دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)6%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272374 / ڈاؤنلوڈ: 6390
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ملک الموت اسے جنت کی بشارت دیں گے۔ پھر منکر و نکیر جنت کی خوشخبری دیں گے۔ دیکھو جو محبت اہل بیت(ع) پر مرا جنت میں یوں سنوار کر لے جایا جائے گا جیسے دلہن اپنے خاوند کے گھر لے جائی جاتی ہے۔ دیکھو جو محبت اہل بیت(ع) پر مرا اس کے لیے قبر میں دو دروازے جنت کے کھول دیے جائیں گے۔ دیکھو جو محبت اہلبیت(ع) پر مر اس کی قبر کو اﷲ زیارت گاہ ملائکہ رحمت بنادے گا۔ دیکھو جو محبت آل محمد(ص) پر مرا وہ سنت و جماعت پر مرے گا۔ دیکھو جو بغض آلِ محمد(ص) پر مرا وہ قیامت کے دن یوں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا “ یہ رحمت خدا سے مایوس ہے”۔”

غرضیکہ آخر خطبہ تک آپ(ع) نے اسی کی توضیح فرمائی ہے۔ یہ خطبہ حضرت(ص) کا خطبہ عصما(۱) کے نام سے مشہور ہے اور تمام محققین علماء اہلسنت نے اپنی کتابوں میں اس خطبہ کو درج کیا ہے۔ اس خطبہ میں آںحضرت(ص) نے بہتوں کی تمناؤں پر پانی پھیر دیا تھا ان احادیث کے کل مضامین متواتر ہیں خصوصا بطریق اہلبیت(ع) تو اور زیادہ آںحضرت(ص)  نےآل محمد(ص) کے اس قدر فضائل جو بیان کیے۔ ان کی محبت کی اتنی تاکید جو کی۔ ان کی ولایت کو بکرات و مرات اٹھتے بیٹھتے بیان جو کیا وہ کیا صرف اس وجہ سے کہ یہ حضرات آپ(ص) کے عزیز و قرابت دار تھے؟ اس بنا پر تو رسول(ص) کی شان عوام کی شان سے بھی پست ہوجاتی ہے، بلکہ رسول(ص) نے اتنا اہتمام صرف

--------------

۱ ـ  امام ثعلبی نے اس حدیث کو اپنی تفسیر کبیر میں آیت مودت  کی تفسیر میں جریر بن عبداﷲ بجلی سے روایت کیا ہے اور علامہ زمخشری ن بطور مسلمات اس حدیث کو اپنی تفسیر میں درج کیا ہے۔

۶۱

اس لیے کیا کہ یہ حضرات خدا کی مکمل حجت تھے ، اس کی شریعت کے سرچشمہ تھے اور امر و نہی میں رسول (ص) کے قائم مقام تھے اور رسول(ص) کی ہدایت و تبلیغ سے اثر پذیر ہونے کا بہت ہی روشن اور واضح نمونہ تھے۔ لہذا جو ان سے اسی حیثیت سے کہ یہ حجت خدا ہیں، جانشین رسول(ص) ہیں اور رسول اسلام کا مکمل ترین نمونہ ہیں محبت کرے گا وہ خدا کی محبت بھی رکھنے والا ہے اور رسول(ص) کی بھی۔ اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ خدا سے بھی بغض رکھنے والا ہے اور رسول(ص) کے بھی۔ آںحضرت(ص) فرماچکے ہیں کہ ہم سے بس وہی محبت رکھے گا جو مومن و پرہیزگار ہے اور وہی بغض رکھے گا جو منافق و بدبخت(۱) ہے۔ اسی وجہ سے فرزدق نے ان حضرات کی شان میں کہا ہے۔

                     من معشر حبهم دين و بغضهم                 کفرو قربهم منجی و معتصم

                     ان عد اهل التقی کانوا ائمتهم          او قيل من خير اهل الارض قيلهم

“ یہ امام زین العابدین(ع) اس جماعت سے ہیں جن کی محبت دین اور جن کی دشمنی کفر ہے۔ اور جن سے نزدیکی ذریعہ نجات اور جائے پناہ ہے۔ اگر پرہیزگار لوگ شمار کیے جائیں تو یہ اہل بیت(ع) ان کے امام و پیشوا ہوں گے یا اگر یہ سوال کیا جائے کہ بہترین اہل ارض کون ہے ، تو یہی جواب ملے گا کہ یہ اہل بیت(ع) نبی(ص) ہیں۔”

اور امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

“ میں اور میری پاکیزہ نسل اور میری نیکو کار عترت بچپن میں تمام لوگوں سے زیادہ حلیم اور بڑے ہوکر سب سے زیادہ علم والے ہیں اور ہمارے ذریعہ سے خدا جھوٹ کو زائل کرے گا۔ ہمارے ذریعہ

--------------

۱ ـ  صواعق محرقہ باب۱۱۔

۶۲

سے خونخوار بھیڑیوں کے دانت توڑے گا۔ ہمارے ذریعہ تمھیں رہائی دلائے گا اور تمھاری گردنوں کی رسی جدا کرے گا۔ خدا ہم سے ابتدا کرتا ہے اور ہم پر ختم(۱) ۔”

لہذا ہم نے جو آلِ محمد(ص) کو ان کے اغیار پر ترجیح دی اور مقدم سمجھا تو اس لیے کہ خداوندِ عالم نے انہیں سب پر مقدم رکھا اور ہر ایک پر ترجیح دی یہاں تک کہ نماز میں ان پر درود بھیجنا تمام بندوں پر واجب قرار دیا گیا۔ اگر کوئی پوری نماز پڑھ ڈالے اور ان پر درود نہ بھیجے تو اس کی نماز صحیح ہی نہیں ہوسکتی خواہ وہ کیسا ہی صاحب فضل کیوں نہ ہو، بلکہ ہر نماز گزار کے لیے ضروری ہے کہ اس طرح نماز پڑھے کہ نماز میں ان پر درود بھیجے جس طرح کلمہ شہادتین کا ادا کرنا ضروری ہے بغیر تشہد کے نماز نہیں اسی طرح بغیر درود کے صحیح نہیں۔ اہل بیت علیہم السلام کی یہ وہ منزلت ہے ، یہ وہ درجہ و مرتبہ ہے جس کے سامنے تمام امت کی گردنیں خم ہوگئیں اور آپ نے جن اماموں کا ذکر کیا ہے ان کی نگاہیں بھی اہل بیت(ع) کے علوئے مرتبت کے آگے خیرہ ہوگئیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں

                     يا اهل بيت رسول اﷲ حسبکم                         فرض من اﷲ فی القرآن انزله

                     کفاکم من عظيم الفضل انکم                         من لم يصل عليکم لاصلاة له

“ اے اہل بیت(ع) رسول(ص) خدا آپ لوگوں کی محبت خداوند عالم نے اپنے نازل کردہ قرآن میں فرض بتائی ہے۔ آپ کی بزرگی و بلندی فضل و شرف کے لیے بس یہی کافی ہے کہ جو نماز میں آپ پر درود

-------------

[۱] ـ  عبدالغنی بن سعید نے ایضاع الاشکال میں اس روایت کو درج کیا ہے۔ کنزالعمال جلد ۶ صفحہ ۲۹۶ پر بھی موجود ہے۔

۶۳

 نہ بھیجے اس کی نماز ، نماز ہی نہیں۔”

یہ چند دلیلین جو اہلِ بیت(ع) پیغمبر(ص) کی اطاعت واتباع اور ان کے قدم بہ قدم چلنے کو واجب بتاتی ہیں احادیثِ نبوی(ص) سے پیش کر کے ختم کرتا ہوں یہی آپ کے لیے کافی ہوں گے۔ قرآن مجید میں بے شمار محکم آیتیں ہیں ان کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ بس اہل بیت(ع) ہی کی پیروی واجب و لازم ہے۔ آپ جو کہ خود صاحب فہم و بصیرت ہیں اور ذکی اور ذہین ہیں اس لیے میں اشارہ کیے دیتا ہوں آپ کلام مجید کا مطالعہ فرمائیں آسانی سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔

                                                                             ش

۶۴

مکتوب نمبر۶

ہماری تحریر پر اظہار پسندیدگی

آپ کا مکتوب گرامی پاکر شرف یاب ہوا۔ آپ کی قوت تحریر، زور بیان علمی تبحر اور محققانہ شان کا میں قائل ہوگیا۔ آپ نے تو کوئی گوشہ باقی نہیں رکھا اور تحقیقات کے خزانے آنکھوں کے سامنے کردیے۔

حیرت و دہشت کہ مذکورہ احادیث اور جمہور کی روش کو ایک کیونکر کیا جائے؟

جب میں نے آپ کے استدلال پر غور و فکر کیا اور آپ کے ادلہ و برہین پر گہری نگاہ کی تو میں عجیب تردد کے عالم میں پڑگیا ۔ میں آپ کے ادلہ پر نظر

۶۵

 کرتا ہوں تو انھیں بالکل ناقابل رد دیکھتا ہوں جتنے ثبوت آپ نے پیش کیے ہیں ان کو دیکھتا ہوں تو سوا تسلیم کرنے کے کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ جب ائمہ اہل بیت(ع) کے متعلق سوچتا ہوں تو خدا و رسول(ص) کے نزدیک ان کی وہ منزلت معلوم ہوتی ہے کہ سوا عاجزی و خاکساری سے سر جھکا دینے کے کوئی چارہ نہیں اور جب جمہور مسلمین اور سواد اعظم پر نظر کرتا ہوں تو ان کا طرز عمل ادلہ کے مفہوم کے بالکل برعکس ہے۔ ادلہ بتاتے ہیں کہ بس ان ہی کی پیروی واجب ہے اور جمہور ہرکس و ناکس کی پیروی کرنے پر تیار لیکن اہل بیت(ع) کی پیروی پر آمادہ نہیں۔ میں عجیب کش مکش میں مبتلا ہوں گویا دو نفسوں کی کھینچا تانی میں پڑگیا ہوں۔ ایک نفس کہتا ہے کہ ادلہ کی پیروی کی جائے اور دوسرا کہتا ہے کہ اکثریت اور سواد اعظم کی روش پر چلنا چاہیے۔ ایک نفس نے تو اپنے کو آپ کے حوالے کردیا ہے اور آپ کے ہاتھ سے جانے واالا نہیں لیکن دوسرا جو ہے وہ اپنے عناد کی وجہ سے آپ کے ہاتھ میں جانے پر تیار نہیں اور نافرمانی پر تلا ہوا ہے۔

کلام مجید سے ادلہ کی خواہش

آپ کتابِ خدا سے کچھ اور ایسی قطعی دلیلیں پیش کرتے جو یہ سرکش نفس بھی قابو میں آجاتا۔ اور رائے عامہ کی متابعت کی دھن دماغ سے نکلتی۔

                                                     س

جواب مکتوب

کلام مجید سے دلائل

آپ بحمدہ ان لوگوں میں سے ہیں جو کلام مجید پر گہری نظر رکھتے ہیں اور

۶۶

 اس کے رموز و اسرار ظاہر و باطن سے واقف ہیں آپ خود غور فرمائیے کہ کیا اور کسی کے متعلق بھی ایسی واضح آیتیں نازل ہوئیں جیسی کہ اہل بیت(ع) طاہرین(ع) کی شان میں نازل ہوئیں۔ کیا کلام مجید کی محکم آیتوں نے سوا اہل بیت(ع) کے کسی اور کی طہارت و پاکیزگی کا حکم لگایا(۱) ۔”

اہل بیت(ع) کے لیے جیسی آیتِ تطہیر نازل ہوئی کیا دنیا بھر کے لوگوں میں سے کسی ایک کے لیے نازل ہوئی(۲) ۔؟

کیا قرآن مجید نے اہل بیت(ع) کے علاوہ کسی اور کی محبت و مودت واجب ہونے کو بتایا ہے(۳) ؟

کیا آیہ مباہلہ اہلبیت(ع) کے علاوہ کسی اور کے متعلق لے کر جبرائیل(ع) نازل ہوئے(۴) ؟

--------------

۱ ـ جیسا کہ آیت تطہیر ان سے ہر رجس و گندگی دور ہونے کو بتاتی ہے۔

۲ ـ ہرگز نہیں۔ اہلبیت(ع) کی یہ وہ فضیلت و شرف ہے جس میں ان کا کوئی  شریک نہیں۔

۳ ـ ہرگز نہیں، بلکہ صرف انھیں کے ساتھ یہ فضیلت مخصوص ہے۔ خداوند کریم نے بس انھیں کی محبت فرض قرار دی ہے اور اس مخصوص فضیلت سے ان کو ہر کہہ ومہ پر شرف بخشا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہہ دو اے رسول(ص) کہ ہم تم سے اپنی رسالت کا کوئی اجر نہیں طلب کرتے سوا اپنے قرابتداروں کی محبت کے اور جو شخص نیکی حاصل کرےگا( یعنی ان سے محبت رکھے گا) ہم اس کے لیے اس کی خوبی میں اضافہ کریںگے۔ بے شک اﷲ (محبت رکھنے والوں کو) برا بخشنے والا ہے ( اور ان کی محبت کا برا قدر دان ہے) تفسیر ثعلبی میں ابن عباس سے روایت ہے کہ نیکی سے آل محمد(ص) کی دوستی مراد ہے اور علامہ زمخشری صاحب کشاف نے سدی سے یہی روایت کی ہے دیکھیے تفسیر کشاف جلد۳، صفحہ ۶۸ مطبوعہ مصر۔

۴ ـ آیہ مباہلہ بھی بس انھیں کے متعلق بالخصوص نازل ہوئی چنانچہ ارشاد خداوند عالم ہے ۔ کہہ دو اے رسول(ص) کہ ( اچھا میدن میں آؤ) ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔

۶۷

کیا اہل بیت(ع) کے علاوہ سورہ ہل اتی کسی اور کی شان میں قصیدہ مدحیہ بن کر نازل ہوا(۱) ؟

کیا اہل بیت(ع) ہی خدا کی وہ رسی نہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے؟

“ وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا”( آل عمران، ۱۰۳)

     “ تم سب خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور پراگندہ نہ ہو(۲)

کیا اہل بیت(ع) ہی  وہ صادقین نہیں ہیں جن کے متعلق خدا فرماتا ہے:

--------------

۱ ـ  پورا سورہ ہل اتی اہلبیت(ع) کی مدح اور ان کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہوا ہے۔

۲ ـ  امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں بسلسلہ اسناد ابان بن تغلب سے انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں کہ ہم وہ خدا کی رسی ہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے کہ خدا کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو اور پراگندہ نہ ہو۔ ابن حجر مکی نے فصل اول باب ۱۱ صواعق محرقہ مین دو آیتیں اکھٹا کی ہیں جو اہل بیت(ع) کے متعلق نازل ہوئیں چنانچہ اس آیت کو ان آیات میں شمار کیا ہے اور انھوں نے بھی ثعلبی سے نقل کر کے امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ذکر کیا ہے “ رشفتہ الصادی” میں امام شافعی کے یہ اشعار مذکور ہیں۔

 ولما رايت الناس قد ذهبت بهم             مذاهبهم فی ابحر الغی والجهل

 رکبت علی اسم اﷲ فی سفن النجا       وهم اهل بيت المصطفی خاتم الرسل

 وامسکت حبل اﷲ وهو ولاؤهم           کما قد امرنا بالتمسک بالحبل

جب میں نے دیکھا کہ اہل بیت(ع) کے بارےمیں لوگوں کو ان کے مذہب گمراہی و جہالت کے سمندر میں لے جارہے ہیں تو میں خدا کا نام لے کر سفینہ نجات پر سوار ہوگیا یعنی حضرت محمد مصطفی خاتم المرسلین(ص) کے اہل بیت کے ساتھ ہوگیا اور میں نے خدا کی رسی جو ان اہل بیت(ع) کی محبت واطاعت ہے مضبوطی سے پکڑ لی۔ جیسا کہ ہمیں حکم بھی دیا گیا ہے کہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو۔

۶۸

وَ كُونُوا مَعَ الصَّادِقينَ(۱) (توبہ، ۱۱۹)

کیا ہل بیت(ع) ہی وہ خدا کی راہ نہیں جس کے متعلق خدا نے فرمایا ہے:

 “وَ أَنَّ هذا صِراطي‏ مُسْتَقيماً فَاتَّبِعُوهُ(۲) (آل عمران، ۱۵۳ )

کیا اہل بیت(ع) ہی خدا کا وہ واحد راستہ نہیں جس کےمتعلق خدا نے امتِ اسلام کو حکم دیا :

وَ لا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبيلِهِ ” (آل عمران، ۱۵۳ )

اہلبیت (ع) کو چھوڑ کر دوسری راہیں نہ اختیار کرو کہ اصلی راستہ ہی سے جدا ہوجاؤ۔

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ اولی الامر نہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے:

 “يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ” ( النساء، ۵۹ )

 “ اے ایماندارو! اطاعت کرو خدا کی اور اس کے رسول(ص) اور تم میں سے جو اولی الامر ہیں(۳) ۔”

--------------

۱ ـ صادقین سے مراد یہاں حضرت رسول خدا(ص) اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں جیسا کہ ہماری صحیح اور متواتر حدیثیں بتاتی ہیں ہمارے علاوہ حضرات اہل سنت کے یہاں بھی حدیثیں موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ صادقین سے مراد یہی حضرات ہیں جیسا کہ حافظ ابونعیم اور موفق ابن احمد نے روایت کی ہے اور ان سے ابن حجر سے صواعق محرقہ باب ۱۱ صفحہ۲۰ پر نقل کیا ہے۔

۲ ـ امام محمد باقر و جعفرصادق علیہم السلام فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد امام ہے اور ( لا تتبعوا السبیل دوسری راہیں نہ اختیار کرو) سے مقصود یہ ہے کہ گمراہ کرنے والے اماموں کی پیروی نہ کرو کہ اصلی راستہ ( یعنی ہم سے ) تم جدا ہوجاؤ۔

[۱] ـ ثقہ الاسلام محمد بن یعقوب کلینی نے بسند صحیح بریدہ عجلی سے روایت کی ہے بریدہ کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر (ع) سے قول خدادندِ عالم “أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ” کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے جواب میں یہ آیت پڑھی۔“ النساء : ۵۱   أَ لَمْ تَرَ إِلَى الَّذينَ أُوتُوا نَصيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوتِ وَ يَقُولُونَ لِلَّذينَ كَفَرُوا هؤُلاءِ أَهْدى‏ مِنَ الَّذينَ آمَنُوا سَبيلاً ” کیا تم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جنھیں تھوڑا بہت کتاب کا علم ملا ہے وہ شیطان اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کفر اختیار کرنے والوں کو کہتے ہیں کہ یہ ایمان لانے والوں سے زیادہ راہ راست پر ہیں یہ گمراہی اور ضلالت کے اماموں اور جہنم کی طرف لے جانے والوں کےمتعلق کہتے ہیں کہ آل محمد(ص) سے زیادہ راہ ہدایت پانے والے ہیں۔“ أُولئِكَ الَّذينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَ مَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصيراً ” یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور جس پر خدا لعنت کرے اس کا کسی کو مددگار نہ پاؤگے۔

۶۹

کیا اہلبیت(ع) ہی وہ صاحبان ذکر نہیں جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے :

فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ

“ اگر تم نہیں جانتے تو صاحبان ذکر سے پوچھو (۱) ۔”

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ مومنین نہیں جن کے متعلق خدا کا ارشاد ہے:

وَ مَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدى‏ وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبيلِ الْمُؤْمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلَّى وَ نُصْلِهِ جَهَنَّمَ”  ( النساء، ۱۱۵)

“ جو شخص ہدایت کا راستہ واضح ہوجانے کے بعد رسول(ص) کی مخالفت

--------------

۱ ـ امام ثقلبی نے اپنی تفسیر میں جناب جابر سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو امیرالمومنین(ع) نے فرمایا کہ ہم ہی وہ اہل ذکر ہیں یہی جملہ ائمہ طاہرین(ع) سے منقول ہے علامہ بحرینی نے بیس سے زیادہ حدیثیں ۳۵ باب میں درج کی ہیں سب کا مضمون یہی ہے۔

۷۰

 کرے گا اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر دوسری راہ چلے گا ہم اس کو اس کی روگردانی کا مزا چکھائیں گے(۱) ۔”

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ ہادی نہیں جن کے متعلق فرمایا ہے: 

إِنَّما أَنْتَ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ ” (الرعد، ۷)

“ اے رسول(ص) تم ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے(۲) ۔”

اور کیا اہلبیت(ع) ہی وہ لوگ نہیں جن پر خدا نے اپنی نعمتیں نازل کیں اور جن کے متعلق خداواند عالم سے سورہ فاتحہ میں ارشاد فرمایا ہے:

“اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقيمَ صِراطَ الَّذينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ” ( فاتحه، ۶-۷)

--------------

۱ ـ ابن مردویہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مشاقہ( مخالفت) رسول(ص) سے مراد یہاں علی(ع) کی شان میں اختلاف کرنا ہے اور من بعدما تبین لہ الہدی میں ہدی کا جو لفظ ہے اس سے مراد شان امیرالمومنین(ع) ہے یعنی امیرالمومنین(ع) کی شان و جلالت واضح ہونے کے بعد جو اس میں چون وچرا کرے۔ عیاشی نے بھی اپنی تفسیر میں اسی مضمون کی حدیث درج کی ہے ۔ ائمہ طاہرین(ع) سے بکثرت صحیح اور متواتر حدیثیں مروی ہیں جو بتاتی ہیں کہ سبیل مومنین سے مراد انہیں ائمہ طاہرین(ع) کا مسلک ہے۔

۲ ـ ثعلبی نے اس آیت کی تفسیر میں جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول(ص) نے اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا کہ میں ڈرانے والا ہوں اور علی(ع) ہادی ہیں اور اے علی(ع) ! تمہارے ہی ذریعے ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے۔ اس مضمون کی متعدد حدیثیں مفسرین ، محدثین نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہیں۔ محمد بن مسلم سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا ہر امام اپنے زمانے کا ہادی ہے اور امام محمد باقر(ع) نے فرمایا ہے اس آیت کی تفسیر میں کی منذر سے مراد رسول(ص) اور ہادی سے مراد حضرت علی(ع) ہیں پھر آپ نے فرمایا کہ قسم بخدا یہ بات اب تک ہم میں چلی آرہی ہے۔

۷۱

“ خداوند ہمیں راہ راست کی ہدایت کر ان لوگوں کی راہ جن پر تونے اپنی نعمتیں نازل فرمائیں(۱) ۔”

اور دوسری جگہ فرمایا ہے:

“  فَأُولئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَ الصِّدِّيقينَ وَ الشُّهَداءِ وَ الصَّالِحينَ ” ( نساء ، ۶۹)

“ اور وہ مومنین بندے ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے اپنی نعمت نازل کی ہے(۲) ۔”

کیا خداوند عالم نے انھیں کے لیے ولایت عامہ نہیں قرار دی اور رسول(ص) کے بعد ولایت کا انحصار انھیں میں نہیں کردیا ۔ پڑھیے یہ آیت :

إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ ” (المائدة،۵۵   )

“ اے لوگو! تمہارا ولی خدا ہے اور اس کا رسول(ص) اور وہ لوگ جو ایمان لائے ، جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں(۳) ۔”

--------------

۱ـ ثعلبی اپنی تفسیر میں بسلسلہ تفسیر سورہ فاتحہ ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ صراطِ مستقیم سے مراد محمد(ص) وآل(ع) محمد(ص) کا راستہ ہے اور وکیع بن جراح سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے انھوں نے سفیان ثوری سے انھوں نے سدی سے انھوں نے اسباط و مجاہد سے اور انھوں نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ “اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقيمَ ” کا مطلب یہ ہے کہ تم کہو اے معبود محمد وآل محمد(ص) کی محبت کی طرف ہماری رہنمائی کر۔

۲ـ کوئی شبہ نہیں کہ ائمہ علیہم السلام سید و سردار ہیں جملہ صدیقین و شہداء و صالحین کے۔

۳ ـ تمام مفسرین کا اجماع و اتفاق ہے جیسا کہ علامہ قوشجی نے شرح تجرید مین اس کا اعتراف کیا ہے ( اور یہ علامہ قوشجی اشاعرہ کے ائمہ سے ہیں) کہ یہ آیت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی جب آپ نے نماز میں بحالت رکوع انگوٹھی خیرات کی تھی۔ امام نسائی نے بھی اپنی صحیح میں عبداﷲ بن سلام سے روایت کی ہے کہ یہ آیت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی اسی طرح صاحب المجمع بن الصحاح الستہ نے بھی سورہ مائدہ کی تفسیر میں اس آیت کے امیرالمومنین(ع) کی شان مین نازل ہونے کی روایت کی ہے ثعلبی نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کے امیرالمومنین (ع) کی شان میں نازل ہونے کی روایت کی ہے۔

۷۲

اور کیا خدا نے مغفرت کو مختص نہیں کردیا صرف ان لوگوں کے ساتھ جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور عمل صالح کریں اور ساتھ ساتھ ولایتِ آلِ محمد(ص) کی طرف ہدایت یاب بھی ہوں جیسا کہ خود خداوند عالم نے فرمایا ہے:

وَ إِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى‏” ( طہ، ۸۲)

“ بے شک میں بخشنے والا ہوں اس کو جو توبہ کرے ایمان لائے اور عمل صالح کرے پھر ہدایت یاب بھی ہو(۱) ۔”

--------------

۱ ـ  ابن حجر نے صواعق محرقہ فصل اول باب ۱۱ میں لکھا ہے ان کی اصل عبارت کا ترجمہ یہ ہے : آٹھویں آیت میں اﷲ تعالی فرماتا ہے : بے شک میں بخشنے والا ہوں اس کو جو توبہ کرے ، ایمان لائے اور عمل صالح کرے اور ساتھ ساتھ ہدایت یاب بھی ہو” ثابت نباتی کہتے ہیں کہ یعنی ولایت اہل بیت(ع) کی طرف ہدایت یاب ہو۔ امام محمد باقر(ع) و جعفرصادق(ع) سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔ اس کے بعد ابن حجر نے امام محمد باقر(ع) کے اس قول کا بھی ذکر کیا ہے جو آپ نے حارث بن یحی سے فرمایا تھا کہ اے حارث ، کیا دیکھتے نہیں کہ خداوند عالم نے کیونکر شرط قرار دی ہے کہ انسان کو توبہ ایمان و عمل صالح اس وقت تک نفع بخش نہیں جب تک ہماری ولایت کی طرف راہ نہ پائے پھر آپ نے اپنی اسناد سے حضرت امیرالمومنین(ع) سے دریافت فرمائی ہے کہ اگر کوئی شخص توبہ بھی کرے ایمان بھی لائے عمل صالح بھی کرے مگر ہماری ولایت کی طرف ہدایت یافتہ نہ ہو اور ہمارے حق کو پہچانتا نہ ہو تو کوئی چیز بھی اس کے لیے فائدہ بخش نہ ہوگی۔ حافظ ابونعیم نے بھی عون بن ابی جعفر سے انھوں نے اپنے باپ سے انھوں نے حضرت علی(ع) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے۔ امام حاکم نے امام محمد باقر(ع) وجعفر صادق(ع) ثابت بنائی انس بن مالک ان حضرات میں سے ہر شخص سے اس مضمون کی حدیث روایت کی ہے۔

۷۳

کیا انھیں کی ولایت وہ امانت نہیں  جس کے متعلق خداوند عالم کا ارشاد ہے(۱) :

 “إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَةَ عَلَى السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَها وَ أَشْفَقْنَ مِنْها وَ حَمَلَهَا الْإِنْسانُ إِنَّهُ كانَ ظَلُوماً جَهُولاً ” (احزاب، ۷۲  )

“ ہم نے امانت کو آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر پیش کیا سب نے اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے خائف ہوئے اور انسان نے اٹھالیا اور وہ تو ظالم و جاہل ہی ہے۔”

کیا اہل بیت  علیہم السلام ہی صلح و سلامتی نہیں جس میں داخل ہونے کا خداوند عالم نے حکم دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے :

 “يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَ لا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ ” (البقرة : ۲۰۸)

“ اے لوگو! سب کے سب سلامتی میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو(۲)

--------------

۱ ـ دیکھیے اس آیت کے معنی جو تفسیر صافی اور تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں بیان کیے گئے ہیں۔ نیز ابن بابویہ نے امام محمد باقر علیہ السلام و امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے  اور علامہ بحرینی نے اس آیت کی تفسیر میں کتاب غایتہ المرام باب ۱۱۵ میں حضرات اہلسنت کی حدیثیں درج کی  ہیں اسے بھی ملاحظہ فرمائیے۔

۲ ـ علامہ بحرینی نے کتاب غایتہ المرام کے باب ۲۲۴ میں بارہ صحیح حدیثیں اس آیت کے ولایت امیرالمومنین (ع۹ وائمہ طاہرین(ع) کے بارے میں نازل ہونے کے متعلق لکھی ہیں اور باب ۲۲۳ میں لکھا ہے کہ اصفہانی اموی نے امیرالمومنین(ع) سے متعدد طریق سے اس کی روایت کی ہے۔

۷۴

کیا اہل بیت(ع) ہی وہ نعمتِ خداوند عالم نہیں جس کے متعلق ارشاد الہی ہے :

 “ ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعيمِ ” ( التکاثر، ۸)

“ قیامت کے دن ضرور بالضرور تم سے اس نعمت کا سوال کیا جائے گا(۱) ۔”

کیا حضرت سرورکائنات(ص) کو اسی نعمت کے پہنچانے کا تاکیدی حکم نہیں ہوا؟ اور اتنی سختی نہیں کی گئی جو دھمکی سے مشابہ تھی؟ جیسا کہ آیت کا اندازہ بتاتا ہے:

  “يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ” (مائدہ، ۶۷)

“ اے رسول(ص) پہنچا دو اس چیز کو جو تم پر تمھارے پروردگار کی جانب سے نازل ہوئی اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تم نے کار رسالت انجام ہی نہیں دیا ۔ تم ڈرو نہیں خدا تمہیں لوگوں سے محفوظ رکھے گا(۲) ۔”

--------------

۱ ـ  علامہ بحرینی نے غایتہ المرام باب اڑتالیس میں ۳ حدیثیں حضرات اہلسنت کے طریقوں سے لکھی ہیں جن سے مستفاد ہوتا ہے کہ نعیم سے مراد یہاں ولایت حضرت سرورکائنات(ص) اور امیرالمومنین(ع) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام ہے جس سے خداوند عالم نے بندوں کو سر فراز کیا اور باب ۴۹ میں شیعوں کی ۱۲ صحیح حدیثیں اسی مضمون کی درج کی ہیں۔

۲ ـ ایک دو نہیں بکثرت محدثین جیسے امام واحدی و غیرہ نے اپنی کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۷۵

۷۶

۷۷

وارد ہوئی ہیں اور درحقیقت ان حضرات کی ولایت ہے بھی ایسی ہی اہمیت کی حامل کیونکہ ان کی ولایت ان چیزوں میں سے ہے جن کی تبلیغ کے لیے خداوند عالم نے انبیاء مبعوث کیے۔ انباء و اوصیاء کے ذریعے اپنی حجتیں قائم کیں ، جیسا کہ آیہ :

 “وَ سْئَلْ مَنْ أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ (۱) مِنْ رُسُلِنا ”( زخرف، ۴۵)

“ ہمارے ان رسولوں سے پوچھو جنھیں ہم نے تم سے پیشتر بھیجا تھا۔”

کی تفسیر میں علماء نے صراحت فرمائی ہے بلکہ ان کی ولایت تو وہ مہتم باشان امر ہے جس کا خداوند عالم نے روزِ الست ارواح خلق سے عہد وپیمان لیا، جیسا کہ :

 “وَ إِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَني‏ آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ أَشْهَدَهُمْ عَلى‏ أَنْفُسِهِمْ أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قالُوا بَلى‏ (۲) ”( اعراف، ۱۷۲)

“ اور اے رسول(ص) وہ وقت بھی یاد دلاؤ جب تمھارے پروردگار نے آدم(ع) کی اولاد سے یعنی پشتوں سے باہر نکال  کر ان کی اولاد سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرالیا۔ پوچھا کہ کیا میں تمھارا پروردگار نہیں ہوں۔ تو سب کے سب بولے ۔ہاں۔”

کی تفسیر بتاتی ہے۔ انھیں ذواتِ مقدسہ سے وسیلہ حاصل کر کے آدم(ع) نے وہ کلمات سیکھے جن کے ذریعے ان کی توبہ قبول ہوئی(۳) ۔

یہی وہ حضرات ہیں جن کی وجہ سے خداوند عالم نے امت سے اپنا عذاب دور رکھا۔(۴)

--------------

۱ ـ حلیتہ الاولیاء ، ابونعیم اصفہانی، تفسیر ثعلبی، تفسیر نیشاپوری۔

۲ ـ فردوس الاخبار، علامہ دیلمی باب ۱۴، صفحہ ۳۰۴۔

۳ ـ تفسیر در منثور جلد۱، صفحہ۶۱، کنزالعمال، جلد۱، صفحہ۲۳۴، ینابیع المودہ، صفحہ۷۹۔

۴ـ  صواعق محرقہ، تفسیر آیہ “وما کان اﷲ ليعذب ه م الخ”

۷۸

یہ زمین والوں کے لیے جائے پناہ اور خدا تک پہنچنے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن سے حسد کیا گیا اور خداوند عالم نے ان کے بارے میں فرمایا :  “أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلى‏ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ (۱) ” (نساء، ۵۴)

“ یہ لوگ کیوں جل رہے ہیں ہمارے ان مخصوص لوگوں سے جن کے دامن میں ہم نے اپنے فضل سے نعمتیں بھر دی ہیں۔”یہی وہ علم میں راسخ حضرات ہیں جن کے متعلق خداوند عالم نے فرمایا :“وَ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا (۲) ” ( آل عمران، ۷)

“ علم میں گڑے ہوئے سمائے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔”یہی وہ اعراف کے رجال ہیں جن کے متعلق خداوند عالم کا ارشاد ہے: “  وَ عَلَى الْأَعْرافِ رِجالٌ يَعْرِفُونَ كُلاًّ بِسيماهُمْ (۳) ”( الاعراف، ۴۶)

--------------

۱ ـ صواعق محرقہ، باب ۱۱، آیت۶۔

۲ ـ ثقتہ الاسلام علامہ کلینی نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے “ ہم ہی وہ لوگ ہیں جن کی اطاعت خدا نے فرض کی۔ ہم ہی راسخون فی العلم ہیں، ہم ہی وہ لوگ ہیں جن سے حسد کیا گیا۔ ” جناب شیخ نے بھی تہذیب میں امام جعفر صادق(ع)  سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔

۳ـ ینابیع المودة صفحہ ۸۳، روح البیان جلد۱ ، صفحہ ۷۲۳، ابن عباس سے مروی ہے کہ اعراف صراط سے ایک بلند جگہ ہے جس پر عباس، حمزہ، علی، اور جعفر ذوالجناحین ہوں گے، وہ اپنے دوستداروں کو ان کے روشن چہروں سے اور اپنے دشمنوں کو ان کے سیاہ چہروں سے پہچان لیں گے۔ امام حاکم نےبسلسلہ اسناد حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ ہم بروز قیامت جنت ونار کے درمیان کھڑے ہوں گے جس نے ہماری مدد کی ہوگی اسے ہم پہچان کر جنت میں اور جس نے دشمن رکھا ہوگا اسے جہنم میں داخل کریںگے اسی مضمون کی وہ حدیث کی تاکید کرتی ہے جو دار قطنی نے روایت کی ہے( ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب نہم) حضرت علی(ع) نے ان چھ آدمیوں سے جنھیں حضرت عمر نے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کے لیے صاحبان شوری قرار دیا تھا ایک طولانی گفتگو میں کہا میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم میں میرے سوا کوئی بھی ایسا ہے جس کے بارے میں پیغمبر(ص) نے فرمایا اےعلی(ع) تم بروز قیامت قسیم نار و جنت ہوگے لوگوں نے کہا نہیں آپ کے سوا اور کسی کے متعلق رسول(ص) نے ایسا نہیں فرمایا۔ علامہ ابن حجر ( اس حدیث کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے جیساکہ عنترہ نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا اے علی (ع) تم قسیم نار وجنت ہو تم جنت سے کہو گے یہ تیرے لیے ہے اور یہ میرے لیے۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ سماک نے دریافت کی ہے کہ ابوبکر نے حضرت علی(ع) سے کہا میں نے پیغمبر(ص) کو ارشاد فرماتے سنا ہے “ پل صراط سے بس وہی گزرے گا جسے علی(ع) نے پروانہ راہداری دیا ہو۔”

۷۹

“ اعراف پر ایسے مرد ہوں گے جو ہر شخص کو بہشتی ہو یا جہنمی اس کی پیشانی سے پہچان لیں گے۔”

یہی وہ رجال صدق ہیں جن کے متعلق ارشاد ہوا :

 “  رِجالٌ صَدَقُوا ما عاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضى‏ نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَ ما بَدَّلُوا تَبْديلاً ” ( احزاب، ۲۳)

“ ایمانداروں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ خدا سے انھوں نے جان نثاری کا جو عہد کیا تھا اسے پورا کردکھایا۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جو مر کر اپنا وقت پورا کر گئے اور ان میں سے بعض حکم خدا کے منتظر بیٹھے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات ذرا بھی نہیں بدلی(۱) ۔”

--------------

۱ ـ علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ ، باب ۹ میں تحریر کیا ہے کہ حضرت امیرالمومنین(ع) منبر کوفہ پر تشریف رکھتے تھے کہ کسی نے اس آیت کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا یہ آیت میرے اور میرے چچا حمزہ اور چچازاد بھائی عبیدہ بن حارث کے متعلق نازل ہوئی۔ عبیدہ تو بروز بدر واصل بحق ہوئے۔ چچا حمزہ احد میں شہید ہوئے رہ گیا میں سو میں اس بدبخت ترین مردم کا انتظار کررہا ہوں جو میری ڈاڑھی کو میرے سر کے خون سے خضاب آلود کرےگا۔ میرے حبیب محمد مصطفی(ص) مجھے بتا گئے ہیں۔ امام حاکم نے بھی اس مضمون کی حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

رہے ہیں کہ آپ اپنے بیٹے کی بات سنین اور ان کی اطاعت کریں۔”

پیغمبر(ص) کی اس نص کا تذکرہ کن کن کتابوں میں موجود ہے

پیغمبر(ص) کے اس خطبہ کو بعینہ انہی الفاظ میں اکثر علمائے کبار و اجلہ محدثین نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ جیسے ان اسحاق ، ابن جریر، ابنِ ابی حاتم ، ابن مردویہ ، ابونعیم  اور امام بیہقی نے اپنے سنن اور دلائل دونوں مٰیں ثعلبی اور طبری نے اپنی اپنی عظیم الشان تفسیروں میں سورہ شعراء کی تفسیر کے ذیل میں نیز علامہ طبری نے اپنی تاریخ طبری کی دوسری جلد صفحہ217 میں بھی مختلف طریقوں سے اس کو لکھا ہے اور علامہ ابن اثیر جزری نے تاریخ کامل کی دوسری جلد صفحہ22 میں بطور مسلمات ذکر کیا ہے۔

مورخ ابو الفداء نے اپنی تاریخ کی پہلی جلد صفحہ116 میں سب سے پہلے اسلام لانے والے کے ذکر میں درج کیا ہے۔ امام ابوجعفر اسکافی معتزلی نے اپنی کتاب نقض عثمانیہ میں اس حدیث کی صحت کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے( شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ263) علامہ حلبی نے آںحضرت(ص) اور اصحاب کے دار ارقم میں روپوش ہونے کے واقعہ کے ضمن میں بیان کیا ہے(1)   (سیرت حلبیہ ج، صفحہ381) ان کے علاوہ تھوڑے بہت لفظی تغیر کےساتھ مگر مفہوم و معنی

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے صفحہ 381 جلد اول سیرة حلبیہ۔ ابن تیمیہ نے اس حدیث کو جھٹلانے اور غلط ثابت کرنے کی جو کوششیں کی ہیں۔ اپنی مشہور عصبیت کی وجہ سے وہ در خور اعتنا نہیں اس حدیث کو مصر کے سوشلسٹ ادیب محمد حسین ہیکل نے بھی لکھا ہے ملاحظہ فرمائیے ان کے رسالہ سیاست شمارہ نمبر2751 صفحہ 5 جپر عمود ثانی جو 12 ذیقعد سنہ1350ھ میں شائع ہوا۔ انھوں نے کافی تفصیل سے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور شمارہ نمبر2685 صفحہ 6 پر عمود رابع میں انھوں نے اس حدیث کو صحیح مسلم، مسند امام احمد اور عبداﷲ بن احمد کی زیارات مسند اور ابن حجر ہیثمی کی جمع الفوائد، ابن قتیبہ کی عیون الاخبار، احمد بن عبدربہ قرطبی کی عقد الفرید، علامہ جاحظ کے رسالہ بنی ہاشم، امام ثعلبی کی تفسیر ، مذکورہ بالا تمام کتب سے نقل کیا ہے۔ مزید برآں جرجس انکلیزی سے اپنی کتاب مقالہ فی الاسلام مٰیں بھی اس حدیث کو درج کیا ہے جس کا بروتستانت کے ملحد نےعربی میں ترجمہ کیا ہے جس نے اپنا نام ہاشم عربی رکھا ہے۔ اس حدیث کی ہمہ گیر شہرت کی وجہ سے متعدد مورخین فرنگ نے فرانسیسی ، جرمنی، انگریزی تاریخوں میں اس کو ذکر کیا ہے اور ٹامنس کارلائل نے اپنی کتاب ابطال میں مختصر کر کے لکھا ہے۔

۱۶۱

کے لحاظ سے بالکل ایک ہی مضمون ۔ بہتیرے اعیان اہل سنت اور ائمہ احادیث نے اپنی اپنی کتابوں میں اس واقعہ کو تحریر کیا ہے جیسے علامہ طحاوی اور ضیاء مقدسی نے مختارہ ،سعید بن منصور نے سنن میں تحریر کیا ہے۔

سب سے قطع نظر امام احمد نے اپنی مسند جلد اول صفحہ 159 پر حضرت علی (ع) سے روایت کی ہے ۔ پھر اسی جلد کے صفحہ331 پر ابن عباس سے بڑی عظیم الشان حدیث اس مضمون کی روایت کی ہے، جس میں حضرت علی(ع) کی دس ایسی خصوصیتیں مذکور ہیں جن کی وجہ سے حضرت علی(ع) اپنے تمام ماسوا سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ اسی جلیل الشان حدیث کو امام نسائی نے بھی اپنی کتاب خصائص صفحہ 60پر ابن عباس سے روایت کر کے لکھا ہے اور امام حاکم نے صحیح مستدرک

۱۶۲

 جلد3 صفحہ 132 پر اور علامہ ذہبی نے تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔

کنزالعمال جلد6 ملاحظہ فرمائیے(1) ۔ اس میں بھی یہ واقعہ بہت تفصیل سے موجود ہے۔ منتخب کنزالعمال کو دیکھیے جو مسند احمد بن حنبل کے حاشیہ پر طبع ہوا ہے۔ حاشیہ مسند جلد5 صفحہ 41 تا صفحہ42 پر اس واقعہ کا ذکر موجود ہے اور پوری تفصیل کے ساتھ۔

میرے خیال میں یہی ایک واقعہ جسے تمام علماء محدثین ومورخین بالاتفاق اپنی کتابوں میں لکھتے آئے ہیں حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت کا بین ثبوت اور صریحی دلیل ہے۔ کسی دوسری دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔

                                                                     ش

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال صفحہ 392 حدیث نمبر6008 جو ابن جریر سے منقول ہے صفحہ 396 پر حدیث 6045 جو امام احمد کی مسند نیز ضیاء مقدسی کی مختارہ ، طحاوی و ابن جریر کی صحیح سے منقول ہے صفحہ 397 پر حدیث 6056 جو ابن اسحق ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، اور ابو نعیم نیز بیہقی کی شعب الایمان اور دلائل سے منقول ہے صفحہ 401 پر حدیث 6102 جو ابن مردویہ سے منقول ہے صفحہ 408 پر حدیث 6155 جو امام احمد کی مسند اور ابن جریر اور صیاء مقدسی کی مختارہ سے منقول ہے۔ کنزالعمال میں یہ حدیث اور بھی مقامات پر مذکور ہے۔ شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 255 پر یہ طولانی حدیث بہت تفصیل سے مذکور ہے۔

۱۶۳

مکتوب نمبر11

حدیث مذکورہ بالا کی سند میں تردد

تسلیم زاکیات!

آپ کا مخالف اس حدیث کی سند کو معتبر نہیں سمجھتا نہ کسی طرح اس حدیث کو صحیح سمجھنے پر تیار ہے کیونکہ شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اس حدیث کو نہیں لکھا۔ نیز شیخین کے علاوہ دیگر اصحاب صحاح نے بھی نہیں لکھا ۔ میرا تو یہ خیال ہے کہ یہ حدیث معتبر و معتمد راویاں اہلسنت سے مروی ہی نہیں ہوئی اور غالبا آپ بھی بطریق اہل سنت اسے صحیح نہ سمجھتے ہوں گے۔

                                                             س

۱۶۴

جواب مکتوب

نص کا ثبوت

اگر میرے نزدیک اس حدیث کی صحت خود بطریق اہلسنت ثابت نہ ہوتی تو میں اس محل پر اس کا ذکر ہی نہیں  کرتا۔ مزید برآں اس حدیث کی صحت تو ایسی اظہر من الشمس ہے کہ ابن جریر اور امام ابو جعفر اسکافی نے اس حدیث کو بطور مسلمات ذکر کیا ہے(1) ۔ اور کبار محققین اہل سنت نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث کی صحت کا مختصرا آپ اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ اصحاب صحاح جن ثقہ اور معتبر راویوں کی روایتوں سے استدلال کرتے ہیں اور آنکھ بند کرکے بڑی خوشی سے جن کی روایتوں کو لے لیتے ہیں انھیں معتبر و ثقہ راویوں کے طریقوں سے اس حدیث کی صحت ثابت ہے۔ اس حدیث کی روایت انھیں معتبر و موثق اشخاص نے کی ہے جن کی روایت کردہ حدیثیں صحاح میں موجود ہیں۔

--------------

1 ـ ملاحظہ فرمائیے کنزالعمال جلد6 صفحہ 396 پر حدیث 6045 جہاں آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن جریر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ حاشیہ مسند احمد حنبل جلد5 صفحہ73 پر منتخب کنزالعمال میں بھی آپ کو معلوم ہوگا کہ ابن جریر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام ابو جعفر اسکافی نے تو اس حدیث کو بڑی پختگی کے ساتھ صحیح قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ان کی کتاب نقض عثمانیہ شرح نہج البلاغہ جلد3، صفحہ363

۱۶۵

مسند احمد بن حنبل جلد اول صفحہ 111 ملاحظہ کیجیے۔ انھوں نے اس حدیث کو(1) اسود بن عامر سے انھوں نے شریک(2) سے انھوں نے اعمش(3) سے انھوں نے منہال(4) سے انھوں نے عباد(5) بن عبداﷲ اسدی سے انھوں نے حضرت علی(ع) سے مرفوعا روایت کرکے لکھا ہے۔ اس سلسلہ اسناد کے کل کے کل راوی مخالف

--------------

1 ـ امام بخاری و مسلم دونوں نے اس کی حدیث سے احتجاج کیا ہے ۔ شعبہ نے امام بخاری و امام مسلم دونوں کی صحت میں اسود سے روایت کر کے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا اور عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے امام بخاری کو ان سے روایت کرتے ہوئے اور زہیر بن معاویہ اور حماد بن سلمہ نے امام مسلم کو ان سے روایت کرتے ہوئے سنا۔ صحیح بخاری میں محمد بن حاتم بزیع کی ان سے روایت کی ہوئی حدیث موجود ہے اور صحیح مسلم میں ہارون بن عبداﷲ اور ناقد اور ابن ابی شیبہ اور ابو زہیر کی ان سے روایت کردہ حدیثیں موجود ہیں۔

2 ـ امام مسلم نے ان حدیثوں سے اپنے صحیح مسلم میں احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم نے صفحہ134 رپ ان کا تذکرہ کے ضمن میں وضاحت کی ہے۔

3 ـ ان سے امام بخاری و مسلم دونوں نے اپنے اپنے صحیح میں احتجاج کیا ہے جیسا کہ ہم نے صفحہ134 پر وضاحت کی ہے۔

4ـ امام بخاری نے ان سے احتجاج کیا ہے ملاحظہ ہو صفحہ166۔

5 ـ ان کا سلسلہ نسب یہ ہے عباد بن عبداﷲ بن زہیر بن عوام قرشی اسدی۔ ان سے بخاری و مسلم دونوں نے اپنے اپنے صحیح میں احتجاج کیا ہے۔ انھوں نے ابوبکر کی دونوں صاحبزادیوں عائشہ اور اسماء سے حدیثیں سنیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان سے ابی ملیکہ اور محمد بن جعفر بن زہیر اور ہشام و عروہ کی روایت کردہ حدیثیں موجود ہیں۔

۱۶۶

کے نزدیک حجہ ہیں اور یہ تمام کے تمام رجال صحابہ ہیں۔ چنانچہ علامہ قیسرانی نے اپنی کتاب الجمع بین رجال الصحیحین  میں ان کا ذکر کیا ہے۔ لہذا اس حدیث کو صحیح ماننے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ اس کے علاوہ یہ حدیث صرف اسی طریقہ وسلسلہ اسناد سے نہیں بلکہ اور بھی ب شمار طریقوں سے مروی ہے اور ہر طریقہ دوسرے طریقہ کا موید ہے۔

نص سے کیوں اعراض کیا؟

اور شیخین یعنی بخاری و مسلم نے اس لیے اس روایت کو اپنی کتاب میں  جگہ نہیں دی کہ یہ روایت مسئلہ خلافت میں ان کی ہمنوائی نہیں کرتی تھی ان ک منشاء کے خلاف تھی اسی وجہ سے انھوں نے اس حدیث نیز دیگر بہتیری ایسی حدیثوں سے جو امیر المومنین(ع) کی خلافت پر صریحی ںص تھیں گریز کیا اور اپنی کتاب میں درج نہ کیا۔ وہ ڈرتے تھے کہ یہ شیعوں کے لیے اسلحہ کا کام دیں گی لہذا انھوں نے جان بوجھ کر اس کو پوشیدہ رکھا۔

بخاری و مسلم ہی نہیں بلکہ بہتیرے شیوخ اہل سنت کا وتیرہ یہی تھا۔ اس قسم کی ہر چیز کو وہ چھپانا ہی بہتر سمجھتے تھے۔ ان کا یہ کتمان کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ ان کی یہ پرانی اور مشہور عادت ہے چنانچہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں علماء سے نقل بھی کیا ہے، امام بخاری نے بھی اس مطلب میں ایک خاص باب قرار دیا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری(1) حصہ اول کے کتاب العلم میں انھوں نے یہ عنوان قائم کیا ہے :

             “باب من خص بالعلم قوما دون قوم ۔”

--------------

1 ـ صفحہ51۔

۱۶۷

             “ باب بیان میں اس کےجو ایک قوم کو مخصوص کر کے علم تعلیم کرے اور دوسرے کو نہیں۔”

امیرالمومنین(ع) کےمتعلق امام بخاری کو روش اور آپ کے ساتھ نیز جملہ اہل بیت(ع) کے ساتھ ان کے سلوک سے جو واقف ہے اور یہ جانتا ہے کہ ان کا قلم امیرالمومنین (ع) واہل بیت(ع) کی شان میں ارشادات و نصوص پیغمبر(ص) کے بیان سے گریزاں رہتا ہے اور ان کے خصائص و فضائل بیان کرتے وقت ان کے دوات کی روشنائی خشک ہوجاتی ہے۔ اس لیے امام بخاری کی اس حدیث یا اس جیسی دیگر حدیثوں کے ذکر نہ کرنے پر تعجب نہ ہونا چاہیے۔

                                                                     ش

۱۶۸

مکتوب نمبر12

حدیث کی صحت کا اقرار

چونکہ دعوت عشیرہ والی حدیث حدِ تواتر کو نہیں پہنچتی اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مخصوص قسم کی خلافت ثابت ہوتی ہے۔

آپ کے ارشاد کے بموجب میں نے مسند احمد بن حنبل جلد اول کے صفحہ 111 پر اس حدیث کو دیکھا جن رجال سے یہ حدیث مروی ہے ان کی چھان بین کی۔ آپ کے کہنے کےمطابق وہ سب کے سب ثقات اہل سنت نکلے ۔ پھر میں نے اس حدیث کے دوسرے تمام طریق کو بغائر نظر مطالعہ کیا۔ بے شمار و بے اندازہ طریقے نظر آئے۔ ہر طریقہ دوسرے طریقہ کا موئد ہے۔ مجھے ماننا پڑا کہ یقینا یہ

۱۶۹

 حدیث پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس کے ثابت و مسلم ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

البتہ ایک بات ہے آپ لوگ اثبات امامت میں اس حدیث صحیح سے استدلال کرتے ہیں جو متواتر بھی ہو کیونکہ امامت آپ کے نزدیک اصول دین سے ہے اور یہ حدیث جو آپ نے پیش فرمائی ہے اس کے متعلق یہ کہنا غیر ممکن ہے کہ یہ تواتر تک پہنچی ہوئی اور جب حد تواتر تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ تو اس سے آپ لوگ استدلال بھی نہیں کرسکتے ۔

یہ حدیث منسوخ ہوگئی تھی

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث صرف یہ بتاتی ہے کہ حضرت علی(ع) رسول(ص) کے جانشین تو تھے مگر خاص کر اہلبیت (ع) پیغمبر(ص) میں جانشین تھے۔ لہذا تمام مسلمانوں کا خلیفہ ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے ؟ اس حدیث سے خلافت عامہ کہاں ثابت ہوتی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہوگئی تھی اس لیے کہ آںحضرت(ص) نے اس حدیث کے مفاد کی طرف کبھی توجہ نہ کی اسی وجہ سے صحابہ کو خلفاء ثلاثہ کی بیعت میں کوئی مانع نہ نظر آیا۔

                                                             س

جواب مکتوب

اس حدیث سے استدلال کرنے کی وجہ

حضرات اہلسنت امامت کے اثبات میں ہر حدیث صحیح سے استدلال

۱۷۰

 کرتے ہیں خواہ کرتے ہیں خواہ وہ متواتر ہو یا غیر متواتر ۔ لہذا خود حضرات اہلسنت جس چیز کو حجہ سمجھتے ہیں ہم اسی چیز کو ان پر بطور حجت پیش کرتے ہیں۔ جس چیز کو وہ خود مانتے ہیں ہم اسی سے انھیں قائل کرتے ہیں۔

رہ گیا یہ کہ ہم جو اس حدیث سے امامت پر استدلال کرتے ہیں تو اسکی وجہ ظاہر ہے کیونکہ یہ حدیث ہم لوگوں کے طریق سے صرف صحیح ہی نہیں بلکہ حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہے۔

مخصوص خلافت کو کوئی بھی قائل نہیں

یہ دعوی کرنا کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی(ع) خاص کر اہلبیت(ع) میں جانشین پیغمبر(ص) تھے مہمل ہے کیونکہ جو شخص اہل بیت(ع) رسول(ص) میں حضرت علی(ع) کو جانشین رسول(ص) سمجھتا ہے وہ عامہ مسلمین میں بھی جانشین سمجھتا ہے اور جو عامہ مسلمین میں جانشین رسول(ص) نہیں مانتا وہ اہل بیت(ع) میں بھی نہیں مانتا۔ آج تک بس یہ دو ہی قسم کے لوگ نظر آئے۔ آپ نے یہ فرق کہاں سے پیدا کیا جس کا آج تک کوئی قائل نہیں ۔ یہ تو عجیب قسم کا فیصلہ ہے جو اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔

حدیث کا منسوخ ہونا ناممکن ہے

یہ کہنا کہ یہ حدیث منسوخ ہوچکی تھی یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس کا منسوخ ہونا عقلا و شرعا دونوں جہتوں سے محال ہے کیونکہ وقت آنے کے پہلے ہی کسی حکم کا منسوخ ہونا۔ بداہتا باطل ہے۔ اس کے علاوہ اس حدیث کو منسوخ کرنے والی آپ کے خیال کی بنا پر زیادہ سے زیادہ ایک چیز نکلتی ہے اور

۱۷۱

 وہ یہ کہ رسول اﷲ(ص) نے مفادِ حدیث کی طرف پھر توجہ نہ کی، پھر اعادہ نہ کیا۔ مگر یہ بھی صحیح نہیں۔ کیونکہ رسول(ص) نے مفاد حدیث سے کبھی بے توجہی نہیں کی۔ بلکہ اس حدیث کے ارشاد فرمانے کے بعد بھی وضاحت کرتے رہے۔ کھلے لفظوں میں، بھرے مجمع میں، سفر میں، حضر میں، ہر موقع ہر محل ہر صراحتہ اعلان فرماتے رہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آپ صرف دعوت عشیرہ ہی کے موقع پر حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین فرما کے رہ گئے پھر کبھی اس کی وضاحت نہیں کی تب بھی یہ کیسے معلوم کہ رسول(ص) نے بعد میں مفاد حدیث ؟؟؟؟؟ کیا آگے چل کر آپ کا خیال بدل گیا اپنے قول سے پلٹ گیا۔

“ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَ ما تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَ لَقَدْ جاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدى‏”(نجم، 23)

             “ وہ صرف گمان اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پروردگار کا جانب سے ہدایت آچکی ہے۔”

                                                                     ش

۱۷۲

مکتوب نمبر13

میں نے ان ںصوص کے آستانے پر اپنی پیشانی جھکا دی۔ کچھ اور مزید ثبوت۔ خدا آپ کا بھلا کرے۔

                                                                     س

جوابِ مکتوب

حضرت علی(ع) کی دس(10) ایسی فضیلتیں جس میں کی کوئی ایک بھی کسی دوسرے کو حاصل نہیں اور جس سے آپ(ع) کی خلافت کی صراحت ہورہی ہے۔

دعوت ذوالعشیرہ والی حدیث کے علاوہ یہ دوسری حدیث ملاحظہ ملاحظہ کیجیے جسے امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند کی پہلی جلد صفحہ 330 پر ، امام نسائی نے

۱۷۳

 اپنی کتاب خصائص علویہ کے صفحہ 6 پر ، امام حاکم نے اپنے صحیح مستدرک کی تیسری جلد کے صفحہ 123 پر ، علامہ ذہبی نے اپنی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے نیز دیگر ارباب حدیث نے ایسے طریقوں سے جن کی صحت پر اہل سنت کا اجماع و اتفاق ہے نقل کیا ہے۔

عمروہ بن میمون سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ان کے پاس 9 سرداران قابل آئے۔ انھوں نے ابن عباس سے کہا کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ اٹھ چلیے یا اپنے پاس کے بیٹھے ہوئے لوگوں کو ہٹا کر ہم سے تخلیہ میں گفتگو کیجیے۔

ابن عباس نے کہا ۔ میں آپ لوگوں کے ساتھ خود ہی چلا چلتا ہوں۔ ابن عباس کی بینائی چشم اس وقت باقی تھی۔ ابن عباس نے ان سے کہا:

                     “ کہیے کیا کہنا ہے؟”

گفتگو ہونے لگی ۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کیا گفتگو ہوئی۔ ابن عباس وہاں سے دامن جھٹکتے ہوئے آئے ۔ کہنے لگے:

             “ وائے ہو۔ یہ لوگ ایسےشخص کے متعلق بدکلامی کرتے ہیں جس کی دس سے زیادہ ایسی فضیلتیں ہیں جو کسی دوسرے  کو نصیب نہیں۔ یہ لوگ بدکلامی کرتے ہیں ایسے شخص کے متعلق جس کے بارے میں رسول(ص) نے فرمایا :

لأبعثنّ رجلا لا يخزيه اللّه أبدا، يحبّ اللّه و رسوله، و يحبّه اللّه و رسوله»، فاستشرف لها من استشرف فقال: «أين عليّ؟»، فجاء و هو أرمد لا يكاد أن يبصر، فنفث في عينيه،

۱۷۴

ثمّ هزّ الراية ثلاثة، فأعطاها إيّاه، فجاء عليّ بصفيّة بنت حيي. قال ابن عباس: ثمّ بعث رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم) فلانا بسورة التوبة، فبعث عليّا خلفه، فأخذها منه، و قال: «لا يذهب بها إلّا رجل منّي و أنا منه»، قال ابن عباس: و قال النبيّ لبني عمّه: «أيّكم يواليني في الدنيا و الآخرة»، قال:- و عليّ جالس معه- فأبوا، فقال عليّ: أنا أوالئك في الدنيا و الآخرة، فقال لعليّ: «أنت وليّي في الدنيا و الآخرة». قال ابن عباس: و كان عليّ أوّل من آمن من الناس بعد خديجة. قال: و أخذ رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم) ثوبه فوضعه على عليّ و فاطمة و حسن و حسين، و قال:إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً . قال: و شرى عليّ نفسه فلبس ثوب النبيّ، ثمّ نام مكانه، و كان المشركون يرمونه [إلى أن قال:] و خرج رسول اللّه في غزوة تبوك، و خرج الناس معه،

۱۷۵

فقال له عليّ: أخرج معك؟ فقال (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «لا»، فبكى عليّ، فقال له رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «أما ترضى أن تكون منّي بمنزلة هارون من موسى إلّا أنّه لا نبي بعدي، إنّه لا ينبغي أن أذهب إلّا و أنت خليفتي». و قال له رسول اللّه: «أنت وليّ كلّ مؤمن بعدي و مؤمنة». قال ابن عباس: و سدّ رسول اللّه أبواب المسجد غير باب عليّ، فكان‌يدخل المسجد جنبا و هو طريقه ليس له طريق غيره، و قال رسول اللّه (صلّى اللّه عليه و آله و سلّم): «من كنت مولاه فإنّ مولاه عليّ.» الحديث.

“ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جسے خدا کبھی ناکام نہ کرے گا۔ وہ شخص خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہیں۔کس کس کے دل میں اس فضیلت کی تمنا پیدا نہ ہوئی مگر رسول(ص) نے ایک کی تمنا خاک میں ملا دی اور صبح ہوئی تو دریافت فرمایا کہ علی(ع) کہاں ہیں؟ حضرت علی(ع) تشریف لائے حالانکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ دیکھ نہیں پاتے تھے۔ رسول(ص) نے ان کی آنکھیں پھونکیں ، پھر تین مرتبہ علم کو حرکت دی اور حضرت علی(ع) کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ حضرت علی(ع) جنگ فتح کر کے مرحب کو مار کر اور اس کی بہن صفیہ کو لے کر خدمت رسول(ص) میں پہنچے ۔ پھر

۱۷۶

 رسول اﷲ(ص) نے ایک بزرگ کو سورہ توبہ دے کر روانہ کیا۔ ان کے بعد پیچھے فورا ہی حضرت علی(ع) کو روانہ کیا اور حضرت علی(ع) نے راستہ ہی میں ان سے سورہ لے لیا کیونکہ رسول(ص) کا حکم تھا کہ یہ سورہ بس وہی شخص پہنچا سکتا ہے جو مجھ سے ہے اورمیں اس سے ہوں۔ اور رسول(ص) نے اپنے رشتہ داروں، قرابت مندوں سےکہا کہ تم میں کون ایسا ہے جو دنیا و آخرت میں میرا ساتھ دے۔ میرے کام آئے۔ حضرت علی(ع) نے کہا میں اس خدمت کو انجام دوں گا۔ میں دین و دنیا میں آپ کی خدمت کروں گا۔ آپ(ص) نے فرمایا ۔ اے علی(ع) ! دین و دنیا دونوں میں تم ہی میرے ولی ہو۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے حضرت علی(ع) کو بٹھا کے پھر لوگوں سے اپنی بات دہرائی اور پوچھا کہ تم میں کون شخص ہے جو میرا مددگار ہو دنیا میں اور آخرت میں۔ سب نے انکار کیا صرف ایک حضرت علی(ع) ہی تھے جنھوں نے کہا کہ میں آپ کی مدد و نصرت کروں گا دین و دنیا دونوں میں یا رسول اﷲ(ص) رسول اﷲ(ص) نے فرمایا کہ علی(ع) تم ہی میرے ولی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ علی(ع) پہلے وہ شخص ہیں جو جناب خدیجہ کے بعد رسول(ص) پر ایمان لائے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ(ص) نے اپنی ردا لی اور اسے علی(ع) وفاطمہ(س) و حسن(ع) و حسین(ع) کو اوڑھایا اور اس آیت کی تلاوت کی :

۱۷۷

 “ إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً.”

“ اے اہل بیت(ع) ! خدا بس یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر برائی اور گندگی کو اس طرح دور رکھے جیسا کہ دور رکھنا چاہیئے۔”

ابن عباس کہتے ہیں : اور علی(ع) ہی نے اپنی جان راہ خدا میں فروخت کی اور رسول اﷲ(ص) کی چادر اوڑھ کر رسول(ص) کی جگہ پر سورہے۔ در آںحالیکہ مشرکین پتھر برسارہے تھے۔

اسی سلسلہ کلام میں ابن عباس کہتے ہیں: کہ پیغمبر جنگ تبوک کے ارادے سے نکلے۔ لوگ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ حضرت علی(ع) نے پوچھا: یا رسول اﷲ(ص) ! میں بمرکاب رہوں گا؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، تم نہیں رہوگے۔ اس پر حضرت علی(ع) آبدیدہ ہوگئے تو آپ نے فرمایا : کہ یا علی (ع) ! تم اسے پسند نہیں کرتے کہ تم میرے لیے وسیے ہی یو جیسے موسی(ع) کے لیے ہارون تھے۔ البتہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہے۔ جنگ میں میرا جانا بس اسی صورت میں ممکن ہے کہ میں تمھیں اپنا قائم مقام چھوڑ کے جاؤں۔

نیز حضرت سرورِ کائنات(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:  کہ اے علی(ع) ! میرے بعد تم ہر مومن و مومنہ کے ولی ہو۔ ابن عباس کہتے ہیں:  کہ رسول اﷲ(ص) نے مسجد کی طرف سب کے دروازے بند کرادیے بس صرف علی(ع) کا دروازہ کھلا رکھا اور حضرت علی(ع) جنب کی حالت میں بھی مسجد

۱۷۸

 سے گزر جاتے تھے۔ وہی ایک راستہ تھا دوسرا کوئی راستہ ہی نہ تھا۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ (ص) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: میں جس کا مولا ہوں علی(ع) اس کے مولا ہیں۔”

اس حدیث میں من کنت مولاہ کو امام حاکم نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اگر چہ شیخین بخاری و مسلم نے اس نہج سے ذکر نہیں کیا۔

علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

اس حدیث سے ثبوت خلافت امیرالمومنین(ع)

اس عظیم الشان حدیث میں امیرالمومنین(ع) کے ولی عہد رسول(ص) اور بعد رحلت سرورِ کائنات خلیفہ و جانشین ہونے کے بعد جو قطعی دلائل اور روشن براہین ہیں وہ آپ کی نگاہوں سے مخفی نہ ہوں گے۔ ملاحظہ فرماتے ہیں آپ اندازہ پیغمبر(ص) کا کہ حضرت علی(ع) کو دینا و آخرت میں اپنا ولی قرار دیتے ہیں۔ اپنے تمام رشتے داروں، قرابت داروں میں بس علی(ع) ہی کو اس اہم منصب کے لیے منتخب فرماتے ہیں۔ دوسرے موقع پر حضرت علی(ع) کو وہ منزلت و خصوصیت عطا فرماتے ہیں جو جناب ہارون کو جناب موسی(ع) سے تھی۔ جتنے مراتب و خصوصیات جناب ہارون کو جناب موسی(ع) سے حاصل تھے۔ وہ سب کے سب حضرت علی(ع) کو مرحمت فرمائے جاتے ہیں سوائے درجہ نبوت کے ۔ نبوت کو مستثنی کرنا دلیل ہے کہ نبوت کو چھوڑ کر جتنے خصوصیات

۱۷۹

جناب ہارون کو حاصل تھے وہ ایک ایک کر کے حضرت علی(ع) کی ذات میں مجتمع تھے۔

آپ اس سے بھی بے خبر نہ ہوں گے کہ جناب ہارون کو منجملہ  دیگر خصوصیات کے سب سے بڑی خصوصیت جو جناب موسی(ع) سے تھی وہ یہ کہ جناب ہارون جناب موسی(ع) کے وزیر تھے۔ آپ کے قوت بازو تھے۔ آپ کے شریک معاملہ تھے اور آپ کی غیبت میں آپ کے قائم مقام ، جانشین و خلیفہ ہوا کرتے اور جس طرح جناب موسی(ع) کی اطاعت تمام امتِ پر فرض تھی اسی طرح جناب ہارون کی اطاعت بھی تمام امت پر واجب و لازم تھی اس کے ثبوت میں یہ آیات ملاحظہ فرمایئے:

             خداوند عالم نے جناب موسی(ع) کی دعا کلام مجید میں نقل فرمائی ۔ جناب موسی نے دعا کی تھی۔

“وَ اجْعَل لىّ‏ِ وَزِيرًا مِّنْ أَهْلىِ هَارُونَ أَخِى اشْدُدْ بِهِ أَزْرِى‏ وَ أَشْرِكْهُ فىِ أَمْرِى‏”

“ معبود میرے گھر والوں میں سے ہارون کو میرا وزیر بنا ان سے میری کمر مضبوط کر اور انھیں میرے کارِ نبوت میں شریک بنا۔”

دوسرے موقع پر جناب موسی (ع) کا قول خداوند عالم نے قرآن میں نقل کیا ہے:

“اخْلُفْني‏ في‏ قَوْمي‏ وَ أَصْلِحْ وَ لا تَتَّبِعْ سَبيلَ الْمُفْسِدينَ” ( اعراف، 142)

“ اے ہارون تم میری امت میں میرے جانشین رہو،

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639