دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)9%

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 639

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 639 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 272268 / ڈاؤنلوڈ: 6389
سائز سائز سائز
دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

دین حق مذہبِ اہلِ بیت(ع)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

دین حق

مذہبِ اہلِ بیت(ع)

تالیف

آیت اﷲ عبدالحسین شرف الدین موسوی قدس سرہ

ناشر

تبلیغات ایمانی  ہند

۱

کتاب دین حق، مذہب اہل بیت(ع)

تالیف آیت اﷲ عبدالحسین شرف الدین(رح)

کتابت سید جعفر صادق

ناشر   تبلیغات ایمانی ھند ۱۵۹ـنجفی ہاؤس۔ نشان پاڑہ روڈ بمبئی ۹

تعداد ۵۰۰۰

صفحات ۶۴۰

اشاعت کاسال       اگست ۱۹۸۷ء

۲

پیش لفظ

شہرہ آفاق کتاب ” المراجعات “ کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں لبنان اور ایران سے کئی مرتبہ چھپ چکی ہے۔ اردو کا ترجمہ بھی اب تک تقریبا تین دفعہ چھپ چکا ہے۔

شیعہ سنی اختلاف پر اب تک بے انتہاء کتابیں چھپ چکی ہیں لیکن اس موضوع پر تحریر کی جانے والی کتب میں سے یہ کتاب اپنےمنفرد انداز و خصوصیات کی وجہ سے ایک خاص مقام رکھتی ہے۔

پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ اس کتاب کے دونوں فریقین جن کے درمیان یہ خط وکتابت انجام پائی ہے ، ہر قسم کے بغض و کینہ اور قوی تعصبات سے پاک ہیں، دونوں میں اسلامی مقاصد و مصالح کے حصول کا جذبہ بطور کامل موجود ہے۔ امت مسلمہ پر گزرنے والی روئیداد سے آشنا ہوتے ہوئے عالم

۳

اسلام کے زبردست حامی ہیں۔ ان دونوں کا مقصد ہرگز شیعہ سنی بحث کو چھیڑنا اور اس کے نتیجہ میں امت کی صفوف میں اخلافات اور تفرقہ کے مواقع فراہم کرنا نہیں بلکہ نہایت ہی شائستہ ماحول میں ” مذہبِ اہلبیت(ع)“ کو سمجھنا اور اس سلسلہ میں موجود مغرض اور متعصب و جاہل افراد کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہے، ” مذہبِ اہل بیت(ع)“ پر سے پڑے ہوئے ان پردوں کو ہٹانا ہے جنھیں تنگ نظر اور منفعت پرست افراد نے ڈال کر امتِ مسلمہ کو اس مکتب عظیم سے دور کیا ہے۔

سنی و شیعہ دونوں ہی عالم دین، اسلامی روح سے سرشار نظر آتے ہیں۔ حق پرستی کا جوہر کتاب کے مختلف حصوں میں بکثرت قابلِ مشاہدہ ہے۔ پھر دونوں ہی اپنے اپنے مکتبہ فکر میں صف اول کے علماء میں سے ہیں، اور اپنے زمانہ میں حرفِ آخر شمار کیے جاتے تھے۔ اہل سنت کے محترم عالم جناب شیخ سلیم البشری ہیں جو اہلسنت والجماعت کی بین الاقوامی مرکزی علمی درسگاہ جامعة الازہر کے شیخ اور سربراہ ہیں۔ دوسری طرف حضرت آیت اﷲ سید شرف الدین الموسوی ہیں جو اس زمانے میں شیعوں کے سب سے بڑے علمی مرکز نجف اشرف میں صف اول کے اساتید میں شمار ہوتے تھے۔

مناظرہ کی اکثر کتب میں جدال و خطابہ کا رنگ غالب ںظر آتا ہے جب کہ اس کتاب کے امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں پر اکثر علمی و برھانی روشِ استدلال کو اختیار کیا گیا ہے۔ آیت اﷲ مرحوم کا استدلال مضبوط اور مستحکم ادلہ پر استوار نظر آتا ہے۔ مسئلہ کے اختلافی و حساس ہونے کے باوجود، ادب و متقابل احترام کے دائرہ میں رہتے ہوئے نہایت شستہ زبان استعمال کی گئی ہے۔

۴

پھر کچھ ایسے مسائل اور موضوعات بھی مختلف مناسبتوں سے زیر بحث آئے ہیں جو کلام یا دوسری کتابوں میں کمتر پائے جاتے ہیں۔ مثلا تاریخ اسلام میں شیعوں کا حصہ۔ شیعہ اصحاب روایت کی علمی خدمات اور ان کا سنی کتب و مصادر میں تذکرہ، ایسے موضوعات ہیں جن میں کم از کم اردو زبان میں بہت کم لکھا اور بولا گیا ہے۔

ان تمام خصوصیات اور بہت سی دوسری خوبیوں نے اس کتاب کی افادیت و اہمیت میں خاطر خواہ اضافہ کردیا ہے  جس کی وجہ سے یہ کتاب کلام کی علمی کتب میں شمار کی جاتی ہے۔

ہم نے اسے طباعت کے زیور سے از سر نو آراستہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے کہ حق کے متلاشیوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکے گی۔

                                             ناشر

۵

عالیجناب شیخ سلیم البشری

( عالم اہل سنت کے مختصر حالات زندگی)

جناب شیخ سلیم البشری جو مالکی مسلک رکھتے تھے سنہ۱۲۴۸ھ مطابق سنہ۱۸۳۲ء میں ضلع سجیزہ کے محلہ بشر میں پیدا ہوئے اور جامعہ الازہر ( قاہرہ، مصر) میں تعلیم حاصل کی۔

بعد میں دو مرتبہ اس عظیم الشان درسگاہ کے انچارج بھی قرار پائے۔ ایک دفعہ سنہ۱۳۱۷ھ مطابق سنہ۱۹۰۰ء سے سنہ۱۳۲۰ھ مطابق سنہ۱۹۰۴ھ تک اور دوسری دفعہ سنہ۱۳۲۷ھ مطابق سنہ۱۹۰۵ء سے سنہ ۱۳۳۵ھ مطابق سنہ۱۹۱۶ء تک۔

آپ ہی کے زمانہ میں جامعہ الازہر میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے خواہشمند حضرات کے لیے امتحان کی بنیاد رکھی گئی جس میں بکثرت اہل علم نے شرکت کی۔

آپ نے جامعہ الازہر کو پورے نظم و ضبط کے ساتھ چلایا اور انچارج

۶

 ہونے کی حیثیت سے  جو ذمہ داریاں آپ پر عائد تھیں انھیں درس و تدریس میں حائل نہ  ہونے دیا ( بلکہ شیخ الجامعہ ہونے کے ساتھ ساتھ طلبہ کو درس بھی دیتے رہے)

آپ کی قلمی نگارشات بہت ہیں جن کا زیادہ حصہ قدیم علماء کی کتابوں پر حاشیہ اور گفتار مقدم کے عنوان سے ہے۔ مثلا :

 ادب کے موضوع پر  : حاشة تحفة الطلاب لشرح رسالة الآداب

 توحید کے موضوع پر :حاشية علی رسالة الشيخ علی

  علم نحو کے موضوع پر : الاستئناس فی بيان الاعلام و اسماء الاحباس جس میں نحوی مطالب پر بحث کی گئی ہے اور یہ ( اتنی اعلی درجہ کی کتاب ہے کہ) جامعة الازہر میں درس و تدریس کے سلسلہ میں اس کتاب پر بہت زیادہ اعتماد کیا گیا ہے۔

جناب شیخ سلیم البشری نے سنہ۱۳۳۵ھ مطابق سنہ ۱۹۱۶ء میں وفات پائی (۱)

--------------

۱:- حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو کتاب “ الازہر فی ۱۲ عاما” صفحہ ۵۳

۷

عالی جناب آقائے سید عبدالحسین شرف الدین موسوی ( علیہ الرحمہ)

کے مختصر حالات زندگی

( ممتاز شیعہ عالم) جناب علامہ سید عبدالحسین شرف الدین موسوی علیہ الرحمہ کاظمین( عراق) میں سنہ۱۲۹۰ھ مطابق سنہ۱۸۷۲ء میں پیدا ہوئے۔ کاظمین اور نجف اشرف میں تعلیم حاصل کی اور اس زمانے کے انتہائی بلند مرتبہ عالم دین جناب آقائے شیخ کاظم الخراسانی ( صاحب  کفایہ)  سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔

عراق کی سرزمین پر فرانس کی سامراجی حکومت کے خلاف انقلابی اقدامات آپ ہی کے زمانہ میں شروع ہوئے جن میں آپ مثبت حصہ لیا۔ جس کی پاداش میں آپ کے اس نہایت قیمتی کتب خانہ کو جلا دیا گیا جو اسلامی علوم و معارف کا خزینہ تھا۔ اس میں آپ کے نہایت بیش قیمت مخطوطات بھی نذر آتش کردیے گئے اور آپ کو گرفتار کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

۸

اس موقع پر آپ نے مناسب سمجھا کہ اپنی آواز کو تمام اسلامی ممالک تک پہنچانے کے لیے سفر کریں، چنانچہ آپ دمشق تشریف لے گئے اور وہاں سے فلسطین اور مصر کا سفر کیا۔

اور مصر ہی میں اس زمانہ کے شیخ الازھر جناب شیخ سلیم البشری سے آپ کے مسلسل مذاکرات ہوئے اور ان ہی مذاکرات کے نتیجے میں یہ کتاب ترتیب پائی۔

مولانائے موصوف نے متعدد موضوعات پر نہایت قیمتی کتابیں تحریر فرمائی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :

۱ـ المرجعات ۲ـ الفصول المهمه ۳_ اجوبه مسائل جار الله ۴_ الکلمه الغراء فی تفضيل الزهراء. ۵_ المجالس الفاخره ۶_ النص والاجتهاد. ۷_  فلسبه الميساق والولايه ۸_ ابوهريره بغيه الراغبين ۹_ المسائل الفقهيه ۱۰_ ثبت الاثبات فی سلسله الرواه ۱۱_ الی المجمع العلمی العربی بدمشق.۱۲_ رسائل و مسائل ۱۳_ رساله کلاميه.....

اور ان کے علاوہ وہ بکثرت تالیفات جنھیں دشمنان دین و ادب نے نذر آتش کردیا۔

آپ نے اس کے ساتھ بہت سے دینی و اجتماعی منصوبے بھی شروع کیے تھے جن کے ذکر کا موقع نہیں۔

آقائے شرف الدین موسوی نے سنہ۱۳۷۷ھ مطابق سنہ۱۹۵۷ء میں رحلت فرمائی۔

۹

کتاب ہذا سے متعلق علمائے اعلام کے مکتوبات

شام کے ایک معزز عالم دین

علامہ شیخ محمد ناجی غفری کا مکتوب گرامی

آقائے محترم و استاد مکرم آقائے شرف الدین عبدالحسین صاحب قبلہ دام مجدہ

قبلہ محترم !

میں نے آپ کی کتاب “ المراجعات” کا مطالعہ کیا اور اسے ایک ایسی کتاب پایا جو روشن و محکم دلائل و براہین سے مالال مال ہے۔ پروردگار عالم آپ کو پوری قوم کی طرف سے جزائے خیر دے کہ آپ نے حکمت و دانائی اور فیصلہ کن انداز اختیار فرمایا ہے۔

اگر کوچھ دشواریاں اور مشکلات سدِ راہ نہ ہوتیں تو اب تک میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دست بوسی کا شرف حاصل کرچکا ہوتا لیکن امید ہے کہ بہت جلد میں آپ کے چہرہ انور کی زیارت کی سعادت حاصل کرسکوں گا۔

میں نے ( آپ کی کتاب پرھنے کے بعد) اپنا سابق مذہب حنفی ترک

۱۰

کردیا اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے مذہب کو اختیار کر لیا ہے۔

آپ سے التماس ہے کہ کوئی ایسی کتاب میرے لیے بھیجیں جس سے میں اس مذہب کے احکام  ومعارف سے پوری طرح واقف ہوسکوں۔

                                                             والسلام

                                             محمد ناجی غفری(۱۸ صفر سنہ ۱۳۷۰ھ)

ان ہی عالم دین کا دوسرا مکتوب گرامی

بخدمت عالیجناب آقائے سید عبدالحسین شرف الدین صاحب دام مجدہ

سلام علیکم : مزاج شریف !

جناب محترم شرف الدین صاحب ! آپ تو میرے مہربان و پاسبان، میرے رشد اور راہ حق و صراطِ مستقیم تک پہنچنے کا سب سے بڑا وسیلہ ثابت ہوئے۔ میں حضرت محمد و آل محمد علیہم السلام کے وسیلہ سے پروردگار عالم کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ آپ کا سایہ مومنین کے سروں پر تا دیر سلامت رکھے کیوںکہ ان کی سعادت و خیر خواہی آپ کی ذاتِ والا صفات سے وابستہ ہے۔

میں خداوند عالم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے آج تک نہ آپ جیسا کوئی عالم ملا، نہ میں نے آپ جیسی صفات رکھنے والے کسی عالم کے بارے میں سنا۔ آپ اپنے جد اعلیٰ حضرت رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کی شریعتِ مقدسہ کی طرف سے دفاع کررہے ہیں اور وہ منحرف و گمراہ لوگ جو حق پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں ان کی سازشوں کو طشت ازبام کر رہے ہیں اور ان کے سامنے ایسی محکم دلیلیں اور روشن برہان قائم کر رہے ہیں جن کا نہ تو کوئی جواب سے سکتے ہیں۔ نہ ان دالائل

۱۱

سے انکار کی ہمت کرسکتے ہیں( اور گو ایسی روشن دلیلوں کے بعد بھی) جو لوگ مذہبِ حق کو قبول نہ کریں اور حق وباطل میں امتیاز نہ کریں ان کے لیے بدبختی اور عذاب یقینی ہے۔ پروردگار عالم آپ کو جزائے خیر دے ( کہ آپ نے حق کو آشکار کیا)

                                                             والسلام

                                             محمد ناجی غفری۔ ۱۵ ربیع الثانی سنہ۱۳۷۰ھ

مولانائے موصوف کا تیسرا مکتوب گرامی

بخدمت جناب آقائے سید عبدالحسین شرف الدین موسوی دام مجدہ

سلام علیکم!

جناب محترم !

میں آپ کی ذاتِ والا صفات پر فخر کرتا ہوں۔ میرا دل بلکہ میرے تمام اعضاء و جوارح آپ کی عظمت کے تصور سے مالا مال ہیں اور دنیا بھر کے اہل علم کے درمیان آپ کے فضل و شرف کا بھر پورا اعتراف کرتے ہیں۔

کیوںکہ آپ نے اپنے قلم مبارک سے بہت سی اقوام و ملل کو حیات نو بخشی اور ضلالت و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر انھیں ہدایت کی روشنی سے منور کیا اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا انکار کرنے والا یا تو اپنی جہالت کے سبب انکار کرے گا یا طبیعت کی سرکشی اور عناد کی بناء پر۔

اور دارالسلطنت میں میں نے جناب۔۔۔۔۔ سے ملاقات کی اور ان سے مذاکرات بھی کیے۔

۱۲

وہ حضرت ۔۔۔۔(۱) ۔۔۔۔ بہت بڑے قاضی کے منصب پر فائز ہیں ( اور بہت زیادہ اثر و رسوخ کے مالک بھی ہیں) میں نے ان سے بحث و مباحثہ کیا تو بحمدہ تعالی وہ پوری طرح سے مذہب حق کی طرف مائل ہوگئے ہیں۔

چنانچہ آپ کی کتاب “ المراجعات” میں نے ان کی خدمت میں پیش کر دی ہے جسے انھوں نے پڑھا اور آپ کے حیرت انگیز دلائل نے انھیں تعجب و مسرت کے دوراہے پر پہنچا دیا۔

کیونکہ آپ نے اپنے علم کے بحر ذخائر اور قلم کے شاہکار سے ان کے لیے اس امر کو ممتاز و نمایاں کردیا کہ دونوں راستوں میں سے حق و صداقت کا راستہ کون سا ہے۔

                                                             والسلام ۔ آپ کا مخلص

                                                             محمد ناجی غفری۔ ۱۷ محرم سنہ۱۳۷۳ھ

حجہ الاسلام علامہ شیخ محمد حسین المظفر

کا مکتوب گرامی

مجاہد ملت حجہ الاسلام علامہ سید عبدالحسین شرف الدین دامت برکاتہ کے نام۔۔۔۔

سلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ!

آپ کی مساعی جمیلہ کو شرق غربِ عالم میں جو پذیرائی اور مقبولت و محبوبیت

--------------

۱:- بعض خصوصی مصالح کی بناء پر اس جگہ قاضی مذکور کا نام اور ان سے متعلق متعدد باتیں جو خط کے اندر موجود تھیں اس کتاب کی طباعت کے موقع پر حذف کردی گئی ہیں۔

۱۳

حاصل ہوئی ہے وہ لائق تعجب ہرگز نہیں ہے کیونکہ آپ راہِ خدا کے ایک ایسے مجاہد اور حق کا ایسا دفاع کرنے والے ہیں جو عنفوانِ حیات سے مسلسل خدمتِ دین اور نصرتِ شریعت سید المرسلین صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کے خوگر ہیں۔

آپ کو دین کی خدمت کرتے ہوئے نہ کسی قسم کی تکان محسوس ہوتی ہے نہ پریشانی۔ نہ اضطراب نہ تردد( بلکہ جہاد مسلسل کو آپ نے اپنی زندگی کا شعار بنا رکھا ہے اور پروردگار عالم کا وعدہ ہے کہ ) :

ووالذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا

( اور جو لوگ ہماری راہوں میں جہاد کرتے ہیں ان کے لیے ہم راہوں کو نمایاں کر دیتے ہیں) اور یقینا ان مجاہدین کو صراط مستقیم پر گامزن رکھتا ہے۔

اور مجھے اس دن انتہائی مسرت ہوئی جب حلب ( شام ) کے شیخ محمد۔۔۔۔ کا مجھے خط موصول ہوا۔

۱۴

مکتوب نمبر ۱

میرا سلام ہو شریف النفس عالم بزرگ جناب عبدالحسین شرف الدین موسوی اور ان پر خدا کی رحمت و برکت ہو۔

جناب عالی ، میں زمانہ گزشتہ میں شیعوں کے اندرونی مسائل سے با خبر نہیں تھا اور نہ مجھے ان کے سلوک و رفتار کی خبر تھی ۔ کیوںکہ میری نہ کسی کے ساتھ نشست و برخاست تھی اور نہ ان کے عوام الناس کے اندرونی حالات کا میں نے جائزہ لیا تھا۔ مجھے یہ شوق تو تھا کہ میں ان کے بزرگان کی تقریر سنوں لیکن عالم پبلک سےمیں ہمیشہ دور رہا نہ ان کے افکار اور آراء سے بحث کی اور نہ ان کے نظرایات  میں مداخلت کی۔

۱۵

البتہ جب خداوند عالم نے مجھے یہ توفیق عطا کی کہ میں آپ کے علوم و معارف کے سمندر کے کنارے پہنچوں اور ساغرِ لبریز سے اپنی پیاس بجھاؤں تو بحمد اﷲ آپ نے نہایت شیرین پانی سے مجھے سیراب کیا۔ میری علمی تشنگی کو دور کیا اور علوم الہی کے شہر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اور باب مدینہ علم حضرت علی مرتضی علیہ السلام جو آپ کے اجداد کرام تھے ان کے معارف سے مجھے اس طرح سیراب کیا کہ اس سے زیادہ شیرین جام کسی پیاسے کو نہ ملا ہوگا اور نہ کسی بیمار کو ایسی شفا ملی ہوگی جیسی شفا مجھے آپ کے بحرِ ذخار سے ملی۔

میں لوگوں سے سنتا رہتا تھا کہ آپ شیعہ حضرات اپنے سنی بھائیوں سے ملنا پسند نہیں کرتے ان سے اجتناب کرتے ہیں، تنہائی کو پسند کرتے ہیں اور ہمیشہ گوشہ نیشینی اختیار کیے رہتے ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔اور اسی قسم کی باتیں میں سنا کرتا تھا۔

لیکن جب میں آپ کو دیکھا تو پتہ چلا کہ آپ انتہائی لطیف اور پاکیزہ مزاج کے انسان ہیں۔ بحث و مباحثہ کی گہرائی تک اترتے ہیں، تبادلہ خیالات کے آزرو مند رہتے ہیں، مناظرہ میں انتہائی قوی اور بہادر ہیں، آپ کی گفتگو بہت پاکیزہ، آپ کا سلوک بہت شریفانہ ، آپ سے تعلق لائق تشکر اور آپ سے گفتگو بہایت لائق تحسین ہے۔ اس لیے اب میری رائے یہ ہے کہ شیعہ حضرات محفل کی خوشبو اور ادب و تہذیب کی آرزوں کا مرکز ہیں۔

مناظرہ کی اجازت

جناب عالی ! اب جبکہ میں آپ کے اوقیانوسِ علم کے ساحل پر کھڑا ہوں آپ سے اجازت طلب کرتا ہوں کہ مجھے اس کی گہرائیوں تک اترنے کا اور

۱۶

جواہر تلاش کرنے کا موقع عطا فرمائیے۔ تو اگر آپ نے مجھے اجازت دی تو میں ان باریکیوں اور الجھنوں کو آپ کی خدمت میں پیش کروں گا جو مدت دراز سے میرے سینہ میں موجزن ہیں اور اگر آپ نے اجازت نہ عطا فرمائی تو بھی آپ مختار کل ہیں کیونکہ میں جن باتوں کو پوچھنا چاہتا ہوں ان میں نہ تو کسی لغزش کا طلب گار ہوں نہ کسی بات کا پردہ فاش کرنا چاہتا ہوں ۔ نہ فتنہ انگیزی میرا مقصود ہے اور نہ اس سلسلہ میں کوئی برا ارادہ رکھتا ہوں بلکہ ایک تلاش گمشدہ کی طرح میں اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتا ہوں اور حقیقت کو پہچاننا چاہتا ہوں۔ کیونکہ حق اگر واضح ہوجائے تو انسان کو اسی کی پیروی کرنا چاہئیے اور اگر حق واضح نہ بھی ہوسکا تو میں شاعر کے اس شعر پر عمل پیرا رہوں گا کہ :

                                     نحن بما عندنا و انت بما عندک

                                     راض      والرای      مختلف

“ اگر چہ ہماری رائیں مختلف ہیں لیکن آپ اپنے نظریہ پر خوش رہیں ہم اپنے مسلک پر راضی رہیں ۔ ”

اگر آپ نے بحث کی اجازت دے دی تو میں صرف دو مسائل پر آپ سے رائے طلب کروں گا۔

نمبر ۱ ۔ آپ کے مذہب میں امامت کی اصول اور فروعی حیثیت ۔

اور نمبر ۲ ۔ وہ عمومی امامت جو حضرت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے طور پر کسی کو حاصل ہوتی ہے۔

میں اپنے ہر خط کے اختتام پر دستخط کی جگہ “ س” لکھا کروں گا اور آپ اپنے دستخط کی جگہ “ ش” لکھ دیا کیجیے گا۔ آخر میں اپنی ممکنہ لغزشوں سے معذرت چاہتا ہوں۔

۱۷

جوابِ مکتوب

مناظرہ کی اجازت

عالیجناب شیخ الاسلام دام مجدہ

اسلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ

آپ کا مکتوب گرامی موصول ہوا۔ آپ نے خط کی شکل میں وہ نعمتِ فراواں بھیجی اور میرے لیے ایسے نفیس خیالات کا اظہار کیا جن کا حق ادا کرنے سے زبان قاصر ہے اور جس کے شکریے سے میں زندگی بھر عاجز ہوں۔

آپ نے اپنی آرزؤوں کو مجھ سے وابستہ کیا اور بلند توقعات قائم کیں جبکہ آپ کی ذات لوگوں کی امیدوں کا مرکز اور ان کے افکار و نظریات کی پناہ گاہ ہے جہاں لوگوں کی امیدیں آپ سے وابستہ رہتی ہیں اور وہ آپ کے وسیع و عریض دہلیز پر اتر کر آپ کے علم سے فیضیاب ہوتے ہیں، آپ کے فضل و شرف  کی بارش سے سیراب ہوتے ہیں، اس لیے مجھے امید ہے کہ میں بھی اپنی امیدوں میں کامیاب ہوں گا اور جو تمنائیں میں نے وابستہ کر رکھی ہیں وہ قوی ثابت ہوں گی۔

آپ نے گفتگو کی اجازت چاہی ہے جبکہ آپ صاحب اختیار ہیں جیسا حکم فرمائیں جس بات کے بارے میں چاہیں دریافت کریں۔ جس طرح چاہیں ارشاد فرمائیں آپ صاحب فضل بھی ہیں آپ کی گفتگو فیصلہ کن بھی ہوگی اور انشاء اﷲ آپ جو حکم فرمائیں گے وہ عدل کے مطابق ہوگا۔

                                             والسلام

۱۸

مکتوب نمبر۲

شیعہ بھی حضرات اہلسنت کا مسلک کیوں نہیں اختیار کر لیتے؟

مولانائے محترم ! تسلیمات زاکیات!!

اس کی وجہ آپ بتاسکتے ہیں کہ آخر آپ لوگ بھی وہی مذہب کیوں نہیں اختیار کر لیتے جو جمہور مسلمین کا مذہب ہے؟

جمہور مسلمین کا مذہب یہ ہے کہ وہ اصول دین اور عقائد میں اشاعرہ کے ہم خیال ہیں اور فروع دین میں ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل میں سے کسی ایک کے مقلد ہیں۔ آپ بھی اصولِ دین میں اشاعرہ کا مسلک اختیار فرمائیں اور فروعِ دین فرائض و عبادات میں مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک  کے پابند ہوجائیے، چاہے امام ابو حنیفہ کی تقلید کیجیے یا امام شافعی کی یا امام مالک کی ایا احمد بن حنبل کی ۔ کیونکہ یہی مذہب ایک ایسا مذہب ہے کہ

۱۹

 سلف صالحین بھی اسی کے پابند رہے اور اسی کو بہتر و افضل سمجھتے رہے۔ نیز ہر زمانہ اور ہر خطہء ارض کے جملہ مسلمانوں کا مذہب بھی یہی رہا اور سب کے سب ان ائمہ اربعہ کی عدالت ، اجتہاد، زہد و ورع ، تقدس و پرہیز گاری، پاکیزہ نفسی، حسنِ سیرت اور علمی و عملی جلالتِ قدر پر ابتدا سے لے کر آج تک بیک دل و زبان  متفق رہے ہیں۔

اتحاد و اتفاق کی ضرورت

یہ بھی غور فرمائیے کہ اس زمانے میں ہم لوگوں کے لیے اتحاد و اتفاق کس قدر ضروری ہے۔ دشمنانِ اسلام ، ہم مسلمانوں کے خلاف محاذ قائم کیے ہوئے ہیں، ایذا رسانی پر کمر باندھ لی ہے دل و دماغ اور زبان کی ساری طاقتیں ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں۔

اتحاد جہور اہلسنت کا مذہب اختیار کرنے ہی سے ہوسکتا ہے۔

ہم لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور فرقہ بندی سے اپنے خلاف دشمنوں کی مدد کررہے ہیں۔ لہذا ایسی حالت میں ہم لوگوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ ایک مرکز پر جمع ہوجائیں۔ ایک نقطہ پر سمٹ آئیں اور یہ اتفاق و اتحاد جب ہی ہوسکتا ہے کہ ہمارا مسلک و مذہب بھی ایک ہو، آپ لوگ بھی اس مذہب کو اختیار کر لیں جسے عامة المسلمین اختیار کیے ہوئے ہیںِ۔

کیا میرا رائے سے آپ کو اختلاف ہے ؟ خدا کرے اس پراگندگی

۲۰

فقال لا هله إمكثوا ...لعلى ء اتيكم منها بقبس

۸ _ آگ كا ظاہر ہونا اور حضرت موسى (ع) كو رسالت عطا كرنے كيلئے خلوت كا فراہم ہونا ايك اہم اور پيغمبر اكرم(ص) كيلئے قابل توجہ واقعہ تھا _هل ا تى ك حديث موسى إذ رء ا نارا

''إذ'' ظرف ہے ''حديث'' كيلئے جو سابقہ آيت ميں تھا اور اس آيت كريمہ ميں استفہام پيغمبر اكرم(ص) كو اس ماجرا كى طرف توجہ كى ترغيب دلانے كيلئے ہے_

۹ _ فطرى اور قدرتى امور انبياء كو رسالت عطا كرنے كے بارے ميں خداتعالى كے ارادے كے عملى ہونے كيلئے تجلى گاہ ہيں _

قدرتى مقدمات ( راستہ گم كردينا ، آگ كى ضرورت كا احساس اور ...) فراہم كركے حضرت موسى كو كوہ طور پر كھينچ لانا _ جيسا كہ بعد والى آيات سے معلوم ہوتاہے مذكورہ نكتے كو بيان كررہاہے)إذ رء اناراً لعلى ء اتيكم منها بقبس

انبياء:انكى نبوت كا سرچشمہ ۹

گھرانہ:اسكى ضروريات پورى كرنا ۷

خداتعالى :اسكے ارادے كى تجلى گاہ ۹

عمل:پسنديدہ عمل ۷

قدرتى عوامل:انكا كردار ۹

كوہ طور:اسكى آگ ۳، ۴، ۵، ۶_اسكى آگ كى اہميت ۸

محمد(ص) :آپ(ص) اور حضرت موسى كا قصہ ۸

موسى (ع) :انكے قصے كى اہميت ۸; انكى بشارتيں ۳; انكے گھر والے ۴، ۶; انكے گھروالوں كى سرگردانى ۱; انكى سرگردانى ۱ ، ۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; انكے گھروالوں كا رات كا سفر ۱; ۱نكا رات كا سفر۱; آپ وادى طوى ميں ۳، ۴; آپ كوہ طور ميں ۵; آپكے ہم سفر ۳،۴

۲۱

آیت ۱۱

( فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِي يَا مُوسَى )

پھر جب موسى اس آگ كے قريب آئے تو آواز دى گئي كہ اے موسى (۱۱)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے آگ ديكھنے كے بعد اپنے گھر والوں سے جدا ہوكر آگ كى طرف حركت كى _

رء ا نار اً فلما ا تيه

۲ _ جس آگ كا حضرت موسى نے مشاہدہ كيا تھا وہ واقعى چيز تھى اور حضرت موسى نے اپنے آپ كو اس تك پنہچايا _

فلما ا تيه

۳ _ حضرت موسى (ع) جب آگ كے قريب پہنچے تو آپ نے ايك آواز سنى كہ جس ميں حضرت موسى (ع) كو نام كے ساتھ پكارا جارہا تھا_فلما اتيها نودى يا موسى

۴ _ ''يا موسى ''كى صدا اچانك تھى اور جو نہى حضرت موسى (ع) وہاں پہنچے فوراً انہيں اسكے ساتھ مخاطب كيا گيا_

فلما ا تيها نودى يا موسى

۵ _ حضرت موسى (ع) نے ''يا موسى '' كى آواز دينے والے كو نہ پہچانا _نودى يا موسى

''نودي''كا مجہول آنا اور بعد والى آيت ميں جملہ ''فإنى ا نا ربك'' بتاتا ہے كہ حضرت موسى نے آواز سننے كے بعد پہلے مرحلے ميں اس آواز دينے والے كو نہ پہچانا _

كوہ طور:اسكى آگ ۱; اسكى آگ كى حقيقت ۲

موسى (ع) :انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; انكو ندادينے والا ۵; آپ كوہ طور ميں ۲، ۳، ۴; آپ كو ندا ۳، ۴

۲۲

آیت ۱۲

( إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى )

ميں تمھارا پروردگار ہوں لہذا اپنى جوتيوں كو اتار دو كہ تم طوى نام كى ايك مقدس اور پاكيزہ وادى ميں ہو (۱۲)

۱ _ صحرائے سينا ميں واقع وادى طوى ميں خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كے ساتھ بات كى _

ى موسى إنى ا نا ربك إنك بالواد المقدس طويً

''واد'' وادى كا مخفف ہے يعنى پہاڑوں كے درميان كى وہ جگہ كہ جہاں سے سيلاب گزرتا ہے ( مصباح) ''طوي'' ممكن ہے كوہ طور كے نيچے والے درے كا نام ہو ( لسان العرب) اس صورت ميں يہ ( الواد المقدس) كيلئے عطف بيان يا بدل ہوگا اور ممكن ہے يہ گھڑى اور لخطے كے معنى ميں ہو(لسان العرب) تو اس صورت ميں يہ ظرف ہوگا '' المقدس'' كيلئے يعنى وہ درّہ كہ جو كچھ وقت (اشارہ ہے خداتعالى كے حضرت موسى كے ساتھ ہم كلام ہونے كے لحظے كى طرف)كيلئے مقدس ہوگيا ہے _

۲ _ خداتعالى نے موسى كے ساتھ مخاطب ہوتے ہوئے انہيں اپنا تعارف كرايا او رسمجھايا كہ تو اپنے پروردگار كے حضور ميں ہے اوراسكى كلام سن رہا ہے _ياموسى إنى ا ناربك

۳ _ وادى طوى ميں خداتعالى كا موسى (ع) كے ساتھ ہم كلام ہونا خداتعالى كى حضرت موسى (ع) كى نسبت ربوبيت كا ايك جلوہ تھا _ياموسى إنى ا نا ربك

۴ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو حكم ديا كہ اپنے پروردگار كے حضور كے احترام ميں اپنے جوتے اتاركر مقدس وادى ميں ننگے پاؤں قدم ركھے _فاخلع نعليك انك بالواد المقدس طويً

۵ _ پروردگار كے حضور ميں اور اسكے كلام كو سنتے وقت ادب و احترام كا خيال ركھنا ضرورى ہے _

إنى ا نا ربك فاخلع نعليك

''فاخلع'' كى ''إنى ا ناربك'' پر تفريع بتاتى ہے كہ خداتعالى كے ساتھ بات كرتے وقت مكمل طور پر ادب كا خيال ركھنا ضرورى ہے_ اور چونكہ جب بھى خداتعالى انسان كے ساتھ بات كرتا ہے اس ميں كوئي نہ كوئي واسطہ ہوتا ہے اسلئے كہا جاسكتا ہے كہ قرآن اور ديگر كلمات الہى كى تلاوت كے وقت بھى ادب كى مكمل طور پر رعايت كرنا ضرورى ہے_مقدس مقامات كى حرمت كى حفاظت اور ان كا احترام كرنا ضرورى ہے،جملہ''انك بالواد ...'' ''فاخلع''كى علت بيان كرنے كيلئے ہے اور جس حكم كى علت واضح ہو اسے اس جيسے ديگر موارد ميں بھى اجرا كرنا ضرورى ہوتا ہے_

۲۳

۶ _مقدس مقامات كى حفاظت اور ان كا احترام كرنا ضرورى ہے_فاخلع نعليك إنك بالواد المقدس طويً

جملہ''إنك بالواد ...''،''فاخلع''كے لئے علت ہے اور پروہ حكم كہ جس كى علت ظاہر ہو دوسرے مشابہ مقامات پربھى لگايا جاتا ہے_

۷ _ جوتے اتاركر پابرہنہ ہوجانا مقدس مقامات كے احترام كاسب سے زيادہ واضح نمونہ ہے _فاخلع نعليكإنك بالواد المقدس طويً

۸ _ كوہ طور كے پاس واقع وادى طوى پاك و پاكيزہ اور لائق احترام سرزمين ہے _إنك بالواد المقدس طويً سرزمين مقدس يعنى وہ سرزمين جو طہارت معنوى ركھتى ہو (مفردات راغب)

۹ _ (كوہ طور سے نيچے ) سرزمين طوى ميں جوتوں كے ساتھ داخل ہونا، جائز نہيں ہے _فاخلع نعليكإنك بالواد المقدس طويً ''اخلع'' كے حكم كى''إنك بالواد المقدس'' كے ذريعے علت بيان كرنا بتاتا ہے كہ يہ حكم سب زمانوں ميں سب انسانوں كيلئے ہے_

۱۰ _ جن مقامات ميں خداتعالى اپنے انبياء اور اپنے بندوں كے ساتھ ہم كلام ہوتا ہے وہ پاك و پاكيزہ مقدس اور لائق احترام جگہيں ہيں _ياموسى إنيّ ا ناربك إنك بالواد المقدس طويً اگر چہ آيت كريمہ ميں وادى طوى كے تقدس كى دليل نہيں آئي ليكن مجموعى طور پر آيت كريمہ خداتعالى كے تكلم اور اس سرزمين كے تقدس كے ارتباط كو بيان كررہى ہے _ چا ہے پہلے سے اس كا مقدس ہونا بات كرنے كيلئے اس كے انتخاب كا سبب بنا ہو يا خداتعالى كا بات كرنا اسكے مقدس ہونے كا سبب بنا ہو _

۱۱ _''عن ا بى عبدالله (ع) قال: قال الله عزوجل لموسى (ع) '' فاخلع نعليك'' لا نّها كانت من جلد حمار ميت ; امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ خداتعالى نے موسى (ع) كو فرمايا ''فاخلع نعليك'' كيونكہ انكے جوتے گدھے كے مردار كى كھال كے بنے ہوئے تھے_(۱)

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۶۶ ب ۵۵ ح ۱، بحارالانوار ج ۱۳ ص ۶۴ ح ۱ _

۲۴

۱۲ _'' عن الصادق جعفر بن محمد (ع) إنّه قال: فى قول الله عزوجل لموسي(ع) ''فاخلع نعليك'' قال: يعنى إدفع خوفيك، يعنى خوفه من ضياع ا هله و قد خلفها تمخض،و خوفه من فرعون'' خداتعالى نے حضرت موسى كو جو فرمايا تھا ''فاخلع نعليك'' اسكے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا يعنى اپنے آپ سے دو خوف دور كردے اپنى بيوى كے فوت ہوجانے كا خوف كہ جسے بچہ پيدا كرنے كى حالت ميں چھوڑ كر آئے تھے اور فرعون كا خوف _(۱)

مقدس مقامات:انكا احترام ۶، ۷; ان ميں جوتے اتارنا ۷

خداتعالى :اس كا كلام سننے ميں ادب ۵; اسكے اوامر ۴; اسكے انبياء كے ساتھ ہم كلام ہونے كى جگہ كا پاكيزہ ہونا ۱۰; اسكے انبياء كے ساتھ ہم كلام ہونے كى جگہ كا تقدس ۱۰; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو ۲، ۳; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو كى جگہ ۱; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۳

وادى طوي:اس كا احترام ۸، ۹; اسكى پاكيزگى ۸; اس كا تقدس ۸; اسكى فضيلت ۱; اس ميں جوتے اتارنا ۹; اسكى جغرافيائي موقعيت ۸

روايت : ۱۱، ۱۲

موسى (ع) :انكو حكم ۴; انكا خوف ۱۲; انكى شرعى ذمہ دارى ۴; انكے جوتوں كى نوعيت ۱۱; ان كا قصہ ۱، ۲، ۴; انكا تربيت كرنے والا ۳; آپ وادى طوى ميں ۳; آپ خدا كے حضور ميں ۲، ۴; آپ كے جوتے ۴

آیت ۱۳

( وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى )

اور ہم نے كو منتخب كرليا ہے لہذا جو وحى كى جارہى ہے اسے غور سے سنو (۱۳)

۱ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو اپنے پيغمبر كے طور پر چن ليا اور وادى طوى ميں انہيں رسالت كيلئے منتخب ہونے

____________________

۱ ) علل الشرائع ص۶۶ ب ۵۵ ح ۲_ بحارالانوار ج ۱۳ ص ۶۴ ح ۲ _

۲۵

سے مطلع فرمايا _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى ''لما يوحى '' كے قرينے سے موسى (ع) كے منتخب ہونے سے مراد انكا پيغمبرى اور وحى الہى كا بوجھ اٹھانے كيلئے منتخب ہونا ہے _

۲ _ موسى (ع) خداتعالى كے برگزيدہ اور اپنے زمانے ميں وحى كے حاصل كرنے اور پيغام الہى كے پہچانے كيلئے بہترين شخص تھے _و ا نا ا خترتك ''اختيار'' مادہ ''خير'' سے ہے اور اس كا معنى ''اصطفائ'' ( ہر چيز ميں سے خالص كو اٹھالينا) ہے ( لسان العرب)

۳ _ انبياخداتعالى كى برگزيدہ ہستياں ہيں _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى

۴ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو رسالت كيلئے انتخاب كرنے كے بعد انہيں وحى كو دريافت كرنے اور اسے غور سے سننے كا حكم ديا _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى

۵ _ ( كوہ طور كے نيچے ) وادى طوى ميں خداتعالى كا حضرت موسى (ع) كے ساتھ بات كرنا،وحى كى صورت ميں تھا _

فاستمع لما يوحى

بعد والى آيت كريمہ ميں جملہ''إننى ا نا الله ''، ''ما يوحي'' كيلئے بدل ہے پس كوہ طور كے نيچے جو كچھ حضرت موسى سے كہا گيا تھا وہ وحى تھى _

۶ _ كلام الہى كو سنتے وقت اس پر كان لگانا ضرورى ہے _فاستمع لما يوحى

اگر چہ مخاطب حضرت موسى (ع) ہيں ليكن خداتعالى نے انہيں وحى كا سامنا كرتے وقت جو آداب سكھائے انہيں قرآن ميں بيان فرمايا ہے تا كہ سب كيلئے مفيد ہوں _

انبياء:انكا برگزيدہ ہونا ۳

خدا كے برگزيدہ بندے: ۳خداتعالى :اسكے اوامر ۴; اسكى حضرت موسى كے ساتھ گفتگو ۵_

موسى (ع) :انكا برگزيدہ ہونا ۱، ۲، ۴; انكى شرعى ذمہ دارى ۴; انكى معاشرتى شخصيت ۲; انكا مقام ۱، ۲، ۴; آپ وادى طوى ميں ۱، ۵; آپكى نبوت ۱، ۴، ۵; آپ كى طرف وحى ۵

وحى :اسے كان لگا سننا ۴; اسے كان لگا كر سننے كى اہميت۶

۲۶

آیت ۱۴

( إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي )

ميں اللہ ہوں ميرے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے ميرى عبادت كرو اور ميرى ياد كے لئے نماز قائم كرو (۱۴)

۱ _ خداتعالى كا يكتا ہونا اور اسكے علاوہ كسى معبود كا حقيقت نہ ركھنا وادى طوى ميں خدا كى طرف سے موسى (ع) كو وحى كا مركزى عنوان _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا

۲ _ ( كوہ طور كے نيچے ) وادى طوى ميں خداتعالى نے موسى (ع) كو سمجھايا كہ اسے الله تعالى مخاطب كررہا ہے اور وہ خدا كا كلام سن رہا ہے_إنّنى ا نا الله

۳ _ گفتگو كے آغاز ميں مخاطب كو اپنا تعارف كرانا دوسروں كے ساتھ ہم كلام ہونے اور بات كرنے كے آداب ميں سے ہے _ياموسى ...إنّنى ا نا الله

خداتعالى نے ''يا موسى ''(ع) كى آواز كے ساتھ انہيں سمجھايا كہ مجھے تيرے نام كا علم ہے پھر موسى (ع) كے ساتھ سخن كے آغاز ميں اسے اپنا تعارف كرايا تاكہ طرفين كى شناخت كے ساتھ گفتگو كا سلسلہ آگے بڑھے _

۴ _ خدا كے علاوہ كسى معبود كى كوئي حقيقت نہيں اور نہ كوئي لائق عبادت ہے _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا

''إلہ'' كا معنى ہے معبود اور آيت كريمہ ميں اس سے مراد ''معبود حق'' ہے كيونكہ باطل معبودوں كا وجود قابل انكار نہيں ہے _

۵ _ موسى (ع) اپنى نبوت اور وحى حاصل كرنے سے پہلے بھى خداتعالى كى معرفت ركھتے تھے اور اسكى ربوبيت كو مانتے تھے _إنى ا نا ربك إنّنى ا نا الله لا إله إلا ا نا

يہ دو جملے '' إنى ا نا ربك'' اور ''إنّنى ا نا الله '' بتارہے ہيں كہ موسى (ع) پہلے سے ہى ان ناموں

۲۷

كو پہچانتے تھے اور ان كا اعتقاد ركھتے تھے اور كوہ طور ميں انہوں نے ''ربّ'' اور ''الله '' كو صاحب آواز پر منطبق كيا _

۶ _ خداتعالى كى عبادت كے ضرورى ہونے اور غير خدا كى پرستش سے پرہيز كى تاكيد، حضرت موسى (ع) كى نبوت كے آغاز ميں خدا كى طرف سے انہيں پہلى نصيحت_لا إله إلا ا نا فاعبدني

۷ _ لوگوں كو خداتعالى اور اسكى وحدانيت سے آشنا كرانا انہيں خدا كى عبادت كى دعوت دينے كا پيش خيمہ ہے _

إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا فاعبدني ''فاعبدني'' ميں ''فائ'' سابقہ جملہ پر تفريع كيلئے ہے كہ جس ميں خداتعالى اور اسكى وحدانيت كا تعارف كرايا گيا ہے _

۸ _ مخلصانہ عبادت خداتعالى كے حضور ميں سب سے بڑا فريضہ ہے حتى كہ انبياء كيلئے بھى _إننى ا نا الله لا إله إلاا نا فاعبدني

۹ _ خداتعالى كا يكتا ہونا ( توحيد ذاتي) اسكے لئے مخلصانہ عبادت كو مختص كرنے( توحيد عبادي) كے ضرورى ہونے كى دليل ہے _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا فاعبدني

۱۰ _ نماز كى پابندى اور اسے قائم كرنے كا حكم وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو ديئے گئے پہلے عملى پروگراموں ميں سے تھا _ا قم الصلوة ''اقامہ نماز'' ( نماز قائم كرنا ) اسكى پابندى كے ساتھ ہے_

۱۱ _ نماز قائم كرنا خداتعالى كے حضور ميں عبوديت كا سب سے واضح جلوہ ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة

۱۲ _ نماز ديگر سب عبادتوں سے زيادہ اہم ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة

سب عبادات ميں سے صرف نماز كا ذكر كرنا ديگر عبادات كے مقابلے ميں اس عمل كے خاص مرتبے اور برتر ہونے كو بيان كرتا ہے _

۱۳ _ دين موسى (ع) ميں نماز تشريع ہوچكى تھى _و ا قم الصلوة

۱۴ _ خداتعالى كى طرف توجہ اور اسكى ياد ميں ہونا نماز كے اہداف اور ثمرات ميں سے ہے _و ا قم الصلوة لذكري

۱۵ _ نماز ميں ذكر خدا كا ہونا خداتعالى كى طرف سے اسے قائم كرنے كى نصيحت اورشوق دلانے كا سبب ہے _

ا قم الصلوة لذكري ''لذكري'' ممكن ہے نماز كے نتيجے كو بيان كررہا ہو كہ نماز دلوں ميں يادخدا كو زندہ كرتى ہے اور ممكن

۲۸

ہے اس سے مراد نماز كا اذكار الہى پر مشتمل ہونا ہو يعنى نماز قائم كرنا اسلئے واجب ہے كہ اس ميں ذكر خدا ہے _

۱۶ _ ضرورى ہے كہ نماز اور ديگر عبادتيں مخلصانہ اور صرف ياد خدا كيلئے ہوں _فاعبدنى و ا قم الصلوة لذكري

''لذكري'' ميں ''ذكر'' كا ياء متكلم كے ساتھ مختص ہونا مذكورہ نكتے كو بيان كررہا ہے يعنى ''لذكرى لا لذكر غيري'' _

۱۷ _ خداتعالى كى ياد اور اسكى طرف توجہ تمام عبادات كا مشتركہ فلسفہ ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة لذكري

جس طرح ''لذكري'' ''ا قم الصلوة'' كى علت كو بيان كررہا ہے ہوسكتا ہے ''فاعبدنى '' كى علت كا بيان بھى ہو _

۱۸ _ ضرورى ہے كہ ہميشہ خدا كى ياد ميں رہيں اور اسكے ذكر سے غافل نہ ہوں _لذكري

۱۹ _''عن ا بى جعفر(ع) قال: إذا فاتتك صلاة فذكرتها فى وقت ا خرى فإن كنت تعلم ا نّك إذا صليت التى فاتتك كنت من الا خرى فى وقت فابدا بالتى فاتتك فإن الله عزوجل يقول: ا قم الصلاة لذكري'' ; امام باقر(ع) سے روايت ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا: جب بھى تجھ سے كوئي نماز چھوٹ جائے اور دوسرى نماز كے وقت ميں ياد آئے تو اگر تجھے معلوم ہو كہ نماز قضا كے انجام دينے كے بعد واجب نماز كو اس كے وقت ميں بجالانے كى فرصت بچ جائيگى تو پہلے قضا نماز كو انجام دے كيونكہ خداتعالى نے فرماياہے'' ا قم الصلوة لذكري'' ( اس فقہى نكتے كا استفادہ اس چيز كے پيش نظر ہے كہ '' لذكري'' كا لام ''توقيت'' كيلئے ہو كہ جس كے نتيجے ميں آيت كا معنى يہ ہوگا '' ا قم الصلوة وقت تذكيرى إيّاك'') ( يعنى نماز قائم كر جس وقت تجھے اسكى ياد دلا دوں مترجم) _

انبياء :انكى شرعى ذمہ دارى ۸

شرعى ذمہ داري:سب سے اہم شرعى ذمہ دارى ۸

توحيد:توحيد ذاتى كے اثرات ۹; توحيد كى اہميت ۱; توحيد عبادى كى اہميت ۶، ۱۶; توحيد كى طرف دعوت كى اہميت ۷; توحيد عبادى ۴; توحيد عبادى كى علل ۹

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۴

خداتعالى :

۲۹

اسكے اوامر ۶; خداشناسى كى دعوت كى اہميت ۷; اسكى نصيحت ۱۵; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو ۲

ياد :ياد خدا كى اہميت ۱۴، ۱۷، ۱۸; نماز ميں ياد خدا ۱۵

روايت :۹۱

سخن:اسكے آداب ۳

شرك:اس سے اجتناب كى اہميت ۶

عبادت:اس ميں خلوص ۱۶; اس ميں خلوص كى اہميت ۸; عبادت خدا كا پيش خيمہ ۷; عبادات كا فلسفہ ۱۷

عبوديت:اسكى نشانياں ۱۱

معاشرت:اسكے آداب ۳

موسى (ع) :انكى شرعى ذمہ دارى ۶; انكى خداشناسى ۵; آپ وادى طوى ميں ۱، ۲; آپ نبوت سے پہلے ۵; انكى طرف وحى ۱، ۱۰

نماز:اسكے احكام ۱۹; اس ميں خلوص ۱۶; اسے قائم كرنے كى اہميت ۱۰، ۱۱ ; اسكى اہميت ۱۲; اسكى نصيحت ۱۵; اس كا فلسفہ ۱۴، ۱۵; يہ آسمانى اديان ميں ۱; يہ يہوديت ميں ۱۳; نماز قضا كا وقت ۱۹

وحى :اسكى تعليمات ۱

آیت ۱۵

( إِنَّ السَّاعَةَ ءاَتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى )

يقينا وہ قيامت آنے والى ہے اور ميں اسے چھپائے رہوں گا تا كہ ہر نس كو اس كى كوشش كا بدلہ ديا جاسكے (۱۵)

۱ _ قيامت كا آنا حتمى ہے _إن السّاعة ء اتية

۳۰

۲ _ ''ساعة '' قيامت كا ايك نام ہے _إن السّاعة ء اتية

''ساعة'' يعنى وقت كا ايك حصہ بہت سارى آيات ميں قيامت كو ''ساعة '' سے تعبير كيا گيا ہے اور يہ قيامت كے مشہور ناموں ميں سے ايك نام بن گيا ہے _

قيامت كو يہ نام يا تو اسلئے ديا گيا ہے كہ سارى مخلوقات ايك وقت ميں محشور ہوں گى اور يا اسلئے كہ اسكے برپا ہونے كا وقت ايك مختصر لحظہ ہے _( لسان العرب سے اقتباس)

۳ _ قيامت پر ايمان دين موسى كے اہم ترين اعتقادى اركان ميں سے ہے _نودى يا موسى إن السّاعة ء اتية

۴ _ قيامت اور اسكى خصوصيات سے مطلع ہونے كا ذريعہ صرف خداتعالى كى طرف سے آئي ہوئي معلومات ہيں _

ا كاد ا خفيه ''ا خفيہا'' كا خداتعالى كى طرف اسناد بتاتا ہے كہ اگر اس نے قيامت كے بارے ميں بات نہ كى ہوتى تو ہمارے لئے اس سے مطلع ہونے كا كوئي راستہ نہ تھا_

۵ _ خداتعالى نے اپنے ارادہ سے قيامت كے برپا ہونے كے وقت كو انسان سے مخفى ركھا ہے _ا كاد ا خفيه

قاموس ميں آيا ہے كہ اس آيت ميں ''ا كاد'' ''ا ريد'' كے معنى ميں ہے اور ''ا كاد ا خفيہا'' يعنى ميرا ارادہ ہے كہ اسے مخفى ركھوں پس قيامت كو مخفى ركھنے سے مراد اسكے وقوع پذير ہونے كے وقت كو مخفى ركھنا ہوگا نہ خود اسكے وقوع كو مخفى ركھنا _

۶ _ قيامت كا واقع ہونا اچانك ہے _ا كاد ا خفيه

۷ _ ايك ايك انسان كو بدلہ دينا قيامت كے برپا ہونے كا فلسفہ _ء اتية لتجزى كل نفس

''لتجزى '' يا تو ''آتية'' كى علت كا بيان ہے اور '' ا كاد ا خفيہا'' جملہ معترضہ ہے اور يا يہ آيت كريمہ ميں مذكور دونوں چيزوں يعنى قيامت كا آنا اور خداتعالى كى طرف سے اسكى خبردينے كا مخفى ركھنا كى علت كا بيان ہے اور يا يہ صرف ''ا خفيہا'' كى علت كو بيان كررہا ہے ، مذكورہ مطلب پہلے دو احتمالوں كى بناپر ہے _

۸ _ انسان كا قيامت كے برپا ہونے كے وقت سے آگاہ نہ ہونا اسكے اپنے كاموں كى پابندى كرنے اور پھر جزا و سزا كا مستحق بننے كا پيش خيمہ ہے _ا كاد ا خفيها لتجزى كل نفس بما تسعى

مذكورہ بالا نكتے ميں''لتجزى '' كے لام كو''ا كاد ا خفيها'' كى تعليل كيلئے ليا گيا ہے پس جملہ كى تركيب در حقيقت يوں ہوگى''لتسعى كل نفس فتجزى بما تسعى '' خلاصہ اس سے مراد يہ ہوگا كہ ميں نے ارادہ كيا ہے كہ

۳۱

قيامت كو مخفى ركھوں تا كہ سب لوگ اپنى كوشش جارى ركھيں اور اپنے كردار كے نتائج كو ديكھ ليں _ يہ ايك نفسيانى چيز ہے كہ اگر انہيں اپنى موت اور جہان ہستى كى نابودى كا وقت معلوم ہوجائے تو انسان اپنى بہت سى كوششوں كو ترك كرديگا _

۹ _ انسان اپنى دائمى اور مستمر كوششوں اور كردار كے مقابلے ميں ذمہ دار ہے _لتجزى كل نفس بما تسعى

''عمل'' كى جگہ پر مادہ ''سعى '' كا استعمال ممكن اسلئے ہو كہ وہ برائياں جن پر اصرار نہيں كيا جاتا ان سے چشم پوشى كى جائيگى اور يہ نيك اعمال كى نسبت مداومت كى نصيحت ہے _

۱۰ _ دنيا، كوشش كى جگہ اور آخرت جزا و سزا اور اپنى كوشش كا نتيجہ لينے كى جگہ ہے _إنّ السّاعة ء اتية لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۱ _ دنيا ميں انسانوں كے اعمال كا بدلہ دينے كيلئے ضرورى وسائل اور گنجاش نہيں ہے _الساعة ء اتية لتجزى كل نفس بما تسعى

بدلہ دينے كيلئے قيامت كے برپا ہونے كا ضرورى ہونا اس چيز كى طرف اشارہ ہے كہ دنيا انسان كى اچھى اور برى كوششو ں كا بدلہ دينے كى گنجائش نہيں ركھتى لہذا ايك اور دن اور حالات فراہم كرنے كى ضرورت ہے تا كہ بدلہ ديا جاسكے _

۱۲ _ انسان كا جزا و سزا پانا خود اسكى كوشش و كردار كا نتيجہ ہے _لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۳ _ميدان قيامت ميں حاضر ہونا اور اپنے دنياوى اعمال كے بدلے كا سامنا كرنا سب انسانوں كا انجام ہے _

إنّ السّاعة لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۴ _ انسان كا عبادت اور نماز ميں سعى و كوشش كرنا قيامت ميں حتمى جزا ركھتا ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة لتجزى كل نفس بما تسعى

آخرت:اس كا كردار ۱۰

انسان:اسكى اخروى پاداش ۱۰، ۱۳; اس كا محشور ہونا ۱۳; اس كا انجام ۱۳; اسكى ذمہ دارى ۹

ايمان :قيامت پر ايمان كى اہميت ۳

پاداش:اس كا پيش خيمہ ۸; اسكے عوامل ۱۲; اخروى پاداش كے عوامل ۱۴; دنياوى پاداش كا محدود ہونا ۱۱; اسكى جگہ ۱۰

۳۲

كوشش:اس كا پيش خيمہ ۸

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۵; اسكى تعليمات كى اہميت ۴

دنيا :اس كا كردار ۱۰

الساعة: ۲

عبادت:اسكے لئے كوشش كے اثرات ۱۴

عمل:اسكے اثرات ۱۲; اسكى فرصت ۱۰; اس كا ذمہ دار ۹

قيامت :اس ميں پاداش ۷; اس كا حتمى ہونا ۱; اسكے مخفى ہونے كا فلسفہ ۸; اسكے برپا ہونے كا فلسفہ ۷; اس ميں سزا ۷; اسكے مخفى ہونے كا سرچشمہ ۵; اسكے علم كا سرچشمہ ۴; اس كا اچانك ہونا ۶; اس كے نام ۲; اس كا وقت ۵

سزا :اس كا پيش خيمہ ۸; اسكے عوامل ۱۲; دنياوى سزا كا محدود ہونا ۱۱; اسكى جگہ ۱۰

نماز:اسكے لئے كوشش كے اثرات ۱۴

يہوديت:اسكے اركان ۳

آیت ۱۶

( فَلاَ يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لاَ يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَى )

اور خبردار تمھيں قيامت كے خيال سے وہ شخص روك نہ دے جس كا ايمان قيامت پر نہيں ہے اور جس نے اپنے خواہشات كى پيروى كى ہے كہ اس طرح تم ہلاك ہو جاؤگے (۱۶)

۱ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو منكرين قيامت كى طرف سے انہيں قيامت كى طرف متوجہ ہونے سے روكنے كے خطرے سے آگاہ كيا اور انہيں انكے مكر و فريب سے ڈرايا _

فاعبدني فلا يصّدنّك عنها من لا يؤمن بها ''عنها'' ، ''بها'' كى ضميروں كا مرجع ''الساعة'' ہے جو گذشتہ آيت ميں تھا _

۲ _ كفار كو لوگوں كے ايمان ميں طمع ركھنے سے مايوس كرنا اور ان كے مؤمنين كو فريب دينے كاميابى كے ذرائع كو ختم كرنا ضرورى ہے _فلا يصّدنّك عنها من لايؤمن به

۳۳

مفسرين نے كہا ہے كہ ''لايصّدنّك'' كى نہى اگر چہ ظاہرى طور پر كفار كو ہے ليكن در حقيقت يہ سبب كو وجود ميں لانے سے نہى ہے يعنى اے موسى تو اور ديگر مؤمنين اس طرح عمل نہ كريں كہ كفار تمہيں ايمان سے باز ركھ سكيں _

۳ _ كفار كے شكوك و شبہات پيدا كرنے اور ان كے دباؤ كے مقابلے ميں دين الہى كى حفاظت كرنا ضرورى ہے _

فلايصّدنّك عنها من لا يؤمن به

۴ _ انبياء كى كفار كے فريب اور وسوسوں سے رہائي خداتعالى كى راہنمائي اور نصيحتوں كے سائے ميں ہے _

فلا يصّدنّك عنها من لا يؤمن به

۵ _ دين الہى اور خدائي پروگراموں كے منكر لوگوں كو دين اور اس پر عمل كى طرف مائل ہونے سے روكنے كے درپے ہيں _*''عنہا'' اور ''بہا'' كى ضميروں كا مرجع ممكن ہے وہ تمام تعليمات اور ہدايات ( توحيد عبادت اور نماز كا لازمى ہونا، معاد اور جزا و سزا ) ہوں جنكى حضرت موسى (ع) كو وادى طوى ميں تعليم دى گئي تھي_

۶ _ ہوا و ہوس نفسانى كى پيروى كا نتيجہ قيامت كا انكار اور اس پرايمان كا نہ ہوناہے _من لا يؤمن بها و اتبع هوى ه

''اتبع'' ماضى ہے اور اس كا ''لايؤمن'' جو مضارع ہے پر عطف كيا گيا ہے تا كہ اسكى علت كو بيان كرے اور دلالت كرے كہ ہوس كى پيروى جو ماضى ميں انجام پائي مستقبل ميں آخرت كے ساتھ عدم ايمان كا سبب ہے _

۷ _ خواہشات نفسانى معاد اور آخرت ميں سزا و جزا كے اعتقاد كے بارے ميں اشكال كرنے كى بنياد ہے _

فلا يصّدنّك عنها من اتبع هوى ه

۸ _ دينى اعتقادات ميں قيامت اور اعمال كى جزا و سزا پر ايمان خاص اہميت كا حامل ہے _الساعة ء اتية فلا يصّدنّك عنه

۹ _ تباہى اور ہلاكت، آخرت كى طرف عدم توجہ اور اعمال كى جزا و سزا سے بے اعتنائي كا انجام ہے _

فلا يصّدنّك عنها فتردى

''تردى '' ''ردي'' بمعنى ہلاكت سے مشتق ہے اوريہ منكرين معاد كے شكوك و شبہات پيدا كرنے كے انجام كو بيان كر رہا ہے _

۱۰ _ خواہشات نفسانى كى پيروى تباہى و ہلاكت كا سبب

۳۴

ہے _فلايصّدنّك عنها من اتبع هوى ه فتردى

آيت كريمہ فريب كھائے ہوئے ہوا پرست لوگوں كو ہلاك شدہ سمجھتى ہے پس حتمى طور پر خود ہوا پرست لوگوں كا يہى انجام ہوگا _

انبياء:انكى نجات كا سرچشمہ ۴

ايمان:قيامت پر ايمان كى اہميت ۸

خداتعالى :اس كا ڈرانا ۱; اسكى نصيحتوں كى اہميت ۴

دين:دينى آسيب شناسى ۵،۶; اصول دين ۸; اسكى حفاظت ۳

غفلت:قيامت سے غفلت كا خطرہ ۱; آخرت سے غفلت كا انجام ۹; عمل كى پاداش سے غفلت كا انجام ۹; عمل كى سزا سے غفلت كا انجام ۹

قيامت :اسے جھٹلانے والوں كا مكر، ۱

كفار:انكى مايوسى كى اہميت ۲; انكى دشمنى ۵; انكى دين دشمني۵; انكا شكوك و شبہات پيدا كرنا ۳; انكے مكر سے ممانعت ۲; انكے مكر سے نجات ۴

كفر:قيامت كے كفر كا پيش خيمہ ۶

تمايلات :دين كى طرف تمايل سے ممانعت ۵

معاد:اسكے بارے ميں شكوك و شبہات كا سرچشمہ ۷

موسى (ع) :انكا قصہ ۱; انكى طرف وحى ۱; انہيں خبردار كرنا ۱

ہلاكت:اسكے عوامل ۹ ، ۱۰

ہواپرستي:اسكے اثرات ۶، ۷، ۱۰

۳۵

آیت ۱۷

( وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَى )

اور اے موسى يہ تمھارے داہنے ہاتھ ميں كيا ہے (۱۷)

۱ _ حضرت موسى (ع) جب آگ لانے كيلئے اپنے گھروالوں سے جدا ہوئے تو انكا ڈنڈا بھى انكے ہمراہ تھا_

و ما تلك بيمينك يا موسى

''تلك'' مونث كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے اور دلالت كر رہا ہے كہ جو كچھ حضرت موسى كے ہاتھ ميں تھا اس پر ''خشبہ '' يا ''عودہ'' ( ڈنڈا) كا اطلاق مسلم ہے پس حضرت موسى (ع) سے طلب كيا گيا تھا كہ وہ جواب ميں اس ڈنڈے كى خصوصيات بيان كريں تا كہ وہ متوجہ رہيں كہ كيا چيز سانپ ميں تبديل ہوگى _قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت كے جملے ''ا ہش بہا على غنمي'' سے استفادہ ہوتا ہے كہ موسى (ع) كے كوہ طور پر آنے سے پہلے وہ ڈنڈا انكے ہمراہ تھا _

۲ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) سے چاہا كہ وہ اپنے ڈنڈے كى خصوصيات بيان كريں _

و ما تلك بيمينك يا موسى

۳ _ خداتعالى ، موسى (ع) كيلئے خاص لطف و كرم ركھتا تھا _و ما تلك بيمينك يا موسى

واضح ہے كہ خداتعالى كا موسى (ع) سے سوال مطلع ہونے كيلئے نہيں تھا بلكہ يہ سوال باب گفتگو كا آغاز ہوسكتا ہے اور موسى (ع) كو انكے ڈنڈے كے معمولى نہ ہونے كى طرف متوجہ كرنا اضطراب اور خوف كو بھى دور كرتا ہے اس سوال كو پيش كرنا اور دوبارہ ''ى موسى '' كے ساتھ مخاطب كرنا موسى (ع) كيلئے الله تعالى كے لطف و كرم كے اظہار كى علامت ہے_

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۲

كوہ طور :اسكى آگ ۱

لطف خدا:

۳۶

يہ جنكے شامل حال ہے ۳

موسى (ع) :انكو نصيحت ۲; انكا ڈنڈا ۱; انكے فضائل ۳; انكاقصہ ۱، ۲; انكے ڈنڈے كى خصوصيات ۲

آیت ۱۸

( قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى )

انھوں نے كہا كہ يہ ميرا عصا ہے جس پر ميں تكيہ كرتا ہوں اور اس ے اپنى بكريوں كے لئے درختوں كى پتياں جھاڑتا ہوں اور اس ميں ميرے اور بہت سے مقاصد ہيں (۱۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے خداتعالى كے اس سوال كہ آپ كے ہاتھ ميں كيا ہے كے جواب ميں عرض كيا يہ ميرا ڈنڈا ہے _و ما تلك بيمينك يا موسى ...قال هى عصاي

۲ _ موسى (ع) نے ڈنڈے پر سہارا لينا اور اپنى بكريوں كيلئے درختوں كے كمزور پتوں كو گرانا ڈنڈے كے فوائد شمار كئے _

''ہش'' كا معنى ہے پتے گرانے كيلئے خشك درخت كو ڈنڈا مارنا ( لسان العرب) يہ كلمہ ان چيزوں كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے جو ملائم ہوں اور سخت نہ ہوں (مفردات راغب) ''على غنمي'' ميں ''علي'' كا استعمال بكريوں كے پتوں سے استفادہ كرنے كيلئے درخت كے نيچے موجود ہونے كى طرف اشارہ ہے _

۳ _ حضرت موسى (ع) نے سہارا لينے اور درختوں كے پتے گرانے كے علاوہ اپنے ڈنڈے كو متعدد ضروريات پورى كرنے كيلئے كارساز قرارديا _ولى فيها مارب ا خرى

''مارب'' كے مفرد ''ماربہ'' كا معنى ہے حاجت اور نياز ( مصباح )

۴ _ہاتھ ميں ڈنڈا پكڑنا اور چلنے اور كھڑا ہونے ميں اس كا سہارا لينا ايك مطلوب اور مفيد كام ہے _

۳۷

و ما تلك بيمينك هى عصاى ا توكؤا عليه

موسي(ع) سے منقول سخن ميں سہارا لينے كو ديگر فوائد پر مقدم كرنا اس فائدے كے ديگر فوائد سے اہم ہونے كى علامت ہے_ اور يہ اہميت حضرت موسى (ع) كى جسمانى صحت بلكہ آپكى جسمانى توانمندى كے پيش نظر زيادہ واضح ہوجاتى ہے _

۵ _ مدين سے مصر جاتے ہوئے حضرت موسى (ع) كے ہمراہ بكرياں تھيں كہ جنہيں آپ خود چراتے تھے_ا هش بها على غنمي ''غنم'' يعنى بكرياں اور يہ كلمہ خود اپنے لفظ سے مفرد نہيں ركھتا اورايك بكرى كو كہا جاتا ہے ''شاة'' (مصباح)_

۶ _ جس سرزمين ميں حضرت موسى (ع) نے جانور ركھے ہوئے تھے اور انہيں چراتے تھے اس ميں ايسے درخت تھے كہ جنكے پتے جانوروں كى غذا كيلئے مناسب تھے _و ا هش بها على غنمى

۷ _ حضرت موسى (ع) نے خداتعالى كے ساتھ ہم كلام ہونے كى فرصت كو غنيمت شمار كيا اور اس سے لذت اٹھا رہے تھے _ما تلك قال هى عصاى ا توكؤا عليها و ا هش ولى فيها ما رب ا خرى

خدا تعالى كے سوال كے جواب ميں جملہ ''ہى عصاى '' كافى تھا لذا ديگر جملوں كا اضافہ كرنا حضرت موسى (ع) كے خدا كے ساتھ ہم كلام ہونے كے اشتياق كو بيان كررہاہے_

۸ _ خداتعالى كى خواہش پر عمل كرنے ميں تمام احتمالات كو انجام دينا ضرورى ہے _

ما تلك هى عصاى ا توكؤا ولى فيها م َارب ا خرى

حضرت موسى (ع) كے ''ہى عصاي'' پر اكتفا نہ كرنے كے بارے ميں كہا گيا ہے كہ اس جواب كے واضح ہونے نے حضرت موسى (ع) كو اس فكر ميں ڈال ديا كہ شايد مقصود ڈنڈے كے فوائد ہوں اور اسى احتمال كى بناپر انہوں نے بعد والے جواب اپنى زبان پر جارى كئے_

اصول عمليہ:اصالة الاحتياط ۸

شرعى ذمہ داري:اس پر عمل كرنے كى كيفيت ۸

خداتعالى :اسكى موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۷; اسكے ساتھ گفتگو كى لذت ۷

ڈنڈا:اسكے فوائد ۴/عمل:پسنديدہ عمل ۴

موسى (ع) :انكى بكريوں كى غذا ۶; انكا ريوڑچرانا ۵; انكا ڈنڈا ۱; انكے ڈنڈے كے فوائد ۲، ۳; انكا قصہ ۱، ۵، ۶; انكى بكرياں ۵; انكى معنوى لذات ۷; انكے جانور چرانے كى جگہ ۶

۳۸

آیت ۱۹

( قَالَ أَلْقِهَا يَا مُوسَى )

ارشاد ہوا تو موسى اسے زمين پر ڈال دو (۱۹)

۱ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو حكم ديا كہ اپنا ڈنڈا زمين پر پھينكيں _قال ا لقها يا موسى

۲ _ خداتعالى كى حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو انكے ساتھ لطف و كرم اور را فت كے اظہار كے ہمراہ تھى _

ى موسى قال ا لقها يا موسى

نام كا تكرار مخاطب كے ساتھ كامل محبت كے اظہار كى علامت ہے_ ان آيات كريمہ ميں آيات كے محبت آميز لہجے كے علاوہ خطاب الہى ميں چند مرتبہ حضرت موسي(ع) كے نام كا تكرار ہوا ہے كہ جو خداتعالى كى انكے ساتھ خاص عنايت اور لطف كى علامت ہے _ -

خداتعالى :اسكے اوامر ۱; اسكى موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۲

خداتعالى كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۲

موسى (ع) :انكا ڈنڈے كو پھينكنا ۱; انكے فضائل ۲; انكا قصہ ۱

آیت ۲۰

( فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى )

اب جو موسى نے ڈال ديا تو كيا ديكھا كہ وہ سانپ بن كر دوڑ رہا ہے (۲۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے حكم خداوندى سے اپنا ڈنڈا زمين پر پھينكا _

۳۹

فا لقى ها

۲ _ پھينكے جانے كے بعد حضرت موسى (ع) كا ڈنڈا متحرك سانپ ميں تبديل ہوگيا _فا لقى ها فإذا هى حية تسعى

۳ _ حضرت موسى (ع) كے ڈنڈے كا پھينكاجانا اور اس كا سانپ ميں تبديل ہونا ايك ہى وقت ميں تھا _

فإذا هى حية ''إذا'' مفاجات كيلئے ہے اور پہلے اور بعد والے جملوں كے وقت كے ايك ہونے پر دلالت كرتا ہے _

۴ _ خداتعالى كا ڈنڈے كے بارے ميں حضرت موسى (ع) سے سوال آپ كو معجزہ اور آيت دكھانے كيلئے آپكى ذہنى آمادگى اور ضرورى ما حول بنانے كى خاطر تھا _و ما تلك بيمينك فا لقيها فإذا هى حية

خداتعالى كے جواب ميں حضرت موسى (ع) كا ڈنڈے كے قدرتى خواص كى وضاحت كرنا انكے ذہن ميں مناسب آمادگى پيدا كررہا ہے تا كہ ڈنڈے كى دو حالتوں كا موازنہ كرنے كے بعد اسكى نئي حالت كے معجزہ ہونے كے بارے ميں انہيں كوئي شك نہ ہو _

۵ _ حضرت موسى (ع) كاڈنڈا سانپ ميں تبديل ہونے كے بعد جان ركھتا تھا اور اپنى مرضى سے اچھل كود كررہا تھا _

حية تسعى خداتعالى نے بعد والى آيات ميں حضرت موسى (ع) اور جادوگروں كے مقابلہ كى داستان ميں جادوگروں كے بارے ميں فرمايا ہے_''يخيّل إليه من سحرهم ا نها تسعى '' اس كا ''تسعى '' ( جو اس آيت ميں ہے) كے ساتھ مقابلہ كرنے سے حضرت موسى (ع) ڈنڈے كى حركت كے حقيقى ہونے كاپتا چلتا ہے_

خداتعالى :اسكے سوال كا فلسفہ ۴

ڈنڈا:اس كا سانپ ميں تبديل ہونا ۲، ۳، ۵

موسى (ع) :انكا ڈنڈے كو پھينكنا ۱; ان ميں آمادگى پيدا كرنا ۴; ان سے سوال ۴; انكے ڈنڈے كا تبديل ہونا ۲; انكا شرعى ذمہ دارى پر عمل ۱; انكا قصہ ۱، ۲; انكا معجزہ ۴; انكے ڈنڈے كى خصوصيات ۲، ۳، ۵

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639