پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316603 / ڈاؤنلوڈ: 9810
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

مقام امامت نبوت عامہ سے بالاتر ہے

خیر طلب : ابھی جناب عالی نے دلیل پوچھی بھی نہیں اور یہ فرما دیا کہ دعوے بے دلیل ہے حالانکہ سب سے مضبوط دلیل کتاب محکم آسمانی قرآن مجید ہے جو خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سرگزشت بیان کررہا ہے کہ ( جان و مال و فرزند کے) تینوں امتحانوں کے بعد جیسا کہ تفاسیر میں تشریح کے ساتھ درج ہے خدائے تعالی نے ارادہ فرمایا کہ ان حضرت کو مزید بلندی عنایت فرمائے چونکہ نبوت و رسالت اولی العزمی اور خلت کے عہدوں کے بعد جن پر آپ فائز تھے بظاہر کوئی ایسا منصب نہیں تھا جو ان حضرت کو اور زیادہ رفعت عطا کرے سوا منزل امامت کے جو تمام روحانی مقامات سے بالاتر تھی لہذا سورہ بقرہ آیت نمبر۱۱۸ میں رسول اﷲ کو خبر دیتا ہے :

"إِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ وَ الْعَهْدُ هُوَ الْإِمَامَةُ."

یعنی یاد کیجئے اس وقت کو جب خدا نے ابراہیم (ع) کو چند امور میں امتحان لیا اور انہوں نے سب کو پورا کر دکھایا تو فرمایا میں نے تم کو انسانوں کا امام قرار دیا ابراہیم(ع) نے عرض کیا کہ یہ امامت میری اولاد کو بھی عطا ہوگی ؟ تو فرمایا کہ میرا عہد یعنی امامت ظالم لوگوں کو نہیں پہنچے گی۔

اس آیہ مبارکہ سے مقام امامت کے اثبات میں متعدد نتائج اور فوائد حاصل ہوتے ہیں جو عظیم المرتبت عہدہ امامت کے دلائل میں سے ہیں کہ رتبے اور درجے کے لحاظ سے یہ منصب مقام نبوت سے بلند تر ہے کیونکہ نبوت و رسالت کے بعد حضرت ابراہیم(ع) کو خلعت امامت سے سرفراز فرمایا ، چنانچہ اسی دلیل سے مقامِ امامت مقامِ نبوت سے بالاتر ثابت ہوتا ہے۔

حافظ : پھر تو آپ کے قول کی بنا پر جب کہ علی کرم اﷲ وجہ کو امام جانتے ہیں ان کی منزل پیغمبر(ص) کی منزل سے بالاتر ہونا چاہیئے ۔ اوریہ وہی غلات کا عقیدہ ہے جس کو آپ خود بیان کر چکے ہیں۔

خیر طلب : مطلب وہ نہیں ہے جو جناب نکالی رہے ہیں کیونکہ آپ کو خود معلوم ہے کہ نبوت خاصہ اور نبوت عامہ کے درمیان بہت بڑا فرق ہے ۔ مقام امامت نبوت عامہ سے بالاتر اور نبوت خاصہ سے پست ہوتا ہے کیونکہ نبوت خاصہ ہی خاتمیت کی بزرگ دیر تر منزل ہے۔

نواب : قبلہ صاحب معاف فرمائیے گا کہ میں کبھی کبھی گفتگو میں دخل دے دیتا ہوں کیونکہ بعد کو میں بھول جاتا ہوں اس کے علاوہ ذرا جلد باز بھی ہوں اس لیے ذرا جسارت کرجاتا ہوں۔ یہ فرمائیے کہ انبیاء سب کے سب کیا خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہیں؟ اور یقینا رتبے اور منزل میں بھی سب کے سب یکساں ہیں جیسا کہ قرآن مجید

۱۴۱

کا حامل بنایا گیا ہے( جو حقیقت انسانیت ہے) اگر علم و عمل سے اس کا تذکیہ ہو جائے تو عالم علوی کے موجودات کی شبیہ بن جاتا ہے جو اس کی خلقت کا اصلی مبدا ہے اور جب مقام اعتدال پر پہنچ جاتا اور مواد طبیعی سے پاک ہوجاتا ہے تو عوام علویہ والوں کا شریک ہوتا ہے اور اس وقت حیوانیت سے بلند ہوکر حقیقی انسانیت کی منزل پر فائز ہوتا ہے۔ ع “ صورتے در زیر دارد آنچہ در بالا ستے۔” آدمی اس ہیئت جسمانی کے علاوہ نفس ناطقہ رکھتا ہے اور وہی نفس موجودات پر برتری کا باعث ہوتا ہے لیکن ایک شرط کے ساتھ اور وہ یہ کہ اپنے نفس کو علم وعمل کی دونوں قوتوں کے ساتھ پاک و پاکیزہ بنائے کیونکہ انسان میں یہ دو موثر عامل پرندوں میں دو بازوؤں کے مانند ہیں جن کے ذریعہ وہ پرواز کرتے ہیں چنانچہ ان کے پروں میں جتنی زیادہ طاقت ہوتی ہے اسی قدر ان کی بالا روی اور بلند پروازی بڑھ جاتی ہے۔

آدمی بھی اپنے علم و عمل میں جتنا قوی تر ہوتا ہے اسی قدر کمال نفسانی پر فائز ہوتا ہے۔ کیا خوب لکھتے ہیں استاد شرین سخن شیخ سعدی شیرازی

طیران مرغ دیدی تو نہ پائے بند شہوت بدر آئے تابہ بینی طیران آدمیت

غرضیکہ عالم حیوانیت سے نکل کے انسانیت کی بلند منزل پر پہنچنا پورے طور پر کمال نفس سے وابستہ ہے اور جس شخص نے تکمیل نفس کی منزل میں علمی و عملی قوی کو اپنے اندر جمع کر لیا اور ان کے خواص ثلاثہ تک پہنچ گیا تو وہ مقام نبوت کے ادمی مرتبہ کو پا گیا اور جس وقت ایسا آدمی ذات حق تعالی کی خاص توجہ کا مورد بن جاتا ہے تو خلعت نبوت سے سر فراز کر دیا جاتا ہے۔

البتہ نبوت بھی ( جیساکہ ابواب نبوت میں مکمل اور مفصل ذکر ہوچکا) مختلف مدارج رکھتی ہی۔ یہاں تک کہ نبی اس مرتبے رپ پہنچ جائے جو مذکورہ خصائص قوائے ثلاثہ کا سب سے بلند درجہ ہے کہ جس سے قوی تر عالم امکان میں تصور ہی نہ کیا جاسکے اور یہ مرتبہ امکانی مراتب میں سب سے اونچا ہوتا ہے جس کو حکماء عقل اول کہتے ہیں اور جو معلول اول و صادر اول ہے وجود امکانی کے مراتب میں اس سے بالاتر کوئی مرتبہ نہیں ہے۔ اور یہی وجود ہے اس خاتم الانبیاء(ص) کا جن کا مقام اور منزلت مقام واجب سے پست اور تمام مراتب امکانیہ سے مافوق ہے۔ جب آںحضرت (ص) اس منزل پر فائز ہوگئے تو آپ کی ذات مبارک پر نبوت ختم ہوگئی۔

اور امامت مقام خاتمیت سے ایک درجہ پست اور تمام مراتب نبوت سے بلند ایک منزل ہے اور امیرالمومنین علی علیہ السلام چونکہ اوج نبوت کے حامل تھے اور خاتم الانبیاء(ص) کے ساتھ اتحاد نفسانی بھی رکھتے تھے لہذا خلعت امامت سے آراستہ اور انبیائے سلف پر افضل ہوئے ( اتنے میں مؤذن کی آواز آئی اور مولوی صاحباں نماز پڑھنے چلے گئے۔ واپسی میں چائے وغیرہ کے بعد حافظ صاحب نے

۱۴۲

بات شروع کی)۔

حافظ : آپ اپنے بیانات میں برابر مطلب کو مشکل اور پیچیدہ تر بناتے جارہے ہیں۔ ابھی ایک مشکل حل نہیں ہوئی تھی کہ دوسرا اشکال پیدا کردیا۔

خیرطلب : ہمارے درمیان تو کوئی مشکل اور پیچیدہ امر نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ جو کچھ آپ کی نگاہ میں مشکلی نظر آتا ہے بیان فرمائیے تاکہ اس کا جواب عرض کروں۔

حافظ : اپنے اس بیان کے آخر میں آپ نے چند بہت مشکل جملے فرمائے ہیں جن کا حل ناممکن ہے۔ اول یہ کہ علی ابن ابی طالب کرم اﷲ وجہہ مقام نبوت کے حامل تھے۔ دوسرے یہ کہ پیغمبر(ص) کے ساتھ اتحاد نفسانی رکھتے تھے۔ تیسرے انبیائے کرام پر افضلیت۔ آپ کے یہ زبانی دعوے صرف آپ کے حکم سے مان لئے جائیں یا ان کے ثبوت میں کوئی دلیل بھی ہے؟ اگر بے دلیل ہیں تو قابل قبول نہیں اور اگر کوئی دلیل ہے تو اس کو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : آپ نے میرے بیانات کے متعلق جو یہ فرمایا کہ مشکل اور پیچیدہ ہیں اور ان کاحل کرنا ممکن نہیں تو یقینا آپ اور آپ کے ایسے ان حضرات کی نظر میں جو حقائق کو گہری نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہتے یہی صورت ہے لیکن محقق اور منصب علماء کے سامنے حقیقت ظاہر و آشکار ہے۔

اب میں آپ کے ہر ایک اشکال کو جواب پیش کرتا ہوں تاکہ عذر کا راستہ بند ہوجائے اور آپ یہ نہ فرمائیے کہ مشکل و پیچیدہ ہیں اور ان کا حل ناممکن ہے۔

حدیث منزلت سے حضرات علی (ع) کے لیے مقام نبوت کے اثبات میں دلائل

اولا اس بات کی دلیل کہ حضرت علی(ع) شان نبوت کے حامل تھے۔ حدیث شریف منزلت ہے جو کامل صحت اور تواتر کے ساتھ ہمارے اور آپ کے طرق سے الفاظ کی مختصر کمی بیشی کے ساتھ ثابت ہوچکی ہے کہ خاتم الانبیاء(ص) نے بار بار اور مختلف جلسوں میں کبھی امیرالمومنین علی علیہ السلام سے فرمایا :

"أما ترضى أن تكون منّي بمنزلة هارون من موسى إلّا أنّه لا نبيّ بعدي"

یعنی آیا تم خوش نہیں ہو اس پر کہ مجھ سے تمہاری وہی منزلت ہے جو ہارون کو موسی(ع) سے تھی سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

اور کبھی امت سے فرمایا :" علىّ منّى بمنزلة هارون من موسى الخ "

حافظ: اس حدیث کی صحت ثابت نہیں ہے اور اگر صحیح فرض بھی کر لی جائے تو خبر واحد ہے اور

۱۴۳

بر واحد کا کوئی اعتبار نہیں۔

خیر طلب : یہ جو آپ نے حدیث کی صحت میں شک وارد کیا ہے تو غالبا کتب اخبار کے مطالعے میں کمی کی وجہ سے ہے یا آپ نے قصدا غلط کہا ہے اور عقلی و منطق کے پابند نہیں بننا چاہتے ورنہ اس حدیث کی صحت مسلمات میں سے ہے اور اس خبر شریف کے صحیح ہونے سے انکار اور اس کو خبر واحد کہنا جیسا کہ میں عرض کرچکا اسی سبب سے ہوسکتا ہے کہ کتب اخبار پر آپ کی نظر نہیں ہے یا پھر عناد اور ضد مجبور کر رہی ہو حالانکہ میں یہی امید کرتا ہوں کہ ہمارے اس جلسے میں کسی ہٹ دھرمی اور عناد سے کام نہیں لیا جائیگا۔

حدیث منزلت کے اسناد طرق عامہ سے

میں مجبور ہوں کہ مطلب کی وضاحت اور حاضرین و غائبین جلسہ کی زیادتی بصیرت کے لیے جس قدر مجھ کو اس وقت یا ہے اس حدیث مبارک کے بعض اسناد آپ ہی کی معتبر کتابوں سے پیش کردوں تاکہ آپ سمجھ لیں کہ یہ خبر واحد نہیں ہے۔ بلکہ آپ کے بڑے بڑے جید علماء جیسے سیوطی اور حاکم نیشاپوری وغیرہ نے متعدد طریقوں اور کثیر و متواتر اسناد کے ساتھ اس کو ثابت کیا ہے۔

۱۔ ابو عبداﷲ بخاری نے اپنی صحیح بخاری جلد سیم کتاب مغازی باب غزوہ توک ص۵۴ اور کتاب بدا الخلق ص۱۸۵ میں بسلسلہ مناقب علی علیہ السلام۔

۲۔ مسلم بن حجاج نے اپنی صھیح مسلم مطبوعہ مصر سنہ ۱۲۹۰ھ جلد دوم کتاب فضل الصحابہ باب فضائل علی علیہ السلام ص ۲۳۴ و ص۷۳۷ میں۔

۳۔ امام احمد بن حنبل نے مسند جلد اول وجہ تسمیہ حسنین ص ۹۸، ۱۸۸،؟؟؟ میں اور اسی کتاب کے حاشیہ جز پنجم ص۳۱ میں۔

۴۔ ابو عبدالرحمن نسائی خصائص العلویہ ص۱۹ پر اٹھارہ حدیثیں نقل کی ہیں۔

۵۔ محمد بن سورة ترمذی نے اپنی جامع میں

۔۶۔ حافظ ابن حجز عسقلانی نے اصابہ جلد دوم ص۵۰۷ میں۔

۷۔ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ باب ۹ ص۳۰، ۳۴ میں ۔

۸۔ حاکم ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ نیشاپوری نے مستدرک جلد سوم ص۱۰۹ میں۔

۹۔ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفا ص۶۵ میں۔

۱۰۔ ابن عبدریہ نے عقد الفرید جلد دوم ص۱۹۴ میں۔

۱۱۔ ابن عبدالبر نے استیعاب جلد دوم ص۴۷۳ میں ۔

۱۲۔ محمد بن سعد کاتب الواقدی نے طبقات الکبری میں۔

۱۳۔ امام فخرالدین رازی نے تفسیر مفاتیح الغیب میں۔

۱۴۔ محمد بن جریر طبری نے اپنی تفسیر اور تاریخ میں۔

۱۵۔ سید مومن شبلنجی نے نور الابصار ص۶۸ میں۔

۱۶۔ کمال الدین ابو سالم محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص۱۷ میں

۱۸۔ نور الدین علی بن محمد مالکی مکی معروف بہ ابن صباغ نے فصول المہمہ ص۲۳، ۱۶۵ میں۔

۱۹۔ علی بن برہان الدین

۱۴۴

شافعی نے سیرة الحلبیہ جلد دوم ص۲۶ میں۔

۲۰۔ علی بن الحسین مسعودی نے مروج الذہب جلد دوم ص۴۹ میں۔

۲۱۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودة باب نمبر۱۷۹ میں اور بالخصوص باب۶ میں اٹھارہ حدیثیں بخاری، مسلم ، احمد،ترمذی، ابن ماجہ، ابن مغازلی، خوارزمی اور حموینی سے نقل کی ہیں۔

۲۲۔ مولوی علی متقی نے کنزالعمال جلد ششم ص۱۵۲، ۱۵۳ میں۔

۲۳۔ احمد بن علی خطیب نے تاریخ بغدادی میں۔

۲۴۔ ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں۔

۲۵۔ موفق ابن احمد خوارزمی نے مناقب میں۔

۲۶۔ ابن اثیر جرزی علی بن محمد نے اسد الغابہ میں۔

۲۷۔ ابن کثیر دمشقی نے اپنی تاریخ میں۔

۲۸۔ علاء الدولہ احمد بن محمد نے عروة الوثقی میں۔

۲۹۔ ابن اثیر مبارک بن محمد شیبانی نے جامع الاصول فی احادیث الرسول میں۔

۳۰۔ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں۔

۳۱۔ ابو القاسم حسین بن محمد ( راغب اصفہانی ) نے محاضرات الادباء جلد دوم ص۲۱۲ میں اور آپ کے دوسرے محققین اعلام نے اس دحدیث شریف کو با الفاظ مختلفہ اصحاب رسول کی ایک بڑی جماعت سے نقل کیا ہے جیسے۔

۱۔خلیفہ عمر بن الخطاب۔ ۲۔ سعد بن ابی وقاص۔ ۳۔ عبداﷲ بن عباس (خیرات) ۔ ۴۔ عبداﷲ بن مسعود ۔ ۵۔ جابر ابن عبداﷲ اںصاری۔ ۶۔ ابوہریرہ ۔ ۷۔ ابو سعید خذری۔ ۸۔ جابر بن سمرہ ۔ ۹۔ مالک بن حویرث ۔ ۱۰۔ براء بن غازب ۔ ۱۱۔ زید بن ارقم۔ ۱۲۔ ابو رافع۔ ۱۳۔ عبداﷲ بن ابی اوفی۔ ۱۴۔ ابی سریحہ۔ ۱۵۔ حذیفہ بن اسید۔ ۱۶۔ انس بن مالک۔ ۱۷۔ ابو ہریرہ سلمی۔ ۱۸۔ ابو ایوب انصاری۔ ۱۹۔ سعید بن مسیب۔ ۲۰۔ حبیب بن ابی ثابت۔ ۲۱۔ شرجیل بن سعد۔ ۲۲۔ ام سلمیٰ زوجہ رسول(ص)۔ ۲۳۔ اسماء بن عمیس ( زوجہ ابوبکر) ۔ ۲۴۔ عقیل بن ابی طالب۔ ۲۵۔ معاویہ بن ابی سفیان اور اصحاب کی ایک اور جماعت جن کے نام گنوانے کی نہ وقت میں گنجائش ہے نہ سب حافظے میں ہی محفوظ ہیں۔ خلاصہ یہ کہ سبھی نے حضرت خاتم الانبیاء(ص) سے الفاظ کے مختصر تفاوت کے ساتھ مختلف مواقع پر روایات کی ہے کہ فرمایا : " يا علىّ انت منّى بمنزلة هارون من موسى الا لا نبي بعدی" یعنی یا علی تم مجھ سے بمنزلہ ہارون ہو موسی سے سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہ ہوگا۔ آیا آپ کے یہ سارے خاص خاص علماء جن میں سے مشتے نمونہ از خردارے میں نے چند نام پیش کئے ہیں اور جنہوں نے اس حدیث مبارک کو مسلسل اسناد کے ساتھ اصحاب کی کثیر جماعت سے نقل کیا ہے آپ کے نزدیک اثبات یقین و تواتر کے لیے کافی نہیں ہیں؟ کیا آپ تصدیق کریں گے کہ آپ کو غلط فہمی تھی ، یہ خبر واحد نہیں ہے بلکہ متواتر حدیثوں میں سے ہے۔ چنانچہ خود آپ کے محققین علماء نے تواتر کا دعوی کیا ہے ۔ جیسے جلال الدین سیوطی نے رسالہ الازبار التنا فی الاحادیث المتواترة میں اس حدیث شریف کو متواترات میں سے لکھا ہے ، اور ازالہ الخلفا اور قرة العینین میں بھی تواتر کی تصدیق کی گئی ہے چونکہ آپ اپنی عادت کی بنا پر اس حدیث مبارک

۱۴۵

کی صحت سند میں شک و شبہ وارد کر رہے ہیں لہذا بہتر ہوگا کہ اپنے بہت بڑے عالم محمد بن یوسف گنجی شافعی کی کتاب کفایت الطالب فی مناقب علی بن ابی طالب باب ۷ کا مطالعہ فرمائیے جس میں ان حضرت کے دیگر فضائل کے ساتھ ساتھ چھ مستند حدیثیں ذکر کر نے کے بد صفحہ ۴۹ میں تبصرہ فرمایا ہے اور حقائق کو بیان کیا ہے۔ اس لیے کہ اگر آپ ہمارے قول کو تسلیم نہیں کرتے تو اس ( غیر متعصب) شافعی عالم کا بیان آپ کے اوپر حجت تمام کردے گا لکھتے ہیں " ه ذا حديث متفق علی صحت ه روا ه الائمة الاعلام الحفاظ کابی عبداﷲ البخاری فی صحيح ه و مسلم بن حجاج فی صحيح ه و ابی داؤد فی سنن ه و ابی عيسی الترمذی فی جامع ه و ابی عبدالرحمن النسائی فی سنن ه و ابن ماجة القزوينی فی سنن ه و اتفق الجميع علی صحت ه حتی صار ذالک اجماعا من ه م قال الحاکم النيشاپوری ه ذا حديث دخل فی حد التواتر"

یعنی یہ وہ حدیث ہے جس کی صحت متفق علیہ ہے ائمہ اعلام و حفاظ نے اس کی روایت کی ہے۔ جیسے ابو عبدابخاری نے اپنی صحیح میں مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح میں، ابو داؤد نے سنن میں، ابو عیسی ترمذی نے جامع میں، ابو عبدالرحمن نسائی نے سنن میں، ابن ماجہ قزوینی نے سنن میں اور ان سب نے اس کی صحت پر اتفاق کیا ہے یہاں تک اس پر ان کا اجماع ہوگیا ہے۔ اور حاکم نیشاپوری نے کہا ہے کہ یہ وہ حدیث ہے جو تواتر کی حد میں داخل ہوچکی ہے۔

میرا خیال ہے کہ اب کوئی ابہام اور اس حدیث شریف کی صحت و تواتر پر مزید دلائل کی پیش کرنے کی ضرورت باقی نہ ہوگی۔

حافظ : میں بے ایمان اور ضدی آدمی نہیں ہوں کہ آپ کے دلائل و براہین کے مقابلے میں جو انتہائی معتبر ہیں مجادلے سے کام لوں ۔ لیکن ذرا عالم فقیہہ ابو الحسن آمدی کی گفتگو پر بھی غور کیجئے جو متکلم اور متبحر علماء میں سے ہیں اور جنہوں نے اس حدیث کو چند دلائل کے ساتھ روکا ہے۔

خیر طلب: مجھ کو آپ جیسے نکتہ رس اور منصف عالم سے سخت تعجب ہے کہ آپ کے ان سارے اکابر علماء کے اقوال نقل کرنے کے بعد جو سب کے سب ثقہ اور آپ کے یہاں عام طور پر قابل اطمینان ہیں، آپ آمدی کے قول پر توجہ کر رہے ہیں جو ایک شریر و بد عقیدہ اور تارک الصلوة شخص تھا۔

شیخ : انسان اپنا عقیدہ ظاہر کرنے میں آزاد ہے۔ اور اگر کسی شخص نے کوئی عقیدہ ظاہر کیا ہے تو اس پر بدی کی تہمت نہ لگانا چاہئیے ۔ بلکہ آپ جیسے شریف اور مجسمہ اخلاق انسان کے لیے تو بہت بڑی بات ہے کہ منطقی جواب کے بدلے بد کلامی کے ساتھ ایک فقیہہ عالم کو متہم کیجئیے۔

خیر طلب : آپ کو دھوکا ہوا ہے۔ میں کسی کے لیے بد کالامی نہیں کرتا اور آمدی کے زمانے میں تو میں تھا بھی نہیں ۔ لیکن اس کے برے عقائد کو آپ ہی کے بڑے بڑے علماء نے نقل کیا ہے۔

۱۴۶

شیخ : ہمارے علماء نے کس مقام پر ان کا بدی اور فاسد عقیدے کے ساتھ تذکرہ کیا ہے؟

آمدی کی مفصل کیفیت

خیر طلب : ابن حجر عسقلانی نے لسان المیزان میں لکھا ہے:

" السيف الامدی المتکلم علی بن ابی علی صاحب التصانيف و قد نفی من دمشق لسوء اعتقاد ه وصح ان ه کان يترک الصلوة."

یعنی سیف آمدی متکلم علی بن ابی علی جو صاحب تصانیف تھا اس کو دمشق سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ اس کا اعتقاد خواب تھا اور یہ بھی صحیح ہے کہ یہ تارک الصلوة تھا۔

نیز ذہبی نے جو آپ کے بزرگ علماء میں سے ہیں میزان الاعتدال میں اس قصے کو نقل کیا ہے اور مزید بر آں تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ مسلم ہے کہ آمدی اہل بدعت میں سے تھا۔

اگر آپ گہری نظر سے دیکھیں تو سمجھ میں آجائے گا کہ اگر آمدی اہل بدعت اور شریر و بے ایمان نہ ہوتا تو ہرگز اپنی بد باطنی کو اس طرح ظاہر نہ کرتا کہ تمام صحابہ رسول(ص) یہاں تک کہ اپنے خلیفہ عمر بن خطاب ( کیونکہ حدیث کے راویوں میں سے ایک یہ بھی ہیں) اور آپ کے تمام ثقات علماء اسلام کے بر خلاف آواز بلند کرے۔

سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ آپ حضرات شیعوں کو تو ملامت کرتے ہیں کہ صحیحین کی حدیثیں کس لیے قبول نہیں کرتے ( حالانکہ ایسا نہیں ہے) اگر صحیح الاسناد حدیثیں ہوں تو آپ کی صحاح کے اندر ہونے کے بعد بھی ہمارے لیے قابل قبول ہیں) لیکن جس مسلم حدیث کو بخاری و مسلم اور دوسرے ارباب صحاح نے اپنی اپنی صحیحوں میں نقل کیا ہے اس کو آمدی عادتا رد کرتا ہے اور آپ کے لیے قابل اعتبار بن جاتا ہے اگر آپ کے نزدیک آمدی میں کوئی عیب نہیں تھا تو یہی بات اس پر طعن کرنےکے لیے کافی تھی کہ اس نے آپ کی صحیحین کے برخلاف عقیدے کا اظہار کیا بلکہ در حقیقت خلیفہ عمر اور بخاری و مسلم کو جھٹلایا۔

اگر آپ چاہیں کہ اس حدیث شریف کے بارے میں زیادہ جانچ پڑتال کریں، مکمل دلائل اور اپنے بڑے بڑے علماء کی روایتوں سے تمام اسناد کاملہ کا مطالعہ کریں، مزید معلومات حاصل کریں اور آمدی جیسے لوگوں پر نفرین کریں تو جلیل القدر کتاب، طبقات الانوار” مؤلفہ عالم با عمل نقاد اخبار و احادیث محقق و متبحر علامہ سید حامد حسین صاحب لکھنوی اعلی اﷲ مقامہ کی جلدین ملاحظہ فرمائیے اور بالخصوص حدیث منزلت والی جلد کی طرف رجوع کیجئے تاکہ آپ کے سامنے یہ حقیقت ظاہر ہوجائے کہ اس بزرگ شیعی عالم نے اس حدیث کے اسناد و مدارک کو کس طرح آپ کے طرق سے جمع کر کے ان کی تشریح کی ہے۔

۱۴۷

حافظ : آپ نے فرمایا کہ اس حدیث کے راویوں میں سے ایک خلیفہ عمر ابن خطاب رضی اﷲ عنہ بھی تھے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ اگر آپ کے پیش نظر ہوتو اس کی سند بیان فرمائیے؟

حدیث منزلت کی سند عمر ابن خطاب سے

خیر طلب ابوبکر محمد بن جعفری الطبری نے اور ابو لیث نصربن محمد سمرقندی الحنفی نے کتاب مجالس میں محمد بن عبدالرحمن ذہبی نے ریاض النفریہ میں ، مولوی علی متقی نے کنزالعمال میں ، ابن صباغ مکی نے خصائص سے نقل کرتے ہوئے فصول المہمہ ص۱۲۵ میں، امام الحرم نے ذخائر العقبی میں شیخ سلمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ خطبہ سوم ص۲۵۸ میں نقض العثمانیہ شیخ ابو جعفر اسکافی نے مختصر اختلاف الفاظ کے ساتھ ابن عباس( خیرامت) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک روز عمر ابن خطاب نے کہا علی کا نام چھوڑو (یعنی اس قدر علی(ع) کی غیبت نہ کرو) اس لیے کہ میں نے پیغمبر(ص) سے سنا ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا علی(ع) میں تین خصلتیں ہیں۔ کہ اگر ان میں سے ایک بھی مجھ کو ( یعنی عمر کو) حاصل ہوتی تو میرے لیے ہر اس چیز سے زیادہ محبوب ہوتی جس پر آفتاب چمکتا ہے۔ پھر کہا :

"کنت ونا و ابوبکر و ابو عبيده بن الجراح و نفر من اصحاب رسول الله وهو متکی علی علی بن ابی طالب حتی ضرب بيده منکبيه ثم قال انت يا علی اول المومنين ايمانا اولهم اسلاما ثم قال انت منی بمنزلت هارون من موسی و کذب علی من زعم انه يحبنی و يبغضک."

یعنی میں ، ابوبکر ، ابوعبیدہ جراح اور چند اصحاب رسول(ص) حاضر تحے، رسول اللہ (ص) علی ابن ابی طالب پر تکیہ کئے ہوئے تھے یہاں تک کہ علی(ع) کے شانوں پر ہاتھ مارا اور فرمایا علی(ع) تم ایمان کی حیثیت سے تمام مومنین سے اول ہو اور اسلام کی حیثیت سے تمام مسلمین سے آگے ہو، پھر فرمایا یا علی(ع) تم مجھ سے وہی منزلت رکھتے ہو جو ہارون کے موسی (ع) سے تھی اور جھوٹ باندھتا ہے مجھ پر جو یہ سمجھتا ہے کہ مجھ کو دوست رکھتا ہے در آنحالیکہ تم سے دشمنی رکھتا ہو۔

آیا آپ کے مذہب میں خلیفہ عمر کا قول رد کرنا جائز ہے؟ اگر جائز نہیں ہے تو پھر کس لئے آمدی جیسے آدمی کی فضول بات پر عقیدہ اور توجہ رکھتے ہیں؟

سنی مذہب میں خبر واحد کا حکم

ابھی آپ کے ایک اور جملے کا جواب باقی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ یہ حدیث خبر واحد ہے

۱۴۸

اور خبر واحد کا کوئی اعتبار نہیں۔ اگر ہم رجال کے اس معیار کے ساتح جو ہمارے یاں ہے اس طرح کی بات کہیں تو ٹھیک بھی ہے لیکن آپ کی زبان سے ایسے الفاظ سن کر تعجب ہوتا ہے کیونکہ آپ کے مذہب میں تو خبر واحد کا حجت ہونا ثابت ہے ۔ اس لئے کہ آپ کے محققین علماء خبرواحد کے منکر کو کافر یا فاسق سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ملک العلماء شہاب الدین دولت آبادی نے"ہدایت السعداء" کے مضمرات فی کتاب الشہادات میں کہا ہے :

"ومن انکر الخبر الواحد والقياس و قال انه ليس بحجه فانه يصير کافرا ولو قال هذا الخبر الواحد غير صحيح و هذا القياس غير ثابت لا يصير کافرا ولکن يصير فاسقا."

یعنی جو شخص خبر واحد اور قیاس کا انکار کرے اور کہے کہ یہ حجت نہیں ہے تو وہ قطعا کافر ہو جاتا ہے اور اگر کہے کہ یہ خبر واحد صحیح نہیں ہے اور یہ قیاس ثابت نہیں ہے تو وہ کافر نہیں ہوتا لیکن فاسق ہوجاتا ہے۔

حافظ : مجھ کو آپ کی خوش بیانی اور ہماری کتابون کے وسیع مطالعے سے بہت خوشی ہوئی بر خلاف اس کے کہ جیسا کہ سن چکا ہوں کہ حضرات علمائے شیعہ ہماری کتابوں کو دست پناہ یا کپڑے وغیرہ سے اٹھاتے ہیں تاکہ ان کا ہاتھ کتاب کی جلد سے مس نہ ہو تو یہ پھر کہاں ممکن ہے کہ ان کا مطالعہ کریں۔

خیر طلب : اس دعوی پر آپ کے پاس قطعا کوئی دلیل نہیں ہے ، اس لئے کہ در اصل بیگانوں ، بیگانہ پرستوں اور اندرونی شیاطین کے خفیہ ہاتھ برابر اس کوشش میں رہتے ہیں کہ پانی کو کیچڑ بنائیں اور مسلمانوں کے با ہمی نفاق سے خود نفع اٹھائیں لہذا اس قسم کی جھوٹی باتیں گھڑ کے مشہور کرتے ہیں تاکہ ایک کو دوسرے سے بد گمانی پیدا ہو اور ان کا مطلب حل ہوتا رہے ۔ ہمارا اور آپ کا مستقل فرض ہے کہ لوگوں کو قرآن مجید کی ہدایات عالیہ کی طرف متوجہ کرتے رہیں کہ مثلا اس بارے میں سورہ ۴۹ (حجرات) آیت نمبر۶ میں ارشاد ہے :

" إِن جَاءَكمُ ْ فَاسِقُ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُواْ أَن تُصِيبُواْ قَوْمَا بجَِهَالَةٍ فَتُصْبِحُواْ عَلىَ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِين "

یعنی جس وقت کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی اطلاع لے کر آئے تو پہلے اس کی تحقیق کر لو ورنہ کہیں (دھوکے میں آکر) نادانی کی وجہ سے کسی قوم کو نقصان نہ پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کئے پر پشیمان ہونا پڑے۔ نہ یہ کہ ہم خود ہی ان ہدایتوں سے غافل رہیں اگر یہ اہم فرمان آپ حضرات کا نصب العین ہوتا تو دشمنوں کی باتیں آپ پر اثر انداز نہ ہوتیں جس سے آج ندامت ہو۔ ہم لوگ تو کفار و مشرکین اور مرتدین کی کتابوں کو بھی دست پناہ یا کپڑے سے نہیں اٹھاتے پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ مسلمان بھائیوں کی کتابوں کو حقارت کی نظر سے دیکھیں بلکہ آپ کے کہنے کے خلاف ہم تو آپ کے علماء کی معتبر کتابیں بہت غور سے دیکھتے ہیں اور ان کی صحییح الاسناد احادیث کو بھی قبول کرتے ہیں ۔ علمی و منطقی اختلافات عقیدے اور مذہب سےکوئی تعلق نہیں رکھتے ۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ شیعہ طالب علم صرف و نحو، معانی و بیان ، منطق ، لغت

۱۴۹

تفسیر اور کلام کے علوم زیادہ تر آپ ہی کے علماء کی کتب و تالیفات سے حاصل کرتے ہیں پھران کتابوں کو دست پناہ اور کپڑے سے کس طرح اٹھائیں گے ؟ البتہ آپ کی منقولہ احادیث کے بعض راوی مقدوح ہیں اور ان کے اقوال قابل اعتبار نہیں جیسے انس، ابوہریرہ اور سمرہ وغیرہ جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں ( چنانچہ آپ کے بعض علماء بھی مثلا ابوحنیفہ وغیرہ ان لوگوں کو مردود سمجھتے ہیں) ہم بھی اس طرح کے راویوں سے منسوب حدیثوں کو مردود اور ناقابل قبول جانتے ہیں۔

ورنہ آپ کے محققین علماء ی معتبر کتابیں ہمارے سامنے رہتی ہیں اور بالخصوص میں نے تو پیغمبر(ص) اور ائمہ معصومین صلوات اللہ علیہم اجمعین کی سیرت میں زیادہ تر علمائے اہل سنت ہی کی معتبر کتابوں کا مطالعہ اور اسی سے اخذ سند کیا ہے۔

میرے ذاتی کتب خانے میں آپ کے بڑے بڑے علماء کی تفاسیر ، کتب اخبار اور معتبر تواریخ کی تقریبا دو سو (۲۰۰) جلدیں قلمی اور مطبوعہ موجود ہیں جن سے میں استفادہ کرتا رہتا ہوں۔

اب یہ ضرور ہے کہ عملی طور پر ہم ایک مبصر صراف کی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان میں سے کھرے کھوتے کو چھانٹ سکیں اور فخرالدین رازی جیسے حضرات کے شبہات و اشکالات اور ابن حجر ، روز بہان، آمدی اور ابن تیمیہ جیسے افراد کے مغالطوں سے دھوکہ نہ کھائیں اور ان کی غلط کاریوں کا اثر قبول نہ کریں۔

آپ یقین کیجئے کہ مجھ کو ائمہ معصومین(ع) اہل بیت رسالت اور ودایع رسول اللہ کے مقامات مقدسہ کا یقین اور درجات معرفت کی تکمیل زیادہ تر آپ ہی کے علماء کی معتبر کتابوں کا مطالعہ کرنے سے ہوتی ہے۔

حافظ : ہم مطلب سے دور جا پڑے ۔ یہ فرمائیے کہ آپ کے مقصد پر اس حدیث منزلت کی دلالت کس صورت سے ہے اور اس بات کا ثبوت کہاں سے ملتا ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ شان نبوت کے حامل تھے؟

خیر طلب : اس حدیث شریف سے جو تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہے امیرالمومنین (ع) کے لئے تین خصوصیتیں ثابت ہوتی ہیں ایک تو مقام نبوت ہے جو معنوی اور باطنی حیثیت سے حضرت کو حاصل تھا۔ دوسرے رسول اللہ (ص) کے بعد آں حضرت کی خلافت و وزارت کا منصب او تیسرے سادی امت اور صحابہ وغیرہ پر ان حضرت کی افضلیت اس لیے کہ رسول خدا(ص) نے حضرت علی(ع) کو بمنزلہ ہارون بیان فرمایا اور حضرت ہارون منزل نبوت اور حضرت موسی(ع) کی خلافت پر فائز اور تمام بنی اسرائیل سے افضل تھے۔

نواب : قبلہ صاحب معاف فرمائیے گا کیا حضرت موسی(ع) کے بھائی حضرت ہارون نبی تھے؟

خیر طلب : ہاں وہ مقام نبوت پر فائز تھے۔

نواب : تعجب ہے میں نے اب تک نہیں سنا تھا ۔ آیا قرآن میں بھی کوئی آیت ایسی ہے جو اس

۱۵۰

مطلب کی شاہد ہو؟

خیر طلب : ہاں کئی آیتوں میں خدائے تعالے نے ان جناب کی نبوت کی تصریح فرمائی ہے۔

نواب : ممکن ہو تو ہمارے معلومات میں اضافے کے لئے ان آیتوں کی تلاوت فرمادیجئے تاکہ ہم بھی مستفید ہوں۔

خیر طلب : سورہ ( نساء) آیت نمبر ۱۶۳ میں ارشاد ہے :

" إِنَّا أَوْحَيْنا إِلَيْكَ كَما أَوْحَيْنا إِلى نُوحٍ وَ النَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ وَ أَوْحَيْنا إِلى إِبْراهيمَ وَ إِسْماعيلَ وَ إِسْحاقَ وَ يَعْقُوبَ وَ الْأَسْباطِ وَ عيسى وَ أَيُّوبَ وَ يُونُسَ وَ هارُونَ وَ سُلَيْمانَ وَ آتَيْنا داوُدَ زَبُوراً"

یعنی یقینا ہم نے تمہاری طرف وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعد والے انبیاء کی طرف وحی کی اور ابراہیم ، اسماعیل ، اسحق، یعقوب، اسباط ، عیسی، ایوب ، یونس ، ہارون اور سلیمان کی طرف وحی بھیجی اور داود کو زبور عطا کی۔ اور سورہ (مریم) آیت نمبر ۵۱۔۵۳ میں فرماتا ہے :

"وَ اذْكُرْ فىِ الْكِتَابِ مُوسىَ إِنَّهُ كاَنَ مخُْلَصًا وَ كاَنَ رَسُولًا نَّبِيًّا وَ نَادَيْنَاهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَ قَرَّبْنَاهُ نجَِيًّاوَ وَهَبْنَا لَهُ مِن رَّحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا"

یعنی اور یاد کرو کتاب میں موسی کو یقنا وہ خالص کئے ہوئے پیغمبر اور نبی تھے اور ہم نے ان کو طور ایمن کی جانب سے ندا دی اور ان کو ہمراز بنا کے نزدیک کیا اور ان کو اپنی رحمت سے ہارون سا بھائی عطا کیا جو نبی تھے۔

حافظ : پھر تو آپ کے اس قاعدے اور استدلال کی رو سے محمد(ص) و علی(ع) دونوں پیغمبر اور خلق پر مبعوث تھے ۔

خیر طلب : جس قسم کی تقریر آپ نے فرمائی ہے میں نے یہ نہیں کہا۔ البتہ آپ خود جانتے ہیں کہ انبیاء کی تعداد و شمار میں بہت اختلاف ہے۔ ایک لاکھ بیس ہزار تک اور اس سے زیادہ بھی لکھا ہے لیکن وہ سب اپنے اپنے زمانے کے مقتضا اسے ایک ایک گروہ کی صورت میں کسی صاحب کتاب و احکام پیغمبر کے تابع تھے جن میں سے پانچ نفر اولو العزم تھے، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسی، حضرت عیسی اور حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ جن کی منزل سب سے بالاتر تھی اور یہی مقام خاتمیت ہے۔

منازل ہارونی کا اثبات حضرت علی (ع) کے لئے

جناب ہارون ان پیغمبروں میں سے تھے جو امر نبوت میں مستقل نہیں تھے بلکہ اپنے بھائی حضرت موسی(ع) کی شریعت کے پابند تھے۔ حضرت علی(ع) بھی نبوت کی بلندی پر پہنچے ہوئے تھے لیکن مستقل طور پر نبی نہیں تھے ، بلکہ شریعت خاتم الانبیاء کے پابند تھے۔

اس حدیث شریف میں رسول(ص) کا مقصد اور غرض امت کو یہ سمجھانا ہے کہ جس طرح ہارون نبوت کی منزل پر

۱۵۱

فائز تھے لیکن حضرت موسی جیسے ایک اولوالعزم پیغمبر کے تابع تھے حضرت علی (ع) بھی اوج نبوت کے حامل اور مقام و منصب امامت کے ساتھ خاتم الانبیاء کی شریعت باقیہ کے مطیع تھے اور یہ چیز اپنی جگہ پر ان حضرت کی ایک اہم خصوصیت ہے۔

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے اس حدیث کے ساتھ اپنی زبان مبارک سے علی ابن ابی طالب(ع) کے لئے ان سارے منازل و مراتب کو ثابت کردیا جو ہارون کو حضرت موسی(ع) سے حاصل تھے۔ اگر حضرت محمد خاتم الانبیاء نہ ہوتے تو یقینا آپ آں حضرت (ص) کے امر پیغمبری میں بھی شریک ہوتے ، چنانچہ جملہ ان ه لا نبی بعدی سے ظاہر فرمارہے ہیں کہ اگر میرے بعد نبوت کا سلسلہ قائم رہتا تو علی(ع) اس عہدے پر فائز ہوتے۔ لہذا نبوت کو مسثنی کر دیا اور مراتب ہارونی میں سے نبوت کے علاوہ جو کچھ ہے وہ ان حضرت میں ثابت ہے، اسی طرح محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب الس ئول ص۱۹ کے شروع میں منزلت ہارونی کے بیان میں چند اسرار کے انکشاف اور توضیحات کے بعد تبصرہ کیا ہے اور کہتے ہیں :

"فتلخيص منزله هارون من موسی انه کان اخاه و وزيره و عضده و شريکه فی النبوة و خليفته علی قومه عند سفره و قد جل رسول الله عليا منه بهذه المنزلة و اثباتها له الا النبوة فانه اسثناها آخر الخديث يقوله صل الله علیه انه لا نبی بعدی فبقی ما عدا النبوة المستثناه ثابتا لعلی من کونه اخاه و وزيره و عضده و خليفته علی اهله عند سفره الی تبوک و عنده من المعارج الشراف والمدارج الا زلاف فقد دل الحديث بمنطوقه و مقبوله علی ثبوت هذه المنزلة العلية لعلی وهو حديث متفق علی صحته."

یعنی بیانات کا خلاصہ یہ ہے کہ موسی سےہارون کی منزلت یہ تھی کہ ان کے بھائی ، وزیر ، قوت بازو شریک نبوت اور ان کی قوم پر سفر کے وقت ان کے خلیفہ تھے پس رسول اللہ (ص) نے بھی حدیث شریف میں علی(ع) کو مقام و منزلت ہارون کا مالک قرار دیا سوا نبوت کے جس کو آخر حدیث میں اپنے قول ان ه لا نبی بعدی سے مستثنی فرما دیا۔ لہذا آپ کے لئے نبوت کے علاوہ ہر بات ثابت ہے جیسے آں حضرت (ص{ کا بھائی وزیر، قوت بازو اور سفر تبوک میں قوم پر آں حضرت کا خلیفہ ہوتا اور یہ خصوصیت آپ کے بلند مراتب اور اعلی مدارج میں سے ہے۔ پس یہ حدیث اپنے مضمون اور مفہوم کے لحاظ سے حضرت علی (ع) کے لیے اس بزرگ فضیلت کے ثبوت پر دلالت کرتی ہے اور یہ وہ حدیث ہے جس کی صحت پر سب کو اتفاق اور یہی بیان فصول المہمہ ص۲۹ من ابن صباغ مالکی کا بھی ہے۔ نیز آپ کے اور بڑے بڑے علماء نے بھی اس کو لکھا اور اس حقیقت کی تصدیق کی ہے جن میں سے ہر ایک کے نام اور عقیدے کا ذکر کرنا رات کے اس تنگ وقت میں بہت مشکل ہے۔

۱۵۲

حافظ : میرا خیال ہے کہ یہ استثنا عدم نبوت کا ہے نہ کہ اصل نبوت کا۔

خیر طلب : آپ نے بہت بے لطفی کی بات کی کہ اپنے اسلاف کی پیروی کرتے ہوئے یہ ایراد وارد کیا اور اتنے کھلے ہوئے مطلب کا انکار کیا حالانکہ آپ کو شافعی کے بیان پر توجہ کرنا چاہئیے تھا جس کو میں نے ابھی پیش کیا کہ کہتے ہیں : ما عدا النبوة المستثناه ثابتا لعلی اور یہ بیان خود نص ہے اس بارے میں کہ حدیث شرفی میں مستثنی نبوت ہے نہ کہ عدم نبوت۔ دوسرے ان کے اس قول میں کہ " فانه اسثناها آخر الخديث يقوله صل الله عليه انه لا نبی بعدی " میں استثناہا کی ضمیر منصوب نبوت کی طرف پھرتی ہے اس طرح کی عبارتیں آپ کے علماء کی کتابوں میں بہت ہیں جو سب نبوت کے استثناء پر دلالت کرتی ہیں نہ کہ عدم نبوت پر، اور جو لوگ عدم نبوت کے قائل ہوئے ہیں ان کے پیش نظر سوا عناد، ہٹ دھرمی اور تعصب کے کچھ نہیں تھا نستج ي ر بالله من التعصب فی الدين ( یعنی ہم دین کے معاملے میں تعصب سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں ۔ مترجم۔)

حافظ : میرا خیال ہے کہ آپ کا یہ دعوی کہ اگر ہمارے پیغمبر خاتم الانبیاء(ص) نہ ہوتے اور نبوت کا سلسلہ آگے بڑھتا تو علی(ع) اس منصب پر فائز ہوتے، آپ ہی کی ذات سے مخصوص ہے ورنہ کسی اور نے ایسی بات نہیں کہی ہے۔

خیر طلب : یہ دعوی فقط میرے علمائے شیعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کے بڑے بڑے علماء بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔

حافظ : ہمارے علماء میں سے کس نے ایسا دعوی کیا ہے ؟ اگر پیش نظر ہو تو بیان فرمائیے۔

خیر طلب: آپ کے بزرگ علماء اور محل وثوق علمائے رجال میں سے ایک ملا علی بن سلطان محمد ہروی قاری ہیں کہ جب ان کی خبر وفات مصر میں پہنچی ہے تو علمائے مصر نے چار ہزار سے زیادہ مجمع کے ساتھ ان کے لئے نماز غیبت پڑھی ہے یہ بکثرت تصنیفات و تالیفات کے مالک ہیں۔ چنانچہ مرقاۃ شرح مشکوۃ میں حدیث منزلت کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں فيه ايماء الی انه لوکان بعده نبيا لکان عليا یعنی اس حدیث میں اشارہ ہے اس طرف کی اگر خاتم الانبیاء کے بعد کوئی اور نبی ہوتا تو وہ علی(ع) ہوتے۔

اور آپ کے جن علمائے بزرگ نے اس مقصد کا اقرار کیا ہے ان میں سے علامہ شہیر جلال الدین سیوطی نے کتاب بنیۃ الوعاظ فی طبقات الحفاظ کے آخر میں جابر ابن عبداللہ اںصاری تک راویوں کا سلسلہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے امیرالمومنین(ع) سے فرمایا کہ:

" اما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی ولو کان لکنته " خلاصہ یہ کہ اگر میرے بعد کوئی پیغمبر ہوتا

۱۵۳

تو اے علی(ع) وہ تم ہوتے۔

نیز میر سید علی ہمدانی فقیہ شافعی نے مودۃ ششم مودۃ القربی کی حدیث دوم میں انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا :

"ان الله اصطفانی علی الانبياء فاختارنی واختار لی وصيا و خيرة ابن عمی وصی يشد عضدی کما يشد عضد موسی باخيه هرون وهو خليفتی و وزيری ولوکان بعدی نبيا لکان علی نبيا و لکن لا نبوة بعدی."

یعنی در حقیقت خدا نے مجھ کو سارے انبیاء پر برگزیدہ کیا پس مجھ کو منتخب کیا اور میرے لئے ایک وصی اختیار کیا اور میرے ابن عم علی(ع) میرے خلیفہ اور وزیر ہیں اور اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو یقینا علی (ع) ہوتے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔

پس ان مختصر دلائل کے ساتھ ثابت ہوا کہ حضرت علی(ع) کے لئے نبوت کا قول صرف ہماری ہی طرف سے نہیں ہے۔ بلکہ خود رسول خدا(ص) سے منقول ہے جیسا کہ خود آپ کے علماء نے بھی تصدیق کی ہے کہ آں حضرت(ص) کے ارشاد کی بنا پر حضرت علیہ علیہ السلام مقام نبوت پر پہنچے ہوئے تھے اور یہ کوئی پیچیدہ اور مشکل امر بھی نہیں تھا جس سے آپ کو تعجب ہوا اور چونکہ مراتب و منازل ہارونی سے استثنائے متصل کے ساتھ نبوت مستثنی ہوگئی لہذا جیسا کہ میں ذکر کرچکا ہوں آپ ہی کے علماء کی شہادت کی بنا پر اس کے علاوہ ہر منصب علی(ع) کے لئے باقی اور ثابت رہتا ہے جن میں سب سے بلند منزل خلافت اور افضلیت ہے۔ کیونکہ خلافت ہارون کے لئے قرآن مجید صراحت کر رہا ہے۔ سورہ ۷ (اعراف) آیت نمبر۱۴۲ میں ارشاد ہے :

"وَ قَالَ مُوسىَ لِأَخِيهِ هَرُونَ اخْلُفْنىِ فىِ قَوْمِى وَ أَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ"

یعنی موسی(ع) نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری قوم میں میرے خلیفہ اور جانشین رہو، نیک راستے کی ہدایت کرو اور فساد برپا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلو۔

حافظ : باوجودیکہ گذشتہ آیات میں آپ بیان کرچکے ہیںکہ حضرت ہارون اپنے بھائی حضرت موسی(ع) کے ساتھ امر نبوت میں شریک تھے، پھر کیونکر ان کو خلیفہ قرار دے دیا حالانکہ یہ مسلم ہے کہ کسی انسان کے شریک کی منزل اس سے بلند ہے کہ اس کا خلیفہ اور جانشین بنے اور اگر شریک کو خلیفہ قرار دے دیں تو گویا اس کے مقام اور مرتبے سے گرادیا کہ کہ مقام نبوت مقام خلافت سے بالاتر ہے۔

خیر طلب : آپ حضرات میں سے کچھ لوگ بغیر غور و فکر کے اس شبہ میں مبتلا ہوگئے ہیں، حالانکہ اگر آپ تھوڑا سا غور فرمالیتے تو میرے جواب کی ضرورت ہی نہ رہتی ۔ آپ خود جانتے ہیں کہ حضرت موسی(ع) کی نبوت اصالتا اور حضرت ہارون کی نبوت ان کی تابع تھی گویا کہ یہ ان حضرت کے خلیفہ تھے ، اس نظریے کے ساتھ ساتھ کہ حضرت ہارون(ع) امر تبلیغ میں اپنے برادر بزرگوار حضرت موسی(ع) کے شریک کار تھے ۔ چنانچہ خود حضرت موسی(ع) کے سوال سے ظاہر ہے جیسا کہ سورہ ۲۰ (طہ) میں آیت نمبر۲۵ سے لے کر آیت نمبر۳۳ تک

۱۵۴

آپ کا قول نقل کیا گیا ہے:

"قَالَ رَبّ ِ اشْرَحْ لىِ صَدْرِى وَ يَسِّرْ لىِ أَمْرِى وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانى يَفْقَهُواْ قَوْلىِ وَ اجْعَل لىّ ِ وَزِيرًا مِّنْ أَهْلىِ هَارُونَ أَخِى اشْدُدْ بِهِ أَزْرِى وَ أَشْرِكْهُ فىِ أَمْرِى "

یعنی پرورگارا میرے لئے میرے سینے کو کشادہ کر دے میرے لئے میرے کام کو آسان بنادے ( جو تبلیغ رسالت ہے) میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ میری بات کو لوگ سمجھیں اور میرے اہل میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر قرار دے ، ان کے ذریعے میری پشت کو مضبوط کر اور ان کو میرے (تبلیغ رسالت) میں میرا شریک بنا دے)

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام ہی وہ یکتا جوانمبرد تھے جو مقام نبوت خاصہ کے علاوہ تمام مراحل کاملہ اور صفات مخصوصہ میں رسول اکرم(ص) کے ساتھ شریک تھے۔

حافظ : میرا تعجب برابر بڑھتا جا رہا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ آپ علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ایسا غلو کرتے ہیں کہ صاحبان عقل کی عقلیں دنگ اور حیران ہوجاتی ہیں، منجملہ ان کے یہی جملے ہیں جو ابھی آپ نے بیان کئے کہ علی کرم اللہ وجہہ پیغمبر(ص) کے تمام صفات و خصائص کے حامل تھے۔

خیر طلب : اول تو اس طرح کی باتیں غلو نہیں ہیں بلکہ عین واقع اور حقیقت ہیں کیونکہ پیغمبر(ص) کا جانشین قاعدہ عقلی کے رو سے تمام صفات میں پیغمبر(ص) کا نمونہ اور شبیہ ہونا چاہیئے ۔ دوسرے اس معاملے میں تنہا ہم ہی اس حقیقت کے مدعی نہیں ہیں بلکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں اس عقیدے کا اقرار کیا ہے۔

علی (ع) تمام صفات میں پیغمبر(ص) کے شریک و مماثل تھے

چنانچہ امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں اور عالم فاضل سید احمد شہاب الدین نے جو آپ کے بزرگ علماء میں سے ہیں کتاب توضیح الدلائل علی ترجیح الفضائل میں تشریح کے ساتھ اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ عبادت لکھتے ہیں۔

" ولايخفی ان مولانا امير المومنين قد شابه النبی فی کثير بل اکثر الخصائص الرضيه و انفعال الزکيه و عاداته و عباداته و احواله العليه و قد صح ذالک له بالاخبار الصحيحه والاثار الصريحة ولا يحتاج الی اقامة الدليل ولبرهان ولا يفتقر الی ايضاح حجة و بيان قد عد بعض العلماء بعض الخصال لاميرالمومنين علی التی هو فيها نظير سيدنا النبی الامی"

یعنی پوشیدہ اور مخفی نہیں ہے یہ مطلب کہ ہمارے مولا امیرالمومنین علیہ السلام بہت سے بلکہ زیادہ تر اچھی خصلتوں، پاکیزہ، افعال، عادات عبادات اور اعلی حالات میں رسول اللہ (ص) سے مشابہت رکھتے ہیں، یہ بات اخبار صحیحہ اور آثار صریحہ کے ذریعہ پایہ صحت

۱۵۵

کو پہنچی ہوئی ہے، اس کے لئے الگ سے کوئی دلیل و برہان قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ توضیح حجت اور بیان کی احتیاج ہے۔ بعض علماء نے امیرالمومنین(ع) کے ان خصائص میں سے چند کو شمار کیا ہے جن میں آپ پیغمبر خاتم(ص) کی نظیر ہیں۔

منجملہ ان کے اصل ونسب میں ایک دوسرے کی نظیر ہیں :

" نظيره فی الطهارت بدليل قوله تعالی: إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً "

یعنی آیہ تطہیر کی دلیل سے علی(ع) طہارت میں پیغمبر(ص) کی نظیر ہیں۔ ( جو پنچ تن آل عبا محمد، علی ، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کے لئے نازل ہوئی ہے۔)

" نظيره فی آيه ولی الامه بدليل قوله تعالی :

" إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ"

اور آیت مذکورہ میں ولایت امت کی حیثیت سے بدلیل إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ الخ آں حضرت(ص) کی نظیر ہیں۔ ( جو باتفاق فریقین حضرت علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے جیسا کہ اسی کتاب میں تفصیل سے اس کا ذکر آیا ہے۔)

" نظيره فی الاداء والتبليغ بدليل الوحی الوارد عليه يوم اعطاء سورة برائت لغيره فنزل جبريل قال لا يوديها الا انت هو منک فاستعادها منه فاداها علی رضی الله تعالی عنه فی الرسم. "

یعنی ادائے رسالت اور تبلیغ دین میں سورہ برائت کے موضوع اور خاتم الانبیاء پر نزول کی دلیل سے آں حضرت(ص) کی نظیر میں ( کیونکہ) آں حضرت(ص) نے سورہ برائت کی آیتیں ابوبکر کر دیں کہ ان کو لے جائیں اور موسم حج میں اہل مکہ کے سامنے تلاوت کریں، جیسا کہ اسی کتاب میں درج ہے( کہ جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا کہ رسالت کی تبلیغ کوئی شخص نہیں کرسکتا سوا آپ کے یا اس شخص کے جو آپ ہی سے ہو، چانچہ آں حضرت(ص) نے آیات سورہ برائت کو ابوبکر سے لے کر بحکم الہی علی(ع) کے سپرد کیا اور آپ نے موسم حج میں ان کی تبلیغ کی۔

" نظيره فی کونه مولی الامة بدليل قوله « صل الله عليه و آله » من کنت مولاه فهذا علی مولاه "

اور مولائے امت ہونے میں آنحضرت(ص) کی نظیر ہیں بدلیل ارشاد رسول (ص) (غدیر خم میں جیسا کہ اس کتاب میں تفصیل سے ذکر موجود ہے) کہ میں جس شخص کے امور میں اولی بہ تصرف ہوں پس یہ علی(ع) بھی اس کے امور میں اولی بہ تصرف ہیں۔

" نظيره فی مماثلت نفسهما و ان نفسه قامت مقام نفسه وان الله تعالی اجری نفس علی علی مجری نفس النبی صلی الله عليه وسلم فقال :

" فَمَنْ حَاجَّكَ فيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ

۱۵۶

مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُمْ "

اور اتحاد نفسانی میں آں حضرت(ص) کی نظیر ہیں کیونکہ علی(ع) کا نفس رسول(ص) کے نفس کا قائم مقام ہے چنانچہ خدائے تعالی نے آیہ مباہلہ میں ( باتفاقی فریقین جیسا کہ اس کتاب میں تشریح سے ذکر ہوا ہے) علی(ع) کو بمنزلہ نفس آںحضرت(ص) قرار دیا ہے۔

"ونظيره فی فتح بابه فی المسجد کفتح باب رسول الله و جواز دخول المسجد جنبا کحال رسول الله صلی الله عليه وسلم علی السواء ."

اور مسجد کے اندر آپ کا دروازہ باب رسول(ص) کے مانند کھلا رہنے میں ( کیونکہ پیغمبر(ص) کے حکم سے سوا خانہ پیغمبر(ص) و علی(ع) کے تمام گھروں کے دروازے جو مسجد میں کھلتے تھے بند کردیے گئے تھے) اور حالت جنابت میں مانند رسول(ص) مسجد کے اندر داخل ہونے کی اجازت میں آں حضرت(ص) کی نظیر ہیں۔

بردارون اہل سنت میں ایک ہمہمہ پیدا ہوا میں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو ان کی طرف سے جواب ملا۔

نواب : اتفاق سے اسی گذشتہ جمعہ کو ہم مسجد میں نماز پڑھنے گئے تو جناب حافظ صاحب نے خطبے میں بعض احادیث کو نقل کرتے ہوئے یہ مسجد کا دروازہ کھلا رکھنے کی فضیلت خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کےلئے مخصوص بتائی ، اس وقت جب آپ نے فرمایا کہ یہ علی کرم اللہ وجہہ کی خصوصیت ہے تو حاضرین کو حیرت ہوگئی اور ہماری یہ باتیں اس قضیے کے سلسلے میں تھیں۔ التماس ہے کہ یہ معما حل فرمائیے۔

خیر طلب : ( حافظ صاحب کی طرف رخ کر کےج) کیا آپ نے ایسی کوئی تقریر فرمائی ہے؟

حافظ : ہاں چونکہ ہماری صحیح حدیثوں میں ثقہ اور سچے صحابی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تمام دروازے جو مسجد میں کھلے ہوئے تھے بند کردیے جائیں سوا در خانہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جن کے متعلق فرمایا کہ ابوبکر مجھ سے اور میں ابو بکر سے ہوں۔

خیر طلب : یقینا آپ کی نظر سے گزر چکا ہوگا کہ بنی امیہ نے اس بات کی سعی بلیغ کی تھی کہ ہر اس فضیلت کے مقابلے میں جو مولا امیر المومنین علیہ السلام کے لئے مخصوص ہو خفیہ کام کرنے والوں اور معاویہ کے دسترخواں کی کاسہ لیسی کرنے والوں جیسے ابوہریرہ ، مغیرہ اور عمرو بن عاص وغیرہ کے ذریعہ ایک حدیث گھڑ لیں، اور ان کا یہ عمل برابر جاری تھا، ابوبکر کے ماننے والوں نے بھی اپنی اس انتہائی محبت اور ربط کی وجہ سے جو خلیفہ ابوبکر سے رکھتے تھے ان احادیث کو تقویت پہنچائی چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں اور خصوصیت کے ساتھ جلد سوم ص۱۷ میں ان واقعات کو تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے اور کہتے ہیں کہ من جملہ موضوع احادیث کے سوا باب ابوبکر کے دوسرے دروازوں کا بند کرنا بھی ہے۔ " بدیہی بات ہے کہ اس موضوع حدیث کے مقابلے میں بکثرت صحیح حدیثیں موجود ہیں ( جو شیعوں کی آن معتبر کتابوں کے علاوہ ہیں جن میں

۱۵۷

یہ حدیث تواتر اور اجماع کے ساتھ ہے ( خود آپ کے اکابر علماء کی معتبر کتب صحاح میں اس قید کے ساتھ کہ یہ صحیح حدیثوں میں سے ہے، نقل کیا گیا ہے کہ لوگوں کے گھروں کے تمام دروازے جو مسجد میں کھلتے تھے رسول اللہ (ص) نے بند کروا دیئے تھے سوا در خانہ علی علیہ السلام کے۔

نواب : چونکہ یہ واقعہ معرض اختلاف میں پڑ گیا ہے۔ جناب حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ خصائص ابوبکر رضی اللہ عنہ میں سے ہے اور جناب عالی فرماتے ہیں کہ خصائص مولانا علی کرم اللہ وجہہ میں سے ہے ، لہذا ممکن ہوتو ہماری کتابوں سے بعض اسناد کی طرف اشارہ فرمائیے تاکہ سننے والے حافظ صاحب کے اسناد سے مطابقت کر کے بہتر کا انتخاب کر لیں۔

حکم رسول(ص) سے مسجد میں تمام گھروں کے دروازے بند کردئیے گئے سوا خانہ علی(ع) کے دروازے کے

خیر طلب : احمد ابن حنبل نے مسند جلد اول ص ۱۷۵ ، جلد دوم ص۲۶ اور جلد چہارم ص۳۶۹ میں ، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے سنن میں اور خصائص العلوی ص۱۳، ۱۴ میں ، حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد سوم ص۱۱۷، ۱۲۵ میں اور سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص۲۴، ۲۵ میں مفصل بیانات کے ساتھ اس حدیث کو ترمذی اور احمد کے طریق سے ثابت کیا ہے ابن اثیر جوزی نے اسنی المطالب ص۱۲ ، ابن حجر مکی نے صواعق ص۷۶ میں، ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری جلد ۷ص۱۲ میں، طبرانی نے اوسط میں، خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ جلد ۷ ص۲۰۵ میں، ابن کثیر نے اپنی تاریخ جلد ہفتم ص۳۴۲ میں ، متقی ہندی نے کنزالعمال جلد ششم ص ۴۰۸ میں ، شبیمی نے مجمع الزوائد جلد نہم ص۶۵ میں، محب الدین طبری نے ریاض جلددوم ص۱۹۲ میں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۴۵۱ میں حافظ ابو نعیم نے فضائل الصحابہ میں اور حلیتہ الاولیاء جلد ۴ ص۱۸۳ میں جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء ص۱۱۶ جمع الجوامع ، فضائل الکبری اور تعالی المصنوعہ جلد اولی ص۱۸۱ میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں ؟؟؟؟؟ نے فرائد میں، ابن مغازلی نے مناقب میں منادی مصری نے کنوز الدقائق میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ ص۸۷ میں، باب ۱۷ کو اسی مضمون کے لئے مخصوص کیا ہے ، شہاب الدین قسطلانی نے ارشاد الباری جلد ششم ص۸۱ میں ، حلبی نے سیرۃ الحلبیہ جلد سوم ص۳۷۳ میں اور محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئولی ص۱۷ میں، یہاں تک کہ عام طور پر کبار صحابہ میں سے آپ کے بڑے بڑے علماء نے جیسے خلیفہ عمر بن خطاب،

۱۵۸

عبداللہ بن عباس، عبداللہ ابن عمر، زید بن ارقم، براء بن عازب، ابو سعید خدری، ابو حازم اشجعی ، سعد بن ابی وقاص اور جابر ابن عبداللہ اںصاری وغیر ہم نے مختلف عبارتوں کے ساتھ رسول اللہ (ص) سے نقل کیا ہے کہ آں حضرت(ص) نے حکم دے کر مسجد میں سارے دروازوں کو بند کروا دیا سوا در خانہ علی(ع) کے اور خصوصیت کے ساتھ آپ کے بعض اکابر علماء نے بنی امیہ سے فریب کھائے ہوئے لوگوں کی بصیرت افروزی کے لئے کامل توضیحات دیے ہیں، مثلا محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے باب ۵۰ کو اسی موضوع سے مخصوص رکھا ہے اور مستند احادیث نقل کرنے کے بعد ایک بیان اس عنوان کے ساتھ دیا ہے کہ «هذا حديث عالی» اس محل پر کہتے ہیں کہ چونکہ اصحاب کے مکانات کے متعدد دروازے مسجد میں کھلتے تھے اور رسول اللہ(ص) نے مساجد کے اندر حالت حیض و جنابت میں داخل ہونے اور ٹھہرنے کو منع فرمایا لہذا حکم دیا کہ مسجد کی طرف تمام گھروں کے دروازے بند کردیے جائیں البتہ علی(ع) کے گھر کا دروازہ کھلا رکھا جائے اسی عبارت کے ساتھ کہ

" سدوا الابواب کلها الا باب علی بن ابی طالب و اوما بيده الی باب علی عليه السلام."

یعنی تمام دروازوں کو بند کرو البتہ خانہ علی(ع) کا دروازہ کھلا رہنے دو اور دست مبارک سے در خانہ علی علیہ السلام کی طرف اشارہ فرمایا ۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ حالت جنابت میں مسجد کے اندر داخل ہونے اور ٹھہرنے کا جواز حضرت علی علیہ السلام کا خاص شرف تھا لہذا یہ عمل اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہر جنب و حائض کا مسجدوں میں داخلہ اور توقف ہوسکے۔

" انما خص بذالک لعلم المصطفی بانه یتحری من النجاسة هو و زوجته فاطمة و اولاده صلوات الله عليهم و قد نطق القرآن بتطهيرهم فی قوله عزوجل انما يريد الله الخ."

خلاصہ مطلب یہ کہ پیغمبر(ص) کا علی(ع) کو مخصوص قرار دینا آپ کے لئے اس معنی سے ایک خصوصیت عظمی تھی کہ آں حضرت(ص) اس بات کا قطعی علم رکھتے تھے کہ علی (ع) و فاطمہ(س) اور ان کی اولاد نجاست سے دور اور پاک ہیں ، چنانچہ آیہ تطہیر اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ یہ خاندان جلیل جملہ رجس و نجاسات سے منزہ ہے۔ جو مکمل توضیح اس شافعی عالم نے پیش کی ہے اس کا جناب حافظ صاحب اس حدیث سے موازنہ کریں جو انہوں نے نقل کی ہے۔ اگر ابوبکر طہارت پر ان کے پاس کوئی دلیل ہے تو ہمارے سارے اسناد کے نظر انداز کرتے ہوئے اس خبر کو بیان کریں در آحالیکہ بخاری و مسلم نے بھی اپنی صحیحیں میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے اس باب میں کہ جنب مسجد میں داخل ہونے اور ٹھہرنے کا حق نہیں رکھتا ہے کیونکہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا ہے لا ينبعی لاحد ان يجنب فی المسجد الا انا و علی یعنی کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ مسجد میں جنب ہو سوا میرے اور علی(ع) کے۔)

معتبر اسناد کے ساتھ اس قسم کی حدیثیں ثابت کرتی ہیں کہ سوا باب علی علیہ السلام کے جملہ دروازے مسدود

۱۵۹

کردیے گئے تھے ، کیونکہ علاوہ باب پیغمبر(ص) و علی(ع) کے اگر کوئی اور دروازہ کھلا رکھا گیا ہوتا تو ان دونوں بزرگواروں ( محمد و علی علیہما السلام ) کے علاوہ دوسرے کے لئے بھی حالت جنابت میں مسجد کے اندر آنا اور توقف کرنا جائز ہونا چاہئے تھا حالانکہ آں حضرت صریحی طور پر فرماتے ہیں :

" لا ينبعی لاحد ان يجنب فی المسجد الا انا و علی ."

پس یہ احادیث برہان قاطع ہیں( کیونکہ بخاری و مسلم نے بھی نقل کیا ہے) ان حدیثوں کے اوپر جن کو بنی امیہ اور عقیدتمندان ابوبکر اور دوسرے نے نقل کیا ہے کہ دوسروں کے لئے بھی دروازہ کھلا رکھا گیا تھا۔

قطعا اور یقینا مسلم ہے کہ مسجد کے اندر فتح باب علی علیہ السلام کے خصائص میں سے تھا اگر آپ اجازت دیں تو اس بارے میں اپنے معروضات کو ختم کرتے ہوئے خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب سے ایک حدیث پیش کروں، جس کو حاکم نے مستدرک جلد سیم ص۱۲۵ میں سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ ضمن باب ۵۶ ص۲۱۰ میں ذخائر العقبی امام الحرم سے اور انہوں نے مسند امام احمد حنبل سے خطیب خوارزمی نے مناقب ص۲۶۱ میں، ابن حجر نے صواعق ص۷۶ میں، سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں، ابن اثیر جرزی نے اسنی المطالب میں اور دوسرے حضرات نے بھی الفاظ کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ نقل کیا ہے کہ خلیفہ عمر نے کہا :

"لقد اوتی (علی) ابن ابی طالب ثلاث خصال لان تکون لی واحدة منهن احب اتی من حمر النعم زوجه النبی صلی الله عليه وسلم بنته و سد الابواب الا بابه و سکناه المسجد مع رسول الله يحل له فيه ما يحل له ، و اعطاه الرايه يوم خيبر."

یعنی در حقیقت یقینا علی(ع) ابی طالب کو تین خصلتیں ایسی عطا ہوئیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی مجھ کو حاصل ہوتی تو میرے لئے سرخ بالوں والے حیوانات (اونٹوں) سے بہتر ہوتی، (۱) پیغمبر(ص) نے ان کے ساتھ اپنی دختر کی تزویج کی۔ (۲) ( مسجد کے ) تمام دروازے بند کردئے سوا ان کے دروزاے کے، مسجد میں پیغمبر(ص) کے ساتھ آرام کیا اور مسجد میں جو کچھ پیغمبر(ص) کے لئے جائز ہے وہ ان کے لئے بھی جائز ہے (۳) اور خیبر کے روز ان کو (اسلام کا ) علم عطا فرمایا۔

میرا خیال ہے کہ جناب نواب صاحب اور دوسرے برادران عزیز کے نزدیک معما حل ہوگیا ہوگا اور کوئی عذر کا راستہ باقی نہ ہوگا جناب حافظ صاحب کو بھی پورا اطمینان ہوگیا ہوگا۔ بہتر ہے کہ ہم اپنی سابق گفتگو اور سید شہاب الدین کے بقیہ بیانات کی طرف بھی رجوع کریں جو اپنی تحقیقات کے آخر میں کہتے ہیں :

"و من تتبع احواله فی الفضائل المخصوصه و تفحص احواله فی الشمائل المنصوصه يعلم انه کرم الله تعالی وجهه يلغ الغايه فی اقتفاء آثار سيدنا المصطفی و اتی النهايه فی اقباس انواره حيث لم يجد فيه غيره مقتضی. انتهی."

یعن اگر کوئی شخص آپ کے مخصوص

۱۶۰

فضائل اور مںصوص شمائل میں حالات کا تفحص و تجسس کرے تو وہ دیکھے گا کہ آپ رسول اللہ(ص) کے قدم بہ قدم ہونے اور آپ حضرت(ص) کے انوار کا نمونہ بننے میں کمال کی آخری منزل پر پہنچے ہوئے ہیں اور ان خصوصیات میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں۔

یہ مولانا امیرالمومنین علیہ السلام کے مدارج عالیہ اور فضائل مخصوصہ کے سلسلے میں خود آپ کے علماء کے بیانات اور اعتراف کا صرف ایک نمونہ تھا تاکہ آپ حضرات سمجھ لیں کہ نہ میں نے غلو کیا ہے اور نہ بیجان دعوی پیش کرتا ہوں بلکہ جملہ شیعہ اول سے آخر تک بغیر دلیل و برہان کے کوئی بیان پیش نہیں کرتے ہمارے تمام دلائل و براہین وہی ہیں جن کی جڑ اور بنیاد آپ لوگوں کے پاس خود آپ کی معتبر کتابوں میں موجود ہے۔لیکن افسوس ہے کہ جس وقت آپ عوام اور نا واقف لوگوں کے درمیان بیٹھتے ہیں تو اپنے اسلاف کی پیروی میں اپنی حیثیت محفوظ رکھنے کے لیے عادتا یک طرفہ فیصلہ کرتے ہوئے رطب و یابس کو باہم مخلوط کر کے تہمتیں لگاتے ہیں اور ان کی نگاہوں اصلیت کو مشتبہ بناتے ہیں بس ان مقدمات کو ذکر کرنے کے بعد ثابت ہوا کہ علی علیہ السلام ساری حیثتیوں میں رسول اللہ(ص) کے شریک و نظیر تھے جیسے کہ ہارون حضرت موسی(ع) کے نسبت تھے۔ لہذا جب موسی(ع) نے ہارون کو تمام بنی اسرائیل کے درمیان اس منصب کے لیے ہر ایک سے زیادہ اہل اور لائق اور سب سے افضل پایا تو پروردگار عالم سے درخواست کی کہ ان کو میرا کام میں شریک قرار دے تاکہ وہ میرے وزیر بنیں اسی طرح خاتم الانبیاء نے بھی چونکہ ساری امت کے درمیان اس عہدے کے لیے کسی کو علی(ع) سے زیادہ قابل و لائق نہیں دیکھا جو کل امت سے افضل ہو لہذا خدائے تعالی سے درخواست کی کہ جس طرح تو نے ہارون کو موسی(ع) کا وزیر و شریک بنایا علی کو میرا وزیر و شریک قرار دے۔

نواب : قبلہ صاحب آیا اس بارے میں کچھ روایتیں اور بھی منقول ہیں؟

خیر طلب: ہاں علاوہ شیعوں کے اجماع کے اس موضوع پر آپ کی معتبر کتابوں میں بھی بہت سی روایتیں مروی ہیں۔

نواب : ان روایات میں سے جس قدر ممکن ہو ہم لوگوں کو بھی سنائیے ، ہم بہت ممنون ہوں گے۔

خیر طلب : میں حاضر ہوں ، اگر آپ حضرات بھی مائل ہوں(اشارہ ان کے علماء کی طرف )۔

حافظ : کوئی حرج نہیں ، کیونکہ نقل حدیث اور اسی طرح اس کا سننا بھی عبادت ہے۔

علی(ع) کو اپنا وزیر بنانے کے لئے پیغمبر(ص) کا سوال

خیر طلب :ابن مغازلی فقیہ شافعی نے مناقب میں، جلال الدین سیوطی نے تفسیر و منشور میں امام المحدثین احمد ثعلبی نے تفسیر کشف البیان میں، اور سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ضمن نزول آیہ ولایت میں نیز ص14 میں ابوذر عفاری

۱۶۱

اور اسماء بنت عمیس زوجہ ابوبکر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ایک روزہم لوگوں نے مسجد میں نماز ظہر پڑھی اور رسول اللہ (ص) بھی موجود تھے کہا ایک سائل نے اٹھ کر سوال کیا ،کسی نے اس کو کچھ نہیں دیا۔ علی علیہ السلام نماز میں رکوع کے اندر تھے ہاتھ سے اپنی انگلی کی طرف اشارہ کیا سائل نے آپ کی انگلی سے انگوٹھی اتار لی، پیغمبر(ص) نے یہ معاملہ دیکھا تو سر مبارک آسمان کی طرف بلند فرمایا اور عرض کیا :

" اللهم ان اخی موسی سلک فقال رب اشرح لی صدری ويسر لی امری الايه الی قوله. واشرکه فی امری فانزل عليه فلانا ناطقا سنشد عضدک باخيک و نجعل لکما سلطانا فلايصلون اليکما"

یعنی پروردگارا میرے بھائی موسی نے تجھ سے سوال کیا اور کہا خدایا میرے لیے میرا سینہ کشادہ کردے اور میرے لیے میرے کام کو ( تبلیغ رسالت میں) آسان کردے۔ یہاں تک کہ کہا میرے بھائی ہارون کو میرا شریک کار بنا دے۔ پس ان حضرت پر یہ آیت نازل فرمائی کہ ( اے موسی) ہم نے تمہاری دعا قبول کی تمہارے بھائی ہارون کی شرکت و وزارت سے تمہارا بازو مضبوط کرتے ہیں اور تم دونوں کو عالم میں ایسی قدرت و حکومت دیتے ہیں کہ وہ تم پر قابو نہ پاسکیں۔ پھر عرض کیا :

"للهم و انا محمد صفيک ونبيک فاشرح لی صدری ويسر لی امری واجعل لی وزيرا من اهلی عليا اشدد به ازری"

یعنی خداوندا میں محمد(ص) تیرا برگزیدہ اور پیغمبر ہوں پس میرا سینہ کشادہ کردے، میرے لیے میرا امر آسان بنادے اور میرے لیے میرے اہل میں سے ایک وزیر قرار دے اور وہ علی ہوں، ان کے وجود سے میری پشت مضبوط فرمادے) ابوذر کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ابھی پیغمبر(ص) کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ جبرئیل نازل ہوئے آيه انما وليکم الله و رسوله الخ آں حضرت(ص) کو پہنچائی، انتہی۔ معلوم ہوا کہ پیغمبر(ص) کی دعا مستجاب ہوئی اور علی(ع) ( مانند ہارون کے موسی کے لیے) وزارت رسول(ص) پر برقرار ہوئے۔ محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص19 میں مفصل شرح کے ساتھ اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

حافظ ابو نعیم اصفہانی نے کتاب منقبۃ لامطہرین میں، شیخ علی جعفری نے کنز البراہین میں امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، سید شہاب الدین نے توضیح الدلائل میں، جلال الدین سیوطی نے درمنثور میں اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے جن کے ناموں کی تفصیل تنگی وقت کی وجہ سے نزظر انداز کرتا ہوں اپنی تصنیفات و تالیفات میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ بعض نے اسماء بنت عمیس (زوجہ ابوبکر) سے اور بعض نے دوسرے صحابہ سے یہاں تک کہ ابن عباس ( خیر امت) رضوان اللہ عنہ سے بھی روایت کی ہے کہ:

" اخذ رسول الله بيدی و بيد علی بن ابی طالب فصلی اربع رکعات ۔"

یعنی رسول خدا(ص) نے میرا ہاتھ اور علی(ع) کی ہاتھ پکڑا پھر چار رکعت نماز پڑھی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے عرض کیا:

" اللهم سئلک موسی بن عمران وأنا محمد اسئلک ان تشرح لی صدری و تيسر لی امری و انحل عقدة من لسانی يفقهم اقوالی واجعل لی وزيرا من اهلی عليا

۱۶۲

اشدد به ازری اشرکه فی امری ۔ "

یعنی خداوند موسی ابن عمران نے تجھ سے سوال کیا ( اپنے بھائی ہارون کی ذرات اور امر نبوت و تبلیغ رسالت میں شرکت کے لیے) اور میں محمد(ص) ہوں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرا سینہ کشادہ کر دے ، میرے امر کو آسان بنادے، میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات کو سمجھیں اورمیرے اہل میں سے میرے لیے ایک وزیر علی(ع) کو قرار دے ان سے میری پشت کو مضبوط کر اور ان کو میرے کام میں شریک قرار دے ( جو رسالت اور حقائق کا پہنچانا ہے) ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے ایک منادی کی آواز سنی جو یہ کہہ رہا تھا ي ا احمد قد اوتيت ما سئلت یعنی اے احمد تم نے جو کچھ مانگا ہم نے تم کو عطا کیا۔ اس وقت رسول اللہ (ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاو اور اپنے خدا سے دعا کرو تاکہ تم کو کچھ عطا فرمائے ۔ پس علی(ع) نے ہاتھوں کو بلند کر کے عرض کیا۔ اللهم اجعل لی عند ع ه دا واجعلنی عندک ودا ۔ یعنی پروردگارا میرے لیے اپنے نزدیک ایک عہد قرار دے اور میرے لیے اپنے پاس محبت و مودت معین فرما پس جبرئیل نازل ہوئے اور یہ آیہ شریفہ ( آخر سورہ مریم کی) لائے :

" إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ- سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمنُ وُدًّا"

(یعنی جو لوگ ایمان لائے اور نیکو کار بنے خدائے رحمان ان کو محبوب قرار دیتا ہے (یعنی ان کی محبت و مودت کو مسلمانوں کے دلوں میں جاگزین کرتا ہے) اصحاب نے یہ معاملہ دیکھ کر تعجب کیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مما تعجبون ان القرآن اربعة ارباع فربع فينا اهل البيت خاصا وربع حلال و ربع حرام و ربع فرائض و احکام والله انزل فی علی کرائم القرآن یعنی تم کس چیز سے تعجب کرتے ہو؟ قرآن کے چار حصے ہیں ایک ربع ہم اہل بیت(ع) کے لیے مخصوص ہے ایک ربع حلال میں ایک ربع حرام میں اور ایک ربع فرائض و احکام میں ہے۔ خدا کی قسم قرآن مجید کی بزرگ آیتیں علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔)

شیخ ، اگر اس حدیث کو صحیح بھی فرض کر لیا جائے تو علی کرم اللہ وجہہ سے اس کو کوئی خصوصیت نہیں بلکہ یہی حدیث دو عظیم الشان خلیفہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بھی صادر ہوئی ہے چنانچہ قزعہ بن سوید نے ابن ابی ملیکہ سے اس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ابوبکر و عمر منی بمنزل ة هارون من موسی.

خیر طلب : اگر آپ حضرات تھوڑا غور کر لیتے اور رجال روات کی طرف رجوع کرتے تو اپنے کو خواہ مخواہ زحمت میں نہ ڈالتے کہ کبھی آمدی کے قول سے اور کبھی انہتائی جھوٹے اور جعل ساز قزعہ بن سوید کے قول سے استدلال کریں، حالانکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے اس امر کو مردود اور اس کی نقل کی ہوئی حدیثوں کو نا قابل قبول ٹھہرایا ہے۔ خصوصا علامہ ذہبی نے کتاب میزان الاعتدال کے اندر حالات قزعہ بن سوید و عمار بن ہارون کے ترجمے میں اس حدیث کا انکار کیا ہے اور کہتے ہیں هذا کذب یعنی یہ جھوٹ ہے 12 مترجم) پس جب قزعہ آپ کے علماء کے

۱۶۳

نزدیک مردود ہے تو وہ حدیث بھی مردود ہے جو اس سے منقول ہو۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے اس کو مان بھی لیا جائے تو آپ حضرات قزعہ کی روایت کا ذرا اس سلسلہ روایت سے موازنہ کیجئے جس کو تمام علمائے شیعہ سے قطع نظر جنہوں نے مسلم حیثیت سے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے ہم نے خود آپ ہی کے بزرگ ترین علماء سے نقل کیا ہے ۔ اس وقت اںصاف کے ساتھ فیصلہ کیجئے کہ ان دونوں حدیثوں میں سے کون سی ، ماننے کے قابل ہے۔

( جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو ان حضرات نے گھڑیوں پر نظر کی اور کہا کہ ہم لوگ بات چیت میں ایسے محو ہوگئے کہ اپنی طرف خیال ہی نہ کیا ، توجہ ہوئی کہ آدھی رات گذر چکی ہے ۔ بہتر ہوگا کہ اسی موضوع پر بقیہ بحث کل شب پر رکھی جائے۔ اس کے بعد اٹھے اور شب بخیر کہہ کے بعافیت تشریف لے گئے۔)

پانچویں نشست

( شب سہ شنبہ 27 رجب سنہ1345 ہجری)

(آج مولوی صاحبان اول شب میں اور زیادہ مجمع کے ساتھ تشریف لائے اور چائے وغیرہ کے بعد حافظ صاحب نے بحث کا افتتاح کیا۔)

حافظ : آج میں کافی دیر تک آپ کی کل رات والی تقریروں پر غور کرتا رہا اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ آپ ماشاء اللہ بہت زیادہ زبان آور ہیں، اپنی جادو بیانی کے علاوہ آپ چاہتے ہیں کہ حسن تقریر کے ساتھ بات کا بتنگز بنا کے یہ ثابت کردیں کہ اس حدیث منزلت میں پیغمبر بزرگوار (ص) نے اپنے بیان مبارک سے علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت بلا فصل کا اعلان فرمایا ہے حالانکہ یہ حدیث ایک خصوصی پہلو رکھتی ہے اور غزوہ تبوک کے سفر میں ارشاد ہوئی تھی جس کی عمومیت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔

منزلت کا لفظ عموم کا فائدہ دیتا ہے

خیر طلب : اگر حضرات حاضرین جلسہ میں سے کسی نے یہ اشکال پیش کیا ہوتا تو حیرت نہ ہوتی لیکن آپ جیسی شخصیت سے سخت تعجب ہے کہ اہل زبان اور ادبیات عرب اور اصول و قواعد کے عالم ہونے کے باجود کس لیے اس طرح کی باتیں کرتے ہیں حالانکہ خود جانتے ہیں کہ اہل زبان کے متعارف کلمات میں ہر موقع پر استثناء

۱۶۴

اور مستثنی منہ عموم پر دلالت کرتا ہے اور اس حدیث شریف میں بالخصوص کلمہ منزلت جو علم کی طرف مضاف ہے۔ قطعی اور یقینی طور پر صحت استثناء کی دلیل سے عموم کا فائدہ دیتا ہے اس لیے کہ الا انه لا نبی بعدی میں استثنائے متصل ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو معلوم ہے کہ اصولیین نے اس چیز کی تصریح کردی ہے کہ اسم جنس مضاف عموم کا فائدہ دیتا ہے خصوصا جس وقت الف لام کے ساتھ ہو پس آںحضرت(ص) کے کلام میں لفظ منزلت جو علم کی طرف مضاف ہے مقید عموم ہے اگرچہ بعض علماء اس نظریے کے خلاف گئے ہیں لیکن بڑے بڑے اور کامل اصولی علماء ہمارے ہی عقیدے کے حامل ہیں کہ مفرد جو معرفہ کی طرف مضاف ہوبنا بر اصح عموم کے لیے ہے اور اس حکم میں اس بات کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے کہ معرفہ علم ہو یا ضمیر اور استثناء کا وجود عموم پر دلالت کی شرط نہیں ہے بلکہ صحت استثناء عموم میں کافی ہے۔

پس اس بناء پر انت منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی عموم پر دلالت کرتا ہے اور جملہ لا نبی بعدی حمل بر معنی ہے جو الا النبوة ہے اور حمل بر معنی کا قاعدہ مشہور اور معمول بہا قواعد میں سے ہے جو فصحاء بلغاء کے کلمات نظم نثر میں عام طور پر مشتمل ہے۔

حافظ : میرا خیال ہے کہ جناب عالی ذرا گہری نظر ڈالیں تو اس طرف متوجہ ہوں گے کہ انه لا نبی بعدی جملہ خبریہ ہے اور اس کو منازل ہارونی سے مستثنی نہیں کیا جاسکتا لہذا ان چیزوں سے ہٹ کر صراحت سے علیحدگی حمل بر معنی اور حذف کلمہ نبوت کا کیا مطلب ہے؟

خیر طلب : بڑی بے لطفی کی بات ہے کہ آپ نے کچ بحثی کا راستہ اختیار کیا ہے حالانکہ آپ جیسے شریف انسان سے یہ بات کچھ بھی نہیں معلوم ہوتی ۔ اگر آپ سابق جملوں پر تھوڑا غور فرمائیں تو سمجھ میں آجائے گا کہ جملہ خبریہ کا جواب عرض ہوچکا ۔ اب آپ نے جو یہ فرمایا کہ کس لیے معنی پر حمل کیا اور ظاہری لفظ سے مطلب ادا نہیں کیا تو آپ اس کو خود بہتر جانتے ہیں اور تجاہل عارفانہ کررہے ہیں، کیونکہ علمائے علم بیان کی نظر میں یہ چیز عام ہے کہ کلام کے اختصار اور حسن بیان کے لیے کلمے کو حذف کرتے ہیں اور بلغاء و فصحاء کے فقرات و کلمات میں کثرت سے اس کی نظیر موجود ہیں جن سے آپ خود اچھی طرھ واقف ہیں۔

اس کے علاوہ ہم کو اس وقت اس تحقیق کی ضرورت ہوگی جب حدیثوں میں نبوت کا لفظ آیا ہو حالانکہ آنحضرت(ص) نے کلمہ نبوت کے ساتھ علی علیہ السلام کے لیے مکرر اس منزلت کا اثبات کیا ہے اور کبھی اختصار کلام اور حسن بیان کی غرض سے کلمہ نبوت کو حذف کر کے مقصد کا اظہار فرمایا ہے ۔ بعض اوقات میں جملہ انه لا نبی بعدی اور حذف کلمہ نبوت سے اور کسی وقت کلمہ الا النبوة کے کھلے ہوئے بیان سے حقیقت کو ثابت فرمایا چنانچہ آپ کے بزرگ علماء نے دونوں کو درج کیا ہے ۔ نمونے کے طور پر چند حدیثیں پیش کرتا ہوں تاکہ حجت تمام ہوجائے۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب 70 میں ، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب 6 میں ، ابن کثیر

۱۶۵

نے اپنی تاریخ میں عائشہ بن سعد سے، انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے رسول خدا (ص) سے ، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص12 میں مسند امام احمد اور مسلم وغیرہ سے اور انہوں نے ابوبریرہ سے، امام احمد ابن حنبل نے مناقب میں ، ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی نے ---- صحاح ستہ میں سے ہیں ) خصائص العلوی میں چار حدیثیں اپنے اسناد کے ساتھ سعد بن ابی وقاص سے اور عائشہ سے اور انہوں نے اپنے باپ سے اور خطیب خوارزمی نے مناقب میں جابر ابن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے علی(ع) سے فرمایا :

" اما ترـی ان ت کون منی بمنزلة هارون من موسی الا النبوة."

یعنی آیا تم راضی نہیں ہو اس پر کہ محمد سے تمہاری وہی منزلت ہو جو ہارون کو موسی سے تھی علاوہ نبوت کے)۔

اور میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودۃ ششم میں ایک حدیث انس بن مالک سے نقل کی ہے جس کو مکمل طور پر کل شب میں عرض کر چکا ) اس کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے :

" ولو کان بعدی نبيا لکان علی نبيا ولکن لا نبوة بعدی."

میرا خیال ہے کہ نمونے کے لیے اسی قدر کافی ہوگا تاکہ آپ حضرات مغالطہ نہ دیں بلکہ سمجھ لیں کہ مستثنی نبوت ہے نہ کہ عدم نبوت اور اس معتبر حدیث سے ثابت ہے کہ جس طرح موسی کلیم اللہ نے اپنی چالیس روز کی غیبت میں امت کا معاملہ اس کے ہاتھ میں نہیں چھوڑا اور ہارون کو جو تمام بنی اسرائیل سے افضل تھے اپنا خلیفہ اور وصی مقرر فرمایا تاکہ امر نبوت آپ کی عدم موجودگی میں مختل نہ ہوا پیغمبر کا بھی جن کی شریعت کامل تر، جن کے ہدایات ہمہ گیر اور جن کے قوانین روز قیامت تک باقی اور پائدار ہیں، بدرجہ اولی یہ فریضہ تھا کہ جاہل لوگوں کو ان کے حال پر نہ چھوڑیں نادان خلقت کو حیرانی میں نہ ڈالیں اور شریعت کو جہال کے ہاتھوں میں نہ دے دیں تاکہ ہر شخص اس میں اپنی منشا کے مطابق تصرفات کرے۔ ایک شخص رائے اور قیاس پر عمل کرے تو دوسرا شریعت اور طریقت کے درمیان فرق قائم کرے اور تخریب پسند عناصر کو موقع ہاتھ آئے کہ ایک خالص اور سادہ ملت کو تہتر حصوں میں تقسیم کریں۔ لہذا اس حدیث شریف میں ارشاد فرماتے ہیں کہ علی (ع) مجھ سے بمنزلہ ہارون ہیں موسی سے یعنی سارے مدارج ہارونی کو ان حضرت کے لیے ثابت فرمایا کہ من جملہ ان کے تمام صحابہ و امت پر آپ کی افضلیت اور عہدہ وزارت و خلافت پر آپ کی تعیین ہے۔ یعنی جس طرح سے ہارون کو موسی نے اپنی غیبت میں خلیفہ قرار دیا تھا علی علیہ السلام بھی میری عدم موجودگی میں میرے خلیفہ ہیں۔

حافظ : آپ نے اس حدیث کی عظمت میں جو کچھ فرمایا وہ تصور سے بالاتر ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ تھوڑا غور فرمائیں تو اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اس حدیث میں کوئی عمومیت نہیں ہے کیونکہ یہ صرف غزوہ تبوت سے مخصوص ہے جب کہ ایک معین مدت کے لیے رسول خدا(ص) نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا خلیفہ نامزد فرمایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص156۔

۱۶۶

حدیث منزلت تبوک کے علاوہ بھی کئی مرتبہ وارد ہوئی ہے

خیر طلب: آپ کا یہ فرمانا اس وقت صحیح ہوتا جب یہ حدیث صرف غزوہ تبوک میں ہی صادر ہوتا جب یہ حدیث صرف غزوہ تبوک میں ہی صادر ہوئی ہوتی، حالانکہ اس حدیث کے فقرے متعدد بار اور مختلف مقامات پر پیغمبر(ص) کی زبان مبارک سے سنے گئے ہیں، منجملہ ان کے پہلی مواخات میں جب کہ مکہ معظمہ کے اندر مہاجرین و انصار کے درمیان برادری قائم فرمائی اور دوسری مرتبہ مدینہ منورہ میں جب علی علیہ السلام کو اپنا بھائی منتخب فرمایا تو ارشاد ہوا:

" انت منی بمنزلة هرون من موسی الا انه لا نبی بعدی."

حافظ : یہ ایک عجیب سا بیان ہے کیونکہ اب تک میں نے جہاں تک دیکھا اور سنا ہے ، حدیث منزلت غزوۃ تبوک میں صادر ہوئی تھی کیونکہ پیغمبر(ص) نے علی(ع) کو اپنی جگہ پر چھوڑا جس سے آپ دل تنگ ہوئے تو آنحضرت(ص) نے ان جناب کو ان الفاظ سے تسکین دی۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے اپنے بیان میں دھوکا کھایا ہے۔

خیر طلب : نہیں مجھ کو غلط فہمی نہیں ہوئی بلکہ اس پر یقین رکھتا ہوں ۔ علاوہ علمائے شیعہ کے اتفاق کے آپ کی بھی بہت سی معتبر کتابوں میں منقول ہے۔ من جملہ ان کے (فریقین کے نزدیک مقبول القول) مسعودی نے مروج الذہب جلد دوم ص49 میں، حلبی نے سیرۃ الحلبیہ جلد دوم ص126۔ 120 میں، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی ص19 میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص13،14، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب 9، 17 میں مسند امام احمد حنبل سے، عبداللہ بن احمد نے زوائد مسند میں، اور خوارزمی نے مناقب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے یہاں تک کہ مواخات کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی ایسا ہوا ہے لیکن جلسے کا وقت ان سب کو نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

پس آپ حضرات تصدیق فرمائیے کہ یہ حدیث شریف کوئی محدود حیثیت نہیں رکھتی۔ بلکہ اس کی عمومیت ثابت ہے کیونکہ رسول اللہ (ص) نے اس کے ذریعے سے جس موقع پر مناسب سمجھا اپنے بعد علی (ع) کی خلافت کو اس عبارت کے ساتھ مضبوط فرمایا :

" علی منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی " چنانچہ ان موارد میں سے ایک غزوہ تبوک بھی تھا۔

حافظ : یہ کیونکر ممکن ہے کہ اصحاب رسول(ص) نے اس حدیث کو عمومی حیثیت سے سنا ہو اور علی(ع) کو خلافت کے عنوان سے پہچان لیا ہو اس کے باوجود آن حضرت(ص) کے بعد مخالفت کر کے دوسرے کی خلافت کو قبول کیا اور اس کی بیعت کی؟

خیر طلب : آپ کے جواب کے لیے میرے پاس بہت سے مطالب اور شواہد موجود ہیں۔ لیکن بہترین دلیل جو

۱۶۷

اس موقع کے لیے مناسب ہے وہی جناب ہارون کا قضیہ ہے۔

حضرت موسی(ع) کا اپنے بھائی ہارون کو خلیفہ بنانا اور سامری کا بنی اسرائیل کو گوسالہ پرستی کا فریب دینا

آیات قرآنی کی صراحت ہے کہ حضرت موسی کلیم اللہ نے جناب ہارون کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنایا پھر بنی اسرائیل کو جمع فرمایا ( جو بعض روایات کی بنا پر ستر ہزاز تھے) اور ان کو تاکید کی کہ حضرت ہارون کی اطاعت کریں کیونکہ وہ آپ کے خلیفہ اور جانشین ہیں اس کے بعد کوہ طور پر خدا کی مہمانی میں گئے ابھی مہینہ بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ سامری کا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا اور بنی اسرائیل میں اختلاف ظاہر ہوگیا سامری نے سونے کا بچھڑا بنایا اور بنی اسرائیل حضرت موسی(ع) کے ثابت الخلافت خلیفہ ہارون کو چھوڑ کر گروہ در گروہ دغاباز سامری کے گرد اکھٹا ہوگئے، ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ انہیں عقیدتمند بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے حضرت موسی (ع) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ہارون میری غیبت میں میرے خلیفہ ہیں۔ ان کے حکم کی تعمیل کرنا اور مخالفت نہ کرنا ، ستر ہزار افراد سامری کے بہکانے سے گوسالہ پرست ہوگئے، جناب ہارون نے ہرچند فریاد کی اور ان کو اس عمل شنیع سے منع فرمایا لیکن کسی نے نہیں سنا بلکہ ان کے قتل کے درپے ہوگئے ، چنانچہ سورہ (اعراف) کی آیت نمبر149 صراحت کررہی ہے کہ جب حضرت موسی(ع) واپس تشریف لائے تو جناب ہارون نے ان سے اپنا درد دل بیان کیا کہ" إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوني وَ كادُوا يَقْتُلُونَني" یعنی ان لوگوں نے مجھ کو حقیر و ذلیل بنادیا اور ( جب میں نے ان کی مخالفت کی اور روکا تو) قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں۔ آپ حضرات کو خدا کا واسطہ ذرا تعصب سے ہٹ کے انصاف کیجئے کہ بنی اسرائیل کا یہ عمل حضرت موسی(ع) کے احکام سے سرتاپی، ان کے منصوص خلیفہ جناب ہارون کو تنہا چھوڑ دینا اور شعبدہ باز سامری کے بہکانے سے گوسالہ پرست ہوجانا ۔ کیا خلافت ہارون کے باطل ہونے اور سامری اور اس کے بچھڑے کے برحق ہونے کی دلیل بن سکتی ہے؟ آیا بنی اسرائیل کے بچھڑا پرست لوگوں کی حرکتیں اسی چیز کی دلیل قرار دی جاسکتی ہیں کہ اگر خلافت ہارون برحق ہوتی اور لوگوں نے حضرت موسی(ع) سے اس بارے میں کوئی نص سنی ہوتی تو ہرگز ان کو تنہا نہ چھوڑتے اورسامری اور اس کے گوسالے کے پیچھے نہ دوڑتے؟

آپ حضرات قطعی طور پر جانتے ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے جناب ہارون قرآن مجید کے حکم سے حضرت موسی(ع) کے منصوص خلیفہ تھے ، بنی اسرائیل نے خود انہیں حضرت کی زبان سے آپ کے بارے میں کھلی ہوئی نص سنی تھی لیکن بالآخر حضرت موسی(ع) کے چلے جانے کے بعد مکار سامری کو موقع ہاتھ آیا اور اس نے سونے کا بچھڑا تیار کر کے

۱۶۸

جان بوجھ کر قصدا بنی اسرائیل کو فریب دیا اور ان لوگوں نے بھی یہ جانتے ہوئے کہ جناب ہارون حضرت موسی(ع) کے خلیفہ و جانشین ہیں اپنی بیوقوفی یا دوسرے مقاصد کی بنا پر سامری کی پیروی کی اور جناب ہارون کو یکہ و تنہا چھوڑا دیا۔

امیرالمومنین کے حالات کی مطابقت ہارون کے ساتھ

اسی طرح وفات رسول(ص) کے بعد انہیں لوگوں نے جو یار آں حضرت(ص) سے صراحتہ اور کنایۃ سن چکے تھے کہ علی (ع) میرے خلیفہ ہیں جس طرح سے ہارون موسی کے خلیفہ تھے ، خواہش اور اقتدار کی ہوس میں ، بعض نے بنی ہاشم کی عداوت میں اور ایک گروہ نے اس کینہ و عناد اور حسد و بغض کی وجہ سے جو وہ علی(ع) کی ذات سے رکھتے تھے آپ کو چھوڑ دیا اور مخصوص حالات پیدا کئے۔ چنانچہ امام غزالی نے سرالعالمین مقالہ چہارم کے شروع میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور کھل کے لکھتے ہیں کہ انہوں نے حق کو پس پشت دال دیا اور پچھلی جہالت کی طرف پلٹ(1) گئے۔ اسی جہت سے ہارون اور امیرالمومنین(ع) کے درمیان مشابہت تھی۔ چنانچہ خود آپ کے محققین علماء اور مورخین جیسے دنیوی کے مشہور قاضی ابو محمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ باہلی دنیوری نے الامامتہ والسیاسہ جلد اول ص14 میں سقیفہ کا قضیہ تفصیل سے لکھا ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں جس وقت علی(ع) کے دروازے پر آگ لے گئے، جبر و تشدد کے ساتھ حضرت کو مسجد میں لائے اور کہا کہ بیعت کرو ورنہ ہم تمہاری گردن مار دیں گے، تو حضرت نے اپنے کو قبر رسول(ص) تک پہنچایا اور وہی کلمات کہے جو قرآن مجید نے موسی کے مواجہے میں حضرت ہارون کی زبان سے نقل کئے ہیں کہ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَ كادُوا يَقْتُلُونَنِي

گویا کہ اس حدیث میں پیغمبر(ص) علی(ع) کو ہارون کی شبیہہ فرمارہے ہیں تو اس کا ایک پہلو امت کو یہ بتانا بھی

ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسی(ع) کی غیبت میں جو سلوک جناب ہارون کے ساتھ کیا تھا وہی سلوک میری وفات کے بعد لوگ علی(ع) کے ساتھ کریں گے۔ لہذا علی علیہ السلام نے جس وقت امت کی زبردستی اور بازیگروں کی سیاست بازی دیکھی کہ آپ کے قتل پر بھی آمادہ ہیں تو پیغمبر(ص) کی قبر مبارک سے خطاب کرتے ہوئے وہی آیت تلاوت فرمائی جس میں خدا نے موسی(ع) کے سامنے ہارون کی فریاد کا ذکر فرمایا ہے۔

( اہل جلسہ نے اپنے اپنے سرجھکالئے اور تھوڑی دیر تک سب کے اوپر سکتے کی سی کیفیت طاری رہی)

نواب : قبلہ صاحب اگر علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی خلافت ثابت تھی تو پیغمبر(ص) ان الفاظ اور اشارات و کنایات کے ساتھ کس لیے فرماتے تھے، صاف صاف آپ کی خلافت کا اعلان کیوں نہیں کردیا کہ فرمادیتے

-----------------

1۔ اسی کتاب کے جلسہ نہم کی طرف رجوع کیجئے جس میں بسلسلہ حدیث غدیر امام غزالی کی اصل عبارت نقل کی گئی ہے۔

۱۶۹

علی (ع) میرے خلیفہ ہیں تاکہ کوئی عذر باقی نہ رہتا۔

خیر طلب: میں نے عرض کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے دونوں طریقوں سے حقیقت کا اظہار فرمایا ہے ورن خلافت کے بارے میں کھلی ہوئی حدیثیں خود آپ کی معتبر کتابوں میں بھی کثرت سے موجود ہیں ، لیکن اس طرح کے کنایات میں صراحت سے زیادہ لطافت ہوتی ہے ۔ اہل ادب جانتے ہیں کہ الکناية ابلغ من التصريح ( یعنی کنایہ تصریح سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔ 12 مترجم) اور وہ بھی اس قسم کا کنایہ جس میں معانی و مطالب کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔

نواب : جیسا کہ آپ فرما رہے ہیں خلافت کے بارے میں ان کھلی ہوئی حدیثوں سے جو ہمارے علماء کی کتابوں میں موجود ہیں اگر پیش نظر ہوں تو ہم کو بھی مستفیض فرمائیے تاکہ حقیقت ظاہر ہوجائے اس لیے کہ ہم سے مکرر یہ بتایا گیا ہے کہ قطعا ایسی کوئی حدیث جو ان جناب کی خلافت کو واضح کرتی ہو موجود نہیں ہے۔

خیر طلب : حضرت امیرالمومنین(ع) کی خلافت پر کھلی ہوئی حدیثیں آپ کے معتبر کتابوں میں میں بہت ہیں۔ لیکن جلسے کے وقت کا لحاظ کرتے ہوئے ان میں سے چند جو اس وقت مجھ کو یاد ہیں پیش کرتا ہوں۔

حدیث یوم الدار یوم الانذار اور پیغمبر(ص) کا علی(ع) کو خلافت پر معین فرمانا

تمام احادیث سے اہم حدیث الدار ہے اس لیے کہ پہلے ہی دن جب کہ خاتم الانبیاء نے اپنی نبوت کو ظاہر فرمایا تو علی(ع) کی خلافت کا اعلان بھی فرما دیا ۔ چنانچہ (رئیس الحنابلہ) امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند جلد اول ص159-161 وص333 میں ، امام شعلبی نے تفسیر آیہ انذار میں، صدر الائمہ موفق بن احمد خوارزمی نے مناقب میں، محمد بن جویر طبری نے اسی آیت کی تفسیر میں اور تاریخ الامم جزو دوم ص217 میں مختلف طریقوں سے ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص263 ، ص281 میں نقض العثمانیہ ابو جعفر اسکافی سے نقل کرتے ہوئے ابن اثیر نے کامل جزء دوم ص22 میں مرسل طریقے سے حافظ ابونعیم نے حلیفۃ الاولیاء میں، حمیدی نے جمع بن الصحیحین میں، بیہقی نے سنن و دلائل میں، ابوالفداء نے اپنی تاریخ جزء اول صفحہ 116 میں، حلبی نے سیرۃ الحلبیہ جزء اولی ص281 میں، اما عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی ص6 حدیث 65 میں ، حاکم ابوعبداللہ نے مستدرک جز سیم ص123 میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب 31 میں مسند امام احمد اور تفسیر ثعلبی سے محمد بن یوسف نجی شافعی نے کفایت الطالب باب51 میں، اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے الفاظ و عبارات کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جس وقت سورہ 26 ( شعراء ) کی آیت نمبر214 " وَ أَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ " نازل ہوئی تو رسول اللہ (ص) نے قریش میں سے چالیس نفر اشراف و رووسا اور اپنے اعزہ کو اپنے چچا جناب ابو طالب کے گھر میں دعوت

۱۷۰

دی اور ان کے سامنے گوسفند کی ایک ران ، تھوڑی روٹی اور ایک صاع دودھ پیش فرمایا ، وہ لوگ ہنسے اور کہا کہ محمد(ص) نے تو ایک آدمی کی خوراک بھی مہیا نہیں کی ( کیونکہ ان لوگوں میں کچھ ایسے بھی تھے جو تنہا ایک اونٹ کا بچہ کھاجاتے تھے) آں حضرت (ص) نے فرمایا کلوا بسم الله خدائے تعالی کے نام کے ساتھ کھاو، چنانچہ جب انہوں نے کھایا اور سیر ہوگئے تو آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ هذا ما سحرکم به الرجل محمد نے اس غذا سے تم پر جادو کیا ہے ۔ اس وقت آں حضرت(ص) ان کے درمیان کھڑے ہوئے اور ان تمہیدوں کے بعد جن کو مکمل طور پر نقل کرنے سے طول ہوگا اس طرح اپنے مقصد کا اظہار فرمایا : ِ

" يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنَ اللَّهَ بَعَثَنِي إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً وَ بَعَثَنِي إِلَيْكُمْ خَاصَّةً وَ أَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى كَلِمَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَيْنِ فِي الْمِيزَانِ تَمْلِكُونَ بِهِمَا الْعَرَبَ وَ الْعَجَمَ وَتَنْقَادُ لَكُمْ بِهِمَا الْأُمَمُ وَ تَدْخُلُونَ بِهِمَا الْجَنَّةَ وَ تَنْجُونَ بِهِمَا مِنَ النَّارِ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَمَنْ يُجِبْنِي إِلَى هَذَا الْأَمْرِ وَ يُؤَازِرْنِي عَلَيْهِ وَ عَلَى الْقِيَامِ بِهِ يَكُنْ أَخِي وَ وَصِيِّي وَ وَزِيرِي وَ وَارِثِي وَ خَلِيفَتِي مِنْ بَعْدِي "

(یعنی اے اولاد عبدالمطلب خدائے تعالی نے مجھ کو تمام خلقت پر بالعموم اور تمہاری طرف بالخصوص مبعوث فرمایا ہے ۔ میں تم کو ایسے دو کلموں کی طرف دعوت دیتا ہوں جو زبان پر سبک اور آسان اور ترازوے اعمال پرسنگین و گراں ہیں، تم ان دو کلموں کے کہنے سے عرب وعجم کے مالک بن جاو گے۔ ساری قومیں تمہاری مطیع و منقاد ہوں گی ان کے ذریعے سے تم جنت میں جاو گے اور جہنم سے نجات پا جاو گے اور یہ دونوں کلمے خدا کی وحدانیت اور میری رسالت کی گواہی دینا ہیں ، پس جو شخص (سب سے پہلے) اس امر میں مجھ کو لبیک کہے اور اس کام میں میری اعانت کرے وہ میرا بھائی ، میرا وزیر، میرا وارث اور میرے بعد میرا خلیفہ ہوگا)۔ اس آخری جملے کی تین بار تکرار فرمائی اور تینوں مرتبہ سوا علی (ع) کے کسی نے جواب نہیں دیا۔ آپ نے عرض کیا " انا انصرک ووزيرک يا نبی الله" ( یعنی میں آپ کی مدد اور حمایت کروں گا اے پیغمبر خدا(ص)۔)

پس آنحضرت (ص) نے ان کو خلافت کی خوشخبری دی۔ آپ دہان مبارک ان کے دہن میں ڈ الا اور فرمایا :

" ان هذا أخي و وصيي و خليفتي و وليي فيكم.

یعنی یہ علی(ع) میرے بھائی اور تمہارے درمیان میرے وصی و خلیفہ ہیں اور انہیں میں سے بعض کتابوں میں ہے کہ خود علی(ع) کو مخاطب کر کے فرمایا أنت وصيّي و خليفتي من بعدی یعنی یا علی(ع) تم میرے بعد میرے وصی اور خلیفہ ہو۔

علاوہ شیعہ اور سنی علمائے اسلام کے دوسری قوموں کے غیر مورخین نے جنہوں نے تاریخ اسلام لکھی ہے مذہبی تعصب نہ رکھنے کی وجہ سے اکیوں کہ وہ نہ سنی تھے اور نہ شیعہ) اس جلسہ دعوت کی کیفیت نقل کی ہے ۔ منجملہ ان کے انگریز مورخ اور فیلسوف توماس کا دلیل ( ٹامس کار لائل) نے جو اٹھارہویں صدی عیسوی میں یورپ کے اندر عالمگیر

۱۷۱

شہرت کا مالک تھا اپنی مشہور کتاب میں جس کا مصریوں نے الابطال و عبادۃ المبطولہ " کے نام سے عربی ترجمہ کیا ہے خانہ جناب ابو طالب(ع) میں قریش کے جلسہ مہمانی کی تفصیل لکھتی ہے ، یہاں تک کہ لکھتا ہے ، پیغمبر(ص) کی تقریر کے بعد علی(ع) نے اپنی جگہ سے اٹھ کے ایمان کا اعلان کیا اور وہ خلافت کا بزرگ منصب ان کو حاصل ہوا" پیرس کے دار الفنون کا معلم کوسیو پول ہو ژو فرانسیس ایک مختصر رسالے میں جو اس نے حضرت خاتم النبیین(ص) کے حالات میں لکھا ہے اور وہ پیرس کے اندر سنہ1884ء میں چھپ چکا ہے ، نیز انگل----- اور ہاشم نصرانی شامی مقالہ الاسلام مطبوعہ سنہ1891ء میں صفحہ 83 سے 86 تک -- اس تعصب اور مخالفت کے جو اس کو اسلام اور مسلمانوں سے تھی۔ اور خصوصیت کے ساتھ مسٹر جان ڈیون پورٹ جو ایک ----- انصاف وہ مولف تھا، اپنی قیمتی کتاب محمد و قرآن میں روشن خیال اور پاک دلی کے ساتھ اس کا اقرار کرتا ہے کہ پیغمبر(ص) نے تبلیغ رسالت کی ابتدا ہی میں علی علیہ السلام کو اپنا بھائی ،وزیر، وصی اور خلیفہ نامزد کردیا تھا ۔ اس حدیث شریف کے علماء اور بہت سے مقامات و اوقات میں اس مقصد کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

خلافت علی(ع) کے بارے میں واضح حدیثیں

1۔ امام احمد ابن حنبل مسند میں اور میر سید علی ہمدانی شافعی مودہ القربی آخر مودت چہارم میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا "يا علي أنت تبرئ ذمتي، و أنت خليفتي على أمتي." یعنی اے علی(ع) تم میری طرف سے برائت ذمہ کرو گے اور تم میری امت پر میرے خلیفہ ہو۔

2۔ امام احمد نے مسند میں متعدد طریقون اور متفاوت الفاظ کے ساتھ ، ابن مغازلی فقیہہ شافعی نے مناقب میں اور ثعلبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا :

" أنت أخي و وصيي و خليفتي و قاضي ديني."

یعنی اے علی (ع) تم میرے بھائی ، وصی ، خلیفہ، اورمیرا قرض ادا کرنے والے ہو۔

3۔ ابو القاسم حسین بن محمد ( راغب اصفہانی) نے محاضرات الادباء و محاورات الشعراء والبلغاء ( مطبوعہ مطبع عامر شرفیہ سید حسین آفندی سنہ1376ھ ، جلد دوم ص213 میں انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" انّ خليلى و وزيرى و خليفتى في اهلى و خير من اترك بعدى يقضى دينى و ينجز موعدى على بن ابى طالب عليه السّلام"

( یعنی در حقیقت میرے دوست ، وزیر، خلیفہ اور بہترین شخص جس کو میں اپنے بعد چھورے جاتا ہون جو میرے قرض ادا کریں گے اور میرا وعدہ وفا کریں گے ، علی ابن ابی طالب ہیں)

4۔ میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی اوائل مودت ششم میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب سے نقل کرتے ہیں کہ جب پیغمبر(ص) نے اصحاب کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا تو فرمایا :

" هذا علی اخی فی الدنيا والآخرة و خليفتی

۱۷۲

فی اهلی و وصی فی امتی و وارث علمی و قاضی دينی ماله منی مالی منه نفعه نفعی و ضره ضری من احبه فقد احبنی ومن ابغضه فقد ابغضنی"

( یعنی یہ علی دنیا و آخرت میں میرے بھائی ---- میرے اہل میں میرے خلیفہ، میری امت میں میرے وصی، میرے علم کے وارث اور میرے قرض کو ادا کرنے والے ہیں۔ جو حقوق انہیں مجھ سے حاصل ہیں وہی حقوق مجھے ان سے حاصل ہیں ان کا نفع میرا نفع اور ان کا نقصان میرا نقصان ہے جس نے ان کو دوست رکھا اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جس نے ان کو دشمنی رکھا اس نے در حقیقت مجھ کو دشمن رکھا۔

5۔ اسی مودت ششم میں انس بن مالک سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ میں پہلے پیش کرچکا ہوں ، اس کے آخر میں ذکر کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے صریحا فرمایا " وهو خليفتى و وزيرى " یعنی علی(ع) میرے خلیفہ اور وزیر ہیں۔

6۔ محمد ابن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں ابوزر غفاری سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

" يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ رَايَةُ عَلِيٍ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَ إِمَامِ الْمُتَّقِينَ وَ قَائِدِ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ والخليفة من بعدی"

( یعنی حوض (کوثر) کے کنارے میرے پاس امیرالمومنین(ع) نورانی چہرے اور ہاتھ والوں کے پیشوا اورمیرے بعد میرے خلیفہ علی(ع) کا علم آئے گا۔

7۔ بیہقی ، خطیب خوارزمی اور ابن مغازلی شافعی نے اپنے مناقب میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا :

" لا ينبغى ان اذهب الّا و انت خليفتى و أنت أوْلى بالمؤمنين من بعدي"

( یعنی یہ درست نہیں ہے کہ میں لوگوں کے درمیان سے اٹھ جاوں بغیر اس کے کہ تم (اے علی(ع)) میرے خلیفہ اورمیرے بعد تمام مومنین سے اولی ہو۔)

8۔ امام ابو عبدالرحمن نسائی نے جو ائمہ صحاح ستہ میں سے ہیں خصائص العلوی ضمن حدیث نمبر23 میں جس نے ابن عباس سے تفصیل کے ساتھ حضرت علی(ع) کے مناقب نقل کئے ہیں، درجات ہارونی کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے علی سے فرمایا " انت خليفتی يعنی فی کل مومن من بعدی " تم میرے خلیفہ ہو یعنی ہر مومن پر میرے بعد۔

بدیہی بات ہے کہ اس جملے اور آخری فقرے سے علی علیہ السلام کو سارے منازل و مراتب ہارونی عطا کرنے کے بعد آپ کی امارت پر نص جلی فرمائی ہے۔ یعنی تم اے علی میری امت اور تمام مومنین میں میرے بعد میرے خلیفہ ہو۔

اس حدیث اور دوسری مروی احادیث کے اندر پیغمبر(ص) کے بیان میں لفظ من یا من بیانیہ ہے یعنی میری موت کے بعد، یا من ابتدائیہ ہے یعنی تم میری امت میں میری وفات کے اول وقت سے میرے خلیفہ ہو۔ بہر حال دونوں صورتوں میں ان جملوں سے حضرت علی(ع) کی خلافت بلافصل ثابت اور متحقق ہوگئی کہ حضرت نص جلی و نص خفی کے ساتھ رسول اللہ (ص) کے بعد تمام امت پر خلیفہ الرسول(ص) تھے۔

9۔ حدیث خلقت ہے جو مختلف طریقوں سے نقل ہوئی ہے، من جملہ ان کے امام احمد ابن حنبل مسند میں،

۱۷۳

میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی میں ابن مغازلی شافعی مناقب میں اور دیلمی فردوس میں مختصر تفاوت الفاظ کے ساتھ سلسلہ روایات و اسناد صحیحہ سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

" خلقت أنا و علي من نور واحد قبل أن خلق اللّه آدم (عليه السّلام) بأربعة آلاف عام، فركّب ذلك فيه، و لم يزل في شي ء واحد حتى افترقنا في صلب عبد المطلب ففی النبوة و فی علی الخلافة"

( یعنی میں اور علی(ع) دونوں خلقت آدم(ع) سے چودہ ہزار سال پہلے ایک نور سے پیدا کئے گئے ، آدم(ع) کی پیدائش کے بعد خدا نے اس نور کو ان کی صلب میں قرار دیا پس ہم ہمیشہ بالکل ایک رہے یہاں تک کہ عبدالمطلب کے صلب میں ایک دوسرے سے جدا ہوئے چنانچہ مجھ میں نبوت اور علی میں خلافت آئی ۔)

10۔ حافظ ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی سنہ313ہجری کتاب الولایۃ میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے اوائل خطبہ غدیر میں فرمایا :

"و قد أمرني جبرائيل عن ربي أن أقوم في هذا المشهد و أعلم كل أبيض و أسود أن علي بن أبي طالب أخي و وصيي و خليفتي و الإمام بعدي "

پھر فرمایا " معاشر الناس ذلك فإن الله قد نصبه لكم ول ي ا إماما و فرض طاعته على كل أحد ماض حكمه جائز قوله ملعون من خالفه مرحوم من صدقه"

(یعنی جبرئیل نے پروردگار کی طرف سے مجھ کو حکم دیا کہ اس مقام پر ٹھہرجاوں اور ہر سفید و سیاہ کو آگاہ کردوں کہ علی بن ابی طالب میرے بھائی میرے وصی ، میرے خلیفہ اورمیرے بعد امام ہیں اے جماعت مردم خدا نے تم پر علی کو ولی و اولی بہ تصرف) اور امام مقرر فرمایا اور ان کی، اطاعت ہر فرد پر واجب کی، ان کا حکم نافذ ہے اور ان کا قول صحیح ہے۔ ملعون ہے وہ شخص جو ان کی مخالفت کرے اور خدا کا رحم ہے اس پر جو ان کی تصدیق کرے)

11۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ میں مناقب احمد سے اور وہ ابن عباس خیر امت) سے ایک روایت نقل کرتے ہیں جو علاوہ نام خلافت کے ان حضرت کے بہت سے مخصوص صفات پر مشتمل ہے جن میں سے ہر ایک الگر الگ آپ کے مقام خلافت کے اثبات پر ایک قرینہ ہے لہذا آپ حضرات کی اجازت سے پوری حدیث پیش کرتا ہوں تاکہ حجت تمام ہو جائے اور سب صاحب سمجھ لیں کہ خاتم الانبیاء(ص) کی منزل رسالت کے بعد علی علیہ السلام کا مرتبہ تمام مقامات سے بالاتر ہے۔ خلاصہ یہ کہ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

" يا علي أنت صاحب حوضي ، و صاحب لوائي، و منجز عداتي و حبيب قلبي، و وارث علمي و أنت مستودع مواريث الأنبياء، و أنت أمين اللّه في أرضه، و أنت حجة اللّه على بريّته، و أنت ركن الإيمان، وعمود الاسلام و أنت مصباح الدجى و منار الهدى، و العلم المرفوع لأهل الدين، یا علی من تبعك نجا و من تخلف عنك هلك، و أنت الطريق الواضح، و أنت الصراط المستقيم، و أنت قائد الغرّ المحجّلين، و أنت يعسوب الدين، و أنت مولى

۱۷۴

من أنا مولاه، و أنا مولى كل مؤمن و مؤمنة، لا يحبّك إلا طاهر الولادة و لا يبغضك إلا خبيث الولادة، و ما عرج بي إلى السماء و كلّمني ربي إلا قال لي: يا محمّد أقرئ عليّا مني السلام، و عرّفه أنه إمام أوليائي و نور أهل طاعتي، فهنيئا لك هذه الكرامة يا علي."

( یعنی اے علی(ع) تم میرے حوض کے مالک، میرے علم کے حامل، میرے دلی دوست، میرے وصی، میرے علم کے وارث اورمیرے خلیفہ ہو تم مجھ سے قبل کے سارے انبیاء کی میراثوں کے امانت دار ہو، تم زمین پر خدا کے امین اور تمام مخلوق پر اللہ کی حجت ہو، تم ایمان کے رکن اور اسلام کے محافظ ہو، تم ظلمت کے چراغ، ہدایت کے نور اور اہل دنیا کے لیے بلند کئے ہوئے علم ہو۔ اے علی (ع) جو تمہاری پیروی کرے وہ نجات یافتہ ہے اور جو شخص تم سے روگردانی کرنے وہ ہلاک ہونے والا ہے، تم راہ روشن اور صراط مستقیم ہو، تم سفید و سیاہ چہرے والوں کے پیشوا اور مومنین کے سلطان ہو۔ تم ہر اس شخص کے مولا و آقا ہو جس کا میں ہولا و آقا ہوں اور می ہر مومن و مومنہ کا مولا و آقا ہوں تم کو وہی دوست رکھتا ہے جو حلال زادہ ہے اور تم کو وہی شخص دشمن رکھتا ہے جو حرام زادہ ہے۔ خدا مجھ کو آسمان پر نہیں لے گیا اور مجھ سے کلام نہیں کیا لیکن یہ کہ فرمایا اے محمد(ص) علی(ع) کو میرا سلام پہنچاو اور ان سے بتا دو کہ وہ میرے دوستوں کے امام اورمیرے فرمانبرداروں کے نور ہیں۔ پھر آں حضرت نے فرمایا کہ مبارک ہو تم کو یہ کرامت یا علی(ع)۔)

12۔ ابو الموید موفق الدین اخطب خطباء خوارزمی نے کتاب فضائل امیرالمومنین(ع) ( طبع سنہ1313 ہجری) ص240 میں انیسویں فصل کے ضمن میں اپنے اسناد کے ساتھ حضرت خاتم الانبیاء(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا ۔ میں جس وقت معراج میں سدرۃ المنتہی پر پہنچا تو خطاب ہوا کہ اے محمد(ص) تم نے لوگوں کی آزمایش کی تو کس شخص کو سب سے زیادہ اپنا فرمانبردار پایا: میں نے عرض کیا علی(ع) کو "صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ " ارشاد ہوا تم نے سچ کہا اے محمد(ص)، پھر فرمایا :

" فَهَلِ اتَّخَذْتَ لِنَفْسِكَ خَلِيفَةً يُؤَدِّي عَنْكَ وَ يُعَلِّمُ عِبَادِي مِنْ كِتَابِي مَا لَا يَعْلَمُونَ قَالَ قُلْتُ اخْتَرْ لِي قَالَ قَدِ اخْتَرْتُ لَكَ عَلِيّاً فَاتَّخِذْهُ لِنَفْسِكَ خَلِيفَةً وَ وَصِيّاً وَ تجليه عِلْمِي وَ حِلْمِي وَ هُوَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ حَقّاً لَمْ يَنَلْهَا أَحَدٌ قَبْلَهُ وَ لَا أَحَدٌ بَعْدَهُ."

(یعنی آیا تم نے اپنے لیے کوئی خلیفہ منتخب کیا ہے جو تمہارے مقاصد کو لوگوں تک پہنچائے اور میری کتاب میں سے میرے بندوں کو ان باتوں کیتعلیم دے جو ان کو نہیں معلوم ہیں؟ میں نے عرض کیا پروردگار تو جس کو انتخاب فرمائے اسی کو میں بھی منتخب کرتا ہوں۔ خطاب ہوا کہ میں نے تمہارے لیے علی(ع) کو منتخب کیا۔ پس ان کو تمہارا خلیفہ اور وصی قرار دیتا ہوں اور ان کو اپنے علم و حلم سے آراستہ کیا۔ وہ حقیقی امیرالمومنین ہیں کہ پہلے والوں میں سے اور بعد والوں میں سے کوئی شخص اس منزلت پر فائز نہیں ہوسکتا۔)

۱۷۵

اس طرح کی حدیثیں آپ کی معتبر کتابوں میں بہت ہیں لیکن جتنی اس وقت مجھ کو یاد تھیں وہ یہ نے پیش کر دیں تاکہ جناب حافظ صاحب یہ جان لیں کہ میں شاخ و برگ کا اضافہ نہیں کرتا ہوں بلکہ اصل واقعہ اور حقیقت بیان کرتا ہوں۔ جیسا کہ خود آپ کے بعض اںصاف پسند اکابر علماء نے بھی اس مطلب کی تصدیق کی ہے۔ جیسے نظا بصری چنانچہ صلاح الدین صفوی نے وافی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ضمن الف ذیل حالات ابراہیم بن سیاد بن ہانی بصری معروف بہ نظام معتزلی میں کہا ہے کہ :

"نصّ النبيّ صلّى اللّه عليه و آله و سلّم على انّ الإمام عليّ و عيّنه و عرفت الصحابة ذلك و لكنّه كتمه عمر لأجل أبي بكر رضي اللّه عنهما"

( یعنی رسول اللہ (ص) نے علی (ع) کی امامت پر نص فرمائی ہے اور ان کو امام معین فرمایا ہے ، اور صحابہ بھی اس بات سے اچھی طرح واقف تھے لیکن عمر نے ابوبکر کی خاطر علی کی امامت و خلافت پر پردھ دالا۔

افسوس ہے کہ ہم نے رسول (ص) کا زمانہ نہیں دیکھا ہے لیکن آج جب ہم حق کا راستہ ڈھونڈھنا چاہتے ہیں تو مجبور ہیں کہ آیات قرآن اور متفق علیہ فریقین صحیح و صریح حدیثوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں قطعی طور پر جو ذات خدا کو محبوب تھی اور آیات قرآن مجید اور کثیر و متواتر احادیث رسول(ص) کے دلائل سے جس کو علم و فضل میں مقدم اور ساری امت سے افضل اور برتر ثابت کیا گیا ہے، ہم بھی بجا طور پر اس کی پیروی اور اطاعت کرتے ہیں۔

آپ ہی کی معتبر کتابوں میں جو حدیثیں درج ہیں ان میں بہت سے مقامات پر صراحت کے ساتھ خلافت و ولایت اور وصایت کے الفاظ آئے ہیں، اس کے علاوہ چونکہ علی علیہ السلام خصائص و فضائل کے مجموعہ تھے۔ جیسا کہ گزشتہ شبوں میں ہم نے کچھ اشارے کئے ہیں کہ آپ سوا نبوت خاصہ کے پیغمبر خاتم الانبیاء کے ساتھ تمام خصوصیات میں شریک اور ساری امت سے افضل تھے اور آیات قرآنیہ اور بکثرت اخبار متواترہ کے مطابق افراد بشر میں سے کوئی شخص ان بزرگوار کے فضائل و کمالات میں سے عشر عشیر بلکہ ہزار میں سے ایک پر بھی فائز نہیں ہے جیسا کہ خطیب خوارزمی نے مناقب میں بروایت ابن عباس جمہور سے ، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، سلیان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب سےنقل کیا ہے اور سب نے الفاظ کے مختصر پس و پیش کے ساتھ لکھا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

" لو أنّ الرّياض أقلام، و البحر مداد، و الجنّ حسّاب، و الإنس كتاب، ما أحصوا فضائل عليّ بن أبي طالب عليه السلام."

( یعنی اگر سب درخت قلم بن جائیں ۔ سمندر روشنائی ہوجائے سارے جنات حساب کریں اور کلی انسان لکھنے والے ہوں جب بھی علی ابن ابی طالب(ع) کے فضائل شمار نہیں کرسکتے ۔ کیا خوب کہا ہے فارسی کے شاعر نے

کتاب فضل ترا آب بہر کافی نیست کہ تر کنی سر انگشت و صفحہ بشماری

لہذا حضرت منصب خلافت اور جانشینی رسول (ص) کے لیے سب سے بڑھ کر سزاوار اور سب سے زیادہ حقدار تھے۔

۱۷۶

شیخ صاحب پھر بھی بولتے ہیں

شیخ عبدالسلام:( حافظ محمد رشید صاحب کی طرف رخ کر کے کہا) اجازت دیجئے کہ مختصر طور پر میں بھی کچھ باتیں پیش کروں اور آپ بھی تھوڑی دیر دم لے لیں ( پھر میری طرف مخاطب ہوئے کہ) جناب ہم لوگ مولانا علی کرم اللہ وجہہ کے فضائل کے ہرگز منکر نہیں ہیں لیکن صرف انہیں حضرت پر انحصار کردینا نا معقول بات ہے کیونکہ پیغمبر(ص) خاص صحابہ یعنی خلفائے راشد رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک صاحب فضائل تھا اور سب کے سب آپس میں برابر تھے آپ چونکہ یک رخی گفتگو کررہے ہیں جس سے ممکن ہے کہ حاضر و غائب حضرات پر حقیقت مشتبہ ہوجائے اور وہ یہ سمجھیں کہ جو کچھ آپ فرمارہے ہیں وہی درست ہے لہذا اجازت دیجئے کہ ان حضرات کے فضائل میں جو احادیث ہیں کچھ ان میں سے بھی بیان کردوں تاکہ حق بے نقاب ہوجائے۔

خیر طلب : ہم خاص طور پر اشخاص کی طرف توجہ نہیں رکھتے بلکہ عقل و علم اور منطق کے پابند ہیں۔ ہم خود سے یک رخی گفتگو نہیں کرتے قرآنی آیتیں اور فریقیں کی متفق علیہ صحیح و صریح حدیثیں ہم کو یک طرفہ پتہ دے رہی ہیں۔ البتہ صحابہ کے بارے میں بھی خدا گواہ ہے کہ جاہلانہ محبت اور دشمنی نہیں رکھتا میں نے ہرگز ایک طرفہ تعصب اختیار نہیں کیا اور نہ کروں گا اور حضرات حاضرین جلسہ سے بھی درخواست ہے کہ جس جگہ پر میرا کوئی تعصب دیکھیں یا کوئی ایسی بات سنیں جو عقل و برہان اور منطق کے مطابق نہ ہو تو مہربانی کر کے توجہ دلا دیں ممنوں ہوں گا۔

یہاں فضیلت صحابہ سے انکار نہیں لیکن افضل کا انتخاب ہونا چاہیئے

البتہ یہ بالکل درست ہے کہ متفق علیہ اور مقبول الفریقین احادیث کو بیان کیجئے میں جان و دل سے قبول کروں گا کیونکہ میں نیکوکار پاک صحابہ کی فضلیت سے انکار نہیں کرتا۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر کسی فضیلت کا حامل ہو لیکن ضرورت تو اس کی ہے کہ ایسی ہستی تلاش کی جائے جو فریقین ( سنی شیعہ) کے نزدیک ساری امت سے افضل ثابت ہو، اس لیے کہ ہماری بحث صاحب فضل کے بارے میں نہیں ہے، کیونکہ فضلاء بہت ہیں بلکہ یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ رسول اکرم(ص) کے بعد کون شخص تمام امت سے افضل تھا تاکہ ہم اس کو عقل و نقل کی روشنی میں مقدم سمجھیں اور اسی کی پیروی کریں۔

شیخ : یہ تو آپ خواہ مخواہ کی قید لگا رہے ہیں کیونکہ آپ کی کتابوں میں تو ایک حدیث بھی خلفاء کے فضائل میں موجود نہیں ہے لہذا ہم متفق علیہ احادیث کہاں سے پیش کرسکتے ہیں۔

۱۷۷

خیر طلب : اولا یہ اعتراج تو خود آپ ہی کی طرف پلٹتا ہے کہ پہلی شب کو بغیر مطالعہ کئے ہوئے کیوں بات چیت کی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو شب اول جناب حافظ صاحب ہی نے یہ شرط رکھی تھی کہ مباحثے کے دوران میں ہمارا استدلال قرآن مجید کے آیات اور فریقین کے متفق علیہ احادیث سے ہوگا، میں بھی چونکہ آپ کی معتبر کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرچکا تھا لہذا اس کو قبول کر لیا۔ آپ اورسارے حاضرین جلسہ گواہ ہیں کہ پہلی رات سے اب تک میں اس قرار داد سے الگ نہیں ہوا اور ثبوت میں صرف قرآن مجید کی آیتوں اور آپ کے موثق علماء کی معتبر کتابوں سے صحیح و اصریح احادیث ہی کو پیش کرتا رہا ہوں اور آئندہ جس وقت تک یہجلسے قائم رہیں گے اور آپ حضرات کی ملاقات سے مشرف ہوتا رہوں گا انشاء اللہ اس معاہدے سے باہر نہ جاوں گا۔ ثانیا جس وقت آپ نے یہ شرط معین کی تھی تو اس پر غور نہیں کیا تھا کہ ایک وقت خود ہی اسی مصیبت میں پھنس جائیے گا؟ پھر بھی میں اس قرارداد کو سخت گیری کا بہانہ نہیں بناتا ہوں، میں حاضر ہوں کہ آپ کی ایک طرفہ صحیح اور صریح حدیثوں کو جو گھڑی ہوئی نہ ہوں اور عقلی و نقلی دلائل کے موافق ہوں سنوں اور پھر ہم اور آپ مل کر انصاف کے ساتھ حق فیصلہ کریں، چنانچہ اگر حضرت علی علیہ السلام کی کثرت فضائل سے تقابل ہوجائے گا تو ہم ماں لیں گے۔

شیخ صاحب : نصوص خلافت کے سلسلے میں آپ نے حدیثیں نقل کیں لیکن اس سے غافل رہے کہ اس قسم کی احادیث خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے بہت آئی ہے۔

خیر طلب : اس بات کا لحاظ رکھتے ہوئے کہ خود آپ کے اکابر علماء جیسے ذہبی ، سیوطی اور ابن ابی الحدید وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ بنی امیہ اور ابوبکر کے ماننے والوں نے ابوبکر کے فضائل میں کثرت سے حدیثیں گھڑی ہیں ، نمونے کے طور پر جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے ان بہت میں سے کوئی ایک حدیث نقل فرمائیے تاکہ متعصب اور غیر متعصب فیصلہ کرنے والے اس پر فیصلہ دیں۔

فضیلت ابوبکر میں نقل حدیث اور اس کا جواب کہ یہ وضعی ہے

شیخ : ایک معتبر حدیث عمر بن ابراہیم بن خالد سے وہ عیسی بن علی بن عبداللہ بن عباسی سے وہ اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اس بزرگوار سے فرمایا :

" يا عمی ان الله جعل ابا بکر خليفتی علی دين الله فاسمعوا له و اطيعوا تفلحوا "

( یعنی اے چچا در حقیقت خدائے تعالی نے ابوبکر کو اللہ کے دین پر میرا خلیفہ بنایا ہے پس ان کی بات سنو اور اطاعت کرو تاکہ نجات پاو۔)

خیر طلب : اس سے قطع نظر کہ یہ حدیث یک طرفہ ہے اور ہمارا معاہدہ یہ نہیں تھا کہ ایسی حدیثوں سے استدلال

۱۷۸

کریں، یہی یک طرف حدیث اگر مردود نہ ہوتی تو ہم اس کے بارے میں بحث کرتے۔

شیخ : کس طرح مردود ہے ؟ آپ سبھی مطالب کو زبانی باتوں سے ثابت کرنا چاہتیے ہیں۔

خیر طلب : آپ کو دھوکا ہوا ہے۔ ہم لفاظی کرنے والے نہیں ہیں بلکہ صاحبان عمل ہیں۔ اس حدیث کو ہم نے رد نہیں کیا ہے بلکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے رد کیا ہے، اس لیے کہ اس کے راوی ان کی نظر میں سخت جھوٹے اور جعل ساز ہیں اور اسی وجہ سے اس کو باطل اور درجہ اعتبار سے ساقط سمجھتے ہیں، چنانچہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ابراہیم بن خالد کی کیفیت لکھتے ہوئے اور خطیب بغدادی نے عمر بن ابراہیم کا حال درج کرتے ہوئے ( اپنی تاریخ میں تحریر کیا ہے کہ انه کذاب ( یعنی یہ بہت بڑا جھوٹا ہے 12 مترجم) پس کذاب اور دروغگو شخص کی حدیث باطل، مردود اور ناقابل قبول ہوا کرتی ہے۔

شیخ : اخبار صحیحہ میں ثقہ صحابی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبرئیل پیغمبر(ص) پر نازل ہوئے اور عرض کیا کہ خدا آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں ابوبکر سے راضی ہوں ان سے پوچھو کہ آیا وہ بھی مجھ سے راضی ہیں یا نہیں؟

خیر طلب : یہ بہت ضروری چیز ہے کہ مقدمے کے طور پر ہم اس بات کو سمجھ لیں کہ نقل احادیث میں ہم کو بہت محتاط رہنا چاہیئے تاکہ صاحبان عقل کے اعتراض سے محفوظ رہیں ضمنا آپ کی توجہ یاد دہانی کے لیے ایک حدیث نقل کرتا ہوں جو آپ کے اکابر علماء جیسے ابن حجر نے اصابہ میں اور ابن عبدالبر نے استیعاب میں خود ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" کثرت علی الکذاب و من کذب علی متعمدا فقد تبوع مقعده من النار کما حدثتم بحديث منی فاعرضوه علی کتاب الله."

( یعنی بہت ہوگئے مجھ پرجھوٹ باندھنے والے اور جو شخص مجھ پر عمدا جھوٹ بولے اس کی قیام گاہ آتش جہنم ہے ، جس وقت تمہارے سامنے میری طرف سے کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کو قرآن کے سامنے پیش کرو۔

یعنی اگر مطابق قرآن ہوتو قبول کرو ورنہ رد کردو۔ نیز فریقین کی متفق علیہ حدیث ہے جیسا کہ امام فخرالدین رازی نے بھی تفسیر کبیر جلد سیم ص371 میں آنحضرت(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

"إذا روي عني حديث فاعرضوه على كتاب الله تعالى فإن وافقه فاقبلوه و إلا فردوه."

(یعنی جس وقت تمہارے لیے میری طرف سے کوئی حدیث نقل کی جائے تو اس کو کتاب خدا پر پیش کرو۔ پس اگر وہ قرآن کے موافق ہو تو قبول کر دو ورنہ رد کردو) چنانچہ آپ کے اکابر علماء کی کتابوں میں وارد ہے کہ رسول اللہ (ص) کی زبانی حدیثیں گھڑنے والوں میں یہی ابوہریرہ مردود بھی تھے جن سے آپ نے یہ حدیث نقل کی ہے اور بلا وجہ ان کو ثقہ بتایا ہے۔

شیخ : آپ کے ایسے جلیل القدر مبلغ و عالم اولاد رسول (ص) سے یہ امید نہیں تھی کہ اصحاب پیغمبر(ص) کی نسبت طعن اور رد کیجئے گا۔

خیر طلب : اول تو آپ جانتے ہیں کہ صحابی کی لفظ سے مجھ کو مرعوب کریں حالانکہ یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ صرف صحابی ہونے کو فضل و شرف کا ضامن سمجھتے ہیں، یقینا رسول (ص) کی مصاحبت موثر اورفضل و شرف کا باعث

۱۷۹

ہے، لیکن اس شرط سے کہ مصاحب آں حضرت(ص) کا مطیع و فرمانبردار بھی ہو۔ لیکن اگر آں حضرت(ص) کے احکام و ہدایات کے خلاف عمل کرے اور ہوا و ہوس کا تابع ہو تو قطعا مردود اور کبھی ملعون اور نار حجیم و عذاب الیم کا مستحق ہوگا۔ کیا وہ منافقین جن کی بد کرداری کا شہادت اور جنہمی ہونے کی خبر قرآن مجید کی آیتیں دے رہی ہیں رسول کے مصاحبین میں سے نہیں تھے کہ ملعون اور دوزخی قرار پائے ۔ پس آپ تعجب نہ کریں کہ ابو ہریرہ بھی انہیں مردود و ملعون اور جنہم کے مستحق لوگوں میں سے ہوں۔

شیخ : اول تو ان کا مردود ہونا ثابت نہیں ہے اور اگر فرض کر لیا جائے کہ بعض کے نزدیک مردود بھی ہوں ، تو ان کے جہنمی ہونے پر کیا دلیل ہے؟ کیا ہر مردود ، ملعون اور دوزخی ہوتا ہے؟ ملعون تو وہ شخص ہے جو قرآن کریم کی نص صریح یا پیغمبر(ص) کے ارشاد سے ملعون ہو۔

ابوہریرہ کی کیفیت اور ان کی مذمت

خیر طلب : ابوہریرہ کے مردود ہونے پر دلائل بکثرت اور اظہر من الشمس ہیں جن کی خود آپ کے اکابر علماء نے بھی تصدیق کی ہے من جملہ ان کے دلائل مردودیت کے یہ ہے کہ بقول رسول(ص) ملعون ابن ملعون شخص فرزند ابی سفیان کے ساتھیوں اور منافقین اور دورنگے آدمیوں میں سے تھے کیونکہ صفین میں بعض بعض روز نماز تو امیرالمومنین (ع) ے پیچھے پڑھ لیتے تھے لیکن تر لقمے معاویہ کے مرغن دستر خوان سے اڑاتے تھے ، چنانچہ زمخشری نے ربیع الابرار ، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے کہ جب ان سے اس دوزخی سیاست کا سبب پوچھا جاتا تھا تو کہتے تھے :

"مضيرة (1) معاوية أدسم و أطيب و الصلاة خلف علي أفضل."

(یعنی معاویہ کا مضیرہ اور کھانا کافی روغن دار ہوتا ہے اور نماز علی(ع) کے پیچھے افضل ہے) یہاں تک کہ شیخ المضیرہ کے نام سے مشہور ہوگئے۔

علی (ع) حق اور قرآن سے جدا نہیں ہیں

حالانکہ ( علاوہ اجماع علمائے شیعہ کے) خود آپ کے علماء جیسے شیخ الاسلام حموینی نے فرائد باب37 میں خوارزمی نے مناقب میں، طبرانی نے اوسط میں، گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، ابن قتیبہ نے الامامہ والسیاسہ جلد اول ص68 میں، امام احمد بن حنبل نے مسندمیں ، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں، ابو یعلی نے مسند میں، متقی ہندی نے کنزالعمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ مضیرہ ایک کھانا جو دودھ کے ساتھ تیار ہوتا ہے اور یہ معاویہ کی مخصوص غذا تھی۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369