دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)9%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272315 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

یہی وہ رجال تسبیح ہیں جن کے بارے مین خداوند عالم نے ارشاد فرمایا :

 “يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالْغُدُوِّ (1) وَ الْآصالِ رِجالٌ لا تُلْهيهِمْ تِجارَةٌ وَ لا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَ إِقامِ الصَّلاةِ وَ إيتاءِ الزَّكاةِ يَخافُونَ يَوْماً تَتَقَلَّبُ فيهِ الْقُلُوبُ وَ الْأَبْصارُ ” ( نور، 36 ۔37)

“ ان گھروں میں خداوند عالم کی تسبیح کیا کرتے ہیں صبح و شام ایسے مرد جنھیں خرید و فروخت خدا کے ذکر اور نماز قائم کرنے ، زکوة ادا

--------------

1 ـ مجاہد و یعقوب بن سفیان نے ابن عباس سے آیت “وَ إِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها وَ تَرَكُوكَ قائِماً (جمعہ،11) “ اور جب وہ کسی تجارت یا کھیل تماشے کو دیکھ پاتے ہیں تو اس طرف دوڑ پڑتے ہیں اور تمہیں کھڑا چھوڑ جاتے ہیں” کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ وحیہ کلثوم سامان تجارت لے کر جمعہ کے دن پلٹے اور مدینہ سے باہر آکر ٹکے اور طبل بچایا تاکہ لوگوں کو ان کی آمد کی اطلاع ہوجائے طبل کی آواز سن کر سب کے سب دوڑ پڑے اور رسول اﷲ(ص) کو منبر پر خطبہ پڑھتے چھوڑ دیا” صرف حضرت علی(ع) حسن(ع) و حسین(ع) ابوذر و مقداد رہ گئے۔ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا خداوند عالم نے  آج کے دن میری اس مسجد کی طرف نگاہ کی اگر یہ چند نفر نہ ہوتے تو پورا مدینہ آگ سے پھونک دیا جاتا اور ان لوگوں پر اسی طرح پتھر برسائے جاتے جیسا کہ قوم لوط پر برسائے گئے اور  جو لوگ پیغمبر(ص) کے پاس مسجد میں باقی رہ گئے ان کے بارے میں خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی“يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالْغُدُوِّ وَ الْآصالِ ۔۔الخ”

۸۱

کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن میں دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔”

انھیں کا گھر وہ گھر تھا جس کا ذکر خداوند عالم نے ان شاندار الفاظ میں فرمایا :

 “ في‏ بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فيهَا اسْمُهُ ”( نور، 36)

“ وہ قندیل ایسے گھروں میں روشن ہے جس کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے جن میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں(1) ۔”

خداوند عالم نے آیتِ نور میں انھیں کے مشکوة(2) کو اپنے نور کی مثال قرار دیا ہے اور اس کے تو زمین و آسمان میں بلند تر نمونے ہیں۔ وہ بڑی قوت و حکمت والا ہے یہی سبقت کرنے والے یہی مقربان بارگاہ(3) یہی صدیقین(4) یہ شہداء و صالحین ہیں۔

--------------

1 ـ ثعلبی نے اس آیت کی تفسیر میں انس بن مالک و بریدہ سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے آیت فی بیوت الخ کی تلاوت فرمائی تو حضرت ابوبکر نے کھڑے ہو کر علی(ع) و فاطمہ(س) کے گھر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) یہ گھر بھی ان گھروں میں سے ہے ؟ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہاں بلکہ ان سے بہتر گھروں میں ہے۔

2 ـ اشارہ ہے آیت مثل نورہ کمشکوة ۔۔۔۔الخ کی طرف جس کے متعلق حسن بصری اور ابو الحسن مغازلی شافعی سے روایت ہے کہ مشکوة سے مراد حضرت فاطمہ(س) مصباح سے حسنین(ع) اور شجرہ مبارکہ سے حضرت ابراہیم(ع) شرقی و غربی نہ ہونے سے حضرت فاطمہ(س) کا یہودی و نصرانی نہ ہونا یکاد زیتہا سے ان کی کثرت علم اور نور علی(ع) نور سے ایک امام کے بعد دوسرا امام یھدی اﷲ نورہ سے ان کی اولاد کی محبت مراد ہے۔

3 ـ دیلمی نے جناب عائشہ اور طبرانی ابن مردویہ ن جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا سبقت کرنے والے تین ہوئے موسی کی طرف سبقت کرنے والے ۔ یوشع بن نون۔ عیسی کی طرف یاسین اور میری طرف علی بن ابی طالب(ع) ۔ صواعق محرقہ باب9 فصل 2۔

4 ـ ابن نجار نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہےکہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا صدیقین تین ہیں۔ حبیب نجار مومن آل یاسین۔دوسرے حزقیل مومن آل فرعون، تیسرے علی بن ابی طالب(ع) اور یہ علی سب سے افضل ہیں۔

۸۲

انھیں کے متعلق اور انھیں کے دوستوں کے بارے میں خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

 “وَ مِمَّنْ خَلَقْنا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَ بِهِ يَعْدِلُونَ ”( اعراف، 181)

“ اور ہماری مخلوقات میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دین حق کی ہدیت کرتے ہیں اور حق ہی حق اںصاف بھی کرتے ہیں(1) ۔”

انھیں کی جماعت اور دشمنوں کی جماعت کے متعلق ارشاد ہوا:

 “لا يَسْتَوي أَصْحابُ النَّارِ وَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفائِزُونَ ” ( حشر، 20)

“ جہنم والے اور جنت والے دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ جنت والے ہی تو کامیاب ورستگار ہیں(2) ۔”

نیز انھیں حضرات کے دوستوں اور دشمنوں کے متعلق یہ بھی ارشاد ہوا:

--------------

1 ـ زاذان نے حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ عنقریب اس امت کے تہتر (73) فرقے ہوں گے ان میں سے بہتر(72) جہنمی اور ایک جنتی۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں خداوند عالم نے فرمایا و ممن خلقنا ۔۔ ۔ الخ اور یہ لوگ ہم ہیں اور ہمارے شیعہ ہیں ۔کتاب علامہ ابن مردویہ صفحہ276۔

2 ـ شیخ طوسی نے اپنی آمالی میں نہ اسناد صحیح امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے اس آیت کی تلاوت فرماکر کہا اصحاب نار وہ ہیں جو علی(ع) کی ولایت کو ناپسند کریں اور عہد توڑیں اور میرے بعد ان سے جنگ  کریں جناب صدوق نے بھی حضرت علی(ع) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے او علامہ اہلسنت وموفق بن احمد نے جناب جابر سے روایت کی ہے  کہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا قسم بخدا یہ(علی(ع)) اور ان کے شیعہ ہی قیامت کے دن رستگار ہیں۔

۸۳

 “أَمْ نَجْعَلُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ كَالْمُفْسِدينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقينَ كَالْفُجَّارِ ”( ص، 28)

“ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عمل صالح کیا ان لوگوں جیسا قرار دین گے جو زمین میں فساد پھیلانے والے ہیں یا ہم نیکوکار و پرہیز گار بندوں کو بدکاروں جیسا قرار دیں گے(1) ۔”

انھیں دونوں جماعتوں کے متعلق ارشاد خداوندِ عالم ہوا :

 “أَمْ حَسِبَ الَّذينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَواءً مَحْياهُمْ وَ مَماتُهُمْ ساءَ ما يَحْكُمُونَ ” (جاثیه، 21)

“ جو لوگ برے کام کیا کرتے ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کے برابر کردیں گے جو ایمان لائے اور اچھے کام بھی کرتے رہے  اور ان سب کا جینا مرنا ایک سا ہوگا۔ یہ لوگ کیا برے حکم لگاتے ہیں(2) ۔”

انھیں کے  متعلق اور ان کے شیعوں کے متعلق خداوند عالم کا ارشاد ہے:

 “  إِنَّ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ

--------------

1 ـ ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ آیت جناب علی(ع) اور حمزہ اور عبیدہ بن الحارث کے حق میں نازل ہوئی ہے، پس اس آیت میں وہ لوگ کہ کرتے ہیں برائیاں عتبہ اور شیبہ اور ولید ہیں اور وہ لوگ کہ ایمان لائے ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں وہ جناب علی(ع) اور حمزہ اور عبیدہ ہیں۔

2 ـ صواعق محرقہ، باب 9، فصل اول۔

۸۴

خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ” (البینہ، 7)

“ بہ تحقیق وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کیا وہی بہترین خلائق ہیں(1) ۔”

انھیں کے متعلق اور انھیں کے دشمنوں کے متعلق خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

 “هذانِ خَصْمانِ اخْتَصَمُوا في‏ رَبِّهِمْ فَالَّذينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيابٌ مِنْ نارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَميمُ ” ( حج، 19)

“ یہ دونوں مومن وکافر دو فریق ہیں جو آپس میں اپنے پرورگار کے بارے میں لڑتے ہیں پس جو لوگ کہ کافر ہیں ان کے لیے یہ آتشین لباس قطع کیا جائے گا اور ان کے سروں پہ کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔”

انھیں کے بارے میں اور انھیں کے دشمنوں کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی :

 “  أَ فَمَنْ كانَ مُؤْمِناً كَمَنْ كانَ فاسِقاً لا يَسْتَوُونَ

--------------

1 ـ امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری پارہ 3 صفحہ16 میں بسلسلہ تفسیر سورہ حج باسناد صحیحہ حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا میں سب سے پہلے خداوند عالم کے حضور بروز قیامت اپنا جھگڑا پیش کروں گا۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ قیس نے کہا یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جنھیں نے بدر کے روز جنگ کی وہ جناب حمزہ، اور علی(ع) اور عبیدہ بن الحارث اور عتبہ ، شیبہ اور ولید ہیں امام بخاری نے اس پرجناب ابوذر سے روایت کی ہے جناب ابوذر قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یہ آیت جناب حمزہ اور علی(ع) اور عبیدہ بن الحارث اور عتبہ و شیبہ اور ولید کے حق نازل ہوئی۔

۸۵

 أَمَّا الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوى‏ نُزُلاً بِما كانُوا يَعْمَلُونَ وَ أَمَّا الَّذينَ فَسَقُوا فَمَأْواهُمُ النَّارُ كُلَّما أَرادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْها أُعيدُوا فيها وَ قيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذابَ النَّارِ الَّذي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (1) ” ( سجدہ، 18،19،20)

“ بھلا وہ شخص جو ایمان والا ہو فاسق جیسا ہوسکتا ہے ؟ ( ہرگز نہیں) دونوں برابر نہیں ہوسکتے پس وہ لوگ جوکہ ایمان لائے اور عمل صالح کیا ان کے لیے جنات ماوی ہیں وہاں وہ فروکش ہوں گے یہ صلہ ہے ان کے اعمال خیر کا اور جولوگ  فاسق ہیں ان کا ٹھکانا جہنم ہے جب وہ اس میں سے نکلنا چاہیں گے دوبارہ اسی جہنم میں پلٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اس آتش جہنم کا مزہ چکھو جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔”

انھیں حضرات کے متعلق اور ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے ان سے حاجیوں

--------------

1 ـ یہ آیت بہ اتفاق مفسرین و محدثین حضرت امیرالمومنین(ع) اور ولید عتبہ بن ابی معیط کے متعلق نازل ہوئی۔ امام واحدی نے کتاب اسباب النزول میں سعید بن جبیر سے انھوں نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ولید بن عتبہ بن ابی معیط نے حضرت امیرالمومنین(ع) سے کہا میرا نیزہ تمھارے نیزے سے کہیں زیادہ تیز اور میری زبان تمھاری زبان سے کہیں زیادہ چلتی ہوئی اور لشکر میری وجہ سے کہیں زیادہ بھرا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت تمھارے۔ اس پر حضرت علی(ع) نے فرمایا خاموش بھی رہ کر تو فاسق کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسی واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی افمن کان مومنا کمن فاسقا ۔ اس آیت میں مومن سے مراد حضرت علی(ع) اور فاسق سے مراد ولید بن عتبہ ہے۔

۸۶

 کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی آباد کاری کی بدولت فخر و مباہات کی تھی خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی۔

 “أَ جَعَلْتُمْ سِقايَةَ الْحاجِّ وَ عِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ جاهَدَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ لا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمينَ (1) ”( توبه، 19)

“ کیا تم لوگوں نے حاجیوں کی سقائی اور  خانہ کعبہ کی آبادی کو اس شخص کے ہمسر بنا دیا ہے جو خدا کے اور روز آخرت پر ایمان لایا اور خدا کی راہ میں جہاد کیا۔ خدا کے نزدیک تو یہ لوگ برابر نہیں اور خداوندِ عالم ظالم لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا۔”

انھیں حضرات کے ابتلا و آزمائش میں بہ عمدگی پورے  اترنے اور شدائد و مصائب ہنسی خوشی جھیل جانے پر خداوندِ عالم نے ارشاد فرمایا :

--------------

1 ـ یہ آیت حضرت علی(ع) اور جناب عباس اور طلحہ بن شیبہ کی شان میں نازل ہوئی۔ واقعہ یہ ہوا تھا کہ ان لوگوں نے باہم فخر کیا طلحہ نے کہا تھا خانہ کعبہ کا میں متولی ہوں اس کی کنجیاں میرے پاس رہتی ہیں۔ عباس نے کہا میں زمزم کا متولی ہوں اور سقائی میرے ہاتھوں مین ہے۔ حضرت علی(ع) نے کہا کہ میری سمجھ نہیں آتا کہ تم دونوں کیا کہہ رہے ہو میں نے چھ مہینے لوگوں سے پہلے نماز پڑھی ہے اور میں خدا کے راستہ میں جہاد کرنے والا ہوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ علامہ واحدی نے کتاب اسباب النزول میں یہ روایت حسن بصری شبسی وغیرہ سے نقل کی ہے اور ابن سیرین و مرہ حمدانی سے منقول ہے کہ حضرت علی(ع) نے جناب عباس سے کہا آپ ہجرت نہیں کرتے؟ آپ رسول(ص) کے پاس نہ جائیے گا۔ جناب عباس نے کہا مجھے حاجیوں کی سقائی کا شرف پہلے سے حاصل ہے کیا یہ ہجرت کےشرف سے بڑھا ہوا نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۸۷

 “  وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْري نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ وَ اللَّهُ رَؤُفٌ بِالْعِبادِ (1) ” ( بقره، 207)

“ لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی کے لیے اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں اور خدا اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔”

نیز یہ بھی ارشاد فرمایا :

 “  إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى‏ مِنَ الْمُؤْمِنينَ أَنْفُسَهُمْ وَ أَمْوالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقاتِلُونَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَ يُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْراةِ وَ الْإِنْجيلِ وَ الْقُرْآنِ وَ مَنْ أَوْفى‏ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ

--------------

1 ـ امام حاکم نے مستدرک جلد3 صفحہ4 پر جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ قال شری علی نفسہ لیس ثوب النبی الحدیث۔ جناب ابن عباس نے کہا حضرت علی(ع) نے اپنا نفس فروخت کیا اور پیغمبر (ص) کی چادر اوڑھی ۔ امام حاکم نے تصریح کی ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کے معیار و شرائط پربھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے لکھا نہیں۔ ذہبی ایسے متشدد بزرگ نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔ امام حاکم نے اسی صفحہ پر امام زین العابدین(ع) سے یہ روایت بھی کی ہے کہ پہلے وہ شخص جنھوں نے اپنے نفس کو خوشنودی خدا کے لیے بیچا وہ علی بن ابی طالب(ع) ہیں جب کہ وہ شب ہجرت پیغمبر(ص) کے بستر پر سورہے۔ پھر امام حاکم نے اس موقع پر حضرت علی(ع) نے جو اشعار فرمائے تھے وہ اشعار نقل کیے ہیں جن کا پہلا شعر یہ ہے

                   وقيت بنفسی خير من وطا الحصا              ومن طاف بالبيت العتيق و بالحجر

میں نے جان پر کھیل کر اس بزرگ کی حفاظت کی جو ان تمام لوگوں میں جو سرزمین بطحا پر چلے درجنوں نے خانہ کعبہ اور حجر اسود کا طواف کیا بہتر و افضل ہیں۔”

۸۸

الَّذي بايَعْتُمْ بِهِ وَ ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظيمُ التَّائِبُونَ الْعابِدُونَ الْحامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنينَ ” (توبہ، 111۔112)

“ اس میں تو شک نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر خرید لیے ہیں کہ ( ان کی قیمت) ان کے لیے بہشت ہے( اسی وجہ سے) یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو ( کفار کو) مارتے ہیں اور (خود بھی) مارے جاتے ہیں ( یہ ) پکا وعدہ ہے ( جس کا پورا کرنا ) خدا پر لازم ہے ( اور ایسا پکا ہے کہ) توریت اور انجیل اور قرآن (سب) میں ( لکھا ہوا) ہے اور اپنے عہد کا پورا کرنے والا خدا سے بڑھ کر اور کون  ہے تو تم اپنی ( خرید) فروخت سے جو تم نے خدا سے کی ہے خوشیاں مناؤ یہی تو بڑی کامیابی ہے ( یہ لوگ ) توبہ کرنے والے عبادت گزار ( خدا کی ) حمد و ثنا کرنے والے ( اس کی راہ میں) سفر کرنے والے رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے نیک کام کا حکم کرنے والے اور برے کام سے روکنے والے اور خدا کی ( مقرر کی ہوئی) حدوں کے اوپر نگاہ رکھنے والے ہیں اور ( اے رسول(ص)ان ) مومنین کو ( بہشت کی ) خوشخبری دے دو۔”

نیز ارشاد فرمایا :

 “الَّذينَ يُنْفِقُونَ أَمْوالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَ النَّهارِ سِرًّا

۸۹

وَ عَلانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ (1) ” ( بقرہ، 274)

“ جو لوگ کہ اپنے مالوں کو رات اور دن میں ظاہر بہ ظاہر اور چھپا کر ( راہ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کا صلہ ہے ان کے پروردگار کے نزدیک ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ اندوہ گین ہوں گے۔”

انھیں نے صدق دل سے پیغمبر(ص) کی سچائی کی تصدیق کی اور خداوندِ عالم نے ان کی اس تصدیق کی ان الفاظ میں گواہی دی :

 “  وَ الَّذي جاءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ (2) بِهِ أُولئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ” (زمر، 33)

“ اور یاد رکھو کہ جو رسول(ص) سچی بات لے کر آئے ہیں اور جس نے

--------------

1 ـ جملہ محدثین و مفسرین نے بسلسلہ اسناد جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیت حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ آپ کے پاس چار درہم تھے آپ نے ایک درہم شب میں ایک دن میں ، ایک چھپا کر، ایک ظاہر بظاہر راہ خدا میں صدقہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ تفسیروحیدی ص16، تفسیر معالم التنزیل ص135، تفسیر بیضاوی،جلد 1، ص125 تفسیر نیشاپوری، ص278 تفسیر کبیر رازی، جلد2، ص528 تفسیر روح المعانی جلد1، صفحہ 495 وغیرہ۔

2 ـالَّذي جاءَ بِالصِّدْقِ سے مراد پیغمبر(ص) صدق بہ سے مراد امیرالمومنین(ع) ہیں۔ جیسا کہ امام محمد باقر(ع) و جعفر صادق(ع) و موسی کاظم(ع) و امام رضا(ع) اور عبداﷲ بن عباس ، ابن حذیفہ ، عبداﷲ بن حسن ، زید شہید و غیر ہم نے تصریح کی ہے۔ خود امیرالمومنین(ع) اس آیت کے ذریعہ احتجاج فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی اور میں مراد ہوں۔ ابن مغازلی نے بھی اپنی مناقب میں مجاہد سے اس مضمون کی روایت کی ہے اور حافظ ابن مردویہ اور حافظ ابو نعیم نے بھی۔

۹۰

ان کی تصدیق کی یہی لوگ تو پرہیز گار ہیں۔”

پس یہی حضرات حضرت رسول خدا(ص) کی مخلص جماعت اور آپ کے قریبی رشتہ دار  ہیں جنھیں خداوند عالم نے اپنی بہترین رعایت اور بلندترین توجہ کے ساتھ مخصوص فرمایا اور ارشاد فرمایا :

 “وَ أَنْذِرْ عَشيرَتَكَ الْأَقْرَبينَ ” ( شعراء، 214)

“ اے پیغمبر(ص) اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو خدا کا خوف دلاؤ۔”

یہی پیغمبر(ص) کے اولی الارحام ہیں اور اولی الارحام بعض بعض سے مقدم و اولیٰ ہیں کتاب الہی میں یہ پیغمبر(ص) کے قریبی رشتہ دار اور قریبی رشتہ دار بھلائی کے  زیادہ حق دار ہوتے ہیں۔ یہی بروز قیامت پیغمبر(ص) کے درجے میں ہوں گے اور جنتِ نعیم میں آپ کے ساتھ ساتھ ہوں گے جس پر دلیل خداوند عالم کا یہ قول ہے۔

 “وَ الَّذينَ آمَنُوا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإيمانٍ أَلْحَقْنا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ ما أَلَتْناهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ (1) ” (طور، 21)

“ جو لوگ کہ ایمان لائے اور ان کی ذریت نے بھی ایمان لا کر اتباع کیا تو ہم ان کی ذریت کو بھی انھٰیں سے ملحق کردیں گے اور ان کے اعمال میں سے رتی برابر کمی نہ کریں گے۔”

یہی وہ حق دار حضرات ہیں جن کے حق کی ادائیگی کا قرآن نے ان الفاظ

--------------

1 ـ امام حاکم نے مستدرک جلد2 صفحہ468 پر بسلسلہ تفسیر سور طور ابن عباس سے اس آیت کے متعلق روایت کی ہےابن عباس نے کہا کہ خداوند کریم مومن کی ذریت کو بھی جنت کے اسی درجے میں رکھے گا جس میں وہ مومن ہوگا اگرچہ بلحاظ اعمال کمتر ہو پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور کہا کہ وما التناہم کا مطلب یہ ہے کہ وما نقصناھم یعنی ہم کوئی کمی نہ کریں گے۔

۹۱

 میں حکم سنایا :

 “  وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ (1) ” ( اسراء، 26)

“ صاحبان قرابت کو ان کا حق دے دو۔”

یہی وہ صاحبان خمس ہیں کہ جب تک ان کو خمس نہ پہنچا دیا جائے انسان بری الذمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ارشاد الہی ہے:

 “ وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى‏ (2) ” ( انفال، 41)

“ سمجھ رکھو کہ تم جو کچھ مال غنیمت حاصل کرو تو اس کا پانچواں حصہ خدا کا ہے اور رسول(ص) کا اور رسول(ص) کے قرابت داروں کا۔”

یہی وہ صاحبان فئی ہیں جن کے متعلق خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

“ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى‏ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرى‏ فَلِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى‏ ( حشر، 7)

خداوندِ عالم نے دیہات والوں سے جو مال بطور خالصہ بلا حرب و ضرب رسول(ص) کو دلوایا ہے وہ اﷲ کے لیے ہے اور رسول(ص) کے لیے اور صاحبان قرابت کے لیے اور یہی وہ اہل بیت(ع) ہیں جن سے آیہ “إِنَّما يُريدُ اللَّهُ

--------------

1 ـ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آںحضرت(ص) نے جبرائیل(ع) سے پوچھا ، قرابت والے کون ہیں اور ان کا حق کیا ہے۔ جواب دیا فاطمہ(س) کو فدک دے دیجیے کہ یہ انھیں کا حق ہے اور جو کچھ فدک میں خدا و رسول(ص) کا حق  ہے وہ بھی انھیں کے حوالے کر دیجیے پس رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ(س) کو بلا کر وثیقہ لکھ کر فدک ان کے حوالے کردیا۔تفسیر در منثور جلد4، صفحہ177، وغیرہ۔

2 ـ تفسیر روح المعانی جلد 3 صفحہ 637، تفسیر نیشاپوری، جلد10، صفحہ15 وغیرہ۔

۹۲

لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً ” ( احزاب، 33) خطاب کیا گیا۔

یہی وہ آل یسین ہیں جن پر خداوند عالم سلام بھیجا اور ارشاد ہوا : سلام(1) علیٰ آل یسین۔ یہی وہ آل محمد(ص) ہیں جن پر درود و سلام بھیجنا خداوند عالم نے بندوں پر فرض قرار دیا اور ارشاد ہوا :

 “  إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً ” ( احزاب، 56)

“ تحقیق کہ خداوند عالم اور ملائکہ نبی(ص) پر درود بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو تم بھی درود و سلام بھیجا کرو۔”

لوگوں نے پیغمبر(ص) سے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) ہم آپ پر سلام کیونکر کریں یہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن یہ ارشاد ہو کہ درود آپ کی آل پر کیونکر بھیجا جائے تو آپ نے ارشاد

--------------

1 ـ  علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ باب 11 میں بسلسلہ ان آیات کے جو اہل بیت(ع) کی شان میں  نازل ہوئیں تیسری آیت یہ بھی لکھی ہے اور لکھا ہے کہ مفسرین کی ایک جماعت نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہاں آیت میں مراد سلام علی آل محمد ( آل محمد پر سلام ہو) علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ کلبی نے بھی ایسا ہی کہا ہے اور فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ پیغمبر(ص) کےاہل بیت(ع) پانچ چیزوں میں پیغمبر(ص) کے برابر حصہ دار ہیں۔ سلام میں  خداوند عالم نے پیغمبر(ص) سے کہا السلام علیک ایہا النبی اور اہل بیت (ع) کے لیے کہا سلام علی آل یسین دوسرے تشہد مین درود بھیجے جاتے ہیں تیسرے طہارت میں پیغمبر(ص) سے فرمایا طہ اے طیب و طاہر اور اہل بیت(ع) کے لیے آیت تطہیر نازل ہوئی چوتھے صدقہ حرام ہونے میں پانچویں محبت میں رسول کے لیے فرمایا :فاتبعونی يحببکم اﷲ اور اہل بیت(ع) کے لیے ارشاد فرمایا:قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى (شوری، 23)

۹۳

فرمایا یوں کیا کرو :

الل ه م صل علی محمد و علی آل محمد”

لہذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان حضرات پر درود بھیجنا پیغمبر(ص) پر درود بھجنے کا جزو ہے جب تک آپ کی آل(ع) کو بھی شامل کر کے درود نہ بھیجا جائے تب تک پیغمبر(ص) پر درود پورا نہ ہوگا اسی وجہ سے علماء و محققین نے اس آیت کو بھی ان آیات میں شمار کیا ہے جو اہل بیت(ع) کی شان  میں نازل ہوئیں۔ چنانچہ علامہ ابن حجر مکی نے بھی صواعق محرقہ باب 11 میں اس آیت کو منجملہ  ان آیات کے شمار کیا ہے جو اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئیں۔ پس یہی منتخب و برگزیدہ بندگان الہی  ہیں بحکم خدا نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ یہی وارثان کتاب خدا ہیں جن کے بارے میں خداوندِ عالم نے فرمایا ہے:

 “ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سابِقٌ بِالْخَيْراتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبيرُ (1) ۔” ( فاطر، 32)

--------------

1 ـ ثقتہ الاسلام کلینی علیہ الرحمہ نے بہ سند صحیح سالم سے روایت کی ہے کہ سالم کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر(ع) سے اس آیت  ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا  آیت میں سابق بالخیرات ( نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والا) سے مراد امام اور مقتصد ( میانہ رو) سے مراد امام کی معرفت رکھنے والا اور ظالم لنفسہ ( اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والا) سے مقصود وہ ہے جو امام سے بے گانہ و نا آشناہو ۔ اسی مضمون کی روایت کلینی نے امام جعفر صادق(ع) امام موسی کاظم(ع) اور امام رضا علیہ السلام سے بھی کی  ہے۔ علمائے اہلسنت میں حافظ  ابن مردویہ  نے اس حدیث کی روایت امیرالمومنین(ع) سے کی ہے۔

۹۴

“ پھر ہم نے اپنی کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں منتخب کیا ہے، پس لوگوں میں بعض تو ایسے ہیں جو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں ( اور یہ وہ لوگ ہیں جو امام کی معرفت نہیں رکھتے) اور بعض میانہ رو ہیں ( یعنی دوستدارن ائمہ) اور بعض نیکیوں کی طرف بحکم خدا سبقت کرنے والے ہیں( یعنی امام ) اور یہ بہت بڑا فضل ہے۔”

اہل بیت طاہرین(ع) کی شان میں نازل شدہ اتنی ہی آیات بیان کرنے پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔

جناب ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ تنہا حضرت عی(ع)  کی شان میں تین سو آیتیں(1) نازل ہوئیں اور ابن عباس کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بیان ہے کہ ایک چوتھائی قرآن اہل بیت(ع) کے متعلق نازل ہوا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہلبیت(ع) اور قرآن ایک جڑکی دوشاخین ہیں جو کبھی جدا نہیں ہوسکتیں۔ ہم انہیں چند آیتوں پر بس کرتے ہیں۔ انھیں میں غور فرمائیے آپ پر حقیقت و امر واقع بخوبی واضح ہوجائے گا۔

                                                                                                                                                                             ش

--------------

1 ـ جیسا کہ ابن عساکر نے ابن عباس سے روایت کی ہے ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب 9، فصل 3 صفحہ2۔

۹۵

مکتوب نمبر7

جناب مولانائے محترم ! تسلیم

گرامی نامہ سبب عزت افزائی ہوا۔ سبحان اﷲ آپ کے زور بیان قوتِ تحریر کی داد نہیں دی جاسکتی۔ آپ نے جتنی باتیں تحریر فرمائیں ان میں کسی کا مجال تکلم نہیں جو کچھ آپ نے لکھا صحیح لکھا البتہ ایک کھٹک دل میں رہی جاتی ہے۔ اعتراض کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ جنھوں نے اہل بیت(ع) کے متعلق ان آیات کے نازل ہونے کی روایت کی ہے وہ شیعہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں حضرات اہل سنت کے لیے حجت نہیں۔ براہ کرم اس اعتراض کا دفعیہ فرمائیے۔

                                                                     س

۹۶

جواب مکتوب

محترمی تسلیم!

آپ نے جو اعتراض پیش کیا وہ درست نہیں۔ اعتراض کے دونوں ٹکڑے غلط ہیں۔ یہ بھی کہ جنھوں نے ان آیات کے شانِ نزول کےمتعلق روایت کیا ہے وہ شیعہ تھے اور یہ بھی کہ شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں حضرات اہل سنت کے لیے حجت نہیں۔ اعتراض کا پہلا حصہ تو یوں درست نہیں کہ ان آیات کے شانِ نزول کے متعلق صرف شیعوں ہی نے روایت نہیں کی بلکہ معتبر و موثق علماء اہل سنت نے بھی روایتیں کی ہیں ۔ ان کی سنن اور مسانید اٹھا کر دیکھیے آپ کو نظر آئے گا کہ انھوں نے ان روایتوں  کو شیعوں سے کہیں زیادہ طریقوں سے ذکر کیا ہے۔ اگر شیعہ علماء نے کسی آیت کے متعلق چار طریقوں سے روایت کی ہے کہ یہ آیت اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئی تو حضرات اہل سنت نے دس طریقوں سے روایت کی ہے۔

رہ گیا اعتراض کا دوسرا ٹکڑا کہ شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں اہلسنت کے لیے حجت نہیں تو یہ اور بھی غلط ہے جیسا کہ علماء اہلسنت کی کتب حدیث گواہ ہیں حضرات اہل سنت کے طریق و اسناد میں ایک دو نہیں بکثرت شیعہ راوی ملتے ہیں۔ اور شیعہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ نامی گرامی ، جن کی شیعیت  سے دنیا واقف ہے۔وہ شیعہ جنھیں برا کہا جاتاہے، گمراہ سمجھا جاتا ہے ، رافضی کہہ کر پکارا  جاتا ہے۔ انھیں شیعوں کی روایتیں آپ کے صحاح ستہ میں بھی موجود ہیں اور ان کے علاوہ دیگر حدیث کی کتابوں میں بھی۔ خود امام بخاری کے شیوخ میں بہت سے ایسے شیعوں کے نام ملتے ہیں

۹۷

 جنھیں رافضی مخالف وغیرہ کہا جاتا ہے مگر پھر بھی امام بخاری نے ان سے استفادہ کیا ، ان سے روایتیں لیں۔ امام بخاری نے بھی ان کی روایت کردہ حدیثیں اپنی صحیح میں درج کی ہیں اور دیگر اصحاب نے بھی۔ ان تمام حقائق کے باوجود یہ کہنا کس طرح درست ہوسکتا ہے کہ شیعوں کی روایت حضرات اہلسنت کے لیے حجت نہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والوں کو حقیقت کا علم ہی نہیں۔ اگر معترضین اس حقیقت کو ذہن نشین کر لیں کہ شیعہ اہلبیت(ع) کے پیرو انھیں کے اصولوں کے پابند اور ان کے اوصاف و محاسن کو پرتو ہیں اندازہ ہو کہ وہ کس قدر اعتماد و اعتبار کے لائق ہیں لیکن ناواقف نے ایک اشتباہ کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے کس قدر لائق ماتم ہے یہ امر کہ محمد بن یعقوب کلینی ایسے بزرگ جنھیں دنیا ثقتہ الاسلام کے لقب سے یاد کرتی ہے محمد بن علی بن بابویہ القمی جو مسلمانوں کے صدوق کہے جاتے ہیں، محمد بن حسن طوسی جنھیں شیخ الامہ کہا جاتا ہے محض شیعیت کے جرم میں معترضین کے نزدیک اعتبار کے قابل نہ سمجھے جائیں اور ان کی پاکیزہ صفات جو علوم آلِ محمد(ص) کا خزینہ ہیں حقارت کی نظر سے دیکھی جائیں ایسے بزرگوں کے متعلق شک وشبہ سے کام لیا جائے جو جامع علوم و کمالات تھے۔ روئے زمین پر قطب و ابدال کی حیثیت رکھتے تھے جنھوں نے خدا و رسول(ص) کی اطاعت احکامِ الہی کی تبلیغ و اشاعت مسلمانوں  کی خیر خواہی و رہبری میں اپنی عمریں تمام کردیں۔

معمولی سے معمولی شخص واقف ہے کہ یہ مقدس حضرات جھوٹ کو کتنا بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنی ہزاروں کتابوں میں جھوٹوں پر لعنت کی ہے اور صراحت کی ہے کہ حدیثِ پیغمبر(ص) میں جھوٹ بولنا ہلاکت و عذاب دائمی کا سبب ہے حدیث میں جھوٹ بولنا تو اتنا بڑا گناہ سمجھا ہے ان لوگوں نے کہ روزہ توڑ دینے

۹۸

 والی چیزوں میں قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان میں عمدا جھوٹی حدیث بیان کرے تو ان حضرات کا فتوی ہے کہ اس شخص کا روزہ باطل ہوگیا۔ اس پر روزہ کی قضا بھی لازم ہے اور کفارہ بھی دینا ضروری ہے جس طرح دیگر مفطرات کا حکم ہے بعینہ جھوٹی حدیث بیان کرنے کا بھی۔ جب کذب کو وہ ایسا امر عظیم سمجھتے ہیں تو خدا را انصاف سے فرمائیے کہ خود ایسے حضرات کے متعلق جو صالحین و ابرار عابد شب زندہ دار ہوں ایسا وہم و گمان بھی کیا جاسکتا ہے؟

ہائے ہائے ! شیعیانِ آل محمد(ص) اہل بیت(ع) کے پیرو متہم سمجھے جائیں اور ان کی بیان کی ہوئی حدیثوں پر کذب و افترا کا شک وشبہ کیا جائے۔ ان کے اقوال ٹھکرا دینے کے قابل سمجھے جائیں اور خارجی ناصبی خدا کو مجسم ماننے والے افراد کی حدیثیں سر آنکھوں پر رکھی جائیں۔ وہ جو کچھ بیان کریں آمنا و صدقنا کہہ کر تسلیم کر لیا جائے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ سمجھی جائے۔ یہ تو کھلی ہوئی نا انصافی صریحی جفا پروری ہے۔ خدا محفوظ رکھے۔

                                                                     ش

۹۹

مکتوب نمبر8

حضرت مولانائے محترم ! تسلیم!

آپ کا تازہ مکتوب موصول ہوا۔ آپ کی تحریر اتنی متین، دلائل سے پر اور حقائق سے لبریز تھی کہ میرے لیے چارہ کار ہی نہیں سوا اس کے کہ جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا ہے ایک ایک لفظ تسلیم کرلوں۔ البتہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرات اہل سنت نے بکثرت شیعہ راویوں سے روایتیں لی ہیں، اسے آپ نے بہت مجمل رکھا۔ آپ کو ذرا تفصیل سے کام لینا چاہیے تھا۔ مناسب تھا کہ آپ ان شیعہ راویوں کے نام بھی تحریر فرماتے نیز ان کی شیعیت کے متعلق حضرات اہل سنت کا اقرار بھی ذکر کرتے۔ امید ہے کہ آپ میرا مقصد سمجھے گئے ہوں گے۔

                                                                             س

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

مکتوب نمبر ۳۹

جناب ام سلمہ کی حدیث کو ترجیح کیوں کر۔۔۔۔۔؟

آپ نے جناب ام سلمہ کی حدیث کو ترجیح دینے میں جو کچھ کہا اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ اس کے دعویدار ہیں کہ بہت سی وجہوں سے جناب ام سلمہ کی حدیث قابل ترجیح ہے۔ تو براہ کرم وہ بہت سی وجہیں بھی ذکر کردیجیے کوئی وجہ چھوڑیے گا نہیں۔ کیونکہ یہ بحث و مباحثہ اور افادہ و استفادہ کا محل ہے۔

                                                                     س

۴۴۱

جواب مکتوب

جناب ام سلمہ کی حدیث کے مقدم و ارجح ہونے کے اسباب

جناب ام سلمہ(۱) کے کج ہو جانے پر قرآن نے ںص نہیں کی۔ انھیں کلام مجید میں توبہ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ نبی(ص) سے  سرکشی کرنے پر کلام مجید میں ان کے متعلق کوئی آیت نہیں اتری نہ انھوں نے بعد رسول(ص) ، رسول(ص) کے وصی(۲) سے سرکشی کی، نہ ان کے مقابلہ میں رسول(ص) کی مدد کرنے کے لیے خدا کو جبرئیل(ع)

--------------

۱ـ اشادہ ہے خداوند عالم کے قول  “إِنْ تَتُوبا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُما” کی طرف

۲ـ وصی رسول(ص) سے سرکشی یوں کہ ان کے وصی رسول(ص) ہونے سے انکار کیا اور حضرت سرورکائنات(ص) کے بعد جتنے دن جیتی رہیں حضرت علی(ع) کی طرف سے انتہائی عداوت دل میں لیے رہیں۔ رسول(ص) کے ساتھ ان کی سرکشی اور خداوند عالم کا اپنے رسول(ص) کی مدد کے لیے آمادہ ہونا تو اس پر خود یہ آیت دلالت کرتی ہے “وَ إِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ وَ جِبْريلُ وَ صالِحُ الْمُؤْمِنينَ وَ الْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهيرٌ ” اگر تم دونوں یعنی عائشہ و حفصہ رسول(ص) سے سرکشی کرو گی  تو سمجھ لو رسول(ص) کا خدا مددگار ہے اور جبریل اور صالح المومنین اور اس کے بعد ملائکہ بھی پشت پناہ ہیں۔

۴۴۲

 امین کو اور صالح المومنین کو اور ملائکہ کو آمادہ ہونا پڑا۔ نہ انھیں خدا نے طلاق کی دھمکی دی نہ ان کو اس سے ڈرایا گیا کہ تمھارے بدلہ میں تم سے بہتر زوجہ(۱) کو

ملے گی نہ انھیں زوجہ نوح(ع) و زنِ لوط(ع)(۲) سے مثال دی گئی انھوں نے کبھی ایسا نہ کیا کہ رسول(ص) پر ایسی چیز حرام کر دی ہو جو خدا نے رسول(ص) کے لیے جائز کی تھی(۳) ۔ رسول اﷲ(ص) نے منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ فرماتے ہوئے ان کے گھر کی طرف اشارہ نہیں کیا کہ ھا ھنا الفتنہ ” یہیں فتنہ ہے جہاں شیطان کا سینگ ابھرتا نظر آرہا ہے۔(۴)

جناب ام سلمہ کے آداب ایسے نہیں تھے کہ رسول(ص) نماز پڑھ رہے ہوں

--------------

۱ـ یہ فقرہ اور اس کے قبل کا جملہ اشارہ ہے قول خداوند عالم کی طرف “عَسى‏ رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْواجاً خَيْراً مِنْكُنَّ مُسْلِماتٍ مُؤْمِناتٍ ”

۲ـ اشارہ ہے طرف آیہ “ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَ امْرَأَتَ لُوطٍ ” کے ۔

۳ـ اشارہ ہے طرف آیہ “يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغي‏ مَرْضاتَ أَزْواجِكَ ”

۴ـ اس حدیث کو بخاری نے باب ما جاء فی بیوت ازواج النبی کتاب الجہاد والسیر صحیح بخاری جلد۲ ص۱۲۵ پر درج کیا ہے اور صحیح مسلم کی عبارت یہ “خَرَجَ النَّبِيُّ ص مِنْ بَيْتِ عَائِشَةَ فَقَالَ رَأْسُ‏ الْكُفْرِ مِنْ‏ هَاهُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ .” ملاحظہ ہو صحیح مسلم جلد۲ صفحہ۵۰۳۔

۴۴۳

 اور وہ آپ کی جائے سجدہ پر پیر پھیلائے ہوئے ہوں اور رسول(ص) کے سجدے کرتے وقت بھی پیر نہ سمیٹیں(۱) جب رسول(ص) پیر کو دبائیں تو وہ سمیٹ لیں، پھر جب رسول(ص) سجدے  کر کے کھڑے ہوجائیں تو دوبارہ پھر اسی طرح پیر پھیلا دیں اور اس طرح پوری نماز میں یہی حرکت کرتی رہیں۔

جناب ام سلمہ جناب عثمان کی دشمن نہیں ہوئیں نہ آپ کی جان لینے پر تلیں نہ نعثل کہہ کر پکارا نہ یہ کہا کہ اس نعثل کو قتل کر ڈالو۔ یہ کافر ہوگیا ہے(۲) ۔    جناب ام سلمہ اپنے گھر سے نہیں نکلیں جس میں رہنے کی خدا نے تاکید کی تھی۔(۳)

--------------

۱ـ صحیح بخاری جلد۱ صفحہ ۱۴۳ باب ما یجوز من العمل فی الصلوة۔

۲ـ جناب عائشہ کا قولا و فعلا حضرت عثمان کے خلاف جذبہء تنفر اظہار عداوت و بغض و عناد اور ان کا کہنا کہ اس نعثل کو قتل کر ڈالو یہ کافر ہوگیا ہے۔ ایسی مشہور بات ہے جس کے ذکر سے تاریخ کی کوئی کتاب جس میں عہد حضرت عثمان کے حالات و حوادث کا ذکر ہے خالی نہ ملے گی صرف تاریخ ابن جریر طبری و تاریخ کامل ابن اثیر جزری کو لے لیجیے بے کم و کاست حالات پوری تفصیل سے آپ کو معلوم ہوں گے۔ حضرت عائشہ کے زمانہ کے لوگوں نے حضرت عائشہ کی عثان دشمنی پر انھیں سرزنش بھی کی منہ پر برا بھلا کہا۔ چنانچہ تاریخ کامل ابن اثیر جزری صفحہ ۸۰ جلد۳ واقعہ جمل کے حالات میں

 (بقیہ صفحہ قبل) یہ اشعار موجود ہیں۔

فمنك البداة و منك‏ الغير

 و منك الرياح و منك المطر

و أنت أمرت بقتل الإمام‏

 و قلت لنا انّه قد كفر

آپ ہی سے ان فسادات کی ابتدا ہوئی آپ ہی رنگ بدلتی رہیں آپ ہی سے ہوائیں چلیں آپ ہی سے بارش ہوئی آپ ہی نے خلیفہ کے قتل کا حکم دیا۔ آپ ہی نے ہم سے کہا کہ وہ کافر ہوگئے ہیں۔

۳ـ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے “وَ قَرْنَ في‏ بُيُوتِكُنَّ وَ لا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجاهِلِيَّةِ الْأُولى‏ ” اپنے گھروں میں رہو اور اگلی جاہلیت کی طرح بنو ٹھنو نہیں۔ وہ اونٹ جس پر سوار ہو کر جناب عائشہ فوج کی کمان کرنے نکلیں اس کا نام عسکر تھا۔ یعلی ابن فیہہ وہ اونٹ لے کر عائشہ کے پاس پہنچا وہ اونٹ بڑے ڈیل ڈول کا تھا جب جناب نے دیکھا تو بہت خوش ہوئیں جب معلوم ہوا کہ اس اونٹ کا نام عسکر ہے تو پیروں تلے زمین نکل گئی انا ﷲ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہا اسے واپس لے جاؤ اس اونٹ کی مجھے ضرورت نہیں اور بیان کیا عائشہ نے کہ حضرت سرورکائنات(ص) نے یہ نام ان سے ذکر کیا تھا اور اس پر سوار ہونے سے منع بھی فرمایا تھا۔ لوگوں نے اس اونٹ کے جھول اتار کر دوسرے جھول پہنادیے اور آکر کہا کہ آپ کے لیے اس اونٹ سے بھی بڑا اور طاقت ور اونٹ ہمیں ہاتھ لگ گیا۔ جناب عائشہ اس مرتبہ راضی ہوگئیں۔ اس واقعہ کو اکثر اہل سیر و اخبار نے ذکر کیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیے شرح نہج البلاغہ جلد۲ صفحہ ۸۰۔

۴۴۴

جناب ام سلمہ نے اونٹ پر سوار ہو کر فوج کی کمان کبھی نہیں کی اور وہ جو کبھی وادی میں لے جارہا ہو کبھی پہاڑ پر چڑھ رہا ہو۔ یہاں تک کہ چشمہء حواب کے کتے بھونکنے لگے ہوں جس سے رسول(ص) نے پہلے ہی ڈرا دیا(۱) تھا مگر ڈری نہیں اور نہ اس لشکر گراں کی قیادت کرنے سے باز رہیں

--------------

۱ـ اس بارے میں بہت مشہور حدیث ہے اور وہ حدیث نبوت کے علامات اور اسلام کی روشن نشانیوں میں سے ہے ۔ اس حدیث کو مختصر کر کے امام احمد نے اپنی مسند ج۶ صفحہ۵۲، ۹۷ میں ذکر کیا۔ نیز اسی طرح مختصر کر کے امام حاکم نے مستدرک جلد۳ صفحہ ۱۲۰ پر درج کیا ہے نیز علامہ ذہبی نے بھی اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے اور خود تلخیص مستدرک میں نقل کیا ہے۔

۴۴۵

جسے امام کے مقابلے میں جمع کیا تھا۔

لہذا جناب عائشہ کا قول کہ رسول اﷲ(ص) نے میرے سینے پر دم توڑا، ان کے اس قول سے مرتبط سمجھیے کہ رسول اﷲ()ص نے حبشیوں کو دیکھا وہ مسجد میں ہتھیاروں سے کھیل رہے ہیں آپ نے عائشہ سے کہا کہ کیا تم ان کا تماشہ دیکھنا چاہتی ہو؟

وہ بولیں : ہاں۔

عائشہ کہتی ہیں کہ اس پر رسول(ص) نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا کہ میرا رخسارہ رسول(ص) کے رخسارہ پر تھا اور رسول(ص) فرماتے تھے ہاں! ہاں! اے بنی ارفدہ۔

مطلب یہ تھا کہ وہ اور سرگرمی سے اپنا کھیل دکھائیں تاکہ عائشہ خوش ہوں۔ جناب عائشہ کہتی ہیں کہ جب میں تھک گئی تو آپ نے پوچھا کہ بس۔؟

میں نے کہا : “ہاں!” تو آپ نے فرمایا : اچھا جاؤ۔(۱)

چاہے ان کے اس قول سے مرتبط کیجیے:

“ رسول اﷲ(ص) میرے پاس ایک دن آئے اور میرے پاس دو کنیزیں گارہی تھیں۔ رسول(ص) آکر بستر پر لیٹ گئے اس کے بعد ابوبکر آئے انھوں نے جب دیکھا تو مجھے جھڑ کا اور کہا کہ رسول(ص) کے پاس اور شیطان کی بانسری؟”

جناب عائشہ کہتی ہیں کہ :

“ رسول(ص) ابوبکر کی طرف متوجہ ہو کر بولے : ان دونوں

--------------

۱ـ صحیح بخاری جلد اول صفحہ ۱۱۶ کتاب العیدین و صحیح مسلم جلد اول صفحہ ۳۲۷ مسند احمد ج۶ صفحہ۵۷۔

۴۴۶

 کو گانے دو۔(۱)

اور چاہے تو ان کے اس قول سے مرتبط سمجھیے کہ :

 “ ایک(۲) مرتبہ ہم میں اور رسول(ص) میں دوڑ ہوئی۔ میں رسول(ص) سے آگے نکل گئی ۔ اسے کچھ دن گزر گئے اورمیرے بدن پر گوشت چڑھ آیا۔ پھر دوڑ ہوئی تو اب کی رسول(ص) آگے نکل گئے۔ آپ نے فرمایا : کہ لو میں نے بدلہ اتار دیا۔”

یا ان کے اس قول سے مرتبط سمجھیے کہ :

“ میں لڑکیوں کے ساتھ کھیلا کرتی اورمیری سہلیاں آتیں اور میرے ساتھ کھیلتیں اور رسول اﷲ(ص) خود ان لڑکیوں کو بلا کر میرے پاس لاتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتیں ۔”

یا ان کے اس قول سے مرتبط سمجھیے کہ :

“ مجھ میں سات(۳) خوبیاں ایسی ہیں کہ کسی میں پائی نہ گئیں سوا ایک کے۔ جو جناب مریم میں تھی۔ایک تویہ کہ فرشتہ میری صورت میں نازل ہوا۔ دوسرے یہ کہ رسول(ص) کی کل ازواج میں بس میں ہی باکرہ تھی اور رسول (ص) پر وحی اتری اس حالت

--------------

۱ـ بخاری و مسلم و امام احمد نے اس حدیث کی انھیں صفحات و ابواب میں روایت کی ہے جو ہم اس کے اوپر کے حاشیے میں بیان کرچکے ۔

۲ـ مسند احمد جلد۶ صفحہ۵۷۔

۳ـ ابن ابی شیبہ نے اس کی روایت کی ہے اور یہ حدیث کنزالعمال میں بھی موجود ہے ملاحظہ ہو حدیث نمبر۱۰۱۷ جلد۷۔

۴۴۷

میں کہ میں اور وہ ایک لحاف میں تھے۔ میں رسول(ص) کی سب سے زیادہ چہیتی تھی۔ میری شان میں کلام مجید کی ایسی آیتیں اتریں کہ قریب تھا کہ امت ان آیات میں ہلاک ہوجائے میں نے جناب جبرئیل(ع) کا دیکھا اور دوسری بیویوں میں سے کسی نے نہ دیکھا ۔ رسول(ص)
کا انتقال میرے گھر میں ہوا۔ میرے سوا رسول(ص) کے پاس کوئی نہ تھا(۱) ۔ میں اور ملک ۔۔۔۔۔الخ”

اسی طرح اور بہت سی حدیثیں جناب عائشہ نے بیان فرمائی ہیں جن میں اپنی مدح سرائی کی ہے اور اپنے خصوصیات کی لمبی چوڑی فہرست گنائی ہے وہ سب اسی جیسی ہیں لیکن جناب ام سلمہ تو وہ یہی کافی سمجھتی تھیں کہ وہ اپنے ولی اور پیغمبر(ص) کے وصی سے موالات رکھیں، آپ صائب الرائے اور کامل عقل وفہم غیر متزلزل دین رکھنے والی معظمہ تھیں، آپ نے جنگ حدیبیہ کے موقع پر رسول(ص) کو جو مشورہ دیا تھا وہ بین ثبوت ہے کہ آپ کتنی عقلمند ، کتنی صائب نظر و صائب رائے اور بلند مرتبہ خاتوں تھیں۔

--------------

۱ـ اس پر اتفاق و اجماع ہے کہ رسول(ص) کے انتقال کے وقت حضرت علی(ع) موجود تھے وہی تیمارداری کرتے تھے لہذا حضرت عائشہ کا یہ کہنا کیونکر صحیح ہے کہ جس وقت رسول(ص) کا انتقال ہوا کوئی رسول(ص) کے پاس موجود نہ تھا سوا جناب عائشہ کے اور ملک کے۔ علی(ع) کہاں تھے، عباس کہاں تھے ، جناب فاطمہ(س) اور صفیہ رسول خدا(ص) کی پھوپھی کہاں تھیں؟ رسول(ص)کی دوسری بیویاں کہاں تھیں ؟ بنی ہاشم سب کے سب کہاں تھے؟ اور کیونکر انھوں نے رسول(ص) کو تن و تنہا عائشہ کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ پھر یہ بات مخفی نہ رہی کہ مریم میں ان ساتویں باتوں میں سے ایک بھی نہیں پائی جاتی ہے جو جناب عائشہ نے ذکر کیں لہذا ان کا یہ کہنا کیونکر صحیح ہے کہ صرف جناب مریم میں ان سات باتوں میں سے ایک بات پائی جاتی ہے ان کا جناب مریم کو مستثنیٰ کرنا کیونکر صحیح ہے۔

۴۴۸

مکتوب نمبر۴۰

اجماع و خلافت

آپ نے جتنی باتیں کہیں مان بھی لی جائیں کہ امیرالمومنین(ع) وصی پیغمبر(ص) تھے اور آپ کے بارےمیں صریحی نصوص موجود ہیں تو آپ اس کو کیا کریں گے کہ امت نے حضرت ابوبکر کی بیعت پر اتفاق کر لیا۔ انھیں اجماعی طور پر خلیفہ تسلیم کرلیا اور امت کا اجماع قطعی حجت ہے کیونکہ رسول(ص) خود ارشاد فرماچکے ہیں:

“لَا تَجْتَمِعُ‏ أُمَّتِي‏ عَلَى خَطَإٍ.”

“ میری امت خطا پر کبھی اجماع نہ کرے گی۔”

نیز یہ بھی فرمایا :“لَا تَجْتَمِعُ‏ أُمَّتِي‏ عَلَى ضَلَالَةٍ ”

۴۴۹

“ میری امت گمراہی پر کبھی اجماع نہ کرے گی۔”

اس کا آپ کے پاس کیا جواب ہے ؟

                                                                     س

جواب مکتوب

اجماع ہوا ہی نہیں

ہم یہ کہیں گے کہ رسالت ماب(ص) نے یہ جو فرمایا ہے کہ میری امت کبھی خطا پر اجماع نہ کرے گی اور گمراہی پر کبھی اجماع نہ کرے گی اس کا مطلب یہ ہے کہ جس امر کو امت والے باہم رائے مشورہ کر کے اپنی پسند و اختیار سے اتفاق آراء سے طے کر لیں اس میں خطا و گمراہی نہ ہوگی۔ حدیثوں کو دیکھنے سے یہی مطلب سمجھ میں آتا ہے اور کوئی دوسرا مطلب سمجھ میں نہیں آتا لیکن وہ امر جس کوامت کے صرف چند نفر طے کر لیں اور اس پر تل جائیں اور اس پر اہل حل وعقد کووہ مجبور بنالیں تو اس کی صحت پر کوئی دلیل نہیں۔

سقیفہ کی بیعت باہمی مشورہ سے نہیں ہوئی۔ اس کے کرتا دھرتا تو حضرت عم اور ابو عبیدہ اور چند گنتی کے لوگ تھے۔ انھیں دو چار آدمیوں نے یہ طے کیا اور ناگہانی طور پر ارباب حل و عقد پر یہ چیز پیش کی۔ اس وقت کی نزاکت حالات نے مساعدت کی اور جو وہ چاہتے تھے ہوگیا۔ خود حضرت ابوبکر نے صاف صاف لفظوں میں اقرار کیا ہے کہ میری بیعت باہمی مشورہ سے نہیں ہوئی۔ نہ غور و فکر کر کے سوچ سمجھ کے ہوئی۔

۴۵۰

 چنانچہ اپنی خلافت کے شروع میں بطور معذرت خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو کہا کہ :

“ میری بیعت نا گہانی تھی۔ خدا نے اس کے شر سے محفوظ رکھا ورنہ مجھے تو فتنہ و فساد برپا ہونے کا بڑا خوف تھا۔”(۱)

حضرت عمر نے بھی بھرے مجمع میں اس کی گواہی دی چنانچہ اپنے آخری زمانہء خلافت میں جمعہ کے دن منبر رسول(ص) پر انھوں نے کہا۔ ان کا یہ خطبہ بہت مشہور ہے امام بخاری نے بھی اپنی صحیح(۲) بخاری میں نقل کیا ہے بطور ثبوت میں خود حضرت عمر کے اصل الفاظ پیش کرتا ہوں۔

“ثمّ انه بلغني ان قائلا منكم يقول: و اللّه لو مات عمر بايعت فلانا، فلا يغترن امرؤ أن يقول: انما كانت بيعة أبى بكر فلتة و تمت، ألا و انها قد كانت كذلك و لكن وقى اللّه شرها ( الی ان قال) من‏ بايع‏ رجلا عن غير مشورة من المسلمين فلا يتابع هو و لا الذي بايعه، تغرة ان إِنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَ اجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَ خَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَ الزُّبَيْرُ وَ مَنْ مَعَهُمَا”

--------------

۱ـ حضرت ابوبکر کے اس خطبہ کو ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری نے اپنی کتاب سقیفہ میں درج کیا ہے ان سے ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۱۲۲ پر نقل کیا ہے۔

۲ـ ملاحظہ فرمائیے باب رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت جلد۴ صفحہ ۱۱۹ ۔ اس خطبہ کو دیگر محدثین نے بھی نقل کیا ہے۔ ابن جریر طبری نے تاریخ طبری میں بسلسلہ حوادث سنہ۱۱ھ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول صفحہ ۱۲۲ پر ذکر کیا ہے۔

۴۵۱

مجھے یہ خبر پہنچی ہے ک تم میں سے کسی کہنے(۱) والے نے کہا ہے کہ اگر عمر مرگئے تو ہم فلان
کی بیعت کر لیں گے تو کوئی شخص اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ابوبکر کی بیعت ناگہانی طورپر ہوئی اور پایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔ یہ ضرور ہے کہ ان کی بیعت یوں ہی انجام پذیر ہوئی لیکن خدا نے ہم لوگوں کو اس شر سے محفوظ رکھا۔”

اسی سلسلہ تقریر میں کہا :

“ جب کوئی شخص جماعت سے الگ ہوکر بغیر رائے و مشورہ کے اپنی استبدادی رائے سے ایک شخص کی بیعت کرے تو پھر ان دونوں میں کوئی امام نہ بنایا جائے۔ نہ وہ بیعت کرنے والا اور نہ وہ بیعت کیا جانے والا ۔ کیونکہ اس میں دھوکہ ہے ایسا نہ ہو دونوں مارے جائیں۔”(۲)

--------------

۱ـ اس کے کہنے والے زبیر تھے انھوں نے یہ کہا تھا کہ اگر عمر مرگئے تو میں علی(ع) کی بیعت کروں گا کیونکہ ابوبکر کی بیعت بھی اس طرح ناگہانی طور پر ہوئی تھی مگر پایہ تکمیل کو پہنچ گئی حضرت عمر نے جو سنا تو بہت برہم ہوئے اور یہ خطبہ انھوں نے فرمایا ۔ بخاری کے اکثر شارحیں نے اس واقعہ کی تصریح کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے شرح قسطلانی صفحہ ۲۵۲ جلد۱۱ جس میں بلاذری سے انھوں نے اس کی روایت کی ہے اور تصریح کی ہے کہ یہ روایت شیخین کے معیار پر صحیح الاسناد ہے

۲ـ میں کہتا ہوں کہ حضرت عمر کے عدل کا بہت ڈھندورا پیٹا جاتا ہے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ جس بات کی تکلیف دوسروں کو دی جائے اپنے لیے بھی گوارا سمجھی جانی چاہیے جس طرح بیعت کے متعلق حضرت عمر نے دوسروں کو یہ حکم دیا ہے کہ جماعت سے الگ ہوکر اگر کوئی شخص کسی کی بیعت کرے تو ان دونوں کو چھانٹ دیا جائے اور ان میں سے کسی کا امام نہ بنایا جائے نہ وہ بیعت کرنے والا اور نہ وہ بیعت کیا جانے والا۔ تو کاش یہی حکم حضرت عمر اپنے لیے اور اپنے ساتھی حضرت ابوبکر کے لیے بھی رکھتے۔

۴۵۲

آگے چل کر آپ نے فرمایا :

“ ہم لوگوں کا واقعہ یہ تھا کہ جب حضرت کا انتقال ہوا تو انصار نے ہماری مخالفت کی اور وہ سب کے سب سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور علی(ع) و زبیر نے بھی ہم سے اختلاف کیا اور علی(ع) و زبیر کے ہوا خواہ بھی برگشتہ رہے۔”

اس کے بعد آپ نے سقیفہ کے اندر جو اختلافات رونما ہوئے جو آوازیں بلند ہوئیں جس کی وجہ سے اسلام  میں تفرقہ پڑ جانے کا خوف تھا ان کی طرف اشارہ کیا اور یہ کہ ہم نے اس موقع پر ابوبکر کی بیعت کر لی۔

روایات کی بنا پر یہ بات بالکل بدیہی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اہلِ بیت رسالت(ع) کا ایک فرد بھی سقیفہ کے اندر موجود نہ تھا بلکہ سب کے سب حضرات علی(ع) کے گھر میں اکٹھا تھے اور ان کے ساتھ ساتھ جناب سلمان، ابوذر، مقداد، عمار، زبیر، خزیمہ بن ثابت، ابی بن کعب، براء بن عاذب، خالد بن سعید بن عاص اموی اور بھی ان کے جیسے بہت سے لوگ تھے۔

تو جب یہ سب کے سب بیعت کے موقع پر موجود ہی نہ تھے جب رسول(ص) کے کل اہل بیت(ع) کنارہ کش رہے جن کی حیثیت امت کے درمیان ایسی

۴۵۳

 ہے جیسے بدن میں سر اور چہرے پر آنکھیں جو ثقل پیغمبر(ص) تھے۔ خزانہء پیغمبر(ص) تھے، کتاب خدا کے ہم پلہ تھے، امت کی نجات کا سفینہ تھے، امت کے لیے باب حطہ تھے، گمراہی و ضلالت سے جائے امان تھے، علم ہدایت(۱) تھے۔ ( جیسا کہ ہم گزشتہ اوراق میں ذکر کرچکے ہیں) تو پھر اجماع کہاں سے ہوگیا؟

بخاری و مسلم نے اپنے اپنے صحیح(۲) میں اور بکثرت محققین ، علماء محدثین نے اس کی ثبوت اکٹھا کیے کہ حضرت علی(ع) بیعت سے کنارہ کش ہی رہے آپ نے بیعت ہی نہ کی اور نہ مصالحت ہی فرمائی۔ ہاں جب سیدہ کا  انتقال ہوگیا چھ مہینہ بعد وقت کی نزاکت اور ملت اسلامیہ کی خیر خواہی نے آپ کو مجبور کیا تو آپ نے مصالحت کر لی۔ اس کےثبوت میں خود جناب عائشہ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں جناب عائشہ نے صاف صاف تصریح کی ہے کہ جناب سیدہ(س) ابوبکر سے ناراض ہوگئیں اور رسول(ص) کے بعد مرتے دم تک ان سے گفتگو نہ کی اور جب حضرت علی(ع) نے ان لوگوں سے مصالحت فرمائی تو یہ بھی کہہ دیا کہ ان لوگوں نے میرے حق خلافت کو غصب کر کے زبردستی کی ہے حدیث میں صرف مصالحت کا ذکر ہے ۔ اس کی کوئی تشریح نہیں کی کہ آپ نے صلح  کرتے وقت ان کی بیعت بھی کر لی تھی۔ آپ نے ابوبکر سے خطاب

--------------

۱ـ ملاحظہ فرمائیے پھر سے ص۴۹ سے ص۱۱۵ تک آپ کو اندازہ ہوگا کہ اہل بیت علیہم السلام کی کیا شان تھی؟

۲ـ ملاحظہ فرمائیے صحیح بخاری جلد۳ صفحہ ۳۹ اواخر باب غزوہ خیبر اور صحیح مسلم جلد۲ کتاب الجہاد والسیر صفحہ ۷۲ باب قول النبی : لا نورث ما ترکناہ صدقہ۔

۴۵۴

کر کے جو  ارشاد فرمایا تھا اس میں کس قدر مکمل اور بے پناہ احتجاج فرمایا تھا آپ نے۔” اگر تم نے رسول(ص) سے رشتہ ظاہر کر کے مخالفین کو قائل کیا تو تمھارا غیر یعنی میں رسول(ص) سے زیادہ قرابت رکھتا ہوں۔ رسول(ص) سے مجھ کو زیادہ حق پہنچتا ہے اور اگر رائے مشورہ کر کے تم امت کے معاملات کے مالک بن بیٹھے تو یہ رائے مشورہ کیسا جبکہ رائے مشورہ دینے والے ہی غائب تھے۔”(۱)

--------------

۱ـ یہ دونوں اشعار نہج البلاغہ میں موجود ہیں۔ علامہ ابن ابی الحدید ان دونوں شعرون کی تفسیر میں شرح نہج البلاغہ جلد۴ صفحہ۳۱۹ میں لکھتے ہیں کہ ان دونوں شعرون میں امیرالمومنین(ع) کا خطاب اصل میں ابوبکر سے ہے اس لیے کہ ابوبکر نے اںصار کے مقابلہ میں یہ دلیل قائم کی تھی کہ :“نحن‏ عترة رسول الله ص و بيضته التي تفقأت عنه ”ہم آںحضرت کی قوم کے لوگ ہیں اور وہ انڈا ہے جو انھیں میں سے پھوٹا ہے ( یعنی قریشی ہیں) اور جب حضرت ابوبکر کی بیعت سقیفہ میں ہوگئی تو اب لوگوں کے سامنے یہ دلیل پیش کرنے لگے کہ ہماری تو بیعت ہوچکی اور اہ حل و عقد نے ہماری بیعت کی اسی پر امیرالمومنین(ع) نے ابوبکر سے کہا کہ آپ نے اںصار کے مقابلہ میں یہ جو دلیل پیش کی کہ ہم رسول کے قوم و قبیلہ والے ہیں اور وہ انڈا ہے جو انھیں میں سے پھوٹا ہے تو آپ کا غیر یعنی میں بلحاظ رشتہ و قرابت آپ سے کہیں زیادہ قریب تر ہوں رسول(ص) سے ۔ اگر آپ ہیں تو قوم و قبیلہ سے ہیں اور میں تو رسول(ص) کا حقیقی چچا زاد بھائی ہوں اور آپ یہ دلیل جو پیش کرتے ہیں کہ لوگوں نے ہمیں منتخب کیا ہے اور جماعت اسلام ہمیں خلیفہ بنانے پر راضی ہوگئی تو ایک بڑی جماعت سقیفہ سے غائب تھی ۔ بہت سے لوگ شریک ہی نہ ہوئے لہذا کس طرح آپ کی خلافت درست ہے شیخ محمد عبدہ مفتی و یار مصر یہ جنھوں نے اپنے حواشی نہج البلاغہ پر تحریر کیے ہیں انھوں نے بھی امیرالمومنین(ع) کے ان دونوں شعروں پر ابن ابی الحدید کی عبارت سے ملتا جلتا حاشیہ تحریر کیا ہے۔

۴۵۵

ایسی ہی دلیل ایک مرتبہ جناب عباس نے بمقابلہ ابوبکر پیش کی تھی۔ جبکہ ایک مرتبہ خلافت کی بات چیت ان دونوں کے درمیان چھڑی تو جناب عباس نے فرمایا:

“ اگر تم رسول(ص) کے ذریعہ سے قرابت جتا کر یہ خلافت حاصل کی ہے تو تم نے ہم لوگوں کا حق چھینا ہے کیونکہ تم سے زیادہ ہم رسول(ص) سے قرابت رکھتے ہیں اور اگر مومنین کے ذریعہ تم نے یہ خلافت حاصل کی ہے تو مومنین میں تو ہم مقدم ہیں اگر مومنین کے توسط سے یہ خلافت تمھیں پہنچتی ہے تو جب ہم ہی ناپسند کرتے ہیں ہم ہی تمھیں خلیفہ بنانے پر راضی نہیں تو پھر کیسی تمھاری خلافت ؟”

تو جب پیغمبر(ص) کے چچا پیغمبر(ص) کے باپ کے بھائی یہ حضرات فرمائیں رسول(ص) کے چچا زاد بھائی رسول(ص) کے ولی اور بھائی اورجملہ قرابتدارانِ رسول(ص) اس سے بے تعلقی ظاہر کریں تو اجماع کہاں سے ہوگیا؟

                                                             ش

۴۵۶

مکتوب نمبر ۴۱

اختلافات ختم ہونے کے بعد اجماع منعقد ہوگیا

اہل سنت اس سے انکار نہیں کرتے کہ بیعت مشورہ سے نہیں ہوئی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ بالکل ناگہانی اور دفعتہ ہوئی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس موقع پر اںصار نے مخالفت کی اور سعد کو خلیفہ بنانا چاہا تھا اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ اس بیعت کے بنی ہاشم بھی مخالف تھے اور مہاجرین و اںصار میں بنی ہاشم کے طرفدار تھے انھوں مخالفت کی اور سب حضرت علی(ع) ہی کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ امر خلافت آخر میں حضرت ابوبکر کے لیے پایہء تکمیل کو پہنچ گیا اور آخر کار سب نے انھیں

۴۵۷

 امام بنانا پسند کر لیا۔ لہذا جب سب نے امام بنانا پسند کر لیا تو وہ نزاع یک قلم برطرف ہوگئی۔ اختلافات ایک ساتھ دور ہوگئے اور سب نے جناب ابوبکر کو بوجھ بٹانے ، خیرخواہی کرنے پر اتفاق کر لیا۔ لہذا جس سے حضرت ابوبکر نے جنگ کی سب نے اس سے جنگ کی اور جس سے ابوبکر نے صلح کی سب نے اس سے صلح کی اور ان کے اوامر و نواہی اور احکامات کو جاری کیا اور کسی نے بھی انکی اطاعت سے گریز نہیں کیا لہذا اس بنا پر اجماع مکمل ہوگیا اور بیعت خلافت صحیح ٹھہری ۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مسلمانوں کو جب کہ ان میں پرا گندگی پھیل چکی تھی ایک نقطہ پراکٹھا کیا اور ان کے دلوں کو جب باہمی نفرت و بیزاری پیدا ہوچکی تھی ملا دیا۔

                                                             س

جواب مکتوب

مسلمانوں کو حضرت ابوبکر کا بوجھ بٹانے اور ظاہر و باطن میں ان کی خیر خواہی پر اتفاق کر لینا اور چیز ہے اور اجماع کے ذریعہ عقدِ خلافت کا صحیح ہونا دوسری چیز ہے۔ ان دونوں میں نہ تو عقلی تلازم ہے نہ شرعی ۔ کیونکہ امیرالمومنین(ع) اور آپ کی اولاد میں جو ائمہ طاہرین(ع) ہوئے ان کا جو طرز عمل شاہان اسلام کے ساتھ رہا وہ دنیا کو معلوم ہے انھوں نے ہمیشہ کٹھن وقتوں مٰیں ان کی مدد کی اور یہی ہم لوگوں کا بھی مسلک ہے۔

آپ نے جو کچھ کہا ہے اس کے جواب میں میں اس کی تفصیل عرض کرتا ہوں۔

۴۵۸

ائمہ طاہرین علیہم السلام کا نظریہ یہ رہا کہ امتِ اسلام کو سربلندی اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک ایک ایسی سلطنت نہ ہو جو مسلمانوں کی شیرازہ بندی کرے ، ان کے اختلافات و پراگندگی کو دور کرے ، سرحدوں کی حفاظت کرے، مسلمانوں کے حالات پر کڑی نظر رکھے اور یہ سلطنت اسی وقت استوار ہوسکتی ہے جب خود رعایا اپنی جان و مال سے اس کا بوجھ بٹائے حکومت سے تعاون کرے اگر زمامِ سلطنت کا حاکم شرعی ( یعنی رسول اﷲ(ص) کے صحیح جانشین و نائب) کے ہاتھ میں رہنا ممکن ہو تو بس وہی فرمان روا ہوگا کوئی دوسرا نہیں اور یہ متعذر ہو اور مسلمانوں پر حاکم شرعی کے علاوہ کوئی دوسرا مسلط ہوجائے تو اس صورت میں امت اسلام پر واجب ہے کہ ہر ایسے معاملہ میں جس میں اسلام کی عزت و شوکت سرحدوں کی حفاظت ، ملک کا امن و امان منحصر ہو، بادشاہ سے تعاون کرے۔ مسلمانوں میں افتراق نہ پیدا کر ۔ اس سے ٹکرا کر مسلمانوں کے شیرازہ کو منتشر نہ کردے ۔ بلکہ امت پر یہاں تک واجب ہے کہ اس بادشاہ سے اس طرح پیش آئے جس طرح خلفاء برحق سے اسے پیش آنا چاہیے ۔ زمین کا خراج و لگان ادا کرے چوپایوں کی زکوة دے نیز اس قسم کی چیزیں جو بادشاہ نے خراج ولگان کے طور پر لوگوں سے حاصل کی ہوں مسلمانوں کے لیے اس کا لینا بھی جائز ہے ۔خرید و فروخت کے ذریعہ انعام و بخشش کے طور پر یا اور جو صورتیں پانے کی ہوں۔

یہی طرز عمل امیرالمومنین(ع) کا رہا اور آپ کی نسل سے جو ائمہ طاہرین(ع) ہوئے ان کا مسلک بھی یہی رہا۔ حضرت سرورکائنات(ص) نے فرمایا کہ :

“ میرے بعد بڑے بڑے انقلابات پیش آئین گے اور بہت سی ناگوار باتوں کا تمھیں سامنا ہوگا۔”
۴۵۹

لوگوں نے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) اگر ہم میں سے کوئی شخص اس زمانے میں رہے تو کیا حکم ہے آپ کا ؟ آںحضرت (ص) نے فرمایا کہ :

“ تمھارے ذمہ جو حقوق آتے ہوں انھیں ادا کر دو اور خود اپنے حقوق کے لیے درگاہِ الہی سے سوال کرو۔”(۱)

جناب ابوذر غفاری فرماتے ہیں کہ :

“ میرے خلیل پیغمبر خدا(ص) نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں سنوں اور اطاعت کروں اگرچہ وہ دست و پابریدہ غلام ہی کیوں نہ ہو۔”(۲)

سلمہ جعفی نے رسول اﷲ(ص) کی خدمت میں سوال کیا کہ یا حضرت کیا حکم ہے آپ کا اگر ہم پر ایسا شخص حاکم بن بیٹھے جو اپنے حقوق تو ہم سے وصول کرے لیکن ہمارے حقوق ہمیں نہ دے ۔ سرورکائنات(ص) نے فرمایا :

“ تم ان کی بات سنو ، ان کی اطاعت کرو کیونکہ وہ اپنے فرائض کے جواب دہ ہیں تم اپنے فرائض کے۔”(۳)

حذیفہ بن یمان سے ایک حدیث مروی ہے جس میں آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ :

 “ میرے بعد کچھ ایسے بھی ائمہ ہوں گے جو نہ میری راہ پر چلیں گے نہ میری سنت پر عمل کریں گے۔ عنقریب ان میں کچھ ایسے افراد

--------------

۱ـ صحیح مسلم جلد۲ صفحہ۱۱۸ میں یہ حدیث موجود ہے اور دیگر اصحاب صحاح و سنن نے بھی اس کی روایت کی ہے۔

۲ـ صحیح مسلم جلد۴ میں یہ حدیث موجود ہے اور مشہور احادیث میں ہے۔

۳ـ صحیح مسلم و دیگر صحاح میں ہے۔

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639