دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 262478
ڈاؤنلوڈ: 6008

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 262478 / ڈاؤنلوڈ: 6008
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 منتہی ہوئے ہیں۔ آپ ہی سے سب نے سنا اور آپ ہے سے سب نے روای تکی ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ جتنے اشخاص نے اس حدیث کی امیرالمومنین(ع) سے روایت کی سب سے آپ نے اپنے وصی ہونے کا ذکر فرمایا۔ ہم اس حدیث کو گزشتہ صفحات پر ذکر کرچکے ہیں۔

امیرالمومنین(ع) کی شہادت کے بعد امام حسن مجتبی(ع) نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں آپ نے فرمایا تھا:

“ میں نبی(ص) کا فرزند ہوں میں وصی (ع) کا بیٹا ہوں۔”
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
“ حضرت علی (ع) رسول(ص) کے ساتھ ساتھ رسالت کے پہلے روشنی دیکھتے اور آواز سنتے تھے۔”
نیز آپ فرماتے ہیں کہ :
“ حضرت سرورکائنات(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا اگر میں خاتم الانبیاء(ص) نہ ہوتا تو تم میری نبوت میں شریک ہوتے ، اگر نبی نہیں تو تم نبی(ص) کے وصی ، نبی(ص) کے وارث ہو۔”
یہ چیز تقریبا جملہ اہل بیت علیہم السلام سے بتواتر منقول ہے اور اہلبیت(ع) و موالیان اہل بیت(ع) کے نزدیک صحابہ کے زمانہ سے لے کر آج تک بدیہات میں سے سمجھی جاتی ہے۔
جناب سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ :
“ میں نے رسول(ص) کو کہتے سنا : میرے وصی، میرے رازوں کی جگہ اور بہترین وہ فرد جسے میں اپنے بعد چھوڑوں گا جو میرے وعدوں کو پورا کرے گا اور مجھے میرے دیون سے سبکدوش بنائے گا وہ
۵۶۱

علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔”
جناب ابوایوب اںصاری فرماتے ہیں کہ:
“ میں نے رسول اﷲ(ص) کو کہتے سنا آپ جناب سیدہ (س) سے فرمارہے تھے کیا تم جانتی نہیں کہ خداوند عالم نے روئے زمین کے باشندوں پر نگاہ کی ان میں تمھارے باپ کو منتخب کیا اور نبوت سے سرفراز کیا پھر دوبارہ نگاہ کی اور تمھارے شوہر کو منخب کیا اور مجھے وحی کے ذریعہ حکم دیا تو میں نے ان کا نکاح تمھارے ساتھ کردیا اور انھیں اپنا وصی بنایا۔”

بریدہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول(ص) کو کہتے سنا:

“ ہر نبی کے لیے وصی اور وارث ہوا کرتا ہے اور میرے وصی و وارث علی بن ابی طالب (ع) ہیں”

جناب جابر بن یزید جعفی جب امام محمد باقر(ع) سے کوئی حدیث روایت کرتے تو کہتے کہ مجھ سے وصی الاوصیاء وصیوں کے وصی نے بیان کیا ( ملاحظہ ہو میزان الاعتدال ، علامہ ذہبی ، حالات جابر)

ام خیر بنت حریش بارقیہ نے جنگ صفیں کے موقع پر ایک تقریر کی(1) کی جس میں انھوں نے اہل کوفہ کو معاویہ سے جنگ کرنے پر ابھارا تھا۔ اس تقریر میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا:

“ آؤ، آؤ، خدا تم پر رحمت نازل کرے ۔ اس امام کی طرف جو عادل ہیں، وصی پیغمبر(ص) ہیں ، وفا کرنے والے اور صدیق اکبر ہیں۔”

اسی طرح کی پوری تقریر ان کی تھی۔

--------------

1ـ بلاغات النساء، ص41

۵۶۲

یہ تو سلف صالحین کا ذکر تھا جنھوں نے اپنے اپنے خطبوں میں اپنی حدیثوں میں وصیت کا تذکرہ کر کے اس کو مستحکم کای۔ اگر ان کے حالات کا جائزہ لیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ وصی کا لفظ امیرالمومنین(ع) کے لیے یوں استعمال کرتے تھے جیسے مسمیات کے لیے اسماء کا استعمال ہوتا ہے ۔ آپ کا نام ہی پڑگیا تھا وصی۔حد تویہ ہے کہ صاحب تاج العروس جلد 10 ص392 لغت تاج العروس میں لفظ وصی کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“ الوَصِيُ‏، كغَنِيٍ‏: لَقَبُ عليٍّ”

“ وصی بر وزن غنی حضرت علی(ع) کا لقب ہے۔

اشعار میں اس قدر کثرت سے آپ کے لیے لفظ وصی کا استعمال کیا گیا ہے کہ کوئی حساب ہی نہیں۔ ہم صرف چند شعر اپنے مقصد کی توضیح میں ذکر کیے دیتے ہیں۔

عبداﷲ بن عباس بن عبدالمطلب کہتے ہیں۔

وَصِيُ‏ رَسُولِ‏ اللَّهِ‏ مِنْ دُونِ أَهْلِهِ‏     وَ فَارِسُهُ إِنْ قِيلَ: هَلْ مِنْ مُنَازِلِ

“ آپ رسول خدا(ص) کے وصی ہیں اہلبیت(ع) میں آپ کے سوا اور کوئی وصی رسول(ص) نہیں اور اگر میدان جنگ میں دشمن کی طرف سے مقابلہ کی طلب ہوتو آپ ہی شہسوار شجاعت ہیں۔”

مغیرہ بن حارث بن عبد المطلب نے جنگ صفین میں چند شعر کہے تھے جس میں اہ عراق کو معاویہ سے جنگ پر ابھارا تھا۔ اس میں ایک شعر یہ بھی تھا ۔

 هذا وصي رسول اللّه قائدكم‏    و صهره‏ و كتاب اللّه قد نشرا

“ یہ رسول اﷲ(ـص) کے وصی اور تمھارے قائد ہیں۔ رسول(ص) کے داماد اور خدا کی کھلی ہوئی کتاب ہیں۔”
عبداﷲ بن ابی سفیان بن حرث بن عبدالمطلب کہتے ہیں
۵۶۳

و منا علي ذاك صاحب‏ خيبر  و صاحب بدر يوم سالت كتائبه‏

وصي النبي المصطفى و ابن عمه             فمن ذا يدانيه و من ذا يقاربه

“ اور ہم ہی میں سے وہ علی(ع) ہیں خیبر والے ( جنھوں نے خیبر فتخ کیا) اور بدر والے ( جن کی بدولت جنگ بدر میں فتح ہوئی) جو پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفی(ص)  کے وصی اور ان کے چچا کے بیٹے ہیں۔ کون ان کا مقابلہ کرسکتا ہے اور عزت و شرف میں کون ان سے قریب ہوسکتا ہے۔”

ابو الہیثم بن تیہان صحابی پیغمبر(ص) نے ( جو جنگ بدر میں بھی شریک رہ چکے ہیں ) جنگ جمل کے موقع جپر چند شعر کہے تھے۔ ان میں یہ شعر بھی تھا۔

إن‏ الوصي‏ إمامنا و ولينا                     برح الخفاء و باحت الأسرار.

“ وصی پیغمبر(ص) ہمارے امام و حاکم ہیں۔ پردہ اٹھ گیا اور راز ظاہر ہوگئے۔”

خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین نے ( یہ بھی جنگ بدر میں شریک رہ چکے ہیں۔) جنگ جمل کے موقع جپر چند شعر کہیے ، ان میں ایک شعر یہ تھا۔

يا وصي‏ النبي‏ قد أجلت‏                     الحرب الأعادي و سارت الأظعان‏

“ اے وصی رسول(ص) جنگ نے دشمنوں کو متحرک کردیا ہے ۔ ہودج نشین عورتیں مقابلہ کے لیے چل کھڑی ہوئی ہیں۔”

انھیں کے یہ اشعار بھی ہیں۔

أعايش‏ خلى‏ عن على و عيبه‏               بما ليس فيه يا والدة

وصى رسول اللَّه من دون اهله‏              و انت على ما كان من ذاك شاهدة

“ اے عائشہ ، علی(ع) کی دشمنی اور ان کی عیب جوئی سے جو حقیقتا ان میں
۵۶۴

 نہیں بلکہ تمھاری من گھڑت ہے باز رہو ، وہ رسول خدا(ص) کے وصی ہیں اہلبیت(ع) ہیں، آپ کے سوا اور کوئی وصی رسول (ص) نہیں اور علی(ع9 کو رسول(ص) سے جو خصوصیت حاصل ہے تم خود اس کی چشم دید شاہد ہو۔”

عبداﷲ بن بدیل بن و رقاء خزاعی نے جنگِ جمل مین یہ شعر کہا تھا۔یہ بزرگ بہادرترین صحابہ میں سے تھے ۔ یہ اور ان کے بھائی عبدالرحمن جنگ صفین میں شہید ہوئے۔

يا قوم‏ للخطة العظمى التي حدثت‏          حرب الوصي و ما للحرب من آسي‏

“ اے قوم والو! یہ کتنی مصیبت ہے کہ جس نے وصی رسول(ص) سے جنگ چھیڑ دی ہے اور جنگ کے لیے کوئی مداوا نہیں۔”

خود امیرالمومنین(ع) نے جنگِ صفین کے موقع پر یہ شعر فرمایا :

ما كان يرضى‏ أحمد لو أخبرا        أن يقرنوا وصيه و الأبترا

“ رسول(ص) کو اگر ی یہ خبر پہنچائی جائے کہ لوگوں نے آپ کے وصی اور مقطوع النسل یعنی معاویہ کو ہم پلہ سمجھ لیا ہے تو رسول(ص) اس بات سے ہرگز خوش نہ ہوں گے۔”

جزیر بن عبداﷲ بجلی صحابی نے چند اشعار شرجیل بن سمط کو تحریر کر کے بھیجے تھے اس میں امیرالمومنین(ع) کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :

وَصِيُ‏ رَسُولِ‏ اللَّهِ‏ مِنْ دُونِ أَهْلِهِ‏              وَ فَارِسُهُ الْأُولَى بِهِ يَضْرِبُ الْمَثَلْ.

“ آپ رسول خدا(ص) کے وصی ہیں۔ اہلبیت(ع) میں آپ کے سوائے کوئی دوسرا وصی رسول نہیں اور وہ جماعت کرنے والے شہسوار ہیں جن سے مثل بولی جاتی ہے۔”

عمر بن حارثہ اںصاری نے چند شعر محمد بن امیرالمومنین(ع) ( جو محمد بن حنفیہ

۵۶۵

 کے نام سے مشہور ہیں) کی مدح میں کہے تھے ۔ ان میں ایک شعر یہ بھی ہے۔:

سمي‏ النبي‏ و شبه الوصي‏             و رايته لونها العندم‏

“ ( محمد بن حنفیہ ) نبی(ص) کے ہم نام اور وصی نبی(ص) ( یعنی امیرالمومنین(ع)) کے مشابہ ہیں اور آپ کے علم کے پھریرے کا رنگ خونین رنگ ہے۔”

جب قتل عثمان کے بعد لوگوں نے حضرت علی(ع) کی بیعت کی اس موقع پر عبدالرحمن بن جمیل نے ی شعر کہےتھے:

لعمري‏ لقد بايعتم‏ ذا حفيظة         على الدين معروف العفاف موفقا

عليا وصي المصطفى و ابن عمه‏             و أول من صلى أخا الدين و التقى.

“ اپنی زندگی کی قسم تم نے ایسے شخص کی بیعت کی جو دین کے معاملہ میں بڑا با غیرت و حمیت ہے جس کی پاکدامنی شہرہ آفاق ہے اور توفیقات الہی جس کے شامل حال ہیں۔”
“ تم نے علی(ع) کی بیعت کی ہے جو محمد مصطفی(ص) کے وصی اور ان کے چچا کے بیٹے ہیں اور پہلے نماز پڑھنے والے ہیں اور صاحب دین و تقوی ہیں۔”

قبیلہ ازد کے ایک شخص نے جنگ جمل میں یہ شعر کہے تھے:

هذا علي‏ و هو الوصي‏              آخاه يوم النجوة النبي‏

و قال هذا بعدي الولي‏              وعاه واع و نسي الشقي.

“ یہ علی(ع) ہیں اور وہی وصی ہیں جنھیں رسول(ص) نے یوم نجوہ اپنا بھائی بنایا تھا اور کہا تھا کہ یہ میرے بعد میرے ولی ہیں۔ یاد رکھنے والوں نے اس کو یاد رکھا اور جو بدبخت تھے
۵۶۶

 وہ بھلا بیٹھے۔”

جنگ جمل میں بنی ضبہ کا ایک نوجوان جو جناب عائشہ کی طرف سے جنگ میں شریک تھا صف سے نکلا اور یہ اشعادربطور رجز پڑھے:

نَحْنُ‏ بَنُو ضَبَّةَ أَعْدَاءُ عَلِيٍ‏            ذَاكَ الَّذِي يُعْرَفُ قِدْماً بِالْوَصِيِ‏

وَ فَارِسِ الْخَيْلِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِ‏               مَا أَنَا عَنْ فَضْلِ عَلِيٍّ بِالْعَمِيِ‏

                             لكننی أفعى ابْنَ عَفَّانَ التَّقِيَ‏

“ ہم بنو ضبہ ہیں جو علی(ع) کے دشمن ہیں۔ وہی علی(ع) جو ہمیشہ وصی کہے گئے۔ اوررسول(ص) کے زمانہ میں لشکر کے شہسوار تھے۔ میں علی (ع) کے فضل و شرف سے اندھا نہیں ہوں لیکن میں عثمان کی خبر مرگ سنانے آیا ہوں۔”
سعید بن قیس ہمدانی نے جو حضرت علی(ع) کے ساتھ جنگ میں شریک سے یہ اشعار کہے تھے:

أَيَّةُ حَرْبٍ‏ أُضْرِمَتْ نِيرَانُهَا            وَ كُسِرَتْ يَوْمَ الْوَغَى مُرَّانُهَا

قُلْ لِلْوَصِيِّ أَقْبَلَتْ قَحْطَانُهَا          فَادْعُ بِهَا تَكْفِيكَهَا هَمْدَانُهَا

                             هُمُ بَنُوهَا وَ هُمُ إِخْوَانُهَا.

“ یہ کون سی لڑائی کی آگ بھڑکائی گئی ہے اور جنگ کے دن نیزے ٹوٹ ٹوٹ گئے کہو وصی سے کہ بنو قحطان کل کے کل امڈ آئے ہیں آپ بنی ہمدان کو پکاریے وہ آپ کی کفایت کریں گے کیونکہ وہ بنو قحطان کے بیٹے اور بھائی ہیں۔”

زیاد بن لبید انصاری نے جو امیرالمومنین(ع) کے اصحاب سے ہیں جنگ ِ جمل میں یہ شعر کہے تھے:

۵۶۷

كيف ترى الأنصار في‏ يوم‏ الكلب‏           إنا أناس لا نبالي من عطب‏

و لا نبالي في الوصي من غضب‏             و إنما الأنصار جد لا لعب‏

هذا علي و ابن عبد المطلب‏         ننصره اليوم على من قد كذب‏

             من يكسب البغي فبئس ما اكتسب

“ کیسا پارہے ہیں ہم لوگ ایسے آدمی ہیں جو موت سے نہیں ڈرتے اور وصی کے بارے میں ہم غضب و غصہ کی پروا نہیں کرتے۔ انصار کھیل ٹھٹھا نہیں، وہ حقیقت و واقعیت کے حامل ہیں۔ یہ علی(ع) ہیں جو فرزند عبدالمطلب ہیں۔ ہم ان کی آج جھوٹوں کے مقابلہ میں ؟؟؟ کر رہے ہیں جس نے بغاوت کا ارتکاب کیا اس نے بہت برا کیا۔

حجربن عدی کندی نے بھی اسی دن یہ شعر کہے تھے :

يا ربنا سلم‏ لنا عليا          سلم لنا المبارك المضيا

المؤمن الموحد التقيا           لا خطل الرأي و لا غويا

بل هاديا موفقا مهديا                و احفظه ربي و احفظ النبيا

فيه فقد كان له وليا         ثم ارتضاه بعده وصيا.

“ پروردگار تو ہمارے لیے علی(ع) کو صحیح و سالم رکھ ۔ صحیح و سالم رکھ ہمارے لیے مبارک اور ضیا گستر ہستی کو جو مومن ہیں، موحد ہیں، پرہیز گار ہیں، مہمل رائے والے نہیں نہ گمراہ ہیں بلکہ ہدایت کرنے والے توفیقات ربانی کے حامل ہدایت یافتہ ہیں۔ ان کو محفوظ رکھ پرورگار اور ان کی وجہ
۵۶۸

سے نبی(ص) کو محفوظ رکھ کیونکہ یہ رسول(ص) کے ولی ہیں۔ پھر اپنے بعد کے لیے نبی(ص) نے انھیں وصی بنانا پسند کیا۔”

عمر بن احجیہ نے جنگ جمل کے دن امام حسن(ع) کے خطبہ کی تعریف و توصیف میں جو آپ نے ابن زبیر کے خطبہ کے بعد فرمایا تھا چند شعر پڑھے۔ ایک شعریہ ہے :

و أبى‏ اللّه‏ أن يقوم بما قا             م به ابن الوصيّ و ابن النجيب‏

“ خداوند عالم کو ہرگز گوارا نہیں کہ ابن زبیر وصی کے فرزند اور شریف و معزز کے لختِ جگر یعنی امام حسن(ع) کی برابری کرسکے۔”

زجر بن قیس جعفی نے بھی جنگ جمل کے موقع پر یہ شعر کہا تھا :

أضربكم‏ حتى‏ تقروا لعلي‏             خير قريش كلها بعد النبي‏

             اضربکم حتی تقرروا لعلی              خير قريش کلها بعد النبی

من زانه الله و سماه الوصي‏

“ میں اس وقت تک تم کو یہ تیغ کرتا رہوں گا جب تک تم علی(ع) کی امامت کا اقرار نہ کر لو۔ وہ علی(ع) جو بعد رسول(ص) قریش میں سب سے بہتر ہیں جنھیں خدا نے کمالات و فضائل سے زینت بخشی اور ان کا نام وصی رکھا ہے۔”

انھیں زجر نے جنگِ صفین کے موقع پر یہ اشعار کہے تھے:

فصلى الإله على‏ أحمد                       رسول المليك تمام النعم‏

و صلى على الطهر من بعده‏                خليفتنا القائم المدعم‏

عليا عنيت وصي النبي‏                       يجالد عنه غواة الأمم‏

“ خدا رحمت نازل کرے حضرت احمد مجتبی(ص) پر جو خدا کے رسول(ص) تھے اور جن کے ذریعہ نعمتیں تمام ہوئیں۔ ( رحمت نازل ہو) خدا کے
۵۶۹

 رسول(ص) پر اور ان کے بعد ہمارے موجودہ خلیفہ پر جو جائے پناہ ہیں۔ میری مراد علی(ع) سے ہے جو رسول(ص) کے وصی ہیں جس سے امت کے گمراہ لوگ بر سر پیکار ہیں۔”

اشعث بن قیس کندی کہتا ہے:

أتانا الرسول رسول‏ الإمام‏            فسر بمقدمه المسلمونا

رسول الوصي وصي النبي‏            له السبق و الفضل في المؤمنينا.

“ ہمارے پاس قاصد آیا، امام کا قاصد ، اس کے آنے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، وصی کا قاصد آیا وہ وصی جو نبی(ص) کا ہے جسے تمام مومنین میں سبقت و فضیلت حاصل ہے۔

نیز یہ اشعار بھی اسی اشعث کے ہیں :

أَتَانَا الرَّسُولُ رَسُولُ‏ الْوَصِيِ‏           عَلِيٌّ الْمُهَذَّبُ مِنْ هَاشِمٍ‏

وَزِيرُ النَّبِيِّ وَ ذُو صِهْرِهِ‏                       وَ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ فِي الْعَالَمِ‏

“ ہمارے پاس قاصد آیا وصی رسول(ص) کا قاصد یعنی علی(ع) کا جو بنی ہاشم میں (  کمالات سے) آراستہ و پیراستہ ہیں جو نبی(ص) کے وصی ہیں اور داماد ہیں اور تمام عالم اور جملہ خلق سے بہتر ہیں۔”

نعمان بن عجلان زرقی اںصاری نے جنگ صفین میں یہ اشعار کہے :

كيف‏ التفرق‏ و الوصي إمامنا                لا كيف إلا حيرة و تخاذلا

     و ذروا معاوية الغوي و تابعوا            دين الوصي لتحمدوه آجلا

“ یہ پراگندگی کیسی جبکہ وصی رسول(ص) ہمارے امام ہیں ۔ نہیں بھلا کیونکر یہ پراگندگی ممکن ہے ۔یہ صرف سرگشتگی اور ایک دوسرے
۵۷۰

کی مدد نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ گمراہ معاویہ کو چھوڑو اور وصی رسول(ص) کے دین کی پیروی کرو تاکہ تمھارا انجام پسندیدہ ہو۔”

عبدالرحمن بن ذؤیب اسلمی نے چند اشعار کہے جن میں معاویہ کو عراق کی نوجون کی دھمکی دی تھی۔

يَقُودُهُمُ الْوَصِيُ‏ إِلَيْكَ‏ حَتَّى‏           يَرُدَّكَ عَنْ عَوَائِكَ وَ ارْتِيَابِ‏

“ ان سواروں کے لے کر وصی رسول(ص) تم پر چڑھائی کریںگے۔ یہاں تک کہ تم گمراہی اور اس اشتباہی کیفیت سے پلٹ آؤ۔”

عبداﷲ بن ابی سفیان بن حارث(1) بن عبدالمطلب کہتے ہیں :

و انّ‏ ولىّ‏ الامر بعد محمّد            علىّ و في كلّ المواطن صاحبه‏

وصىّ رسول اللَّه حقّا و جاره‏                و اوّل من صلّى و من لان جانبه‏

“ رسالتماب(ص) کے بعد مالک و مختار علی(ع) ہیں جو ہر منزل پر رسول(ص) کے ساتھ رہے ۔ رسول(ص) کے وصی برحق ہیں  وہ اور رسول(ص) ایک جڑ کی دو شاخین ہیں اور پہلے نمازی ہیں اور نرم پہلو رکھنے والے ہیں۔”

خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین کہتے ہیں:

--------------

1ـ یہ تمام اشعار کتب سیر و تواریخ خصوصا وہ کتابیں جو جنگ جمل و صفین پر لکھی گئی ہیں میں موجود ہیں علامہ ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں یہ تمام اشعار اکٹھا کر دیے ہیں اور ان اشعار کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ایسے اشعار جن میں حضرت کو وصی کہہ کر مراد لیا گیا بے شمار ہیں ہم نے یہاں صرف وہ اشعار درج کیے ہیں جو بالخصوص جنگ جمل و صفین کے موقع پر کہے گئے۔

۵۷۱

وصي‏ رسول‏ الله‏ من دون أهله‏               و فارسه مذ كان في سالف الزمن‏

و أول من صلى من الناس كلهم‏            سوى خيرة النسوان و الله ذو منن

“ رسول خدا(ص) کے وصی ہیں اہلبیت(ع) میں آپ کے سوا کوئی وصی رسول(ص) نہیں ۔ رسول(ص) کے شہسوار میدان دغا ہیں گزشتہ زمانے سے تمام لوگوں میں سوا جناب خدیجہ کے سب سے پہلے نماز پڑھنے والے ہیں اور خداوند عالم بڑے احسانات والا ہے۔”

زفربن حذیفہ اسدی کہتے ہیں(1) :

فحوطوا عليا و احفظوه فإنه‏         وصي و في الإسلام أول أول.

“ علی(ع) کو اپنے حلقہ میں لے لو اور ان کی مدد کرو کیونکہ یہ وصی ہیں اور سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں اول ہیں۔”

ابوالاسود دولی کہتے ہیں :

أحبّ‏ محمّدا حبّا شديدا                     و عبّاسا و حمزة و الوصيّا

“ میں حضرت محمد مصطفی(ص) سے بہت ہی زیادہ محبت رکھتا ہوں اور عباس اور حمزہ سے اور وصی رسول(ص) سے ۔”

نعمان(2) بن عجلان جو اںصار کے شاعر ہیں اور ان کے سرداروں مٰیں سے ایک سردار تھے ایک قصیدہ میں کہتے ہیں جس میں انھوں نے عمرو عاص سے خطاب کیا :

--------------

1ـ زفر کا یہ شعر اور اس کے قبل حزیمہ کے دونوں شعر امام اسکافی نے اپنی کتاب نقض عثمانہ میں ذکر کیا ہے اور اسے ابن ابی الحدید نے شرح النہج البلاغہ جلد3 صفحہ458 پر نقل کیا ہے۔

2ـ شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 13 و استیعاب حالات نعمان۔

۵۷۲

و كان‏ هوانا في عليّ و أنّه‏          لأهل لها يا عمرو من حيث لا تدري‏

فذاك‏ بعون‏ الله‏ يدعو إلى الهدى‏              و ينهى عن الفحشاء و البغي و النكر

وصي النبي المصطفى و ابن عمه‏             و قاتل فرسان الضلالة و الكفر

“ عمرو عاص علی(ع) کی اہانت کرتا ہے حالانکہ یہی علی(ع) سزاوار خلافت ہیں جیسا کہ تم جانتے ہو یا تم نہ بھی جانو خدا کی طرف سے ہدایت کی طرف لاتے ہیں اور بری باتوں سے بغاوت و سرکشی سے اورہر ناپسندیدہ امر سے روکتے ہیں ۔ حضرت محمد مصطفی(ص) پیغمبر خدا کے وصی اور ان کے چچا کے بیٹے ہیں

اور گمراہی و کفر کے سواروں کو قتل کرنے والے ہیں۔

فضل بن عباس نے چند اشعار کہے تھے ان میں یہ دو شعر(1) بھی تھے۔

ألا انّ خير النّاس بعد نبيّهم‏          وصيّ‏ النّبيّ‏ المصطفى‏ عند ذي الذّكر

و أوّل من صلّى و صنو نبيّه‏         و أوّل من أردى الغواة لدى بدر

“ آگاہ ہو لوگوں میں بعد رسول(ص) سب سے بہتر حضرت محمد مصطفی(ص) پیغمبر خدا(ص) کے وصی ہیں ہر یاد رکھنے والے کے نزدیک اور پہلے نماز پڑھنے والے ہیں اور رسول(ص) و علی(ع) ایک ہی جڑ کی دو شاخین ہیں اور پہلے وہ شخص ہیں جنھوں نے جنگ بدر میں سرکشوں کو ہلاک کیا”

حسان(2) بن ثابت نے چند اشعار کہے تھے جن میں بزبان اںصار امیرالمومنین(ع)

--------------

1ـ تاریخ کامل جلد3 ص24

2ـ اس شعر کو زبیر بن بکار نے موفقیات میں درج کیا ہے اور اس سے ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ 5 پر نقل کیا ہے۔

۵۷۳

 کی مدح سرائی کی ہے:

حفظت‏ رسول‏ الله‏ فينا و عهده‏              إليك و من أولى به منك من و من‏

أ لست أخاه في الهدى و وصيه‏              و أعلم منهم بالكتاب و بالسنن

“ آپ نے ہمارے درمیان رسول(ص) کی حفاظت کی اور اس عہد کی حفاظت کی جو رسول(ص) نے آپ سے متعلق کیا تھا اور آپ سے بڑھ کر رسول(ص) سے زیادہ قربت و خصوصیت کون رکھ سکتا ہے آیا کار ہدایت میں آپ ان کے وصی نہیں اور تمام لوگوں سے زیادہ قرآن  و احادیث نبی(ص) کا علم رکھنے والے ہیں۔”

کسی شاعر نے امام حسن(ع) سے خطاب کر کے کہا ہے :

‏ يا اجل الانام يا ابن الوصی        انت سبط النبی وابن علی

 “ تمام خلائق میں بزرگ و برتر ہستی اے وصی رسول(ص) کے فرزند آپ سبط پیغمبر(ص) اور علی(ع) ک بیٹے ہیں۔”

ام سنان بنت خیثمہ بن خرشہ مذحجیہ(1) نے چند اشعار حضرت علی(ع) کو مخاطب کر کے کہے جن میں آپ کی مدح کی تھی:

قد كنت‏ بعد محمد خلفا لنا                 أوصى إليك بنا فكنت وفيا

“ آپ رسول(ص) کے بعد ہمارے لیے رسول(ص) کے جانشین تھے رسول(ص) نے آپ کو اپنا وصی بنایا ۔ آپ نے رسول(ص) کی تمام باتیں پوری کیں۔”

یہ چند اشعار ہیں جنھیں جلدی میں لکھ سکا اور جتنی گنجائش ہوسکی

--------------

1ـ بلاغات النساء

۵۷۴

اس مکتوب میں ان اشعار کی جو امیرالمومنین(ع) کے زمانہ میں اس مضمون کے کہے گے اگر عہد امیرالمومنین(ع) کے بعد کے اشعار جمع کرنے بیٹھیں جن میں آپ کو وصی کہہ کر خطاب کیا گیا ہے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہوجائے اور پھر بھی اشعار اکٹھا نہ ہوسکیں۔ سب اشعار لکھنے میں تھک بھی جائیں گے اور اصل بحث سے بھی ہٹ جائیں گے اس لیے صرف مشاہیر کے کچھ اشعار پر ہم اکتفا کرتے ہیں ۔ انھیں چند اشعار کو اس مضمون کے تمام اشعار کا نمونہ سمجھ لیجیے۔

کمیت ابن زید اپنے قصیدہ ہاشمیہ میں کہتے ہیں(1) :

والوصی الذی امال التجوبی                 به عرش امه لانهدام

“ وہ ایسے وصی ہیں جنھوں نے امت کے گرتے ہوئے عرش کو سیدھا کردیا۔”

--------------

1ـ علامہ شیخ محمد محمود الرافعی جنھوں نے کمیت کے اشعار کی  شرح لکھی ہے اس شعر کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وصی سے مراد علی کرم اﷲ وجہ ہیں کیونکہ پیغمبر خدا(ص) نے آپ کو وصی مقرر فرمایا چنانچہ ابن بریدہ سے روایت ہے کہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا  ہر نبی کے لیے وصی ہوا کرتا ہے اور علی(ع) میرے وصی و وارث ہیں اور امام ترمذی نے پیغمبر(ص) سے روایت کی ہے آپ نے ارشاد فرمایا : من کنت مولاہ فہذا علی (ع) مولاہ اور امام بخاری نے سعد سے روایت کی ہے کہ جب پیغمبر(ص) غزوہ تبوک میں جانے لگے اور مدینہ میں علی(ع) کو اپنا خلیفہ بنایا تو علی(ع) نے کہا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا اے علی(ع) کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمھیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہے جو ہارون (ع) کو موسی(ع) سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ یہ لکھنے کے بعد علامہ رافعی لکھتے ہیں کہ حضرت علی(ع) کو وصی رسول(ص)کہنا اکثر و بیشتر کی زبان پر چڑھا ہوا تھا اور اس کے ثبوت میں انھوں نے مشہور شاعر کثیر عزہ کا شعر نقل کیا ہے ۔ جو ہم انھی صفحات پر درج کررہے ہیں۔

۵۷۵

کثیر بن عبدالرحمن بن الاسود بن عامر الخزاعی جو کثیر عزة کے نام سے مشہور ہیں کہتے ہیں:

وصي‏ النبي‏ المصطفى‏ و ابن عمه‏             و فكاك أغلال و قاضي مغارم.

“ پیغمبر خدا محمد مصطفی (ص) کے وصی اور آپ کے چچا کے بیٹے ہیں غلاموں کو آزاد کرنے والے اور قرضوں کو پورا کرنے والے ہیں۔”

ابو تمام طائی اپنے قصیدہ رائیہ میں کہتے ہیں :

ومن قبله احلفتم لوصيه                      بداهيه دهياء ليس لها قدر

فجئتم بها بکرا عوانا ولم يکن                لها قبلها مثلا عوان ولا بکر

 أخوه إذا عد الفخار و صهره‏               فلا مثله أخ و لا مثله صهر

و شد به‏ أزر النبي‏ محمد             كما شد من موسى بهارونه الأزر

 “ اس کے پہلے تم نے ان کے وصی کو خوفناک مصیبت میں مبتلا کیا جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ تم
نئی نئی مصیبتیں ان کے سامنے لائے ایسی مصیبتیں اس سے پہلے کبھی نہیں آئیں۔ اظہار شرف کے موقع پر علی(ع) رسول(ص) کے بھائی اور داماد ہیں۔ علی(ع) جیسا نہ کوئی بھائی تھا نہ داماد۔ رسول(ص) کی پشت ان کی وجہ سے اس طرح  مضبوط ہوئی جس طرح ہارون(ع) کی وجہ سے موسی(ع) کی پشت مضبوط ہوئی۔”

دعبل بن علی خزاعی حضرت مظلوم کربلا(ع) کو مرثیہ کہتے ہوئے کہتے ہیں :

رأس‏ ابن‏ بنت‏ محمد و وصيّه‏         للرجال على قناة يرفع‏  

“ ہائے لوگو! حضرت محمد مصطفی(ص) کی دختر اور آپ کے وصی
۵۷۶

کے فرزند کا سر اس قابل تھا کہ نیزے پر بلند کیا جائے۔”

ابوالطیب متنبی کو جب لوگوں نے بر بھلا کہا کہ تم ایرے غیرے کی مدح کرتے ہو اور حضرت علی(ع) کی مدح میں تم نے کبھی ایک شعر بھی نہیں کہا تو وہ کہتا ہے :

و تركت‏ مدحي‏ للوصيّ تعمّدا               إذ كان نورا مستطيلا شاملا

و إذا استطال الشي‏ء قام بنفسه‏             و صفات نور الشمس تذهب باطلا

“ میں نے وصی رسول(ص) امیرالمومنین(ع) کی مدح نہ کی تو جان بوجھ کر ایسا کیا کیونکہ وہ ایسا نور ہیں جس کی روشنی عالم میں پھیلی ہوئی ہے اور تمام کائنات کو اپنے حلقہ میں لیے ہوئے ہے۔ جب کوئی شے بلند ہوجاتی ہے تو اپنے بقاء کی خود ضامن بن جاتی ہے ۔ نورِ خورشید کی ثنا و صفت کرنا فعلِ عبث ہے۔( خورشید اپنے وجود کا خود معرف ہے۔)

یہی متنبی ابوالقاسم طاہر بن الحسین بن طاہر علوی کی مدح لکھتے ہوئے کہتا ہے جیسا کہ اس کے دیوان میں موجود ہے:

هو ابن‏ رسول‏ اللّه‏ و ابن وصيه‏              وشبههما شبهت بعد التجارب

“ یہ ابوالقاسم رسول(ص) اور ان کے وصی حضرت علی(ع) کے فرزند ہیں اور ان دونوں سے مشابہ ہیں۔”

میں نے ان کو ان بزرگوں سے جو تشبیہ دی ہے تو بہت کچھ تجربوں کے بعد آراء پرکھ کے یوں ہی نہیں ۔ اس جیسے بہت سے اشعار ہیں جس کی نہ کوئی انتہا ہے نہ مد وحساب۔

                                                     ش

۵۷۷

مکتوب نمبر55

ہم نے سابق کے کسی مکتوب میں آپ سے عرض کیا تھا کہ بعض متعصب اشخاص آپ کے مذہب کے متعلق یہ کہتے پھرتے ہین کہ آپ کا مذہب ائمہ اہل بیت(ع) سے کوئی تعلق نہیں رکھتا نہ ان کی طرف آپ کے مذہب کو منسوب کرنا صحیح ہے ۔ آپ سے اس پر بھی روشنی ڈالنے کا وعدہ تھا۔ اب وقت آگیا ہے آپ وعدہ ایفا فرمائیے۔ ان متعصبین کی بکواس کا جواب دیجیے۔

                                                             س

۵۷۸

جواب مکتوب

مذہب شیعہ کا اہلبیت(ع) سے ماخوذ ہونا

ارباب فہم و بصیرت بدیہی طور پر جانتے ہیں کہ فرشتہ شیعہ کا سلف سے لے کر خلف تک ابتدا آج کے دن تک اصول دین ، فروع دین ہر ایک میں بس ائمہ اہل بیت(ع) ہی کی طرف رجوع رہا۔ اصول و فروع اور قرآن وحدیث سے جتنے مطالب مستفاد ہوتے ہیں یا قرآن و حدیث جتنے علوم تعلق رکھتے ہیں غرض ہر چیز میں ان کی رائے کے تابع ہے۔ ان کلی چیزوں میں صرف ائمہ طاہرین(ع) پر انھوں نے بھروسہ کیا۔ انھیں کی طرف رجوع کیا۔

مذہب اہلبیت(ع) ہی کے قاعدوں سے وہ خدا کی عبادت کرتے ہیں اس کا تقرب حاصل کرتے ہیں اس مذہب کے علاوہ کوئی رہ ہی نظر نظر نہیں آتی اور نہ اس مذہب کو چھوڑ کر اس کے بدلہ میں کسی اور مذہب کو اختیار کرنا انھیں گوارا ہوگا۔

ہر ایک امام کے زمانے میں امیرالمومنین(ع) کے عہد میں ، امام حسن(ع) کے عہد میں، امام حسین(ع) کے عہد میں، امام محمد باقر(ع) و جعفر صادق(ع) کے عہد میں، امام موسی کاظم(ع) و امام علی رضا(ع) کے عہد میں، امام محمد تقی(ع)  وعلی نقی(ع) کے عہد میں، امام حسن عسکری(ع) کے عہد میں ، غرض جس امام کا بھی عہد آیا ان گنت ثقات شیعہ حافظان حدیث ، بے شمار صاحب ورع و ضبط و اتفاق نے جن کی تعداد و تواتر سے بھی بڑھ کر تھی اپنے اپنے زمانے کے امام کی صحبت میں

۵۷۹

 بیٹھ کر ان سے استفادہ کر کے ان اصول و فروع کو حاصل کیا اور انھوں نے اپنے بعد کے لوگوں سے بیان کیا۔ اسی طرح ہر زمانہ اور ہر نسل میں یہ اصول و فروع نقل ہوتے رہے یہاں تک کہ ہم تک پہنچے لہذا ہم بھی اسی مسلک پر ہیں جو ائمہ اہل بیت(ع) کا مسلک رہا کیونکہ ہم نے ان کے مذہب کی ایک ایک چیز جزئی جزئی باتیں اپنے آباء و اجداد سے حاصل کیں، انھوں نے اپنے آباء و اجدادسے حاصل کیں اسی طرح شروع سے یہ سلسلہ جاری رہا ۔ ہر نسل و ہر عہد میں جو دور بھی آیا وہ اپنے اگلے برزگوں سے حاصل کرتا ہوا آیا ۔ آج ہم شمار کرنے بیٹھیں کہ سلفِ شیعہ میں کتنے افراد ائمہ طاہرین(ع) کی صحبت سے فیضیاب ہوئے ، ان سے احکام دین کو سنا ، ان سے استفادہ کیا۔ تو ظاہر ہے کہ شمار کرنا سہل نہیں کس کے بس کی بات ہے کہ ان کا احصار کرسکے۔ اس کا اندازہ لگانا ہوتو آپ ان بے شمار کتابوں سے لگائیے جو ائمہ طاہرین(ع) کے ارشادات و افادات سے استفادہ کر کے لکھی ہیں، ائمہ طاہرین(ع) سے معلوم کر کے ان سے سن کر تحریر کی ہیں۔ یہ کتابیں کیا ہیں۔ ائمہ طاہرین(ع) کے علوم کا دفتر، ان کی حکومتوں کا سرچشمہ ہیں جو ائمہ طاہرین(ع) کے عہد میں ضبط تحریر میں لائی گئیں اور ان کے بعد شیعوں کا مرجع قرار پائیں۔

اسی سے آپ کو مذہب اہلبیت(ع) اور دیگر مذاہب مسلمین میں فرق و امتیاز معلوم ہوجائے گا ۔ ہم کو تو نہیں معلوم کہ ائمہ اربعہ کے مقلدین میں سے کسی ایک نے بھی ان ائمہ کے عہد میں کوئی کتاب تالیف کی ہو۔ ان ائمہ کے مقلدین نے کتابیں لکھیں اور بے شمار لکھیں لیکن اس وقت لکھیں جب ان کا زمانہ ختم ہوگیا انھیں دنیا سے رخصت ہوئے مدتیں گزر گئیں اور تقلید انھیں چاروں ائمہ میں منحصر سمجھ لی گئی۔ یہ لے کر لیا گیا کہ فروع دین میں بس انھیں چاروں اماموں میں سے کسی نہ کسی ایک کی تقلید ضروری ہے۔

۵۸۰