اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ0%

اسلام کے محافظ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 191

اسلام کے محافظ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیۃ اللہ حسین مظاہری
زمرہ جات: صفحے: 191
مشاہدے: 70425
ڈاؤنلوڈ: 4065

تبصرے:

اسلام کے محافظ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 191 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 70425 / ڈاؤنلوڈ: 4065
سائز سائز سائز
اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آپ کی توہین کے علاوہ عملی طور پر دباؤ ڈالنے کے لیے چالیس مشکل ترین مسئلے قتادہ کے ذریعے تیار کئے کہ اس محفل میں امام صادق(ع) سے پوچھے جائیں۔

لیکن جس وقت امام (ع) اس محفل میں داخل ہوئے تو تمام حاضرین محفل غیر ارادی طور پر اٹھ کھڑے ہوئے اور غیر معمولی احترام کے ساتھ آپ کا استقبال کیا۔ آپ کی ہیبت و جلالت سے سارا مجمع مبہوت ہوگیا اور مکمل طور پر سناٹا چھا گیا یہاں تک کہ خود امام علیہ السلام نے خاموشی کو توڑا اور قتادہ سے پوچھا کیا کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟ قتادہ نے مودب ہو کر کہا یا ابن رسول اﷲ کیا پنیر کھانا جائز ہے آپ(ع) نے تبسم فرمایا اور پوچھا کیا تمہارے سوالات اس طرح کے ہیں؟ قتادہ نے کہا۔ نہیں خدا کی قسم میں نے چالیس مشکل سوالات ترتیب دیے تھے لیکن آپ کی ہیبت و جلالت نے سب کچھ بھلا دیا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا تم جانتے ہو کہ کس کے سامنے بیٹھے ہو یہ وہی ہے جس کے بارے میں خداوند عالم نے فرمایا ہے۔

“فىِ بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَ الاَْصَال‏رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تجَِرَةٌ وَ لَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ الله‏”

“ ( اس کے نور کے طرف ہدایت پانے والے) ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں اﷲ نے بلند کرنے اور اپنے نام کا ذکر کرنے کی اجازت دی ہے ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اﷲ کی یاد سے غافل نہیں کردیتی ہے۔” ( سورہ نور آیت 36۔37)

یہ سن کر قتادہ نے کہا یا بن رسول اﷲ یہ گھر اینٹ اور گارے کے بنے ہوئے نہیں بلکہ یہ گھر آپ حضرات (ع) کے اجسام مطہر ہیں۔ ابن ابی العوجا کے بارے میں یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ جس طرح حضرت امیرالمومنین(ع)  کے پاس مالک اشتر تھے جو دشمنوں کی صفوں میں گھس کر انہیں پائمال کرتے تھے تو حضرت صادق آل محمد(ع) کے

۱۰۱

 پاس ہشام بن حکم تھے جس کے سامنے ابن ابی العوجا شیر کے پنجوں میں گرفتار ایک لومڑی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے تھے۔ ان دونوں بزرگوں کی دشمنان ، آل محمد(ع) کے ساتھ بہت سارے مناظرے تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔

جب بنی عباس نے یہ جان لیا کہ ان کے چوری چھپے حربے کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے تو انہوں نے آپ کو شدید دباؤ میں رکھا آپ کے دروس کو ختم کیا اور آپ کو اپنے گھر میں نظر بند رکھا یہاں تک کہ راوی کہتا ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا۔ “الباب علي ه خلق والستر مرخی ” یعنی دروازہ بند تھا اور اس پر پردہ بھی ڈالا ہوا تھا اور کسی کو  آپ سے ملاقات کی اجازت نہیں تھی یہاں تک کہ اسی حالت میں آپ کو زہر سے شہید کردیا گیا۔

آپ کے فضائل

آپ کے فضائل بیان کی حدود سے باہر ہیں ایک مشہور جملہ اہلسنت کے امام مالک بن انس کا ہے انہوں نے فرمایا “ جعفر بن محمد(ع) سے بہتر فرد نہ تو آنکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا اور نہ دل میں خیال آیا” اور امام ابو حنیفہ سے یہ جملہ مشہور ہے کہ آپ نے کہا۔“مارايت افق ه من جعفر بن محمد ۔” یعنی میں نے جعفر بن محمد(ع) سے بڑھ کر کسی کو فقیہہ پایا۔ آپ(ع) کی اپنی زبان سے بھی سنتے ہیں ۔ ضریس کہتا ہے کہ حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے آیت “ كُلُّ شَيْ‏ءٍ هالِكٌ إِلاَّ وَجْهَه ”( اﷲ کے چہرے کے سوا ہر چیز نے فنا ہونا ہے) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ۔ عن وجہ اﷲ الذی یوتی اﷲ منہ۔ “ ہم نے ہی اﷲ کا وہ چہرہ ہیں جس کے ذریعہ اس کی پہچان ہوتی ہے۔ ” یعنی امام (ع) نے فرمایا کہ آپ(ع) ذات حق کے لیے آئینہ ہیں۔

۱۰۲

آپ(ع) کے ایمان کی منزل

ہم یہاں پر امام صادق علیہ السلام کے اخبار غیبی کے خبر دینے کے چند واقعات بیان کرتے ہیں جس سے آپ کے ایمان و شہور  پر خود بخود دلالت ہوتی ہے۔

1 ـ محمد بن عبداﷲ کہتا ہے کہ ایک شیعہ راوی عبدالحمید زندان میں تھا میں عرفہ کے دن مکہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اور انہوں نے ان کی رہائی کے لیے دعا مانگی اس کے فورا بعد ہی فرمایا“ آپ کا دوست قید سے آزاد ہوا” جب میں نے مکے سے واپس آکر عبدالحمید سے ملاقات کی تو معلوم ہوا کہ عبدالحمید کو اسی گھڑی رہائی ملی تھی جس وقت آپ(ع)  نے ان کی رہائی کے لیے دعا مانگی تھی۔

2 ـ ؟؟؟ کہتا ہے کہ ایک دفعہ امام صادق علیہ السلام سے ملاقات کے لیے مدینہ چلاگیا وہاں کچھ عرصہ رہا اور ایک مکان کرائے پر لے رکھا تھا۔ کچھ دنوں بعد مالک مکان کی ایک کنیز کی طرف مجھے رغبت ہوئی ایک دن موقع پا کر اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ اسی دن میں امام(ع) کی خدمت میں پہنچا تو امام(ع) نے فرمایا آج تم کہاں تھے؟ میں نے جھوٹ بولا اور کہا صبح کو میں مسجد میں گیا ہوا تھا یہ سن کر آپ نے فرمایا اما تعلم ان ہذا لا ینال الا بالور “ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ولایت کے مقام تک تقوی کے بغیر نہیں پہنچا جاسکتا ۔”

3 ـ ابی بصیر کہتا ہے کہ ایک دن میں جنب تھا لیکن دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ  آپ کی خدمت میں جارہا ہے تو میں بھی اسی حالت میں چلا گیا مجھےدیکھ کر آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہمارے گھروں میں جنب کی حالت میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔

۱۰۳

4 ـ شعرانی کہتا ہے ایک دفعہ منصور دوانقی اپنے چند افراد کو انعامات دے رہا تھا میں بھی گھر کے دروازے میں کھڑا تھا اتنے میں امام صادق علیہ السلام تشریف لائے میں آپ(ع) کے سامنے گیا اور عرض کیا کہ منصور سے مجھے بھی کوئی انعام دلوا دیں آپ جب واپس آئے تو میرے لیے بھی کچھ لے آئے تھے ۔ مجھے دے دیا اور فرمایا ۔“إِنَّ الْحَسَنَ مِنْ كُلِّ أَحَدٍ حَسَنٌ‏ وَ إِنَّهُ مِنْكَ أَحْسَنُ لِمَكَانِكَ مِنَّا.” “ اچھا کام جس سے بھی سرزد ہوا اچھا ہے اور تم سے سرزد ہونا بہت اچھا ہے کیونکہ تمہاری نسبت ہم سے ہے اور برا کام جس کسی سے بھی سرزد ہو جائے برا ہے اور تم سے سرزد ہونا بہت برا ہے کیونکہ تمہاری نسبت ہم سے ہے۔”

شقرانی کہتا ہے کہ امام(ع) کا یہ فرمان میری ایک بری حرکت کی طرف اشارہ تھا کیونکہ میں کبھی کبھار مخفی طور پر شراب پیتا تھا۔

آپ(ع) کا علم

آپ(ع) کے علم کی منزلت کو سمجھنے کےلیے آپ کی زبان سے ہی سنتے ہیں۔

1 ـ علاء بن سبابہ کہتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا میں اس سے آگاہ ہوں جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے اور جو کچھ جنت اور جہنم میں ہے اس سے بھی آگاہ ہوں میں گذشتہ اور آئندہ یہاں تک کہ قیامت تک کے واقعات سے آگاہ ہوں اس کے بعد آپ نے فرمایا اس علم کو میں قرآن سے جانتا ہوں اور قرآن پر مجھے اس طرح عبور حاصل ہے جسے ہاتھ کی ہتھیلی پر عبور حاصل ہوتا ہے ۔ اور خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا کہ قرآن تمام چیزوں کا بیان کرنے والا ہے۔

2 ـ بکیر بن اعین کہتا ہے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا میں ان تمام

۱۰۴

 چیزوں سے آگاہ ہوں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے اور اسے بھی جانتا ہوں جو دنیا و آخرت میں ہے۔ یہ کہہ کر آپ(ع) نے دیکھا کہ کچھ پیچیدگی پیدا ہونے لگی ہے تو آپ(ع) نے فرمایا اے بکیر میں نے یہ علم قرآن سے حاصل کیا ہے کیونکہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے۔“وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ ( سورہ نحل آیت 89)

“ ہم نے تم پر قرآن نازل کیا ہے جو ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والا ہے۔”

3 ـ صفوان بن عیسی کہتا ہے کہ حضرت صادق آل محمد(ع) نے فرمایا میں اولین و آخرین کا علم رکھتا ہوں اور جوکچھ بھی ماں باپ کے رحم و صلب میں ہے اسے بھی جانتا ہوں۔

آپ (ع) کا صبر

جس وقت آپ کے بڑے صاحبزادے اسماعیل وفات پاگئے تو آپ نے تعزیت کے لیے آنے والے افراد کا بڑا خندہ پیشانی کےساتھ استقبال کیا اور بعض لوگ یہ حالت دیکھ کر تعجب کرنے لگے اور اس بارے میں انہوں نے آپ سے پوچھا بھی تو آپ نے فرمایا اﷲ کا حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔ ایک اور مصیبت میں آپ نے فرمایا ہم اہل بیت (ع) مصیبت کے وارد ہونے سے پہلے اپنی فعالیتوں کو انجام دیتے ہیں اور جب مصیبت واقع ہوتی ہے تو تقدیر الہی کو تسلیم کرتے ہوئے راضی رہتے ہیں۔

آپ(ع) کا حلم

منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ نے اپنے غلام کو کسی کام سے بھیجا غلام نے دیر کیا

۱۰۵

 تو آپ خود اس کام کے لیے چلے گئے تو راستے میں غلام کو دیکھا جو سویا ہوا تھا آپ نے اسے پتوں سے ہوا کی وہ بیدار ہوا تو فرمایا اچھا یہ ہوتا کہ رات کو سوتے اور دن کو کام کرتے۔

آپ(ع) کا عفو

ایک دفعہ کسی نے آپ کو یہ خبر پہنچا دی کہ آپ کا چچا زاد بھائی عوام کے سامنے آپ کو ناسزا کہتا پھرتا ہے یہ سن کر آپ اٹھے اور دو رکعت نماز ادا کی اور نماز کے بعد کمال رقت کے ساتھ دعا مانگی خداوندا! میں نے اسے اپنا حق معاف کیا تو اکرم الاکرمین ہے اسے کے کردار کی پاداش میں گرفتار نہ فرما۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ قطع رحم کے مواخذے کی شدت اور سرعت کی طرف متوجہ تھے لہذا اس کے لیے معاف کرنے اور دعا کرنے میں جلدی کی۔

آپ(ع) کی سخاوت

ہشام بن سالم کہتا ہے حضرت امام صادق علیہ السلام کا دستور تھا کہ جس وقت رات کا ایک حصہ گزر جاتا تھا تو ایک تھیلے میں بھر کر اشیاء لے کر نکلتے اور مدینہ کے محتاجوں میں تقسیم کرتے تھے اور محتاجوں کو آپ کی خبر تک نہ ہوتی تھی جب آپ کی شہادت واقع ہوئی تب لوگوں کو پتہ چلا کہ کون ان کی مدد کرتا تھا۔

منثعمی کہتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے ایک دفعہ دینار کی ایک تھیلی دی اور کسی آدمی کو دینے کے لیے کہا اور تاکید کی کہ میں آپ کا نام نہ لوں میں نے وہ تھیلی اس شخص کو دی مگر وہ شخص گلہ کر رہا تھا کہ امام صادق علیہ السلام قدرت رکھنے کے باوجود میرا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

۱۰۶

آپ(ع) کی عبادت

ابان بن تغلب کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو رکوع و سجود میں ستر دفعہ تسبیح پڑھتے ہوئے سنا۔

خراج راوندی میں ہے کہ راوی کہتا ہے “ میں نے امام صادق علیہ السلام کو مسجد نبوی میں دیکھا ہے نماز میں مشغول ہیں اور تین سو مرتبہ سبحان ربی العظیم و بحمدہ کہا۔

مالک بن انس کہتا ہے کہ میں نے علم و تقوی میں جعفر بن محمد(ع) سے بڑھ کر اور کسی کو نہیں پایا۔ جب بھی میں نے آپ کو دیکھا آپ یا تو ذکر میں مشغول تھے یا روزے میں تھے۔ یا نماز میں مشغول تھے وہ خدا کے نیک بندوں میں سے تھے بہت بڑے زاہد تھے ہر وقت خوف لاحق رہتا تھا اور مسجد میں شدت خشوع سے گریہ کرتے تھے ۔ میں ایک سال مکہ میں آپ(ع) کے ساتھ تھا جب تلبیہ کہنے کا وقت آیا تو شدت رقت سے تلبیہ نہ کہہ سکے، فرماتے تھے کہ اگر میں کہدوں لبیک اور وہ لا لبیک کہے تو کیا کروں؟

مفضل ایک عظیم شیعہ عالم ہیں کہ کتاب توحید مغفل کے نام سے موجود ہے جس میں خالق اور اس کی صفات کا ذکر ہے۔ مغفل امام(ع) کے بارے میں کہتا ہے کہ “ ایک دفعہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا اور قریب ہی ابن ابی العوجا اور اس کے مرید بیٹھے ہوئے کفر آمیز کلمات کہہ رہے تھے مجھ رہا نہ گیا میں ان پر برس پڑا یہ دیکھ کر ابن ابی العوجا نے کہا اے شخص اگر تو جعفر صادق(ع) کے پیروکاروں میں سے ہے تو ان کا طریقہ ایسا نہیں ہے ہم ان کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں ، بحث کرتے، دلیل دیتے تو وہ صبر و سکون کے ساتھ پوری توجہ سے سنتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا جواب بھی سوچ لیا ہے اس کے بعد وہ ہماری ایک ایک دلیل کو رد کرتے ہیں۔

۱۰۷

آخر میں ہم خود ابی بصیر کا واقعہ ذکر کرتے ہیں جو بجائے خود ایک معجزہ ہے۔

ابوبصیر کہتا ہے کہ ایک نہایت ہی گناہ گار شخص ہمارا ہمسایہ تھا ہم ہر چند ایسے نصیحت کرتے تھے اس  پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ہم اس سے بڑے تنگ تھے ایک دفعہ جب میں مدینہ جانے کی تیاری کررہا تھا تو میرے پاس وہ شخص آیا اور کہا اے ابا بصیر میں گناہوں میں مبتلا ایک شخص ہوں جنہیں ترک کرنا میرے بس میں نہیں مجھے اپنے آپ پر قیاس مت کرو تم نے شیطان سے نجات پائی ہے میری حالت حضرت امام صادق (ع) کے گوش گزار کرو کہ میری کچھ فکر کریں۔ ابو بصیر کہتا ہے میں نے اس واقعہ کا تذکرہ مدینہ پہنچ کر امام کی خدمت میں کیا یہ سن کر آپ(ع) نے فرمایا اے میرا سلام کہنا ساتھ ہی یہ بھی کہنا کہ اگر گناہ ترک کروگے تو میں بہشت کی ضمانت دیتا ہوں جب میں واپس آیا تو وہ شخص مجھ سے ملنے آیا میں نے اسے امام صادق علیہ السلام کا سلام اور پیغام پہنچا دیا وہ شخص یہ سن کر پلٹ گیا اور توبہ کی ایک عرصے کے بعد میں جب اس دیکھنے گیا تو جانکنی کی حالت میں پایا جب میں نزدیک گیا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور کہا امام صادق علیہ السلام نے اپنے وعدے کو پورا فرمایا۔ وہ شخص مرگیا ایک سال بعد میں امام ( ع) کی خدمت میں مدینے گیا تو امام صادق علیہ السلام ے فرمایا ابو بصیر ہم نے اپنے وعدے کو پورا کیا۔

ایک اور ایسا ہی واقعہ ابو بصیر بیان کرتے ہیں جو یوں ہے کہ ایک دفعہ میں بنی امیہ کی حکومت کے ایک کارندے کو امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں لے گیا تاکہ آپ کے ہاتھوں میں توبہ کرے آپ نے اس شخص کو دیکھ کر گلہ کرتے ہوئےفرمایا اگر لوگ بنی امیہ کے ساتھ تعاون نہ کرتے تو ہمارا حق غصب نہیں کرسکتے تھے اس کے بعد فرمایا کہ میں جو کچھ کہوں گا اس پر عمل کرو گے اس شخص نے کچھ لمحے سکوت اختیار کر کے بعد میں قبول کیا کہ جو کچھ آپ فرمائیں گے انجام دے گا

۱۰۸

آپ نے فرمایا تمام اموال صدقے میں دے دو تو میں تمہارے لیے بہشت کی ضمانت دیتا ہوں۔

ابو بصیر کہتا ہے کہ چند دنوں کے بعد اس شخص نے اپنی بیٹی کے ذریعے مجھے بلا بھیجا میں اس کے پاس گیا تو دیکھا کہ جو کچھ اموال اس کے پاس تھا صدقہ میں دیا ہے یہاں تک کہ اس کے جسم پر کرتا بھی نہیں ہے۔ میں نے اس کے لیے ایک کرتے کا بندوبست کیا چند دن بعد جب وہ احتضار کی حالت میں تھا میں اس کے پاس گیا تو اس نے کہا ابو بصیر امام صادق علیہ السلام نے اپنا وعدہ پورا کیا اور جب میں امام(ع) کی خدمت میں پہنچا ابھی بیٹھا بھی نہیں تھا کہ امام (ع) نے فرمایا ابو بصیر ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا۔

یہ امام صادق علیہ السلام کے فضائل کے سمندروں میں سے ایک قطرہ تھا جو بیان ہوا اور اگر ہم امام صادق علیہ السلام کے بارے میں کچھ کہہ سکتے ہیں تو صرف اس قدر جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے۔

جھنی کہتا ہے کہ ایک دفعہ ہم مدینے میں اہل بیت(ع) کے فضائل کے بارے میں بات کررہے تھے گفتگو کے دوران ربوبیت کا شبہ پیدا ہونے لگا لہذا ہم نے امام صادق علیہ السلام سے ملاقات کی اور عرض مدعا کیا تو آپ نے پوچھا یہ بے ہودہ خیال تمہیں کیسے آیا؟ ہم تو وہ لوگ ہیں جن کا ایک پروردگار ہے جو ہمیشہ ہمارا محافظ ہے ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں تم ہمارے بارے میں جو چاہو  کہو مگر اس شرط کے ساتھ کہ ہمیں خداوند متعال کی مخلوق جانو۔

یہ جملہ اکثر ائمہ طاہرین علیہم السلام نے ادا فرمایا ہے لہذا ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام ممکن الوجود ہیں، مخلوق بندے ہیں، اور محض احتیاج ہیں اور خود سے کوئی استقلال نہیں رکھتے جب کہ استقلال وجوب وجود، ربوبیت اور خلق و بے نیازی پروردگار عالم کی ذات سے مخصوص ہے لیکن یہ حضرات صرف واسطہ فیض

۱۰۹

 عالم ہیں صفات الہی کے مظہر ہیں اﷲ کے سوا ہر چیز کا علم رکھتے ہیں اور تمام صفات کمال سے آراستہ ہیں بقول امیرالمومنین علیہ السلام ۔“ ہمیں خدا نہ کہو باقی جو کچھ چاہو ہمارے بارے میں کہو۔”

۱۱۰

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام

آپ کا نام نامی موسیٰ اور مشہور لقب کاظم ، عبد صالح اور باب الحوائج ہیں، آپ کی مشہور کنیت ابو الحسن ہے۔ آپ کی عمر مبارک تقریبا 54 سال تھی۔ 7 صفر 128 ہجری کو آپ نے ولادت پائی۔ اور 25 رجب سال 186ہجری کو ہارون رشید کے حکم سے سندی بن شاہک کے ہاتھوں زہر خورانی کی وجہ سے شہادت پائی۔ آپ کی مدت امامت آپ کے والد بزرگوار کی طرح 34 سال ہے۔ اس پوری مدت میں یا تو آپ زندان میں تھے یا جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔

آپ عوام میں مکمل نفوذ رکھتے تھے اور ہر وقت دشمن کے ساتھ مقابلہ پر رہے اور دشمن بھی غیر معمولی حد تک آپ سے ڈرتے تھے۔ دشمن کے آخری وقت میں یہ چاہتا تھا کہ بالکل خاموشی کے ساتھ کسی کو پتہ کرائے بغیر آپ کی تدفین کرے۔ مگر خدا کو یہ منظور نہیں تھا۔ لہذا بڑے اہتمام کے ساتھ آپ(ع) کی تدفین عمل میں آئی۔ آپ کی شہادت کے وقت بہت سارے علماء، فضلاء اور چیدہ چیدہ لوگوں کو جمع کیا گیا تاکہ یہ لوگ گواہی دیں کہ آپ اپنی طبعی  موت مرے ہیں۔ لیکن آپ کی باتوں نے ان کے جھوٹ کا فاش کردیا۔

حضرت موسی ابن جعفر علیہ السلام کے القاب بھی دوسرے اہل بیت(ع) کی طرح بے مقصد نہیں بلکہ ان کے تمام القاب عالم ملکوت سے ہی معین کئے گئے تھے۔ لہذا ہم

۱۱۱

 آپ کے صرف القاب کی مختصر تشریح پر اکتفا کرتے ہیں۔

آپ کے القاب میں سے ایک لقب کاظم ہے آپ اپنے صبر و حلم میں بے مثال تھے۔ اور عظیم سے عظیم مصیبتیں آپ کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ کرسکیں۔ آپ کی زیارت میں ہم پڑھتے ہیں۔

“ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ وَ صَلِّ عَلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ وَصِيِّ الْأَبْرَارِ وَ إِمَامِ الْأَخْيَارِ وَ عَيْبَةِ الْأَنْوَارِ وَ وَارِثِ‏ السَّكِينَةِ وَ الْوَقَارِ وَ الْحِكَمِ وَ الْآثَارِ”

“ بار الہ درود نازل فرما حضرت محمد (ص) اور ان کے پاکیزہ آل پر اور درود نازل فرما وصی ابرار حضرت موسی بن جعفر(ع) پر جو نیکوں کے جانشین ، مومنوں کے امام، صفات الہی کے مظہر، وقار وسکون کے وارث ، جس نے مصائب میں صبر و استقامت کا ساتھ دیا جو اہل بیت (ع) کے حکمت اور علم کے وارث ہیں۔”

مختصر یہ کہ آپ کاظم ہیں، صابر ہیں، حلیم ہیں، فراخ دل ہیں ، قسم قسم کے طوفان اور اتار چڑھاؤ میں پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہنے والے ہیں اور دشمن اپنی تمام طاقت و اقتدار کے باوجود ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کرسکا۔

ہارون رشید نے اپنی تمام تر مساعی ختم کیں کہ موسی کاظم علیہ السلام آپ کے سامنے عجز و انکسار اختیار کریں۔ لیکن اسی خواہش کے ساتھ قبر میں پہنچا جو کبھی پوری نہ ہوسکی۔ ربیع کہتا ہے کہ ہارون نے مجھے زندان میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے پاس بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ مجھے معلوم ہے آپ بے گناہ ہیں۔ لیکن میری اور آپ کی بھلائی اسی میں ہے کہ آپ زندان میں رہیں۔ لہذا جو بھی غذا آپ چاہیں حکم فرما دیں تاکہ تیار کی جائے ربیع کہتا ہے کہ میں اس پیغام کے ساتھ آپ کے پاس زندان میں پہنچا تو دیکھا کہ آپ نماز میں مشغول ہیں۔ ہر چند میں نے کوشش کی کہ آپ کےساتھ بات

۱۱۲

کروں اور پیغام پہنچا دوں مگر آپ کے مسلسل نماز میں مشغول ہونے کی وجہ سے بہت دیر بعد اتنا موقع ملا کہ آپ  نے یہ پیغام سن کر جواب میں فرمایا۔“لا حاضر لی مال فينضعنی و لم اخلق سولا ” اس کے بعد پھر نماز میں مشغول ہوئے۔ یعنی آپ نے فرمایا “ میرا کوئی مال نہیں کہ اس سے فائدہ اٹھاؤں اور سوال کرنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہوں۔” یعنی ہم اہل بیت(ع) کسی سے سوال نہیں کرتے۔ ہم اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ بے جا سوال مت کریں۔ یعنی پیٹ کا جہنم  بھرنے کے لیے سوال کی ذلت نہ اٹھائیں۔ ربیع کہتا ہے کہ ہارون نے ایک اور دفعہ مجھے آپ(ع) کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ میں آپ(ع) سے کہوں کہ آپ(ع) اپنے جرم کا اقرار کریں تو آپ کو زندان سے رہائی مل جائے گی۔ آپ (ع) صرف میرے سامنے اقرار کریں۔ میرے اور آپ کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں ہوگا۔ چونکہ میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک آپ اپنے جرم کا اقرار نہیں کریں گے رہائی نہیں دوں گا۔ آپ نے جواب میں فرمایا “ میری طرف سے ہارون کو کہدو کہ میری تکلیف اور تمہاری راحت و خوشی کے دن مسلسل گزر رہے ہیں اور گزرنے والے ہیں میرے اور تمہارے درمیان حاکم خداوند عالم ہے اب بہت کم دن رہ گئے ہیں۔” ربیع کہتا ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کو جواب سن کر ہارون کی پیشانی پر پل پڑگئے اور کئی دنوں تک ان کا موڈ آف رہا۔

آپ کے مشہور ترین القاب میں سے ایک عہد صالح ہے ہم آپ کی زیارت میں کہتے ہیں۔“ الصَلاة عَلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ كَانَ يُحْيِي اللَّيْلَ بِالسَّهَرِ إِلَى السَّحَرِ بِمُوَاصَلَةِ الِاسْتِغْفَارِ حَلِيفِ السَّجْدَةِ الطَّوِيلَةِ وَ الدُّمُوعِ الْغَزِيرَةِ وَ الْمُنَاجَاةِ الْكَثِيرَةِ وَ الضَّرَاعَاتِ الْمُتَّصِلَةِ الْجَمِيلَةِ

“ موسی بن جعفر پر ہمارا سلام ہو جو رات سے لے کر صبح صادق تک استغفار طویل سجدہ ، گریہ و زاری اور اپنے رب کے حضور مناجات میں

۱۱۳

 گزارنے والے ہیں۔”

راوی کہتا ہے کہ آپ(ع) جب بغداد میں جلا وطن تھے تو ہارون نے مجھے بھیجا میں نے بغداد پہنچ کر آپ کو تلاش کیا تو بہت دور ایک جھونپڑی میں آپ کو پایا جو خرما کے پتوں اور جھال سے بنائی گئی تھی۔ آپ وہاں تشریف فرما تھے اور ایک غلام آپ کے سامنے ہاتھ میں قینچی لیے آپ کے عضائے سجدہ کے گھٹوں کو کاٹ رہا تھا۔ آپ اس قدر طویل سجدہ کرتے تھے کہ آپ کے اعضائے سجدہ میں گھٹے پڑے ہوتے تھے۔ زندان میں آپ جو دعائیں پڑھت تھے ان میں سے ایک کے الفاظ ہیں۔

“ میرے معبود! میں تیری عبادت کے لیے ایک خلوت کی جگہ مانگتا تھا۔ تیرا شکر کہ تو نے وہ جگہ میرے لیے عنایت فرمائی۔”

آپ (ع) کا ایک لقب عالم بھی ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی تقریبا ساری عمر زندان یا جلا وطنی میں گزری۔ اسلام ادر انسانیت کے دشمنوں نے عوام کو موسی بن جعفر علیہ السلام کےعلم سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔ اس کے باوجود حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام نے اپنے بہترین لائق شاگرد اور فقیہ کے درجے کے حامل افراد کی تربیت کی اور مسلمانوں کو ہدیہ پیش کیا۔ شیخ طوسی علیہ الرحمتہ نے اپنے رجال میں بہت سارے افراد جیسے، یونس بن عبدالرحمان ، صفوان بن یحی ، محمد بن ابی عمیر ، عبداﷲ بن مغیرہ ، حسن بن محبوب، احمد بن ابی نصرہ وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔

جو بڑے پائے کے فقہاء تھے علی بن یقطین جس نے تشیع کی بہت خدمت کی ہے آپ ہی کہ صحابہ میں سے تھے۔ آپ نے ہی علی بن کو ظالم حکومت کی ملازمت اختیار کرنے کو کہا تھا۔ علی بن یقطین ہارون رشید کا وزیر تھا۔ مگر امام موسی کاظم علیہ السلام ان کی ترتیت کررہے تھے۔ جس طرح آپ ان کی ترتیب کا خیال رکھتے تھے۔ اسی طرح ان کے تحفظ کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ یہاں پر ان کے چند ایک واقعات

۱۱۴

کا ذکر کرتے ہیں۔

1 ـ ایک دفعہ ابراہیم جمال جو آپ کے اچھے پیروکاروں میں سے تھے۔ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے بغداد آئے اور چاہا کہ علی بن یقطین سے ملتے ہوئے امام (ع) کے پاس جاتے ۔ لیکن علی بن یقطین اتنے مصروف تھے کہ ابراہیم جمال ان کے ساتھ ملاقات کئے بغیر مدینہ روانہ ہوئے اور جب مدینہ میں امام (ع) کے حضور پہنچے تو امام نے علی بن یقطین کے بارے میں پوچھا تو ابراہیم جمال نے اپنا واقعہ اور ملاقات نہ ہونے کا ذکر کیا۔ اسی سال علی بن یقطین بھی مدینہ پہچے چاہا کہ امام کی خدمت میں حاظر ہوجائیں مگر امام نے انہیں اجازت نہ دی اور دوسرے اور تیسرے دن بھی امام نے ملاقات کی اجازت نہیں دی۔ علی بن یقطین بڑے آزردہ ہوئے۔ اور گریہ کرنے لگے کہ مجھ سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے؟ آخر کار امام (ع) نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ جب تک ابراہیم جمال کو راضی نہ کرا دو ہم تم سے راضی نہیں۔ یہ سن کر علی بن یقطین مدینہ گئے اور ابراہیم جمال سے معافی مانگی اور معاف کرنے کی نشانی کے طور پر ابراہیم جمال کے پاؤں اپنے چہرے پر زبردستی رکھوادئے اور اس کے نشانات کی حفاظت کر کے امام کے حضور پہنچے اور امام نے یہ دیکھ کر فرمایا اب ہم تم سے راضی ہیں۔

امام (ع) کا یہ حکم کرنا علی بن یقطین کی تہذیب نفس کے لیے ایک خاص لطف پر مبنی تھا۔

2 ـ ایک دفعہ ہارون رشید نے ایک قیمتی کپڑا علی بن یقطین کو انعام کے طور پر دے دیا۔ علی بن یقطین نے وہ کپڑا حضرت امام موسی کاظم علیہ الرحمہ کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے کپڑا واپس کرتے ہوئے کہلا بھیجا کہ وہ کپڑے کو حفاظت سے رکھے اور اسے خوشبو سے معطر کر کے رکھے۔ کچھ عرصے کے بعد چغل خوروں نے ہارون کے پاس

۱۱۵

 چغلی کھائی کہ علی بن یقطین نے وہ کپڑا امام موسی کاظم علیہ السلام کو بھیجا ہے۔ ہارون نے انہیں طلب کر کے پوچھا کہ جو لباس میں نے انعام کے طور پر دیا تھا اسے کیوں نہیں پہنے ہو؟ انہوں نے جواب دیا چونکہ آپ کا انعام دیا ہوا ہے لہذا اسے معطر کر کے حفاظت سے اٹھا رکھا ہے۔ ساتھ ہی غلام کو بھیج کر وہ کپڑا منگوا لیا۔ ہارون نے جب یہ صورت حال دیکھی تو قسم کھائی کہ آئندہ علی بن یقطین کے  بارے میں کسی کی کوئی بات نہیں سنے گا۔

3 ـ علی بن یقطین اپنے معمولی کے مطابق اپنے وظائف شرعی پر عمل کررہے تھے۔ ایک دن انہیں امام موسی کاظم علیہ السلام  کی طرف سے ایک خط ملا جس میں یہ ہدایت تھی کہ اپنے معروف طریقے کے برخلاف وضو کے طریقے پر عمل کرے۔ خط ملتے ہی اس نے عمل شروع کیا۔ چند دن تک  یہ سلسلہ جاری رہا اسی دوران بدخواہوں نے ہارون کے کان میں یہ بات ڈال دی کہ علی بن یقطین شیعہ ہیں۔ ہارون نے صدیق کے لیے چھپ کر ان کا وضو کرنا دیکھا تو علی بن یقطین کو اپنے طریقے پر وضو کرتے پایا اور چغلی کرنے والوں کی سرزنش کی۔ اس واقعے کے کچھ دن بعد امام(ع) کی طرف سے دوسرا خط جس میں اپنے طریقے کے مطابق وضو کرنے کا حکم تھا۔

حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام نے اپنے اصحاب ، اجماع ، شاگردوں کے علاوہ دوسرے ایسے افراد کی بھی تربیت کی جنہوں نے مذہب شیعہ کی غیر معمولی خدمت کی ہے جیسے کہ علی بن یقطین۔

اگر ہم حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کےعلم کے بارے میں بات کرنا چاہیں تو آپ کے لیے زیارات میں پایا جانے والا یہ لفظ آپ کے علم پر کما حقہ دلالت کرنے کے لیے موجود ہے اور وہ لفظ “ عیبتہ الانوار” ہے عیبہ کے معنی تجوری کے ہیں جس میں گرانقدر قیمتی جواہرات کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام

۱۱۶

انوار الہی کی تجوری قرار پاتے ہیں۔ قدرت خدا کی تجوری ، خدا کی وسیع رحمتوں کی تجوری، صفات حقہ کی تجوری، ہم جس قدر بھی آپ کے علم کے بارے میں بات کریں گے وہ ناکافی ہے۔ آپ کے علم کے اظہار کے لیے صحیح اور مناسب تر لفظ “ عیبتہ الانوار” ہے۔ آپ کا ایک لقب باب الحوائج  ہے۔ محمد بن طلحہ شافعی آپ  کے بارے میں کہتا ہے۔

“ انه الامام جليل القدر عظيم الشان کثير التهجد المواظب علی الطاعات المشهور بالکرامات مسهر الليل بالسجدته والقيام و متم اليوم بالصيام والصدقه والخيرات المسمی بالکاظم لعفوه و احسانه بمن اسائه والمسمی بالعبد الصالح لکثيره عبوديته والمشهور باب الحوائج اذ کل من يتوسل اليه اصاب حاجته کراماته تحار منها العقول”

“ بتحقیق آپ (ع) جلیل القدر ، عظیم الشان پیشوا ہیں۔ راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے والے اور اﷲ کے اطاعت گزار ہیں۔ اپنی کرامات میں مشہور راتوں کو طویل سجدے اور قیام کرنے والے ہیں اور دنوں کو روزے رکھنے والے ہیں، ضرورتمندوں کی مدد کرنے والے ہیں۔ ان بزرگ کا لقب کاظم (ع) ہے ۔ جو آپ کے ساتھ برا کرتے ہیں آپ انہیں معاف کرتے ہوئے ان کےساتھ نیکی کرتے ہیں۔ آپ کا لقب عبدصالح بھی ہے کثرت عبادت اور بندگی کی وجہ سے یہ لقب پڑ گیا۔ باب الحوائج بھی آپ کا لقب ہے جو بھی آپ کا وسیلہ اختیار کرتا ہے اس کی حاجت پوری ہوتی ہے حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی کرامات اتنی زیادہ ہیں کہ انسانی عقل متحیر ہوتی ہے۔”

خطیب خوارزمی کہتا ہے کہ مجھے جب کبھی بھی کوئی غم والم در پیش ہوا میں حضرت

۱۱۷

 موسی بن جعفر (ع) کے روضے پر گیا اور میرا غم بھی دور ہوا۔ تاریخی تجربات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام باب الحوائج ہیں۔ منقول ہے کہ خلفاء میں کسی ایک کو دل کی بیماری لاحق ہوئی۔ ہر چند دوا تجویز کی گئی مگر افاقہ نہٰیں ہوا ۔ اس کے خاص حکیم نے جو نصرانی تھا کہا تمہارے اس درد کی کوئی دوا نہیں تو کسی اﷲ والے کو تلاش کرو اور اس کے ذریعے دعا کراؤ۔ خلیفہ نے کہا کہ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کو بلایا جائے آپ(ع) نے آکر دعا فرمائی تو وہ بالکل تندرست ہوئے۔ اس کے شفا پانے کے بعد آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے کیا پڑھا تھا کہ فورا صحت یاب ہوا۔ آپ (ع) نے فرمایا ،میں نے صرف اتنا کہا تھا۔ “ اللہم کما اریتہ ذل معصیتہ فارہ عن طاعتی” خداوندا جس طرح تو نے اسے نافرمانی کی ذلت سے آگاہ کیا اسی طرح میری اطاعت کی عزت بھی اسے دکھا۔” آپ دیکھیں کیا ہی بلیغ اور لطیف کلام کس طرح کا تعمیری اور تہدیدی کلام ہے۔

شیخ طوسی اپنے رجال میں حماد سے نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “ ایک دفعہ مٰیں حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرے حق میں دعا فرمائیں کہ خداوند عالم مجھے اچھا گھر ، اچھی بیوی اور نیک اولاد دے اور پچاس حج کرنے کی توفیق دے۔ آپ نے دعا فرمائی تھوڑی مدت نہیں گزری تھی کہ خداوند عالم نے مجھے سب کچھ دیا۔” یہ شخص ہر سال حج کرنے جاتا تھا۔ ایک دفعہ حج پر گیا تھا۔ احرام کےموقع پر غسل کرنے پانی میں اترا اور وہی غرق ہوکر مرا اس طرح آخری سال حج بجا نہ لاسکا۔ تاریخ میں حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام سےمتعلق اسی قسم کے واقعات بہت ملتے ہیں۔

آپ(ع) کی شہادت کا سبب

حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ (ع)

۱۱۸

 دوسروں کی خواہشات کی بھینٹ چڑھ گئے یعنی یحی برمکی کے حسد، ہارون کی جاہ طلبی اور علی بن اسماعیل کی زر پرستی جو آپ کا بھتیجا بھی تھا۔ ابن اشعث ہارون کے بیٹے امین کی تربیت پر مامور تھا ہارون کے نزدیک بہت مقرب تھا۔ یحی برمکی کو یہ خوف تھا کہ باد شاہت ہارون کے بعد اس کے بیٹے امین کو ملے گی اور ابن اشعث اس کی جگہ سنبھالے  گا۔ لہذا حسد کے مارے اس نے حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام اور ابن اشعث کے خلاف ہارون کے کان بھرنے شروع کئے۔ مامون وسوسے میں مبتلا ہوا اور حضرت موسی بن جعفر(ع) کے بارے میں تحقیق کرانی چاہی اور اس مقصد کے لیے آپ کے بھتیجے علی بن اسماعیل کو بلا بھیجا۔ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام نے اسے جانے کو منع کیا اور خطرات سے آگاہ کیا مگر وہ گیا اور ہارون سے پہلے یحی برمکی سے ملاقات کی اور ہارون کے پاس جاکر کہا ایک مملکت میں دو بادشاہ نہیں ہوسکتے۔ یہ سن کر ہارون نے حکم دیا کہ انہیں دو لاکھ درہم دیئے جائیں۔ حکم کی تعمیل مگر ایک درد اٹھا اور علی بن اسماعیل وہی پر مرگیا۔ یعنی رقم دیکھ کر ہی مرگیا۔ ہارون نے حضرت موسی بن جعفر (ع) کو گرفتار کر کے زندان میں رکھا اور کچھ عرصے کے  بعد شہید کیا۔ اور بہت  ہی کم مدت میں برمکی خاندان بھی صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ سورہ یونس میں ارشاد ہوا۔“ لوگو ! تمہارا ظلم تم پر ہی لوٹ کر آتا ہے اس کے بعد تمہاری بازگشت ہماری طرف ہوتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو ہم اس کی خبر تمہیں دیں گے۔”

۱۱۹

حضرت امام رضا علیہ السلام

آپ کا نام نامی علی(ع) کنیت ابوالحسن ثانی اور مشہور لقب رضا(ع) ہے۔ آپ کی عمر مبارک 55 سال تھی۔ 11 ذی العقعدہ 148 ہجری کو ولادت پائی اور 203 ہجری میں صفر کی آخری تاریخ کو وفات پائی ۔ سبب شہادت مامون کا زہر دینا تھا۔

مدت امامت بیس سال ہے۔ سترہ سال مدینہ میں عوام کے پشت پناہ علماء کے استاد اور مروج دین رہے اور آخری تین سال آپ کو مجبورا طوس پہنچایا گیا اور یہاں بھی آپ نے جہاں تک ممکن تھا دین کی حفاظت فرمائی انجام کار کار مامون ہاتھوں شہید ہوئے۔

اسلامی کتب تاریخ کے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کلمات الہی کے معدن ، انوار الہی کے صندوق اور الہی علوم کے خزینہ دار تھے۔ مامون کے دربار میں دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ آپ کے مباحث اور مناظرے آپ کی علمی شخصیت کو نمایاں کرتے ہیں جس کا اعتراف مامون اکثر یہ کہہ کر کرتا تھا ۔ “ میں نے روئے زمین پر اس شخص سے بڑھ کر کسی کو عالم نہیں دیکھا۔” فرید وجدی اپنے دائرة المعارف میں لفظ رضا کے ذیل میں لکھتا ہے “ مامون نے اپنے دربار میں 33 ہزار لائق فاضل افراد کو جمع کیا ہوا تھا ۔ ایک دفعہ ان سے رائے لی اور پوچھا کہ میرے ولی عہد بننے کے لیےکون سب سے زیادہ اور مناسب ہے اور ان تمام

۱۲۰