دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 262520
ڈاؤنلوڈ: 6008

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 262520 / ڈاؤنلوڈ: 6008
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 حاکم بن بیٹھیں گے کہ ہوں گے تو وہ انسانی پیکر میں مگر ان کے دل شیطانوں کے دل ہوں گے۔”

حذیفہ نے پوچھا یا حضرت اگر میں نے ایسا دور پایا تو میں کیا کروں گا؟

آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ :

“ تم امیر کی بات سننا ، اس کی اطاعت کرنا اگر چہ وہ تمھاری پشت زخمی کردے ۔ تمھارے مال کو چھین لے مگر پھر بھی تم اس کی بات مانو اور اطاعت کرو۔”(1)

ایسا ہی آںحضرت(ص) نے ام سلمہ کی ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ :

“ عنقریب تم پر چند فرمانروا مسلط ہوں گے :

فتعرفون و تنکرون فمن عرف بریء ، و من انکر سلم”(2)

لوگوں نے پوچھا کہ ہم ان سے برسرپیکار ہوں؟ رسول(ص) نے کہا :

“ جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں تب تک نہیں۔”

اس بارے میں بہت سی متواتر اور صحیح حدیثیں ہیں۔ خصوصا بطریق ائمہ طاہرین(ع) تو بہت زیادہ ۔ یہی وجہ تھی کہ باوجودیکہ ۔ائمہ طاہرین(ع) کی حالت

--------------

1ـ مسلم نے جلد2 صفحہ120 میں اسے لکھا ہے اور اکثر اصحاب سنن نے اسے روایت کیا ہے۔

2ـ صحیح مسلم جلد2 صفحہ122 میں یہ حدیث ہے۔ حدیث کی مراد یہ ہے کہ جس نے منکر کا جانا اور منکر اس پر مشتبہ نہیں ہوا تو اس کے گناہ سے برائت کی صورت یہ ہے کہ اس کے منکر (بدی ) کو وہ اپنے یا زبان سے دفع کرے۔ اور کچھ نہ کرسکتا ہو تو دل ہی دل میں اسے برا کہے۔

۴۶۱

اس جیسی ہورہی تھی جس کے گلے میں ہڈی پھنسی ہوئی ہو اور آنکھوں میں خس  و خاشاک پڑے

ہوں ، دم گھٹ رہا ہو، آنکھیں جل رہی ہوں مگر وہ صبر کیے برداشت کرتے رہے ۔ ان کا   صبر کرنا محض اسی وجہ سے تھا کہ پیغمبر(ص) انھیں مخصوص طریقے پر حکم دےگیے تھے، تاکید کرگئے تھے کہ دیکھو اس نوبت پر بھی پہنچ کر اف نہ کرنا۔ رسول(ص) انھیں حکم دے گئے تھے کہ دیکھو جتنی اذیتیں بھی تمھیں پہنچائی جائیں مگر تم صبر کرنا تاکہ امت والوں کا بھلا ہو، ان کی شوکت محٰفوظ رہے، اس وجہ سے یہ لوگ انتہائی تلخی کے باوجود حکام وقت کو ہدایت کے راستے دکھاتے رہے تاکہ اپنی ذمہ داری کو پورا کریں اور رسول(ص) سے کیے ہوئے وعدے کو نافذ کریں۔

اسی وجہ سے امیرالمومنین(ع) نے خلفاء ثلاثہ میں سے ہر ایک کے ساتھ سچے دل سے خیر خواہی کی۔ ہمیشہ ان کو مشورہ دیتے رہے۔ زمانہء خلافتِ ثلاثہ میں امیرالمومنین(ع) کے حالات و طرز عمل کا جائزہ لیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ امیرالمومنین(ع) نے اپنے حق سے نا امید ہو کر ، جانشینی رسول(ص) سے مایوس ہو کر آپ نے مصالحانہ روش رکھی اور شاہان وقت سے صلح و آشتی کو اپنا وتیرہ بنایا۔ آپ دیکھتے تھے کہ مسند رسول(ص) غیروں کے قبضہ میں حالانکہ رسول(ص) آپ کے حوالہ کر گئے تھے۔ مگر پھر بھی آپ ان سے آمادہ پیکار نہ ہوئے۔ اپنا حق لینے پر کمر بستہ نہ ہوئے۔ صرف اسی لیے تاکہ امت کا بھلا ہو۔ دین پر آںچ نہ آئے ۔ آغاز سے قطع نظر کر کے آپ نے انجام کو ترجیح دی۔ اس کے لیے آپ کو جو مشقتیں جھیلنی پڑیں جن ہولناک مرحلوں سے گزرنا پڑا کسی اور کو یہ باتیں پیش نہ آئیں۔ آپ کے روش پر دو اسیے گراں بوجھ تھے جو آپ کو تھکائے دے رہے تھے ۔ ایک جانب

۴۶۲

خلافتِ رسولذ(ص) تمام ںصوص و تاکیداتِ پیغمبر(ص) کےساتھ دل کو خون کردینے والی آواز اور جگر چاک چاک کردینے والی کراہ کےساتھ آپ سے فریاد کررہی تھی آپ کو بے چین بنائے دے رہی تھی دوسری طرف فتنہ و فساد کے اٹھتے ہوئے طوفان سہمائے دے رہے تھے۔ جزیروں کے ہاتھ سے نکل جانے عرب میں انقلاب عظیم برپا ہونے اور اسلام کے بخ وبن سے اکھڑ جانے کا اندیشہ تھا مدینہ واطراف مدینہ کے عرب منافقین جو بڑے سرگرم سازشی تھے ان کی طرف سے فتنہ و فساد کا بڑا خطرہ لاحق تھا کیونکہ رسول(ص) کی آںکھ بند ہونے کے بعد ان کا اثر بہت بڑھتا جاتا تھا۔ اور مسلمانوں کی حالت بالکل اس بھیڑ بکری جیسی تھی جو جاڑے کی تاریک راتوں میں بھیڑیوں اور درندوں کے درمیان بھٹکتی پھرے۔

مسیلمہ کذاب ، طلیحہ بن خویلد اور سجاح بنت حرث ایسے جھوٹے مدعیاں نبوت پیدا ہوچکے تھے اور ان کے ماننے والے اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کی تباہی و بربادی پر تلے ہوئے تھے۔ قیصر و کسری وغیرہ تاک میں تھے۔ غرض اور بھی بہت سے دشمن عناصر جو محمد و آل محمد(ص) اور پیروان محمد(ص) کے خون کے پیاسے تھے اور کلمہ اسلام سے خار کھاتے تھے بڑا غم و غصہ اور شدید بغض و عناد رکھتے تھے وہ اس فکر میں تھے کہ کسی طرح اس کی بنیاد منہدم ہوجائے۔ اور جڑ اکھڑ جائے۔ اور اس کے لیے بڑی تیزی و سرگرمی ان میں پیدا ہوچکی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہماری آرزوئیں بر آئیں۔ رسول(ص) کے اٹھ جانے سے موقع ہاتھ آیا۔ لہذا اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور قبل اس کے کہ ملتِ اسلامیہ کے امور میں نظم پیدا ہو، حالات استوار ہوں اس مہلت سے چوکنا نہ چاہیے۔

۴۶۳

اب آپ اندازہ فرمائیں کہ امیرالمومنین(ع) کے قدم ان خطروں کے درمیان تھے۔ ایک طرف حق مٹ رہا تھا، خلافت ہاتھوں سے جارہی تھی دوسری طرف اسلام کے تباہ و برباد ہوجانے ، رسول(ص) کی ساری محنت مٹی میں مل جانے کا خوف تھا لذا فطری و طبعی طور پر امیرالمومنین(ع) کے لیے بس یہی راہ نکلتی تھی کہ اسلام کی زندگی کے لیے اپنے حق کو قربان کردیں۔ عام مسلمانوں کی بھلائی کی خاطر اپنی محرومی گوارا کر لیں لہذا اس نزاع کا ختم ہونا اور ابوبکر اور آپ کے درمیان جو اختلافات تھے ان کا برطرف ہوجانا( جسے آپ اجماع کے ثبوت میں پیش کر رہے ہیں) وہ صرف دین اسلام کی تباہی اور مسلمانوں کی بربادی کے خوف کہ وجہ سے آپ نے ، آپ کے تمام گھر والوں نے ، مہاجرین و اںصار میں جتنی آپ کے طرفدار تھے سب نے صبر کیا اور اپنی بربادی دیکھا کیے مگر اف تک نہ کی۔

رسول(ص) کے بعد امیرالمومنین(ع) کے مرتے دم تک کی تقریریں ، خطبے، گفتگوئیں، بین ثبوت ہیں اس کا اور اس کے متعلق ائمہ طاہرین علیہم السلام سے متواتر حدیثیں موجود ہیں۔

لیکن اںصار کے سردار سعد بن عبادہ(1) نے تو حضرت ابوبکر و عمر سے آخر

--------------

1ـ سعد بن عبادہ کی کنیت ابو ثابت تھی۔ یہ اصحاب بیعت عقبی سے تھے ۔ جنگ بدر نیز دوسری بہت سی لڑائیوں میں شریک رہے۔ یہ قبیلہ خزرج کے سردار اور نقیب تھے تمام اںصار کے سرکردہ اور ان میں مشہور صاحب جود و کرم تھے۔ ان کے جس کلام کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے وہ تمام کتب سیر و تواریخ میں موجود ہے۔ ابن قتیبہ نے کتاب الامامہ والسیاست میں، ابن جریر طبری نے تاریخ طبری میں  ابن اثیر خدری نے تاریخ کامل میں جوہری نے کتاب السقیفہ میں نیز اور بہت سے محققین علماء اہل سنت نے اپنے مصنفات کے اندر درج کیا ہے۔

۴۶۴

 تک مصالحت ہی نہ کی۔ ان میں اور شیخین میں کبھی میل ہی نہ ہوا۔ عید کے موقع پر نہ جمعہ کی نماز میں کسی جماعت میں بھی ان دونوں حضرات کے شریک نہ ہوئے انھوں نے کبھی ان دونوں حضرات کی باتوں پر کان نہ دھرا اور نہ ان کے اوامرو نواہی کا اثر ان کے دل پر ہوا۔ بالاخر مقام حوران میں بعہد خلافت عمر اچانک طور پر قتل کر ڈالے گئے اور مشہور کیا گیا کہ جن نے مار ڈالا۔

انھوں نے سقیفہ کے دن اور اس کے بعد بھی جو باتیں کہیں ان کا ذکر ضروری معلوم نہیں ہوتا۔ سعد بن عبادہ کے اصحاب حباب(1) بن منذر وغیرہ دیگر اںصار انھوں نے بھی خوشی خوشی بیعت نہیں کی۔ بلکہ ان سے زبردستی بیعت لی گئی اور وہ جبر و تشدد کے آگے سرجھکانے پر مجبور ہوگئے لہذا تلوار کی باڑھ سے ڈرا کر یا گھر میں آگ(2) لگا کر زبانیں خاموش کردی جائیں۔ مجمع کوہمنوا بنا لیا جائے

--------------

1 ـ حباب بھی منجملہ سرداران وشجاعان انصار سے تھے ۔جنگ بدرواحد میں شریک رہ چکے تھے بڑھے فضائل وکمالات کے بزرگ تھے ۔

2ـ عمر کا خضرت علی(ع) کو دھمکی دینا کہ ہم آپ کا گھر جلا دیں گے بہ تواتر قطعی ثابت ہے ابن قتیبہ نے کتاب الامامت ولسیاست کے شروع میں ۔ طبری نے اپنی تاریخ میں دو جگہ بسلسلہ حوادث سنہ 11ھ اور ابن عبد ربہ نے کتاب عقد الفرید جلد2 تذکرہ سقیفہ میں جوہری نے کتاب سقیفہ میں بیان کیا ہے ،جیسا کہ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی کی جلد اول صفحہ 134 میں مذکور ہے مسعودی نے مروج الذہب میں عروہ بن زبیر نے اپنے بھائی عبداﷲ بن زبیر کی طرف سے جنھوں نے بنی ہاشم کے گھروں کو جلانا چاہا تھا معذرت میں بیان کیا تھا کہ اگر میرے بھائی عبداﷲ نے بیعت نہ کرنے کی وجہ سے بنی ہاشم کا گھرانا جلانا چاہا تو اس سے ملتا جلتا واقعہ پہلے بھی پیش آچکا ہے جب خود عمر ابن خطاب نے علی(ع) کے بیعت نہ کرنے کی وجہ سے سیدہ (س) کا گھر پھونگ دینا چاہا۔ شہرستانی نے ملل ونحل میں ذکر کیا۔ ابومخنف نے سقیفہ کے حالات میں مخصوص ایک  کتاب لکھی ہے اس میں بہت تفصیل سے آتش زنی کا ذکر کیا ہے اس کے تواتر و ہمہ گیری شہرت کے ثبوت میں مختصرا یہ سمجھ لیجیے کہ شاعر نیل حافظ ابراہیم نے اپنے مشہور و معروف قصیدہ عمریہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔

و قولة لعليّ قالها عمر

 أكرم بسامعها، أعظم بملقيها

حرقت دارك، لا ابقي عليها بها

إن لم تبايع،وبنت المصطفى فيها

                               ماکان غير ابی حفص بقائلها                                           امام فارس عدنان و حاميها

اور ایک بات جو علی(ع) سے عمر نے کہی اس بات کا سننے والا کس قدر معزز و محترم تھا اور کہنے والا کس قدر عظیم القدر تھا اگر تم نے بیعت نہ کی تو میں تمھارا گھر جلا کے رہوں گا۔ یہ جانتے ہوئے کہ رسول(ص) کی دختر بھی اسی گھر میں ہے۔ مگر میں اس کی وجہ  سے ذرہ برابر پر رحم نہ کروں گا۔! ابوحفص عمر ہی اس بات کے کہنے والے ہیں کوئی اور نہیں انھوں نے یہ بات پورے خطہ عرب کے شہسوار اور شجاع یعنی حضرت علی(ع) کے روبرو کہی۔”تو اجماع کے لیے ابوبکر و عمر کا یہ سلوک رہا ہمارے امام کے ساتھ ۔ہمارے نزدیک وہ اجماع قابل حجت ہوتا ہے جو رائے امام کا کاشف ہو۔ یہاں رائے امام کا کاشف ہونا تو درکنار جیسا اجماع ہوا اور امام کو جس طرح مجبور کیا گیا وہ آپ سن چکے لہذا ایسے اجماع کو آپ بطور دلیل کیونکر پیش کرسکتے ہیں؟

۴۶۵

 تو کیا ایسی بیعت واقعی ہوگی؟ اور ایسا اجماع اس اجماع کا مصداق ہوگا جس کے متعلق رسول(ص) نے فرمایا تھا

کہ :

“لَا تَجْتَمِعُ‏ أُمَّتِي‏ عَلَى خَطَإٍ.”

“ میری امت کبھی خطا پر مجتمع نہ ہوگی”

خدا کے لیے ہمیں بتائیے۔ آپ ہی انصاف کیجیے۔

                                                     ش

۴۶۶

مکتوب نمبر 42

اہل فہم و بصیرت اور صاحبان نظر وفکر صحابہ کو رسول(ص) کی مخالفت سے پاک سمجھتے ہیں ۔ صحابہ اور پیغمبر(ص) کے احکام کی خلاف ورزی کریں؟ اس کو وہ تصور بھی نہیں کرسکتے سوا اطاعت و فرمانبرداری اور احکام کی بجا آوری کے کوئی اور بات ان سے

ممکن ہی نہ تھی لہذا یہ محال ہے ناممکن ہے کہ وہ حضرت علی(ع) کی امامت کے متعلق صریحی اعلان پیغمبر(ص) کا سنیں اور پھر ان سے روگردانیی کریں نہ پہلی خلیفہ بنائیں نہ دوسری مرتبہ نہ تیسری مرتبہ ۔ بلکہ چوتھی مرتبہ بنا ڈالیں ۔ لہذا دو ہی صورتیں ہیں یا تو یہ کہیے کہ صحابہ جادہ صحت سے منحرف ہوگئے تھے جو انھوں نے باوجود نصوص پیغمبر(ص) سننے کے حضرت علی(ع) کو امام نہ بنایا۔ یا پھر نصوص انھوں نے سنے ہی نہیں کیونکہ  یہ دونوں باتیں ایک ساتھ جمع ہو ہی نہیں سکتیں کہ ںصوص بھی سنیں اور سننے کے باوجود

۴۶۷

آںحضرت (ص) کے حکم کے خلاف ورزی کر کے جادہ صحت پر برقرار رہیں۔ لہذا آپ سے ممکن ہوتو دونوں باتیں جمع فرمائیے ان کا نصوص پیغبر(ص) کا سننا بھی اور سننے کے باوجود حضرت علی(ع) سے منحرف ہو کر جادہ صحت پر برقرار رہنا بھی۔

                                             س

جواب مکتوب

اکثر صحابہ کی سیرت کے مطالعہ سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ وہ ںصوص پرتب ہی عمل پیرا ہوتے تھے اور انھیں احکام پیغمبر(ص) پر عمل کرتے تھے جب وہ صرف دین کے متعلق ہوتے تھے اور اخروی امور سے مختص ہوتے ۔ جیسے حکم پیغمبر(ص) کا کہ ماہ رمضان میں روزے رکھنے واجب ہیں، نہ کسی اور مہینے میں۔ قبلہ رخ ہونا نماز کی حالت میں ضروری ہے ، نہ کہ دیگر حالات میں بھی ۔ یا پیغمبر(ص) کا حکم کہ دن میں اتنی نمازیں واجب ہیں اور رات میں اتنی ۔ ہر نماز کی اتنی رکعتیں ہیں اور نماز کا طریقہ یہ ہے یا پیغمبر(ص) کا حکم کہ خٰانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرنا چاہیے ۔ غرض اسی جیسے اور دیگر ارشادات و احکام پیغمبر(ص)  جو خالص اخروی نفع سے مختص ہوا کرتے ، ان کی تو وہ اطاعت کرتے لیکن پیغمبر(ص) کے وہ ارشادات جن کا تعلق سیاست سے ہوا کرتا جیسے حکام و افسران کا تقرر ، سلطنت کو قوانین و قواعد کی ترتیب و تدوین ، امور مملکت کا نظم و انتظام ،  فوجی بھرتی، لشکر کی روانگی وغیرہ جیسے امور ، ایسے امور میں وہ پیغمبر(ص) کے اقوال و ارشادات کی تعمیل ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ نہ جملہ حالات میں مطابق حکم پیغمبر(ص) کام کرنے کے پابندرہنا چاہتے تھے ۔ بلکہ اپنی سوچ سمجھ کو بھی دخل دیتے تھے اور اپنی نظر وفکر اور اجتہاد کے لیے بھی گنجائش

۴۶۸

 باقی رکھتے ۔ لہذا جب بھی انھوں نے دیکھا کہ مخالفتِ رسول(ص) میں ہماری قدر و منزلت بڑھے گی یا ہماری حکومت کو نفع پہنچے گا انھوں نے فورا رسول(ص) کے حکم کو پس پشت ڈالا اور وہی کیا جس سے ان کی شان دوبالا ہو یا حکومت کو فائدہ پہنچے غالبا وہ اسی طرح رسول(ص) کو خوشش کرنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کی امید کرتے تھے۔

انھیں یہ ظن غالب پیدا ہوچکا تھا کہ عرب والے علی(ع) کے سامنے سر نہ جھکائیں گے اور رسول(ص) نے ان کی خلافت کا جو اعلان کیا ہے تو وہ رسول(ص) کی بات بھی نہ مانیں گے کیونکہ علی(ع) نے راہِ خدا میں انھیں اچھی طرح تہ تیغ کیا ہے اور خدا کا بول بالا کرنے کے لیے اپنی تلوار سے ان کے خون کی ندیاں بہائی ہیں۔ حق کی مدد کرنے میں ان سے ہمیشہ برسربیکار رہے یہاں تک کہ سرکش و ضدی کافروں کی تمام کوششیں رائیگاں ہوئیں اورخدا کو حکم غالب ہوکے رہا۔ لہذا ان حالات میں جب تک عرب والوں پر تشدد نہ برتا جائے وہ علی(ع) کی اطاعت ہی نہ کریں گے اور جب تک طاقت کا استعمال نہ کیا جائے ںص پیغمبر(ص) کے آگے سر ہی نہ جھکائیں گے۔

اہل عرب کی عادت و فطرت میں یہ بات داخل تھی کہ اگر ان کا کوئی شخص قتل کردیا جاتا تو جب تک اس کا انتقام نہ لے لیتے چین سے نہ بیٹھتے ۔ زمانہ پیغمبر(ص) میں اسلام نے نہ معلوم کتنے کافروں کا خون بہایا ۔ ان سب کا انتقام وہ حضرت علی(ع) سے لینے کی فکر میں تھے کیونکہ رسول(ص) کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد آپ کے خاندان میں سوا حضرت علی(ع) کے کوئ شٰخص ایسا تھا ہی نہیں جس سے ان تمام جانوں کا بدلہ لیا جاسکتا۔ کیونکہ وہ خاندان کے سب سے بہتر فرد اور ممتاز ہستی سے انتقام لیا کرتے تھے

۴۶۹

 اور حضرت علی(ع) کا بنی ہاشم میں سب سے بہتر بھی تھے اور بعد رسول(ص) بے نزاع و اختلاف افضل وممتاز بھی تھے۔ اسی وجہ سے اہل عرب آپ کے متعلق زمانہ کی گردشوں کےمنتظر رہے۔ تمام امور الٹ پلٹ کردیے ۔ آپ سے اور آپ کی اولاد سے پوری پوری کاوشیں دل میں رکھیں ، آفتیں ڈھائیں اور جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا جانتی ہے۔

نیز قریش کو بالخصوص اور اہل عرب کو بالعموم حضرت علی(ع) کی طرف سے ایک اور بات کا بھی بڑا غم و غصہ تھا اور وہ یہ کہ آپ دشمنان خدا کو سختی سے کچل ڈالتے اور جو شخص حدود الہی سے تجاوز کرتا۔ حرمت خداوندی برباد کرتا اسے آپ دردناک سزا دیتے تھے ۔ عرب والے یہ بھی ڈرتے تھے کہ اگر علی(ع) حاکم ہوگئے تو اچھے کاموں کا بڑی سختی سے حکم دیں گے اور بری باتوں سے روکنے میں پورا پورا تشدد کام میں لائیں گے۔

ان کو یہ بھی خطرہ تھا کہ وہ رعایا میں کوئی امتیاز روانہ رکھیں گے ہر ایک سے عادلانہ سلوک کریں گے۔ ہر معاملہ میں سب کو برابر سمجھیں گے۔ ان سے کسی بات کی طمع ہی نہیں رکھی جاسکتی اور نہ کسی کی دال گلے گی۔ قوت و طاقت والے ان کے نزدیک ضعیف وذلیل رہیں گے جب تک وہ ان سے حق نہ وصول کر لیں اور حقیر و ناتواں ان کے نزدیک قوی و عزیز ہوں گے جب تک ان کا حق نہ دلوا  دیں۔

لہذا ایسے شخص کے آگے عرب والے کیونکر سرجھکان پسند کرتے۔ وہ عرب والے جو کفر و نفاق میں انتہا کو پہنچے ہوئے تھے بڑے سرگرم منافق تھے۔

نیز ایک وجہ یہ بھی تھی کہ قریش اور کل عرب حضرت علی(ع) سے انتہائی حسد رکھتے تھے ۔ دل میں جلتے رہتے تھے۔ خداوند عالم نے امیرالمومنین(ع) کو

۴۷۰

 جو غیر معمولی شرف بخشا تھا باین طور کہ امیر المومنین(ع) علم و عمل میں ( خدا و رسول (ص) کے نزدیک ) اس درجہ پر فائز تھے جس تک بڑے بڑے نہ پہنچ سکے بڑے نام و نمود والے محروم رہے، اپنے مخصوص کمالات و خصوصیات کی وجہ سے خدا و رسول(ص) کے نزدیک آپ کو وہ منزلت حاصل ہوئی جس کے لیے ہر دل میں تمنائیں کروٹیں لے رہی تھیں۔ اسی وجہ سے حسد کے بچھو منافقین کے دلوں میں رینگنے لگے اور کل فاسقین و ناکثین و قاسطین و فارقین تل گئے کہ ہم عہد و پیمان توڑ کے رہیں گے۔ لہذا جو کچھ نصوص پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمائے تھے سب کو انھوں نے پس پشت ڈال دیا اور یوں بھلا بیٹھے جیسے رسول(ص) نے کبھی کہا ہی نہ ہو۔

                     فکان ماکان مما لست اذکره            فظن خيرا ولا تسال عن الخبر  

" جو ہونا تھا وہ ہوا اب اس کا کیا ذکر آپ اچھا ہی گمان رکھیے  اور کیا ہوا اس کو نہ پوچھیے”

             نہ ہم سمجھے نہ آپ آئے کہیں سے                 پسینہ پونچھنے اپنی جبین سے

نیز یہ بھی ایک وجہ تھی کہ قریش اور جملہ عرب دل سے چاہتے تھے کہ خلافت ہمارے قبیلوں میں گھومتی پھرتی رہے۔ اس کی بڑی طمع انھیں تھی لہذا انھوں نے یہ نیت کر لی کہ رسول(ص) نے علی(ع) کی خلافت کے لیے جتنے عہد و پیمان کیے ہیں سب توڑ دیے جائیں ۔ محکم ارادہ کرلیا۔ کمر باندھ لی کہ علی(ع) کی خلافت کے جتنے قول و قرار ہوئے ہیں سب کو شکست و ریخت کر کے رہیں گے  لہذا انھوں نے باہم اتفاق کر لیا کہ تمام نصوصِ پیغمبر(ص) فراموش

۴۷۱

 کردیے جائیں، ایکا کر لیا کہ بھولے سے بھی کبھی ان ںصوص کو یاد نہ کریں گے آپس میں طے کر لیا کہ ہم خلافت کو نبی(ص) کے مقرر کردہ جانشین اور معین کردہ ولیعہد کے ہاتھ میں جانے ہی نہ دیں گے۔

لہذا انھوں نے خلافت کو اختیار و انتخاب پر موقوف کیا۔ الیکشن کے ذریعہ خلیفہ مقرر کرنا طے کیا تاکہ جتنے قبائل ہیں ان میں سے ہر قبیلہ کو خلافت پانے کی امید رہے ہر شہسوار اسپ خلافت پر سواری کرسکے چاہے کچھ دنوں بعد ہی سہی۔

اگر وہ لوگ نصوص پیغمبر(ص) کی پیروی کیے ہوتے ، رسول(ص) کا حکم مانتے اور رسول(ص) کے بعد حضرت علی(ع) کو مقدم سمجھتے تو اہلبیت(ع) سے کبھی خلافت باہر جاتی ہی نہیں کیونکہ رسول(ص) غدیر خم اور دیگر مواقع پر انھیں کتاب خدا کے لازم و ملزوم بناچکے تھے۔ قیامت کے دن تک ارباب عقل وہوش کے لیے نمونہ عمل فرمایا تھا۔ لہذا اہل بیت(ع) سے خلافت نکلتی ہی نہیں اور عرب یہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ خلافت ایک ہی گھر میں منحصر رہے خصوصا ان کا برداشت کرنا اس وجہ سے اور زیادہ مشکل تھا کہ جملہ قبائل کےدل میں خلافت کی ہوس تھی اور ہرخاندان اس کا آرزو مند تھا۔

نیز ہر وہ شخص جس نے ابتدائے عہد اسلام میں قریش و  عرب کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ عربوں نے ہاشمی نبوت کے آگے سر نہ جھکایا۔ سرورکائنات(ص) ( بنی ہاشم کے چشم و چراغ تھے) کی نبوت اس وقت تک تسلیم نہ کی جب تک ان کی رگ رگ توڑ نہ دی گئی۔ جب تک کلہ قوت ان کی زائل نہ ہوگئی اور سارا کس بل نہ نکل گیا۔ تو وہ یہ کیونکر پسند کرسکتے ہیں کہ نبوت و خلافت دونوں کی دونوں بنی ہاشم ہی میں منحصر

۴۷۲

 رہیں۔ خود حضرت عمر نے ایک مرتبہ عبداﷲ بن عباس سے بسلسلہ گفتگو کہا تھا کہ عرب والوں نے ناپسند کیا کہ تمھیں میں نبوت بھی رہے اور تمھیں میں خلافت بھی۔(1)

سلف صالحین جو تھے ان کا بس یہی نہ چل سکا کہ مجبور کر کے ان لوگوں کو نص کا پابند بنائیں ، وہ قادر ہی نہ ہوسکے کہ زبردستی حکم رسول(ص) پر ان سے عمل کرا کے رہیں۔ وہ ڈرتے تھے کہ اگر ان سے مقاومت کی جاتی ہے تو کہیں یہ برگشتہ نہ ہوجائیں ۔ یہ بھی خوف تھا کہ اگر ان حالات میں اختلافات رہے تو برے نتائج نہ رونما ہوں۔ رسول(ص) کی آنکھ بند ہوتے ہی دلوں کا کھوٹ آشکار ہوچکا تھا۔ رسول(ص) کی عدم موجودگی کے باعث منافقین کی شوکت اور زور پکڑ رہی تھی۔ کافروں کے نفوس سرکش ہوچکے تھے اور ارکان دین میں تزلزل پیدا ہوچکا تھا۔ مسلمانوں کے دل شکستہ تھے اور بعد رسول(ص) ان کی حالت بالکل اس بھیڑ بکری کی طرح ہورہی تھی جو جاڑے کی تاریک راتوں میں بھیڑیوں اور وحشی درندوں کے درمیان بٹھکتی پھرے ۔ عرب کی اکثر جماعتیں مرتد ہوچکی تھیں۔ دوسرے لوگ بھی مرتد ہوجانے کا تہیہ کررہے تھے۔ لہذا ان حالات میں امیرالمومنین(ع) ڈرے کہ اگر میں لوگوں کے امور اپنے ہاتھ میں لینے کی جدوجہد کرتا ہوں تو بڑی تباہی پھیلے گی۔مسلمانوں کے دل کی وہ حالت منافقین کا بڑھتا ہوا وہ زور، مارے غیظ و غضب کے انگلیاں چبا رہے تھے، مرتد ہونے والوں کا وہ عالم، کافروں کا وہ اٹھتا ہوا طوفان، انصار مہاجرین کی مخالفت پر کمر بستہ “ منا امیر و

--------------

1ـ علامہ ابن الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 107 پر ایک واقعہ کے ضمن میں نقل کیا ہے نیز علامہ ابن اثیر جوزی نے تاریخ کامل جلد 24 پر حضرت عمر کے حالات کے آخر میں ذکر کیا ہے۔

۴۷۳

 منکم وزیر۔۔” ہم میں سے ایک امیر ہو اور تم میں سے ایک وزیر۔” کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ہٹ کر ایک طرف ہوچکے تھے وغیرہ وغیرہ ۔ لہذا دین کی بہبودی کے خیال نے مجبور کیا امیرالمومنین(ع) کو کہ وہ مطالبہ خلافت سے دستبردار ہو جائیں اور تمام معاملات سے کنارہ کش رہیں کیونکہ آپ کو اچھی طرح یقین تھا کہ ان حالات میں اگر طلب خلافت کرتا ہوں تو امت کےلیے بڑا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔ دین پر بڑی تباہی آئے گی۔ لہذا آپ نے اسلام کو ترجیح دی عامہ المسلمین کی بھلائی کو مقدم رکھا اور انجام کو آغاز سے بہتر سمجھتے ہوئے طاقت کے ذریعہ سے مطالبہ خلافت سے باز رہے۔

 آپ کا طرز عمل دیکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ آپ کس قدر بالغ نظر صاحب الرائے تھے کیا بے پناہ علم رکھتے تھے۔ کس قدر دل وسیع تھا آپ کا اور عامة المسلمین کی بھلائی کا کس قدر خیال تھا آپ کو اور کسی کو بھلا یہ بات کب نصیب ہوئی۔

حضرت خانہ نشین ہوگئے اور بیعت نہ کرنا تھی نہ کی ،اگرچہ آپ کے گلے میں رسی باندھ کر آپ کو گھر سے نکالا بھی گیا۔ یہ طریق کار آپ نے اختیار فرمایا اپنے اپنے حق کی حفاظت کے لیے اور ان لوگوں پر خاموش احتجاج فرماتے ہوئے جنھوں نے آپ  سے روگردانی کی اور غیر مستحق ہاتھوں میں زمام خلافت رہنے دینا گوارا کیا اگر بیعت کر لیتے تو وہ بات نہ ہوتی ۔ لوگوں پر حجت نہ قائم ہوتی۔ آپ نے وہ طرز عمل اختیار کیا جس سے دین پر آنچ بھی نہ آنے پائی اور آپ کا حق خلافت بھی محفوظ رہا۔

رہ گئے خلفاء ثلاثہ اور ان کے ہوا خواہ تو انھوں نے بھی ان تمام نصوص کی جو خلافت امیرالمومنین(ع) کے متعلق تھے تاویلیں کیں، معانی بدلے

۴۷۴

اور ایسا کرنے میں وہی اسباب کار فرما تھے جو ہم ابھی بیان کرچکے ہیں اور ان سے ایسا ہونا کوئی تعجب خیز بھی نہیں کیونکہ ہم ابھی آپ سے ذکر کرچکے ہیں کہ سیاست ، ملکی حکام کا تقرر و قوانین سلطنت کی ترتیب و تدوین، امور مملکت کے نظم و انتظام کے متعلق پیغمبر(ص) کے جو احکام و فرامین تھے ان کی تاویل  کرنے اور اپنے اجتہاد سے کام لینے کے وہ کتنے خوگر تھے غالبا وہ خلافت کو مذہبی چیز سمجھتے ہی نہ تھے اسی وجہ سے مسئلہ خلافت میں رسول(ص) کی مخالفت سے ان کے نزدیک اہمیت نہ رکھتی تھی۔

جب تمام امور خاطر خواہ انجام پاگئے ، جو وہ چاہتے تھے وہ ہوگیا، تو انھوں نے بڑی دور اندیشی کو کام میں لاکر ان نصوص کو محو کرنا شروع کیا اور جو شخص بھی بھولے سے ان نصوص کا ذکر کرتا یا اشارہ کرتا تو اس پر تشدد کرنے لگتے۔

اور جب نظامِ سلطنت کی حفاظت ، دین اسلام کی اشاعت ملکوں پر فتح یابی دولت و طاقت پر تسلط و اقتداران کو میسر ہوا اور باوجود ان تمام باتوں کے حاصل ہونے کے وہ ہوا وہوس میں مبتلا نہ ہوئے عیش و عشرت میں نہ پڑے تو انھیں بڑا فروغ ہوا۔ بہت قدر بڑھ گئی۔ لوگ ان سے حسنِ ظن رکھنے لگے۔ دلوں میں ان کی محبت پیدا ہوتی گئی اور لوگوں نے بھی ان کی روش پر ان ںصوص کو بھلانا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ فراموش کرنے لگے۔

ان کے بعد بنی امیہ کے ہاتھوں میں زمام حکومت آئی۔ ان کی غرضِ اصلی تو تھی ہی یہی کہ کسی طرح اہلبیت(ع) نیست و نابود ہوں۔ ان کا باکل ہی قلع قمع کردیا جائے۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے نصوص کو

۴۷۵

 نسیا منسیا کردینے کے لیے کیا کچھ نہ کیا ہوگا۔

مگر باوجود ان سب باتوں کے ہم تک صریحی نصوص اور صحیح سنن و احادیث پہنچ کےرہے ۔ انھیں میں اگر غور کیا جائے ، انصاف سے کام لیا جائے تو وہی کافی ہیں۔

                                                                     ش

۴۷۶

مکتوب نمبر43

وہ مقامات جہاں صحابہ نے ارشادات پیغمبر(ص) کی مخالفت کی

آپ کا نوازش نامہ موصول ہوا۔ میں جس امر کو مستبعد سمجھتا تھا آپ نے معجزانہ طور پر ممکن ثابت کر دکھایا اور ایسا واضح نقشہ کھینچ کر دکھا دیا کہ میں دہشت میں پڑ گیا۔ میں تو یہ سمھتا تھا کہ ثابت ہی نہ کر پائیں گے کاش آپ ان مواقع کی طرف اشارہ بھی فرمادیتے جہاں صحابہ نے نصوص پیغمبر(ص) کی خلاف ورزی کی۔ رسول(ص) کی بات نہ مانی تاکہ حقیقت اچھی طرح منکشف ہوجاتی اور ہدایت کا رستہ بخوبی واضح ہوجاتا۔

                                                                     س

۴۷۷

جواب مکتوب

واقعہ قرطاس

وہ مواقع جہاں ارشاداتِ پیغمبر(ص) کی مخالفت کی گئی، نصوص پیغمبر(ص) پر عمل نہ کیا گیا بے شمار ہیں۔ منجملہ ان کے پنجشنبہ کے دن والا حادثہ عظمیٰ ملاحظہ فرمائیے جو مشہور ترین قضیوں اور سخت مصیبتوں میں سے ایک ہے۔ جسے ارباب صحاح اور کل اصحاب سنن نے بیان کیا ہے اور تمام اہل سیر و مورخین نے نقل کیا ہے ، صرف بخاری کی روایت آپ کے لیے کافی ہوگی۔

امام بخاری(1) بسلسلہ اسناد عبیداﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں۔ انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے ، ابن عباس کہتے ہیں:

“ جب رسول(ص) کے انتقال  کا وقت قریب پہنچا اور رسول(ص) کے گھر میں بہت سے اشخاص تھے جن میں حضرت عمر بھی تھے۔ رسول(ص) نے فرمایا : میرے پاس آؤ تاکہ میں تمھیں ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ میرے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ اس پر عمر بولے کہ رسول(ص) پر درد کا غلبہ ہے اور تمھارے پاس کلام مجید موجود ہے ہمارے لیے کتا ب خدا کافی ہے۔ اس پر گھر میں جو

-------------

1ـ صحیح بخاری پارہ 4 صفحہ 5 باب قول المریض تو صواعنی  

۴۷۸

 لوگ تھے ان میں اختلاف ہوگیا آپس میں جھگڑنے لگے۔ بعض کہتے تھے کہ قلم و دوات رسول(ص) کے قریب کر دو کہ رسول(ص) ایسا نوشتہ لکھ دیں کہ پھر تم کبھی گمراہ نہ ہو اور بعض حضرت عمر کی ہم نوائی کر رہے تھے۔ جب تکرار اور چپقلش زیادہ بڑھی تو رسول(ص) نے فرمایا کہ تم میرے پاس سے اٹھ جاؤ”

ابن عباس کہتے ہیں کہ:

“ ساری مصیبت یہ ہوئی کہ لوگوں نے باہم اختلاف کر کے شور و غل مچا کر رسول(ص) کو وہ نوشتہ نہیں لکھنے دیا۔”

 یہ حدیث وہ ہے کہ اس کے موجود ہونے اور صحت میں کسی قسم کا شک وشبہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ امام بخاری نے اپنے صحیح بخاری میں ایک جگہ نہیں متعدد جگہوں پر ذکر کیا ہے۔(1)

امام مسلم نے صحیح مسلم باب الوصایا کے آخر میں درج کیا ہے۔(2) امام احمد نے اپنے  مسند میں ابن عباس سے اس(3) حدیث کی روایت کی ہے۔ نیز جملہ اصحاب صحاح و ارباب سنن نے اس حدیث کو درج کیا ہے مگر ان سب نے الفاظ میں تصرف کر دیا ہے۔ مفہوم و معنی تو ایک ہی رکھا ہے مگر الفاظ بدل دیے ہیں کیونکہ اصلی الفاظ حضرت عمر کے یہ تھے :

“ ان النبي يهجر”

--------------

1ـ صحیح بخاری پارہ اول صفحہ 42 کتاب العلم نیز اور دیگر مقامات۔

2ـ صحیح مسلم جلد2 صفحہ14

3ـ مسند جلد 1 صفحہ 325

۴۷۹

“ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں۔”

لیکن محدثین نے بجائے اس کے  یہ بیان کیا کہ رسول(ص) پر درد کا غلبہ ہے۔ یہ اس لیے تاکہ عبارت تہذیب کے پیرائے میں رہے اور حضرت عمر کے اس جملہ سے رسول(ص) کی جو اہانت ہوتی تھی اس میں کمی ہوجائے۔ میرے اس بیان پر وہ روایت شاہد ہے جسے ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری نے کتاب السقیفہ میں بسلسلہ اسناد جناب ابن عباس سے نقل کیا ہے۔ ( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی جلد2 صفحہ20)

ابن عباس فرماتے ہیں کہ :

“ رسول(ص) کی وفات کا جب وقت پہنچا ۔ گھر میں بہت سے لوگ موجود تھے جن میں حضرت عمر بھی تھے تو رسول(ص) نے فرمایا کہ : میرے پاس دوات اور کاغذ لاؤ کہ میں تمھیں ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ
رسول(ص) پر درد کا غلبہ ہے ۔ اس کے بعد حضرت عمر نے کہا کہ ہم لوگوں کے پاس قرآن موجود ہے ہمارے لیے کتاب خدا کافی ہے ۔ حضرت عمر کے یہ کہنے پر لوگوں میں اختلاف ہوگیا۔ باہم تکرار ہونے لگی ۔ بعض کہتے تھے کہ قلم ووات رسول(ص) کودے دو کہ آپ نوشتہ لکھ دیں اور بعض حضرت عمر جیسی بات  اس کے بعد تم ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہو۔ یہ سن کر حضرت عمر نے ایک فقرہ کہا جس کا مطلب یہ تھا کہ کہہ رہے تھے۔ جب تکرار زیادہ بڑھی اور اختلافات حد سے تجاوز کرنے لگا تو رسول(ص) کو غصہ آگیا اور آںحضرت (ص) نے فرمایا کہ تم میرے پاس سے اٹھ جاؤ”

اس حدیث سے آپ کو صراحتا یہ بات معلوم ہوگی کہ حضرت عمر نے رسول(ص)

۴۸۰