اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ0%

اسلام کے محافظ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 191

اسلام کے محافظ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیۃ اللہ حسین مظاہری
زمرہ جات: صفحے: 191
مشاہدے: 70415
ڈاؤنلوڈ: 4065

تبصرے:

اسلام کے محافظ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 191 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 70415 / ڈاؤنلوڈ: 4065
سائز سائز سائز
اسلام کے محافظ

اسلام کے محافظ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

خداوند عالم کے کسی مال یا شخص کے ساتھ وابستگی نہیں تھی یہی صورت حال امام سجاد علیہ السلام کی بھی تھی آپ اپنے اصحا ب سے فرمایا کرتے تھے۔

“ اصحاب اخوانی عليکم بدار الاخره ولا اوصيکم بدار الدنيا فانکم عليها و بها متمسکون اما بلغکم ان عيسی عليه السلام قال الحواريون الدنيا تنظره فاعبرواها و قال من بينی علی موج البحر دارا تلکم الذر الدنیا ولا تتخذوها قرارا”

“ میرے ساتھیو! میرے بھائیو! تم آخرت کی فکر میں لگے رہو میں تمہیں دنیا کے بارے میں تاکید نہیں کرتا کیونکہ تم اس پر فریفتہ ہو اور اس سے چمٹے ہوئے ہو۔ کیا تم نے حضرت عیسی(ع) کو نہیں سنا کہ انہوں نے اپنے حواریوں سے کہا کہ دنیا ایک پل کی مانند ہے اس سے گزر جاؤ یہ آباد کئے جانے کے قابل نہیں۔ کیا کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے جو دریا کی موجوں کے اوپر اپنا گھر بنائے ، یہ دنیا دریا کی ایک موج ہے اس سے دل نہیں لگانا چاہئے اور نہ اسے اپنے قرار کی جگہ سمجھنا چاہئے۔”

آپ کی شجاعت

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شجاعت زبان زد خاص و عام ہے۔ اس طرح اگر امام سجاد (ع) کی تقریریں جو آپ نے ابن زیاد اور یزید کے درباروں میں کیں خصوصا آپ کا وہ خطبہ جسے آپ نے شام کی مسجد میں دیا۔ پڑھتے ہیں تو آپ (ع) کی عظمت ہم پر واضح ہوجاتی ہے امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی بہادری کے جوہر میدان جنگ میں عمرو بن عبدود اور مرحب جیسے سور ماؤں کے مقابلے میں دکھائے اور آپ کے فرزند گرامی امام سجاد(ع) نے ابن زیاد ، یزید کے درباروں اور شام کی مسجد میں اپنی بہادری کی جوہر دکھائے۔

 آپ کی سیاست

تمام شیعہ وسنی مورخین کے مطابق حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ، اسلام کے محافظ

۸۱

 تھے۔ آپ کی رائے فوق العادہ حد تک فائدہ بخش تھی۔ جب ہی تو حضرت عمر نے ستر سے زیادہ مواقع پر کہالو لا علی ل ه لک العمر ۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام 35سال تک اسلام کے محافظ رہے آپ  کی رائے پر سب اعتماد کرتے ۔ بہت سارے مواقع میں آپ کی رائے سے مدینہ والوں اور بہت سارے شیعوں کو تحفظ ملا اور مروان و عبدالملک جیسے افراد سے نجات ملی۔

آپ کا حلم ( بردباری)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے فرمایا ایک دفعہ میں ایک جاہل کے قریب سے گزرا تو اس نے مجھے گالیاں دیں جسے میں نے ان سنی کردی اور آگے بڑھ گیا۔ اسی طرح ایک فرمان حضرت امام سجاد(ع) کا ہے آپ نے فرمایا کہ ایک آدمی کے قریب سے گزرا تو اس نے مجھے گالیاں دیں میں نے کہا اگر تم سچ کہتے ہو تو خداوند عالم مجھے معاف کرے اور اگر تم جھوٹ کہتے ہو تو مجھے بخش دے۔

آپ کی تواضع

آپ اکثر فقراء کےساتھ نشست و برخاست رکھتے، ان کےساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے، ان کے ساتھ ہر طرح کی دلجوئی اور مہربانی کرتے، ان کے لیے پشت بنتے ، ان کے کام کرتے، ان کی خوب پذیرائی کرتے اور ان کے بارے میں دوسروں سے سفارش کرتے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ حضرت امام سجاد(ع) کو  یہ بات پسند تھی کہ فقر و مسکین اور یتیم زیادہ سے زیادہ آپ کے ساتھ دسترخوان  پر ہوں۔ آپ ان کے ساتھ بیٹھتے ان کے لیے غذا تیار کرتے بلکہ نوالے ان کے منہ میں ڈالتے تھے۔

۸۲

آپ(ع) کی فصاحت و بلاغت

فصاحت سے مراد خوبصورت باتیں کرنا اور مجاز و کنایہ لطائف اور مثالوں کا بر محل استعمال کرنا۔

جب کہ بلاغت کا مطلب ہے خوبصورت بات کہنا بر محل اور بجا طور پر بات کرنا، غیر ضروری طویل کلام سے پرہیز کرنا۔ امیرالمومنین علیہ السلام کی فصاحت و بلاغت تو مسلم ہے آپ کے کلام نہج البلاغہ کے بارے میں تو یہاں تک کہا گیا کہ “دون‏ كلام‏ الخالق و فوق كلام المخلوق. ” خالق کے کلام کے بعد اور مخلوق کے کلام سے اوپر ہے۔”

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے دنیا والوں کے لئے صحیفہ کاملہ دے دیا۔ جو ایک ایسا صحیفہ ہے کہ اس جیسا نہ پہلے آیا ہے نہ آئندہ آئے گا۔ ایک ایسا صحیفہ جس میں دعاؤں کے ضمن میں اسلامی معارف، اسلامی سیاست، اسلامی اخلاق، اسلامی معاشرت، شیعیت کی حقانیت، اہل بیت(ع) کی حقانیت، ظلم اور ظالمون پر تنقید ، حق و حقیقت کی طرف دعوت، جو مجموعی طور پر اسلامی معارف کے ایک خزانےسے آگاہ کرتا ہے۔

یہ وہی صحیفہ ہے جسے دیکھ کر ایک شخص جو فصاحت و بلاغت کا دعوی کرتا تھا اس نے کہا کہ میں نے اس کے مقابل ایک اور صحیفہ تیار کروں گا مگر جب اسے پڑھا اور اس کی مثل لکھنے کی کوشش کی تو شدت عجز کی لپیٹ میں آکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

آپ کا جہاد

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اسلام کے عظیم مجاہد تھے ا ور اسلام کو کفار و مشرکین سے نجات دلائی۔ لیکن آپ کے فرزند سید سجاد(ع) اگرچہ کربلا میں شہید نہیں

۸۳

ہوئے۔ مگر آپ کا وجود ، آپ کی بقاء کا قید ہونا اسلام کے باقی رہنے کا عامل بنا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کا قیام ایک درخت کی مانند ہے جسے کربلا میں اگایا گیا جس کی حفاظت و آبیاری کا کام حضرت سید سجاد(ع) اور جناب زینب سلام اﷲ علیہا کے ہاتھوں انجام پایا۔ اسیری کے دوران آپ کا تدبیر، مدینہ میں آپ کا گریہ و نوحہ خوانی اور 35 سال کی مدت تک مصائب حسین(ع) کا ذکر کرنا ایک قسم کا فوق العادہ جہاد تھا۔ جس کے بڑے دور رس نتائج نکلے اگر سیاسی تاریخ کا تجزیہ کریں تو یہ بات روشن ہوجاتی ہے۔

آپ کا عفو در گزر کا جذبہ

تاریخ میں یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے ابن ملجم کا خاص خیال رکھا یہاں تک کہ دودھ آپ کے لئے لایا گیا تھا اس مٰیں سے نصف خود پیا اور نصف اسے دے دیا۔ اور اس کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی بے حد سفارش فرمائی۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں روایت ہے کہ مدینہ کے گورنر نے ظلم و ستم کر کے آپ کا دل خون کردیا تھا۔ لیکن جب عبدالملک بن مروان کی طرف سے معزول ہوا اور یہ حکم اس کے بارے میں دیا گیا کہ اسے ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا جائے اور لوگ آکر اس کی توہین کریں۔ یہ اطلاع پا کر آپ نے اپنے اصحاب کو بلا کر حکم دیا کہ خبردار ایسی حرکت کوئی بھی نہ کرے اور خود آپ اس کے پاس چلے گئے۔ اس کی دل جوئی کی ، ڈھارس دی اور عبدالملک بن مروان کے پاس اس کی سفارش کی جس کی وجہ سے اسے نجات ملی جب کہ اس کا کہنا یہ تھا کہ مجھے سب سے زیادہ خطرہ علی بن الحسین(ع) کی طرف سے تھا کیونکہ میں نے اس خاندان پر بڑا ظلم و ستم کیا تھا۔

۸۴

آپ کی شخصیت و ہیبت

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ بہت متواضع تھے اور ہر کوئی آپ کی شخصیت کو مانتا تھا اسی طرح آپ کے فرزند حضرت سجاد علیہ السلام کی بھی شخصیت ہے۔ تاریخ میں لکھا ہے ۔ ہشام بن عبدالملک حج کے لیے آیا ہوا تھا لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے حجر اسود کو بوسہ نہ دے سکا۔ لہذا ایک کونے پر اس کے لئے ایک فرش بچھایا گیا جہاں وہ بیٹھ گیا اس دوران حضرت امام سجاد علیہ السلام طواف کے لئے پہنچے جب آپ حجر اسود کے پاس پہنچے تو تمام لوگ ہٹ گئے اور آپ کے لیے جگہ چھوڑ دی۔ آپ نے کئی دفعہ حجر اسود کو بوسہ دیا۔ ہشام کے مصاحبوں میں سے کسی نے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے جس کا لوگ اتنا احترام کرتے ہیں ہشام نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے کہا پتہ نہیں وہاں پر فرزدق بھی موجود تھے۔ انہوں نے فی البدیہ آپ کی شان میں ایک قصیدہ پڑھا جو مناقب شہر آشوب میں موجود ہے اس کے چند بند یہاں لکھے ہیں۔

             هَذَا الَّذِي‏ تَعْرِفُ‏ الْبَطْحَاءُ وَطْأَتَهُ‏                وَ الْبَيْتُ يَعْرِفُهُ وَ الْحِلُّ وَ الْحَرَمُ‏

             مَا قَالَ لَا قَطُّ إِلَّا فِي تَشَهُّدِهِ‏                    لَوْ لَا التَّشَهُّدُ كَانَتْ لَاؤُهُ نَعَمْ‏

             يُغْضِي حَيَاءً وَ يُغْضَى مِنْ مَهَابَتِهِ‏                فَمَا يُكَلِّمُ إِلَّا حِينَ يَبْتَسِمُ‏

             مِنْ مَعْشَرٍ حُبُّهُمْ دِينٌ وَ بُغْضُهُمْ‏                كُفْرٌ وَ قُرْبُهُمْ مَنْجًى وَ مُعْتَصَمٌ‏

             مُقَدَّمٌ بَعْدَ ذِكْرِ اللَّهِ ذِكْرُهُمْ‏                     فِي كُلِّ يَوْمٍ وَ مَخْتُومٌ بِهِ الْكَلِمُ‏

۸۵

ترجمہ ؛۔ “ یہ وہ شخص ہے جسے حجاز، خانہ خدا ، حل و حرم سب جانتے ہیں اس کے کلام میں نہیں کا لفظ موجود نہیں سوائے تشہد کے کہ اگر تشہد نہ ہوتا اس کا لا بھی نعم ہوتا ۔”

لوگوں سے میل جول کے وقت شدت حیاء سے ںطریں جھکائے رہتے ہیں اور لوگ ان کی ہیبت و جلال دیکھ کر نظریں جھکا دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ اس وقت بات کی جاسکتی ہے کہ وہ تبسم فرمادیں۔ قیامت کے دن ان کی محبت دین اور ان کے ساتھ بغض کفر ہوگا۔ ان کے ساتھ قریب و نزدیکی انسانوں کے لیے نجات کا باعث ہوگی۔

نماز میں اﷲ کے نام کے بعد ان کی یاد اور ان کا نام ہر چیز سے مقدم ہے یعنی نماز  کے اقامہ میں اﷲ کے نام کے بعد اہل بیت (ع) کا نام ہے اور نماز کا آخری جز تشہد میں بھی ان کا ذکر ہے۔

کہا جاتا ہے کہ فرزدوق ان اشعار کے کہنے کی وجہ سے بخشا گیا ہے اور جامی علیہ الرحمہ کے کہنے کو مطابق ان اشعار کے وجہ سے تمام اہل عالم کو بخشا جائے تو بھی گنجائش ہے۔

امام سجاد(ع) کی زندگی

ہمیں  معلوم ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی شورشوں سے پر تھی یہاں تک کہ آپ نے نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا کہ “ میں نے مصائب میں اس طرح صبر کیا جیسے کوئی اس طرح صبر کرے کہ اس گلے میں ہڈی پھنسی ہو اور آنکھ میں کانٹا چھپا ہو۔” لیکن جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی اس سے زیادہ شورشوں میں گزری ہے۔ آپ نے جنگ صفین کے پر آشوب دور میں معاویہ نے اپنے ظلم و ستم

۸۶

کا آغاز کیا ہوا تھا۔ معاویہ کو شیعوں کے گروہ در گروہ افراد کو قتل کرتے دیکھا معاویہ کو علی(ع) پر سب وشتم کرتے ہوئے اور نماز جمعہ کے خطبوں میں اس رسم کو رواج دیتے ہوئے دیکھا، کربلا کے واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ، اسیر ہوئے، اسیری کا ہر دن ان کے لیے ایک نئی موت کی مانند تھا۔

یزید کے درباروں کو دیکھا جب کہ اہل حرم (ع) آپ کے پیٹھ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ واقعہ حرہ کے چشم دید گواہ ہیں اور یہ تمام مسلمانوں کے لیے باعث ننگ و عار ہے۔

یزید نے حکومت کے دوسرے سال پانچ ہزار کا لشکر مدینہ بھیجا اور قتل عام کا حکم دیا اور تین دن تک مدینہ کو اپنے لشکر والوں کے لیے حلال قرار دیا۔

آپ نے عبداﷲ بن زبیر کے فتنے کو بھی دیکھا جس نے محمد بن حنفیہ سمیت تمام بنی ہاشم کو شعب ابی طالب (ع) میں جمع کیا تھا کہ ان سب کو جلا ڈالے مگر اس لمحے دشمن پہنچ گیا اور موقع نہ ملا۔

آپ نے مروان بن حاکم کو بھی دیکھا تھا جس کا گورنر حجاج بن یوسف ثقفی تھا۔ اس کے اندان کو بھی دیکھا جو بیابان میں تھا اور اس میں بیک وقت پچاس ہزار افراد قید تھے۔ دمسری نے حیواة الحیوان میں لکھا ہے کہ ان کے لیے چوبیس گھنٹے میں صرف دو روٹیاں ملتی تھیں جن میں بیشتر جلی ہوتی تھیں۔

آپ(ع) محبت اہل بیت(ع) کے جرم میں لاکھوں قتل ہونے والوں کے شاہد ہیں۔ آپ نے ستاون سال کی عمر پائی اور آپ کے لیے ہر نیا دن ایک قتل گاہ کی حیثیت کا حامل تھا۔

“ والسلام عليه يوم ولد ويوم تشهد و يوم يبعث حيا”

۸۷

حضرت امام باقر علیہ السلام

آپ کا نام نامی محمد (ع) اور مشہور لقب باقر(ع) ہے۔ روایات کے مطابق خود حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے آپ نے آپ کو یہ لقب دیا تھا آپ کی کنیت ابو جعفر(ع) ہے اور آپ کی عمر مبارک اپنے جد بزرگوار کی طرح 57 سال تھی۔ یکم رجب 57 ہجری قمری کو ولادت پائی۔ 114 ہجری قمری میں ہشام بن عبدالملک کے حکم سے ابراہیم بن ولید کے ہاتھوں شہید ہوئے سبب شہادت زہر تھا۔ جب کربلا کا واقعہ رونما ہوا تو آپ تین سال کے تھے اور آپ کربلا میں موجود تھے واقعہ کربلا کے بعد 34 سال اپنے پدر بزرگوار کے زیر سایہ رہے اور آپ کی مدت امامت انیس(19) سال ہے۔

تمام ائمہ معصومین علیہم السلام کے درمیان حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دو امتیازات کے حامل ہیں ایک تو یہ کہ آپ کے دادا حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے نانا حضرت امام حسن علیہ السلام ہیں۔ اسی بناء پر آپ کے بارے میں کہا گیا۔

“عَلَوِيٌ‏ مِنْ‏ عَلَوِيَّيْنِ وَ فَاطِمِيٌّ مِنْ فَاطِمِيَّيْنِ هَاشِمِيٌّ مِنْ هَاشِمِيَّيْنِ”

“ دو علویوں میں سے ایک علوی دو فاطمیوں میں سے ایک فاطمی، دو ہاشمی میں سے ایک فاطمی۔”

بہر حال آپ کی یہ نسبت ایک فوق العادہ امتیاز ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت حسن علیہم السلام بڑی عالم اور مقدس خاتون تھیں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میری دادی ایک ایسی صدیقہ تھیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام

۸۸

کی اولاد میں سے  کوئی ان کی مانند نہیں تھا۔ آپ کا ایک معجزہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ ایک دیوار کے نیچے تھیں کہ اچانک دیورا گرنے لگی آپ نے فرمایا مت گر بحق محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کہ خدا نےتمہیں گرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔ گرتی ہوئی دیوار رک گئی یہاں تک آپ وہاں سے ہٹ گئیں۔

دوسرا امتیاز آپ کا یہ ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام تشیع کے ثقافتی انقلاب کے بانی شمار ہوتے ہیں اگر چہ تشیع کے معارف کی نشر اشاعت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہاتھوں ہوئی لیکن اس کی بنیاد حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے رکھی تھی۔

آپ کے زمانے میں بنی امیہ کی حکومت زوال پذیر ہوئی اور لوگ ان سے نفرت کرتے تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسی ہستی کا وجود جو بنی امیہ کے سراسر ضرر اور صاحبان ایمان کے لیے فائدے کا سبب بنی، موجود تھی جس کی وجہ سے اسلامی ممالک میں ایک شدید اختلاف پایا جاتا تھا۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی انیس سالہ امامت کے دور میں (5) خلفاء بنی امیہ کے بدل گئے یعنی ولید بن عبدالملک ، سلمان بن عبدالملک ، عمر بن عبدالعزیز ، یزید بن عبدالملک ، ہشام بن عبدالملک۔ لہذا اس طرح سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو ایک مناسب موقع نصیب ہوا کہ ایک علمی انقلاب کی بنیاد رکھیں۔ بڑے بڑے علماء اور بزرگ لوگ اطراف عالم سے آپ کے گرد جمع ہونے لگے اور اسلام کے لطیف معارف کا حصول کر کے نشر کرنے لگے اسی بناء پر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو باقر(ع) کا لقب دیا تھا۔ “ لسان العرب” میں باقر کی توجیح یوں کی گئی ہے۔ “لأنّه بقر العلم‏ و عرف أصله و استنبط فرعه وتوسيع في ه و التبقّر التوسّع في العلم

۸۹

 حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو یہ لقب ملا کیونکہ انہوں نے علم کا شگافتہ کیا اور اسلامی علوم و معارف اور  ان کے فروعات کا ادراک کر کے ان کی بنیاد رکھی اور اسے وسعت بخشی اور تبقر کے معنی وسعت دینے کے ہیں۔

علمائے عامہ و خاصہ نقل کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے جابر بن عبداﷲ انصاری سے فرمایا۔

“يَا جَابِرُ يُوشِكُ أَنْ تَبْقَى حَتَّى تَلْقَى وَلَداً لِي مِنَ الْحُسَيْنِ يُقَالُ لَهُ مُحَمَّدٌ يَبْقُرُ عِلْمَ‏ النَّبِيِّينَ بَقْراً فَإِذَا لَقِيتَهُ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ.”

“ اے جابر عنقریب تو میرے بیٹے حسین(ع) کی اولاد میں سے ایک کے ساتھ ملاقات کرو گے جس کا نام ہوگا جو علوم انبیاء کو شگافتہ کرے گا جب تمہاری ملاقات انکے ساتھ ہوجائے تو میری طرف سے انہیں سالام کہنا۔”

 جس وقت حضرت جابر بن عبداﷲ اںصاری نے آپ سے ملاقات کر کے حضور اکرم(ص) کا سلام پہنچایا تو آپ نے جابر سے فرمایا اے جابر اپنی وصیت تیار رکھ چند دن کے اندر تم نے مرنا ہے جابر نے روتے ہوئے عرض کیا مولا(ع) آپ یہ کس بنا پر فرما رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ اے جابر خدا کی قسم پروردگار عالم نے گزشتہ اور آئندہ کا علم یہاں تک کہ قیامت تک کا علم ہمیں عنایت فرمایا ہے۔ آپ کو باقر(ع) اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ آپ نے اسلامی معارف کو وسعت دے کر ان کی بنیادیں قائم کی ہیں۔

شیخ مفید کتاب الارشاد میں فرماتے ہیں ایسے افراد جو رسول اﷲ(ص) کے اصحاب میں سے تھے جیسے جابر بن عبداﷲ اںصاری اور تابعین میں سے بزرگ علماء  اور فقہا اور دیگر جیسے جابر جعفی ، کیسان سختیانی، امین مبارک، زہری، اوزاعی، ابوحنیفہ، مالک، شافعی، زیاد بن منذر وغیرہ اور ان کے علاوہ مصنفین جیسے طبری ، بلازری، سلامی، خطیب، ابی داؤد، اسکافی فروزی، اصفہانی، بسیط اور نقاش و غیرہ بھی

۹۰

حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں۔ یہ تمام اہل سنت کے علماء میں سے ہیں۔ ان میں سے بعض سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے کسب فیض کیا ہے اور ال سنت کے بہت سارے علماء یہ اقرار کرتے ہیں کہ آپ(ع) اپنے زمانے کے عظیم عالم تھے۔ یہاں تک کہ حکم بن عتیبہ نے جو علمائے اہل سنت کےایک عظیم عالم ہیں آیت “ان ذالک للمتوسمين ” کی تفسیر میں کہا ہے کہ خدا کی قسم محمد باقر(ع) متوسمین میں سے ہیں۔ علمائے عامہ میں سے ایک عبداﷲ بن عطا کہتا ہے۔

“ما رأيت العلماء عند أحد أصغر علما منهم عند أبي جعفر عليه السلام، لقد رأيت الحكمبن عتيبة  عنده كأنّه متعلّم.”

“ میں نے علماء کو اس قدر کم علم کسی کے نزدیک نہیں پایا جس قدر علماء حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے سامنے کم علم قرار پاتے تھے۔ میں نے حکم بن عتبہ کو آپ کے سامنے ایک متعلم ہی پایا۔”

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے خواص اصحاب اور وہ افراد جو آپ سے روایت نقل کرتے ہیں ان کی تعداد ہزاروں سے زیادہ ہے ان میں ہی بعض فوق العادہ ہستیاں بھی موجود ہیں جو فخر شیعہ کہلانے کے حق دار ہیں۔

اجماع شیعہ سے مراد صحابہ رسول اکرم(ص) اور ان کے تابعین جو اصحاب کے شاگرد تھے۔ یہ چھ افراد ہیں زرارہ معروف الخربوز، ابو بصیر، فضیل بن یسار، محمد بن مسلم، یزید بن معاویہ کہ ان میں سے ایک یعنی محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے تیس ہزار روایتیں نقل کی ہیں اور میں کہتا ہوں کہ یہ روایات اسرار کا ایک خزانہ ہیں کسی نا اہل کو نہیں کہنا چاہئے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دوسرے ائمہ علیہم السلام کو حاصل اختیارات

۹۱

کے علاوہ دو امتیاز رکھتے ہیں اور خود آپ کی زبان مبارک نے بھی بعض ایسے امتیازات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مناقب ابن شہر آشوب میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا۔

“نَحْنُ‏ جَنْبُ‏ اللَّهِ‏ وَ نَحْنُ حَبْلُ اللَّهِ وَ نَحْنُ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ وَ نَحْنُ الَّذِينَ بِنَا يَفْتَحُ اللَّهُ وَ بِنَا يَخْتِمُ اللَّهُ نَحْنُ أَئِمَّةُ الْهُدَى وَ مَصَابِيحُ الدُّجَى وَ نَحْنُ الْهُدَى وَ نَحْنُ الْعَلَمُ الْمَرْفُوعُ لِأَهْلِ الدُّنْيَا وَ نَحْنُ السَّابِقُونَ وَ نَحْنُ الْآخِرُونَ مَنْ تَمَسَّكَ بِنَا لَحِقَ وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنَّا غَرِقَ نَحْنُ قَادَةُ غُرٍّ مُحَجَّلِينَ وَ نَحْنُ حَرَمُ اللَّهُ وَ نَحْنُ لَلطَّرِيقُ وَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ نَحْنُ مِنْ نِعَمِ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ وَ نَحْنُ الْمِنْهَاجُ وَ نَحْنُ مَعْدِنُ النُّبُوَّةِ وَ نَحْنُ مَوْضِعُ الرِّسَالَةِ وَ نَحْنُ أُصُولُ الدِّينِ وَ إِلَيْنَا تَخْتَلِفُ الْمَلَائِكَةُ وَ نَحْنُ السِّرَاجُ لِمَنِ اسْتَضَاءَ بِنَا وَ نَحْنُ السَّبِيلُ لِمَنِ اقْتَدَى بِنَا وَ نَحْنُ الْهُدَاةُ إِلَى الْجَنَّةِ وَ نَحْنُ عُرَى الْإِسْلَامِ وَ نَحْنُ الْجُسُورُ وَ نَحْنُ الْقَنَاطِرُ مَنْ مَضَى عَلَيْنَا سَبَقَ وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنَّا مُحِقَ وَ نَحْنُ السَّنَامُ الْأَعْظَمُ وَ نَحْنُ مِنَ الَّذِينَ بِنَا يَصْرِفُ اللَّهُ عَنْكُمُ الْعَذَابَ مَنْ‏أَبْصَرَ بِنَا وَ عَرَفَنَا وَ عَرَفَ حَقَّنَا وَ أَخَذَ بِأَمْرِنَا فَهُوَ مِنَّا.”

“ اس خطبہ شریفہ سے آیات قرآنی اور قطعی روایات احادیث موجود ہیں۔ ہم خداوند عالم کے “ جنب ” ہیں اور جنب کے معانی پہلو کے ہیں اور عرب“ وجہ” یعنی چہرے سے مراد ارادہ ذات لیتے ہیں اور ہاتھ سے مراد قدرت مراد لیتے ہیں اس طرح جنب کہہ کر قرب الہی مراد لیتے ہیں چونکہ بیت (ع) عظام تقرب الہی کے انتہائی درجے پر فائز ہوتے ہیں لہذا انہی کو جنب اﷲ کہا گیا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا یہ ارشاد در اصل سورہ زمر کے آیت کی طرف اشارہ ہے جس میں ارشاد ہوا-“ان تقول نفسی يا حَسْرَتى‏ عَلى‏ ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ‏” یعنی توبہ کرو قبل اس کے کہ کہو اے وائے ہو میرے نفس پر کہ “ جنب اﷲ” کے بارے میں

۹۲

 تفریط سے کام لیا۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں گے کہ اے وائے ہم نے اہل بیت(ع) کے ساتھ کوئی سروکار نہیں رکھا اور ان سے منہ موڑ لیا۔ امام خطبے میں فرماتے ہیں کہ ہم حبل اﷲ ہیں قرآن کریم کی آیت 103 آل عمران کی طرف اشارہ ہے، ارشاد ہوا۔

“وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ‏ اللَّهِ‏ جَمِيعاً وَ لا تَفَرَّقُوا”

“یعنی اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ کا شکار مت ہوجاؤ”

ہم اﷲ کے بندوں پر اس کی طرف سے رحمت ہیں۔ یہ اشارہ سورہ اعراف کی آیت 156 کی طرف سے ارشاد ہوا “ورحمتی وسعت کل شی ” میری رحمت تمام چیزوں پر چھائی ہوئی ہے۔”

اور روایات میں وارد ہوا کہ رحمت واسعہ سے مراد در حقیقت اہل بیت علیہم السلام ہیں۔ ہم ہی ہیں جو خلقت کی ابتداء سے لے کر انتہا تک ہمارے ذریعے تخلیق فرمائی۔” یہ جملہ زیارات میں بھی وارد ہے اور قرآن کی آیت 143 سورہ بقرہ کی طرف اشارہ ہے ، ارشاد ہوا۔

“ وَ كَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيداً”

یعنی “ ہم نے اہل بیت (ع) کو مکمل ایمان بنا کر پیدا کیا تاکہ لوگوں پر گواہ قرار پاؤ اور رسول اکرم (ص) تم گواہ قرار پائیں گے۔”

بہت ساری روایات موجود ہیں کہ یہ گواہی (شہادت ) فیض کا ذریعہ ہے ہم ایسے امام (ع) ہیں جو رہنما ہیں اور لوگوں کے لیے درخشان چراغوں کی مانند ، علم کا علم بلند کئے ہوئے ہیں ہم ہی سابقین اور اخرین ہیں۔ یعنی “ ہم ہی اول ہیں اور ہم ہی آخر ہیں۔” یہاں بھی واسطہ فیض ہونے کی طرف اشارہ ہے جو کوئی ہمارے ماں پناہ لیتا ہے نجاتف پاتا ہے اور جو ہم سے رد گردانی  کرتا ہے غرق ہوجاتا ہے۔

۹۳

یہ جملہ اشارہ ہے اس حدیث کی طرف جس میں حضور اکرم(ع) نے فرمایا۔ “ میرے اہل بیت(ع) کی مثال نوح(ع)  کی کشتی کی جیسی ہے جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو روگردانی کرے گا غرق ہو جائے گا۔ ہم قیامت کے دن کے کامیاب ہونے والوں کے رہبر ہیں ہم ہی اﷲ کا حرم ہیں کہ لوگوں کے درمیان ہمارا احترام محفوظ ہے۔ ہم تمام راہ مستقیم ہیں۔” یہ اشارہ آیت “ا ه دنا الصراط المستقم-” کی طرف ہے۔

“ ہم نے بندوں پر خدا کی نعمتیں ہیں۔ ” یہ جملہ اشارہ ہے سورہ ںحل کی آیت 112 کی طرف جس میں ارشاد ہوتا ہے۔

“وَ ضَرَبَ‏ اللَّهُ‏ مَثَلًا قَرْيَةً كانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً- يَأْتِيها رِزْقُها رَغَداً مِنْ كُلِّ مَكانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ- فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَ الْخَوْفِ بِما كانُوا يَصْنَعُونَ‏”

“ یعنی خداوند عالم نے مثال بیان کی اس گاؤں کی جو سکون و اطمینان میں تھا اور ان  پر بارش کی طرح نعمتیں برستیں تھیں مگر انہوں نے خداوند عالم کی تعلیمات کا انکار کیا پس خداوند عالم نے انہیں خوف اور بھوک کا لباس پہنا دیا جو کچھ وہ کرتے تھے اس کی پاداش میں تھا۔

ہم ہی حق اور حقیقت کا راستہ ہیں اور ہم ہی نبوت کا معدن ہیں جوکچھ پیغمبراکرم(ص) کے پاس تھا ہمارے پاس ہے رسالت ہمارے ہی گھر میں اتری “اللَّهُ‏ أَعْلَمُ‏ حَيْثُ‏ يَجْعَلُ رِسالَتَهُ” ہم اسلام کی بنیادیں ہیں اور اﷲ کےفرشتے ہمارے ہی گھروں میں اترتے ہیں جو بھی چاہے ہم اس کے لیے راستے کا چراغ ہیں ہم ہی اسلام کے عروة الوثقی ہیں۔” یہ جملہ اشارہ ہے سورہ بقرہ کی آیت 256 کی طرف جس میں ارشاد ہوا ہے

“وَ يُؤْمِنْ‏ بِاللَّهِ‏ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى‏لاَ انْفِصامَ لَها”

یعنی “ جو شخص خدا پر

۹۴

ایمان لایا اس نے ایک ایسی محکم دستاویز حاصل کی جو ٹوٹنے والی نہیں جو کوئی حق تک پہنچنا چاہتا ہے گمراہی سے نجات پانا چاہتا ہے اور بہشت کی رسائی چاہتا ہے۔ تو اسے چاہیے کہ ہمیں سجھے جو ہم سے آگے بڑھے گا روگردانی کرے گا نابود ہوجائے گا۔ ہم اسلام کے عظیم محافظ ہیں ہمارے ہی ذریعے اﷲ تم سے عذاب کو دور کرتا ہے جو کوئی ہمیں پہچان لے اور ہمارے حق کی معروفت حاصل کرے اور ہمارے احکامات کو اپنے اوپر نافذ کرے تو وہ ہم میں سے ہے وہی نجات پائے گا۔”

معلوم ہونا چاہیے کہ اس خطبے میں بہت سارے اشارات و کنایات اور بہت سارے لطیف نکتے پوشیدہ ہیں اور امام(ع) کے اس ایک خطبے کی شرح میں کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ اپنے اس خطبے میں امام(ع) نے اہل بیت(ع) عظام کے امتیازات کے علاوہ جو دو امتیاز کے خود حامل ہیں ان کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے ہم نے مختصر طور پر انہی کے بارے میں تذکرہ پہلے کیا ہے مورخین نے ایک راہب کےساتھ آپ کے سوال وجواب کے بارے میں میں چند مطالب لکھے ہیں ہم ان کا خلاصہ یہاں لکھتے ہیں۔

ہشام بن حکم نے آپ کو شام میں بلا بھیجا آپ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو ہمراہ لے کر شام کی طرف چلے۔ راستے میں ایک راہب سے ملاقات ہوئی جس کے گرد اس کے عقیدت مندوں نے حلقہ گھیرا ہوا تھا کہ راہب انہیں نصیحت کرے حضرت امام باقر علیہ السلام بھی ان مٰیں شامل ہوگئے آپ کی ہیبت و وجلال اور نورانیت نے راہب کو متاثر کیا انہوں نے آپ(ع) سے احوال پرسی کی اور چند سوالات بھی پوچھے اگرچہ راہب کے سوالات بڑے عامیانہ ہیں اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے مرتبہ علمی کے شایان نہیں لیکن ان سوالات میں بھی ایک نادانی تھی جوابات پاکر اور سوالات کے مرحلے میں اپنی جہالت سے خبردار ہو کر راہب اور

۹۵

 ان کے پیرو کاروں نے اسلام قبول کیا۔

راہب کے سوالات اور آپ(ع) کے جوابات یوں ہیں۔

س : وہ لمحات کون سے ہیں جو نہ تو دن میں شامل ہیں اور نہ رات میں؟

ج : طلوع فجر اور طلوع شمس کے درمیان کے لمحات جو بہشت کے لمحات میں ہیں جن میں ایک شخص اپنی آخرت کو آباد کرسکتا ہے اور دونوں جہانوں کی سعادت حاصل کر سکتا ہے۔

س : کہتے ہیں کہ اہل بہشت کو رفع حاجت کی ضرورت نہیں ہوگی دنیا میں اس کی مثال دیں؟

ج : اس کی مثال ماں کے پیٹ میں طفل کی ہے۔

س : کہا جاتا ہے کہ بہشت کی نعمات ختم نہ ہونے والی ہیں دنیا میں اس کی مثال کیا ہے؟

ج : فرمایا اس کی مثال علم کی ہے علم سے جس قدر فائدہ اٹھایا جائے اس میں اضافہ ہوتا ہے اور علم ختم نہیں ہوتا۔

س : وہ دو بھائی جو ایک ساتھ پیدا ہوئے اور ایک ساتھ مرگئے لیکن ایک کی عمر پچاس سال اور ایک کی عمر ایک سو پچاس سال تھی کون تھے؟

ج : آپ نے فرمایا وہ دو بھائی حضرت عزیر اور عزیز تھے۔ قرآن ان کی خبر دیتا ہے ان میں سے عزیر نے قیامت کے دن مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے پر شک کیا تو خداوند عالم نے سو سال کے لئے اس کی روح قبض کی اس کےبعد اسے فائدہ کیا اس طرح ایک ساتھ پیدا ہوتے ہوئے اور ایک ساتھ مرتے وقت دونوں کی عمروں میں سے سال کا فرق تھا۔ راہب نے آپ کے حکیمانہ جوابات کو سن کر اپنے پیروکاروں کے ساتھ اسلام قبول کیا۔ ائمہ طاہرین(ع) کی حقیقی شان تاریخ میں واضح نہیں ہوسکی ہے

۹۶

پھر بھی ابن حجر جیسے متعصب اور تنگ نظر شخص نے بھی حضرت محمد باقر علیہ السلام کے بارے میں یوں لکھا ہے۔

“ هو باقر العلم‏ و جامعه و شاهر علمه و رافعه صفا قلبه و زكى علمه و عمله و طهرت نفسه و شرفت خلقه و عمرت أوقاته بطاعة اللّه و له من الرسوخ في مقامات العارفين ما يكلّ عنه ألسنة الواصفين و له كلمات كثيرة في السلوك و المعارف لا تحتملها هذه العجالة.”

“ آپ تو علم کے شگافتہ کرنے والے اور وسعت دینے والے ہیں علم کو نمایاں کرنے والے اور علم کو بلندی عطا کرنے والے ہیں۔ ان کا دل پاک ہے ان کا علم تزکیہ شدہ ہے اور عمل بھی اس طرح پاکیزہ ہے آپ طاہر مطہر ہیں حسن خلق رکھتے ہیں ان کی زندگی اﷲ کی اطاعت میں صرف ہوئی۔ علم و عرفان کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہیں جس کے بارے بیان کرنا ممکن نہیں صاحب جنات الخلود جو شیعہ ہیں وہ کہتے ہیں “ آپ اکثر اوقات عبادت الہی میں مصروف ہوتے تھے خوف خدا سے گریہ کرتے رہتے بڑے منکسر المزاج تھے۔ اپنے کھیتوں میں جاتے اور کام کرتے جو کچھ بھی حاصل ہوتا خدا کی راہ میں خرچ کرتے، تمام لوگوں میں زیادہ سخی تھے ۔ تمام علماء آپ کے پاس آکر علم حاصل کرتے ان کا علم آپ کے مقابلے میں اس طرح تھا جیسے سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو۔ آپ کی زبان سے حکمت کے چشمے ابلتے تھے اور آپ کی جلالت کے سامنے ہر جلالت ماب چھوٹا نظر آتا تھا۔”

بحث کے آخر میں ہم کا ایک معجزہ ذکر کرتے ہیں۔ کلینی علیہ الرحمتہ نے کافی میں ابوبصیر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں گیا اور کہا کہ آپ رسول اکرم (ص) کے وارث ہیں اور جو کچھ پیغمبر اکرم (ص) جانتے تھے آپ بھی جانتے ہیں فرمایا ہاں۔ میں نے کہا تو کیا آپ مردہ کو

۹۷

 زندہ کرتے ہیں ، مادر زاد اندھے کو شفاء دے سکتے ہیں اور کیا جذام کے مریض کو شفاء دے سکتے ہیں جیسے کہ قرآن میں حضرت یحی(ع) کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا خدا کی اجازت سے یہ بھی رکھتے ہیں اس کے بعد فرمایا۔ میرے پاس آؤ میں قریب گیا تو آپ نے میری آنکھوں پر اپنا ہاتھ پھیرا میری بینائی لوٹ آئی مجھے سے پوچھا کیا تم چاہتے ہو کہ بینائی کی حالت پر قائم رہو۔ مگر قیامت کے دن دوسرے لوگوں کی طرح حساب و کتاب اور آخرت کی دوسری مشقتوں کو برداشت کرو۔ یا نابینائی اختیار کر کے آخرت میں بغیر کسی حساب کے جنت میں چلے جاؤ ابوبصیر کہتا ہے کہ میں نے نا بینائی اختیار کی۔

۹۸

حضرت امام صادق علیہ السلام

آپ کا اسم مبارک جعفر(ع) اور مشہور کنیت ابی عبداﷲ اور آپ کا لقب صادق ہے آپ کی عمر مبارک پینسٹھ سال تھی۔ مشہور یہ ہے کہ آپ 7 ربیع الاول 83 ہجری کو جو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا روز ولادت بھی ہے، پیدا ہوئے اور 148ہجری 25 شوال المکرم کو منصور دوانقی کے حکم سے زہر کے ذریعے شہید ہوئے آپ کی مدت امامت 34 سال تھی۔

حضرت صادق علیہ السلام نے ان چونتیس سالوں میں شیعیت کو زندہ کیا تشیع کے لیے آپ کی خدمات اس قدر زیادہ ہیں کہ شیعہ مذہب کو مذہب جعفری کہا جانے لگا۔ یہ آپ کے لیے ایک اہم امتیاز ہے کہ مذہب شیعہ کی اکثر روایات آپ سے منقول ہیں۔

مرحوم محقق علیہ الرحمہ نے “ معتبر” میں کہا ہے کہ مختلف اسلامی فنون میں حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے اس قدر روایات منقول ہیں کہ عقل حیران ہے۔”

شیعہ و سنی  بزرگ علماء اقرار کرتے ہیں کہ چار ہزار افراد نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے “ کشی” کہتا ہے کہ ابان بن تغلب نے حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے تیس ہزار روایات نقل کی ہیں۔

“نجاشی” کہتا ہے کہ “ وشا” نے کہا ہے کہ میں نے نو سو افراد کو مسجد نبوی میں

۹۹

 دیکھا اور وہ تمام کہہ رہے تھے ۔ حدثنی جعفر بن محمد الصادق۔ “ مجھ سے بیان کیا حضرت جعفر صادق (علیہ السلام)نے۔”

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا عہد بنی امیہ کی حکومت کے آخری اور بنی عباس کو حکومت کے ابتدائی ایام کا تھا اور ان دونوں حکومتوں کو مکمل طور پر قدرت و قوت حاصل نہیں تھی۔ بنی امیہ روبہ زوال تھے اور بنی عباس اچھی طرح اقتدار سے چھا نہ سکے تھے۔ لہذا آپ کو موقع ملا اور معارف اسلامی کو عالم اسلام میں درس و تدریس کے ذریعے پھیلا سکے اور اسلامی علوم کے ہزارون دانشمندوں کی ترییب فرمائی۔ فقہ میں آپ کے شاگردوں میں جمیل بن دراج، عبداﷲ بن مسکان، عبداﷲ بکیر، حماد بن عیسی، حماد  بن عثمان، ابان بن عثمان، جیسے عظیم فقہا کو اسلام کے لیے ہدیہ پیش کیا۔ یہ اصحاب اجماع تھے۔ یعنی علماء امامیہ ان کی روایات کو بغیر کسی چھان بین کے بے چون و چرا قبول کرتے ہیں علم کلام میں آپ کے شاگردوں کی فہرست میں ہشام بن حکم اور مغفل جیسے عظیم نام شامل ہیں اور علم تفسیر میں ابی حمزہ ثمالی جیسے مفسر کی ترتیب فرمائی۔ یہ سب کچھ آپ کے 34 سالہ دور میں ہوا اور مذہب تشیع نے رونق پائی۔ لیکن مںصور دوانیقی کے عہد میں آپ پر کچھ پابندیاں لگ گئیں اور مختلف بہانوں سے آپ کےساتھ ملاقات اور آپ سے تعلیم حاصل کرنے پر پابندیاں لگا دی گئیں۔

صرف اس پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ آپ کے مقابل میں چند افراد بنا کر کھڑے کئے گئے۔ فقہ میں ابو حنیفہ اور قتادہ وغیرہ کو، ثفیان ثوری کو عرفان اور ابن ابی العوجا کو عقائد میں پیش کیا گیا لیکن ایسے لوگوں کی طاقت کہاں تھی جو آپ کے مقابل میں جم سکتے۔

منقول ہے کہ ایک دفعہ منصور دوانیقی نے ایک محفل منعقد کی اور مجلس میں

۱۰۰