دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)12%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272266 / ڈاؤنلوڈ: 6389
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیۂ تبدیل کی شان نزول

جب خدا وند سبحان نے شریعت موسیٰ کے بعض احکام کو دوسرے احکام سے حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں تبدیل کردیا( جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے) توقریش نے رسول پر شورش کی اور بولے : تم خدا کی طرف جھوٹی نسبت دے رہے ہو!تو خدا وند عالم نے ا ُن کی بات انھیں کی طرف لوٹاتے ہوئے فرمایا:

( واِذا بدّلنا آية مکان آية و ﷲ اعلم بما ینزّل قالوا اِنّما أنت مفتر...) (اِنما یفتری الکذب الذین لایؤمنون بآیات ﷲ ...)( فکلوا ممّا رزقکم ﷲ حلا لاً طیباً ) ( ۱ )

اور جب ہم کسی حکم کو کسی حکم سے تبدیل کرتے ہیں (اور خدا بہتر جانتا ہے کہ کونسا حکم نازل کرے )تو وہ کہتے ہیں : تم صرف ایک جھوٹی نسبت دینے والے ہو ...،صرف وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں جو خدا کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے لہٰذا جو کچھ خدا نے تمہارے لئے رزق معین فرمایا ہے اس سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ۔

یعنی کچھ چیزیں جیسے اونٹ کا گوشت ،حیوانات کے گوشت کی چربی تم پر حرام نہیں ہے ، صرف مردار ، خون ، سؤر کا گوشت اور وہ تمام جانورجن کے ذبح کے وقت خدا کا نام نہیں لیا گیا ہے، حرام ہیں، نیز وہ قربانیاں جو مشرکین مکّہ بتوں کو ہدیہ کرتے تھے اسکے بعد خدا وند عالم نے قریش کو خدا پر افترا پردازی سے روکا اور فرمایا : من مانی اور ہٹ دھرمی سے نہ کہو : یہ حلال ہے اور وہ حرام ہے !چنانچہ ان کی گفتگو کی تفصیل سورۂ انعام میں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

( وقالوا هذه أنعام و حرث حجر لا یطعمها اِلاّ من نشاء بزعنمهم و أنعام حرّمت ظهور ها و أنعام لا یذکرون اْسم ﷲ علیها أفترائًً علیه و سیجزیهم بما کانوا یفترون)( و قالوا ما فی بطون هذه الأنعام خالصة لذکورنا و محرّم علیٰ أزواجنا و ِان یکن میتةً فهم فیه شرکاء سیجز یهم و صفهم أنّه حکیم علیم ) ( ۲ )

انھوں نے کہا : یہ چوپائے اور یہ زراعت ممنوع ہے، بجزان لوگوں کے جن کو ہم چاہیں(ان کے اپنے گمان میں )کوئی دوسرا اس سے نہ کھا ئے اور کچھ ایسے چوپائے ہیں جن پر سواری ممنوع اور حرام ہے ! اور وہ

____________________

(۱)نحل ۱۰۱ ، ۱۰۵، ۱۱۴

(۲)انعام ۱۳۸، ۱۳۹

۶۱

چوپائے جن پر خدا کا نام نہیں لیتے تھے اور خدا کی طرف ان سب کی جھوٹی نسبت دیتے تھے عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائے گا اور وہ کہتے تھے : جو کچھ اس حیوان کے شکم میں ہے وہ ہم مردوں سے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے ! اور اگر مر جائے تو سب کے سب اس میں شریک ہیں خدا وند عالم جلد ہی ان کی اس توصیف کی سزا دے گا وہ حکیم اور دانا ہے۔

سورۂ یونس میں بھی اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( قل أراْیتم ماأنزل ﷲ لکم من رزق فجعلتم منه حراماًوحلالاً قل آأﷲ أذن لکم أم علیٰ ﷲ تفترون ) ( ۱ )

کہو: جو رزق خدا وند عالم نے تمہارے لئے نازل کیا ہے تم نے اس میں سے بعض کو حلال اور بعض کو حرام کر دیا، کیا خدا نے تمھیں اس کی اجازت دی ہے ؟ یا خدا پر افترا پردازی کر رہے ہو؟

اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مشر کین قریش کے درمیان حلال و حرام کا مسٔلہ قریش کے خود ساختہ موضوعات سے لے کر شریعت موسیٰ کے احکام تک کہ جنہیں جسے خدا نے مصلحت کی بناء پر حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت میں دوسرے احکام سے تبدیل کر دیا ،سب کے سب موضوع بحث تھے۔

مکہ میں قریش ہر وہ حلال و حرام جسے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکے فرمان کے مطابق پیش کرتے تھے اور وہ ان کے دینی ماحول کے اور جو کچھ موسیٰ ابن عمران کی شریعت کے بارے میں جانتے تھے اس کے مخالف ہوتا تو عداوت و دشمی کے لئے آمادہ ہو جاتے تھے اسی دشمنی کا مدنیہ میں بھی یہود کی طرف سے سامناہوا، وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان احکام کے بارے میں جو توریت کے بعض حصے کو نسخ کرتے تھے جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے خدا وندعالم سورۂ بقرہ میں اس جدال کو بیان کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرماتا ہے:

( أفکلما جاء کم رسول بما لا تهوی انٔفسکم اْستکبرتم ففر یقاً کذبتم و فریقاً تقتلون ) ( ۲ )

کیا ایسا نہیں ہے کہ جب بھی کسی رسول نے تمہاری نفسانی خواہشات کے برعکس کوئی کسی چیز پیش کی ، تو تم نے تکبر سے کام لیا،لہٰذا کچھ کو جھوٹا کہا اور کچھ کو قتل کر ڈالا؟

____________________

(۱)یونس ۵۹

(۲)بقرہ ۸۷

۶۲

( و اِذا قیل لهم آمنوا بما أنزل ﷲ قالوا نؤمن بما أنزل علینا ویکفرون بما ورائه ) ...)( ۱ )

اور جب ان سے کہا گیا :جو کچھ خدا نے نازل کیا ہی اسپر ایمان لاؤ!تو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جو خود ہم پر نازل ہو اہے اوراس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں۔

اور پیغمبر سے فرماتا ہے:

( ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخیر منها أَومثلها ) )

ہم اُس وقت تک کوئی حکم نسخ نہیں کرتے یااسے تاخیر میں نہیں ڈالتے ہیں جب تک کہ ا س سے بہتر یااس جیسا نہ لے آئیں۔( ۲ )

( ولن ترضیٰ عنک الیهودولا النّصاریٰ حتیٰ تتّبع ملّتهم ) )( ۳ )

یہود ونصاریٰ ہر گز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک کے ان کے دین کا اتباع نہ کرلو۔

توریت کے نسخ شدہ احکام بالخصوص تبدیلی قبلہ سے متعلق بنی اسرائیل کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزاع و جدال کرنے کی خبر دیتے ہوئے خدا وند عالم سورئہ بقرہ میں فرماتا ہے :

''ہم آسمان کی جانب تمھاری انتظار آمیز نگاہ کو دیکھ رہے ہیں ؛ اب اس قبلہ کی سمت جس سے تم راضی اور خشنود ہو جاؤ گے تمہیں موڑ دیں گے ،جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کر لو،اہل کتاب(یہود و نصاریٰ ) خوب جانتے ہیں کہ یہ حق ہے اوران کے رب کی طرف سے ہے اور تم جیسی بھی آیت اور نشانی اہل کتاب کے سامنے پیش کرو وہ لوگ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔( ۴ )

پس اس مقام پر نسخ آیت سے مراد اس حکم خاص کا نسخ تھا ، جس طرح ایک آیت کو دوسری آیت سے بدلنے سے مراد کہ جس کے بارے میں قریش رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزاع کر رہے تھے، مکّہ میں قریش اور غیر قریش کے درمیان بعض حلال و حرام احکام کو تبدیل کرنا ہے ۔بنابراین واضح ہوا کہ خدا کے کلام : ''( واِذا بدّلنا آية مکان آية ) '' میں لفظ آیت سے مراد حکم ہے ، یعنی :''( اِذا بدلنا حکماً مکان حکم' ) ' جب بھی کسی حکم کو حکم کی جگہ قرار دیں

اور خدا وندعالم کے اس کلام '' ما ننسخ من آےة أو ننسھا'' سے بھی مراد یہ ہے : جب کبھی کو ئی حکم ہم نسخ کرتے یا اسے تاخیر میں ڈالتے ہیں تواس سے بہتر یااس جیسا اس کی جگہ لاتے ہیں۔

____________________

(۱)بقرہ ۹۱(۲)بقرہ ۱۰۶(۳)بقرہ ۱۲۰(۴) بقرہ۱۴۴ ۱۴۵

۶۳

حکم کو تاخیر میں ڈالنے کی مثال : موسی کی شریعت میں کعبہ کی طرف رخ کرنے کوتاخیر میں ڈالنا اوراس کا بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم سے تبدیل کرنا ہے کہ اس زمانہ میں بنی اسرائیل کے لئے مفیداور سود مند تھا۔

نسخ حکم اور اسے اسی سے بہتر حکم سے تبدیل کرنے کی مثال خاتم الانبیاء کی شریعت میں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم کا منسوخ کرنا ہے کہ تمام لوگ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا رخ کعبہ کی طرف کریں۔پس ایک آیت کے دوسری آیت سے تبدیل کرنے کا مطلب ایک حکم کو دوسرے حکم سے تبدیل کرنا ہے ، اس طرح واضح ہو گیا کہ خدا وند عالم جو احکام لوگوں کے لئے مقرر کرتا ہے کبھی انسان کی مصلحت اس حیثیت سے کہ وہ انسان ہے اسمیں لحاظ کی جاتی ہے ایسے احکام نا قابل تغییرو تبدیل ہوتے ہیں جیسا کہ خداوندعالم نے سورۂ روم میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:

( فأ قم وجهک للدین حنیفاً فطرت ﷲ التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق ﷲ ذلک الدین القیم و لٰکنّ أکثر الناس لا یعلمون ) ( ۱ )

اپنے رخ کو پروردگار کے خالص اور پاکیزہ دین کی طرف کر لو، ایسی فطرت کہ جس پر خدا وندعالم نے انسان کی تخلیق فرمائی ہے آفرینش خدا وندی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہے یہی محکم و استوار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

یعنی اُن قوانین میں جنھیں خدا وند عالم نے لوگوں کی فطرت کے مطابق بنائے ہیں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے ،سورۂ بقرہ میں اسی کے مانندخدا کا کلام ہے:

( والوالدات یرضعن أولا دهنّ حولین کاملین لمن أراد أن یتم الرضاعة ) ( ۲ )

اور جو مائیں زمانہ رضاعت کو کامل کرنا چاہتی ہیں ، وہ اپنے بچوں کو مکمل دو سال دودھ پلائیں۔

یہ مائیں کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی زندگی گزارتی ہوں ان میں کوئی فرق نہیں ، خواہ حضرت آدم کی بیوی حواہوں جو اپنے نومولودکو درخت کے سائے میں یا غار میں دودھ پلائیں، یاان کے بعد کی نسل ہو ، جو غاروں، خیموںاور محلوں میں دودھ پلاتی ہے دو سال مکمل دودھ پلانا ہے۔

اسی طرح بنی آدم کے لئے کسی تبدیلی کے بغیر روزہ ، قصاص اور ربا (سود) کی حرمت کا حکم ہے، جیسا

____________________

(۱)روم ۳۰

(۲)بقرہ ۲۳۳۔

۶۴

کہ خدا وند سبحان سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

۱۔( یا أيّها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان! روزہ تم پراسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض تھا شاید پرہیز گار ہو جاؤ۔

۲۔( یا أيّها الذین آمنواکتب علیکم القِصاص ) )( ۲ )

اے صاحبان ایمان ! تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے۔

۳۔( و أحلّ ﷲ البیع وحرّم الرّبا ) )( ۳ )

خدا وندعالم نے بیع کو حلال اور ربا کو حرام کیاہے۔

یہ اور دیگر وہ احکام جسے خدا وندعالم نے انسان کی انسانی فطرت کے مطابق اسکے لئے مقرر فرمایا ہے کسی بھی آسمانی شریعت میں تغییر نہیں کرتے، یہ احکام قرآن میں لفظ''وصّٰی ، یوصیکم، وصےةاور کتب'' جیسے الفاظ سے تعبیر ہوئے ہیں۔

لیکن جن احکام کو خداوندعالم نے خاص حالات کے تحت بعض لوگوں کے لئے مقرر کیا ہے ، ان کی مدت بھی ان حالات کے ختم ہو جانے سے ختم ہوجاتی ہے جیسے وہ احکام جنھیں بنی اسرائیل سے متعلق ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا جواُن کے خاص حالات سے مطابقت رکھتے تھے، یا وہ احکام جو خدا وندعالم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ مکّہ سے ہجرت کرنے والوں کے لئے مقرر فرمائے اور عقد مواخات کے ذریعہ ایک دوسرے کا وارث ہونا انصار مدنیہ کے ساتھ ہجرت کے آغاز میں قانونی حیثیت سے متعارف اور شناختہ شدہ تھا پھر فتح مکّہ کے بعداس کی مدت تمام ہوگئی اور یہ حکم منسوخ ہو گیا، خدا وند عالم سورۂ انفال کی ۷۲ ویں ۷۵ ویں آیت تک اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( اِنّ الذین آمنو أوهاجروا )

وہ لوگ جو ایمان لائے اور مکّہ سے ہجرت کی۔

( واّلذین آووا ونصروا )

____________________

(۱)بقرہ ۱۸۳

(۲) بقرہ ۱۷۸

(۳) بقرہ ۲۷۵.

۶۵

اور وہ لوگ جنھوں نے پناہ دی اور نصرت فرمائی یعنی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے انصار ۔

( أولآء ک بعضهم أولیاء بعض )

ان لوگوں میں بعض ، بعض کے وارث اور ولی ہیں،یعنی میراث لینے اور نصرت کرنے کی ولایت رکھتے ہیں.

( والذین آمنوا ولم یهاجروا مالکم من ولایتهم من شیئٍ حتّیٰ یهاجروا والذین کفروا بعضهم أولیاء بعض )

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا لیکن ہجرت نہیں کی تم لوگ کسی قسم کی ولایت ان کی بہ نسبت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں... اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیںاُن میں سے بعض، بعض کے ولی اور سرپرست ہیں۔

پھر خدا نے اس حکم کے نسخ ہونے کو اس طرح بیان فرمایا ہے :

( وأولوا الأرحام بعضهم أولی ببعض فی کتا ب ﷲ )

اقرباء کتاب الٰہی میں آپس میں ایک دوسرے کی بہ نسبت اولیٰ اور سزاوار ترہیں۔

یعنی ان احکام میں جنھیں خدا وند عالم نے تمام انسانوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اقرباء کو حق تقدم اور اولویت حاصل ہے۔( ۱ )

خلاصہ، قوم یہود نے جب قرآن کی الٰہی آیات کو سنا اور دیکھا کہ صفات قرآن جو کچھ حضرت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے متعلق ان کے پاس موجود ہے اس کی تصدیق اور اس کاا ثبات کر رہے ہیں تو وہ اس کے منکر ہوگئے اور بولے: ہم صرف اس توریت پر جو ہم پر نازل ہوئی ہے ایمان رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ انجیل اور قرآن پر ایمان و یقین نہیں رکھتے ،خدا وندعالم نے بھی قرآن کی روشن آیات اور اسکے معجزات اور احکا م کے ارسال کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے: فاسقوں(کافروں )کے سوا کوئی اس کا منکر نہیں ہوگا اور پھر فرمایا: ہم شریعت کے ہر حکم کو نسخ کرتے ہیں( جیسے بیت المقدس کے قبلہ ہونے کے حکم کا منسوخ ہونا) یاہم اسے مؤخرکرتے ہیں تواُس سے بہتر یااسی جیسا حکم لوگوں کے لئے پیش کرتے ہیں ، خدا وند عالم خود زمین و آسمان کا مالک ہے ،وہ جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے یہود و نصاریٰ رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہر گز راضی نہیں ہوںگے مگر یہ کہ جوان پر احکام نازل ہوئے ہیںان سے دست بردار ہو جائیں اوران کی شریعت کے احکام کے پابند ہوجائیں۔

خدا وندعالم اسی مفہوم کی دوسرے انداز میں تکرار کرتے ہوئے سورئہ اسراء میں فرماتا ہے:

____________________

(۱)اس آیت کی تفسیر کے لئے مجمع البیان ، تفسیر طبری اور دوسری روائی تفاسیرکی جانب رجوع کیجئے.

۶۶

( و آتینا موسیٰ الکتاب و جعلنا ه هدیً لبنی اِسرائیل ) ( ۱ )

ہم نے موسیٰ کو کتا ب دی اوراسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا،پھر فرماتا ہے :

( انّ هذا القرآن یهدی للتی هی اقوم ) ( ۲ )

یہ قرآن محکم اور استوارترین راہ کی ہدایت کرتا ہے،یعنی قرآن کا راستہ اس سے وسیع اوراستوارتر ہے جو موسی کی کتاب میں آیا ہے۔

ہم نے ربوبیت کے مباحث میں بات یہاں تک پہنچائی کہ رب العالمین نے انسان کے لئے اسکی فطرت اور سرشت کے مطابق ایک نظام معین کیا ہے پھر راہ عمل میں ان مقررات اور قوانین کی طرف راہنمائی فرمائی ہے ، انشاء ﷲ آئندہ بحث میں اس بات کی تحقیق و بر رسی کریں گے کہ رب العالمین کس طرح سے انسان کو دنیا و آخرت میں پاداش و جزا دیتا ہے۔

____________________

(۱) اسرائ۲

(۲)اسرائ۹

۶۷

۲

ربّ العالمین اور انسان کے اعمال کی جزا

الف وب:دنیا و آخرت میں

ج:موت کے وقت.

د:قبر میں

ھ: محشر میں

و:بہشت وجہنم میں

ز:صبر وتحمل کی جزا.

ح: نسلوں کی میراث؛ عمل کی جزا

۱۔

انسان اور دنیا میں اس کے عمل کی جزا

ہم تمام انسان اپنے عمل کا نتیجہ دنیاوی زندگی میں دیکھ لیتے ہیں جو گندم ( گیہوں) بوتا ہے وہ گندم ہی کاٹتا ہے اور جو جَو بوتا ہے وہ جَو کا ٹتاہے اسی طرح سے انسان اپنی محنت کا نتیجہ کھاتا ہے۔

یہ سب کچھ دنیاوی زندگی میں ہمارے مادی کارناموں کے آثار کاایک نمونہ ہے۔ دنیاوی زندگی میں ہمارے اعمال مادی آثار کے علاوہ بہت سارے معنوی آثار بھی رکھتے ہیں مثال کے طور پر انسانوں کی زندگی میں صلۂ رحم کے آثار ہیں،جن کی خبررسول خدا نے دیتے ہوئے فرمایا :

''صلة الرّحم تزید فی العمر وتنفی الفقر''

اقرباء و اعزا ء کے ساتھ صلہ ٔرحم کرنا عمر میں اضافہ اور فقر کو دور کرنے کا باعث ہوتا ہے۔

۶۸

نیز ارشاد فرمایا:

''صلة الرحم تزید فی العمر،وصدقة السر تطفیء غضب الربّ ، و اِنّ قطیعة الرّحم و الیمین الکاذبة لتذرٰان الدیار بلا قِعَ من أهلها و یثقلان الرحم و اِنَ تثقّل الرحم انقطاع النسل''

اقرباء و اعزا ء کے ساتھ صلہ رحم کرنا عمر میں اضافہ کا سبب ہے اور مخفی طور پر صدقہ دینا غضب الٰہی کو خاموش کرتا ہے، یقیناًاقرباء واعزاء سے قطع تعلق رکھنا اور جھوٹی قسم کھانا آباد سرزمینوں کو بر باد اور بار آور رحم کو بانجھ بنا دیتا ہے اور عقیم اور بانجھ رحم، انقطاع نسل کے مساوی ہے۔( ۱ )

یہ جو فرمایا :'' تطفی غضب الرّبّ'' پوشیدہ صدقہ دینا غیظ وغضب الٰہی کو خاموش کر دیتا ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ اگر انسان اپنی (نامناسب) رفتار سے خدا کے خشم وغضب نیز دنیاوی کیفر کا مستحق ہو اور یہ

____________________

(۱) سفینة البحارمادئہ رحم.

۶۹

مقرر ہو کہ اس کے گناہوں کی وجہ سے اس کی جان و مال یا اس سے مربوط چیزوں کو نقصان پہنچے تو یہ پوشیدہ صدقہ اس طرح کی بلا کواس سے دور کردیتا ہے۔

بَلا قِع، بلقع کی جمع ہے ،بے آب وگیاہ ،خشک اور چٹیل میدان اور وادی برہوت ۔( ۱ ) چنانچہ امیر المومنین نے فرمایا:

''وصلة الرّحم فأِنّها مثراة فی المال ومنساة فی الأجل، وصدقة السرّفأنّها تکفرالخطية' '( ۲ )

رشتہ داروں کی دیکھ ریکھ اور رسید گی کرنا مال میں زیادتی اور موت میں تاخیر کا باعث ہے اور پوشیدہ صدقہ گناہ کو ڈھانک دیتا ہے اور اس کا کفارہ ہوتا ہے ۔

نیز فرماتے ہیں :

''و صلة الرحم منماة للعدد''

اقرباء واعزاء کے ساتھ نیک سلوک کرنا افراد میں اضافہ کا سبب ہے۔( ۳ )

ان تمام چیزوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ خدا وند عالم اپنی حکمت سے ایسا چاہتا ہے کہ روزی میں زیادتی، نسل میں اضافہ''صلہ رحم'' کی وجہ سے ہونیز تنگدستی اور عقیم ہونا ''قطع رحم'' میں ہو۔

یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی دوتاجرآدمی ایک طرح کا مال بازار میں پیش کرتے ہیں تو ایک کو نقصان ہوتا ہے اور دوسرے کو فائدہ ،پہلے کے نقصان کا سرچشمہ اقرباء سے قطع رحم کرنا ہے اور دوسرے کا فائدہ حاصل کرنا عزیز واقارب سے صلہ رحم کی بنا پر ہے خدا کی طرف سے ہر ایک کی جزا برابر ہے۔

ایسے عمل کی جزا انسان کے ،خدا پر ایمان اور عدم ایمان سے تعلق نہیں رکھتی ہے کیونکہ خدا وندعالم نے انسان کے کارناموں کے لئے دنیا میں دنیاوی آثار اور آخرت میں اخروی نتائج قرار دئے ہیں کہ جب بھی کوئی اپنے ارادہ واختیاراور ہوش وحواس کے ساتھ کوئی کام انجام دے گا تواس کا دنیاوی نتیجہ دنیا میں اور اخروی نتیجہ آخرت میں اُسے ملے گا۔

اسی طرح خدا وندعالم نے اپنے ساتھ انسان کی رفتاراور خلق کے ساتھ اس کے کردار کے مطابق جزا اور پاداش قرار دی ہے ، خواہ یہ مخلوق انسان ہو یا حیوان یا ﷲ کی نعمتوں میں سے کوئی نعمت ہو جس سے خدا نے

____________________

(۱) المعجم الوسیط مادئہ بلقع(۲)نھج البلاغہ خطبہ ۱۰۸(۳) نہج البلاغہ حکمت ۲۵۲

۷۰

انسان کو نوازا ہے، ہر ایک کے لئے مناسب جزا رکھی ہے ،یہ تمام کی تمام ﷲ کی مرضی اور اس کی حکمت سے وجود میں آئی ہیں ،''ربّ العالمین'' نے ہمیں خود ہی آگاہ کیا ہے کہ انسان کے لئے اسکے کردار کے نتیجہ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ( یعنی جیسا کردار ہو گا ویسی ہی اس کی جزا وپاداش ہوگی)

( وأن لیس للاِ نسان اِلاّ ما سعیٰ ) ( ۱ )

انسا ن کے لئے اس کی کوشش اور تلاش کے نتیجہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

اسی طرح خبر دی ہے کہ جو دنیا کے لئے کام کرئے گا خدا وند عالم اس کا نتیجہ اسے دنیا میں دکھاتا ہے اور جو کوئی آخرت کے لئے کوشاں ہوگا اسکے کام کی جزا اسے آخرت میں دکھائے گا:

( ومن یرد ثواب الدنیا نؤتیه منها و من یرد ثواب الآخرة نؤته منها وسنجزی الشاکرین ) ( ۲ )

جو کوئی دنیاوی جزا وپاداش چاہتا ہے اسے وہ دیں گے اور جو کوئی آخرت کی جزا چاہتا ہے ہم اسے وہ دیں گے اور عنقریب شکر گزاروں کوجزا دیں گے۔

( مَن کان یریدالحیا ة الدنیا وزینتها نوفّ الیهم أعمالهم فیها وهم فیها لا یبخسون)(اولاء ک الذین لیس لهم فی الاخرة اِلّا النار... )

جو لوگ (صرف) دنیاوی زندگی اور اس کی زینت و آرایش کے طلبگار ہیںان کے اعمال کا کامل نتیجہ ہم اسی دنیا میں دیں گے اور اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی اور یہ گرو ہ ان لوگوں کا ہے جن کے حصہ میں آخرت میں سوائے آگ کے کچھ نہیں ہے۔( ۳ )

( مَن کان یرید العاجلة عجلنا له فیها..)( ومن أراد الآخرة و سعیٰ لها سعیها وهو مومن فأولآء ک کان سعیهم مشکوراکلاً نمد هٰؤلاء و هٰؤلاء من عطاء ربّک وما کان عطاء رّبک محظوراً ) ( ۴ )

جو کوئی اس زود گزر دنیا کا طلبگا ر ہو اس کو اسی دنیا میں جزا دی جائے گی... اور جو کوئی دار آخرت کا خوہاں ہو اوراس کے مطابق کوشش کرے اور مومن بھی ہو اس کی کوشش وتلا ش کی جز ا دی جائے گی ، دونوںگروہوں میں سے ہر ایک کو تمھارے پروردگار کی عطا سے بہرہ مند کریں گے اور تمہارے رب کی عطا کبھی ممنوع نہیں قرار دی گئی ہے۔

____________________

(۱)نجم ۳۹.(۲)آل عمران ۱۴۵.(۳)ہود ۱۵ ،۱۶. (۴) اسرا ء ۱۸۔ ۲۰.

۷۱

کلمات کی تشریح

''نوفّ اِلیھم'':ان کا پورا پورا حق دیں گے۔

'' لایبخسون ، لا ینقصون'': ان کے حق میں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔

'' محظوراً '': ممنوعاً، حظر یعنی منع، رکاوٹ۔

دنیا وآخرت کی جزا

جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس بنیاد پر بعض اعمال ایسے ہیں کہ جن کی جزا انسان دنیا ہی میں دیکھ لیتا ہے ، لیکن ان میں سے بعض اعمال کی جزا قیامت میں انسان کو ملے گی ، مثال کے طور پر کوئی شہید خدا کی راہ میں جنگ کرے اور شہادت کے درجہ پر فائز ہو جائے ،وہ دنیوی جز ا کے دریافت کرنے کا امکان نہیں رکھتا تا کہ اس سے فائدہ اٹھائے ،لہٰذا خدا وندعالم اس کی جزا آخرت میں دے گا جیساکہ فرماتا ہے:

( ولا تحسبّن الذین قتلوا فی سبیل ﷲ امواتاً بل أحیاء عند ربّهم یرزقون) (فرحین بما آتهم ﷲ من فضله و یستبشرون با لذین لم یلحقو ا بهم من خلفهم الا خوف علیهم ولا هم یحزنون)( یستبشرون بنعمة من ﷲ وفضلٍ وأنّ ﷲ لا یضیع أجر المؤمنین ) ( ۱ )

اورجو لوگ راہ خدا میں شہید ہوگئے ہیں انھیں ہر گز مردہ خیال نہ کرو ! بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کی طرف سے رزق پاتے ہیں ،یہ لوگ اس نعمت کی وجہ سے جو خدا وندعالم نے انھیں اپنے فضل و کرم سے دی ہے ، راضی اور خوشنود ہیں اور جو لوگ ان سے ابھی تک ملحق نہیں ہوئے ہیں ان کی وجہ سے شاد و خرم ہیں کہ نہ انھیں کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی حزن و ملال وہ لوگ نعمت الٰہی اوراس کی بخشش اور اس بات سے کہ خدا وند عالم نیکو کاروں کی جزا کو ضائع و برباد نہیں کرتا ، مسرور و خوش حال ہیں ۔

اسی طرح اقتدار کے بھوکے انسان اوراس شخص کا حال ہے جو کسی مومن کے ساتھ ظلم وتعدی کر کے اسے قتل کر دیتا ہے، ایسا شخص بھی اپنی جزا آخرت میں دیکھے گا جیسا کہ خدا وندعالم نے ارشاد فرماتا ہے:

( ومن یقتل مؤمناً متعمداً فجزاؤه جهنم خالداً فیها وغضب ﷲ علیه ولعنه وأعدّ له عذاباً عظیماً ) ( ۲ )

____________________

(۱) آل عمران ۱۶۹ ، ۱۷۱

(۲) نساء ۹۳.

۷۲

جو کوئی کسی مومن انسان کو عمدا ( جان بوجھ کر) قتل کر ڈالے اسکی جزا جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا خدااس پر غضب ناک ہے اوراس نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے اوراس کے لئے عظیم عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔

اسی طرح اس شخص کا حال ہے جو ناقص جسم کے ساتھ دنیا میں آتا ہے جیسے اندھا گونگا ،ناقص الخلقة (جس کی تخلیق میں کوئی کمی ہو) اگر ایسا شخص خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے اور اولیاء خدا کا دوست ہو اور اپنے عضو کے ناقص ہونے کی بناء پر خدا کے لئے صبر وتحمل کرے ایسے شخص کو خدا آخرت کی دائمی وجاوید زندگی میں ایسا اجر دے گا کہ جو دنیاوی کمی اور زحمتیںاس نے راہ خدا میں برداشت کی ہیں ان کا اس جزا کے مقابلہ میں قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔( ۱ )

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ،اس بنا پر عدل الٰہی آخرت میں عمل کی جزا دریافت کیے بغیر ثابت نہیں ہوتا، خداوند عالم نے دنیاوی زندگی کے بعداعمال کی جزا پانے کیلئے متعدد مراحل قرار دئے ہیں ہم آئندہ بحث میں اس پر گفتگو کریں گے۔

____________________

(۱) دیکھئے : ثواب الاعمال،صدوق باب ''اس شخص کا ثواب جو خدا وند عالم سے اندھے ہونے کی حالت میں ملاقات کرے اوراس نے خدا کے لئے اسے تحمل کیا ہو ، حدیث ۲۱ ، نیز معالم المدرستین، ج ۱، بحث شفاعت،اس ایک نا بینا شخص کی روایت کی طرف رجوع فرمائیں جورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اور آنحضرت سے درخواست کی کہ حضرت اس کے لئے دعا کریں تا کہ شفا ہو''۔

۷۳

۲۔

انسان اور آخرت میں ا س کی جزا

خود انسان اپنے کھیت میں کبھی گیہوں،مکئی اور سبزیاںاگاتا ہے اور چند ماہ بعداس کا نتیجہ اورمحصول حاصل کرتا ہے اور کبھی انگور، انجیر، زیتون،سیب اور سنترہ لگاتا ہے اور تین یا چار سال بعداس کا نتیجہ پاتا ہے اور کبھی خرما اور اخروٹ بوتا ہے اور ۸ سال یااس سے بھی زیادہ عرصہ کے بعداس سے فائدہ اٹھاتا ہے،اس طرح سے عادی اور روز مرہ کے کاموں کا نتیجہ انسان دریافت کرتا ہے اور اپنے اہل وعیال اوردیگر افراد کواس سے فیضیاب کرتا ہے اس کے با وجود خدا فرماتا ہے:

( اِنّ ﷲ هو الرزّاق ذوالقوة المتین ) ( ۱ )

خدا وند عالم روزی دینے والا ہے وہ قوی اور توانا ہے۔

( ﷲ الذی خلقکم ثّم رزقکم ) ( ۲ )

وہ خدا جس نے تمھیں خلق کیا پھر روزی دی۔

( لا تقتلوا اولا دکم من اِملاقٍ نحن نرزقکم و اِيّاهم ) ( ۳ )

اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو کیونکہ ہم تمھیں اور انھیں بھی رزق دیتے ہیں۔

( وکا يّن من دابة لا تحمل رز قها ﷲ یرزقهاو اِيّاکم ) ( ۴ )

کتنے زمین پر چلنے والے ایسے ہیں جو اپنا رزق خود حاصل نہیں کر سکتے لیکن خدا انھیں اور تمھیں بھی رزق دیتا ہے ۔

( و ﷲ فضّل بعضکم علیٰ بعضٍ فی الرّزق ) ( ۵ )

____________________

(۱) ذاریات ۵۸

(۲)روم ۴۰

(۳) انعام ۱۵۱.

(۴) عنکبوت ۶۰

(۵) سورہ نحل ۷۱.

۷۴

خدا وندعالم نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت اور برتری دی ہے۔

جی ہاں! انسان زمین کا سینہ چاک کرتا ہے ، اس میں دانہ ڈالتا ہے، درخت لگاتا ہے ، پانی دیتا ہے ، تمام آفتوں اور بیماریوں کو دور کرتا ہے اس کی دیکھ ریکھ کرتا ہے تاکہ دانہ بن جائے اور بارآور ہو جائے جسے خود وہ بھی کھائے اور جسے دل چاہے کھلائے لیکن خدا وندسبحان فرماتا ہے :

( نحن نرزقکم و ایاّهم )

ہم تمھیں اوران کو روزی دیتے ہیں !

اور خدائے عظیم نے درست فرمایا ہے کیونکہ جس نے آب وخاک میں نباتات کے اگانے کے خواص قرار دئے اور ہمیں بونے اورپودا لگانے کا طریقہ سکھا یا ،وہی ہمیں روزی دینے والا ہے ۔

خدا کے روزی دینے اور انسان کے دنیا میں روزی حاصل کرنے کی مثال، میزبان کا مہمان کو '' self serveic ''والے ہوٹل میں کھانا کھلانے کی مانند ہے کہ جس میں نوکر چاکر نہیں ہوتے اور معمولاً مہمان سے کہا جاتا ہے ،اپنی پذیرائی آپ کیجیے(جو دل چاہے خود لے کر کھائے ) اس طرح کے ہوٹلوں میں میزبان مہمان کوکھانا کھلاتا ہے مہمان جس طرح کی چیزیں پسند کرنا چاہے اسے مکمل آزادی ہوتی ہے لیکن جو کچھ وہ کھاتا ہے میزبان کی مہیا کی ہوئی ہے لیکن اگرکوئی مہمان ایسی جگہ پر داخل ہو اور خود اقدام نہ کرے، چمچے، کانٹے، پلیٹ جو میزبان نے فراہم کئے ہیں نہ اٹھائے اور فراہم کی ہوئی غذا ؤں کی طرف اپنے قدموں سے نہ بڑھے اور اپنی مرضی سے کچھ نہ لے ،تو وہ کچھ کھا نہیں سکے گا،اس کے باوجود جس نے مہمانوں کیلئے غذا فراہم کی ہے و ہی میزبان ہے،ایسی صورت میں بری طرح کھا نے کا احتمالی نقصان بھی مہمان ہی کے ذمہ ہے جس نے خودہی نقصان دہ غذا کھا ئی ہے اور خداوند عظیم نے سورۂ ابراہیم میں کس قدر سچ اور صحیح فرمایا ہے:

( ﷲ الّذی خلق السّموات والأرض و انٔزل من السماء مائً فأخرج به من الثمرات رزقاً لکم و سخر لکم الفلک لتجری فی البحر بأمره وسخر لکم الأنهاروسخر لکم الشمس والقمر دائبین وسخر لکم اللیل و النهار ) ( ۱ )

خدا وندعالم وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو خلق کیا اور آسمان سے پانی نازل کیا اوراس سے تمہارے لئے زمین سے میوے اگائے ،کشتیوں کو تمہارا تا بع قرار دیا، تا کہ دریا کی وسعت میں اس کے حکم

____________________

(۱)ابراہیم ۳۲ ، ۳۳

۷۵

سے رواں دواں ہوں ، نیز نہروں کو تمہارے اختیار میں دیا اور سورج ا ورچاند کو منظم اور دائمی گردش کے ساتھ تمہارا تابع بنا یا اوراس نے روز و شب کو تمہارا تابع قراردیا۔

اور سورۂ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:

( و ﷲ أنزل من السماء مائً فأحیا به الارض بعد موتها انّ فی ذلک لاية لقومٍ یسمعون)(و أنَّ لکم فی الأنعام لعبرة نسقیکم مِّما فی بطونه من بین فرثٍ و دمٍ لّبنا خالصاً سائغاً للّشاربین)( و من ثمراتِ النخیلِ و الأعنابِ تتّخذون منه سکراً و رزقاً حسناً انّ فی ذلک لايةً لّقومٍ یعقلون)( و أوحیٰ ربّک اِلی النّحل ان اْتّخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر و مّما یعرشون)( ثمّ کلی من کلّ الثّمرات فاْسلکی سبل ربّک ذللاً یخرج من بطونها شراب مختلف ألوانه فیه شفٰاء للناّٰس انَّ فی ذلک لآ يةً لقومٍ یتفکرون ) ( ۱ )

خدا وندعالم نے آسمان سے پانی برسایا ، پس زمین کو مردہ ہو جانے کے بعد حیات بخشی ،یقینا اس میں سننے والی قوم کے لئے روشن علامت ہے اور چوپایوں کے وجود میں تمہارے لئے عبرت ہے،ان کے شکم کے اندرسے گوبراور خون کے درمیان سے خالص دودھ ہم تمھیں پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار ہے. اورتم درخت کے میووں ،کھجور اور، انگور سے مسکرات اور اچھی اور پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو یقینا اس میں روشن نشانی ہے صاحبان فکرکے لئے، تمہارے رب نے شہدکی مکھی کو وحی کی کہ پہاڑوں، درختوں اور لوگوں کے بنائے ہوئے کو ٹھوں پر اپنا گھر بنائے اور تمام پھلوں سے کھائے اوراپنے رب کے معین راستے کو آسانی سے طے کرے،ا س کے شکم کے اندر سے مختلف قسم کا مشروب نکلتاہے کہ اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس میں صاحبان عقل و فکر کے لئے روشن نشانیاں ہیں ۔

کلمات کی تشریح

۱۔'' دا ئبین،مستمرّین'': یعنی ہمیشہ گردش کر رہے ہیں ، معین مسیر میں حرکت اُن کی دائمی شان و عادت ہے ۔

۲۔''فرث '': حیوانات کے معدہ اور پیٹ میں چبائی ہوئی غذا (گوبر)۔

____________________

(۱) نحل ۶۵ ، ۶۹

۷۶

۳۔''مّما یعرشون'': جو کچھ اوپر لے جاتے ہیں ، خرمے کے درختوں کے اوپر جو چھت بنائی جاتی ہے جیسے چھپر وغیرہ۔

آغاز کی جانب باز گشت:

روزی رساںرب ّنے اپنے مہمان انسان کے لئے اس دنیا میں نعمتیں فراہم کیں، روزی کس طرح حاصل کی جائے اور کس طرح بغیر کسی ضرر اور نقصان کے اس سے بہرہ ور ہوں، اس زود گزر دنیا اور آخرت میں ، انبیائ، اوصیاء اور علماء کے ذریعہ اس کی تعلیم دی اور فرمایا:

( یاأيّهاالذین آمنوا کلوا من طیبات مارزقناکم واشکروﷲ ) ( ۱ )

اے صاحبان ایمان ! پاکیزہ چیزوں سے جوہم نے تمہارے لئے روزی دی ہے کھا ؤ اور خدا کا شکر ادا کرو، نیز فرمایا:

( یسٔلونک ماذاأحلّ لهم قل أحلّ لکم الطيّبات ) ( ۲ )

تم سے سوال کرتے ہیں : کون سی چیزان کیلئے حلال کی گئی ہے ؟ کہہ دیجئے تمام پاکیز ہ چیزیںتمہارے لئے حلال کی گئی ہیں۔

نیز خاتم الانبیاء کے وصف میں فرمایا :

( ویحلّ لهم الطیبّات ویحرّم علیهم الخبائث ) ( ۳ )

اوروہ ( پیغمبر)ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور نا پاک چیزوں کو حرام کرتا ہے۔

اس لحاظ سے پروردگار سبحان نے ہمیں خلق کیا جوکچھ ہمارے اطراف میں تھا،اسے ہمارا تابع بنا دیا اور اس دنیا میں پاکیزہ چیزوں سے جو کہ ہماری زراعت و کاشت کا نتیجہ ہے ہمیں رزق دیا ،وہ اسی طرح ہمارے اعمال کے نتیجہ کو آخرت میں ہمارے لئے روزی قرار دے گا جیسا کہ فرمایا ہے:

( والذین هاجروا فی سبیل ﷲ ثّم قتلواأوما توالیر زقنّهم ﷲ رزقاً حسناً ) ( ۴ )

وہ لوگ جنھوں نے راہ خدا میں ہجرت کی ، پھر قتل کردئے گئے یا مر گئے ،خدا انھیں اچھی روزی دیگا۔

نیز فرماتا ہے:

____________________

(۱)بقرہ۱۷۲ (۲)مائدہ ۴(۳)اعراف ۱۵۷.(۴)حج۵۸

۷۷

( الاّ مَن تاب وَآمنَ وَ عملَ صٰا لحاً فاُولاء کَ یدخُلُونَ الجنةَ وَلاَ يُظلمونَ شیئاً جنَّاتِ عدنٍ التی وعدالرحمنُ عبٰادهُ بالغیبِ اِنه کٰانَ وَعدهُ ما تيّا لا یسمعونَ فیها لغواً اِلّا سلاماً ولهم رزقُهُم فیها بُکرةً وعَشِيّاً ) ( ۱ )

...مگر وہ لوگ جو توبہ کریں اور ایمان لا ئیں اور شائستہ کام انجام دیں ، پس یہ گروہ بہشت میں داخل ہوگا اوراُس پر ادنیٰ ظلم بھی نہیں ہوگا، دائمی بہشت جس کا خدا وند رحمان نے غیب کی صورت میں وعدہ کیا ہے یقینا خدا کا وعدہ پورا ہونے والا ہے ،وہاں کبھی لغو وبیہودہ باتیں نہیں سنیں گے اور سلام کے علاوہ کچھ نہیں پائیں گے، ان کی روزی صبح وشام مقرر ہے۔

پس ربّ حکیم انسان کے اعمال کی جزا دنیا میں جلدی اور آخرت میں مدت معلوم کے بعدا سے دیتا ہے ، اسی طرح بہت سارے سوروں میں اس نے اس کے بارے میں خبر دی ہے اور سورۂ زلزال میں فرمایا ہے:

( فمَن یعمل مثقال ذرةٍ خَیراً یره ومَن یعمل مثقال ذرةٍ شراً یره ) ( ۲ )

پس جو ذرہ برابربھی نیکی کرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا اور جو بھی ذرہ برابر بھی بُرائی کرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا ۔

سورۂ ےٰسین میں ارشاد ہوتا ہے:

( فالیوم لا تُظلَمُ نفس شیئاً ولا تجزون اِلاّ ما کنتم تعلمون ) ( ۳ )

پس اس دن کسی پر بھی ذرہ برابر ظلم نہیں ہو گا اور جو تم نے عمل کیا ہی اسکے علاوہ کوئی جزا نہیں دی جائے گی۔

ہاں ، جو اس دنیا میں تلخ اورکڑوا ایلوالگائے گا ایلواکے علاوہ کوئی اور چیزاسے حاصل نہیں ہوگی اور جو اچھے ثمرداردرخت لگائے گا وہ اچھے اچھے میوے چنے گا ۔

جیسا کہ خداوند سبحان سورۂ نجم میں فرماتا ہے:

( وَ اَنْ لیس لِلا نسان اِلاّ ما سعیٰ وَ اَنَّ سعیه سوف یریٰ ) ( ۴ )

انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے اور اس کی کوشش عنقریب اس کے سامنے پیش کردی جائے گی ۔

____________________

(۱)مریم ۶۰ ، ۶۳(۲) زلزال ۷، ۸(۳)یسین ۵۴(۴)نجم ۳۹ ،۴۰

۷۸

انسان اپنے اعمال کے نتائج صرف اس دنیا ہی میں نہیںدیکھتا ، بلکہ درج ذیل پانچ مختلف حا لات اور مقامات پر بھی دیکھتا ہے:

۱۔ موت کے وقت

۲ ۔ قبر میں

۳۔ محشر میں

۴۔ بہشت و جہنم میں

۵۔ ورثاء میں کہ عمل کی جزاان کے لئے میراث چھوڑ جاتا ہے۔

اس بحث میں ہم نے دنیا میں انسان کے اعمال کی پاداش کا ایک نمونہ پیش کیا، آئند ہ بحث میں ( انشاء ا )خدا وند متعال موت کے وقت کیسے جزا دیتا ہے اس کو بیان کریں گے۔

۳۔موت کے وقت انسان کی جزا

آخرت کے مراحل میں سب سے پہلا مرحلہ موت ہے ،خدا وند سبحان نے اس کی توصیف میں فرما یا ہے :

( وجاء ت سکرة الموت با لحقّ ذلک ما کنت منه تحید ) ( ۱ )

( اے انسان ) سکرات الموت حق کے ساتھ آ پہنچے ،یہ وہی چیز ہے جس سے تم فرار کر ر ہے تھے!

یعنی موت کی ہولناک گھڑی اور شدت جو آدمی کے عقل پر غالب آ جاتی ہے آپہنچی ،یہ وہی موت ہے کہ جس سے تو ( انسان) ہمیشہ فرار کرتا تھا!

( قُل يَتَوَ فّٰکم ملکُ المَوتِ الذی و کِل بکم ثُّم اِلیٰ ر بّکم تُرجعونَ ) ( ۲ )

اے رسول کہہ دو! موت کا فرشتہ جو تم پر مامور ہے تمہاری جان لے لے گا پھراس کے بعد تم اپنے ربّ کی طرف لوٹا دئے جاؤ گے۔یہ جو خدا وندعالم نے اس سورہ میں فرمایا ہے کہ'' موت کا فرشتہ تمہاری جان لے لے گا '' اور سورہ زمر میں فرمایا ہے :''( ﷲ یتوفی الا نفس ) ''( ۳ ) (خدا وندعالم جانوں کو قبض کرتا ہے) اور سورۂ نحل میں فرمایا ہے :''( تتو فاهم الملا ئکة ) ''( ۴ ) (فرشتے ان کی جان لیتے ہیں) اور سورۂ انعام میں ارشاد فرمایا ہے :( ''تو فته رُسُلُنا ) ' '( ۵ )

ہمارے فرستادہ نمائندے اس کی جان لیتے ہیں ! اِن باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے ،کیونکہ: فرشتے خدا کے نمائندے ہیں اور روح قبض کرتے وقت ملک الموت کی نصرت فرماتے ہیں اور سب کے سب خدا کے حکم سے

____________________

(۱)ق ۱۹(۲)سجدہ ۱۱(۳) سورہ زمر۴۲(۴)سورۂ نحل۲۸۔۳۲(۵)انعام۶۱

۷۹

روح قبض کرتے ہیں ، پس در حقیقت خدا ہی روحوں کو قبض کرتا ہے اس لئے کہ وہ فرشتوں کواس کا حکم دیتا ہے۔

آخرت کا یہ مرحلہ شروع ہوتے ہی دنیا میں عمل کا امکان سلب ہو جاتا ہے اور اپنے عمل کا نتیجہ دیکھنے کامرحلہ شروع ہو جاتاہے ، منجملہ ان آثار کے جسے مرنے والا ہنگام مرگ دیکھتا ہے ایک وہ چیز ہے جسے صدوق نے اپنی سند کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :

''صوم رجب يُهوّن سکرات الموت'' ( ۱ )

ماہ رجب کا روزہ سکرات موت کو آسان کرتا ہے۔

آدمی کا حال اس مرحلہ میں عمل کے اعتبار سے جواس نے انجام دیا ہے دو طرح کا ہے، جیسا کہ خداوند متعال خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( فأ مّا اِن کان من المقربین) (فروح و ریحان و جنّت نعیم) (و أمّا اِن کان من أصحاب الیمین) (فسلامُ لک من أصحاب الیمین)( و أما اِن کان من المکذبین الضّٰا لّین)( فَنُزُل من حمیم.وَ تصليةُ جحیمٍ ) ( ۲ )

لیکن اگر مقربین میں سے ہے تو رَوح ،ریحان اور بہشت نعیم میں ہے لیکن اگر اصحاب یمین میں سے ہے تواس سے کہیں گے تم پر سلام ہو اصحاب یمین کی طرف سے لیکن اگر جھٹلا نے والے گمراہ لوگوں میں سے ہے تو دوزخ کے کھولتے پانی سے اس کا استقبال ہو گا اور آتش جہنم میں اسے جگہ ملے گی۔

خدا وند عالم نے جس بات کا گروہ اوّل ( اصحاب یمین اور مقربین) کو سامنا ہو گااس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( یا أيّتها النفس المطمئنة اْرجعی اِلیٰ ربّک راضيةً مرضيّةً فادخلی فی عبادی و ادخلی جنّتی )

اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی جانب لوٹ آ اس حال میں کہ تواس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی و خوشنود ہے پس میر ے بندوں میں داخل ہوجا اورمیری بہشت میں داخل ہوجا۔( ۳ )

اوردوسرا گروہ، جس نے دنیاوی زندگی میں اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کے بارے میں بھی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( حَتَّی ِذَا جَائَ َحَدَهُمْ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُون٭ لَعَلِّی َعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکْتُ کَلاَّ ِنَّهَا کَلِمَة هُوَقَائِلُهَاوَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ) ( ۴ )

____________________

(۱) ثواب الاعمال باب : ثواب روزہ رجب ،حدیث ۴.(۲)واقعہ۸۸۔ ۹۴.(۳) فجر ۲۷ ، ۳۰.(۴)مومنون ۹۹، ۱۰۰.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

 قائم مقام ہوتا جس پر پورا پورا بھروسہ کیا جاسکتا۔ رسول(ص) سے بعید ہے آپ اپنے ایتام ( یعنی تمام روئے زمین کے باشندوں کو) مثل اس بکری کے چھوڑ جائیں جو جاڑے کی رات میں ادھر ادھر ماری ماری پھرے اور اس کا کوئی حفاظت کرنے والا چرواہا نہ ہو اور پناہ بخدا کہ رسول(ص) وصیت نہ کرجائیں حالانکہ اس وصیت کے متعلق ان پر وحی نازل ہوچکی تھی اورع آپ اپنی امت کو وصیت کرنے کا حکم دے چکے  تھے۔ سختی سے تاکید کر چکے تھے۔ لہذا وصیت سے انکار کرنے والوں پر عقل کان ہی نہیں دھرتی۔ چاہیے انکار کرنے والے بڑی شخصیت کے مالک ہی کیوں نہ ہوں۔ یقینا رسول اﷲ(ص) نے ابتدائے دعوت اسلام میں جب مکہ میں ابھی اسلام چھی طرح ظاہر بھی نہیں ہوا تھا یعنی دعوت عشیرہ کے موقع پر امیرالمومنین (ع) کو اپنا وصی مقرر فرمایا۔ جیسا کہ ہم مکتوب نمبر۱۰ پر مفصلا بیان کرچکے ہیں۔

اس کے بعد بھی تکرار آپ کو وصی فرماتے رہے اور جب موقع ملا یکے بعد دیگرے اپنے ان ارشادات کے ذریعے جس کا ذکر ہم سابق میں کر چکے ہیں وصیت پر تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ جب رسول(ص) کے انتقال کا وقت آیا تو آپ نے ارادہ کیا کہ ہم اب تک علی(ع) کے متعلق لفظی طور پر جن باتوں کی تاکید کرتے رہے ہیں قولا جو کچھ ان کے متعلق کہا کیے اب  بصورت تحریر وصیت نامہ بھی علی(ع) کو لکھ دیں تاکہ اب تک جو کچھ کہا یا بیان کیا اس کی تاکید و توثیق ہوجائے۔ قلم سے لکھ کر قطعی طور پر طے کروں اس مرحلہ کو۔ اسی وجہ سے ، آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ:

“ میرے پاس قلم و دوات لاؤ۔ میں ایسا وصیت نامہ تمھارے لیے لکھ جاؤں کہ پھر تم کبھی گمراہ نہ ہو”

رسول(ص) کا یہ جملہ سن کر لوگ آپس میں جھگڑنے لگے ۔ حالانکہ رسول(ص) کی خدمت

۴۲۱

 میں جھگڑنا کہاں تک مناسب ہے۔ بعض کہنے لگے کہ رسول اﷲ(ص) معاذ اﷲ ہذیان بک رہے ہیں۔ جب رسول(ص) نے یہ سنا تو آپ نےیقین کر لیا کہ ان کے اس فقرے کے بعد وصیت نامہ لکھنا بیکار ہے۔ تحریر کا کوئی اثر نہ ہوگا ، سوائے اس کے کہ اور فتنہ بڑھ جائے آپ نے ان سے فرمایا کہ :

“ میرے پاس سے اٹھ جاؤ”

اور آپ زبانی طور پر اب تک جو کچھ کہہ سکتے تھے اسی پر اکتفا کیا پھر بھی آپ نے چلتے چلاتے لوگوں کو تین باتوں کی وصیت فرمائی۔

ایک تویہ کہ علی (ع) کو اپنا ولی مقرر کردیں، دوسرے یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال باہر کریں اور جس طرح آپ وفد بھیجا کیے وہ بھی وفد بھیجتے رہیں۔

لیکن اس زمانے کی سیاست اور حکومت محدثین کو کب اجازت دے سکتی تھی کہ وہ وصیت کے پہلے جز کو بیان کرتے۔ لہذا محدثین نے بات نہ بنائی کہ پہلی بات ہم بھول گئے۔

امام بخاری نے اس حدیث کے آخر میں جس میں رسول(ص) کا قلم دوات مانگنا اور لوگوں کا کہنا کہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں مذکور ہے۔ لکھتے ہیں۔

“ ان کی اصل عبارت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ۔“ رسول(ص) نے بہ وقتِ انتقال تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ ایک تو یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو، دوسرے یہ کہ جس طرح میں وفد بھیجا کرتا تھا تم بھی بھیجنا۔”

یہ لکھ کر کہتے ہیں :“ اور تیسری بات میں بھول گیا۔”

اسی طرح امام مسلم نے بھی اپنے صحیح میں اور جملہ ارباب سنن و مسانید

۴۲۲

 نے ایسا ہی لکھا ہے۔ ہر ایک تیسری بات کو بھول گیا۔ کسی کو بھی یاد نہ رہا۔

حضرت عائشہ کا دعویٰ معارض ہے دیگر احادیث سے

رہ گیا ام المومنین کا یہ دعوی کرنا کہ رسول(ص) کا جب وصال ہوا تو آپ ان کے سینہ پر تھے۔ یہ معارض ہے ان احادیث کے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے ایسی حالت میں انتقال فرمایا جب آپ اپنے بھائی ، اپنے وصی علی ابن ابی طالب(ع) کے آغوش میں تھے جیسا کہ ائمہ طاہرین(ع) سے مروی متواتر احادیث کا فیصلہ ہے۔ نیز حضرات اہل سنت کی کتب احادیث میں بھی صحیح حدیثیں موجود ہیں جو یہی بتلاتی ہیں۔ اگر آپ تلاش و جستجو کی زحمت گوارا فرمائٰیے تو آپ کو پتہ چلے۔

                                                                             ش

۴۲۳

مکتوب نمبر۳۸

حضرت عائشہ اپنی حدیثوں میں جذبات سے کام نہ لیتی تھیں

جناب عائشہ اور ان کی صریحی حدیث ( کہ رسول(ص) بغیر وصیت کیے دنیا سے اٹھ گئے) کے متعلق آپ نے جو کچھ فرمایا اس کا محور دو باتیں ہیں اور انھیں دوباتوں کے گرد آپ کا کلام دائر ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ جناب عائشہ چونکہ امیرالمومنین(ع) سے برگشتہ تھیں اس لیے وہ امیرالمومنین(ع) کےوصی پیغمبر(ص) ہونے سے سوائے انکار کے کر بھی کیا سکتی تھی ۔ اس کے خلاف کی ان سے توقع ہی نہیں رکھنی چاہیے اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی سیرہ پر نظر کرنے سے یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہ رسول اﷲ(ص) سے حدیث روایت کرنے میں طبعی میلان کی پرواہ نہیں کرتی تھیں اور نہ اپنی خواہش اور ذاتی غرض ملحوظ رکھتیں لہذا انھوں نے رسول(ص)

۴۲۴

 سے جتنی  باتیں نقل کیں ان میں ان پر اتہام نہیں لگایا جاسکتا۔ ہو حدیثیں خواہ ان اشخاص سے متعلق ہوں جنھیں آپ محبوب رکھتی  ہیں یا ان افراد سے متعلق ہوں جن سے آپ کو عداوت تھی دونوں آپ کے نزدیک یکساں تھے۔ پناہ بخدا کہ جناب عائشہ ایسی ہی ہستی پر غرض غالب ہو اور وہ حق کے مقابلہ میں اپنی غرض کو ترجیح دینے کے لیے رسول(ص) کی طرف نسبت دے کر خلاف واقع باتیں کرنے لگیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ عقل جناب عائشہ کی روایت کردہ حدیث کی سچائی نا ممکن سمجھتی ہے کیونکہ اس حدیث کا مفہوم ناممکن و محال ہے۔ حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول(ص) بغیر وصیت کیے انتقال فرماگئے اور رسول(ص) کا بغیر وصیت کیے انتقال فرمانا محال ہے کیونکہ رسول(ص) کے لیے کسی طرح جائز نہیں ہوسکتا کہ وہ دین خدا کو جو ابھی ابتدائی منزل میں تھا اور بندگانِ خڈا جو پرانی فطرت ( یعنی کفر و شرک) سے نکل کر نئی فطرت اسلام میں تازہ تازہ آئے تھے کہ یونہی چھوڑ دیں اور بغیر اپنا وصی مقرر کیے اور ان کے امور کے متعلق تاکیدی طور پر وصیت کیے دینا سے رخصت ہوجائیں۔

حسن و قبح اہل سنت کے یہاں عقلی نہیں شرعی ہیں

اس بات کا جواب یہ ہے کہ رسول(ص) کے لیے ایسی بات کا جائز نا جائز ہونا یہ موقوف ہے حسن و قبح کے عقلی ہونے پر اور اہل سنت اس کے قائل نہیں ۔ کیونکہ حضرات اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ عقل نہ تو کسی چیز کے حسن ہونے کو فیصلہ کرسکتی ہے اور نہ کسی چیز کے قبیح ہونے کا۔ بلکہ تمام

۴۲۵

افعال میں حسن و قبح کا فیصلہ کرنے والی فقط شرع ہے۔ شرع جس چیز کو حسن بتائے وہی حسن ہے چاہیے وہ عقل کے نزدیک قبیح ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح شرع جس چیز و قبیح کہے وہ قبیح ہی ہے ، چاہیے عقل کے نزدیک وہ حسن ہی کیون نہ ہو۔ بہر حال عقل کو کسی قسم کا دخل نہیں۔

دعویٰ عائشہ کے معارض کوئی حدیث نہیں

 اور آپ نے اپنے مکتوب کے آخر میں جو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جناب عائشہ کا یہ دعوی کہ رسول(ص) نے میرے سینے پر دم توڑا یہ معارض ہے دوسری ایسی حدیثوں کے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول(ص) نے امیرالمومنین(ع) کی  آغوش میں رحلت فرمائی تو اس کے متعلق کہنا یہ ہے کہ ہم ایک حدیث بھی بطریق اہلسنت ایسی نہیں پاتے جو جناب عائشہ کی حدیث سے معارض ہو۔ ہاں اگر آپ کے علم میں کوئی ایسی حدیث ہو جن کے راوی و ناقل حضرات اہلسنت ہوں اور وہ جناب عائشہ کی حدیث کے معارض ہو تو براہ کرم تحریر فرمائیے۔

                                                             س

جواب مکتوب

حضرت عائشہ کا روایتِ احادیث میں جذبات سے مجبور ہونا

آپ نے پہلی بات کے جواب میں فرمایا ہے کہ جناب عائشہ کی سیرت سے یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہ رسول(ص) کی حدیث بیان فرمانے میں اپنے طبعی میلان کی پرواہ نہیں کرتی تھیں اور اپنی ذاتی اغراض کا کوئی

۴۲۶

 خیال نہیں فرماتی تھیں۔ میری درخواست ہے آپ سے کہ ذرا چند لمحوں کے لیے تقلید اور جنبہ داری سے الگ ہو کر پھر ایک نظر ان کی سیرت پر ڈالیں ، ذرا چھان بین کیجیے کہ وہ جسے محبوب رکھتی تھیں اس کے بارے میں ان کا کیا خیال تھا اور جس سے انھیں عداوت تھی اس کے ساتھ ان کی کیا روش تھی؟ وہاں آپ کو ان کا طبعی میلان بہت واضح اور بہت روشن نظر آئے گا۔

جناب عثمان کے ساتھ قولا اورفعلا ان کا(۱) جو طرز رہا اور حضرت علی(ع) جناب سیدہ(س) ، حسنین(ع) کے ساتھ در پردہ اور کھلم کھلا جو ان کا برتاؤ رہا اور دیگر ازواج رسول(ص) ، امہات المومنین کے ساتھ جو سلوک رہا ۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ رسول(ص) کے ساتھ جس طرح سے وہ پیش آیا کیں اسے نہ بھولیے گا۔ وہاں آپ کو ان کی طبعی میلان اور غرض عریاں طور پر نظر آئے گی۔

مثال کے طور پر آپ جناب ماریہ والے واقعہ کو لے لیجیے ۔ جب فریبی چالباز افراد نے جناب ماریہ اور ان کے فرزند جناب ابراہیم ک متعلق تہمت تراشی کی تو انھیں جناب عائشہ نے اپنے میلان طبیعت سے مجبور ہو کر اتہام رکھنے والوں کی تاکید کی۔ وہ تو کہیے کہ خداوندِ عالم جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت میں ڈالتا ہے۔ جناب عائشہ کی کوششیں بار آوردہ نہ

ہوسکیں اور خداوند عالم نے جناب ماریہ اور

--------------

۱ـ ملاحظہ فرمائیے شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی جلد۳ ص۷۷، ۴۸۷ اور ص۴۹۷ آپ کو پتہ چلے گا کہ جناب عائشہ کا کیا سلوک تھا؟ حضرت عثمان اور امیرالمومنین(ع) و جناب سیدہ(ع) کے ساتھ۔

۴۲۷

 ابراہیم دونوں کو بری قرار دیا اور امیرالمومنین(ع) کے ذریعہ  دشمنوں کے مظالم سے محفوظ  رکھا اور کلام مجید میں خداوند عالم نے ان کافرون کی تردید کردی۔(۱)

اگر آپ مزید سننا چاہتے ہیں تو وہ واقعہ یاد کیجیے جب جناب عائشہ نے رسول اﷲ(ص) سے کہا(۲) تھا کہ :

“ مجھے آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے”

اس میں بھی کا طبعی میلان اور ذاتی جذبہ کار فرماتھا ۔ غرض یہ تھی کہ آںحضرت(ص) جناب زینب کے پاس نہ جائیں، نہ شہد نوش فرمائیں۔ لہذا جب ایسی رکیک غرض جناب عائشہ کے لیے قسم کی باتیں جائز قرار دے سکتی ہے تو امیرالمومنین(ع) کےوصی پیغمبر(ص) ہونے سے ان کا انکار کیونکر بعید ہوگا؟ اور ان کے انکار پر آپ کیونکر کان دھرسکتے ہیں۔

وہ واقعہ یاد کیجیے کہ جب اسماء بنت نعمان دلہن بنا کر رسول(ص) کی خدمت میں پیش کی گئیں تو جناب عائشہ نے انھیں(۳) پٹی پڑھائی کہ رسول اﷲ(ص)

--------------

۱ـ اس المناک سرگزشت کی تفصیل دیکھنا ہو تو ملاحظہ فرمائیے مستدرک امام حاکم جلد۴ ص۲۹ و تلخیص مستدرک علامہ ذہبی

۲ـ ملاحظہ فرمائیے صحیح بخاری کی روایت بسلسلہ تفسیر سورہ تحریم جلد۳ ص ۱۳۶ اسی محل پر متعدد حدیثیں عمر سے مروی ہیں جن میں ہے کہ وہ دو عورتیں جنھوں نے پیغمبر(ص) سے سرکشی کی وہ عائشہ اور حفصہ تھیں نیز اسی جگہ ایک طولانی حدیث ہے ان تمام احادیث میں یہی مضمون ہے۔

۳ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے جو امام حاکم نےمستدرک ج۳ ص۲۷ میں بسلسلہ حالات اسماء لکھے ہیں نیز ابن سعد سے طبقات جلد۲ ص۱۰۴ میں اسماء کے حالات میں درج کیا ہے یہ واقعہ بہت مشہور ہے علامہ ابن عبدالبر نے استیعاب میں ابن حجر عسقلانی نے اصابہ میں نیز انب جریر نے اس کی روایت کی ہے۔

۴۲۸

 اس عورت سے بہت خوش ہوتے ہیں جو رسول(ص) کے پاس آنے پر اعوذ باﷲ منک ( خدا مجھے آپ سے بچائے) کہے ۔ یہ واقعہ طبعی میلان کا نتیجہ تھا اور اس سے جناب عائشہ کی غرض یہ تھی کہ رسول اﷲ(ص) کو اس تازہ عروس سے متنفر کردیں اور اس غریب کو آپ کی نظروں سے گرادیں۔ جناب عائشہ اپنی غرض کی دھن میں اس قسم کی حدیثیں بخوبی جائز سمجھتی تھیں چاہے وہ غرض ذلیل و رکیک بلکہ حرام ہی کیوں نہ ہو۔

رسول اﷲ(ص) نے ایک مرتبہ جناب عائشہ سے ایک عورت کے متعلق کچھ باتیں دریافت کرنے  کا کہا۔ جناب عائشہ نے اپنی غرض کے خیال سے رسول(ص) کو غلط سلط باتیں(۱) بتادیں۔ صحیح حالات کا علم ہی نہیں ہونے دیا۔

ایک مرتبہ اپنے باپ کے سامنے رسول(ص) سے جھگڑ پڑیں۔ اس کا سبب بھی وہی میلان طبیعت ، ذاتی جذبات و اغراض تھے اور رسول(ص) سے بولیں کہ اںصاف سے کام لیجیے(۲) ۔ جس پر جناب ابوبکر نے ایک طمانچہ ان کے اتنے زور سے مارا کہ ان کے کپڑوں تک خون بہہ کر آیا۔

ایک مرتبہ رسول(ص) سے بگڑ گئیں اور غصہ سے بولیں:

“ آپ(۳) ہی ہیں وہ جو دعوے کرتے ہیں کہ میں خدا کا نبی ہوں۔”

اس جیسی بہت سی مثالیں آپ کو ملیں گی۔ اس مختصر سے مکتوب میں کہاں تک

--------------

۱ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال جلد۶  ص۲۹۴ طبقات ابن سعد جلد۸ ص۱۱۵۔

۲ـ کنزالعمال جلد۷ ص۱۱۶ احیاء العلوم امام غزالی جلد۲ ص۳۵ کتاب آداب النکاح نیز امام غزالی کی کتاب کاشفہ القلوب باب ۹۴ ص۲۳۸۔

۳ـ جیسا کہ علامہ غزالی نے مذکورہ بالا باتوں میں ذکر کیا ہے۔

۴۲۹

 بیان کی جائیں۔ ہم نے جتنا ذکر کردیا یہی ہمارے مطلب کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

حسن و قبح کے عقلی ہونے کا ثبوت

آپ نے دوسری بات کے جواب میں فرمایا ہے کہ اہل سنت حسن و قبح کے عقلی ہونے کے قائل نہیں تو مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ بھی ایسا مہمل عقیدہ رکھتے ہوں گے۔ ایسی رکیک بات کے قائل ہوں گے۔ یہ تو بالکل سوفسطائیوں جیسا عقیدہ ہے جو محسوس ہونے واہے حقائق تک کے منکر ہیں۔ دیکھیے بعض افعال تو وہ ہیں جن کی اچھائی اور خوبی کو ہم یقنی طور پر جانتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس کام کےکرنے پر ہمیں اچھی جزا ملے گی، لوگ ہماری تعریف کریں گے جیسے احسان ، عدل ، اںصاف اور

بعض افعال وہ ہیں جن کی برائی کا ہمیں یقین ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس کام کے کرنے پر ہم سزا کے مستحق ہوں گے اور لوگ مذمت کریں گے جیسے بدسلوکی ، ظلم ، حسد وغیرہ ہر با عقل شخص جانتا ہے کہ احسان و عدل کا اچھا ہونا اور ظلم و جور کا برا ہونا خود عقل بتاتی ہے خود عقل فیصلہ کن ہے اور جس طرح صاحبان عقل اس کا یقین رکھتے ہیں کہ ایک نصف ہے دو کا۔ اسی طرح ان کے اس یقین سے حسن و قبح کے عقلی ہونے کا یقین بھی کم نہیں۔

عقل ہمیشہ احسان کرنے والے اور ہمیشہ برائی کرنے والے کے فرق کو محسوس کرتی ہی۔ پہلے کو اچھا کہتی ہے اور دوسرے کو برا۔ محسن کو مستحق مدح و جزا اور بد معاملہ کو مستحق مذمت و قصاص قرار دیتی ہے جو عقل کے اس فیصلہ کو نہ مانے وہ ہٹی ہے۔

۴۳۰

اور اگر حسن و قبح عقلی نہ ہوں، شرعی مان لیے جائیں ، شریعت ہی کو معیار قرار دے لیا جائے کہ شریعت جس کو حسن بتائے وہی حسن ہے، اور شریعت جس کو قبیح بتائے وہی قبیح ہے ،عقل کو اس میں کوئی دخل نہیں نہ عقل کا فیصلہ قابل اعتنا ہے تو چاہیے تھا کہ وہ لوگ جو شریعت کے مانتے ہی نہیں شریعت کے قائل ہی نہیں ، وہ نہ کسی چیز کو حسن سمجھیں نہ کسی چیز کو قبیح جیسے لامذہب دہریے حضرات جو مذہب کے دشمن ہیں، شریعت کے منکر ہیں چاہیے تھا کہ ان کے نزدیک نہ کوئی چیز اچھی ہو نہ بری۔ مگر باوجود منکر دین و شریعت ہونے کے وہ بھی احسان و عدل کو اچھا ہی سمجھتے ہیں اور اس کے کرنے  والے کو مستحق مدح و ثناء لائق انعام و اکرام جانتے ہیں اور اسی طرح ظلم و سرکشی کے قبیح ہونے میں بھی انھیں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اور ظلم وسرکشی کرنے والے کو پاداش میں قصاص کا سزاوار قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ فیصلہ حسن کو حسن سمجھنا ، قبیح کو قبیح جاننا ہی کی بنا پر ہے اور کسی چیز کی وجہ سے نہیں۔ لہذا آپ ان لوگوں کی باتوں پر توجہ ہی نہ  کیجیے جو عقل کے مقابلہ میں ہٹ دھرمی سے کام لیں وجدان کے جھٹلائیں اور جسے ہر صحیح الدماغ مانتا اور جانتا ہے اس سے انکار کریں اور جس فطرت پر خدا نے انھیں پیدا کیا ہے اس فطرت کے فیصلہ کے خلاف فیصلہ صادر کریں۔

خداوند عالم نے جس طرح حس و شعور کے ذریعہ اشیاء کے ذریعہ اشیاء کا معلوم کرنا بندوں کی فطرت میں داخل کیا ہے اسی طرح اکثر حقائق کو عقل کے ذریعہ جاننا بھی فطری قرار دیا ہے لہذا خود ہماری فطرت مقتضی ہے کہ ہم عدل کی اچھائی کو ظلم وجور کی برائی کو عقل سے جانیں جس طرح  ذائقہ سے شہد کی مٹھاس اور ایلوے کا کڑواپن جانتے ہیں۔ جیسے قوتِ شامہ

۴۳۱

کے ذریعہ مشک کی خوشبو اور مردار کی بدبو سنونگھتے ہیں۔ ہاتھ سے چھو کر چکناپن اور کھردارپن معلوم کرتے ہیں۔ آنکھ سے دیکھ کرخوبصورت و بدصورت میں فرق کرتے ہیں۔ کانوں سے سن کر گدھوں کی آواز اور بانسری کی آواز میں تمیز کرتے ہیں۔ اسی طرح عقل کے ذریعہ نیکی ، انصاف کی اچھائی ، ظلم و ایذا رسانی کی برائی معلوم کرتے ہیں۔ یہ ہماری وہ فطرت و خلقت ہے جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے خدا کی خلق میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔

اشاعرہ چاہتے تھے کہ شرع پر ایمان رکھنے اور اس کے حکم کو تسلیم کرنے میں ہم انتہا کو پہنچ جائیں لہذا انھوں نے عقل کے فیصلہ ہی سے انکار کر دیا : اور کہنے لگے کہ بس جس بات کو شریعت کہے وہی قابل تسلیم اور اگر شریعت نہ کہے تو نا قابل تسلیم اور دنیا بھر میں جو عقلی قاعدہ جاری و ساری ہے بلکہ جس بات کو عقل کہے گی اس بات کو شرع بھی کہے گی اسے فراموش کر بیٹھے اور اس کا خیال ہی نہ رہا کہ اس رائے کو اختیار کر کے خود اپنے کو الجھن میں مبتلا کر لیا۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ بس جس چیز کو مذہب اچھا کہے وہی اچھا ہے اور جسے مذہب برا کہے وہی برا ہے تو پھر مذہب کی پابندی اور شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا وجوب کیونکر ثابت ہوگا۔ کوئی پوچھے کہ مذہب کو ماننا اور مذہب کےاحکام پر عمل کرنا کیوں اچھا ہے؟ اور نہ ماننا اور نہ عمل کرنا کیوں برا ہے؟ اس کے جواب میں اگر آپ کہیں کہ مذہب اچھا کہتا ہے اور مذہب برا بتاتا ہے تو یہ کھلا ہوا دور و تسلسل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر عقل مجبور بنانے والی اور سرتسلیم خم کرا دینے والی نہ ہوتی تو منقولات کے ذریعہ استدلال دعوی بلا دلیل ہی ہوتا بلکہ اگر عقل نہ ہوتی تو نہ کوئی خدا کی عبادت کرنے والا ہوتا نہ اس کی تمام مخلوقات میں کوئی اس کی معرفت حاصل کرپاتا۔ تفصیلی بحث ہمارے علماء کی تصنیفات

۴۳۲

میں آپ کو نظر آئے گی جو انھوں نے اس موضوع پر تحریر فرمائے ہیں۔

صحیح حدیثیں مخالف ہیں دعوی عائشہ کے

اور جناب عائشہ کا یہ دعوی کہ رسول(ص) نے اس حالت میں انتقال کیا جب وہ میرے سینے پر تھے ۔ یہ معارض ہے ان صحیح و متواتر احادیث کے جو ائمہ طاہرین(ع) سے مروی ہیں۔

ائمہ طاہرین(ع) کے علاوہ غیروں کی حدیث اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں تو ملاحظہ فرمائیے طبقات ابن سعد(۱) جلد۲ قسم ثانی صفحہ۵۱ اور کنزالعمال جلد۴ صفحہ۵۵ جن میں بسلسلہ اسناد امیرالمومنین (ع) سے روایت کی گئی ہے:

“ حضرت علی(ع) فرماتے ہیں : کہ رسالت ماب(ص) کا جب دم واپسین آیا تو آپ نے فرمایا : میرے بھائی کو بلا دو، یہ سن کر میں آپ کے قریب آیا ، آںحضرت(ص) نے فرمایا : کہ اور نزدیک آؤ۔ میں اور نزدیک آگیا۔ رسول(ص) نے میرا سہارا لیا اور آخر وقت تک مجھ پر سہارا کیے مجھ سے باتیں کرتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ کا لعاب دہن بھی مجھ پر گرا اور اسی حالت میں آپ نے انتقال فرمایا۔”

ابو نعیم نے اپنےحلیہ میں ، احمد فرضی نے اپنے نسخہ میں نیز بہت سے صاحبان سنن نے امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے، آپ فرماتے ہیں:

“ اس وقت رسول(ص) نے مجھے ہزار باب علم کے تعلیم کیے۔

--------------

۱ـ طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۱ اور کنزالعمال جلد۴ ص۵۵ حدیث ۱۱۰۷

۴۳۳

ہر باب(۱) سے مجھ پر ہزار باب کھل گئے۔”

حضرت عمر کی یہ حالت تھی کہ جب آپ سے رسول(ص) کے آخری حالاتِ زندگی وغیرہ کے متعلق پوچھا جاتا تو بس یہی کہتے کہ علی(ع) سے جا کر پوچھ کیونکہ انھیں کے ہاتھوں تمام امور انجام پائے چنانچہ جناب جابر  بن عبداﷲ انصاری سے  روایت ہے کہ کعب الاحبار نے حضرت عمر سے پوچھا کہ رسول(ص) کا آخری کلام کیا تھا؟ حضرت عمر نے ( حسب دستور) جواب دیا:

“ علی (ع) سے پوچھو”

کعب نے علی (ع) سے آکر پوچھا، حضرت علی(ع) نے فرمایا کہ :

“ میں نے رسول(ص) کو اپنے سینہ پر لٹایا ۔ آںحضرت(ص) نے میرے کاندھوں پر اپنا سر ڈال دیا اور فرمایا : الصلوة ، الصلوة۔ نماز ، نماز۔”

کعب نے یہ سن کر کہا کہ تمام انبیاء کی آخری وصیت یہی ہوا کی۔ اسی کی تاکید پر وہ مامور ہوئے اور اسی پر وہ رسول بنا کر بھیجے گئے۔

کعب نے پھر حضرت عمر سے پوچھا کہ غسل کس نے دیا؟ آپ نے جواب دیا کہ:

“ علی(ع) سے جاکر پوچھو۔”

کعب نے پھر آکر امیرالمومنین(ع) سے دریافت کیا۔ تو آپ نے جواب دیا کہ :

“ میں نے غسل دیا ۔”(۲)

جناب عبداﷲ ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آپ کیا کہتے ہیں۔ کیا

--------------

۱ـ کنزالعمال جلد۶ ص۳۹۲حدیث ۶۰۰۹

۲ـطبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۰ اور کنزالعمال جلد۴ ص۵۵

۴۳۴

رسول اﷲ(ص) نے اس طرح انتقال فرمایا کہ آپ کا سر کسی کی آغوش میں تھا؟

جناب عبداﷲ بن عباس نے کہا: ہاں! رسول(ص) نے جب انتقال کیا تو آپ حضرت علی(ع) کے سینے پر تکیہ کیے ہوئے تھے۔

اس پر ان سے کہا گیا کہ :

“ عروہ تو جناب عائشہ سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے ان کے سینہ پر انتقال کیا۔”

جناب عباس نے اس کا انکار کیا اور کہا کہ :

“ تمھاری عقل میں یہ بات آتی ہے ؟ قسم بخدا رسول(ص) نے تو اس حالت میں انتقال کیا کہ آپ علی(ع) کے سینہ پر تکیہ کیے ہوئے تھے اور علی(ع) ہی نے آپ کو غسل بھی(۱) دیا۔”

اور ابن سعد نے بسلسلہ اسناد امام زین العابدین(ع)(۲) سے روایت کی ہے :

“ امام زین العابدین(ع) فرماتے ہیں : کہ جب رسول(ص) کا انتقال ہوا تو آپ کا سر حضرت علی(ع) کی گود میں تھا۔”
میں کہتا ہوں کہ اس کے متعلق تو ائمہ طاہرین(ع) سے بکثرت متواتر حدیثیں مروی ہیں۔ ائمہ طاہرین(ع) سے انحراف کرنے والے بھی اس حقیقت کے معترف ہیں یہاں تک کہ ابن سعد(۳) نے بسلسلہ اسناد شعبی سے روایت کی ہے:
 “ شعبی کہتے ہیں کہ رسول(ص) نے جب انتقال کیا تو آپ کا سر

--------------

۱ـ طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۵

۲ـ طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۵

۳ـ  طبقات ابن سعد جلد۲ قسم ثانی ص۵۵

۴۳۵

 امیرالمومنین (ع) کی آغوش میں تھا اور حضرت علی(ع) ہی نے آپ کو غسل دیا، امیرالمومنین(ع) بھرے مجمع میں اپنے سلسلہ تقریر میں اس کا ذکر کیا کرتے ۔ ملاحظہ فرمائیے ( نہج البلاغہ(۱) جلد۲ ص۱۹۶)

امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں :

“ اصحاب رسول(ص) جانتے ہیں کہ میں نے کسی گھڑی خدا و رسول(ص) کا کہنا نہیں ٹالا۔ میں نے ! ایسے ایسے مہلکوں میں اپنی جان پر کھیل کر سول(ص) کی جان بچائی۔ جہاں بڑے بڑے شجاعان عرب کے پیر اکھڑ  گئے، قدم پیچھے ہٹ گئے یہ میری شجاعت و طاعت تھی جس سے خدا نے مجھے سرفراز فرمایا اور آںحضرت(ص) نے جب انتقال فرمایا تو آپ کا سر میرے سینے پر تھا اور آپ کا لعاب دہن میرے ہاتھ پر گرا جسے میں نے اپنے منہ پر مل لیا میں ہی رسول(ص) کے غسل کا منتظم ہوا جس میں ملائکہ میرے مددگار تھے۔ ملائکہ کی وجہ سے مکان اور صحن آوازوں سے گونجنے لگا۔ ایک گروہ آتا تھا دوسرا گروہ جاتا تھا ۔ ان کی آوازوں کو میرے کانوں نے سنا۔ وہ آپ پر نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ میں نے آپ کو سپرد خاک کیا۔ لہذا مجھ سے زیادہ رسول(ص)  کا آپ کی زندگی میں بھی اور آپ کے مرنے کے بعد بھی کون حقدار ہوسکے گا۔”

اسی جیسے آپ کے وہ فقرات ہیں جو آپ نے جناب سیدہ(س) کو دفن کر کے کہے(۲) :

--------------

۱ـ نہج البلاغہ جلد۲ ص۱۹۶ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد۲ ص۵۶۱

۲ـ نہج البلاغہ جلد۲ ص۲۰۷ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد۲ ص۵۹۰

۴۳۶

“ سلام ہو آپ پر اے رسولِ خدا(ص) ! میری جانب سے بھی اور آپ کی دختر کی طرف سے بھی جو آپ کے جوار میں پہنچ گئیں۔ اور آپ کی خدمت میں جلد پہنچنے والی ہیں۔ یا رسول اﷲ(ص)! آپ کی  اس پاکیزہ دختر کی جدائی پر دامن صبر ہاتھوں سے چھوٹا جارہا ہے اور میرا صبر وضبط جواب دیے جارہا ہے۔ ہاں! آپ کی گراں تر جدائی اور آپ کی موت سے ہم پر سخت ترین مصیبت پڑی ہے۔ اس کو سوچتے ہوئے اس تازہ مصیبت پر صبر آتا ہے۔ ( جب) میں نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے آغوش لحد میں لٹایا اور میرے سر و سینہ پر آپ نے دم توڑا ( تو اتنی بڑی مصیبت جھیلنے کے بعد اب جو بھی مصیبت مجھ پر پڑے وہ سبک ہے) انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔”

اور جناب ام سلمہ سے یہ حدیث مروی ہے ۔ آپ فرماتی ہیں :

“ قسم بخدا علی(ع) و رسول(ص) کی خدمت میں سب سے زیادہ آخر وقت تک باریاب رہے۔ جس دن آپ کی رحلت ہوئی اس دن ہم لوگ آپ کی عیادت میں مصروف تھے اور آپ فرمارہے تھے۔ علی(ع) آئیے؟ علی(ع) آئے؟ جناب سیدہ(س) بولیں: بابا جان معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے انھیں کسی ضروری کام سے بھیجا ہے۔ جناب ام سلمہ کہتی ہے کہ تھوڑی دیر کے بعد حضرت علی(ع) آئے۔ ہم لوگوں کو خیال ہوا کہ شاید رسول(ص) تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سب وہاں سے اٹھ کر دروازے پر آبیٹھے۔ میں دروازے سے بہت قریب بیٹھی
۴۳۷

 تھی۔ میں نے دیکھا کہ رسول(ص) حضرت علی(ع) پر جھک پڑے اور باتیں کرنا شروع کیں اور باتیں کرتے ہی کرتے آپ نے انتقال فرمایا۔ لہذا علی(ع) سب سے آخر تک
پیغمبر(ص) کی خدمت میں باریاب رہنے والے تھے۔”(۱)

اور جناب عبداﷲ بن عمر(۲) سے مروی ہے کہ رسالت ماب(ص) نے جب آپ

--------------

۱ـ اس حدیث کا امام حاکم مستدرک جلد۳ ص۱۳۹ پر روایت کر کے لکھے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر بخاری و مسلم نے درج نہیں کیا۔ میں کہتا ہوں اس حدیث کی صحت کا علامہ ذہبی نے بھی اعتراف کیا ہے چنانچہ انھوں نے تلخیص مستدرک میں بھی اس حدیث کو لکھا ہے ۔ ابن ابی شیبہ نے بھی سنن میں اس کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال جلد۶ ص۴۶ پر بھی موجود ہے ۔ ملاحظہ ہو حدیث ۶۰۹۶۔

۲ـ جیسا کہ اس حدیث میں ہے جو ابو یعلیٰ نے کامل بن طلحہ سے انھوں نے حی بن عبدمغافری سے انھوں نے عبدالرحمن حبلی سے انھوں نے عبداﷲ بن عمرو سے مرفوعا روایت کی ہے نیز ابو نعیم نے اپنے حلیہ میں اور ابو احمد فرضی نے اپنے نسخہ میں روایت کی ہے جیسا کہ کنزالعمال جلد۲ ص۳۹۲ پر مذکور ہے اور طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کی ہے کہ غزوہ طائف میں رسول(ص) کھڑے ہوئے اور کچھ دیر تک حضرت علی(ع) سے چپکے چپکے باتیں کرتے رہے، اس کے بعد تشریف لے گئے۔ اس پر حضرت ابوبکر نے رسول(ص) سے کہا کہ آج تو آپ علی(ع) سے بہت طولانی سرگوشی کرتے رہے ۔ پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ میں نے سرگوشی نہیں کی بلکہ خداوند عالم نے کی ہے کنزالعمال میں بھی یہ حدیث موجود ہے ملاحظہ ہو جلد۶ صفحہ ۳۹۹ حدیث نمبر۷۵، ۶۰ ۔ حضرت سرورکائنات(ص) عموما تنہائی میں حضرت علی(ع) سے باتیں کیا کرتے ۔ ایک دن پیغمبر(ص) اور امیرالمومنین(ع) تنہا بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ عائشہ آپہنچیں اور حضرت علی(ع) سے کہنے لگیں کہ اے علی(ع) تو دنوں میں مجھے ایک دن ملتا ہے ( پیغمبر(ص) کی نوبیویاں تھیں اس لحاظ سے نو دن میں ایک دن پیغمبر(ص) جناب عائشہ کے یہاں آرام فرماتے) کیا تم مجھے میرے دن میں بھی چین سے نہ رہنے دوگے۔ یہ سن کر سرورکائنات(ص) کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ حمیدی جلد۲ ص۷۸

۴۳۸

  بستر مرگ پر تھے فرمایا کہ میرے بھائی کو بلااؤ۔ ابو بکر سامنے آئے۔تو آپ نے منہ پھیر لیا ۔ پھر آپ نے کہا کہ میرے بھائی کو بلاؤ۔ حضرت عمر سامنے آئے تو آںحضرت(ص) نے منہ پھیرلیا ۔ کوئی بڑھ کر حضرت علی(ع) کو بلایا ۔ جب علی(ع) آئے تو آپ انھیں اپنی چادر میں لے لیا اور آپ پر جھک کر باتیں کرنے لگے۔ حضرت علی(ع) باہر آئے تو ان سے پوچھا گیا کہ رسول(ص) کیا کہہ رہے تھے آپ سے ؟

آپ نے کہا : رسول(ص) نے مجھے ہزار باب علم کے تعلیم کیے اور ہر باب سے ہزار باب مجھ پر کھل گئے۔

آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہی باتیں مناسب حال انبیاء ہیں اور جناب عائشہ جو کچھ فرماتی ہیں وہ تو ہوس پرستوں کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔

اگر کوئی چرواہا اس طرح مرے کہ اس کا سر اس کی بیوی کے سینہ پر ہو یا ٹھڈی اور ناف کے درمیان یا بیوی کی ران پر ہو اور وہ اپنے مویشی کی حفاظت و نگہداشت کی وصیت بیوی کو نہ کرے تو یقینا وہ زیاں کار اور تباہ و برباد کرنے والا ہوگا۔

خدا معاف کرے جناب عائشہ کو کاش ( جب انھوں نے یہی تہیہ کر لیا

۴۳۹

تھا کہ یہ فضیلت علی(ع) کے لیے  نہ ہونے پائے تو ) اپنے باپ کی طرف اس کو منسوب کرتے ہوئے یہ بیان کرتیں کہ میرے باپ کے سینے پر رسول(ص) کا دم نکلا لیکن اپنے باپ کی طرف وہ اس کی نسبت دے بھی کیسے سکتی تھیں کیونکہ انھیں تو رسول(ص) نے خود اسامہ کا ماتحت بنا کر لشکر کے ساتھ روانہ کیا تھا جو مدینہ کے باہر جا کر پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔

بہر حال جناب عائشہ کا یہ کہنا کہ رسول(ص) نے ان کی گود میں دم توڑا صرف جناب عائشہ ہی کی طرف منسوب ہے فقط وہی اس کی بیان کرنے والی ہیں اور یہ قول کہ رسول(ص) نے علی(ع) کی گود میں دم توڑا بکثرت لوگوں کی طرف منسوب ہے۔ بہت سے بیان کرنے والے ہیں۔ جیسے حضرت علی(ع)، عبداﷲ بن عباس، عبداﷲ بن عمر، شبی ، امام زین العابدین(ع)، اور جملہ ائمہ طاہرین(ع) لہذا یہ قول اپنی سند کے لحاظ سے بھی قابل ترجیح ہے اور رسول اﷲ(ص) کی شان کے بھی زیادہ مناسب ہے۔

ام سلمہ کی حدیث مقدم ہے حضرت عائشہ پر

جناب عائشہ کی حدیث اتنے حضرات کی احادیث سے معارض ہے اگر ان حضرات سے قطع نظر صرف جناب ام سلمہ ہی کی حدیث سے معارض ہوتی تو اس صورت میں بھی متعدد وجوہ سے جناب ام سلمہ ہی کا قول قابل قبول ہوتا انھیں کی حدیث کو ترجیح دی جاتی۔

                                                             ش

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639