دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)0%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ سید شرف الدین عاملی(رح)
زمرہ جات: صفحے: 639
مشاہدے: 262447
ڈاؤنلوڈ: 6008

تبصرے:

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 262447 / ڈاؤنلوڈ: 6008
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اپنے طبقہ کے لوگوں میں انھیں اس وقت کوئی امتیاز ہی نہ حاصل تھا۔ اسی وجہ سے انکے زمانہ میں کسی شخص کو یہ خیال بھی پیدا نہ ہوا کہ ان کے فتاویٰ اسی طرح اکٹھا کرنے کی زحمت اٹھائے ۔ جس طرح شیعوں نے اپنے ائمہ معصومین(ع) کے اقوال فتاوی جمع کرنے کا اہتمام کیا۔

شیعہ تو اول یوم ہی سے دینی امور میں سوائے ائمہ طاہرین(ع) کے کسی اور کی طرف رجوع کرنا جائز ہی نہیں سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے بس انھیں کے آستانے پر معتکف رہے۔ امور دین کے حاصل کرنے کے لیے بس انھیں سے لو لگائی ۔ یہی وجہ تھی جو انھوں نے ائمہ طاہرین(ع) سے سنی ہوئی ہر بات اور ان کے لب و زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو مدون کرنے کے لیے پوری طاقت صرف کی، تمام توانائیاں کام میں لائے ۔ اس لیے تاکہ یہ علم کا خزانہ ائمہ کے ارشادات محفوظ ہوجائیں۔ جن کے متعلق ان کا اعتقاد تھا کہ بس یہی عنداﷲ صحیح ہیں اور ان کے ماسوا سب باطل۔ آپ صرف انھیں کتابوں سے اندازہ لگائیں جو شیعوں نے امام جعفر صادق(ع) کے زمانے میں لکھیں ۔ جو صرف علم اصول کی ان چار سو کتابوں سے بھی دگنی چوگنی تعداد میں ہیں۔ جیسا کہ آپ جلد ہی اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں گے۔ رہ گئے آپ کے ائمہ اربعہ تو ان ائمہ میں سے کسی ایک امام کو بھی کسی ایک شخص کی نظروں میں نہ تو وہ وقعت حاصل ہوئی نہ کسی کے دل میں ان کی عزت پیدا ہوئی جو وقعت و عزت ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی شیعوں کے نزدیک رہی۔ بلکہ سچ پوچھیے تو آج یہ ائمہ اربعہ جس عزت کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں جو درجہ انھیں ان کے مرنے کے بعد دیا جارہا ہے خود ان کے جیتے جی انھیں یہ عزت حاصل نہ ہوسکی جیسا کہ علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں وضاحت کی ہے اور دیگر علمائے

۵۸۱

اعلام نے بھی ان کے قول کو تسلیم کیا ہے اس کے باوجود بھی ہمیں اس میں کوئی شبہ نہیں ہ ان ائمہ اربعہ کا وہی مذہب رہا ہوگا جو آج ان کے پیرووں کا ہے اور جس مذہب پر نسلا بعد نسلِ عملدر آمد ہوتا آرہا ہے اور اس مذہب کو پیروانِ ائمہ اربعہ نے اپنی کتابوں میں مدون کرلیا ۔ کیونکہ پیروان ائمہ اربعہ اپنے ائمہ کے مذہب کی پوری پوری معرفت رکھتے تھے جیسا کہ شیعہ حضرات اپنے ائمہ طاہرین(ع) کے مذہب سےاچھی طرح واقف ہیں۔ جس مذہب پر عمل پیرا ہو کر خدا کی عبادت کرتے ہیں اور سوائے تقرب الہی کے اور کسی کا تقرب ان کے مدِ نظر نہیں۔

تصنیف و تالیف کی ابتداء شیعوں سے ہوئی

چھان بین کرنے والے بدیہی طور پر جانتے ہیں کہ علوم کی تدوین میں حضرات شیعہ سب پر گوئے سقبت لے گئے۔ علوم مدون کرنے میں سب سے تقدم حاصل رہا۔ کیونکہ دور اول میں سوائے امیرالمومنین(ع) اور شیعیان امیرالمومنین(ع) کے تدوین علوم کو کسی کو خیال بھی پیدا نہ ہوا اور اس کا راز یہ ہے کہ ابتداء صحابہ اسی میں الجھے رہے کہ علم کو کتابی صورت میں لانا ، علم لکھنا جائز بھی ہے یا نہیں؟ صحابہ کے درمیان شدید اختلاف تھا۔ کوئی جائز بتاتا تھا کوئی ناجائز ۔ چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے مقدمہ فتح الباری وغیرہ میں تحریر کیا ہے کہ خود حضرت عمر اس کو ناپسند کرتے تھے اور حضرت عمر کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت بھی ان کی ہم کو خیال تھی۔ انھیں یہ خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ کہیں حدیث لکھنے میں خلط ملط نہ ہوجائے۔ مگر حضرت علی(ع) اور آپ کے

۵۸۲

فرزند امام حسن مجتبی(ع) اور صحابہ کی ایک خاص تعداد نے اسے جائز قرار دیا پہلے زمانہ تو یہی کشاکش رہی ایک جماعت جائز کہتی تھی دوسری ناجائز بتاتی تھی دوسرے دور میں جب تابعین کا زمانہ آخر تھا تو اس وقت اختلافات بر طرف ہوئے اور سب کا اجماع ہوگیا کہ لکھنا جائز ہے ۔ اس وقت ابن جریح نے مکہ میں مجاہد اور عطاء ( تابعین) سے استفادہ کر کے آثار میں اپنی کتاب تالیف کی۔امام غزالی ان کی اس کتاب کے متعلق فرماتے تھے کہ : پہلی کتاب جو اسلام میں لکھی گئی لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ پہلی کتاب ہے جسے غیر شیعہ مسلم نے لکھا ہے۔ ابن جریح کے بعد معتمر بن راشد صنعانی نے یمن میں اپنی کتاب تالیف کی۔ تیسرا البر امام مالک کی موطاء کا ہے۔

مقدمہ فتح الباری میں ہے کہ ربیع بن صبیح پہلے وہ بزرگ ہیں جنھوں نے علوم جمع کیے اور یہ زمانہ تابعین کے آخر میں گزرے ہیں۔بہر حال چاہے ربیع ابن صبیح پہلے مولف ہوں یا ابن جریح ی تو یقینی اور اجماعی بات ہے کہ عصر اول میں شیعوں کے علاوہ مسلمانوں کی کوئی تا لیف نہیں مگر حضرت علی(ع) اور آپ کے شیعہ کو تو عصر اول ہی میں اس کا خیال پیدا ہوا ۔ انھوں نے دورِ اول ہی میں تالیف کا کام شروع کردیا۔ کتاب جسے امیرالمومنین(ع) نے مدون کیا وہ قرآن مجید ہے۔

حضرت علی(ع) جب رسول(ص) کے دفن و کفن سے فارغ ہوئے تو آپ نے یہ عہد کیا کہ جب تک قرآن جمع نہ کرلیں گے کوئی کام نہ کریں گے۔ چنانچہ آپ نے موافق نزول کلام مجید جمع فرمایا اور ساتھ ساتھ اس کی طرف بھی اشارہ کرتے گئے کہ کون آیت خاص ہے کون عام کون مطلق ہے کون مقید، کون محکم ہے کون متشابہ، ناسخ کون ہے منسوخ کون، عزائم کون ہیں رخص کون۔ سنن سے متعلق کون سی آیتیں ہیں۔ آداب سے متعلق کون۔ اسباب نزول کی بھی

۵۸۳

آپ نے تصریح کی ۔ نیز جو آیتیں کسی جہت سے مشکل تھیں ان کی وضاحت بھی کی ۔

ابن سیرین کہا کرتے کہ اگر حضرت علی(ع) کا جمع کیا ہوا قرآن مل جاتا تو تمام علم اسی میں مل(1) جاتا۔

اور بھی صحابہ نے قرآن جمع کرنے کی کوشش کی لیکن موافق نزول جمع کرنا ان سے ممکن نہ ہوسکا اور نہ مذکورہ بالا رموز وہ لکھ سکے ۔ اس بنا پر امیرالمومنین(ع) کی جمع و ترتیب ، تفسیر سے زیادہ مشابہ تھی  اور جب آپ قرآن کے جمع سے فارغ ہوچکے تو آپ نے جناب سیدہ(س) کی تسکین و تسلی اور پدر بزرگوار کا غم غلط کرنے کے لیے ایک کتاب تالیف فرمائی جو جناب سدہ(س) کی اولاد طاہرین(ع) میں مصحف فاطمہ(س) کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں امیرالمومنین(ع) نے امثال حکمت کی باتیں ، مواعظ ، نصائح ، اخبار اور نوادر جمع کیے تھے۔

اس کے بعد آپ نے ایک کتاب دیات میں تالیف کی ۔ اس کا نام صحیفہ رکھا۔ چنانچہ ابن سعد نے اپنی کتاب جو جامع کے نام سے مشہور ہے کے آخر مین امیرالمومنین(ع) کی طرف منسوب کر کے اس صحیفہ کا حوالہ دیا ہے۔ اور اس سے روایتیں کی ہیں ۔ منجملہ ان روایات کے جو بخاری و مسلم نے اس صحیفہ سے لی ہیں وہ حدیث ہے جو انھوں نے اعمش سے روایت کی ہے اور اعمش نے ابراہیم تیمی سے انھوں نے اپنے باپ سے کی ہے وہ کہتے تھے کہ :

“ حضرت علی(ع) فرماتے تھے کہ کلام مجید کو چھوڑ کے کوئی کتاب

--------------

1ـ طبقات ابن سعد جلد2 قسم 2 صفحہ18 صواعق محرقہ بن حجر مکی ریاض النصرہ جلد2 صفحہ168

۵۸۴

ہمارے پاس نہیں جسے ہم پڑھا کریں سوائے اس صحیفہ کے یہ کہہ کر آپ نے اس صحیفہ کو نکالا تو اس میں کچھ مسائل جراحات اور  اسنان الابل کے متعلق تحریر تھے اور اسی صحیفہ میں یہ بھی مرقوم تھا کہ مدینہ عیر سے لے کر ثور تک حرم ہے اتنی جگہ میں جو شخص کسی حادثہ کا مرتکب ہوگا یا کسی فسادی کو پناہ دے گا اس پر خدا اور ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔”
یہ پوری حدیث صحیح بخاری جلد4 کتاب الفرائض کے باب اثم من تبرا من موالیہ میں انھیں الفاظ کےساتھ موجود ہے ۔ اور صحیح مسلم جلد اول کتاب الحج باب فضل المدینہ میں موجود ہے۔امام احمد نے بھی اپنے مسند میں اس صحیفہ کا اکثر بیشتر مقامات پر تذکرہ کیا ہے منجملہ ان کے مسند جلد اول صفحہ 100 پر طارق بن شہاب سے روایت کی ہے طارق کہتے ہیں کہ :
“ میں نے امیرالمومنین(ع) کو دیکھا کہ آپ منبر پر فرمارہے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں جسے ہم تمھیں پڑھ کر سنائیں سوائے کلام مجید کے اور اس صحیفہ کے ( وہ صحیفہ آپ کی تلوار میں لٹک رہا تھا) جسے میں نے رسول اﷲ(ص) سے حاصل کر کے لکھا ہے۔” یہ پوری حدیث صحیح بخاری جلد4 کتاب الفرائض کے باب اثم من تبرا من موالیہ میں انھیں الفاظ کےساتھ موجود ہے ۔ اور صحیح مسلم جلد اول کتاب الحج باب فضل المدینہ میں موجود ہے۔
امام احمد نے بھی اپنے مسند میں اس صحیفہ کا اکثر بیشتر مقامات پر تذکرہ کیا ہے منجملہ ان کے مسند جلد اول صفحہ 100 پر طارق بن شہاب سے روایت کی ہے طارق کہتے ہیں کہ :“ میں نے امیرالمومنین(ع) کو دیکھا کہ آپ منبر پر فرمارہے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں جسے ہم تمھیں پڑھ کر سنائیں سوائے کلام مجید کے اور اس صحیفہ کے ( وہ صحیفہ آپ کی تلوار میں لٹک رہا تھا) جسے میں نے رسول اﷲ(ص) سے حاصل کر کے لکھا ہے۔”صفار نے عبدالملک سے روایت کی ہے کہ :“ امام محمد باقر(ع) نے حضرت امیرالمومنین(ع) کی کتاب طلب کی امام جعفر صادق(ع) اسے اپنے پدر بزرگوار کے پاس لائے۔ وہ
۵۸۵

مثل آدمی کی ران کے ضخیم اور لپٹی ہوتی تھی۔ اس میں یہ لکھا ہوا تھا: جب شوہر مرجائے تو اس کی زوجہ کو اس کے مکانات اور زمیوں سے کچھ نہ ملے گا۔ امام محمد باقر(ع) نے دیکھ کر فرمایا قسم بخدا یہ حضرت علی(ع) کے خط ہے اور رسول(ص) کا لکھایا ہوا ہے۔”

شیعوں کی ایک خاصی تعداد نے بھی امیرالمومنین(ع) کی پیروی کی اور آپ کے عہد میں کتابیں تالیف کیں۔ منجملہ ان کے جناب سلمان فارسی اور ابوذر غفاری ہیں۔ جیسا کہ علامہ ابن شہر آشوب نے تحریر فرمایا ہے:

“ اسلام میں سب سے پہلے مصنف حضرت علی(ع) ابن ابی طالب(ع) ہیں پھر سلمان فارسی پھر ابوذر۔”

اور دوسرے لوگ منجملہ شیعیانِ امیرالمومنین(ع) کے ابو رافع آزاد کردہ غلام رسول اﷲ(ص) ہیں امیرالمومنین (ع) کے  عہد میں بیت المال کے نگران بھی رہے۔ یہ امیرالمومنین(ع) کے مخصوص موالیوں میں سے تھے اور آپ کی قدر ومنزلت کی معرفت رکھتے تھے ۔ انھوں نے ایک کتاب سنن و قضایا میں لکھی ہے جسے انھوں نے صرف امیرالمومنین(ع) کی حدیثوں سے ترتیب دیا تھا۔ یہ کتاب ہمارے اسلاف کے نزدیک انتہائی عظمت و احترام کی نظروں سے دیکھی جاتی تھی اور ہمارے اسلاف نے اپنے اپنےطرق و اسناد سے اس کی روایت کی ہے۔”

انھیں میں سے علی بن ابی رافع ہیں( اصابہ میں ان کے حالات میں لکھا ہے کہ یہ عہد رسالتماب(ص) میں پیدا ہوئے اور رسول اﷲ(ص) ہی نے ان کا نام علی رکھا انکی ایک کتاب فنون فقہ میں ہے جسے انھوں نے موافق مذہب

۵۸۶

 اہل بیت(ع) تحریر کیا ہے۔ اہل بیت علیہم السلام اس کتاب کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اپنے شیعوں کو اسی کتاب کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت فرماتے ۔

موسی بن عبداﷲ بن حسن فرماتے ہیں کہ :

“ میرے والد ماجد سے کسی نے تشہد کا مسئلہ پوچھا ۔ والد ماجد نے مجھ سے فرمایا : کہ ابن ابی رافع والی کتاب لاؤ۔ کتاب لائی گئی اور آپ نے اسے ہم لوگوں کو لکھایا۔”

صاحب روضات الجنات نے خیال کیا ہے کہ یہ فقہ کی پہلی کتاب ہے جو شیعوں میں لکھی گئی لیکن انھیں غلط فہمی ہوئی۔

منجملہ ان مصنفین شیعہ کے عبیداﷲ بن ابی رافع ہیں جو امیرالمومنین(ع) کے کاتب اور آپ کے مخصوص موالیوں میں سے تھے ۔ انھوں نے رسول اﷲ(ص) سے حدیثیں سنین۔ انھیں سے رسول اﷲ(ص) کی یہ حدیث مروی ہے جو آںحضرت (ص) نے جناب جعفر طیار کے متعلق فرمایا کہ :

“ اشبهت خلقی و خلقی.”

“ تم صورت و سیرت دونوں میں مجھ سے مشابہ ہو۔”

اس حدیث کی ایک جماعت نے عبیداﷲ بن ابی رافع سے روایت کی ہے ۔ منجملہ ان کے امام احمد بن حنبل نے بھی اپنی مسند میں نقل کیا ہے ۔ ابن حجر عسقلانی نے اصابہ قسم اول میں عبیداﷲ اسلم کے عنوان سے ان کے حالات  لکھے ہیں کیونکہ ان کے باپ ابو رافع کا نام اسلم تھا۔

انھیں عبیداﷲ نے ایک کتاب تالیف کی جس میں امیرالمومنین(ع) کے ان تمام صحابیوں کا تذکرہ کیا ہے جو جنگ صفین میں امیرالمومنین(ع) کےساتھ شریک تھے۔ ابن حجر نے اپنی اصابہ میں اکثر و بیشتر اس سے نقل کیا ہے انھیں

۵۸۷

 مٰیں سے ربیعہ بن سمیع ہیں انھوں نے چوپایوں کی زکوة کے متعلق حضرت امیرالمومنین(ع) کی حدیثوں سے ایک کتاب تالیف کی۔ انھیں میں سے ایک عبیداﷲ بن حر فارسی ہیں جن کی ایک کتاب حدیث میں لمعہ ہے جو انھوں نے امیرالمومنین(ع) کی حدیثوں سے جمع کی۔

انھیں میں سے اصبغ بن نباتہ صحابی امیرالمومنین(ع) ہیں یہ اصبغ ابن نباتہ تو بس امیرالمومنین(ع) ہی کے ہورہے تھے۔انھیں نے امیرالمومنین(ع) سے اس عہد نامہ کی روایت کی ہے جو امیرالمومنین(ع) نے مالک اشتر کو تحریر فرمایا ۔ نیز اس وصیت نامہ کی جو آپ نے اپنے فرزند محمد کے لیے لکھا تھا۔ ہمارے رواة نے ان دونوں عہد نامہ و وصیت کی ان ہی اصبغ بن نباتہ سے بہ سلسلہ اسناد صحیحہ روایت کی ہے۔

انھیں میں سے سلیم بن قیس ہلالی صحابی امیرالمومنین(ع) ہیں ۔ انھوننے امیرالمومنین (ع) اور جناب سلمان فارسی سے روایتیں کیں۔ انھوں نے امامت پر ایک کتاب لکھی جس کا ذکر امام محمد ابراہیم نعمانی نے اپنی کتاب غنیہ میں کیا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

“ جملہ اہل تشیع جنھوں نے ائمہ سےتحصیل علم کی یا حدیثیں  روایت کیں۔ ان میں کوئی اختلاف نہٰیں کہ سلیم بن قیس ہلالی کی کتاب ان بنیادی و اصول کتابوں میں سے ایک کتاب ہے جسے اہل علم اور احادیث اہل بیت(ع) کے حاملین نے روایت کی ہے۔ یہ کتاب تمام کتب اصول سے مقدم ہے اور ان اصولوں میں سے ہے جو تمام شیعوں کا مرجع ہے اور ہر ایک کے نزدیک معتمد و معتبر ہے۔”
۵۸۸

اس سے پہلے طبقہ میں ہمارے سلف صالحین میں سے جتنے حضرات صاحبِ تالیف ہوئے ان کے حالات اگر آپ دیکھنا چاہیں تو آپ ہمارے علماء کی وہ فہرستیں ملاحظہ فرمائیں اور وہ کتابیں دیکھیں جو انھوں نے رجال کے تذکرہ میں لکھی ہیں۔

دوسرے طبقہ یعنی دورِ تابعین میں شیعوں میں جو صاحبان تالیف گزرے ہیں ان کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں ہوسکتا ۔ خصوصا اس رسالہ میں اتنی گنجائش کہاں کہ سب کا تذکرہ ہو۔ ان مصنفین کے حالات اور ان کے اسانید کا تفصیلی بیان دیکھنے کے لیے ہمارے علماء کی فہرستیں اور فن رجال کی کتابوں کا مطالعہ کیاجائے۔(1)

اس طبقہ کے مصنفین کے زمانہ میں اہل بیت(ع) کے نور سے دنیا منور ہو رہی تھی۔ پہلے تو ظالمون کے ظلم کے بادل اس نور کو ڈھانکے ہوئے تھے لیکن کربلا کے دردناک المیہ نے دشمنان آل محمد(ص) کو پوری طرح رسوا کیا اور ارباب بصیرت کی نگاہوں سے ان کا وقار رخصت ہوگیا ۔ اب ہر دل میں یہ سوال کانٹا بن کر کھٹکنے لگا۔ ہر سوچنے والے دماغ میں یہ فکر پیدا ہوئی کہ رسول(ص) کی آنکھ بند ہوتے ہی اہل بیت(ع) پر مصائب کے پہاڑ کیوں ٹوٹ پڑے ۔ آخر مصائب کے اسباب کیا ہوئے۔ ہر شخص کو کھوج پیدا ہوئی۔ اسباب ایسے مخفی تو تھے نہیں کہ سمجھ میں نہ آتے۔ دنیا جان گئی کہ ان مصائب کی تخم ریزی کیونکر ہوئی

 کیونکریہ پودا پروان چڑھا ۔ کن لوگوں نے اس کی آبیاری کی۔ اس حقیقت کے انکشاف کے بعد با عزت مسلمان کمر بستہ ہوئے کہ اہل بیت(ع) کی حیثیت و منزلت

--------------

1ـ جیسے فہرست نجاشی کتاب متہی المقال ، کتاب نہج المقال وغیرہ

۵۸۹

 پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ نیز یہ کہ ان کے خونِ ںاحق کا بدلہ لیا جائے ۔ انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ فطری طور پر مظلوم کا ساتھ دیتی ہے اور ظالم سے نفرت کرتی ہے۔ کربلا کے خونین واقعہ نے مسلمانوں کی آنکھوں پر پڑے ہوئے پردے اٹھا دیے اب وہ ایک نئے دور میں داخل ہوئے۔ امام علی بن الحسین(ع) زین العابدین(ع) کی اطاعت کا دل میں جذبہ پیدا ہوا اور اصول وفروع دین، قرآن و حدیث اور جملہ فنون اسلام میں انھیں کے در پر جبہ سائی اختیار کر کے ان تمام چیزوں میں انھیں کی طرف رجوع کرنا طے کیا۔ امام زین العابدین(ع) کے بعد امام محمد باقر(ع) سے وابستگی اختیار کی۔ ان دو اماموں یعنی امام زین العابدین(ع) و امام محمد باقر(ع) کے اصحاب ہزرا ہا تھے ، ان کے تعداد کا اندازہ کرنا ممکن نہیں لیکن ایسے افراد جن کے اسماء اور حالات تذکرہ کی کتابوں میں مدون ہوسکے وہ تقریبا چار ہزار حضرات جلیل القدر ارباب علم اصحاب ہیں۔ ان حضرات کی تصنیفات کم و بیش دس ہزار تک ہوئیں ۔ ہمارے محدثیں نے ہر دور میں صحیح اسناد سے ان سے روایتں کیں ان میں اکثر ایسے خوش نصیب افراد بھی تھے جنھوں نے امام زین العابدین (ع) و امام محمد باقر(ع9 کا بھی زمانہ پایا۔ اور امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں بھی باریاب ہوئے۔

چنانچہ منجلہ ان کے ابوسعید ابان بن تغلب بن رباح الجریری مشہور قاری و فقیہ و محدث و مفسر اور اصول و لغوی ہیں۔ یہ ثقہ ترین لوگوں میں سے ہیں تین اماموں سے ملاقات کا شرف انھیں حاصل ہوا اور تینوں اماموں سے بکثرت علوم کی انھوں نےروایت کی ۔ مختصرا اسی سے اندازہ کرلیجیے کہ انھوں نے صرف امام جعفر صادق(ع) سے تیس (30) ہزار حدیثیں روایت کی ہیں۔ جیسا کہ منتہی المقال میں علامہ میرزا محمد نے بسلسلہ حالات ابان تحریر فرمایا ۔ انھیں ائمہ کی خدمت میں

۵۹۰

 بڑا تقرب اور مخصوص منزلت حاصل تھی۔

امام محمد باقر(ع) نے ابان سے فرمایا تھا کہ :

“ مسجد میں بیٹھو اور لوگوں کو فتوی دو۔ میری دلی تمنا ہے کہ میں اپنے شیعوں میں تمھارے جیسا شخص  دیکھوں۔”

اور امام جعفر صادق(ع) نے ان سے فرمایا تھا کہ :

“ اہل مدینہ سے بحث و گفتگو کرو۔ مجھے یہ بہت ہی محبوب ہے کہ میں تمھارے جیسا شخص اپنے مخصوصین اور راویوں میں دیکھوں ۔”

یہ ابان جب مدینہ آئے تو حلقے ٹوٹ کر ان کے گرد آجاتے اور مسجد نبوی(ص) میں پیغمبر(ص) جہاں بیٹھا کرتے تھے وہ جگہ ان کے لیے خالی کردی جاتی ۔

امام جعفر صادق(ع) نے سلیم ابن ابی جتہ سے فرمایا کہ :
“ تم ابان تغلب کے پاس جاؤ۔ انھوں نے مجھ سے بہت زیادہ حدثیں سنی ہیں۔ وہ جس حدیث کی تم سے روایت کریں تم میری طرف سے اس کی روایت کرو۔”

امام جعفر صادق(ع) نے ابان بن عثمان سے فرمایا کہ:

“ ابان بن تغلب نے مجھ سے تیس ہزار حدیثین روایت کی ہیں تم ان حدیثوں کی ان سے روایت کرو۔”

جب یہ ابان امام (ع) کی خدمت میں آتے تو امام جعفر صادق(ع) ان سے معانقہ فرماتے مصالحہ کرتے اور مسندان کے لیے بچھا نے کا حکم دیتے اور پوری طرح متوجہ ہو کر ہمکلام ہوتے ۔ جب امام نے ان کے نتقال کی خبر سنی تو فرمایا :

“ بخدا ابان کی موت نے میرے دل کو بیحد صدمہ پہنچایا۔”
۵۹۱

ان کی وفات سنہ141ھ میں ہوئی۔

ابان نے انس بن مالک ، اعمش ، محمد بن منکدر، سماک بن حزب ، ابراہیم نخعی ، فضیل بن عمرو، اور حکم سے بھی روایتیں لی ہیں۔ ان کی حدیثوں سے احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم صفحات ماسبق میں ذکر کرچکے ہیں۔ صرف بخاری نے البتہ ان سے روایت نہیں کی۔ ان کے روایت نہ کرنے سے کوئی نقصان بھی نہیں۔ امام بخاری کی حالت کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ ائمہ اہل بیت(ع) امام جعفر صادق(ع) ، امام موسی کاظم(ع)، امام رضا(ع)، امام محمد تقی(ع)، و علی نقی(ع)، حسن عسکری(ع) کے ساتھ ان کے سلوک کا نمونہ موجود ہے۔ انھوں نے ان ائمہ اہل بیت(ع) میں سے کسی ایک امام کی حدیث بھی صحیح بخاری میں درج نہیں کی۔کسی امام کی حدیث کو اس قابل نہیں سمجھا ۔ حد تو یہ ہے کہ نواسہ رسول(ص) امام حسن مجتبی(ع) جو سید سردار جوانان اہل جنت ہٰیں ان کی حدیثیں بھی نہیں لیں۔ ہاں حدیث درج کس کی ہے۔ مروان بن حکم ایسے طرید رسول(ص) کی، عمر بن حطان ایسے سرغنہ خوارج کی عکرمہ بربری وغیرہ ایسے لوگوں کی ۔

ابان کی کئی مفید تصانیف ہیں منجملہ ان کے ایک کتاب ہے جو غرائب قرآن کی تفسیر میں انھوں نے لکھی ۔ اس میں کلام مجید کی آیتوں کےشواہد میں بکثرت عرب کے اشعار درج کیے ہیں۔

ان کے بعد زمانہ میں عبدالرحمن بن محمد ازدی کوفی گزرے ہیں۔ انھوں نے ابان بن تغلب ، محمد بن سائب کلبی اور ابن روق عطیہ بن حارث کی کتابوں کو جمع کر کے ایک کتاب کی شکل دی۔ جن جن مسئلوں میں ان حضرات نے اختلاف کیا ہے اسے بھی لکھا اور جن جن مسئلوں میں یہ سب متفق رہے اس کی بھی وضاحت کی۔

۵۹۲

ہمارے اصحاب نے ان دونوں کتابوں سے معتبر اسناد اور مختلف طریقوں سے روایتیں کیں۔ انھیں ابان کی ایک کتاب الفضائل ہے ایک کتاب صفین ہے اصول میں بھی ایک کتاب انھوں نے لکھی جو فرقہ امامیہ کے نزدیک مسلم طور پر احکام شرعیہ میں مانی جاتی ہے ۔ تفصیل دیکھنا ہو تو رجال کی کتابیں ملاحظہ فرمائیے۔

منجملہ ان کے ایک بزرگ ابوحمزہ ثمالی ہیں۔ یہ ہمارے سلف صالحین کے ثقات و علمائے اعلام میں سے ایک بزرگ ہیں۔ انھوں نے امام جعفر صادق(ع) و محمد باقر(ع) و زین العابدین(ع) سے تحصیل علم کی اور بس انہی کے ہو رہے۔ ائمہ طاہرین(ع) کی بارگاہ میں انھیں بڑا تقرب حاصل تھا۔ خود امام جعفر صادق(ع) نے ان کی مدح و ثنا فرمائی ہے ۔ چنانچہ امام کا قول ہے کہ:

“ ابو حمزہ اپنے زمانہ میں ایسے ہیں جیسے سلمان فارسی اپنے زمانہ میں تھے۔”
امام رضا(ع) فرماتے ہیں کہ :
“ ابوحمزہ اپنے زمانے میں ایسے ہیں جیسے لقمان اپنے زمانہ میں۔”

ان کی ایک کتاب تفسیر القرآن ہے۔(1) علامہ طبری نے اپنی تفسیر مجمع البیان میں اکثر جگہ اس تفسیر سے نقل کیا ہے۔ انھیں کی کتاب النوادر کتاب الزہد اور رسالہ حقوق بھی ہے۔ انھوں نے ان کتابوں کو امام زین العابدین(ع) سے روایت کیا ہے۔ انھوں نے انس اور شعبی سے بھی روایتیں کی ہیں اور ان سے وکیع، ابو نعیم اور اس طبقہ کی ایک جماعت کے شیعہ و سنی دونوں نے حدیثیں بیان کیں۔

--------------

1ـ ملاحظہ فرمائیے تفسیر مجمع البیان آیت ِقُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى کی تفسیر کے سلسلہ میں اس کتاب سے نقل کیا گیا ہے۔

۵۹۳

 ان کا ذکر بھی ہم صفحات ماسبق میں کرچکے ہیں۔

چند نامور اصحاب ایسے ہیں جنھوں نے امام زین العابدین(ع) کا زمانہ تو نہ پایا لیکن امام محمد باقر(ع) و جعفر صادق(ع) کی خدمت میں باریابی سےشرف یاب ہوئے منجملہ ان کے ابوالقاسم برید بن معاویہ عجلی ، ابوبصیر الاصغر لیث بن مراد بختری مرادی، ابوالحسن زراراہ بن اعین، ابو جعفر محمد بن مسلم بن ریاح کوفی طائفی ثقفی ہیں۔ ان کے علاوہ ایک پوری جماعت ہے۔ اتنی گنجائش نہیں کہ سب کاذکر کیا جائے ۔ البتہ یہ چار حضرات بڑے جلیل القدر اور عظیم ترین شخصیت کے مالک ہیں۔ یہاں تک کہ خود امام جعفر صادق(ع) نے ان حضرات کے تذکرہ کے ضمن میں فرمایا کہ :

“ یہ حضرات خدا کے حلال و حرام پر خدا کےامین ہیں۔”

ایک اور موقع پر فرمایا کہ :

“ میں کسی کو نہیں پاتا جس نے ہمارے ذکر کا احیاء کیا ہوا سوائے زرارہ ، ابوبصیر لیث، محمد بن مسلم و بریدہ کے۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو کوئی بھی ہمارے ذکر کو تازہ نہ کرتا ۔”

ایک اور موقو پر فرمایا :

“ یہ حضرات دین کے محافظ اور میرے والد ماجد کے مقرر کردہ حلال و حرام الہی پر امین اور دنیا میں بھی ہماری طرف سبقت کرنے والے ہیں اور آخرت میں بھی ۔”

امام جعفر صادق(ع) نے بشر المخبتین بالجنہ کی تلاوت فرمائی اور اس کے بعد ان چاروں حضرات کا ذکر کیا۔

ایک اور طولانی گفتگو میں ان کا ذکر فرماتے ہوئے امام نے کہا :

۵۹۴

“ میرے والد بزرگوار نے ان حضرات کو حلال و حرام الہی پر امین بنایا تھا یہ حضرات میرے والد بزرگوار کے علم کےخزینہ دار ہیں اسی طرح آج بھی یہ حضرات میرے نزدیک وہی منزلت رکھتے ہیں اورمیرے رازوں کے خزینہ دار ہیں۔ میرے والد برزگوار کے برحق صحابی ہیں اور یہ میرے شیعوں کے لیے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ستارے ہیں۔ انھی کےذریعہ خدا ہر بدعت کو دور کرے گا اور باطل کاروں کی اتہام تراشی کو زائل کرے گا اور غالیوں کی تاویلیں باطل ہوں گی۔”

اس کے علاوہ بے شمار ارشادات امام(ص) ہیں جن سے ان کا فضل و شرف کرامت ولایت پوری طرح ثابت و محقق ہے ۔ افسوس کہ اتنی گنجائش نہیں کہ مفصلا بیان کیا جائے ۔ باجود انکی  اس اہمیت و جلالت قدر کے دشمنان اہل بیت(ع) نے ان پر بڑی بڑی تہمتیں رکھیں جیسا کہ ہم اپنی کتاب مختصر الکلام فی مولفی الشیعہ سن صدر الاسلام میں بیان کرچکے ہیں۔

دشمنوں کی تہمت تراشیوں سے ان کی وقعت و علوئے منزلت میں فرق نہیں پڑتا اور نہ ان کی جلالت قدر پر کوئی آنچ آتی ہے اور نہ اس وقعت میں کمی پیدا ہوتی ہے جو انھیں خدا اور رسول(ص)کے نزدیک حاصل ہے۔ جس طرح انبیاء سے حسد کرنے والوں سے حسد کر کے انبیاء کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ برعکس ان کی علوئے مرتبت ہی کے باعث ہوئے اور بجائے اس کے کہ وہ حسد کرنے والے ان انبیاء کی شریعتوں پر کچھ اثر انداز ہوتے وہ اور دین کی اشاعت اورہمہ گیر مقبولیت کا سبب بن گئے۔

امام جعفر صادق(ع) کے عہد میں علم بیش از بیش پھیل چکا تھا اور چار جانب

۵۹۵

 سے شیعیان محمد و آل محمد(ص) امام(ع)  کی خدمت میں پہنچ رہے تھے۔ امام(ع) پوری خندہ جبینی سے پیش آتے، بڑی توجہ فرماتے ، ان کو استوار بنانے میں آتے نے کوئی کوشش اٹھا نہ رکھی اور علم کے رموز ، حکمت کی باریکیوں ، حقائق امور سے آگاہ بنانے میں کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہیں کیا۔ جیسا کہ علامہ شہرستانی ملل و نحل میں امام کا ذکر فرماتے ہوئے ۔ رقمطر از ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

“ امام جعفر صادق(ع) دین کا بے پایاں علم، حکمت میں پوری طرح دستگاہ رکھنے والے دنیا سے اتہائی بے غرض اور خواہشوں سے مکمل طور پر بے نیاز بزرگ تھے۔”

اس کے بعد لکھتے ہیں:

“ آپ ایک  مدت تک مدینہ میں مقیم رہے اور اپنے شیعوں کو فیض پہنچاتے رہے اور اپنے دوستوں کو رموز و اسرار علم تعلیم فرماتے رہے۔ پھر آپ عراق تشریف لائے۔ یہاں بھی مدتوں آپ کا قیام رہا کبھی سلطنت کا خیال آپ کے دل میں پیدا نہ ہوا اور نہ خلافت کے لیے آپ نے کبھی کسی سے نزاع کی۔”

اسی سلسلہ میں علامہ شہرستانی لکھتے ہیں کہ:

“ جو شخص بہر معرفت میں غوطے لگانے والا ہو اسے ساحل کی طمع نہیں ہوتی اور جو حقیقت کی چوٹی تک بلند ہوچکا ہو اسے نیچے گرجانے کا خوف لاحق نہیں ہوتا ۔”

اسی طرح کی پوری عبارت ہے ان کی ۔ سچ تویہ ہے کہ حق ، اںصاف پسند اورمعاند دونوں کی زبان پر آکر رہتا ہے۔

امام جعفر صادق(ع) کے بے شمار اصحاب ہمہ گیر شہرت کے مالک ہوئے۔ وہ

۵۹۶

سب کے سب ائمہ ہدایت ، تاریکیوں کے چراغ، علم کے دریا اور ہدایت کے نجوم تھے۔ جن اصحاب کے نام اور حالات تذکرہ کی کتابوں میں مدون ہوسکے ان کی تعداد چار ہزار تک پہنچتی ہے۔ اس میں عراق کے رہنے والے تھے اور حجاز و فارس و شام کے بھی۔

یہ چاروں اصحاب بڑی مشہور مصنفات والے ہیں۔ ان کی مصنفات فرقہ امامیہ میں انتہائی شہرت رکھتی ہیں۔ منجملہ ان مصنفات کے صرف اصول میں چار سوکتابیں ہیں۔ جیسا کہ ہم سابق میں بیان کرچکے ہیں کہ یہ چار سو تصانیف چار سو مصنفین کی ہیں جو امام جعفر صادق(ع) کے عہد میں انھیں کے فتاوی جمع کر کے لکھی گئیں اور امام کے بعد انھیں پر عمل کا دارو مدار رہا۔ تک بعض علمائے اعلاء نے سہولت کے لیے ان کا خلاصہ کر ڈالا ۔ ان میں چار کتابیں بہت عمدگی سے مراتب ہوئیں اور اصول و فروع میں شیعوں کا مرجع قرار پائیں ۔ صدر اول سے لے کر آج کے دن تک ۔ وہ چار کتابیں یہ ہیں۔ کافی، تہذیب ، استبصار ، من لایحضرہ الفقیہہ۔

یہ چاروں کتابیں متواتر ہیں اور ان کا صحیح ہونا قطعی و یقینی ہے۔ ان چاروں میں “کافی ” مقدم عظیم تر اور بہت خوبیوں کی جامع انتہائی ٹھوس کتاب ہے اس میں سولہ ہزار ایک سو ننانوے حدیثیں درج ہیں جو تعداد میں کل صحاح ستہ کی حدیثوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ جیسا کہ شہید ثانی نے ذکری میں تحریر فرمایا ہے نیز اور علمائے اعلام نے وضاحت کی ہے۔

ہشام بن حکم جو امام جعفر صادق(ع) و امام موسی کاظم(ع) کے اصحاب میں سے تھے انھوں نے بکثرت کتابیں تالیف کیں۔ ان میں انیس(19) کافی مشہور ہوئیں یہ تمام بڑی کتابیں بڑی نادر اور بہت ہی مفید تصانیف ہیں۔ اور متعدد فنون میں

۵۹۷

 لکھی گئی ہیں۔ اصولی، فروع، توحید ، فلسفہ عقلیہ میں زنادقہ ، ملحدین ، نیچری، قدریہ ، جبریہ، امیرالمومنین(ع) اور اہل بیت(ع) کے متعلق غلو کرنے والے خوارج، نواصب، حضرت علی(ع) وصی پیغمبر(ص) ہونے سے انکار کرنے والے ، آپ کو موخر رکھنے والے ، آپ سے جنگ کرنے والے اور وہ لوگ جو مفضول کی تقدیم افضل پر جائز سمجھتے ہیں ان سب کی رد میں لکھی گئی ہیں۔

یہ ہشام قرن ثانی کے لوگوں میں بڑے پایہ کے بزرگ اور علم کلام حکمت الہیہ اور جملہ علوم عقلیہ و نقلیہ میں سب سے بڑھ کر عالم تھے۔ فقہ و حدیث میں امتیازی درجہ رکھتے تھے۔ تفسیر اور جملہ علوم و فنون میں انھیں تقدم حاصل تھا۔ یہ ہشام ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے امامت پر بحث کی اور مناظرہ کر کے مذہب کی تبلیغ کی۔ انھوں نے امام جعفر صادق(ع) و امام موسی کاظم(ع) سے روایت کی ۔ ان حضرات کے نزدیک ان کی بڑی منزلت تھی۔ ان کی مدح و ثناء میں زبان امامت سے ایسے الفاظ صرف ہوئے ہیں کہ ان کے علوئے مرتبت کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ شروع شروع میں یہ فرقہ جہمیہ سے تعلق رکھتے تھے۔پھر امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں باریابی کا شرف حاصل ہوا اور آپ کی ہدایت سے معرفت و بصیرت کے حامل ہوئے۔ آپ کے بعد امام موسی کاظم(ع) کا زمانہ پایا اور آپ کےتمام صحابیوں میں فائق و ممتاز ہوئے۔

دشمنوں نے  جو نور خدا کے بجھانے کی دن رات کوشش میں مصروف رہتے ہیں اہل بیت(ع) سے حسد و دشمنی رکھنے کی نباء پر انھیں طرح طرح متہم کرنے کی سعی کی ۔ جسمیت ِ خدا کا قائل بتایا ہے مگر ان کے مذہب سے جس قدر ہم شیعہ واقف ہوسکتے ہیں، ہمارے مخالفین نہیں۔ ہمارے پیش نظر انکے اقوال و افعال ہیں۔ ہمارے مذہب کے تائید میں ان کی گرانقدر مصنفات ہیں جن کا

۵۹۸

 ہم اشارة ذکر کرچکے ہیں۔ لہذا ممکن ہی نہیں کہ غیروں کو جو ان کے مذہب و مشرب سے دور کا بھی واسطہ نہٰیں رکھتے ان کے اقوال کا علم ہو اور ہم لا علم رہیں۔ ہمیں کچھ پتہ نہ ہو حالانکہ یہ ہمارے سلف صالحین اور سابقین میں سے ہیں۔

علاوہ اس کے شہرستانی نے ملل و نحل میں جو عبارت ان کی طرف منسوب کر کے نقل کی ہے اس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ جسمانیت کے قائل تھے۔

مٰیں اصل عبارت نقل کیے دیتا ہوں۔

علامہ شہرستانی لکھتے ہیں:

“ ہشام بن حکم صولِ مذہب میں بڑی گہرائی رکھتے ہیں ۔ انھوں نے فرقہ معتزلہ پر جو الزام عائدکیے ہیں ان سے غفلت نہ برتنا چاہیے۔ یہ شخص ان الزام سے آگے ہے جو دشمن اس پر لگاتے ہیں اور اس کے کلام سے جو تشبیہ ظاہر ہوئی ہے اس سے پیچھے ہے یعنی تشبیہ کا قائل نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ انھوں نے علاف سے کہا کہ جب تم یہ کہتے ہو کہ خدا عالم بہ سبب علم ہے اور علم اس کا عین ذات ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ عالم ہے مگر دنیا کےعالموں کی طرح نہیں۔ تو پھر یہ بھی کیون نہیں مانتے کہ وہ جسم ہے لیکن اور اجسام کی طرح نہیں ۔ معمولی عقل والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر یہ کلام مان بھی لیا جائے کہ ہشام ہی کا تھا تو وہ بطور معارضہ ہے ۔ علاف سے بطور معارضہ انھوں نے یہ بات کہی تھی اور معارضہ میں کوئی بات کہنے سے یہ ضروری نہیں کہ اس بات کا انسان معتقد بھی ہو۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ہشام کا واقعی مقصد علاف کا جانچنا رہا ہو، یہ پتہ چلانا مقصود رہا ہو کہ
۵۹۹

علاف ہیں کتنے پانی میں ۔ کس حد تک ان کا علم ہے۔”

مزید برآن اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ ان کے اس جملہ سے ان کی قائل جسمانیت الہی ہونا ثابت ہوتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ قبل میں جب تک انھیں معرفت نہ حاصل ہوئی تھی۔ امام(ع) کی خدمت میں باریاب نہ ہوئے تھے، وہ ایسا ہی عقیدہ رکھتے ہوں کیونکہ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ ابتداءا جہمیہ مسلک پر تھے ۔ پھر ہدایتِ آل محمد(ص) سے انھیں بصیرت حاصل ہوئی اور ائمہ طاہرین(ع) کے مخصوص و نامور افراد میں سے ہوئے۔  ہمارے سلف و خلف دونوں میں سے کسی فرد نے بھی کوئی ایسی بات ان میں نہیں پائی جن کا دشمن ان پر اتہام رکھتے ہیں جس طرح دشمن نے زرارہ بن اعین، محمد بن مسلم ، مومن طاق اور ان جیسے بزرگوں پر طرح طرح کی تہمتیں باندھیں، غلط سلط باتیں ان کی طرف منسوب کر کے بیان کیں اور ہمیں ان کے متعلق کوئی بات بھی خلاف نہ معلوم ہوسکی۔ اسی ہشام کے متعلق بھی دشمنوں نے افترا پردازیاں کیں اور غلط اتہامات رکھے مگر ہمیں کوئی بات ان میں ڈھونڈے سےبھی نہ ملی باوجودیکہ ہم نے اپنی تمام توانائیاں ان حضرات کے حالات کی چھان بین میں صرف کردیں۔ مگر کوئی چیز قابل اعتراض نظر نہ آئی۔ یہ سب دشمنوں کی سرکشی وعداوت اور بہتان تراشیاں ہیں۔

“وَ لا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلاً عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ”(ابراہیم: 42)

“ ظالمین جو کچھ کرتے رہتے ہیں ان سے خدا کو ہرگز غافل نہ سمجھو۔”

علامہ شہرستانی نے ایک اور الزام ہشام پر لگایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہشام الوہیت امیرالمومنین(ع) کے قائل تھے۔ یہ الزام ایسا ہے جسے سن کر زن پسر مردہ بھی ہنس دے۔ ہشام کو بھلا ان خرافات و مہملات سے کیا نسبت ۔ ان کی طرف ایسی رکیک باتوں کی نسبت دینا حد درجہ کی نادانی ہے۔

۶۰۰