دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)9%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272323 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

 یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ :

             “ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ۔ کتاب خدا اور میرے اہل بیت(ع)۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں(۱) ۔”

یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ :

             “ قریب ہے میں بلایا جاؤں اور مجھے جانا پڑے۔ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ ایک خدائے بزرگ و برتر کی کتاب دوسرے میری عترت۔ کتابِ خدا تو ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک دراز ہے اور میری عترت میرے اہل بیت(ع) ہیں۔(۲) اور خداوندِ عالم لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر پہنچیں۔ پس دیکھو میرے بعد تمہارا سلوک ان کے ساتھ کیسا رہتا ہے(۳) ۔”

--------------

۱ ـ  امام حاکم مستدرک جلد ۳ صفحہ ۱۴۸ پر اس کو درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث شیخین یعنی مسلم  و بخاری کے شرائط کے لحاظ سے بھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے اس کو درج نہیں کیا۔

۲ ـ  امام احمد نے اس حدیث کو ابو سعید خدری سے دو طریقوں سے روایت کیا ہے ایک جلد ۳ صفحہ ۱۷ پر دوسرے صفحہ ۲۶ جلد ۳ پر۔ این ابی شیبہ یعلی اور ابن سعد نے ابو سعید خدری سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال جلد اول صفحہ ۴۷ پر بھی موجود ہے۔

۳ ـ  امام حاکم نے اس حدیث کو مستدرک جلد۳ صفحہ ۱۰۹ پر مرفوعا نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مسلم وبخاری کے معیار پر بھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے درج نہیں کیا پھر اسی جلد۳ صفحہ۵۳۳ پر دوسرے طریقے سے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری و مسلم نے ذکر نہیں کیا علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کو باقی رکھا ہے اور اس کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

۴۱

اور جب حضرت(ص) حجِ آخری سے پلٹے اور مقام غدیر خم پر پہنچے تو آپ(ص) نے ارشاد فرمایا :

             “ مجھے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ جلد ہی میری طلبی ہوگی اور مجھے جانا پڑے گا۔ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں جن میں ایک دوسرے سے  بڑا ہے۔ کتاب خدا ، دوسرے میرے اہل بیت(ع) دیکھو خیال رکھنا کہ ان کے ساتھ تم کس طرح پیش آتے ہو۔ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں۔”

پھر آپ(ص) نے کہا کہ خدائے        قوی و توانا میرا مولا وآقا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔ پھر آپ(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا کہ :

             “ میں جس کا مولا ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں میرے بعد خداوندا ! دوست رکھ اس کو جو ان کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو ان کو دشمن رکھے(۱) ۔”

---------------

۱ـ  طبرانی نے اس حدیث کو درج کیا ہے جیسا کہ علامہ نبھانی کی اربعین فی الاربعین اور علامہ سیوطی کی احیاء المیت میں مذکور ہے آپ ناواقف نہ ہوں گے کہ آںحضرت(ص) کا اس دن کا خطبہ صرف اسی فقرہ پر ختم نہیں تھا کیونکہ صرف اتنا کہنے پر خطبہ کا لفظ صادق نہیں آتا۔ لیکن سیاست نے بیشتر محدثین کی زبانیں بند کردیں اور لکھنے والوں کے قلم روک دیے مگر باوجود اس کے صرف یہ ایک فقرہ اس سمندر کا یہ ایک قطرہ بہت کافی ہے۔

۴۲

عبداﷲ بن اخطب سے روایت ہے کہ رسول(ص) نے مقام جحفہ پر خطبہ ارشاد فرمایا جس میں کہا :

             “ کیا میں تم پر تم سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا ؟”

             لوگوں نے کہا بے شک یا رسول اﷲ(ص)۔ آپ(ص) نے اس پر ارشاد فرمایا :

              “ میں تم سے دو چیزوں کے متعلق پوچھوں گا۔ ایک کتابِ خدا  دوسرے میرے اہل بیت(ع)۔”

حدیثِ ثقلین کا متواتر ہونا

احادیثِ صحیحہ جن کا قطعی فیصلہ یہ ہے کہ بس ثقلین( اہل بیت(ع) و قرآن کی پیروی واجب ہے) معمولی درجہ کی حدیثیں نہیں بلکہ متواتر حدیثیں ہیں اور بیس سے اوپر صحابیوں سے بکثرت طریقوں سے مروی ہیں۔ اہلبیت(ع) کی پیروی کو واجب بتانے کے لیے ایک مرتبہ نہیں بار ہا اور متعدد مواقع پر پیغمبر(ص) نے علی الاعلان کھلے لفظوں میں فرمایا۔ کبھی غدیر خم میں اعلان کیا جیسا ابھی بیان کرچکا ہوں۔ حج آخری کے موقع پر عرفہ کے دن اعلان کیا کبھی طائف سے واپسی کے موقع پر اعلان کیا۔ ایک مرتبہ مدینہ میں بر سرِمنبر اعلان کیا پھر دوسری مرتبہ جب آپ بسترِ مرگ پر حجرہ میں تھے اور آپ(ص) کا حجرہ صحابیوں سے بھرا ہوا تھا۔ آپ(ص) نے ارشاد فرمایا :

             “ اے لوگو! عنقریب تم سے رخصت ہونے والا ہوں۔ میں پہلے ہی تم سے سب کچھ کہہ سن چکا ہوں۔ پھر کہے دیتا ہوں کہ میں تم میں دو چیزیں چھورے جاتا ہوں۔ اپنے پروردگار کی کتاب اور اپنی عترت و اہلبیت(ع)۔”

۴۳

پھر آپ(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور ارشاد فرمایا  کہ :

             “ دیکھو یہ علی(ع) ہیں یہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں کبھی جدا  نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں(۱) ۔”

رسالت ماب(ص) کی اس وصیت پر جمہور مسلمین کے سربرآوردہ افراد کی ایک جماعت نے اقرار و اعتراف کیا ہے۔ یہاں تک کہ ابن حجر نے اپنی کتاب میں حدیث ثقلین درج کر کے لکھا ہے کہ حدیث تمسک بکثرت طریقوں سے مروی ہے اورع بیس سے زیادہ صحابیوں نے اس کی روایت کی ہے۔ پھر آگے چل کر کہتے ہیں کہ یہاں ایک شبہ ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حدیث بکثرت طریقوں سے مروی ہے مگر کہیں یہ ہے کہ آپ(ص) نے حجہ الوداع کے موقع پر عرفات میں فرمایا۔ کہیں یہ ہے کہ مدینہ میں جب آپ بسترِ بیماری پر تھے تب ارشاد فرمایا۔ اور حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا۔ کہیں یہ ہے کہ غدیر خم میں فرمایا۔ کہیں یہ ہے کہ جب آپ(ص) طائف سے واپس ہوئے ہیں تو دوران خطبہ آپ(ص) نے فرمایا۔

لیکن یہ شبہ درست نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آںحضرت(ص) نے  کلام اﷲ اور اہل بیت(ع) کی عظمت و جلالت کا لحاظ کرتے ہوئے اور لوگوں کو ان کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دلانے کے لیے ان تمام مواقع پر اس حدیث کو بتکرار ارشاد فرمایا ہو، تاکہ اگر پہلے سے کسی کے کانوں میں یہ بات نہ پڑی ہو تو اب پڑجائے۔ پہلے کسی نے نہ سنا ہو تو اب سن لے۔(۲) اور جب اہلبیت طاہرین(ع)

--------------

۱ ـ  ملاحظہ فرمائیے۔ علامہ ابن حجر کی صواعق محرقہ باب ۹ فصل ۲ کی آخری سطریں۔

۲ ـ  دیکھے صواعق محرقہ، صفحہ۸۹ باب ۱۱ فصل اول۔

۴۴

خدا اور رسول(ص) کے نزدیک قرآن  کے ہم پلہ و ہم وزن ہیں، تو جو قرآن کی شان ہے وہی ان کی بھی شان ہوگی جس طرح قرآن کا اتباع و اطاعت ہر مسلم پر فرض ہے اس طرح اہلبیت(ع) کی اطاعت بھی ہر ایک پر واجب ولازم ہے لہذا ان ان کی اطاعت اور ان کے مذہب و مسلک کی پابندی سے مفر ہی نہیں۔ مجبور ہے انسان کہ بس انھیں کا اتباع کرے کیونکہ کوئی مسلمان یہ نہیں پسند کرتا کہ کتابِ خدا کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو کسی اور چیز کو اس کے بدلے میں اپنا دستور العمل بنائے۔ تو جب کتابِ خدا کے بدلے میں کسی دوسری چیز کو اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے ناممکن ہے تو کتاب خدا کے ہم پلہ و ہم درجہ جو ہستیاں ہیں ان سے روگردانی کر کے دوسرے اشخاص کی پیروی بھی اس کی نظر میں درست نہ ہوگی۔

جن نے اہلبیت(ع)  سے تمسک نہ کیا اس کا گمراہ ہونا

اس کے علاوہ سرورکائنات کا یہ ارشاد کہ :

" إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِه لَنْ تَضِلُّوا كِتَاب اللَّهِ وَ عِتْرَتِي‏”

“ میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتاب خدا دوسرے میری عترت۔”

اس کا صریحی مطلب یہ ہے کہ جن نے ان دونوں کو ایک ساتھ اختیار نہ کیا، دونوں کی ایک ساتھ اطاعت نہ کی وہ گمراہ ہوگا۔ اس مطلب کی تائید اس حدیث ثقلین سے بھی ہوتی ہے جس کی طبرانی نے روایت کی ہے۔ جس میں

۴۵

 آنحضرت(ص) کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ :

     “ دیکھو ان دونوں سے آگے نہ بڑھ جانا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے۔ اور نہ پیچھے رہ جانا ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور انھیں کچھ سکھانا پڑھانا نہیں کیونکہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔”

ابن حجر فرماتے ہیں کہ سرورکائنات کا یہ کہنا کہ :

“ تم ان سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور نہ ان سے پیچھے رہ جانا ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤگے اور انھیں کچھ سکھانا پڑھانا نہیں کہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔”

اس امر کی دلیل ہے کہ اہل بیت(ع) کے جو افراد مراتب عالیہ اور درجات دینیہ پر فائز ہوئے انھیں اپنے ماسوا تمام لوگوں پر تفوق و برتری حاصل تھی۔(۱)

--------------

۱ ـ  دیکھیے صواعق محرقہ صفحہ۱۲۹ باب وصیة النبی(ص) پھر پوچھیے ذرا علامہ ابن حجر سے کہ جب آپ اقرار فرماتے ہیں۔ اس کا اعتراف ہے آپ کو تو ھر اشعری کو اہلبیت(ع) پر کیوں مقدم کیا گیااہلبیت(ع) کو چھوڑ کر اسول اشعری کا مسلک کیوں اختیار کیا گیا۔ فروع دین میں تنہا اربعہ ابو حنیفہ مالک، شافعی، حنبل کو اہل بیت(ع) پر کیوں ترجیح دی گئی ہے؟ حدیث میں عمران بن حطان جیسے خوارج کیوں مقدم رکھے گئے۔ تفسیر میں مقاتل بن سلیمان جو فرقہ مرجیہ سے تھا، جسمانیت خدا کا قائل تھا کیوں اہل بیت(ع) پر مقدم سمجھا گیا۔ دیگر علوم میں غیروں کو اہل بیت(ع) کے مقابلہ میں کیوں ترجیح دی گئی۔ رسول(ص) کی جانشینی و نیابت میں برادر رسول ولی پیغمبرجس کے متعلق رسول فرماچکے تھے کہ “ ادائے قرض میری جانب سے علی ہی کرسکتے ہیں۔” کیوں پیچھے کردیئے گئے۔ ان کوچھوڑ کر دوسرے کیوں خلیفہ بنالیے گئے۔ کس درجہ سے قابل ترجیح سمجھے گئے جن لوگوں نے دینی معاملات و امور شریعت میں اہل بیت(ع) سے رو گردانی کی اور ان کے مخالفین ک نقش قدم پر چلے انھوں نے حدیث ثقلین اور اس جیسی دیگر حدیثوں پر جب میں اتباع اہل بیت(ع) کا حکم دیا گیا ہے کہاں اور کیونکر عمل کیا اور وہ یہ دعوی کیونکر کرسکتے ہیں کہ ہم اہل بیت(ع) سے تمسک کرنے والے ہیں۔ سفینہ اہل بیت(ع) پر ہیں۔ ان کے باب حطہ میں داخل ہیں۔

۴۶

اہلبیت(ع) کی مثال سفینہ نوح(ع) اور باب حطہ کی ہے اور وہ اختلاف فی الدین سے بچانے والے ہیں

نیز ایک اور بات جو ہر مسلم کو قہرا اہل بیت(ع) کا پیرو بناتی ہے اور مجبور کرتی ہے کہ دینی معاملات میں بس ان ہی کی پیروی کی جائے۔ سرورکائنات کی یہ مشہور حدیث ہے :

             “ آگاہ ہو اے لوگو ! تم میں میرے اہل بیت(ع) کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے نوح(ع) کا سفینہ ۔ کہ جو شخص اس پر سلوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے گریز کیا وہ ہلاک ہو گیا۔(۱)

نیز آںحضرت(ص) کا یہ ارشاد :

             “ تمہارے درمیان میرے اہلبیت(ع) کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے بنی اسرائیل کے لیے باب حطہ کو جو شخص اس میں داخل ہوا وہ بخش دیا گیا۔(۲)

--------------

[۱] ـ  امام حاکم نے مستدرک جلد۳ صفحہ ۱۵۱ پر بسلسلہ اسناد جناب ابوذر سے روایت کی ہے۔

۲ ـ  طبرانی نے اوسط میں ابوسعید سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ نیز علامہ نبھانی کی کتاب اربعین کے صفحہ ۲۱۶ پر بھی موجود ہے۔

۴۷

نیز آںحضرت(ص) کا یہ قول کہ :

     “ ستارے زمین کے باشندوں کے لیے غرقابی سے امان ہیں اور میرے اہل بیت(ع) میری امت کے لیے دینی معلومات میں اختلاف کے وقت امان ہیں پس اگرمیرے اہلبیت(ع) کی مخالفت کوئی گروہ عرب کرے گا( یعنی احکامِ الہی میں) تو وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوکر ابلیس کی جماعت بن جائے گا۔(۱)

اہل بیت(ع) سے کون مراد ہیں ؟

ملاحظہ فرمائیے ۔ ان روایات کے بعد کیا گنجائش باقی رہتی ہے اور اہل بیت(ع) کی پیروی کرنے اور ان کی مخالفت سے باز رہنے کے سوا اور کیا چارہ کار رہتا ہے۔ رسول(ص) نے اس حدیث میں جیسے صاف اور صریحی الفاظ میں اس امر کی واضح فرمایا ہے میں تو نہیں جانتا کہ کسی اور زبان میں اس سے بھی زیادہ وضاحت ممکن ہے۔

یہاں اہلبیت(ع) سے مراد مجموع اہلبیت(ع) میں حیث المجموع ہیں یعنی جملہ اہلبیت(ع) سب کے سب علی سبیل الاستغراق مقصود ہیں۔ اس لیے کہ یہ منزلت صرف انھیں کے لیے ہے جو خدا کی حجت اور اس کی طرف سے درجہ امامت پر فائز ہیں۔ جیسا کہ عقل بھی کہتی ہے اور احادیث بھی بتاتی ہیں چنانچہ جمہور مسلمین کے علماء اعلام نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ صواعقِ محرقہ

--------------

۱ ـ  امام حاکم نے مستدرک جلد۳ صفحہ ۱۴۹ پر ابن عباس سے روایت کی ہے اور دریافت کرنے کے بعد لکھا ہے، یہ حدیث صحیح ہے مگر شیخین نے درج نہیں کیا۔

۴۸

 میں علامہ ابن حجر مکی تحریر فرماتے ہیں:

             “ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ غالبا اہلبیت(ع) جنھیں رسول(ص) نے امان فرمایا ہے ان سے مراد علمائے اہلبیت(ع) ہیں اس لیے کہ انھیں سے ہدایت حاصل کی جاسکتی ہے جیسے ستاروں سے لوگ ہدایت پاتے ہیں اور جو ہمارے درمیان سے اگر ہٹ جائیں تو روئے زمین کے باشندوں کو آیات الہی کا سامنا ہو جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔”

ابن حجر کہتے ہیں :

             “ کہ یہ اس وقت ہوگا جب مہدی تشریف لائیں گے جیسا کہ احادیث میں بھی ہے کہ حضرت عیسی(ع) ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور انھیں کے زمانے میں دجال بھی قتل کیا جائے گا اور اس کے بعد پے در پے خدا کی نشانیاں ظہور میں آتی رہیں گی(۱) ۔”

دوسرے مقام پر ابن حجر لکھتے ہیں:

“ سرورکائنات(ص) سے پوچھا گیا کہ اہل بیت(ع) کے بعد لوگوں کی زندگی کیسے بسر ہوگی؟ آپ نے فرمایا ۔ ان کی زندگی بس ایسی ہی ہوگی جیسے اس گدھے کی زندگی جس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہو(۲) ۔”

--------------

۱ ـ  ملاحظہ فرمائیے۔ صواعق محرقہ، باب ۱۱، صفحہ ۹۱ پر ساتویں آیت کی تفسیر۔

۲ ـ ملاحظہ فرمائیے۔ صواعق محرقہ، صفحہ ۱۴۳۔ اب ہم علامہ ابن حجر سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب علمائے اہلبیت علیہم السلام کی یہ منزلت ہے تو آپ لوگ کدھر جائیں گے۔

۴۹

اہلبیت(ع) کو سفینہ نوح(ع) اور باب حطہ سے کیوں تشبیہ دی گئی

آپ اس سے بھی واقف ہوں گے کہ سرورکائنات نے اہلبیت(ع) کو سفینہ نوح(ع) سے جو تشبیہ دی ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ جس نے اہلبیت(ع) کا مسلک اختیار کیا، اصول و فروغ میں ائمہ اہلبیت(ع) کی پیروی اور اتباع کیا وہ عذاب جہنم سے محفوظ رہا اور جس نے ان سے گریز کیا اس کا حشر وہی ہوگا جو سفینہ نوح(ع) سے گریز کرنے والے کا ہوا جو جان بچانے کے لیے پہاڑ پر چڑھ گیا تھا۔ بس فرق یہ ہوگا کہ سفینہ نوح سے گریز کرنے والا پانی میں ڈاوبا اور اہلبیت(ع) سے کنارہ کشی کرنے والا جہنم کی آگ میں غرق ہوا۔

اور سرورکائنات(ص) نے اہلبیت(ع) کو باب حطہ سے تشبیہ دی ہے تو اس میں وجہ تشبیہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے منجملہ اور بہت سے مظاہر کے جہاں اس کے جاہ و جبروت حکم و فرمان کے آگے بندوں کی عاجزی اور سرِ نیاز خم کرنے کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ باب حطہ کو بھی ایک مظہر قرار دیا تھا اور اسی وجہ سے اسے ذریعہ مغفرت بنایا تھا۔ اسی طرح خداوندِ عالم نے امت اسلام کے لیے اہل بیت(ع) پیغمبر(ص) کے اتباع و اطاعت کو اپنے جاہ و جبروت کے آگے بندوں کی خاکساری و عاجزی اور اپنے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کے مظاہر میں سے ایک مظہر قرار دیا۔ اسی وجہ سے اتباع اہلبیت(ع) سبب مغفرت ہے۔

ابن حجر نے(۱) اس پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ اس قسم کی احادیث

--------------

۱ ـ  صواعق محرقہ، باب ۱۱ صفحہ ۹۱ تفسیر آیہ ہفتم۔

۵۰

 ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :

“ آںحضرت(ص) نے ان اہلبیت(ع) کو سفینہ سے جو تشبیہ دی ہے تو وہ وجہ تشبیہ یہ ہے کہ جو ان سے محبت رکھے گا اور ان کو معزز و محترم قرار دے گا اور ان کے علماء کی ہدایت سے مستفید ہوگا وہ مخالفت کی تاریکیوں سے نجات پائے گا اور جو ان سے تخلف کرےگا وہ کفران نعمت کے سمندر میں غرق ہوا اور طغیان و سرکشی کے بیابانوں میں ہلاک ہوا۔”

اس کے بعد لکھتے ہیں کہ :

“ باب حطہ سے جو جو تشبیہ دی ہے تو اس میں وجہ تشبیہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے باب حطہ میں خاکساری و عاجزی کے ساتھ استغفار کرتے ہوئے داخل ہونے کو بنی اسرائیل کے لیے سبب مغفرت قرار دیا تھا اور اسی طرح امت اسلام کے لیے اہلبیت(ع) پیغمبر(ص) کی مودت و محبت کو ذریعہ بخشش قرار دیا ہے(۱) ۔”

--------------

۱ ـ  آپ ان کی یہ عبارت دیکھیے اور انصاف فرمائیے کہ علامہ ابن حجر نے پھر فروع دین و عقائد فقہ کے اصول و قواعد میں ائمہ طاہرین(ع) کی رہبری کیوں نہ قابل قبول سمجھی ان کے ارشادات پر کیوں نہیں عمل کیا؟ کتاب و سنت، علم الاخلاق ، سلوک و آداب میں ان سے استغفار کیوں نہ کیا؟ کس بنا پر ان سے روگردانی کی اور کفران نعمت کے سمندر میں اپنے کو ڈبو دیا اور طغیان و سرکشی کے صحراؤں میں ہلاک ہوئے۔ انھوں نے ہم شیعوں کے متعلق جو تہمت تراشیان کی ہیں اور بر بھلا کہا ہے خدا انھیں معاف کرے۔

۵۱

غرضیکہ ان اہل بیت علیہم السلام کے اتباع و اطاعت کے واجب و لازم ہونے کے متعلق بکثرت صحیح اور متواتر حدیثیں ہیں۔ خصوصا بطریق اہلبیت طاہرین(ع) تو بے شمار متواتر حدیثیں مروی ہیں۔ اگر آپ کی تھکن کا خیال نہ  ہوتا تو انھیں شرح وبسط سے ذکر کرتے لیکن جو کچھ لکھ چکے ہیں وہی بہت کافی ہے۔

                                                             ش

۵۲

مکتوب نمبر۵

مزید نصوص کی خواہش

آپ میری تھکن کا خیال نہ کیجیئے، مزید تشریح فرمائیے۔ خوبی قسمت سے آپ سے استفادہ کا موقع ملا ہے میں ہمہ تن متوجہ ہوں، آپ کے حکیمانہ استدلال نے دل میں فرحت اور طبیعت میں شگفتگی پیدا کردی ہے۔

                                                             س

جوابِ مکتوب

نصوص کا مختصر سا تذکرہ

آپ کی اس توجہ اور انہماک کا شکریہ بہتر ہے تعمیل حکم میں کچھ اور روشنی ڈالتا ہوں۔

۵۳

طبرانی نے معجم کبیر میں اور امام رافعی نے اپنے مسند میں بسسلسلہ اسناد ابن عباس سے روایت کہ ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا(ص) نے فرمایا :

“ وہ شخص جسے یہ پسند ہو کہ میرا جینا جئے اور میری موت مرے اور باغ عدن میں ساکن ہو وہ علی(ع) کو میرے بعد اپنا حاکم بنائے اور میرے بعد میرے اہلبیت(ع) کی پیروی کرے کیونکہ وہ میری عترت ہیں اور میری طینت سے پیدا ہوئے ہیں اور انھیں میرا فہم، میرا علم عطا ہوا ہے ۔ ہلاکت ہو اس کے لیے جو ان کے فضل و شرف کو جھٹلائے۔ اور ان کو مجھ سے جو قرابت ہے  اس کا خیال نہ کرے۔ خدا ایسے لوگوں کو میری شفاعت نصیب نہ کرے(۱) ۔” 

مطیر ہارودی، ابن جریر، ابن شاہین اور ابن مندہ ، ابن اسحاق کے واسطہ سے زیاد بن مطرف سے روایت کرتے ہیں۔ زیاد کہتے ہیں کہ :

“ میں نے خود رسول اﷲ(ص) کو یہ کہتے سنا کہ جو شخص یہ چاہتا ہو

--------------

۱ ـ ٹھیک ان ہی الفاظ میں یہ حدیث کنز العمال جلد ۶ صفحہ ۲۱۷ پر موجود ہے۔ منتخب کنزالعمال میں بھی یہ حدیث باقی رکھی گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد بن حنبل جلد۵، صفحہ ۹۴ البتہ اس میں صرف اتنا ہے کہ انھیں میرا فہم دیا گیا ہے علم کا لفظ نہیں۔ غائبا یہ کاتب کی غلطی ہے۔ حافظ ابو نعیم نے بھی اس حدیث کی اپنے حلیہ مٰیں روایت کی ہے اور ان سے علامہ معتزلہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد ثانی صفحہ۴۵ طبع مصر رپ نقل کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل نے بھی ایسی ہی حدیث ابو عبداﷲ سے اپنی مسند اور مناقب علی(ع) دونوں کتابوں میں نقل ہے۔

۵۴

کہ میرا جینا جیئے اور میری موت مرے اور اس جنت میں داخل ہو جس کا وعدہ مجھ سے میرے پروردگار نے کیا ہے یعنی جنتِ خلد وہ علی(ع) کو اور علی کے بعد ان کی اولاد کو اپنا حاکم بنائے کیونکہ وہ ہرگز ہدایت کے دروازے سے تمہیں باہر کرنے والے نہیں اور نہ گمراہی کے دروازے میں پہنچانے والے ہیں(۱) ۔”

اسی طرح زید بن ارقم سے مروی ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ :

 “ جو شخص میرا جینا چاہتا ہو اور میری موت مرنا چاہتا ہو اور جنتِ خلد میں رہنا چاہتا ہو جس کا خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ علی(ع) کو اپنا حاکم بنائے کیونکہ وہ ہدایت سے تمہیں باہر نہ کریں گے اور نہ گمراہی میں تمہیں لے جائیں گے(۲) ۔”

-------------

۱ ـ  کنزالعمال جلد۶ صفحہ ۱۵۵ منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد بن حنبل جلد۵ صفحہ ۳۲ علامہ ابن حجر عسقلانی نے بھی مختصرا اس حدیث کو اپنی کتاب اصابہ میں زیاد کے حالات میں لکھا ہے اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے سلسلہ رواة میں یحی بن یعلی محاربی سے اور ضعیف ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ابن حجر عسقلانی کا  یہ لکھنا بڑا ہی تعجب خیز ہے کیونکہ ابن یعلی محاربی بالاتفاق ثقہ مانے گئے ہیں خود امام بخاری نے صحیح بخاری میں غزوہ حدیبیہ کے تذکرہ میں ان سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ امام مسلم نے کتاب الحدید میں ان سے روایت کی ہے۔ علامہ ذہبی نے ان کا ثقہ ہونا میزان الاعتدال میں بطور مسلمات ذکر کیا ہے۔ اور علامہ قیسرانی وغیرہ نے ۔ انھیں ان لوگوں میں شمار کیا ہے جن سے مسلم و بخاری نے حدیثین لی ہیں۔

۲ ـ امام حاکم نے مستدرک جلد۲ صفحہ ۱۲۸ پر اس حدیث کو لکھا ہے اور حدیث لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر شیخین یعنی مسلم و بخاری نے درج نہیں کیا۔ طبرانی نے کبیر میں اور ابو نعیم نے بھی فضائل صحابہ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ کنزالعمال جلد۶ صفحہ ۱۵۵۔ اور منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند جلد ۵ صفحہ ۳۴ پر بھی موجود ہے۔

۵۵

جناب عمار یاسر(۱) سے مروی ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا :

“ میں ہر اس شخص کو جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی وصیت کرتا ہوں علی(ع) کی ولایت کے متعلق جو انھیں دوست رکھے گا وہ مجھے دوست رکھے گا اور جو مجھے دوست رکھے گا وہ خدا کو دوست رکھے گا اور جو علی(ع) سے محبت کرےگا وہ مجھ سے محبت کرے گا اور جو مجھ سے محبت کرے گا وہ خدا سے محبت کرے گا اور جو علی(ع) سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض رکھے گا اور جو مجھ سے بغض رکھے گا وہ خدا سے بغض رکھے گا۔”

جناب ثار سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا:

“ جو مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری تصدیق کی وہ علی بن ابی طالب(ع) کو دوست رکھے۔ ان کو دوست رکھنا مجھے دوست رکھنا ہے اور مجھے دوست رکھنا خدا کو دوست رکھنا ہے(۲) ۔”

ایک مرتبہ حضرت سرور کائنات(ص) نے خطبہ فرمایا جس میں کہا :

“ اے لوگو! فضل و شرف اور منزلت و ولایت خدا کے رسول(ص) کی ذریت کے لیے ہے لہذا تم لوگ باطل میں نہ پڑجانا(۳) ۔”

--------------

۱ ـ  طبرانی نے کبیر میں ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کنز العمال جلد۶ صفحہ۱۵۴ پر بھی موجود ہے۔

۲ ـ طبرانی نے اس حدیث کو کبیر میں درج کیا ہے۔ کنزالعمال جلد۶ صفحہ۱۵۵ پر بھی موجود ہے۔ منتخب کنزالعمال میں بھی ہے۔

۳ ـ ابو شیخ نے ایک طولانی حدیث میں اسے نقل کیا ہے اور ان سے تفسیر آیہ مودت کے ضمن میں ابن حجر نے صواعق محرقہ صفحہ۱۰۵ پر نقل کیا ہے۔

۵۶

آںحضرت(ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ:

“ میری امت کے ہادی ہر دور میں میرے اہلبیت(ع) کے عادل افراد ہوں گے جو اس دین اسلام سے گمراہوں کی تحریف ،اہل باطل کی تہمت تراشی اور جاہلوں کی تاویل کا ازالہ کرتے رہیں گے۔ آگاہ ہو کہ تمھارے ائمہ خدا کے حضور میں تمھارے نمایندہ ہیں۔ لہذا سوچ سمجھ لینا کہ کسے اپنا نمایندہ بنا کر بھیجو گے(۱) ۔”

یہ بھی آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ:

“ دیکھو ان  سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور نہ پیچھے رہ جانا ور نہ ہلاک ہوجاؤگے اور انھیں سکھانا پڑھانا نہیں کہ یہ تم سے خود زیادہ جانتے ہیں(۲) ۔”

یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :

“ میرے اہلبیت(ع) کو ایسا سمجھو جیسا سر بدن کے لیے اور آنکھیں سر کے لیے ہیں اور سر آنکھوں ہی کے ذریعے راہ پاتا ہے(۳) ۔”

--------------

۱ ـ  ملا نے اپنی سیرت میں یہ حدیث درج کی ہے جیسا کہآيت وقفو ه م ان ه م مسئولون کی تفسیر میں ابن حجرمکی نے صواعق محرقہ صفحہ۹۰ پر تحریر کیا ہے۔

۲ ـ  طبرانی نے حدیث ثقلین میں اسے لکھا ہے اور ان سے علامہ ابن حجر نے آیت آيت وقفو ه م ان ه م مسئولون کی تفسیر میں صواعق محرقہ باب۱۱ صفحہ۷۹ پر نقل کیا ہے۔

۳ ـ  ارباب سنن و احادیث کی ایک جماعت نے جناب ابوذر سے بسلسلہ اسناد اس حدیث کی روایت کی ہے اور صبان نے اپنی کتاب اسعاف الراغبین میں شیخ یوسف نبہانی نےشرف النبوہ صفحہ۳۴ میں نقل کیا ہے اور بھی بہت سے ثقہ علماء نے اسے لکھا ہے یہ حدیث نص صریح ہے کہ بس اہلبیت(ع) ہی کو اپنا امیر وحاکم سمجھا جائے انہیں کے ذریعہ حق  تک ہدایت جاسکتی ہے۔

۵۷

یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :

“ ہم اہل بیت(ع) کی محبت کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ جو شخص خدا سے ملاقی ہو اور ہمیں دوست بھی رکھتا ہو خداوند عالم اسے ہماری شفاعت کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا۔ قسم ہے اس معبود برحق کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان  ہے کسی بندے کو اس کا عمل اس وقت تک فائدہ نہ پہنچائے گا، جب تک وہ ہمارے حقوق نہ پہچانتا ہو(۱) ۔”

یہ بھی آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ :

“ آل محمد(ص) کی معرفت عذاب جہنم سے رہائی اور ان کی محبت پل صراط سے گزر جانے کا پروانہ اور ان کی ولایت عذاب سے امان ہے(۲) ۔”

--------------

۱ ـ  طبرانی نے اس حدیث کو اوسط میں درج کیا اور علامہ سیوطی نے احیاء المیت  میں علامہ نبہانی نے اربعین الاربعین میں اور علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ میں اسے نقل کیا ہے۔ ذرا رسول(ص) کے اس جملہ کو اچھی طرح سوچیے کہ کسی بندے کو اس کا عمل اس وقت تک فائدہ نہ پہنچائے گا جب تک وہ ہمارے حقوق کو نہ پہچانتا ہو۔ اور خدا را مجھے بتائیے کہ وہ حق کون سا جسے خداوندعالم نے اعمال کی صحت کے لیے شرط قرار دیا۔کیا وہ حق یہ نہیں ہے کہ حضرات اہل بیت(ع) کی اتباع و پیروی کی جائے۔ ان کے احکام پر سر تسلیم خم کیا جائے اور ان کے ذریعہ خدا تک پہنچا جائے اور سوا نبوت و خلافت کے وہ کون سا حق ہوسکتا ہے جس کے اثرات اتنے ہمہ گیر ہوں۔ لیکن ہمارا ساتھ تو ایسی قوم سے ہے جو تامل و فکر سے کام نہیں لیتی ۔انا ﷲ و انا الي ه راجعون ۔

۲ ـ  شفاء قاضی عباس صفحہ۷ قسم ثانی مطبوعہ آستانہ سنہ۱۲۳۸ھ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں معرفت سے مراد محض ان کے نام و ذات اور ان کے قرابتداران رسول(ص) سے ہونے  کو جان لینا نہیں کیونکہ یہ تو ابو لہب و ابوجہل بھی جانتے تھے بلکہ معرفت سے مراد یہ ہے کہ بعد رسول(ص) انھیں ولی اﷲ سمجھا جائے بنا بر ارشاد پیغمبر(ص)  “ومن مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة جاهليه “ جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کیے بغیر مرگیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ حضرات اہلبیت(ع) کی محبت و ولایت سے جس کا یہاں ذکر ہے وہ محبت و ولایت مراد ہے جو صاحبان حق ائمہ حق کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ سچے اور حقیقی ائمہ  کے ساتھ جو محبت و ولایت لازم و واجب ہے وہی محبت اہل بیت(ع) سے ہونا چاہیے۔  

۵۸

یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ:

“ قیامت کے دن موقف حساب سے کسی شخص کے پیر نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی عمر کن باتوں میں گزاری۔ اپنے جسم کو کس کام میں لائے۔ مال  کو کن امور میں صرف  کیا اور کہاں سے حاصل کیا۔ نیز اس سے ہم اہلبیت(ع) کی محبت کے متعلق سوال کیا جائے گا(۱) ۔”

یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :“ اگر کوئی شخص رکن و مقام کے درمیان اپنے دونوں قدم جمائے عمر بھ نماز پڑھتا رہے اور روزہ رکھتا رہے مگر آل محمد(ص) سے وہ بغض رکھتا ہو تو وہ جہنم ہی میں جائے گا(۲) ۔”

--------------

۱ ـ اگر حضرات اہل بیت(ع) خداوند عالم کی جانب سے اس منصب پر فائز نہ ہوتے جو مستوجب اطاعت و اتباع ہے تو ان کی محبت کو اتنی اہمیت کبھی حاصل نہ ہوتی۔ اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباس سے روایت کیا ہے اور ان سے علامہ سیوطی نے احیاء المیت میں اور نبہانی نے اپنی اربعین میں نیز اور بھی متعدد علمائے اعلام نے نقل کیا ہے۔

۲ ـ اس حدیث کو طبرانی اور امام حاکم نے روایت کیا ہے جیسا کہ علامہ نبہانی کی اربعین اور علامہ سیوطی کی احیاء المیت میں مذکور ہے۔ یہ حدیث سابق والی حدیث “قسم سے اس ذات برحق کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی بندے کو اس کا عمل اس وقت تک فائدہ نہ پہنچائے گا جب تک وہ ہمارے حقوق کو پہچانتا نہ ہو۔” کی نظیر ہے ۔ اںصاف فرمائیے کہ آل محمد(ص) سے دشمنی خدا و رسول(ص) سے دشمنی نہ ہوتی تو ان کے دشمن کے اعمال رائگان کیوں جاتے اور اگر یہ حضرات جانشین و قائم مقامِ پیغمبر(ص) نہ ہوتے تو یہ منزلت انھیں کیسے حاصل ہوسکتی تھی۔ امام حاکم اور ابن جبان نے اپنی احادیث کی کتابوں میں ( جیسا کہ علامہ نبہانی کی اربعین اور سیوطی کی احیاء المیت میں مذکور ہے) ابوسعید سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان  ہے جو شخص بھی ہم اہلبیت(ع) سے بغض رکھے گا وہ جہنم میں جائے گا اور طبرانی نے (جیسا کہ بنہانی کی اربعین اور سیوطی کی احیاء المیت میں مزکور ہے ) امام حسن(ع) سے روایت کی ہے۔ امام حسن(ع) نے معاویہ بن خدیج سے فرماچکے ہیں کہ جو شخص ہم سے بغض رکھے گا یا ہم سے حسد کرے گا قیامت کے دن حوض کوثر سے آتشین کوڑوں کے ذریعہ بھگایا جائے گا۔” ایک مرتبہ آںحضرت(ع) نے خطبہ فرمایا ۔ اے لوگو جس شخص نےہم اہلبیت(ع) سے بغض رکھا خداوند عالم قیامت کے دن اسے دین یہود پر محشور کرےگا۔ طبرانی نے اس حدیث کی اوسط میں روایت کی ہے

۵۹

یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :

“ جوشخص محبت آل محمد(ص) پر مرے گا وہ شہید مرےگا۔ دیکھو جو محبتِ آل محمد(ص) پر مرے گا وہ مغفور مرے گا۔ سارے گناہ اس کے بخش دیے جائیں گے۔ دیکھو جو محبتِ آل محمد(ص) پر مرے گا گویا وہ اپنے تمام گناہوں سے توبہ کر کے مرا، دیکھو جو محبتِ آل محمد(ص)  پر مرا وہ مومن اور کامل الایمان مرے گا۔ دیکھو جو محبتِ آل محمد(ص) پر مرا

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۲; اس كا علم ۴

عذاب:مہلك عذاب كے اثرات ۷; مہلك عذاب ۸; مہلك عذاب سے نجات ۶

قرآن:اسكے وحى ہونے ميں شك ۱

قيامت:اس ميں ايمان ۸; اس كا علم ۴; اس كا اچانك ہونا ۳; اس كا وقت ۴; اسكى خصوصيات ۳

كفار:صدر اسلام كے كفار كو ڈرانا ۵; ان كے شك كو دور كرنا ۷; ان كا مہلك عذاب ۶; ان كا انجام ۶

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا شك ۱; صدر اسلام كے مشركين اور قرآن ۱

مايوسي:حق دشمنوں كے ايمان سے مايوسى ۲; كافروں كے ايمان سے مايوسى ۲

آیت ۵۶

( الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ )

آج كے دين ملك اللہ كے ليے ہے اور وہى ان سب كے درميان فيصلہ كرے گا پھر جو لوگ ايمان لے آئے اور انہوں نے نيك اعمال كئے وہ نعمتوں والى جنت ميں رہيں گے (۵۶)

۱ _ روز قيامت كى مطلق اور بے مثل فرمانروانى ،خداتعالى كے ساتھ مخصوص ہے_الملك يومئذ لله

۲ _ قيامت، كفر و ايمان كے محاذوں كے درميان فيصلے كا دن ہے_يحكم بينهم

۳ _ خداتعالى روز قيامت كا حاكم اور فيصلہ كرنے والاہے_الملك يومئذ لله يحكم بينهم

۴ _ بہشت، نيك كردار مؤمنين كا اجرہے_فالذين أمنوا و عملوا الصلحت فى جنت النعيم

۵ _ بہشت كى نعمتوں كا حصول ايمان و عمل صالح كى ہمراہى ميں منحصر ہے_فالذين أمنوا و عملوا الصلحت فى جنت

۵۸۱

النعيم

۶ _ اہل ايمان كا بہشت ميں داخل ہونا، خداتعالى كى طرف سے ان كے اور كافروں كے درميان فيصلہ كے بعد ہوگا_

يحكم بينهم فالذين أمنوا فى جنت النعيم

۷ _ بہشت ميں متعدد باغ ہيں اور وہ نعمتوں سے سرشار ہے_فى جنت النعيم

۸ _ عالم آخرت، عالم جزا و سزا_الملك يومئذ لله يحكم بينهم فى جنت النعيم

ايمان:اسكے اثرات ۵

بہشت:اسكى پاداش ۴; اسكے باغوں كا متعدد ہونا ۷; اسكى نعمتيں ۵، ۷

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱; اسكى اخروى حكمرانى ۱; اسكى اخروى قضاوت ۳، ۶

صالحين:انكى اخروى پاداش ۴

عمل صالح:اسكے اثرات ۵

قيامت:اس ميں پاداش ۸; اس ميں حاكميت ۱; اس ميں قضاوت ۲، ۳، ۶; اس ميں سزا، ۸ ; اسكى خصوصيات ۲، ۸

كفار:ان كے اور مؤمنين كے درميان قضاوت ۲، ۶

مؤمنين:انكى اخروى پاداش ۴; يہ بہشت ميں ۶

۵۸۲

آیت ۵۷

( وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأُوْلَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ )

اور جن لوگوں نے كفر اختيار كيا اور ہمارى آيتوں كى تكذيب كى ان كے ليے نہايت درجہ كا رسوا كن عذاب ہے (۵۷)

۱ _ كفر و ايمان، روز قيامت انسانوں كے درميان خداتعالى كے فيصلے كا معيار _يحكم بينهم فالذين أمنوا و الذين كفروا عذاب مهين

۲ _ دوزخ كا عذاب ،خدا كے ساتھ كفر كرنے اور اسكى آيات (قرآن) كو جھٹلانے كى سزا_والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا فأولئك لهم عذاب مهين

۳ _ دوزخ كا عذب متنوع اور مختلف اقسام كا ہے_فأولئك لهم عذاب مهين

(''مہين'' كے مصدر) ''إہانة'' كا معنى ہے رسوا اور ذليل كرنا_ كافروں اور آيات الہى كى تكذيب كرنے والوں كے عذاب كى ''خوار كرنے والے'' كے ساتھ توصيف اس حقيقت كو بيان كر رہى ہے كہ دوزخ كے عذاب اور انواع و اقسام كے ہيں قابل ذكر ہے كہ مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''مہين'' صفت تخصيصى ہو نہ تو ضيحي_

۴ _ دوزخ كا عذاب خوار كرنے والا اور ذلت آور ہے_لهم عذاب مهين

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''مہين'' ''عذاب'' كى صفت توضيحى ہے_

۵ _ خدا كاكفر كرنا اور اسكى آيات (قرآن) كو جھٹلانا ، استكبارى فطرت اور خود كو برتر سمجھنے كا سرچشمہ ہے _والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا فأولئك لهم عذاب مهين

''عذاب'' كى ''مہين'' (ذليل كرنے والا) كے ساتھ توصيف اس حقيقت كو بيان كررہى ہے كہ خدا كاكفر اور اسكى آيات كى تكذيب ايسا كردار ہے كہ جس كا سرچشمہ استكبارى فطرت اور اپنے آپ كو بڑا سمجھنا ہے اور خداتعالى نے اسكى ساتھ متناسب سزا كا انتظام فرمايا ہے تا كہ اس استكبارى

۵۸۳

فطرت كو ختم كر كے انہيں ذلت و خوارى ميں مبتلا كردے_

۶ _ اخروى سزائيں انسانوں كے دنياورى كردار كے ساتھ متناسب ہيں _والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا عذاب مهين

۷ _ صدر اسلام كے كفار اور تكذيب كرنے والے، مستكبر اور اپنے آپ كو برتر سمجھنے والے لوگ تھے_

والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا عذاب مهين

۸ _ خداتعالى اور اسكى آيات كے مقابلے ميں استكبار كرنے كا نتيجہ ،دوزخ كا خوار كرنے والا اور ذلت آميز عذاب ہے_

والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا عذاب مهين

۹ _ قرآن مجيد،آيت آيت كى صورت ميں ہے_كذبوا بأى تن

۱۰ _ قرآن كريم خداتعالى كى نشانيوں كا مجموعہ ہے_كذبوا بأى تن

آيات الہى :انكى تكذيب كى سزا ،۲; انكى تكذيب كا سرچشمہ ۵

استكبار:آيات خدا كے مقابلے ميں استكبار كى سزا، ۸; خدا كے مقابلے ميں استكبار كى سزا،۸

ايمان:اسكے اثرات ۱

تكبر:اسكے اثرات۵

جہنم:اسكے عذاب كا متنوع ہونا ۳; اسكے اسباب ۲، ۸; اسكے عذاب كى خصوصيات ۴

خداتعالى :اسكى اخروى قضاوت كا معيار، ۱

عذاب:اہل عذاب ۲; ذلت آميز عذاب ۴، ۸; اسكے درجے ۴، ۸; اخروى عذاب كى اسباب ۸

قرآن:اس ميں آيات الہى ۱۰; اس كا آيت آيت ہونا ۹; اسے جھٹلانے والوں كا استكبار ۷; اسكى ساخت ۹; اسے جھٹلانے والوں كى صفات۹; اسے جھٹلانے كى سزا، ۲; اسے جھٹلانے كا سرچشمہ ۵; اسكى خصوصيات ۹، ۱۰

قيامت:اس ميں قضاوت ۱

كفار:صدر اسلام كے كفار كا استكبار ۷; صدر اسلام كے كفار كى صفات ۷

كفر:اسكے اثرات ۱; اسكى سزا،۲; خدا كے ساتھ كفر كا سرچشمہ ۵

سزا:اس كا گناہ كے ساتھ متناسب ہونا ۶

سزا كا نظام :۶

۵۸۴

آیت ۵۸

( وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقاً حَسَناً وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ )

اور جن لوگوں نے راہ خدا ميں ہجرت كى اور پھر قتل ہوگئے يا انہيں موت آگئي تو يقينا خدا انہيں بہترين رزق عطا كرے گا كہ وہ بيشك بہترين رزق دينے والا ہے (۵۸)

۱ _ دين كى حفاظت كى خاطر اپنا شہر اور وطن چھوڑ كر ديار غربت كى طرف ہجرت كرنا ايك شائستہ اور خدا كا محبوب عمل ہے_و الذين هاجروا فى سبيل الله ليرزقهم الله

۲ _ اللہ تعالى ،مہاجر مؤمنين كے اجر كا ذمہ دار ہے_و الذين هاجروا فى سبيل الله ليرزقهم الله رزقاً حسن

۳ _ مہاجرين كى ديا ر ہجرت ميں موت وہاں پر انكى شہادت كے برابر ہے_و الذين هاجروا فى سبيل الله ليرزقهم الله رزقاً حسن

۴ _ خداتعالى كى طرف سے صدر اسلام كے ان مہاجرين كيلئے بہشت كى ضمانت كہ جو اس وقت (مذكورہ آيت كے نزول كے وقت) تك فوت ہوچكے تھے يا دشمن كے ہاتھوں قتل ہوچكے تھے_و الذين هاجروا فى سبيل الله ثم ليرزقهم الله رزقاً حسن

۵ _ عمدہ رزق، خداتعالى كى طرف سے مؤمن مہاجرين كيلئے اخروى اجر _و الذين هاجروا ليرزقهم الله رزقاً حسن

۶ _ خداتعالى سب سے اچھا رازق ہے_و إنّ الله لهو خيرا لرازقين

اسما و صفات:

۵۸۵

خير الرازقين ۶

بہشتى لوگ :۴

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۶; اس كا اجر ۲; اس كا رازق ہونا ۶

دينداري:اسكى اہميت ۱

روزي:اس كا سرچشمہ ۶

عمل :پسنديدہ عمل ۱

مؤمنين:ان كے اجر كا سرچشمہ ۲

مہاجرين:انكى موت كى قدر و قيمت ۳; ان كا اخروى اجر ۵; انكى اخروى روزى ۵; انكى اچھى روزى ۵; صدر اسلام كے مہاجرين كى شہادت ۴; صدر اسلام كے مہاجرين كى موت ۴; ان كے اجر كا سرچشمہ ۲; صدر اسلام كے مہاجرين بہشت ميں ۴

ہجرت:اسكى فضيلت ۱

آیت ۵۹

( لَيُدْخِلَنَّهُم مُّدْخَلاً يَرْضَوْنَهُ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَلِيمٌ حَلِيمٌ )

وہ انہيں ايسى جگہ پہنچائے گا جسے وہ پسند كرتے ہوں گے اور اللہ بہت زيادہ جاننے والا اور برداشت كرنے والا ہے (۵۹)

۱ _ خداتعالى ،آخرت ميں ہجرت كرنے والے مؤمنين كے اجر كا ذمہ دار ہے _و الذين هاجروا ليدخلنّهم مدخلاً يرضونه

۲ _ ہجرت كرنے والے مؤمنين جہان آخرت ميں مطلوب اور دل پسند مقام ركھتے ہوں گے_و الذين هاجروا ليدخلنّهم مدخلاً يرضونه

۳ _ دلپسند گھر اور جگہ، آخرت ميں ہجرت كرنے والے مؤمنين كيلئے خداتعالى كى عمدہ روزى كے برجستہ ترين مصاديق ميں سے ہے_ليرزقنهم الله رزقاً حسناً ليدخلنّهم

۵۸۶

مدخلًا يرضونه

مذكورہ مطلب اس نكتے كو مد نظر ركھتے ہوئے ہے كہ جملہ''ليدخلنهم'' بدل اشتمال اور باالفاظ ديگر اچھے رزق (ليرزقنہم الله رزقاً حسناً) كے مصاديق ميں سے ہے_

۴ _ خداتعالى كى طرف سے صدر اسلام كے مؤمنين اور مہاجرين كو نصيحت كہ وہ كفار كے دباؤ اور اذيتوں كے مقابلے ميں بردبارى كا ثبوت ديں اور صبر كا دامن نہ چھوڑيں _و الذين هاجروا ...ثم قتلوا ...و إنّ الله لعليم حليم

جملہ''و إنّ الله لعليم حليم'' ميں ''عليم'' كا متعلق محذوف اور قرينہ مقام كے پيش نظريہ درحقيقت''إنّ الله لعليم بما فعل المشركون بالمؤمنين من إخراجهم من ديارهم و قتلهم المهاجرين حليم يمهلهم و لا ينتقم منهم إلى حين'' ہے_ مشركين نے مؤمنين كے ساتھ جو كچھ كيا ہے خدا اس سے آگاہ ہے اور چونكہ وہ حليم اور بردبار ہے لہذا انہيں فرصت ديتا ہے_ قابل ذكر ہے كہ مذكورہ جملہ در حقيقت خداتعالى كى طرف سے صدر اسلام كے مؤمنين كو ايك نصيحت ہے كہ وہ كافروں كے دباؤ كى وجہ سے بے حوصلہ نہ ہوجائيں بلكہ جس طرح خدا حليم اور بردبار ہے وہ بھى بردبارى كا ثبوت ديں اور صبر كا دامن نہ چھوڑيں _

۵ _ خداتعالى عليم (جاننے والا) اور حليم (بردبار) ہے_و إنّ الله لعليم حليم

اسما و صفات:حليم ۵; عليم ۵

خداتعالى :اس كا اجر،۱ اسكى نصيحتيں ۴

كفار:صدر اسلام كے كفار كى اذيتوں پر صبر كرنا ۴

مہاجرين:صدر اسلام كے مہاجرين كو اذيت ۴; ان كا اخروى اجر، ۱; صدر اسلام كے مہاجرين كو نصيحت۴; انكى عمدہ روزى ۳; صدر اسلام كے مہاجرين كا صبر ۴; ان كا اخروى گھر ۳; ان كا اخروى مقام و مرتبہ ۲; ان كے اجر كا سرچشمہ ۱

۵۸۷

آیت ۶۰

( ذَلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ )

يہ سب اپنے مقام پر ہے ليكن اس كے بعد جو دشمن كو اتنى ہى سزا دے جتنا كہ اس ستايا گيا ہے اور پھر بھى اس پر ظلم كيا جائے تو خددا اس كى مدد ضرور كرے گا كہ وہ يقينا بہت معاف كرنے والا اور بخشنے والا ہے (۶۰)

۱ _ مشركين كے دباؤ اور اذيتوں كے مقابلے ميں مؤمنين اور مہاجرين كا صبر اور بردبارى سے كام لينا اور انتقام سے پرہيز كرنا، ايك ايسا اہم اور تقدير ساز امر ہے كہ جسكى خداتعالى نے تاكيد كے ساتھ نصيحت فرمائي ہے (مكہ سے مدينہ كى طرف ہجرت كے اوائل ميں )و الذين هاجروا و إنّ الله لعليم حليم ذلك

''ذلك'' محذوف مبتدا كى خبر ہے اور يہ صدر اسلام كے مؤمنين اور مہاجرين كو خداتعالى كى اس نصيحت كى طرف اشارہ ہے كہ وہ مشركين كے دباؤ اور اذيتوں كے مقابلے ميں بردبار رہيں اور صبر كا دامن نہ چھوڑيں _ قابل ذكر ہے كہ ايسے موارد ميں عام طور پر ''ہذا'' استعمال ہوتا ہے لہذا ''ذلك'' كہ جو بعيد كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے _ كا استعمال اس خاص دور ميں صدر اسلام كے مشركين كى اذيتوں كے مقابلے ميں صبر و تحمل كى اہميت كو بيان كررہا ہے يہ وہ دور تھا كہ ظاہراً مؤمنين ابھى تك دشمن كا مقابلہ كرنے كيلئے كافى طاقت سے بہرہ مند نہيں تھے_

۲ _ مشركين كى عقوبت كے مقابلے ميں صدر اسلام كے ايك مؤمن كا انہيں ان جيسا جواب دينا_و من عاقب بمثل ما عوقب به

آيت كے ظاہر سے يوں محسوس ہوتا ہے كہ ايك مؤمن نے مشركين كى طرف سے اسے دى جانے والى عقوبت كے مقابلے ميں انہيں انتقاماً تركى بہ تركى جواب ديا اور پھر دوبارہ ان كى طرف سے اس پر ظلم و ستم كيا گيا_ اس ظلم كے بعد خداتعالى نے اسے پكا وعدہ ديا كہ وہ اسكى مدد كريگا تا كہ اپنا انتقام لے سكے البتہ اسكے ساتھ ساتھ اس حقيقت كى ياد دہانى بھى كراكر كہ خدا بخشنے والا اور مغفرت كرنے والا ہے نصيحت كى كہ اگر اس ظلم سے درگذر كرتے ہوئے اور ظالم كو معاف كردے تو يہ زيادہ مناسب اور پسنديدہ ہے_

۳ _ مشركين كى طرف سے ان مسلمانوں پر دوبارہ ظلم كہ جنہوں نے انہيں تركى بہ تركى جواب ديا تھا (يعنى جيس عقوبت مشركين نے انہيں دى تھى انہوں نے بھى ويسى ہى عقوبت مشركين كو دى تھي)و من عاقب بمثل ما عوقب به ثم بغى عليه

۵۸۸

۴ _ خداتعالى نے ستم كا شكار ہونے والے مسلمانوں كو قطعى وعدہ ديا ہے كہ وہ انكى مدد اور نصرت كريگا تاكہ ستمگروں سے اپنا انتقام لے سكيں _ومن عاقب ثم بغى عليه لينصرنه الله

۵ _ خداتعالى مظلوموں كا حامى اور مددگار اور ظالموں اور ستمگروں كا دشمن ہے _و من عاقب بمثل ما عوقب به ثم بغى عليه لينصرنه الله

۶ _ خداتعالى نے مشركين كے ظلم كا شكار ہونے والے مسلمان شخص كو نصيحت فرمائي كہ وہ دشمنوں سے درگزر كردے اور انہيں معاف كردے_و من عاقب ثم بغى عليه لينصرنه الله إنّ اللّه لعفو غفور

۷ _ خداتعالى عفوّ (در گزر كرنے والا) اور غفور (بخشنے والا) ہے_إن الله لعفو غفور

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۶

اسما و صفات:عفو۷; غفور ۷

تجاوز كرنے والے:ان كا دشمن ۵

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۱، ۶; اسكى حمايت ۵; اسكى دشمنى ۵; اسكى نصرت ۴; اس كا وعدہ ۴

ظالم لوگ:ان كا دشمن ۵

مسلمان:مظلوم مسلمان كو نصيحت ۶; صدر اسلام كے مسلمان كا تركى بہ تركى جواب دينا ۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا تجاوز كرنا ۳; صدر اسلام كے مشركين كى اذيتوں كے مقابلے ميں صبر ۱

مظلومين:ان كا حامى ۵; انكى نصرت ۴

مؤمنين:صدر اسلام كے مؤمنين كا تركى بہ تركى جواب دينا۲

مہاجرين:صدر اسلام كے مہاجرين كے صبر كى اہميت ۱; صدر اسلام كے مہاجرين كو نصيحت۱۱

۵۸۹

آیت ۶۱

( ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ )

يہ سب اس ئلے ہے كہ خدا رات كو دن ميں داخل كرتا ہے اور دن كو رات ميں داخل كرتا ہے اور اللہ بہت زيادہ سننے والا اور ديكھنے والا ہے (۶۱)

۱ _ خداتعالى كا شب و روز كو تبديل كرنے پر قادر ہونا ،اس بات كى واضح دليل ہے كہ وہ ستمگروں سے انتقام لينے كيلئے مظلوموں كى مدد كرنے كى طاقت ركھتا ہے_ذلك بأنّ الله يولج اليل فى النهار و أنّ الله سميع بصير

گذشتہ آيت ميں خداتعالى نے مشركين كے ظلم كا شكار بننے والے مسلمان كو قطعى وعدہ ديا كہ وہ اسكى مدد كريگا تا كہ وہ ظالموں سے اپنا انتقام لے سكے اور اس آيت ميں _ اس چيز كے پيش نظر كہ مبادا كوئي خداتعالى كے اپنے وعدوں كو پورا كرنے پر قادر ہونے اور مظلوموں كى مدد اور حمايت كرنے ميں شك كرے اپنى بے انتہا قدرت كے ايك گوشے كو بيان كيا ہے_

۲ _ شب و روز كو ايك دوسرے كے پيچھے لانا اور انہيں مسلسل ايك دوسرے كى جگہ پر تبديل كرنا خداتعالى كى قدرت مطلقہ كا ايك جلوہ ہے_با نّ الله يولج اليل فى النهار و يولج النهار فى اليل

(''يولج'' كے مصدر) ''إيلاج'' كا معنى ہے داخل كرنا رات كو دن ميں اور دن كو رات ميں داخل كرنا ممكن ہے شب و روز كو ايك دوسرى كى جگہ پر تبديل كرنے سے كنايہ ہو يعنى خداتعالى تدريجاً رات كو دن كى جگہ پر اور تدريجاً دن كو رات كى جگہ پر قرار ديتا ہے_ اسى طرح ہوسكتا ہے اس سے مراد دن كو چھوٹا اور رات كو بڑا كرنا ہواور اس كا برعكس ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بنياد پر ہے_

۳ _ پورے سال ميں شب و روز كا مسلسل چھوٹا بڑا ہونا ، خداتعالى كى غير محدود قدرت كى علامت ہے_

ذلك با نّ الله يولج اليل فى النهارو يولج النهار فى الّيل

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ رات كو دن ميں داخل كرنے سے مراد رات كو چھوٹا اور دن كو بڑا كرنا ہو نيز دن كو رات ميں داخل كرنے سے مراد دن كى گھڑيوں كو كم اور رات كو گھڑيوں كو زيادہ كرنا ہو_

۵۹۰

۴ _ خداتعالى ،مظلوم كى فرياد سنتا ہے اور ظالم كو ديكھتا ہے_و ا ن الله سميع بصير

''سميع'' اور ''بصير'' كا متعلق محذوف ہے اور گذشتہ آيت كے پيش نظر اصل ميں يوں ہے''و ا ن الله سميع دعاء من بغى عليه و بصير ببغى الباغي'' _

۵ _ خداتعالى كا علم و قدرت كامل اور نقص سے پاك ہے_ذلك با نّ الله يولج اليل وا ن الله سميع بصير

۶ _ خدا سميع (سننے والا) اور بصير (ديكھنے والا) ہے_و ا ن الله سميع بصير

اسما و صفات:بصير۶; سميع ۶

خداتعالى :اس كا بصير ہونا۴; اس كا منزہ ہونا ۵; اسكى قدرت كے دلائل ۳; اسكى نصرت كے دلائل ۱; اس كا سننا ۴; اسكى قدرت ۱; اسكے علم كا كامل ہونا ۵; اسكى قدرت كا كامل ہونا۵; اسكى قدرت كى نشانياں ۲: اسكے علم كى خصوصيات ۵; اسكى قدرت كى خصوصيات ۵

دن:اسكى گردش ۱، ۲،۳

رات:اسكى گردش ۱، ۲، ۳

ظالم لوگ:ان سے انتقام ۱

مظلومين:ان كا حامى ۱

آیت ۶۲

( ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ )

يہ اس لئے ہے كہ خدا ہى يقينا بر حق ہے اور اس كے علاوہ جس كو بھى يہ لوگ پكارتے ہيں وہ سب باطل ہيں اور اللہ بہت زيادہ بلندى والا اور بزرگى اور عظمت والا ہے (۶۲)

۱ _ قدرت خدا كے سائے ميں شب و روز كا مسلسل ايك دوسرے كى جگہ پر تبديل ہونا اسكى تدبير اور ربوبيت

۵۹۱

كا بولتا ثبوت ہے_با نّ الله يولج اليل فى النهار ذلك با نّ الله هو الحق

گذشتہ آيت خداتعالى كى قدرت مطلقہ كے ايك جلوے كو بيان كر رہى تھى يعنى شب و روز كو تبديل كرنا كہ جس كے ساتھ انسان كى زندگى كا نظام چلتا ہے اس آيت ميں فرماتا ہے يہ جو خداتعالى نے نظام ہستى كى تدبير اپنے اختيار ميں ركھى ہے يہ اسلئے ہے كہ پورے عالم ہستى ميں صرف وہ ہے جو معبود برحق ہے اور جو بھى اس كے غير ہيں كہ جنہيں معبود سمجھتا جاتا ہے سب باطل، كھوكھلے اور خيالى ہيں اور بلند مرتبہ ہونا اور بزرگى صرف اسكى شان ہے نہ اسكے غير كي_

۲ _ صرف خداتعالى معبود برحق اور لائق عباد ت ہے_ذلك با نّ الله هو الحق

۳ _ خدا تعالى كے علاوہ ہر معبود خيالى اور باطل ہے_و ا نّ ما يدعون من دونه هو الباطل

۴ _ تدبير الہى كے سائے ميں شب و روز كى گردش ،شرك كے ہدف اور ديگر خداؤں كے بطلان كى واضح نشانى ہے_

با نّ الله يولج اليل فى النهار و ا ن ما يدعون من دونه هو الباطل

۵ _ جہان اور اس كا نظام، خداشناسى اور توحيد تك پہنچنے اور شرك كے مقصد كے بطلان كا مناسب ذريعہ ہے_

ذلك با ن الله هو الحق و ا ن الله هو العلى الكبير

۶ _ بلندمرتبہ ہونا اور بزرگى صرف خداتعالى كى شان ہے_و ا نّ الله هو العلى الكبير

مذكورہ جملے ميں ''ہو'' ضمير فصل ہے اور ''العليَّ'' ''ا نّ''كى پہلى اور ''الكبير'' دوسرى خبر ہے اور دونوں ميں ''ال'' جنس كا اور مفيد حصر ہے_

۷ _ خداتعالى ''علّي'' (بلند مرتبہ) اور كبير (بزرگ) ہے_و انّ الله هوالعلى الكبير

آيات الہي:آفاقى آيات ۵/اسما و صفات:على ۷; كبير ۷

باطل معبود:ان كا كھوكھلاپن ۳; ان كے كھوكھلے پن كے دلائل ۴

توحيد:توحيد عبادى ۲، ۳

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۶; اسكى تدبير ۴; خداشناسى كے دلائل ۵; اس كا علو ۶; اسكى كبريائي ۶; اسكى تدبير كى نشانياں ۱; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۱

دن:اسكى گردش ۱، ۴/رات:

۵۹۲

اسكى گردش ۱، ۴

شرك:اسكے بطلان كے دلائل ۴; اسكے كھوكھلے ہونے كے دلائل ۵

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۲

آیت ۶۳

( أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ )

كيا تم نے نہيں ديكھا كہ اللہ نے آسمان سے پانى برسايا تو اس سے زمين سرسبز و شاداب ہوجاتى ہے _ يقينا اللہ بہت زيادہ مہربان اور حالات كى خبر ركھنے والا ہے (۶۳)

۱ _ آسمان سے بارش كا نازل ہونا، خداتعالى كى ربوبيت اور تدبير كا ايك جلوہ ہے _ا لم تر فتصبح الأرض مخضرة

''ا لم تر ...'' ميں استفہام تقرير كيلئے ہے يہاں پر بات ان لوگوں كے ساتھ ہے كہ جن كا عقيدہ تھا كہ آسمان سے بارش كا نازل ہونا اور اس كے ذريعے زمين كا سبز و شاداب ہونا اور زندگى كى گاڑى كا چلنا اور انسان كى زندگى كا سر و سامان پانا يہ سب صرف قدرت الہى كے جلوہ اور خداتعالى كى تدبير كے زير سايہ ميسر ہے ليكن اسكے باوجود ان كا خيال يہ تھا كہ ان كى تقدير ديگر خداؤں كے ہاتھ ميں ہے_

۲ _ بارش ، زمين كے سرسبز ہونے، نباتات كے اگنے اور زندگى كے نظام كے چلتے رہنے كا سبب ہے_

ا نزل من السماء مائً فتصبح الأرض مخضرّة

۳ _ قدرتى اشياء ميں غور و فكر، انسان كى توحيد اور يكتاپرستى تك دسترسى حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_

ا لم تر ا نّ الله ا نزل من السماء مائً

۴ _ قدرتى اور مادى علتوں كى كارگردگي، اراده الهى كي محقق هوني كا مظهر هي_ا لم تر ا نّ الله انزل من السماء مائً فتصبح

الأرض مخضرّة

۵ _ آسمان سے بارش كے نازل ہونے كى اصلى علت ميں گہر اغور و فكر كرنا ضرورى ہے_

ا لم تر ا نّ الله ا نزل من السماء مائً فقبح الأرض مخضرّة

۶ _ بارش كا نازل ہونا اور اس كا زمين كے اندرتك گھس جانا اور اسكے ذريعے زمين كا سرسبز و شاداب ہوجان خداتعالى كى اشيا كے ظاہر و باطن پر محيط ہونے اور اسكے جہان ہستى كے موجودات كے تار و پود ميں نفوذ ركھنے كى ايك نشانى ہے_

۵۹۳

ا لم تر ا نّ الله ا نزل من السماء مائً إنّ الله لطيف

''لطيف'' (مصدر ''لطافة'') سے دقيق كے معنى ميں ہے اور مصدر ''لطف'' سے ''صاحب لطف و كرم'' كے معنى ميں ہے خداتعالى كى لطيف كے ساتھ توصيف پہلے معنى كى بنياد پر خداتعالى كے اس طرح اشياء كے دل و جان ميں نفوذ ركھنے اور حاضر ہونے سے كنايہ ہے كہ كوئي اسے محسوس نہيں كرتا اس بناء پر بارش كے نزول كو بيان كرنے كے بعد كہ جو غير محسوس طريقے سے زمين كے اندر تك سرايت كرتى ہے_ اس صفت كا ذكر كرنا اس حقيقت كو بيان كر رہا ہے كہ بارش خداتعالى كے لطيف ہونے كى ايك علامت ہے_ مذكورہ مطلب اسى معنى كى بنياد پر ہے_

۷ _ خداتعالى كى سب انسانوں كے ساتھ نرى اور مدارات_إنّ الله لطيف

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''لطيف'' لطف (نرمى و مدارات) سے مشتق ہو اس صورت ميں ''لطيف'' كا متعلق محذوف ہے يعنى''إنّ الله لطيف بعباده''

۸ _ خداتعالى ،انسانوں كے امور سے مكمل طور پر آگاہ ہے_إنّ الله لطيف خبير

۹ _ بارش كا نازل ہونا اور اسكے ذريعے نباتات كا اُگنا خداتعالى كى انسانوں كے امور سے مكمل طور پر آگاہ ہونے كى نشانيوں ميں سے ہے_ا لم تر ا نّ الله ا نزل من السماء مائ إنّ الله لطيف خبير

۱۰ _ خداتعالى لطيف (دقيق) اور خبير (آگاہ) ہے_إن الله لطيف خبير

اسما و صفات:خبير ۱۰; لطيف ۱۰

بارش:اس كا برسنا ۱، ۶، ۹; اسكے فوائد ۲

تدبر:خلقت ميں تدبر كے اثرات ۳

تفكر:بارش برسنے كے عوامل ميں تفكر كرنا ۵

توحيد:اس كا پيش خيمہ۳

نباتات:ان كے اگنے كے عوامل ۲

زندگي:اسكے عوامل ۲

خداتعالى :اس كا علم ۸; اسكے ارادے كے مجارى ۴; اس كا لطف و كرم ۷; اسكے محيط ہونے كى نشانياں ۶; اسكى تدبير كى نشانياں ۱; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۱; اسكے علم كى نشانياں ۹

۵۹۴

زمين:اس كا سرسبز ہونا۶; اسكے سرسبز ہونے كے عوامل ۲

قدرتى عوامل:ان كا كردار ۴

نباتات:ان كا اگنا ۹

آیت ۶۴

( لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ )

آسمانوں اور زمين ميں جو كچھ بھى ہے سب اسى كے لئے ہے اور يقينا وہ سب سے بے نياز اور قابل حمد و ستايش ہے (۶۴)

۱ _ خداتعالى عالم ہستى كا مطلق اور بے رقيب مالك ہے_له ما فى السّموات و ما فى الأرض

''لہ'' مقدر عامل كے متعلق اور ''ما'' كى خبر ہے پس اس كا مبتدا پر مقدم كرنا مفيد حصر ہے قابل ذكر ہے كہ يہاں پر بات ان لوگوں سے ہے جن كا يہ خيال تھا كہ جہاں ميں كئي خدا ہيں اور انسانوں كى تقدير ان كے ہاتھ ميں ہے اس حقيقت كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ پورا عالم ہستى خداتعالى كى ملكيت اور اسكے اختيار ميں ہے مذكورہ جمع ميں بنيادى طور پر كسى دوسرے موجود_ كہ جو خود كى ملكيت سے باہر اور ديگر اشياء ميں تصرف كى قدرت ركھتا ہو_ كے وجود كو ايك باطل اور جاہل ذہنوں كا گھڑا ہوا خيال شمار كيا گيا ہے_

۲ _ عالم خلقت ميں كئي آسمان ہيں _له ما فى السّموات

۳ _ خداتعالى ، پورے عالم ہستى كا ايسا پروردگار ہے كہ جس كا كوئي ہمسر نہيں ہے_له ما فى السّموات و ما فى الأرض

۴ _ پورے عالم ہستى ميں صرف خداتعالى غنى و بے نياز اور حميد و لائق تعريف ہے_و إن الله لهو الغنى الحميد

''ہو'' ضمير فعل اور ''الغني''،''إن'' كى پہلى اور ''الحميد''دوسرى خبر ہے اور ان ميں ''ال'' جنس كيلئے اور مفيد حصر ہے_ قابل ذكر ہے كہ يہ حصر شرك والى فكر كے وہم و خيال ہونے كى ايك اور دليل كو بيان كررہى ہے كيونكہ اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے پورا عالم ہستى خدا كى حمد ميں مصروف ہے اور صرف اس كا نيازمند ہے كسى ايسے موجود كى

۵۹۵

كوئي گنجائش نہيں ہے كہ جو خود بے نياز ہو اور دوسروں كى نياز كو پورا كرے اور اس وجہ سے قابل ستائش ہو_

۵ _ پورا عالم ہستى فقير، خدائے يكتا كا نيازمند اور اسكى تعريف كرنے و الا ہے_له ما فى السموات و إنّ الله لهو الغنى الحميد

۶ _ بے نياز ى اور تمام كمالات كا حامل ہونا ،ربوبيت اور انسان و كائنات كے امور كى تدبير كے لائق ہونے كى شرط ہے_و إن الله لهو الغنى الحميد

۷ _ خداتعالى كى مطلق بے نيازى اور مالكيت اسكے حمد و ستائش كے لائق ہونے كا سرچشمہ _

له ما فى السموات و إن الله لهو الغنى الحميد

''مطلق بے نيازى اور مالكيت'' كے بعد ''حميد'' كو ذكر كرنا مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۸ _ خداتعالى غنى (بے نياز) اور حميد (تعريف كيا ہوا) ہے_و إن الله لهو الغنى الحميد

آسمان:ان كا متعدد ہونا ۲

اسما ء و صفات:حميد۸; غنى ۸

انسان:اس كا رب ۶

بے نيازي:اسكے اثرات ۶

توحيد:توحيد ربوبى ۳

عالم خلقت:اس كا مالك ۱; اس كا رب ۶; اس كى نيازمندى ۵

حمد:خدا كى حمد ۴، ۵; خدا كى حمد كا سرچشمہ ۷

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱، ۴; اس كا بے نظير ہونا۳; اسكى بے نيازى ۴، ۷; اسكى مالكيت ۴، ۱، ۷

ربوبيت:اسكے شرائط ۶

كمال:اسكے اثرات ۶

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۱، ۳، ۴

نياز:خدا كى طرف نياز ۵

۵۹۶

آیت ۶۵

( أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَيُمْسِكُ السَّمَاء أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ )

كيا تم نے نہيں ديكھا كہ اللہ نے تمہارے لئے زمين كى تمام چيزوں كو مسخر كر ديا ہے اور كشتياں بھى دريا ميں اسى كى حكم سے چلتى ہيں اور وہى آسمانوں كو روكے ہوئے ہے كہ اس كى اجازت كے بغير زمين پر نہيں گر سكتا ہے _ اللہ اپنے بندوں پر بڑا شفيق اور مہربان ہے (۶۵)

۱ _ زمين كى تمام موجودات (جمادات، نباتاتاور حيوانات) انسان كى خدمت ميں اور اس كے استفادہ كيلئے مسخر اور رام ہيں _ا لم تر ا نّ سخرلكم ما فى الأرض

۲ _ انسان، زمين ميں خدا كى محترم ترين اور بزرگ ترين مخلوق ہے_سخر لكم ما فى الا رض لرء وف رحيم

''ا لم تر ...'' ميں استفہام تقرير كيلئے ہے (''سخّر'' كے مصدر) تسخير كا معنى ہے رام كرنا_ قابل ذكر ہے كہ اس حصے ميں بھى بات ان لوگوں سے ہو رہى ہے كہ جو يہ ديكھتے ہيں كہ خداتعالى نے اس وسيع زمين ميں سب چيزوں كو _ جمادات، نباتات اور حيوانات_ ان كيلئے رام كيا ہے اور ان كے اختيار ميں قرار ديا ہے تا كہ اسكے سائے تلے اپنى زندگى كى مختلف قسم كى ضروريات كو پورا كرسكيں اور انكى زندگى كى گاڑى بلاتوقف چلتى رہے ليكن اسكے باوجود ان كا خيال يہ ہے كہ انكى تقدير ديگر خداؤں كے يہاں بنتى ہے_

۳ _زمين،خداتعالى كے انسان كا رب ہونے كے جلووں سے سرشار ہے_ا لم تر ا نّ سخرلكم ما فى الأرض

۴ _ عالم طبيعت كے انسان كيلئے رام ہونے، سمندر ميں كشتى كى حركت اور زمين كے آسمانى پتھروں اور ديگر كرات كے ساتھ ٹكرانے سے محفوظ رہنے كى طرف توجہ خداتعالى كى توحيد ربوبى تك پہنچنے كا واضح ذريعہ ہے_

ا لم تر ا نّ الله سخّر ا ن تقع على الأرض

۵ _ عالم طبيعت سے خدمت لينا اور اسكے منافع سے بہرہ مند ہونا ،سب انسانوں كا مساوى اور جائز حق ہے_

ا لم تر ا نّ الله سخّر لكم ما فى الأرض

۵۹۷

جو كچھ زمين ميں ہے اسے انسان كيلئے رام كرنے كا لازمہ يہ حقيقت ہے كہ سب انسان زمين اور اس ميں جو كچھ ہے اس سے استفادہ كرنے كا مساوى حق ركھتے ہيں اور كسى كو يہ حق نہيں ہے كہ وہ دوسرے كو اس حق سے منع كرے_

۶ _ سمندر ميں كشتيوں كى حركت ، خداتعالى كے ا ذن اور اسكے حكم كے تحت ہے_و الفلك التى تجرى فى البحر بأمره

۷ _ قدرتى عوامل، حكم خدا كے تحت اور اسكے ارادے كے مجارى ہيں _ا لم تر ا ن الله سخّرلكم ما فى الا رض و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض

۸ _ موجيں مارتے ہوئے سمندر كو رام كرنا، خداتعالى كى انسانوں كو عالم طبيعت پر مسلط كرنے كى طرف توجہ كا واضح نمونہ ہے_ا لم تر ا ن الله سخّرلكم ما فى الأرض و الفلك تجرى فى البحر بأمره

۹ _ زمين كا خداتعالى كے ارادے سے اجرام سماوى اور ديگر كرات كے ساتھ ٹكرانے سے محفوظ ہونا_

و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض

۱۰ _ نظام خلقت كا برپا ہونا اور اس كا نابودى سے محفوظ ہونا خداتعالى كى مسلسل حفاظت اور نگہداشت كا نيازمند ہے_

و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض

۱۱ _ نظام خلقت كا قائم ہونا، خداتعالى كى بے انتہا قدرت كا ايك جلوہ ہے_و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض

۱۲ _ اجرام آسمانى (شہاب و غيرہ) كا زمين پر گرنا ، خداتعالى كى مشيت اور اذن كے ساتھ ہے _

و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض إلّاإيذنه

۱۳ _ انسان كيلئے عالم طبيعت كا رام ہونا، سمندر ميں كشتيوں كى حركت اور زمين كا اجرام سماوى كے ساتھ ٹكرانے سے محفوظ ہونا يہ سب خداتعالى كى انسان كے ساتھ خاص رحمت و رافت كے جلوے ہيں _ا لم تر ا ن الله سخّر إنّ الله بالناس لرء وف رحيم

۱۴ _ خداتعالى كى وسيع رحمت و رافت تمام انسانوں (مؤمن و كافر) كو شامل ہے_إنّ الله بالناس لرء وف رحيم

صدر آيت (سخر لكم) كے قرينے سے ''الناس'' سب انسانوں كو شامل ہے چاہے وہ مؤمن ہوں يا كافر_

۱۵ _ خداتعالى ،رؤوف اور رحيم ہے_إنّ الله بالناس لرء وف رحيم

۵۹۸

مذكورہ جملے ميں مفسرين نے ''رافت'' كو ضرر كو روكنے سے اور ''رحمت'' كو فائدہ پہنچانے سے كنايہ بنايا ہے صدر آيت كہ جو دونوں خصوصيات پر مشتمل ہے اس معنى كا مويد ہوسكتا ہے_

اجرام سماوي:ان سے محفوظ ہونا ۴، ۹، ۱۳; ان كے گرنے كا سرچشمہ ۱۲

اللہ تعالي:اسكے اذن كے اثرات ۱۲; اس كا اذن ۶; اسكے اوامر ۶; اسكے اوامر كى حكمرانى ۷; اسكے ارادے كے مجارى ۷; اسكى رافت كى نشانياں ۱۳; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۳; اسكى رحمت كى نشانياں ۱۳; اسكى قدرت كى نشانياں ۱۱; اسكے لطف و كرم كى نشانياں ۸; اسكے ارادے كا كردار ۹

اسما و صفات:رؤوف ۱۵; رحيم ۱۵

انسان:ان كے حقوق كا مساوى ہونا ۵; اسكے فضائل ۱، ۲; اس كا رب ۳

توحيد:توحيد ربوبى ۴

حقوق:حق استفادہ ۵

حيوانات:انكى خلقت كا فلسفہ ۱

سمندر:اسے مسخر كرنا ۸

ذكر:عالم طبيعت كى تسخير كے ذكر كرنے كے اثرات ۴

خدا كى رافت:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۴

رحمت:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۴

زمين:اس كا محفوظ ہونا ۴، ۹، ۱۳

عالم خلقت:اس كا انہدام ۱۰; اس كا محفوظ ہونا۱۰; انكا نظام ۱۱; اسكى نگہداشت ۱۰

طبيعت:اس سے استفادہ كرنا۵; اسكى تسخير ۱۳

قدرتى عوامل:ان كا رام ہونا ۷; ان كا كردار ۷/كشتياں :انكى حركت ۴، ۱۳; انكى حركت كا سرچشمہ ۶

نباتات:انكى خلقت كا فلسفہ ۱/موجودات:انكى تسخير ۱; ان ميں سے معززترين ۲; انكى خلقت كا فلسفہ۱

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۴

۵۹۹

آیت ۶۶

( وَهُوَ الَّذِي أَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ إِنَّ الْإِنسَانَ لَكَفُورٌ )

وہى خدا ہے جس نے تم كو حيات دى ہے اور پھر موت دے گا اور پھر زندہ كرے گا مگر انسان بڑا انكار كرنے والا اور نا شكرا ہے (۶۶)

۱ _ انسان خدا كا خلق كيا ہوا اور اسكے ارادے سے زندہ ہے_و هو الذى ا حياكم

۲ _ موت تمام انسانوں كى قطعى تقدير _ثم يميتكم

۳ _ (روز قيامت) ارادہ الہى سے انسانوں كى نئي زندگي_ثم يحييكم

۴ _ انسان كى خلقت، موت اور نئي زندگى ميں خداتعالى كى ربوبيت كا متجلى ہونا_و هو الذى ا حياكم ثم يميتكم ثم يحييكم

۵ _ انسان ،خداتعالى كے مقابلے ميں بہت ناشكرا ہے_و هو الذى ا حياكم إنّ الإنسان لكفور

''كفور'' مبالغے كا صيغہ اور ''كفر'' سے مشتق ہے ''كفر'' كبھى ايمان كے مقابلے ميں استعمال ہوتا ہے اور كبھى شكر كے مقابلے ميں لہذا مذكورہ جملے ميں ''كفور'' ہوسكتا ہے شكور (بہت شكرگزار) كے مقابلے ميں اور ''بہت ناشكرا'' كے معنى ميں ہو اسى طرح ہوسكتا ہے بہت بے ايمان كے معنى ميں ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بناء پر ہے_

۶ _ شرك، بت پرستى اور توحيد سے منہ موڑنا، خداتعالى كے مقابلے ميں انسان كى ناشكرى كا عروج ہے_

و هو الذى ا حياكم إنّ الإنسان لكفور

انسان:اس كا خالق ۱; اسكى خلقت ۴; اسكى صفات ۵; اس كا انجام ۲; اسكى ناشكرى ۵، ۶; اسكى موت ۴

بت پرستي:

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639