشہور ہے امام بخاری نے بھی اپنی صحیح(2) بخاری میں نقل کیا ہے بطور ثبوت میں خود حضرت عمر کے اصل الفاظ پیش کرتا ہوں۔

“ثمّ انه بلغني ان قائلا منكم يقول: و اللّه لو مات عمر بايعت فلانا، فلا يغترن امرؤ أن يقول: انما كانت بيعة أبى بكر فلتة و تمت، ألا و انها قد كانت كذلك و لكن وقى اللّه شرها ( الی ان قال) من‏ بايع‏ رجلا عن غير مشورة من المسلمين فلا يتابع هو و لا الذي بايعه، تغرة ان إِنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَ اجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَ خَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَ الزُّبَيْرُ وَ مَنْ مَعَهُمَا”

--------------

1ـ حضرت ابوبکر کے اس خطبہ کو ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری نے اپنی کتاب سقیفہ میں درج کیا ہے ان سے ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص122 پر نقل کیا ہے۔

2ـ ملاحظہ فرمائیے باب رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت جلد4 صفحہ 119 ۔ اس خطبہ کو دیگر محدثین نے بھی نقل کیا ہے۔ ابن جریر طبری نے تاریخ طبری میں بسلسلہ حوادث سنہ11ھ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول صفحہ 122 پر ذکر کیا ہے۔

۴۵۱

مجھے یہ خبر پہنچی ہے ک تم میں سے کسی کہنے(1) والے نے کہا ہے کہ اگر عمر مرگئے تو ہم فلان
کی بیعت کر لیں گے تو کوئی شخص اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ابوبکر کی بیعت ناگہانی طورپر ہوئی اور پایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔ یہ ضرور ہے کہ ان کی بیعت یوں ہی انجام پذیر ہوئی لیکن خدا نے ہم لوگوں کو اس شر سے محفوظ رکھا۔”

اسی سلسلہ تقریر میں کہا :

“ جب کوئی شخص جماعت سے الگ ہوکر بغیر رائے و مشورہ کے اپنی استبدادی رائے سے ایک شخص کی بیعت کرے تو پھر ان دونوں میں کوئی امام نہ بنایا جائے۔ نہ وہ بیعت کرنے والا اور نہ وہ بیعت کیا جانے والا ۔ کیونکہ اس میں دھوکہ ہے ایسا نہ ہو دونوں مارے جائیں۔”(2)

--------------

1ـ اس کے کہنے والے زبیر تھے انھوں نے یہ کہا تھا کہ اگر عمر مرگئے تو میں علی(ع) کی بیعت کروں گا کیونکہ ابوبکر کی بیعت بھی اس طرح ناگہانی طور پر ہوئی تھی مگر پایہ تکمیل کو پہنچ گئی حضرت عمر نے جو سنا تو بہت برہم ہوئے اور یہ خطبہ انھوں نے فرمایا ۔ بخاری کے اکثر شارحیں نے اس واقعہ کی تصریح کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے شرح قسطلانی صفحہ 252 جلد11 جس میں بلاذری سے انھوں نے اس کی روایت کی ہے اور تصریح کی ہے کہ یہ روایت شیخین کے معیار پر صحیح الاسناد ہے

2ـ میں کہتا ہوں کہ حضرت عمر کے عدل کا بہت ڈھندورا پیٹا جاتا ہے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ جس بات کی تکلیف دوسروں کو دی جائے اپنے لیے بھی گوارا سمجھی جانی چاہیے جس طرح بیعت کے متعلق حضرت عمر نے دوسروں کو یہ حکم دیا ہے کہ جماعت سے الگ ہوکر اگر کوئی شخص کسی کی بیعت کرے تو ان دونوں کو چھانٹ دیا جائے اور ان میں سے کسی کا امام نہ بنایا جائے نہ وہ بیعت کرنے والا اور نہ وہ بیعت کیا جانے والا۔ تو کاش یہی حکم حضرت عمر اپنے لیے اور اپنے ساتھی حضرت ابوبکر کے لیے بھی رکھتے۔

۴۵۲

آگے چل کر آپ نے فرمایا :

“ ہم لوگوں کا واقعہ یہ تھا کہ جب حضرت کا انتقال ہوا تو انصار نے ہماری مخالفت کی اور وہ سب کے سب سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور علی(ع) و زبیر نے بھی ہم سے اختلاف کیا اور علی(ع) و زبیر کے ہوا خواہ بھی برگشتہ رہے۔”

اس کے بعد آپ نے سقیفہ کے اندر جو اختلافات رونما ہوئے جو آوازیں بلند ہوئیں جس کی وجہ سے اسلام  میں تفرقہ پڑ جانے کا خوف تھا ان کی طرف اشارہ کیا اور یہ کہ ہم نے اس موقع پر ابوبکر کی بیعت کر لی۔

روایات کی بنا پر یہ بات بالکل بدیہی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اہلِ بیت رسالت(ع) کا ایک فرد بھی سقیفہ کے اندر موجود نہ تھا بلکہ سب کے سب حضرات علی(ع) کے گھر میں اکٹھا تھے اور ان کے ساتھ ساتھ جناب سلمان، ابوذر، مقداد، عمار، زبیر، خزیمہ بن ثابت، ابی بن کعب، براء بن عاذب، خالد بن سعید بن عاص اموی اور بھی ان کے جیسے بہت سے لوگ تھے۔

تو جب یہ سب کے سب بیعت کے موقع پر موجود ہی نہ تھے جب رسول(ص) کے کل اہل بیت(ع) کنارہ کش رہے جن کی حیثیت امت کے درمیان ایسی

۴۵۳

 ہے جیسے بدن میں سر اور چہرے پر آنکھیں جو ثقل پیغمبر(ص) تھے۔ خزانہء پیغمبر(ص) تھے، کتاب خدا کے ہم پلہ تھے، امت کی نجات کا سفینہ تھے، امت کے لیے باب حطہ تھے، گمراہی و ضلالت سے جائے امان تھے، علم ہدایت(1) تھے۔ ( جیسا کہ ہم گزشتہ اوراق میں ذکر کرچکے ہیں) تو پھر اجماع کہاں سے ہوگیا؟

بخاری و مسلم نے اپنے اپنے صحیح(2) میں اور بکثرت محققین ، علماء محدثین نے اس کی ثبوت اکٹھا کیے کہ حضرت علی(ع) بیعت سے کنارہ کش ہی رہے آپ نے بیعت ہی نہ کی اور نہ مصالحت ہی فرمائی۔ ہاں جب سیدہ کا  انتقال ہوگیا چھ مہینہ بعد وقت کی نزاکت اور ملت اسلامیہ کی خیر خواہی نے آپ کو مجبور کیا تو آپ نے مصالحت کر لی۔ اس کےثبوت میں خود جناب عائشہ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں جناب عائشہ نے صاف صاف تصریح کی ہے کہ جناب سیدہ(س) ابوبکر سے ناراض ہوگئیں اور رسول(ص) کے بعد مرتے دم تک ان سے گفتگو نہ کی اور جب حضرت علی(ع) نے ان لوگوں سے مصالحت فرمائی تو یہ بھی کہہ دیا کہ ان لوگوں نے میرے حق خلافت کو غصب کر کے زبردستی کی ہے حدیث میں صرف مصالحت کا ذکر ہے ۔ اس کی کوئی تشریح نہیں کی کہ آپ نے صلح  کرتے وقت ان کی بیعت بھی کر لی تھی۔ آپ نے ابوبکر سے خطاب

--------------

1ـ ملاحظہ فرمائیے پھر سے ص49 سے ص115 تک آپ کو اندازہ ہوگا کہ اہل بیت علیہم السلام کی کیا شان تھی؟

2ـ ملاحظہ فرمائیے صحیح بخاری جلد3 صفحہ 39 اواخر باب غزوہ خیبر اور صحیح مسلم جلد2 کتاب الجہاد والسیر صفحہ 72 باب قول النبی : لا نورث ما ترکناہ صدقہ۔

۴۵۴

کر کے جو  ارشاد فرمایا تھا اس میں کس قدر مکمل اور بے پناہ احتجاج فرمایا تھا آپ نے۔” اگر تم نے رسول(ص) سے رشتہ ظاہر کر کے مخالفین کو قائل کیا تو تمھارا غیر یعنی میں رسول(ص) سے زیادہ قرابت رکھتا ہوں۔ رسول(ص) سے مجھ کو زیادہ حق پہنچتا ہے اور اگر رائے مشورہ کر کے تم امت کے معاملات کے مالک بن بیٹھے تو یہ رائے مشورہ کیسا جبکہ رائے مشورہ دینے والے ہی غائب تھے۔”(1)

--------------

1ـ یہ دونوں اشعار نہج البلاغہ میں موجود ہیں۔ علامہ ابن ابی الحدید ان دونوں شعرون کی تفسیر میں شرح نہج البلاغہ جلد4 صفحہ319 میں لکھتے ہیں کہ ان دونوں شعرون میں امیرالمومنین(ع) کا خطاب اصل میں ابوبکر سے ہے اس لیے کہ ابوبکر نے اںصار کے مقابلہ میں یہ دلیل قائم کی تھی کہ :“نحن‏ عترة رسول الله ص و بيضته التي تفقأت عنه ”ہم آںحضرت کی قوم کے لوگ ہیں اور وہ انڈا ہے جو انھیں میں سے پھوٹا ہے ( یعنی قریشی ہیں) اور جب حضرت ابوبکر کی بیعت سقیفہ میں ہوگئی تو اب لوگوں کے سامنے یہ دلیل پیش کرنے لگے کہ ہماری تو بیعت ہوچکی اور اہ حل و عقد نے ہماری بیعت کی اسی پر امیرالمومنین(ع) نے ابوبکر سے کہا کہ آپ نے اںصار کے مقابلہ میں یہ جو دلیل پیش کی کہ ہم رسول کے قوم و قبیلہ والے ہیں اور وہ انڈا ہے جو انھیں میں سے پھوٹا ہے تو آپ کا غیر یعنی میں بلحاظ رشتہ و قرابت آپ سے کہیں زیادہ قریب تر ہوں رسول(ص) سے ۔ اگر آپ ہیں تو قوم و قبیلہ سے ہیں اور میں تو رسول(ص) کا حقیقی چچا زاد بھائی ہوں اور آپ یہ دلیل جو پیش کرتے ہیں کہ لوگوں نے ہمیں منتخب کیا ہے اور جماعت اسلام ہمیں خلیفہ بنانے پر راضی ہوگئی تو ایک بڑی جماعت سقیفہ سے غائب تھی ۔ بہت سے لوگ شریک ہی نہ ہوئے لہذا کس طرح آپ کی خلافت درست ہے شیخ محمد عبدہ مفتی و یار مصر یہ جنھوں نے اپنے حواشی نہج البلاغہ پر تحریر کیے ہیں انھوں نے بھی امیرالمومنین(ع) کے ان دونوں شعروں پر ابن ابی الحدید کی عبارت سے ملتا جلتا حاشیہ تحریر کیا ہے۔

۴۵۵

ایسی ہی دلیل ایک مرتبہ جناب عباس نے بمقابلہ ابوبکر پیش کی تھی۔ جبکہ ایک مرتبہ خلافت کی بات چیت ان دونوں کے درمیان چھڑی تو جناب عباس نے فرمایا:

“ اگر تم رسول(ص) کے ذریعہ سے قرابت جتا کر یہ خلافت حاصل کی ہے تو تم نے ہم لوگوں کا حق چھینا ہے کیونکہ تم سے زیادہ ہم رسول(ص) سے قرابت رکھتے ہیں اور اگر مومنین کے ذریعہ تم نے یہ خلافت حاصل کی ہے تو مومنین میں تو ہم مقدم ہیں اگر مومنین کے توسط سے یہ خلافت تمھیں پہنچتی ہے تو جب ہم ہی ناپسند کرتے ہیں ہم ہی تمھیں خلیفہ بنانے پر راضی نہیں تو پھر کیسی تمھاری خلافت ؟”

تو جب پیغمبر(ص) کے چچا پیغمبر(ص) کے باپ کے بھائی یہ حضرات فرمائیں رسول(ص) کے چچا زاد بھائی رسول(ص) کے ولی اور بھائی اورجملہ قرابتدارانِ رسول(ص) اس سے بے تعلقی ظاہر کریں تو اجماع کہاں سے ہوگیا؟

                                                             ش

۴۵۶

مکتوب نمبر 41

اختلافات ختم ہونے کے بعد اجماع منعقد ہوگیا

اہل سنت اس سے انکار نہیں کرتے کہ بیعت مشورہ سے نہیں ہوئی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ بالکل ناگہانی اور دفعتہ ہوئی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس موقع پر اںصار نے مخالفت کی اور سعد کو خلیفہ بنانا چاہا تھا اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ اس بیعت کے بنی ہاشم بھی مخالف تھے اور مہاجرین و اںصار میں بنی ہاشم کے طرفدار تھے انھوں مخالفت کی اور سب حضرت علی(ع) ہی کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ امر خلافت آخر میں حضرت ابوبکر کے لیے پایہء تکمیل کو پہنچ گیا اور آخر کار سب نے انھیں

۴۵۷

 امام بنانا پسند کر لیا۔ لہذا جب سب نے امام بنانا پسند کر لیا تو وہ نزاع یک قلم برطرف ہوگئی۔ اختلافات ایک ساتھ دور ہوگئے اور سب نے جناب ابوبکر کو بوجھ بٹانے ، خیرخواہی کرنے پر اتفاق کر لیا۔ لہذا جس سے حضرت ابوبکر نے جنگ کی سب نے اس سے جنگ کی اور جس سے ابوبکر نے صلح کی سب نے اس سے صلح کی اور ان کے اوامر و نواہی اور احکامات کو جاری کیا اور کسی نے بھی انکی اطاعت سے گریز نہیں کیا لہذا اس بنا پر اجماع مکمل ہوگیا اور بیعت خلافت صحیح ٹھہری ۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مسلمانوں کو جب کہ ان میں پرا گندگی پھیل چکی تھی ایک نقطہ پراکٹھا کیا اور ان کے دلوں کو جب باہمی نفرت و بیزاری پیدا ہوچکی تھی ملا دیا۔

                                                             س

جواب مکتوب

مسلمانوں کو حضرت ابوبکر کا بوجھ بٹانے اور ظاہر و باطن میں ان کی خیر خواہی پر اتفاق کر لینا اور چیز ہے اور اجماع کے ذریعہ عقدِ خلافت کا صحیح ہونا دوسری چیز ہے۔ ان دونوں میں نہ تو عقلی تلازم ہے نہ شرعی ۔ کیونکہ امیرالمومنین(ع) اور آپ کی اولاد میں جو ائمہ طاہرین(ع) ہوئے ان کا جو طرز عمل شاہان اسلام کے ساتھ رہا وہ دنیا کو معلوم ہے انھوں نے ہمیشہ کٹھن وقتوں مٰیں ان کی مدد کی اور یہی ہم لوگوں کا بھی مسلک ہے۔

آپ نے جو کچھ کہا ہے اس کے جواب میں میں اس کی تفصیل عرض کرتا ہوں۔

۴۵۸

ائمہ طاہرین علیہم السلام کا نظریہ یہ رہا کہ امتِ اسلام کو سربلندی اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک ایک ایسی سلطنت نہ ہو جو مسلمانوں کی شیرازہ بندی کرے ، ان کے اختلافات و پراگندگی کو دور کرے ، سرحدوں کی حفاظت کرے، مسلمانوں کے حالات پر کڑی نظر رکھے اور یہ سلطنت اسی وقت استوار ہوسکتی ہے جب خود رعایا اپنی جان و مال سے اس کا بوجھ بٹائے حکومت سے تعاون کرے اگر زمامِ سلطنت کا حاکم شرعی ( یعنی رسول اﷲ(ص) کے صحیح جانشین و نائب) کے ہاتھ میں رہنا ممکن ہو تو بس وہی فرمان روا ہوگا کوئی دوسرا نہیں اور یہ متعذر ہو اور مسلمانوں پر حاکم شرعی کے علاوہ کوئی دوسرا مسلط ہوجائے تو اس صورت میں امت اسلام پر واجب ہے کہ ہر ایسے معاملہ میں جس میں اسلام کی عزت و شوکت سرحدوں کی حفاظت ، ملک کا امن و امان منحصر ہو، بادشاہ سے تعاون کرے۔ مسلمانوں میں افتراق نہ پیدا کر ۔ اس سے ٹکرا کر مسلمانوں کے شیرازہ کو منتشر نہ کردے ۔ بلکہ امت پر یہاں تک واجب ہے کہ اس بادشاہ سے اس طرح پیش آئے جس طرح خلفاء برحق سے اسے پیش آنا چاہیے ۔ زمین کا خراج و لگان ادا کرے چوپایوں کی زکوة دے نیز اس قسم کی چیزیں جو بادشاہ نے خراج ولگان کے طور پر لوگوں سے حاصل کی ہوں مسلمانوں کے لیے اس کا لینا بھی جائز ہے ۔خرید و فروخت کے ذریعہ انعام و بخشش کے طور پر یا اور جو صورتیں پانے کی ہوں۔

یہی طرز عمل امیرالمومنین(ع) کا رہا اور آپ کی نسل سے جو ائمہ طاہرین(ع) ہوئے ان کا مسلک بھی یہی رہا۔ حضرت سرورکائنات(ص) نے فرمایا کہ :

“ میرے بعد بڑے بڑے انقلابات پیش آئین گے اور بہت سی ناگوار باتوں کا تمھیں سامنا ہوگا۔”
۴۵۹

لوگوں نے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) اگر ہم میں سے کوئی شخص اس زمانے میں رہے تو کیا حکم ہے آپ کا ؟ آںحضرت (ص) نے فرمایا کہ :

“ تمھارے ذمہ جو حقوق آتے ہوں انھیں ادا کر دو اور خود اپنے حقوق کے لیے درگاہِ الہی سے سوال کرو۔”(1)

جناب ابوذر غفاری فرماتے ہیں کہ :

“ میرے خلیل پیغمبر خدا(ص) نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں سنوں اور اطاعت کروں اگرچہ وہ دست و پابریدہ غلام ہی کیوں نہ ہو۔”(2)

سلمہ جعفی نے رسول اﷲ(ص) کی خدمت میں سوال کیا کہ یا حضرت کیا حکم ہے آپ کا اگر ہم پر ایسا شخص حاکم بن بیٹھے جو اپنے حقوق تو ہم سے وصول کرے لیکن ہمارے حقوق ہمیں نہ دے ۔ سرورکائنات(ص) نے فرمایا :

“ تم ان کی بات سنو ، ان کی اطاعت کرو کیونکہ وہ اپنے فرائض کے جواب دہ ہیں تم اپنے فرائض کے۔”(3)

حذیفہ بن یمان سے ایک حدیث مروی ہے جس میں آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ :

 “ میرے بعد کچھ ایسے بھی ائمہ ہوں گے جو نہ میری راہ پر چلیں گے نہ میری سنت پر عمل کریں گے۔ عنقریب ان میں کچھ ایسے افراد

--------------

1ـ صحیح مسلم جلد2 صفحہ118 میں یہ حدیث موجود ہے اور دیگر اصحاب صحاح و سنن نے بھی اس کی روایت کی ہے۔

2ـ صحیح مسلم جلد4 میں یہ حدیث موجود ہے اور مشہور احادیث میں ہے۔

3ـ صحیح مسلم و دیگر صحاح میں ہے۔

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639