دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 262504
ڈاؤنلوڈ: 6008

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 262504 / ڈاؤنلوڈ: 6008
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جواب مکتوب

احتجاج نہ کرنے وجوہ

ساری دنیا جانتی ہے کہ نہ تو حضرت علی (ع) سقیفہ میں موجود تھے اور نہ آپ کے ماننے والوں میں کوئی ایک تھی تھا۔ خواہ وہ بنی ہاشم سے ہوں یا غیر بنی ہاشم کوئی بھی نہ تو بیعت کے وقت موجود تھا اور نہ سقیفہ کے اندر ہی گیا وہ تو بالکل الگ تھلگ تھے اور آںحضرت(ص) کی رحلت کی وجہ سے ان پر جو سخت ترین مصیبت نازل ہوئی تھی اسی میں مبتلا تھے۔ آںحضرت(ص) کے غسل و کفن کی فکر میں پڑے تھے۔ اس وقت انھیں کسی اور بات کے دھیاں بھی نہ تھا۔ یہاں تک کہ جب سقیفہ والوں نے اپنا کام کرلیا تو اب انھوں نے بیعت کو پختہ کرنے کا تہیہ کیا اور خلافت کی گرہ کو اچھی طرح مضبوط کرنے پر کمر بستہ ہوئے اور ہر وہ فعل و قول جس سے ان کی بیعت کمزوہ ہوسکتی یا ان کے عقد خلافت کو خدشہ لاحق ہوتا یا عوام میں تشویش و اضطراب پیدا ہوتا ۔ اس کے روکنے اس پر پہرہ بٹھانے کے لیے ایکا کر لیا۔

تو امیرالمومنین(ع) کو سقیفہ اور بیعت ابی بکر اور بیعت کرنے والوں سے تعلق ہی کیا تھا تاکہ ان پر آپ احتجاج فرماتے اور وہ بھی جب کہ بیعت ہو جانے کےبعد حکومت کے کرتا دھرتا پوری احتیاطی تدابیر کام میں لارہے تھے اور ارباب قوت و اقتدار اعلانیہ جبر و تشدد برت رہے تھے۔

آپ ہی فرمائیے آج کل اگر کوئی شخص حکومت سے ٹکر لینا چاہے، سلطنت

۵۴۱

 کا تختہ الٹنے پر آمادہ ہوتو کیا اس کے لیے آسان ہے اور کیا ارباب حکومت اس کو اس کے حال پر چھوڑ دینا گوارا کریں گے۔ ہر گز نہیں اور قطعا نہیں۔ اسی طرح اس زمانہ کا آجل کے زمانہ سے اندازہ کیجیے۔

اس کے علاوہ امیرالمومنین(ع) سمجھ رہے تھے کہ اب اگر میں احتجاج بھی کرتا ہوں تو سوا فتنہ و فساد کے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا اور اس نازک وقت میں حق تلفی آپ کو گوارا تھی لیکن یہ کسی طرح منظور نہ تھا کہ فتنہ وفساد برپا ہو کیونکہ امیرالمومنین(ع) اسلام پر آنچ آنے دینا نہیں چاہتے تھے نہ کلمہ توحید کی بربادی آپ کو گوارہ تھی جیسا کہ ہم گزشتہ اوراق میں بیان کرچکے ہیں کہ آپ ان دنوں ایسے شدید ترین مشکلات سے دوچار تھے کہ کسی شخص کو بھی ان مصائب و مشکلات کا سامنا نہ ہوا ہوگا۔

آپ کاندھوں پر دوبار گراں تھے۔ ایک طرف تو خلافت تمام نصوص وصایائے پیغمبر(ص) دل کو خون کر دینے والی آواز اور جگر کو چاک چاک کردینے والی کراہ کے ساتھ آپ سے فریاد ہی تھی آپ کو بے چین بنائے دیتی تھی دوسری طرف فتنہ و فساد کے اٹھتے ہوئے طوفان متاثر کررہے تھے جزیروں کے ہاتھ سے نکل جانے عرب میں انقلاب عظیم برپا ہونے اور اسلام کے بیخ و بن سے اکھڑ جانے کا اندیشہ تھا۔ مدینہ اور آس پاس کے منافقین جو بڑے سرگرم سازشی تھے ان کی طرف سےفتنہ و فساد برپا ہونے کا بڑا خطرہ لاحق تھا کیونکہ رسول(ص) کی آنکھ بند ہونے کے بعد ان کا اثر بہت بڑھتا جاتا تھا اور مسلمانوں کی حالت باکل اس بھیڑ بکری  جیسی ہو رہی تھی جو جاڑے کی تاریک راتوں میں بھیڑیوں اور وحشی درندوں میں بھٹکت پھرے۔

مسیلمہ کذاب، طلیحہ بن خویلد ، سجاح بنت حارث ایسے جھوٹے

۵۴۲

 مدعیاں نبوت پیدا ہوچکے تھے اور ان کے ماننے والے اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کی تباہی و بربادی پر تلے ہوئے تھے۔ قیصر و کسری وغیرہ تاک میں تھے ۔ غرض اور بہت سے دشمن عناصر جو محمد و آل محمد(ص) اور پیرواں محمد(ص) کے خون کے پیاسے تھے ملت اسلام کی طرف سے خار دل میں رکھتے تھے۔ بڑا غم و غصہ اور شدید بغض و عناد رکھتے تھے ، وہ اس فکر میں تھے کہ کسی طرح اس کی بنیاد منہدم ہوجائے اور جڑ اکھڑ جائے اور اس کے لیے بڑی تیزی اور سر گرمی ان میں پیدا ہوچکی تھی۔

وہ سمجھتے تھے کہ ہماری آرزوئیں بر آئیں رسول(ص) کے اٹھ جانے سے موقع ہاتھ آیا، لہذا اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئیے اور قبل اس کے کہ ملت اسلامیہ کے امور میں نظم پیدا ہو، حالات استوار ہوں اس مہلت سے چوکنا چاہئیے۔

اب حضرت علی(ع) ان دو خطروں کے درمیان کھڑے تھے ایک طرف حق چھین رہا تھا ، خلافت ہاتھوں سے جا رہی تھی ۔ دوسری طرف اسلام کے تباہ و برباد ہوجانے اور رسول(ص) کی ساری محنت مٹی میں جانے کا خوف تھا لہذا فطری و طبعی طور پر امیرالمومنین(ع) کے لیے بس یہی راہ نکلتی تھی کہ مسلمانوں کی زندگی کے لیے اپنے حق کو قبربان کردیں لیکن آپ نے اپنے حق خلافت کو محفوظ رکھنے اور انحراف کرنے والوں سے احتجاج کرنے کے لیے ایک ایسی صورت اختیار کی جس سے مسلمانوں میں اختلاف و افتراق نہ پیدا ہو اور کوئی فتنہ ایسا نہ اٹھ کھڑا ہو کہ دشمن موقع غنیمت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ لہذا آپ خانہ نشین ہوگئے اور جب لوگوں نے مجبور کر کے آپ کو گھر سے نکالا۔ بغیر لڑے بھڑے گھر سے باہر نکلے۔ اگر آپ جلد بازی

۵۴۳

سے کام لیتے تو آپ کی حجت پوری نہ ہوتی اور نہ شیعیان امیرالمومنین(ع) کے لیے کوئی ثبوت نمایاں ہوتا۔ آپ نے اپنے طرز سے دین کو بھی حفاظت کی اور اپنے حق خلافت کو بھی محفوظ رکھا۔

اور جب آپ نے دیکھا کہ اسلام کی حفاظت و دشمنوں کی دشمنی کا جواب موجود حالات کے اندر صلح و آشتی پر موقوف ہے تو خود مصالحت کی راہ نکالی اور امت کے امن و امان ، ملت کی حفاظت اور دین کو عزیز رکھتے ہوئے انجام کو آغاز سے بہتر سمجھتے ہوئے شرعا و عقلا اس وقت جو فریضہ عائد ہوتا تھا کہ جو زیادہ اہمیت کا حامل ہو اسے مقدم رکھا جائے۔ آپ نے حکام وقت سے صلح کر لی کیونکہ اس وقت کے حالات تلوار اٹھانے یا حجت و تکرار کرنے کے متحمل نہ تھے۔

ایسا بھی نہیں کہ آپ نے بالکل احتجاج ہی نہ فرمایا ہو۔ باوجود ان تمام باتوں کے آپ، آپ کے فرزند ، آپ کے حلقہ بگوش علماء آپ کے وصی ہونے پر اور آپ کے وصایت و جانشینی کے متعلق جو صریحی ارشادات پیغمبر(ص) ہیں ان کی تبلیغ و اشاعت میں بڑی حکمت سے کام لیا کیے۔ جیسا کہ تلاش و تجسس سے پتہ چلتا ہے ۔

ش

۵۴۴

مکتوب نمبر52   

حضرت علی(ع) نے کب احتجاج فرمایا؟

امام نے کب احتجاج فرمایا۔ آپ کے آل و اولاد ، آپ کے دوستداروں نے کن مواقع پر احتجاج کیا۔ ہمیں بھی بتائیے۔

                                                                     س

جواب مکتوب

حضرت علی (ع) اور آپ کے شیعہ کا احتجاج

امام نے ان نصوص اور ارشاداتِ پیغمبر(ص) کی نشرو اشاعت میں جو پیغمبر(ص)

۵۴۵

 نے آپ کی وصایت و خلافت کے متعلق فرمائے تھے بڑی دل جمعی سے کام کیا۔ چونکہ اسلام کی حفاظت جان سے بڑھ کر عزیز تھی اور مسلمان کے شیرازہ کا بکھر ناکسی طرح منظور تھا۔ اس لیے آپ نصوص کا تذکرہ کر کے اپنے دشمنوں سے جھگڑا مول نہیں لیا۔ چنانچہ آپ نے اپنے سکوت اختیار کرنے اور ان نازک حالات میں اپنے حق کا مطالبہ نہ کرنے کی معذرت بھی بغض مواقع پر فرمائی ہے چنانچہ فرماتے ہیں۔

“ کسی انسان کو اس وجہ عیب نہیں لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے حق کو حاصل کرنے میں دیر کی۔ عیب تو اس وقت لگانا چاہیے جب انسان حق نہ رکھتے ہوئے زبردستی کسی چیز کو حاصل کرے۔”

آپ نے نصوص کی نشر و اشاعت میں ایسے طریقے اختیار کیے جن سے حکمت کا پورا پورا مظاہر ہوا۔ یاد کیجیے ۔ رحبہ والا روز جس دن آپ اپنے زمانہ خلافت میں لوگوں کو کوفہ کے میدان میں جمع کیا تاکہ غدیر کی یاد دلائی جائے۔ آپ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا:

“ میں ہر مرد مسلمان کو قسم دیتا ہوں کہ جس نے غدیر خم میں اپنے کانوں سے رسول(ص) کو اعلان فرماتے سنا ہو وہ اٹھ کھڑا ہو۔ جو کچھ سنا تھا اس کو گواہی دے۔”

تو آپ کے یہ کہنے پر تیس صحابی اٹھ کھڑے ہوئے جن میں بارہ تو ایسے تھے جو جنگ بدر میں شریک رہ چکے تھے۔ ان سب نے حدیث غدیر کی گواہی دی جسے انھوں نے خود اپنے کانوں سے رسول(ص) کو ارشاد فرماتے سنا تھا۔

اس ناگفتہ بہ آشوب زمانے میں جب کہ حضرت عثمان کے قتل اور بصرہ و

۵۴۶

 شام میں فتنہ و فساد جاری رہنے کی وجہ سے فضا خراب تھی۔ زیادہ سے زیادہ امیرالمومنین(ع) یہی کرسکتے تھے اور یہی آپ نے کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ انتہائی ممکن صورت جو اس وقت احتجاج کرنے کی ہوسکتی تھی حکمت کے تمام پہلو سنبھالے ہوئے وہ یہی تھی۔ کون اندازہ کرسکتا ہے۔ امیرالمومنین(ع) کے محیرالعقول حکیمانہ طرز عمل کا کہ جب دنیا حدیث غدیر کو بھولتی جارہی تھی اور قریب تھا کہ کسی دماغ میں اس کی یاد بھی باقی نہ رہے آپ نے بھرے مجمع سے اس کو گواہی دلوا کر اسے حیات تازہ بخشی اور رحبہ کے میدان میں مسلمانوں کے سامنے غدیر خم کے موقع پر رسول(ص) کے اہتمام کی تصویر کشی کر کے وہ منظرہ یاد دلا دیا جب رسول(ص) نے ایک لاکھ بیس ہزار مسلمانوں کے درمیان بالائے منبر حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور پورے مجمع کو دکھا کر پہنچوا کر ارشاد فرمایا تھا کہ یہی علی(ع) میرے ولی ہیں۔ اسی واقعہ کے بعد حدیث غدیر احادیث متواترہ کا بہترین مصداق بن گئی۔

آپ غور فرمائیں حکیم اسلام کے طرز عمل پر کہ آپ نے بھرے مجمع میں انتہائی اہتمام و انتظام فرما کر صاف صاف لفظوں میں اس کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد غور کیجیے رحبہ کے دن امیرالمومنین(ع) کے حکمت سے لبریز طرز عمل پر دونوں واقعے کسی قدر ملتے جلتے اور ایک دوسرے پر پوری پوری مشابہت رکھتے ہیں وہاں پیغمبر(ص) نے مجمع کو قسم دے کر پوچھا کہ :

“ کیا میں تمھاری جانوں پر تم سے زیادہ قدرت واختیار نہیں رکھتا۔؟”

جب سارے مجمع نے اقرار کیا تو آپ نے فرمایا کہ :

“ جس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی(ع) بھی مولا ہیں۔”
۵۴۷

وہی روش امیرالمومنین(ع) یہاں بھی اختیار کرتے ہیں ۔ رحبہ میں مسلمان سے جن میں ہر خطہ ملک اور ہر قسم و قبیلہ کے افراد جمع تھے فرماتے ہیں اور قسم دیتے ہیں کہ جس جس نے غدیر کے میدان میں رسول(ص) کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور اپنے کانوں سے ارشاد فرماتے سنا ہو وہ اٹھے اور اٹھ کر گواہی دے۔

جس قدر حالات اجازت دےسکتے تھے امیرالمومنین(ع) نے اپنا حق جتلانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ ساتھ ہی ساتھ سکون و سلامت روی کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا جسے آپ بہر حال مقدم سمجھتے تھے۔

اپنی خلافت و وصایت سے لوگوں کو مطلع کرنے اور اشاداتِ پیغمبر(ص) جو آپ کی خلافت و امامت کے متعلق تھے اس کے نشر و اشاعت میں یہی طرز عمل امیرالمومنین(ع) کا ہمیشہ رہا چونکہ ناواقف و لا علمی افراد کو واقف کار بنانے کے لیے آپ ایسی ہی صورتیں اختیار فرماتے جو نہ تو کسی ہنگامے کا سبب ہو نہ ان سے بیزاری پیدا ہونے کا احتمال ہو۔

آپ ملاحظہ فرمائیے ۔ دعوت ذوالعشیرہ سے متعلق امیرالمومنین(ع) کی حدیث جسے تمام محدثین نے مرویاتِ امیرالمومنین(ع) کے ذیل میں درج کیا ہے۔ یہ حدیث طولانی اور بہت ہی مہتم بالشان حدیث ہے، ابتداء عہد اسلام سے آج تک اسے اعلام نبوت اور آیات اسلام میں سے شمار کیا جاتا ہے کیونکہ یہ حدیث حضرت سرور کائنات کے زبردست معجزہ نبوت یعنی تھوڑے کھانے سے بڑی تعداد میں لوگوں کو شکم سیر کردینے کے واقعہ پر مشتمل ہے۔ اسی طرح حدیث کے آخر میں ہے کہ حضرت امیرالمومنین(ع) کی گردن پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا :

“ یہ میرے بھائی ہیں۔میرے وصی ہیں تم میں میرے جانشین ہیں۔ تم ان کی بات سننا اور ان کی اطاعت کرنا۔”
۵۴۸

امیرالمومنین(ع) برابر اس حدیث کا تذکرة فرمایا کیے کہ رسالت ماب(ص) نے آپ سے فرمایا:
“ اے علی(ع) تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو”
اور نہ جانے کتنی مرتبہ آپ نے رسول(ص) کی یہ بات بیان کی کہ:
“اے علی(ع) میرے نزدیک تمھیں دہی منزلت حاصل ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔”
اور بار رہا آپ نے غدیر خم کے موقع پر رسول(ص) کی ارشاد فرمائی ہوئی حدیث دہرائی۔ رسول(ص) نے لوگوں سے خطاب کر کے پوچھا تھا کہ :
“ میں تم مومنین سے زیادہ تمھارے نفوس پر قدرت و اختیار نہیں رکھتا ؟ سب نے کہا بے شک ، اس پر آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں اس کے یہ علی(ع) ولی ہیں۔”  

  اس کے علاوہ اور بھی بے شمار حدیثین ہیں جن کی امیرالمومنین(ع) روایت فرماتے لوگوں سے بیان کرتے رہے، آپ نے پورے طور پر ثقہ اور مستند افراد میں ان احادیث کی اشاعت کی  اس پر پر آشوب زمانہ اور نازک حالات میں زیادہ سے زیادہ امیرالمومنین(ع) کے لیے یہی گنجائش تھی کہ آپ پیغمبر(ص) کے ان اقوال کا تذکرہ فرمائیں ، ان حدیثوں کی روایت فرمائیں اور اس طرح اپنے حقدار خلافت ہونے کو ابنائے زمانہ کے کانوں تک پہنچائیں اور امیرالمومنین(ع) نے اسے اٹھانہ رکھا ۔ جتنی حالات نے اجازت دی اتنی اشاعت فرماتے رہے۔

شوریٰ کے دن آپ نے مخالفین کے لیے عذر کی کون سی گنجائش باقی رہنے دی۔ خدا کا خوف دلانے میں کون سی بات اٹھا رکھی۔ اپنے جس قدر

۵۴۹

 خصوصیات و کمالات تھے ایک ایک کر کے گنائے، اپنے تمام فضائل و مناقب یاد دلا کر اپنے حقدار خلافت ہونے کو ظاہر کیا۔ ہر طرح ان ر احتجاج فرمایا :

پھر جب آپ خود سریر آرائے حکومت ہوئے تو برابر اپنی مظلومیت کا اطہار فرمایا کیے۔ شروع ہی سے مستحق خلافت ہونے کا ثابت کیا۔ ابتدا میں خلافت سےمحروم رکھے جانے پر آپ کو جو صدمہ ہوا ، اذیتیں پہنچیں ، بالائے منبر آپ نے اس کا شکوہ کیا، یہاں تک آپ نے فرمایا:

“ قسم بخدا اس جامہ خلافت کو زبردستی فلاں شخص نے پہن لیا حالاںکہ وہ اچھی طرح واقف تھا کہ کہ مجھے خلافت میں وہی جگہ حاصل ہے جو آسیا میں میخ کو حاصل ہوتی ہے ۔ مجھ سے علوم کے دریا بہتے ہیں اور وہ بلند منزلت ہے میری کہ طائر خیال بھی مجھ تک بلند نہیں ہوسکتا۔ مگر میں نے اس پر پردہ ڈال دیا اور اس سے پہلو تہی اختیار کی۔ میں عجیب کشمش و اضطراب میں تھا ۔ عجیب گومگو کی حالت تھی میری کہ میں اس کٹے ہوئے بازو سے حملہ کر بیٹھوں یا اس گھٹا ٹوپ تاریکی پر صبر کروں جس پر بڑا بوڑھا ہوجائے اور چھوٹا جوان ہوجائے اور مومن انتہائی اذیت میں اس وقت تک مبتلا رہے جب تک کہ خداوند عالم سے ملحق نہ ہو۔ میں نے دیکھا کہ ان دونوں باتوں میں صبر زیادہ بہتر ہے۔میں نے صبر کیا حالانکہ آنکھیں جل رہی تھیں اور گلا گھٹ رہا تھا کہ میری دولت لٹ رہی ہے۔”

اس پورے خطبہ (شقشقیہ ) کے آخر تک آپ نے اسی کا ماتم کیا۔

نہ جانے کتنی مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا ہوگا:

۵۵۰

“ پالنے والے! قریش اور ان کو مدد پہنچانے والوں کے مقابلہ میں تجھ سے طالبِ اعانت ہوں۔ انھوں نے قطع رحم کیا اورمیری بلندی منزلت کو حقیر و پست بنایا اور ایسی چیز کے واسطے جو حقیقتا میرے لیے ہے جس کا میں حقدار ہوں، مجھ سے جھگڑنے کے لیے ایکا کر بیٹھے ہیں۔”

“ثُمَّ قَالُوا: أَلَا إِنَّ فِي‏ الْحَقِ‏ أَنْ‏ تَأْخُذَهُ وَ فِي‏ الْحَقِ‏ أَنْ‏ تتركه

کسی کہنے والے نے امیرالمومنین(ع) سے کہا کہ:

“ اے فرزند ابوطالب(ع) ! آپ اس امر خلافت میں حریص معلوم ہوتے ہیں”

آپ نے فرمایا :

“ بلکہ تم قسم بخدا زیادہ حریص ہو۔ میں تو اپنا حق طلب کررہا ہوں، اور تم لوگ میرے اور میرے حق کے درمیان رکاوٹ بن رہے ہو۔”

نیز آپ نے ایک موقع پر فرمایا :

“ قسم بخدا میں ہمیشہ اپنے حق سے روکا گیا اور ہمیشہ مجھ پر دوسروں کو ترجیح دی گئی جس وقت سے رسول(ص) کی آنکھ بند ہوئی اس وقت سے لے کر آج تک ”

ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا :

“ وہ ہمارا حق ہے اگر ہمارا حق ہمیں دے دیا گیا تو خیر نہیں تو پھر ہم بھی چل کھڑے ہوں گے۔”
۵۵۱

“لَنَا حَقٌ‏ فَإِنْ أُعْطِينَاهُ وَ إِلَّا رَكِبْنَا أَعْجَازَ الْإِبِلِ وَ إِنْ طَالَ السُّرَى‏”(1)

ایک خط جو آپ نے اپنے(2) بھائی عقیل کو لکھا ۔ اس میں فرماتے ہیں :

“ بدلہ لینے والے ہماری طرف سے قریش کو بدلہ دیں انھوں نے میرا قطع رحم کیا اور میرے بھائی کی قوت و سطوت مجھ سے چھین لی۔”

امیرالمومنین (ع) نے بارہا فرمایا:(3)

“ میں نے اپنے گردو پیش نگاہ ڈالی ۔کوئی اپنا مددگار نظر نہ آیا لے دے کے بس میرے گھر والے تھے۔ میں نے ان کا مرنا گوارا نہ کیا۔ خس و خاشاک پڑے رہنے کے باوجود آنکھیں بند رکھیں اور گلہ گھٹ رہا تھا مگر پینے پر مجبور ہوا۔ سکوت اختیار کرنے اور علقم سے زیادہ تلخ گھونٹ پینے پر میں نے صبر کیا۔”

ایک مرتبہ آپ نے فرمایا(4) :

“ کہاں ہیں وہ لوگ جو ہمارے ہوتے ہوئے اپنے کو راسخین فی العل کہتے ہیں ۔ جھوٹ بولتے ہیں، سرکشی کرتے ہیں۔ خداوند عالم نے ہمیں سر بلند بنایا ، انھیں پست کیا۔ ہمین اپنی عطاؤں سے

--------------

1ـ نہج البلاغہ۔

2ـ نہج البلاغہ جز 3 صفحہ 67 چھتیسواں مکتوب۔

3ـ نہج البلاغہ جز اول خطبہ 35 صفحہ 68۔

4ـ نہج البلاغہ جز ثانی صفحہ 36

۵۵۲

مکتوب نمبر53

سلسلہ بیان کو مکمل کرنے کے لیے میری التجا ہے کہ آپ امیرالمومنین(ع) و جناب سیدہ(س) کے ماسوائے دیگر حضرات کے احتجاج ذکر فرمائیے۔

                                                             س

جواب مکتوب

عبداﷲ بن عباس کا احتجاج

میں آپ کی توجہ اس گفتگو کی طرف مبذول کرتا ہوں جو ابن عباس اور حضرت عمر کے درمیان ہوئی۔ ایک طولانی گفتگو کے دوران میں جب حضرت عمر نے یہ فقرہ کہا کہ :

۵۵۳

 “ اے ابن عباس تم جانتے ہو کہ رسول(ص) کے بعد خلافت سے تمھیں کس چیز نے محروم رکھا۔”

ابن عباس کہتے ہیں کہ :

“ میں نے مناسب نہ جانا کہ جواب دوں میں بولا : اے حضور! اگر میں نہیں جانتا تو آپ تو جانتے ہیں۔”

حضرت عمر نے کہا:

“ لوگوں کو یہ بات گوارا نہ ہوئی کہ نبوت و خلافت دونوں تم ہی میں جمع ہو کر رہ جائیں اور تم خوش خوش رہ کر اپنی قوم والوں کو روندو۔ لہذا قریش نے خلافت کو اپنے لیے چنا اور وہ اس خیال میں درستی پر تھے اور وہ موفق بھی ہوئے۔”

ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے کہا :

“ اے حضور! اگر مجھے بھی بولنے کی اجازت دیں اور خفا نہ ہوں تو کچھ عرض کروں۔”

حضرت عمر نے کہا:

“ ہاں ہاں کہو۔”

ابن عباس کہتے ہیں : تب میں نے کہا:

“ آپ کا یہ کہنا کہ قریش نے خلافت کو اپنے لیے اختیار کیا اور اس خیال میں وہ اس کے لیے موفق بھی ہوئے تو اگر قریش خدا کی مرضی سے اپنے لیے یہ اختیار کیے ہوتے ( یعنی خدا بھی انھیں خلافت کے لیے پسند کیے ہوتا) تو یقینا وہ حق پر تھے۔ نہ ان کی رد کی جاسکتی اور نہ ان پ رحسد کیا جاتا۔ آپ نے یہ جو کہا کہ قریش
۵۵۴

 والے راضی نہ ہوئے کہ خلافت و نبوت دونوں تمھارے ہی اندر رہیں تو خداوند عالم نے ایک قوم کی اسی راضی نہ ہونے پر ان الفاظ میں توصیف کی ہے۔

“ذلِكَ بِأَنَّهُمْ‏ كَرِهُوا ما أَنْزَلَ اللَّهُ‏  فَأَحْبَطَ أَعْمالَهُمْ‏”

“انھوں نے نا پسند کیا ان آیات کو جو خداوند عالم نے نازل کیں تو خدا نے بھی ان کے سارے اعمال خاک میں ملا دیے۔”
اس پر حضرت عمر بولے:“ وائے ہو اے ابن عباس تمھارے بارے میں مجھے کچھ باتیں معلوم ہوتی رہی ہیں۔ مجھے تو پسند نہیں کہ واقعا وہ صحیح ہوں جس کی وجہ سے تمھاری منزلت میرے نزدیک گھٹ جائے۔”
ابن عباس بولے:
“ حضور وہ کون سی باتیں ہیں، اگر وہ حق بجانب ہیں تب کوئی وجہ نہیں کہ میری منزلت آپ کے دل سے جاتی رہے۔ اگر وہ باطل پر ہیں تو میں ان سے کنارہ کشی پر تیار ہوں۔”
حضرت عمر نے کہا :
“ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم کہتے ہو کہ خلافت کو لوگوں نے ہم سے حسد کر کے ، باغی ہوکر اور از راہِ ظلم پھیر لیا۔”
ابن عباس کہتے ہیں کہ میں بولا:
“ سرکار آپ کا یہ جملہ  کہ از راہ ظلم پھیر لیا تو یہ ہر دانا اور نادان پر روشن ہے۔ رہ گیا یہ فقرہ کہ “ حسد کی وجہ سے ” تو اس کے متعلق عرض ہے کہ جناب آدم(ع) سے بھی حسد کیا گیا تھا اور ہم تو
۵۵۵

 انھی کی اولاد ہیں جن سے حسد کیا گیا۔”

تیسری گفتگو میں حضرت عمر نے کہا:

“ اے ابن عباس میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ علی(ع) واقعا مظلوم ہیں اور خلافت ان سے چھین کر ظلم کیا گیا۔”

اس پر ابن عباس کہتے ہیں  کہ میں نے کہا :

“ تو حضور خلافت انھیں واپس کیوں نہ کردیں۔”
اس پر حضرت عمر نے میرے ہاتھ سے  اپنا ہاتھ کھیچ لیا اور غراتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ پھر ٹھہر گئے میں قدم بڑھا کر پاس پہنچا ۔ حضرت عمر بولے :
“ اے ابن عباس میں تو یہ سمجھتا ہو کہ علی(ع) کو لوگوں نے صغیر السن سمجھ کر خلیفہ نہ ہونے دیا۔”
ابن عباس کہتے ہیں کہ اس پر میں بولا:“ مگر خدا کی قسم خدا و رسول(ص) نے تو اس وقت انھیں صغیر السن نہ جانا جب علی(ع) کو خدا اور رسول(ص) نے حکم دیا تھا کہ جاکر آپ کے دوست ابوبکر سے سورہ براءة لے لیں۔”(1)
ابن عباس کہتے ہیں کہ :“اس پر حضرت عمر نے منہ پھیر لیا اور جلدی سے آگے بڑھ گئے۔ میں پلٹ آیا۔”
ابن عباس اور حضرت عمر کی نہ جانے اس مسئلہ پر کتنی مرتبہ باتیں ہوئیں صفحات ماسبق میں وہ واقعہ آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں جب ابن عباس نے خوارج

--------------

1ـ شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ165۔

۵۵۶

کے مقابلہ میں علی(ع) کی دس(10) خصوصیات ذکر کر کے احتجاج فرمایا تھا بہت ہی جلیل الشان اور طولانی حدیث ہے ۔ اسی میں ابن عباس نے کہا تھا۔
“ حضرت سرورکائنات(ص) نے اپنے بنی عمام سے کہا کہ تم میں کون ایسا ہے جو دین و دنیا میں میرا ولی بنے۔ سب نے انکار کیا صرف علی(ع) نے آمادگی ظاہر کی کہ میں دین و دنیا میں آپ کا ولی ہوںگا یا رسول اﷲ(ص) ۔ اس پر سرورکائنات(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا تم دنیا و آخرت میں میرے ولی ہو۔”

آگے چل کر ابن عباس نے کہا:

“ رسول اﷲ(ص) جنگ تبوک کے لیے روانہ ہوئے لوگ بھی ہمراہ تھے حضرت علی(ع) نے پوچھا ۔ میں بھی ساتھ چلوں؟ رسول (ص) نے فرمایا نہیں، اس پر حضرت علی(ع) رونے لگے ۔ رسول (ص) نے فرمایا: اے علی(ع) کیا تم کو یہ بات گوارا نہیں کہ میرے نزدیک تمھاری وہی منزلت ہو جو ہارون (ع) کی منزلت تھی موسی(ع) کے نزدیک ، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ اے علی(ع) میرا جانا ممکن نہیں جب تک تمھیں میں یہاں اپنا جانشین چھوڑ کے نہ جاؤں۔”

ابن عباس کہتے ہیں کہ :

“ اور رسول(ص) نے یہ بھی فرمایا کہ اے علی(ع) ! تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو۔”

ابن عباس کہتے ہیں:

“ اور رسول(ص) نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کےعلی(ع) بھی مولا ہیں۔”
۵۵۷

بنی ہاشم کے اکثر افراد نے اسی طرح مختلف مواقع پر احتجاج کیا یہاں تک کہ امام حسن(ع) ، ابوبکر کے پاس جبکہ وہ منبر رسول(ص) پر بیٹھے تھے پہنچے اور کہا:

“ اترو، میرے باپ کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔”

ایسا ہی واقعہ امام حسین(ع) کا حضرت عمر کے ساتھ پیش آیا، وہ بھی منبر پر ایک مرتبہ بیٹھے تھے کہ امام حسین (ع) پہنچے اور آپ نے ان سے اتر آنے کو کہا۔

شیعی کتابوں میں بنی ہاشم اور بنی ہاشم کے طرفدار صحابہ و تابعین صحابہ کے بے شمار احتجاج موجود ہیں۔ آپ ان کی کتابوں میں ملاحظہ فرمائیے۔ صرف علامہ طبرسی کی کتاب الاحتجاج میں خالد بن سعید عاص اموی(1) ، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار یاسر، بریدہ اسلمی، ابوالہیثم ابن تیہاں و سہل و عثمان فرزندان حنیف، خزیمہ بن ثابت دوالشہادتیں، ابی ابن کعب ، ابو ایوب اںصاری وغیرہ میں سے ہر شخص کے احتجاج مذکور ہیں ۔ وہی کافی ہوں گے ۔

--------------

1ـ منجملہ ان لوگوں کے جنھوں نے ابوبکر کی خلافت نہ مانی خالدبن سعید بھی ہیں۔ تین مہینے تک انھیں انکار رہا۔ طبقات ابن سعد جلد4 ص70 ابن سعد نے لکھا ہے کہ جب ابوبکر نے شام کی طرف لشکر روانہ کیا تو انھیں خالد کو سردار مقرر کیا اور علم لشکر لے کر ان کے گھر پر آئے۔ اس پر عمر نے کہا تھا کہ تم خالد کو افسری دیتے ہو اور ان کے جو خیالات ہیں وہ تمھیں اچھی طرح معلوم ہیں۔ حضرت عمر اتنا یچھے پڑے کہ آخر ابوبکر نے آدمی بھیج کر علم واپس منگایا ۔ خالد نے واپس کردیا اور کہا تمھارے افسر بنانے سے تو پہلے مجھے خوشی ہوئی تھی نہ اب معزول کرنے سے مجھے رنج ہوا۔ حضرت ابوبکر نے ان کے گھر آکر عذر و معذرت کی اور کہا کہ عمر کو میرا آنا معذرت کرنا معلوم نہ ہونے پائے ۔ جس جس نے شام کی طرف لشکر کی روانگی کا ذکر کیا ہے اس واقعہ کی طرف ضرور اشارہ کیاہے۔ یہ واقعہ مشہور واقعات میں سے ہے۔

۵۵۸

اہل بیت طاہرین(ع) اور ان کے دوستدارن کے حالات کی چھا ن بین کیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ احتجاج کا جب بھی موقع ملا انھوں نے ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ مختلف طریقوں سے احتجاج فرمایا کیے۔ صاف صاف لفظوں میں ، کبھی اشارتا ، کبھی سختی سے ، کبھی نرمی سے، کبھی دوران تقریر میں، کبھی بصورت تحریر، کبھی نثر میں کبھی نظم میں، جیسا موقع ہوا اور نازک حالات نے جس صورت سے اجازت دی غافل نہیں رہے۔

یہی وجہ تھی کہ احتجاج کرنے والے نے بطور احتجاج و استدلال امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کا اکثر و بیشتر ذکر کیا جیسا کہ جستجو سے پتہ چلتا ہے۔

                                                     ش

۵۵۹

مکتوب نمبر54

کن لوگوں نے آپ کے وصی ہونے کا ذکر کیا اور کب احتجاج کیا؟ شاید وہی ایک مرتبہ جب جناب عائشہ کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا مگر جناب عائشہ نے تردید کر دی تھی جیسا کہ ہم قبل میں بیان کرچکے ہیں۔

                                                                     س

جواب مکتوب

خود امیرالمومنین(ع) نے بر سر منبر ذکر فرمایا ۔ ہم اصل عبارت صفحات ماسبق پر نقل کر چکے ہیں۔  نیز جس جس نے دعوت عشیرہ والی حدیث جس میں امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کی صاف صاف تصریح کی ہے روایت کی ہے اس نے امیرالمومنین(ع) ہی کی طرف اس حدیث کی نسبت دی ہے ۔ تمام اسناد آپ ہی تک

۵۶۰