اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ0%

اسلام کے محافظ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 191

اسلام کے محافظ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیۃ اللہ حسین مظاہری
زمرہ جات: صفحے: 191
مشاہدے: 70382
ڈاؤنلوڈ: 4065

تبصرے:

اسلام کے محافظ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 191 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 70382 / ڈاؤنلوڈ: 4065
سائز سائز سائز
اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

 صرف دوسروں کے لیے دعا کریتیں ہیں۔” اس عظیم ماں نے جواب دیا “يَا بُنَيَّ الْجَارَ ثُمَ‏ الدَّارَ.” بیٹے دعا میں ہمارا ہمسایہ ہم پر مقدم ہوتا ہے” زہرا(ع) جیسی ماں حسن(ع) کی پرورش کرنے والی تھیں یہ روایت آپ سے مروی ہے۔

 “إِنَّ رَجُلًا أَتَى الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ع فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي أَعِنِّي عَلَى قَضَاءِ حَاجَةٍ فَانْتَعَلَ وَ قَامَ مَعَهُ فَمَرَّ عَلَى الْحُسَيْنِ ص وَ هُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فَقَالَ لَهُ أَيْنَ كُنْتَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ تَسْتَعِينُهُ عَلَى حَاجَتِكَ قَالَ قَدْ فَعَلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَذُكِرَ أَنَّهُ مُعْتَكِفٌ فَقَالَ لَهُ أَمَا إِنَّهُ لَوْ أَعَانَكَ كَانَ خَيْراً لَهُ مِنِ‏ اعْتِكَافِهِ‏ شَهْراً.”

“ ایک شخص کو کوئی ضرورت پیش آئی تو اس نے آپ کو وسیلہ بنایا آپ اس کی خاطر چلے گئے۔ راستے میں دیکھا کہ حضرت امام حسین(ع) نماز پڑھ رہے ہیں آپ نے اس مرد سے پوچھا کہ تم نے حسین(ع) سے اس بارے میں رابطہ کیوں نہیں کیا اس شخص نے جواب دیا کہ امام حسین(ع) اس وقت مسجد میں اعتکاف میں تھے۔ آپ نے فرمایا اگر وہ تمہاری ضرورت پوری کرتے تو ایک مہینے کے اعتکاف سے بہتر تھا۔

حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نسب کے اعتبار سے تمام لوگوں کے سردار تھے حسب اور دیگر فضائل انسانی کے بارے میں آپ سے ہی سنتے ہیں۔

جس وقت امیرالمومنین علیہ السلام نے شہادت پائی تو آپ (ع) نے فرمایا “ ہم اہل بیت حزب اﷲ ہیں جس کی زیادہ دفعہ معرفت کرادی گئی ہے“فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغالِبُونَ‏” بے شک حزب اﷲ ، اﷲ کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے۔” ( سورہ مائدہ آیت 56 ) ہم عترت رسول(ص) ہیں کہ حضور اکرم (ص) نے حدیث ثقلین کی رو سے ہمیں قرآن کے ہم پلہ اور اسلام کا ستون قرار دیا ہے۔

“إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ‏ كِتَابَ‏ اللَّهِ‏ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ”

“ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی مگر یہ

۶۱

 کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں”

 ہم ہی قرآن کی  تنزیل و تاویل کے عالم ہیں ہمیں قرآن میں معصوم اور مطہر کے نام سے پکارا گیا ہے۔

“ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً”

“ ہر ایک کو ہماری اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ قرآن میں ان کو یہ حکم دیا گیا ہے۔

حضرت امام حسن(ع) کا صلح کرنا

حضرت امام حسن علیہ السلام کے اقدامات میں سے مسلمانوں اور اسلام کے لئے مفید اقدام معاویہ کے ساتھ صلح کرنا ہے آپ کا یہ اقدام ان لوگوں کے نزدیک جو اسلام اور تاریخ سے کما حقہ واقفیت نہیں رکھتے ہیں مورد شک قرار پاتا ہے وہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرح قیام کیوں نہیں کیا۔

جو بات سب سے پہلے ذہن میں رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ حضرت امام حسین(ع) کا قیام حضرت امام حسن(ع) کے صلح کے بیس سال بعد واقع ہوا ہے امام حسین علیہ السلام دس سال تک حضرت امام حسن علیہ السلام کےساتھ رہے اور حضرت امام حسن علیہ السلام کے بعد دس سال امام کا مںصب بھی تھا، اختیار بھی تھا لیکن ان دس سالوں میں قیام نہیں کیا۔ امامت کے ان دس سالوں کے بعد آپ نے قیام کیا۔ کیا امام حسین(ع) کے اس تاخیر پر کسی کو اعتراض ہے؟ قطعی نہیں! اگر اس منزل پر کوئی اعتراض ہے تو صرف امام حسن علیہ السلام پر نہیں بلکہ دونوں اماموں پر ہو جاتا ہے یہ بات خود اس کی دلیل ہے کہ قیام کرنا اور تحریک چلانے کے لیے موقع و محل درکار ہے اور ان بیس سالوں میں اس قسم کا کوئی موقع و محل موجود نہیں تھا۔ خلاصہ یہ کہ امیر معاویہ موجودہ اصطلاح میں ایک ماہر سیاستدان تھا۔ اور ہر ممکن ذریعے سے اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جھوٹ ، فریب ، ظلم و قتل و غارت گری، پارٹی بازی ،

۶۲

 یا رشوت دے کر جو بھی ذریعہ اختیار کرنا پڑے اختیار کرتا تھا۔ اور ان ہی ذرائع کے وجہ سے اس کی حکومت قائم رہی جس کا ذکر تمام سنی و شیعہ کتب تاریخ میں موجود ہے۔ امیر معاویہ نے حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی طرف سے تیس سال حکومت کی۔ ابن ابی الحدید کے کہنے کے مطابق حضرت عمر اپنے گورنروں کے ساتھ غیر معمولی حد تک سخت گیر تھے یعنی جب ابوہریرہ کےبارے میں سنا کہ دس ہزار درہم اس کے ذاتی جمع ہیں تو انہیں فورا اپنے دربارمیں بلایا اور کوڑے مارے یہاں تک کہ اس پیٹھ پر زخم پڑ گئے۔ اسے عہدے سے معزول کرنے کے علاوہ اس کا مال بھی ضبط کیا۔ جب خالد بن ولید کے  بارے میں سنا کہ اشعث بن قیس کو دس ہزار درہم ہدیہ دیا ہے تو حکم دیا اسے حمص میں ہی جہاں کے وہ گورنر تھے اس کے عمامے سے گلے میں باندھ کر ذلیل کر کے مسجد میں لے جایا جائے اور اس کے بعد اسے معزول کیا جائے۔ ایسا ہی کچھ  ابو موسی اشعری، قدامہ بن نطعون اور حارث بن وہب کے ساتھ ہوا مگر معاویہ کے معاملے میں آپ بھی خاموش رہے اور دیکھتے رہے کہ عالی شان محل ہے خود وہ اور اس کے احباب ریشم کا لباس پہننے ہیں۔ ، کفار کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں اسراف میں تو مشہور ہوئے نوبت یہاں تک پہنچی کہ بدھ کے دن جمعہ کی نماز پڑھا کر اپنے وفاداروں کو آزمادیا گیا۔ امیر شام ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے رسول(ص) کے صحابہ کو اپنے گرد جمع کیا ابو ہریرہ ، ابو موسی اشعری جیسے لوگوں کو جعلی حدیثیں گڑھنے کے لیے خریدا ہوا تھا عمر ابن عاص جیسے شخص کو خریدا ہوا تھا جس نے نیزے پر قرآن کو بلند کیا۔ ثالث کی پیشکش اور ابو موسی کا فریب دینا تو تاریخ میں مسلم ہے معاویہ فوجی انتظام کا ماہر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ امیرالمومنین (ع) کا ایک آدمی ایک دفعہ شام چلا گیا  معاویہ نے کہا کہ جاکر ان کی اونٹی کو چرائے ایسا ہی کیا گیا لیکن تلاش کے بعد جب اس شخص نے اونٹنی کو کسی کے پاس

۶۳

دیکھ کر دعویٰ دائر کیا تو مدعا علیہ نے چالیس گواہ پیش کئے یہ اونٹ اسی کا ہے جب کہ مدعی کا دعوی اونٹنی پر تھا۔ گواہی کے مطابق اونٹنی کو اونٹ قرار دے کر مدعا علیہ کو دیا گیا مگر معاویہ نے مدعی کو بلا کر ایک اونٹنی اور بہت رقم دے کر کہا میری طرف سے جا کر علی ابن ابی طالب(ع) کو کہو کہ ان گواہوں جیسے لاکھوں افراد کو تمہارے ساتھ جنگ پر بھیجوں گا جو اونٹ اور اونٹنی میں فرق نہیں جانتے ۔”

حضرت امام حسن(ع) کے حامی

جن لوگوں نے حضرت امام حسن(ع) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، ایسے لوگ تھے جنہوں نے جنگ جمل، صفین اور نہروان وغیرہ میں شرکت کی تھی تھکے ہوئے اور نا امید تھے ایسے افراد تھے جن کے درمیان خوارج اور ان کے طرف دار ان کی صفوں میں گھسے ہوئے تھے انہوں نے حضرت امام حسن(ع) کی بیعت اس لئے کی ہوئی تھی کہ اگر معاویہ پر امام فتح پائیں تو یہ آپ (ع) کو ہٹا کر خود حکومت کریں لیکن ان کے درمیان اہلیت رکھنے والے افراد بہت کم تھے لہذا معاویہ رقم عہدوں اور انعام کا لالچ دے کر بڑے بڑے سرداروں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوا اور یہ سردار راتوں رات معاویہ کی صفوں میں چلےگئے اور لشکر بغیرسرداروں کے رہ گیا اگر ایسے وقت میں امام حسن(ع) صلح نہ کرتے تو بڑی خونریزی کے بعد معاویہ امام(ع) کو آپ کے حامیوں کے ہاتھ قتل کراتا اور شام میں سوگ کی مجلس قائم کرتا۔

حضرت امام حسن(ع) کی صلح

امیرالمومنین (ع) کا ثالثی قبول کرنا اور حضرت امام حسن(ع) حضرت امام حسین(ع) کا قیام تینوں کی بنیاد اور سرچشمہ ایک ہے۔ حسن(ع) نے صلح کی اور حسین(ع) نے صبر کیا اس حد تک کہ معاویہ اس کا اقتدار اور اس کے حامیوں کا وجود مٹ گیا، حضرت امام حسین(ع) کے فرمان کے

۶۴

کے مطابق جب معاویہ مر گیا تو عوام کا دل بنی امیہ کے بغض اور اہل بیت(ع) کی محبت سے بھر چکا تھا۔ معاویہ کے مرتے ہی اس کی سیاست بھی ختم ہوئی اور حکومت ایک عیاش احمق اور مغرور شخص کے ہاتھوں میں آئی وہ بد بخت اس منزل پر پہنچا ہوا تھا کہ کمال قساوت قلبی کے ساتھ حسین(ع) کو شہید کیا ان کے اہل بیت(ع) کو شہروں میں پھرایا حسین(ع) کے قتل کی خوشی میں ایک محفل منعقد کی اور اپنے ان اشعار کو سنایا۔ گویا اس طرح لوگوں کے ہاتھ میں چراغ دیکر کہتا ہو کہ بنی امیہ کے ظلم وجور کو اچھی طرح دیکھو ان کے اسلام کو پہچانو اس کے کفر آمیز اشعار  یہ ہے۔

لَيْتَ أَشْيَاخِي بِبَدْرٍ شَهِدُوا           جَزَعَ الْخَزْرَجِ مِنْ وَقْعِ الْأَسَلِ‏

لَأَهَلُّوا وَ اسْتَهَلُّوا فَرَحاً               ثُمَّ قَالُوا يَا يَزِيدُ لَا تُشَلَ‏

لعبت‏ هاشم‏ بالملك فلا                      خبر جاء و لا وحي نزل‏

قَدْ قَتَلْنَا الْقَرْمَ مِنْ سَادَاتِهِمْ‏           وَ عَدَلْنَاهُ بِبَدْرٍ فَاعْتَدَلَ‏

بنی ہاشم نے ایک ڈھونگ رچایا ہوا تھا نہ تو ان پر کوئی وحی آئی اور نہ کوئی نبوت ملی تھی ہم نے اپنے بدر کے کشتگان کا بدلہ لیا ور برابری کی کاش اس وقت میرے بدر کے بزرگ زندہ ہوتے تو دیکھ لیتے کہ ہم نے ان کا بدلہ کس طرح لیا۔

اس مجلس میں علی(ع) کے لہجے میں بولنے والی زینب(ع) بھی موجود تھیں۔ جو کچھ انہیں کہنا چاہئے تھا کہا۔ جامع مسجد میں امام سجاد(ع) کو منبر پر جانے کی اجازت ملی جنہوں نے بنی امیہ کو رسوا کردیا۔

۶۵

یزید نے اپنی حکومت کے دوسرے سال“ جنگ حرہ” کا آغاز کیا اور مدینہ کے عوام کا قتل عام کیا۔ اور خانہ خدا کو آگ لگا دی اور معاویہ کے مرتے ہی امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اسلام کی بقاء آپ(ع) کے اسی قیام کی مرہون منت ہے۔ لیکن یہ فراموش نہ کیا جائے کہ امام حسن(ع) کی صلح اور صبر دونوں امام کے قیام کے لئے میدان فراہم کرنا تھا۔ حسین(ع) کا قیام مکمل طور پر حسن(ع) کی صلح سے مربوط ہے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے شاید اس مرحلے کے لئے فرمایا تھا کہ حسن(ع) و حسین(ع) چاہے بیٹھے ہوئے ہوں یا قیام کریں دونوں حالتوں میں امام واجب الاطاعت ہیں۔ یعنی اگر قیام کریں تو ان کی پیروی کریں۔ اور اگر قیام نہ کریں تو بھی ان کی پیروی کریں۔

اپنی وفات کے وقت حضرت امام حسن علیہ السلام نے جنادہ کو جو وصیتیں فرمائیں ان میں سے چند یہ ہیں۔ جنادہ کہتا ہے کہ آپ کی وفات کے وقت آپ کی خدمت میں پہنچ کر میں نے کسی نصیحت کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا ۔ “ اے جنادہ موت کے آنے سے پہلے ہر وقت موت کے لیے تیار رہو، موت کے سفر، اپنی قبر اور قیامت کے لیے زادہ راہ تیار کرو۔ جنادہ! دنیا کے لیے اس قدر کوشش کرو جیسے تم نے ہمیشہ یہاں رہنا ہے اور آخرت کے لیے تیاری اس طرح کر جیسے کل ہی تم نے مرنا ہے۔ اگر قوم و قبیلہ کے بغیر عزت اور اقتدار کے بغیر ہیبت چاہتے ہو تو معصیت الہی کے ذلیل لباس کو اتار پھینکو اور اﷲ کی اطاعت کے معزز لباس کو پہنو۔”

۶۶

حضرت امام حسین علیہ السلام

آپ کانام نامی حسین(ع) ہے اس نام کو پرودگار عالم نے آپ کے لیے پسند فرمایا۔ آپ کی مشہور کنیت “ ابو عبداﷲ” ہے۔ آپ کے مشہور القاب سید الشہداء اور “ المظلوم” اور “ الشہید” ہیں۔ آپ کی مدت عمر تقریبا 56 سال ہے۔ آپ نے 4 ہجری کو شعبان کی تیسری تاریخ میں ولادت پائی اور 61ہجری میں دس محرم الحرام کو یزیدی لشکر کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمایا۔ جب آپ کی عمر مبارک چھ سال کی تھی تو آپ کے نانا حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت پائی اور زندگی کے تیس سال اپنے پدر بزرگوار حضرت علی (ع) کے زیر سایہ گزارے اور والد ماجد کی شہادت کے بعد دس سال تک اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام  کی معیت میں زندگی گزاری اس کے بعد آپ کی امامت کی مدت بھی دس سال ہے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام ان فضائل کے علاوہ جو حسب و نسب کے اعتبار سے تمام اہل بیت(ع) کو حاصل ہیں کچھ امتیازی فضائل کے بھی حامل ہیں۔ سب سے پہلا امتیاز تو یہ ہے کہ آپ کے صلب سے ہی ائمہ معصومین(ع) کا سلسلہ جاری رہا۔ اس بارے حضور اکرم(ص) سے احادیث موجود ہیں۔ جو اس امیتاز کی تصریح کرتی ہیں۔ حضرت سلمان فارسی(رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسین (ع) حضور اکرم(ص) کی گود میں ہیں آپ (ص) نے انہیں پیار کرتے ہوئے فرمایا ۔

“ أَنْتَ‏ السَّيِّدُ ابْنُ السَّيِّدِ أَبُو السَّادَةِ أَنْتَ الْإِمَامُ ابْنُ الْإِمَامِ أَبُو الْأَئِمَّةِ الْحُجة أَبُو الْحُجَجِ تِسْعَةً مِنْ صُلْبِكَ وَ تَاسِعُهُمْ قَائِمُهُمْ.”

۶۷

“ تم سرداروں کے سردار  ہو اور سرداروں کے باپ ہو تم امام(ع) کے فرزند ہو اور خود بھی امام(ع) ہو بلکہ اماموں کے باپ ہو تم حجت خدا ہو اور خدائی حجتوں کے باپ ہو اور نو حجت تمہارےصلب سے ہی ہوں گے جس میں سے نواں “ قائم آل محمد(ص)” ہوگا۔

دوسرا امتیاز

یہ ہے کہ آپ کی شہادت کی وجہ سے اسلام کو ہمیشہ کی زندگی ملی اور اسلام کا دوام آپ کی شہادت کا مرہون منت ہے۔ تاریخ میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور آپ کے اہل بیت(ع) اسیر نہ ہوئے ہوتے تو آج اسلام کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا ۔ اسی وجہ سے حضور اکرم(ص) نے فرمایا تھا۔حسين منی و انا من الحسين ” “ حسین (ع) مجھ سے ہیں اور میں حسین(ع) سے ہوں” اور حضرت امام حسین علیہ السلام نے اسی امتیاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جب آپ سے بیعت طلب کی گئی تو فرمایا “لو بايعت يزيد فعلی الاسلام السلام ” اگر میں یزید کی بیعت کروں تو اسلام پر فاتحہ پڑھی جانی چاہئیے یعنی اس کا نام نشان مٹ جائے گا۔

اس قسم کے بیانات خود رسول اکرم(ص) اور ائمہ طاہرین(ع) کے ارشادات میں بھی موجود ہیں۔

تیسرا امتیاز

حضرت امام حسین (ع) کا یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت جاگزین ہے جیسے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا ۔“إِنَّ لِلْحُسَيْنِ حَرَارَةً فِي‏ قُلُوبِ‏ الْناس لَا تَبْرُدُ أَبَداً” بے شک دلوں میں حسین(ع) کی محبت کے شعلے بھڑک رہے ہیں جو کبھی بجھنے والے نہیں۔ ”

۶۸

چوتھا امتیاز

حضرت ابو عبداﷲ کا یہ ہے کہ خداوند عالم نے آپ کی تربت میں شفا رکھی ہے اور آپ کے ھرم مطہر میں دعا کی قبولیت متواتر اور قطعی روایات سے ثابت ہے۔

پانچواں امتیاز

آپ کے عظیم امتیازات میں سے ہے کہ آپ نے عشق و محبت ، فداکاری ، جان نثاری اور اﷲ کی راہ میں قربانی کے مفاہیم کو عملی طور پر معنی بخشے۔

“اللَّهُمَّ أَنْتَ‏ ثِقَتِي‏ فِي كُلِّ كُرْبَةٍ وَ أَنْتَ رَجَائِي‏فِي كُلِّ شِدَّةٍ وَ أَنْتَ لِي فِي كُلِّ أَمْرٍ نَزَلَ بِي ثِقَةٌ وَ عُدَّةٌ كَمْ مِنْ كَرْبٍ يَضْعُفُ عَنْهُ الْفُؤَادُ وَ تَقِلُّ فِيهِ الْحِيلَةُ وَ يَخْذُلُ عَنْهُ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ وَ يَشْمَتُ بِهِ الْعَدُوُّ وَ تَعْنِينِي فِيهِ الْأُمُورُ أَنْزَلْتُهُ بِكَ وَ شَكَوْتُهُ إِلَيْكَ رَاغِباً فِيهِ عَمَّنْ سِوَاكَ فَفَرَّجْتَهُ وَ كَشَفْتَهُ وَ كَفَيْتَنِيهِ فَأَنْتَ وَلِيُّ كُلِّ نِعْمَةٍ وَ صَاحِبُ كُلِّ حَاجَةٍ وَ مُنْتَهَى كُلِّ رَغْبَة”

“ میرے پروردگار تو میرے ہر رنج و غم میں میری پناہ گاہ ہے اور مایوسی کے وقت تو ہی امید ہے اور جو کچھ بھی میرے لئے پیش آتا ہے اس میں میرا مددگار اور میری پناہ ہے۔ کتنے سارے غم ایسے ہیں جو دلوں کو کمزور کرتے ہیں راہ چارہ کو مسدود کرتے ہیں۔ دوستوں کو غمگین اور دشمنوں کو خوشحال کرتے ہیں سب تیرے سامنے پیش کرتا ہوں اور ان کی شکایت بھی تجھ ہی سے کرتا ہوں صرف اس لیے کہ میں تیری طرف ہی رغبت رکھتا ہوں اور تیرے غیر کی طرف نہیں ۔تو نے وہ غم بر طرف کردیئے تو تمام نعمتوں اور خوبیوں کا مالک ہے اور آرزؤں کی منتہا تیری ہی ذات ہے۔”

آپ نے اپنا سب کچھ اﷲ کی راہ میں قربان کیا مال ، جان ، عیال ، دوست و احباب ، اولاد ، یہاں تک کہ شیرخوار بچوں کو بھی قربان کیا اور صحرائے کربلا میں اپنے قتل ہونے کی جگہ یوں فرماتے ہیں۔

۶۹

             تركت‏ الخلق‏ طريّا في هواكا                      و أيتمت العيال لكى أراكا

             و لو قطّعتنى في الحبّ إربا                      لما حنّ الفؤاد إلى سواكا

“ میرے پروردگار ! تیری راہ میں ، میں نے تمام مخلوق سے رشتہ توڑا ہے تجھ سے ملاقات کرنے کے لیے میں نے اپنے تمام متعلقین سے آنکھیں چرالیں ہیں۔ میرے پروردگار اگر تیری راہ میں ٹکڑے ٹکڑے کیا جاؤں تو بھی ہرگز تیرے غیرے کی طرف مائل نہیں ہوں گا۔”

یہ سیرالی اﷲ پر ایمان کی حقیقت ہے۔ اﷲ پر یقین و عرفان کی حقیقت بندگی اور فنا فی اﷲ کی حقیقت ، یہی تقوی اور ماسوی اﷲ سے نہ موڑنے کی حقیقت ہے اپنے امام حسین علیہ السلام کا قیام بھی ایسا ہی تھا۔ آپ کے خطبات سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت اسلام کو شدید خطرہ لاحق تھا جس دن آپ نے مدینہ سے کوچ کیا یوں فرمایا۔

“إِنِّي‏ لَمْ‏ أَخْرُجْ‏ بَطِراً وَ لَا أَشِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ أَطْلُبُ الصَّلَاحَ فِي أُمَّةِ جَدِّي”

“ میں نے قیام اس لئے نہیں کیا کہ میں اﷲ کی زمین پر فساد پھیلاؤں یا ظلم کروں بلکہ میرا قیام اس لئے ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں اور اپنے نانا اور پدر بزرگوار کی سیرت پر چلوں  اور اپنے نانا کی امت میں جو مفاسد رواج پاگئے ہیں ان کی اصلاح کروں۔” کربلا معلیٰ میں پہنچ کر جب کہ تمام صحابہ شہادت کے لیے تیار اور کمر بستہ تھے آپ نے یوں خطاب فرمایا۔

۷۰

 “ألا ترون‏ أنّ‏ الحقّ‏ لا يعمل به، و أنّ الباطل لا ينتهى عنه، ليرغب المؤمن في لقاء اللَّه محقّا، فإنّي لا أرى الموت إلّا سعادة، و لا الحياة مع الظّالمين إلّا برما ”

“ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا ہے اور باطل سے نہیں روکا جارہا ہے ایسے حالات میں تو مومن موت کی تمنا ہی کرسکتا ہے بے شک اس طرح مرنے کو میں سعادت سمجھتا ہوں اور ظالمون کے ساتھ زندہ رہتا سوائے بد بختی کے اوپر کچھ نہیں۔”

امام علیہ السلام کے اس طرح کے ارشادات بہت سارے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت اسلام شدید خطرے سے دوچار فضا اور وقت کا تقاضا بھی قیام وتحریک کا تھا۔ اس لئے کہنا پڑتا ہے کہ یزید کے خلاف آپ کا قیام کرنا ایک الہی فریضہ تھا۔

حضرت امام حسین (ع) کے قیام کے اسباب پر تحقیق کرنے کے لئے تو ایک مفصل کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر بطور اجمال آپ کے قیام کے اسباب پر روشنی ڈالتے نفس اور دشمن پر غلبہ پانے کی حقیقت اور شجاعت کی حقیقت بھی وہی ہے جسے حسین(ع) نے سکھایا اور زمانے کی گردشوں میں گم نہ ہونے کا درس حسین(ع) نے دیا۔ جوانمردی اور مردانگی کی حقیقت، سخاوت کی حقیقت ، رحمدل اور مہربانی کے معنی، خدا، اس کے دین اور اس کی مخلوق کے سامنے انکساری برتنے کا درس حسین(ع) نے دیا۔ حکم کا مفہوم سکھایا ۔ اور فصاحت و بلاغت کے معنی اپنے کرداد اور گفتار سے سمجھا دیئے۔ یہی سیاست کی حقیقت ہے اور عدالت کا مفہوم ہے اور جہاد فی سبیل اﷲ کی حقیقت ہے۔ خلاصہ یہ کہ تمام انسانی فضائل کی حقیقت عملا یکجا کر کے بتادی۔ اس لئے تو حضور اکرم(ص) کا ارشاد “:إنّ‏ الحسين‏ مصباح‏ الهدى‏ و سفينة النجاة ” حسین(ع) ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہیں۔” کا مطلب معلوم ہوجاتا ہے۔ اور اگر حضور اکرم(ص)

۷۱

نے یہ فرمایا ہے کہ

“ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى أَحَبِ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلَى أَهْلِ السَّمَاءِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى‏ الْحُسَيْنِ‏”

“ جو کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ آسمان و زمین کے پسندیدہ تر شخص کو دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ حسین(ع) کو دیکھے۔ ” تو بھی اس کا مطلب یہی ہے۔

آپ نے فرمایا “من لحق بي استشهد و من‏ تخلّف‏ عنّى‏ لم يبلغ الفتح ابدا”

جو کوئی میرا ساتھ دیدے اور میرے ساتھ آئے گا تو شہادت پائے گا جو روگر دانی کرتے ہوئے اس خونین قیام میں شرکت نہیں کرے گا تو کبھی بھی نجات نہیں پاسکے گا۔” “ شب ترویہ” میں آپ کے خطبے میں ہم پڑھتے ہیں آپ(ع) نے فرمایا۔

“مَنْ‏ كَانَ‏ بَاذِلًا فِينَا مُهْجَتَهُ، فَلْيَرْحَلْ  معنا غدا فَإِنِّا رَاحِلون غداً، إِنْ شَاءَ اللَّهُ.”

“ جو کوئی ہمارے ساتھ خون دینا چاہتا ہے ہمارے ساتھ کل چلے انشاء اﷲ ہمیں کل روانہ ہونا ہے۔”

آپ کے ان ارشادات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اسلام کو خطرہ لاحق ہو اور تحریک چلانا اسلام کے لئے فائدہ مند ہو، چاہے قیام و تحریک کی صورت میں شہادت کا یقین بھی ہو تو ہر ایک کا فریضہ قرار پاتا ہے کہ قیام کرے اور حضرت اس دوسری موج کے لئے اور دائمی موج کی ضرورت ہے تاکہ یہ دوسری زندہ اور متحرک رہے اور یہ تیسری موج عزاداری ، نوحہ سرائی، گریہ، سینہ زنی اور زیارت حسین(ع) کی موج ہوسکتی ہے۔ علاوہ اس کے کہ عزاداری انسان میں فداکاری ، ایثار و قربانی اور شہادت کی روش اور شہید پروری کا جذبہ ابھارتی ہے۔ اور اگر رہبر اعلیٰ قابلیتوں کا مالک ہو تو ان مجالس سے کافی حد تک لوگوں کے انسانی جذبے کو ابھار سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عمومی تعلیمات کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ تہذیب نفس کے مرحلے خصوصا صبر، استقامت ، شجاعت اور پستی قبول نہ کرنے کا

۷۲

 جذبہ اس کے براہ راست اثرات ہیں۔

ایسی مجالس کا ایک اور پہلو اسلام کے عظیم قوانین میں سے دو عظیم قوانین کا احیاء کرنا ہے یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔

حسین(ع) پر روانا مجالس عزاء کا انعقاد ، ماتمی دستوں کی تشکیل ، نزدیک یا دور سے زیارت کرنا، پانی کی سبیلوں کی تعمیر اور امام بارگاہوں کی تعمیر کرنا، ولایت کے مکتب کو زندہ رکھنا ہے۔ خون حسین(ع) کو زندہ رکھنا ہے، انقلاب کی روح کو زندہ رکھنا ہے تاکہ انجام کار آخری رہبر حضرت بقیہ اﷲ عجل اﷲ تعالی فرجہ کے ذریعے عالمی انقلاب کا سامان فراہم ہوسکے۔ اگرچہ عزاداری کے برپا کرنے کا ثواب، زیارت کا  ثواب، مجالس کے انعقاد پر ثواب مستحق ہے مگر ان سب کی اصل اور بنیاد اس لیے ہے کہ اس قسم ی مجالس کامیابی کا رمز اور شیعت کی بقاء ، مکتب ولایت کو زندہ رکھنے اور انجام کار لوگوں کو حسین(ع) کے پرچم تلے لے آنا ہے اور تمام کوحسین(ع) اور اس کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ بقول جوش۔

انسان کو بیدار تو ہونے لینے دو                    ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین(ع)

ہوئے ہم چند اسباب کا تذکرہ مناسب سمجھتے ہیں۔

ثقیفہ بنی ساعدہ کی کار روائی کے بعد “ حسبنا کتاب اﷲ ” کے نعرے نے زور پکڑا اور رسول اکرم(ص) کی احادیث کی جمع آوری پر پابندی لگ گئی یہاں تک کہ حضرت ابوبکر نے حضور اکرم(ص) کی پانچ سو احادیث جمع کی تھیں انہیں عوام کے سامنے لاکر جلادیا اب اگر تائید قرآن سے حاصل کی جاتی تو ثقیفہ کی کار روائی ملغی ہوجاتی لہذا کہا گیا۔ 

“ نهينا عن‏ التّعمّق والتکال فی القرآن”

ہمیں قرآن میں غور و فکر اور دقت

۷۳

 کرنے کی زحمت سے منع کیا گیا ہے اس خیال و فکر کو ترویج دی گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ فکر اور روش امت کو کس قدرفکر ، کامل اور بے ہمت بنائے گی۔ اس کے علاوہ ایک اور مصیبت طبقاتی گروہوں کی صورت میں ظاہر ہوتی جس کے بارے میں امیرالمومنین (ع) خطبہ شققیہ میں فرماتے ہیں۔

“و قام معه بنو أبيه يخضمون‏ مال اللّه خضم الإبل نبتة الربيع”

“ بنی امیہ نے ان کے گرد گھیرا ڈال دیا اور مسلمانوں کے بیت المال کو اس طرح ختم کیا جس طرح بہار کے سبزے کو اونٹ ختم کرتے ہیں۔ ” اس کے ساتھ ایک اور مصیبت جعلی روایات و احادیث کی بھر مار کی صورت میں شروع ہوئی۔ علماء نما درباری افراد اس طریقے سے اسلام کے ستونوں کو ڈھانے کی کوشش کرنے لگے۔ ان تمام روایات میں سے ایک روایت نمونہ کے طور پر لکھتے ہیں ایک روایت یوں گھڑی گئی۔

“اذا نزلت سوره انجم فقراها رسول اﷲ للمشرکين فاذا قرا افرايتم اللات ولعزی ومنات الثالثه الاخری القی الشيطان فی فمه و قال تلک القرانيق العلی شفاعتهن لترجی فالمشرکون سروا بذالک  فسجد رسول اﷲ و سجد المشرکون معه”

ترجمہ :۔“  جس وقت سورہ نجم نازل ہوئی تو حضور اکرم (ص) نے مشرکوں کو سنایا لیکن جب آیتافرايتم اللات ولعزی پڑھنے لگے تو شیطان نے آپ کے منہ سے یہ جملے بھی کہلوا دئے کہ وہ عالی شیر، بت، قیامت کے دن تینوں شفاعت کریں گے یہ سن کر مشرک بڑے خوش ہوئے اور جب حضور (ص) نے سجدہ کیا تو مشرکوں نے بھی خوش ہو کر سجدہ کیا۔”

بدیہی ہے کہ اس قسم کی روایات اسلام قرآن اور پیغمبر(ص) کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتیں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں پر ایک رعب اور خوف مسلط رہا خصوصا

۷۴

 معاویہ کے دور کہ ادھر کسی نے آہ کھینچی اور قتل ہوا ان تمام عوامل اور اسباب نے ایک ایسا موقع فراہم کیا کہ یزید ایک شخص عوام پرحاکم ہوتے ہوئے منبر سےیہ کہدے کہ

لعبت‏ هاشم‏ بالملك فلا                      خبر جاء و لا وحي نزل‏

قَدْ قَتَلْنَا الْقَرْمَ مِنْ سَادَاتِهِمْ‏           وَ عَدَلْنَاهُ بِبَدْرٍ فَاعْتَدَلَ‏

“ تو کوئی وحی آئی اور نہ خبر آئی بلکہ بنی ہاشم نے حکومت حاصل کرنے کا ڈھونگ رچایا تھا۔” تو کیا ایسے حالات کے پیش نظر امام حسین(ع) کے لئے وظیفہ شرعی نہ بنتا تھا کہ ایسے شخص کے خلاف قیام کریں۔

بہر حال حضرات ائمہ طاہرین علیہم السلام نے حضرت ابو عبداﷲ کی زیارت اور عزاداری کے بارے میں بہت سفارش کی ہے اور اس کے عظیم ثواب گنائے ہیں ایسی روایات میں سے ایک ہم وسائل الشیعہ میں سے نقل کرتے ہیں۔ اور اس کے بعد تھوڑی سی ترضیح بھی کرتے ہیں

“عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ لِفُضَيْلٍ تَجْلِسُونَ وَ تُحَدِّثُونَ قَالَ نَعَمْ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ إِنَّ تِلْكَ‏ الْمَجَالِسَ‏ أُحِبُّهَا فَأَحْيُوا أَمْرَنَا يَا فُضَيْلُ فَرَحِمَ اللَّهُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَنَا يَا فُضَيْلُ مَنْ ذَكَرَنَا أَوْ ذُكِرْنَا عِنْدَهُ فَخَرَجَ مِنْ عَيْنِهِ مِثْلُ جَنَاحِ الذُّبَابِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ذُنُوبَهُ وَ لَوْ كَانَتْ أَكْثَرَ مِنْ زَبَدِ الْبَحْرِ.”

“ فضیل بن یسار حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آپ(ع)  نے فرمایا کیا تم مجلس عزا برپا کر کے ہمارے مصائب کو یاد کرتے ہو؟ میں نے کہا ہاں۔ فرمایا خدا کی رحمت ہو ان لوگوں پر جو ولایت کو زندہ کرتے ہیں اے فضیل جو کوئی ہمارا تذکرہ کرتا ہے یا جس کے سامنے ہمارا تذکرہ ہوتا ہے اور گریہ کرتا ہے اتنے آنسو نکلیں کہ مکھی کے پر کو بگھونے کے بقدر ہوں تو بھی خداوند عالم اس کے گناہوں کے بخش دے گا۔ چاہے اس کے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر

۷۵

 کیوں نہ ہوں۔”

حضرت ابا عبداﷲ (ع) کا قیام کوئی فوجی قیام نہیں تھا بلکہ ایک عاطفی اور تبلیغی تھا حسین علیہ السلام صرف یزید اور اس کے ایجنٹون کو ہٹانا نہیں چاہتے تھے بلکہ یزیدیت کے ساتھ بنی امیہ اور بنی مروان کی شخصیت کو نابود کرنا چاہتے تھے ۔ چاہتے تھے کہ عوام کو ان کے خلاف بیدار کریں۔ اور عوام کو حکومت کے خلاف بھڑکائے اور اس سے متنفر کریں۔ اسی لئے آپ مدینہ سے مخفی طور پر چلے گئے۔ جس وقت لوگ حج کے لیے گروہ در گروہ ہو کر مکہ آرہے تھے تو آپ مکہ سے بھی نکل گئے اور عاشورے کے دن بعض اوقات اسلحہ کے بغیر ہی میدان جنگ میں جاتے ہیں اور بڑی مہربانی کے لہجے میں تبلیغ کا کام انجام دیتے ہیں۔ ان کے انسانی جذبات کو ابھارتے ہیں کبھی قرآن لے کر جاتے ہیں اور انہیں قرآن کی قسم دیتے ہیں۔ کبھی اپنے شیرخوار بچے کو ان کے سامنے لے جاتے ہیں جنہیں انہوں نے آپ کے ہاتھوں پر شہید کیا ۔ انجام کار آپ نے کربلا میں کچھ ایسی لہریں پیدا کیں کہ عاشورا کی عصر کے وقت دشمن کی فوجوں میں ہلچل مچ گئی اور حسین(ع) شہید ہوگئے ہلچل کی اس موج کے ساتھ اہل بیت(ع) کی اسیری کی دوسری موج نے بھی حرکت کی۔ اہل بیت(ع) کے اسیروں نے کوفہ و شام کے بازاروں میں تقریروں کے ذریعے انقلاب کی موجیں پیدا کیں بلکہ تمام اسلامی ممالک میں بنی امیہ کی حکومت کے خلاف نفرت کا سیلاب امڈا پڑا ۔ حسین(ع) کی شہادت سے 20 سال قبل کوئی ایک بھی انقلاب واقع نہیں ہوا تھا۔ مگر آپ کی شہادت کے 20 سال بعد بیس سے زیادہ انقلاب رونما ہوئے۔ واقعہ کربلا کے دو سال بعد بنی امیہ کی حکومت چھن گئی اور بیسویں سال بنی مروان کی حکومت عباسیوں کے ہاتھوں ختم ہوئی۔

۷۶

حضرت امام سجاد علیہ السلام

آپ کا اسم مبارک علی(ع) مشہور لقب زین العابدین (ع) اور سجاد(ع) ہے آپ کی مشہور کنیت ابو محمد(ع) اورابو الحسن(ع) ہے۔ آپ کی عمر مبارک بھی آپ کے پدر گرامی کی طرح ستاون سال ہے۔ آپ نے پندرہ جمادی الاول 38 ہجری کو امیر المومنین (ع) کی شہادت سے دو سال قبل ولادت پائی۔ تیئس سال تک پدر بزرگوار کے زیر سایہ زندگی گزاری۔ آپ کے مدت امامت 34 سال ہے۔

امام سجاد علیہ السلام کے والد بزرگوار امام حسین(ع) تھے اور والدہ ماجدہ ایران بادشاہ یزدگرد کی بیٹی تھیں جیسے خداوند عالم نے معجزانہ طور پر حضرت امام حسین(ع) تک پہنچایا تھا۔ اس معظمہ کی شرافت یہ ہے کہ نو ائمہ کرام(ع) کی والدہ ماجدہ ہیں۔ جیسے کہ حضرت امام حسین(ع) نو ائمہ (ع) کے والد ماجد ہیں۔ اور انسانی فضائل کے اعتبار سے امام زین العابدین علیہ السلام اگرچہ تمام اہل بیت کرام(ع) کے ساتھ تمام فضائل میں برابر کے شامل ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں رکھتے ۔ لیکن آپ خصوصیت کے ساتھ اپنے افکار کو و کردار میں اپنے دادا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے مکمل مشابہت رکھتے تھے۔

امام سجاد علیہ السلام کے ایمان کی منزل

امیرالمومنین علیہ السلام دعائے صباح میں فرماتے ہیں۔

“يا من‏ دلّ‏ على ذاته بذاته”

۷۷

“ اے وہ جو خود اپنی ہستی کے وجود کی دلیل ہے۔”

حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ابو حمزہ ثمالی میں فرماتے ہیں۔

“بِكَ عَرَّفْتَک وَ دَلَلْتَنِي‏ عَلَيْكَ‏ و دعوتنی اليک و لولا انت لم ادر ما انت”

“ تیرے ذریعے ہی تجھے پہچانا تو نے میری اپنی طرف رہنمائی کی اور دعوت دی اگر آپ نہ ہوتے تو میں آپ کو نہ پہچان سکتا ۔”

آپ کی دعاؤں میں ایسے کلمات ملتے ہیں جو انسان کو ایمان کی بلندی تک پہچاتے ہیں یہ ایسی منزل ہے جسے“ ایمان شہودی” کہا جاسکتا ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں۔

“کو کشف لی الغطاء مازددت يقينا”

“ اگر میرے لئے آفاق کے سارے ہٹادیئے جائیں تو بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔”

آپ(ع) کا علم

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا “ جو کچھ چاہو مجھ سے پوچھو خدا کی قسم میں قیامت تک ہونے والے تمام واقعات کو جانتا ہوں۔” حضرت امام سجاد علیہ السلام یوں فرماتے ہیں۔ “ اگر مجھے لوگوں کے بارے میں غلو کرنے کا خوف نہ ہوتا تو قیامت تک ہونے والے تمام واقعات بتا دیتا۔”

آپ کا تقوی

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا۔

“وَ اللَّهِ لَوْ أُعْطِيتُ الْأَقَالِيمَ‏ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّهَ فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ‏شَعِيرَةٍ  مَا فَعَلْتُهُ”

۷۸

“ خدا کی قسم اگر مجھے ساتوں اقالیم اور جو کچھ ان کے آسمانوں کے نیچے ہے دیا جائے کہ میں ایک چیونٹی کے منہ سے “ جو” کا جھلکا چھین کر اس پر ظلم کروں تو میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔”

حضرت امام سجاد علیہ السلام یوں ارشاد فرماتے ہیں۔

             ؟؟؟؟ الا له و انت تطهر حبه          هذا لعمری فی الفعال بديع

             لو کنت تطهير حبه اطقه                       ان الحب لمن يحب مطيع

“ خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے تم اس کی محبت کا دعوی کرتے ہو۔ میری جان کی قسم یہ بڑی عجیب بات ہے اگر تم واقعی خدا سے محبت کرتے ہو تو اس کی اطاعت کرو کیونکہ محبت کرنے والا ہمیشہ محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے۔”

ان اشعار میں امام فرماتے ہیں کہ میں چونکہ اﷲ سے محبت کرتا ہوں اس لیے اس کی نافرمانی مجھ سے محال ہے۔

آپ(ع) کی عبادت

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں کیہا گا ہے کہ آپ دن کو فقراء کے لئے باغات اور نہریں بنانے میں مشغول رہتے اور ساری راتیں جاگ کر عبادت الہی میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت سجاد(ع) بھی اس طرح فقراء کی قربت میں مشغول تھے۔ کتنے سارے باغات اور نہریں آپ نے فقراء کے لئے بنائیں آپ کی عبادت اور سجدوں کی کثرت کی یہ حالت تھی کہ آپ کو زین العابدین(ع) اور سجاد(ع) کا لقب ملا۔

۷۹

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ قیامت کے دن کہا جائے گا زین العابدین(ع)  کہاں ہے؟ میں دیکھتا ہوں کہ میرا فرزند جواب دیتا ہے اور سامنے آجاتا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے پدر بزرگوار کو دیکھا کثرت سے عبادت کی وجہ سے آپ کے پاؤں سوجھ گئے ہیں۔ چہرے کا رنگ زرد پڑگیا ہے اور گال زخمی ہیں اور سجدہ کی جگہ پیشانی پر زخم ہوگیا ہے۔

آپ کی مہربانی و سخاوت

تاریخ میں مرقوم ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے کارناموں میں سے ایک یہ تھا کہ آپ مخفی طور پر راتوں کو فقراء میں کھانا ، کپڑے ، لکڑی اور دوسری ضروریات تقسیم کرتے تھے ۔جب کہ ان فقراء کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون ان کی ضروریات کو فراہم کرتا ہے اور مورخین حضرت امام سجاد(ع) کے بارے میں بھی ایسا ہی لکھتے ہیں۔

راوی کہتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام جعفر صادق(ع) کے حضور میں تھے کہ حضرت امام علی ابن ابی طالب(ع) کے مناقب کے بارے میں بات ہوئی تو کہا گیا کہ کسی کو یہ قدرت نہیں کہ آپ جیسا کام کرسکے اور حضرت علی بن الحسین(ع) کے علاوہ اور کوئی ایسے کاموں میں ان کا ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔ آپ سینکڑوں خاندان کی کفالت کرتے تھے اور راتوں کو کبھی کبھی ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے۔ اہل سنت کی روایات میں ہے جب آپ کی شہادت ہوئی تو پتہ چلا کہ آپ سینکڑوں خاندان کی کفالت کرتے تھے۔

آپ کا زہد

جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ایک کامل زاہد تھے اور سوائے

۸۰