دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)3%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272414 / ڈاؤنلوڈ: 6392
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

 قائم مقام ہوتا جس پر پورا پورا بھروسہ کیا جاسکتا۔ رسول(ص) سے بعید ہے آپ اپنے ایتام ( یعنی تمام روئے زمین کے باشندوں کو) مثل اس بکری کے چھوڑ جائیں جو جاڑے کی رات میں ادھر ادھر ماری ماری پھرے اور اس کا کوئی حفاظت کرنے والا چرواہا نہ ہو اور پناہ بخدا کہ رسول(ص) وصیت نہ کرجائیں حالانکہ اس وصیت کے متعلق ان پر وحی نازل ہوچکی تھی اورع آپ اپنی امت کو وصیت کرنے کا حکم دے چکے  تھے۔ سختی سے تاکید کر چکے تھے۔ لہذا وصیت سے انکار کرنے والوں پر عقل کان ہی نہیں دھرتی۔ چاہیے انکار کرنے والے بڑی شخصیت کے مالک ہی کیوں نہ ہوں۔ یقینا رسول اﷲ(ص) نے ابتدائے دعوت اسلام میں جب مکہ میں ابھی اسلام چھی طرح ظاہر بھی نہیں ہوا تھا یعنی دعوت عشیرہ کے موقع پر امیرالمومنین (ع) کو اپنا وصی مقرر فرمایا۔ جیسا کہ ہم مکتوب نمبر۱۰ پر مفصلا بیان کرچکے ہیں۔

اس کے بعد بھی تکرار آپ کو وصی فرماتے رہے اور جب موقع ملا یکے بعد دیگرے اپنے ان ارشادات کے ذریعے جس کا ذکر ہم سابق میں کر چکے ہیں وصیت پر تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ جب رسول(ص) کے انتقال کا وقت آیا تو آپ نے ارادہ کیا کہ ہم اب تک علی(ع) کے متعلق لفظی طور پر جن باتوں کی تاکید کرتے رہے ہیں قولا جو کچھ ان کے متعلق کہا کیے اب  بصورت تحریر وصیت نامہ بھی علی(ع) کو لکھ دیں تاکہ اب تک جو کچھ کہا یا بیان کیا اس کی تاکید و توثیق ہوجائے۔ قلم سے لکھ کر قطعی طور پر طے کروں اس مرحلہ کو۔ اسی وجہ سے ، آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ:

“ میرے پاس قلم و دوات لاؤ۔ میں ایسا وصیت نامہ تمھارے لیے لکھ جاؤں کہ پھر تم کبھی گمراہ نہ ہو”

رسول(ص) کا یہ جملہ سن کر لوگ آپس میں جھگڑنے لگے ۔ حالانکہ رسول(ص) کی خدمت

۴۲۱

 میں جھگڑنا کہاں تک مناسب ہے۔ بعض کہنے لگے کہ رسول اﷲ(ص) معاذ اﷲ ہذیان بک رہے ہیں۔ جب رسول(ص) نے یہ سنا تو آپ نےیقین کر لیا کہ ان کے اس فقرے کے بعد وصیت نامہ لکھنا بیکار ہے۔ تحریر کا کوئی اثر نہ ہوگا ، سوائے اس کے کہ اور فتنہ بڑھ جائے آپ نے ان سے فرمایا کہ :

“ میرے پاس سے اٹھ جاؤ”

اور آپ زبانی طور پر اب تک جو کچھ کہہ سکتے تھے اسی پر اکتفا کیا پھر بھی آپ نے چلتے چلاتے لوگوں کو تین باتوں کی وصیت فرمائی۔

ایک تویہ کہ علی (ع) کو اپنا ولی مقرر کردیں، دوسرے یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال باہر کریں اور جس طرح آپ وفد بھیجا کیے وہ بھی وفد بھیجتے رہیں۔

لیکن اس زمانے کی سیاست اور حکومت محدثین کو کب اجازت دے سکتی تھی کہ وہ وصیت کے پہلے جز کو بیان کرتے۔ لہذا محدثین نے بات نہ بنائی کہ پہلی بات ہم بھول گئے۔

امام بخاری نے اس حدیث کے آخر میں جس میں رسول(ص) کا قلم دوات مانگنا اور لوگوں کا کہنا کہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں مذکور ہے۔ لکھتے ہیں۔

“ ان کی اصل عبارت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ۔“ رسول(ص) نے بہ وقتِ انتقال تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ ایک تو یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو، دوسرے یہ کہ جس طرح میں وفد بھیجا کرتا تھا تم بھی بھیجنا۔”

یہ لکھ کر کہتے ہیں :“ اور تیسری بات میں بھول گیا۔”

اسی طرح امام مسلم نے بھی اپنے صحیح میں اور جملہ ارباب سنن و مسانید

۴۲۲

 نے ایسا ہی لکھا ہے۔ ہر ایک تیسری بات کو بھول گیا۔ کسی کو بھی یاد نہ رہا۔

حضرت عائشہ کا دعویٰ معارض ہے دیگر احادیث سے

رہ گیا ام المومنین کا یہ دعوی کرنا کہ رسول(ص) کا جب وصال ہوا تو آپ ان کے سینہ پر تھے۔ یہ معارض ہے ان احادیث کے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے ایسی حالت میں انتقال فرمایا جب آپ اپنے بھائی ، اپنے وصی علی ابن ابی طالب(ع) کے آغوش میں تھے جیسا کہ ائمہ طاہرین(ع) سے مروی متواتر احادیث کا فیصلہ ہے۔ نیز حضرات اہل سنت کی کتب احادیث میں بھی صحیح حدیثیں موجود ہیں جو یہی بتلاتی ہیں۔ اگر آپ تلاش و جستجو کی زحمت گوارا فرمائٰیے تو آپ کو پتہ چلے۔

                                                                             ش

۴۲۳

مکتوب نمبر۳۸

حضرت عائشہ اپنی حدیثوں میں جذبات سے کام نہ لیتی تھیں

جناب عائشہ اور ان کی صریحی حدیث ( کہ رسول(ص) بغیر وصیت کیے دنیا سے اٹھ گئے) کے متعلق آپ نے جو کچھ فرمایا اس کا محور دو باتیں ہیں اور انھیں دوباتوں کے گرد آپ کا کلام دائر ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ جناب عائشہ چونکہ امیرالمومنین(ع) سے برگشتہ تھیں اس لیے وہ امیرالمومنین(ع) کےوصی پیغمبر(ص) ہونے سے سوائے انکار کے کر بھی کیا سکتی تھی ۔ اس کے خلاف کی ان سے توقع ہی نہیں رکھنی چاہیے اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی سیرہ پر نظر کرنے سے یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہ رسول اﷲ(ص) سے حدیث روایت کرنے میں طبعی میلان کی پرواہ نہیں کرتی تھیں اور نہ اپنی خواہش اور ذاتی غرض ملحوظ رکھتیں لہذا انھوں نے رسول(ص)

۴۲۴

 سے جتنی  باتیں نقل کیں ان میں ان پر اتہام نہیں لگایا جاسکتا۔ ہو حدیثیں خواہ ان اشخاص سے متعلق ہوں جنھیں آپ محبوب رکھتی  ہیں یا ان افراد سے متعلق ہوں جن سے آپ کو عداوت تھی دونوں آپ کے نزدیک یکساں تھے۔ پناہ بخدا کہ جناب عائشہ ایسی ہی ہستی پر غرض غالب ہو اور وہ حق کے مقابلہ میں اپنی غرض کو ترجیح دینے کے لیے رسول(ص) کی طرف نسبت دے کر خلاف واقع باتیں کرنے لگیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ عقل جناب عائشہ کی روایت کردہ حدیث کی سچائی نا ممکن سمجھتی ہے کیونکہ اس حدیث کا مفہوم ناممکن و محال ہے۔ حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول(ص) بغیر وصیت کیے انتقال فرماگئے اور رسول(ص) کا بغیر وصیت کیے انتقال فرمانا محال ہے کیونکہ رسول(ص) کے لیے کسی طرح جائز نہیں ہوسکتا کہ وہ دین خدا کو جو ابھی ابتدائی منزل میں تھا اور بندگانِ خڈا جو پرانی فطرت ( یعنی کفر و شرک) سے نکل کر نئی فطرت اسلام میں تازہ تازہ آئے تھے کہ یونہی چھوڑ دیں اور بغیر اپنا وصی مقرر کیے اور ان کے امور کے متعلق تاکیدی طور پر وصیت کیے دینا سے رخصت ہوجائیں۔

حسن و قبح اہل سنت کے یہاں عقلی نہیں شرعی ہیں

اس بات کا جواب یہ ہے کہ رسول(ص) کے لیے ایسی بات کا جائز نا جائز ہونا یہ موقوف ہے حسن و قبح کے عقلی ہونے پر اور اہل سنت اس کے قائل نہیں ۔ کیونکہ حضرات اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ عقل نہ تو کسی چیز کے حسن ہونے کو فیصلہ کرسکتی ہے اور نہ کسی چیز کے قبیح ہونے کا۔ بلکہ تمام

۴۲۵

افعال میں حسن و قبح کا فیصلہ کرنے والی فقط شرع ہے۔ شرع جس چیز کو حسن بتائے وہی حسن ہے چاہیے وہ عقل کے نزدیک قبیح ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح شرع جس چیز و قبیح کہے وہ قبیح ہی ہے ، چاہیے عقل کے نزدیک وہ حسن ہی کیون نہ ہو۔ بہر حال عقل کو کسی قسم کا دخل نہیں۔

دعویٰ عائشہ کے معارض کوئی حدیث نہیں

 اور آپ نے اپنے مکتوب کے آخر میں جو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جناب عائشہ کا یہ دعوی کہ رسول(ص) نے میرے سینے پر دم توڑا یہ معارض ہے دوسری ایسی حدیثوں کے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) کی  آغوش میں رحلت فرمائی تو اس کے متعلق کہنا یہ ہے کہ ہم ایک حدیث بھی بطریق اہلسنت ایسی نہیں پاتے جو جناب عائشہ کی حدیث سے معارض ہو۔ ہاں اگر آپ کے علم میں کوئی ایسی حدیث ہو جن کے راوی و ناقل حضرات اہلسنت ہوں اور وہ جناب عائشہ کی حدیث کے معارض ہو تو براہ کرم تحریر فرمائیے۔

                                                             س

جواب مکتوب

حضرت عائشہ کا روایتِ احادیث میں جذبات سے مجبور ہونا

آپ نے پہلی بات کے جواب میں فرمایا ہے کہ جناب عائشہ کی سیرت سے یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہ رسول(ص) کی حدیث بیان فرمانے میں اپنے طبعی میلان کی پرواہ نہیں کرتی تھیں اور اپنی ذاتی اغراض کا کوئی

۴۲۶

 خیال نہیں فرماتی تھیں۔ میری درخواست ہے آپ سے کہ ذرا چند لمحوں کے لیے تقلید اور جنبہ داری سے الگ ہو کر پھر ایک نظر ان کی سیرت پر ڈالیں ، ذرا چھان بین کیجیے کہ وہ جسے محبوب رکھتی تھیں اس کے بارے میں ان کا کیا خیال تھا اور جس سے انھیں عداوت تھی اس کے ساتھ ان کی کیا روش تھی؟ وہاں آپ کو ان کا طبعی میلان بہت واضح اور بہت روشن نظر آئے گا۔

جناب عثمان کے ساتھ قولا اورفعلا ان کا(۱) جو طرز رہا اور حضرت علی(ع) جناب سیدہ(س) ، حسنین(ع) کے ساتھ در پردہ اور کھلم کھلا جو ان کا برتاؤ رہا اور دیگر ازواج رسول(ص) ، امہات المومنین کے ساتھ جو سلوک رہا ۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ رسول(ص) کے ساتھ جس طرح سے وہ پیش آیا کیں اسے نہ بھولیے گا۔ وہاں آپ کو ان کی طبعی میلان اور غرض عریاں طور پر نظر آئے گی۔

مثال کے طور پر آپ جناب ماریہ والے واقعہ کو لے لیجیے ۔ جب فریبی چالباز افراد نے جناب ماریہ اور ان کے فرزند جناب ابراہیم ک متعلق تہمت تراشی کی تو انھیں جناب عائشہ نے اپنے میلان طبیعت سے مجبور ہو کر اتہام رکھنے والوں کی تاکید کی۔ وہ تو کہیے کہ خداوندِ عالم جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت میں ڈالتا ہے۔ جناب عائشہ کی کوششیں بار آوردہ نہ

ہوسکیں اور خداوند عالم نے جناب ماریہ اور

--------------

۱ـ ملاحظہ فرمائیے شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی جلد۳ ص۷۷، ۴۸۷ اور ص۴۹۷ آپ کو پتہ چلے گا کہ جناب عائشہ کا کیا سلوک تھا؟ حضرت عثمان اور امیرالمومنین(ع) و جناب سیدہ(ع) کے ساتھ۔

۴۲۷

 ابراہیم دونوں کو بری قرار دیا اور امیرالمومنین(ع) کے ذریعہ  دشمنوں کے مظالم سے محفوظ  رکھا اور کلام مجید میں خداوند عالم نے ان کافرون کی تردید کردی۔(۱)

اگر آپ مزید سننا چاہتے ہیں تو وہ واقعہ یاد کیجیے جب جناب عائشہ نے رسول اﷲ(ص) سے کہا(۲) تھا کہ :

“ مجھے آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے”

اس میں بھی کا طبعی میلان اور ذاتی جذبہ کار فرماتھا ۔ غرض یہ تھی کہ آںحضرت(ص) جناب زینب کے پاس نہ جائیں، نہ شہد نوش فرمائیں۔ لہذا جب ایسی رکیک غرض جناب عائشہ کے لیے قسم کی باتیں جائز قرار دے سکتی ہے تو امیرالمومنین(ع) کےوصی پیغمبر(ص) ہونے سے ان کا انکار کیونکر بعید ہوگا؟ اور ان کے انکار پر آپ کیونکر کان دھرسکتے ہیں۔

وہ واقعہ یاد کیجیے کہ جب اسماء بنت نعمان دلہن بنا کر رسول(ص) کی خدمت میں پیش کی گئیں تو جناب عائشہ نے انھیں(۳) پٹی پڑھائی کہ رسول اﷲ(ص)

--------------

۱ـ اس المناک سرگزشت کی تفصیل دیکھنا ہو تو ملاحظہ فرمائیے مستدرک امام حاکم جلد۴ ص۲۹ و تلخیص مستدرک علامہ ذہبی

۲ـ ملاحظہ فرمائیے صحیح بخاری کی روایت بسلسلہ تفسیر سورہ تحریم جلد۳ ص ۱۳۶ اسی محل پر متعدد حدیثیں عمر سے مروی ہیں جن میں ہے کہ وہ دو عورتیں جنھوں نے پیغمبر(ص) سے سرکشی کی وہ عائشہ اور حفصہ تھیں نیز اسی جگہ ایک طولانی حدیث ہے ان تمام احادیث میں یہی مضمون ہے۔

۳ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے جو امام حاکم نےمستدرک ج۳ ص۲۷ میں بسلسلہ حالات اسماء لکھے ہیں نیز ابن سعد سے طبقات جلد۲ ص۱۰۴ میں اسماء کے حالات میں درج کیا ہے یہ واقعہ بہت مشہور ہے علامہ ابن عبدالبر نے استیعاب میں ابن حجر عسقلانی نے اصابہ میں نیز انب جریر نے اس کی روایت کی ہے۔

۴۲۸

 اس عورت سے بہت خوش ہوتے ہیں جو رسول(ص) کے پاس آنے پر اعوذ باﷲ منک ( خدا مجھے آپ سے بچائے) کہے ۔ یہ واقعہ طبعی میلان کا نتیجہ تھا اور اس سے جناب عائشہ کی غرض یہ تھی کہ رسول اﷲ(ص) کو اس تازہ عروس سے متنفر کردیں اور اس غریب کو آپ کی نظروں سے گرادیں۔ جناب عائشہ اپنی غرض کی دھن میں اس قسم کی حدیثیں بخوبی جائز سمجھتی تھیں چاہے وہ غرض ذلیل و رکیک بلکہ حرام ہی کیوں نہ ہو۔

رسول اﷲ(ص) نے ایک مرتبہ جناب عائشہ سے ایک عورت کے متعلق کچھ باتیں دریافت کرنے  کا کہا۔ جناب عائشہ نے اپنی غرض کے خیال سے رسول(ص) کو غلط سلط باتیں(۱) بتادیں۔ صحیح حالات کا علم ہی نہیں ہونے دیا۔

ایک مرتبہ اپنے باپ کے سامنے رسول(ص) سے جھگڑ پڑیں۔ اس کا سبب بھی وہی میلان طبیعت ، ذاتی جذبات و اغراض تھے اور رسول(ص) سے بولیں کہ اںصاف سے کام لیجیے(۲) ۔ جس پر جناب ابوبکر نے ایک طمانچہ ان کے اتنے زور سے مارا کہ ان کے کپڑوں تک خون بہہ کر آیا۔

ایک مرتبہ رسول(ص) سے بگڑ گئیں اور غصہ سے بولیں:

“ آپ(۳) ہی ہیں وہ جو دعوے کرتے ہیں کہ میں خدا کا نبی ہوں۔”

اس جیسی بہت سی مثالیں آپ کو ملیں گی۔ اس مختصر سے مکتوب میں کہاں تک

--------------

۱ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال جلد۶  ص۲۹۴ طبقات ابن سعد جلد۸ ص۱۱۵۔

۲ـ کنزالعمال جلد۷ ص۱۱۶ احیاء العلوم امام غزالی جلد۲ ص۳۵ کتاب آداب النکاح نیز امام غزالی کی کتاب کاشفہ القلوب باب ۹۴ ص۲۳۸۔

۳ـ جیسا کہ علامہ غزالی نے مذکورہ بالا باتوں میں ذکر کیا ہے۔

۴۲۹

 بیان کی جائیں۔ ہم نے جتنا ذکر کردیا یہی ہمارے مطلب کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

حسن و قبح کے عقلی ہونے کا ثبوت

آپ نے دوسری بات کے جواب میں فرمایا ہے کہ اہل سنت حسن و قبح کے عقلی ہونے کے قائل نہیں تو مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ بھی ایسا مہمل عقیدہ رکھتے ہوں گے۔ ایسی رکیک بات کے قائل ہوں گے۔ یہ تو بالکل سوفسطائیوں جیسا عقیدہ ہے جو محسوس ہونے واہے حقائق تک کے منکر ہیں۔ دیکھیے بعض افعال تو وہ ہیں جن کی اچھائی اور خوبی کو ہم یقنی طور پر جانتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس کام کےکرنے پر ہمیں اچھی جزا ملے گی، لوگ ہماری تعریف کریں گے جیسے احسان ، عدل ، اںصاف اور

بعض افعال وہ ہیں جن کی برائی کا ہمیں یقین ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس کام کے کرنے پر ہم سزا کے مستحق ہوں گے اور لوگ مذمت کریں گے جیسے بدسلوکی ، ظلم ، حسد وغیرہ ہر با عقل شخص جانتا ہے کہ احسان و عدل کا اچھا ہونا اور ظلم و جور کا برا ہونا خود عقل بتاتی ہے خود عقل فیصلہ کن ہے اور جس طرح صاحبان عقل اس کا یقین رکھتے ہیں کہ ایک نصف ہے دو کا۔ اسی طرح ان کے اس یقین سے حسن و قبح کے عقلی ہونے کا یقین بھی کم نہیں۔

عقل ہمیشہ احسان کرنے والے اور ہمیشہ برائی کرنے والے کے فرق کو محسوس کرتی ہی۔ پہلے کو اچھا کہتی ہے اور دوسرے کو برا۔ محسن کو مستحق مدح و جزا اور بد معاملہ کو مستحق مذمت و قصاص قرار دیتی ہے جو عقل کے اس فیصلہ کو نہ مانے وہ ہٹی ہے۔

۴۳۰

اور اگر حسن و قبح عقلی نہ ہوں، شرعی مان لیے جائیں ، شریعت ہی کو معیار قرار دے لیا جائے کہ شریعت جس کو حسن بتائے وہی حسن ہے، اور شریعت جس کو قبیح بتائے وہی قبیح ہے ،عقل کو اس میں کوئی دخل نہیں نہ عقل کا فیصلہ قابل اعتنا ہے تو چاہیے تھا کہ وہ لوگ جو شریعت کے مانتے ہی نہیں شریعت کے قائل ہی نہیں ، وہ نہ کسی چیز کو حسن سمجھیں نہ کسی چیز کو قبیح جیسے لامذہب دہریے حضرات جو مذہب کے دشمن ہیں، شریعت کے منکر ہیں چاہیے تھا کہ ان کے نزدیک نہ کوئی چیز اچھی ہو نہ بری۔ مگر باوجود منکر دین و شریعت ہونے کے وہ بھی احسان و عدل کو اچھا ہی سمجھتے ہیں اور اس کے کرنے  والے کو مستحق مدح و ثناء لائق انعام و اکرام جانتے ہیں اور اسی طرح ظلم و سرکشی کے قبیح ہونے میں بھی انھیں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اور ظلم وسرکشی کرنے والے کو پاداش میں قصاص کا سزاوار قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ فیصلہ حسن کو حسن سمجھنا ، قبیح کو قبیح جاننا ہی کی بنا پر ہے اور کسی چیز کی وجہ سے نہیں۔ لہذا آپ ان لوگوں کی باتوں پر توجہ ہی نہ  کیجیے جو عقل کے مقابلہ میں ہٹ دھرمی سے کام لیں وجدان کے جھٹلائیں اور جسے ہر صحیح الدماغ مانتا اور جانتا ہے اس سے انکار کریں اور جس فطرت پر خدا نے انھیں پیدا کیا ہے اس فطرت کے فیصلہ کے خلاف فیصلہ صادر کریں۔

خداوند عالم نے جس طرح حس و شعور کے ذریعہ اشیاء کے ذریعہ اشیاء کا معلوم کرنا بندوں کی فطرت میں داخل کیا ہے اسی طرح اکثر حقائق کو عقل کے ذریعہ جاننا بھی فطری قرار دیا ہے لہذا خود ہماری فطرت مقتضی ہے کہ ہم عدل کی اچھائی کو ظلم وجور کی برائی کو عقل سے جانیں جس طرح  ذائقہ سے شہد کی مٹھاس اور ایلوے کا کڑواپن جانتے ہیں۔ جیسے قوتِ شامہ

۴۳۱

کے ذریعہ مشک کی خوشبو اور مردار کی بدبو سنونگھتے ہیں۔ ہاتھ سے چھو کر چکناپن اور کھردارپن معلوم کرتے ہیں۔ آنکھ سے دیکھ کرخوبصورت و بدصورت میں فرق کرتے ہیں۔ کانوں سے سن کر گدھوں کی آواز اور بانسری کی آواز میں تمیز کرتے ہیں۔ اسی طرح عقل کے ذریعہ نیکی ، انصاف کی اچھائی ، ظلم و ایذا رسانی کی برائی معلوم کرتے ہیں۔ یہ ہماری وہ فطرت و خلقت ہے جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے خدا کی خلق میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔

اشاعرہ چاہتے تھے کہ شرع پر ایمان رکھنے اور اس کے حکم کو تسلیم کرنے میں ہم انتہا کو پہنچ جائیں لہذا انھوں نے عقل کے فیصلہ ہی سے انکار کر دیا : اور کہنے لگے کہ بس جس بات کو شریعت کہے وہی قابل تسلیم اور اگر شریعت نہ کہے تو نا قابل تسلیم اور دنیا بھر میں جو عقلی قاعدہ جاری و ساری ہے بلکہ جس بات کو عقل کہے گی اس بات کو شرع بھی کہے گی اسے فراموش کر بیٹھے اور اس کا خیال ہی نہ رہا کہ اس رائے کو اختیار کر کے خود اپنے کو الجھن میں مبتلا کر لیا۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ بس جس چیز کو مذہب اچھا کہے وہی اچھا ہے اور جسے مذہب برا کہے وہی برا ہے تو پھر مذہب کی پابندی اور شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا وجوب کیونکر ثابت ہوگا۔ کوئی پوچھے کہ مذہب کو ماننا اور مذہب کےاحکام پر عمل کرنا کیوں اچھا ہے؟ اور نہ ماننا اور نہ عمل کرنا کیوں برا ہے؟ اس کے جواب میں اگر آپ کہیں کہ مذہب اچھا کہتا ہے اور مذہب برا بتاتا ہے تو یہ کھلا ہوا دور و تسلسل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر عقل مجبور بنانے والی اور سرتسلیم خم کرا دینے والی نہ ہوتی تو منقولات کے ذریعہ استدلال دعوی بلا دلیل ہی ہوتا بلکہ اگر عقل نہ ہوتی تو نہ کوئی خدا کی عبادت کرنے والا ہوتا نہ اس کی تمام مخلوقات میں کوئی اس کی معرفت حاصل کرپاتا۔ تفصیلی بحث ہمارے علماء کی تصنیفات

۴۳۲

میں آپ کو نظر آئے گی جو انھوں نے اس موضوع پر تحریر فرمائے ہیں۔

صحیح حدیثیں مخالف ہیں دعوی عائشہ کے

اور جناب عائشہ کا یہ دعوی کہ رسول(ص) نے اس حالت میں انتقال کیا جب وہ میرے سینے پر تھے ۔ یہ معارض ہے ان صحیح و متواتر احادیث کے جو ائمہ طاہرین(ع) سے مروی ہیں۔

ائمہ طاہرین(ع) کے علاوہ غیروں کی حدیث اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں تو ملاحظہ فرمائیے طبقات ابن سعد(۱) جلد۲ قسم ثانی صفحہ۵۱ اور کنزالعمال جلد۴ صفحہ۵۵ جن میں بسلسلہ اسناد امیرالمومنین (ع) سے روایت کی گئی ہے:

“ حضرت علی(ع) فرماتے ہیں : کہ رسالت ماب(ص) کا جب دم واپسین آیا تو آپ نے فرمایا : میرے بھائی کو بلا دو، یہ سن کر میں آپ کے قریب آیا ، آںحضرت(ص) نے فرمایا : کہ اور نزدیک آؤ۔ میں اور نزدیک آگیا۔ رسول(ص) نے میرا سہارا لیا اور آخر وقت تک مجھ پر سہارا کیے مجھ سے باتیں کرتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ کا لعاب دہن بھی مجھ پر گرا اور اسی حالت میں آپ نے انتقال فرمایا۔”

ابو نعیم نے اپنےحلیہ میں ، احمد فرضی نے اپنے نسخہ میں نیز بہت سے صاحبان سنن نے امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے، آپ فرماتے ہیں:

“ اس وقت رسول(ص) نے مجھے ہزار باب علم کے تعلیم کیے۔

--------------

۱ـ طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۱ اور کنزالعمال جلد۴ ص۵۵ حدیث ۱۱۰۷

۴۳۳

ہر باب(۱) سے مجھ پر ہزار باب کھل گئے۔”

حضرت عمر کی یہ حالت تھی کہ جب آپ سے رسول(ص) کے آخری حالاتِ زندگی وغیرہ کے متعلق پوچھا جاتا تو بس یہی کہتے کہ علی(ع) سے جا کر پوچھ کیونکہ انھیں کے ہاتھوں تمام امور انجام پائے چنانچہ جناب جابر  بن عبداﷲ انصاری سے  روایت ہے کہ کعب الاحبار نے حضرت عمر سے پوچھا کہ رسول(ص) کا آخری کلام کیا تھا؟ حضرت عمر نے ( حسب دستور) جواب دیا:

“ علی (ع) سے پوچھو”

کعب نے علی (ع) سے آکر پوچھا، حضرت علی(ع) نے فرمایا کہ :

“ میں نے رسول(ص) کو اپنے سینہ پر لٹایا ۔ آںحضرت(ص) نے میرے کاندھوں پر اپنا سر ڈال دیا اور فرمایا : الصلوة ، الصلوة۔ نماز ، نماز۔”

کعب نے یہ سن کر کہا کہ تمام انبیاء کی آخری وصیت یہی ہوا کی۔ اسی کی تاکید پر وہ مامور ہوئے اور اسی پر وہ رسول بنا کر بھیجے گئے۔

کعب نے پھر حضرت عمر سے پوچھا کہ غسل کس نے دیا؟ آپ نے جواب دیا کہ:

“ علی(ع) سے جاکر پوچھو۔”

کعب نے پھر آکر امیرالمومنین(ع) سے دریافت کیا۔ تو آپ نے جواب دیا کہ :

“ میں نے غسل دیا ۔”(۲)

جناب عبداﷲ ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ کیا کہتے ہیں۔ کیا

--------------

۱ـ کنزالعمال جلد۶ ص۳۹۲حدیث ۶۰۰۹

۲ـطبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۰ اور کنزالعمال جلد۴ ص۵۵

۴۳۴

رسول اﷲ(ص) نے اس طرح انتقال فرمایا کہ آپ کا سر کسی کی آغوش میں تھا؟

جناب عبداﷲ بن عباس نے کہا: ہاں! رسول(ص) نے جب انتقال کیا تو آپ حضرت علی(ع) کے سینے پر تکیہ کیے ہوئے تھے۔

اس پر ان سے کہا گیا کہ :

“ عروہ تو جناب عائشہ سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے ان کے سینہ پر انتقال کیا۔”

جناب عباس نے اس کا انکار کیا اور کہا کہ :

“ تمھاری عقل میں یہ بات آتی ہے ؟ قسم بخدا رسول(ص) نے تو اس حالت میں انتقال کیا کہ آپ علی(ع) کے سینہ پر تکیہ کیے ہوئے تھے اور علی(ع) ہی نے آپ کو غسل بھی(۱) دیا۔”

اور ابن سعد نے بسلسلہ اسناد امام زین العابدین(ع)(۲) سے روایت کی ہے :

“ امام زین العابدین(ع) فرماتے ہیں : کہ جب رسول(ص) کا انتقال ہوا تو آپ کا سر حضرت علی(ع) کی گود میں تھا۔”
میں کہتا ہوں کہ اس کے متعلق تو ائمہ طاہرین(ع) سے بکثرت متواتر حدیثیں مروی ہیں۔ ائمہ طاہرین(ع) سے انحراف کرنے والے بھی اس حقیقت کے معترف ہیں یہاں تک کہ ابن سعد(۳) نے بسلسلہ اسناد شعبی سے روایت کی ہے:
 “ شعبی کہتے ہیں کہ رسول(ص) نے جب انتقال کیا تو آپ کا سر

--------------

۱ـ طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۵

۲ـ طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۵

۳ـ  طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۵

۴۳۵

 امیرالمومنین (ع) کی آغوش میں تھا اور حضرت علی(ع) ہی نے آپ کو غسل دیا، امیرالمومنین(ع) بھرے مجمع میں اپنے سلسلہ تقریر میں اس کا ذکر کیا کرتے ۔ ملاحظہ فرمائیے ( نہج البلاغہ(۱) جلد۲ ص۱۹۶)

امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں :

“ اصحاب رسول(ص) جانتے ہیں کہ میں نے کسی گھڑی خدا و رسول(ص) کا کہنا نہیں ٹالا۔ میں نے ! ایسے ایسے مہلکوں میں اپنی جان پر کھیل کر سول(ص) کی جان بچائی۔ جہاں بڑے بڑے شجاعان عرب کے پیر اکھڑ  گئے، قدم پیچھے ہٹ گئے یہ میری شجاعت و طاعت تھی جس سے خدا نے مجھے سرفراز فرمایا اور آںحضرت(ص) نے جب انتقال فرمایا تو آپ کا سر میرے سینے پر تھا اور آپ کا لعاب دہن میرے ہاتھ پر گرا جسے میں نے اپنے منہ پر مل لیا میں ہی رسول(ص) کے غسل کا منتظم ہوا جس میں ملائکہ میرے مددگار تھے۔ ملائکہ کی وجہ سے مکان اور صحن آوازوں سے گونجنے لگا۔ ایک گروہ آتا تھا دوسرا گروہ جاتا تھا ۔ ان کی آوازوں کو میرے کانوں نے سنا۔ وہ آپ پر نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ میں نے آپ کو سپرد خاک کیا۔ لہذا مجھ سے زیادہ رسول(ص)  کا آپ کی زندگی میں بھی اور آپ کے مرنے کے بعد بھی کون حقدار ہوسکے گا۔”

اسی جیسے آپ کے وہ فقرات ہیں جو آپ نے جناب سیدہ(س) کو دفن کر کے کہے(۲) :

--------------

۱ـ نہج البلاغہ جلد۲ ص۱۹۶ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد۲ ص۵۶۱

۲ـ نہج البلاغہ جلد۲ ص۲۰۷ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد۲ ص۵۹۰

۴۳۶

“ سلام ہو آپ پر اے رسولِ خدا(ص) ! میری جانب سے بھی اور آپ کی دختر کی طرف سے بھی جو آپ کے جوار میں پہنچ گئیں۔ اور آپ کی خدمت میں جلد پہنچنے والی ہیں۔ یا رسول اﷲ(ص)! آپ کی  اس پاکیزہ دختر کی جدائی پر دامن صبر ہاتھوں سے چھوٹا جارہا ہے اور میرا صبر وضبط جواب دیے جارہا ہے۔ ہاں! آپ کی گراں تر جدائی اور آپ کی موت سے ہم پر سخت ترین مصیبت پڑی ہے۔ اس کو سوچتے ہوئے اس تازہ مصیبت پر صبر آتا ہے۔ ( جب) میں نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے آغوش لحد میں لٹایا اور میرے سر و سینہ پر آپ نے دم توڑا ( تو اتنی بڑی مصیبت جھیلنے کے بعد اب جو بھی مصیبت مجھ پر پڑے وہ سبک ہے) انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔”

اور جناب ام سلمہ سے یہ حدیث مروی ہے ۔ آپ فرماتی ہیں :

“ قسم بخدا علی(ع) و رسول(ص) کی خدمت میں سب سے زیادہ آخر وقت تک باریاب رہے۔ جس دن آپ کی رحلت ہوئی اس دن ہم لوگ آپ کی عیادت میں مصروف تھے اور آپ فرمارہے تھے۔ علی(ع) آئیے؟ علی(ع) آئے؟ جناب سیدہ(س) بولیں: بابا جان معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے انھیں کسی ضروری کام سے بھیجا ہے۔ جناب ام سلمہ کہتی ہے کہ تھوڑی دیر کے بعد حضرت علی(ع) آئے۔ ہم لوگوں کو خیال ہوا کہ شاید رسول(ص) تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سب وہاں سے اٹھ کر دروازے پر آبیٹھے۔ میں دروازے سے بہت قریب بیٹھی
۴۳۷

 تھی۔ میں نے دیکھا کہ رسول(ص) حضرت علی(ع) پر جھک پڑے اور باتیں کرنا شروع کیں اور باتیں کرتے ہی کرتے آپ نے انتقال فرمایا۔ لہذا علی(ع) سب سے آخر تک
پیغمبر(ص) کی خدمت میں باریاب رہنے والے تھے۔”(۱)

اور جناب عبداﷲ بن عمر(۲) سے مروی ہے کہ رسالت ماب(ص) نے جب آپ

--------------

۱ـ اس حدیث کا امام حاکم مستدرک جلد۳ ص۱۳۹ پر روایت کر کے لکھے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر بخاری و مسلم نے درج نہیں کیا۔ میں کہتا ہوں اس حدیث کی صحت کا علامہ ذہبی نے بھی اعتراف کیا ہے چنانچہ انھوں نے تلخیص مستدرک میں بھی اس حدیث کو لکھا ہے ۔ ابن ابی شیبہ نے بھی سنن میں اس کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال جلد۶ ص۴۶ پر بھی موجود ہے ۔ ملاحظہ ہو حدیث ۶۰۹۶۔

۲ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے جو ابو یعلیٰ نے کامل بن طلحہ سے انھوں نے حی بن عبدمغافری سے انھوں نے عبدالرحمن حبلی سے انھوں نے عبداﷲ بن عمرو سے مرفوعا روایت کی ہے نیز ابو نعیم نے اپنے حلیہ میں اور ابو احمد فرضی نے اپنے نسخہ میں روایت کی ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد۲ ص۳۹۲ پر مذکور ہے اور طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کی ہے کہ غزوہ طائف میں رسول(ص) کھڑے ہوئے اور کچھ دیر تک حضرت علی(ع) سے چپکے چپکے باتیں کرتے رہے، اس کے بعد تشریف لے گئے۔ اس پر حضرت ابوبکر نے رسول(ص) سے کہا کہ آج تو آپ علی(ع) سے بہت طولانی سرگوشی کرتے رہے ۔ پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ میں نے سرگوشی نہیں کی بلکہ خداوند عالم نے کی ہے کنزالعمال میں بھی یہ حدیث موجود ہے ملاحظہ ہو جلد۶ صفحہ ۳۹۹ حدیث نمبر۷۵، ۶۰ ۔ حضرت سرورکائنات(ص) عموما تنہائی میں حضرت علی(ع) سے باتیں کیا کرتے ۔ ایک دن پیغمبر(ص) اور امیرالمومنین(ع) تنہا بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ عائشہ آپہنچیں اور حضرت علی(ع) سے کہنے لگیں کہ اے علی(ع) تو دنوں میں مجھے ایک دن ملتا ہے ( پیغمبر(ص) کی نوبیویاں تھیں اس لحاظ سے نو دن میں ایک دن پیغمبر(ص) جناب عائشہ کے یہاں آرام فرماتے) کیا تم مجھے میرے دن میں بھی چین سے نہ رہنے دوگے۔ یہ سن کر سرورکائنات(ص) کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ حمیدی جلد۲ ص۷۸

۴۳۸

  بستر مرگ پر تھے فرمایا کہ میرے بھائی کو بلااؤ۔ ابو بکر سامنے آئے۔تو آپ نے منہ پھیر لیا ۔ پھر آپ نے کہا کہ میرے بھائی کو بلاؤ۔ حضرت عمر سامنے آئے تو آںحضرت(ص) نے منہ پھیرلیا ۔ کوئی بڑھ کر حضرت علی(ع) کو بلایا ۔ جب علی(ع) آئے تو آپ انھیں اپنی چادر میں لے لیا اور آپ پر جھک کر باتیں کرنے لگے۔ حضرت علی(ع) باہر آئے تو ان سے پوچھا گیا کہ رسول(ص) کیا کہہ رہے تھے آپ سے ؟

آپ نے کہا : رسول(ص) نے مجھے ہزار باب علم کے تعلیم کیے اور ہر باب سے ہزار باب مجھ پر کھل گئے۔

آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہی باتیں مناسب حال انبیاء ہیں اور جناب عائشہ جو کچھ فرماتی ہیں وہ تو ہوس پرستوں کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔

اگر کوئی چرواہا اس طرح مرے کہ اس کا سر اس کی بیوی کے سینہ پر ہو یا ٹھڈی اور ناف کے درمیان یا بیوی کی ران پر ہو اور وہ اپنے مویشی کی حفاظت و نگہداشت کی وصیت بیوی کو نہ کرے تو یقینا وہ زیاں کار اور تباہ و برباد کرنے والا ہوگا۔

خدا معاف کرے جناب عائشہ کو کاش ( جب انھوں نے یہی تہیہ کر لیا

۴۳۹

تھا کہ یہ فضیلت علی(ع) کے لیے  نہ ہونے پائے تو ) اپنے باپ کی طرف اس کو منسوب کرتے ہوئے یہ بیان کرتیں کہ میرے باپ کے سینے پر رسول(ص) کا دم نکلا لیکن اپنے باپ کی طرف وہ اس کی نسبت دے بھی کیسے سکتی تھیں کیونکہ انھیں تو رسول(ص) نے خود اسامہ کا ماتحت بنا کر لشکر کے ساتھ روانہ کیا تھا جو مدینہ کے باہر جا کر پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔

بہر حال جناب عائشہ کا یہ کہنا کہ رسول(ص) نے ان کی گود میں دم توڑا صرف جناب عائشہ ہی کی طرف منسوب ہے فقط وہی اس کی بیان کرنے والی ہیں اور یہ قول کہ رسول(ص) نے علی(ع) کی گود میں دم توڑا بکثرت لوگوں کی طرف منسوب ہے۔ بہت سے بیان کرنے والے ہیں۔ جیسے حضرت علی(ع)، عبداﷲ بن عباس، عبداﷲ بن عمر، شبی ، امام زین العابدین(ع)، اور جملہ ائمہ طاہرین(ع) لہذا یہ قول اپنی سند کے لحاظ سے بھی قابل ترجیح ہے اور رسول اﷲ(ص) کی شان کے بھی زیادہ مناسب ہے۔

ام سلمہ کی حدیث مقدم ہے حضرت عائشہ پر

جناب عائشہ کی حدیث اتنے حضرات کی احادیث سے معارض ہے اگر ان حضرات سے قطع نظر صرف جناب ام سلمہ ہی کی حدیث سے معارض ہوتی تو اس صورت میں بھی متعدد وجوہ سے جناب ام سلمہ ہی کا قول قابل قبول ہوتا انھیں کی حدیث کو ترجیح دی جاتی۔

                                                             ش

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639