دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 262498
ڈاؤنلوڈ: 6008

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 262498 / ڈاؤنلوڈ: 6008
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 غش آگیا ۔ اسامہ نے جانے کی تیاری شروع کی۔ جب رسول(ص) کو ہوش آیا تو آپ نے اسامہ اور لشکر کے متعلق دریافت کیا لوگوں نے بتایا کہ وہ جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا اسامہ کا لشکر جلد روانہ کرو۔ خدا لعنت کرے اس پر جو اسامہ کے لشکر کے ساتھ نہ جائے۔ بار بار اسی فقرے کو دہراتے رہے ۔ اسامہ روانہ ہوئے۔ رایت۔ لشکر کے سر پر لہرا رہا تھا اور صحابہ ان کے ارد گرد تھے۔ یہاں تک کہ جب مدینہ سے باہر مقام جرف پر پہنچے تو اسامہ اتر پڑے ان کے ساتھ ابوبکر و عمر اور اکثر مہاجرین بھی تھے اور اںصاار میں سے اسید بن حضیر اور بشیر بن سعد وغیرہ جو معززین اںصار میں سے تھے ۔ اتنے میں ام ایمن کا قاصد اسامہ کے پاس پیغام لے کر پہنچا کہ جلدی آو رسول(ص) کا وقتِ آخر ہے۔ اسامہ فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور مدینہ میں آئے ۔ علم لشکر بھی ساتھ تھا اسے رسول(ص) کے دروازے کے سامنے ںصب کردیا۔ اور ٹھیک اسی وقت رسول(ص) نے دنیا سے انتقال کیا تھا۔”

یہاں تک حدیث کی اصل عبارت تھی۔ اس حدیث کو مورخین کی ایک جماعت نے بھی نقل کیا ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ 20 پر بھی اس حدیث کو تحریر فرمایا ہے۔

                                                                     ش

۵۲۱

مکتوب نمبر47

سریہ اسامہ کے متعلق ہم لوگ طولانی گفتگو میں پڑ گئے جیسا کہ واقعہ قرطاس میں اچھا خاصہ طول ہوگیا تھا۔ اچھا اب دیگر موارد کا ذکر فرمائیے۔

                                                             س

جواب مکتوب

پیغمبر(ص) کا حکم مارق ( دین سے نکل جانے والے) کو قتل کر ڈالو

اچھا وہ روایت ملاحظہ فرمائیے ۔جسے علمائے اعلام اور محدثین اسلام

۵۲۲

نے لکھا ہے ۔ امام احمد بن حنبل کے لفظوں میں مسند جلد3 صفحہ 15 پر ابو سعید خدری کی حدیث درج کی ہے :

“ ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ابوبکر رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور عرض کی یا رسول اﷲ(ص) میرا گزر فلاں وادی سے ہوا میں نے وہاں ایک خوشنما شکل و شمائل اور بہت ہی خضوع و خشوع والے انسان کو نماز پرھتے دیکھا ۔ رسول(ص) نے فرمایا : فورا جاو اور اسے قتل کر ڈالو۔ ابوبکر گئے مگر جب اس شخص کو اسی حال میں پایا یعنی نماز پڑھتے ہوئے تو انھوں نے اچھا نہ معلوم ہوا کہ اسے قتل کریں۔ رسول(ص) کی خدمت میں پلٹ آئے۔ حضرت نے  عمر سے کہا کہ تم جاؤ اسے قتل کر آؤ ۔ حضرت عمر گئے اور ان کو بھی اس کا قتل گوارہ نہ ہوا۔ رسول(ص) کے پاس پلٹ آئے اور آکر عرض کی یارسول اﷲ(ص) ! میں نے اسے بہت خشوع وخضوع سے نماز پڑھتے دیکھا اس لیے مجھے اچھا معلوم نہ ہوا کہ میں اسے قتل کروں۔ اب رسالت ماب(ص) نے حضرت علی(ع) کو حکم دیا کہ تم جاؤ اور جاکر اسے قتل کر ڈالو۔ حضرت علی(ع) گئے مگر اسے پایا نہیں، حضرت علی(ع) رسول(ص) کی خدمت میں پلٹے اور عرض کی یا رسول اﷲ(ص) میں گیا تو وہ چاچکا تھا میں نے اسے نہیں دیکھا۔ رسالت ماب(ص) نے فرمایا : اس شخص اور اس کا اصحاب کی حالت یہ ہوگی کہ وہ قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے یوں نکل جائیں گے جس طرح تیر ہدف کے پار ہو جاتا ہے ۔ ان کا دین میں واپس آنا اسی طرح ناممکن ہوگا جس
۵۲۳

طرح چلا ہوا تیر، سوفار میں پلٹ نہیں سکتا۔ انھیں تہ تیغ کر ڈالو کہ وہ بد ترین خلائق ہیں۔”

ابویعلیٰ نے اپنے مسند میں انس سے روایت کی ( جیسا کہ ابن حجر عسقلانی کی اصابہ میں بسلسلہ تذکرہ ذی الثدیہ مذکور ہے) :

“ انس کہتے ہیں کہ رسول(ص) کے زمانے میں ایک شخص تھا جس کی عبادت و اجتہاد پر ہمیں بے حد تعجب ہوا کرتا تھا ۔ ہم نے ایک مرتبہ رسول(ص) سے اس کا نام لے کر ذکر کیا۔ رسول(ص) نے نہیں پہچانا ۔ ہم نے اس کی صفتیں بیان کیں۔ تب بھی آپ نے پہچان پائے۔ ہم اس کے متعلق گفتگو کرہی رہے تھے کہ ناگاہ وہ شخص آتا دکھائی دیا۔ ہم نے رسول(ص) کی خدمت میں عرض کی یا رسول اﷲ(ص) یہی وہ شخص ہے۔ آںحضرت (ص) نے فرمایا : تم لوگ مجھ سے ایسے شخص کا ذکر کر رہے ہو جس کے چہرے پر شیطان کی رنگت ہے ۔ اتنے میں وہ شخص باکل سامنے آگیا اور آکر کھڑا ہوا مگر سلام نہ کیا۔ رسول اﷲ(ص) نے اس سے فرمایا۔ میں تمھیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم جب مجمع میں تھے تو تم نے یہ بات کہی تھی کہ پوری قوم میں مجھ سے بہتر یا افضل کوئی شخص نہیں۔ اس نے کہا ہاں۔ پھر وہ وہاں سے چل کر نماز پڑھنے لگا۔ رسول(ص) نے فرمایا کون ہے جو جاکر اس کو  قتل کر آئے۔ حضرت ابوبکر نے کہا۔ میں اس خدمت کے لیے حاضر ہوں یا رسول اﷲ(ص) ۔ وہ اس کے پاس پہنچے دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے حضرت ابوبکر نے کہا
۵۲۴

انھوں نے بھی یہی کہا کہ یہ سچ کہتے ہیں یہ آپ کے پڑوسی ہیں پھر رسول(ص) کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ آںحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا: اے گروہ قریش! قسم بخدا خداوند عالم یقینا تم پر ایک ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جس کے دل کا ایمان میں وہ امتحان لے چکا ہے وہ تمہیں دین پر باندھ کر رکھے گا۔ ابوبکر بولے میں ہوں وہ یا رسول اﷲ(ص) آپ نے فرمایا نہیں۔ حضرت عمر بولے میں، یارسول اﷲ(ص) ! فرمایا : نہیں۔ لیکن وہ ہے جو جوتیاں گانٹھ رہا ہے۔ رسول اﷲ(ص) نے حضرت علی(ع) کو اپنی جوتیاں دی تھیں کہ اسے گانٹھ دو۔”

                                                                     ش

۵۲۵

مکتوب نمبر48

غالبا حضرت ابوبکر اور عمر دونوں یہ سمجھے کہ رسول(ص) اس شخص کو قتل کرنے کا جو امر فرمارہے ہیں وہ امر استحبابی ہے وجوبی نہیں اور اسی وجہ سے وہ دونوں حضرات قتل کرنے سے باز رہے۔ یا انھوں نے یہ خیال کیا کہ اس کا قتل کرنا ہے تو واجب لیکن واجب کفائی ہے اسی وجہ سے ان دونوں نے یہ سوچ کر ہم نہیں قتل کرتے تو دوسرے لوگ تو قتل ہی کر ڈالیں گے اس کو قتل نہ کیا کیونکہ ایسے اور لوگ بھی تھے جو اس فریضہ کا انجام دے سکتے تھے۔

اور حضرت ابوبکر و عمر جب بغیر قتل کیے پلٹ آئے تو ان کو اس بات کا بھی اندیشہ نہ تھا کہ اس کے بھاگ جانے کی وجہ سے حکم پیغمبر(ص) فوت ہو جائے گا کیونکہ ان حضرات نے اس شخص کو حقیقت حال سے مطلع تو نہیں کیا تھا۔

                                                                                     س

۵۲۶

جواب مکتوب

امر حقیقتا وجوب ہی کے لیے ہوتا ہے اور سوائے وجوب کے ذہن میں اور کچھ نہیں آتا لہذا اس کا استحباب پر حمل کرنا جب ہی صحیح ہوسکتا ہے جب کوئی قرینہ بھی موجود ہو اور یہاں کوئی ایسا قرینہ نہیں ہے جس سے پتہ چلتا کہ یہ حکم استحابی ہے ۔ بلکہ یہاں تو ایسے قرائن موجود ہیں جو تاکیدی طور پربتاتے ہیں کہ یہاں معنی حقیقی مراد ہے۔ یعنی وجوب مقصود ہے نہ کہ کچھ اور لذا آپ ان احادیث کو ایک گہری نظر سے ملاحظہ فرمائیں آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہی درست ہے۔ منجملہ اور قرائن کے رسول(ص) کے اس فقرہ پر غور کیجیے:

“ یہ اور اس کے اصحاب قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے گلے سے نیچے نہ اترے گا۔ دین سے یوں نکل جائیں گے جس طرح تیر ہدف سے پار ہوجاتا ہے۔ پھر ان کا دین کی طرف واپس آنا ایسا ہی محال ہے جس طرح چلے ہوئے تیر کا پھر سوفار میں پلٹ آنا۔ لہذا اسے اچھی طرح قتل کر ڈالو یہ بدترین خلائق ہے۔”

نیز رسول اﷲ(ص) کا یہ جملہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ :

“ اگر یہ شخص قتل کردیا جاتا تو میری امت کے کوئی دو آدمی بھی باہم اختلاف نہ کرتے۔”

اس قسم کے جملوں کے بعد بھی کوئی شک باقی رہ جاتا ہے کہ رسول(ص) کا حکم، حکم وجوبی تھا کہ استحابی ۔ایسی عبارت تو وجوب اور تاکید شدید ہی کے لیے

۵۲۷

 استعال کی جاتی ہے۔

اگر آپ مسند احمد میں اس حدیث کو ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ رول(ص) نے یہ حکم خاص کر حضرت ابوبکر کو دیا تھا۔ ان کے قتل نہ کرنے پر پھر مخصوص طور پر حضرت عمر کو حکم دیا۔ لہذا جو حکم مخصوص کر کے دیاجائے تو واجب کفائی کیونکر ہو جائے گا؟

علاوہ اس کے حدیث سے اس امر کی بھی صراحت ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر نے اس شخص کے قتل کو جو ناپسند کیا وہ اسی وجہ سے کہ وہ بہت خضوع و خشوع سے نماز پڑھ رہا تھا۔ فقط یہی وجہ تھی اور کوئی سبب قتل سے باز رہنے کا نہ تھا۔ لہذا نبی(ص) تو بحالت نماز اس کو قتل کرنے کا حکم دینا پسند کریں اور حضرت ابوبکر و عمر کو ناگوار ہو اس کو قتل نہ کرکے تعمیل حکم پیغمبر(ص) کو مقدم نہ سمجھیں۔

پس یہ واقعہ بھی منجملہ ان شواہد کے ہے جن سے ثبوت ملتا ہے کہ یہ حضرات حکم پیغمبر(ص) بجالانے سے اپنی رائے پر عمل کرنا زیادہ بہتر سمجھتے تھے ۔ حکمِ پیغمبر(ص) کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہ تھی۔بس جو کچھ تھا ان کا اجتہاد ، ان کی رائے تھی۔

                                                                     ش

۵۲۸

مکتوب نمبر49

آپ بقیہ موارد بیان فرمائیے ۔ کوئی مورد چھوڑیے نہیں کہ مجھے دوبارہ آپ سے التجا کرنی پڑے ۔ طول ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

                                                             س

جواب مکتوب

مقامات جہاں صحابہ نے حکمِ پیغمبر(ص) پر عمل نہ کیا

بہت بہتر، منجملہ ان مواقع کے جہاں صحابہ نے حکم پیغمبر(ص) کی مخالفت کی تو سنیے : صلح حدیبیہ میں مخالفت کی۔ جنگ حنین میں مخالفت کی ۔ جنگِ

۵۲۹

حنیں میں مال غنیمت جو ہاتھ آیا اس کی تقسیم کے وقت مخالفت کی، جنگِ بدر کے قیدیوں سے جب فدیہ لیا گیا۔ غزوہ تبوک میں جب سامانِ رسد ختم ہوگیا۔ اور فاقہ کی نوبت آئی اور پیغمبر(ص) نے بعض اونٹوں کے نحر کرنے کا حکم دیا اس وقت مخالفت کی۔ جنگِ احد کے دن احد کی گھاٹیوں میں جو حرکتیں سرزد ہوئیں وہ بھی سراسر حکم پیغمبر(ص) کی مخالفت تھی۔

ابوہریرہ والے دن جب آںحضرت(ص) نے خوشخبری دی تھی ہراس شخص کو جو خدا سے موحد بن کر ملاقات کرے ، منافق کی میت پر نماز پڑھنے کے روز۔

خمس و زکوة کی دونوں آیتوں میں۔ تہرے طلاق کی آیت میں تاویل کر کے مخالفت حکم پیغمبر(ص) کی گئی۔ نوافل شہر رمضان کےمتعلق جو احادیث پیغمبر (ص) وارد ہیں ان میں کیفیتا و کمیتا تاویل کر کے مخالفت حکم پیغمبر(ص) ک گئی۔ کیفیت اذان جو پیغمبر(ص) سے منقول ہے اس میں تغیر کر کے حکم پیغمبر(ص) کی مخالفت کی گئی۔

نماز جنازہ میں پیغمبر(ص) نے جتنی تکبیریں کا حکم دیا تھا ان کی  تعداد میں کمی بیشی کر کے حکم پیغمبر(ص) کی مخالفت کی گئی۔

غرض کہاں تک ذکر کیا جائے بکثرت موارد ہیں جہاں حکم پیغمبر(ص) کی صریحی مخالفت کی گئی۔ جیسے حاطب بن بلتعہ والے معاملہ معارضہ کرنا۔ مقام ابرہیم(ع) میں رسول(ص) سے جو باتیں ظہور پذیر ہوئیں ان پر لب کشائی اور جیسے مسلمانوں کے گھر کو مسجد میں ملا لینا۔

ابوخراش بزلی کے دنبہ کے بارے میں یمینوں کے خلاف فیصلہ کرنا اور جیسے نصر بن حجاج سلمیٰ کو جلاوطن کرنا۔ جعدہ بن سلیم پر حد

۵۳۰

 جاری کرنا۔(1) چرا گاہوں پر لگان کو لگانا۔

کیفیت ترتیب جزیہ، شوری کے ذریعہ خلافت کے مسئلہ کے طے کرنا مخصوص طریقے سے رات کو گھومنا، لوگوں کے بھید لینا، ان کی جاسوسی کرنا ، میراث میں عول و تعصیب ، اس کے علاوہ اور بے شمار موارد ہیں جہاں صحابہ نے حکم پیغمبر(ص) کو ٹھکرا دیا۔ زبرستی سے کام لیا، مصالح عامہ کو پیش نظر رکھا۔

ہم نے اپنی کتاب سبیل المومنین میں ایک مستقل باب اس کی نذر کیا ہے۔

اس کے علاوہ اور بھی کچھ ایسے نصوص ہیں( نصوص خلافت و امامت کے علاوہ ) جو خاص کر امیرالمومنین(ع) اور اہل بہت طاہرین(ص) کے متعلق وارد ہوئے اور ان ںصوص پر صحابہ نے عمل نہیں کیا بلکہ ان کی مخالفت کی ۔ ضد پر عمل کیا جیسا کہ تلاش و تجسس سے پتہ چلتا ہے۔

ظاہر ہے کہ جب صحابہ نے ان ںصوص پر عمل نہیں کیا جو خلافت کے متعلق تھے بلکہ ان نصوص کی من مانی تاویلین کیں تو ان ںصوص میں انھوں نے تاویلیں کیں اپنی رائے اجتہاد پر عمل کرنا اطاعت پیغمبر(ص) کرنے اور حکم پیغمبر(ص) ماننے سے بہتر سمجھا اسی طرح ان نصوص میں بھی اپنی رائے کو ترجیح دی۔

                                                             ش

--------------

1ـ ملاحظہ فرمائیے طبقات ابن سعد میں حالات حضرت عمر جس سے آپ کا معلوم ہوگا۔ کہ حضرت عمر نے جعدہ پر جب کسی نے اس کے جرم کی گواہی بھی نہ دی اور سوائے ورقہ کے کوئی اس کے جرم کا مدعی ہی تھا حد جاری فرمادی تھی اس پر کسی نے اشعار بھی کہے جو ابن سعد نے لکھے ہیں۔

۵۳۱

مکتوب نمبر 50

صحابہ کا مصلحت کو مقدم سمجھنا

کوئی با فہم و بصیرت اس میں شک نہیں کرسکتا کہ صحابہ نے ان تمام موارد میں صریحی احکام پیغمبر(ص) کی جو خلافت کی اور اپنی رائے واجتہاد کو بہتر سمجھا تو اس میں ان کی نیت خراب نہ تھی بلکہ مصلحت عامہ کے خیال سے انھوں نے ایسا کیا۔ کیونکہ ان تمام موارد میں ان کا مقصود یہ رہا کہ امت کی جس میں بھلائی زیادہ ہو اور ملت اسلام کے لیے جو زیادہ بہتر ہو، شوکتِ اسلام جس سے زیادہ بڑھے وہ کرنا چاہیے۔ لہذا انھوں نے جو کچھ کیا اس میں ان پر کوئی جرم عائد نہیں ہوتا۔ خواہ وہ احکام پیغمبر(ص) نہ بجالائے ہوں۔ یا ان میں تاویل کے مرتکب ہوئے ہوں۔ بہر حال ان سے کوئی مواخذہ کیا جاسکتا۔

۵۳۲

باقی موارد کی تصریح پر اصرار

ہم نے آپ کو زحمت دی تھی کہ ان تمام موارد کا ذکر فرمائیے جہاں صحابہ نے پیغمبر(ص) کی مخالفت کی اپنی خود رائی سے کام لیا۔ آپ نے جواب میں بہت کچھ موارد ذکر فرمائے ۔ اسی سلسلہ میں فرماتے ہیں حضرت علی(ع) اوراہلبیت طاہرین(ع) کے متعلق نصوص خلافت کے علاوہ کچھ اور بھی اسی طرح پیغمبر(ص) نے فرمائے اور جس طرح صحابہ نے ںصوص خلافت کو ٹھکرادیا اسی طرح ان نصوص کو بھی نہ مانا۔ کاش آپ ان ںصوص کا بھی تفصیلا ذکر فرماتے۔

س

جواب مکتوب

موضوع بحث سے باہر ہوجانا

آپ نے تسلیم کیا مذکوزہ بالا موارد میں صحابہ نے پیغمبر(ص) کے نصوص کی مخالفت کی۔ ہمارے کل بیانات کی آپ نےتصدیق کی  فالحمد ﷲ۔ رہ گیا آپ کا یہ کہنا کہ ایسا کرنے میں ان کی نیت اچھی تھی اور انھوں نے مصلحت عامہ کو مقدم سمجھا ۔ وہ ہمیشہ امت کی بھلائی اور ملت کی بہتری اور شوکت اسلام کی ترقی کے خواہشمند رہے۔ یہ تو سب محل بحث سے خارج ہے اس سے آپ بھی انکار نہیں کرسکتے۔

آپ نے دریافت کیا تھا کہ صحابہ نے کبِ حکم پیغمبر(ص) نہ مانا اور اپنے اجتہاد و رائے پر چلنا بہتر سمجھا۔ ہم نے وہ مقامات ذکر کردیے اور آپ نے مان بھی لیا

۵۳۳

 اب رہ گیا یہ  کہ انھوں نے کن وجوہ سے حکم پیغمبر(ص) نہ مانا۔ حکم پیغمبر(ص) نہ ماننے میں ان کی نیت اچھی تھی کہ بری اس کا کوئی سوال نہیں۔

مکتوب گرامی کی آخری سطروں میں خواہش کی ہے کہ میں ان نصوص کا تفصیلی ذکر کروں جو خصوصیت سے امیرالمومنین(ص) کے متعلق وارد ہوئے ہیں اور جو ان ںصوص کے علاوہ ہیں جو خلافت سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ اس زمانہ میں امام سنن ہیں۔ تمام سنن واحادیث کے جامع ہیں۔ احادیث وسنن کی تلاش و تحقیق میں آپ نے بڑی محنتیں کی ہیں لہذا کسی کو یہ وہم وگمان بھی نہیں اور نہ کسی کو یہ غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ وہ میرے اشارے کو آپ سے زیادہ سمجھتا ہے۔

تسنن میں آپ کا مد مقابل کوئی ہوسکتا ہے؟ آپ کا کوئی جواب بن سکتا ہے؟ ہرگز نہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی نے سچ کہا ہے:

“ وکم سائل عن امره وهو عالم”

" بہت سے لوگ جانتے پہنچانتے ہوئے کسی شے کے متعلق دریافت کرتے ہیں”

آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ بہتر سے صحابہ حضرت علی(ع) سے بغض رکھتی تھے آپ کے دشمن تھے۔ انھوں نے حضرت علی(ع) سے جدائی اختیار کی آپ کو ذیتیں دیں، سب و شتم کیا۔ آپ پر ظلم کیا، آپ کے حریف بنے۔ آپ سے جنگ کی ۔ خود آپ پر اور آپ کے اہل بیت(ع) پر تلوار چلائی ، جیسا کہ اس زمانے کے بزرگوں کے حالات دیکھنے سے بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے۔

حالانکہ رسول اﷲ نے فرمایا تھا:

“ جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی اور جس نے علی(ع) کی اطاعت
۵۳۴

کی یقینا اس نے میری اطاعت کی اور جس نے علی(ع) کی نافرمانی کی بے شک اس نے میری نافرمانی کی۔”

نیز آںحضرت(ص) نے فرمایا :

“ جس نے مجھ سے جدائی اختیار کی اس نے  خدا سے جدائی اختیار کی اور اے علی(ع) تم دنیا میں سردار ہو اور آخرت میں سردار ہو تم سے محبت رکھنے والا مجھ محبت رکھنے والا ہے اور مجھ سے محبت رکھنے والا خدا سے محبت رکھنے والا ہے۔ اور تمھارا دشمن میرا دشمن اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے اور ہلاکت اس کے لیے جو میرے بعد تم سے بغض رکھے۔”

یہ بھی آپ نے فرمایا:

“ جس نے علی(ع) کو دشنام دی اس نے مجھے دشنام دی اور جس مجھے دشنام دی اس نے خدا کو دشنام دی۔”
یہ بھی آپ نے فرمایا :
“ جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی ۔”
یہ بھی آپ نے فرمایا:
“ جس نے علی(ع) کو دوست رکھا اس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے علی(ع) سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔”
یہ بھی آپ نے فرمایا کہ :
“ اے علی(ع) تم سے وہی محبت کرے گا جو مومن ہوگا اور تمہین وہی دشمن رکھے گا جو منافق ہوگا۔”
۵۳۵

یہ بھی آپ نے فرمایا :
“ خدا یا تو دوست رکھ اسکو جو علی(ع) کو دوست رکھے ، دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے، مدد کر اس کی جو علی(ع) کی مدد کرے اور ذلیل و خوار کر اس کو جو علی(ع) کی مدد ترک کرے۔”
ایک بار آںحضرت (ص) نے حضرت علی(ع) جناب سیدہ(س) اور حسن(ع) و حسین(ع) کو دیکھ کر فرمایا :
“ میں جنگ کرنے والا ہوں اس سے جو تم لوگوں سے جنگ کرے اور مجسم صلح ہوں اس کے لیے جو تم سے صلح کرے۔”
اور جب آپ نے ان حضرات کو چادر میں لیا تھا تو فرمایا:
“ میں برسر پیکار ہوں اس سے جو ان سے برسرپیکار ہو اور مجسم صلح ہوں اس کے لیے جو ان سے صلح کرے اور دشمن ہوں اس کا جو ان سے دشمنی رکھے۔”
اسی طرح کی باے شمار احادیث و سنن ہیں جن میں سے کسی ایک کو بھی بہیترے صحابہ نے نہیں مانا۔ کسی ایک پر بھی عمل نہ کیا، بلکہ اپنے ہوا و ہوس کو مقدم سمجھتے ہوئے اور ذاتی اغراض کو ترجیح دیتے ہوئے ان تمام احادیث و سنن کے خلاف و ضد پر عمل کیا۔
ارباب بصیرت جانتے ہیں کہ تمام سنن و احادیث جو حضرت علی(ع) کی فضیلت و بزرگی میں وارد ہوئی ہیں وہ مثل انھیں صریحی نصوص کے ہیں جو آپ کی موالات کے واجب اور آپ کی مخالفت کے حرام ہونے کے متعلق وارد ہوئیں۔ دونوں قسم کی حدیثوں کا ایک ہی مطلب ہے۔کیونکہ دونوں قسم کی حدیثیں صرف ایک بات پر دلالت کرتی ہیں اور وہ یہ کہ خدا و رسول(ص) کے
۵۳۶

 نزدیک آپ کی قدر ومنزلت بہت ہی جلیل ، آپ کی شان بہت ہی عظیم اور درجہ بہت بلند ہے۔

ہم نے اان احادیث و سنن میں سے بہت کچھ ابتدائی خطوط میں ذکر کیے اور جنہیں ذکر کیے وہ بے حد وحساب ہیں۔ ان لوگوں میں سے جن کی نگاہ سنن و احادیث میں بہت وسیع ہے اور ان کی معانی و مطالب بھی پوری طرح جانتے ہیں آپ ہی انصاف سے فرمائیں کہ ان احادیث و سنن میں کوئی ایسی حدیث بھی ملی جو امیرالمومنین(ع) کی مخالفت و عداوت اور آپ نے جنگ کرنے کی اجازت دیتی ہو۔ آپ کی ایذا رسانی، آپ سے بغض و عداوت جائز قرار دیتی ہو۔ آپ کی بیخ کنی، مظالم کے پہاڑ ڈھانے ،بسر منبر آپ کو برا بھلا کہنے کو مناسب بتاتی ہو اور مناسب ہی نہیں بلکہ جمعہ اور عید کے دونوں خطبوں کے لیے سنت قرار دیتی ہوں ہرگز نہیں اور قطعا نہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ان باتوں کے مرتکب ہوئے انھوں نے ان احادیث کے باوجود ان کے بکثرت اور بتواتر ہونے کے ذرہ برابر پرواہ نہیں کی۔ ان احادیث میں سے کوئی حدیث بھی سیاسی اغراض پوری کرنے میں ان کے لیے مانع نہ ہوسکی۔

وہ لوگ جانتے تھے کہ حضرت علی(ع) رسول(ص) کے بھائی ہیں، آپ کے ولی ہیں، وارث ہیں، ہمراز ہیں، آپ کی عترت کے سرگروہ ہیں آپ کی امت کے ہارون میں۔ آپ کی پارہ جگر کے کفو ہیں۔ آپ کی ذریت کے باپ ہیں اور ان تمام لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں۔ سب سے زیادہ خالص الایمان، سب سے زیادہ علم رکھنے والے۔ سب سے زیادہ عمل کرنے والے سب سے بڑھ کر بردباد، سب سے زیادہ یقین میں پختہ ، سب

۵۳۷

سے بڑھ کر اسلام کی خاطر مشقت جھیلنے والے، بلاؤں میں سب سے زیادہ عمدگی سے ثابت قدم رہنے والے، سب سے زیادہ فضائل و مناقب کے مالک اسلام کے سب سے زیادہ حامی، اور ان سب سے زیادہ رسول(ص) سے قرا بت رکھنے والے ہیں۔ رفتا، گفتار، اخلاق و عادات تمام باتوں میں سب سے زیادہ رسول(ص) سے مشانہ ہیں۔ قول و فعل اور خاموشی میں سب سے زیادہ بہتر و افضل ہیں۔

لیکن ذاتی اغراض ہی ان لوگوں کے لیے سب کچھ تھے۔ ہر دلیل پر مقدم تھے۔ لہذا اس کے بعد اگر وہ حدیث غدیر کو نہ مانیں اور ٹھکرا دیں اور اپنی رائے کو مقدم سمجھیں تو کون سا تعجب ہے۔ حدیث غدیر تو ان بے شمار احادیث میں سے فقط ایک حدیث ہے جسے ان لوگوں نے قابل تاویل سمجھا ، واجب العمل نہ جانا اور اپنی رائے و اجتہاد کو ترجیح دی ۔ اپنے مصالح کو مقدم جانا۔ حالانکہ رسول(ص) کہہ چکے تھے کہ :

“ میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اس سے متسمک رہوگے توکبھی گمراہ نہ ہوگے ۔ ایک تو کتاب خدا ہے دوسرے میری عترت و اہلبیت(ع)۔”
پیغمبر(ص) نے یہ بھی فرمایا تھاکہ:
“ میرے اہلبیت(ع) کی مثال تمھارے درمیان ایسی ہے جیسی کشتی نوح(ع)، جو کشتی نوح(ع)، پر سوار ہوا وہ تو بچا اور جو نہ سوار ہو جس نے گریز کیا وہ ہلاک و تباہ ہوا۔”
“ تمھارے درمیان میرے اہلبیت(ع) کی مثال ایسی ہے جیسی بنی اسرائیل کے لیے باب حطہ ۔ جو اس میں داخل ہوا خدا نے اسے بخش دیا۔”
۵۳۸

نیز یہ بھی فرمایا تھا کہ :

“ ستارے روئے زمین کے باشندوں کے لیے امان ہیں غرقابی سے اور میری عترت و اہلبیت(ع) میری امت کے لیے اختلاف سے باعث امان ہیں۔ پس اگر کوئی قبیلہ قبائل عرب سے میرے اہلبیت(ع) کا مخالف ہوگا تو وہ ابلیس کا گروہ بن جائے گا۔”
اسی جیسی اور بکثرت صحیح حدیثیں ہیں جن کو صحابہ نے مانا مگر ان پر عمل پیرا  نہ ہوئے۔

                                                             ش

۵۳۹

مکتوب نمبر51

حضرت علی(ع) نے بروزِ سقیفہ اپنی خلافت و جانشینی کی احادیث سے احتجاج کیوں نہ فرمایا؟

حق بخوبی واضح ہوگیا۔ خدا کا شکر ہے ۔البتہ ایک بات رہ گئی جس سے ذرا اشتباہ باقی رہتا ہے ، میں اس کا ذکر کرتا ہوں تاکہ آپ اس کی نقاب  کشائی بھی فرمائیں اور اس کا راز ظاہر فرمائیں اور وہ یہ ہے  کہ حضرت علی(ع) نے سقیفہ کے دن حضرت ابوبکر اور ان کی بیعت کرنے والوں کے آگے اپنی خلافت و وصایت کے متعلق کوئی نص بھی پیش نہیں کی۔ آپ بتاسکتے ہیں کہ کیوں؟

                                             س

۵۴۰