دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)6%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272322 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۲; اس كا علم ۴

عذاب:مہلك عذاب كے اثرات ۷; مہلك عذاب ۸; مہلك عذاب سے نجات ۶

قرآن:اسكے وحى ہونے ميں شك ۱

قيامت:اس ميں ايمان ۸; اس كا علم ۴; اس كا اچانك ہونا ۳; اس كا وقت ۴; اسكى خصوصيات ۳

كفار:صدر اسلام كے كفار كو ڈرانا ۵; ان كے شك كو دور كرنا ۷; ان كا مہلك عذاب ۶; ان كا انجام ۶

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا شك ۱; صدر اسلام كے مشركين اور قرآن ۱

مايوسي:حق دشمنوں كے ايمان سے مايوسى ۲; كافروں كے ايمان سے مايوسى ۲

آیت ۵۶

( الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ )

آج كے دين ملك اللہ كے ليے ہے اور وہى ان سب كے درميان فيصلہ كرے گا پھر جو لوگ ايمان لے آئے اور انہوں نے نيك اعمال كئے وہ نعمتوں والى جنت ميں رہيں گے (۵۶)

۱ _ روز قيامت كى مطلق اور بے مثل فرمانروانى ،خداتعالى كے ساتھ مخصوص ہے_الملك يومئذ لله

۲ _ قيامت، كفر و ايمان كے محاذوں كے درميان فيصلے كا دن ہے_يحكم بينهم

۳ _ خداتعالى روز قيامت كا حاكم اور فيصلہ كرنے والاہے_الملك يومئذ لله يحكم بينهم

۴ _ بہشت، نيك كردار مؤمنين كا اجرہے_فالذين أمنوا و عملوا الصلحت فى جنت النعيم

۵ _ بہشت كى نعمتوں كا حصول ايمان و عمل صالح كى ہمراہى ميں منحصر ہے_فالذين أمنوا و عملوا الصلحت فى جنت

۵۸۱

النعيم

۶ _ اہل ايمان كا بہشت ميں داخل ہونا، خداتعالى كى طرف سے ان كے اور كافروں كے درميان فيصلہ كے بعد ہوگا_

يحكم بينهم فالذين أمنوا فى جنت النعيم

۷ _ بہشت ميں متعدد باغ ہيں اور وہ نعمتوں سے سرشار ہے_فى جنت النعيم

۸ _ عالم آخرت، عالم جزا و سزا_الملك يومئذ لله يحكم بينهم فى جنت النعيم

ايمان:اسكے اثرات ۵

بہشت:اسكى پاداش ۴; اسكے باغوں كا متعدد ہونا ۷; اسكى نعمتيں ۵، ۷

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱; اسكى اخروى حكمرانى ۱; اسكى اخروى قضاوت ۳، ۶

صالحين:انكى اخروى پاداش ۴

عمل صالح:اسكے اثرات ۵

قيامت:اس ميں پاداش ۸; اس ميں حاكميت ۱; اس ميں قضاوت ۲، ۳، ۶; اس ميں سزا، ۸ ; اسكى خصوصيات ۲، ۸

كفار:ان كے اور مؤمنين كے درميان قضاوت ۲، ۶

مؤمنين:انكى اخروى پاداش ۴; يہ بہشت ميں ۶

۵۸۲

آیت ۵۷

( وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأُوْلَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ )

اور جن لوگوں نے كفر اختيار كيا اور ہمارى آيتوں كى تكذيب كى ان كے ليے نہايت درجہ كا رسوا كن عذاب ہے (۵۷)

۱ _ كفر و ايمان، روز قيامت انسانوں كے درميان خداتعالى كے فيصلے كا معيار _يحكم بينهم فالذين أمنوا و الذين كفروا عذاب مهين

۲ _ دوزخ كا عذاب ،خدا كے ساتھ كفر كرنے اور اسكى آيات (قرآن) كو جھٹلانے كى سزا_والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا فأولئك لهم عذاب مهين

۳ _ دوزخ كا عذب متنوع اور مختلف اقسام كا ہے_فأولئك لهم عذاب مهين

(''مہين'' كے مصدر) ''إہانة'' كا معنى ہے رسوا اور ذليل كرنا_ كافروں اور آيات الہى كى تكذيب كرنے والوں كے عذاب كى ''خوار كرنے والے'' كے ساتھ توصيف اس حقيقت كو بيان كر رہى ہے كہ دوزخ كے عذاب اور انواع و اقسام كے ہيں قابل ذكر ہے كہ مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''مہين'' صفت تخصيصى ہو نہ تو ضيحي_

۴ _ دوزخ كا عذاب خوار كرنے والا اور ذلت آور ہے_لهم عذاب مهين

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''مہين'' ''عذاب'' كى صفت توضيحى ہے_

۵ _ خدا كاكفر كرنا اور اسكى آيات (قرآن) كو جھٹلانا ، استكبارى فطرت اور خود كو برتر سمجھنے كا سرچشمہ ہے _والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا فأولئك لهم عذاب مهين

''عذاب'' كى ''مہين'' (ذليل كرنے والا) كے ساتھ توصيف اس حقيقت كو بيان كررہى ہے كہ خدا كاكفر اور اسكى آيات كى تكذيب ايسا كردار ہے كہ جس كا سرچشمہ استكبارى فطرت اور اپنے آپ كو بڑا سمجھنا ہے اور خداتعالى نے اسكى ساتھ متناسب سزا كا انتظام فرمايا ہے تا كہ اس استكبارى

۵۸۳

فطرت كو ختم كر كے انہيں ذلت و خوارى ميں مبتلا كردے_

۶ _ اخروى سزائيں انسانوں كے دنياورى كردار كے ساتھ متناسب ہيں _والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا عذاب مهين

۷ _ صدر اسلام كے كفار اور تكذيب كرنے والے، مستكبر اور اپنے آپ كو برتر سمجھنے والے لوگ تھے_

والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا عذاب مهين

۸ _ خداتعالى اور اسكى آيات كے مقابلے ميں استكبار كرنے كا نتيجہ ،دوزخ كا خوار كرنے والا اور ذلت آميز عذاب ہے_

والذين كفروا و كذبوا بآيا تنا عذاب مهين

۹ _ قرآن مجيد،آيت آيت كى صورت ميں ہے_كذبوا بأى تن

۱۰ _ قرآن كريم خداتعالى كى نشانيوں كا مجموعہ ہے_كذبوا بأى تن

آيات الہى :انكى تكذيب كى سزا ،۲; انكى تكذيب كا سرچشمہ ۵

استكبار:آيات خدا كے مقابلے ميں استكبار كى سزا، ۸; خدا كے مقابلے ميں استكبار كى سزا،۸

ايمان:اسكے اثرات ۱

تكبر:اسكے اثرات۵

جہنم:اسكے عذاب كا متنوع ہونا ۳; اسكے اسباب ۲، ۸; اسكے عذاب كى خصوصيات ۴

خداتعالى :اسكى اخروى قضاوت كا معيار، ۱

عذاب:اہل عذاب ۲; ذلت آميز عذاب ۴، ۸; اسكے درجے ۴، ۸; اخروى عذاب كى اسباب ۸

قرآن:اس ميں آيات الہى ۱۰; اس كا آيت آيت ہونا ۹; اسے جھٹلانے والوں كا استكبار ۷; اسكى ساخت ۹; اسے جھٹلانے والوں كى صفات۹; اسے جھٹلانے كى سزا، ۲; اسے جھٹلانے كا سرچشمہ ۵; اسكى خصوصيات ۹، ۱۰

قيامت:اس ميں قضاوت ۱

كفار:صدر اسلام كے كفار كا استكبار ۷; صدر اسلام كے كفار كى صفات ۷

كفر:اسكے اثرات ۱; اسكى سزا،۲; خدا كے ساتھ كفر كا سرچشمہ ۵

سزا:اس كا گناہ كے ساتھ متناسب ہونا ۶

سزا كا نظام :۶

۵۸۴

آیت ۵۸

( وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقاً حَسَناً وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ )

اور جن لوگوں نے راہ خدا ميں ہجرت كى اور پھر قتل ہوگئے يا انہيں موت آگئي تو يقينا خدا انہيں بہترين رزق عطا كرے گا كہ وہ بيشك بہترين رزق دينے والا ہے (۵۸)

۱ _ دين كى حفاظت كى خاطر اپنا شہر اور وطن چھوڑ كر ديار غربت كى طرف ہجرت كرنا ايك شائستہ اور خدا كا محبوب عمل ہے_و الذين هاجروا فى سبيل الله ليرزقهم الله

۲ _ اللہ تعالى ،مہاجر مؤمنين كے اجر كا ذمہ دار ہے_و الذين هاجروا فى سبيل الله ليرزقهم الله رزقاً حسن

۳ _ مہاجرين كى ديا ر ہجرت ميں موت وہاں پر انكى شہادت كے برابر ہے_و الذين هاجروا فى سبيل الله ليرزقهم الله رزقاً حسن

۴ _ خداتعالى كى طرف سے صدر اسلام كے ان مہاجرين كيلئے بہشت كى ضمانت كہ جو اس وقت (مذكورہ آيت كے نزول كے وقت) تك فوت ہوچكے تھے يا دشمن كے ہاتھوں قتل ہوچكے تھے_و الذين هاجروا فى سبيل الله ثم ليرزقهم الله رزقاً حسن

۵ _ عمدہ رزق، خداتعالى كى طرف سے مؤمن مہاجرين كيلئے اخروى اجر _و الذين هاجروا ليرزقهم الله رزقاً حسن

۶ _ خداتعالى سب سے اچھا رازق ہے_و إنّ الله لهو خيرا لرازقين

اسما و صفات:

۵۸۵

خير الرازقين ۶

بہشتى لوگ :۴

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۶; اس كا اجر ۲; اس كا رازق ہونا ۶

دينداري:اسكى اہميت ۱

روزي:اس كا سرچشمہ ۶

عمل :پسنديدہ عمل ۱

مؤمنين:ان كے اجر كا سرچشمہ ۲

مہاجرين:انكى موت كى قدر و قيمت ۳; ان كا اخروى اجر ۵; انكى اخروى روزى ۵; انكى اچھى روزى ۵; صدر اسلام كے مہاجرين كى شہادت ۴; صدر اسلام كے مہاجرين كى موت ۴; ان كے اجر كا سرچشمہ ۲; صدر اسلام كے مہاجرين بہشت ميں ۴

ہجرت:اسكى فضيلت ۱

آیت ۵۹

( لَيُدْخِلَنَّهُم مُّدْخَلاً يَرْضَوْنَهُ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَلِيمٌ حَلِيمٌ )

وہ انہيں ايسى جگہ پہنچائے گا جسے وہ پسند كرتے ہوں گے اور اللہ بہت زيادہ جاننے والا اور برداشت كرنے والا ہے (۵۹)

۱ _ خداتعالى ،آخرت ميں ہجرت كرنے والے مؤمنين كے اجر كا ذمہ دار ہے _و الذين هاجروا ليدخلنّهم مدخلاً يرضونه

۲ _ ہجرت كرنے والے مؤمنين جہان آخرت ميں مطلوب اور دل پسند مقام ركھتے ہوں گے_و الذين هاجروا ليدخلنّهم مدخلاً يرضونه

۳ _ دلپسند گھر اور جگہ، آخرت ميں ہجرت كرنے والے مؤمنين كيلئے خداتعالى كى عمدہ روزى كے برجستہ ترين مصاديق ميں سے ہے_ليرزقنهم الله رزقاً حسناً ليدخلنّهم

۵۸۶

مدخلًا يرضونه

مذكورہ مطلب اس نكتے كو مد نظر ركھتے ہوئے ہے كہ جملہ''ليدخلنهم'' بدل اشتمال اور باالفاظ ديگر اچھے رزق (ليرزقنہم الله رزقاً حسناً) كے مصاديق ميں سے ہے_

۴ _ خداتعالى كى طرف سے صدر اسلام كے مؤمنين اور مہاجرين كو نصيحت كہ وہ كفار كے دباؤ اور اذيتوں كے مقابلے ميں بردبارى كا ثبوت ديں اور صبر كا دامن نہ چھوڑيں _و الذين هاجروا ...ثم قتلوا ...و إنّ الله لعليم حليم

جملہ''و إنّ الله لعليم حليم'' ميں ''عليم'' كا متعلق محذوف اور قرينہ مقام كے پيش نظريہ درحقيقت''إنّ الله لعليم بما فعل المشركون بالمؤمنين من إخراجهم من ديارهم و قتلهم المهاجرين حليم يمهلهم و لا ينتقم منهم إلى حين'' ہے_ مشركين نے مؤمنين كے ساتھ جو كچھ كيا ہے خدا اس سے آگاہ ہے اور چونكہ وہ حليم اور بردبار ہے لہذا انہيں فرصت ديتا ہے_ قابل ذكر ہے كہ مذكورہ جملہ در حقيقت خداتعالى كى طرف سے صدر اسلام كے مؤمنين كو ايك نصيحت ہے كہ وہ كافروں كے دباؤ كى وجہ سے بے حوصلہ نہ ہوجائيں بلكہ جس طرح خدا حليم اور بردبار ہے وہ بھى بردبارى كا ثبوت ديں اور صبر كا دامن نہ چھوڑيں _

۵ _ خداتعالى عليم (جاننے والا) اور حليم (بردبار) ہے_و إنّ الله لعليم حليم

اسما و صفات:حليم ۵; عليم ۵

خداتعالى :اس كا اجر،۱ اسكى نصيحتيں ۴

كفار:صدر اسلام كے كفار كى اذيتوں پر صبر كرنا ۴

مہاجرين:صدر اسلام كے مہاجرين كو اذيت ۴; ان كا اخروى اجر، ۱; صدر اسلام كے مہاجرين كو نصيحت۴; انكى عمدہ روزى ۳; صدر اسلام كے مہاجرين كا صبر ۴; ان كا اخروى گھر ۳; ان كا اخروى مقام و مرتبہ ۲; ان كے اجر كا سرچشمہ ۱

۵۸۷

آیت ۶۰

( ذَلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ )

يہ سب اپنے مقام پر ہے ليكن اس كے بعد جو دشمن كو اتنى ہى سزا دے جتنا كہ اس ستايا گيا ہے اور پھر بھى اس پر ظلم كيا جائے تو خددا اس كى مدد ضرور كرے گا كہ وہ يقينا بہت معاف كرنے والا اور بخشنے والا ہے (۶۰)

۱ _ مشركين كے دباؤ اور اذيتوں كے مقابلے ميں مؤمنين اور مہاجرين كا صبر اور بردبارى سے كام لينا اور انتقام سے پرہيز كرنا، ايك ايسا اہم اور تقدير ساز امر ہے كہ جسكى خداتعالى نے تاكيد كے ساتھ نصيحت فرمائي ہے (مكہ سے مدينہ كى طرف ہجرت كے اوائل ميں )و الذين هاجروا و إنّ الله لعليم حليم ذلك

''ذلك'' محذوف مبتدا كى خبر ہے اور يہ صدر اسلام كے مؤمنين اور مہاجرين كو خداتعالى كى اس نصيحت كى طرف اشارہ ہے كہ وہ مشركين كے دباؤ اور اذيتوں كے مقابلے ميں بردبار رہيں اور صبر كا دامن نہ چھوڑيں _ قابل ذكر ہے كہ ايسے موارد ميں عام طور پر ''ہذا'' استعمال ہوتا ہے لہذا ''ذلك'' كہ جو بعيد كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے _ كا استعمال اس خاص دور ميں صدر اسلام كے مشركين كى اذيتوں كے مقابلے ميں صبر و تحمل كى اہميت كو بيان كررہا ہے يہ وہ دور تھا كہ ظاہراً مؤمنين ابھى تك دشمن كا مقابلہ كرنے كيلئے كافى طاقت سے بہرہ مند نہيں تھے_

۲ _ مشركين كى عقوبت كے مقابلے ميں صدر اسلام كے ايك مؤمن كا انہيں ان جيسا جواب دينا_و من عاقب بمثل ما عوقب به

آيت كے ظاہر سے يوں محسوس ہوتا ہے كہ ايك مؤمن نے مشركين كى طرف سے اسے دى جانے والى عقوبت كے مقابلے ميں انہيں انتقاماً تركى بہ تركى جواب ديا اور پھر دوبارہ ان كى طرف سے اس پر ظلم و ستم كيا گيا_ اس ظلم كے بعد خداتعالى نے اسے پكا وعدہ ديا كہ وہ اسكى مدد كريگا تا كہ اپنا انتقام لے سكے البتہ اسكے ساتھ ساتھ اس حقيقت كى ياد دہانى بھى كراكر كہ خدا بخشنے والا اور مغفرت كرنے والا ہے نصيحت كى كہ اگر اس ظلم سے درگذر كرتے ہوئے اور ظالم كو معاف كردے تو يہ زيادہ مناسب اور پسنديدہ ہے_

۳ _ مشركين كى طرف سے ان مسلمانوں پر دوبارہ ظلم كہ جنہوں نے انہيں تركى بہ تركى جواب ديا تھا (يعنى جيس عقوبت مشركين نے انہيں دى تھى انہوں نے بھى ويسى ہى عقوبت مشركين كو دى تھي)و من عاقب بمثل ما عوقب به ثم بغى عليه

۵۸۸

۴ _ خداتعالى نے ستم كا شكار ہونے والے مسلمانوں كو قطعى وعدہ ديا ہے كہ وہ انكى مدد اور نصرت كريگا تاكہ ستمگروں سے اپنا انتقام لے سكيں _ومن عاقب ثم بغى عليه لينصرنه الله

۵ _ خداتعالى مظلوموں كا حامى اور مددگار اور ظالموں اور ستمگروں كا دشمن ہے _و من عاقب بمثل ما عوقب به ثم بغى عليه لينصرنه الله

۶ _ خداتعالى نے مشركين كے ظلم كا شكار ہونے والے مسلمان شخص كو نصيحت فرمائي كہ وہ دشمنوں سے درگزر كردے اور انہيں معاف كردے_و من عاقب ثم بغى عليه لينصرنه الله إنّ اللّه لعفو غفور

۷ _ خداتعالى عفوّ (در گزر كرنے والا) اور غفور (بخشنے والا) ہے_إن الله لعفو غفور

اسلام:صدر اسلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۶

اسما و صفات:عفو۷; غفور ۷

تجاوز كرنے والے:ان كا دشمن ۵

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۱، ۶; اسكى حمايت ۵; اسكى دشمنى ۵; اسكى نصرت ۴; اس كا وعدہ ۴

ظالم لوگ:ان كا دشمن ۵

مسلمان:مظلوم مسلمان كو نصيحت ۶; صدر اسلام كے مسلمان كا تركى بہ تركى جواب دينا ۳

مشركين:صدر اسلام كے مشركين كا تجاوز كرنا ۳; صدر اسلام كے مشركين كى اذيتوں كے مقابلے ميں صبر ۱

مظلومين:ان كا حامى ۵; انكى نصرت ۴

مؤمنين:صدر اسلام كے مؤمنين كا تركى بہ تركى جواب دينا۲

مہاجرين:صدر اسلام كے مہاجرين كے صبر كى اہميت ۱; صدر اسلام كے مہاجرين كو نصيحت۱۱

۵۸۹

آیت ۶۱

( ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ )

يہ سب اس ئلے ہے كہ خدا رات كو دن ميں داخل كرتا ہے اور دن كو رات ميں داخل كرتا ہے اور اللہ بہت زيادہ سننے والا اور ديكھنے والا ہے (۶۱)

۱ _ خداتعالى كا شب و روز كو تبديل كرنے پر قادر ہونا ،اس بات كى واضح دليل ہے كہ وہ ستمگروں سے انتقام لينے كيلئے مظلوموں كى مدد كرنے كى طاقت ركھتا ہے_ذلك بأنّ الله يولج اليل فى النهار و أنّ الله سميع بصير

گذشتہ آيت ميں خداتعالى نے مشركين كے ظلم كا شكار بننے والے مسلمان كو قطعى وعدہ ديا كہ وہ اسكى مدد كريگا تا كہ وہ ظالموں سے اپنا انتقام لے سكے اور اس آيت ميں _ اس چيز كے پيش نظر كہ مبادا كوئي خداتعالى كے اپنے وعدوں كو پورا كرنے پر قادر ہونے اور مظلوموں كى مدد اور حمايت كرنے ميں شك كرے اپنى بے انتہا قدرت كے ايك گوشے كو بيان كيا ہے_

۲ _ شب و روز كو ايك دوسرے كے پيچھے لانا اور انہيں مسلسل ايك دوسرے كى جگہ پر تبديل كرنا خداتعالى كى قدرت مطلقہ كا ايك جلوہ ہے_با نّ الله يولج اليل فى النهار و يولج النهار فى اليل

(''يولج'' كے مصدر) ''إيلاج'' كا معنى ہے داخل كرنا رات كو دن ميں اور دن كو رات ميں داخل كرنا ممكن ہے شب و روز كو ايك دوسرى كى جگہ پر تبديل كرنے سے كنايہ ہو يعنى خداتعالى تدريجاً رات كو دن كى جگہ پر اور تدريجاً دن كو رات كى جگہ پر قرار ديتا ہے_ اسى طرح ہوسكتا ہے اس سے مراد دن كو چھوٹا اور رات كو بڑا كرنا ہواور اس كا برعكس ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بنياد پر ہے_

۳ _ پورے سال ميں شب و روز كا مسلسل چھوٹا بڑا ہونا ، خداتعالى كى غير محدود قدرت كى علامت ہے_

ذلك با نّ الله يولج اليل فى النهارو يولج النهار فى الّيل

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ رات كو دن ميں داخل كرنے سے مراد رات كو چھوٹا اور دن كو بڑا كرنا ہو نيز دن كو رات ميں داخل كرنے سے مراد دن كى گھڑيوں كو كم اور رات كو گھڑيوں كو زيادہ كرنا ہو_

۵۹۰

۴ _ خداتعالى ،مظلوم كى فرياد سنتا ہے اور ظالم كو ديكھتا ہے_و ا ن الله سميع بصير

''سميع'' اور ''بصير'' كا متعلق محذوف ہے اور گذشتہ آيت كے پيش نظر اصل ميں يوں ہے''و ا ن الله سميع دعاء من بغى عليه و بصير ببغى الباغي'' _

۵ _ خداتعالى كا علم و قدرت كامل اور نقص سے پاك ہے_ذلك با نّ الله يولج اليل وا ن الله سميع بصير

۶ _ خدا سميع (سننے والا) اور بصير (ديكھنے والا) ہے_و ا ن الله سميع بصير

اسما و صفات:بصير۶; سميع ۶

خداتعالى :اس كا بصير ہونا۴; اس كا منزہ ہونا ۵; اسكى قدرت كے دلائل ۳; اسكى نصرت كے دلائل ۱; اس كا سننا ۴; اسكى قدرت ۱; اسكے علم كا كامل ہونا ۵; اسكى قدرت كا كامل ہونا۵; اسكى قدرت كى نشانياں ۲: اسكے علم كى خصوصيات ۵; اسكى قدرت كى خصوصيات ۵

دن:اسكى گردش ۱، ۲،۳

رات:اسكى گردش ۱، ۲، ۳

ظالم لوگ:ان سے انتقام ۱

مظلومين:ان كا حامى ۱

آیت ۶۲

( ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ )

يہ اس لئے ہے كہ خدا ہى يقينا بر حق ہے اور اس كے علاوہ جس كو بھى يہ لوگ پكارتے ہيں وہ سب باطل ہيں اور اللہ بہت زيادہ بلندى والا اور بزرگى اور عظمت والا ہے (۶۲)

۱ _ قدرت خدا كے سائے ميں شب و روز كا مسلسل ايك دوسرے كى جگہ پر تبديل ہونا اسكى تدبير اور ربوبيت

۵۹۱

كا بولتا ثبوت ہے_با نّ الله يولج اليل فى النهار ذلك با نّ الله هو الحق

گذشتہ آيت خداتعالى كى قدرت مطلقہ كے ايك جلوے كو بيان كر رہى تھى يعنى شب و روز كو تبديل كرنا كہ جس كے ساتھ انسان كى زندگى كا نظام چلتا ہے اس آيت ميں فرماتا ہے يہ جو خداتعالى نے نظام ہستى كى تدبير اپنے اختيار ميں ركھى ہے يہ اسلئے ہے كہ پورے عالم ہستى ميں صرف وہ ہے جو معبود برحق ہے اور جو بھى اس كے غير ہيں كہ جنہيں معبود سمجھتا جاتا ہے سب باطل، كھوكھلے اور خيالى ہيں اور بلند مرتبہ ہونا اور بزرگى صرف اسكى شان ہے نہ اسكے غير كي_

۲ _ صرف خداتعالى معبود برحق اور لائق عباد ت ہے_ذلك با نّ الله هو الحق

۳ _ خدا تعالى كے علاوہ ہر معبود خيالى اور باطل ہے_و ا نّ ما يدعون من دونه هو الباطل

۴ _ تدبير الہى كے سائے ميں شب و روز كى گردش ،شرك كے ہدف اور ديگر خداؤں كے بطلان كى واضح نشانى ہے_

با نّ الله يولج اليل فى النهار و ا ن ما يدعون من دونه هو الباطل

۵ _ جہان اور اس كا نظام، خداشناسى اور توحيد تك پہنچنے اور شرك كے مقصد كے بطلان كا مناسب ذريعہ ہے_

ذلك با ن الله هو الحق و ا ن الله هو العلى الكبير

۶ _ بلندمرتبہ ہونا اور بزرگى صرف خداتعالى كى شان ہے_و ا نّ الله هو العلى الكبير

مذكورہ جملے ميں ''ہو'' ضمير فصل ہے اور ''العليَّ'' ''ا نّ''كى پہلى اور ''الكبير'' دوسرى خبر ہے اور دونوں ميں ''ال'' جنس كا اور مفيد حصر ہے_

۷ _ خداتعالى ''علّي'' (بلند مرتبہ) اور كبير (بزرگ) ہے_و انّ الله هوالعلى الكبير

آيات الہي:آفاقى آيات ۵/اسما و صفات:على ۷; كبير ۷

باطل معبود:ان كا كھوكھلاپن ۳; ان كے كھوكھلے پن كے دلائل ۴

توحيد:توحيد عبادى ۲، ۳

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۶; اسكى تدبير ۴; خداشناسى كے دلائل ۵; اس كا علو ۶; اسكى كبريائي ۶; اسكى تدبير كى نشانياں ۱; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۱

دن:اسكى گردش ۱، ۴/رات:

۵۹۲

اسكى گردش ۱، ۴

شرك:اسكے بطلان كے دلائل ۴; اسكے كھوكھلے ہونے كے دلائل ۵

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۲

آیت ۶۳

( أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ )

كيا تم نے نہيں ديكھا كہ اللہ نے آسمان سے پانى برسايا تو اس سے زمين سرسبز و شاداب ہوجاتى ہے _ يقينا اللہ بہت زيادہ مہربان اور حالات كى خبر ركھنے والا ہے (۶۳)

۱ _ آسمان سے بارش كا نازل ہونا، خداتعالى كى ربوبيت اور تدبير كا ايك جلوہ ہے _ا لم تر فتصبح الأرض مخضرة

''ا لم تر ...'' ميں استفہام تقرير كيلئے ہے يہاں پر بات ان لوگوں كے ساتھ ہے كہ جن كا عقيدہ تھا كہ آسمان سے بارش كا نازل ہونا اور اس كے ذريعے زمين كا سبز و شاداب ہونا اور زندگى كى گاڑى كا چلنا اور انسان كى زندگى كا سر و سامان پانا يہ سب صرف قدرت الہى كے جلوہ اور خداتعالى كى تدبير كے زير سايہ ميسر ہے ليكن اسكے باوجود ان كا خيال يہ تھا كہ ان كى تقدير ديگر خداؤں كے ہاتھ ميں ہے_

۲ _ بارش ، زمين كے سرسبز ہونے، نباتات كے اگنے اور زندگى كے نظام كے چلتے رہنے كا سبب ہے_

ا نزل من السماء مائً فتصبح الأرض مخضرّة

۳ _ قدرتى اشياء ميں غور و فكر، انسان كى توحيد اور يكتاپرستى تك دسترسى حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_

ا لم تر ا نّ الله ا نزل من السماء مائً

۴ _ قدرتى اور مادى علتوں كى كارگردگي، اراده الهى كي محقق هوني كا مظهر هي_ا لم تر ا نّ الله انزل من السماء مائً فتصبح

الأرض مخضرّة

۵ _ آسمان سے بارش كے نازل ہونے كى اصلى علت ميں گہر اغور و فكر كرنا ضرورى ہے_

ا لم تر ا نّ الله ا نزل من السماء مائً فقبح الأرض مخضرّة

۶ _ بارش كا نازل ہونا اور اس كا زمين كے اندرتك گھس جانا اور اسكے ذريعے زمين كا سرسبز و شاداب ہوجان خداتعالى كى اشيا كے ظاہر و باطن پر محيط ہونے اور اسكے جہان ہستى كے موجودات كے تار و پود ميں نفوذ ركھنے كى ايك نشانى ہے_

۵۹۳

ا لم تر ا نّ الله ا نزل من السماء مائً إنّ الله لطيف

''لطيف'' (مصدر ''لطافة'') سے دقيق كے معنى ميں ہے اور مصدر ''لطف'' سے ''صاحب لطف و كرم'' كے معنى ميں ہے خداتعالى كى لطيف كے ساتھ توصيف پہلے معنى كى بنياد پر خداتعالى كے اس طرح اشياء كے دل و جان ميں نفوذ ركھنے اور حاضر ہونے سے كنايہ ہے كہ كوئي اسے محسوس نہيں كرتا اس بناء پر بارش كے نزول كو بيان كرنے كے بعد كہ جو غير محسوس طريقے سے زمين كے اندر تك سرايت كرتى ہے_ اس صفت كا ذكر كرنا اس حقيقت كو بيان كر رہا ہے كہ بارش خداتعالى كے لطيف ہونے كى ايك علامت ہے_ مذكورہ مطلب اسى معنى كى بنياد پر ہے_

۷ _ خداتعالى كى سب انسانوں كے ساتھ نرى اور مدارات_إنّ الله لطيف

مذكورہ مطلب اس بنياد پر ہے كہ ''لطيف'' لطف (نرمى و مدارات) سے مشتق ہو اس صورت ميں ''لطيف'' كا متعلق محذوف ہے يعنى''إنّ الله لطيف بعباده''

۸ _ خداتعالى ،انسانوں كے امور سے مكمل طور پر آگاہ ہے_إنّ الله لطيف خبير

۹ _ بارش كا نازل ہونا اور اسكے ذريعے نباتات كا اُگنا خداتعالى كى انسانوں كے امور سے مكمل طور پر آگاہ ہونے كى نشانيوں ميں سے ہے_ا لم تر ا نّ الله ا نزل من السماء مائ إنّ الله لطيف خبير

۱۰ _ خداتعالى لطيف (دقيق) اور خبير (آگاہ) ہے_إن الله لطيف خبير

اسما و صفات:خبير ۱۰; لطيف ۱۰

بارش:اس كا برسنا ۱، ۶، ۹; اسكے فوائد ۲

تدبر:خلقت ميں تدبر كے اثرات ۳

تفكر:بارش برسنے كے عوامل ميں تفكر كرنا ۵

توحيد:اس كا پيش خيمہ۳

نباتات:ان كے اگنے كے عوامل ۲

زندگي:اسكے عوامل ۲

خداتعالى :اس كا علم ۸; اسكے ارادے كے مجارى ۴; اس كا لطف و كرم ۷; اسكے محيط ہونے كى نشانياں ۶; اسكى تدبير كى نشانياں ۱; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۱; اسكے علم كى نشانياں ۹

۵۹۴

زمين:اس كا سرسبز ہونا۶; اسكے سرسبز ہونے كے عوامل ۲

قدرتى عوامل:ان كا كردار ۴

نباتات:ان كا اگنا ۹

آیت ۶۴

( لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ )

آسمانوں اور زمين ميں جو كچھ بھى ہے سب اسى كے لئے ہے اور يقينا وہ سب سے بے نياز اور قابل حمد و ستايش ہے (۶۴)

۱ _ خداتعالى عالم ہستى كا مطلق اور بے رقيب مالك ہے_له ما فى السّموات و ما فى الأرض

''لہ'' مقدر عامل كے متعلق اور ''ما'' كى خبر ہے پس اس كا مبتدا پر مقدم كرنا مفيد حصر ہے قابل ذكر ہے كہ يہاں پر بات ان لوگوں سے ہے جن كا يہ خيال تھا كہ جہاں ميں كئي خدا ہيں اور انسانوں كى تقدير ان كے ہاتھ ميں ہے اس حقيقت كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ پورا عالم ہستى خداتعالى كى ملكيت اور اسكے اختيار ميں ہے مذكورہ جمع ميں بنيادى طور پر كسى دوسرے موجود_ كہ جو خود كى ملكيت سے باہر اور ديگر اشياء ميں تصرف كى قدرت ركھتا ہو_ كے وجود كو ايك باطل اور جاہل ذہنوں كا گھڑا ہوا خيال شمار كيا گيا ہے_

۲ _ عالم خلقت ميں كئي آسمان ہيں _له ما فى السّموات

۳ _ خداتعالى ، پورے عالم ہستى كا ايسا پروردگار ہے كہ جس كا كوئي ہمسر نہيں ہے_له ما فى السّموات و ما فى الأرض

۴ _ پورے عالم ہستى ميں صرف خداتعالى غنى و بے نياز اور حميد و لائق تعريف ہے_و إن الله لهو الغنى الحميد

''ہو'' ضمير فعل اور ''الغني''،''إن'' كى پہلى اور ''الحميد''دوسرى خبر ہے اور ان ميں ''ال'' جنس كيلئے اور مفيد حصر ہے_ قابل ذكر ہے كہ يہ حصر شرك والى فكر كے وہم و خيال ہونے كى ايك اور دليل كو بيان كررہى ہے كيونكہ اس چيز كو مدنظر ركھتے ہوئے پورا عالم ہستى خدا كى حمد ميں مصروف ہے اور صرف اس كا نيازمند ہے كسى ايسے موجود كى

۵۹۵

كوئي گنجائش نہيں ہے كہ جو خود بے نياز ہو اور دوسروں كى نياز كو پورا كرے اور اس وجہ سے قابل ستائش ہو_

۵ _ پورا عالم ہستى فقير، خدائے يكتا كا نيازمند اور اسكى تعريف كرنے و الا ہے_له ما فى السموات و إنّ الله لهو الغنى الحميد

۶ _ بے نياز ى اور تمام كمالات كا حامل ہونا ،ربوبيت اور انسان و كائنات كے امور كى تدبير كے لائق ہونے كى شرط ہے_و إن الله لهو الغنى الحميد

۷ _ خداتعالى كى مطلق بے نيازى اور مالكيت اسكے حمد و ستائش كے لائق ہونے كا سرچشمہ _

له ما فى السموات و إن الله لهو الغنى الحميد

''مطلق بے نيازى اور مالكيت'' كے بعد ''حميد'' كو ذكر كرنا مذكورہ مطلب كو بيان كررہا ہے_

۸ _ خداتعالى غنى (بے نياز) اور حميد (تعريف كيا ہوا) ہے_و إن الله لهو الغنى الحميد

آسمان:ان كا متعدد ہونا ۲

اسما ء و صفات:حميد۸; غنى ۸

انسان:اس كا رب ۶

بے نيازي:اسكے اثرات ۶

توحيد:توحيد ربوبى ۳

عالم خلقت:اس كا مالك ۱; اس كا رب ۶; اس كى نيازمندى ۵

حمد:خدا كى حمد ۴، ۵; خدا كى حمد كا سرچشمہ ۷

خداتعالى :اسكى خصوصيات ۱، ۴; اس كا بے نظير ہونا۳; اسكى بے نيازى ۴، ۷; اسكى مالكيت ۴، ۱، ۷

ربوبيت:اسكے شرائط ۶

كمال:اسكے اثرات ۶

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۱، ۳، ۴

نياز:خدا كى طرف نياز ۵

۵۹۶

آیت ۶۵

( أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَيُمْسِكُ السَّمَاء أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ )

كيا تم نے نہيں ديكھا كہ اللہ نے تمہارے لئے زمين كى تمام چيزوں كو مسخر كر ديا ہے اور كشتياں بھى دريا ميں اسى كى حكم سے چلتى ہيں اور وہى آسمانوں كو روكے ہوئے ہے كہ اس كى اجازت كے بغير زمين پر نہيں گر سكتا ہے _ اللہ اپنے بندوں پر بڑا شفيق اور مہربان ہے (۶۵)

۱ _ زمين كى تمام موجودات (جمادات، نباتاتاور حيوانات) انسان كى خدمت ميں اور اس كے استفادہ كيلئے مسخر اور رام ہيں _ا لم تر ا نّ سخرلكم ما فى الأرض

۲ _ انسان، زمين ميں خدا كى محترم ترين اور بزرگ ترين مخلوق ہے_سخر لكم ما فى الا رض لرء وف رحيم

''ا لم تر ...'' ميں استفہام تقرير كيلئے ہے (''سخّر'' كے مصدر) تسخير كا معنى ہے رام كرنا_ قابل ذكر ہے كہ اس حصے ميں بھى بات ان لوگوں سے ہو رہى ہے كہ جو يہ ديكھتے ہيں كہ خداتعالى نے اس وسيع زمين ميں سب چيزوں كو _ جمادات، نباتات اور حيوانات_ ان كيلئے رام كيا ہے اور ان كے اختيار ميں قرار ديا ہے تا كہ اسكے سائے تلے اپنى زندگى كى مختلف قسم كى ضروريات كو پورا كرسكيں اور انكى زندگى كى گاڑى بلاتوقف چلتى رہے ليكن اسكے باوجود ان كا خيال يہ ہے كہ انكى تقدير ديگر خداؤں كے يہاں بنتى ہے_

۳ _زمين،خداتعالى كے انسان كا رب ہونے كے جلووں سے سرشار ہے_ا لم تر ا نّ سخرلكم ما فى الأرض

۴ _ عالم طبيعت كے انسان كيلئے رام ہونے، سمندر ميں كشتى كى حركت اور زمين كے آسمانى پتھروں اور ديگر كرات كے ساتھ ٹكرانے سے محفوظ رہنے كى طرف توجہ خداتعالى كى توحيد ربوبى تك پہنچنے كا واضح ذريعہ ہے_

ا لم تر ا نّ الله سخّر ا ن تقع على الأرض

۵ _ عالم طبيعت سے خدمت لينا اور اسكے منافع سے بہرہ مند ہونا ،سب انسانوں كا مساوى اور جائز حق ہے_

ا لم تر ا نّ الله سخّر لكم ما فى الأرض

۵۹۷

جو كچھ زمين ميں ہے اسے انسان كيلئے رام كرنے كا لازمہ يہ حقيقت ہے كہ سب انسان زمين اور اس ميں جو كچھ ہے اس سے استفادہ كرنے كا مساوى حق ركھتے ہيں اور كسى كو يہ حق نہيں ہے كہ وہ دوسرے كو اس حق سے منع كرے_

۶ _ سمندر ميں كشتيوں كى حركت ، خداتعالى كے ا ذن اور اسكے حكم كے تحت ہے_و الفلك التى تجرى فى البحر بأمره

۷ _ قدرتى عوامل، حكم خدا كے تحت اور اسكے ارادے كے مجارى ہيں _ا لم تر ا ن الله سخّرلكم ما فى الا رض و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض

۸ _ موجيں مارتے ہوئے سمندر كو رام كرنا، خداتعالى كى انسانوں كو عالم طبيعت پر مسلط كرنے كى طرف توجہ كا واضح نمونہ ہے_ا لم تر ا ن الله سخّرلكم ما فى الأرض و الفلك تجرى فى البحر بأمره

۹ _ زمين كا خداتعالى كے ارادے سے اجرام سماوى اور ديگر كرات كے ساتھ ٹكرانے سے محفوظ ہونا_

و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض

۱۰ _ نظام خلقت كا برپا ہونا اور اس كا نابودى سے محفوظ ہونا خداتعالى كى مسلسل حفاظت اور نگہداشت كا نيازمند ہے_

و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض

۱۱ _ نظام خلقت كا قائم ہونا، خداتعالى كى بے انتہا قدرت كا ايك جلوہ ہے_و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض

۱۲ _ اجرام آسمانى (شہاب و غيرہ) كا زمين پر گرنا ، خداتعالى كى مشيت اور اذن كے ساتھ ہے _

و يمسك السماء ا ن تقع على الأرض إلّاإيذنه

۱۳ _ انسان كيلئے عالم طبيعت كا رام ہونا، سمندر ميں كشتيوں كى حركت اور زمين كا اجرام سماوى كے ساتھ ٹكرانے سے محفوظ ہونا يہ سب خداتعالى كى انسان كے ساتھ خاص رحمت و رافت كے جلوے ہيں _ا لم تر ا ن الله سخّر إنّ الله بالناس لرء وف رحيم

۱۴ _ خداتعالى كى وسيع رحمت و رافت تمام انسانوں (مؤمن و كافر) كو شامل ہے_إنّ الله بالناس لرء وف رحيم

صدر آيت (سخر لكم) كے قرينے سے ''الناس'' سب انسانوں كو شامل ہے چاہے وہ مؤمن ہوں يا كافر_

۱۵ _ خداتعالى ،رؤوف اور رحيم ہے_إنّ الله بالناس لرء وف رحيم

۵۹۸

مذكورہ جملے ميں مفسرين نے ''رافت'' كو ضرر كو روكنے سے اور ''رحمت'' كو فائدہ پہنچانے سے كنايہ بنايا ہے صدر آيت كہ جو دونوں خصوصيات پر مشتمل ہے اس معنى كا مويد ہوسكتا ہے_

اجرام سماوي:ان سے محفوظ ہونا ۴، ۹، ۱۳; ان كے گرنے كا سرچشمہ ۱۲

اللہ تعالي:اسكے اذن كے اثرات ۱۲; اس كا اذن ۶; اسكے اوامر ۶; اسكے اوامر كى حكمرانى ۷; اسكے ارادے كے مجارى ۷; اسكى رافت كى نشانياں ۱۳; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۳; اسكى رحمت كى نشانياں ۱۳; اسكى قدرت كى نشانياں ۱۱; اسكے لطف و كرم كى نشانياں ۸; اسكے ارادے كا كردار ۹

اسما و صفات:رؤوف ۱۵; رحيم ۱۵

انسان:ان كے حقوق كا مساوى ہونا ۵; اسكے فضائل ۱، ۲; اس كا رب ۳

توحيد:توحيد ربوبى ۴

حقوق:حق استفادہ ۵

حيوانات:انكى خلقت كا فلسفہ ۱

سمندر:اسے مسخر كرنا ۸

ذكر:عالم طبيعت كى تسخير كے ذكر كرنے كے اثرات ۴

خدا كى رافت:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۴

رحمت:يہ جنكے شامل حال ہے ۱۴

زمين:اس كا محفوظ ہونا ۴، ۹، ۱۳

عالم خلقت:اس كا انہدام ۱۰; اس كا محفوظ ہونا۱۰; انكا نظام ۱۱; اسكى نگہداشت ۱۰

طبيعت:اس سے استفادہ كرنا۵; اسكى تسخير ۱۳

قدرتى عوامل:ان كا رام ہونا ۷; ان كا كردار ۷/كشتياں :انكى حركت ۴، ۱۳; انكى حركت كا سرچشمہ ۶

نباتات:انكى خلقت كا فلسفہ ۱/موجودات:انكى تسخير ۱; ان ميں سے معززترين ۲; انكى خلقت كا فلسفہ۱

ہدايت:اس كا پيش خيمہ ۴

۵۹۹

آیت ۶۶

( وَهُوَ الَّذِي أَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ إِنَّ الْإِنسَانَ لَكَفُورٌ )

وہى خدا ہے جس نے تم كو حيات دى ہے اور پھر موت دے گا اور پھر زندہ كرے گا مگر انسان بڑا انكار كرنے والا اور نا شكرا ہے (۶۶)

۱ _ انسان خدا كا خلق كيا ہوا اور اسكے ارادے سے زندہ ہے_و هو الذى ا حياكم

۲ _ موت تمام انسانوں كى قطعى تقدير _ثم يميتكم

۳ _ (روز قيامت) ارادہ الہى سے انسانوں كى نئي زندگي_ثم يحييكم

۴ _ انسان كى خلقت، موت اور نئي زندگى ميں خداتعالى كى ربوبيت كا متجلى ہونا_و هو الذى ا حياكم ثم يميتكم ثم يحييكم

۵ _ انسان ،خداتعالى كے مقابلے ميں بہت ناشكرا ہے_و هو الذى ا حياكم إنّ الإنسان لكفور

''كفور'' مبالغے كا صيغہ اور ''كفر'' سے مشتق ہے ''كفر'' كبھى ايمان كے مقابلے ميں استعمال ہوتا ہے اور كبھى شكر كے مقابلے ميں لہذا مذكورہ جملے ميں ''كفور'' ہوسكتا ہے شكور (بہت شكرگزار) كے مقابلے ميں اور ''بہت ناشكرا'' كے معنى ميں ہو اسى طرح ہوسكتا ہے بہت بے ايمان كے معنى ميں ہو مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بناء پر ہے_

۶ _ شرك، بت پرستى اور توحيد سے منہ موڑنا، خداتعالى كے مقابلے ميں انسان كى ناشكرى كا عروج ہے_

و هو الذى ا حياكم إنّ الإنسان لكفور

انسان:اس كا خالق ۱; اسكى خلقت ۴; اسكى صفات ۵; اس كا انجام ۲; اسكى ناشكرى ۵، ۶; اسكى موت ۴

بت پرستي:

۶۰۰

 توحید کے متعلق ایک طرف ان کا وہ کلام جو حلول سے خدا کو ببانگ دہل پاک و پاکیزہ اور جاہلوں کی باتوں سے بلند و برتر ظاہر کرے دوسری طرف امامت اور امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کے متعلق ان کے وہ خیالات جس سے واضح طور پر معلوم ہو کہ رسول(ص) علی(ع) سے افضل تھے اور علی(ع) کی امت و رعیت میں سے ایک فرد تھے اور خدا کے ان بندوں میں سے ایک تھے جن پر ظلم و جبر دکیا گیا۔ جو اپنے مخلوق کی حفاظت سے عاجز رہے۔ بیم وہراس کے مارے دشمن کے آگے جھکنے پر مجبور ہوئے اور جن کا نہ کوئی معین تھا نہ ناصر ۔ ان دونوں باتوں کے بعد پھر ی اتہام رکھنا کہ ہشام علی(ع) کی خدائی کے قائل تھے کہاں تک قابل توجہ ہے۔

کہاں تو علامہ شہرستانی خود گواہی دیں کہ ہشام اصول مذہب میں بڑے گہرے تھے اور وہ ان الزامات سے بری تھے جو دشمن ان پر لگاتے ہیں۔

اس کے بعد ان کی طرف ان معاملات کی نسبت بھی دیتے ہیں کہ وہ حضرت علی(ع) کی الوہیت کے قائل تھے۔ کیا شہرستانی کے کلام میں یہ تناقض نہیں ہے؟ اور ہشام ایسے عظیم المرتبت ، صاحب فضل و شرف بزرگ کی طرف ان مہملات کا منسوب کرنا مناسب ہے؟ کون منصف مزاج اسے تسلیم کرے گا، لیکن واقعہ تو یہ ہے کہ مخالفین اہل بیت(ع) اور پیروان اہل بیت(ع) سے حسد رکھنے اور  ان پر ہر ظلم روا سمجھنے کی جہت سے سوائے بہتان تراشیوں اور افترا پردازیوں کے کسی بات کو پسند ہی نہیں کرسکتے۔

امام موسی کاظم(ع) ، علی رضا(ع)، محمد تقی(ع)، علی نقی(ع)، حسن عسکری علیہم السلام کے زمانہ میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ بہت وسیع ہوچکا تھا۔ بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ ہر ہر شہر میں ائمہ طاہرین(ع) اور اصحاب ائمہ معصومین(ع) سے روایت کرنے

۶۰۱

والے پھیل چکے تھے۔ انھوں نے علم کی اشاعت پر کمر باندھی اور علم کی تدویں میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ علوم و معارف جمع کرنے میں اپنی ساری صلاحیتوں سے کام لیا۔

محقق علیہ الرحمہ معتبر میں فرماتے ہیں کہ “

“ امام محمد تقی(ع) کے تلامذہ میں بڑے نامور افاضل گزرے جیسے حسن بن سعید اور ان کے بھائی حسن، احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی ، احمد بن محمد بن خالد برقی، شاذان ، ابوالفضل العمی، ایوب بن نوح ، احمدبن محمد بن عیسیٰ وغیرہ جن کی فہرست بہت طولانی ہے۔”

محقق فرماتے ہیں کہ :

“ ان حضرات کی کتابیں آج علماء میں نقل ہوتی چلی آرہی ہیں ان کتابوں کے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ کس قدر بے پایاں علوم کے حامل تھے یہ حضرات۔۔۔۔۔ الخ”

میں کہتا ہوں کہ آپ صرف برقی کی کتابوں کو لیجیے ۔ تنہا ان کی سو کتابیں ہیں۔ بزنطی کی ایک کتاب بڑی عظیم الشان کتاب ہے جو جامع کے نام کسے مشہور ہے۔ حسین بن سعید کی تیس مصنفات ہیں۔

امام جعفر صادق(ع) کی اولاد سے چھ اماموں کے جتنے تلامذہ گزرے اور انھوں نے جتنی کتابیں تالیف کیں ان کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ رجال کے حالات میں جو کتابیں اور فہرستیں ہیں ان میں ان چند حضرات کے حالات ملاحظہ فرمائیے محمد بن سنان، علی بن مہزیار، حسن بن محبوب، حسن بن محمد بن سماعہ، صفوان بن یحی، علی بن یقطین ، علی بن فضال ، عبدالرحمن بن نجران، فضل بن شاذان، ( جن کی دو سو مصنفات ہیں) محمد بن مسعود عیاشی، ( جن کی مصنفات ( دو سو

۶۰۲

سے بھی زیادہ ہیں) محمد بن عمیر ، احمد بن محمد بن عیسیٰ( انھوں نے امام جعفر صادق(ع) کے سو اصحاب سے حدیثوں کو سنا اور بیان کیا) محمد بن علی بن محبوب ، طلحہ بن زید ، عمار بن موسی ساباطی، علی بن نعمان ، حسین بن عبداﷲ، احمد بن عبداﷲ بن مہروان جو ابن خانہ کے نام سے مشہور ہیں۔ صدقہ بن منذر قمی، عبداﷲ بن علی بن حلبی، جنھوں نے اپنی تالیف امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں پیش کی اور امام نے اس کی صحت فرمائی اور بنظر استحسان دیکھا اور فرمایا کہ :

“ کیا تم نے ان لوگوں کی بھی کوئی ایسی کتاب دیکھی ہے؟”

ابوعمرو طیب ، عبداﷲ بن سعید جنھوں نے اپنی کتاب امام رضا(ع) کی خدمت میں پیش کی۔ یونس بن عبدالرحمن جنھوں نے اپنی تالیف امام حسن عسکری(ع) کے ملاحظہ میں پیش کی۔

اگر شیعیان آل محمد(ص) کے اگلے بزرگوں اور اسلافِ صالحین کے حالات ڈھونڈ کر معلوم کیے جائیں اور پتہ چلایا جائے کہ امام حسین(ع) کی نسل سے بقیہ نو اماموں میں سے ہر امام کے کتنے کتنے صحابی تھے اور ہر امام(ع) کے عہد میں کتنے صحابیوں نے کتنی کتنی کتابیں لکھیں اور حساب لگایا جائے کہ وہ لوگ کتنے ہزار تھے جنھوں نے ان کتابوں کے مضامین دوسروں سے بیان کیے اور اصول و فروع دین کے متعلق جو آل محمد(ص) کی حدیثیں تھیں ان کے حامل بنے۔ پھر  اس پر غور کیا جائے کہ یہ علوم ایک جماعت سے دوسری جماعت میں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں نو اماموں کے زمانے سے نسلا بعد نسل منتقل ہوتے آئے تب اندازہ ہوگا۔ اس وقت آنکھیں کھلیں گی کہ ائمہ اہل بیت(ع) کا مذہب کس قدر متواتر ہے پھر کوئی شک نہ رہے گا۔ کہ ہم اصول و فروع دین میں جس طریقہ پر طاعت الہی کرتے ہیں وہ طریقہ

۶۰۳

 آل پیغمبر(ص) سے حاصل کیا ہوا اہل بیت(ع) رسول(ص) سے ماخوذ ہے۔ اس میں نہ کسی شک کی گنجائش ہوگی نہ شبہ کی۔ ہاں ہٹ دھرمی اور خواہ مخواہ کا بغض رکھنے والے یا انتہائی جاہل و کودن انسان شک کرے تو بات دوسری ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم لوگوں کی اس طریقے کی طرف ہدایت کی اگر خداوند عالم ہمیں ہدایت نہ کرتا تو ہم خود ہدایت حاصل نہیں کرسکتے تھے۔

                                                                     ش    

۶۰۴

مکتوب نمبر۵۶

میں گواہی دیتا ہوں کہ اصول و فروع میں آپ اسی مسلک پر ہیں جس پر اہل بیت(ع)پیغمبر(ص) تھے۔ آپ نے اس چیز کو واضح کر کے بخوبی روشن کردیا اور ڈھکی چھپی باتیں ہویدا کر دیں۔ شک کرنا نا اںصافی ہے اور شک و شبہ میں ڈالنا گمراہ بنانا ہے۔ میں نے آپ کے مذہب کو اچھی طرح دیکھا بھالا مجھے شروع سے آخر تک پسندیدہ ہی نظر آیا۔ میں پہلے جبکہ آپ کے ذریعے حقائق تک نہیں پہنچا تھا، آپ لوگوں کے متعلق بڑی غلط فہمی میں مبتلا تھا کیونکہ اب تک میرے کانوں میں بہتان باندھنے والوں اور افترا پردازوں ہی کی آوازیں پہنچائی گئیں۔ جب خدا نے مجھے آپ تک پہنچایا تو میں آپ کے ذریعے ہدایت کے جھنڈے کے نیچے آگیا اور تاریکیوں کے چراغ تک پہنچ گیا اور آپ کے پاس سے میں فلاح یافتہ اور رستگار ہو کر واپس ہوا۔ خدا نے آپ کے ذیعے کتنی گرانقدر نعمت مجھ پر نازل کی۔ میں کیا عرض کروں کہ آپ نے کتنے بڑا احسان مجھ پر فرمایا۔

                                                                     س

۶۰۵

جواب مکتوب

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ قلمرو دین و دانش کے تاجدار ہیں۔ آپ نے شہاب سے زیادہ تابانی دکھائی۔ اور محیط بحث و نظر کے بے بہا گوہر غلطان نکال لائے۔ بتحقیق باریک نگاہی کو آپ نے پایہ معراج تک پہنچا دیا ۔ حقائق کی تہوں میں آپ کی نگاہ پہنچی نہ تھی۔ نہ قومی جذبات نے آپ کا دامن کھینچا اور نہ شخصی اغراض نے آپ کی راہ روکی۔ اختلاف نظر نے آپ کو برہم نہ کیا۔ آپ تو پہاڑ سے بھی زیادہ قوت برداشت رکھتے ہیں۔ آپ کے دل کی وسعت لا محدود ہے۔ حق بے نقاب ہوگیا۔ صبح چشم بینا کے لیے درخشان ہوگئی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے اپنے دین کی طرف رہنمائی کی اور موفق فرمایا کہ اس کے راستے پر قوم لگ گئی۔

                                                                     ش

۶۰۶

حضرت علی علیہ السلام کو پہچانو ان کی لسان حکمت سے

مولائے کونین جب جنگ نہروان سے فارغ ہو کر کوفہ تشریف لائے تو ایک فصیح و بلیغ خطبہ دیا جس کا کچھ اقتباس دیا جاتا ہے:

بعد حمد خدا وصلوة محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) فرمایا:
“ میں سب سے پہلا مومن ہوں، سب سے پہلا مسلم، سب سے پہلا نماز گزار ، سب سے پہلا روزہ دار اور سب سے اول جہاد کرنے والا ہوں۔”
“ میں خدا کی محکم رسی ( حبل اﷲ المتین) اور اس کی برہنہ شمشیر۔۔۔۔۔
۶۰۷

 میں  ہی صدیق اکبر اور فاروق اعظم امت ہوں اور بابِ مدینہ علم اور راس الحلم ہوں ۔ میں ہی ہدایت کا جھنڈا ، عدل سے فیصلہ کرنے والا ، اور فتوئے دینے والا ، میں شمع دین مبین اور امیرالمومنین ہوں۔ میں امام المتقین سید الوصیین اور یعسوب(۱) الدین ہوں۔
میں خدا کا روشن ستارہ ہوں اور اس کے دشمنوں کے لیے سخت عذاب ہوں۔
میں ہی وہ نا پیدا کنار سمندر ہوں جو خشک نہیں ہوتا اور میں قاتل المشرکین اور مہلک الکافرین ہوں۔ مومنوں کافر یاد رس اور نیکو کاروں کا راہنما سردار، میں ہی اہل جہنم کو اس کی طرف ہنکانے والا اور میں ہی ان پر عذاب ڈالنے والا ہوں۔
میں دیگر صحف انبیاء سلف میں ایلیا نام رکھتا ہوں اور توریت میں اوریا ، عرب میں علی اور قرآن میں میرا نام ہے جس کو پہچانتا ہے جو پہچانتا ہے۔ میں ہی وہ صادق ہوں جس کی پیروی کا خدا نے حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔(۲)

--------------

۱ـ یعسوب : سر گروہ

۲ـ “  يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقينَ ” اے ایمان والو اﷲ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ( سورہ توبہ۔۱۱۹)

۶۰۸

میں ہی صالح المومنین ہوں اور میں ہی دنیا و آخرت میں خدا کی طرف سے پکارنے والا ہوں۔

میں ہی مصداق لافتی ، ابن الفتی اور اخو الفتی ہوں۔ اور میں ہی ممدوح “ ھل اتی” ہوں۔

میں ہی وجہ اﷲ اور جنب(۱) اﷲ ہوں اورمیں ہی شانِ خدا ہوں ۔ میرے پاس سب علم گزشتہ اور آیندہ ہے تا روز قیامت میرے سوا امت میں کوئی اس کا مدعی ہو نہیں سکتا۔

اﷲ تعالی نے میرے قلب کو روشن اورمیرے عمل کو پسند فرمایا ہے۔ اﷲ تعالی نے مجھ کو حکمت عطا کی ہے اور اسی سے پرورش کیا ہے۔

جب سے میں پیدا ہوا ہوں ۔ چشمِ زدن کے لیے شرک کا مرتکب نہیں ہوا اور جب سے دنیا میں آیا ہوں کبھی خوف نہیں کھایا۔ میں نے ہی صنادید ( بڑے بڑے سردار) عرب اور ان کے شہسوار کو قتل کیا ہے اور ان کے سرکشوں اور بہادروں کو فنا کیا ہے۔

اے لوگو ! پوچھو مجھ سے علمِ مخزون الہی کی بابت اور اس کی اس حکمت کی بابت جو مجھ میں ذخیرہ کی گئی ہے۔

اللهم صل علی محمد وآل محمد

                             ( کوکب دری ص۷۰ سے ۷۲)

--------------

۱ـ جنب اﷲ : اﷲ کا پہلو یعنی اﷲ کے قریب ہونا۔   

۶۰۹

فہرست

پیش لفظ ۳

عالیجناب شیخ سلیم البشری. ۶

( عالم اہل سنت کے مختصر حالات زندگی) ۶

عالی جناب آقائے سید عبدالحسین شرف الدین موسوی ( علیہ الرحمہ) ۸

کے مختصر حالات زندگی ۸

کتاب ہذا سے متعلق علمائے اعلام کے مکتوبات. ۱۰

شام کے ایک معزز عالم دین. ۱۰

علامہ شیخ محمد ناجی غفری کا مکتوب گرامی ۱۰

ان ہی عالم دین کا دوسرا مکتوب گرامی ۱۱

مولانائے موصوف کا تیسرا مکتوب گرامی ۱۲

۶۱۰

حجہ الاسلام علامہ شیخ محمد حسین المظفر ۱۳

کا مکتوب گرامی ۱۳

مکتوب نمبر ۱ ۱۵

مناظرہ کی اجازت. ۱۶

جوابِ مکتوب. ۱۸

مناظرہ کی اجازت. ۱۸

مکتوب نمبر۲ ۱۹

شیعہ بھی حضرات اہلسنت کا مسلک کیوں نہیں اختیار کر لیتے؟ ۱۹

اتحاد و اتفاق کی ضرورت. ۲۰

اتحاد جہور اہلسنت کا مذہب اختیار کرنے ہی سے ہوسکتا ہے۔ ۲۰

جواب مکتوب. ۲۱

شرعی دلیلیں مجبور کرتی ہیں کہ مذہب اہلبیت(ع) کو اختیار کیا جائے.. ۲۱

۶۱۱

جمہور اہلسنت کا مسلک اختیار کرنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی ۲۲

پہلے زمانہ کے لوگ جہمور کے مذہب کو جانتے ہی نہ تھے ۲۳

اجتہاد کا  دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے.. ۲۴

اتحاد کی آسان صورت یہ ہے کہ مذہب اہلبیت(ع) کو معتبر سمجھا جائے.. ۲۵

مکتوب نمبر ۳. ۲۸

جواب مکتوب. ۲۹

اتباعِ اہلبیت(ع) کے وجوب پر ایک ہلکی سی روشنی ۲۹

امیرالمومنین(ع) کا دعوت دینا مذہب اہلبیت(ع) کی طرف.. ۳۰

امام زین العابدین(ع) کا ارشادِ گرامی ۳۶

مکتوب نمبر۴ ۳۸

کلام مجید یا احادیثِ پیغمبر(ص) سے دلیل کی خواہش. ۳۸

جواب مکتوب. ۳۹

۶۱۲

ہماری تحریر پر غور نہیں کیا گیا ۳۹

حدیثِ ثقلین. ۳۹

حدیثِ ثقلین کا متواتر ہونا ۴۳

جن نے اہلبیت(ع)  سے تمسک نہ کیا اس کا گمراہ ہونا ۴۵

اہلبیت(ع) کی مثال سفینہ نوح(ع) اور باب حطہ کی ہے اور وہ اختلاف فی الدین سے بچانے والے ہیں. ۴۷

اہل بیت(ع) سے کون مراد ہیں ؟ ۴۸

اہلبیت(ع) کو سفینہ نوح(ع) اور باب حطہ سے کیوں تشبیہ دی گئی ۵۰

مکتوب نمبر۵ ۵۳

مزید نصوص کی خواہش. ۵۳

جوابِ مکتوب. ۵۳

نصوص کا مختصر سا تذکرہ ۵۳

مکتوب نمبر۶ ۶۵

ہماری تحریر پر اظہار پسندیدگی ۶۵

۶۱۳

حیرت و دہشت کہ مذکورہ احادیث اور جمہور کی روش کو ایک کیونکر کیا جائے؟ ۶۵

کلام مجید سے ادلہ کی خواہش. ۶۶

جواب مکتوب. ۶۶

کلام مجید سے دلائل. ۶۶

مکتوب نمبر۷. ۹۶

جواب مکتوب. ۹۷

مکتوب نمبر۸ ۱۰۰

جوابِ مکتوب. ۱۰۱

ا : ابان بن تغلب بن رباح قاری کوفی ۱۰۱

ابراہیم بن یزید بن عمرو بن اسود بن عمرو نخعی کوفی ۱۰۱

احمد بن مفضل ابن کوفی حفری. ۱۰۲

اسماعیل بن ابان. ۱۰۲

اسماعیل بن خلیفہ ملائی کوفی ۱۰۲

۶۱۴

اسماعیل ابن زکریا خلقانی کوفی ۱۰۳

اسماعیل بن عباد بن عباس طالقانی ۱۰۳

اسماعیل بن عبدالرحمن بن ابی کریمہ مشہور مفسر ۱۰۴

جو سدی کے نام سے شہرت رکھتے ہیں. ۱۰۴

اسماعیل بن موسی فزاری کوفی ۱۰۵

ت : ۱۰۵

تلید بن سلیمان کوفی ۱۰۵

ث : ۱۰۶

ثابت بن دینار ۱۰۶

ثوبر بن ابی فاختہ ۱۰۶

ج : ۱۰۶

جابر بن یزید جعفی کوفی ۱۰۶

جریر بن عبدالحمید جنبی کوفی ۱۰۷

۶۱۵

جعفر بن زیاد احمر کوفی ۱۰۷

جعفر بن سلیمان ضبعی بصری. ۱۰۸

جمیع بن عمیرہ بن ثعلبہ کوفی تیمی ۱۰۸

ح : ۱۰۸

حارث بن حصیرہ کوفی ۱۰۸

حارث بن عبداﷲ ہمدانی ۱۰۹

حبیب بن ابی ثابت اسدی. ۱۰۹

حسن بن حیَ ۱۰۹

حکم بن عتیبہ کوفی ۱۱۰

حماد بن عیسیٰ ۱۱۰

حمران بن اعین. ۱۱۰

خ : ۱۱۰

خالد بن مخلد قطوانی کوفی ۱۱۰

۶۱۶

ز : ۱۱۱

زبید بن حارث بن عبدالکریم کوفی ۱۱۱

زید بن الحباب کوفی تمیمی ۱۱۱

س : ۱۱۱

سالم بن ابی الجعد اشجعی کوفی ۱۱۱

سالم بن ابی حفصہ عجلی کوفی ۱۱۲

سعد بن طریف الاسکاف حنظلی کوفی ۱۱۲

سعید بن اشوع. ۱۱۲

سعید بن خیثم ۱۱۳

سلمہ بن الفضل الابرش. ۱۱۳

سلمہ بن کمیل بن حصین حضرمی ۱۱۳

سلیمان بن صرد خزاعی کوفی ۱۱۳

سلیمان بن طرخان تیمی بصری. ۱۱۴

۶۱۷

سلیمان بن قرم بن معاذضبی کوفی ۱۱۴

سلیمان بن مہران کاہلی کوفی مشہور بہ اعمش. ۱۱۴

ش : ۱۱۷

قاضی شریک بن عبداﷲ بن سنان بن انس نخعی کوفی ۱۱۷

شعبہ بن حجاج عتکی ۱۱۹

ص : ۱۱۹

صعصعہ بن صوحان بن حجر بن حارث عبدی. ۱۱۹

ظ : ۱۲۱

ظالم بن عمرو بن سفیان ابو الاسود  دؤلی ۱۲۱

ع : ۱۲۲

ابو الطفیل عامر بن وائلہ بن عبداﷲ بن عمرو اللیثی ۱۲۲

عباد بن یعقوب الاسدی. ۱۲۳

ابو عبدالرحمن بن داؤد ہمدانی کوفی ۱۲۴

۶۱۸

عبداﷲ بن شداد ۱۲۴

عبداﷲ بن عمر مشہور بہ مشکدانہ ۱۲۴

عبداﷲ بن لہیعہ قاضی و عالمِ مصر ۱۲۴

عبداﷲ بن میمون قداح صحابی امام جعفر صادق(ع) ۱۲۵

ابو محمد عبدالرحمن بن صالح ازدی. ۱۲۵

عبدالرزاق بن ہمام بن نافع حمیری. ۱۲۶

عبدالملک بن اعین. ۱۳۰

عبداﷲ بن عیسی کوفی ۱۳۰

ابوالیقطان عثمان بن عمیر ثقفی کوفی بجلی ۱۳۱

عدی بن ثابت کوفی ۱۳۱

عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی ۱۳۲

علاء بن صالح تیمی کوفی ۱۳۳

علقمہ بن قیس بن عبداﷲ نخعی ۱۳۴

۶۱۹

علی بن بدیمہ ۱۳۴

ابو الحسن علی بن جوہری بغدادی. ۱۳۴

علی بن زید بن عبداﷲ تیمی بصری. ۱۳۵

علی بن صالح ۱۳۵

ابویحیٰ علی بن غراب فزاری کوفی ۱۳۵

ابوالحسن علی بن قادم خزاعی کوفی ۱۳۶

علی بن منذر طرائفی ۱۳۶

ابوالحسن علی بن ہاشم بن برید کوفی ۱۳۶

عمار بن زریق کوفی ۱۳۷

عمار بن معاویہ ۱۳۷

ابواسحٰق عمرو بن عبداﷲ ہمدانی کوفی ۱۳۸

ابو سہل عوف ابن ابی جمیلہ البصری. ۱۳۹

ف : ۱۳۹

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639