اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ0%

اسلام کے محافظ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 191

اسلام کے محافظ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیۃ اللہ حسین مظاہری
زمرہ جات: صفحے: 191
مشاہدے: 70398
ڈاؤنلوڈ: 4065

تبصرے:

اسلام کے محافظ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 191 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 70398 / ڈاؤنلوڈ: 4065
سائز سائز سائز
اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 

اسلام کے محافظ

از قلم : آیت اﷲ حسین مظاہری

۱

نام کتاب :    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام کے محافظ

مصنف : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آیت اﷲ حسین مظاہری

مترجم : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید ذالفقار علی زیدی

۲

پیش گفتار

اس مادی ترقی کے دور میں جبکہ انسانی ، اخلاقی اور اسلامی اقدار روبہ زوال ہیں خدا اور انسان کے ربط کی بات کرنا، عوام الناس کو اس مقدس رشتے سے متعارف و روشناس کرنا  اور پھر خد اپرستی کی طرفف عملاا مائل کرنا ۔۔۔ یہی وہ اہداف ہیں جن کی جانب جامعة الاطہر پبلیکیشنز پاکستان 1411 ہجری سے رواں دواں ہے۔ ان اہداف کے حصول کے لیے ہماری یہ کوشش ہوگی کہ اسلام کے حقیقی نظریات ، معارف کے ادراک اور قارئین کے عملی، دینی اور روحانی ذوق کی تسکین کے لیے مستند تبلیغات جاری کرتے رہیں۔

اسلام کے محافظ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔

یہ کتاب ( اسلام کے محافظ) آیت اﷲ حسین مظاہری کی تالیف ہے ۔ جس میں آپ نے حضرات چہاردہ معصومین علیہم السلام کی سیرت مبارکہ کے بارے میں بطور خلاصہ اپنے مطالعہ کا نچوڑ بیان فرمایا ہے۔

مسلمان اسلام کی ان محافظین کی سیرت طیبہ سے آگاہی حاصل کر کے اپنی زندگی کو ان کے نقش قدم پر چلانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکتے ہیں۔ امید ہے یہ گرانقدر کتاب طالبان علم و معرفت کے لیے قیمتی سرمایہ ثابت ہوگی۔

                                                                             ( ناشر) 

۳

“مقدمہ مولف”

اس مقدمے میں تین بنیادی نکتوں کو بطور خلاصہ بیان کیا جائے گا۔ اـ افراد اہل بیت(ع) کا فضیلت میں برابر ہونا اور نبوت اور نبوت و امامت کی دلیل۔ ان میں سے بعض مقالات اسلامی جمہوری کے ریڈیو سے نشر ہوچکے ہیں ۔ اور مصنف سے ان کے بعض دوستوں نے یہ خواہش کی کہ ان مقالوں کو ایک کتاب کی شکل میں طبع کیا جائے لیکن عدیم الفرصتی کی وجہ سے مولف کو یہ موقع نہ ملا کہ دوستوں کے اس مطالبے کو پورا کرسکے ۔ یہاں تک کہ ماہ رمضان 1402 ہجری میں کچھ وقت ملا جس کی وجہ سے موجودہ صورت  میں کتاب طبع ہوئی۔ نشر شدہ ان مقالات میں چند مفاہیم کا اضافہ ہوا ہے۔ امید ہے کہ حضرات اہل بیت کرام(ع) کی خوشنودی اور قارئین کی پسندیدگی کا موجب بنے گی۔

یہاں یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس مجموعے میں خاصی بلکہ کئی ایک خامیاں ہیں ادبی اور فنی خامیاں بھی ہیں بحثوں کے مختصر ہونے کی خامی بھی ہے شاید مہارت کی خامی بھی ہو اور یہ بھی خامی ہوسکتی ہے کہ تفصیل کے بجائے اجمال سے کام لیا گیا ہے۔

مگر یہ کتاب صرف بیس دن سے کمتر مدت میں اور وہ بھی ماہ رمضان میں جبکہ انقلاب کے نشیب و فراز کا سامنا بھی تھا۔ ایک ایسا انقلاب جس نے بڑے معرکہ انجام دیئے۔ ایک ایسا انقلاب جس کے خلاف عالمی سپر طاقتوں نے ایکا کیا۔ اس طرح تمام کی نظریں

۴

 اس پر لگی ہوئیں ہیں۔ ایک ایسا انقلاب جس کے دائم و قائم رہنے کی فکر آئندہ اور موجودہ تمام نسلوں کو ہونی چاہیے۔

خلاصہ یہ کہ انقلاب اسلامی جو قسم قسم کے مسائل کے ساتھ نبرد آزما رہا ہے نے ہمیں اس قدر فرصت نہیں دی کہ ہم اس قسم کے امور کو زیادہ سے زیادہ وقت دے سکیں۔ لیکن “ ما لا یدرک کلہ لا یترک کلہ” ایک واضح کمی جو نظر آئے گی وہ یہ ہے کہ  کتاب کی دقیق مطالب کا حوالہ موجود نہیں لیکن میں ذمہ داری لیتا ہوں کہ اس کتاب کی تمام اسناد سنی و شیعہ کی مستند کتابوں سے لی ہیں جن کی فہرست ہم نے کتاب کے آخر میں دی ہے۔

روایات سے جس چیز کا پتہ چلتا ہے اور مسلم ہے کہ حضرات اہل بیت علیہم السلام کے درمیان فضائل و کمالات کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ایک ہی نور کی شعائیں ہیں جو مختلف انوار میں بٹ گئی ہیں۔ “ کلہم نور واحد” تمام اہل بیت(ع) ایمان، تقوی، شجاعت، حلم، سخاوت، علم اور دوسرے تمام فضائل میں یکساں ہیں۔ “ اولنا محمد و اوسطنا محمد و آخرنا محمد” آپ اس کتاب میں جن کمالات اور فضائل کو پڑھیں گے وہ تمام اہل بیت(ع) کی صفات ہیں۔ یہ صرف زمانے اور حالات کا تقاضا تھا کہ ان میں بعض کمالات کا ظہور بعض سے ہوا۔ جیسے کہ حضرت علی علیہ السلام جو ہر وقت حضور اکرم (ص) کی خدمت میں رہتے تھے اور آپ کی زندگی میں ستر سے زائد جنگیں لڑی گئیں ان میں سے اکثر کے انتظامی امور کی ذمہ داری حضرت علی(ع) کےہاتھوں میں تھی لہذا آپ (ع) اس طرح “ اہل بیت(ع) کی شجاعت ” کے مظہر قرار پائے۔

اسی طرح حضرت ابی عبداﷲ امام حسین علیہ السلام کو خونین انقلاب بھی حالات کے تقاضے کے پیش نظر رونما ہوا آپ فداکاری ، محبت الہی  اور راہ خدا میں جانبازی کا مظہر بن گئے۔ در اصل یوں کہنا چاہئے کہ آپ (ع) اہل بیت(ع) کی فداکاری ” کا مظہر ہیں۔

۵

حضرات امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ بنی امیہ کی حکومت کا آخری اور بنی عباس کی حکومت کا ابتدائی تھا۔ جس نے ابھی استحکام حاصل نہیں کیا تھا۔ جس نے ابھی استحکام حاصل نہیں کیا تھا۔ لہذا یہ دونوں حضرات اہل بیت(ع) کے علم کا مظہر قرار پائے۔ اسی طرح تمام ائمہ علیہم السلام کے بارے میں کہا جاسکتا ہے ۔ لہذا اس کتاب میں کہیں اگر کوئی فضیلت اہل بیت(ع) میں سے کسی ایک کے لیے بتائی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اہل بیت کرام(ع) کے دوسرے افراد اس فضیلت کے حامل نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہستی اس فضیلت کی مظہر جو تمام ائمہ میں موجود ہے۔

قرآن مجید حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا زندہ معجزہ ہے۔ اور کئی ایک پہلوؤں سے معجزہ ہے۔

“ا”  قرآن ایک علمی کتاب ہے اور اس علمی کتاب کا لانے والا “امی” ہے جس نے الف ب بھی لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا ہے۔ قرآن “ کتاب ہدایت” اور “ کتاب تہذیب” جیسی تعبیرات کے ذریعے اپنی پہچان کرا دی ہے جب کہ حقیقت مٰیں تمام علوم اور فضائل کی حامل ہے۔ قرآن فلسفے کی کتاب نہیں لیکن اس میں فلسفی براہین و استدلال موجود ہے۔ اور کئی ایک ایسی آیات موجود ہیں جو فلسفی براہین کی حامل ہیں۔ قرآن فقہ کی کتاب نہیں لیکن معاشرتی ، سیاسی ، معاملاتی، عبادی اور جزائی قوانین کا حامل ہے۔ وہ بھی اس طرح موجود ہیں کہ اگر سارا عالم مل کر کوشش کرے کہ اس    قسم کے قوانین وضع کرین تو یہ ان کے لیے ناممکن ہے۔

قرآن علوم فلکیات کی کتاب نہیں لیکن ستارہ شناسی کے نکات موجود ہیں جنہوں نے اس شعبے کے ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے۔

قرآن فصاحت و بلاغت کی کتاب نہیں لیکن اپنی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے دنیا کے تمام فصحاء و بلغاء کو مبہوت کیا ہوا ہے۔ اس بنا پہ “ ولید بن مغیرہ” نے جو فصحائے

۶

 عرب مین سے ایک تھا قرآن کے بارے میں یوں کہا ہے۔

“ اس قرآن کی ایک خاص مٹھاس اور تازگی ہے اس کے شاخ پھلوں سے لدے ہوئے ہیں جڑیں مستحکم اور استوار ہیں تمام کلاموں سے برتر کلام ہے اس سے بلند کلام کوئی پیش نہیں کرسکتا۔ ” قرآن طبیعات کی کتاب نہیں لیکن اس میں ہزار سے زائد آیات علم طبیعات کے مسائل کو پیش کرتی ہیں۔ اسی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن معجزہ ہے کیونکہ کہ یہ ایک علمی کتاب ہے جس سے مختلف علوم کےچشمے پھوٹتے ہیں اور اس کا لانے والا کون ہے؟ ایک ایسا شخص جس نے الف بے کو بھی پڑھنا لکھنا سیکھا نہیں تھا۔

“ب” قرآن کریم 23 سال کے عرصے میں موقع و محل کی مناسبت سے مختلف شرائط کے تحت حضور اکرم (ص) پر نازل ہوتا رہا۔ معمول کے مطابق عام حالت میں ، غیر معمولی حالات میں ، صلح کے وقت ، جنگ کے وقت ، قوت و اقتدار کے وقت ، کمزوری کے وقت اور دیگر  مختلف حالات میں نازل ہوتا رہا ۔ لیکن اس میں جو اہم بات ہے وہ اس کے آیات کا آپس میں ربط اور استحکام ہے جو پورے قرآن کی تمام آیات میں موجود ہے۔ ان میں وہ آیات بھی شامل ہیں جو مکہ کے کمر شکن حالات کے دوران نازل ہوئی ہیں اور وہ آیات بھی ہیں جومدینہ کے دولت و حکومت اور اقتدار کے زمانے میں نازل ہوئی ہیں۔ مگر ان تمام میں ایک ہم آہنگی موجود ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح کی ہم آہنگی پورے قرآن مجید میں پائی جاتی ہے۔ اور ایسا ہونا خود ایک عظیم معجزہ ہے۔

“ج” جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ قرآن مجید 23 سال کے عرصے میں ایک ایسے شخص پر نازل ہوا جس نے الف بے تک بھی پڑھنا لکھنا نہیں سکھا تھا۔ اور اس کتاب کی جس خصوصیت نے فصحاء و بلغاء اور علماء کی توجہ اپنی جانب مبذول کی وہ اس  کی ہم آہنگی ہے۔ قرآن میں کہیں بھی کوئی اختلاف نہیں کوئی بھی ای آیت دوسری آیت کے برعکس نہیں۔ جیسا کہ بعرض لوگوں کے خیال میں کسی قدر نسخ موجود ہے لیکن ہمارے

۷

عقیدے میں یہ بھی قرآن میں نہیں اگر قرآن کریم خداوند عالم کی طرف سے نہ ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس میں اختلاف موجود نہ ہوتا؟ قرآن خود اس عظیم معجزے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 “أَ فَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَ لَوْ كانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فيهِ اخْتِلافاً كَثيراً  ”  (    النساء : 82)

“ کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر اور غور و فکر نہیں کرتے کہ اگر خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارا اختلاف پاتے ”

یہ بحث بڑی طویل ہے کلام کے اختصار کی خاطر ہم اسے یہیں پر ختم کرتے ہیں۔ تاکہ طوالت سے بچ جائیں۔

خلاصہ یہ کہ قرآن ( اﷲ کا کلام ) مختلف پہلوؤں سے معجزہ ہے اور خداوند عالم نے اس کے مخالفوں کو مقابلہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے۔

(1)کہہ دیجئے اگر تمام انسان اور جنات جمع ہو جائیں اور ایک دوسرے کی پشت پناہی کریں تو بھی قرآن کی سورتوں میں سے دس بلکہ ایک سورہ بھی پیش نہیں کرسکیں گے۔ ( سورہ اسراء، آیت88)

(2)اگر تمہیں اس قرآن کے خدا کی طرف سے ہونے میں شک ہے تو اس کی سورتیں کی جیسی ایک ہی سورہ بنا کر اور اﷲ کے سوا اپنے تمام گواہوں کو لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ اور اگر تم نہ کرو جبکہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جو کافرون کے لیے تیار کی گئی ہے۔ ( سورہ بقرہ، آیت 23،24)

قرآن فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ایک علمی کتاب ہے مگر اسے لانے والا

۸

 ایک ایسا فرد ہے جو پڑھا لکھا نہیں اور اس کتاب میں کوئی اختلاف بھی نہیں اور اس میں ایک ہم آہنگی اور ربط پایا جاتا ہے۔ اور یہ کتاب خود مقابلے کی دعوت دیتی ہے۔ مقابلے کی یہ للکار کل بھی تھی آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔

یہ آسمانی کتاب پیغمبر اکرم(ص) کو اپنے “ مبین” کی حیثیت سے متعارت کراتی ہے ۔ ( سورہ نحل، آیت 44) میں ارشاد ہوا “ ہم نے ذکر کو تم پر نازل کیا تاکہ تم اسے لوگوں کو بیان کرو جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے۔”

بعض اوقات ابو بصیر(رح) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ قرآن میں امیرالمومنین علیہ السلام اور اہل بیت(ع) عظام کے نام موجود کیوں نہیں آپ فرماتے ہیں قرآن میں کلیات کا بیان ہوا ہے اور خداوند عالم نے ان کلیات کی تفسیر کو بیان کرنے کی ذمے داری حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم پر رکھی ہے ۔ قرآن میں نماز ، روزہ، حج ، ذکوة اور دوسرے مسائل کا بیان بھی کلی طور پر ہوا ہے۔ جبکہ ان کی تفصیلات نماز کتنی رکعت ہے اور کس طرح پڑھنی ہے کے بارے میں کچھ بھی نہیں فرمایا ہے۔ قرآن نے زکوة کو بارے میں حکم دیا ہے  مگر کتنا زکوة ، کتنا نصاب اور کسے دیا جائے تفصیل سے نہیں بتایا۔

اب ان کلیات کی وضاحت کرنا حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر لازم ہے۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا نام بھی اسی طرح “ کلی ” کے تحت مذکور ہوا ہے۔ قرآن میں حکم ہوا ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کریں۔ اور اولی الامر کا تعارف کرانا کہ کتنے ہیں ؟ اور کون ہیں؟ حضور اکرم (ص) کا کام ہے۔

اہل سنت اور اہل تشیع کی کتب میں بہت ساری روایات موجود ہیں کہ حضور اکرم(ص) نے اپنے اوصیاء کا تعین فرمایا۔ ہم بطور نمونہ ان میں سے صرف چند ایک کا ذکر کرتے ہیں۔

۹

اس بارے میں شیعہ و سنی مکتب میں جو روایات مذکور ہوتی ہیں وہ مختلف اقسام پر مبنی ہیں۔ ان روایات کا ایک گروہ تو پوشیدہ طور سے یہ کہتا ہے کہ حضور نے فرمایا میرے بعد میرے خلفاء 12 ہیں اور یہ سب کے سب بنی ہاشم کے خاندان سے ہیں۔

“ الائمة من بعدک اثنی عشر خليفة کلهم من بنی هاشم”

احمد بن حنبل علمائے اہل سنت میں سے ایک عظیم عالم ہیں وہ اپنی مسند میں اس روایت کو سولہ اسناد کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔

روایات کا دوسرا گروہ ایسا ہے جن میں واضح طور سے بیان ہوا ہے کہ حضور اکرم (ص) نے فرمایا “ میرے بعد میرے اوصیاء بارہ ہیں جن کے پہلے علی(ع) ہیں ان کے بعد حسن(ع) ان کے بعد حسین(ع) اور ان کے بعد حسین(ع) کی اولاد میں سے نو افراد ہوں گے جن کا نواں قائم(عج) حق ہوگا اور دنیا جہاں کو عدل و اںصاف سے پر کے گا۔

روایات کا تیسرا گروہ وہ ہے جو تعداد میں زیادہ بھی ہے اور بڑی تفصیل اور صراحت کے ساتھ رسول اکرم(ص) کے خلفاء کو بیان کرتی ہیں۔ ہم یہاں پر ایسی روایات میں سے صرف چار روایات کو بیان کرتے ہیں۔

(1)ایک یہودی شخص نے حضور اکرم (ص) کی خدمت میں آکر آپ کے جانشین کے بارے میں پوچھا اور کہا ہر پیغمبر(ص) کے وصی اور جانشین ہوتے ہیں یہ سن کر آپ (ص) نے فرمایا میرے وصی علی ابن ابی طالب(ع) ہیں اور ان کے بعد ان کے فرزند حسن(ع) ان کے بعد ان کے دوسرے فرزند حسین(ع) اور حسین (ع) کے نو فرزند یکے بعد دیگرے میرے وصی بنیں گے یہودی نے کہا۔ میرے لیے ان کے نام بتادیں۔ تو حضرت (ص) نے فرمایا جب حسین(ع) دنیا سے چلے جائیں گے تو ان کے بیٹے علی(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے جعفر(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے موسی(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے علی(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے علی (ع) ان کے بعد ان کے بیٹے حسن(ع) ان کے بعد ان فرزند حجت محمد مہدی(عج) پس یہی بارہ اوصیاء ہیں۔

۱۰

(2)رسول اکرم(ص) نے فرمایا جب میں معراج کے وقت آسمانوں پر گیا تو ساق عرش پر نور سے لکھا ہوا دیکھا:

“لا إله إلّا اللّه، محمّد رسول‏ اللّه‏-----”

“ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد(ص) اﷲ کے رسول ہیں۔”

میں نے علی(ع) کے ذریعے اس کی تائید کی اور علی(ع) کے ذریعے اس کی مدد کی۔ اس کے بعد حسن(ع) و حسین(ع) ( لکھا ہوا) دیکھا اس کے بعد تین مرتبہ علی علی علی دیکھا اور دو مرتبہ محمد محمد لکھا ہوا دیکھا۔ اس کے بعد جعفر، موسی، حسن اور حجتہ کے بارہ نام نور سے لکھے ہوئے دیکھے۔

(3)حضرت جابر بن عبداﷲ اںصاری فرماتے ہیں کہ جس وقت آیت “أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم ” نازل ہوئی تو میں نے حضور اکرم (ص) سے پوچھا میں نے خدا اور رسول(ص) کو تو پہچان لیا مگر یہ اولی الامر کون ہیں جن کی اطاعت کو خدا اور رسول(ص) کےساتھ ملایا گیا ہے کون ہیں؟ یہ سن کر رسول اکرم(ص) نے فرمایا یہ میرے بعد میرے خلفاء ہیں۔ ان کے پہلے علی ابن ابی طالب(ع) ہیں ان کے بعد حسن(ع) ان کے بعد حسین(ع) ان کے بعد علی ابن الحسین(ع) ان کے بعد محمد بن علی(ع) جو توریت میں باقر (ع) کے نام سے معروف ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے جب ان سے ملاقات ہوجائے تو انہیں میری طرف سے سلام کہنا۔ حضرت جابر نے امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ ملاقات بھی کی اور حضور اکرم(ص) کا سلام بھی پہنچایا۔۔۔ ان کے بعد جعفر بن محمد(ع) ان کے بعد موسی بن جعفر(ع) انکے بعد علی بن موسی (ع) ان کے بعد محمد بن علی(ع) ان کے بعد علی  بن محمد(ع) ان کے بعد حسن بن علی(ع) اور ان کے بعد میرے ہم نام اور میرے ہم کنیت زمین پر حجتہ خدا اور عوام کے درمیان بقیتہ اﷲ محمد بن الحسن بن علی(ع)۔ یہ وہی ہیں جن کے ذریعے خداوند عالم دنیا میں توحید کا پرچم بلند کرے گا۔ اور مغرب و مشرق اس کے تابع کرے گا۔

(4)امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے حضرت ام سلمہ(رض) کے گھر پر میں حضور اکرم(ص) کی خدمت میں پہنچا تو اس وقت آیت تطہیر نازل ہوچکی تھی۔ حضور اکرم(ص) نے فرمایا

۱۱

 اے علی(ع) یہ آیت تم حسن(ع) و حسین(ع) اور تمہاری ذریت کے ائمہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا آپ(ص) کے بعد ائمہ کی  تعداد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اے علی(ع) تم ہو، تمہارے بعد حسن(ع) و حسین(ع) ہیں۔ حسین(ع) کے بعد ان کے بیٹے علی(ع) ہیں، علی(ع) کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع)، محمد (ع) کے بعد ان کے بیٹے جعفر(ع) اور جعفر(ع) کے بعد ان کے بیٹے موسی(ع) اور موسی(ع) کے بعد ان کے بیٹے علی(ع) اور علی(ع) کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع)، محمد(ع) کے بعد ان کے بیٹے علی(ع) اور علی(ع) کے بعد ان کے بیٹے حسن(ع) اور حسن (ع) کے بعد ان کے بیٹے حجتہ(عج) ہیں۔ یہ وہ اسماء ہیں جنہیں میں نے ساق عرش پر لکھا ہوا دیکھا اور خداوند عالم سے ان کے بارے میں پوچھا تو فرمایا اے محمد(ص) یہ ائمہ ہیں تیرے بعد کے جو پاک ہیں، معصوم ہیں اور ان کے دشمن قاتل نفرین ہیں۔

مختصر یہ کہ قرآن آسمانی کتاب اور رسول اکرم(ص) کا زندہ معجزہ ہے۔ اور آپ کی نبوت اسی کتاب کے ذریعے ثابت ہوجاتی ہے۔ اور آپ کے اوصیاء قرآن میں اولی الامر کہہ کر واجب الاطاعہ قرار دیئے گئے ہیں۔

اور خود رسول اکرم(ص) نے جو قرآن کا “ مبین” ہے یعنی بیان کرنے والا ہے “ اولی الامر” کے مصداق کو معین فرمایا ہے۔ اور بہت ساری روایات موجود ہیں جن میں حضور اکرم(ص) نے ان کی تعداد کو بارہ میں منحصر کیا ہے۔ اور سنی و شیعہ روایات میں سے زیادہ روایات میں ان کے ناموں کا ذکر کیا ہے۔ یہ دلیل ہے امامت کی جن کے پہلے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ہیں۔ سنی وشیعہ روایات کے مطابق غدیر خم کے مقام پر آپ کو امامت پر منصب کئے جانے کے بعد ہی دین اسلام کامل ہوا ہے اور آیت “ الیوم اکلت دینکم” نازل ہوئی۔ اور ان کے آخری حضرت قائم آل محمد ہیں جن کی خصوصیات و صفات کا بیان شیعہ وسنی روایات میں تین سو سے زیادہ روایات میں موجود ہے جن میں یہ کہا گیا ہے کہ انہی کے ذریعے خدا روئے زمین کو عدل و اںصاف سے اسی

۱۲

طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی۔

اگر ہم حضور اکرم(ص) کی نبوت پر قرآـن مجید جو ان کا زندہ معجزہ ہے کو دلیل قرار دیں تو بغیر کسی اعتراض کے تام اصطلاحات کلام و فلسفہ، وجود صانع اور وحدانیت اس کے تمام کمال صفات کو ثابت کرنا ہے۔

کیونکہ خود قرآن اس پر دلیل ہے کہ اس دنیا پر ایک حکیم مدبر، عالم اور قادر اور واجب الوجود ہستی حاکم ہے  جس کا نام اﷲ ہے اور وہ ان تمام کمالات کا جامع ہے ۔ اسی طرح قرآن کریم سے معاد جسمانی بھی ثابت ہوجاتی ہے کیونکہ قرآن وہ زندہ معجزہ ہے جو تزکیہ نفس کے بعد دوسری تمام چیزوں سے معاد کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ اس عالم کے لیے ایک اور باطنی عالم موجود ہے ۔ اور وہ عالم بھی جسمانی ہے جہاں خداوند عالم ایک انسان کو اسی جسم و جسمانیت کے ساتھ اور اسی حقیقت کے ساتھ اس دنیا میں دوبارہ زندہ کرے گا۔

ارشاد ہوا ہے۔

قسم ہے قیامت کے دن کی اور قسم ہے نفس لوامہ کی۔ انسان یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ ہم ان ہڈیوں کو دوبارہ زندہ نہیں کریں گے ایسا نہیں بلکہ ہم اس پر قدرت رکھتے ہیں کہ ہم اس کی انگلیوں کے پوروں کو بنا دیں ۔ ( سورہ قیامت آیت 1)

اور انسان کو اس کی حقیقی شکل میں لوٹا دیں اس کے ساتھ اس دنیا میں لوتا دیں۔ اس طرح یہ جاودانی معجزہ نہ صرف نبوت و امامت کو ثابت کرتا ہے بلکہ تمام اصول دین کو پایہ ثبوت تک پہنچاتا ہے۔

۱۳

حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم

حضرت خاتم الانبیاء (ص)

بسم اﷲ الرحمن الرحيم

آپ کا اسم گرامی محمد(ص) مشہور لقب احمد(ص) اور مصطفیٰ اور مشہور کنیت ابوالقاسم ہے۔ جمعہ کے دن صبح کے وقت عام الفیل کے سال سترہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ وہی سال جس میں خداوند عالم نے ابابیل کے ذریعے اپنے گھر کی حفاظت کی اور ہاتھی والوں کو جو خانہ خدا کو ڈھانے کی غرض سے آئے تھے نابود کیا۔ آپ کی شہادت 28 صفر 11ہجری کو ایک یہودی عورت کے زہر دینے کی وجہ سے واقع ہوئی۔

25 سال کی عمر میں آپ(ص) نے حضرت خدیجہ(ع) سے شادی کی۔ یہ وہی خاتون ہیں جن کا اسلام اور مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے۔ حضور اکرم (ص) عام الفیل کے چالیسویں سال 27 رجب المرجب کو مبعوث برسالت ہوئے۔ تیرہ سال تک مکہ میں کمر توڑ مصائب کا مقابلہ کرتے ہوئے اسلام کی تبلیغ کی۔ لیکن کفار قریش اسلام کی تبلیغ میں مانع ہوئے تو آپ (ص) نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور وہیں سے آپ نے اپنی رسالت کا پیغام دنیا میں پھیلایا۔ آپ (ص) کے والد حضرت عبداﷲ بن عبدالمطلب(ع) عرب کے سرداروں میں سے تھے۔ تاریخ کی گواہی کے مطابق آپ(ص) کی عظمت و بزرگواری کے ہم پلہ بہت کم لوگ تھے۔ حضور اکرم(ص) کی ولادت سے پہلے ہی آپ(ص) کے والد ماجد نے شام کے سفر سے لوٹ کر مدینہ میں وفات پائی اور وہیں پر مدفون ہوئے۔ اس وجہ

۱۴

سے حضور اکرم(ص) کی پرورش آپ(ص)  کے دادا حضرت عبدالمطلب (ع) نے کی اور آپ کی رضاعت کے لیے دایہ مقرر کی جن کا نام حلیمہ سعدیہ(رض) تھا۔ ان خاتون کی عظمت کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ حضور اکرم(ص) اپنی پرورش ان کے ہاتھوں ہونے پر فخر کرتے تھے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ(رض) نے چھ سال تک پرورش کرنے کے بعد آپ (ص) کو واپس آپ(ص) کی والدہ محترمہ(ع) کے پاس پہنچایا۔ اور حضور اکرم(ص) اپنی والدہ محترمہ(ع) کے ساتھ اپنے والد کی قبر کی زیارت کے لیے مدینہ چلے گئے مگر وہاں سے واپسی پر راستے میں حضرت آمنہ(ع) نے وفات پائی اور حضرت ام ایمن(ع) نے آپ (ص) کو آپ (ص) کے دادا حضرت عبدالمطلب (ع) تک پہنچایا۔ جب آپ(ص) کی عمر مبارک آٹھ سال کی تھی تو حضرت عبدالمطلب(ع) نے وفات پائی۔ اور ابوطالب(ع) جیسے چچا اور فاطمہ بنت اسد (ع) جیسی چچی نے ماں اور باپ بن کر آپ(ص) کی پرورش کی۔ اس وجہ سے آپ(ص) کو یتیمی کا احساس نہ ہوا مگر اس کے ملال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کریم نے اس نکتے کی طرف ارشاد فرمایا :

“أَ لَمْ يَجِدْكَ يَتيماً فَآوى‏ وَ وَجَدَكَ ضَالاًّ فَهَدَى‏ وَ وَجَدَكَ عَائلًا فَأَغْنى‏”

“ کیا تمہیں یتیم نہیں پایا کہ پناہ دیدی تمہیں راہ بھٹکتے دیکھا تو ہدایت دی تجھے گراں بوجھ سکے تلے پایا تو بے نیاز کردیا۔ ”

اس بنا پر رسول اکرم(ص) اگرچہ یتیم ، غریب اور محتاج تھے مگر اس کے اثرات آپ(ص) پر نہیں ملتے ہیں۔ کیونکہ خداوند عالم نے ابوطالب(ع) جیسی ہستی کے پاس آپ(ص) کو پناہ دی ۔ اور حضرت خدیجہ(ع) جیسی دولت مند خاتون کو شادی کے وقت جس نے یہ اعلان کیا کہ میری دولت آپ(ص) کی ہے اور میں خود آپ (ص) کی کنیز ہوں مالی ضروریات کی طرف سے خداوند عالم نے یوں بے نیاز کیا۔ آپ(ص) کی مادر گرامی حضرت آمنہ(ع) ایک عظیم خاتون تھیں۔ ان کی عظمت کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ حضور اکرم(ص) کی والدہ ہیں۔

حضور اکرم(ص) کی شرافت ، کرامت اور عالی صفات اور معجزات اس قدر زیادہ ہیں

۱۵

جن کی تفصیل دوسری مفصل کتابوں میں موجود ہے۔ چونکہ ہمیں یہاں اختصار مطلوب ہے اس لیے صرف ایک معجزے کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں اور قرآن کریم نے آپ(ص) کی شان میں جو کہا ہے اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد اختصار کے ساتھ آپ(ص) کے القاب کی تفسیر بیان کرتے ہیں اور آخر میں آپ(ص) کے خاتم النبیین ہونے کے بارے میں کچھ بحث کرتے ہیں۔

مورخین کا لکھنا ہے کہ آپ(ص) کی ولادت کے دن دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ طاق کسریٰ میں شگاف پڑا ۔ اور اس کے کنگرے گر پڑے ، دریائے ساوہ خشک ہوا۔ آتش کدنہ فارس جو کئی سالوں سے مسلسل جل رہا تھا بجھ گیا۔ اس دن دنیا کے تمام بادشاہ حیران و پریشان اور گونگے بن گئے تھے۔ تمام بت اوندھے منہ گرے تھے، اس دن ساحروں کا سحر بے اثر ہوگیا تھا۔ لا الہ الا اﷲ کا کلمہ گونج رہا تھا اور جب آپ(ص) دنیا میں آئے تو آپ(ص) کے وجود کی برکت سے عالم نور ہویا۔ جب آپ(ص) نے لا الہ الا اﷲکہا تو دنیا جہاں نے آپ(ص) کے ہمزبان ہو کرلا الہ الا اﷲ کہا۔ حضور اکرم (ص) کے بارے میں قرآن کریم یوں فرماتا ہے۔

“وَ كَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهيداً ”

“ اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط قرار دیا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر(ص) تم پر گواہ ہوں”

اس آیت کریمہ کے دو معنی ہیں اور یہ تعبیر ان دونوں معانی کی حامل ہے کہ امت اسلامی انسانیت کے معاشرے کے لیے نمونہ عمل ہے اور رسول اکرم(ص) امت مسلمہ کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ لیکن ان آیت کے ایک اور عمیق معنی بھی ہیں جسے ائمہ علیہم السلام نے بیان فرمایا ہے اور شیعہ مفسرین خصوصا ہمارے استاد محترم علامہ طباطبائی نے ان روایات کی پیروی کرتے ہوئے مفصل بحث کی ہے اور وہ معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن امت اسلامی لوگوں کے

۱۶

اعمال کی گواہ بننے  والی ہے مگر یہ بات صریحی ہے کہ تمام امت والے اس کے لائق نہیں بلکہ یہ امر ائمہ معصومین علیہم السلام پر منحصر رہے گا۔ اہل بیت(ع) و شیعہ کی بے شمار ایسی روایات موجود ہیں جو اس دوسرے  معنی پر دلالت کرتی ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ خداوند عالم نے ائمہ معصومین علیہم السلام کو اس لیے خلق فرمایا کہ وہ قیامت کے دن لوگوں کے اعمال کے گواہ بنیں اور حضور اکرم(ص) ان کے اعمال کے گواہ بنیں۔ اس دنیا میں گواہ کو تمام شرفتوں کا حامل ہونا چاہیے تاکہ وہ قیامت کے دن گواہ قرار پاسکے۔ اور اگر دنیا میں اس نے یہ مسائل نہ دیکھے ہوں تو قیامت کے دن گواہ نہیں ہوسکتا۔ لہذا ائمہ علیہم السلام کے لیے عالم ہستی کے محیط میں موجود ہونا چاہیے تاکہ ان کے اعمال پر مطلع ہوسکیں اور گواہی دے سکیں یہ وہی واسطہ فیض ہے جسے اصطلاح میں “ ولایت  تکوینی” کہا جاتا ہے اس صورت میں آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہوا کہ ائمہ علیہم السلام دنیا والوں کے لیے واسطہ فیض ہیں اور ان کے لیے حضور اکرم (ص) واسطہ فیض ہیں یہی معنی ہیں کہ حضور اکرم(ص) کو عقل کا نور مطلق یا “ اول ما خلق اﷲ ” کہا گیا ہے۔

اس بارے میں بڑی طویل بحث ہے مگر اس مختصر کتاب میں اس کی گنجائش موجود نہیں۔ ہم نے اپنی کتاب ” قرآن میں امامت و ولایت ” پر نسبتا مفصل بحث کی ہے۔ تفصیل کے خواہشمند اس کا مطالعہ کریں۔ جو کچھ کہا جاسکتا ہے یہ ہے کہ بہت ساری آیات اور روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ائمہ طاہرین( علیہم السلام ) اس عالم کے لیے فیض کا واسطہ ہیں اور اس دنیا مین جو کچھ نعمت ملتی ہے جیسے کہ ظاہری نعمات مثلا عقل، سلامتی، رزق، تحفظ ، یا نعمات باطنی اور معنوی مثلا علم، قدرت ، اسلام، وغیرہ بھی ان حضرات کے وسیلے سے ہے۔ اور ان حضرات کا وجود جہاں ہستی میں “ احاطہ علی” کی حیثیت رکھتا ہے اور حضور اکرم(ص) کی ذات گرامی ائمہ طاہرین(ع) کے لیے واسطہ فیض

۱۷

ہے اور ان حضرات کے جو نعمات ظاہری اور باطنی میسر ہیں وہ آںحضرت(ص) کے وجود با برکت کے ذریعے سے ہیں اور آپ(ص) کو وجود ان کے لیے “ احاطہ علی” قرار پاتا ہے۔

اور ائمہ علیہم السلام سے جو روایات “ کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اور رکھتے ہیں رسول اکرم(ص) کی طرف سے ہے اور رسول اکرم(ص) جو کچھ بھی رکھتے ہیں وہ خداوند عالم کی طرف سے ہے۔ ” کا مطلب بھی یہی ہے  حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے لیے بہت سارے القاب وارد ہوئے ہیں جن میں سے ہم کچھ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی تشریح کریں گے۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب احمد(ص) ہے۔ قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انجیل میں بھی یہ لقب استعمال میں آیا ہے قرآن کہتا ہے :

 “وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتي‏ مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَد”

“حضرت عیسی(ع) نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک رسول(ص) آئے گا جس کا لقب احمد(ص) ہوگا۔

احمد کے معنی تعریف کرنے والے کے ہیں۔ یعنی جو شکر اور حمد کا حق بجا لائے وہ احمد ہے۔

ہم روایات میں پڑھتے ہیں کہ کثرت عبادت کی وجہ سے مورد اعتراض قرار پاتے ہیں۔ تو فرماتے ہیں تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

2:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب محمود(ص) ہے  جیسا کہ قرآن میں آپ(ص) کا اسم مبارک محمد(ص) اور آپ(ص) کو محمود اور محمد(ص) کہا گیا ہے کیونکہ آپ(ص) کی تمام صفات قابل تعریف ہیں اس بارے میں قرآن فرماتا ہے :

وَ إِنَّكَ لَعَلى‏ خُلُقٍ عَظيمٍ

“ بے شک آپ(ص) اخلاق حسنہ کی عظیم منزلت پر فائز ہیں۔”تم کمال کی صفات کے انتہائی درجے پر فائز ہو۔

ابن عربی کہتا ہے۔ خداوند عالم کے ہزار نام ہیں ان سب میں سے بہترین نام محمد، محمود اور احمد ہیں ۔ محمد اسے کہا جاتا ہے جس میں صفات کمالیہ بدرجہ اتم موجود ہوں ۔ اور آپ(ص) سے قبل کسی کا نام محمد نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ نام عالم ملکوت سے ہی آپ(ص)

۱۸

 کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ اور تمام آپ(ص) پر درود بھیجتے تھے۔

3:۔ آپ(ص) کے عظیم القاب میں سے ایک لقب “ امی ” ہے یعنی جس نے لکھا پڑھا نہ ہو قرآن اس کی طرف یوں ارشاد کرتا ہے۔

 “ وَ ما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ وَ لا تَخُطُّهُ بِيَمينِكَ إِذاً لاَرْتابَ الْمُبْطِلُونَ”( سورہ،عنکبوت، 48)

“رسالت سے قبل نہ تو آپ(ص) نے پڑھا اور نہ تو لکھا آپ(ص) لکھے پڑھے نہیں تھے اگر آپ(ص) پڑھے لکھے ہوتے تو ممکن ہے کہ خود غرض لوگ شکوک و شبہات پیدا کرتے۔ لیکن پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود قرآن جیسی کتاب لائے تو کسی کو شک و شبہ کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ یہ خود حضور اکرم(ص) کا ایک بڑا معجزہ ہے جس شخص کے بارے میں جانتے ہیں کہ پڑھا لکھا نہیں ہے اور ان پڑھ ہے ایک ایسی کتاب لے آیا کہ جو تمام علوم سے مملو ہے اور اپنے کو کتاب ہدایت قرار دیتی ہے۔ہدایت یعنی راستہ دکھانے اور مطلوب تک پہنچانے کے معنوں میں ہے یعنی انسان کو اپنے مطلوب اور مقصد تک پہنچاتی ہے اس میں بہت ساری ایسی آیات ہیں جو فلسفہ کی عمیق گہرائیوں پر مشتمل ہیں مگر بڑی سادگی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ قرآن صرف فقہ کی کتاب نہیں مگر اس میں ایسے قوانین موجود ہیں کہ انسانی معاشرے کا سر ان کے سامنے جھک جاتا ہے۔ کسی کی کیا مجال جو قرآن کے برابر قوانین مرتب کرسکے۔ عبادی، معاشرتی ، سیاسی ، قوانین، قصاص کے قوانین ، قوت اجرائی کے قوانین وغیرہ۔ قرآن کہتا ہے۔

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلى‏ أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هذَا الْقُرْآنِ لا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَوْ كانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهيراً ”(سورہ بنی اسرائیل : 88 )

4:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب کریم ہے اور یہ لقب بھی قرآن کریم میں مذکور ہے :

“إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَريمٍ”(تکویر آیت 19)

۱۹

حضور اکرم(ص) مکہ مکرمہ میں اس قدر کفار کی اذیت سے دوچار تھے کہ وہ آپ(ص) پر پتھر برساتے تھے آپ(ص) بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لیتے تھے۔ حضرت ابو طالب(ع) اور حضرت خدیجہ(ع) آپ(ص) کو ڈھونڈ لاتے ۔ بارہا انہوں نے سنا کہ حضور اکرم(ص) فرماتے تھے کہ

“ اللهم اهد قومی فانهم لا يعلمون”

“ خداوند میری قوم کی ہدایت فرما۔ یہ لوگ نادان ہیں ”

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بارہ ہزار کے آراستہ لشکر کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوئے تو اپنے کسی ساتھی کو یہ کہتے ہوئے سنا۔“ الیوم یوم المطحمت۔” آج کا دن جنگ و بدلے کا دن ہے۔ آپ(ص) نے یہ سن کر امیرالمومنین(ع) کو اس کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ لوگوں کے درمیان یہ اعلان کرا دیں کہ کہ “ الیوم یوم المرحمہ۔” یعنی آج رحمت ، کرامت اور معافی کا دن ہے۔

 5:۔ آپ (ص) کے القاب میں سے ایک رحمت ہے جو قرآن میں مذکور ہے۔

“وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ ”

“ ہم نے تمہیں دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔”

اور آپ (ص) کی رحمت کی حدود قرآن میں یوں بیان کی گئی ہیں۔

“فَلَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ عَلى‏ آثارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهذَا الْحَديثِ أَسَفاً ”

“ اے رسول(ص) تم تو شدت حزن سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے قریب ہے کہ ان پر افسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہلاک کرو۔” ( سورہ کہف آیت 6)

اگر سیرت مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ غم و دکھ جھیلے ہیں راز و نیاز کیا ہے، صبر کیا ہے اور مشقت و تکلیف برداشت کی ہے۔

“لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَريصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنينَ رَؤُفٌ رَحيمٌ ”

“ ایک رسول(ص) تمہارے درمیان آیا ہے جو تم میں سے ہے تمہاری سرکشی اورہٹ دھرمی اس کے لیے بڑی گراں ہے تمہاری ہدایت کا خواہاں ہے مومنین پر مہربان اور رحمدل ہے۔” ( سورہ توبہ آیت 128)

۲۰