دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 262764
ڈاؤنلوڈ: 6012

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 262764 / ڈاؤنلوڈ: 6012
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مکتوب نمبر 39

جناب ام سلمہ کی حدیث کو ترجیح کیوں کر۔۔۔۔۔؟

آپ نے جناب ام سلمہ کی حدیث کو ترجیح دینے میں جو کچھ کہا اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ اس کے دعویدار ہیں کہ بہت سی وجہوں سے جناب ام سلمہ کی حدیث قابل ترجیح ہے۔ تو براہ کرم وہ بہت سی وجہیں بھی ذکر کردیجیے کوئی وجہ چھوڑیے گا نہیں۔ کیونکہ یہ بحث و مباحثہ اور افادہ و استفادہ کا محل ہے۔

                                                                     س

۴۴۱

جواب مکتوب

جناب ام سلمہ کی حدیث کے مقدم و ارجح ہونے کے اسباب

جناب ام سلمہ(1) کے کج ہو جانے پر قرآن نے ںص نہیں کی۔ انھیں کلام مجید میں توبہ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ نبی(ص) سے  سرکشی کرنے پر کلام مجید میں ان کے متعلق کوئی آیت نہیں اتری نہ انھوں نے بعد رسول(ص) ، رسول(ص) کے وصی(2) سے سرکشی کی، نہ ان کے مقابلہ میں رسول(ص) کی مدد کرنے کے لیے خدا کو جبرئیل(ع)

--------------

1ـ اشادہ ہے خداوند عالم کے قول  “إِنْ تَتُوبا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُما” کی طرف

2ـ وصی رسول(ص) سے سرکشی یوں کہ ان کے وصی رسول(ص) ہونے سے انکار کیا اور حضرت سرورکائنات(ص) کے بعد جتنے دن جیتی رہیں حضرت علی(ع) کی طرف سے انتہائی عداوت دل میں لیے رہیں۔ رسول(ص) کے ساتھ ان کی سرکشی اور خداوند عالم کا اپنے رسول(ص) کی مدد کے لیے آمادہ ہونا تو اس پر خود یہ آیت دلالت کرتی ہے “وَ إِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ وَ جِبْريلُ وَ صالِحُ الْمُؤْمِنينَ وَ الْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهيرٌ ” اگر تم دونوں یعنی عائشہ و حفصہ رسول(ص) سے سرکشی کرو گی  تو سمجھ لو رسول(ص) کا خدا مددگار ہے اور جبریل اور صالح المومنین اور اس کے بعد ملائکہ بھی پشت پناہ ہیں۔

۴۴۲

 امین کو اور صالح المومنین کو اور ملائکہ کو آمادہ ہونا پڑا۔ نہ انھیں خدا نے طلاق کی دھمکی دی نہ ان کو اس سے ڈرایا گیا کہ تمھارے بدلہ میں تم سے بہتر زوجہ(1) کو

ملے گی نہ انھیں زوجہ نوح(ع) و زنِ لوط(ع)(2) سے مثال دی گئی انھوں نے کبھی ایسا نہ کیا کہ رسول(ص) پر ایسی چیز حرام کر دی ہو جو خدا نے رسول(ص) کے لیے جائز کی تھی(3) ۔ رسول اﷲ(ص) نے منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ فرماتے ہوئے ان کے گھر کی طرف اشارہ نہیں کیا کہ ھا ھنا الفتنہ ” یہیں فتنہ ہے جہاں شیطان کا سینگ ابھرتا نظر آرہا ہے۔(4)

جناب ام سلمہ کے آداب ایسے نہیں تھے کہ رسول(ص) نماز پڑھ رہے ہوں

--------------

1ـ یہ فقرہ اور اس کے قبل کا جملہ اشارہ ہے قول خداوند عالم کی طرف “عَسى‏ رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْواجاً خَيْراً مِنْكُنَّ مُسْلِماتٍ مُؤْمِناتٍ ”

2ـ اشارہ ہے طرف آیہ “ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَ امْرَأَتَ لُوطٍ ” کے ۔

3ـ اشارہ ہے طرف آیہ “يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغي‏ مَرْضاتَ أَزْواجِكَ ”

4ـ اس حدیث کو بخاری نے باب ما جاء فی بیوت ازواج النبی کتاب الجہاد والسیر صحیح بخاری جلد2 ص125 پر درج کیا ہے اور صحیح مسلم کی عبارت یہ “خَرَجَ النَّبِيُّ ص مِنْ بَيْتِ عَائِشَةَ فَقَالَ رَأْسُ‏ الْكُفْرِ مِنْ‏ هَاهُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ .” ملاحظہ ہو صحیح مسلم جلد2 صفحہ503۔

۴۴۳

 اور وہ آپ کی جائے سجدہ پر پیر پھیلائے ہوئے ہوں اور رسول(ص) کے سجدے کرتے وقت بھی پیر نہ سمیٹیں(1) جب رسول(ص) پیر کو دبائیں تو وہ سمیٹ لیں، پھر جب رسول(ص) سجدے  کر کے کھڑے ہوجائیں تو دوبارہ پھر اسی طرح پیر پھیلا دیں اور اس طرح پوری نماز میں یہی حرکت کرتی رہیں۔

جناب ام سلمہ جناب عثمان کی دشمن نہیں ہوئیں نہ آپ کی جان لینے پر تلیں نہ نعثل کہہ کر پکارا نہ یہ کہا کہ اس نعثل کو قتل کر ڈالو۔ یہ کافر ہوگیا ہے(2) ۔    جناب ام سلمہ اپنے گھر سے نہیں نکلیں جس میں رہنے کی خدا نے تاکید کی تھی۔(3)

--------------

1ـ صحیح بخاری جلد1 صفحہ 143 باب ما یجوز من العمل فی الصلوة۔

2ـ جناب عائشہ کا قولا و فعلا حضرت عثمان کے خلاف جذبہء تنفر اظہار عداوت و بغض و عناد اور ان کا کہنا کہ اس نعثل کو قتل کر ڈالو یہ کافر ہوگیا ہے۔ ایسی مشہور بات ہے جس کے ذکر سے تاریخ کی کوئی کتاب جس میں عہد حضرت عثمان کے حالات و حوادث کا ذکر ہے خالی نہ ملے گی صرف تاریخ ابن جریر طبری و تاریخ کامل ابن اثیر جزری کو لے لیجیے بے کم و کاست حالات پوری تفصیل سے آپ کو معلوم ہوں گے۔ حضرت عائشہ کے زمانہ کے لوگوں نے حضرت عائشہ کی عثان دشمنی پر انھیں سرزنش بھی کی منہ پر برا بھلا کہا۔ چنانچہ تاریخ کامل ابن اثیر جزری صفحہ 80 جلد3 واقعہ جمل کے حالات میں

 (بقیہ صفحہ قبل) یہ اشعار موجود ہیں۔

فمنك البداة و منك‏ الغير

 و منك الرياح و منك المطر

و أنت أمرت بقتل الإمام‏

 و قلت لنا انّه قد كفر

آپ ہی سے ان فسادات کی ابتدا ہوئی آپ ہی رنگ بدلتی رہیں آپ ہی سے ہوائیں چلیں آپ ہی سے بارش ہوئی آپ ہی نے خلیفہ کے قتل کا حکم دیا۔ آپ ہی نے ہم سے کہا کہ وہ کافر ہوگئے ہیں۔

3ـ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے “وَ قَرْنَ في‏ بُيُوتِكُنَّ وَ لا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجاهِلِيَّةِ الْأُولى‏ ” اپنے گھروں میں رہو اور اگلی جاہلیت کی طرح بنو ٹھنو نہیں۔ وہ اونٹ جس پر سوار ہو کر جناب عائشہ فوج کی کمان کرنے نکلیں اس کا نام عسکر تھا۔ یعلی ابن فیہہ وہ اونٹ لے کر عائشہ کے پاس پہنچا وہ اونٹ بڑے ڈیل ڈول کا تھا جب جناب نے دیکھا تو بہت خوش ہوئیں جب معلوم ہوا کہ اس اونٹ کا نام عسکر ہے تو پیروں تلے زمین نکل گئی انا ﷲ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہا اسے واپس لے جاؤ اس اونٹ کی مجھے ضرورت نہیں اور بیان کیا عائشہ نے کہ حضرت سرورکائنات(ص) نے یہ نام ان سے ذکر کیا تھا اور اس پر سوار ہونے سے منع بھی فرمایا تھا۔ لوگوں نے اس اونٹ کے جھول اتار کر دوسرے جھول پہنادیے اور آکر کہا کہ آپ کے لیے اس اونٹ سے بھی بڑا اور طاقت ور اونٹ ہمیں ہاتھ لگ گیا۔ جناب عائشہ اس مرتبہ راضی ہوگئیں۔ اس واقعہ کو اکثر اہل سیر و اخبار نے ذکر کیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیے شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ 80۔

۴۴۴

جناب ام سلمہ نے اونٹ پر سوار ہو کر فوج کی کمان کبھی نہیں کی اور وہ جو کبھی وادی میں لے جارہا ہو کبھی پہاڑ پر چڑھ رہا ہو۔ یہاں تک کہ چشمہء حواب کے کتے بھونکنے لگے ہوں جس سے رسول(ص) نے پہلے ہی ڈرا دیا(1) تھا مگر ڈری نہیں اور نہ اس لشکر گراں کی قیادت کرنے سے باز رہیں

--------------

1ـ اس بارے میں بہت مشہور حدیث ہے اور وہ حدیث نبوت کے علامات اور اسلام کی روشن نشانیوں میں سے ہے ۔ اس حدیث کو مختصر کر کے امام احمد نے اپنی مسند ج6 صفحہ52، 97 میں ذکر کیا۔ نیز اسی طرح مختصر کر کے امام حاکم نے مستدرک جلد3 صفحہ 120 پر درج کیا ہے نیز علامہ ذہبی نے بھی اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے اور خود تلخیص مستدرک میں نقل کیا ہے۔

۴۴۵

جسے امام کے مقابلے میں جمع کیا تھا۔

لہذا جناب عائشہ کا قول کہ رسول اﷲ(ص) نے میرے سینے پر دم توڑا، ان کے اس قول سے مرتبط سمجھیے کہ رسول اﷲ()ص نے حبشیوں کو دیکھا وہ مسجد میں ہتھیاروں سے کھیل رہے ہیں آپ نے عائشہ سے کہا کہ کیا تم ان کا تماشہ دیکھنا چاہتی ہو؟

وہ بولیں : ہاں۔

عائشہ کہتی ہیں کہ اس پر رسول(ص) نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا کہ میرا رخسارہ رسول(ص) کے رخسارہ پر تھا اور رسول(ص) فرماتے تھے ہاں! ہاں! اے بنی ارفدہ۔

مطلب یہ تھا کہ وہ اور سرگرمی سے اپنا کھیل دکھائیں تاکہ عائشہ خوش ہوں۔ جناب عائشہ کہتی ہیں کہ جب میں تھک گئی تو آپ نے پوچھا کہ بس۔؟

میں نے کہا : “ہاں!” تو آپ نے فرمایا : اچھا جاؤ۔(1)

چاہے ان کے اس قول سے مرتبط کیجیے:

“ رسول اﷲ(ص) میرے پاس ایک دن آئے اور میرے پاس دو کنیزیں گارہی تھیں۔ رسول(ص) آکر بستر پر لیٹ گئے اس کے بعد ابوبکر آئے انھوں نے جب دیکھا تو مجھے جھڑ کا اور کہا کہ رسول(ص) کے پاس اور شیطان کی بانسری؟”

جناب عائشہ کہتی ہیں کہ :

“ رسول(ص) ابوبکر کی طرف متوجہ ہو کر بولے : ان دونوں

--------------

1ـ صحیح بخاری جلد اول صفحہ 116 کتاب العیدین و صحیح مسلم جلد اول صفحہ 327 مسند احمد ج6 صفحہ57۔

۴۴۶

 کو گانے دو۔(1)

اور چاہے تو ان کے اس قول سے مرتبط سمجھیے کہ :

 “ ایک(2) مرتبہ ہم میں اور رسول(ص) میں دوڑ ہوئی۔ میں رسول(ص) سے آگے نکل گئی ۔ اسے کچھ دن گزر گئے اورمیرے بدن پر گوشت چڑھ آیا۔ پھر دوڑ ہوئی تو اب کی رسول(ص) آگے نکل گئے۔ آپ نے فرمایا : کہ لو میں نے بدلہ اتار دیا۔”

یا ان کے اس قول سے مرتبط سمجھیے کہ :

“ میں لڑکیوں کے ساتھ کھیلا کرتی اورمیری سہلیاں آتیں اور میرے ساتھ کھیلتیں اور رسول اﷲ(ص) خود ان لڑکیوں کو بلا کر میرے پاس لاتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتیں ۔”

یا ان کے اس قول سے مرتبط سمجھیے کہ :

“ مجھ میں سات(3) خوبیاں ایسی ہیں کہ کسی میں پائی نہ گئیں سوا ایک کے۔ جو جناب مریم میں تھی۔ایک تویہ کہ فرشتہ میری صورت میں نازل ہوا۔ دوسرے یہ کہ رسول(ص) کی کل ازواج میں بس میں ہی باکرہ تھی اور رسول (ص) پر وحی اتری اس حالت

--------------

1ـ بخاری و مسلم و امام احمد نے اس حدیث کی انھیں صفحات و ابواب میں روایت کی ہے جو ہم اس کے اوپر کے حاشیے میں بیان کرچکے ۔

2ـ مسند احمد جلد6 صفحہ57۔

3ـ ابن ابی شیبہ نے اس کی روایت کی ہے اور یہ حدیث کنزالعمال میں بھی موجود ہے ملاحظہ ہو حدیث نمبر1017 جلد7۔

۴۴۷

میں کہ میں اور وہ ایک لحاف میں تھے۔ میں رسول(ص) کی سب سے زیادہ چہیتی تھی۔ میری شان میں کلام مجید کی ایسی آیتیں اتریں کہ قریب تھا کہ امت ان آیات میں ہلاک ہوجائے میں نے جناب جبرئیل(ع) کا دیکھا اور دوسری بیویوں میں سے کسی نے نہ دیکھا ۔ رسول(ص)
کا انتقال میرے گھر میں ہوا۔ میرے سوا رسول(ص) کے پاس کوئی نہ تھا(1) ۔ میں اور ملک ۔۔۔۔۔الخ”

اسی طرح اور بہت سی حدیثیں جناب عائشہ نے بیان فرمائی ہیں جن میں اپنی مدح سرائی کی ہے اور اپنے خصوصیات کی لمبی چوڑی فہرست گنائی ہے وہ سب اسی جیسی ہیں لیکن جناب ام سلمہ تو وہ یہی کافی سمجھتی تھیں کہ وہ اپنے ولی اور پیغمبر(ص) کے وصی سے موالات رکھیں، آپ صائب الرائے اور کامل عقل وفہم غیر متزلزل دین رکھنے والی معظمہ تھیں، آپ نے جنگ حدیبیہ کے موقع پر رسول(ص) کو جو مشورہ دیا تھا وہ بین ثبوت ہے کہ آپ کتنی عقلمند ، کتنی صائب نظر و صائب رائے اور بلند مرتبہ خاتوں تھیں۔

--------------

1ـ اس پر اتفاق و اجماع ہے کہ رسول(ص) کے انتقال کے وقت حضرت علی(ع) موجود تھے وہی تیمارداری کرتے تھے لہذا حضرت عائشہ کا یہ کہنا کیونکر صحیح ہے کہ جس وقت رسول(ص) کا انتقال ہوا کوئی رسول(ص) کے پاس موجود نہ تھا سوا جناب عائشہ کے اور ملک کے۔ علی(ع) کہاں تھے، عباس کہاں تھے ، جناب فاطمہ(س) اور صفیہ رسول خدا(ص) کی پھوپھی کہاں تھیں؟ رسول(ص)کی دوسری بیویاں کہاں تھیں ؟ بنی ہاشم سب کے سب کہاں تھے؟ اور کیونکر انھوں نے رسول(ص) کو تن و تنہا عائشہ کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ پھر یہ بات مخفی نہ رہی کہ مریم میں ان ساتویں باتوں میں سے ایک بھی نہیں پائی جاتی ہے جو جناب عائشہ نے ذکر کیں لہذا ان کا یہ کہنا کیونکر صحیح ہے کہ صرف جناب مریم میں ان سات باتوں میں سے ایک بات پائی جاتی ہے ان کا جناب مریم کو مستثنیٰ کرنا کیونکر صحیح ہے۔

۴۴۸

مکتوب نمبر40

اجماع و خلافت

آپ نے جتنی باتیں کہیں مان بھی لی جائیں کہ امیرالمومنین(ع) وصی پیغمبر(ص) تھے اور آپ کے بارےمیں صریحی نصوص موجود ہیں تو آپ اس کو کیا کریں گے کہ امت نے حضرت ابوبکر کی بیعت پر اتفاق کر لیا۔ انھیں اجماعی طور پر خلیفہ تسلیم کرلیا اور امت کا اجماع قطعی حجت ہے کیونکہ رسول(ص) خود ارشاد فرماچکے ہیں:

“لَا تَجْتَمِعُ‏ أُمَّتِي‏ عَلَى خَطَإٍ.”

“ میری امت خطا پر کبھی اجماع نہ کرے گی۔”

نیز یہ بھی فرمایا :“لَا تَجْتَمِعُ‏ أُمَّتِي‏ عَلَى ضَلَالَةٍ ”

۴۴۹

“ میری امت گمراہی پر کبھی اجماع نہ کرے گی۔”

اس کا آپ کے پاس کیا جواب ہے ؟

                                                                     س

جواب مکتوب

اجماع ہوا ہی نہیں

ہم یہ کہیں گے کہ رسالت ماب(ص) نے یہ جو فرمایا ہے کہ میری امت کبھی خطا پر اجماع نہ کرے گی اور گمراہی پر کبھی اجماع نہ کرے گی اس کا مطلب یہ ہے کہ جس امر کو امت والے باہم رائے مشورہ کر کے اپنی پسند و اختیار سے اتفاق آراء سے طے کر لیں اس میں خطا و گمراہی نہ ہوگی۔ حدیثوں کو دیکھنے سے یہی مطلب سمجھ میں آتا ہے اور کوئی دوسرا مطلب سمجھ میں نہیں آتا لیکن وہ امر جس کوامت کے صرف چند نفر طے کر لیں اور اس پر تل جائیں اور اس پر اہل حل وعقد کووہ مجبور بنالیں تو اس کی صحت پر کوئی دلیل نہیں۔

سقیفہ کی بیعت باہمی مشورہ سے نہیں ہوئی۔ اس کے کرتا دھرتا تو حضرت عم اور ابو عبیدہ اور چند گنتی کے لوگ تھے۔ انھیں دو چار آدمیوں نے یہ طے کیا اور ناگہانی طور پر ارباب حل و عقد پر یہ چیز پیش کی۔ اس وقت کی نزاکت حالات نے مساعدت کی اور جو وہ چاہتے تھے ہوگیا۔ خود حضرت ابوبکر نے صاف صاف لفظوں میں اقرار کیا ہے کہ میری بیعت باہمی مشورہ سے نہیں ہوئی۔ نہ غور و فکر کر کے سوچ سمجھ کے ہوئی۔

۴۵۰

 چنانچہ اپنی خلافت کے شروع میں بطور معذرت خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو کہا کہ :

“ میری بیعت نا گہانی تھی۔ خدا نے اس کے شر سے محفوظ رکھا ورنہ مجھے تو فتنہ و فساد برپا ہونے کا بڑا خوف تھا۔”(1)

حضرت عمر نے بھی بھرے مجمع میں اس کی گواہی دی چنانچہ اپنے آخری زمانہء خلافت میں جمعہ کے دن منبر رسول(ص) پر انھوں نے کہا۔ ان کا یہ خطبہ بہت مشہور ہے امام بخاری نے بھی اپنی صحیح(2) بخاری میں نقل کیا ہے بطور ثبوت میں خود حضرت عمر کے اصل الفاظ پیش کرتا ہوں۔

“ثمّ انه بلغني ان قائلا منكم يقول: و اللّه لو مات عمر بايعت فلانا، فلا يغترن امرؤ أن يقول: انما كانت بيعة أبى بكر فلتة و تمت، ألا و انها قد كانت كذلك و لكن وقى اللّه شرها ( الی ان قال) من‏ بايع‏ رجلا عن غير مشورة من المسلمين فلا يتابع هو و لا الذي بايعه، تغرة ان إِنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَ اجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَ خَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَ الزُّبَيْرُ وَ مَنْ مَعَهُمَا”

--------------

1ـ حضرت ابوبکر کے اس خطبہ کو ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری نے اپنی کتاب سقیفہ میں درج کیا ہے ان سے ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص122 پر نقل کیا ہے۔

2ـ ملاحظہ فرمائیے باب رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت جلد4 صفحہ 119 ۔ اس خطبہ کو دیگر محدثین نے بھی نقل کیا ہے۔ ابن جریر طبری نے تاریخ طبری میں بسلسلہ حوادث سنہ11ھ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول صفحہ 122 پر ذکر کیا ہے۔

۴۵۱

مجھے یہ خبر پہنچی ہے ک تم میں سے کسی کہنے(1) والے نے کہا ہے کہ اگر عمر مرگئے تو ہم فلان
کی بیعت کر لیں گے تو کوئی شخص اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ابوبکر کی بیعت ناگہانی طورپر ہوئی اور پایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔ یہ ضرور ہے کہ ان کی بیعت یوں ہی انجام پذیر ہوئی لیکن خدا نے ہم لوگوں کو اس شر سے محفوظ رکھا۔”

اسی سلسلہ تقریر میں کہا :

“ جب کوئی شخص جماعت سے الگ ہوکر بغیر رائے و مشورہ کے اپنی استبدادی رائے سے ایک شخص کی بیعت کرے تو پھر ان دونوں میں کوئی امام نہ بنایا جائے۔ نہ وہ بیعت کرنے والا اور نہ وہ بیعت کیا جانے والا ۔ کیونکہ اس میں دھوکہ ہے ایسا نہ ہو دونوں مارے جائیں۔”(2)

--------------

1ـ اس کے کہنے والے زبیر تھے انھوں نے یہ کہا تھا کہ اگر عمر مرگئے تو میں علی(ع) کی بیعت کروں گا کیونکہ ابوبکر کی بیعت بھی اس طرح ناگہانی طور پر ہوئی تھی مگر پایہ تکمیل کو پہنچ گئی حضرت عمر نے جو سنا تو بہت برہم ہوئے اور یہ خطبہ انھوں نے فرمایا ۔ بخاری کے اکثر شارحیں نے اس واقعہ کی تصریح کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے شرح قسطلانی صفحہ 252 جلد11 جس میں بلاذری سے انھوں نے اس کی روایت کی ہے اور تصریح کی ہے کہ یہ روایت شیخین کے معیار پر صحیح الاسناد ہے

2ـ میں کہتا ہوں کہ حضرت عمر کے عدل کا بہت ڈھندورا پیٹا جاتا ہے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ جس بات کی تکلیف دوسروں کو دی جائے اپنے لیے بھی گوارا سمجھی جانی چاہیے جس طرح بیعت کے متعلق حضرت عمر نے دوسروں کو یہ حکم دیا ہے کہ جماعت سے الگ ہوکر اگر کوئی شخص کسی کی بیعت کرے تو ان دونوں کو چھانٹ دیا جائے اور ان میں سے کسی کا امام نہ بنایا جائے نہ وہ بیعت کرنے والا اور نہ وہ بیعت کیا جانے والا۔ تو کاش یہی حکم حضرت عمر اپنے لیے اور اپنے ساتھی حضرت ابوبکر کے لیے بھی رکھتے۔

۴۵۲

آگے چل کر آپ نے فرمایا :

“ ہم لوگوں کا واقعہ یہ تھا کہ جب حضرت کا انتقال ہوا تو انصار نے ہماری مخالفت کی اور وہ سب کے سب سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور علی(ع) و زبیر نے بھی ہم سے اختلاف کیا اور علی(ع) و زبیر کے ہوا خواہ بھی برگشتہ رہے۔”

اس کے بعد آپ نے سقیفہ کے اندر جو اختلافات رونما ہوئے جو آوازیں بلند ہوئیں جس کی وجہ سے اسلام  میں تفرقہ پڑ جانے کا خوف تھا ان کی طرف اشارہ کیا اور یہ کہ ہم نے اس موقع پر ابوبکر کی بیعت کر لی۔

روایات کی بنا پر یہ بات بالکل بدیہی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اہلِ بیت رسالت(ع) کا ایک فرد بھی سقیفہ کے اندر موجود نہ تھا بلکہ سب کے سب حضرات علی(ع) کے گھر میں اکٹھا تھے اور ان کے ساتھ ساتھ جناب سلمان، ابوذر، مقداد، عمار، زبیر، خزیمہ بن ثابت، ابی بن کعب، براء بن عاذب، خالد بن سعید بن عاص اموی اور بھی ان کے جیسے بہت سے لوگ تھے۔

تو جب یہ سب کے سب بیعت کے موقع پر موجود ہی نہ تھے جب رسول(ص) کے کل اہل بیت(ع) کنارہ کش رہے جن کی حیثیت امت کے درمیان ایسی

۴۵۳

 ہے جیسے بدن میں سر اور چہرے پر آنکھیں جو ثقل پیغمبر(ص) تھے۔ خزانہء پیغمبر(ص) تھے، کتاب خدا کے ہم پلہ تھے، امت کی نجات کا سفینہ تھے، امت کے لیے باب حطہ تھے، گمراہی و ضلالت سے جائے امان تھے، علم ہدایت(1) تھے۔ ( جیسا کہ ہم گزشتہ اوراق میں ذکر کرچکے ہیں) تو پھر اجماع کہاں سے ہوگیا؟

بخاری و مسلم نے اپنے اپنے صحیح(2) میں اور بکثرت محققین ، علماء محدثین نے اس کی ثبوت اکٹھا کیے کہ حضرت علی(ع) بیعت سے کنارہ کش ہی رہے آپ نے بیعت ہی نہ کی اور نہ مصالحت ہی فرمائی۔ ہاں جب سیدہ کا  انتقال ہوگیا چھ مہینہ بعد وقت کی نزاکت اور ملت اسلامیہ کی خیر خواہی نے آپ کو مجبور کیا تو آپ نے مصالحت کر لی۔ اس کےثبوت میں خود جناب عائشہ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں جناب عائشہ نے صاف صاف تصریح کی ہے کہ جناب سیدہ(س) ابوبکر سے ناراض ہوگئیں اور رسول(ص) کے بعد مرتے دم تک ان سے گفتگو نہ کی اور جب حضرت علی(ع) نے ان لوگوں سے مصالحت فرمائی تو یہ بھی کہہ دیا کہ ان لوگوں نے میرے حق خلافت کو غصب کر کے زبردستی کی ہے حدیث میں صرف مصالحت کا ذکر ہے ۔ اس کی کوئی تشریح نہیں کی کہ آپ نے صلح  کرتے وقت ان کی بیعت بھی کر لی تھی۔ آپ نے ابوبکر سے خطاب

--------------

1ـ ملاحظہ فرمائیے پھر سے ص49 سے ص115 تک آپ کو اندازہ ہوگا کہ اہل بیت علیہم السلام کی کیا شان تھی؟

2ـ ملاحظہ فرمائیے صحیح بخاری جلد3 صفحہ 39 اواخر باب غزوہ خیبر اور صحیح مسلم جلد2 کتاب الجہاد والسیر صفحہ 72 باب قول النبی : لا نورث ما ترکناہ صدقہ۔

۴۵۴

کر کے جو  ارشاد فرمایا تھا اس میں کس قدر مکمل اور بے پناہ احتجاج فرمایا تھا آپ نے۔” اگر تم نے رسول(ص) سے رشتہ ظاہر کر کے مخالفین کو قائل کیا تو تمھارا غیر یعنی میں رسول(ص) سے زیادہ قرابت رکھتا ہوں۔ رسول(ص) سے مجھ کو زیادہ حق پہنچتا ہے اور اگر رائے مشورہ کر کے تم امت کے معاملات کے مالک بن بیٹھے تو یہ رائے مشورہ کیسا جبکہ رائے مشورہ دینے والے ہی غائب تھے۔”(1)

--------------

1ـ یہ دونوں اشعار نہج البلاغہ میں موجود ہیں۔ علامہ ابن ابی الحدید ان دونوں شعرون کی تفسیر میں شرح نہج البلاغہ جلد4 صفحہ319 میں لکھتے ہیں کہ ان دونوں شعرون میں امیرالمومنین(ع) کا خطاب اصل میں ابوبکر سے ہے اس لیے کہ ابوبکر نے اںصار کے مقابلہ میں یہ دلیل قائم کی تھی کہ :“نحن‏ عترة رسول الله ص و بيضته التي تفقأت عنه ”ہم آںحضرت کی قوم کے لوگ ہیں اور وہ انڈا ہے جو انھیں میں سے پھوٹا ہے ( یعنی قریشی ہیں) اور جب حضرت ابوبکر کی بیعت سقیفہ میں ہوگئی تو اب لوگوں کے سامنے یہ دلیل پیش کرنے لگے کہ ہماری تو بیعت ہوچکی اور اہ حل و عقد نے ہماری بیعت کی اسی پر امیرالمومنین(ع) نے ابوبکر سے کہا کہ آپ نے اںصار کے مقابلہ میں یہ جو دلیل پیش کی کہ ہم رسول کے قوم و قبیلہ والے ہیں اور وہ انڈا ہے جو انھیں میں سے پھوٹا ہے تو آپ کا غیر یعنی میں بلحاظ رشتہ و قرابت آپ سے کہیں زیادہ قریب تر ہوں رسول(ص) سے ۔ اگر آپ ہیں تو قوم و قبیلہ سے ہیں اور میں تو رسول(ص) کا حقیقی چچا زاد بھائی ہوں اور آپ یہ دلیل جو پیش کرتے ہیں کہ لوگوں نے ہمیں منتخب کیا ہے اور جماعت اسلام ہمیں خلیفہ بنانے پر راضی ہوگئی تو ایک بڑی جماعت سقیفہ سے غائب تھی ۔ بہت سے لوگ شریک ہی نہ ہوئے لہذا کس طرح آپ کی خلافت درست ہے شیخ محمد عبدہ مفتی و یار مصر یہ جنھوں نے اپنے حواشی نہج البلاغہ پر تحریر کیے ہیں انھوں نے بھی امیرالمومنین(ع) کے ان دونوں شعروں پر ابن ابی الحدید کی عبارت سے ملتا جلتا حاشیہ تحریر کیا ہے۔

۴۵۵

ایسی ہی دلیل ایک مرتبہ جناب عباس نے بمقابلہ ابوبکر پیش کی تھی۔ جبکہ ایک مرتبہ خلافت کی بات چیت ان دونوں کے درمیان چھڑی تو جناب عباس نے فرمایا:

“ اگر تم رسول(ص) کے ذریعہ سے قرابت جتا کر یہ خلافت حاصل کی ہے تو تم نے ہم لوگوں کا حق چھینا ہے کیونکہ تم سے زیادہ ہم رسول(ص) سے قرابت رکھتے ہیں اور اگر مومنین کے ذریعہ تم نے یہ خلافت حاصل کی ہے تو مومنین میں تو ہم مقدم ہیں اگر مومنین کے توسط سے یہ خلافت تمھیں پہنچتی ہے تو جب ہم ہی ناپسند کرتے ہیں ہم ہی تمھیں خلیفہ بنانے پر راضی نہیں تو پھر کیسی تمھاری خلافت ؟”

تو جب پیغمبر(ص) کے چچا پیغمبر(ص) کے باپ کے بھائی یہ حضرات فرمائیں رسول(ص) کے چچا زاد بھائی رسول(ص) کے ولی اور بھائی اورجملہ قرابتدارانِ رسول(ص) اس سے بے تعلقی ظاہر کریں تو اجماع کہاں سے ہوگیا؟

                                                             ش

۴۵۶

مکتوب نمبر 41

اختلافات ختم ہونے کے بعد اجماع منعقد ہوگیا

اہل سنت اس سے انکار نہیں کرتے کہ بیعت مشورہ سے نہیں ہوئی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ بالکل ناگہانی اور دفعتہ ہوئی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس موقع پر اںصار نے مخالفت کی اور سعد کو خلیفہ بنانا چاہا تھا اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ اس بیعت کے بنی ہاشم بھی مخالف تھے اور مہاجرین و اںصار میں بنی ہاشم کے طرفدار تھے انھوں مخالفت کی اور سب حضرت علی(ع) ہی کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ امر خلافت آخر میں حضرت ابوبکر کے لیے پایہء تکمیل کو پہنچ گیا اور آخر کار سب نے انھیں

۴۵۷

 امام بنانا پسند کر لیا۔ لہذا جب سب نے امام بنانا پسند کر لیا تو وہ نزاع یک قلم برطرف ہوگئی۔ اختلافات ایک ساتھ دور ہوگئے اور سب نے جناب ابوبکر کو بوجھ بٹانے ، خیرخواہی کرنے پر اتفاق کر لیا۔ لہذا جس سے حضرت ابوبکر نے جنگ کی سب نے اس سے جنگ کی اور جس سے ابوبکر نے صلح کی سب نے اس سے صلح کی اور ان کے اوامر و نواہی اور احکامات کو جاری کیا اور کسی نے بھی انکی اطاعت سے گریز نہیں کیا لہذا اس بنا پر اجماع مکمل ہوگیا اور بیعت خلافت صحیح ٹھہری ۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مسلمانوں کو جب کہ ان میں پرا گندگی پھیل چکی تھی ایک نقطہ پراکٹھا کیا اور ان کے دلوں کو جب باہمی نفرت و بیزاری پیدا ہوچکی تھی ملا دیا۔

                                                             س

جواب مکتوب

مسلمانوں کو حضرت ابوبکر کا بوجھ بٹانے اور ظاہر و باطن میں ان کی خیر خواہی پر اتفاق کر لینا اور چیز ہے اور اجماع کے ذریعہ عقدِ خلافت کا صحیح ہونا دوسری چیز ہے۔ ان دونوں میں نہ تو عقلی تلازم ہے نہ شرعی ۔ کیونکہ امیرالمومنین(ع) اور آپ کی اولاد میں جو ائمہ طاہرین(ع) ہوئے ان کا جو طرز عمل شاہان اسلام کے ساتھ رہا وہ دنیا کو معلوم ہے انھوں نے ہمیشہ کٹھن وقتوں مٰیں ان کی مدد کی اور یہی ہم لوگوں کا بھی مسلک ہے۔

آپ نے جو کچھ کہا ہے اس کے جواب میں میں اس کی تفصیل عرض کرتا ہوں۔

۴۵۸

ائمہ طاہرین علیہم السلام کا نظریہ یہ رہا کہ امتِ اسلام کو سربلندی اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک ایک ایسی سلطنت نہ ہو جو مسلمانوں کی شیرازہ بندی کرے ، ان کے اختلافات و پراگندگی کو دور کرے ، سرحدوں کی حفاظت کرے، مسلمانوں کے حالات پر کڑی نظر رکھے اور یہ سلطنت اسی وقت استوار ہوسکتی ہے جب خود رعایا اپنی جان و مال سے اس کا بوجھ بٹائے حکومت سے تعاون کرے اگر زمامِ سلطنت کا حاکم شرعی ( یعنی رسول اﷲ(ص) کے صحیح جانشین و نائب) کے ہاتھ میں رہنا ممکن ہو تو بس وہی فرمان روا ہوگا کوئی دوسرا نہیں اور یہ متعذر ہو اور مسلمانوں پر حاکم شرعی کے علاوہ کوئی دوسرا مسلط ہوجائے تو اس صورت میں امت اسلام پر واجب ہے کہ ہر ایسے معاملہ میں جس میں اسلام کی عزت و شوکت سرحدوں کی حفاظت ، ملک کا امن و امان منحصر ہو، بادشاہ سے تعاون کرے۔ مسلمانوں میں افتراق نہ پیدا کر ۔ اس سے ٹکرا کر مسلمانوں کے شیرازہ کو منتشر نہ کردے ۔ بلکہ امت پر یہاں تک واجب ہے کہ اس بادشاہ سے اس طرح پیش آئے جس طرح خلفاء برحق سے اسے پیش آنا چاہیے ۔ زمین کا خراج و لگان ادا کرے چوپایوں کی زکوة دے نیز اس قسم کی چیزیں جو بادشاہ نے خراج ولگان کے طور پر لوگوں سے حاصل کی ہوں مسلمانوں کے لیے اس کا لینا بھی جائز ہے ۔خرید و فروخت کے ذریعہ انعام و بخشش کے طور پر یا اور جو صورتیں پانے کی ہوں۔

یہی طرز عمل امیرالمومنین(ع) کا رہا اور آپ کی نسل سے جو ائمہ طاہرین(ع) ہوئے ان کا مسلک بھی یہی رہا۔ حضرت سرورکائنات(ص) نے فرمایا کہ :

“ میرے بعد بڑے بڑے انقلابات پیش آئین گے اور بہت سی ناگوار باتوں کا تمھیں سامنا ہوگا۔”
۴۵۹

لوگوں نے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) اگر ہم میں سے کوئی شخص اس زمانے میں رہے تو کیا حکم ہے آپ کا ؟ آںحضرت (ص) نے فرمایا کہ :

“ تمھارے ذمہ جو حقوق آتے ہوں انھیں ادا کر دو اور خود اپنے حقوق کے لیے درگاہِ الہی سے سوال کرو۔”(1)

جناب ابوذر غفاری فرماتے ہیں کہ :

“ میرے خلیل پیغمبر خدا(ص) نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں سنوں اور اطاعت کروں اگرچہ وہ دست و پابریدہ غلام ہی کیوں نہ ہو۔”(2)

سلمہ جعفی نے رسول اﷲ(ص) کی خدمت میں سوال کیا کہ یا حضرت کیا حکم ہے آپ کا اگر ہم پر ایسا شخص حاکم بن بیٹھے جو اپنے حقوق تو ہم سے وصول کرے لیکن ہمارے حقوق ہمیں نہ دے ۔ سرورکائنات(ص) نے فرمایا :

“ تم ان کی بات سنو ، ان کی اطاعت کرو کیونکہ وہ اپنے فرائض کے جواب دہ ہیں تم اپنے فرائض کے۔”(3)

حذیفہ بن یمان سے ایک حدیث مروی ہے جس میں آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ :

 “ میرے بعد کچھ ایسے بھی ائمہ ہوں گے جو نہ میری راہ پر چلیں گے نہ میری سنت پر عمل کریں گے۔ عنقریب ان میں کچھ ایسے افراد

--------------

1ـ صحیح مسلم جلد2 صفحہ118 میں یہ حدیث موجود ہے اور دیگر اصحاب صحاح و سنن نے بھی اس کی روایت کی ہے۔

2ـ صحیح مسلم جلد4 میں یہ حدیث موجود ہے اور مشہور احادیث میں ہے۔

3ـ صحیح مسلم و دیگر صحاح میں ہے۔

۴۶۰