دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)6%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272363 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

 یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ :

             “ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ۔ کتاب خدا اور میرے اہل بیت(ع)۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں(۱) ۔”

یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ :

             “ قریب ہے میں بلایا جاؤں اور مجھے جانا پڑے۔ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ ایک خدائے بزرگ و برتر کی کتاب دوسرے میری عترت۔ کتابِ خدا تو ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک دراز ہے اور میری عترت میرے اہل بیت(ع) ہیں۔(۲) اور خداوندِ عالم لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر پہنچیں۔ پس دیکھو میرے بعد تمہارا سلوک ان کے ساتھ کیسا رہتا ہے(۳) ۔”

--------------

۱ ـ  امام حاکم مستدرک جلد ۳ صفحہ ۱۴۸ پر اس کو درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث شیخین یعنی مسلم  و بخاری کے شرائط کے لحاظ سے بھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے اس کو درج نہیں کیا۔

۲ ـ  امام احمد نے اس حدیث کو ابو سعید خدری سے دو طریقوں سے روایت کیا ہے ایک جلد ۳ صفحہ ۱۷ پر دوسرے صفحہ ۲۶ جلد ۳ پر۔ این ابی شیبہ یعلی اور ابن سعد نے ابو سعید خدری سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال جلد اول صفحہ ۴۷ پر بھی موجود ہے۔

۳ ـ  امام حاکم نے اس حدیث کو مستدرک جلد۳ صفحہ ۱۰۹ پر مرفوعا نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مسلم وبخاری کے معیار پر بھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے درج نہیں کیا پھر اسی جلد۳ صفحہ۵۳۳ پر دوسرے طریقے سے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری و مسلم نے ذکر نہیں کیا علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کو باقی رکھا ہے اور اس کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

۴۱

اور جب حضرت(ص) حجِ آخری سے پلٹے اور مقام غدیر خم پر پہنچے تو آپ(ص) نے ارشاد فرمایا :

             “ مجھے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ جلد ہی میری طلبی ہوگی اور مجھے جانا پڑے گا۔ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں جن میں ایک دوسرے سے  بڑا ہے۔ کتاب خدا ، دوسرے میرے اہل بیت(ع) دیکھو خیال رکھنا کہ ان کے ساتھ تم کس طرح پیش آتے ہو۔ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں۔”

پھر آپ(ص) نے کہا کہ خدائے        قوی و توانا میرا مولا وآقا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔ پھر آپ(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا کہ :

             “ میں جس کا مولا ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں میرے بعد خداوندا ! دوست رکھ اس کو جو ان کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو ان کو دشمن رکھے(۱) ۔”

---------------

۱ـ  طبرانی نے اس حدیث کو درج کیا ہے جیسا کہ علامہ نبھانی کی اربعین فی الاربعین اور علامہ سیوطی کی احیاء المیت میں مذکور ہے آپ ناواقف نہ ہوں گے کہ آںحضرت(ص) کا اس دن کا خطبہ صرف اسی فقرہ پر ختم نہیں تھا کیونکہ صرف اتنا کہنے پر خطبہ کا لفظ صادق نہیں آتا۔ لیکن سیاست نے بیشتر محدثین کی زبانیں بند کردیں اور لکھنے والوں کے قلم روک دیے مگر باوجود اس کے صرف یہ ایک فقرہ اس سمندر کا یہ ایک قطرہ بہت کافی ہے۔

۴۲

عبداﷲ بن اخطب سے روایت ہے کہ رسول(ص) نے مقام جحفہ پر خطبہ ارشاد فرمایا جس میں کہا :

             “ کیا میں تم پر تم سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا ؟”

             لوگوں نے کہا بے شک یا رسول اﷲ(ص)۔ آپ(ص) نے اس پر ارشاد فرمایا :

              “ میں تم سے دو چیزوں کے متعلق پوچھوں گا۔ ایک کتابِ خدا  دوسرے میرے اہل بیت(ع)۔”

حدیثِ ثقلین کا متواتر ہونا

احادیثِ صحیحہ جن کا قطعی فیصلہ یہ ہے کہ بس ثقلین( اہل بیت(ع) و قرآن کی پیروی واجب ہے) معمولی درجہ کی حدیثیں نہیں بلکہ متواتر حدیثیں ہیں اور بیس سے اوپر صحابیوں سے بکثرت طریقوں سے مروی ہیں۔ اہلبیت(ع) کی پیروی کو واجب بتانے کے لیے ایک مرتبہ نہیں بار ہا اور متعدد مواقع پر پیغمبر(ص) نے علی الاعلان کھلے لفظوں میں فرمایا۔ کبھی غدیر خم میں اعلان کیا جیسا ابھی بیان کرچکا ہوں۔ حج آخری کے موقع پر عرفہ کے دن اعلان کیا کبھی طائف سے واپسی کے موقع پر اعلان کیا۔ ایک مرتبہ مدینہ میں بر سرِمنبر اعلان کیا پھر دوسری مرتبہ جب آپ بسترِ مرگ پر حجرہ میں تھے اور آپ(ص) کا حجرہ صحابیوں سے بھرا ہوا تھا۔ آپ(ص) نے ارشاد فرمایا :

             “ اے لوگو! عنقریب تم سے رخصت ہونے والا ہوں۔ میں پہلے ہی تم سے سب کچھ کہہ سن چکا ہوں۔ پھر کہے دیتا ہوں کہ میں تم میں دو چیزیں چھورے جاتا ہوں۔ اپنے پروردگار کی کتاب اور اپنی عترت و اہلبیت(ع)۔”

۴۳

پھر آپ(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور ارشاد فرمایا  کہ :

             “ دیکھو یہ علی(ع) ہیں یہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں کبھی جدا  نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں(۱) ۔”

رسالت ماب(ص) کی اس وصیت پر جمہور مسلمین کے سربرآوردہ افراد کی ایک جماعت نے اقرار و اعتراف کیا ہے۔ یہاں تک کہ ابن حجر نے اپنی کتاب میں حدیث ثقلین درج کر کے لکھا ہے کہ حدیث تمسک بکثرت طریقوں سے مروی ہے اورع بیس سے زیادہ صحابیوں نے اس کی روایت کی ہے۔ پھر آگے چل کر کہتے ہیں کہ یہاں ایک شبہ ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حدیث بکثرت طریقوں سے مروی ہے مگر کہیں یہ ہے کہ آپ(ص) نے حجہ الوداع کے موقع پر عرفات میں فرمایا۔ کہیں یہ ہے کہ مدینہ میں جب آپ بسترِ بیماری پر تھے تب ارشاد فرمایا۔ اور حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا۔ کہیں یہ ہے کہ غدیر خم میں فرمایا۔ کہیں یہ ہے کہ جب آپ(ص) طائف سے واپس ہوئے ہیں تو دوران خطبہ آپ(ص) نے فرمایا۔

لیکن یہ شبہ درست نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آںحضرت(ص) نے  کلام اﷲ اور اہل بیت(ع) کی عظمت و جلالت کا لحاظ کرتے ہوئے اور لوگوں کو ان کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دلانے کے لیے ان تمام مواقع پر اس حدیث کو بتکرار ارشاد فرمایا ہو، تاکہ اگر پہلے سے کسی کے کانوں میں یہ بات نہ پڑی ہو تو اب پڑجائے۔ پہلے کسی نے نہ سنا ہو تو اب سن لے۔(۲) اور جب اہلبیت طاہرین(ع)

--------------

۱ ـ  ملاحظہ فرمائیے۔ علامہ ابن حجر کی صواعق محرقہ باب ۹ فصل ۲ کی آخری سطریں۔

۲ ـ  دیکھے صواعق محرقہ، صفحہ۸۹ باب ۱۱ فصل اول۔

۴۴

خدا اور رسول(ص) کے نزدیک قرآن  کے ہم پلہ و ہم وزن ہیں، تو جو قرآن کی شان ہے وہی ان کی بھی شان ہوگی جس طرح قرآن کا اتباع و اطاعت ہر مسلم پر فرض ہے اس طرح اہلبیت(ع) کی اطاعت بھی ہر ایک پر واجب ولازم ہے لہذا ان ان کی اطاعت اور ان کے مذہب و مسلک کی پابندی سے مفر ہی نہیں۔ مجبور ہے انسان کہ بس انھیں کا اتباع کرے کیونکہ کوئی مسلمان یہ نہیں پسند کرتا کہ کتابِ خدا کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو کسی اور چیز کو اس کے بدلے میں اپنا دستور العمل بنائے۔ تو جب کتابِ خدا کے بدلے میں کسی دوسری چیز کو اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے ناممکن ہے تو کتاب خدا کے ہم پلہ و ہم درجہ جو ہستیاں ہیں ان سے روگردانی کر کے دوسرے اشخاص کی پیروی بھی اس کی نظر میں درست نہ ہوگی۔

جن نے اہلبیت(ع)  سے تمسک نہ کیا اس کا گمراہ ہونا

اس کے علاوہ سرورکائنات کا یہ ارشاد کہ :

" إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِه لَنْ تَضِلُّوا كِتَاب اللَّهِ وَ عِتْرَتِي‏”

“ میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتاب خدا دوسرے میری عترت۔”

اس کا صریحی مطلب یہ ہے کہ جن نے ان دونوں کو ایک ساتھ اختیار نہ کیا، دونوں کی ایک ساتھ اطاعت نہ کی وہ گمراہ ہوگا۔ اس مطلب کی تائید اس حدیث ثقلین سے بھی ہوتی ہے جس کی طبرانی نے روایت کی ہے۔ جس میں

۴۵

 آنحضرت(ص) کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ :

     “ دیکھو ان دونوں سے آگے نہ بڑھ جانا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے۔ اور نہ پیچھے رہ جانا ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور انھیں کچھ سکھانا پڑھانا نہیں کیونکہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔”

ابن حجر فرماتے ہیں کہ سرورکائنات کا یہ کہنا کہ :

“ تم ان سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور نہ ان سے پیچھے رہ جانا ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤگے اور انھیں کچھ سکھانا پڑھانا نہیں کہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔”

اس امر کی دلیل ہے کہ اہل بیت(ع) کے جو افراد مراتب عالیہ اور درجات دینیہ پر فائز ہوئے انھیں اپنے ماسوا تمام لوگوں پر تفوق و برتری حاصل تھی۔(۱)

--------------

۱ ـ  دیکھیے صواعق محرقہ صفحہ۱۲۹ باب وصیة النبی(ص) پھر پوچھیے ذرا علامہ ابن حجر سے کہ جب آپ اقرار فرماتے ہیں۔ اس کا اعتراف ہے آپ کو تو ھر اشعری کو اہلبیت(ع) پر کیوں مقدم کیا گیااہلبیت(ع) کو چھوڑ کر اسول اشعری کا مسلک کیوں اختیار کیا گیا۔ فروع دین میں تنہا اربعہ ابو حنیفہ مالک، شافعی، حنبل کو اہل بیت(ع) پر کیوں ترجیح دی گئی ہے؟ حدیث میں عمران بن حطان جیسے خوارج کیوں مقدم رکھے گئے۔ تفسیر میں مقاتل بن سلیمان جو فرقہ مرجیہ سے تھا، جسمانیت خدا کا قائل تھا کیوں اہل بیت(ع) پر مقدم سمجھا گیا۔ دیگر علوم میں غیروں کو اہل بیت(ع) کے مقابلہ میں کیوں ترجیح دی گئی۔ رسول(ص) کی جانشینی و نیابت میں برادر رسول ولی پیغمبرجس کے متعلق رسول فرماچکے تھے کہ “ ادائے قرض میری جانب سے علی ہی کرسکتے ہیں۔” کیوں پیچھے کردیئے گئے۔ ان کوچھوڑ کر دوسرے کیوں خلیفہ بنالیے گئے۔ کس درجہ سے قابل ترجیح سمجھے گئے جن لوگوں نے دینی معاملات و امور شریعت میں اہل بیت(ع) سے رو گردانی کی اور ان کے مخالفین ک نقش قدم پر چلے انھوں نے حدیث ثقلین اور اس جیسی دیگر حدیثوں پر جب میں اتباع اہل بیت(ع) کا حکم دیا گیا ہے کہاں اور کیونکر عمل کیا اور وہ یہ دعوی کیونکر کرسکتے ہیں کہ ہم اہل بیت(ع) سے تمسک کرنے والے ہیں۔ سفینہ اہل بیت(ع) پر ہیں۔ ان کے باب حطہ میں داخل ہیں۔

۴۶

اہلبیت(ع) کی مثال سفینہ نوح(ع) اور باب حطہ کی ہے اور وہ اختلاف فی الدین سے بچانے والے ہیں

نیز ایک اور بات جو ہر مسلم کو قہرا اہل بیت(ع) کا پیرو بناتی ہے اور مجبور کرتی ہے کہ دینی معاملات میں بس ان ہی کی پیروی کی جائے۔ سرورکائنات کی یہ مشہور حدیث ہے :

             “ آگاہ ہو اے لوگو ! تم میں میرے اہل بیت(ع) کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے نوح(ع) کا سفینہ ۔ کہ جو شخص اس پر سلوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے گریز کیا وہ ہلاک ہو گیا۔(۱)

نیز آںحضرت(ص) کا یہ ارشاد :

             “ تمہارے درمیان میرے اہلبیت(ع) کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے بنی اسرائیل کے لیے باب حطہ کو جو شخص اس میں داخل ہوا وہ بخش دیا گیا۔(۲)

--------------

[۱] ـ  امام حاکم نے مستدرک جلد۳ صفحہ ۱۵۱ پر بسلسلہ اسناد جناب ابوذر سے روایت کی ہے۔

۲ ـ  طبرانی نے اوسط میں ابوسعید سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ نیز علامہ نبھانی کی کتاب اربعین کے صفحہ ۲۱۶ پر بھی موجود ہے۔

۴۷

نیز آںحضرت(ص) کا یہ قول کہ :

     “ ستارے زمین کے باشندوں کے لیے غرقابی سے امان ہیں اور میرے اہل بیت(ع) میری امت کے لیے دینی معلومات میں اختلاف کے وقت امان ہیں پس اگرمیرے اہلبیت(ع) کی مخالفت کوئی گروہ عرب کرے گا( یعنی احکامِ الہی میں) تو وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوکر ابلیس کی جماعت بن جائے گا۔(۱)

اہل بیت(ع) سے کون مراد ہیں ؟

ملاحظہ فرمائیے ۔ ان روایات کے بعد کیا گنجائش باقی رہتی ہے اور اہل بیت(ع) کی پیروی کرنے اور ان کی مخالفت سے باز رہنے کے سوا اور کیا چارہ کار رہتا ہے۔ رسول(ص) نے اس حدیث میں جیسے صاف اور صریحی الفاظ میں اس امر کی واضح فرمایا ہے میں تو نہیں جانتا کہ کسی اور زبان میں اس سے بھی زیادہ وضاحت ممکن ہے۔

یہاں اہلبیت(ع) سے مراد مجموع اہلبیت(ع) میں حیث المجموع ہیں یعنی جملہ اہلبیت(ع) سب کے سب علی سبیل الاستغراق مقصود ہیں۔ اس لیے کہ یہ منزلت صرف انھیں کے لیے ہے جو خدا کی حجت اور اس کی طرف سے درجہ امامت پر فائز ہیں۔ جیسا کہ عقل بھی کہتی ہے اور احادیث بھی بتاتی ہیں چنانچہ جمہور مسلمین کے علماء اعلام نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ صواعقِ محرقہ

--------------

۱ ـ  امام حاکم نے مستدرک جلد۳ صفحہ ۱۴۹ پر ابن عباس سے روایت کی ہے اور دریافت کرنے کے بعد لکھا ہے، یہ حدیث صحیح ہے مگر شیخین نے درج نہیں کیا۔

۴۸

 میں علامہ ابن حجر مکی تحریر فرماتے ہیں:

             “ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ غالبا اہلبیت(ع) جنھیں رسول(ص) نے امان فرمایا ہے ان سے مراد علمائے اہلبیت(ع) ہیں اس لیے کہ انھیں سے ہدایت حاصل کی جاسکتی ہے جیسے ستاروں سے لوگ ہدایت پاتے ہیں اور جو ہمارے درمیان سے اگر ہٹ جائیں تو روئے زمین کے باشندوں کو آیات الہی کا سامنا ہو جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔”

ابن حجر کہتے ہیں :

             “ کہ یہ اس وقت ہوگا جب مہدی تشریف لائیں گے جیسا کہ احادیث میں بھی ہے کہ حضرت عیسی(ع) ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور انھیں کے زمانے میں دجال بھی قتل کیا جائے گا اور اس کے بعد پے در پے خدا کی نشانیاں ظہور میں آتی رہیں گی(۱) ۔”

دوسرے مقام پر ابن حجر لکھتے ہیں:

“ سرورکائنات(ص) سے پوچھا گیا کہ اہل بیت(ع) کے بعد لوگوں کی زندگی کیسے بسر ہوگی؟ آپ نے فرمایا ۔ ان کی زندگی بس ایسی ہی ہوگی جیسے اس گدھے کی زندگی جس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہو(۲) ۔”

--------------

۱ ـ  ملاحظہ فرمائیے۔ صواعق محرقہ، باب ۱۱، صفحہ ۹۱ پر ساتویں آیت کی تفسیر۔

۲ ـ ملاحظہ فرمائیے۔ صواعق محرقہ، صفحہ ۱۴۳۔ اب ہم علامہ ابن حجر سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب علمائے اہلبیت علیہم السلام کی یہ منزلت ہے تو آپ لوگ کدھر جائیں گے۔

۴۹

اہلبیت(ع) کو سفینہ نوح(ع) اور باب حطہ سے کیوں تشبیہ دی گئی

آپ اس سے بھی واقف ہوں گے کہ سرورکائنات نے اہلبیت(ع) کو سفینہ نوح(ع) سے جو تشبیہ دی ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ جس نے اہلبیت(ع) کا مسلک اختیار کیا، اصول و فروغ میں ائمہ اہلبیت(ع) کی پیروی اور اتباع کیا وہ عذاب جہنم سے محفوظ رہا اور جس نے ان سے گریز کیا اس کا حشر وہی ہوگا جو سفینہ نوح(ع) سے گریز کرنے والے کا ہوا جو جان بچانے کے لیے پہاڑ پر چڑھ گیا تھا۔ بس فرق یہ ہوگا کہ سفینہ نوح سے گریز کرنے والا پانی میں ڈاوبا اور اہلبیت(ع) سے کنارہ کشی کرنے والا جہنم کی آگ میں غرق ہوا۔

اور سرورکائنات(ص) نے اہلبیت(ع) کو باب حطہ سے تشبیہ دی ہے تو اس میں وجہ تشبیہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے منجملہ اور بہت سے مظاہر کے جہاں اس کے جاہ و جبروت حکم و فرمان کے آگے بندوں کی عاجزی اور سرِ نیاز خم کرنے کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ باب حطہ کو بھی ایک مظہر قرار دیا تھا اور اسی وجہ سے اسے ذریعہ مغفرت بنایا تھا۔ اسی طرح خداوندِ عالم نے امت اسلام کے لیے اہل بیت(ع) پیغمبر(ص) کے اتباع و اطاعت کو اپنے جاہ و جبروت کے آگے بندوں کی خاکساری و عاجزی اور اپنے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کے مظاہر میں سے ایک مظہر قرار دیا۔ اسی وجہ سے اتباع اہلبیت(ع) سبب مغفرت ہے۔

ابن حجر نے(۱) اس پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ اس قسم کی احادیث

--------------

۱ ـ  صواعق محرقہ، باب ۱۱ صفحہ ۹۱ تفسیر آیہ ہفتم۔

۵۰

 ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے ان اہلبیت(ع) کو سفینہ سے جو تشبیہ دی ہے تو وہ وجہ تشبیہ یہ ہے کہ جو ان سے محبت رکھے گا اور ان کو معزز و محترم قرار دے گا اور ان کے علماء کی ہدایت سے مستفید ہوگا وہ مخالفت کی تاریکیوں سے نجات پائے گا اور جو ان سے تخلف کرےگا وہ کفران نعمت کے سمندر میں غرق ہوا اور طغیان و سرکشی کے بیابانوں میں ہلاک ہوا۔”

اس کے بعد لکھتے ہیں کہ :

“ باب حطہ سے جو جو تشبیہ دی ہے تو اس میں وجہ تشبیہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے باب حطہ میں خاکساری و عاجزی کے ساتھ استغفار کرتے ہوئے داخل ہونے کو بنی اسرائیل کے لیے سبب مغفرت قرار دیا تھا اور اسی طرح امت اسلام کے لیے اہلبیت(ع) پیغمبر(ص) کی مودت و محبت کو ذریعہ بخشش قرار دیا ہے(۱) ۔”

--------------

۱ ـ  آپ ان کی یہ عبارت دیکھیے اور انصاف فرمائیے کہ علامہ ابن حجر نے پھر فروع دین و عقائد فقہ کے اصول و قواعد میں ائمہ طاہرین(ع) کی رہبری کیوں نہ قابل قبول سمجھی ان کے ارشادات پر کیوں نہیں عمل کیا؟ کتاب و سنت، علم الاخلاق ، سلوک و آداب میں ان سے استغفار کیوں نہ کیا؟ کس بنا پر ان سے روگردانی کی اور کفران نعمت کے سمندر میں اپنے کو ڈبو دیا اور طغیان و سرکشی کے صحراؤں میں ہلاک ہوئے۔ انھوں نے ہم شیعوں کے متعلق جو تہمت تراشیان کی ہیں اور بر بھلا کہا ہے خدا انھیں معاف کرے۔

۵۱

غرضیکہ ان اہل بیت علیہم السلام کے اتباع و اطاعت کے واجب و لازم ہونے کے متعلق بکثرت صحیح اور متواتر حدیثیں ہیں۔ خصوصا بطریق اہلبیت طاہرین(ع) تو بے شمار متواتر حدیثیں مروی ہیں۔ اگر آپ کی تھکن کا خیال نہ  ہوتا تو انھیں شرح وبسط سے ذکر کرتے لیکن جو کچھ لکھ چکے ہیں وہی بہت کافی ہے۔

                                                             ش

۵۲

مکتوب نمبر۵

مزید نصوص کی خواہش

آپ میری تھکن کا خیال نہ کیجیئے، مزید تشریح فرمائیے۔ خوبی قسمت سے آپ سے استفادہ کا موقع ملا ہے میں ہمہ تن متوجہ ہوں، آپ کے حکیمانہ استدلال نے دل میں فرحت اور طبیعت میں شگفتگی پیدا کردی ہے۔

                                                             س

جوابِ مکتوب

نصوص کا مختصر سا تذکرہ

آپ کی اس توجہ اور انہماک کا شکریہ بہتر ہے تعمیل حکم میں کچھ اور روشنی ڈالتا ہوں۔

۵۳

طبرانی نے معجم کبیر میں اور امام رافعی نے اپنے مسند میں بسسلسلہ اسناد ابن عباس سے روایت کہ ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا(ص) نے فرمایا :

“ وہ شخص جسے یہ پسند ہو کہ میرا جینا جئے اور میری موت مرے اور باغ عدن میں ساکن ہو وہ علی(ع) کو میرے بعد اپنا حاکم بنائے اور میرے بعد میرے اہلبیت(ع) کی پیروی کرے کیونکہ وہ میری عترت ہیں اور میری طینت سے پیدا ہوئے ہیں اور انھیں میرا فہم، میرا علم عطا ہوا ہے ۔ ہلاکت ہو اس کے لیے جو ان کے فضل و شرف کو جھٹلائے۔ اور ان کو مجھ سے جو قرابت ہے  اس کا خیال نہ کرے۔ خدا ایسے لوگوں کو میری شفاعت نصیب نہ کرے(۱) ۔” 

مطیر ہارودی، ابن جریر، ابن شاہین اور ابن مندہ ، ابن اسحاق کے واسطہ سے زیاد بن مطرف سے روایت کرتے ہیں۔ زیاد کہتے ہیں کہ :

“ میں نے خود رسول اﷲ(ص) کو یہ کہتے سنا کہ جو شخص یہ چاہتا ہو

--------------

۱ ـ ٹھیک ان ہی الفاظ میں یہ حدیث کنز العمال جلد ۶ صفحہ ۲۱۷ پر موجود ہے۔ منتخب کنزالعمال میں بھی یہ حدیث باقی رکھی گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد بن حنبل جلد۵، صفحہ ۹۴ البتہ اس میں صرف اتنا ہے کہ انھیں میرا فہم دیا گیا ہے علم کا لفظ نہیں۔ غائبا یہ کاتب کی غلطی ہے۔ حافظ ابو نعیم نے بھی اس حدیث کی اپنے حلیہ مٰیں روایت کی ہے اور ان سے علامہ معتزلہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد ثانی صفحہ۴۵ طبع مصر رپ نقل کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل نے بھی ایسی ہی حدیث ابو عبداﷲ سے اپنی مسند اور مناقب علی(ع) دونوں کتابوں میں نقل ہے۔

۵۴

کہ میرا جینا جیئے اور میری موت مرے اور اس جنت میں داخل ہو جس کا وعدہ مجھ سے میرے پروردگار نے کیا ہے یعنی جنتِ خلد وہ علی(ع) کو اور علی کے بعد ان کی اولاد کو اپنا حاکم بنائے کیونکہ وہ ہرگز ہدایت کے دروازے سے تمہیں باہر کرنے والے نہیں اور نہ گمراہی کے دروازے میں پہنچانے والے ہیں(۱) ۔”

اسی طرح زید بن ارقم سے مروی ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ :

 “ جو شخص میرا جینا چاہتا ہو اور میری موت مرنا چاہتا ہو اور جنتِ خلد میں رہنا چاہتا ہو جس کا خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ علی(ع) کو اپنا حاکم بنائے کیونکہ وہ ہدایت سے تمہیں باہر نہ کریں گے اور نہ گمراہی میں تمہیں لے جائیں گے(۲) ۔”

-------------

۱ ـ  کنزالعمال جلد۶ صفحہ ۱۵۵ منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد بن حنبل جلد۵ صفحہ ۳۲ علامہ ابن حجر عسقلانی نے بھی مختصرا اس حدیث کو اپنی کتاب اصابہ میں زیاد کے حالات میں لکھا ہے اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے سلسلہ رواة میں یحی بن یعلی محاربی سے اور ضعیف ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ابن حجر عسقلانی کا  یہ لکھنا بڑا ہی تعجب خیز ہے کیونکہ ابن یعلی محاربی بالاتفاق ثقہ مانے گئے ہیں خود امام بخاری نے صحیح بخاری میں غزوہ حدیبیہ کے تذکرہ میں ان سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ امام مسلم نے کتاب الحدید میں ان سے روایت کی ہے۔ علامہ ذہبی نے ان کا ثقہ ہونا میزان الاعتدال میں بطور مسلمات ذکر کیا ہے۔ اور علامہ قیسرانی وغیرہ نے ۔ انھیں ان لوگوں میں شمار کیا ہے جن سے مسلم و بخاری نے حدیثین لی ہیں۔

۲ ـ امام حاکم نے مستدرک جلد۲ صفحہ ۱۲۸ پر اس حدیث کو لکھا ہے اور حدیث لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر شیخین یعنی مسلم و بخاری نے درج نہیں کیا۔ طبرانی نے کبیر میں اور ابو نعیم نے بھی فضائل صحابہ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ کنزالعمال جلد۶ صفحہ ۱۵۵۔ اور منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند جلد ۵ صفحہ ۳۴ پر بھی موجود ہے۔

۵۵

جناب عمار یاسر(۱) سے مروی ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا :

“ میں ہر اس شخص کو جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی وصیت کرتا ہوں علی(ع) کی ولایت کے متعلق جو انھیں دوست رکھے گا وہ مجھے دوست رکھے گا اور جو مجھے دوست رکھے گا وہ خدا کو دوست رکھے گا اور جو علی(ع) سے محبت کرےگا وہ مجھ سے محبت کرے گا اور جو مجھ سے محبت کرے گا وہ خدا سے محبت کرے گا اور جو علی(ع) سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض رکھے گا اور جو مجھ سے بغض رکھے گا وہ خدا سے بغض رکھے گا۔”

جناب ثار سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا:

“ جو مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری تصدیق کی وہ علی بن ابی طالب(ع) کو دوست رکھے۔ ان کو دوست رکھنا مجھے دوست رکھنا ہے اور مجھے دوست رکھنا خدا کو دوست رکھنا ہے(۲) ۔”

ایک مرتبہ حضرت سرور کائنات(ص) نے خطبہ فرمایا جس میں کہا :

“ اے لوگو! فضل و شرف اور منزلت و ولایت خدا کے رسول(ص) کی ذریت کے لیے ہے لہذا تم لوگ باطل میں نہ پڑجانا(۳) ۔”

--------------

۱ ـ  طبرانی نے کبیر میں ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کنز العمال جلد۶ صفحہ۱۵۴ پر بھی موجود ہے۔

۲ ـ طبرانی نے اس حدیث کو کبیر میں درج کیا ہے۔ کنزالعمال جلد۶ صفحہ۱۵۵ پر بھی موجود ہے۔ منتخب کنزالعمال میں بھی ہے۔

۳ ـ ابو شیخ نے ایک طولانی حدیث میں اسے نقل کیا ہے اور ان سے تفسیر آیہ مودت کے ضمن میں ابن حجر نے صواعق محرقہ صفحہ۱۰۵ پر نقل کیا ہے۔

۵۶

آںحضرت(ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ:

“ میری امت کے ہادی ہر دور میں میرے اہلبیت(ع) کے عادل افراد ہوں گے جو اس دین اسلام سے گمراہوں کی تحریف ،اہل باطل کی تہمت تراشی اور جاہلوں کی تاویل کا ازالہ کرتے رہیں گے۔ آگاہ ہو کہ تمھارے ائمہ خدا کے حضور میں تمھارے نمایندہ ہیں۔ لہذا سوچ سمجھ لینا کہ کسے اپنا نمایندہ بنا کر بھیجو گے(۱) ۔”

یہ بھی آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ:

“ دیکھو ان  سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور نہ پیچھے رہ جانا ور نہ ہلاک ہوجاؤگے اور انھیں سکھانا پڑھانا نہیں کہ یہ تم سے خود زیادہ جانتے ہیں(۲) ۔”

یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :

“ میرے اہلبیت(ع) کو ایسا سمجھو جیسا سر بدن کے لیے اور آنکھیں سر کے لیے ہیں اور سر آنکھوں ہی کے ذریعے راہ پاتا ہے(۳) ۔”

--------------

۱ ـ  ملا نے اپنی سیرت میں یہ حدیث درج کی ہے جیسا کہآيت وقفو ه م ان ه م مسئولون کی تفسیر میں ابن حجرمکی نے صواعق محرقہ صفحہ۹۰ پر تحریر کیا ہے۔

۲ ـ  طبرانی نے حدیث ثقلین میں اسے لکھا ہے اور ان سے علامہ ابن حجر نے آیت آيت وقفو ه م ان ه م مسئولون کی تفسیر میں صواعق محرقہ باب۱۱ صفحہ۷۹ پر نقل کیا ہے۔

۳ ـ  ارباب سنن و احادیث کی ایک جماعت نے جناب ابوذر سے بسلسلہ اسناد اس حدیث کی روایت کی ہے اور صبان نے اپنی کتاب اسعاف الراغبین میں شیخ یوسف نبہانی نےشرف النبوہ صفحہ۳۴ میں نقل کیا ہے اور بھی بہت سے ثقہ علماء نے اسے لکھا ہے یہ حدیث نص صریح ہے کہ بس اہلبیت(ع) ہی کو اپنا امیر وحاکم سمجھا جائے انہیں کے ذریعہ حق  تک ہدایت جاسکتی ہے۔

۵۷

یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :

“ ہم اہل بیت(ع) کی محبت کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ جو شخص خدا سے ملاقی ہو اور ہمیں دوست بھی رکھتا ہو خداوند عالم اسے ہماری شفاعت کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا۔ قسم ہے اس معبود برحق کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان  ہے کسی بندے کو اس کا عمل اس وقت تک فائدہ نہ پہنچائے گا، جب تک وہ ہمارے حقوق نہ پہچانتا ہو(۱) ۔”

یہ بھی آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ :

“ آل محمد(ص) کی معرفت عذاب جہنم سے رہائی اور ان کی محبت پل صراط سے گزر جانے کا پروانہ اور ان کی ولایت عذاب سے امان ہے(۲) ۔”

--------------

۱ ـ  طبرانی نے اس حدیث کو اوسط میں درج کیا اور علامہ سیوطی نے احیاء المیت  میں علامہ نبہانی نے اربعین الاربعین میں اور علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ میں اسے نقل کیا ہے۔ ذرا رسول(ص) کے اس جملہ کو اچھی طرح سوچیے کہ کسی بندے کو اس کا عمل اس وقت تک فائدہ نہ پہنچائے گا جب تک وہ ہمارے حقوق کو نہ پہچانتا ہو۔ اور خدا را مجھے بتائیے کہ وہ حق کون سا جسے خداوندعالم نے اعمال کی صحت کے لیے شرط قرار دیا۔کیا وہ حق یہ نہیں ہے کہ حضرات اہل بیت(ع) کی اتباع و پیروی کی جائے۔ ان کے احکام پر سر تسلیم خم کیا جائے اور ان کے ذریعہ خدا تک پہنچا جائے اور سوا نبوت و خلافت کے وہ کون سا حق ہوسکتا ہے جس کے اثرات اتنے ہمہ گیر ہوں۔ لیکن ہمارا ساتھ تو ایسی قوم سے ہے جو تامل و فکر سے کام نہیں لیتی ۔انا ﷲ و انا الي ه راجعون ۔

۲ ـ  شفاء قاضی عباس صفحہ۷ قسم ثانی مطبوعہ آستانہ سنہ۱۲۳۸ھ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں معرفت سے مراد محض ان کے نام و ذات اور ان کے قرابتداران رسول(ص) سے ہونے  کو جان لینا نہیں کیونکہ یہ تو ابو لہب و ابوجہل بھی جانتے تھے بلکہ معرفت سے مراد یہ ہے کہ بعد رسول(ص) انھیں ولی اﷲ سمجھا جائے بنا بر ارشاد پیغمبر(ص)  “ومن مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة جاهليه “ جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کیے بغیر مرگیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ حضرات اہلبیت(ع) کی محبت و ولایت سے جس کا یہاں ذکر ہے وہ محبت و ولایت مراد ہے جو صاحبان حق ائمہ حق کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ سچے اور حقیقی ائمہ  کے ساتھ جو محبت و ولایت لازم و واجب ہے وہی محبت اہل بیت(ع) سے ہونا چاہیے۔  

۵۸

یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ:

“ قیامت کے دن موقف حساب سے کسی شخص کے پیر نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی عمر کن باتوں میں گزاری۔ اپنے جسم کو کس کام میں لائے۔ مال  کو کن امور میں صرف  کیا اور کہاں سے حاصل کیا۔ نیز اس سے ہم اہلبیت(ع) کی محبت کے متعلق سوال کیا جائے گا(۱) ۔”

یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :“ اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان اپنے دونوں قدم جمائے عمر بھ نماز پڑھتا رہے اور روزہ رکھتا رہے مگر آل محمد(ص) سے وہ بغض رکھتا ہو تو وہ جہنم ہی میں جائے گا(۲) ۔”

--------------

۱ ـ اگر حضرات اہل بیت(ع) خداوند عالم کی جانب سے اس منصب پر فائز نہ ہوتے جو مستوجب اطاعت و اتباع ہے تو ان کی محبت کو اتنی اہمیت کبھی حاصل نہ ہوتی۔ اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباس سے روایت کیا ہے اور ان سے علامہ سیوطی نے احیاء المیت میں اور نبہانی نے اپنی اربعین میں نیز اور بھی متعدد علمائے اعلام نے نقل کیا ہے۔

۲ ـ اس حدیث کو طبرانی اور امام حاکم نے روایت کیا ہے جیسا کہ علامہ نبہانی کی اربعین اور علامہ سیوطی کی احیاء المیت میں مذکور ہے۔ یہ حدیث سابق والی حدیث “قسم سے اس ذات برحق کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی بندے کو اس کا عمل اس وقت تک فائدہ نہ پہنچائے گا جب تک وہ ہمارے حقوق کو پہچانتا نہ ہو۔” کی نظیر ہے ۔ اںصاف فرمائیے کہ آل محمد(ص) سے دشمنی خدا و رسول(ص) سے دشمنی نہ ہوتی تو ان کے دشمن کے اعمال رائگان کیوں جاتے اور اگر یہ حضرات جانشین و قائم مقامِ پیغمبر(ص) نہ ہوتے تو یہ منزلت انھیں کیسے حاصل ہوسکتی تھی۔ امام حاکم اور ابن جبان نے اپنی احادیث کی کتابوں میں ( جیسا کہ علامہ نبہانی کی اربعین اور سیوطی کی احیاء المیت میں مذکور ہے) ابوسعید سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان  ہے جو شخص بھی ہم اہلبیت(ع) سے بغض رکھے گا وہ جہنم میں جائے گا اور طبرانی نے (جیسا کہ بنہانی کی اربعین اور سیوطی کی احیاء المیت میں مزکور ہے ) امام حسن(ع) سے روایت کی ہے۔ امام حسن(ع) نے معاویہ بن خدیج سے فرماچکے ہیں کہ جو شخص ہم سے بغض رکھے گا یا ہم سے حسد کرے گا قیامت کے دن حوض کوثر سے آتشین کوڑوں کے ذریعہ بھگایا جائے گا۔” ایک مرتبہ آںحضرت(ع) نے خطبہ فرمایا ۔ اے لوگو جس شخص نےہم اہلبیت(ع) سے بغض رکھا خداوند عالم قیامت کے دن اسے دین یہود پر محشور کرےگا۔ طبرانی نے اس حدیث کی اوسط میں روایت کی ہے

۵۹

یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :

“ جوشخص محبت آل محمد(ص) پر مرے گا وہ شہید مرےگا۔ دیکھو جو محبتِ آل محمد(ص) پر مرے گا وہ مغفور مرے گا۔ سارے گناہ اس کے بخش دیے جائیں گے۔ دیکھو جو محبتِ آل محمد(ص) پر مرے گا گویا وہ اپنے تمام گناہوں سے توبہ کر کے مرا، دیکھو جو محبتِ آل محمد(ص)  پر مرا وہ مومن اور کامل الایمان مرے گا۔ دیکھو جو محبتِ آل محمد(ص) پر مرا

۶۰

ملک الموت اسے جنت کی بشارت دیں گے۔ پھر منکر و نکیر جنت کی خوشخبری دیں گے۔ دیکھو جو محبت اہل بیت(ع) پر مرا جنت میں یوں سنوار کر لے جایا جائے گا جیسے دلہن اپنے خاوند کے گھر لے جائی جاتی ہے۔ دیکھو جو محبت اہل بیت(ع) پر مرا اس کے لیے قبر میں دو دروازے جنت کے کھول دیے جائیں گے۔ دیکھو جو محبت اہلبیت(ع) پر مر اس کی قبر کو اﷲ زیارت گاہ ملائکہ رحمت بنادے گا۔ دیکھو جو محبت آل محمد(ص) پر مرا وہ سنت و جماعت پر مرے گا۔ دیکھو جو بغض آلِ محمد(ص) پر مرا وہ قیامت کے دن یوں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا “ یہ رحمت خدا سے مایوس ہے”۔”

غرضیکہ آخر خطبہ تک آپ(ع) نے اسی کی توضیح فرمائی ہے۔ یہ خطبہ حضرت(ص) کا خطبہ عصما(1) کے نام سے مشہور ہے اور تمام محققین علماء اہلسنت نے اپنی کتابوں میں اس خطبہ کو درج کیا ہے۔ اس خطبہ میں آںحضرت(ص) نے بہتوں کی تمناؤں پر پانی پھیر دیا تھا ان احادیث کے کل مضامین متواتر ہیں خصوصا بطریق اہلبیت(ع) تو اور زیادہ آںحضرت(ص)  نےآل محمد(ص) کے اس قدر فضائل جو بیان کیے۔ ان کی محبت کی اتنی تاکید جو کی۔ ان کی ولایت کو بکرات و مرات اٹھتے بیٹھتے بیان جو کیا وہ کیا صرف اس وجہ سے کہ یہ حضرات آپ(ص) کے عزیز و قرابت دار تھے؟ اس بنا پر تو رسول(ص) کی شان عوام کی شان سے بھی پست ہوجاتی ہے، بلکہ رسول(ص) نے اتنا اہتمام صرف

--------------

1 ـ  امام ثعلبی نے اس حدیث کو اپنی تفسیر کبیر میں آیت مودت  کی تفسیر میں جریر بن عبداﷲ بجلی سے روایت کیا ہے اور علامہ زمخشری ن بطور مسلمات اس حدیث کو اپنی تفسیر میں درج کیا ہے۔

۶۱

اس لیے کیا کہ یہ حضرات خدا کی مکمل حجت تھے ، اس کی شریعت کے سرچشمہ تھے اور امر و نہی میں رسول (ص) کے قائم مقام تھے اور رسول(ص) کی ہدایت و تبلیغ سے اثر پذیر ہونے کا بہت ہی روشن اور واضح نمونہ تھے۔ لہذا جو ان سے اسی حیثیت سے کہ یہ حجت خدا ہیں، جانشین رسول(ص) ہیں اور رسول اسلام کا مکمل ترین نمونہ ہیں محبت کرے گا وہ خدا کی محبت بھی رکھنے والا ہے اور رسول(ص) کی بھی۔ اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ خدا سے بھی بغض رکھنے والا ہے اور رسول(ص) کے بھی۔ آںحضرت(ص) فرماچکے ہیں کہ ہم سے بس وہی محبت رکھے گا جو مومن و پرہیزگار ہے اور وہی بغض رکھے گا جو منافق و بدبخت(1) ہے۔ اسی وجہ سے فرزدق نے ان حضرات کی شان میں کہا ہے۔

                     من معشر حبهم دين و بغضهم                 کفرو قربهم منجی و معتصم

                     ان عد اهل التقی کانوا ائمتهم          او قيل من خير اهل الارض قيلهم

“ یہ امام زین العابدین(ع) اس جماعت سے ہیں جن کی محبت دین اور جن کی دشمنی کفر ہے۔ اور جن سے نزدیکی ذریعہ نجات اور جائے پناہ ہے۔ اگر پرہیزگار لوگ شمار کیے جائیں تو یہ اہل بیت(ع) ان کے امام و پیشوا ہوں گے یا اگر یہ سوال کیا جائے کہ بہترین اہل ارض کون ہے ، تو یہی جواب ملے گا کہ یہ اہل بیت(ع) نبی(ص) ہیں۔”

اور امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

“ میں اور میری پاکیزہ نسل اور میری نیکو کار عترت بچپن میں تمام لوگوں سے زیادہ حلیم اور بڑے ہوکر سب سے زیادہ علم والے ہیں اور ہمارے ذریعہ سے خدا جھوٹ کو زائل کرے گا۔ ہمارے ذریعہ

--------------

1 ـ  صواعق محرقہ باب11۔

۶۲

سے خونخوار بھیڑیوں کے دانت توڑے گا۔ ہمارے ذریعہ تمھیں رہائی دلائے گا اور تمھاری گردنوں کی رسی جدا کرے گا۔ خدا ہم سے ابتدا کرتا ہے اور ہم پر ختم(1) ۔”

لہذا ہم نے جو آلِ محمد(ص) کو ان کے اغیار پر ترجیح دی اور مقدم سمجھا تو اس لیے کہ خداوندِ عالم نے انہیں سب پر مقدم رکھا اور ہر ایک پر ترجیح دی یہاں تک کہ نماز میں ان پر درود بھیجنا تمام بندوں پر واجب قرار دیا گیا۔ اگر کوئی پوری نماز پڑھ ڈالے اور ان پر درود نہ بھیجے تو اس کی نماز صحیح ہی نہیں ہوسکتی خواہ وہ کیسا ہی صاحب فضل کیوں نہ ہو، بلکہ ہر نماز گزار کے لیے ضروری ہے کہ اس طرح نماز پڑھے کہ نماز میں ان پر درود بھیجے جس طرح کلمہ شہادتین کا ادا کرنا ضروری ہے بغیر تشہد کے نماز نہیں اسی طرح بغیر درود کے صحیح نہیں۔ اہل بیت علیہم السلام کی یہ وہ منزلت ہے ، یہ وہ درجہ و مرتبہ ہے جس کے سامنے تمام امت کی گردنیں خم ہوگئیں اور آپ نے جن اماموں کا ذکر کیا ہے ان کی نگاہیں بھی اہل بیت(ع) کے علوئے مرتبت کے آگے خیرہ ہوگئیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں

                     يا اهل بيت رسول اﷲ حسبکم                         فرض من اﷲ فی القرآن انزله

                     کفاکم من عظيم الفضل انکم                         من لم يصل عليکم لاصلاة له

“ اے اہل بیت(ع) رسول(ص) خدا آپ لوگوں کی محبت خداوند عالم نے اپنے نازل کردہ قرآن میں فرض بتائی ہے۔ آپ کی بزرگی و بلندی فضل و شرف کے لیے بس یہی کافی ہے کہ جو نماز میں آپ پر درود

-------------

[1] ـ  عبدالغنی بن سعید نے ایضاع الاشکال میں اس روایت کو درج کیا ہے۔ کنزالعمال جلد 6 صفحہ 296 پر بھی موجود ہے۔

۶۳

 نہ بھیجے اس کی نماز ، نماز ہی نہیں۔”

یہ چند دلیلین جو اہلِ بیت(ع) پیغمبر(ص) کی اطاعت واتباع اور ان کے قدم بہ قدم چلنے کو واجب بتاتی ہیں احادیثِ نبوی(ص) سے پیش کر کے ختم کرتا ہوں یہی آپ کے لیے کافی ہوں گے۔ قرآن مجید میں بے شمار محکم آیتیں ہیں ان کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ بس اہل بیت(ع) ہی کی پیروی واجب و لازم ہے۔ آپ جو کہ خود صاحب فہم و بصیرت ہیں اور ذکی اور ذہین ہیں اس لیے میں اشارہ کیے دیتا ہوں آپ کلام مجید کا مطالعہ فرمائیں آسانی سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔

                                                                             ش

۶۴

مکتوب نمبر6

ہماری تحریر پر اظہار پسندیدگی

آپ کا مکتوب گرامی پاکر شرف یاب ہوا۔ آپ کی قوت تحریر، زور بیان علمی تبحر اور محققانہ شان کا میں قائل ہوگیا۔ آپ نے تو کوئی گوشہ باقی نہیں رکھا اور تحقیقات کے خزانے آنکھوں کے سامنے کردیے۔

حیرت و دہشت کہ مذکورہ احادیث اور جمہور کی روش کو ایک کیونکر کیا جائے؟

جب میں نے آپ کے استدلال پر غور و فکر کیا اور آپ کے ادلہ و برہین پر گہری نگاہ کی تو میں عجیب تردد کے عالم میں پڑگیا ۔ میں آپ کے ادلہ پر نظر

۶۵

 کرتا ہوں تو انھیں بالکل ناقابل رد دیکھتا ہوں جتنے ثبوت آپ نے پیش کیے ہیں ان کو دیکھتا ہوں تو سوا تسلیم کرنے کے کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ جب ائمہ اہل بیت(ع) کے متعلق سوچتا ہوں تو خدا و رسول(ص) کے نزدیک ان کی وہ منزلت معلوم ہوتی ہے کہ سوا عاجزی و خاکساری سے سر جھکا دینے کے کوئی چارہ نہیں اور جب جمہور مسلمین اور سواد اعظم پر نظر کرتا ہوں تو ان کا طرز عمل ادلہ کے مفہوم کے بالکل برعکس ہے۔ ادلہ بتاتے ہیں کہ بس ان ہی کی پیروی واجب ہے اور جمہور ہرکس و ناکس کی پیروی کرنے پر تیار لیکن اہل بیت(ع) کی پیروی پر آمادہ نہیں۔ میں عجیب کش مکش میں مبتلا ہوں گویا دو نفسوں کی کھینچا تانی میں پڑگیا ہوں۔ ایک نفس کہتا ہے کہ ادلہ کی پیروی کی جائے اور دوسرا کہتا ہے کہ اکثریت اور سواد اعظم کی روش پر چلنا چاہیے۔ ایک نفس نے تو اپنے کو آپ کے حوالے کردیا ہے اور آپ کے ہاتھ سے جانے واالا نہیں لیکن دوسرا جو ہے وہ اپنے عناد کی وجہ سے آپ کے ہاتھ میں جانے پر تیار نہیں اور نافرمانی پر تلا ہوا ہے۔

کلام مجید سے ادلہ کی خواہش

آپ کتابِ خدا سے کچھ اور ایسی قطعی دلیلیں پیش کرتے جو یہ سرکش نفس بھی قابو میں آجاتا۔ اور رائے عامہ کی متابعت کی دھن دماغ سے نکلتی۔

                                                     س

جواب مکتوب

کلام مجید سے دلائل

آپ بحمدہ ان لوگوں میں سے ہیں جو کلام مجید پر گہری نظر رکھتے ہیں اور

۶۶

 اس کے رموز و اسرار ظاہر و باطن سے واقف ہیں آپ خود غور فرمائیے کہ کیا اور کسی کے متعلق بھی ایسی واضح آیتیں نازل ہوئیں جیسی کہ اہل بیت(ع) طاہرین(ع) کی شان میں نازل ہوئیں۔ کیا کلام مجید کی محکم آیتوں نے سوا اہل بیت(ع) کے کسی اور کی طہارت و پاکیزگی کا حکم لگایا(1) ۔”

اہل بیت(ع) کے لیے جیسی آیتِ تطہیر نازل ہوئی کیا دنیا بھر کے لوگوں میں سے کسی ایک کے لیے نازل ہوئی(2) ۔؟

کیا قرآن مجید نے اہل بیت(ع) کے علاوہ کسی اور کی محبت و مودت واجب ہونے کو بتایا ہے(3) ؟

کیا آیہ مباہلہ اہلبیت(ع) کے علاوہ کسی اور کے متعلق لے کر جبرائیل(ع) نازل ہوئے(4) ؟

--------------

1 ـ جیسا کہ آیت تطہیر ان سے ہر رجس و گندگی دور ہونے کو بتاتی ہے۔

2 ـ ہرگز نہیں۔ اہلبیت(ع) کی یہ وہ فضیلت و شرف ہے جس میں ان کا کوئی  شریک نہیں۔

3 ـ ہرگز نہیں، بلکہ صرف انھیں کے ساتھ یہ فضیلت مخصوص ہے۔ خداوند کریم نے بس انھیں کی محبت فرض قرار دی ہے اور اس مخصوص فضیلت سے ان کو ہر کہہ ومہ پر شرف بخشا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہہ دو اے رسول(ص) کہ ہم تم سے اپنی رسالت کا کوئی اجر نہیں طلب کرتے سوا اپنے قرابتداروں کی محبت کے اور جو شخص نیکی حاصل کرےگا( یعنی ان سے محبت رکھے گا) ہم اس کے لیے اس کی خوبی میں اضافہ کریںگے۔ بے شک اﷲ (محبت رکھنے والوں کو) برا بخشنے والا ہے ( اور ان کی محبت کا برا قدر دان ہے) تفسیر ثعلبی میں ابن عباس سے روایت ہے کہ نیکی سے آل محمد(ص) کی دوستی مراد ہے اور علامہ زمخشری صاحب کشاف نے سدی سے یہی روایت کی ہے دیکھیے تفسیر کشاف جلد3، صفحہ 68 مطبوعہ مصر۔

4 ـ آیہ مباہلہ بھی بس انھیں کے متعلق بالخصوص نازل ہوئی چنانچہ ارشاد خداوند عالم ہے ۔ کہہ دو اے رسول(ص) کہ ( اچھا میدن میں آؤ) ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔

۶۷

کیا اہل بیت(ع) کے علاوہ سورہ ہل اتی کسی اور کی شان میں قصیدہ مدحیہ بن کر نازل ہوا(1) ؟

کیا اہل بیت(ع) ہی خدا کی وہ رسی نہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے؟

“ وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا”( آل عمران، 103)

     “ تم سب خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور پراگندہ نہ ہو(2)

کیا اہل بیت(ع) ہی  وہ صادقین نہیں ہیں جن کے متعلق خدا فرماتا ہے:

--------------

1 ـ  پورا سورہ ہل اتی اہلبیت(ع) کی مدح اور ان کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہوا ہے۔

2 ـ  امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں بسلسلہ اسناد ابان بن تغلب سے انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں کہ ہم وہ خدا کی رسی ہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے کہ خدا کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو اور پراگندہ نہ ہو۔ ابن حجر مکی نے فصل اول باب 11 صواعق محرقہ مین دو آیتیں اکھٹا کی ہیں جو اہل بیت(ع) کے متعلق نازل ہوئیں چنانچہ اس آیت کو ان آیات میں شمار کیا ہے اور انھوں نے بھی ثعلبی سے نقل کر کے امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ذکر کیا ہے “ رشفتہ الصادی” میں امام شافعی کے یہ اشعار مذکور ہیں۔

 ولما رايت الناس قد ذهبت بهم             مذاهبهم فی ابحر الغی والجهل

 رکبت علی اسم اﷲ فی سفن النجا       وهم اهل بيت المصطفی خاتم الرسل

 وامسکت حبل اﷲ وهو ولاؤهم           کما قد امرنا بالتمسک بالحبل

جب میں نے دیکھا کہ اہل بیت(ع) کے بارےمیں لوگوں کو ان کے مذہب گمراہی و جہالت کے سمندر میں لے جارہے ہیں تو میں خدا کا نام لے کر سفینہ نجات پر سوار ہوگیا یعنی حضرت محمد مصطفی خاتم المرسلین(ص) کے اہل بیت کے ساتھ ہوگیا اور میں نے خدا کی رسی جو ان اہل بیت(ع) کی محبت واطاعت ہے مضبوطی سے پکڑ لی۔ جیسا کہ ہمیں حکم بھی دیا گیا ہے کہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو۔

۶۸

وَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقينَ(1) (توبہ، 119)

کیا ہل بیت(ع) ہی وہ خدا کی راہ نہیں جس کے متعلق خدا نے فرمایا ہے:

 “وَ أَنَّ هذا صِراطي‏ مُسْتَقيماً فَاتَّبِعُوهُ(2) (آل عمران، 153 )

کیا اہل بیت(ع) ہی خدا کا وہ واحد راستہ نہیں جس کےمتعلق خدا نے امتِ اسلام کو حکم دیا :

وَ لا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبيلِهِ ” (آل عمران، 153 )

اہلبیت (ع) کو چھوڑ کر دوسری راہیں نہ اختیار کرو کہ اصلی راستہ ہی سے جدا ہوجاؤ۔

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ اولی الامر نہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے:

 “يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ” ( النساء، 59 )

 “ اے ایماندارو! اطاعت کرو خدا کی اور اس کے رسول(ص) اور تم میں سے جو اولی الامر ہیں(3) ۔”

--------------

1 ـ صادقین سے مراد یہاں حضرت رسول خدا(ص) اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں جیسا کہ ہماری صحیح اور متواتر حدیثیں بتاتی ہیں ہمارے علاوہ حضرات اہل سنت کے یہاں بھی حدیثیں موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ صادقین سے مراد یہی حضرات ہیں جیسا کہ حافظ ابونعیم اور موفق ابن احمد نے روایت کی ہے اور ان سے ابن حجر سے صواعق محرقہ باب 11 صفحہ20 پر نقل کیا ہے۔

2 ـ امام محمد باقر و جعفرصادق علیہم السلام فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد امام ہے اور ( لا تتبعوا السبیل دوسری راہیں نہ اختیار کرو) سے مقصود یہ ہے کہ گمراہ کرنے والے اماموں کی پیروی نہ کرو کہ اصلی راستہ ( یعنی ہم سے ) تم جدا ہوجاؤ۔

[1] ـ ثقہ الاسلام محمد بن یعقوب کلینی نے بسند صحیح بریدہ عجلی سے روایت کی ہے بریدہ کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر (ع) سے قول خدادندِ عالم “أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ” کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے جواب میں یہ آیت پڑھی۔“ النساء : 51   أَ لَمْ تَرَ إِلَى الَّذينَ أُوتُوا نَصيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوتِ وَ يَقُولُونَ لِلَّذينَ كَفَرُوا هؤُلاءِ أَهْدى‏ مِنَ الَّذينَ آمَنُوا سَبيلاً ” کیا تم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جنھیں تھوڑا بہت کتاب کا علم ملا ہے وہ شیطان اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کفر اختیار کرنے والوں کو کہتے ہیں کہ یہ ایمان لانے والوں سے زیادہ راہ راست پر ہیں یہ گمراہی اور ضلالت کے اماموں اور جہنم کی طرف لے جانے والوں کےمتعلق کہتے ہیں کہ آل محمد(ص) سے زیادہ راہ ہدایت پانے والے ہیں۔“ أُولئِكَ الَّذينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَ مَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصيراً ” یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور جس پر خدا لعنت کرے اس کا کسی کو مددگار نہ پاؤگے۔

۶۹

کیا اہلبیت(ع) ہی وہ صاحبان ذکر نہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے :

فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ

“ اگر تم نہیں جانتے تو صاحبان ذکر سے پوچھو (1) ۔”

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ مومنین نہیں جن کے متعلق خدا کا ارشاد ہے:

وَ مَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدى‏ وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبيلِ الْمُؤْمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلَّى وَ نُصْلِهِ جَهَنَّمَ”  ( النساء، 115)

“ جو شخص ہدایت کا راستہ واضح ہوجانے کے بعد رسول(ص) کی مخالفت

--------------

1 ـ امام ثقلبی نے اپنی تفسیر میں جناب جابر سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو امیرالمومنین(ع) نے فرمایا کہ ہم ہی وہ اہل ذکر ہیں یہی جملہ ائمہ طاہرین(ع) سے منقول ہے علامہ بحرینی نے بیس سے زیادہ حدیثیں 35 باب میں درج کی ہیں سب کا مضمون یہی ہے۔

۷۰

 کرے گا اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر دوسری راہ چلے گا ہم اس کو اس کی روگردانی کا مزا چکھائیں گے(1) ۔”

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ ہادی نہیں جن کے متعلق فرمایا ہے: 

إِنَّما أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ ” (الرعد، 7)

“ اے رسول(ص) تم ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے(2) ۔”

اور کیا اہلبیت(ع) ہی وہ لوگ نہیں جن پر خدا نے اپنی نعمتیں نازل کیں اور جن کے متعلق خداواند عالم سے سورہ فاتحہ میں ارشاد فرمایا ہے:

“اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقيمَ صِراطَ الَّذينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ” ( فاتحه، 6-7)

--------------

1 ـ ابن مردویہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مشاقہ( مخالفت) رسول(ص) سے مراد یہاں علی(ع) کی شان میں اختلاف کرنا ہے اور من بعدما تبین لہ الہدی میں ہدی کا جو لفظ ہے اس سے مراد شان امیرالمومنین(ع) ہے یعنی امیرالمومنین(ع) کی شان و جلالت واضح ہونے کے بعد جو اس میں چون وچرا کرے۔ عیاشی نے بھی اپنی تفسیر میں اسی مضمون کی حدیث درج کی ہے ۔ ائمہ طاہرین(ع) سے بکثرت صحیح اور متواتر حدیثیں مروی ہیں جو بتاتی ہیں کہ سبیل مومنین سے مراد انہیں ائمہ طاہرین(ع) کا مسلک ہے۔

2 ـ ثعلبی نے اس آیت کی تفسیر میں جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول(ص) نے اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا کہ میں ڈرانے والا ہوں اور علی(ع) ہادی ہیں اور اے علی(ع) ! تمہارے ہی ذریعے ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے۔ اس مضمون کی متعدد حدیثیں مفسرین ، محدثین نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہیں۔ محمد بن مسلم سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا ہر امام اپنے زمانے کا ہادی ہے اور امام محمد باقر(ع) نے فرمایا ہے اس آیت کی تفسیر میں کی منذر سے مراد رسول(ص) اور ہادی سے مراد حضرت علی(ع) ہیں پھر آپ نے فرمایا کہ قسم بخدا یہ بات اب تک ہم میں چلی آرہی ہے۔

۷۱

“ خداوند ہمیں راہ راست کی ہدایت کر ان لوگوں کی راہ جن پر تونے اپنی نعمتیں نازل فرمائیں(1) ۔”

اور دوسری جگہ فرمایا ہے:

“  فَأُولئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَ الصِّدِّيقينَ وَ الشُّهَداءِ وَ الصَّالِحينَ ” ( نساء ، 69)

“ اور وہ مومنین بندے ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے اپنی نعمت نازل کی ہے(2) ۔”

کیا خداوند عالم نے انھیں کے لیے ولایت عامہ نہیں قرار دی اور رسول(ص) کے بعد ولایت کا انحصار انھیں میں نہیں کردیا ۔ پڑھیے یہ آیت :

إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ ” (المائدة،55   )

“ اے لوگو! تمہارا ولی خدا ہے اور اس کا رسول(ص) اور وہ لوگ جو ایمان لائے ، جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں(3) ۔”

--------------

1ـ ثعلبی اپنی تفسیر میں بسلسلہ تفسیر سورہ فاتحہ ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ صراطِ مستقیم سے مراد محمد(ص) وآل(ع) محمد(ص) کا راستہ ہے اور وکیع بن جراح سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے انھوں نے سفیان ثوری سے انھوں نے سدی سے انھوں نے اسباط و مجاہد سے اور انھوں نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ “اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقيمَ ” کا مطلب یہ ہے کہ تم کہو اے معبود محمد وآل محمد(ص) کی محبت کی طرف ہماری رہنمائی کر۔

2ـ کوئی شبہ نہیں کہ ائمہ علیہم السلام سید و سردار ہیں جملہ صدیقین و شہداء و صالحین کے۔

3 ـ تمام مفسرین کا اجماع و اتفاق ہے جیسا کہ علامہ قوشجی نے شرح تجرید مین اس کا اعتراف کیا ہے ( اور یہ علامہ قوشجی اشاعرہ کے ائمہ سے ہیں) کہ یہ آیت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی جب آپ نے نماز میں بحالت رکوع انگوٹھی خیرات کی تھی۔ امام نسائی نے بھی اپنی صحیح میں عبداﷲ بن سلام سے روایت کی ہے کہ یہ آیت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی اسی طرح صاحب المجمع بن الصحاح الستہ نے بھی سورہ مائدہ کی تفسیر میں اس آیت کے امیرالمومنین(ع) کی شان مین نازل ہونے کی روایت کی ہے ثعلبی نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کے امیرالمومنین (ع) کی شان میں نازل ہونے کی روایت کی ہے۔

۷۲

اور کیا خدا نے مغفرت کو مختص نہیں کردیا صرف ان لوگوں کے ساتھ جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور عمل صالح کریں اور ساتھ ساتھ ولایتِ آلِ محمد(ص) کی طرف ہدایت یاب بھی ہوں جیسا کہ خود خداوند عالم نے فرمایا ہے:

وَ إِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى‏” ( طہ، 82)

“ بے شک میں بخشنے والا ہوں اس کو جو توبہ کرے ایمان لائے اور عمل صالح کرے پھر ہدایت یاب بھی ہو(1) ۔”

--------------

1 ـ  ابن حجر نے صواعق محرقہ فصل اول باب 11 میں لکھا ہے ان کی اصل عبارت کا ترجمہ یہ ہے : آٹھویں آیت میں اﷲ تعالی فرماتا ہے : بے شک میں بخشنے والا ہوں اس کو جو توبہ کرے ، ایمان لائے اور عمل صالح کرے اور ساتھ ساتھ ہدایت یاب بھی ہو” ثابت نباتی کہتے ہیں کہ یعنی ولایت اہل بیت(ع) کی طرف ہدایت یاب ہو۔ امام محمد باقر(ع) و جعفرصادق(ع) سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔ اس کے بعد ابن حجر نے امام محمد باقر(ع) کے اس قول کا بھی ذکر کیا ہے جو آپ نے حارث بن یحی سے فرمایا تھا کہ اے حارث ، کیا دیکھتے نہیں کہ خداوند عالم نے کیونکر شرط قرار دی ہے کہ انسان کو توبہ ایمان و عمل صالح اس وقت تک نفع بخش نہیں جب تک ہماری ولایت کی طرف راہ نہ پائے پھر آپ نے اپنی اسناد سے حضرت امیرالمومنین(ع) سے دریافت فرمائی ہے کہ اگر کوئی شخص توبہ بھی کرے ایمان بھی لائے عمل صالح بھی کرے مگر ہماری ولایت کی طرف ہدایت یافتہ نہ ہو اور ہمارے حق کو پہچانتا نہ ہو تو کوئی چیز بھی اس کے لیے فائدہ بخش نہ ہوگی۔ حافظ ابونعیم نے بھی عون بن ابی جعفر سے انھوں نے اپنے باپ سے انھوں نے حضرت علی(ع) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے۔ امام حاکم نے امام محمد باقر(ع) وجعفر صادق(ع) ثابت بنائی انس بن مالک ان حضرات میں سے ہر شخص سے اس مضمون کی حدیث روایت کی ہے۔

۷۳

کیا انھیں کی ولایت وہ امانت نہیں  جس کے متعلق خداوند عالم کا ارشاد ہے(1) :

 “إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَةَ عَلَى السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَها وَ أَشْفَقْنَ مِنْها وَ حَمَلَهَا الْإِنْسانُ إِنَّهُ كانَ ظَلُوماً جَهُولاً ” (احزاب، 72  )

“ ہم نے امانت کو آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر پیش کیا سب نے اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے خائف ہوئے اور انسان نے اٹھالیا اور وہ تو ظالم و جاہل ہی ہے۔”

کیا اہل بیت  علیہم السلام ہی صلح و سلامتی نہیں جس میں داخل ہونے کا خداوند عالم نے حکم دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے :

 “يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَ لا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ ” (البقرة : 208)

“ اے لوگو! سب کے سب سلامتی میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو(2)

--------------

1 ـ دیکھیے اس آیت کے معنی جو تفسیر صافی اور تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں بیان کیے گئے ہیں۔ نیز ابن بابویہ نے امام محمد باقر علیہ السلام و امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے  اور علامہ بحرینی نے اس آیت کی تفسیر میں کتاب غایتہ المرام باب 115 میں حضرات اہلسنت کی حدیثیں درج کی  ہیں اسے بھی ملاحظہ فرمائیے۔

2 ـ علامہ بحرینی نے کتاب غایتہ المرام کے باب 224 میں بارہ صحیح حدیثیں اس آیت کے ولایت امیرالمومنین (ع9 وائمہ طاہرین(ع) کے بارے میں نازل ہونے کے متعلق لکھی ہیں اور باب 223 میں لکھا ہے کہ اصفہانی اموی نے امیرالمومنین(ع) سے متعدد طریق سے اس کی روایت کی ہے۔

۷۴

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ نعمتِ خداوند عالم نہیں جس کے متعلق ارشاد الہی ہے :

 “ ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعيمِ ” ( التکاثر، 8)

“ قیامت کے دن ضرور بالضرور تم سے اس نعمت کا سوال کیا جائے گا(1) ۔”

کیا حضرت سرورکائنات(ص) کو اسی نعمت کے پہنچانے کا تاکیدی حکم نہیں ہوا؟ اور اتنی سختی نہیں کی گئی جو دھمکی سے مشابہ تھی؟ جیسا کہ آیت کا اندازہ بتاتا ہے:

  “يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ” (مائدہ، 67)

“ اے رسول(ص) پہنچا دو اس چیز کو جو تم پر تمھارے پروردگار کی جانب سے نازل ہوئی اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تم نے کار رسالت انجام ہی نہیں دیا ۔ تم ڈرو نہیں خدا تمہیں لوگوں سے محفوظ رکھے گا(2) ۔”

--------------

1 ـ  علامہ بحرینی نے غایتہ المرام باب اڑتالیس میں 3 حدیثیں حضرات اہلسنت کے طریقوں سے لکھی ہیں جن سے مستفاد ہوتا ہے کہ نعیم سے مراد یہاں ولایت حضرت سرورکائنات(ص) اور امیرالمومنین(ع) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام ہے جس سے خداوند عالم نے بندوں کو سر فراز کیا اور باب 49 میں شیعوں کی 12 صحیح حدیثیں اسی مضمون کی درج کی ہیں۔

2 ـ ایک دو نہیں بکثرت محدثین جیسے امام واحدی و غیرہ نے اپنی کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۷۵

۷۶

۷۷

وارد ہوئی ہیں اور درحقیقت ان حضرات کی ولایت ہے بھی ایسی ہی اہمیت کی حامل کیونکہ ان کی ولایت ان چیزوں میں سے ہے جن کی تبلیغ کے لیے خداوند عالم نے انبیاء مبعوث کیے۔ انباء و اوصیاء کے ذریعے اپنی حجتیں قائم کیں ، جیسا کہ آیہ :

 “وَ سْئَلْ مَنْ أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ (1) مِنْ رُسُلِنا ”( زخرف، 45)

“ ہمارے ان رسولوں سے پوچھو جنھیں ہم نے تم سے پیشتر بھیجا تھا۔”

کی تفسیر میں علماء نے صراحت فرمائی ہے بلکہ ان کی ولایت تو وہ مہتم باشان امر ہے جس کا خداوند عالم نے روزِ الست ارواح خلق سے عہد وپیمان لیا، جیسا کہ :

 “وَ إِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَني‏ آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ أَشْهَدَهُمْ عَلى‏ أَنْفُسِهِمْ أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قالُوا بَلى‏ (2) ”( اعراف، 172)

“ اور اے رسول(ص) وہ وقت بھی یاد دلاؤ جب تمھارے پروردگار نے آدم(ع) کی اولاد سے یعنی پشتوں سے باہر نکال  کر ان کی اولاد سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرالیا۔ پوچھا کہ کیا میں تمھارا پروردگار نہیں ہوں۔ تو سب کے سب بولے ۔ہاں۔”

کی تفسیر بتاتی ہے۔ انھیں ذواتِ مقدسہ سے وسیلہ حاصل کر کے آدم(ع) نے وہ کلمات سیکھے جن کے ذریعے ان کی توبہ قبول ہوئی(3) ۔

یہی وہ حضرات ہیں جن کی وجہ سے خداوند عالم نے امت سے اپنا عذاب دور رکھا۔(4)

--------------

1 ـ حلیتہ الاولیاء ، ابونعیم اصفہانی، تفسیر ثعلبی، تفسیر نیشاپوری۔

2 ـ فردوس الاخبار، علامہ دیلمی باب 14، صفحہ 304۔

3 ـ تفسیر در منثور جلد1، صفحہ61، کنزالعمال، جلد1، صفحہ234، ینابیع المودہ، صفحہ79۔

4ـ  صواعق محرقہ، تفسیر آیہ “وما کان اﷲ ليعذب ه م الخ”

۷۸

یہ زمین والوں کے لیے جائے پناہ اور خدا تک پہنچنے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن سے حسد کیا گیا اور خداوند عالم نے ان کے بارے میں فرمایا :  “أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلى‏ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ (1) ” (نساء، 54)

“ یہ لوگ کیوں جل رہے ہیں ہمارے ان مخصوص لوگوں سے جن کے دامن میں ہم نے اپنے فضل سے نعمتیں بھر دی ہیں۔”یہی وہ علم میں راسخ حضرات ہیں جن کے متعلق خداوند عالم نے فرمایا :“وَ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا (2) ” ( آل عمران، 7)

“ علم میں گڑے ہوئے سمائے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔”یہی وہ اعراف کے رجال ہیں جن کے متعلق خداوند عالم کا ارشاد ہے: “  وَ عَلَى الْأَعْرافِ رِجالٌ يَعْرِفُونَ كُلاًّ بِسيماهُمْ (3) ”( الاعراف، 46)

--------------

1 ـ صواعق محرقہ، باب 11، آیت6۔

2 ـ ثقتہ الاسلام علامہ کلینی نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے “ ہم ہی وہ لوگ ہیں جن کی اطاعت خدا نے فرض کی۔ ہم ہی راسخون فی العلم ہیں، ہم ہی وہ لوگ ہیں جن سے حسد کیا گیا۔ ” جناب شیخ نے بھی تہذیب میں امام جعفر صادق(ع)  سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔

3ـ ینابیع المودة صفحہ 83، روح البیان جلد1 ، صفحہ 723، ابن عباس سے مروی ہے کہ اعراف صراط سے ایک بلند جگہ ہے جس پر عباس، حمزہ، علی، اور جعفر ذوالجناحین ہوں گے، وہ اپنے دوستداروں کو ان کے روشن چہروں سے اور اپنے دشمنوں کو ان کے سیاہ چہروں سے پہچان لیں گے۔ امام حاکم نےبسلسلہ اسناد حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ ہم بروز قیامت جنت ونار کے درمیان کھڑے ہوں گے جس نے ہماری مدد کی ہوگی اسے ہم پہچان کر جنت میں اور جس نے دشمن رکھا ہوگا اسے جہنم میں داخل کریںگے اسی مضمون کی وہ حدیث کی تاکید کرتی ہے جو دار قطنی نے روایت کی ہے( ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب نہم) حضرت علی(ع) نے ان چھ آدمیوں سے جنھیں حضرت عمر نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کے لیے صاحبان شوری قرار دیا تھا ایک طولانی گفتگو میں کہا میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم میں میرے سوا کوئی بھی ایسا ہے جس کے بارے میں پیغمبر(ص) نے فرمایا اےعلی(ع) تم بروز قیامت قسیم نار و جنت ہوگے لوگوں نے کہا نہیں آپ کے سوا اور کسی کے متعلق رسول(ص) نے ایسا نہیں فرمایا۔ علامہ ابن حجر ( اس حدیث کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے جیساکہ عنترہ نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا اے علی (ع) تم قسیم نار وجنت ہو تم جنت سے کہو گے یہ تیرے لیے ہے اور یہ میرے لیے۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ سماک نے دریافت کی ہے کہ ابوبکر نے حضرت علی(ع) سے کہا میں نے پیغمبر(ص) کو ارشاد فرماتے سنا ہے “ پل صراط سے بس وہی گزرے گا جسے علی(ع) نے پروانہ راہداری دیا ہو۔”

۷۹

“ اعراف پر ایسے مرد ہوں گے جو ہر شخص کو بہشتی ہو یا جہنمی اس کی پیشانی سے پہچان لیں گے۔”

یہی وہ رجال صدق ہیں جن کے متعلق ارشاد ہوا :

 “  رِجالٌ صَدَقُوا ما عاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضى‏ نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَ ما بَدَّلُوا تَبْديلاً ” ( احزاب، 23)

“ ایمانداروں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ خدا سے انھوں نے جان نثاری کا جو عہد کیا تھا اسے پورا کردکھایا۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جو مر کر اپنا وقت پورا کر گئے اور ان میں سے بعض حکم خدا کے منتظر بیٹھے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات ذرا بھی نہیں بدلی(1) ۔”

--------------

1 ـ علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ ، باب 9 میں تحریر کیا ہے کہ حضرت امیرالمومنین(ع) منبر کوفہ پر تشریف رکھتے تھے کہ کسی نے اس آیت کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا یہ آیت میرے اور میرے چچا حمزہ اور چچازاد بھائی عبیدہ بن حارث کے متعلق نازل ہوئی۔ عبیدہ تو بروز بدر واصل بحق ہوئے۔ چچا حمزہ احد میں شہید ہوئے رہ گیا میں سو میں اس بدبخت ترین مردم کا انتظار کررہا ہوں جو میری ڈاڑھی کو میرے سر کے خون سے خضاب آلود کرےگا۔ میرے حبیب محمد مصطفی(ص) مجھے بتا گئے ہیں۔ امام حاکم نے بھی اس مضمون کی حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639