دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)3%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272328 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

 توحید کے متعلق ایک طرف ان کا وہ کلام جو حلول سے خدا کو ببانگ دہل پاک و پاکیزہ اور جاہلوں کی باتوں سے بلند و برتر ظاہر کرے دوسری طرف امامت اور امیرالمومنین(ع) کے وصی پیغمبر(ص) ہونے کے متعلق ان کے وہ خیالات جس سے واضح طور پر معلوم ہو کہ رسول(ص) علی(ع) سے افضل تھے اور علی(ع) کی امت و رعیت میں سے ایک فرد تھے اور خدا کے ان بندوں میں سے ایک تھے جن پر ظلم و جبر دکیا گیا۔ جو اپنے مخلوق کی حفاظت سے عاجز رہے۔ بیم وہراس کے مارے دشمن کے آگے جھکنے پر مجبور ہوئے اور جن کا نہ کوئی معین تھا نہ ناصر ۔ ان دونوں باتوں کے بعد پھر ی اتہام رکھنا کہ ہشام علی(ع) کی خدائی کے قائل تھے کہاں تک قابل توجہ ہے۔

کہاں تو علامہ شہرستانی خود گواہی دیں کہ ہشام اصول مذہب میں بڑے گہرے تھے اور وہ ان الزامات سے بری تھے جو دشمن ان پر لگاتے ہیں۔

اس کے بعد ان کی طرف ان معاملات کی نسبت بھی دیتے ہیں کہ وہ حضرت علی(ع) کی الوہیت کے قائل تھے۔ کیا شہرستانی کے کلام میں یہ تناقض نہیں ہے؟ اور ہشام ایسے عظیم المرتبت ، صاحب فضل و شرف بزرگ کی طرف ان مہملات کا منسوب کرنا مناسب ہے؟ کون منصف مزاج اسے تسلیم کرے گا، لیکن واقعہ تو یہ ہے کہ مخالفین اہل بیت(ع) اور پیروان اہل بیت(ع) سے حسد رکھنے اور  ان پر ہر ظلم روا سمجھنے کی جہت سے سوائے بہتان تراشیوں اور افترا پردازیوں کے کسی بات کو پسند ہی نہیں کرسکتے۔

امام موسی کاظم(ع) ، علی رضا(ع)، محمد تقی(ع)، علی نقی(ع)، حسن عسکری علیہم السلام کے زمانہ میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ بہت وسیع ہوچکا تھا۔ بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ ہر ہر شہر میں ائمہ طاہرین(ع) اور اصحاب ائمہ معصومین(ع) سے روایت کرنے

۶۰۱

والے پھیل چکے تھے۔ انھوں نے علم کی اشاعت پر کمر باندھی اور علم کی تدویں میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ علوم و معارف جمع کرنے میں اپنی ساری صلاحیتوں سے کام لیا۔

محقق علیہ الرحمہ معتبر میں فرماتے ہیں کہ “

“ امام محمد تقی(ع) کے تلامذہ میں بڑے نامور افاضل گزرے جیسے حسن بن سعید اور ان کے بھائی حسن، احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی ، احمد بن محمد بن خالد برقی، شاذان ، ابوالفضل العمی، ایوب بن نوح ، احمدبن محمد بن عیسیٰ وغیرہ جن کی فہرست بہت طولانی ہے۔”

محقق فرماتے ہیں کہ :

“ ان حضرات کی کتابیں آج علماء میں نقل ہوتی چلی آرہی ہیں ان کتابوں کے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ کس قدر بے پایاں علوم کے حامل تھے یہ حضرات۔۔۔۔۔ الخ”

میں کہتا ہوں کہ آپ صرف برقی کی کتابوں کو لیجیے ۔ تنہا ان کی سو کتابیں ہیں۔ بزنطی کی ایک کتاب بڑی عظیم الشان کتاب ہے جو جامع کے نام کسے مشہور ہے۔ حسین بن سعید کی تیس مصنفات ہیں۔

امام جعفر صادق(ع) کی اولاد سے چھ اماموں کے جتنے تلامذہ گزرے اور انھوں نے جتنی کتابیں تالیف کیں ان کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ رجال کے حالات میں جو کتابیں اور فہرستیں ہیں ان میں ان چند حضرات کے حالات ملاحظہ فرمائیے محمد بن سنان، علی بن مہزیار، حسن بن محبوب، حسن بن محمد بن سماعہ، صفوان بن یحی، علی بن یقطین ، علی بن فضال ، عبدالرحمن بن نجران، فضل بن شاذان، ( جن کی دو سو مصنفات ہیں) محمد بن مسعود عیاشی، ( جن کی مصنفات ( دو سو

۶۰۲

سے بھی زیادہ ہیں) محمد بن عمیر ، احمد بن محمد بن عیسیٰ( انھوں نے امام جعفر صادق(ع) کے سو اصحاب سے حدیثوں کو سنا اور بیان کیا) محمد بن علی بن محبوب ، طلحہ بن زید ، عمار بن موسی ساباطی، علی بن نعمان ، حسین بن عبداﷲ، احمد بن عبداﷲ بن مہروان جو ابن خانہ کے نام سے مشہور ہیں۔ صدقہ بن منذر قمی، عبداﷲ بن علی بن حلبی، جنھوں نے اپنی تالیف امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں پیش کی اور امام نے اس کی صحت فرمائی اور بنظر استحسان دیکھا اور فرمایا کہ :

“ کیا تم نے ان لوگوں کی بھی کوئی ایسی کتاب دیکھی ہے؟”

ابوعمرو طیب ، عبداﷲ بن سعید جنھوں نے اپنی کتاب امام رضا(ع) کی خدمت میں پیش کی۔ یونس بن عبدالرحمن جنھوں نے اپنی تالیف امام حسن عسکری(ع) کے ملاحظہ میں پیش کی۔

اگر شیعیان آل محمد(ص) کے اگلے بزرگوں اور اسلافِ صالحین کے حالات ڈھونڈ کر معلوم کیے جائیں اور پتہ چلایا جائے کہ امام حسین(ع) کی نسل سے بقیہ نو اماموں میں سے ہر امام کے کتنے کتنے صحابی تھے اور ہر امام(ع) کے عہد میں کتنے صحابیوں نے کتنی کتنی کتابیں لکھیں اور حساب لگایا جائے کہ وہ لوگ کتنے ہزار تھے جنھوں نے ان کتابوں کے مضامین دوسروں سے بیان کیے اور اصول و فروع دین کے متعلق جو آل محمد(ص) کی حدیثیں تھیں ان کے حامل بنے۔ پھر  اس پر غور کیا جائے کہ یہ علوم ایک جماعت سے دوسری جماعت میں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں نو اماموں کے زمانے سے نسلا بعد نسل منتقل ہوتے آئے تب اندازہ ہوگا۔ اس وقت آنکھیں کھلیں گی کہ ائمہ اہل بیت(ع) کا مذہب کس قدر متواتر ہے پھر کوئی شک نہ رہے گا۔ کہ ہم اصول و فروع دین میں جس طریقہ پر طاعت الہی کرتے ہیں وہ طریقہ

۶۰۳

 آل پیغمبر(ص) سے حاصل کیا ہوا اہل بیت(ع) رسول(ص) سے ماخوذ ہے۔ اس میں نہ کسی شک کی گنجائش ہوگی نہ شبہ کی۔ ہاں ہٹ دھرمی اور خواہ مخواہ کا بغض رکھنے والے یا انتہائی جاہل و کودن انسان شک کرے تو بات دوسری ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم لوگوں کی اس طریقے کی طرف ہدایت کی اگر خداوند عالم ہمیں ہدایت نہ کرتا تو ہم خود ہدایت حاصل نہیں کرسکتے تھے۔

                                                                     ش    

۶۰۴

مکتوب نمبر۵۶

میں گواہی دیتا ہوں کہ اصول و فروع میں آپ اسی مسلک پر ہیں جس پر اہل بیت(ع)پیغمبر(ص) تھے۔ آپ نے اس چیز کو واضح کر کے بخوبی روشن کردیا اور ڈھکی چھپی باتیں ہویدا کر دیں۔ شک کرنا نا اںصافی ہے اور شک و شبہ میں ڈالنا گمراہ بنانا ہے۔ میں نے آپ کے مذہب کو اچھی طرح دیکھا بھالا مجھے شروع سے آخر تک پسندیدہ ہی نظر آیا۔ میں پہلے جبکہ آپ کے ذریعے حقائق تک نہیں پہنچا تھا، آپ لوگوں کے متعلق بڑی غلط فہمی میں مبتلا تھا کیونکہ اب تک میرے کانوں میں بہتان باندھنے والوں اور افترا پردازوں ہی کی آوازیں پہنچائی گئیں۔ جب خدا نے مجھے آپ تک پہنچایا تو میں آپ کے ذریعے ہدایت کے جھنڈے کے نیچے آگیا اور تاریکیوں کے چراغ تک پہنچ گیا اور آپ کے پاس سے میں فلاح یافتہ اور رستگار ہو کر واپس ہوا۔ خدا نے آپ کے ذیعے کتنی گرانقدر نعمت مجھ پر نازل کی۔ میں کیا عرض کروں کہ آپ نے کتنے بڑا احسان مجھ پر فرمایا۔

                                                                     س

۶۰۵

جواب مکتوب

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ قلمرو دین و دانش کے تاجدار ہیں۔ آپ نے شہاب سے زیادہ تابانی دکھائی۔ اور محیط بحث و نظر کے بے بہا گوہر غلطان نکال لائے۔ بتحقیق باریک نگاہی کو آپ نے پایہ معراج تک پہنچا دیا ۔ حقائق کی تہوں میں آپ کی نگاہ پہنچی نہ تھی۔ نہ قومی جذبات نے آپ کا دامن کھینچا اور نہ شخصی اغراض نے آپ کی راہ روکی۔ اختلاف نظر نے آپ کو برہم نہ کیا۔ آپ تو پہاڑ سے بھی زیادہ قوت برداشت رکھتے ہیں۔ آپ کے دل کی وسعت لا محدود ہے۔ حق بے نقاب ہوگیا۔ صبح چشم بینا کے لیے درخشان ہوگئی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے اپنے دین کی طرف رہنمائی کی اور موفق فرمایا کہ اس کے راستے پر قوم لگ گئی۔

                                                                     ش

۶۰۶

حضرت علی علیہ السلام کو پہچانو ان کی لسان حکمت سے

مولائے کونین جب جنگ نہروان سے فارغ ہو کر کوفہ تشریف لائے تو ایک فصیح و بلیغ خطبہ دیا جس کا کچھ اقتباس دیا جاتا ہے:

بعد حمد خدا وصلوة محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) فرمایا:
“ میں سب سے پہلا مومن ہوں، سب سے پہلا مسلم، سب سے پہلا نماز گزار ، سب سے پہلا روزہ دار اور سب سے اول جہاد کرنے والا ہوں۔”
“ میں خدا کی محکم رسی ( حبل اﷲ المتین) اور اس کی برہنہ شمشیر۔۔۔۔۔
۶۰۷

 میں  ہی صدیق اکبر اور فاروق اعظم امت ہوں اور بابِ مدینہ علم اور راس الحلم ہوں ۔ میں ہی ہدایت کا جھنڈا ، عدل سے فیصلہ کرنے والا ، اور فتوئے دینے والا ، میں شمع دین مبین اور امیرالمومنین ہوں۔ میں امام المتقین سید الوصیین اور یعسوب(۱) الدین ہوں۔
میں خدا کا روشن ستارہ ہوں اور اس کے دشمنوں کے لیے سخت عذاب ہوں۔
میں ہی وہ نا پیدا کنار سمندر ہوں جو خشک نہیں ہوتا اور میں قاتل المشرکین اور مہلک الکافرین ہوں۔ مومنوں کافر یاد رس اور نیکو کاروں کا راہنما سردار، میں ہی اہل جہنم کو اس کی طرف ہنکانے والا اور میں ہی ان پر عذاب ڈالنے والا ہوں۔
میں دیگر صحف انبیاء سلف میں ایلیا نام رکھتا ہوں اور توریت میں اوریا ، عرب میں علی اور قرآن میں میرا نام ہے جس کو پہچانتا ہے جو پہچانتا ہے۔ میں ہی وہ صادق ہوں جس کی پیروی کا خدا نے حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔(۲)

--------------

۱ـ یعسوب : سر گروہ

۲ـ “  يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقينَ ” اے ایمان والو اﷲ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ( سورہ توبہ۔۱۱۹)

۶۰۸

میں ہی صالح المومنین ہوں اور میں ہی دنیا و آخرت میں خدا کی طرف سے پکارنے والا ہوں۔

میں ہی مصداق لافتی ، ابن الفتی اور اخو الفتی ہوں۔ اور میں ہی ممدوح “ ھل اتی” ہوں۔

میں ہی وجہ اﷲ اور جنب(۱) اﷲ ہوں اورمیں ہی شانِ خدا ہوں ۔ میرے پاس سب علم گزشتہ اور آیندہ ہے تا روز قیامت میرے سوا امت میں کوئی اس کا مدعی ہو نہیں سکتا۔

اﷲ تعالی نے میرے قلب کو روشن اورمیرے عمل کو پسند فرمایا ہے۔ اﷲ تعالی نے مجھ کو حکمت عطا کی ہے اور اسی سے پرورش کیا ہے۔

جب سے میں پیدا ہوا ہوں ۔ چشمِ زدن کے لیے شرک کا مرتکب نہیں ہوا اور جب سے دنیا میں آیا ہوں کبھی خوف نہیں کھایا۔ میں نے ہی صنادید ( بڑے بڑے سردار) عرب اور ان کے شہسوار کو قتل کیا ہے اور ان کے سرکشوں اور بہادروں کو فنا کیا ہے۔

اے لوگو ! پوچھو مجھ سے علمِ مخزون الہی کی بابت اور اس کی اس حکمت کی بابت جو مجھ میں ذخیرہ کی گئی ہے۔

اللهم صل علی محمد وآل محمد

                             ( کوکب دری ص۷۰ سے ۷۲)

--------------

۱ـ جنب اﷲ : اﷲ کا پہلو یعنی اﷲ کے قریب ہونا۔   

۶۰۹

فہرست

پیش لفظ ۳

عالیجناب شیخ سلیم البشری. ۶

( عالم اہل سنت کے مختصر حالات زندگی) ۶

عالی جناب آقائے سید عبدالحسین شرف الدین موسوی ( علیہ الرحمہ) ۸

کے مختصر حالات زندگی ۸

کتاب ہذا سے متعلق علمائے اعلام کے مکتوبات. ۱۰

شام کے ایک معزز عالم دین. ۱۰

علامہ شیخ محمد ناجی غفری کا مکتوب گرامی ۱۰

ان ہی عالم دین کا دوسرا مکتوب گرامی ۱۱

مولانائے موصوف کا تیسرا مکتوب گرامی ۱۲

۶۱۰

حجہ الاسلام علامہ شیخ محمد حسین المظفر ۱۳

کا مکتوب گرامی ۱۳

مکتوب نمبر ۱ ۱۵

مناظرہ کی اجازت. ۱۶

جوابِ مکتوب. ۱۸

مناظرہ کی اجازت. ۱۸

مکتوب نمبر۲ ۱۹

شیعہ بھی حضرات اہلسنت کا مسلک کیوں نہیں اختیار کر لیتے؟ ۱۹

اتحاد و اتفاق کی ضرورت. ۲۰

اتحاد جہور اہلسنت کا مذہب اختیار کرنے ہی سے ہوسکتا ہے۔ ۲۰

جواب مکتوب. ۲۱

شرعی دلیلیں مجبور کرتی ہیں کہ مذہب اہلبیت(ع) کو اختیار کیا جائے.. ۲۱

۶۱۱

جمہور اہلسنت کا مسلک اختیار کرنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی ۲۲

پہلے زمانہ کے لوگ جہمور کے مذہب کو جانتے ہی نہ تھے ۲۳

اجتہاد کا  دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے.. ۲۴

اتحاد کی آسان صورت یہ ہے کہ مذہب اہلبیت(ع) کو معتبر سمجھا جائے.. ۲۵

مکتوب نمبر ۳. ۲۸

جواب مکتوب. ۲۹

اتباعِ اہلبیت(ع) کے وجوب پر ایک ہلکی سی روشنی ۲۹

امیرالمومنین(ع) کا دعوت دینا مذہب اہلبیت(ع) کی طرف.. ۳۰

امام زین العابدین(ع) کا ارشادِ گرامی ۳۶

مکتوب نمبر۴ ۳۸

کلام مجید یا احادیثِ پیغمبر(ص) سے دلیل کی خواہش. ۳۸

جواب مکتوب. ۳۹

۶۱۲

ہماری تحریر پر غور نہیں کیا گیا ۳۹

حدیثِ ثقلین. ۳۹

حدیثِ ثقلین کا متواتر ہونا ۴۳

جن نے اہلبیت(ع)  سے تمسک نہ کیا اس کا گمراہ ہونا ۴۵

اہلبیت(ع) کی مثال سفینہ نوح(ع) اور باب حطہ کی ہے اور وہ اختلاف فی الدین سے بچانے والے ہیں. ۴۷

اہل بیت(ع) سے کون مراد ہیں ؟ ۴۸

اہلبیت(ع) کو سفینہ نوح(ع) اور باب حطہ سے کیوں تشبیہ دی گئی ۵۰

مکتوب نمبر۵ ۵۳

مزید نصوص کی خواہش. ۵۳

جوابِ مکتوب. ۵۳

نصوص کا مختصر سا تذکرہ ۵۳

مکتوب نمبر۶ ۶۵

ہماری تحریر پر اظہار پسندیدگی ۶۵

۶۱۳

حیرت و دہشت کہ مذکورہ احادیث اور جمہور کی روش کو ایک کیونکر کیا جائے؟ ۶۵

کلام مجید سے ادلہ کی خواہش. ۶۶

جواب مکتوب. ۶۶

کلام مجید سے دلائل. ۶۶

مکتوب نمبر۷. ۹۶

جواب مکتوب. ۹۷

مکتوب نمبر۸ ۱۰۰

جوابِ مکتوب. ۱۰۱

ا : ابان بن تغلب بن رباح قاری کوفی ۱۰۱

ابراہیم بن یزید بن عمرو بن اسود بن عمرو نخعی کوفی ۱۰۱

احمد بن مفضل ابن کوفی حفری. ۱۰۲

اسماعیل بن ابان. ۱۰۲

اسماعیل بن خلیفہ ملائی کوفی ۱۰۲

۶۱۴

اسماعیل ابن زکریا خلقانی کوفی ۱۰۳

اسماعیل بن عباد بن عباس طالقانی ۱۰۳

اسماعیل بن عبدالرحمن بن ابی کریمہ مشہور مفسر ۱۰۴

جو سدی کے نام سے شہرت رکھتے ہیں. ۱۰۴

اسماعیل بن موسی فزاری کوفی ۱۰۵

ت : ۱۰۵

تلید بن سلیمان کوفی ۱۰۵

ث : ۱۰۶

ثابت بن دینار ۱۰۶

ثوبر بن ابی فاختہ ۱۰۶

ج : ۱۰۶

جابر بن یزید جعفی کوفی ۱۰۶

جریر بن عبدالحمید جنبی کوفی ۱۰۷

۶۱۵

جعفر بن زیاد احمر کوفی ۱۰۷

جعفر بن سلیمان ضبعی بصری. ۱۰۸

جمیع بن عمیرہ بن ثعلبہ کوفی تیمی ۱۰۸

ح : ۱۰۸

حارث بن حصیرہ کوفی ۱۰۸

حارث بن عبداﷲ ہمدانی ۱۰۹

حبیب بن ابی ثابت اسدی. ۱۰۹

حسن بن حیَ ۱۰۹

حکم بن عتیبہ کوفی ۱۱۰

حماد بن عیسیٰ ۱۱۰

حمران بن اعین. ۱۱۰

خ : ۱۱۰

خالد بن مخلد قطوانی کوفی ۱۱۰

۶۱۶

ز : ۱۱۱

زبید بن حارث بن عبدالکریم کوفی ۱۱۱

زید بن الحباب کوفی تمیمی ۱۱۱

س : ۱۱۱

سالم بن ابی الجعد اشجعی کوفی ۱۱۱

سالم بن ابی حفصہ عجلی کوفی ۱۱۲

سعد بن طریف الاسکاف حنظلی کوفی ۱۱۲

سعید بن اشوع. ۱۱۲

سعید بن خیثم ۱۱۳

سلمہ بن الفضل الابرش. ۱۱۳

سلمہ بن کمیل بن حصین حضرمی ۱۱۳

سلیمان بن صرد خزاعی کوفی ۱۱۳

سلیمان بن طرخان تیمی بصری. ۱۱۴

۶۱۷

سلیمان بن قرم بن معاذضبی کوفی ۱۱۴

سلیمان بن مہران کاہلی کوفی مشہور بہ اعمش. ۱۱۴

ش : ۱۱۷

قاضی شریک بن عبداﷲ بن سنان بن انس نخعی کوفی ۱۱۷

شعبہ بن حجاج عتکی ۱۱۹

ص : ۱۱۹

صعصعہ بن صوحان بن حجر بن حارث عبدی. ۱۱۹

ظ : ۱۲۱

ظالم بن عمرو بن سفیان ابو الاسود  دؤلی ۱۲۱

ع : ۱۲۲

ابو الطفیل عامر بن وائلہ بن عبداﷲ بن عمرو اللیثی ۱۲۲

عباد بن یعقوب الاسدی. ۱۲۳

ابو عبدالرحمن بن داؤد ہمدانی کوفی ۱۲۴

۶۱۸

عبداﷲ بن شداد ۱۲۴

عبداﷲ بن عمر مشہور بہ مشکدانہ ۱۲۴

عبداﷲ بن لہیعہ قاضی و عالمِ مصر ۱۲۴

عبداﷲ بن میمون قداح صحابی امام جعفر صادق(ع) ۱۲۵

ابو محمد عبدالرحمن بن صالح ازدی. ۱۲۵

عبدالرزاق بن ہمام بن نافع حمیری. ۱۲۶

عبدالملک بن اعین. ۱۳۰

عبداﷲ بن عیسی کوفی ۱۳۰

ابوالیقطان عثمان بن عمیر ثقفی کوفی بجلی ۱۳۱

عدی بن ثابت کوفی ۱۳۱

عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی ۱۳۲

علاء بن صالح تیمی کوفی ۱۳۳

علقمہ بن قیس بن عبداﷲ نخعی ۱۳۴

۶۱۹

علی بن بدیمہ ۱۳۴

ابو الحسن علی بن جوہری بغدادی. ۱۳۴

علی بن زید بن عبداﷲ تیمی بصری. ۱۳۵

علی بن صالح ۱۳۵

ابویحیٰ علی بن غراب فزاری کوفی ۱۳۵

ابوالحسن علی بن قادم خزاعی کوفی ۱۳۶

علی بن منذر طرائفی ۱۳۶

ابوالحسن علی بن ہاشم بن برید کوفی ۱۳۶

عمار بن زریق کوفی ۱۳۷

عمار بن معاویہ ۱۳۷

ابواسحٰق عمرو بن عبداﷲ ہمدانی کوفی ۱۳۸

ابو سہل عوف ابن ابی جمیلہ البصری. ۱۳۹

ف : ۱۳۹

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639