دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)3%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272426 / ڈاؤنلوڈ: 6392
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

 کو جو جواب دیا تھا اس کے اصل الفاظ محدثین نے ذکر نہیں کیے ہیں بلکہ اس کا مطلب و مفہوم بیان کیا۔ اس کا ثبوت اس سے بھی مل سکتا ہے کہ محدثین نے دوسرے موقع پر جہاں جواب دینے والے کا نام ذکر نہیں کیا وہاں جواب کے اصل الفاظ بیان کردیے ہیں۔ چنانچہ امام بخاری صحیح بخاری بارہ ۱ صفحہ۱۱۸ کتاب الجہاد والسیر کے باب جوائز الوفد میں روایت کرتے ہیں کہ :

“ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا کہ ہم سے بن عینیہ نے سلمان احول سے انھوں نے سعید بن جبیر سے انھوں نے ابن عباس سے نقل کرکے بیان کیا ہے ابن عباس کہتے تھے۔ : پنجشنبہ کا دن ہائے وہ کیا دن تھا پنجشنبہ کا! یہ کہہ کر اتنا روئے کہ ان کے آنسوؤں سے زمین تر ہوگئی۔ پھر کہا کہ اسی پنجشنبہ کے دن رسول(ص) کی اذیت بہت بڑھ گئی تھی۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ میرے پاس کاغذ لاؤ کہ میں تمھیں نوشتہ لکھ دوں تاکہ کبھی تم گمراہ نہ ہو سکو۔ اس پر لوگ جھگڑنے لگے حالانکہ نبی کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں ، لوگوں نے کہا کہ رسول(ص) بے ہودہ بک رہے ہیں اس پر آںحضرت(ص) نے فرمایا : مجھے میرے حال پر چھوڑ دو میں جس حال میں ہوں بہتر ہے اس سے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو ۔ اور آںحضرت(ص) نے مرنے سے پیشتر تین وصیتیں فرمائیں۔ ایک تو یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال باہر کرو اور وفد بھیجنے کا سلسلہ اسی طرح باقی رکھو جس طرح میں بھیجا کرتا تھا ۔ابن عباس کہتے ہیں کہ تیسری وصیت(۱)

--------------

۱ـ تیسری بات جسے فرموش کرد دیا گیا وہی بات تھی جسے پیغمبر(ص) وقت انتقال نوشتہ کی صورت میں لکھ جانا چاہتے تھے تاکہ امت والے گمراہی سے محفوظ رہیں۔ یعنی امیرالمومنین(ع) کی خلافت ۔ لیکن سیاسی شاطروں نے محدثین کو مجبور کیا کہ وہ اس چیز کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھول جائیں جیسا کہ مفتی حنفیہ نے صراحت کی ہے۔

۴۸۱

 میں بھول گیا۔”

اس حدیث کو امام مسلم نے بھی صحیح مسلم کتاب الوصیت کے آخر میں درج کیا ہے۔ امام احمد نے اپنے مسند میں منجملہ احادیث ابن عباس نقل کیا ہے نیز تمام محدثین نے اس کی روایت کی ہے۔(۱)

امام مسلم نے صحیح مسلم کے کتاب الوصیت میں بواسطہ سعید بن جبیر، ابن عباس سے ایک دوسرے طریقہ سے روایت کی ہے۔ ابن عباس کہتے تھے:

“ پنجشنبہ کا دن، ہائے وہ کیا دن تھا پنجشنبہ کا!”

پھر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوئے اور رخساروں پر یوں بہتے دیکھے گئے جیسے موتی کی لڑی ہو۔ اس کے بعد ابن عباس نے کہا کہ :

“ رسول(ص) نے ارشاد فرمایا : میرے پاس دوات کاغذ یا لوح  و دوات(۲) لاؤ۔ میں تمھیں ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد پھر کبھی تم گمراہ نہ ہو۔ تو لوگوں نے اس پر کہا کہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں۔”

صحاح ستہ میں اس مصیبت کے ماحول پر نظر دوڑائیے تو آپ کو معلوم

--------------

۱ـ صحٰیح مسلم جلد۲ صفحہ۲۲۲

۲ـ اس حدیث کو انھیں الفاظ میں امام احمد نے مسند ج۱ صفحہ۳۵۵ پر روایت کیا ہے ان کے علاوہ اور بھی اجلہ علمائے اہل سنت نے نقل کیا ہے۔

۴۸۲

ہوگا کہ پہلا وہ شخص جس نے اس دن آواز بلند کی کہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں وہ حضرت عمر تھے انھیں نے سب سے پہلے رسول(ص) کے متعلق یہ جملہ کہا۔ ان کے بعد حاضرین میں جو ہم خیال افراد موجود تھے انھوں نے حضرت عمر کی ہم نوائی کی۔ آپ ابن عباس کا یہ فقرہ پہلی حدیث(۱) میں سن چکے ہیں۔

“ گھر میں جو لوگ موجود تھے آپس میں تکرار کرنے لگے بعض کہتے تھے کہ رسول(ص) کے پاس قلم  دوات لا دو تاکہ رسول(ص) یہ نوشتہ لکھ جائیں کہ اس کے بعد پھر تم کبھی گمراہ نہ ہو اور بعض حضرت عمر کی موافقت کررہے تھے۔”

یعنی وہ بھی یہی کہہ رہے تھے کہ رسول(ص) ہذہان بک رہے ہیں۔

ایک دوسری روایت میں ہے جو طبرانی نے اوسط میں حضرت عمر(۲) سے روایت کی ہے۔ حضرت عمر فرماتے تھے کہ :

“ جب رسول(ص) بیمار ہوئے تو آپ نے فرمایا : کہ میرے پاس کاغذ اور دوات لاؤ، میں ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ اس پر پردے کے پیچھے سے عورتوں نے کہا تم سنتے نہیں کہ رسول(ص) کیا کہہ رہے ہیں۔”

حضرت عمر کہتے کہ :

“ اس پر میں بولا کہ تم یوسف والی عورتیں ہو جب رسول(ص) بیمار پڑتے ہیں اپنی آنکھیں نچوڑ ڈالتی ہو اور جب تندرست رہتے ہیں

--------------

۱ـ جسے بخاری نے عبیداﷲ بن عتبہ بن مسعود سے انھوں نے ابن عباس سے روایت کیا ہے اور امام مسلم وغیرہ نے جس کی روایت کی ہے۔

۲ـ کنزالعمال جلد۲ صفحہ۱۳۸

۴۸۳

تو گردن پر سوار رہتی ہو۔ اس پر رسول(ص) نے فرمایا : کہ عورتوں کو جانے دو یہ تم سے تو بہتر ہی ہیں۔”

آپ ملاحظہ فرماتے ہیں کہ یہاں صحابہ نے ارشاد پیغمبر(ص) کو نہیں مانا۔ اگر مانے ہوتے تو گمراہی سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتے ۔ کاش صحابہ یہی کرتے کہ رسول(ص) کی بات ٹال جاتے نہ مانتے لیکن رسول(ص) کو یہ سوکھا جواب تو نہ دیتے کہ “ حسبنا کتاب اﷲ” ہمارے لیے کتاب خدا کافی ہے۔” اس فقرہ سے تو دھوکہ ہوتا کہ معاذ اﷲ جیسے رسول(ص) جانتے ہی نہ تھے کہ کتاب خدا مسلمانوں کے لیے کیا حیثیت رکھتی ہے؟ یامعاذ اﷲ یہ صحابہ کتاب خدا کے  خواص و فوائد رسول(ص) سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس کے رموز و اسرار سے زیادہ واقف ہیں۔ کاش اس پر ہی اکتفا کر لیتے ۔ اسی حد پر آکر باز رہ جاتے صرف یہی کہ “ حسبنا کتاب اﷲ” کتاب خدا ہمیں کافی ہے۔ یہ کہہ کر کہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں رسول(ص) کو صدمہء ناگہانی تو نہ پہنچاتے۔ رسول(ص) چند گھڑی کے مہمان تھے آپ کا دم واپسین تھا ایسی حالت میں یہ ایذار رسانی کہاں تک مناسب تھی؟ کیسی بات کہہ کر رسول(ص) کو رخصت کر رہےتھے۔

اور گویا معلوم ہوتا ہے کہ ( جس طرح انھوں نے کتاب خدا کو کافی سمجھتے ہوئے رسول(ص) کے ارشاد کو ٹھکرا دیا اسی طرح) انھوں نے کتاب خدا کافی کا ببانگ دہ یہ اعلان بھی نہیں سنا کہ رسول(ص) جو کچھ تمھیں دے دیں اس کو لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔

اور ان کے یہ کہنے سے کہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے خدا کا یہ ارشاد پڑھا ہی نہیں :

  “إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيم‏ذِى قُوَّةٍ عِندَ ذِى الْعَرْشِ

۴۸۴

مَكِينٍ مُّطَاعٍ ثمَ‏َّ أَمِين وَ مَا صَاحِبُكمُ بِمَجْنُون‏

“ بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتہ جبرئیل(ع) کی زبان کا پیغام ہے جو بڑا قوی، عرش کے مالک کی بارگاہ میں بلند مرتبہ ہے وہاں سب فرشتوں کا سردار و امانتدار ہے اورع مکہ والو تمھارے ساتھی محمد(ص) دیوانے نہیں ہیں”

نیز یہ ارشاد الہی :

“إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيم‏وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ  قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُون وَ لَا بِقَوْلِ كاَهِنٍ  قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُون تَنزِيلٌ مِّن رَّبّ‏ِ الْعَالَمِين‏“

“ بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتہ کا لایا ہوا پیغام ہے اور یہ کسی شاعر کی تک بندی نہیں۔ تم لوگ تو بہت کم ایمان لاتے ہو اور کسی کاہن کی خیالی بات ہے تم لوگ تو بہت کم غور کرتے ہو سارے جہاں کے پروردگار کا نازل کیا ہوا کلام ہے۔”

نیز ارشاد الہی :

“مَا ضَلَّ صَاحِبُكمُ‏ْ وَ مَا غَوَى‏ وَ مَا يَنطِقُ عَنِ الهَْوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى”

“ تمھارے رفیق محمد(ص) نہ گمراہ ہوئے نہ بہکے اور وہ تو اپنے نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں یہ تو بس وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے ۔ ان کو بڑی طاقت والے نے تعلیم دی ہے۔”
۴۸۵

نیز اسی طرح کی اور دوسری واضح اور روشن آیتیں کلام مجید کی جن میں صاف صاف تصریح ہے کہ ہر مہمل و بے ہودہ بات کہنے سے رسول(ص) پا ک وپاکیزہ ہیں جیسے انھوں نے کبھی پڑھی ہی نہیں۔

علاوہ اس کے خود تنہا اور فقط عقل بھی رسول(ص) سے مہمل اور بے ہودہ باتوں کا صادر ہونا محال و ناممکن سمجھتی ہے لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ صحابہ اچھی طرح جانتے تھے کہ رسول (ص) خلافت کی بات کو اور پکی کردینا چاہتے ہیں۔ آپ نے ابھی تک حضرت علی(ع) خلیفہ و جانشین ہونے کے متعلق جتنے اعلانات کیے ہیں ان کی مزید تاکید مقصود ہے لہذا ایسی بات کہہ کر رسول(ص) کی بات ہی کاٹ دی جیسا کہ خود حضرت عمر نے اپنی زبان سے اس کا اقرار و اعتراف کیا ہے۔ اس موقع پر جب ان

میں اور عبداﷲ بن عباس کے درمیان خلافت کے مسئلہ پر گفتگو چھڑ گئی تھی ۔(۱)

اگر آپ رسول(ص) کے اس قول پر کہ میرے پاس قلم دوات لاؤ تاکہ میں ایسا نوشتہ لکھ جاؤں کہ اس بعد ہرگز تم گمراہ نہ ہو” اور حدیث ثقلین میں رسول(ص) کے اس فقرہ پر کہ :

“ میں تم میں ایسی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم ان سے متمسک رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو۔ ایک کتاب خدا دوسرے میری عترت ۔” ان دونوں فقروں پر آپ ںظر کریں تو آپ پر یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ دونوں حدیثوں میں رسول(ص) کا مقصود ایک ہی ہے ۔ ایک ہی مفہوم کو دونوں حدیثوں میں آپ نے بیان کیا ہے۔

--------------

۱ـ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی جلد۳ صفحہ۱۴۰

۴۸۶

پیغمبر(ص) نے زبردستی نوشتہ لکھ کر کیوں نہیں ڈالا

اور یہ کہ رسول(ص) نے حالتِ مرض میں کاغذ و دوات جو مانگا تھا وہ اسی لیے تاکہ حدیثِ ثقلین میں جو چیز امت کے لیے واجب بتائی تھی اس کی تفصیل تحریر فرمادیں۔ تحریری طور پر لکھ دیں۔ اب رہ گئی یہ بات کہ رسول(ص) نے ان لوگوں کے اختلافات کی پر واہ نہ کرتے ہوئے نوشتہ لکھ  کرکیوں نہیں دیا، لکھنے کا ارادہ کیوں ملتوی کر دیا؟

اس کا سبب وہی فقرہ تھا حضرت عمر اور ان کے ہوا خواہوں کا جسے بول کر ان لوگوں نے رسول(ص) کو دکھ پہنچایا تھا۔ یہی فقرہ سن کر رسول(ص) نے ارادہ بدل دیا نہ لکھا وہ نوشتہ ۔ کیونکہ اتنے سخت جملہ کے بعد نوشتہ لکھنے کا کوئی فائدہ ہی نہ تھا سوا اس کے کہ اور فتنہ و فساد برپا ہوتا۔ اور اختلافات اور بڑھتے ۔ رسول(ص) کے لکھنے کا کوئی فائدہ ہی نہ ہوتا کیونکہ اب اگر رسول(ص) لکھتے بھی تو آپ کے نوشتہ کے متعلق لوگ کہتے کہ اس نوشتہ میں بھی تو رسول(ص) نے بذیان ہی تحریر فرمایا ہے۔ جس طرحٰ یہ کہنے پر کہ “ میرے پاس دوات کاغذ لاؤ میں ایسا نوشتہ لکھ جاؤں کہ اس کے بعد پھر کبھی گمراہ نہ ہو۔” لوگ

جھگڑنے لگے۔ ان میں تکرار ہونے لگی اور رسول(ص) کی آںکھوں کے سامنے خوب شور و غل مچا۔ اور رسول(ص) اس وقت کچھ نہ کرسکے ۔ صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ ۔ اور اگر رسول(ص) بھی اڑجاتے اپنی بات پر ، نوشتہ لکھ کر رہتے تو انھیں اور بھی ضد ہوجاتی اور زیادہ سختی سے کہتے کہ رسول(ص) نے جو کچھ لکھا وہ ہذیان ہے اور ان کے چٹے بٹے رسول(ص) کے لکھے ہوئے کو ہذیان ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی

۴۸۷

 کا زور لگا دیتے ۔ اپنی کتابوں میں لکھتے ، تاریخوں میں بیان کرتے، غرض رسول(ص) کے نوشتہ کی دھجیاں اڑا دیتے ، تاکہ اس سے کوئی کام لے ہی نہ سکے۔

اسی وجہ سے حکیم اسلام کی حکمت بالغہ نے چاہا کہ اب نوشتہ کا ارادہ ہی ترک کردیا جائے۔ تاکہ رسول(ص) کے منہ آنے والے اور ان کے حوالی موالی آپ کی نبوت میں طعن کا دروازہ نہ کھول دیں ۔ خدا کی پناہ۔

اور رسول(ص) یہ جانتے تھے کہ علی(ع) اور علی(ع) کے دوستدار اس نوشتہ کے مضمون پر بہر حال عمل کریں گے۔ میں چاہے لکھوں چاہے نہ لکھوں اور ان کے علاوہ جو ہیں وہ اگر میں لکھ بھی جاؤں تب بھی نہ مانیں گے نہ اس پر عمل کریں گے لہذا ان حالات میں حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ آپ اس کا خیال ترک کردیں۔ کیونکہ سوالِ کاغذ و دوات پر ایسا جانکاہ جواب پانے کے بعد بھی نوشتہ لکھنے کا کوئی اثر ہی پیدا نہ ہوگا ۔ سوا فتنہ و فساد کے۔

                                                                     ش

۴۸۸

مکتوب نمبر۴۴

واقعہ قرطاس پر عذر و معذرت

شاید آںحضرت(ص) نے جس وقت قلم و دوات لانے کا حکم دیا تھا آپ کوئی چیز لکھنا چاہتے ہی نہ تھے بلکہ آپ محض آزمانا چاہتے تھے اور کچھ مقصود نہ تھا اور صحابہ کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی مگر حضرت عمر سمجھ گئے کہ رسول(ص) در حقیقت ہم لوگوں کو جانچنا چاہتے ہیں لہذا انھوں نے قلم و دوات لانے سے صحابہ کو روک دیا۔ لہذا اس بنا پر حضرت عمر کی ممانعت منجملہ آپ کی توفیقات ربانیہ کے سمجھنا چاہیے اور آپ کی مخصوص کرامات سے شمار کرنا چاہیے۔

بعض علمائے اعلام نے یہی جواب دیا ہے لیکن انصاف یہ ہے کہ رسول(ص)

۴۸۹

 کا فرمانا : لن تضلوا بعدی” میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ” اس جواب کو بننے نہیں دیتا۔ کیونکہ یہ فقرہ حکم پیغمبر(ص) کا دوسرا جواب ہے ۔ مطلب یہ کہ اگر تم کاغذ و دوات لاؤ گے اور میں تمھارے لیے وہ نوشتہ لکھ دوں گا تو اس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو گے  اور یہ امر مخفی نہیں کہ اس قسم کی خبر بیان کرنا محض امتحان و اختیار کے لیے یہ، یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے جس سے کلام انبیاء کا پاک ہونا واجب و لازم ہے ۔ خاص کر اس موقع پر جہاں قلم و دوات کا لانا بہتر تھا یہ نسبت نہ لانے کے۔

علاوہ اسکے یہ جواب اور بھی کئی وجہوں سے محل تامل ہے لہذا یہ جواب تو صحیح نہیں کچھ اور عذر پیش کرنا چاہیے ۔زیادہ سے زیادہ جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول(ص) نے کاغذ و دوات لانے کا جو حکم دیا تو یہ حکم انتہائی ضروری و لازمی  نہ تھا کہ اس کے متعلق مزید وضاحت چاہی نہ جاسکتی ، دوبارہ پوچھا ہی نہ جاسکتا تھا۔ بلکہ یہ حکم مشورہ کاحکم تھا اور ایسا برابر ہوا کہ صحابہ رسول(ص) کے بعض احکام میں دوبارہ پوچھ لیا کرتے تھے۔ مزید استصواب کیا کرتے تھے خصوصا حضرت عمر تو اور زیادہ ، کیونکہ انھیں اپنے متعلق یہ یقین تھا کہ وہ مصالح و بہتری پہچاننے میں  موفق للصواب ہیں۔ میرا ظن و تخمین غلط نہیں ہوتا ۔ خدا کی جانب سے ان پر الہام بھی ہوا کرتا تھا۔ حضرت عمر نے چاہا کہ رسول(ص) کو زحمت نہ اٹھائی پڑے۔ کیونکہ رسول(ص) پہلے ہی بہت سے تعب میں تھے اگر لکھنے کے لیے اٹھتے بیٹھتے تو تعب اور زیادہ بڑھ جاتا۔ اسی لیے آپ نے یہ فقرہ کہا۔ آپ کی رائے یہ تھی کہ دوات کاغذ نہ لانا ہی بہتر ہے۔ حضرت عمر یہ بھی ڈرتے تھے کہ رسول(ص) کہیں ایسی باتیں نہ لکھ ڈالیں جو کرنے سے لوگ عاجز ہیں۔ رسول(ص) کے لکھنے کو پورا نہ کرسکیں

۴۹۰

 اور اس سبب سے مستحق عقوبت ٹھہریں کیونکہ رسول(ص) جو کچھ لکھ جاتے وہ تو بہر حال مںصوص اور قطعی ہوتا۔ اجتہاد کی گنجائش اس میں نہ ہوتی یا شاید حضرت عمر کو منافقین کی جانب سے خوف محسوس ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ منافقین رسول(ص) کے نوشتہ پر معترض ہوں۔ اس کی قدح کریں کیونکہ وہ نوشتہ مرض کی حالت میں لکھا ہوا ہوتا اور اس وجہ سے بڑے فتنہ و فساد کا باعث ہوتا اس لیے حضرت عمر نے کہا کہ : حسبنا کتاب اﷲ۔” ہمارے لیے کتابِ خدا کافی ہے۔” کیونکہ خود خداوند عالم نے فرمایا ہے :

ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ مِنْ شَيْ‏ءٍ ”

“ ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہ چھوڑی جو بیان نہ کردی ہو۔”

نیز یہ بھی ارشاد ہوا :

ِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُم

“ آج کے دن ہم نے دین کو تمھارے لیے مکمل کیا۔”

غالبا حضرت عمر کو اپنے طور پر اطمینان تھا کہ امت تو گمراہ ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ خداوند عالم دین کو کامل اور امت پر اپنی نعمت کا اتمام کرچکا ہے لہذا جب امت کی گمراہی کا خوف ہی نہ تھا ۔ تو اب نوشتہ لکھنے کی ضرورت ہی کیا تھا۔

یہ ان لوگوں کے جوابات ہیں اور یہ جس قدر رکیک ہیں وہ آپ سے پوشیدہ نہیں کیونکہ رسول(ص) کا یہ فقرہ “ لا تضلوا بعدی” تاکہ تم گمراہ نہ ہو بتاتا ہے کہ آپ کا حکم ، حکم قطعی ، حکمِ لازمی تھا۔ کیونکہ ایسے امر میں جو ضلالت سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہو قدرت رکھتے ہوئے ہر ممکن جد وجہد کرنا بیشک و شبہ واجب و لازم ہے ۔ نیز آںحضرت (ص) پر اس فقرہ کا ناگوار گزرنا اور حضرت

۴۹۱

عمر وغیرہ کے اس جملہ کا برا ماننا اور ان لوگوں کے تعمیل حکم نہ کرنے پر آپ(ص) کا ارشاد فرمانا کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ یہ بھی دلیل ہے کہ آپ نے دوات و کاغذ لانے کا جو حکم دیا وہ حکم واجب ولازم تھا۔ بغرض مشورہ آپ نے نہیں فرمایا تھا۔

اگر کوئی کہے کہ  نوشتہ لکھنا اگر ایسا ہی واجب و لازم تھا تو محض چند لوگوں کی مخالفت سے آپ نے نوشتہ لکھنے کا ارادہ ترک کیوں کر دیا جس طرح کافرین آپ کی تبلیغ اسلام کے مخالف تھے مگر پھر بھی آپ تبلیغ سے باز نہ رہے اسی طرح اگر کچھ لوگ کاغذ و دوات لانے کے مخالف تھے تو آپ نے ان کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نوشتہ لکھ کر کیوں نہیں دیا، تو میں کہوں گا کہ آپ کا یہ کہنا ٹھیک بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوشتہ کا لکھنا رسول(ص) پر واجب نہیں تھا لیکن رسول(ص) پر لکھنا واجب نہ ہونے سے کب ضروری ہے کہ ان لوگوں پر رسول(ص) کا حکم ماننا اور کاغذ و دوات کا لانا بھی واجب نہ تھا ۔ ہوسکتا ہے کہ نوشتہ کا لکھنا رسول(ص) پر واجب نہ رہا ہو مگر ان لوگوں پر دوات و کاغذ کا لانا واجب و لازم ہو جبکہ رسول(ص) نے لانے کا حکم دیا تھا اور اس کا فائدہ بھی بتایا تھا کہ گمراہی سے ہمیشہ کے لیے بے خوف ہوجاؤ گے اور ہمیشہ راہ ہدایت پر باقی رہو گے کیونکہ فی الواقع امر کا وجوب مامور سے متعلق ہوتا ہے نہ کہ آمر سے خصوصا جبکہ امر کا فائدہ مامور کو پہنچتا ہو لہذا بحث یہاں یہ ہے کہ ان لوگوں پر امر کا بجالانا واجب تھا یا نہیں ۔ رسول(ص) نے ان لوگوں کو کاغذ و دوات کا جو حکم دیا تھا تو کاغذ و دوات کا لانا ان لوگوں پر لازم تھا یا نہیں۔ محل بحث یہ نہیں کہ رسول(ص) پر لکھنا واجب تھا یا نہیں؟

۴۹۲

علاوہ برین یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لکھنا رسول(ص) پر بھی واجب تھا لیکن لوگوں کی مخالفت اور رسول(ص) کا کہا نہ ماننے اور یہ کہنے سے کہ رسول(ص) ہذیان بک رہے ہیں۔ رسول(ص) سے وجوب ساقط ہوگیا ہو۔ کیونکہ رسول(ص) اب سمجھتے بھی تو سوا فتنہ و فساد کے لکھنے کا اور کوئی فائدہ نہ ہوتا ۔ لہذا جو چیز باعث فساد ہو جس سے فتنہ برپا ہوجانے کا ڈر ہو اس کا کرنا رسول(ص) پر واجب کیسے ہوگا؟

بعض حضرات نے یہ عذر بھی بیان کیا ہے کہ حضرت عمر حدیث کا ملطب نہ سمجھے۔ ان کی سمجھ میں  یہ بات نہ آئی کہ وہ نوشتہ امت کے ہر فرد کے لیے گمراہی سے بچنے کا ایسا ذریعہ کیونکر ہوگا کہ قطعی طور پر کوئی گمراہ ہی نہ ہوسکے بلکہ حضرت عمر ، رسول(ص) کے اس جملہ سے کہ لا تضلوا ۔” تم گمراہ نہ ہوگے” یہ مطلب سمجھے کہ تم سب کے سب کل کے کل گمراہی پر مجتمع نہ ہوگے اور نوشتہ لکھنے کے بعد کسی ایک فرد میں بھی گمراہی سرایت نہ کرے گی اور حضرت عمر یہ پہلے ہی جانتے تھے کہ امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی اسی وجہ سے آپ نے نوشتہ کو بیکار سمجھے اور یہ خیال کیا کہ رسول(ص) کا نوشتہ لکھنے سے مقصود صرف مزید احتیاط ہے اور کچھ نہیں کیونکہ آپ مجسم رحمت واقع ہوئے ہیں اس لیے آپ کا رحم و کرم چاہتا ہے کہ جہاں تک ہوسکے ان کے گمراہی سے محفوظ رہنے کے لیے احتیاطی تدابیر کردی جائیں۔ یہی سمجھ کر حضرت عمر نے آپ کو وہ جواب دیا۔ یہ طے کر کے کہ یہ رسول(ص) کا حکم واجبی حکم نہیں بلکہ رحم وکرم کی وجہ سے ایسا فرمارہے ہیں۔ حضرت عمر کی اس تیزی اور جلد بازی کی معذرت میں یہی باتیں بیان کی گئی ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ اگر ںظر غائر سے دیکھا جائے تو یہ سب کے سب رکیک و مہمل ہیں کیونکہ رسول(ص) کا یہ فقرہ لا تضلوا بعدی۔” تاکہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہو ، خود بتاتا ہے کہ امر ایجابی تھا نہ کہ کچھ اور۔

۴۹۳

اور رسول(ص) کا ان لوگوں پر غضب ناک ہونا ان سے رنجیدہ ہونا، یہ دلیل ہے کہ صحابہ نے ایک امر واجب کو ترک کیا لہذا سب سے بہتر یہ جواب ہے کہ یہ واقعہ در حقیقت ان صحابہ کی سیرت کے نا مناسب تھا اور ان کی شان سے بعید تھا۔ یہ ایک لغزش تھی جو ہوگئی اور ناگہانی بات تھی جو پیش آئی ۔

                                                                             س

جواب مکتوب

عذر و معذرت صحیح نہیں

آپ کے جیسے اہل علم کے لیے یہی زیبا ہے کہ حق بات کہیں اور درست بات زبان سے نکالیں۔

واقعہ قرطاس کے متعلق آپ کے علمء اعلام کی تاویلات و اعذار جن کی آپ نے اپنے  مکتوب میں تردید کی ہے تو ان تاویلات و اعذار کی تردید میں اور بہت سے گوشے باقی رہ گئے ہی۔ جی چاہتا ہے کہ انھیں بھی عرض کر دوں تاکہ اس مسئلے میں خود آپ ہی فیصلہ فرمائیں۔

پہلا جواب یہ دیا گیا ہے کہ رسول(ص) نے جس وقت قلم و دوات لانے کا حکم دیا تھا تو شاید کچھ لکھنے کا آپ کا ارادہ نہ تھا ۔ بلکہ محض آزمانا مقصود تھا آپ کو۔ اور کچھ نہیں۔

آپ نے اس جواب کی رد میں جو کچھ فرمایا ہے اس کے علاوہ میں کہتا ہوں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آںحضرت(ص) کا دمِ واپسین تھا۔ حالتِ احتضار طاری تھی جیسا کہ حدیث سے صراحت ہوئی ہے۔ لہذا وہ وقت

۴۹۴

 اختبار و امتحان کا نہ تھا بلکہ اعذار و انذار کا تھا۔ ہر امر ضروری کے لیے وصیت کرجانے کا وقت تھا اور امت کے ساتھ پوری بھلائی کرنے کا موقع تھا۔ جو شخص دم توڑ رہا ہو بھلا دل لگی اور مذاق سے اسے کیا واسطہ ،اسے تو خود اپنی پڑی ہوتی ہے، اہم امور پر اسکی توجہ رہتی ہے۔ اپنے تعلق والوں کی مہمات میں اس کا دھیاں ہوتا ہے۔ خصوصا جب وہ دم توڑنے والا بنی ہو نیز جب اس نے بحالت صحت اپنے پورے عرصہ حیات میں اختبار نہ لیا  تو وقت اختضار کیا اختبار و امتحان لیتا۔

علاوہ اس کے شور غل کرنے چیخ وپکار مچانے پر ان لوگوںسے رسول(ص) کا کہنا کہ : “ قوموا عنی” میرے پاس سے اٹھ جاؤ” صاف صاف بتاتا ہے کہ رسول(ص) کو ان لوگوں سے صدمہ پہنچا ۔ آپ رنجیدہ ہوئے ۔ اگر نوشتہ لکھنے سے روکنے  والے ہی جادہ ثواب پر ہوتے تو ان کے روکنے کو رسول(ص) پسند فرماتے، مسرت کا اظہار فرماتے۔

اگر آپ حدیث کے گردو پیش پر نظر ڈالیے ، خصوصا ان لوگوں کے فقرے پر غور فرمائیے کہ ہجر رسول اﷲ ” رسول اﷲ(ص) ہذیان بک رہے ہیں۔” تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت عمر اور ان کے تمام ہوا خواہ جانتے تھے کہ رسول(ص) ایسی بات لکھنا چاہتے ہیں جو ہمیں پسند نہیں ۔ اسی وجہ سے ایسا فقرہ کہہ کر ناگہانی صدمہ پہنچایا گیا رسول(ص) کو اور آپ(ص) کے حضور میں انتہا سے زیادہ شور و غل مچایا گیا۔ اختلافات خوب اچھالے گئے۔ جناب ابن عباس کا اس واقعہ کو یاد کر کے شدت سے گریہ کرنا اور اس واقعہ کو مصیبت شمار کرنا یہ بھی اس جواب کے  باطل ہونے کی بڑی قوی دلیل ہے۔

معذرت کرنے والے کہتے ہیں کہ حضرت عمر مصالح کے پہچاننے میں

۴۹۵

موفق للصواب تھے اور خدا کی جانب سے آپ پر الہام ہوا کرتا تھا۔ یہ معذرت اسی ہے کہ اس پر توجہ ہی نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ کہنے سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں راستی و درستی حضرت عمر کی طرف تھی نہ کہ رسول(ص) کی طرف ۔ نیز یہ کہ حضرت عمر کا اس دن کا الہام اس دن کی وحی جو رسول(ص) پر امین وحی لے کر نازل ہوئے زیادہ سچ تھا۔ بعض علماء نے حضرت عمر کی طرف سے یہ معذرت کی ہے کہ حضرت عمر رسول(ص) کی تکلیف کم کرنا چاہتے تھے ۔بیماری  کی حالت میں رسول(ص) لکھنے کی زحمت کرتے تو آپ کا تعب اور بڑھ جاتا۔ اسی تعب کے بڑھنے کے خوف سے حضرت عمر نے ایسا فقرہ کہا۔

مگر آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نوشتہ لکھنے میں رسول(ص) کے دل کو زیادہ راحت ہوتی۔ آپ کا دل زیادہ ٹھنڈا ، آنکھیں زیادہ خنک اور امت کی گمراہی سے آپ زیادہ بے  خوف ہوجاتے۔ رسول(ص) کی فرمائش قلم و دوات کے متعلق تھی کسی کو حضرت کی تجویز کے خلاف قدم اٹھانا صحیح نہ تھا۔

وَ ما كانَ لِمُؤْمِنٍ وَ لا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ

“ جب خدا و رسول(ص) کسی بات کا فیصلہ کرلیں تو پھر مومن مرد یا مومن عورت کو اس بات کے پسند ناپسند کی گنجائش نہیں۔”

علاوہ اس کے حضرت عمر اور ان کے ہواخواہوں کا مخالفت کرنا ، اس اہم ترین مقصد میں رکاوٹ ڈالنا اور رسول(ص) کی نظروں کے سامنے شور و غل مچانا ، جھگڑا فساد کرنا یہ زیادہ شاق تھا، زیادہ گران تھا رسول(ص) پر بہ نسبت

۴۹۶

 ایسا نوشتہ لکھنے کے جس سے امت ہمیشہ کےلیے گمراہی سے محفوظ ہو جاتی۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضرت عمر سے رسول(ص) کی اتنی زحمت تو دیکھی نہ گئی کہ آپ بیماری کی حالت میں نوشتہ تحریر فرمائیں مگر ایسا کرنے میں انھیں کوئی تامل نہ ہوا کہ رسول(ص) قلم و دوات مانگیں اور وہ تکرار لگیں۔ ہذیان بک رہے ہیں۔” کہہ کر ناگہانی صدمہ پہنچائیں۔ لکھنے میں اگر زحمت بھی ہوتی رسول(ص) کو تو کیا اس دلی صدمہ سے بڑھ کر ہوتی؟

لوگوں نے حضرت عمر کی طرف سے معذرت کا ، بڑی نادر بات کہ گئی۔ غور تو فرمائیے کہ جب رسول(ص) کو خود حکم دیں کہ قلم و دوات لاؤ، تو قلم ودوات کا نہ لانا بہتر ہوگا۔ کیونکر ہوگا ۔ کیا حضرت عمر یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ رسول(ص) ایسی چیز کا حکم دیا کرتے ہیں جس چیز کا ترک کرنا ہی زیادہ مناسب ہے۔

اس سے بڑھ کر حیرت خیز ان لوگوں کا یہ قول ہے کہ حضرت عمر ڈرے کہ رسول(ص) کہیں اسی باتیں نہ لکھ جائیں جس کے کرنے سے لوگ عاجز رہیں اور نہ کرنے پر سزا وار عقوبت ٹھہریں۔

غور فرمائیے کہ رسول(ص) کے یہ کہنے کے بعد “ تاکہ تم گمراہ نہ ہو۔” حضرت عمر کا ڈرنا کہاں تک بجا تھا ۔ کیا حضرت عمر رسول(ص) سے زیادہ انجام سے باخبر رسول(ص) سے زیاہ محتاط اور امت پر بہ نسبت رسول(ص) کے زیادہ مہربان تھے؟ کوئی بھی اس کا اقرار نہ کرے گا، کون بھلا یہ ماننے پر تیار ہوسکے گا؟

یہ بھی لوگوں نے حضرت عمر کی طرف سے معذرت پیش کی ہے کہ حضرت عمر کو منافقین کی طرف سے اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں حالت مرض میں نوشتہ تحریر ہونے کی وجہ سے اس نوشتہ کی صحت میں قدح نہ کریں مگر

۴۹۷

 آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بھی غلط ہے۔ رسول(ص) کے لا ضلوا کہنے کے بعد اس اندیشہ کی کوئی وجہ ہی نہ تھی کیونکہ رسول(ص) جب خود وضاحت فرمادیں کہ میرا نوشتہ گمراہی سے محفوظ رہنے کا سبب ہوگا پھر منافقین کی قدح کی وجہ سے وہ نوشتہ باعث فتنہ و فساد کیونکر ہوجائے گا۔

اگر حضرت عمر منافقین ہی سے ڈرتے تھے ۔ ان کو یہی اندیشہ تھا کہ منافقین نوشتہ کی صحت میں قدح نہ کریں تو خود منافقین کے لیے انھوں نے قدح کا تخم کیوں بویا؟ رسول(ص) کی بات کا جواب دے کر، لکھنے سے روک کر،“ ہذیان بک رہے ہیں” کہہ کر منافقین کے لیے راہ کیوں پیدا کر دی؟

حضرت عمر کے ہواخواہ ان کے فقرہ“ حسبنا کتاب اﷲ” کی تفسیر میں یہ جو کہتے ہیں کہ خود خداوند کریم نے ارشاد فرمایا ہے:

“ ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہ اٹھا رکھی ”

نیز ارشاد الہی :

“ آج کے دن ہم نے دین کو تمھارے لیے کامل کیا۔”

تویہ درست نہیں اور نہ خداوند عالم کے ارشاد سے حضرت عمر کے فقرہ کی تائید ہوتی ہے کیونکہ آیت سے یہ تو نہیں نکلتا کہ امت گمراہی سے ہمیشہ کے محفوظ بھی ہوگئی ہے نہ یہ آیتیں ہدایت خلق کی ضامن ہیں۔ پھر ان دونوں آیتوں پر بھروسہ کر کے نوشتہ رسول(ص) سے بے پرواہی کیونکر جائز ہوگی؟ اگر قرآن کا وجود ہی گمراہی سے محفوظ رہنے کا موجب ہوتا تو یہ گمراہی کیوں ہوتی ؟ اتنی پراگندگی کیون ہوتی؟ جس کے دور ہونے کی وجہ سے قریب قریب مایوسی ہوچکی ہے۔

حضرت عمر کی طرف سے آخری جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ حضرت عمر

۴۹۸

 ارشادِ رسول(ص) کا مطلب نہیں سمجھے ، ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ وہ نوشتہ امت کے ہرہر فرد کے لیے گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہوگا بلکہ حضرت عمر، رسول(ص) کے اس جملہ سے کہ لا تضلوا بعدی” تم میرے بعد گمراہ نہ ہوگے۔” یہ سمجھے کہ رسول(ص) کا نوشتہ گمراہی پر مجتمع نہ ہونے کا سبب ہوگا۔ اس نوشتہ کا فائدہ یہ ہوگا کہ امت والے گمراہی پر متفق و متحد نہ ہوں گے اور حضرت عمر یہ پہلے ہی سے جانتے تھے کہ امت والے کبھی گمراہی پر مجتمع ہی نہ ہوں گے چاہے نوشتہ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے۔ اسی وجہ سے آپ نے اس موقع پر ایسا جواب دیا اور نوشتہ لکھنے سے  مانع ہوئے۔ اس کی تردید میں آپ نے جو کچھ کہا وہ تو کہا ہی ہے میں عرض کرتا ہوں کہ حضرت عمر اس قدر ناسمجھ نہ تھے اور نہ یہ حدیث جس کا مطلب سب پر واضح و روشن تھا کہ ان کی سمجھ میں نہ آسکی کیونکہ قولِ رسول(ص) سے  ہر شہری اور دیہاتی کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ اگر رسول(ص) وہ نوشتہ لکھ دیتے تو ہر فرد کے لیے گمراہی سے محفوظ رہنے کی علتِ تامہ ہوتا وہ نوشتہ یہی معنی یہی مفہوم اس حدیث سے ساری دنیا کی سمجھ میں آتے ہیں۔

حضرت عمر بھی یقینی طور پر جانتے تھے کہ رسول(ص) کو امت کی طرف سے گمراہی پر مجتمع ہونے کا خطرہ نہیں کیونکہ حضرت عمر رسول(ص) کا یہ ارشاد سنتے رہتے تھے کہ :

“ میری امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی۔ خطا پر مجتمع نہ ہوگی۔”

ہمیشہ میر امت سے ایک جماعت حق کی حمایتی ہوگی ۔ نیز حضرت عمر نے خداوند عالم کا یہ ارشاد بھی سنا تھا:

“ تم میں سے وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک کام کیے
۴۹۹

 ان سے خداوند عالم نے وعدہ کر رکھا ہے کہ انھیں وہ روئے زمین پر خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان کے قبل کے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا۔”

اسی طرح کی اور بہت سی کلام مجید کی واضح آیتیں اور احادیث پیغمبر(ص) میں سے صریحی حدیثیں حضرت عمر اس بارے میں سن چکے تھے کہ امت کل کی کل کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی لہذا اس کا دھیان بھی نہیں ہوسکتا کہ باوجود یہ سب سننے کے جب رسول(ص) نے قلم و دوات طلب کیے تو حضرت عمر یا دوسرے لوگوں کے ذہن میں خطور ہوا ہوگا کہ رسول(ص) اپنی امت کے گمراہی پر مجتمع ہونے کا خوف رکھتے ہیں۔ جبھی قلم و دوات طلب کر رہے ہیں۔ حضرت عمر کے مناسب حال تو یہ ہے کہ وہ بھی اس حدیث سےوہی سمجھیں جو دینا سمجھ رہی ہے نہ کہ ایسی بات سمجھیں جس کی آیاتِ کلام مجید بھی نفی کریں اور صحیح حدیثیں بھی۔

علاوہ اس کے رسالت ماب(ص) کا اظہار ناگواری کرنا اور میرے پاس سے اٹھ جاؤ فرمانا یہ بھی دلیل ہے کہ جس بات کو ان لوگوں نے ترک کردیا ہے واجب تھی ۔ قلم و دوات جو رسول(ص) نے مانگی تھی وہ لانا ضروری تھی۔ انھیں نہ لاکر انھوں نے ترک واجب کیا۔

اچھا مان لیا میں نے کہ حضرت عمر نے رسول(ص) کی مخالفت جو کی اور آپ کے پاس قلم و دوات لانے جو نہ  دیا وہ غلط فہمی کی وجہ سے تھا۔ رسول(ص) کی بات ان کی سمجھ میں نہ آسکی اس وجہ سے ایسا ہوا۔ ایسی حالت میں رسول(ص) کو کیا چاہیے تھا۔ ایسے وقت میں رسول(ص) کو تو چاہیے تھا کہ آپ ان کے شکوک و شبہات زائل کردیں۔ اچھی طرح اپنا مقصد واضح فرمادیں بلکہ رسول(ص) کے لیے

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639