دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)12%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272317 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

۲ _ خدائے يكتا كى پرستش ايسا راستہ ہے جو خدا كى طرف جاتا ہے اور لقاء الله پر جاكر ختم ہوتا ہے_و يصدون عن سبيل الله ''سبيل الله '' يعنى راہ خدا_ اور راہ خدا سے مراد ہوسكتا ہے وہ راہ ہو كہ جسے خداتعالى نے اہل ايمان كيلئے تعيين اور ترسيم كيا ہے اور ہوسكتا ہے اس سے مراد وہ راستہ ہو جو خدا كى طرف جاتا ہے اور اس تك پہنچتا ہے_

مذكورہ مطلب دوسرے معنى كى بنياد پر ہے_

۳ _ صدر اسلام كے مشركين كى طرف سے مسلمانوں كو مسجد الحرام كى زيارت اور عبادت خدا كى رسومات انجام دينے سے ممانعت_إن الذين كفروا و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام (''يصدون'' كے مصدر) ''صدّ'' كا معنى ہے روكنا اور منع كرنا اور ''يصدون'' كا مفعول محذوف ہے اور يہ در اصل يوں ہے ''يصدون الذين آمنوا )

۴ _ بارگاہ خداوندى ميں كعبہ بڑى عزت اور تقدس كا حامل ہے_و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام

لوگوں كو مسجد الحرام كى زيارت سے منع كرنے كى وجہ سے كفار كو دوزخ كے عذاب كے دھمكى مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

۵ _ حجاج كو مسجد الحرام ميں داخل ہونے سے منع كرنا لوگوں كو راہ خدا سے روكنے كا واضح نمونہ ہے_و يصدون عن سبيل الله و المسجد الحرام ''سبيل الله '' سے مراد_ جيسا كہ پہلے بتاچكے ہيں _ خدائے يكتا كى عبادت ہے_ اس چيز كى بناپر اور اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ مؤمنين كى طرف سے مسجدالحرام كى زيارت اور اسكے خاص اعمال (طواف، سعى و غيرہ) كو انجام دينا عبادت خدا كے مصداق شمار ہوتے ہيں اسے ''سبيل الله '' كے بعد ذكر كرنا ہوسكتا ہے اس معنى ميں ہوكہ زائرين كو مسجدالحرام ميں داخل ہونے سے روكنا راہ خدا سے روكنے كے واضح مصاديق ميں سے ہے_

۶ _ مسجدالحرام سب خداپرستوں كيلئے ہے اور كسى خاص گروہ كو يہ حق نہيں ہے كہ وہ لوگوں كو اسكى زيارت سے محروم كرے_الذى جعلنا للناس

۷ _ سب مسلمان (اہل مكہ اور ديگر اطراف اور ممالك كے) مسجدالحرام كے سلسلے ميں مساوى حق ركھتے ہيں _الذى جعلنه للناس سواء العاكف فيه و الباد ''سوائ'' بمعنى ''مستوي'' اور ''الناس'' كيلئے حال ہے اور ''عاكف'' كا معنى ہے مقيم (يعنى اہل مكہ) ''بادي'' يعنى اہل باديہ اور اس سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جو مكہ سے باہر ديگر سرزمينوں ميں رہتے ہيں يعنى ہم نے مسجدالحرام كو سب لوگوں كيلئے خلق

۵۰۱

كيا ہے _ اور اس سے بہرہ مند ہونے ميں مكى اور ديگر سرزمين كے لوگوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے ا ور كسى كو دوسرے پر برترى حاصل نہيں ہے_

۸ _ حجاج كو مكہ ميں داخل ہونے سے منع كرنا ان كے اس حق كى نسبت تجاوز ہے كہ جو خدانے ان كيلئے قرار ديا ہے_

و يصدون الذى جعلنه للناس

۹ _ اہل مكہ دوسروں كو مسجدالحرام كى زيارت سے روكنے كا حق نہيں ركھتے_الذى جعلنه للناس سواء العاكف فيه و الباد

۱۰ _ حج اور مسجدالحرام كى زيارت جزيرة العرب كے لوگوں كے درميان رائج رسومات_سواء العاكف فيه والباد

۱۱ _ ''مسجدالحرام'' جزيرة العرب كے لوگوں كے درميان ايك رائج اور جانا پہچانانام_و المسجد الحرام الذى جعلنه للناس

۱۲ _ مسجدالحرام كے احاطے ميں حق سے ہر قسم كے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز كا ممنوع ہونا_

و من يرد فيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم ''الحاد'' كا معنى ہے انحراف اور كج روى ''الحاد'' اور ''ظلم'' كے نكرہ ہونے سے معلوم ہوتا ہے كہ مسجدالحرام اور اسكى حدود ميں لوگوں كا مكمل طور پر امن اور سكون ميں ہونا ضرورى ہے اور اس سلسلے ميں ذرہ برابر انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز سے چشم پوشى نہيں كى جائيگي_

۱۳ _ ضرورى ہے كہ مكہ (مسجدالحرام اور اس كى حدود) سب لوگوں كيلئے امن كى جگہ ہو_سوا العاكف فيه والباد

۱۴ _ مسجدالحرام كى حدود ميں حق سے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز بہت بڑا گناہ ہے اور كج روى كرنے والے ا ور ستم گر لوگ سخت دنيوى سزا كے منتظر رہيں _و من يردفيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم

مذكورہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ''عذاب اليم'' سے مراد دنيوى سزا بھى ہو_

۱۵ _ دوزخ كا دردناك عذاب، مسجد الحرام كى حدود ميں حق سے ہر قسم كے انحراف اور دوسروں كے حقوق كى نسبت تجاوز كى سزا_

و من يرد فيه إيلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم

۱۶ _ حضرت علي(ع) سے روايت ہے كہ رسول خدا(ص) نے اہل مكہ كو اپنے گھر كو كرائے پر دينے اور انہيں دروازے

۵۰۲

لگانے سے منع كرتے ہوئے فرمايا''سوآء العاكف فيه و الباد'' (۱)

۱۷ _ ابوالصباح كنانى كہتے ہيں ميں نے خداتعالى كے فرمان ''و من يرد فيہ إےلحاد بظلم نذقہ من عذاب أليم'' كے بارے ميں سوال كيا تو آپ(ع) نے فرمايا ہر ظلم جوكوئي شخص مكہ ميں اپنے اوپر كرے چاہے وہ چورى ہو يا كسى دوسرے پر ظلم يا ہر قسم كا ستم ميں اسے الحاد اور انحراف سمجھتا ہوں(۲)

۱۸ _ امام صادق(ع) سے خداتعالى كے فرمان''و من يرد فيه إيلحاد بظلم'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا جو شخص مكہ ميں غيرخدا كى پرستش كرے يا اولياء خدا كے غير كى ولايت كو قبول كرے تو اس نے''إلحاد بظلم'' كيا ہے(۳)

اسلام:صد راسلام كى تاريخ ۳، ۱۶الحاد :۱۸انحراف:اسكى سزا ،۱۵; اس كا گناہ ۱۴

آنحضرت (ص) :آپ(ص) كے نواہى ۱۶

توحيد:توحيد عبادى كا انجام ۲عرب:انكى رسومات ۱۰

جزيرة العرب:اسكے لوگ اور حج ۱۰; اسكے لوگ اور مسجد الحرام ۱۱

جہنم:اسكے اسباب ۱، ۱۵حجاج:ان كے حقوق كى نسبت تجاوز ۸

حج:اسكى تاريخ ۱۰خود:خود پر ظلم ۱۷

روايت ۱۶، ۱۷، ۱۸

سبيل الله :اس سے روكنا ۵

چلنا:

____________________

۱ ) قرب الا سناد ۱۰۸ ح ۳۷۲_ تفسير برہان ج ۳ ص ۸۴ ح ۸_

۲ ) كافى ج ۴ ص ۲۲۷ ح ۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۳ ح ۶۰_

۳ ) كافى ج ۸ ص ۳۳۷ ح ۵۳۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۳ ح ۵۷_

۵۰۳

اسكے راستے ۲

ظلم كرنے والے:انكى دنيوى سزا ، ۱۴

عبادت:عبادت خدا كے ترك كے اثرات ۱; غيرخدا كى عبادت ۱۸; عبادت خدا كے ترك كرنے كا گناہ ۱

عذاب:دردناك عذاب ۱۵; اسكے درجے ۱، ۱۵; اخروى عذاب كے اسباب ۱، ۱۵

كعبہ:اسكى فضيلت ۴; اس كا تقدس ۴

كفر:خدا كے ساتھ كفر كے اثرات ۱; خدا كے ساتھ كفر كا گناہ ۱

گناہ:گناہان كبيرہ ۱۴; ناقابل بخشش گناہ۱

لقاء الله :اس كا پيش خيمہ ۲

لوگ:ان كے حقوق كى نسبت تجاوز ۱۲; ان كے حقوق كى نسبت تجاوز كى سزا ۱۵; ان كے حقوق كى نسبت تجاوز كا گناہ ۱۴

مسجد الحرام:اس كا امن ہونا ۱۳; اسكى زيارت كى تاريخ ۱۰; اسكى تاريخ ۱۱; اس ميں حقوق ۱۴; اسكى زيارت ۷، ۱۱; اس كا سب كيلئے ہونا ۶; اس ميں عبادت خدا سے روكنا ۳; اس سے روكنا ۳، ۵; اس ميں حق تلفى كا ممنوع ہونا ۱۲; اس سے روكنے كا ممنوع ہونا ۶، ۹; اسكى خصوصيات ۱۲، ۱۳

مسلمان:ان كے حقوق كا مساوى ہونا ۷; ان كے حقوق ۷

مكہ كے مسلمان:ان كے حقوق ۷

مكہ:اس كا امن ہونا ۱۳; اسكے گھروں كے دروازے ۱۶; اس ميں ظلم كا گناہ ۱۷; اس سے حاجيوں كو روكنا ۸; اسكے گھروں كو كرائے پر دينے سے نہى ۱۶; اسكى خصوصيات ۱۳

منحرفين:ان كى دنيوى سزا ،۱۴

موحدين:ان كے حقوق ۶

ولايت:اولياء الله كے غير كى ولايت كو قبول كرنا ۱۸

۵۰۴

آیت ۲۶

( وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئاً وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ )

اور اس وقت كو ياد دلاؤ جب ہم نے ابرہمى كے لئے بيت اللہ كى جگہ مہيا كى كہ خبردار ہمارے بارے ميں كسى طرح كا شرك نہ ہونے پائے اور تم ہمارے گھر كو طرف كرنے والے، قيام كرنے والے اور ركوع و سجود كرنے والوں كے لئے پاك و پاكيزہ بناؤ(۲۶)

۱ _ حضرت ابراہيم (ع) كے ہاتھوں كعبہ كى بنياد بہت اہم اور ايسا واقعہ ہے جو ياددہانى كرانے كے قابل ہے_

و اذ بوّانا لابراهيم مكان البيت ''اذ'' اسم زمان اور محل نصب ميں ہے اور يہ ''اذكر'' محذوف كا مفعول ہے يعنى ''يادكيجيئے اس وقت كو كہ جب ہم نے ...''

۲ _ كعبہ، حضرت ابراہيم (ع) كى عبادت كى جگہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

(''بوانا'' كے مصدر) ''تبوئة) كا معنى ہے مرجع اور مركز قرار دينا يعني'' اس زمانے كو ياد كيجيئے جب ہم نے كعبہ كى جگہ كو ابراہيم(ع) كيلئے رجوع كرنے كا مقام قرار ديا'' اور حضرت ابراہيم(ع) كا بار بار كعبہ كى جگہ كى طرف رجوع كرنا يا تو خدا كى عبادت كيلئے تھا اور يا اسے تعمير كرنے كيلئے مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بنياد پر ہے_

۳ _ كعبہ كى جگہ خداتعالى كى جانب سے عبادت كيلئے معين كردہ جگہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

۴ _ حضرت ابراہيم (ع) كعبہ كى بنياد ركھنے والے اور اسكے

۵۰۵

معمار_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت

۵ _ كعبہ، توحيد اور يكتاپرستى كى جلوہ گاہ_و إذ بوّانا لإبراهيم مكان البيت أن لا تشرك بى شيئ

۶ _ خدا كے علاوہ كوئي قابل پرستش نہيں ہے_أن لا تشرك بى شيئ

۷ _ عبادت ميں اخلاص اور اسے ہر قسم كے غير الہى عمل سے آلودہ كرنے سے پرہيز كرنا خداتعالى كى طرف سے حضرت ابراہيم كو نصيحت _أن لا تشرك بى شيئ

۸ _ شرك كے ساتھ آلودہ عبادت كى بارگاہ خداوندى ميں كوئي قدر و قيمت نہيں ہے_أن لا تشرك بى شيئ

۹ _ كعبہ بہت مقدس گھر اور بارگاہ خداوندى ميں بڑى عزت كا حامل ہے_و طهر بيتي

''بيت'' كى باء متكلم كى طرف اضافت، تشريفيہ اور مذكورہ مطلب كو بيان كررہى ہے_

۱۰ _ كعبہ كى توليت اور اسے زائرين كيلئے تيار كرنا، حضرت ابراہيم (ع) كے الہى وظائف ميں سے_و طهر بيتى للطائفين

۱۱ _ مسجد الحرام كى توليت اور اسے زائرين بيت الله كيلئے تيار كرنا توحيدى معاشرے كے رہنماؤں كى ذمہ دارى _

أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتى للطائفين

۱۲ _ شرك، طہارت و پاكيزگى سے دورى اور پليديگى و ناپاكى كے ساتھ آلودہ ہونا ہے_أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتي

۱۳ _ مسجد الحرام كى حرمت كى پاسدارى اور اسے ظاہرى آلودگيوں اور باطنى پليدگيوں (شرك كے مظاہر) سے محفوظ ركھنا ضرورى ہے_أن لا تشرك بى شيئاً و طهر بيتي

۱۴ _ طواف، قيام، ركوع اور سجود (نماز) مسجد الحرام كى زيارت كے آداب ميں سے_و طهر بيتى للطائفين و القائمين و الركع السجود ظاہر يہ ہے كہ ''القائمين و الركع السجود'' سے مراد نماز پڑھنے والے ہيں يعنى ميرے گھر كو طواف كرنے والوں اور نماز پڑھنے والوں كيلئے تيار كيجئے_

۱۵ _ مسجد الحرام كى زيارت ميں طواف كو نماز پر مقدم كرنا ضرورى ہے_للطائفين و القائمين و الركع السجود

۱۶ _ قيام، ركوع اور سجود نماز كے اركان ميں سے ہيں _و القائمين و الركع السجود

۱۷ _ طواف اور نماز، حضرت ابراہيم(ع) كى شريعت كى ذمہ داريوں ميں سے _طهر بيتى للطائفين و القائمين و الركع

۵۰۶

السجود

۱۸ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے جب خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كو كعبہ كى تعمير پر مأمور كياتوانہيں معلوم نہيں تھا كہ وہ كعبہ كو كہاں بنائيں تو خداتعالى نے جبرائيل كو بھيجا اور انہوں نے كعبہ كى جگہ پر ان كيلئے لكير كھينچ دي(۱)

ابراہيم (ع) :ان كے دين كى تعليمات ۱۷; انكو نصيحت ۷; انكى عبادت گاہ ۲; انكى ذمہ دارى ۱۰; ان كا نقش و كردار ۱، ۴

توحيد:توحيد عبادى ۶

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۷; اس كا نقش و كردار ۳

ذكر:كعبے كى تعمير كا ذكر، ۱

روايت ۱۸دينى راہنما:انكى ذمہ دارى ۱۱

شرك:شرك عبادى كا بے قدر و قيمت ہونا ۸; اسكى پليدگى ۱۲; اسكى حقيقت ۱۲

طواف:اسكى تاريخ ۱۷; يہ دين ابراہيم(ع) ميں ۱۷

عبادت:اس ميں اخلاص ۷; بے قدر و قيمت عبادت ۸

كعبہ:اس كا احترام ۹; اسے تعمير كرنے والے ۱; اس كا موسس ۴; اسكى تاريخ ۱، ۴; اسكى تطہير ۱۰; اس ميں عبادت ۲، ۳; اسكى فضيلت ۵، ۹; اس كا تقدس ۹; اس كے متولى ۱۰; اسكى تعيين كا سرچشمہ ۳، ۱۸; اس ميں توحيد عبادى كى نشانياں ۵

مسجد الحرام:اسكى زيارت كے آداب ۱۴; اسكى تطہير كى اہميت ۱۳; اسكى حفاظت كى اہميت ۱۳; اس ميں ركوع ۱۴; اس ميں سجدہ ۱۴; اس ميں طواف ۱۴، ۱۵; اسكے متولى ۱۱; اس ميں نماز ۱۴، ۱۵

نظريہ كائنات :توحيدى نظريہ كائنات ۶

نماز:اسكے اركان ۱۶; اسكى تاريخ ۱۷; اس ميں ركوع ۱۶; اس ميں سجدہ ۱۶; اس ميں قيام ۱۶; يہ دين ابراہيم(ع) ميں ۱۷

____________________

۱ ) تفسير قمى ج ۱ ص۶۲_ نورالثقلين ج ۱ ص ۱۲۸ ح ۳۷۶_

۵۰۷

آیت ۲۷

( وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالاً وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ )

اور لوگوں كے درميان حج كا اعلان كردو كہ لوگ تمہارى طرف پيدل اور لاغر سواريوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ہو كر آئيں گے (۲۷)

۱ _ حكم خدا سے حضرت ابراہيم (ع) كى طرف سے لوگوں كو حج كى دعوت_و أذن فى الناس بالحج

(''أذّن'' كے مصدر) ''تأذين'' كا معنى ہے اعلان كرنا اور ندا دينا يعنى اے ابراہيم(ع) لوگوں كے درميان جاؤ اور انہيں حج اور زيارت بيت الله كى دعوت دو_

۲ _ حج، دور و نزديك كے تمام لوگوں پر ايك الہى ذمہ داري_يأتوك رجالًا و على كل ضامر يأتين من كل فج عميق

''يأتوك'' شرط محذوف كى جزا ہے اور يہ در حقيقت يوں ہے''إن تأذن فيهم به يأتوك'' ،''رجال''، ''راجل'' كى جمع ہے يعنى ''پيدل'' اور ''ضامر'' كمزور اونٹ كو كہاجاتا ہے _

اور ''فج'' در حقيقت پہاڑ كے شكاف كے معنى ميں ہے اور يہاں پر اس سے مراد راستہ ہے ''عميق'' بعيد كا مترادف ہے يعنى دورپس مذكورہ جملے كا معنى يہ بنے گا اگر لوگوں كو حج كى طرف بلاؤ تو وہ تيرى دعوت پر لبيك كہتے ہوئے پيدل، سوار ہوكر اور دور و نزديك كے راستوں سے چل نكليں گے_

۳ _ تبليغ اور لوگوں كو حج و زيارت بيت الله كى دعوت دينا الہى رہنماؤں كى ذمہ داريوں ميں سے ہے_و أذّن فى الناس بالحج

۴ _ حج، حضرت ابراہيم(ع) (ع) كى شريعت كى ايك يادگار_و أذن فى الناس بالحج

۵ _ حضرت ابراہيم (ع) كى اقامت گاہ ،مسجد الحرام كے جوار

۵۰۸

ميں تھي_يأتوك رجال

جملہ ''يأتوك'' (تيرے پاس پيدل اور سوار ہوكر آئيں گے) سے معلوم ہوتا ہے كہ كعبہ كے مؤسس اسكے جوار ميں رہتے تھے اس طرح، كہ ہر زائر مسجدالحرام ميں داخل ہوتے وقت ان پر بھى وارد ہوتا تھا_

۶ _ دور و نزديك كے لوگوں كا حضرت ابراہيم(ع) پر پختہ ايمان اورحضرت ابراہيم(ع) كى ان كے درميان انتہائي محبوبيت اور نفوذ_و اذن فى الناس بالحج يأتوك رجالا و على كل ضامر

دور و نزديك كے لوگوں كا حضرت ابراہيم (ع) كى دعوت پر لبيك كہنا اور انكا پيدل اور سوار ہوكر كعبے كى زيارت كيلئے نكل پڑنا اور كى آپ(ع) كى شخصيت سے آشنائي اور ان كے درميان آپ(ع) كى محبوبيت كى علامت ہے_

۷ _ حضرت ابراہيم (ع) كے دين توحيدى كا خود ان كى زندگى ميں دور و نزديك كى سرزمين ميں پھيل جانا_يأتوك من كل فج عميق

۸ _ حضرت ابراہيم (ع) كا اپنے زمانے ميں ہر سال حج كى رسومات ميں شريك ہونا_يأتوك رجالًا و على كل ضامر

فعل مضارع ''يأتوك'' ہوسكتا ہے مفيد استمرار ہو لہذا ہر سال لوگوں كا حج كى رسومات ميں حضرت ابراہيم(ع) كے پاس آنا ان كے ہر سال حج كى رسومات ميں شركت كو بيان كررہا ہے_

۹ _ مراسم حج كو اسلامى معاشرے كے رہبر كى محوريت كے ساتھ انجام دينا ضرورى ہے_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

يہ جو خداتعالى نے فرمايا ہے كہ ''لوگ پيدل اور سوار ہوكر تيرے (ابراہيم(ع) ) پاس آئيں گے'' ہوسكتا ہے لوگوں كيلئے اس حكم پر مشتمل ہو كہ وہ پہلے الہى رہبر كى زيارت كيلئے جائيں اور اسكى رہبرى ميں مراسم حج كو انجام ديں _

۱۰ _ مناسك حج ميں اسلامى معاشرے كے رہبر سے ملاقات_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

۱۱ _ بارگاہ خداوندى ميں پيدل حج كى بڑى فضيلت اور قدر و قيمت_يأتوك رجالاً و على كل ضامر

پيدل لوگوں (رجالًا) كو سواروں (و على كل ضامر) پر مقدم كرنا ہوسكتا ہے مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہو_

۱۲ _ زمين مكہ كى سطح كى بلندى اسكے اردگرد كے مناطق سے زيادہ ہے_يأتوك من كل فج عميق

(''عميق'' كا مصدر) ''عمق'' اس طولانى مسافت كو كہا جاتا ہے كہ جو نيچے كى طرف ہو لہذا ''بعيد'' كى بجائے كلمہ ''عميق'' كا استعمال يا تو اس لحاظ سے ہے كہ سرزمين مكہ كى بلندى اسكے اردگرد كے مناطق سے چونكہ زيادہ ہے لہذا جو لوگ مكہ كى طرف آتے ہيں وہ نيچے سے اوپر كى جانب حركت كرتے ہيں اور يا اسلئے ہے كہ چونكہ

۵۰۹

زمين گيند كى صورت ميں ہے لہذا لوگوں كى دور سے حركت اوپر كى جانب حركت نظر آتى ہے مذكورہ مطلب پہلے فرضيے كى بنياد پر ہے _

۱۳ _ قرآن كا زمين كے گيند كى طرح اور اسكى سطح كے گول ہونے كى طرف اشارہ_يأتين من كل فج عميق

۱۴ _ عبيد الله بن على الحلبى كہتے ہيں ميں نے امام صادق (ع) سے سوال كيا كہ (حج ميں ) تلبيہ كيوں مقرر كيا گيا ہے؟ تو آپ(ع) نے فرمايا بيشك خداتعالى نے حضرت ابراہيم(ع) كى طرف وحى كى''و أذّن فى الناس بالحج يأتوك رجالًا'' پس حضرت ابراہيم نے ندا دى اور دور كے ہر راستے سے ''لبيك'' كے ساتھ حضرت ابراہيم(ع) كو جواب دياگيا(۱)

۱۵ _ امام صادق(ع) نے فرمايا كہ پيغمبراكرم دس سال مدينہ ميں رہے اور حج پر نہ گئے پھرخداتعالى نے آنحضرت پر نازل كيا''و أذن فى الناس بالحج يأتوك رجالاً و على كل ضامر يأتين من كل فج عميق'' پس پيغمبراكرم(ص) نے مناديوں كو حكم ديا كہ وہ بلند آواز كے سا تھ اعلان كريں كہ اس سال رسول الله (ص) حج پرجائيں گے(۲)

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كا حج۱۵

ابراہيم (ع) :آپ مسجد الحرام كے جوار ميں ۵; آپكى اقامت گاہ ۵; آپكے حج كا تسلسل ۸; آپ كے دين كى تعليمات ۴; آپكى شرعى ذمہ دارى ۱; آپكى دعوتيں ۱، ۱۴; آپ(ص) كى معاشرتى شخصيت۶; آپكے دين كا پھيلنا ۷; آپ كى محبوبيت ۶

ايمان:ابراہيم پر ايمان ۶

تلبيہ:اسكى تشريع كا فلسفہ ۱۴

حج:اسكے آداب ۹; اس كے احكام ۲; يہ دين ابراہيم ميں ۱۴ ; اسكى دعوت ۱، ۳، ۱۴; پيدل حج كى فضيلت ۱۱

روايت ۱۴، ۱۵

دينى رہنما:انكى ذمہ دارى ۳; حج ميں ان كے ساتھ ملاقات ۱۰; ان كا نقش و كردار ۹

شرعى ذمہ داري:سب كى شرعى ذمہ دارى ۲

زمين:اس كا گيند كى صورت ميں ہونا ۱۳

مكہ:اسكى بلندى ۱۲; اس كا جغرافيائي محل وقوع ۱۲

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۴۱۶ ب ۱۵۷ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۶ ح ۶۸_ ۲ ) كافى ح ۴ ص ۲۴۵ ح ۴; نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۷ ح ۷۲_

۵۱۰

آیت ۲۸

( لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ )

تا كہ اپنے منافع كا مشاہدہ كريں اور چند معين دنوں ميں ان چوپايوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا كئے ہيں خدا كا نام ليں اور پھر تم اس ميں سے كھاؤ اور بھو:ے محتاج افراد كو كھلاؤ (۲۸)

۱ _ حج ، لوگوں كيلئے فائدے و منفعت اور خير و بركت سے سرشار_وأذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم

''منافع''، ''منفعت'' كى جمع ہے يعنى نفع، خير و بركت_ اور اس كاجمع كى صورت ميں آنا حج كى بركات كى فراوانى كو بيان كررہا ہے اور اس كا نكرہ آنا ان بركات ميں سے ہر ايك كى عظمت كو بيان كررہا ہے _

۲ _ حج كى بركات سے بہرہ مند ہونا اسكى رسومات ميں شركت اور اسكے اعمال كى انجام دہى ميں منحصر ہے_وأذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم (''يشہدون'' كے مصدر) ''شہادة'' كا معنى ہے حاضر ہونا پس''ليشهدوا منافع لهم'' كا معنى يہ ہے كہ حج سب لوگوں كيلئے خير و بركت سے سرشار ہے اور جو انہيں حاصل كرنا چاہتا ہے اور ان سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے اس كيلئے ضرورى ہے كہ سفر كى مشقتوں كو برداشت كرے، اسكے مراسم ميں شركت كرے اور اسكے اعمال كو بجالائے_

۳ _ شريعت الہى ميں انسان كے دنيوي، اخروي، مادى اور معنوى پہلوؤں كى طرف توجہ _و أذن فى الناس بالحج ليشهدوا منافع لهم

چونكہ ''منافع'' كو دنيوي، اخروي، معنوى يا مادى كى قيد نہيں لگائي گئي پس كہا جاسكتا ہے كہ اس سے مراد،دينوي، اخروي، مادى اور معنوى سب بركات ہيں _

۵۱۱

۴ _ عرفات اور مشعر ميں وقوف كرنا (احرام كے بعد) مراسم حج ميں حاجيوں كى پہلى ذمہ دارى _يشهدوا منافع لهم

جملہ ''و يذكروا اسم الله ...'' قربانى كى رسومات سے مربوط ہے اور بعد والى آيت حلق، تقصير اور طواف كے بارے ميں ہے پس اس چيز كے پيش نظر كہ احرام باندہنے كے بعد مراسم حج بالترتيب يوں ہيں عرفات اور مشعر ميں و قوف، قربانى كرنا، حلق، تقصير اور طواف _ كہنا ہوگا كہ حضرت ابراہيم(ع) كى شريعت ميں حج، قربانى سے شروع اور طواف كے ساتھ ختم ہوتا تھا اور عرفات و مشعر كا وقوف مراسم حج ميں شا مل نہيں تھا يا يہ كہ جملہ ''ليشہدوا منافع لہم'' تشريع حج كے فلسفے كو بيان كرنے كے علاوہ عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے والے مسئلے كى طرف بھى ناظر ہے مذكورہ مطلب دوسرے احتمال كى بنياد پر ہے_

۵ _ عرفات و مشعر، حج كرنے والوں كيلئے كثير خيرو بركت كا مركز_ليشهدوا منافع لهم

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''ليشهدوا '' عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے سے مربوط ہو_

۶ _ عرفات و مشعر ميں حاضر ہونے كے بعد قربانى كرنا حج كے واجب اعمال ميں سے ہے _و يذكروا اسم الله على مارزقهم من بهيمة الأنعام

۷ _ قربانى كو ذبح يانحر كرتے وقت الله كا نام لينا ضرورى ہے_و يذكروا اسم الله على ما رزقهم من بهيمة الأنعام

۸ _ لوگوں كو ذبح كرنے كى طريقے كى تعليم دينا (جانور كو نحر يا ذبح كرتے وقت خدا كا نام لينا)حج كے فلسفوں ميں سے ايك ہے_ليشهدوا منافع لهم و يذكروا اسم الله فى ايام معلومات ''يذكروا'' كا عطف ''ليشہدوا'' پر ہے اور اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ اس كا لام تعليل كيلئے ہے اور يہ حج كى تشريع كے فلسفے كو بيان كررہا ہے ''يذكروا'' كا ''يشہدوا'' پر عطف تشريع حج كے ايك اور فلسفہ كا بيان ہے_

۹ _ قربانى والے حكم كا انجام دينا خاص اور معين وقت پر موقوف ہے (دس سے تيرہ ذى الحج تك)_و يذكورا اسم الله فى ايام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الانعام اہل بيت (ع) سے وارد ہونے والى روايات كى بنياد پر ''ايام معلومات'' سے مراد ذى الحج كے ايام تشريق (دس سے تيرہ تك) ہيں _

۱۰ _ قربانى كو ذبح يانحر كرتے وقت خداتعالى كے اسما (الله ، رحمان و غيرہ) ميں سے ہر ايك كے ذكر كا جواز_و يذكروا اسم الله ہوسكتا ہے ''اسم'' كى ''الله '' كى طرف اضافہ بيانيہ ہو اس صورت ميں ''اسم اللہ'' يعنى وہ نام كہ جو اللہ سے عبادت ہے اسى طرح اضافہ لاميہ

۵۱۲

بھى ہوسكتاہے اس صورت ميں '' اسم اللّہ'' يعنى ہر وہ نام كہ جو خدا كے لئے ہو پہلے احتمال كى بناپر قربانى كے وقت ''اللّہ'' كے لفظ كے علاوہ كسى اور لفظ كا لينا جائز نہيں ہے برخلاف احتمال دوم گذشتہ مطلب دوسرے احتمال كى بناپر ہے_

۱۱ _ دس ذى الحج كے بجائے گيارہ، بارہ اور تيرہ ذى الحج كو قربانى كرنے كا جواز _و يذكروا اسم الله فى أيام معلومات من بهيمة الأنعام

۱۲ _ اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى ميں سے ہر ايك كى قربانى كرنا جائز ہے_على ما رزقهم من بهيمة الانعام

(''نعم'' كى جمع) ''انعام ''كا اصلى معنى ''اونٹ'' ہے ليكن بعض اوقات اونٹ گائے اور بھيڑ بكرى كے مجمموعے پر بھى اس كا اطلاق ہوتا ہے تمام مفسرين كے نظريے كے مطابق يہاں پر اس سے مراد دوسرا معنى (اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى كا مجموعہ) ہے قابل ذكر ہے كہ ''بہيمہ'' كا معنى ہے ''چوپايہ'' اور اس كى ''أنعام'' كى طرف اضافت بيانيہ ہے يعنى وہ چوپايہ جو اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى ہے_

۱۳ _ اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى انسانوں كى روزى اور ان كيلئے خدا كى عطا ہے_على ما رزقهم من بهيمة الأنعام

۱۴ _ قربانى كے گوشت سے استفادے كا حرام ہونا جاہليت كے عربوں كا باطل خيال _فكلوا منه قربانى كے گوشت كے استعمال كو جائز كرنا جاہليت كے عربوں كے باطل خيال كى طرف ناظر ہے كہ جو اسے حرام سمجھتے تھے_

۱۵ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى حلال گوشت چوپائے ہيں _على ما رزقهم من بهيمة الأنعام فكلوا منه

۱۶ _ حجاج كيلئے قربانى كے گوشت كے استعمال كا جواز_فكلوا منه

۱۷ _ حج كے موقع پر قربانى كے گوشت سے تنگدست لوگوں كو اطعام كرنے كا ضرورى ہونا_و ا طعموا البائس الفقير

۱۸ _ قربانى كے پورے گوشت كو استعمال كرنا جائز نہيں ہے_فكلوا منها و ا طعموا البائس الفقير

''منہا'' ميں ''من'' تبعيضيہ ہے پس ''كلوا منہا'' يعنى اس كا ايك حصہ كھاؤ (نہ پورا)

۱۹ _ لوگوں كى مدد اور تنگدستوں اور ضرورتمندوں كى دستگيرى كرنا حج كے فلسفوں ميں سے اور اس كا ايك سبق ہے_

و أطعموا البائس الفقير

۲۰ _ ربيع بن خيثم كہتے ہيں ميں نے امام صادق (ع) كو ديكھا كہ آپ(ع) نے فرمايا ميں نے خداتعالى كو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے''ليشهدوا منافع لهم'' تو ميں نے امام (ع) سے عرض كيا ''منافع'' سے مراد دنياوى فوائدہيں يا اخروي؟ تو آپ(ع) نے فرمايا سب

۵۱۳

منافع(۱)

۲۱ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ خداتعالى كے كلام ''ويذكروا اسم الله '' ميں ذكر سے مراد وہ تكبيريں ہيں جو پندرہ نمازوں ميں _ كہ جن ميں سے پہلى عيدوالے دن ظہر كى نماز ہے_ كہى جاتى ہيں(۲)

۲۲ _ امام صادق(ع) سے الله تعالى كے فرمان ''و يذكروا اسم الله فى أيام معلومات'' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ انہوں نے فرمايا اس سے مراد ايام تشريق ہيں(۳)

۲۳ _ صفوان بن يحيى كہتے ہيں ميں نے امام كاظم(ع) سے عرض كيا شخص كسى كو كھال اتارنے كيلئے قربانى ديتا ہے اسكى كھال كے مقابلے ميں يعنى كھال كو اپنى مزدورى كے طور پر لے لے_ (تو اس كا حكم كيا ہے) _

فرمايا اس ميں كوئي اشكال نہيں ہے كيونكہ خداتعالى نے فرمايا ہے ''فكلوا منہا و أطمعوا'' اور كھال نہ كھائي جاتى ہے اور نہ (اسكے ذريعے) اطعام كيا جاتا ہے(۴)

احكام ۴، ۶، ۷، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸/جاہليت:اسكے مشركين كى سوچ ۱۴; اسكى رسومات ۱۴

چوپائے:ان كے گوشت كى حليت ۱۵/حجاج:ان كا حج كى قربانى سے استفادہ كرنا ۱۶

حج:اسكے اثرات ۲; اسكے احكام ۴، ۶، ۹، ۱۶، ۱۷; اسكى قربانى كے گوشت سے استفادہ كرنا ۱۸; اسكى بركات۱; اسكى قربانى كى كھال ۲۳; اسكى قربانى كو مؤخر كرنا ۱۱; اسكى تعليمات ۱۹; اس ميں تكبير ۲۱; اس كا خير ہونا ۱; اس ميں گائے كو ذبح كرنا ۱۲; اس ميں بھيڑ بكرى كو ذبح كرنا ۱۲; اسكى بركات كا پيش خيمہ ۲; اس كا فلسفہ ۸، ۱۹; اسكى قربانى ۶، ۱۲; اسكى قربانى كا گوشت ۱۶، ۱۷; اسكى قربانى كے مصارف ۱۷; اسكے مناسك ۴، ۶، ۹، ۱۱، ۱۲;اسكے اخروى منافع ۲۰; اسكے منافع۱; اسكے دنيوى منافع ۲۰; اس ميں اونٹ كو نحر ركنا ۱۲; اسكے واجبات ۶; اسكى قربانى كا وقت ۹

حلال جانور :۱۵/خداتعالى :اسكى روزى ۱۳; اسكے عطيے ۱۳/كھانے كى چيزيں :ان كے احكام ۱۵; كھانے كى حلال چيزيں ۱۵

دين:

____________________

۱ ) كافى ج۴ ص ۴۲۲ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۸۸ ح ۷۷_/ ۲ ) عوالى اللئامى ج ۲ ص ۸۸ ح ۲۳۷_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۰ ص ۸۲_

۳ ) معانى الاخبار ص ۲۹۷ ح ۱، ۳_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۰ ح ۸۴_

۴ ) علل الشرائع ص ۴۳۹ب ۱۸۲ ح ۱_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۹ ح ۱۳۹_

۵۱۴

اسكے اخروى پہلو ۳; اسكے مادى پہلو ۳; اسكے معنوى پہلو۳; يہ اور عينيت ۳

ذبح:اسكے احكام ۷، ۱۰; اس ميں بسم الله ۷،۸، ۱۰; اسكى تعليم ۸

ذكر:ذكر خدا ايام تشريق ميں ۲۲; ذكر خدا حج ميں ۲۱

روايت : ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳

اونٹ:اسكے گوشت كا حلال ہونا ۱۵

عرفات:اسكى بركات ۵; اس كا خير ہونا ۵; اس ميں وقوف ۴

فقرا:انہيں اطعام كرنا ۱۷; انكى حاجت روائي كى اہميت ۱۹

قرباني:جاہليت ميں اسكے گوشت كى تحريم ۱۴

گائے:اسكے گوشت كى حليت ۱۵

بھيڑ بكري:اسكے گوشت كى حليت ۱۵

مسجدالحرام:اسكى بركات ۵; اس كا خير ہونا ۵

مشعرالحرام:اس ميں وقوف كرنا ۴

نعمت:اونٹ كى نعمت ۱۳; گائے كى نعمت ۱۳; بھيڑ بكرى كى نعمت ۱۳

آیت ۲۹

( ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ )

پھر لوگوں كو چاہئے كہ اپنے بدن كى كثافت كو دور كريں اور اپنى نذروں كو پورا كريں اور اس قديم ترين مكان كا طواف كريں (۲۹)

۱ _ مراسم حج كى انجام دہى كے بعد تقصير اور احرام سے خارج ہونے كا وجوب _و يذكروا اسم الله ثم ليقضوا تفثهم

(''يقضون'' كے مصدر قضا) كا معنى ہے كاٹنا اور جدا كرنا ''تفث'' يعنى وہ غبار اور ميل جو بدن پر ہوتى ہے پس''ثم ليقضوا تفثهم'' يعنى حاجى

قربانى كى رسومات ادا كرنے كے بعد اپنے سر اور ناخن تراش كر كے كہ جسے احرام كى وجہ سے انجام نہيں دے سكے تھے_ اپنے آپ كو صاف كريں اور يہ احرام سے خارج ہونے سے كنايہ ہے_

۵۱۵

۲ _ طواف بجالانے كيلئے آلودہ اور بے ہنگم سر اور بدن كے ساتھ مسجدالحرام ميں داخل ہونا ممنوع ہے_ثم ليقضوا تفثهم

۳ _ تقصير اور احرام سے خارج ہونے كے بعد نذر كى ادائيگى كا ضرورى ہونا_و ليوفوا نذورهم

۴ _ تقصير اور احرام سے خارج ہونے كے بعد طواف كا لازم ہونا_ثم ليقضوا تفثهم و ليطّوفّو

۵ _ تقصير اور طواف كى ادائيگى كو قربانى كرنے كے بعد تك مؤخر كرنا جائز ہے_ثم ليقضوا تفثهم و ليطوفو

''ثم '' كہ جو تراخى زمان كيلئے ہے _ كا استعمال مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے _

۶ _ كعبہ كا اپنا ماضى اور تاريخ ہے_بالبيت العتيق ''عتيق'' ہر اس چيز كو كہا جاتا ہے كہ جو وقت، جگہ يا مرتبے كے لحاظ سے تقدم ركھتى ہو اسى وجہ سے قديم كو بھى عتيق كہتے ہيں ''بيت عتيق'' يعنى وہ گھر جو اپنا ماضى اور تاريخ ركھتا ہے_

۷ _ عبدالله بن سنان كہتے ہيں ميں امام صادق (ع) كے پاس آيا اور ان سے عرض كى آپ(ع) پر قربان جاؤں خداتعالى كے فرمان ''ثم ليقضوا تفثهم '' (سے مقصود) كيا ہے تو آپ(ع) نے فرمايا: (اس سے مقصود) مونچھيں كاٹنا، ناخن اتارنا و غيرہ ہے(۱)

۸ _ اميرالمؤمنين (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ انہوں نے خداتعالى كے فرمان''ثم ليقضوا تفثهم و ليوفوا نذورهم و ليطوفوا بالبيت العتيق'' كے بارے ميں فرمايا ''تفث'' سے مراد رمى جمرات اور سر منڈہوانا ہے اور ''نذور'' سے مراد وہ ہے كہ جس نے پيدل جانے كى نذر كى ہو اور طواف سے مراد طواف زيارت ہے(۲)

شايد مقصود يہ ہو كہ كسى نے منا سے مكہ پيدل جانے كى نذر كى ہو نہ اپنے وطن سے پيدل مكہ جانے كى كيونكہ اس صورت ميں يہ آيت كے ظاہر كے ساتھ متناسب نہيں ہے_

۹ _ امام صادق(ع) سے روايت كى گئي ہے آپ(ع) نے خداتعالى كے فرمان''و ليطوفوا بالبيت العتيق'' كے بارے ميں فرمايا (اس سے مراد) طواف النساء ہے(۳)

____________________

۱ ) كافى ج ۴ ص ۵۴۹ ح ۴_ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۲ ح ۹۷_

۲ ) دعائم الاسلام ج ۱ ص ۳۳۰_ بحارالانوار ج ۹۶ ص ۳۱۲ ح ۳۹_

۳ ) كافى ج ۴ ص ۵۱۳ ح ۲_ تہذيب شيخ طوسى ج۵ ص ۲۵۳ ح ۱۵_

۵۱۶

۱۰ _ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ طوفان نوح كے روز خداتعالى نے پورى زمين كو غرق كرديا سوائے بيت (الله ) كے پس اس دن اسے ''عتيق'' كا نام ديا گيا كيونكہ اس دن يہ غرق ہونے سے آزاد ہوا(۱)

۱۱ _ ابوحمزہ ثمالى كہتے ہيں ميں نے مسجدالحرام ميں امام صادق (ع) سے عرض كيا كيوں خداتعالى نے (بيت الله ) كو عتيق كا نام ديا ہے،؟ تو آپ(ع) نے فرمايا خداتعالى نے زمين پر كوئي گھرنہيں بنايا مگر يہ كہ اس كے مالك ہيں اور اس ميں لوگ رہتے ہيں سوائے اس گھر كے كہ جس كا خدائے عزوجل كے علاوہ كوئي مالك نہيں ہے اور يہ (افراد كى ملكيت سے) آزاد ہے(۲)

احكام: ۲، ۳، ۴، ۵

حج:اسكے احكام ۳، ۵; اس ميں تقصير كو مؤخر كرنا ۵; اس ميں طواف كو موخر كرنا ۵; اس ميں تقصير ۱، ۳، ۴، ۷; اس ميں رمى جمرات ۸; اس ميں منڈہوانا ۸; اس ميں طواف ۸، ۹; اس ميں قربانى ۱; اسكے اعمال ۱، ۴، ۷، ۸، ۹; اس ميں نذر ۸; اسكے واجبات ۱، ۴ ; روايت ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱

طواف:اسكے آداب ۲; اسكے احكام ۴; طواف النساء ۹

كعبہ:اسكى تاريخ ۶، ۱۰; اس كا نام ركھنے كا فلسفہ ۱۰، ۱۱; اس كا قديمى ہونا ۶; يہ طوفان نوح كے وقت ۱۰; اسكى مالكيت ۱۱

مسجدالحرام:اسكے آداب ۲; اس ميں پاكيزگى ۲

نذر:اسكے احكام ۳; اسكى وفا ۳

____________________

۱ ) علل الشرائع ج ۲ ص ۳۹۹ ح ۵_ نورالثقلين ج۳ ص ۴۹۴ ح ۱۱۴_

۲ ) كافى ج ۴ ص ۱۸۹ ح ۵ نورالثقلين ج ۳ ص ۴۹۴ ح ۱۰۹_

۵۱۷

آیت ۳۰

( ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ )

يہ ايك حكم خدا ہے اور جو شخص بھى خدا كى محترم چيزوں كى تعظيم كرے گا وہ اس كے حق ميں پيش پروردگار بہترى كا سبب ہوگى اور تمہارے لئے تمام جانور حلال كردئے گئے ہيں علاوہ ان كے جن كے بارے ميں تم سے بيان جائے گا لہذا تم نا پاك بتوں سے پرہيز كرتے رہو اور لغو اور مہمل باتوں سے اجتناب كرتے رہو (۳۰)

۱ _ حج اور اسكے اعمال، خداتعالى كے نزديك بلند مقام و مرتبے كے حامل ہيں _و أذن فى الناس بالحج و ليطوفوا بالبيت العتيق ذلك ''ذلك'' ان تمام مطالب كى طرف اشارہ ہے كہ جو يہاں تك حج اور اسكے اعمال كے بارے ميں بيان ہوئے ہيں اور يہاں پر ''ذلك'' كے ا ستعمال سے غرض سابقہ اور بعد والے كلام كے درميان فاصلہ كرنا اور ايك اہم مطلب سے دوسرے اہم مطلب كى طرف منتقل ہونا ہے ايسے موارد ميں كلمہ ''ہذا'' كو استعمال كرتے ہيں جيسے ''ہذا و إن للطاغين لشرمآب'' (ص ۵۵۳۸) اس بناپر ''ذلك'' كہ جو بعيد كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے_ كا استعمال ممكن ہے بارگاہ خداوندى ميں حج اور اسكے اعمال كى اعلى قدر و منزلت كو بيان كرنے كيلئے ہو_

۲ _ حدود و احكام الہى كى تعظيم كرنے، انہيں معمولى نہ سمجھنے اور ان كے حريم سے تجاوز نہ كرنے كا ضرورى ہونا_

و من يعظم حرمت الله

('' يعظم'' كے مصدر) تعظيم كامعنى ہے بڑا سمجھنا ''حرمات''، ''حرمت'' كى جمع ہے يعنى وہ چيز كہ جسكى ہتك كرنا ممنوع اور اسكى حفاظت كرنا واجب ہے ''حرمات الله '' يعنى وہ حدود و احكام كہ جو خدا كى طرف سے مشخص كئے گئے ہيں اور لوگوں كا فريضہ ہے كہ انكى رعايت كريں _ يہ مذكورہ جملہ خداتعالى كى طرف سے اہل ايمان كو نصيحت ہے كہ وہ حتماً حدود و احكام الہى كو بڑا سمجھيں اور ان كے حريم ميں تجاوز كرنے سے سخت پرہيز كريں _

۵۱۸

۳ _ حدود و احكام الہى كى تعظيم ، انہيں بڑا سمجھنا اور ان كے حريم كى رعايت كرنا اہل ايمان كيلئے خير و سعادت اور خوشبختى كا سبب ہے_و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه ''فهو خيرله'' كى ''ہو'' خير كا مرجع (''يعظم'' كا مصدر ) تعظيم ہے يعنى''فالتعظيم خير له عند ربه''

۴ _ خداتعالى كے احكام اور حدود، انسان كى سعادت اور بھلائي كيلئے ہيں _ومن يعظم حرمت الله فهوخير له عند ربه

۵ _ قوانين اور احكام الہى كو معمولى سمجھنا اور ان كى حرمت شكنى انسان كى بدبختى اور شقاوت كا سبب ہے_

و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه ''تعظيم'' ''تحقير'' كى ضد ہے پس جملے كا مفہوم يوں ہوگا''و من يحقر حرمات الله فهو شر له عند ربه''

۶ _ خداتعالى ، انسانوں كا پروردگار ہے_عند ربه

۷ _ خداتعالى كى طرف سے سعادت بخش احكام و قوانين كا وضع كرنا اسكى ربوبيت اور پروردگار ہونے كا مقتضا ہے_

و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه

۸ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى حلال گوشت جانور ہيں _و أحلت لكم الأنعام ''أنعام'' (''نعم'' كى جمع) در اصل اونٹ كے معنى ميں ہے پس انعام يعنى اونٹ ليكن بعض اوقات ''انعام'' بول كر اس سے مجموعى طور پر اونٹ، گائے اور بھيڑ بكرى مراد ليتے ہيں مذكورہ جملے ميں ''انعام'' دوسرے طريقے سے استعمال كيا گيا ہے_ قابل ذكر ہے كہ جملہ''أحلت لكم الأنعام'' ،''أحلت لكم أكل لحوم الأنعام'' كى تقدير ميں ہے يعنى تمہارے لئے اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى كا گوشت كھانا حلال ہے_

۹ _ اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى كے گوشت سے استفادہ كرنا حلال اور جائز ہے سوائے ان موارد كے كہ جن ميں الله تعالى نے انہيں حرام كيا ہے_

۱۰ _ خداتعالى كى جانب سے كھانے كى حرام چيزوں كے بارے ميں متعدد آيات كا نازل ہونا اور لوگوں كيلئے انہيں مكرر وطور پر بيان كرنا_و أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ ''يتلى '' زمان مستقبل كيلئے ہے يعنى اونٹ، گائے اور بھيڑبكرى جيسے چوپاؤں كا گوشت تمہارے لئے حلال ہے مگر وہ جسے مستقبل ميں تمہارے لئے بيان كي جائيگا_لہذا كلمہ ''يتلي'' سورہ مائدہ كى آيت نمبر ۳ ''حرمت عليكم الميتة و الدم و لحم الخنزير و ...'' كى طرف اشارہ ہے كہ جو مورد بحث آيت كے بعد نازل ہوئي ہے_

۵۱۹

اور بعض مفسرين كا خيال يہ ہے كہ كلمہ ''يتلي'' مضارع استمرارى ہے اور يہ ان آيات كى طرف اشارہ ہے كہ جو اس سے پہلے مكہ ميں (آيت ۱۴۵ سورہ انعام اور آيت ۱۱۵ سورہ نحل) اور ہجرت كے چھ ماہ بعد مدينہ ميں (آيت ۱۷۳ سورہ بقرہ) نازل ہوئي ہيں مذكورہ مطلب دوسرے نظريئےے مطابق ہے _

۱۱ _ اس جانور كے گوشت سے استفادہ كرنا حرام ہے كہ جسے غيرخدا كے نام كے ساتھ ذبح كيا گيا ہو_و أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم ''إلا ما يتلى عليكم'' ميں كلمہ ''ما'' اگرچہ عام ہے اور ان تمام موارد كو شامل ہے كہ جو ''محرمات اكل''كى آيات ميں بيان ہوئے ہيں ليكن گذشتہ دو آيتوں ميں جملہ ''ويذكروا اسم الله على ما رزقہم من بہيمة الأنعام'' نيز جملہ ''فاجتنبوا الرجس من الأوثان ...'' (آيت كا ذيل) كى جملہ''أحلت لكم الأنعام إلا ما يتلى عليكم'' پر تفريع كے قرينے سے كہا جاسكتا ہے كہ ''ما'' سے مرادفقط وہ موارد ہيں كہ جہاں جانور كو غيرخدا (بتوں ) كے نام سے ذبح كيا گيا ہو_

۱۲ _ زمانہ جاہليت ميں مراسم حج و قربانى كا شرك و بت پرستى كے مظاہر كے ساتھ آميختہ ہونا_

و احلت لكم الانعام الا ما يتلى عليكم فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۳ _ بت، رجس اور پليدگى كا مظہر ہے_فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۴ _ بتوں سے اجتناب كا ضرورى ہونا_فاجتنبوا الرجس من الاوثان ''رجس'' ہر برى اور پليد چيز كو كہاجاتا ہے ''اوثان''، ''وثن'' كى جمع اور بتوں كے معنى ميں ہے اور ''من الاوثان'' ميں ''من'' بيانيہ ہے پس''فاجتنبوا الرجس من الاوثان'' يعنى بتوں سے كہ جو برے اور پليد ہيں اجتناب كرو_

۱۵ _ بت پرست، پليد لوگ ہيں _فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۶ _ عصر بعثت كے مشركين، متعدد بت ركھتے تھے_فاجتنبوا الرجس من الاوثان

۱۷ _ عصر جاہليت كے مراسم حج ميں مشركانہ اورمخالف توحيد نعروں كا وجود_واجتنبوا قول الزور

''زور'' كا معنى ہے''قول باطل'' اور''قول الزور'' ميں اضافت بيانيہ ہے يعنى باطل سخن اور ياوہ گوئي سے دورى اختيار كرو اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ يہ آيت حج سے مربوط آيات ميں سے ہے كہا جاسكتا ہے كہ ''ياوہ گوئي'' سے مراد وہ مشركانہ نعرے ہيں كہ جو مشركين مراسم حج ميں اور شايد اپنے ان بتوں كے پاؤں ميں _ كہ جنہيں انہوں نے منى ميں نصب كرركھا تھا قربانى كو ذبح كرتے وقت لگاتے تھے_

۱۸ _ جھوٹ بولنے اور سخن باطل سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

جواب مکتوب

احتجاج نہ کرنے وجوہ

ساری دنیا جانتی ہے کہ نہ تو حضرت علی (ع) سقیفہ میں موجود تھے اور نہ آپ کے ماننے والوں میں کوئی ایک تھی تھا۔ خواہ وہ بنی ہاشم سے ہوں یا غیر بنی ہاشم کوئی بھی نہ تو بیعت کے وقت موجود تھا اور نہ سقیفہ کے اندر ہی گیا وہ تو بالکل الگ تھلگ تھے اور آںحضرت(ص) کی رحلت کی وجہ سے ان پر جو سخت ترین مصیبت نازل ہوئی تھی اسی میں مبتلا تھے۔ آںحضرت(ص) کے غسل و کفن کی فکر میں پڑے تھے۔ اس وقت انھیں کسی اور بات کے دھیاں بھی نہ تھا۔ یہاں تک کہ جب سقیفہ والوں نے اپنا کام کرلیا تو اب انھوں نے بیعت کو پختہ کرنے کا تہیہ کیا اور خلافت کی گرہ کو اچھی طرح مضبوط کرنے پر کمر بستہ ہوئے اور ہر وہ فعل و قول جس سے ان کی بیعت کمزوہ ہوسکتی یا ان کے عقد خلافت کو خدشہ لاحق ہوتا یا عوام میں تشویش و اضطراب پیدا ہوتا ۔ اس کے روکنے اس پر پہرہ بٹھانے کے لیے ایکا کر لیا۔

تو امیرالمومنین(ع) کو سقیفہ اور بیعت ابی بکر اور بیعت کرنے والوں سے تعلق ہی کیا تھا تاکہ ان پر آپ احتجاج فرماتے اور وہ بھی جب کہ بیعت ہو جانے کےبعد حکومت کے کرتا دھرتا پوری احتیاطی تدابیر کام میں لارہے تھے اور ارباب قوت و اقتدار اعلانیہ جبر و تشدد برت رہے تھے۔

آپ ہی فرمائیے آج کل اگر کوئی شخص حکومت سے ٹکر لینا چاہے، سلطنت

۵۴۱

 کا تختہ الٹنے پر آمادہ ہوتو کیا اس کے لیے آسان ہے اور کیا ارباب حکومت اس کو اس کے حال پر چھوڑ دینا گوارا کریں گے۔ ہر گز نہیں اور قطعا نہیں۔ اسی طرح اس زمانہ کا آجل کے زمانہ سے اندازہ کیجیے۔

اس کے علاوہ امیرالمومنین(ع) سمجھ رہے تھے کہ اب اگر میں احتجاج بھی کرتا ہوں تو سوا فتنہ و فساد کے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا اور اس نازک وقت میں حق تلفی آپ کو گوارا تھی لیکن یہ کسی طرح منظور نہ تھا کہ فتنہ وفساد برپا ہو کیونکہ امیرالمومنین(ع) اسلام پر آنچ آنے دینا نہیں چاہتے تھے نہ کلمہ توحید کی بربادی آپ کو گوارہ تھی جیسا کہ ہم گزشتہ اوراق میں بیان کرچکے ہیں کہ آپ ان دنوں ایسے شدید ترین مشکلات سے دوچار تھے کہ کسی شخص کو بھی ان مصائب و مشکلات کا سامنا نہ ہوا ہوگا۔

آپ کاندھوں پر دوبار گراں تھے۔ ایک طرف تو خلافت تمام نصوص وصایائے پیغمبر(ص) دل کو خون کر دینے والی آواز اور جگر کو چاک چاک کردینے والی کراہ کے ساتھ آپ سے فریاد ہی تھی آپ کو بے چین بنائے دیتی تھی دوسری طرف فتنہ و فساد کے اٹھتے ہوئے طوفان متاثر کررہے تھے جزیروں کے ہاتھ سے نکل جانے عرب میں انقلاب عظیم برپا ہونے اور اسلام کے بیخ و بن سے اکھڑ جانے کا اندیشہ تھا۔ مدینہ اور آس پاس کے منافقین جو بڑے سرگرم سازشی تھے ان کی طرف سےفتنہ و فساد برپا ہونے کا بڑا خطرہ لاحق تھا کیونکہ رسول(ص) کی آنکھ بند ہونے کے بعد ان کا اثر بہت بڑھتا جاتا تھا اور مسلمانوں کی حالت باکل اس بھیڑ بکری  جیسی ہو رہی تھی جو جاڑے کی تاریک راتوں میں بھیڑیوں اور وحشی درندوں میں بھٹکت پھرے۔

مسیلمہ کذاب، طلیحہ بن خویلد ، سجاح بنت حارث ایسے جھوٹے

۵۴۲

 مدعیاں نبوت پیدا ہوچکے تھے اور ان کے ماننے والے اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کی تباہی و بربادی پر تلے ہوئے تھے۔ قیصر و کسری وغیرہ تاک میں تھے ۔ غرض اور بہت سے دشمن عناصر جو محمد و آل محمد(ص) اور پیرواں محمد(ص) کے خون کے پیاسے تھے ملت اسلام کی طرف سے خار دل میں رکھتے تھے۔ بڑا غم و غصہ اور شدید بغض و عناد رکھتے تھے ، وہ اس فکر میں تھے کہ کسی طرح اس کی بنیاد منہدم ہوجائے اور جڑ اکھڑ جائے اور اس کے لیے بڑی تیزی اور سر گرمی ان میں پیدا ہوچکی تھی۔

وہ سمجھتے تھے کہ ہماری آرزوئیں بر آئیں رسول(ص) کے اٹھ جانے سے موقع ہاتھ آیا، لہذا اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئیے اور قبل اس کے کہ ملت اسلامیہ کے امور میں نظم پیدا ہو، حالات استوار ہوں اس مہلت سے چوکنا چاہئیے۔

اب حضرت علی(ع) ان دو خطروں کے درمیان کھڑے تھے ایک طرف حق چھین رہا تھا ، خلافت ہاتھوں سے جا رہی تھی ۔ دوسری طرف اسلام کے تباہ و برباد ہوجانے اور رسول(ص) کی ساری محنت مٹی میں جانے کا خوف تھا لہذا فطری و طبعی طور پر امیرالمومنین(ع) کے لیے بس یہی راہ نکلتی تھی کہ مسلمانوں کی زندگی کے لیے اپنے حق کو قبربان کردیں لیکن آپ نے اپنے حق خلافت کو محفوظ رکھنے اور انحراف کرنے والوں سے احتجاج کرنے کے لیے ایک ایسی صورت اختیار کی جس سے مسلمانوں میں اختلاف و افتراق نہ پیدا ہو اور کوئی فتنہ ایسا نہ اٹھ کھڑا ہو کہ دشمن موقع غنیمت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ لہذا آپ خانہ نشین ہوگئے اور جب لوگوں نے مجبور کر کے آپ کو گھر سے نکالا۔ بغیر لڑے بھڑے گھر سے باہر نکلے۔ اگر آپ جلد بازی

۵۴۳

سے کام لیتے تو آپ کی حجت پوری نہ ہوتی اور نہ شیعیان امیرالمومنین(ع) کے لیے کوئی ثبوت نمایاں ہوتا۔ آپ نے اپنے طرز سے دین کو بھی حفاظت کی اور اپنے حق خلافت کو بھی محفوظ رکھا۔

اور جب آپ نے دیکھا کہ اسلام کی حفاظت و دشمنوں کی دشمنی کا جواب موجود حالات کے اندر صلح و آشتی پر موقوف ہے تو خود مصالحت کی راہ نکالی اور امت کے امن و امان ، ملت کی حفاظت اور دین کو عزیز رکھتے ہوئے انجام کو آغاز سے بہتر سمجھتے ہوئے شرعا و عقلا اس وقت جو فریضہ عائد ہوتا تھا کہ جو زیادہ اہمیت کا حامل ہو اسے مقدم رکھا جائے۔ آپ نے حکام وقت سے صلح کر لی کیونکہ اس وقت کے حالات تلوار اٹھانے یا حجت و تکرار کرنے کے متحمل نہ تھے۔

ایسا بھی نہیں کہ آپ نے بالکل احتجاج ہی نہ فرمایا ہو۔ باوجود ان تمام باتوں کے آپ، آپ کے فرزند ، آپ کے حلقہ بگوش علماء آپ کے وصی ہونے پر اور آپ کے وصایت و جانشینی کے متعلق جو صریحی ارشادات پیغمبر(ص) ہیں ان کی تبلیغ و اشاعت میں بڑی حکمت سے کام لیا کیے۔ جیسا کہ تلاش و تجسس سے پتہ چلتا ہے ۔

ش

۵۴۴

مکتوب نمبر۵۲   

حضرت علی(ع) نے کب احتجاج فرمایا؟

امام نے کب احتجاج فرمایا۔ آپ کے آل و اولاد ، آپ کے دوستداروں نے کن مواقع پر احتجاج کیا۔ ہمیں بھی بتائیے۔

                                                                     س

جواب مکتوب

حضرت علی (ع) اور آپ کے شیعہ کا احتجاج

امام نے ان نصوص اور ارشاداتِ پیغمبر(ص) کی نشرو اشاعت میں جو پیغمبر(ص)

۵۴۵

 نے آپ کی وصایت و خلافت کے متعلق فرمائے تھے بڑی دل جمعی سے کام کیا۔ چونکہ اسلام کی حفاظت جان سے بڑھ کر عزیز تھی اور مسلمان کے شیرازہ کا بکھر ناکسی طرح منظور تھا۔ اس لیے آپ نصوص کا تذکرہ کر کے اپنے دشمنوں سے جھگڑا مول نہیں لیا۔ چنانچہ آپ نے اپنے سکوت اختیار کرنے اور ان نازک حالات میں اپنے حق کا مطالبہ نہ کرنے کی معذرت بھی بغض مواقع پر فرمائی ہے چنانچہ فرماتے ہیں۔

“ کسی انسان کو اس وجہ عیب نہیں لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے حق کو حاصل کرنے میں دیر کی۔ عیب تو اس وقت لگانا چاہیے جب انسان حق نہ رکھتے ہوئے زبردستی کسی چیز کو حاصل کرے۔”

آپ نے نصوص کی نشر و اشاعت میں ایسے طریقے اختیار کیے جن سے حکمت کا پورا پورا مظاہر ہوا۔ یاد کیجیے ۔ رحبہ والا روز جس دن آپ اپنے زمانہ خلافت میں لوگوں کو کوفہ کے میدان میں جمع کیا تاکہ غدیر کی یاد دلائی جائے۔ آپ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا:

“ میں ہر مرد مسلمان کو قسم دیتا ہوں کہ جس نے غدیر خم میں اپنے کانوں سے رسول(ص) کو اعلان فرماتے سنا ہو وہ اٹھ کھڑا ہو۔ جو کچھ سنا تھا اس کو گواہی دے۔”

تو آپ کے یہ کہنے پر تیس صحابی اٹھ کھڑے ہوئے جن میں بارہ تو ایسے تھے جو جنگ بدر میں شریک رہ چکے تھے۔ ان سب نے حدیث غدیر کی گواہی دی جسے انھوں نے خود اپنے کانوں سے رسول(ص) کو ارشاد فرماتے سنا تھا۔

اس ناگفتہ بہ آشوب زمانے میں جب کہ حضرت عثمان کے قتل اور بصرہ و

۵۴۶

 شام میں فتنہ و فساد جاری رہنے کی وجہ سے فضا خراب تھی۔ زیادہ سے زیادہ امیرالمومنین(ع) یہی کرسکتے تھے اور یہی آپ نے کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ انتہائی ممکن صورت جو اس وقت احتجاج کرنے کی ہوسکتی تھی حکمت کے تمام پہلو سنبھالے ہوئے وہ یہی تھی۔ کون اندازہ کرسکتا ہے۔ امیرالمومنین(ع) کے محیرالعقول حکیمانہ طرز عمل کا کہ جب دنیا حدیث غدیر کو بھولتی جارہی تھی اور قریب تھا کہ کسی دماغ میں اس کی یاد بھی باقی نہ رہے آپ نے بھرے مجمع سے اس کو گواہی دلوا کر اسے حیات تازہ بخشی اور رحبہ کے میدان میں مسلمانوں کے سامنے غدیر خم کے موقع پر رسول(ص) کے اہتمام کی تصویر کشی کر کے وہ منظرہ یاد دلا دیا جب رسول(ص) نے ایک لاکھ بیس ہزار مسلمانوں کے درمیان بالائے منبر حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور پورے مجمع کو دکھا کر پہنچوا کر ارشاد فرمایا تھا کہ یہی علی(ع) میرے ولی ہیں۔ اسی واقعہ کے بعد حدیث غدیر احادیث متواترہ کا بہترین مصداق بن گئی۔

آپ غور فرمائیں حکیم اسلام کے طرز عمل پر کہ آپ نے بھرے مجمع میں انتہائی اہتمام و انتظام فرما کر صاف صاف لفظوں میں اس کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد غور کیجیے رحبہ کے دن امیرالمومنین(ع) کے حکمت سے لبریز طرز عمل پر دونوں واقعے کسی قدر ملتے جلتے اور ایک دوسرے پر پوری پوری مشابہت رکھتے ہیں وہاں پیغمبر(ص) نے مجمع کو قسم دے کر پوچھا کہ :

“ کیا میں تمھاری جانوں پر تم سے زیادہ قدرت واختیار نہیں رکھتا۔؟”

جب سارے مجمع نے اقرار کیا تو آپ نے فرمایا کہ :

“ جس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی(ع) بھی مولا ہیں۔”
۵۴۷

وہی روش امیرالمومنین(ع) یہاں بھی اختیار کرتے ہیں ۔ رحبہ میں مسلمان سے جن میں ہر خطہ ملک اور ہر قسم و قبیلہ کے افراد جمع تھے فرماتے ہیں اور قسم دیتے ہیں کہ جس جس نے غدیر کے میدان میں رسول(ص) کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور اپنے کانوں سے ارشاد فرماتے سنا ہو وہ اٹھے اور اٹھ کر گواہی دے۔

جس قدر حالات اجازت دےسکتے تھے امیرالمومنین(ع) نے اپنا حق جتلانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ ساتھ ہی ساتھ سکون و سلامت روی کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا جسے آپ بہر حال مقدم سمجھتے تھے۔

اپنی خلافت و وصایت سے لوگوں کو مطلع کرنے اور اشاداتِ پیغمبر(ص) جو آپ کی خلافت و امامت کے متعلق تھے اس کے نشر و اشاعت میں یہی طرز عمل امیرالمومنین(ع) کا ہمیشہ رہا چونکہ ناواقف و لا علمی افراد کو واقف کار بنانے کے لیے آپ ایسی ہی صورتیں اختیار فرماتے جو نہ تو کسی ہنگامے کا سبب ہو نہ ان سے بیزاری پیدا ہونے کا احتمال ہو۔

آپ ملاحظہ فرمائیے ۔ دعوت ذوالعشیرہ سے متعلق امیرالمومنین(ع) کی حدیث جسے تمام محدثین نے مرویاتِ امیرالمومنین(ع) کے ذیل میں درج کیا ہے۔ یہ حدیث طولانی اور بہت ہی مہتم بالشان حدیث ہے، ابتداء عہد اسلام سے آج تک اسے اعلام نبوت اور آیات اسلام میں سے شمار کیا جاتا ہے کیونکہ یہ حدیث حضرت سرور کائنات کے زبردست معجزہ نبوت یعنی تھوڑے کھانے سے بڑی تعداد میں لوگوں کو شکم سیر کردینے کے واقعہ پر مشتمل ہے۔ اسی طرح حدیث کے آخر میں ہے کہ حضرت امیرالمومنین(ع) کی گردن پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا :

“ یہ میرے بھائی ہیں۔میرے وصی ہیں تم میں میرے جانشین ہیں۔ تم ان کی بات سننا اور ان کی اطاعت کرنا۔”
۵۴۸

امیرالمومنین(ع) برابر اس حدیث کا تذکرة فرمایا کیے کہ رسالت ماب(ص) نے آپ سے فرمایا:
“ اے علی(ع) تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو”
اور نہ جانے کتنی مرتبہ آپ نے رسول(ص) کی یہ بات بیان کی کہ:
“اے علی(ع) میرے نزدیک تمھیں دہی منزلت حاصل ہے جو موسی(ع) سے ہارون کو تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔”
اور بار رہا آپ نے غدیر خم کے موقع پر رسول(ص) کی ارشاد فرمائی ہوئی حدیث دہرائی۔ رسول(ص) نے لوگوں سے خطاب کر کے پوچھا تھا کہ :
“ میں تم مومنین سے زیادہ تمھارے نفوس پر قدرت و اختیار نہیں رکھتا ؟ سب نے کہا بے شک ، اس پر آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں اس کے یہ علی(ع) ولی ہیں۔”  

  اس کے علاوہ اور بھی بے شمار حدیثین ہیں جن کی امیرالمومنین(ع) روایت فرماتے لوگوں سے بیان کرتے رہے، آپ نے پورے طور پر ثقہ اور مستند افراد میں ان احادیث کی اشاعت کی  اس پر پر آشوب زمانہ اور نازک حالات میں زیادہ سے زیادہ امیرالمومنین(ع) کے لیے یہی گنجائش تھی کہ آپ پیغمبر(ص) کے ان اقوال کا تذکرہ فرمائیں ، ان حدیثوں کی روایت فرمائیں اور اس طرح اپنے حقدار خلافت ہونے کو ابنائے زمانہ کے کانوں تک پہنچائیں اور امیرالمومنین(ع) نے اسے اٹھانہ رکھا ۔ جتنی حالات نے اجازت دی اتنی اشاعت فرماتے رہے۔

شوریٰ کے دن آپ نے مخالفین کے لیے عذر کی کون سی گنجائش باقی رہنے دی۔ خدا کا خوف دلانے میں کون سی بات اٹھا رکھی۔ اپنے جس قدر

۵۴۹

 خصوصیات و کمالات تھے ایک ایک کر کے گنائے، اپنے تمام فضائل و مناقب یاد دلا کر اپنے حقدار خلافت ہونے کو ظاہر کیا۔ ہر طرح ان ر احتجاج فرمایا :

پھر جب آپ خود سریر آرائے حکومت ہوئے تو برابر اپنی مظلومیت کا اطہار فرمایا کیے۔ شروع ہی سے مستحق خلافت ہونے کا ثابت کیا۔ ابتدا میں خلافت سےمحروم رکھے جانے پر آپ کو جو صدمہ ہوا ، اذیتیں پہنچیں ، بالائے منبر آپ نے اس کا شکوہ کیا، یہاں تک آپ نے فرمایا:

“ قسم بخدا اس جامہ خلافت کو زبردستی فلاں شخص نے پہن لیا حالاںکہ وہ اچھی طرح واقف تھا کہ کہ مجھے خلافت میں وہی جگہ حاصل ہے جو آسیا میں میخ کو حاصل ہوتی ہے ۔ مجھ سے علوم کے دریا بہتے ہیں اور وہ بلند منزلت ہے میری کہ طائر خیال بھی مجھ تک بلند نہیں ہوسکتا۔ مگر میں نے اس پر پردہ ڈال دیا اور اس سے پہلو تہی اختیار کی۔ میں عجیب کشمش و اضطراب میں تھا ۔ عجیب گومگو کی حالت تھی میری کہ میں اس کٹے ہوئے بازو سے حملہ کر بیٹھوں یا اس گھٹا ٹوپ تاریکی پر صبر کروں جس پر بڑا بوڑھا ہوجائے اور چھوٹا جوان ہوجائے اور مومن انتہائی اذیت میں اس وقت تک مبتلا رہے جب تک کہ خداوند عالم سے ملحق نہ ہو۔ میں نے دیکھا کہ ان دونوں باتوں میں صبر زیادہ بہتر ہے۔میں نے صبر کیا حالانکہ آنکھیں جل رہی تھیں اور گلا گھٹ رہا تھا کہ میری دولت لٹ رہی ہے۔”

اس پورے خطبہ (شقشقیہ ) کے آخر تک آپ نے اسی کا ماتم کیا۔

نہ جانے کتنی مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا ہوگا:

۵۵۰

“ پالنے والے! قریش اور ان کو مدد پہنچانے والوں کے مقابلہ میں تجھ سے طالبِ اعانت ہوں۔ انھوں نے قطع رحم کیا اورمیری بلندی منزلت کو حقیر و پست بنایا اور ایسی چیز کے واسطے جو حقیقتا میرے لیے ہے جس کا میں حقدار ہوں، مجھ سے جھگڑنے کے لیے ایکا کر بیٹھے ہیں۔”

“ثُمَّ قَالُوا: أَلَا إِنَّ فِي‏ الْحَقِ‏ أَنْ‏ تَأْخُذَهُ وَ فِي‏ الْحَقِ‏ أَنْ‏ تتركه

کسی کہنے والے نے امیرالمومنین(ع) سے کہا کہ:

“ اے فرزند ابوطالب(ع) ! آپ اس امر خلافت میں حریص معلوم ہوتے ہیں”

آپ نے فرمایا :

“ بلکہ تم قسم بخدا زیادہ حریص ہو۔ میں تو اپنا حق طلب کررہا ہوں، اور تم لوگ میرے اور میرے حق کے درمیان رکاوٹ بن رہے ہو۔”

نیز آپ نے ایک موقع پر فرمایا :

“ قسم بخدا میں ہمیشہ اپنے حق سے روکا گیا اور ہمیشہ مجھ پر دوسروں کو ترجیح دی گئی جس وقت سے رسول(ص) کی آنکھ بند ہوئی اس وقت سے لے کر آج تک ”

ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا :

“ وہ ہمارا حق ہے اگر ہمارا حق ہمیں دے دیا گیا تو خیر نہیں تو پھر ہم بھی چل کھڑے ہوں گے۔”
۵۵۱

“لَنَا حَقٌ‏ فَإِنْ أُعْطِينَاهُ وَ إِلَّا رَكِبْنَا أَعْجَازَ الْإِبِلِ وَ إِنْ طَالَ السُّرَى‏”(۱)

ایک خط جو آپ نے اپنے(۲) بھائی عقیل کو لکھا ۔ اس میں فرماتے ہیں :

“ بدلہ لینے والے ہماری طرف سے قریش کو بدلہ دیں انھوں نے میرا قطع رحم کیا اور میرے بھائی کی قوت و سطوت مجھ سے چھین لی۔”

امیرالمومنین (ع) نے بارہا فرمایا:(۳)

“ میں نے اپنے گردو پیش نگاہ ڈالی ۔کوئی اپنا مددگار نظر نہ آیا لے دے کے بس میرے گھر والے تھے۔ میں نے ان کا مرنا گوارا نہ کیا۔ خس و خاشاک پڑے رہنے کے باوجود آنکھیں بند رکھیں اور گلہ گھٹ رہا تھا مگر پینے پر مجبور ہوا۔ سکوت اختیار کرنے اور علقم سے زیادہ تلخ گھونٹ پینے پر میں نے صبر کیا۔”

ایک مرتبہ آپ نے فرمایا(۴) :

“ کہاں ہیں وہ لوگ جو ہمارے ہوتے ہوئے اپنے کو راسخین فی العل کہتے ہیں ۔ جھوٹ بولتے ہیں، سرکشی کرتے ہیں۔ خداوند عالم نے ہمیں سر بلند بنایا ، انھیں پست کیا۔ ہمین اپنی عطاؤں سے

--------------

۱ـ نہج البلاغہ۔

۲ـ نہج البلاغہ جز ۳ صفحہ ۶۷ چھتیسواں مکتوب۔

۳ـ نہج البلاغہ جز اول خطبہ ۳۵ صفحہ ۶۸۔

۴ـ نہج البلاغہ جز ثانی صفحہ ۳۶

۵۵۲

مکتوب نمبر۵۳

سلسلہ بیان کو مکمل کرنے کے لیے میری التجا ہے کہ آپ امیرالمومنین(ع) و جناب سیدہ(س) کے ماسوائے دیگر حضرات کے احتجاج ذکر فرمائیے۔

                                                             س

جواب مکتوب

عبداﷲ بن عباس کا احتجاج

میں آپ کی توجہ اس گفتگو کی طرف مبذول کرتا ہوں جو ابن عباس اور حضرت عمر کے درمیان ہوئی۔ ایک طولانی گفتگو کے دوران میں جب حضرت عمر نے یہ فقرہ کہا کہ :

۵۵۳

 “ اے ابن عباس تم جانتے ہو کہ رسول(ص) کے بعد خلافت سے تمھیں کس چیز نے محروم رکھا۔”

ابن عباس کہتے ہیں کہ :

“ میں نے مناسب نہ جانا کہ جواب دوں میں بولا : اے حضور! اگر میں نہیں جانتا تو آپ تو جانتے ہیں۔”

حضرت عمر نے کہا:

“ لوگوں کو یہ بات گوارا نہ ہوئی کہ نبوت و خلافت دونوں تم ہی میں جمع ہو کر رہ جائیں اور تم خوش خوش رہ کر اپنی قوم والوں کو روندو۔ لہذا قریش نے خلافت کو اپنے لیے چنا اور وہ اس خیال میں درستی پر تھے اور وہ موفق بھی ہوئے۔”

ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے کہا :

“ اے حضور! اگر مجھے بھی بولنے کی اجازت دیں اور خفا نہ ہوں تو کچھ عرض کروں۔”

حضرت عمر نے کہا:

“ ہاں ہاں کہو۔”

ابن عباس کہتے ہیں : تب میں نے کہا:

“ آپ کا یہ کہنا کہ قریش نے خلافت کو اپنے لیے اختیار کیا اور اس خیال میں وہ اس کے لیے موفق بھی ہوئے تو اگر قریش خدا کی مرضی سے اپنے لیے یہ اختیار کیے ہوتے ( یعنی خدا بھی انھیں خلافت کے لیے پسند کیے ہوتا) تو یقینا وہ حق پر تھے۔ نہ ان کی رد کی جاسکتی اور نہ ان پ رحسد کیا جاتا۔ آپ نے یہ جو کہا کہ قریش
۵۵۴

 والے راضی نہ ہوئے کہ خلافت و نبوت دونوں تمھارے ہی اندر رہیں تو خداوند عالم نے ایک قوم کی اسی راضی نہ ہونے پر ان الفاظ میں توصیف کی ہے۔

“ذلِكَ بِأَنَّهُمْ‏ كَرِهُوا ما أَنْزَلَ اللَّهُ‏  فَأَحْبَطَ أَعْمالَهُمْ‏”

“انھوں نے نا پسند کیا ان آیات کو جو خداوند عالم نے نازل کیں تو خدا نے بھی ان کے سارے اعمال خاک میں ملا دیے۔”
اس پر حضرت عمر بولے:“ وائے ہو اے ابن عباس تمھارے بارے میں مجھے کچھ باتیں معلوم ہوتی رہی ہیں۔ مجھے تو پسند نہیں کہ واقعا وہ صحیح ہوں جس کی وجہ سے تمھاری منزلت میرے نزدیک گھٹ جائے۔”
ابن عباس بولے:
“ حضور وہ کون سی باتیں ہیں، اگر وہ حق بجانب ہیں تب کوئی وجہ نہیں کہ میری منزلت آپ کے دل سے جاتی رہے۔ اگر وہ باطل پر ہیں تو میں ان سے کنارہ کشی پر تیار ہوں۔”
حضرت عمر نے کہا :
“ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم کہتے ہو کہ خلافت کو لوگوں نے ہم سے حسد کر کے ، باغی ہوکر اور از راہِ ظلم پھیر لیا۔”
ابن عباس کہتے ہیں کہ میں بولا:
“ سرکار آپ کا یہ جملہ  کہ از راہ ظلم پھیر لیا تو یہ ہر دانا اور نادان پر روشن ہے۔ رہ گیا یہ فقرہ کہ “ حسد کی وجہ سے ” تو اس کے متعلق عرض ہے کہ جناب آدم(ع) سے بھی حسد کیا گیا تھا اور ہم تو
۵۵۵

 انھی کی اولاد ہیں جن سے حسد کیا گیا۔”

تیسری گفتگو میں حضرت عمر نے کہا:

“ اے ابن عباس میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ علی(ع) واقعا مظلوم ہیں اور خلافت ان سے چھین کر ظلم کیا گیا۔”

اس پر ابن عباس کہتے ہیں  کہ میں نے کہا :

“ تو حضور خلافت انھیں واپس کیوں نہ کردیں۔”
اس پر حضرت عمر نے میرے ہاتھ سے  اپنا ہاتھ کھیچ لیا اور غراتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ پھر ٹھہر گئے میں قدم بڑھا کر پاس پہنچا ۔ حضرت عمر بولے :
“ اے ابن عباس میں تو یہ سمجھتا ہو کہ علی(ع) کو لوگوں نے صغیر السن سمجھ کر خلیفہ نہ ہونے دیا۔”
ابن عباس کہتے ہیں کہ اس پر میں بولا:“ مگر خدا کی قسم خدا و رسول(ص) نے تو اس وقت انھیں صغیر السن نہ جانا جب علی(ع) کو خدا اور رسول(ص) نے حکم دیا تھا کہ جاکر آپ کے دوست ابوبکر سے سورہ براءة لے لیں۔”(۱)
ابن عباس کہتے ہیں کہ :“اس پر حضرت عمر نے منہ پھیر لیا اور جلدی سے آگے بڑھ گئے۔ میں پلٹ آیا۔”
ابن عباس اور حضرت عمر کی نہ جانے اس مسئلہ پر کتنی مرتبہ باتیں ہوئیں صفحات ماسبق میں وہ واقعہ آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں جب ابن عباس نے خوارج

--------------

۱ـ شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ۱۶۵۔

۵۵۶

کے مقابلہ میں علی(ع) کی دس(۱۰) خصوصیات ذکر کر کے احتجاج فرمایا تھا بہت ہی جلیل الشان اور طولانی حدیث ہے ۔ اسی میں ابن عباس نے کہا تھا۔
“ حضرت سرورکائنات(ص) نے اپنے بنی عمام سے کہا کہ تم میں کون ایسا ہے جو دین و دنیا میں میرا ولی بنے۔ سب نے انکار کیا صرف علی(ع) نے آمادگی ظاہر کی کہ میں دین و دنیا میں آپ کا ولی ہوںگا یا رسول اﷲ(ص) ۔ اس پر سرورکائنات(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا تم دنیا و آخرت میں میرے ولی ہو۔”

آگے چل کر ابن عباس نے کہا:

“ رسول اﷲ(ص) جنگ تبوک کے لیے روانہ ہوئے لوگ بھی ہمراہ تھے حضرت علی(ع) نے پوچھا ۔ میں بھی ساتھ چلوں؟ رسول (ص) نے فرمایا نہیں، اس پر حضرت علی(ع) رونے لگے ۔ رسول (ص) نے فرمایا: اے علی(ع) کیا تم کو یہ بات گوارا نہیں کہ میرے نزدیک تمھاری وہی منزلت ہو جو ہارون (ع) کی منزلت تھی موسی(ع) کے نزدیک ، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ اے علی(ع) میرا جانا ممکن نہیں جب تک تمھیں میں یہاں اپنا جانشین چھوڑ کے نہ جاؤں۔”

ابن عباس کہتے ہیں کہ :

“ اور رسول(ص) نے یہ بھی فرمایا کہ اے علی(ع) ! تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو۔”

ابن عباس کہتے ہیں:

“ اور رسول(ص) نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کےعلی(ع) بھی مولا ہیں۔”
۵۵۷

بنی ہاشم کے اکثر افراد نے اسی طرح مختلف مواقع پر احتجاج کیا یہاں تک کہ امام حسن(ع) ، ابوبکر کے پاس جبکہ وہ منبر رسول(ص) پر بیٹھے تھے پہنچے اور کہا:

“ اترو، میرے باپ کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔”

ایسا ہی واقعہ امام حسین(ع) کا حضرت عمر کے ساتھ پیش آیا، وہ بھی منبر پر ایک مرتبہ بیٹھے تھے کہ امام حسین (ع) پہنچے اور آپ نے ان سے اتر آنے کو کہا۔

شیعی کتابوں میں بنی ہاشم اور بنی ہاشم کے طرفدار صحابہ و تابعین صحابہ کے بے شمار احتجاج موجود ہیں۔ آپ ان کی کتابوں میں ملاحظہ فرمائیے۔ صرف علامہ طبرسی کی کتاب الاحتجاج میں خالد بن سعید عاص اموی(۱) ، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار یاسر، بریدہ اسلمی، ابوالہیثم ابن تیہاں و سہل و عثمان فرزندان حنیف، خزیمہ بن ثابت دوالشہادتیں، ابی ابن کعب ، ابو ایوب اںصاری وغیرہ میں سے ہر شخص کے احتجاج مذکور ہیں ۔ وہی کافی ہوں گے ۔

--------------

۱ـ منجملہ ان لوگوں کے جنھوں نے ابوبکر کی خلافت نہ مانی خالدبن سعید بھی ہیں۔ تین مہینے تک انھیں انکار رہا۔ طبقات ابن سعد جلد۴ ص۷۰ ابن سعد نے لکھا ہے کہ جب ابوبکر نے شام کی طرف لشکر روانہ کیا تو انھیں خالد کو سردار مقرر کیا اور علم لشکر لے کر ان کے گھر پر آئے۔ اس پر عمر نے کہا تھا کہ تم خالد کو افسری دیتے ہو اور ان کے جو خیالات ہیں وہ تمھیں اچھی طرح معلوم ہیں۔ حضرت عمر اتنا یچھے پڑے کہ آخر ابوبکر نے آدمی بھیج کر علم واپس منگایا ۔ خالد نے واپس کردیا اور کہا تمھارے افسر بنانے سے تو پہلے مجھے خوشی ہوئی تھی نہ اب معزول کرنے سے مجھے رنج ہوا۔ حضرت ابوبکر نے ان کے گھر آکر عذر و معذرت کی اور کہا کہ عمر کو میرا آنا معذرت کرنا معلوم نہ ہونے پائے ۔ جس جس نے شام کی طرف لشکر کی روانگی کا ذکر کیا ہے اس واقعہ کی طرف ضرور اشارہ کیاہے۔ یہ واقعہ مشہور واقعات میں سے ہے۔

۵۵۸

اہل بیت طاہرین(ع) اور ان کے دوستدارن کے حالات کی چھا ن بین کیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ احتجاج کا جب بھی موقع ملا انھوں نے ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ مختلف طریقوں سے احتجاج فرمایا کیے۔ صاف صاف لفظوں میں ، کبھی اشارتا ، کبھی سختی سے ، کبھی نرمی سے، کبھی دوران تقریر میں، کبھی بصورت تحریر، کبھی نثر میں کبھی نظم میں، جیسا موقع ہوا اور نازک حالات نے جس صورت سے اجازت دی غافل نہیں رہے۔

یہی وجہ تھی کہ احتجاج کرنے والے نے بطور احتجاج و استدلال امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کا اکثر و بیشتر ذکر کیا جیسا کہ جستجو سے پتہ چلتا ہے۔

                                                     ش

۵۵۹

مکتوب نمبر۵۴

کن لوگوں نے آپ کے وصی ہونے کا ذکر کیا اور کب احتجاج کیا؟ شاید وہی ایک مرتبہ جب جناب عائشہ کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا مگر جناب عائشہ نے تردید کر دی تھی جیسا کہ ہم قبل میں بیان کرچکے ہیں۔

                                                                     س

جواب مکتوب

خود امیرالمومنین(ع) نے بر سر منبر ذکر فرمایا ۔ ہم اصل عبارت صفحات ماسبق پر نقل کر چکے ہیں۔  نیز جس جس نے دعوت عشیرہ والی حدیث جس میں امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کی صاف صاف تصریح کی ہے روایت کی ہے اس نے امیرالمومنین(ع) ہی کی طرف اس حدیث کی نسبت دی ہے ۔ تمام اسناد آپ ہی تک

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639