دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)12%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272279 / ڈاؤنلوڈ: 6389
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

 غش آگیا ۔ اسامہ نے جانے کی تیاری شروع کی۔ جب رسول(ص) کو ہوش آیا تو آپ نے اسامہ اور لشکر کے متعلق دریافت کیا لوگوں نے بتایا کہ وہ جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا اسامہ کا لشکر جلد روانہ کرو۔ خدا لعنت کرے اس پر جو اسامہ کے لشکر کے ساتھ نہ جائے۔ بار بار اسی فقرے کو دہراتے رہے ۔ اسامہ روانہ ہوئے۔ رایت۔ لشکر کے سر پر لہرا رہا تھا اور صحابہ ان کے ارد گرد تھے۔ یہاں تک کہ جب مدینہ سے باہر مقام جرف پر پہنچے تو اسامہ اتر پڑے ان کے ساتھ ابوبکر و عمر اور اکثر مہاجرین بھی تھے اور اںصاار میں سے اسید بن حضیر اور بشیر بن سعد وغیرہ جو معززین اںصار میں سے تھے ۔ اتنے میں ام ایمن کا قاصد اسامہ کے پاس پیغام لے کر پہنچا کہ جلدی آو رسول(ص) کا وقتِ آخر ہے۔ اسامہ فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور مدینہ میں آئے ۔ علم لشکر بھی ساتھ تھا اسے رسول(ص) کے دروازے کے سامنے ںصب کردیا۔ اور ٹھیک اسی وقت رسول(ص) نے دنیا سے انتقال کیا تھا۔”

یہاں تک حدیث کی اصل عبارت تھی۔ اس حدیث کو مورخین کی ایک جماعت نے بھی نقل کیا ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد۲ صفحہ ۲۰ پر بھی اس حدیث کو تحریر فرمایا ہے۔

                                                                     ش

۵۲۱

مکتوب نمبر۴۷

سریہ اسامہ کے متعلق ہم لوگ طولانی گفتگو میں پڑ گئے جیسا کہ واقعہ قرطاس میں اچھا خاصہ طول ہوگیا تھا۔ اچھا اب دیگر موارد کا ذکر فرمائیے۔

                                                             س

جواب مکتوب

پیغمبر(ص) کا حکم مارق ( دین سے نکل جانے والے) کو قتل کر ڈالو

اچھا وہ روایت ملاحظہ فرمائیے ۔جسے علمائے اعلام اور محدثین اسلام

۵۲۲

نے لکھا ہے ۔ امام احمد بن حنبل کے لفظوں میں مسند جلد۳ صفحہ ۱۵ پر ابو سعید خدری کی حدیث درج کی ہے :

“ ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ابوبکر رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور عرض کی یا رسول اﷲ(ص) میرا گزر فلاں وادی سے ہوا میں نے وہاں ایک خوشنما شکل و شمائل اور بہت ہی خضوع و خشوع والے انسان کو نماز پرھتے دیکھا ۔ رسول(ص) نے فرمایا : فورا جاو اور اسے قتل کر ڈالو۔ ابوبکر گئے مگر جب اس شخص کو اسی حال میں پایا یعنی نماز پڑھتے ہوئے تو انھوں نے اچھا نہ معلوم ہوا کہ اسے قتل کریں۔ رسول(ص) کی خدمت میں پلٹ آئے۔ حضرت نے  عمر سے کہا کہ تم جاؤ اسے قتل کر آؤ ۔ حضرت عمر گئے اور ان کو بھی اس کا قتل گوارہ نہ ہوا۔ رسول(ص) کے پاس پلٹ آئے اور آکر عرض کی یارسول اﷲ(ص) ! میں نے اسے بہت خشوع وخضوع سے نماز پڑھتے دیکھا اس لیے مجھے اچھا معلوم نہ ہوا کہ میں اسے قتل کروں۔ اب رسالت ماب(ص) نے حضرت علی(ع) کو حکم دیا کہ تم جاؤ اور جاکر اسے قتل کر ڈالو۔ حضرت علی(ع) گئے مگر اسے پایا نہیں، حضرت علی(ع) رسول(ص) کی خدمت میں پلٹے اور عرض کی یا رسول اﷲ(ص) میں گیا تو وہ چاچکا تھا میں نے اسے نہیں دیکھا۔ رسالت ماب(ص) نے فرمایا : اس شخص اور اس کا اصحاب کی حالت یہ ہوگی کہ وہ قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے یوں نکل جائیں گے جس طرح تیر ہدف کے پار ہو جاتا ہے ۔ ان کا دین میں واپس آنا اسی طرح ناممکن ہوگا جس
۵۲۳

طرح چلا ہوا تیر، سوفار میں پلٹ نہیں سکتا۔ انھیں تہ تیغ کر ڈالو کہ وہ بد ترین خلائق ہیں۔”

ابویعلیٰ نے اپنے مسند میں انس سے روایت کی ( جیسا کہ ابن حجر عسقلانی کی اصابہ میں بسلسلہ تذکرہ ذی الثدیہ مذکور ہے) :

“ انس کہتے ہیں کہ رسول(ص) کے زمانے میں ایک شخص تھا جس کی عبادت و اجتہاد پر ہمیں بے حد تعجب ہوا کرتا تھا ۔ ہم نے ایک مرتبہ رسول(ص) سے اس کا نام لے کر ذکر کیا۔ رسول(ص) نے نہیں پہچانا ۔ ہم نے اس کی صفتیں بیان کیں۔ تب بھی آپ نے پہچان پائے۔ ہم اس کے متعلق گفتگو کرہی رہے تھے کہ ناگاہ وہ شخص آتا دکھائی دیا۔ ہم نے رسول(ص) کی خدمت میں عرض کی یا رسول اﷲ(ص) یہی وہ شخص ہے۔ آںحضرت (ص) نے فرمایا : تم لوگ مجھ سے ایسے شخص کا ذکر کر رہے ہو جس کے چہرے پر شیطان کی رنگت ہے ۔ اتنے میں وہ شخص باکل سامنے آگیا اور آکر کھڑا ہوا مگر سلام نہ کیا۔ رسول اﷲ(ص) نے اس سے فرمایا۔ میں تمھیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم جب مجمع میں تھے تو تم نے یہ بات کہی تھی کہ پوری قوم میں مجھ سے بہتر یا افضل کوئی شخص نہیں۔ اس نے کہا ہاں۔ پھر وہ وہاں سے چل کر نماز پڑھنے لگا۔ رسول(ص) نے فرمایا کون ہے جو جاکر اس کو  قتل کر آئے۔ حضرت ابوبکر نے کہا۔ میں اس خدمت کے لیے حاضر ہوں یا رسول اﷲ(ص) ۔ وہ اس کے پاس پہنچے دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے حضرت ابوبکر نے کہا
۵۲۴

انھوں نے بھی یہی کہا کہ یہ سچ کہتے ہیں یہ آپ کے پڑوسی ہیں پھر رسول(ص) کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا: اے گروہ قریش! قسم بخدا خداوند عالم یقینا تم پر ایک ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جس کے دل کا ایمان میں وہ امتحان لے چکا ہے وہ تمہیں دین پر باندھ کر رکھے گا۔ ابوبکر بولے میں ہوں وہ یا رسول اﷲ(ص) آپ نے فرمایا نہیں۔ حضرت عمر بولے میں، یارسول اﷲ(ص) ! فرمایا : نہیں۔ لیکن وہ ہے جو جوتیاں گانٹھ رہا ہے۔ رسول اﷲ(ص) نے حضرت علی(ع) کو اپنی جوتیاں دی تھیں کہ اسے گانٹھ دو۔”

                                                                     ش

۵۲۵

مکتوب نمبر۴۸

غالبا حضرت ابوبکر اور عمر دونوں یہ سمجھے کہ رسول(ص) اس شخص کو قتل کرنے کا جو امر فرمارہے ہیں وہ امر استحبابی ہے وجوبی نہیں اور اسی وجہ سے وہ دونوں حضرات قتل کرنے سے باز رہے۔ یا انھوں نے یہ خیال کیا کہ اس کا قتل کرنا ہے تو واجب لیکن واجب کفائی ہے اسی وجہ سے ان دونوں نے یہ سوچ کر ہم نہیں قتل کرتے تو دوسرے لوگ تو قتل ہی کر ڈالیں گے اس کو قتل نہ کیا کیونکہ ایسے اور لوگ بھی تھے جو اس فریضہ کا انجام دے سکتے تھے۔

اور حضرت ابوبکر و عمر جب بغیر قتل کیے پلٹ آئے تو ان کو اس بات کا بھی اندیشہ نہ تھا کہ اس کے بھاگ جانے کی وجہ سے حکم پیغمبر(ص) فوت ہو جائے گا کیونکہ ان حضرات نے اس شخص کو حقیقت حال سے مطلع تو نہیں کیا تھا۔

                                                                                     س

۵۲۶

جواب مکتوب

امر حقیقتا وجوب ہی کے لیے ہوتا ہے اور سوائے وجوب کے ذہن میں اور کچھ نہیں آتا لہذا اس کا استحباب پر حمل کرنا جب ہی صحیح ہوسکتا ہے جب کوئی قرینہ بھی موجود ہو اور یہاں کوئی ایسا قرینہ نہیں ہے جس سے پتہ چلتا کہ یہ حکم استحابی ہے ۔ بلکہ یہاں تو ایسے قرائن موجود ہیں جو تاکیدی طور پربتاتے ہیں کہ یہاں معنی حقیقی مراد ہے۔ یعنی وجوب مقصود ہے نہ کہ کچھ اور لذا آپ ان احادیث کو ایک گہری نظر سے ملاحظہ فرمائیں آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہی درست ہے۔ منجملہ اور قرائن کے رسول(ص) کے اس فقرہ پر غور کیجیے:

“ یہ اور اس کے اصحاب قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے گلے سے نیچے نہ اترے گا۔ دین سے یوں نکل جائیں گے جس طرح تیر ہدف سے پار ہوجاتا ہے۔ پھر ان کا دین کی طرف واپس آنا ایسا ہی محال ہے جس طرح چلے ہوئے تیر کا پھر سوفار میں پلٹ آنا۔ لہذا اسے اچھی طرح قتل کر ڈالو یہ بدترین خلائق ہے۔”

نیز رسول اﷲ(ص) کا یہ جملہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ :

“ اگر یہ شخص قتل کردیا جاتا تو میری امت کے کوئی دو آدمی بھی باہم اختلاف نہ کرتے۔”

اس قسم کے جملوں کے بعد بھی کوئی شک باقی رہ جاتا ہے کہ رسول(ص) کا حکم، حکم وجوبی تھا کہ استحابی ۔ایسی عبارت تو وجوب اور تاکید شدید ہی کے لیے

۵۲۷

 استعال کی جاتی ہے۔

اگر آپ مسند احمد میں اس حدیث کو ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ رول(ص) نے یہ حکم خاص کر حضرت ابوبکر کو دیا تھا۔ ان کے قتل نہ کرنے پر پھر مخصوص طور پر حضرت عمر کو حکم دیا۔ لہذا جو حکم مخصوص کر کے دیاجائے تو واجب کفائی کیونکر ہو جائے گا؟

علاوہ اس کے حدیث سے اس امر کی بھی صراحت ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر نے اس شخص کے قتل کو جو ناپسند کیا وہ اسی وجہ سے کہ وہ بہت خضوع و خشوع سے نماز پڑھ رہا تھا۔ فقط یہی وجہ تھی اور کوئی سبب قتل سے باز رہنے کا نہ تھا۔ لہذا نبی(ص) تو بحالت نماز اس کو قتل کرنے کا حکم دینا پسند کریں اور حضرت ابوبکر و عمر کو ناگوار ہو اس کو قتل نہ کرکے تعمیل حکم پیغمبر(ص) کو مقدم نہ سمجھیں۔

پس یہ واقعہ بھی منجملہ ان شواہد کے ہے جن سے ثبوت ملتا ہے کہ یہ حضرات حکم پیغمبر(ص) بجالانے سے اپنی رائے پر عمل کرنا زیادہ بہتر سمجھتے تھے ۔ حکمِ پیغمبر(ص) کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہ تھی۔بس جو کچھ تھا ان کا اجتہاد ، ان کی رائے تھی۔

                                                                     ش

۵۲۸

مکتوب نمبر۴۹

آپ بقیہ موارد بیان فرمائیے ۔ کوئی مورد چھوڑیے نہیں کہ مجھے دوبارہ آپ سے التجا کرنی پڑے ۔ طول ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

                                                             س

جواب مکتوب

مقامات جہاں صحابہ نے حکمِ پیغمبر(ص) پر عمل نہ کیا

بہت بہتر، منجملہ ان مواقع کے جہاں صحابہ نے حکم پیغمبر(ص) کی مخالفت کی تو سنیے : صلح حدیبیہ میں مخالفت کی۔ جنگ حنین میں مخالفت کی ۔ جنگِ

۵۲۹

حنیں میں مال غنیمت جو ہاتھ آیا اس کی تقسیم کے وقت مخالفت کی، جنگِ بدر کے قیدیوں سے جب فدیہ لیا گیا۔ غزوہ تبوک میں جب سامانِ رسد ختم ہوگیا۔ اور فاقہ کی نوبت آئی اور پیغمبر(ص) نے بعض اونٹوں کے نحر کرنے کا حکم دیا اس وقت مخالفت کی۔ جنگِ احد کے دن احد کی گھاٹیوں میں جو حرکتیں سرزد ہوئیں وہ بھی سراسر حکم پیغمبر(ص) کی مخالفت تھی۔

ابوہریرہ والے دن جب آںحضرت(ص) نے خوشخبری دی تھی ہراس شخص کو جو خدا سے موحد بن کر ملاقات کرے ، منافق کی میت پر نماز پڑھنے کے روز۔

خمس و زکوة کی دونوں آیتوں میں۔ تہرے طلاق کی آیت میں تاویل کر کے مخالفت حکم پیغمبر(ص) کی گئی۔ نوافل شہر رمضان کےمتعلق جو احادیث پیغمبر (ص) وارد ہیں ان میں کیفیتا و کمیتا تاویل کر کے مخالفت حکم پیغمبر(ص) ک گئی۔ کیفیت اذان جو پیغمبر(ص) سے منقول ہے اس میں تغیر کر کے حکم پیغمبر(ص) کی مخالفت کی گئی۔

نماز جنازہ میں پیغمبر(ص) نے جتنی تکبیریں کا حکم دیا تھا ان کی  تعداد میں کمی بیشی کر کے حکم پیغمبر(ص) کی مخالفت کی گئی۔

غرض کہاں تک ذکر کیا جائے بکثرت موارد ہیں جہاں حکم پیغمبر(ص) کی صریحی مخالفت کی گئی۔ جیسے حاطب بن بلتعہ والے معاملہ معارضہ کرنا۔ مقام ابرہیم(ع) میں رسول(ص) سے جو باتیں ظہور پذیر ہوئیں ان پر لب کشائی اور جیسے مسلمانوں کے گھر کو مسجد میں ملا لینا۔

ابوخراش بزلی کے دنبہ کے بارے میں یمینوں کے خلاف فیصلہ کرنا اور جیسے نصر بن حجاج سلمیٰ کو جلاوطن کرنا۔ جعدہ بن سلیم پر حد

۵۳۰

 جاری کرنا۔(۱) چرا گاہوں پر لگان کو لگانا۔

کیفیت ترتیب جزیہ، شوری کے ذریعہ خلافت کے مسئلہ کے طے کرنا مخصوص طریقے سے رات کو گھومنا، لوگوں کے بھید لینا، ان کی جاسوسی کرنا ، میراث میں عول و تعصیب ، اس کے علاوہ اور بے شمار موارد ہیں جہاں صحابہ نے حکم پیغمبر(ص) کو ٹھکرا دیا۔ زبرستی سے کام لیا، مصالح عامہ کو پیش نظر رکھا۔

ہم نے اپنی کتاب سبیل المومنین میں ایک مستقل باب اس کی نذر کیا ہے۔

اس کے علاوہ اور بھی کچھ ایسے نصوص ہیں( نصوص خلافت و امامت کے علاوہ ) جو خاص کر امیرالمومنین(ع) اور اہل بہت طاہرین(ص) کے متعلق وارد ہوئے اور ان ںصوص پر صحابہ نے عمل نہیں کیا بلکہ ان کی مخالفت کی ۔ ضد پر عمل کیا جیسا کہ تلاش و تجسس سے پتہ چلتا ہے۔

ظاہر ہے کہ جب صحابہ نے ان ںصوص پر عمل نہیں کیا جو خلافت کے متعلق تھے بلکہ ان نصوص کی من مانی تاویلین کیں تو ان ںصوص میں انھوں نے تاویلیں کیں اپنی رائے اجتہاد پر عمل کرنا اطاعت پیغمبر(ص) کرنے اور حکم پیغمبر(ص) ماننے سے بہتر سمجھا اسی طرح ان نصوص میں بھی اپنی رائے کو ترجیح دی۔

                                                             ش

--------------

۱ـ ملاحظہ فرمائیے طبقات ابن سعد میں حالات حضرت عمر جس سے آپ کا معلوم ہوگا۔ کہ حضرت عمر نے جعدہ پر جب کسی نے اس کے جرم کی گواہی بھی نہ دی اور سوائے ورقہ کے کوئی اس کے جرم کا مدعی ہی تھا حد جاری فرمادی تھی اس پر کسی نے اشعار بھی کہے جو ابن سعد نے لکھے ہیں۔

۵۳۱

مکتوب نمبر ۵۰

صحابہ کا مصلحت کو مقدم سمجھنا

کوئی با فہم و بصیرت اس میں شک نہیں کرسکتا کہ صحابہ نے ان تمام موارد میں صریحی احکام پیغمبر(ص) کی جو خلافت کی اور اپنی رائے واجتہاد کو بہتر سمجھا تو اس میں ان کی نیت خراب نہ تھی بلکہ مصلحت عامہ کے خیال سے انھوں نے ایسا کیا۔ کیونکہ ان تمام موارد میں ان کا مقصود یہ رہا کہ امت کی جس میں بھلائی زیادہ ہو اور ملت اسلام کے لیے جو زیادہ بہتر ہو، شوکتِ اسلام جس سے زیادہ بڑھے وہ کرنا چاہیے۔ لہذا انھوں نے جو کچھ کیا اس میں ان پر کوئی جرم عائد نہیں ہوتا۔ خواہ وہ احکام پیغمبر(ص) نہ بجالائے ہوں۔ یا ان میں تاویل کے مرتکب ہوئے ہوں۔ بہر حال ان سے کوئی مواخذہ کیا جاسکتا۔

۵۳۲

باقی موارد کی تصریح پر اصرار

ہم نے آپ کو زحمت دی تھی کہ ان تمام موارد کا ذکر فرمائیے جہاں صحابہ نے پیغمبر(ص) کی مخالفت کی اپنی خود رائی سے کام لیا۔ آپ نے جواب میں بہت کچھ موارد ذکر فرمائے ۔ اسی سلسلہ میں فرماتے ہیں حضرت علی(ع) اوراہلبیت طاہرین(ع) کے متعلق نصوص خلافت کے علاوہ کچھ اور بھی اسی طرح پیغمبر(ص) نے فرمائے اور جس طرح صحابہ نے ںصوص خلافت کو ٹھکرادیا اسی طرح ان نصوص کو بھی نہ مانا۔ کاش آپ ان ںصوص کا بھی تفصیلا ذکر فرماتے۔

س

جواب مکتوب

موضوع بحث سے باہر ہوجانا

آپ نے تسلیم کیا مذکوزہ بالا موارد میں صحابہ نے پیغمبر(ص) کے نصوص کی مخالفت کی۔ ہمارے کل بیانات کی آپ نےتصدیق کی  فالحمد ﷲ۔ رہ گیا آپ کا یہ کہنا کہ ایسا کرنے میں ان کی نیت اچھی تھی اور انھوں نے مصلحت عامہ کو مقدم سمجھا ۔ وہ ہمیشہ امت کی بھلائی اور ملت کی بہتری اور شوکت اسلام کی ترقی کے خواہشمند رہے۔ یہ تو سب محل بحث سے خارج ہے اس سے آپ بھی انکار نہیں کرسکتے۔

آپ نے دریافت کیا تھا کہ صحابہ نے کبِ حکم پیغمبر(ص) نہ مانا اور اپنے اجتہاد و رائے پر چلنا بہتر سمجھا۔ ہم نے وہ مقامات ذکر کردیے اور آپ نے مان بھی لیا

۵۳۳

 اب رہ گیا یہ  کہ انھوں نے کن وجوہ سے حکم پیغمبر(ص) نہ مانا۔ حکم پیغمبر(ص) نہ ماننے میں ان کی نیت اچھی تھی کہ بری اس کا کوئی سوال نہیں۔

مکتوب گرامی کی آخری سطروں میں خواہش کی ہے کہ میں ان نصوص کا تفصیلی ذکر کروں جو خصوصیت سے امیرالمومنین(ص) کے متعلق وارد ہوئے ہیں اور جو ان ںصوص کے علاوہ ہیں جو خلافت سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ اس زمانہ میں امام سنن ہیں۔ تمام سنن واحادیث کے جامع ہیں۔ احادیث وسنن کی تلاش و تحقیق میں آپ نے بڑی محنتیں کی ہیں لہذا کسی کو یہ وہم وگمان بھی نہیں اور نہ کسی کو یہ غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ وہ میرے اشارے کو آپ سے زیادہ سمجھتا ہے۔

تسنن میں آپ کا مد مقابل کوئی ہوسکتا ہے؟ آپ کا کوئی جواب بن سکتا ہے؟ ہرگز نہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی نے سچ کہا ہے:

“ وکم سائل عن امره وهو عالم”

" بہت سے لوگ جانتے پہنچانتے ہوئے کسی شے کے متعلق دریافت کرتے ہیں”

آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ بہتر سے صحابہ حضرت علی(ع) سے بغض رکھتی تھے آپ کے دشمن تھے۔ انھوں نے حضرت علی(ع) سے جدائی اختیار کی آپ کو ذیتیں دیں، سب و شتم کیا۔ آپ پر ظلم کیا، آپ کے حریف بنے۔ آپ سے جنگ کی ۔ خود آپ پر اور آپ کے اہل بیت(ع) پر تلوار چلائی ، جیسا کہ اس زمانے کے بزرگوں کے حالات دیکھنے سے بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے۔

حالانکہ رسول اﷲ نے فرمایا تھا:

“ جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی اور جس نے علی(ع) کی اطاعت
۵۳۴

کی یقینا اس نے میری اطاعت کی اور جس نے علی(ع) کی نافرمانی کی بے شک اس نے میری نافرمانی کی۔”

نیز آںحضرت(ص) نے فرمایا :

“ جس نے مجھ سے جدائی اختیار کی اس نے  خدا سے جدائی اختیار کی اور اے علی(ع) تم دنیا میں سردار ہو اور آخرت میں سردار ہو تم سے محبت رکھنے والا مجھ محبت رکھنے والا ہے اور مجھ سے محبت رکھنے والا خدا سے محبت رکھنے والا ہے۔ اور تمھارا دشمن میرا دشمن اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے اور ہلاکت اس کے لیے جو میرے بعد تم سے بغض رکھے۔”

یہ بھی آپ نے فرمایا:

“ جس نے علی(ع) کو دشنام دی اس نے مجھے دشنام دی اور جس مجھے دشنام دی اس نے خدا کو دشنام دی۔”
یہ بھی آپ نے فرمایا :
“ جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی ۔”
یہ بھی آپ نے فرمایا:
“ جس نے علی(ع) کو دوست رکھا اس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے علی(ع) سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔”
یہ بھی آپ نے فرمایا کہ :
“ اے علی(ع) تم سے وہی محبت کرے گا جو مومن ہوگا اور تمہین وہی دشمن رکھے گا جو منافق ہوگا۔”
۵۳۵

یہ بھی آپ نے فرمایا :
“ خدا یا تو دوست رکھ اسکو جو علی(ع) کو دوست رکھے ، دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے، مدد کر اس کی جو علی(ع) کی مدد کرے اور ذلیل و خوار کر اس کو جو علی(ع) کی مدد ترک کرے۔”
ایک بار آںحضرت (ص) نے حضرت علی(ع) جناب سیدہ(س) اور حسن(ع) و حسین(ع) کو دیکھ کر فرمایا :
“ میں جنگ کرنے والا ہوں اس سے جو تم لوگوں سے جنگ کرے اور مجسم صلح ہوں اس کے لیے جو تم سے صلح کرے۔”
اور جب آپ نے ان حضرات کو چادر میں لیا تھا تو فرمایا:
“ میں برسر پیکار ہوں اس سے جو ان سے برسرپیکار ہو اور مجسم صلح ہوں اس کے لیے جو ان سے صلح کرے اور دشمن ہوں اس کا جو ان سے دشمنی رکھے۔”
اسی طرح کی باے شمار احادیث و سنن ہیں جن میں سے کسی ایک کو بھی بہیترے صحابہ نے نہیں مانا۔ کسی ایک پر بھی عمل نہ کیا، بلکہ اپنے ہوا و ہوس کو مقدم سمجھتے ہوئے اور ذاتی اغراض کو ترجیح دیتے ہوئے ان تمام احادیث و سنن کے خلاف و ضد پر عمل کیا۔
ارباب بصیرت جانتے ہیں کہ تمام سنن و احادیث جو حضرت علی(ع) کی فضیلت و بزرگی میں وارد ہوئی ہیں وہ مثل انھیں صریحی نصوص کے ہیں جو آپ کی موالات کے واجب اور آپ کی مخالفت کے حرام ہونے کے متعلق وارد ہوئیں۔ دونوں قسم کی حدیثوں کا ایک ہی مطلب ہے۔کیونکہ دونوں قسم کی حدیثیں صرف ایک بات پر دلالت کرتی ہیں اور وہ یہ کہ خدا و رسول(ص) کے
۵۳۶

 نزدیک آپ کی قدر ومنزلت بہت ہی جلیل ، آپ کی شان بہت ہی عظیم اور درجہ بہت بلند ہے۔

ہم نے اان احادیث و سنن میں سے بہت کچھ ابتدائی خطوط میں ذکر کیے اور جنہیں ذکر کیے وہ بے حد وحساب ہیں۔ ان لوگوں میں سے جن کی نگاہ سنن و احادیث میں بہت وسیع ہے اور ان کی معانی و مطالب بھی پوری طرح جانتے ہیں آپ ہی انصاف سے فرمائیں کہ ان احادیث و سنن میں کوئی ایسی حدیث بھی ملی جو امیرالمومنین(ع) کی مخالفت و عداوت اور آپ نے جنگ کرنے کی اجازت دیتی ہو۔ آپ کی ایذا رسانی، آپ سے بغض و عداوت جائز قرار دیتی ہو۔ آپ کی بیخ کنی، مظالم کے پہاڑ ڈھانے ،بسر منبر آپ کو برا بھلا کہنے کو مناسب بتاتی ہو اور مناسب ہی نہیں بلکہ جمعہ اور عید کے دونوں خطبوں کے لیے سنت قرار دیتی ہوں ہرگز نہیں اور قطعا نہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ان باتوں کے مرتکب ہوئے انھوں نے ان احادیث کے باوجود ان کے بکثرت اور بتواتر ہونے کے ذرہ برابر پرواہ نہیں کی۔ ان احادیث میں سے کوئی حدیث بھی سیاسی اغراض پوری کرنے میں ان کے لیے مانع نہ ہوسکی۔

وہ لوگ جانتے تھے کہ حضرت علی(ع) رسول(ص) کے بھائی ہیں، آپ کے ولی ہیں، وارث ہیں، ہمراز ہیں، آپ کی عترت کے سرگروہ ہیں آپ کی امت کے ہارون میں۔ آپ کی پارہ جگر کے کفو ہیں۔ آپ کی ذریت کے باپ ہیں اور ان تمام لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں۔ سب سے زیادہ خالص الایمان، سب سے زیادہ علم رکھنے والے۔ سب سے زیادہ عمل کرنے والے سب سے بڑھ کر بردباد، سب سے زیادہ یقین میں پختہ ، سب

۵۳۷

سے بڑھ کر اسلام کی خاطر مشقت جھیلنے والے، بلاؤں میں سب سے زیادہ عمدگی سے ثابت قدم رہنے والے، سب سے زیادہ فضائل و مناقب کے مالک اسلام کے سب سے زیادہ حامی، اور ان سب سے زیادہ رسول(ص) سے قرا بت رکھنے والے ہیں۔ رفتا، گفتار، اخلاق و عادات تمام باتوں میں سب سے زیادہ رسول(ص) سے مشانہ ہیں۔ قول و فعل اور خاموشی میں سب سے زیادہ بہتر و افضل ہیں۔

لیکن ذاتی اغراض ہی ان لوگوں کے لیے سب کچھ تھے۔ ہر دلیل پر مقدم تھے۔ لہذا اس کے بعد اگر وہ حدیث غدیر کو نہ مانیں اور ٹھکرا دیں اور اپنی رائے کو مقدم سمجھیں تو کون سا تعجب ہے۔ حدیث غدیر تو ان بے شمار احادیث میں سے فقط ایک حدیث ہے جسے ان لوگوں نے قابل تاویل سمجھا ، واجب العمل نہ جانا اور اپنی رائے و اجتہاد کو ترجیح دی ۔ اپنے مصالح کو مقدم جانا۔ حالانکہ رسول(ص) کہہ چکے تھے کہ :

“ میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اس سے متسمک رہوگے توکبھی گمراہ نہ ہوگے ۔ ایک تو کتاب خدا ہے دوسرے میری عترت و اہلبیت(ع)۔”
پیغمبر(ص) نے یہ بھی فرمایا تھاکہ:
“ میرے اہلبیت(ع) کی مثال تمھارے درمیان ایسی ہے جیسی کشتی نوح(ع)، جو کشتی نوح(ع)، پر سوار ہوا وہ تو بچا اور جو نہ سوار ہو جس نے گریز کیا وہ ہلاک و تباہ ہوا۔”
“ تمھارے درمیان میرے اہلبیت(ع) کی مثال ایسی ہے جیسی بنی اسرائیل کے لیے باب حطہ ۔ جو اس میں داخل ہوا خدا نے اسے بخش دیا۔”
۵۳۸

نیز یہ بھی فرمایا تھا کہ :

“ ستارے روئے زمین کے باشندوں کے لیے امان ہیں غرقابی سے اور میری عترت و اہلبیت(ع) میری امت کے لیے اختلاف سے باعث امان ہیں۔ پس اگر کوئی قبیلہ قبائل عرب سے میرے اہلبیت(ع) کا مخالف ہوگا تو وہ ابلیس کا گروہ بن جائے گا۔”
اسی جیسی اور بکثرت صحیح حدیثیں ہیں جن کو صحابہ نے مانا مگر ان پر عمل پیرا  نہ ہوئے۔

                                                             ش

۵۳۹

مکتوب نمبر۵۱

حضرت علی(ع) نے بروزِ سقیفہ اپنی خلافت و جانشینی کی احادیث سے احتجاج کیوں نہ فرمایا؟

حق بخوبی واضح ہوگیا۔ خدا کا شکر ہے ۔البتہ ایک بات رہ گئی جس سے ذرا اشتباہ باقی رہتا ہے ، میں اس کا ذکر کرتا ہوں تاکہ آپ اس کی نقاب  کشائی بھی فرمائیں اور اس کا راز ظاہر فرمائیں اور وہ یہ ہے  کہ حضرت علی(ع) نے سقیفہ کے دن حضرت ابوبکر اور ان کی بیعت کرنے والوں کے آگے اپنی خلافت و وصایت کے متعلق کوئی نص بھی پیش نہیں کی۔ آپ بتاسکتے ہیں کہ کیوں؟

                                             س

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

۶ _ خداتعالى كے پروردگار ہونے پر ايمان اور اس كے قبول كرنے كا تقاضا يہ ہے كہ انسان ا س كا بندہ بن جائے اور اسكے احكام و فرامين كو بلا چوں و چرا او رسرتسليم خم كرتے ہوئے انجام دے_يا ا يها الذين ء امنوا و اعبدوا ربكم

۷ _ نيك كاموں كو انجام دينا خداتعالى كى طرف سے مؤمنين كو نصيحت _و افعلوا الخير

۸ _ نماز قائم كرنا، خداتعالى كى بندگى اور عبوديت كرنا اور نيك كام انجام دينا اسلامى معاشرے كے امتيازات_

يا ا يها الذين ء امنوا ...و افعلوا الخير

۹ _ نيك و بد كو پہچاننے پر انسان كا قادر ہونا_و افعلوا الخير

مذكورہ جملے ميں خداتعالى نے مؤمنين كو نيك كام انجام دينے كى نصيحت كى ہے ليكن يہ نہيں بتايا كہ كونسا كام نيك اور كونسا بد ہے اور اصولى طور پر نيكى اور بدى كا معيار كيا ہے؟ ہوسكتا ہے اسكى وجہ يہ ہو كہ انسان خود نيكى اور بدى اور حسن و قبح كو پہچان سكتا ہے_

۱۰ _ نماز قائم كرنا، خداتعالى كى بندگى اور اطاعت كرنا اور نيك كام انجام دينا انسان كى فلاح و كاميابى كا ذريعہ ہے _

اركعوا لعلكم تفلحون

۱۱ _ضرورى ہے كہ مؤمنين ہميشہ خوف و اميد كى حالت ميں رہيں اور اپنے نيك اعمال كى وجہ سے غرور نہ كريں _

يا ا يها الذين ء امنوا اركعوا لعلكم تفلحون

۱۲ _ سماعة كہتے ہيں ميں نے امام (ع) سے پوچھا كيا ركوع و سجود كے بارے ميں قرآن ميں كچھ نازل ہوا ہے؟ تو فرمايا ہاں خداتعالى فرماتا ہے :''يا ا يها الذين ء امنوا اركعوا و اسجدوا'' ميں نے عرض كيا ركوع و سجود كى حد كيا ہے تو فرمايا جتنى مقدار ذكر ركوع ميں تيرے لئے كافى ہے وہ تين دفعہ تسبيحات ہے تو كہے گا سبحان الله سبحان الله تين مرتبہ(۱) _

۱۳ _ امام صادق (ع) نے اوقات ميں اپنے لئے سجدہ فرض كيا ہے اور فرمايا ہے ''يا ايها الذين آمنوا اركعوا و اسجدوا ''(۲)

احكام ۱۲خدا كى اطاعت كے اثرات ۱۰; خدا كى اطاعت كى اہميت ۵; خدا كى اطاعت كا پيش خيمہ ۶

____________________

۱ ) تہذيب ج ۲ ص ۷۷ ح ۵۵_ سريل نمبر ۲۸۷_ تفسير برہان ج ۳ ص ۱۰۴ ح ۱

۲ ) كافى ح ۲ ص ۳۶ ح ۱; نورالثقلين ج ۳ ص ۵۲۰ ح ۲۲۰_

۶۲۱

انسان:اسكى استعداد ۹; اس كا رب ۴

ايمان:خدا كى ربوبيت پر ايمان كے اثرات ۶

اسلامى معاشرے:اس ميں عبوديت ۸; اسكى خصوصيات ۸

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۴

خداتعالى :اسكى نصيحت ۷; اسكے سامنے خضوع كرنا ۳; اسكى دعوتيں ۱; اسكى ربوبيت ۴

كاميابي:اسكے عوامل ۱۰

ركوع:اسكے احكام ۱۲; اسكے اذكار ۱۲

روايت ۱۲، ۱۳

سجدہ:اسكے احكام ۱۲; اسكے اذكار ۱۲; يہ خدا كو ۱۴

عبادت:اہم ترين عبادت ۲

عبوديت:اس كا پيش خيمہ ۶

عمل:نيك عمل كے اثرات ۱۰; نيك عمل انجام دينا ۸; نيك عمل كى تشخيص ۹; ناپسنديدہ عمل كى تشخيص۹; عمل خير پر تكبر كرنا۱۱; عمل خير كى نصيحت ۷

مؤمنين:انكا اميد ركھنا ۱۱; انكا خوف ۱۱; انہيں دعوت دينا۱; انكى ذمہ دارى ۱۱

نماز:اسے قائم كرنے كے اثرات ۱۰; اسكى اہميت ۲; اسكے قائم كرنا ۸; اسكى حقيقت ۳; اسكى دعوت ۱

۶۲۲

آیت ۷۸

( وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيداً عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ )

اور اللہ كے بارے ميں اس طرح جہاد كرو جو جہاد كرنے كا حق ہے كہ اس نے تمہيں منتخب كيا ہے اور دين ميں كوئي زحمت نہيں قرار دى ہے يہى تمہارے بابا ابراہيم كا دين ہے اس نے تمہارا نام پہلے بھى اور اس قرآن ميں بھى مسلم اور اطاعت گذار ركھا ہے تا كہ رسول تمہارے اوپر گواہ رہے اور تم لوگوں كے اعمال كے گواہ رہو لہذا اب تمام نماز قائم كر وزكوة ادا كرو اور اللہ سے باقاعدہ طور پر وابستہ ہو جاؤ كہ وہى تمارا مولا ہے اور وہى بہترين مولا اور بہترين مددگار ہے (۷۸)

۱ _ راہ خدا ميں مخلصانہ اور ہر طرح (جان و مال كے ساتھ) كا جہاد، خداتعالى كى اہل ايمان كو نصيحت_

و جهدوا فى الله حق جهاده

''جاہدوا'' كو ''حق جہادہ'' كى قيد لگانا كہ معنى ميں ظہور ركھتا ہے كہ مؤمنين كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اپنى پورى طاقت راہ خدا ميں خرچ كريں اور اپنا سب كچھ (جان و مال) اس راہ ميں نثار كرديں _

۲ _ جہاد كى قدر و قيمت اسكے راہ خدا ميں ہونے سے ہے_و جهدوا فى الله

۳ _ امت مسلمہ ايك برگزيدہ امت ہے_هو اجتبكم ''اجتباء'' كا معنى ہے انتخاب كرنا_

۶۲۳

۴ _ اسلام ايك خدا داد نعمت اور مؤمنين پر خدا كا احسان ہے_يا ا يها الذين ء امنوا هو اجتبكم

جملہ ''و ما جعل عليكم فى الدين حرج'' كے قرينے سے ہوسكتا ہے ''ہو اجتباكم'' در حقيقت ''ہو اجتباكم الدين'' ہو يعنى يہ خدا ہے جس نے تمہيں اپنے دين كيلئے انتخاب كيا اور تمہيں ايمان كى توفيق عطا كى ورنہ تم بھى دوسروں كى طرح كافر و مشرك ہوتے_

۵ _ شريعت اسلام كے احكام ،آسان اور ہر قسم كى عرج و حرج سے خالى ہيں _و ما جعل عليكم فى الدين من حرج

۶ _ شريعت اسلام ميں احكام الہى ايسے احكام ہيں كہ جن ميں لچك ہے اور اگر انسان كو عسر و حرج كا سامنا ہوجائے تو يہ اپنى جگہ ديگر احكام (احكام ثانوي) كہ جو عسر و حرج كا سب نہيں ہيں _ كو دے ديتے ہيں _و ما جعل عليكم فى الدين من حرج

دين سے حرج كى نفى كا لازمہ يہ ہے كہ اگر انسان كو كسى شرعى ذمہ دارى كى انجام دہى ميں حرج كا سامنا ہوجائے تو وہ شرعى ذمہ دارى ختم ہوجاتى ہے اور اسكى جگہ ايسا حكم آجاتا ہے كہ جس ميں حرج نہيں ہوتا_

۷ _ راہ خدا ميں جہاد ايسا حكم ہے كہ جو قاعدہ نفى حرج كے دائرے سے باہر ہے_و جهدوا فى الله حق جهاده و ما جعل عليكم فى الدين من حرج يہ جملے ''ہو اجتباكم'' اور''و ما جعل عليكم فى الدين من حرج'' ظاہراً جملہ ''و جاہدوا فى الله حق جہادہ'' كى علت ہيں يعنى چونكہ شريعت اسلام سہل و آسان اور ہر قسم كے عسر و حرج سے خالى ہے لہذا ضرورت ہے كہ اس پر عمل كرنے ميں انتہائي كوشش كرو اور اسكى حفاظت كيلئے اپنى پورى طاقت خرچ كرو اور اس

سلسلے ميں جان و مال كى قربانى سے بھى دريغ نہ كرو اس كا مطلب يہ ہے كہ اس قسم كا جہاد_ كہ جو قطعاً عسرو حرج پر مشتمل ہے_ نفى حرج والے قانون سے باہر ہے_

۸ _ قانون بنانے اور ذمہ دار كو معين كرنے ميں لوگوں كى توان اور طاقت كى طرف توجہ كرنا ضرورى ہے_

و ما جعل عليكم فى الدين من حرج

۹ _ شريعت اسلام اور شريعت ابراہيمي(ع) ميں وحدت اور يگانگت ہے_و ما جعل عليكم فى الدين من حرج مله ا بيكم إبراهيم

۶۲۴

۱۰ _ صدر اسلام كے مكے ہيں رہنے و الے لوگوں كى حضرت ابراہيم كے ساتھ نسبى رشتہ دارى _ملة ا بيكم إبراهيم

''ا بيكم'' ميں ضمير مخاطب ''كم'' كا مرجع ہوسكتا ہے سب مسلمان ہوں يا خاص طور پر مكہ كے لوگ ہوں مذكورہ مطلب دوسرے احتمال كى بنياد پر ہے_

۱۱ _ شريعت ابراہيم (ع) ميں شرعى ذمہ دارياں آسان اور ہر قسم كے عسر و حرج سے خالى تھيں _

و ما جعل عليكم فى الدين من حرج ملة ابيكم ابراهيم

۱۲ _ حضرت ابراہيم (ع) امت مسلمہ كے دينى باپ_و ما جعل عليكم فى الدين من حرج ملة ا بيكم إبراهيم

۱۳ _ مشركين مكہ كو اسلام كى طرف مائل كرنے كيلئے رشتہ دارى والے جذبات سے استفادہ كرنا_

و ما جعل عليكم فى الدين من حرج ملة ا بيكم إبراهيم

۱۴ _ مسلمان، خداتعالى كى طرف سے امت اسلامى كيلئے ايك انتخاب كردہ نام_هو سمى كم المسلمين

۱۵ _ امت اسلامي، سابقہ آسمانى اديان ميں ايك جانى پہچانى امت_هو سمى كم المسلمين من قبل

۱۶ _ مسلمان، سابقہ آسمانى كتابوں اور قرآن ميں پيغمبر(ص) اكرم كى امت كا نام_هو سمى كم المسلمين من قبل و فى هذ

۱۷ _ خداتعالى كے مقابلے ميں سرتسليم خم ہونا پيغمبر(ص) كى شريعت كى روح _هو سمكم المسلمين من قبل و فى هذ

۱۸ _ مسلمان، ديگر لوگوں كے اعمال پر گواہ ہيں اور پيغمبر(ص) مسلمانوں كے اعمال پر گواہ ہيں _ليكون الرسول شهيداً عليكم و تكونوا شهداء على الناس اس سلسلے ميں كہ ''شهيداً عليكم و تكونوا شهداء على الناس ''

۱۹ _ پيغمبر(ص) ،مسلمانوں پر خدا كى حجت ہيں اور امت مسلمہ ديگر لوگوں پر حجت خدا ہے_ليكون

الرسول شهيداً عليكم و تكونوا شهداء على الناس

۲۰ _ نماز قائم كرنے اور زكوة كى ادائيگى كا ضرورى ہونا_فاقيموا الصلوة و ء اتوا الزكوة

۲۱ _ خدا كے ساتھ تمسك كرنا اور اس كے غير كے ساتھ تمسك سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_و اعتصموا بالله

۲۲ _ نماز قائم كرنا، زكوة ادا كرنا اور خداتعالى كے ساتھ متمسك رہنا، امت اسلامى كے بنيادى ترين فرائض ہيں _

هو سميكم المسلمين فاقيموا الصلوةو ء اتوا الزكوة و اعتصموا بالله

۲۳ _ خداتعالى امت مسلمہ كا مولا اور سرپرست ہے_هو سميكم المسلمين ...و موليكم

۶۲۵

۲۴ _ خداتعالى كے مولى اور سرپرست ہونے كا اعتقاد اسكے ساتھ متمسك ہونے اور اسكے غير كے دامن تھامنے سے پرہيز كا تقاضا كرتا ہے_و اعتصموا بالله هو مولاكم

جملہ ''ہو مولاكم '' ''اعتصموا بالله '' كيلئے علت كے طور پر ہے يعنى خداتعالى كے ساتھ تمسك كرو كيونكہ وہ تمہارا مولى اور سرپرست ہے_

۲۵ _ الہى ذمہ داريوں كى ادائيگى كے لازم ہونے كا سرچشمہ، انسان پر خداتعالى كا حق ولايت ہے_فاقيموا الصلوة هو موليكم

۲۶ _ صرف خداتعالى كا حق ولايت شريعت اور قانون بنانے كا جواز فراہم كرتا ہے_فاقيموا الصلوةو آتوا الزكوة و اعتصموا بالله هو موليكم مذكورہ مطلب اس احتمال كى بناپر ہے كہ ''ہو مولاكم'' اس چيز كى طرف اشارہ ہے كہ چونكہ خداتعالى انسان پر حق ولايت ركھتا اسلئے اس نے قوانين اور احكام وضع كئے ہيں اس ہر قسم كى شريعت بنانے اور قانون سازى كا كسى نہ كسى طريقے سے ا لہى ولايت پر منتہى ہونا ضرورى ہے_

۲۷ _ انسانى حكومتوں اور ولايتوں كى مشروعيت ان كے الہى ولايت كے سابقہ مربوط ہونے ميں منحصر ہے_

و موليكم

''ہو مولاكم'' كے حصر ميں ظہور كى وجہ سے مذكورہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے_

۲۸ _ خداتعالى امت مسلمہ كا سرپرست اور شائستہ مددگار ہے_و سميكم المسلمين و اعتصموا بالله فنعم المولى و نعم النصير

۲۹ _ نماز قائم كرنا، زكوة ادا كرنا اور خدا سے تمسك كرنا اسكى ولايت، مدد اور نصرت كے حصول كا ذريعہ ہيں _فاقيموا الصلوة فنعم المولى و نعم النصير مذكورہ مطلب اس احتمال كى وجہ سے ہے كہ ''

فنعم المولى '' گذشتہ شرعى ذمہ داريوں پر مترتب ہو كہ جنكا انجام دينا خداتعالى كى خاص نصرت اور ولايت سے بہرہ مند ہونے كا سبب ہے _

۳۰ _ خداتعالى كا مسلمانوں پر اپنى سرپرستى اور ان كى مدد كرنے كى تعريف كرنا_

هو سميكم المسلمين فنعم المولى و نعم النصير

۳۱ _ ابوبصير كہتے ہيں ميں نے امام صادق (ع) سے سوال كيا كہ ايك مجنب شخص پانى كا چھوٹا سا برتن ركھ كر اس

۶۲۶

ميں اپنى انگلى ڈال ديتا ہے (اس كا حكم كيا ہے) تو فرمايا: اگر اس كا ہاتھ نجاست سے آلودہ ہو تو اس پانى پركو گرادے اور اگر نجاست سے آلودہ نہ ہو تو اس پانى كے ساتھ غسل كرسكتا ہے يہ خداتعالى كے اس فرمان كے مصاديق ميں سے ہے _''ما جعل عليكم فى الدين من حرج'' خداتعالى نے دين حرج اور سختى قرار نہيں دى شايد مقصود يہ ہو كہ اگر مجنب كا بدن جنابت كى وجہ سے نجس ہوجاتا تو ضرورى ہو تا كہ كسى وقت بھى وہ قليل پانى كے ساتھ غسل نہ كرسكتا اور يہ حرج ہے پس آيت كريمہ كے مطابق مجنب كا بدن نجس نہيں ہے(۱)

ابراہيم:ان كا باپ ۱۲; ان كے دين كا آسان ہونا ۱۱

احكام:ثانوى احكام ۶; انكى تشريع كا سرچشمہ ۲۶

آسمانى اديان:ان كى ہم آہنگى ۹/اقدار:ان كا معيار ۲

اسلام:اس كا لچك پذير ہونا ۶; اسكى حقيقت ۱۷; اس كا آسان ہونا۵; اسكى خصوصيات ۵; اسلام اور دين ابراہيم كى ہم آہنگى ۹

اللہ تعالى :اسكى ولايت كے اثرات ۲۵، ۲۶، ۲۷; اس كا احسان ۴; اسكى نصيحتيں ۱; اسكى حجتيں ۱۹; اسكى نصرت

كا پيش خيمہ ۲۹; اسكى ولايت كا پيش ۲۹; اسكى مدح ۲۹; اسكى نصرت كى مدح ۳۰; اسكى ولايت كى مدح ۳۰; اسكى نعمتيں ۲

امتيں :ان پر حجت ۱۹; ان كے گواہ ۱۸

انسان:اس كے مولا ۲۵

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كى گواہى ۱۸; آپ(ص) كا نقش و كردار ۱۹

تبليغ:اسكى روش ۱۳/تمسك كرنا:خدا كے ساتھ تمسك كرنے كے اثرات ۲۹; غيرخدا كے ساتھ تمسك سے اجتناب كرنا ۲۴; غيرخدا سے تمسك سے اعراض ۲۱; خدا كے ساتھ تمسك كى اہميت ۲۱، ۲۲; خدا كے ساتھ تمسك كا پيش خيمہ ۲۴

سرتسليم خم كرنا:خدا كے سامنے سرتسليم كرنا ۱۷

شرعى ذمہ داري:اس پر عمل كا پيش خيمہ ۲۵; اسكے شرائط ۸; اس ميں قدرت ۸

جہاد :

____________________

۱ ) استبصار ج ۱ ص ۲۰ ب ۱۰ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۵۲۴ ح ۳۳۳_

۶۲۷

اس ميں اخلاص ۱، ۲; اسكى قدر و قيمت ۲; اس كى اہميت ۷; اسكى نصيحت ۱

حكومت:اس كا سرچشمہ ۲۷

روايت ۳۱

زكات:اسكى ادائيگى كے اثرات ۲۹; اسكى اہميت ۲۰، ۲۲

عقيدہ:ولايت خدا كے عقيدے كے اثرات ۲۴

قانون سازي:اس كى شرائط ۸

قواعد فقہيہ:قاعدہ نفى عسر و حرج۶، ۳۱; قاعدہ نفى عسر و حرج كا دائرہ كار ۷

مؤمنين:انكو نصيحت ۱ ; انكا مالى جہاد۱; انكى نعمتيں ۴

مسلمان:ان كا برگزيدہ ہونا ۳; انكا دينى باپ۱۳; انكى شرعى ذمہ دارياں ۲۲; ان پر حجت ۱۹; ان كے فضائل ۳; ان كے گواہ ۱۸; انكى گواہ ۱۸; يہ آسمانى كتب ميں

۱۶ ; يہ قرآن ميں ۱۶; يہ آسمانى اديان ميں ۱۵; انكا مسلمان نام ركھنے كا سرچشمہ ۱۴; انكا مولا ۲۳، ۲۸; انكا مددگار ۳۰

مشركين مكہ:ان كے اسلام كا پيش خيمہ ۱۳; انكى رشتہ دارى والے جذبات ۱۳

مكہ:اہل مكہ اور ابراہيم كى رشتہ دارى ۱۰

نصرت خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۲۳، ۲۸

نعمت:نعمت اسلام ۴

نماز:اسے قائم كرنے كے اثرات ۲۹; اسكى اہميت ۲۰، ۲۲; اسے قائم كرنا ۲۰، ۲۲

ولايت:اس كا سرچشمہ ۲۷

ولايت خدا:يہ جنكے شامل حال ہے ۲۳، ۲۸

۶۲۸

اشاريوں سے استفادہ كى روش

اشاريوں سے استفادہ كا يہ نظام حروف تہجى كى ترتيب سے منظم كيا گيا ہے يعنى اصلى الفاظ كو حروف تہجى كى ترتيب اور موٹے خط كے ساتھ تحرير كرنے كے بعد اسكے ذيل ميں فرعى عناوين كو بھى حروف تہجى كى ترتيب كے ساتھ لكھا گيا ہے لہذا مطلوبہ موضوعات تك آسانى سے پہنچنے كے ليے مندرجہ ذيل نكات پر توجہ فرمايئے

۱ ) فرعى عناوين ،اصلى عناوين كے ذيل ميں قرار ديئے گئے ہيں لہذا ان تك پہنچنے كے ليے اصلى عناوين كى طرف رجوع كيا جائے مثلاً نماز كے اثرات، اركان ، احكام اور شرائط كو لفظ نماز ميں تلاش كيا جائے_

۲ ) مترادف الفاظ ميں سے ايسے لفظ كو اصلى عنوان قرار دياگيا ہے جو مناسب تر ہے اور ديگر عنوان يا عناوين كے سلسلے ميں (ر _ ك) (رجوع كيجئے ) كى علامت كے ذريعے اسى عنوان كى طرف رجوع كرنے كيلئے كہا گيا ہے مثلاً :

آگ :ر_ ك آتش

۳ ) بعض اصلى عناوين كے فرعى عناوين نہيں ہيں تا ہم خود كسى اور عنوان كے تحت آئے ہيں لہذا اس عنوان كے ليے اس اصلى عنوان كى طرف رجوع كرنے كے ليے كہا گيا ہے مثلاً :آرزو:ر _ ك انبيائ، انسان و

۴ ) وہ الفاظ و موضوعات جو ايك دوسرے كے نزديك ہيں اور ايك موضوع كے بارے ميں تحقيق كرنے كے ليے مفيد اور مؤثر ہيں ان ميں بھى فرعى عناوين كو ذكر كرنے كے بعد نيز ر_ك (نيز رجوع كيجئے) كى علامت سے رہنمائي كى گئي ہے مثلاً آخرت : نيزر ، ك ايمان ، دنيا ، قيامت ، معاد_ ياد رہے كہ جہاں رجوع كرنے كے ليے كہا گيا ہے وہاں كبھى مطلوبہ عناوين دونوں عناوين ميں صراحت كے ساتھ لائے گئے ہيں اور كبھى فقط دونوں عناوين ميں علمى رابطے كو ظاہر كيا گيا ہے _

۶۲۹

۵ ) وہ اشاريے جنہيں '' اور'' كے ذريعے مركب كيا گيا ہے ان ميں ايك خاص رابطہ پايا جاتاہے لہذا ان مركب اشاريوں ميں اگر دو مفاہيم ہيں تو پہلے اس كو ذكر كيا گيا ہے جو دوسرے ميں مؤثر ہے جيسے ''ايمان اور عمل'' (چونكہ ايمان عمل ميں مؤثر ہے لہذا ايمان كو پہلے لكھا گيا ہے) اور اگر مفاہيم كى بجائے دو افراد يا گروہ ہوں تو پہلے واسطہ ركھنے والے كو ذكر كيا گيا ہے اور جس كے ساتھ واسطہ ركھا گيا اسے بعد ميں ذكر كيا گيا ہے جيسے ''آنحضرت(ص) اور اہل كتاب'' اور '' كفار اور قرآن كريم'' كہ جنہيں '' ايمان''، '' آنحضرت''اور ''كفار'' كے عناوين ميں ذكر كيا گيا ہے اور دوسرے عناوين (عمل، اہل كتاب، قرآن) ميں انہيں پہلے عناوين كى طرف رجوع كرنے كا كہا گيا ہے_

۶ ) بسا اوقات ايك عنوان كو اسكے مفاہيم كى وسعت اور اس كے بعض فرعى عناوين كے مستقل موضوع ہونے كى بناپر كئي اصلى موضوعات كى طرف تقسيم كرديا گيا ہے تا كہ مطلوبہ معلومات آسانى سے دستياب ہوسكيں مثلاً ''آيات خدا ، اسما و صفات ،توحيد اور خدا '' اس كے باوجود موضوع كى وحدت كو حفظ كرنے كيلئے ايك موضوع سے دوسرے موضوع كى طرف رجوع كرنے كيلئے بھى كہا گيا ہے _

۷ ) اصلى عنوان كے تكرار سے بچنے كے ليے ذيلى اور فرعى عناوين ميں يہ علامت '' _'' مناسبت كے ساتھ، پہلے يا بعد ميں لگا دى گئي ہے لہذا ہر كلمہ اس علامت كے ساتھ مل كر مركب(اصلى و فرعى عنوان سے) كو تشكيل ديتاہے جيسے ايثار :_كا اجر، _ كى قدر و قيمت ، _ كے اثرات يا آنحضرت كے پيروكاروں كا اعراض يہ ہوجائے گا آنحضرت(ص) كے پيروكاروں كا اعراض و غيرہ_

ملاحظات:

۱ ) اشاريوں ميں ذكر شدہ نمبر ان آيات سے مربوط ہيں جن سے موضوعات كو اخذ كيا گيا ہے البتہ اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ اشاريوں كے يہى الفاظ آيات ميں موجود ہيں بلكہ انہيں آيات سے استخراج كئے گئے نكات كى بنياد پر تيار كيا گيا ہے _

۲ ) كتاب كے آخر ميں مذكور اشاريوں كے علاوہ ہر آيت كے ذيل ميں بھى اس كے اشاريے ذكر كر ديئے گئے ہيں تا كہ قارئين محترم كيلئے مطلوبہ عناوين كى طرف رجوع كرنا آسان ہوجائے اور انہيں ہر آيت كے عناوين كا خلاصہ بھى دستياب ہو جائے_

۶۳۰

اشاريے (۱)

'' آ''

آگ :كا شعور ۲۱/۶۹نيز ر_ك :ابراہيم (ع) ،جھنم ،كوہ طور

آبائو اجداد:_كا عمل ;اسكے اثرات ۲۰/۵۲

آثارقديمہ :_صدر اسلام ميں ۲۰/۱۲۸،۲۲/۴۵،۴۶;_سے عبرت حاصل كرنا ۲۰/۱۲۸،۲۲/۴۵،۴۶;_كا مطالعہ ۲ ۲/ ۴۶

نيز ر_ك : گذشتہ اقوام ،عقل

آخرت:ميں تضاد ۲۲/۱۹ ;_ كا مالك ۲۲/۱۵ ;_ پر ايمان لانے والے ۲۰/۷۲;_كا كردار ۲۰/۱۵;_كى خصوصيات ۲۲/۱۹

نيز ر_ك غفلت ،قيامت

آخرت پرستى :رك فرعون كے جادوگر

آدم (ع) :_نبوت سے پہلے ۲۰/۱۲۱;_اور ممنوعہ درخت ۲۰/۱۲۰،۱۲۱،۱۲۲،۱۲۳،;_كى بخشش ۲۰/ ۱۲۲;_ كا بھشت سے نكالنا :اس كا پيش خيمہ ۲۰/ ۱۲۰; _ عوامل ۲۰/۱۱۷;_كا اخلاص :اس كا سرچشمہ ۲۰/ ۱۲۲; _ كادھوكا كھانا ۲۰/۱۲۱;_اثرات ۲۰ / ۱۲۳ ; _ كا انذار ۲۰/۱۱۷;_كا فلسفہ ۲۰/۱۱۷;_ كا منقطع ہونا :اثرات ۲۰/۱۲۲;_حوا پر برترى ۲۰/۱۱۷; _ ملائكہ پر برترى ۲۰/۱۱۶;_كا برگزيدہونا۲۰/ ۱۲۲ ; _ كو بشارت۲۰/۱۲۳;_كا بہشت:اس ميں آسائش ۲۰/۱۱۷ ، اس سے اخراج ۲۰/۱۲۳; _ اس سے اخراج كا پيش خيمہ۲۰/۱۲۳،اس كے

۶۳۱

مادى وسائل ۲۰/۱۲۱;_اس ميں امن ۲۰/۱۲۳، اس ميں لباس ۲۰/۱۱۸;_اس ميں ضرور يات كو پورا كرنا ۲۰/۱۲۳;_اس ميں پياس ۲۰/۱۱۹ ،اس ميں ہميشہ رہنا ۲۰/۱۲۰;_اسكى حقيقت ۲۰/۱۱۷ ; _ اس ميں شيطان ۲۰/۱۲۰;_ اس ميں صلح ۲۰/۱۲۳; _ اس ميں طعام ۲۰/۱۱۸;_اس سے محروميت كے عوامل ۲۰/۱۲۳; _اس ميں گرمى ۲۰/۱۱۹;_كے علم كا دائرہ ۲۰/۱۲۰ ;_كے پھل ۲۰/۱۲۱;_ كى خصوصيات ۲۰/ ۱۱۷، ۱۱۸، ۱۱۹، ۱۲۱، ۱۲۳، ;_كى پشيمانى كے عوامل ۲۰/۱۲۲;_كا لباس ۲۰/۱۱۸ كے تربيت ۲۰/۱۲۲;_كا تكامل ۲۰/۱۲۲;_كى بہشت ميں شرعى ذمہ دارى ۲۰/۱۱۷ ;_كے تمايلات ۲۰/۱۲۱;_ كى توبہ ۲۰/۱۲۲; _ اس كا قبول ہونا ۲۰/۱۲۲;_كو نصيحت ۲۰/۱۱۵;_ كے دشمن ۲۰/۱۱۷;_ كو فرشتوں كا سجدہ ۲۰/۱۱۶;_كى زمين ميں سخت زندگى ۲۰/۱۱۷;_ كے بہشت ميں رہائش ۲۰/ ۱۱۷ ;_ كا طعام ۲۰/۱۱۸;_كے طمع ; اسكے اثرات ۲۰/ ۱۲۱ ;_ كا عصبانى ۲۰/ ۱۱۵ ; _ ، ۱۲۱ ; _ اسكے اثرات ۲۰/ ۱۲۱، ۱۲۲ ; _ اسكا پيش خيمہ ۲۰/۱۲۱; _اس سے مراد ۲۰/۱۲۱ ;_ كى شرمگاہ ; اسے چھپانا ۲۰/۱۲۱; اسے ظاہر كرنا ۲۰/۱۲۱ ; اسے ظاہر كرنے كے عوامل ۲۰/۱۲۱; _ كى عہد شكنى ۲۰/۱۱۵; _ كا غريزہ ۲۰/۱۲۱; _ كى فراموشى ۲۰/۱۱۵،۱۲۱; _ كے فضائل ۲۰/۱۱۷،۱۲۲; _ كا فانى ہونا ۲۰/۱۲۲، ۱۲۳; اس سے عبرت حصال كرنا ۲۰/۱۱۶; _ كا گناہ صغيرہ ۲۰/۱۲۱ ; _ كى محروميت ; اسكے عوامل ۲۰/۱۲۱،۱۲۳; _ كى مشكلات۲۰/۱۱۷; _ ۲۰/۱۲۳; _ كا مقام ۲۰/۱۱۶; _ كا نقش و كردار ۲۰؟ ۱۲۱; _ كى مادى ضروريات ۲۰/۱۱۸; _ كا وسوسہ ۲۰پ۱۲۰ ; _ كا زمين پر اترنا ۲۰/۱۲۳; ا سكا پيش خيمہ ۲۰/۱۲۳; اسكے عوامل ۲۰/۱۲۳; اس كا فلسفہ ۲۰/ ۱۲۳; _ كى ہدايت ۲۰/۱۲۲; _ كو خبر دار كرنا ۲۰/۱۱۹،۱۲۱; _كى بيوى ۲۰/۱۱۷

نيز ر_ك حوا، خدا، ذكرف سجدہ، شيطان، ملائكہ

آرزو:پسنديدہ آرزوئيں ۲۱/۸۹;_دنيا كى طرف بازگشت ۲۱/۹۵بيٹے كى ;_۲۱ /۸۹نيز ر_ك امتيں ، انسان، زكري

آزادى :ر_ك شيطان/آزر:كى بت پرستى ۲۱،۵۲;_سے سوال ۲۱ /۵۲ ;_كى تقليد ۲۱/۵۴ ;_ كى سرزنش ۲۱/۵۲;_كے خلاف مبارزت ۱۲/۵۲;_ كا معاشرتى كا مقام۲۱/۵۲/آزمائش :ر_ك مبتلا ہونا ،امتحان

آسائش طلب لوگ :كا محرك ۲۲/۱۱ كى عبادت ۲۲/۱۱نيز ر_ك آدم (ع) ، بہشت ، زمين ، عبادت

آسمان:_كا اعادہ ۲۱/۱۰۴ ;_ كا پھٹنا ۲۱/۳۰;_ اہل _ انكا سخن ۲۱/۴;_ اور زمين كى پيوستگى ۲۱/۳۰;_ نون كا تدبير :اس كا مركز ۲۰/۵;_نوں كا متعدد ہون

۶۳۲

۲۰/۴ ، ۶، ۲۱/۱۹، ۳۰، ۵۶، ۲۲/۱۸، ۶۴ ;_ كا حقيقت ۲۱/۲۳;_ نوں كا خالق ۲۰/۴، ۲۱ /۵۶ ;_نوں كى خلقت ۲۱، ۳۰;_ انكى پہلى خلقت ۲۱،۱۰۴ ;_ ان كا تحت ضابطہ ہونا۲۱/۱۶;_نوں كا بلندى ۲۰/۴ ; _ نوں كا گرنا۲۱/۳۲;_نوں كا عظمت ۲۰/۴;_ نوں كا رب۲۱/۵۶;_نوں كے موجودات ۲۲/ ۷۰; _ان كا انقياد۲۲/۱۹;_ ان كا بولنا ۲۱/۴; _ ان كا سجدہ ۲۲/۱۸;_ان كا مالك ۲۰/۶;_ان كى باشعور موجودات ۲۱/۴،۱۹;_ نوں كا نقش و كردار ۲۰/۵۳نيز ر_ك قرآن كى تشبيہات ، ذكر قيامت

آسيب شناسى :ر_ك معاشرہ ،دين،شخصيت

آشتى :ر_ك صلح/آگاہى :ر_ك بصيرت ،شناخت علم

آميزش:ر_ك موجودات

آنكھ:_ كا كردار ۲۱/۷۹نيز ر_ك قيا مت ،كفار ،گناہ گار لوگ

آہستہ بولنا:ر_ك قيامت

آيات الہى احكام :ر_ك احكام

آئيڈيالوجى :ر_ك نظريات كائنات آيات الہى : ۲۰/۲۳،۲۱/۳۷آفاقى آيات: ۲۱/۳۰،۳۲،۲۲/۶۲_ان سے اعراض كرنے والے۲۱/۳۲;_سے اعراض كرنا:اسكے اثرات ۲۰/۴۸;_كے ساتھ كھيلنا۲۱/۳;_كى تبليغ ۲۰/۱۳۴;_كى تكذيب ; اسكے اثرات ۲۰/۴۸، ۱۲۸ ،۱۳۵ ،۲۱ /۷۷ ;_اس كا پيش خيمہ ۲۱/۷۷;_اسكے سزا ۲۱/۷۷، ۲۲/ ۵۷; _ اس كا گناہ ۲۰/۱۲۹;_اس كا سرچشمہ ۲۲/ ۵۷ ; _ كى تلاوت ۲۲/۵۲;_ كے خلاف سازش ۲۲/۵۱;_ اسے درك كرلينا ۲۰/۵۴;_كے دشمن ۲۲/۵۳;_ سے شك كے دور كرنے كے عوامل ۲۲/۵۵;_كو فراموش كرنا:اسكى اثرات ۲۰/۱۲۶ ; _پر ايمان لانے والے ۲۰/۷۲;_ كے خلا ف مبارزت; اسكى سزا ۲۲/۵۱; _ سے اعراض كرنے والے۲۱/۳۲;_ ان كا اسراف ۲۰/۳۲;_ان سے بى اعتنائي كرنا ۲۰/۱۲۶;_كا ضرورى عذاب ۲۰/۱۲۷; _پر قيامت ميں ۲۰/۱۲۶;_انكى سزا ۲۰/۱۲۷ ;_ان كا آخرت ميں محفوظ ہونا ۲۰/۱۲۷ ; _ كى تكذيب كرنے والے ۲۰/۵۷، ۲۱/۷۷; _ ان كا دنيوى عذاب ۲۰/۱۲۹;_انكى ہلاكت ۲۰/ ۱۳۵;_كا نزول :اس كا پيش خيمہ ۲۰/۱۳۴; _ اس كا فلسفہ ۲۰/۱۳۴;_كا نقش و كردار ۲۰/۴۲، ۱۲۶، ۱۲۷ ;_ كاہادى ہونا۲۰/۱۲۶نيز ر_ك استكبار ،ايمان ، عيسي، غفلت، فرعون، قرآن، مريم، مشركين

آنحضرت(ص) :_ كا اتمام حجت كرنا ۲۱/۱۰۹; _ كا كفار كے ساتھ اختلاف ۲۱/۱۱۲; _ كا مشركين كے ساتھ اختلاف

۶۳۳

۲۱/۱۱۲; _ كى اذيت ۲۰/۱۳۰، ۲۱/۱۱۲; اسكے عوامل ۲۰/۱۳۳; _ كا مذاق اڑانے والے: انہيں دھمكى دينا ۲۱/۴۱; ان كا عذاب ۲۱/۴۱; _ كا مذاق اڑانا ۲۱/۳۶، ۴۱; _ پر اعتراض ۲۰/۱۳۳; _ كا انداز ۲۰/۱۳۵، ۲۱/۱۰۹/ ۲۲/۴۹_ ۶۸، ۷۲; اس كا واضح ہونا ۲۲/۲۹; اسكے اثر نہ كرنے كے عوامل ۲۱/۴۵; اس كا سرچشمہ ۲۱/۴۵; _ كے اہداف ۲۱/۱۰۹; ان ميں موثر عوامل ۲۰/۱۳۳; _ كو خوشخبرى ۲۱/۱۸; _ كا بشر ہونا ۲۱/۳; _ كے واضح دلائل ۲۰/۱۳۳;_ سے سوال ۲۰/۱۰۵; _ كى پيشين گوئياں ۲۱/۱۰۹; _ كى تبليغ ۲۰/۱۰۵، ۲۱/۱۰۸، ۱۰۹ ; _ كى خصوصى تبليغ ۲۰/ ۱۲; _ كے خلاف تبليغ ۲۰/۱۰; _ كے خلاف جذبات كو بھڑ كانا ۲۱/۳۶; _ كى تحقير ۲۱/۳۶; كى تسببيح ۲۰/۱۳۰; _ كى حوصلہ افزائي ۲۱/۹; كا تكامل ۲۰/۱۳۰; _ كى تكذيب: اس سے اجتناب كرنا ۲۲/۴۵; اس كا ظلم ہونا ۲۱/۳; _ كى شرعى ذمہ دارى ۲۰/۱۳۰، ۱۳۱، ۱۳۲; اس پر عمل كرنا ۲۱/۱۰۹; آپ(ص) سے مشكل شرعى ذمہ دارى كى نفى كرنا ۲۰/۲; _ كى كوشش ۲۰/۲; _ كى تلاوت قرآن ۲۰/۱۱۴; اسكے وقت شيطان ۲۲/۵۲; _ كو نصيحت ۲۰/۱۱۴، ۱۳۰، ۲۲/۵۳، ۵۵، ۶۸;_ كے خلاف سازش ۲۱/۳، ۴، ۵، ۱۱،۲۲/۵۱ ; _ كا توكل ۱۲/۱۱۲;_ كى دھمكياں ۲۱/۱۰۹;_پر تہمت ۲۱/۵; _ آپ پر جھوٹ كى تہمت ۲۱/۳۸، ۲۲، ۴۲; آپ پر جادو كى تہمت ۲۱/۳; آپ پر شاعرى كى تہمت ۲۱/۵; _ كا حامى ۲۲/۷۵; _ كا حج ۲۲/۲۷; _ كى حقانيت ۲۱/۱۰; اسكے دلائل ۲۱/۱۰; _ كا گھرانہ ۲۰/۱۳۲; اس كا مقام و مرتبہ ۲۰/۱۳۲; _ كے مطالبے ۲۰/۱۱۴; _ كے دشمن ۲۱/۶، ۱۱۲، ۲۲/۱۱، ۶۸، ۶۹; _ كے ساتھ دشمنى ۲۱/۱۱; اسكے عوامل ۲۲/۹; _ كى دعا ۲۱/۱۱۲; _ كى دعوتيں ۲۱/۱۰۸، ۲۲/۶۷; انہيں رد كرنا ۲۲/۶۸; ان كا سرچشمہ ۲۱/۱۰۸; _ كو تسلى دينا ۲۰/۱۳۰ ۲۱/۹، ۴۱، ۲۲/۶۹; _ كى رسالت ۲۰/ ۱۳۵، ۲۱/۱۰۸، ۲۲/۴۹، ۶۷، ۶۸; اسكے اثرات ۲۱/۱۰۷; اسكے حدود كو بيان كرنا ۲۱/۴۵; اس كا عالمى ہونا ۲۱/۱۰۷; اس كا فلسفہ ۲۱/۱۰۷; سب سے اہم رسالت ۲۱/۳۶، ۱۰۸; اسكى خصوصيات ۲۱/۱۰۷; _ كى روزى ۲۰/۱۳۱; _ كى زندگي: سطح زندگى ۲۰/۱۳۱; _ كى سيرت ۲۱/۳; _ كى شرك دشمنى ۲۱/۳۶; _ كا صبر ۲۰/۱۳۰; اسكے اثرات ۲۰/۱۳۱; _ پر ظلم ۲۱/۳; _ كى عجلت ۲۰/۱۱۴; _ كے تمايلات ۲۰/۱۱۴; _ كا علم ۲۰/۱۱۴; اس كا زيادہ ہونا ۲۰/۱۱۴; اسكے زيادہ ہونے كا پيش خيمہ ۲۰/۱۱۴; اس كا دائرہ ۲۱/۱۰۹; اسكے منابع ۲۰/ ۱۰۵ / اس كا سرچشمہ ۲۱/۴; _ كے فضائل ۲۰/۱۲۹، ۱۳۱، ۲۲/۶۷; _ اور حق كو قبول نہ كرنے والوں كے درميان فيصلہ كرنا ۲۱/۱۱۲;_ اور كافروں كے درميان فيصلہ ۲۱/۱۱۲; _ اور مشركين كے درميان فيصلہ ۲۱/۱۱۲; _ كى آسمانى كتاب ۲۰/۱۱۳; كى گواہى ۲۲/۷۸; كے سات مبارزت ۲۱/۱۱، ۳۴، ۳۶، اس سے اجتناب كرنا ۲۲/۴۵; _ اور كافروں

۶۳۴

كے مادى وسائل ۲۰/۱۳۱; _ اور قرآن ۲۰/۱۱۴; _ اور موسى (ع) كا قصہ ۲۰/۱۰; _ كے مخالفين: انكے دل كى بيمارى ۲۲/۵۳; ان كا ظلم ۲۲/۵۳; ان كے دل كى قساوت ۲۲/۵۳; _ كى موت: اسكى انتظار ۲۱/۳۴; _ كى ذمہ دارى ۲۱/۲۴، ۴۵، ۱۰۹; اس كا بھارى ہونا ۲۰/۲; اس كا دائرہ ۲۰/۳، ۲۲/۴۰_ كا ذمہ دارى كو قبول كرنا ۲۰/۲; _ كى مشكلات ۲۰/۲; _ كا معجزہ ۲۰/۱۲۳; اسے جھٹلانا ۲۰/۱۳۳; _ كا معلم ۲۰/۱۰۵، ۱۱۴، ۲۲/۶۸; _ كا مقام و مرتبہ ۲۰/۱۳۰; _ كا مقام رضا ۲۰/۱۳۰; _ كو جھٹلانے والے ۲۲/۱۱، ۴۲، انكى بہانہ تراشى ۲۱/۵; انكى سوچ ۲۰/۱۳۳; ان كے مطالبے ۲۲/ ۴۷; ان كيلئے مہلت ۲۲/۴۸; انہيں خبر دار كرنا ۲۲/۴۸; _ كے ساتھ جھگڑا; سے منع كرنا ۲۲/۶۷; _ كى نصيحت ۲۱/۴۲; _ كے نام ۲۰/۱; _ كى نبوت: اسكے دلائل ۲۰/۱۳۳; _ كى نعمتيں ۲۰/۱۱۴; _ كا نقش و كردار ۲۰/۱۰۵، ۱۳۴، ۲۲/۷۸; _ كے نواہى ۲۲/۲۵; _ كو نہى ۲۰/ ۱۳۱; _ كى طرف وحى ۲۰/۱۱۴; _ كے ساتھ وعدہ ۲۰/۹۹; آپ(ص) كے ساتھ كاميابى كا وعدہ ۲۱/۹; _ كى ہدايت ۲۲/۶۷; _ كى مايوسى ۲۰/۱۳۵نيز ر_ك انبيائ، بشارت، ياددہانى كران

آبادى :كا كردار ۲۱/۵۴آسائشوں ميں رہنے والے لوگ:_ وں كا مذاق اڑانا ۲۱/۱۳; _ وں كا اقرار ۲۱/۱۴; _ وں كى سوچ ۲۱/۱۶; _ وں كى پشيمانى ۲۱/۱۴، ۱۵; _ وں كا لغو چيزوں كى طرف تمايل ۲۱/۱۶; _وں كى حسرت ۲۱/۱۴; ماضى كے _ وں كى دشمنى ۲۱/۱۳; _ وں كا ظلم ۲۱/۱۴; _ وں كا عذاب: اس كا حتمى ہونا ۲۱/۱۳; وں كا فرار ۲۱/۱۳; _ وں كا مواخذہ ۲۱/۱۳; _ عذاب كے وقت ۲۱/۱۳، ۱۴، ۱۵; _ وں كا نقش و كردار ۲۱/۱۳نيز ر_ك گذشتہ اقوام

آثار قديمہ كى شناخت :كى اہميت ۲۰/۱۲۸

آسمانى كتب : ۲۱/۱۰_ كى تاريخ ۲۰/۱۳۳; _ كى ياددہانياں ۲۱/۲۴; _ كى تصديق ۲۰/۱۳۳; _ كى تعليمات ۲۲/۸; _ كا حادث ہونا ۲۱/۲; _ كا واضح كرنا ۲۲/۸; كى شرك دشمنى ۲۱/۲۴; كا فہم، اس كا پيش خيمہ ۲۱/۳; _ اور عقيدہ ۲۲/۸; _ كا نقش و كردار ۲۱/۲۴; _ كى ہدايات۲۱/۴۸; _ كى ہم آہنگى ۲۰/۱۳۳، ۲۱/۲۴نيز ر_ك تعقل، زبور، كفار، متقين، مسلمان

''ا''

ائمہ(ع) :كانقش و كردار ۲۱/۴۷نيز ر_ك اہلبيت(ع)

اخروي:اسكے عوامل ۲۰/۱۰۰

( خاص موارد اپنے اپنے موضوع ميں تلاش كئے

۶۳۵

جائيں )

احكام:كى ذمہ دارى ۲۰/۴۷اسقاط حمل:ر_ك جنين ،قيامت

اونٹ :كى خلقت :اس كا فلسفہ ۲۰/۵۴;_ كا گوشت : اس كا حلال ہونا ۲۲/۲۸،۳۰;_كو نحر كرنا ۲۲/۳۶;_نيز ر_ك حج ،نعمت

اولاد:_ كى تربيت ۲۰/۴۰; _ كى درخواست ۲۱/۸۹; _ كى موت: سخت موت ۲۱/۸۴; _ كا مقام: اس كا كردار ۲۰/۳۸; _ كا نقش و كردار ۲۱/۸۹نيز ر_ك آرزو، الوہيت، ايوب، خدا، زكريا، عقيدہ، صاحب اولاد ہونا، ماں ، نعمت

اسلحہ:بنانا۲۱/۸۰;_كى اہميت ۲۱/۸۰;_ كا معيار ۲۱/ ۸۰ ;_ دفاعى :اسكے بنانے كى اہميت ۲۱/۸۰نيز ر_ك داود ،نعمت

اظہار برائت كرنا:بتوں سے ۲۱/۶۷;_بت پرستوں سے ۲۱/۶۷،شرك سے ۲۱/۶۷;_باطل عقيدہ سے _; اسكى اہميت ; ۲۱/۶۷;_مشركين سے :اسكى اہميت ۲۱/۶۷نيز ر_ك ابراہيم

اسلامى معاشرہ :اس ميں عبوديت ۲۲/۷۷;_ اسكى خصوصيات ۲۲/۷۷

انتخاب كرنا:اس كا معيار ۲۲/۷۵

ابراہيم(ع) :صالحين ميں سے ۲۱/۷۲;_مسجد الحرام كے پاس ۲۲/۲۷;_ اور كھيل۲۱/۵۵;_اور جھوٹ ۲۱/۶۳ ; _ اور ظلم ۲۱/۵۹،۶۴;_اور يعقوب (ع) ۲۱/۷۲;_كا استدلال ۲۱/۶۵، ۶۸;_ اسكے اثرات ۲۱/۶۴، ۶۵; _كو حاضر كرنا :اس كا فلسفہ ۲۱/۶۱;_كا اخلاص ۲۱/۷۳;_ كى اذيت۲۱/۷۱;_كى استعداد ۲۱/ ۵۱ ; _ كى ٹھنڈنے جگہ۲۲/۲۷;_ كى تقرير ۲۱ / ۶۹ ; _ كى امامت ۲۱/۷۳ا;_ اس كا سرچشمہ ۲۱/ ۷۳ ; _ كى امداد ۲۱/۶۹;_ كا ايمان ۲۱/۵۶;_ سے تفتيش كرنا:ان سے آشكار تفتيش كرنا ۲۱/۶۱; _ اسكى درخواست ۲۱/۶۱;_ اس كا فلسفہ ۲۱/۶۲ ; _ اسكى جگہ ۲۱/۶۲;_ كے زمان كے بت پرست : ان كے خلاف مبارزت ۲۱/۵۶;_كے بت شكنى ۲۱/۵۷ ،۵۸ ،۵۹، ۶۰، ۶۲، ۶۵;_ اسكى سزا ۲۱/۶۱،۶۸;_كا سلوك: اسكى روش ۲۱/۶۳;_كا برگزيدہ ہونا۲۱/۷۳;_ كى دليل ۲۱/۵۶; _ كا جواب ۲۱/۶۳;_ اسكے اثرات ۲۱/۶۳;_ كا باپ ہونا ۲۲/۷۸;_ كا سوال ۲۱/۵۲;_ كا پيش قدم ہونا ۲۱/۹۰;_ كى تاريخ ۲۱/۵۲ ; _ كو برى كرن

۶۳۶

۲۱/۶۴ ;_ كا برى الذمہ ہونا ۲۱/۶۷;_كى تبليغ : اسكى روش ۲۱/ ۵۸، ۶۳، ۶۴، ۶۶; _اس سے ممانعت ۲۱/۶۸;_كا تحقير ۲۱/۶۰ ; _ كا تدبير ۲۱/۵۷، ۶۰;_پر فضل و كرم ۲۱/۷۲;_كى شرعى ذمہ دارى ۲۱/۷۳،۲۲/۲۷;_كو نصيحت ۲۲/ ۲۶; _ كے خلاف سازش ۲۱/۷۰;_ اسكے اثرات ۲۱/ ۷۰; _ پر جھوٹ بولنے كى تہمت۲۲/۴۳;_كے زمانے كا معاشرہ ۲۱/۷۱; _ كى جوانى ۲۱/۶۰;_ كاحج:اس كا دائمى ہونا ۲۲/۲۷; _كى حقانيت :اس ميں شك ۲۱/۵۵ ; _ كى دعوت۲۲/۲۷;_ اثرات ۲۱/۵۵;_ كى دين :اسكى تعليمات ۲۱/ ۷۳; _كى ذكاوت ۲۱/۷۳;_ كى طرف سے مذمت۲۱/۵۲، ۶۶، ۶۷;_ كو جلانا ۲۱/۶۸، ۷۰; _ كى قسم ۲۱/۵۷;_ كى شجاعت ۲۱/۵۷ ;_ كى معاشرتى شخصيت ۲۲/۲۷;_ كى شرك دشمنى ۲۱/ ۵۲ ، ۵۴، ۵۷، ۶۵;_ اثرات ۲۱/۵۵;_ اسكى روش ۲۱/۵۸ ، ۶۶;_ اسكى خصوصيات۲۱/۵۷;_ كى صلاحيت :اس كى سرچشمہ ۲۱/۷۲;_كا عبادت گاہ ۲۲/۲۶;_ كى عبوديت :اس كى تسلسل ۲۱/ ۷۳; كى عمل خير ۲۱/۷۳ ، ۹۰;_كے فضائل ۲۱/۵۱، ۵۶، ۵۷، ۶۹، ۷۲، ۷۳;_ كى قاطعيت ۲۱/۵۶، ۵۷;_كا قتل ۲۱/۶۸;_كا قدرت ۲۱/۵۷;_كا قصہ ۲۱/۵۲، ۵۴، ۵۵، ۵۶، ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۲، ۶۳، ۶۴، ۶۵،۶۶ ، ۶۷، ۶۸، ۶۹، ۷۰، ۷۱، ۷۲;_ اسكى آگ كا انقياد ۲۱/۶۹، اس كى بت شكن ۲۱/ ۵۹، ۶۳ ; _ اسكى آگ كا ٹھنڈا ہونا ۲۱/۶۹;_ اسكى آگ كى شدت اختيار كرنا ۲۱/۶۸;_كا كمال ۲۱/۵۱ ;_ اس كى سرچشمہ ۲۱/ ۵۱;_ اسكى نشانيان ۲۱/۵۲ ; _ كابچپن ۲۱/ ۵۱;_كا گواہى ۲۱/۵۶;_ كے خلاف گواہى ۲۱/۶۱;_كا مبارزہ ۲۱/ ۵۲; _اس ميں دليل ۲۱/۵۶;_اسكى روش ۲۱/۶۴;_كا محبوبيت ۲۲/ ۲۷; _كا ذمہ دارى ۲۱/۷۳ ،۲۲، ۲۶;_اس كى دائرہ ۲۱/۷۳;_كے زمان كے مشركين :ان كے ساتھ مبارزت ۲۱/ ۵۶;_كا معلم ۲۱/۷۳;_كا مقام و مرتبہ ۲۱/ ۷۳ ; _كو جھٹلانے والے ۲۲/۴۳;_كى معاشرتى موقعيت ۲۱/۶۰;_كا نبوت ۲۱/۷۳ ،۲۲ /۴۳;_كا نجات ۲۱/۷۱;_كا نعمتيں ۲۱/۷۲;_ كى نقش و كردار ۲۲/۲۶;_كا نماز ۲۱/۷۳;_كا طرف وحى ۲۱/۷۳ ;_كى ہجرت ۲۱/۷۱،۷۲;_كا ھادى ہوتا ۲۱/۷۳;_ كا فن ۲۱/۶۴نيز ر_ك اسلام،انبيائ،ايمان،بت پرست لوگ ، حج ،زكات،طواف ،مكہ، عدالتى ، نظام، نماز

ابليس:كااختيار۲۰/۱۱۶;_كادہوكہ دينا۲۰/۱۱۷;_ كى شرعى ذمہ دارى ۲۰/۱۱۶;_كى خلقت :اسكى تاريخ ۲۰/۱۱۶;_كى دشمنى ۲۰/۱۱۷;_ اسكى نشانياں ۲۰/۱۱۷;_ اسكى شيطنت ۲۰/۱۲۰;_اسكى نافرمانى ۲۰/ ۱۱۶،۱۱۷;_اسكے نام ۲۰/۱۲۰

نيز ر_ك شيطان اثماد:دينى ۲۱/۹۲;_كا اہميت ۲۰/۹۴;_كا دعوت ۲۰/ ۶۴;_ كا معيار ۲۱/۹۲نيز ر_ك :بنى اسرائيل ، جادوگر، فرعون، فرعوني، مسلمان ، موسي، ہارون

۶۳۷

اتمام حجت:كے اثرات ۲۰/۱۳۴نيز ر_ك :انبياء ،تبليغ ، خدا، دين، فرعون، قرآن، كفار مكہ، مبلغين، آنحضرت(ع) ، مشركين، معجزہ، نبوت ،خدا، شفاعت ، فرعون ، مسلمان، موسى (ع)

اجتماع:ر_ك ھاشم

اجر:ر_ك پاداش

اجرام سماوات:كا گرنا۲۱/۳۲;_اس كا سرچشمہ ۲۲/۶۵;_كى حفاظت ۲۱/۳۲;_سے محفوظ رہنا ۲۲/۶۵

اجل:اجل مسمى ۲۰/۱۲۹،۲۲/۵نيز ر_ك امتيں

استدلال:درك ابراہيم(ع) ،فرعون، موسي

احترام:سے محروم ہونا ۲۲/۱۸نيز ر_ك مقدس مقامات خدا، سرزمين، صومعہ، دينى علما، كعبہ، كليسا،كنيہ،مسجد،مشركين،موسي،

احساسات:ر_ك جذبات آنحضرت(ع)

احكام: ۲۰/۶۹ ، ۱۱۶ ، ۲۱/۵۷ ، ۵۸ ، ۶۶ ، ۱۰۹ ، ۲۲/۱۸ ، ۲۸ ، ۲۹ ، ۳۰ ، ۳۳ ،

۳۴ ، ۳۶ ، ۳۹ ، ۴۰ ، ۷۷ ;_ثانوى :۲۲/۷۸; _ كا تشريع :اس كا سرچشمہ ۲۲/۳۰، ۷۸; _كا فلسفہ ۲۰/۱۲۱، ۲۲/۳۴، ۳۶، ۳۷، ۴۰;_(خاص موارد اپنے اپنے موضوع ميں تلاش كئے جائيں )

ايجادات:سے استفادہ كرنا: اس كا پيش خيمہ ۲۱/۸۰

اختلاف :دينى :اس سے اجتناب كا پيش خيمہ ۲۱/۹۳; _ اسكے عوامل ۲۱/۹۳نيز ر_ك اختلاف ڈالنے والے ،امتيں ، بنى اسرائيل ،توحيد ،داود ،فرعونى ،آنحضرت(ع) ،ہارون

اختلاف ڈالنے والے :ان كا اخروى مواخذہ ۲۱/۹۳نيز ر_ك اختلاف

اختيار :ر_ك ابليس ،انسان،خدا ،جبر و اختيار

اخلاص:كے اثرات ۲۰/۴۱،۲۱/۸۸;_نيزر_ك آدم ، ابراہيم ، اسحاق ، جہاد ، دعا، عبادت ، موسي، نعمت،نماز،يعقوب،اخلاق

اخلاقى رذائل:۲۰/۲۴،۲۲/۹،۱۰

۶۳۸

اخلاقى فضائل: ۲۰/۱۱۵ ، ۲۱/ ۲۸، ۲۹، ۲۲/۱، ۳۲، ۳۵نيز ر_ك زكريا(ع)

ادب:ر_ك فرعون كے جادوگر ،خدا،فرشتہ

ادراك:ادراك كرنے والے ان پر جادوگر كى تاثير ۲۰/۶۶;_ان كا رشد و تكامل ۲۲/۵،انكى كمزورى ۲۲/۵

ادريس:صالحين ميں سے ۲۱/۸۶;_كا پيش قدم ہونا ۲۱/۹۰;_كامسير۲۱/۸۵;_اسكے اثرات ۲۱/ ۸۶; _ كى صلاحيت :اسكے اثرات ۲۱/۸۶; _كا عمل خير ۲۱/۹۰;_كے فضائل ۲۱/۸۵، ۸۶; _ كا قصہ: اس سے عبرت حاصل كرنا۲۱/۸۵;_نيز رك،ذكر آسمانى اديان۲۲/۱۷;_كى تعليمات ۲۰ /۸۲،۲۲/۳۴،۴۰;_پر تہمت:اس كا خطرہ ۲۰/ ۸۸;_كا كردار ۲۰/۴۳،۴۷;_كا ھادى ہونا ۲۰/ ۴۷ ;_كى ہماہنگى ۲۰/۸۲، ۲۱/۹۲، ۲۲/۱۹، ۳۴، ۴۰،۶۷،۷۸

نيز ر_ك اسلام ،توبہ ، توحيد، حج، دفاع، داڑھى ، قرباني، مسلمان، نماز

اذكار:ر_ك ركوع ،سجدہ ،نماز/ارادہ :ر_ك ايمان ،خدا،موسي

اقدار : ۲۰/۱۳۲ ، ۲۱/۸۵ ، ۲۲/۱۱ ، ۵۴ ; معاشرتى اقدار ۲۲/ ۴۱; _كا حفاظت :اسكے اثرات ۲۲/۴۱;_كا معيار ۲۰/۱۱۵،۲۲/۵،۷۸

(خاص موارد اپنے اپنے موضوع ميں تلاش كئے جائيں )

استبداد:ر_ك فرعون/استغاثہ :نيز ر_ك مشركين ،باطل معبود

استغفار :جادو سے ۲۰/۷۳;_شرك سے ۲۰/۷۳;_ كفر سے ۲۰/۷۳;_گناہ سے ۲۰/۷۳نيز ر_ك فرعون كے جادوگر

استقامت :ر_ك فرعون كے جادوگر ،عبوديت ، موسى (ع) ، ہارون

استقبال:ر_ك بہشتى لوگ ،مؤمنين ،فرشتے

استكبار :آيات خدا كے ساتھ كرنا: اسكى سزا۲۲/۵۷;_خدا كے ساتھ كرنا:اسكى سزا۲۲/۵۷ نيز ر_ك قرآن ،كفار ،مقربين

استدلال :ر_ك برھان

استہزا كرنے والے :ر_ك انبيائ،آنحضرت(ع)

۶۳۹