پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 317450 / ڈاؤنلوڈ: 9857
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

فضائل اور مںصوص شمائل میں حالات کا تفحص و تجسس کرے تو وہ دیکھے گا کہ آپ رسول اللہ(ص) کے قدم بہ قدم ہونے اور آپ حضرت(ص) کے انوار کا نمونہ بننے میں کمال کی آخری منزل پر پہنچے ہوئے ہیں اور ان خصوصیات میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں۔

یہ مولانا امیرالمومنین علیہ السلام کے مدارج عالیہ اور فضائل مخصوصہ کے سلسلے میں خود آپ کے علماء کے بیانات اور اعتراف کا صرف ایک نمونہ تھا تاکہ آپ حضرات سمجھ لیں کہ نہ میں نے غلو کیا ہے اور نہ بیجان دعوی پیش کرتا ہوں بلکہ جملہ شیعہ اول سے آخر تک بغیر دلیل و برہان کے کوئی بیان پیش نہیں کرتے ہمارے تمام دلائل و براہین وہی ہیں جن کی جڑ اور بنیاد آپ لوگوں کے پاس خود آپ کی معتبر کتابوں میں موجود ہے۔لیکن افسوس ہے کہ جس وقت آپ عوام اور نا واقف لوگوں کے درمیان بیٹھتے ہیں تو اپنے اسلاف کی پیروی میں اپنی حیثیت محفوظ رکھنے کے لیے عادتا یک طرفہ فیصلہ کرتے ہوئے رطب و یابس کو باہم مخلوط کر کے تہمتیں لگاتے ہیں اور ان کی نگاہوں اصلیت کو مشتبہ بناتے ہیں بس ان مقدمات کو ذکر کرنے کے بعد ثابت ہوا کہ علی علیہ السلام ساری حیثتیوں میں رسول اللہ(ص) کے شریک و نظیر تھے جیسے کہ ہارون حضرت موسی(ع) کے نسبت تھے۔ لہذا جب موسی(ع) نے ہارون کو تمام بنی اسرائیل کے درمیان اس منصب کے لیے ہر ایک سے زیادہ اہل اور لائق اور سب سے افضل پایا تو پروردگار عالم سے درخواست کی کہ ان کو میرا کام میں شریک قرار دے تاکہ وہ میرے وزیر بنیں اسی طرح خاتم الانبیاء نے بھی چونکہ ساری امت کے درمیان اس عہدے کے لیے کسی کو علی(ع) سے زیادہ قابل و لائق نہیں دیکھا جو کل امت سے افضل ہو لہذا خدائے تعالی سے درخواست کی کہ جس طرح تو نے ہارون کو موسی(ع) کا وزیر و شریک بنایا علی کو میرا وزیر و شریک قرار دے۔

نواب : قبلہ صاحب آیا اس بارے میں کچھ روایتیں اور بھی منقول ہیں؟

خیر طلب: ہاں علاوہ شیعوں کے اجماع کے اس موضوع پر آپ کی معتبر کتابوں میں بھی بہت سی روایتیں مروی ہیں۔

نواب : ان روایات میں سے جس قدر ممکن ہو ہم لوگوں کو بھی سنائیے ، ہم بہت ممنون ہوں گے۔

خیر طلب : میں حاضر ہوں ، اگر آپ حضرات بھی مائل ہوں(اشارہ ان کے علماء کی طرف )۔

حافظ : کوئی حرج نہیں ، کیونکہ نقل حدیث اور اسی طرح اس کا سننا بھی عبادت ہے۔

علی(ع) کو اپنا وزیر بنانے کے لئے پیغمبر(ص) کا سوال

خیر طلب :ابن مغازلی فقیہ شافعی نے مناقب میں، جلال الدین سیوطی نے تفسیر و منشور میں امام المحدثین احمد ثعلبی نے تفسیر کشف البیان میں، اور سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ضمن نزول آیہ ولایت میں نیز ص۱۴ میں ابوذر عفاری

۱۶۱

اور اسماء بنت عمیس زوجہ ابوبکر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ایک روزہم لوگوں نے مسجد میں نماز ظہر پڑھی اور رسول اللہ (ص) بھی موجود تھے کہا ایک سائل نے اٹھ کر سوال کیا ،کسی نے اس کو کچھ نہیں دیا۔ علی علیہ السلام نماز میں رکوع کے اندر تھے ہاتھ سے اپنی انگلی کی طرف اشارہ کیا سائل نے آپ کی انگلی سے انگوٹھی اتار لی، پیغمبر(ص) نے یہ معاملہ دیکھا تو سر مبارک آسمان کی طرف بلند فرمایا اور عرض کیا :

" اللهم ان اخی موسی سلک فقال رب اشرح لی صدری ويسر لی امری الايه الی قوله. واشرکه فی امری فانزل عليه فلانا ناطقا سنشد عضدک باخيک و نجعل لکما سلطانا فلايصلون اليکما"

یعنی پروردگارا میرے بھائی موسی نے تجھ سے سوال کیا اور کہا خدایا میرے لیے میرا سینہ کشادہ کردے اور میرے لیے میرے کام کو ( تبلیغ رسالت میں) آسان کردے۔ یہاں تک کہ کہا میرے بھائی ہارون کو میرا شریک کار بنا دے۔ پس ان حضرت پر یہ آیت نازل فرمائی کہ ( اے موسی) ہم نے تمہاری دعا قبول کی تمہارے بھائی ہارون کی شرکت و وزارت سے تمہارا بازو مضبوط کرتے ہیں اور تم دونوں کو عالم میں ایسی قدرت و حکومت دیتے ہیں کہ وہ تم پر قابو نہ پاسکیں۔ پھر عرض کیا :

"للهم و انا محمد صفيک ونبيک فاشرح لی صدری ويسر لی امری واجعل لی وزيرا من اهلی عليا اشدد به ازری"

یعنی خداوندا میں محمد(ص) تیرا برگزیدہ اور پیغمبر ہوں پس میرا سینہ کشادہ کردے، میرے لیے میرا امر آسان بنادے اور میرے لیے میرے اہل میں سے ایک وزیر قرار دے اور وہ علی ہوں، ان کے وجود سے میری پشت مضبوط فرمادے) ابوذر کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ابھی پیغمبر(ص) کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ جبرئیل نازل ہوئے آيه انما وليکم الله و رسوله الخ آں حضرت(ص) کو پہنچائی، انتہی۔ معلوم ہوا کہ پیغمبر(ص) کی دعا مستجاب ہوئی اور علی(ع) ( مانند ہارون کے موسی کے لیے) وزارت رسول(ص) پر برقرار ہوئے۔ محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص۱۹ میں مفصل شرح کے ساتھ اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

حافظ ابو نعیم اصفہانی نے کتاب منقبۃ لامطہرین میں، شیخ علی جعفری نے کنز البراہین میں امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، سید شہاب الدین نے توضیح الدلائل میں، جلال الدین سیوطی نے درمنثور میں اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے جن کے ناموں کی تفصیل تنگی وقت کی وجہ سے نزظر انداز کرتا ہوں اپنی تصنیفات و تالیفات میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ بعض نے اسماء بنت عمیس (زوجہ ابوبکر) سے اور بعض نے دوسرے صحابہ سے یہاں تک کہ ابن عباس ( خیر امت) رضوان اللہ عنہ سے بھی روایت کی ہے کہ:

" اخذ رسول الله بيدی و بيد علی بن ابی طالب فصلی اربع رکعات ۔"

یعنی رسول خدا(ص) نے میرا ہاتھ اور علی(ع) کی ہاتھ پکڑا پھر چار رکعت نماز پڑھی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے عرض کیا:

" اللهم سئلک موسی بن عمران وأنا محمد اسئلک ان تشرح لی صدری و تيسر لی امری و انحل عقدة من لسانی يفقهم اقوالی واجعل لی وزيرا من اهلی عليا

۱۶۲

اشدد به ازری اشرکه فی امری ۔ "

یعنی خداوند موسی ابن عمران نے تجھ سے سوال کیا ( اپنے بھائی ہارون کی ذرات اور امر نبوت و تبلیغ رسالت میں شرکت کے لیے) اور میں محمد(ص) ہوں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرا سینہ کشادہ کر دے ، میرے امر کو آسان بنادے، میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات کو سمجھیں اورمیرے اہل میں سے میرے لیے ایک وزیر علی(ع) کو قرار دے ان سے میری پشت کو مضبوط کر اور ان کو میرے کام میں شریک قرار دے ( جو رسالت اور حقائق کا پہنچانا ہے) ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے ایک منادی کی آواز سنی جو یہ کہہ رہا تھا ي ا احمد قد اوتيت ما سئلت یعنی اے احمد تم نے جو کچھ مانگا ہم نے تم کو عطا کیا۔ اس وقت رسول اللہ (ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاو اور اپنے خدا سے دعا کرو تاکہ تم کو کچھ عطا فرمائے ۔ پس علی(ع) نے ہاتھوں کو بلند کر کے عرض کیا۔ اللهم اجعل لی عند ع ه دا واجعلنی عندک ودا ۔ یعنی پروردگارا میرے لیے اپنے نزدیک ایک عہد قرار دے اور میرے لیے اپنے پاس محبت و مودت معین فرما پس جبرئیل نازل ہوئے اور یہ آیہ شریفہ ( آخر سورہ مریم کی) لائے :

" إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ- سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمنُ وُدًّا"

(یعنی جو لوگ ایمان لائے اور نیکو کار بنے خدائے رحمان ان کو محبوب قرار دیتا ہے (یعنی ان کی محبت و مودت کو مسلمانوں کے دلوں میں جاگزین کرتا ہے) اصحاب نے یہ معاملہ دیکھ کر تعجب کیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مما تعجبون ان القرآن اربعة ارباع فربع فينا اهل البيت خاصا وربع حلال و ربع حرام و ربع فرائض و احکام والله انزل فی علی کرائم القرآن یعنی تم کس چیز سے تعجب کرتے ہو؟ قرآن کے چار حصے ہیں ایک ربع ہم اہل بیت(ع) کے لیے مخصوص ہے ایک ربع حلال میں ایک ربع حرام میں اور ایک ربع فرائض و احکام میں ہے۔ خدا کی قسم قرآن مجید کی بزرگ آیتیں علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔)

شیخ ، اگر اس حدیث کو صحیح بھی فرض کر لیا جائے تو علی کرم اللہ وجہہ سے اس کو کوئی خصوصیت نہیں بلکہ یہی حدیث دو عظیم الشان خلیفہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بھی صادر ہوئی ہے چنانچہ قزعہ بن سوید نے ابن ابی ملیکہ سے اس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ابوبکر و عمر منی بمنزل ة هارون من موسی.

خیر طلب : اگر آپ حضرات تھوڑا غور کر لیتے اور رجال روات کی طرف رجوع کرتے تو اپنے کو خواہ مخواہ زحمت میں نہ ڈالتے کہ کبھی آمدی کے قول سے اور کبھی انہتائی جھوٹے اور جعل ساز قزعہ بن سوید کے قول سے استدلال کریں، حالانکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے اس امر کو مردود اور اس کی نقل کی ہوئی حدیثوں کو نا قابل قبول ٹھہرایا ہے۔ خصوصا علامہ ذہبی نے کتاب میزان الاعتدال کے اندر حالات قزعہ بن سوید و عمار بن ہارون کے ترجمے میں اس حدیث کا انکار کیا ہے اور کہتے ہیں هذا کذب یعنی یہ جھوٹ ہے ۱۲ مترجم) پس جب قزعہ آپ کے علماء کے

۱۶۳

نزدیک مردود ہے تو وہ حدیث بھی مردود ہے جو اس سے منقول ہو۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے اس کو مان بھی لیا جائے تو آپ حضرات قزعہ کی روایت کا ذرا اس سلسلہ روایت سے موازنہ کیجئے جس کو تمام علمائے شیعہ سے قطع نظر جنہوں نے مسلم حیثیت سے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے ہم نے خود آپ ہی کے بزرگ ترین علماء سے نقل کیا ہے ۔ اس وقت اںصاف کے ساتھ فیصلہ کیجئے کہ ان دونوں حدیثوں میں سے کون سی ، ماننے کے قابل ہے۔

( جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو ان حضرات نے گھڑیوں پر نظر کی اور کہا کہ ہم لوگ بات چیت میں ایسے محو ہوگئے کہ اپنی طرف خیال ہی نہ کیا ، توجہ ہوئی کہ آدھی رات گذر چکی ہے ۔ بہتر ہوگا کہ اسی موضوع پر بقیہ بحث کل شب پر رکھی جائے۔ اس کے بعد اٹھے اور شب بخیر کہہ کے بعافیت تشریف لے گئے۔)

پانچویں نشست

( شب سہ شنبہ ۲۷ رجب سنہ۱۳۴۵ ہجری)

(آج مولوی صاحبان اول شب میں اور زیادہ مجمع کے ساتھ تشریف لائے اور چائے وغیرہ کے بعد حافظ صاحب نے بحث کا افتتاح کیا۔)

حافظ : آج میں کافی دیر تک آپ کی کل رات والی تقریروں پر غور کرتا رہا اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ آپ ماشاء اللہ بہت زیادہ زبان آور ہیں، اپنی جادو بیانی کے علاوہ آپ چاہتے ہیں کہ حسن تقریر کے ساتھ بات کا بتنگز بنا کے یہ ثابت کردیں کہ اس حدیث منزلت میں پیغمبر بزرگوار (ص) نے اپنے بیان مبارک سے علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت بلا فصل کا اعلان فرمایا ہے حالانکہ یہ حدیث ایک خصوصی پہلو رکھتی ہے اور غزوہ تبوک کے سفر میں ارشاد ہوئی تھی جس کی عمومیت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔

منزلت کا لفظ عموم کا فائدہ دیتا ہے

خیر طلب : اگر حضرات حاضرین جلسہ میں سے کسی نے یہ اشکال پیش کیا ہوتا تو حیرت نہ ہوتی لیکن آپ جیسی شخصیت سے سخت تعجب ہے کہ اہل زبان اور ادبیات عرب اور اصول و قواعد کے عالم ہونے کے باجود کس لیے اس طرح کی باتیں کرتے ہیں حالانکہ خود جانتے ہیں کہ اہل زبان کے متعارف کلمات میں ہر موقع پر استثناء

۱۶۴

اور مستثنی منہ عموم پر دلالت کرتا ہے اور اس حدیث شریف میں بالخصوص کلمہ منزلت جو علم کی طرف مضاف ہے۔ قطعی اور یقینی طور پر صحت استثناء کی دلیل سے عموم کا فائدہ دیتا ہے اس لیے کہ الا انه لا نبی بعدی میں استثنائے متصل ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو معلوم ہے کہ اصولیین نے اس چیز کی تصریح کردی ہے کہ اسم جنس مضاف عموم کا فائدہ دیتا ہے خصوصا جس وقت الف لام کے ساتھ ہو پس آںحضرت(ص) کے کلام میں لفظ منزلت جو علم کی طرف مضاف ہے مقید عموم ہے اگرچہ بعض علماء اس نظریے کے خلاف گئے ہیں لیکن بڑے بڑے اور کامل اصولی علماء ہمارے ہی عقیدے کے حامل ہیں کہ مفرد جو معرفہ کی طرف مضاف ہوبنا بر اصح عموم کے لیے ہے اور اس حکم میں اس بات کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے کہ معرفہ علم ہو یا ضمیر اور استثناء کا وجود عموم پر دلالت کی شرط نہیں ہے بلکہ صحت استثناء عموم میں کافی ہے۔

پس اس بناء پر انت منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی عموم پر دلالت کرتا ہے اور جملہ لا نبی بعدی حمل بر معنی ہے جو الا النبوة ہے اور حمل بر معنی کا قاعدہ مشہور اور معمول بہا قواعد میں سے ہے جو فصحاء بلغاء کے کلمات نظم نثر میں عام طور پر مشتمل ہے۔

حافظ : میرا خیال ہے کہ جناب عالی ذرا گہری نظر ڈالیں تو اس طرف متوجہ ہوں گے کہ انه لا نبی بعدی جملہ خبریہ ہے اور اس کو منازل ہارونی سے مستثنی نہیں کیا جاسکتا لہذا ان چیزوں سے ہٹ کر صراحت سے علیحدگی حمل بر معنی اور حذف کلمہ نبوت کا کیا مطلب ہے؟

خیر طلب : بڑی بے لطفی کی بات ہے کہ آپ نے کچ بحثی کا راستہ اختیار کیا ہے حالانکہ آپ جیسے شریف انسان سے یہ بات کچھ بھی نہیں معلوم ہوتی ۔ اگر آپ سابق جملوں پر تھوڑا غور فرمائیں تو سمجھ میں آجائے گا کہ جملہ خبریہ کا جواب عرض ہوچکا ۔ اب آپ نے جو یہ فرمایا کہ کس لیے معنی پر حمل کیا اور ظاہری لفظ سے مطلب ادا نہیں کیا تو آپ اس کو خود بہتر جانتے ہیں اور تجاہل عارفانہ کررہے ہیں، کیونکہ علمائے علم بیان کی نظر میں یہ چیز عام ہے کہ کلام کے اختصار اور حسن بیان کے لیے کلمے کو حذف کرتے ہیں اور بلغاء و فصحاء کے فقرات و کلمات میں کثرت سے اس کی نظیر موجود ہیں جن سے آپ خود اچھی طرھ واقف ہیں۔

اس کے علاوہ ہم کو اس وقت اس تحقیق کی ضرورت ہوگی جب حدیثوں میں نبوت کا لفظ آیا ہو حالانکہ آنحضرت(ص) نے کلمہ نبوت کے ساتھ علی علیہ السلام کے لیے مکرر اس منزلت کا اثبات کیا ہے اور کبھی اختصار کلام اور حسن بیان کی غرض سے کلمہ نبوت کو حذف کر کے مقصد کا اظہار فرمایا ہے ۔ بعض اوقات میں جملہ انه لا نبی بعدی اور حذف کلمہ نبوت سے اور کسی وقت کلمہ الا النبوة کے کھلے ہوئے بیان سے حقیقت کو ثابت فرمایا چنانچہ آپ کے بزرگ علماء نے دونوں کو درج کیا ہے ۔ نمونے کے طور پر چند حدیثیں پیش کرتا ہوں تاکہ حجت تمام ہوجائے۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب ۷۰ میں ، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب ۶ میں ، ابن کثیر

۱۶۵

نے اپنی تاریخ میں عائشہ بن سعد سے، انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے رسول خدا (ص) سے ، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص۱۲ میں مسند امام احمد اور مسلم وغیرہ سے اور انہوں نے ابوبریرہ سے، امام احمد ابن حنبل نے مناقب میں ، ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی نے ---- صحاح ستہ میں سے ہیں ) خصائص العلوی میں چار حدیثیں اپنے اسناد کے ساتھ سعد بن ابی وقاص سے اور عائشہ سے اور انہوں نے اپنے باپ سے اور خطیب خوارزمی نے مناقب میں جابر ابن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے علی(ع) سے فرمایا :

" اما ترـی ان ت کون منی بمنزلة هارون من موسی الا النبوة."

یعنی آیا تم راضی نہیں ہو اس پر کہ محمد سے تمہاری وہی منزلت ہو جو ہارون کو موسی سے تھی علاوہ نبوت کے)۔

اور میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودۃ ششم میں ایک حدیث انس بن مالک سے نقل کی ہے جس کو مکمل طور پر کل شب میں عرض کر چکا ) اس کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے :

" ولو کان بعدی نبيا لکان علی نبيا ولکن لا نبوة بعدی."

میرا خیال ہے کہ نمونے کے لیے اسی قدر کافی ہوگا تاکہ آپ حضرات مغالطہ نہ دیں بلکہ سمجھ لیں کہ مستثنی نبوت ہے نہ کہ عدم نبوت اور اس معتبر حدیث سے ثابت ہے کہ جس طرح موسی کلیم اللہ نے اپنی چالیس روز کی غیبت میں امت کا معاملہ اس کے ہاتھ میں نہیں چھوڑا اور ہارون کو جو تمام بنی اسرائیل سے افضل تھے اپنا خلیفہ اور وصی مقرر فرمایا تاکہ امر نبوت آپ کی عدم موجودگی میں مختل نہ ہوا پیغمبر کا بھی جن کی شریعت کامل تر، جن کے ہدایات ہمہ گیر اور جن کے قوانین روز قیامت تک باقی اور پائدار ہیں، بدرجہ اولی یہ فریضہ تھا کہ جاہل لوگوں کو ان کے حال پر نہ چھوڑیں نادان خلقت کو حیرانی میں نہ ڈالیں اور شریعت کو جہال کے ہاتھوں میں نہ دے دیں تاکہ ہر شخص اس میں اپنی منشا کے مطابق تصرفات کرے۔ ایک شخص رائے اور قیاس پر عمل کرے تو دوسرا شریعت اور طریقت کے درمیان فرق قائم کرے اور تخریب پسند عناصر کو موقع ہاتھ آئے کہ ایک خالص اور سادہ ملت کو تہتر حصوں میں تقسیم کریں۔ لہذا اس حدیث شریف میں ارشاد فرماتے ہیں کہ علی (ع) مجھ سے بمنزلہ ہارون ہیں موسی سے یعنی سارے مدارج ہارونی کو ان حضرت کے لیے ثابت فرمایا کہ من جملہ ان کے تمام صحابہ و امت پر آپ کی افضلیت اور عہدہ وزارت و خلافت پر آپ کی تعیین ہے۔ یعنی جس طرح سے ہارون کو موسی نے اپنی غیبت میں خلیفہ قرار دیا تھا علی علیہ السلام بھی میری عدم موجودگی میں میرے خلیفہ ہیں۔

حافظ : آپ نے اس حدیث کی عظمت میں جو کچھ فرمایا وہ تصور سے بالاتر ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ تھوڑا غور فرمائیں تو اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اس حدیث میں کوئی عمومیت نہیں ہے کیونکہ یہ صرف غزوہ تبوت سے مخصوص ہے جب کہ ایک معین مدت کے لیے رسول خدا(ص) نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا خلیفہ نامزد فرمایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص۱۵۶۔

۱۶۶

حدیث منزلت تبوک کے علاوہ بھی کئی مرتبہ وارد ہوئی ہے

خیر طلب: آپ کا یہ فرمانا اس وقت صحیح ہوتا جب یہ حدیث صرف غزوہ تبوک میں ہی صادر ہوتا جب یہ حدیث صرف غزوہ تبوک میں ہی صادر ہوئی ہوتی، حالانکہ اس حدیث کے فقرے متعدد بار اور مختلف مقامات پر پیغمبر(ص) کی زبان مبارک سے سنے گئے ہیں، منجملہ ان کے پہلی مواخات میں جب کہ مکہ معظمہ کے اندر مہاجرین و انصار کے درمیان برادری قائم فرمائی اور دوسری مرتبہ مدینہ منورہ میں جب علی علیہ السلام کو اپنا بھائی منتخب فرمایا تو ارشاد ہوا:

" انت منی بمنزلة هرون من موسی الا انه لا نبی بعدی."

حافظ : یہ ایک عجیب سا بیان ہے کیونکہ اب تک میں نے جہاں تک دیکھا اور سنا ہے ، حدیث منزلت غزوۃ تبوک میں صادر ہوئی تھی کیونکہ پیغمبر(ص) نے علی(ع) کو اپنی جگہ پر چھوڑا جس سے آپ دل تنگ ہوئے تو آنحضرت(ص) نے ان جناب کو ان الفاظ سے تسکین دی۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے اپنے بیان میں دھوکا کھایا ہے۔

خیر طلب : نہیں مجھ کو غلط فہمی نہیں ہوئی بلکہ اس پر یقین رکھتا ہوں ۔ علاوہ علمائے شیعہ کے اتفاق کے آپ کی بھی بہت سی معتبر کتابوں میں منقول ہے۔ من جملہ ان کے (فریقین کے نزدیک مقبول القول) مسعودی نے مروج الذہب جلد دوم ص۴۹ میں، حلبی نے سیرۃ الحلبیہ جلد دوم ص۱۲۶۔ ۱۲۰ میں، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی ص۱۹ میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص۱۳،۱۴، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب ۹، ۱۷ میں مسند امام احمد حنبل سے، عبداللہ بن احمد نے زوائد مسند میں، اور خوارزمی نے مناقب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے یہاں تک کہ مواخات کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی ایسا ہوا ہے لیکن جلسے کا وقت ان سب کو نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

پس آپ حضرات تصدیق فرمائیے کہ یہ حدیث شریف کوئی محدود حیثیت نہیں رکھتی۔ بلکہ اس کی عمومیت ثابت ہے کیونکہ رسول اللہ (ص) نے اس کے ذریعے سے جس موقع پر مناسب سمجھا اپنے بعد علی (ع) کی خلافت کو اس عبارت کے ساتھ مضبوط فرمایا :

" علی منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی " چنانچہ ان موارد میں سے ایک غزوہ تبوک بھی تھا۔

حافظ : یہ کیونکر ممکن ہے کہ اصحاب رسول(ص) نے اس حدیث کو عمومی حیثیت سے سنا ہو اور علی(ع) کو خلافت کے عنوان سے پہچان لیا ہو اس کے باوجود آن حضرت(ص) کے بعد مخالفت کر کے دوسرے کی خلافت کو قبول کیا اور اس کی بیعت کی؟

خیر طلب : آپ کے جواب کے لیے میرے پاس بہت سے مطالب اور شواہد موجود ہیں۔ لیکن بہترین دلیل جو

۱۶۷

اس موقع کے لیے مناسب ہے وہی جناب ہارون کا قضیہ ہے۔

حضرت موسی(ع) کا اپنے بھائی ہارون کو خلیفہ بنانا اور سامری کا بنی اسرائیل کو گوسالہ پرستی کا فریب دینا

آیات قرآنی کی صراحت ہے کہ حضرت موسی کلیم اللہ نے جناب ہارون کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنایا پھر بنی اسرائیل کو جمع فرمایا ( جو بعض روایات کی بنا پر ستر ہزاز تھے) اور ان کو تاکید کی کہ حضرت ہارون کی اطاعت کریں کیونکہ وہ آپ کے خلیفہ اور جانشین ہیں اس کے بعد کوہ طور پر خدا کی مہمانی میں گئے ابھی مہینہ بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ سامری کا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا اور بنی اسرائیل میں اختلاف ظاہر ہوگیا سامری نے سونے کا بچھڑا بنایا اور بنی اسرائیل حضرت موسی(ع) کے ثابت الخلافت خلیفہ ہارون کو چھوڑ کر گروہ در گروہ دغاباز سامری کے گرد اکھٹا ہوگئے، ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ انہیں عقیدتمند بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے حضرت موسی (ع) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ہارون میری غیبت میں میرے خلیفہ ہیں۔ ان کے حکم کی تعمیل کرنا اور مخالفت نہ کرنا ، ستر ہزار افراد سامری کے بہکانے سے گوسالہ پرست ہوگئے، جناب ہارون نے ہرچند فریاد کی اور ان کو اس عمل شنیع سے منع فرمایا لیکن کسی نے نہیں سنا بلکہ ان کے قتل کے درپے ہوگئے ، چنانچہ سورہ (اعراف) کی آیت نمبر۱۴۹ صراحت کررہی ہے کہ جب حضرت موسی(ع) واپس تشریف لائے تو جناب ہارون نے ان سے اپنا درد دل بیان کیا کہ" إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوني وَ كادُوا يَقْتُلُونَني" یعنی ان لوگوں نے مجھ کو حقیر و ذلیل بنادیا اور ( جب میں نے ان کی مخالفت کی اور روکا تو) قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں۔ آپ حضرات کو خدا کا واسطہ ذرا تعصب سے ہٹ کے انصاف کیجئے کہ بنی اسرائیل کا یہ عمل حضرت موسی(ع) کے احکام سے سرتاپی، ان کے منصوص خلیفہ جناب ہارون کو تنہا چھوڑ دینا اور شعبدہ باز سامری کے بہکانے سے گوسالہ پرست ہوجانا ۔ کیا خلافت ہارون کے باطل ہونے اور سامری اور اس کے بچھڑے کے برحق ہونے کی دلیل بن سکتی ہے؟ آیا بنی اسرائیل کے بچھڑا پرست لوگوں کی حرکتیں اسی چیز کی دلیل قرار دی جاسکتی ہیں کہ اگر خلافت ہارون برحق ہوتی اور لوگوں نے حضرت موسی(ع) سے اس بارے میں کوئی نص سنی ہوتی تو ہرگز ان کو تنہا نہ چھوڑتے اورسامری اور اس کے گوسالے کے پیچھے نہ دوڑتے؟

آپ حضرات قطعی طور پر جانتے ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے جناب ہارون قرآن مجید کے حکم سے حضرت موسی(ع) کے منصوص خلیفہ تھے ، بنی اسرائیل نے خود انہیں حضرت کی زبان سے آپ کے بارے میں کھلی ہوئی نص سنی تھی لیکن بالآخر حضرت موسی(ع) کے چلے جانے کے بعد مکار سامری کو موقع ہاتھ آیا اور اس نے سونے کا بچھڑا تیار کر کے

۱۶۸

جان بوجھ کر قصدا بنی اسرائیل کو فریب دیا اور ان لوگوں نے بھی یہ جانتے ہوئے کہ جناب ہارون حضرت موسی(ع) کے خلیفہ و جانشین ہیں اپنی بیوقوفی یا دوسرے مقاصد کی بنا پر سامری کی پیروی کی اور جناب ہارون کو یکہ و تنہا چھوڑا دیا۔

امیرالمومنین کے حالات کی مطابقت ہارون کے ساتھ

اسی طرح وفات رسول(ص) کے بعد انہیں لوگوں نے جو یار آں حضرت(ص) سے صراحتہ اور کنایۃ سن چکے تھے کہ علی (ع) میرے خلیفہ ہیں جس طرح سے ہارون موسی کے خلیفہ تھے ، خواہش اور اقتدار کی ہوس میں ، بعض نے بنی ہاشم کی عداوت میں اور ایک گروہ نے اس کینہ و عناد اور حسد و بغض کی وجہ سے جو وہ علی(ع) کی ذات سے رکھتے تھے آپ کو چھوڑ دیا اور مخصوص حالات پیدا کئے۔ چنانچہ امام غزالی نے سرالعالمین مقالہ چہارم کے شروع میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور کھل کے لکھتے ہیں کہ انہوں نے حق کو پس پشت دال دیا اور پچھلی جہالت کی طرف پلٹ(۱) گئے۔ اسی جہت سے ہارون اور امیرالمومنین(ع) کے درمیان مشابہت تھی۔ چنانچہ خود آپ کے محققین علماء اور مورخین جیسے دنیوی کے مشہور قاضی ابو محمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ باہلی دنیوری نے الامامتہ والسیاسہ جلد اول ص۱۴ میں سقیفہ کا قضیہ تفصیل سے لکھا ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں جس وقت علی(ع) کے دروازے پر آگ لے گئے، جبر و تشدد کے ساتھ حضرت کو مسجد میں لائے اور کہا کہ بیعت کرو ورنہ ہم تمہاری گردن مار دیں گے، تو حضرت نے اپنے کو قبر رسول(ص) تک پہنچایا اور وہی کلمات کہے جو قرآن مجید نے موسی کے مواجہے میں حضرت ہارون کی زبان سے نقل کئے ہیں کہ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَ كادُوا يَقْتُلُونَنِي

گویا کہ اس حدیث میں پیغمبر(ص) علی(ع) کو ہارون کی شبیہہ فرمارہے ہیں تو اس کا ایک پہلو امت کو یہ بتانا بھی

ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسی(ع) کی غیبت میں جو سلوک جناب ہارون کے ساتھ کیا تھا وہی سلوک میری وفات کے بعد لوگ علی(ع) کے ساتھ کریں گے۔ لہذا علی علیہ السلام نے جس وقت امت کی زبردستی اور بازیگروں کی سیاست بازی دیکھی کہ آپ کے قتل پر بھی آمادہ ہیں تو پیغمبر(ص) کی قبر مبارک سے خطاب کرتے ہوئے وہی آیت تلاوت فرمائی جس میں خدا نے موسی(ع) کے سامنے ہارون کی فریاد کا ذکر فرمایا ہے۔

( اہل جلسہ نے اپنے اپنے سرجھکالئے اور تھوڑی دیر تک سب کے اوپر سکتے کی سی کیفیت طاری رہی)

نواب : قبلہ صاحب اگر علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی خلافت ثابت تھی تو پیغمبر(ص) ان الفاظ اور اشارات و کنایات کے ساتھ کس لیے فرماتے تھے، صاف صاف آپ کی خلافت کا اعلان کیوں نہیں کردیا کہ فرمادیتے

-----------------

۱۔ اسی کتاب کے جلسہ نہم کی طرف رجوع کیجئے جس میں بسلسلہ حدیث غدیر امام غزالی کی اصل عبارت نقل کی گئی ہے۔

۱۶۹

علی (ع) میرے خلیفہ ہیں تاکہ کوئی عذر باقی نہ رہتا۔

خیر طلب: میں نے عرض کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے دونوں طریقوں سے حقیقت کا اظہار فرمایا ہے ورن خلافت کے بارے میں کھلی ہوئی حدیثیں خود آپ کی معتبر کتابوں میں بھی کثرت سے موجود ہیں ، لیکن اس طرح کے کنایات میں صراحت سے زیادہ لطافت ہوتی ہے ۔ اہل ادب جانتے ہیں کہ الکناية ابلغ من التصريح ( یعنی کنایہ تصریح سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔ ۱۲ مترجم) اور وہ بھی اس قسم کا کنایہ جس میں معانی و مطالب کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔

نواب : جیسا کہ آپ فرما رہے ہیں خلافت کے بارے میں ان کھلی ہوئی حدیثوں سے جو ہمارے علماء کی کتابوں میں موجود ہیں اگر پیش نظر ہوں تو ہم کو بھی مستفیض فرمائیے تاکہ حقیقت ظاہر ہوجائے اس لیے کہ ہم سے مکرر یہ بتایا گیا ہے کہ قطعا ایسی کوئی حدیث جو ان جناب کی خلافت کو واضح کرتی ہو موجود نہیں ہے۔

خیر طلب : حضرت امیرالمومنین(ع) کی خلافت پر کھلی ہوئی حدیثیں آپ کے معتبر کتابوں میں میں بہت ہیں۔ لیکن جلسے کے وقت کا لحاظ کرتے ہوئے ان میں سے چند جو اس وقت مجھ کو یاد ہیں پیش کرتا ہوں۔

حدیث یوم الدار یوم الانذار اور پیغمبر(ص) کا علی(ع) کو خلافت پر معین فرمانا

تمام احادیث سے اہم حدیث الدار ہے اس لیے کہ پہلے ہی دن جب کہ خاتم الانبیاء نے اپنی نبوت کو ظاہر فرمایا تو علی(ع) کی خلافت کا اعلان بھی فرما دیا ۔ چنانچہ (رئیس الحنابلہ) امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند جلد اول ص۱۵۹-۱۶۱ وص۳۳۳ میں ، امام شعلبی نے تفسیر آیہ انذار میں، صدر الائمہ موفق بن احمد خوارزمی نے مناقب میں، محمد بن جویر طبری نے اسی آیت کی تفسیر میں اور تاریخ الامم جزو دوم ص۲۱۷ میں مختلف طریقوں سے ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص۲۶۳ ، ص۲۸۱ میں نقض العثمانیہ ابو جعفر اسکافی سے نقل کرتے ہوئے ابن اثیر نے کامل جزء دوم ص۲۲ میں مرسل طریقے سے حافظ ابونعیم نے حلیفۃ الاولیاء میں، حمیدی نے جمع بن الصحیحین میں، بیہقی نے سنن و دلائل میں، ابوالفداء نے اپنی تاریخ جزء اول صفحہ ۱۱۶ میں، حلبی نے سیرۃ الحلبیہ جزء اولی ص۲۸۱ میں، اما عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی ص۶ حدیث ۶۵ میں ، حاکم ابوعبداللہ نے مستدرک جز سیم ص۱۲۳ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب ۳۱ میں مسند امام احمد اور تفسیر ثعلبی سے محمد بن یوسف نجی شافعی نے کفایت الطالب باب۵۱ میں، اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے الفاظ و عبارات کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جس وقت سورہ ۲۶ ( شعراء ) کی آیت نمبر۲۱۴ " وَ أَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ " نازل ہوئی تو رسول اللہ (ص) نے قریش میں سے چالیس نفر اشراف و رووسا اور اپنے اعزہ کو اپنے چچا جناب ابو طالب کے گھر میں دعوت

۱۷۰

دی اور ان کے سامنے گوسفند کی ایک ران ، تھوڑی روٹی اور ایک صاع دودھ پیش فرمایا ، وہ لوگ ہنسے اور کہا کہ محمد(ص) نے تو ایک آدمی کی خوراک بھی مہیا نہیں کی ( کیونکہ ان لوگوں میں کچھ ایسے بھی تھے جو تنہا ایک اونٹ کا بچہ کھاجاتے تھے) آں حضرت (ص) نے فرمایا کلوا بسم الله خدائے تعالی کے نام کے ساتھ کھاو، چنانچہ جب انہوں نے کھایا اور سیر ہوگئے تو آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ هذا ما سحرکم به الرجل محمد نے اس غذا سے تم پر جادو کیا ہے ۔ اس وقت آں حضرت(ص) ان کے درمیان کھڑے ہوئے اور ان تمہیدوں کے بعد جن کو مکمل طور پر نقل کرنے سے طول ہوگا اس طرح اپنے مقصد کا اظہار فرمایا : ِ

" يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنَ اللَّهَ بَعَثَنِي إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً وَ بَعَثَنِي إِلَيْكُمْ خَاصَّةً وَ أَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى كَلِمَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَيْنِ فِي الْمِيزَانِ تَمْلِكُونَ بِهِمَا الْعَرَبَ وَ الْعَجَمَ وَتَنْقَادُ لَكُمْ بِهِمَا الْأُمَمُ وَ تَدْخُلُونَ بِهِمَا الْجَنَّةَ وَ تَنْجُونَ بِهِمَا مِنَ النَّارِ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَمَنْ يُجِبْنِي إِلَى هَذَا الْأَمْرِ وَ يُؤَازِرْنِي عَلَيْهِ وَ عَلَى الْقِيَامِ بِهِ يَكُنْ أَخِي وَ وَصِيِّي وَ وَزِيرِي وَ وَارِثِي وَ خَلِيفَتِي مِنْ بَعْدِي "

(یعنی اے اولاد عبدالمطلب خدائے تعالی نے مجھ کو تمام خلقت پر بالعموم اور تمہاری طرف بالخصوص مبعوث فرمایا ہے ۔ میں تم کو ایسے دو کلموں کی طرف دعوت دیتا ہوں جو زبان پر سبک اور آسان اور ترازوے اعمال پرسنگین و گراں ہیں، تم ان دو کلموں کے کہنے سے عرب وعجم کے مالک بن جاو گے۔ ساری قومیں تمہاری مطیع و منقاد ہوں گی ان کے ذریعے سے تم جنت میں جاو گے اور جہنم سے نجات پا جاو گے اور یہ دونوں کلمے خدا کی وحدانیت اور میری رسالت کی گواہی دینا ہیں ، پس جو شخص (سب سے پہلے) اس امر میں مجھ کو لبیک کہے اور اس کام میں میری اعانت کرے وہ میرا بھائی ، میرا وزیر، میرا وارث اور میرے بعد میرا خلیفہ ہوگا)۔ اس آخری جملے کی تین بار تکرار فرمائی اور تینوں مرتبہ سوا علی (ع) کے کسی نے جواب نہیں دیا۔ آپ نے عرض کیا " انا انصرک ووزيرک يا نبی الله" ( یعنی میں آپ کی مدد اور حمایت کروں گا اے پیغمبر خدا(ص)۔)

پس آنحضرت (ص) نے ان کو خلافت کی خوشخبری دی۔ آپ دہان مبارک ان کے دہن میں ڈ الا اور فرمایا :

" ان هذا أخي و وصيي و خليفتي و وليي فيكم.

یعنی یہ علی(ع) میرے بھائی اور تمہارے درمیان میرے وصی و خلیفہ ہیں اور انہیں میں سے بعض کتابوں میں ہے کہ خود علی(ع) کو مخاطب کر کے فرمایا أنت وصيّي و خليفتي من بعدی یعنی یا علی(ع) تم میرے بعد میرے وصی اور خلیفہ ہو۔

علاوہ شیعہ اور سنی علمائے اسلام کے دوسری قوموں کے غیر مورخین نے جنہوں نے تاریخ اسلام لکھی ہے مذہبی تعصب نہ رکھنے کی وجہ سے اکیوں کہ وہ نہ سنی تھے اور نہ شیعہ) اس جلسہ دعوت کی کیفیت نقل کی ہے ۔ منجملہ ان کے انگریز مورخ اور فیلسوف توماس کا دلیل ( ٹامس کار لائل) نے جو اٹھارہویں صدی عیسوی میں یورپ کے اندر عالمگیر

۱۷۱

شہرت کا مالک تھا اپنی مشہور کتاب میں جس کا مصریوں نے الابطال و عبادۃ المبطولہ " کے نام سے عربی ترجمہ کیا ہے خانہ جناب ابو طالب(ع) میں قریش کے جلسہ مہمانی کی تفصیل لکھتی ہے ، یہاں تک کہ لکھتا ہے ، پیغمبر(ص) کی تقریر کے بعد علی(ع) نے اپنی جگہ سے اٹھ کے ایمان کا اعلان کیا اور وہ خلافت کا بزرگ منصب ان کو حاصل ہوا" پیرس کے دار الفنون کا معلم کوسیو پول ہو ژو فرانسیس ایک مختصر رسالے میں جو اس نے حضرت خاتم النبیین(ص) کے حالات میں لکھا ہے اور وہ پیرس کے اندر سنہ۱۸۸۴ء میں چھپ چکا ہے ، نیز انگل----- اور ہاشم نصرانی شامی مقالہ الاسلام مطبوعہ سنہ۱۸۹۱ء میں صفحہ ۸۳ سے ۸۶ تک -- اس تعصب اور مخالفت کے جو اس کو اسلام اور مسلمانوں سے تھی۔ اور خصوصیت کے ساتھ مسٹر جان ڈیون پورٹ جو ایک ----- انصاف وہ مولف تھا، اپنی قیمتی کتاب محمد و قرآن میں روشن خیال اور پاک دلی کے ساتھ اس کا اقرار کرتا ہے کہ پیغمبر(ص) نے تبلیغ رسالت کی ابتدا ہی میں علی علیہ السلام کو اپنا بھائی ،وزیر، وصی اور خلیفہ نامزد کردیا تھا ۔ اس حدیث شریف کے علماء اور بہت سے مقامات و اوقات میں اس مقصد کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

خلافت علی(ع) کے بارے میں واضح حدیثیں

۱۔ امام احمد ابن حنبل مسند میں اور میر سید علی ہمدانی شافعی مودہ القربی آخر مودت چہارم میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا "يا علي أنت تبرئ ذمتي، و أنت خليفتي على أمتي." یعنی اے علی(ع) تم میری طرف سے برائت ذمہ کرو گے اور تم میری امت پر میرے خلیفہ ہو۔

۲۔ امام احمد نے مسند میں متعدد طریقون اور متفاوت الفاظ کے ساتھ ، ابن مغازلی فقیہہ شافعی نے مناقب میں اور ثعلبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا :

" أنت أخي و وصيي و خليفتي و قاضي ديني."

یعنی اے علی (ع) تم میرے بھائی ، وصی ، خلیفہ، اورمیرا قرض ادا کرنے والے ہو۔

۳۔ ابو القاسم حسین بن محمد ( راغب اصفہانی) نے محاضرات الادباء و محاورات الشعراء والبلغاء ( مطبوعہ مطبع عامر شرفیہ سید حسین آفندی سنہ۱۳۷۶ھ ، جلد دوم ص۲۱۳ میں انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" انّ خليلى و وزيرى و خليفتى في اهلى و خير من اترك بعدى يقضى دينى و ينجز موعدى على بن ابى طالب عليه السّلام"

( یعنی در حقیقت میرے دوست ، وزیر، خلیفہ اور بہترین شخص جس کو میں اپنے بعد چھورے جاتا ہون جو میرے قرض ادا کریں گے اور میرا وعدہ وفا کریں گے ، علی ابن ابی طالب ہیں)

۴۔ میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی اوائل مودت ششم میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب سے نقل کرتے ہیں کہ جب پیغمبر(ص) نے اصحاب کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا تو فرمایا :

" هذا علی اخی فی الدنيا والآخرة و خليفتی

۱۷۲

فی اهلی و وصی فی امتی و وارث علمی و قاضی دينی ماله منی مالی منه نفعه نفعی و ضره ضری من احبه فقد احبنی ومن ابغضه فقد ابغضنی"

( یعنی یہ علی دنیا و آخرت میں میرے بھائی ---- میرے اہل میں میرے خلیفہ، میری امت میں میرے وصی، میرے علم کے وارث اور میرے قرض کو ادا کرنے والے ہیں۔ جو حقوق انہیں مجھ سے حاصل ہیں وہی حقوق مجھے ان سے حاصل ہیں ان کا نفع میرا نفع اور ان کا نقصان میرا نقصان ہے جس نے ان کو دوست رکھا اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جس نے ان کو دشمنی رکھا اس نے در حقیقت مجھ کو دشمن رکھا۔

۵۔ اسی مودت ششم میں انس بن مالک سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ میں پہلے پیش کرچکا ہوں ، اس کے آخر میں ذکر کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے صریحا فرمایا " وهو خليفتى و وزيرى " یعنی علی(ع) میرے خلیفہ اور وزیر ہیں۔

۶۔ محمد ابن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں ابوزر غفاری سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

" يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ رَايَةُ عَلِيٍ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَ إِمَامِ الْمُتَّقِينَ وَ قَائِدِ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ والخليفة من بعدی"

( یعنی حوض (کوثر) کے کنارے میرے پاس امیرالمومنین(ع) نورانی چہرے اور ہاتھ والوں کے پیشوا اورمیرے بعد میرے خلیفہ علی(ع) کا علم آئے گا۔

۷۔ بیہقی ، خطیب خوارزمی اور ابن مغازلی شافعی نے اپنے مناقب میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا :

" لا ينبغى ان اذهب الّا و انت خليفتى و أنت أوْلى بالمؤمنين من بعدي"

( یعنی یہ درست نہیں ہے کہ میں لوگوں کے درمیان سے اٹھ جاوں بغیر اس کے کہ تم (اے علی(ع)) میرے خلیفہ اورمیرے بعد تمام مومنین سے اولی ہو۔)

۸۔ امام ابو عبدالرحمن نسائی نے جو ائمہ صحاح ستہ میں سے ہیں خصائص العلوی ضمن حدیث نمبر۲۳ میں جس نے ابن عباس سے تفصیل کے ساتھ حضرت علی(ع) کے مناقب نقل کئے ہیں، درجات ہارونی کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے علی سے فرمایا " انت خليفتی يعنی فی کل مومن من بعدی " تم میرے خلیفہ ہو یعنی ہر مومن پر میرے بعد۔

بدیہی بات ہے کہ اس جملے اور آخری فقرے سے علی علیہ السلام کو سارے منازل و مراتب ہارونی عطا کرنے کے بعد آپ کی امارت پر نص جلی فرمائی ہے۔ یعنی تم اے علی میری امت اور تمام مومنین میں میرے بعد میرے خلیفہ ہو۔

اس حدیث اور دوسری مروی احادیث کے اندر پیغمبر(ص) کے بیان میں لفظ من یا من بیانیہ ہے یعنی میری موت کے بعد، یا من ابتدائیہ ہے یعنی تم میری امت میں میری وفات کے اول وقت سے میرے خلیفہ ہو۔ بہر حال دونوں صورتوں میں ان جملوں سے حضرت علی(ع) کی خلافت بلافصل ثابت اور متحقق ہوگئی کہ حضرت نص جلی و نص خفی کے ساتھ رسول اللہ (ص) کے بعد تمام امت پر خلیفہ الرسول(ص) تھے۔

۹۔ حدیث خلقت ہے جو مختلف طریقوں سے نقل ہوئی ہے، من جملہ ان کے امام احمد ابن حنبل مسند میں،

۱۷۳

میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی میں ابن مغازلی شافعی مناقب میں اور دیلمی فردوس میں مختصر تفاوت الفاظ کے ساتھ سلسلہ روایات و اسناد صحیحہ سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

" خلقت أنا و علي من نور واحد قبل أن خلق اللّه آدم (عليه السّلام) بأربعة آلاف عام، فركّب ذلك فيه، و لم يزل في شي ء واحد حتى افترقنا في صلب عبد المطلب ففی النبوة و فی علی الخلافة"

( یعنی میں اور علی(ع) دونوں خلقت آدم(ع) سے چودہ ہزار سال پہلے ایک نور سے پیدا کئے گئے ، آدم(ع) کی پیدائش کے بعد خدا نے اس نور کو ان کی صلب میں قرار دیا پس ہم ہمیشہ بالکل ایک رہے یہاں تک کہ عبدالمطلب کے صلب میں ایک دوسرے سے جدا ہوئے چنانچہ مجھ میں نبوت اور علی میں خلافت آئی ۔)

۱۰۔ حافظ ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی سنہ۳۱۳ہجری کتاب الولایۃ میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے اوائل خطبہ غدیر میں فرمایا :

"و قد أمرني جبرائيل عن ربي أن أقوم في هذا المشهد و أعلم كل أبيض و أسود أن علي بن أبي طالب أخي و وصيي و خليفتي و الإمام بعدي "

پھر فرمایا " معاشر الناس ذلك فإن الله قد نصبه لكم ول ي ا إماما و فرض طاعته على كل أحد ماض حكمه جائز قوله ملعون من خالفه مرحوم من صدقه"

(یعنی جبرئیل نے پروردگار کی طرف سے مجھ کو حکم دیا کہ اس مقام پر ٹھہرجاوں اور ہر سفید و سیاہ کو آگاہ کردوں کہ علی بن ابی طالب میرے بھائی میرے وصی ، میرے خلیفہ اورمیرے بعد امام ہیں اے جماعت مردم خدا نے تم پر علی کو ولی و اولی بہ تصرف) اور امام مقرر فرمایا اور ان کی، اطاعت ہر فرد پر واجب کی، ان کا حکم نافذ ہے اور ان کا قول صحیح ہے۔ ملعون ہے وہ شخص جو ان کی مخالفت کرے اور خدا کا رحم ہے اس پر جو ان کی تصدیق کرے)

۱۱۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ میں مناقب احمد سے اور وہ ابن عباس خیر امت) سے ایک روایت نقل کرتے ہیں جو علاوہ نام خلافت کے ان حضرت کے بہت سے مخصوص صفات پر مشتمل ہے جن میں سے ہر ایک الگر الگ آپ کے مقام خلافت کے اثبات پر ایک قرینہ ہے لہذا آپ حضرات کی اجازت سے پوری حدیث پیش کرتا ہوں تاکہ حجت تمام ہو جائے اور سب صاحب سمجھ لیں کہ خاتم الانبیاء(ص) کی منزل رسالت کے بعد علی علیہ السلام کا مرتبہ تمام مقامات سے بالاتر ہے۔ خلاصہ یہ کہ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

" يا علي أنت صاحب حوضي ، و صاحب لوائي، و منجز عداتي و حبيب قلبي، و وارث علمي و أنت مستودع مواريث الأنبياء، و أنت أمين اللّه في أرضه، و أنت حجة اللّه على بريّته، و أنت ركن الإيمان، وعمود الاسلام و أنت مصباح الدجى و منار الهدى، و العلم المرفوع لأهل الدين، یا علی من تبعك نجا و من تخلف عنك هلك، و أنت الطريق الواضح، و أنت الصراط المستقيم، و أنت قائد الغرّ المحجّلين، و أنت يعسوب الدين، و أنت مولى

۱۷۴

من أنا مولاه، و أنا مولى كل مؤمن و مؤمنة، لا يحبّك إلا طاهر الولادة و لا يبغضك إلا خبيث الولادة، و ما عرج بي إلى السماء و كلّمني ربي إلا قال لي: يا محمّد أقرئ عليّا مني السلام، و عرّفه أنه إمام أوليائي و نور أهل طاعتي، فهنيئا لك هذه الكرامة يا علي."

( یعنی اے علی(ع) تم میرے حوض کے مالک، میرے علم کے حامل، میرے دلی دوست، میرے وصی، میرے علم کے وارث اورمیرے خلیفہ ہو تم مجھ سے قبل کے سارے انبیاء کی میراثوں کے امانت دار ہو، تم زمین پر خدا کے امین اور تمام مخلوق پر اللہ کی حجت ہو، تم ایمان کے رکن اور اسلام کے محافظ ہو، تم ظلمت کے چراغ، ہدایت کے نور اور اہل دنیا کے لیے بلند کئے ہوئے علم ہو۔ اے علی (ع) جو تمہاری پیروی کرے وہ نجات یافتہ ہے اور جو شخص تم سے روگردانی کرنے وہ ہلاک ہونے والا ہے، تم راہ روشن اور صراط مستقیم ہو، تم سفید و سیاہ چہرے والوں کے پیشوا اور مومنین کے سلطان ہو۔ تم ہر اس شخص کے مولا و آقا ہو جس کا میں ہولا و آقا ہوں اور می ہر مومن و مومنہ کا مولا و آقا ہوں تم کو وہی دوست رکھتا ہے جو حلال زادہ ہے اور تم کو وہی شخص دشمن رکھتا ہے جو حرام زادہ ہے۔ خدا مجھ کو آسمان پر نہیں لے گیا اور مجھ سے کلام نہیں کیا لیکن یہ کہ فرمایا اے محمد(ص) علی(ع) کو میرا سلام پہنچاو اور ان سے بتا دو کہ وہ میرے دوستوں کے امام اورمیرے فرمانبرداروں کے نور ہیں۔ پھر آں حضرت نے فرمایا کہ مبارک ہو تم کو یہ کرامت یا علی(ع)۔)

۱۲۔ ابو الموید موفق الدین اخطب خطباء خوارزمی نے کتاب فضائل امیرالمومنین(ع) ( طبع سنہ۱۳۱۳ ہجری) ص۲۴۰ میں انیسویں فصل کے ضمن میں اپنے اسناد کے ساتھ حضرت خاتم الانبیاء(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا ۔ میں جس وقت معراج میں سدرۃ المنتہی پر پہنچا تو خطاب ہوا کہ اے محمد(ص) تم نے لوگوں کی آزمایش کی تو کس شخص کو سب سے زیادہ اپنا فرمانبردار پایا: میں نے عرض کیا علی(ع) کو "صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ " ارشاد ہوا تم نے سچ کہا اے محمد(ص)، پھر فرمایا :

" فَهَلِ اتَّخَذْتَ لِنَفْسِكَ خَلِيفَةً يُؤَدِّي عَنْكَ وَ يُعَلِّمُ عِبَادِي مِنْ كِتَابِي مَا لَا يَعْلَمُونَ قَالَ قُلْتُ اخْتَرْ لِي قَالَ قَدِ اخْتَرْتُ لَكَ عَلِيّاً فَاتَّخِذْهُ لِنَفْسِكَ خَلِيفَةً وَ وَصِيّاً وَ تجليه عِلْمِي وَ حِلْمِي وَ هُوَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ حَقّاً لَمْ يَنَلْهَا أَحَدٌ قَبْلَهُ وَ لَا أَحَدٌ بَعْدَهُ."

(یعنی آیا تم نے اپنے لیے کوئی خلیفہ منتخب کیا ہے جو تمہارے مقاصد کو لوگوں تک پہنچائے اور میری کتاب میں سے میرے بندوں کو ان باتوں کیتعلیم دے جو ان کو نہیں معلوم ہیں؟ میں نے عرض کیا پروردگار تو جس کو انتخاب فرمائے اسی کو میں بھی منتخب کرتا ہوں۔ خطاب ہوا کہ میں نے تمہارے لیے علی(ع) کو منتخب کیا۔ پس ان کو تمہارا خلیفہ اور وصی قرار دیتا ہوں اور ان کو اپنے علم و حلم سے آراستہ کیا۔ وہ حقیقی امیرالمومنین ہیں کہ پہلے والوں میں سے اور بعد والوں میں سے کوئی شخص اس منزلت پر فائز نہیں ہوسکتا۔)

۱۷۵

اس طرح کی حدیثیں آپ کی معتبر کتابوں میں بہت ہیں لیکن جتنی اس وقت مجھ کو یاد تھیں وہ یہ نے پیش کر دیں تاکہ جناب حافظ صاحب یہ جان لیں کہ میں شاخ و برگ کا اضافہ نہیں کرتا ہوں بلکہ اصل واقعہ اور حقیقت بیان کرتا ہوں۔ جیسا کہ خود آپ کے بعض اںصاف پسند اکابر علماء نے بھی اس مطلب کی تصدیق کی ہے۔ جیسے نظا بصری چنانچہ صلاح الدین صفوی نے وافی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ضمن الف ذیل حالات ابراہیم بن سیاد بن ہانی بصری معروف بہ نظام معتزلی میں کہا ہے کہ :

"نصّ النبيّ صلّى اللّه عليه و آله و سلّم على انّ الإمام عليّ و عيّنه و عرفت الصحابة ذلك و لكنّه كتمه عمر لأجل أبي بكر رضي اللّه عنهما"

( یعنی رسول اللہ (ص) نے علی (ع) کی امامت پر نص فرمائی ہے اور ان کو امام معین فرمایا ہے ، اور صحابہ بھی اس بات سے اچھی طرح واقف تھے لیکن عمر نے ابوبکر کی خاطر علی کی امامت و خلافت پر پردھ دالا۔

افسوس ہے کہ ہم نے رسول (ص) کا زمانہ نہیں دیکھا ہے لیکن آج جب ہم حق کا راستہ ڈھونڈھنا چاہتے ہیں تو مجبور ہیں کہ آیات قرآن اور متفق علیہ فریقین صحیح و صریح حدیثوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں قطعی طور پر جو ذات خدا کو محبوب تھی اور آیات قرآن مجید اور کثیر و متواتر احادیث رسول(ص) کے دلائل سے جس کو علم و فضل میں مقدم اور ساری امت سے افضل اور برتر ثابت کیا گیا ہے، ہم بھی بجا طور پر اس کی پیروی اور اطاعت کرتے ہیں۔

آپ ہی کی معتبر کتابوں میں جو حدیثیں درج ہیں ان میں بہت سے مقامات پر صراحت کے ساتھ خلافت و ولایت اور وصایت کے الفاظ آئے ہیں، اس کے علاوہ چونکہ علی علیہ السلام خصائص و فضائل کے مجموعہ تھے۔ جیسا کہ گزشتہ شبوں میں ہم نے کچھ اشارے کئے ہیں کہ آپ سوا نبوت خاصہ کے پیغمبر خاتم الانبیاء کے ساتھ تمام خصوصیات میں شریک اور ساری امت سے افضل تھے اور آیات قرآنیہ اور بکثرت اخبار متواترہ کے مطابق افراد بشر میں سے کوئی شخص ان بزرگوار کے فضائل و کمالات میں سے عشر عشیر بلکہ ہزار میں سے ایک پر بھی فائز نہیں ہے جیسا کہ خطیب خوارزمی نے مناقب میں بروایت ابن عباس جمہور سے ، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، سلیان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب سےنقل کیا ہے اور سب نے الفاظ کے مختصر پس و پیش کے ساتھ لکھا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

" لو أنّ الرّياض أقلام، و البحر مداد، و الجنّ حسّاب، و الإنس كتاب، ما أحصوا فضائل عليّ بن أبي طالب عليه السلام."

( یعنی اگر سب درخت قلم بن جائیں ۔ سمندر روشنائی ہوجائے سارے جنات حساب کریں اور کلی انسان لکھنے والے ہوں جب بھی علی ابن ابی طالب(ع) کے فضائل شمار نہیں کرسکتے ۔ کیا خوب کہا ہے فارسی کے شاعر نے

کتاب فضل ترا آب بہر کافی نیست کہ تر کنی سر انگشت و صفحہ بشماری

لہذا حضرت منصب خلافت اور جانشینی رسول (ص) کے لیے سب سے بڑھ کر سزاوار اور سب سے زیادہ حقدار تھے۔

۱۷۶

شیخ صاحب پھر بھی بولتے ہیں

شیخ عبدالسلام:( حافظ محمد رشید صاحب کی طرف رخ کر کے کہا) اجازت دیجئے کہ مختصر طور پر میں بھی کچھ باتیں پیش کروں اور آپ بھی تھوڑی دیر دم لے لیں ( پھر میری طرف مخاطب ہوئے کہ) جناب ہم لوگ مولانا علی کرم اللہ وجہہ کے فضائل کے ہرگز منکر نہیں ہیں لیکن صرف انہیں حضرت پر انحصار کردینا نا معقول بات ہے کیونکہ پیغمبر(ص) خاص صحابہ یعنی خلفائے راشد رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک صاحب فضائل تھا اور سب کے سب آپس میں برابر تھے آپ چونکہ یک رخی گفتگو کررہے ہیں جس سے ممکن ہے کہ حاضر و غائب حضرات پر حقیقت مشتبہ ہوجائے اور وہ یہ سمجھیں کہ جو کچھ آپ فرمارہے ہیں وہی درست ہے لہذا اجازت دیجئے کہ ان حضرات کے فضائل میں جو احادیث ہیں کچھ ان میں سے بھی بیان کردوں تاکہ حق بے نقاب ہوجائے۔

خیر طلب : ہم خاص طور پر اشخاص کی طرف توجہ نہیں رکھتے بلکہ عقل و علم اور منطق کے پابند ہیں۔ ہم خود سے یک رخی گفتگو نہیں کرتے قرآنی آیتیں اور فریقیں کی متفق علیہ صحیح و صریح حدیثیں ہم کو یک طرفہ پتہ دے رہی ہیں۔ البتہ صحابہ کے بارے میں بھی خدا گواہ ہے کہ جاہلانہ محبت اور دشمنی نہیں رکھتا میں نے ہرگز ایک طرفہ تعصب اختیار نہیں کیا اور نہ کروں گا اور حضرات حاضرین جلسہ سے بھی درخواست ہے کہ جس جگہ پر میرا کوئی تعصب دیکھیں یا کوئی ایسی بات سنیں جو عقل و برہان اور منطق کے مطابق نہ ہو تو مہربانی کر کے توجہ دلا دیں ممنوں ہوں گا۔

یہاں فضیلت صحابہ سے انکار نہیں لیکن افضل کا انتخاب ہونا چاہیئے

البتہ یہ بالکل درست ہے کہ متفق علیہ اور مقبول الفریقین احادیث کو بیان کیجئے میں جان و دل سے قبول کروں گا کیونکہ میں نیکوکار پاک صحابہ کی فضلیت سے انکار نہیں کرتا۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر کسی فضیلت کا حامل ہو لیکن ضرورت تو اس کی ہے کہ ایسی ہستی تلاش کی جائے جو فریقین ( سنی شیعہ) کے نزدیک ساری امت سے افضل ثابت ہو، اس لیے کہ ہماری بحث صاحب فضل کے بارے میں نہیں ہے، کیونکہ فضلاء بہت ہیں بلکہ یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ رسول اکرم(ص) کے بعد کون شخص تمام امت سے افضل تھا تاکہ ہم اس کو عقل و نقل کی روشنی میں مقدم سمجھیں اور اسی کی پیروی کریں۔

شیخ : یہ تو آپ خواہ مخواہ کی قید لگا رہے ہیں کیونکہ آپ کی کتابوں میں تو ایک حدیث بھی خلفاء کے فضائل میں موجود نہیں ہے لہذا ہم متفق علیہ احادیث کہاں سے پیش کرسکتے ہیں۔

۱۷۷

خیر طلب : اولا یہ اعتراج تو خود آپ ہی کی طرف پلٹتا ہے کہ پہلی شب کو بغیر مطالعہ کئے ہوئے کیوں بات چیت کی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو شب اول جناب حافظ صاحب ہی نے یہ شرط رکھی تھی کہ مباحثے کے دوران میں ہمارا استدلال قرآن مجید کے آیات اور فریقین کے متفق علیہ احادیث سے ہوگا، میں بھی چونکہ آپ کی معتبر کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرچکا تھا لہذا اس کو قبول کر لیا۔ آپ اورسارے حاضرین جلسہ گواہ ہیں کہ پہلی رات سے اب تک میں اس قرار داد سے الگ نہیں ہوا اور ثبوت میں صرف قرآن مجید کی آیتوں اور آپ کے موثق علماء کی معتبر کتابوں سے صحیح و اصریح احادیث ہی کو پیش کرتا رہا ہوں اور آئندہ جس وقت تک یہجلسے قائم رہیں گے اور آپ حضرات کی ملاقات سے مشرف ہوتا رہوں گا انشاء اللہ اس معاہدے سے باہر نہ جاوں گا۔ ثانیا جس وقت آپ نے یہ شرط معین کی تھی تو اس پر غور نہیں کیا تھا کہ ایک وقت خود ہی اسی مصیبت میں پھنس جائیے گا؟ پھر بھی میں اس قرارداد کو سخت گیری کا بہانہ نہیں بناتا ہوں، میں حاضر ہوں کہ آپ کی ایک طرفہ صحیح اور صریح حدیثوں کو جو گھڑی ہوئی نہ ہوں اور عقلی و نقلی دلائل کے موافق ہوں سنوں اور پھر ہم اور آپ مل کر انصاف کے ساتھ حق فیصلہ کریں، چنانچہ اگر حضرت علی علیہ السلام کی کثرت فضائل سے تقابل ہوجائے گا تو ہم ماں لیں گے۔

شیخ صاحب : نصوص خلافت کے سلسلے میں آپ نے حدیثیں نقل کیں لیکن اس سے غافل رہے کہ اس قسم کی احادیث خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے بہت آئی ہے۔

خیر طلب : اس بات کا لحاظ رکھتے ہوئے کہ خود آپ کے اکابر علماء جیسے ذہبی ، سیوطی اور ابن ابی الحدید وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ بنی امیہ اور ابوبکر کے ماننے والوں نے ابوبکر کے فضائل میں کثرت سے حدیثیں گھڑی ہیں ، نمونے کے طور پر جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے ان بہت میں سے کوئی ایک حدیث نقل فرمائیے تاکہ متعصب اور غیر متعصب فیصلہ کرنے والے اس پر فیصلہ دیں۔

فضیلت ابوبکر میں نقل حدیث اور اس کا جواب کہ یہ وضعی ہے

شیخ : ایک معتبر حدیث عمر بن ابراہیم بن خالد سے وہ عیسی بن علی بن عبداللہ بن عباسی سے وہ اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اس بزرگوار سے فرمایا :

" يا عمی ان الله جعل ابا بکر خليفتی علی دين الله فاسمعوا له و اطيعوا تفلحوا "

( یعنی اے چچا در حقیقت خدائے تعالی نے ابوبکر کو اللہ کے دین پر میرا خلیفہ بنایا ہے پس ان کی بات سنو اور اطاعت کرو تاکہ نجات پاو۔)

خیر طلب : اس سے قطع نظر کہ یہ حدیث یک طرفہ ہے اور ہمارا معاہدہ یہ نہیں تھا کہ ایسی حدیثوں سے استدلال

۱۷۸

کریں، یہی یک طرف حدیث اگر مردود نہ ہوتی تو ہم اس کے بارے میں بحث کرتے۔

شیخ : کس طرح مردود ہے ؟ آپ سبھی مطالب کو زبانی باتوں سے ثابت کرنا چاہتیے ہیں۔

خیر طلب : آپ کو دھوکا ہوا ہے۔ ہم لفاظی کرنے والے نہیں ہیں بلکہ صاحبان عمل ہیں۔ اس حدیث کو ہم نے رد نہیں کیا ہے بلکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے رد کیا ہے، اس لیے کہ اس کے راوی ان کی نظر میں سخت جھوٹے اور جعل ساز ہیں اور اسی وجہ سے اس کو باطل اور درجہ اعتبار سے ساقط سمجھتے ہیں، چنانچہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ابراہیم بن خالد کی کیفیت لکھتے ہوئے اور خطیب بغدادی نے عمر بن ابراہیم کا حال درج کرتے ہوئے ( اپنی تاریخ میں تحریر کیا ہے کہ انه کذاب ( یعنی یہ بہت بڑا جھوٹا ہے ۱۲ مترجم) پس کذاب اور دروغگو شخص کی حدیث باطل، مردود اور ناقابل قبول ہوا کرتی ہے۔

شیخ : اخبار صحیحہ میں ثقہ صحابی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبرئیل پیغمبر(ص) پر نازل ہوئے اور عرض کیا کہ خدا آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں ابوبکر سے راضی ہوں ان سے پوچھو کہ آیا وہ بھی مجھ سے راضی ہیں یا نہیں؟

خیر طلب : یہ بہت ضروری چیز ہے کہ مقدمے کے طور پر ہم اس بات کو سمجھ لیں کہ نقل احادیث میں ہم کو بہت محتاط رہنا چاہیئے تاکہ صاحبان عقل کے اعتراض سے محفوظ رہیں ضمنا آپ کی توجہ یاد دہانی کے لیے ایک حدیث نقل کرتا ہوں جو آپ کے اکابر علماء جیسے ابن حجر نے اصابہ میں اور ابن عبدالبر نے استیعاب میں خود ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" کثرت علی الکذاب و من کذب علی متعمدا فقد تبوع مقعده من النار کما حدثتم بحديث منی فاعرضوه علی کتاب الله."

( یعنی بہت ہوگئے مجھ پرجھوٹ باندھنے والے اور جو شخص مجھ پر عمدا جھوٹ بولے اس کی قیام گاہ آتش جہنم ہے ، جس وقت تمہارے سامنے میری طرف سے کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کو قرآن کے سامنے پیش کرو۔

یعنی اگر مطابق قرآن ہوتو قبول کرو ورنہ رد کردو۔ نیز فریقین کی متفق علیہ حدیث ہے جیسا کہ امام فخرالدین رازی نے بھی تفسیر کبیر جلد سیم ص۳۷۱ میں آنحضرت(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

"إذا روي عني حديث فاعرضوه على كتاب الله تعالى فإن وافقه فاقبلوه و إلا فردوه."

(یعنی جس وقت تمہارے لیے میری طرف سے کوئی حدیث نقل کی جائے تو اس کو کتاب خدا پر پیش کرو۔ پس اگر وہ قرآن کے موافق ہو تو قبول کر دو ورنہ رد کردو) چنانچہ آپ کے اکابر علماء کی کتابوں میں وارد ہے کہ رسول اللہ (ص) کی زبانی حدیثیں گھڑنے والوں میں یہی ابوہریرہ مردود بھی تھے جن سے آپ نے یہ حدیث نقل کی ہے اور بلا وجہ ان کو ثقہ بتایا ہے۔

شیخ : آپ کے ایسے جلیل القدر مبلغ و عالم اولاد رسول (ص) سے یہ امید نہیں تھی کہ اصحاب پیغمبر(ص) کی نسبت طعن اور رد کیجئے گا۔

خیر طلب : اول تو آپ جانتے ہیں کہ صحابی کی لفظ سے مجھ کو مرعوب کریں حالانکہ یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ صرف صحابی ہونے کو فضل و شرف کا ضامن سمجھتے ہیں، یقینا رسول (ص) کی مصاحبت موثر اورفضل و شرف کا باعث

۱۷۹

ہے، لیکن اس شرط سے کہ مصاحب آں حضرت(ص) کا مطیع و فرمانبردار بھی ہو۔ لیکن اگر آں حضرت(ص) کے احکام و ہدایات کے خلاف عمل کرے اور ہوا و ہوس کا تابع ہو تو قطعا مردود اور کبھی ملعون اور نار حجیم و عذاب الیم کا مستحق ہوگا۔ کیا وہ منافقین جن کی بد کرداری کا شہادت اور جنہمی ہونے کی خبر قرآن مجید کی آیتیں دے رہی ہیں رسول کے مصاحبین میں سے نہیں تھے کہ ملعون اور دوزخی قرار پائے ۔ پس آپ تعجب نہ کریں کہ ابو ہریرہ بھی انہیں مردود و ملعون اور جنہم کے مستحق لوگوں میں سے ہوں۔

شیخ : اول تو ان کا مردود ہونا ثابت نہیں ہے اور اگر فرض کر لیا جائے کہ بعض کے نزدیک مردود بھی ہوں ، تو ان کے جہنمی ہونے پر کیا دلیل ہے؟ کیا ہر مردود ، ملعون اور دوزخی ہوتا ہے؟ ملعون تو وہ شخص ہے جو قرآن کریم کی نص صریح یا پیغمبر(ص) کے ارشاد سے ملعون ہو۔

ابوہریرہ کی کیفیت اور ان کی مذمت

خیر طلب : ابوہریرہ کے مردود ہونے پر دلائل بکثرت اور اظہر من الشمس ہیں جن کی خود آپ کے اکابر علماء نے بھی تصدیق کی ہے من جملہ ان کے دلائل مردودیت کے یہ ہے کہ بقول رسول(ص) ملعون ابن ملعون شخص فرزند ابی سفیان کے ساتھیوں اور منافقین اور دورنگے آدمیوں میں سے تھے کیونکہ صفین میں بعض بعض روز نماز تو امیرالمومنین (ع) ے پیچھے پڑھ لیتے تھے لیکن تر لقمے معاویہ کے مرغن دستر خوان سے اڑاتے تھے ، چنانچہ زمخشری نے ربیع الابرار ، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے کہ جب ان سے اس دوزخی سیاست کا سبب پوچھا جاتا تھا تو کہتے تھے :

"مضيرة (۱) معاوية أدسم و أطيب و الصلاة خلف علي أفضل."

(یعنی معاویہ کا مضیرہ اور کھانا کافی روغن دار ہوتا ہے اور نماز علی(ع) کے پیچھے افضل ہے) یہاں تک کہ شیخ المضیرہ کے نام سے مشہور ہوگئے۔

علی (ع) حق اور قرآن سے جدا نہیں ہیں

حالانکہ ( علاوہ اجماع علمائے شیعہ کے) خود آپ کے علماء جیسے شیخ الاسلام حموینی نے فرائد باب۳۷ میں خوارزمی نے مناقب میں، طبرانی نے اوسط میں، گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، ابن قتیبہ نے الامامہ والسیاسہ جلد اول ص۶۸ میں، امام احمد بن حنبل نے مسندمیں ، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں، ابو یعلی نے مسند میں، متقی ہندی نے کنزالعمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ مضیرہ ایک کھانا جو دودھ کے ساتھ تیار ہوتا ہے اور یہ معاویہ کی مخصوص غذا تھی۔

۱۸۰

جلد ششم ص157 میں، سعید بن منصور نے سنن میں، خطیب بغداد نے اپنی تاریخ جلد 4 ص32 میں، حافظ ابن مردویہ نے مناقب میں، سمعانی نے فضائل الصحابہ میں، امام فخر رازی نے تفسیر کبیر جلد اول ص111 میں، ابو القاسم حسین بن محمد ( راغب اصفہانی ) نے محاضرات الادباء جلد دوم ص113 میں اور دوسرے علماء نے بھی انہیں ابوہریرہ وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" عَلِيٌ مَعَ الْحَقِ وَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ يَدُورُ مَعَهُ حَيْثُمَا دَارَ."

( یعنی علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے جو آپ کے ساتھ ہی ساتھ مڑتا ہے) اس کے بعد بھی یہ علی(ع) کو چھوڑ کے معاویہ کے گرد و پیش چکر لگائیں تو کیا مردود نہیں ہیں ؟ جو شخص

معاویہ کے افعال شنیعہ اور اس کا ظلم و ستم دیکھ کے خاموش رہے بلکہ مزید بر آں دنیاوی منافع حاصل کرنے اپنا پیٹ بھرنے اور جاہ و نصب تک پہنچنے کے لیے ان کا حاشنی نشین اور مددگار ہو تو کیا وہ مردود نہیں ہے؟

وہ ابو ہریرہ جو خود نقل کرتے ہیں جیسا کہ آپ ہی کے اکابر علماء جیسے حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد سوم ص124 میں امام احمد حنبل نے مسند میں، طبرانی نے اوسط میں، ابن مغازلی فقیہ شافعی نے مناقب میں، متقی ہندی نے کنزالعمال جلد ششم ص153 میں، شیخ الاسلام حموینی نے فرائد میں ابن حجر مکی نے صواعق ص74،75 میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء ص116 میں، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں اور دوسروں نے ان سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" علي مع القرآن و القرآن مع علي لا يفترقان حتى يردا علي الحوض عليّ منّي و أنا من عليّ من سبّه فقد سبّني ، و من سبّني فقد سبّ اللّه"

( یعنی علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے ۔ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض (کوثر) پر میرے پاس آئیں علی(ع) مجھ سے اور میں علی(ع) سے ہوں ، جو شخص علی(ع) کو سب وشتم کرے اس نے مجھ کو سب وشتم کیا اور جس نے مجھ کو سب وشتم کیا اس نے خدا کو سب وشتم کیا( اور ساتھ ہی خود دیکھتے ہیں کہ معاویہ با اعلان اور کھلم کھلا بالائے منبر اور نماز جمعہ کے خطبے میں علی(ع) اور حسن و حسین علیہم السلام پر لعنت کرتا ہے نیز حکم دیتا ہے کہ تمام منبروں اور جلسوں میں ان حضرت پر لعنت کریں، تو جو شخص ایسے ملاعین کا ہم پلہ و ہم نوالہ ہو۔ ان کے عمل سے خوش ہو۔ پھر ان لوگوں کے ساتھ رہنے سہنے کے علاوہ حدیثیں گھڑ کے ان کی مدد کرے اور لوگوں کو ان حضرت پر لعنت کرنے کے لیے برانگیختہ اور مجبور کرے کیا وہ مردود نہیں ہے؟

شیخ : آیا یہ عقل میں آتا ہے کہ ہم ان تہمتوں کو قبول کر لیں کہ ایک پاک دل صحابی حدیثیں وضع کر کے لوگوں کو علی کرم اللہ وجہہ پر لعنت اور سب وشتم کے لیے مجبور کرے ؟ کیا اس قسم کی تہمتیں شیعوں کی تراشی ہوئی نہیں ہیں؟

خیر طلب : یقینا عقل میں نہیں آتا کہ ایک پاک دل صحابی ایسی حرکت کرے گا۔ اور اگر صحابہ میں سے کسی فرد نے ایسا کیا ہے تو یہ قطعی دلیل ہے اس بات پر کہ اس کا دل پاک نہیں تھا اور وہ حتمی طور پر منافق و مردود اور ملعون ہوگا۔ اس لیے کہ خدا و رسول(ص) کو سب وشتم کرنے والے قطعا مردود و ملعون اور جہنمی ہے ، کیونکہ اس پر بکثرت احادیث کی نص

۱۸۱

موجود ہے جیسا کہ اجماع علمائے شیعہ کے علاوہ خود آپ کے اکابر علماء نے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا جو شخص علی(ع) کو سب کرے اس نے مجھ کو اور میرے خدا کو سب کیا لیکن آپ نے جو یہ فرمایا کہ اس قسم کی تمہتیں شیعوں کی تراشی ہوئی ہیں تو غالبا آپ نے دھوکے میں یہ سمجھ لیا کہ اپنے کسی عالم سے گفتگو کر رہے ہیں جو اپنا مطلب نکالنے کے لیے جھوٹ کے پل باندھتے اور پاک نفس شیعوں پر تہمتیں عائد کر کے بے خبر عوام کو گمراہ کرتے ہیں اور روز قیامت خدا کے سامنے بازپرسی ہونے کا کوئی خوف نہیں رکھتے۔

شیخ : حقیقتا جب آپ اصحاب رسول(ص) پر حدیثیں وضع کرنے کی تہمت لگاتے ہیں تو ہم کیا امید کریں کہ اہل اسلام کے ممتاز افراد اور بزرگ علمائے اہل سنت والجماعت کی طرف بری نسبت نہ دیجئے گا۔ آپ شیعہ لوگوں کی سب سے بڑی ہنرمندی بزرگوں کو برا الزام ، تہمت اور گالی دینا ہے۔

خیر طلب : آپ نے بہت زیادتی کی جو ہماری طرف ایسی نسبتیں دیں کیونکہ چودہ سو برسوں کی ( سنی اور شیعوں کی) اسلامی تاریخیں آپ کی گفتگو کے خلاف گواہی دے رہی ہیں۔

مخالفین کے مقابلے میں شیعوں کی مظلومیت

اسلام کے صدر اول اور امویوں کے زمانہ اقتدار سے لے کر اس وقت تک برابر ائمہ معصومین و اہل بیت طاہرین علیہم السلام کی بزرگ ہستیوں اور ان کے مظلوم شیعوں کو فحش باتیں کہنا، لعنت کرنا، گالی دینا اور تہمت لگانا ( سنی یعنی امویوں کی سنت وجماعت کے پیرو( سیاسی شعبدہ باز مسلمانوں کا مخصوص طریقہ رہا ہے اور اب تک آپ کے علماء میں سے نمایاں شخصیتیں اپنی معتبر کتابوں میں بے خبر عوام کو بہکانے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و جدائی ڈالنے کے لیے مظلوم شیعوں پر سینکڑوں ، تہمتیں اور بے سر پیر کے الزامات عائد کر کے ان کو رافضی کافر، مشرک اور غالی کہہ کر اور اپنے سابق پیشواوں کے قدم بہ قدم لعن و سب کر کے بے خبر اور صاف دل سنی بھائیوں کی نگاہوں مِیں ان کی قابل نفرت ثابت کرتے ہیں۔

شیخ : کس سنی عالم نے اپنی کتاب میں شیعوں پر تہمت لگائی اور جھوٹ باندھا ہے ؟ اگر آپ اس بات کو ثابت نہ کر سکے تو قطعا آپ کی شکست سمجھی جائے گی کیونکہ ہمارے علماء نے جو کچھ کہا اور لکھا ہے وہ بالکل حقیقت ہے شیعہ اپنے فاسد اعمال و عقائد کو چھوڑ دیں تاکہ محفوظ رہیں اور ان کی گرفت نہ کی جائے۔

۱۸۲

شیعوں پر سنی علماء کی جھوٹی نسبتیں اور تہمتیں

خیر طلب : آپ نے مجھ کو مجبور کیا ہےکہ جس قدر مجھ کو یاد ہے اس میں سے مشتے نمونہ از خرزارے ان ہزاروں دروغ بافتوں بہتانوں اور تہمتوں میں سے اس محترم مجمع کے سامنے کچھ بیان کروں جو آپ کے اکابر علماء نے شیعوں پر عائد کی ہیں تاکہ ناواقف لوگوں کے خیالات صاف ہوں، اس کے بعد فیصلہ روشن ضمیر مسلمانوں کے پاکیزہ نفس پر چھوڑ دوں۔

شیعوں پر ابن عبد ربہ کی تہمتیں

آپ کے بزرگان علمائے ادب میں سے ایک صاحب شہاب الدین ابو عمر احمد بن محمد بن عبد ربہ قرطبی اندلسی مالکی متوفی سنہ328ھ تھے جنہوں نے عقد الفرید جلد اول ص269 میں موحد و پاک دل شیعوں کو جو اسلام و ایمان کے جوہر کے حامل ہیں ؛ یہ اس امت کے یہودی بتایا ہے اور لکھا ہے کہ جس طرح یہودی و ںصاری کو دشمن رکھتے ہیں اسی طرح شیعہ بھی اسلام کو دشمن رکھتے ہیں۔ اس کے بعد اسی عنوان کے ساتھ شیعوں پر بہت سی تہمتیں لگائی ہیں۔ مثلا کہتے ہیں کہ شیعہ یہودیوں کی طرح تین طلاقوں کا عقیدہ نہیں رکھتے ہیں۔ نیز طلاق کے بعد عدہ کے قائل نہیں ہیں۔

اسی وقت جو شیعہ حضرات جلسے میں موجود ہیں بلکہ خود آپ اور تمام وہ سنی صاحبان جو شیعوں کے ساتھ بود و باش رکھتے ہیں کیا ابن عبد ربہ صاحب کی ان تہمتوں پر نہ ہنسیں گے؟ اس لیے کہ ہماری تمام فقہی کتابیں اور عملی رسالے تین طلاق کے مسائل اور طلاق کے بعد عدہ رکھنے کے طریقے سے بھرے ہوئے ہیں جو علاوہ طلاق اور عدہ بعد از طلاق کے عملدرآمد کے اس ادیب بے ادب کے جھوٹ پر بھی بہت بڑی دلیل ہیں۔

نیز کہتے ہیں کہ شیعہ یہودیوں کی طرح جبرئیل کو دشمن رکھتے ہیں اس وجہ سے کہ وحی کو ہٹا کر پیغمبر(ص) کے پاس کیوں لائے در آنحالیکہ علی(ع) کے پاس لانا چاہئیے تھا۔ ( جلسے میں بیٹھے ہوئے سب شیعہ ہنس پڑے۔)

ملاحظہ فرمائیے کہ شیعہ حضرات اس بات کو سن کر ہی ہنس دیے تو یہ کب ممکن ہے کہ ایسے مہمل عقیدے کو اپنے دل میں جگہ دیں۔

اگر یہ شخص افریقہ کے گوشے سے آگے بڑھتا یا شیعوں کی کتابیں مہیا کرنے اور پڑھنے کی زحمت کرتا تو خود شرمندہ ہوتا، اور ایسی تہمت نہ لگاتا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمدا ایسا کیا ہو تا کہ نا واقف لوگوں سے حقیقت پوشیدہ رہے اور مسلمانوں کے درمیان جدائی پڑ جائے۔

۱۸۳

ہم شیعہ حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء(ص) کو ایک مستقل اور برحق پیغمبر(ص) جانتے ہیں کہ آنحضرت(ص) پر وحی نازل ہونے میں ہرگز کوئی دھوکا نہیں ہوا اور جبرئیل امین کی منزل اس سے بالاتر جانتے ہیں جس کی طرف بے حقیقت شخص نے نسبت دی ہے اور ان علی ابن ابی طالب(ع) کے معتقد ہیں جن کی وصایت اور خلافت رسول(ص) کے لیے جبرئیل امین نے خدائے تعالی کی طرف سے اعلان کیا ہے۔ (1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ ایک مرتبہ جب میں ریل کے ذریعہ چند شیعہ زائروں کے ہمراہ کاظمین سے سامرہ جا رہا تھا تو ہمارے ڈبے میں موصل والوں کی ایک سنی جماعت بھی اپنے قاضیوں اور علماء میں سے دو شخصوں کے ساتھ سفر کررہی تھی ۔ وہ دونوں مسلسل ہم لوگوں پر نکتہ چینی اور تمسخر کررہے تھے اور تہمتیں لگارہے تھے ۔ ان کو یہ پتا نہیں تھا کہ میں عربی زبان سے واقفیت رکھتا ہوں اور ہم لوگ بھی خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ ان میں سے ایک قاضی صاحب نے کہا کہ یہ رافضی لوگ بہت ہی فاسد اخلاق و عادات رکھتے ہیں اور سب کے سب بدعتی (بقیہ صفحہ قبل ) اور مشرک ہیں۔ مثلا ان کی ایک عجیب بدعت یہ ہے کہ نماز میں جب سلام دیتے ہیں تو ہاتھوں کو بلند کرتے ہیں اور تین مرتبہ کہتے ہیں خان الامین یعنی امین نے خیانت کی ۔ ان لوگوں نے پوچھا کہ امین کون تھا اور اس کی خیانت کیا تھی؟ شیخ نے کہا کہ شیعہ مذہب والے کہتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی(ع) جعفر کوہ حرا میں سو رہے تھے کہ جبرئیل امین خدا کی جانب سے مامور ہوئے کہ نبوت کی وحی علی کو پہنچائیں لیکن انہوں نے خیانت کی اور ان کے عوض خاتم الانبیاء کوپہنچا دی۔ یہی وجہ ہے کہ سارے شیعہ جبرئیل کے دشمن ہیں اور ہر نماز کے بعد تین مرتبہ کہتے ہیں کہ جبرئیل نے خیانت کی یعنی وحی کو علی(ع) کے بدلے خاتم الانبیاء(ص) کے سپرد کردیا یہ سن کر مجھ سے نہ رہا گیا میں نے کہا شیخ صاحب ، جھوٹ اور تہمت لگانا گناہ کبیرہ ہے یا صغیرہ ؟ کہا کبیرہ ہے ، میں نے کہا پھر جناب عالی نے اتنی سفید داڑھی کے ساتھ کس لیے دو بڑے گناہ کئے اور شیعوں پر یہ غلط الزام لگایا؟ انتہائی تمکنت کے ساتھ جواب دیا کہ میں ٹھیک کہتا ہوں میں نے ان ان مولوی حضرات سے پوچھا کہ آپ فارسی جانتے ہیں؟ ان میں سے دو تین آدمیوں نے کہا ہاں، تو میں نے دس بارہ نفر بوڑھے اور جوان زائرین کو جو موضوع بحث سے واقف نہیں تھے ایک ایک کرکے آواز دی اور پوچھا کہ آپ لوگ سلام نماز کے بعد جب کانوں تک ہاتھ بلند کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم قبولیت نماز کے لیے تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہیں میں نے کہا شیخ صاحب اب آپ کو کچھ شرم آئی یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ تم نے ان لوگوں کو سکھا دیا ہے میں نے کہا ذرا خدا کا خوف کیجئے۔ میں تو آپ کے پہلو میں بیٹھا ہوا ہوں۔ نہ اپنی جگہ سے اٹھاہوں نہ ایک فقط زبان سے نکالا ہے۔ پھر میں نے ان موصلی حضرات کی طرف رخ کیا اور اور کہا کہ میں التماس کرتا ہوں کہ آپ صاحبان اٹھ کر دوسرے ڈبوں میں جایئے اور ان شیعہ زائرین سے جو اس گاڑی میں سفر کررہے ہیں، دریافت کیجئے چند ہوشیار اشخاص جو زبان سے واقف تھے گئے اور واپس آکر غصے کے عالم میں شخ صاحب پر برسی پڑے کہ اسی جھوٹ اور افتراء سے آپ کا کیا مطلب تھا؟ ہم لوگوں نے تمام دیہاتی اور شہری زائرین سے سوال کیا اور سب نے بالعموم یہی جواب دیا کہ ہم اللہ اکبر کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے کلمہ خان الامین کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو اس قسم کے کلمے سے واقف بھی نہیں ہیں۔ شیخ صاحب نے کہا میں نے بھی کتابوں میں پڑھا ہے کہ شیعہ اسی طرح کہتے ہیں۔ وہ جو ان لوگ چونکہ تحقیق کرچکے تھے۔ لہذا شیخ صاحب کو سخت وسعت کہنا شروع کیا کہ ایک عالم کو جب تک کسی چیز کی تحقیق نہ کرے اس وقت تک زبان سے نہ کہنا چاہئے۔ اس طرح کی حرکتیں ان تہمتوں میں سے ایک نمونہ ہیں جو بعض سنی عالم شیعوں پر تھوپتے ہیں تاکہ عام برادران اہل سنت کو ہم سے بدظن کردیں۔

۱۸۴

نیز کہتے ہیں کہ شیعہ یہودیوں کے مانند ہیں جو سنت رسول(ص) پر عمل نہیں کرتے اور جس وقت کسی سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں السام علیکم یعنی موت ہو تم پر۔ ( شیعہ حضرات ن قہقہہ لگایا) شیعوں کا باہمی طرز عمل اور برادران اہل سنت کے ساتھ معاشرت کا طریقہ ان کی غلط بیانی پر سب سے بڑی دلیل ہے۔

سب سے زیادہ تعجب تو اس بات پر ہے کہ کہتے ہیں ، شیعہ یہودیون کی طرح تمام مسلمانوں کا خون حلال سمجھتے ہیں اور اسی طرح مسلمانوں کا مال ہضم کر لینا جائز جانتے ہیں ۔ حالانکہ آپ خود شیعوں کے اعمال کی گواہی دے سکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم کفار تک کے جان و مال تک کو حلال نہیں جانتے تو مسلمان بھائیوں کے جان و مال پر کیونکر تصرف کریں گے شیعہ مذہب میں حق الناس پر دست درازی بہت بڑا گناہ سمجھا گیا ہے اور قتل نفس بھی گناہان کبیرہ میں سے ہے۔

آپ کے بزرگ علماء میں سے ایک کے بعض اقوال پیش کئے گئے ہیں جلسے کا وقت اجازت نہیں دیتا کہ ان کے ہزلیات پر اس سے زیادہ توجہ کی جائے۔

ابن حزم کی تہمتیں

آپ کے اکابر علماء میں سے ایک صاحب ابو محمد علی ابن احمد بن سعید بن حزم اندلسی متوفی سنہ456ھ تھے جنہوں نے اپنی مشہور کتاب الفصل فی الملل و النحل میں عجیب عجیب تہمتوں اور دروغ بافیوں کے ساتھ شیعوں پر حملے کئے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ اس کتاب کی پہلی جلد ملاحظہ فرمائیے تو دیکھئے گا کہ اس میں کتنی مضحکہ خیز باتیں درج ہیں۔ من جملہ ان کے صاف صاف کہتے ہیں کہ شیعہ مسلمان نہیں ہیں بلکہ کافر اور ایسے درغ گو ہیں جنہوں نے یہود و نصاری کی پیروی اختیار کی ہے اور جلد چہارم ص182 میں کہتے ہیں کہ شیعہ نو عورتوں کے ساتھ نکاح جائز سمجھتے ہیں ۔ اس مرد کذاب کی افترا پردازی اور اس عجیب تہمت کے خلاف سب سے بڑی دلیل شیعوں کے صدیوں پرانی استدلالی کتاب اور عملیہ رسالے ہیں جن میں ہر جگہ یہی حکم ہے کہ چار عورتوں سے زیادہ کے ساتھ نکاح دائمی حرام ہے، اس کے متعلق تو فقہا اور صاحبان علم و عقل کے علاوہ تمام جاہل اور صحرا نشین شیعہ بھی جانتے ہیں کہ جیسا اس نے لکھا ہے ۔ ہرگز کبھی ایسا حکم موجود نہیں تھا۔ اگر آپ اس کتاب کے وہ حصے دیکھئے جن میں اس نے اس طرح کے غلط اقوال ، تہمتیں، فحش چیزیں اور بری باتیں شیعوں سے منسوب کی

۱۸۵

ہیں تو واقعا آپ کو شرمندگی ہوگی۔ یہاں نمونے کے طور پر اسی قدر کافی ہے۔

ابن تیمیہ کی تہمتیں

آپ کے سارے علماء سے زیادہ بد تہذیب بلکہ بے دین احمد بن عبدالحلیم حنبلی معروف بابن تیمیہ متوفی سنہ 728ھ تھا جو شیعوں بلکہ مولا امیرالمومنین علیہ السلام اور عترت طاہرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی حیرت انگیز بغض اور کینہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی اس شخص کی کتاب منہاج السنہ کی جلدین پڑھے تو اس کی شدید عداوت دیکھ کر مبہوت ہو جاتا ہے، جس نے اسی ذہنیت کی بنا پر قطع نظر اس کسے کہ حضرت امیرالمومنین (ع) اور اہل بیت طاہرین علیہم السلام کے بارے میں تمام نصوص صریحہ اور فضائل عالیہ کی تردید و تکذیب کرتا ہے، مظلوم شیعوں پر ایسے عجیب و غیرب جھوٹ اور تہمتیں باندھی ہیں کہ ہر سننے والا متحیر اور انگشت بہ دندان رہ جاتا ہے۔ اگر میں ان میں سے ہر ایک کا جواب دینا چاہوں تو گفتگو کا سلسلہ بہت سی نشستوں کا محتاج ہوگا لیکن اس غرض سے کہ جناب شیخ صاحب یہ سمجھ لیں کہ تہمت اور جھوٹ شیعہ علماء کی نہیں بلکہ انہیں کے بعض علماء کی خصوصیات میں سے ہے نمونے کے طور پر بعض باتیں پیش کررہا ہوں۔ اور تعجب تو یہ ہے کہ ان جھوٹے الزامات کے باوجود جو خود شیعوں پر عائد کرتا ہے بے خبر عوام کو بہکانے کے لیے جلد اول ص15 پر یہ بھی لکھتا ہے کہ اہل قبلہ فرقوں میں شیعوں سے زیادہ جھوٹا کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے صاحبان صحاح نے ان کی روایتوں کو نقل نہیں کیا ہے۔

جلد اول ص23 میں کہتا ہے کہ شیعہ اصول دین چار مانتے ہیں ، توحید، عدل، نبوت، اور امامت حالانکہ فرقہ امامیہ کی کتب کلامیہ بالعموم دستیاب ہوتی ہیں جن میں ہر جگہ لکھا ہوا ہے اور میں نے بھی پچھلی شبوں میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ شیعوں کے عقیدے میں تین اصول دین یعنی توحید ، نبوت، اور معاد ہیں عدل کو توحید اور امامت کو نبوت کا جز مانا گیا ہے۔

جلد اول ص131 میں کہتا ہے کہ شیعہ مسجدوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ، ان کی مسجدیں مجمع سے خالی رہتی ہیں۔ ان میں جمعہ و جماعت قائم نہیں کرتے اور اگر کبھی نماز پڑھتے بھی ہیں تو فردی پڑھتے ہیں ( شیعوں کا پر زور قہقہہ)

جناب شیخ : خود آپ نے اور تمام حاضر و غائب برادران اہل سنت نے کیا شیعوں کی مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی اور ان میں منعقد ہونے والی جماعتیں نہیں دیکھی ہیں؟ بالخصوص ہمارے عراق و ایران میں جو شیعیت کے مرکز ہیں۔ اور ان کے علاوہ ہر ایک شہر کے اندر شاندار مساجد عبادت گذاروں سے پر رہتی ہیں۔ بلکہ شیعوں کے جس قریہ اور دیہات میں جائیے گا وہاں ایک مسجد نظر آئے گی جس میں ماہ رمضان المبارک کے علاوہ بھی روز و شب نمازیں اور جماعتیں ہوتی ہوئی ملیں گی۔

آپ جیسے اہل علم حضرات علماء شیعہ کی استدلالی کتب فقہ دیکھیں اور اسی طرح برادران اہل سنت ہمارے فقہاء کے عملیہ رسائل کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ نماز جماعت اور مساجد میں جانے کا کس قدر ثواب نقل کیا گیا ہے۔ یہاں تک

۱۸۶

کہ گھر کی نسبت مسجدوں کے اندر نماز پڑھنے کا ثواب چند در چند زیادہ لکھا ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے جہاں تک ممکن ہو شیعہ کوشش کرتے ہیں کہ نمازیں مسجد میں اور جماعت کے ساتھ ادا کریں۔

اس کے بعد اندازہ کیجئے کہ اس رسواکن اور کذاب شخص نے شیعوں کی طرف کتنی جھوٹی نسبتیں دی ہیں۔

نیز اسی صفحے میں کہتا ہے کہ مسلمانوں کی طرح شیعہ حج بیت اللہ کو نہیں جاتے ہیں بلکہ ان کا حج قبروں کی زیارت کرنا ہے۔حج قبور کو حج خانہ کعبہ سے بالاتر جانتے ہیں بلکہ ان لوگوں کو سب و لعن کرتے ہیں جو حج قبور کو نہیں جاتے ہیں ( شیعوں کا قہقہہ)

حالانکہ اگر شیعوں کے کتب و رسائل عبادات کو کھول کر دیکھئے تو نظر آئے گا کہ اس عبادت کے سلسلے میں ایک مخصوص فصل قائم کی گئی ہے( بنام کتاب الحج ۔ باب الحج) اس سے قطع نظر کہ ہر فقیہہ کی ایک کتاب مناسک حج میں موجود ہے۔ جس میں شیعوں کو ادائگی حج کے لیے خاص طور پر ہدایتیں دی گئی ہیں، یہاں تک کہ ائمہ معصومین علیہم السلام سے اس قسم کی حدیثیں بھی نقل کی گئی ہیں کہ مسلمان (شیعہ وسنی) اگر مستغنی ہو اور حج بیت اللہ کو ترک کرے تو دائرہ اسلام سے خارج ہے اور موت کے وقت:

" يقال له مت أي ميتة شئت إن شئت يهوديا و إن شئت نصرانيا و إن شئت مجوسيا."

( یعنی اس تارک حج سے کہا جاتا ہے تو جیسی موت چاہے مر۔چاہے یہودی چاہے نصرانی اور چاہے مجوسی دین پر)

آیا عقل باور کرتی ہے کہ ایسی ہدایتوں کے بعد شیعہ قوم حج بیت اللہ کو ترک کر دے گی؟ آپ ایک جاہل دیہاتی شیعہ سے جو عتبات عالیات سے مشرف ہوتا ہے اور قبور ائمہ اطہار (ع) کی زیارت بجالاتا ہے سوال کیجئے کہ عمل حج کہاں بجا لانا چاہیئے؟ تو سوا مکہ معظمہ کے اور کوئی جگہ نہ بتائے گا۔

اس کے بعد یہ خدا نہ شناس انسان ایک بزرگ شیعہ عالم شیخ اجل و اعظم محمد بن نعمان مفید علیہ الرحمہ پر بہتان رکھتا ہے کہ ان کی ایک کتاب " مناسک الحج المشاہد" کے نام سے ہے، حالانکہ شیخ علیہ الرحمہ کی کتاب " مناسک الزیارات" کے نام سے ہے جو عام طور پر پائی جاتی ہے اور جس میں دوسرے مزارات کی طرح ائمہ طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین کے مقدس آستانوں سے مشرف ہونے اور زیارت بجالانے کے قواعد درج ہیں۔

اگر آپ کتب زیارات کا مطالعہ کریں تو ان کے شروع میں لکھا ہوا ملے گا کہ پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی مقدس قبروں کی زیارت مستحب عبادتوں میں سے ہے۔ ( نہ واجب)

اور اس نا خدا ترس آدمی کی غلط بیانی پر سب سے بڑی دلیل شیعوں کا عمل ہے جو ہر سال ہزاروں کی تعداد میں حج بیت اللہ سے مشرف ہوتے ہیں اور وہاں سے واپسی کے بعد حاجی کہے جاتے ہیں جو ان کے لیے باعث فخر ہوتا ہے۔ (1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ خود حقیر مترجم بھی بحمدہ اس شرف سے مشرف ہوچکا ہے اور بچشم خود دیکھا ہے کہ علاوہ عراق ویمن اور ہندو پاکستان وغیرہ کے صرف ایران سے پندرہ ہزار شیعہ حاجی آے ہوئے تھے 12 مترجم عفی عنہ۔

۱۸۷

۱۸۸

۱۸۹

کتاب کے کل مطالب کا وزن سمجھ لیں اور اس نا اہل مولف کو پہچان لیں۔

وقائق و حالات اثنا عشریہ کے ضمن میں لکھتا ہے کہ حضرت امام محمد تقی(ع) کے بعد حضرت امام علی ابن ہادی محمد النقی (ع) ہیں اور ان کا روضہ اقدس قم میںہے۔ حالانکہ ہر عالم وجاہل حتی کہ دشمن اور بچے بھی جانتے ہیں کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی قبر مبارک اپنے فرزند ارجمند حضرت حسن عسکری علیہ السلام کے پہلو میں سامرہ کے اندر ہے جو بہت عالی شان طلائی گنبد اور حرم کی مالک ہے اور جس کو مطلا کرنے کا فخر مرحوم ناصر الدین شاہ قاجار کو حاصل تھا۔

میرے خیال میں اب اس سے زیادہ کلام کو طول دینے کی ضرورت نہیں ہے میں نے نمونے کے طور پر

ہزار میں سے ایک کی طرف اشارہ کر دیا ہے تاکہ جناب شیخ صاحب یہ نہ فرمائیں کہ شیعہ جھوٹ بولتے ہیں اور تہمت لگاتے ہیں بلکہ یہ سمجھ لیں کہ یہ کلام خود انہیں کے علماء کا ہے۔

اور اب یہ بتانے کی غرض سے کہ تنہا میں نے ہی جناب ابوہریرہ صاحب کی شان میں جسارت نہیں کی ہے اور کوئی الزام نہیں دیا ہے بلکہ اکابر علمائے اہل سنت نے بھی ان کے حالات و واقعات کو درج کیا ہے، اختصار کے ساتھ ان میں سے چند باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہوں۔

ابوہریرہ کی مذمت میں روایات اور ان کے حالات

ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص358 نیز جلد چہارم میں اپنے شیخ اور استاد امام ابو جعفر اسکافی سے نقل کرتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان نے صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کو مامور کیا تھا کہ علی علیہ السلام پر طعن اور آپ سے بیزاری اختیار کرنے کی قبیح روایتیں گھڑی جائیں اور لوگوں میں مشہور کی جائیں ، چنانچہ وہ اشخاص برابر اسی کام میں مشغول رہتے تھے اور برائیوں کی اشاعت کیا کرتے تھے۔ من جملہ ان کے ( جو طعن و مذمت علی علیہ السلام میں احادیث قبیجہ وضع کرتے تھے ) ابوہریرہ عمرو عاص اور مغیرہ بن شیبہ بھی تھے۔

ان فقوں کی پوری تفصیل دیتے ہوئے ص359 میں اعمش سے روایت کی ہے کہ جس وقت ابوہریرہ معاویہ کے ساتھ مسجد کوفہ میں وارد ہوئے اور استقبال کرنے والوں کی کثرت دیکھی تو دونوں پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے اور دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پیٹنے لگے ( تاکہ لوگ متوجہ ہو جائیں ) اس کے بعد کہا اے اہل عراق کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں خدا اور رسول (ص) پر جھوٹ بولوں گا اور اپنے لیے جہنم کی آگ مول لوں گا سنو مجھ سے جو کچھ میں نے پیغمبر(ص) سے سنا ہے کیہ فرمایا :

" إن لكل نبي حرما، و إن حرمي المدينة ما بين عير إلى ثور، فمن أحدث فيهما حدثا فعليه لعنة اللّه و الملائكة و الناس أجمعين، و أشهد باللّه أن عليا أحدث فيها"

( یعنی ہر پیغمبر کا ایک حرم ہے اور میرا حرم مدینہ ہے ۔ جو شخص مدینے

۱۹۰

میں نئی بات پیدا کرے تو اس پر اللہ اور ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہو اس کے بعد ابوہریرہ نے کہا کہ میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ علی نے مدینے میں نئی بات پیدا کی ( یعنی لوگوں کو ابھارا لہذا قول رسول (ص) کے مطابق علی(ع) پر لعنت کرنا چاہئیے۔) جب معاویہ کو یہ خبر پہنچی ( کہ ابو ہریرہ نے ان کی ایسی خدمت انجام دی اور وہ بھی علی(ع) کے دارالخلافہ کوفہ میں تو کسی کو بھیج کر ان کو بلوایا، ان کی خاطر دارات کی، انعام دیا اور مدینے کا گورنر بنا دیا، انتہی ۔ آیا یہ اعمال ان کی مردودیت کی دلیل نہیں ہے؟ اور کیا یہ مناسب ہے کہ جس نے معاویہ کی خوشامد میں خلفائے راشدین کی ایک فرد بلکہ ان سب میں اکمل و افضل اور اشرف ہستی کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا ہو، ایسے آدمی کو محض اس بنا پر آپ نیک اور ممدوح سمجھیں کہ وہ کبھی رسول اللہ (ص) کے صحابہ میں رہ چکا ہے۔

شیخ : شیعوں کے پاس ان کے ملعون ہونے پر کیا دلیل ہے جو ان کو مردود و ملعون کہتے ہیں؟

خیر طلب : ہمارے پاس بہت سی دلیلیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ پیغمبر(ص) کو گالی دینے والا باتفاق فریقین حتما ملعون و مردود اور جہنمی ہے، بنا بر اس حدیث کے جو میں پہلے عرض کر چکا اور جس کو خود آپ کے اکابر علماء نے بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا جو شخص علی(ع) کو گالی دے اس نے مجھ کو گالی دی اور جس نے مجھ کو گالی دی اس نے خدا کو گالی دی ، ظاہر ہے کہ ابوہریرہ بھی انہیں لوگوں میں سے تھے جو علاوہ مولانا و مولی الموحدین امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر خود سب و لعن کرنے کے، جیسا کہ عرض کرچکا حدیثیں گھڑ گھڑ کے اور سب لوگوں کو بھی ان حضرت پر سب وشتم کرنے کے لیے مجبور کرتے تھے۔

مسلمانوں پر ظلم اور ان کے قتل عام میں بسر ابن ارطاۃ کے ساتھ ابوہریرہ کی شرکت

من جملہ ان دلائل کے یہ بھی ہے کہ آپ کے بڑے بڑے مورخین جیسے طبری، ابن اثیر، ابن ابی الحدید ، علامہ سمہودی، ابن خلدون اور ان خلکان وغیرہ نے لکھا ہے کہ جس وقت معاویہ بن ابی سفیان نے سفاک وخونخوار، قسی القلب اور شقی النفس بسر بن ارطاۃ کو شام کے چار ہزار جنگ آزما سپاہیوں کے ساتھ مدینے کے راستے سے اہل یمن اور شیعیان امیرالمومنین علیہ السلام کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا تو ان لوگوں نے مدینہ، مکہ، طائف، تبالہ ( تہامہ کا ایک شہر) نجران، قبیلہ ارحب ( جو ہمدان کے قبیلوں میں سے تھا ( صفا، حضرموت اور ان کے اطراف میں انتہائی درجہ کی (اہانت ) سفاکی، قتل عام، ظلم اور تعدی دکھائی، بوڑھے اور جوان بنی ہاشم اور شیعیان امیرالمومنین(ع) میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا حتی کہ رسول اللہ کے ابن عم اور امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف سے والی یمن عبید اللہ ابن عباس کے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی قتل کردیا ۔ یہاں تک کہ اس ملعون کے حکم سے اس سفر میں قتل ہونے والوں کی تعداد تیس ہزار سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔ ان لوگوں سے تو زیادہ تعجب نہیں ہے اس لیے کہ بنی امیہ اور ان کے پیرو اس سے بھی زیادہ کر چکے ہیں، لیکن حیرت تو آپ کے منظور نظر جناب ابو ہریرہ

۱۹۱

پر ہے جو اس لشکر کشی میں خونخوار و سفاک بسر بن ارطاۃ کی معیت اور معاونت میں حاضر اور ان دردناک مظالم کے نگران تھے۔ خصوصیت کے ساتھ اس ظلم و جور میں جو مدینہ منورہ والوں پر ڈھایا گیا اور وہ بے گناہ اور نہتے لوگ جیسے جابر ابن عبداللہ اںصاری اور ابو ایوب انصاری وغیرہ سب کے سب ترساں و لرزان کچھ ادھر ادھر بھاگ گئے اور کچھ گھروں میں چھپ گئے لیکن ان کے گھروں کو بھی مثلا ابو ایوب اںصاری کے مکان کو جو رسول اللہ (ص) کے خاص صحابہ میں سے تھے آگ لگا دی گئے ، ابوہریرہ یہ سب دیکھ رہے تھے اور کچھ نہ بولتے تھے بلکہ اس کے معاون و مددگار تھے۔

پھر اس رسوائے زمانہ لشکر کے مکہ معظمہ کی طرف کوچ کرنے کے بعد ابوہریرہ اسی عنوان نیابت کے ساتھ خاص طور پر وہاں مقیم رہے چنانچہ بعد کو بسرابن ارطاۃ کے ساتھ یہ کار گزاری اور ہمدردی دکھانے کے صلے میں معاویہ کی طرف سے مدینہ کے گورنر بنائے گئے۔ آپ کو خدا کا واسطہ اںصاف سے بتائیے کہ اس دنیا پرست انسان نے جو تین سال تک (1) رسول اللہ (ص) کی زیارت و مصاحبت سے مشرف رہا۔ اور پانچ ہزار سے زیادہ حدیثیں آن حضرت (ص) سے نقل کیں کیا وہ مشہور احادیث جن کو تمام علمائے فریقین جیسے علامہ سہمودی نے تاریخ المدینہ میں، احمد بن حنبل نے مسند میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص163 میں اور دوسرے علماء نے سلسلہ اسناد کے ساتھ رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے نہیں سنی تھیں کہ آنحضرت(ص) مکرر فرماتے تھے :

" من أخاف أهل المدينة أخافه اللّه، و عليه لعنة اللّه و الملائكة و النّاس أجمعين و لا يقبل اللّه منه صرفا و لا عدلا لعن الله من اخاف مدينتی لا يريد اهل المدينة احد بسوء الا اذا به الله فی النار ذوب الرصاص"

( یعنی جو شخص اہل مدینہ کو ظلم سے ڈرائے اس کو خدا ڈرائے اور اس پر خدا اور ملائکہ اور سارے انسانوں کی لعنت ہو، خدا اس سے قیامت کے روز کوئی چیز قبول نہیں کرے گا خدا لعنت کرے اس شخص پر جو میرے مدینہ والوں کو ڈرائے جو شخص بھی اہل مدینہ کے ساتھ کوئی بد ارادہ کرے گا خدا اس کو سیسے کی طرح آگ میں پگھلائے گا۔)

پس ایسی صورت میں کیونکر اس لشکر میں شریک ہوئے جس نے مدینے والوں پر اس قدر ظلم و تعدی کی اور ان میں خوف وہراس پھیلایا، قطع نظر اس سے کہ حدیثیں وضع کر کے خلیفہ برحق و وصی رسول(ص) اور آںحضرت(ص) کی عترت طاہرہ کی مخالفت کی اور لوگوں کو ایسے شخص پر گالیوں کی بوچھاڑ کرنے کی ترغیب دی جس کو سب وشتم کرنا پیغمبر(ص) نے اپنے اوپر سب وشتم کرنا قرار دیا تھا۔

خدا کے لیے اںصاف کیجئے کہ جو شخص رسول خدا(ص) کے نام سے جھوٹی حدیثیں تصنیف کرنے میں مشغول رہا ہو کیا وہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ طبقات ابن سعد اصابہ ابن حجر اور اکابر علمائے اہل تسنن کی دوسری معتبر کتابوں میں درج ہے کہ ابوہریرہ فتح خیبر میں مسلمان ہوئے اور بروایت نجاری ( باب علامات النبوۃ فی الاسلام میں) تین سال سے زیادہ رسول اللہ(ص) کی ملاقات سے موفق نہیں رہے۔ ابن حجر نے اصابہ میں، حاکم نے مستدرک میں، ابن عبدالبر نے المستطیب میں اور دوسروں نے روایت کی ہے کہ اٹھتر سال کی عمر میں سنہ57ھ میں وادی عقیق کے اندر مرے اور ان کا جنازہ مدینے لاکر بقیع میں دفن کیا گیا۔

۱۹۲

خدا و رسول (ص) کی بارگاہ میں مردود نہ ہوگا۔

شیخ : آپ بے لطفی فرماتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کے سب سے زیادہ موثق صحابی کو بے دین اور وضاع و جعلساز کہتے ہیں۔

ابوہریرہ کا مردود ہونا اور عمر کا ان کو تازیانہ مارنا

خیر طلب : تنہا میں نے ہی ابوہریرہ کے حق میں بے لطفی نہیں برتی بلکہ سب سے پہلے جس شخص نے اس طرح کی بے لطفی ان کے ساتھ کی وہ خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب تھے، کیونکہ ارباب تاریخ مثلا ابن اثیر نے حوادث سنہ23ھ میں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص104 مطبوعہ مصر میں نیز اور حضرات نے نقل کیا ہے کہ جب خلیفہ عمر نے سنہ21ھ میں ابوہریرہ کو بحرین کا گورنر بنایا تو لوگوں نے ان کو خبر دی کہ انہوں نے کثرت سے مال جمع کیا ہے او بہت سے گھوڑے خریدے ہیں۔ چنانچہ آپ نے ان کو سنہ23ھ میں معزول کردیا، یہ جیسے ہی دربار خلافت میں پہنچے تو خلیفہ نے کہا : " يا عدو الله و عدو كتابه أ سرقت مال الله" ( یعنی اے دشمن خدا اور دشمن کتاب خدا کیا تو نے مال خدا کی چوری کی ؟ انہوں نے کہا میں نے ہرگز چوری نہیں کی بلکہ لوگوں نے مجھ کو نذرانے دیے۔

نیز ابن سعد طبقات جلد چہارم ص90 میں، ابن حجر عسقلانی اصابہ میں اور ابن عبد ربہ عقد الفرید جلد اول میں لکھتے ہیں کہ خلیفہ نے کہا اے دشمن خدا جس وقت میں نے تجھ کو بحرین کا حاکم بنایا تھا تو تیرے پاوں میں جوتیاں تک نہ تھیں لیکن اب میں نے سنا ہے کہ تو نے ایک ہزار چھ سو دینار کے گھوڑے خریدے ہیں، یہ دولت تو کہاں سے لایا؟ انہوں نے کہا یہ لوگوں کے نذرانے ہیں جن کا نفع بہت ہوگیا۔ خلیفہ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور اٹھ کر ان کی پشت پر اتنے تازیانے مارے کہ خون بہنے لگا، اس کےبعد حکم دیا کہ بحرین میں جو اس نے دس ہزار دینار جمع کئے ہیں وہ اس سے وصول کر کے بیت المال کی تحویل میں دے دئے جائیں۔ اور صرف زمانہ خلافت ہی میں ان کو نہیں مارا بلکہ مسلم اپنی صحیح جلد اول ص34 میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں عمر ابن خطاب نے ابوہریرہ کو اس قدر مارا کہ یہ پیٹھ کے بل زمین پر گر پڑے۔

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول اوائل ص360 میں کہتے ہیں:

"قال أبو جعفر: و أبو هريرة مدخول عند شيوخنا غير مرضى الرواية، ضربه عمر بالدرة و قال: قد أكثرت من الرواية، و أحرى بك أن تكون كاذبا على رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و آله"

( یعنی ابوجعفر اسکافی ( شیخ معتزلہ ) نے کہا ہے کہ ابوہریرہ ہمارے شیوخ کے نزدیک بیہودہ شخص ہے۔ اس کی روایت ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے، عمر نے اس کو تازیانے سے مارا اور کہا تو نے روایت میں زیادتی کی ہے اور یقینا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جھوٹی باتیں منسوب کی ہیں۔)

۱۹۳

ابن عساکر تاریخ کبیر اور متقی کنزلاعمال ص739 میں نقل کرتے ہیں کہ خلیفہ عمر نے ان کو تازیانے سے مارار اور ڈانٹ ڈپٹ کی اور رسول اللہ(ص) سے حدیث نقل کرنے کو منع کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ تو آن حضرت(ص) سے روایت زیادہ نقل کرتا ہے اور اسی لائق ہے کہ آن حضرت (ص) کی طرف سےجھوٹ بولے ( یعنی تیرے ایسے نا لائق سے یہی ہوسکتا ہے کہ آن حضرت(ص) سےغلط باتیں منسوب کرے) لہذا تجھ کو چاہیئے کہ رسول(ص) کی زبان سے حدیث نقل کرنا چھوڑ دے ورنہ میں تجھ کو زمین روس( یمن میں ایک قبیلہ ہے اور ابوہریرہ وہیں کے رہنے والے تھے) یا بندروں کی سرزمین پر یعنی اس پہاڑی علاقے میں جہاں بندر کثرت سے رہتے ہیں بھیج دوں گا۔

نیز ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص360 مطبوعہ مصر میں اپنے استاد امام ابو جعفر اسکافی سے نقل کیا ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا :

" ألا ان أكذب الناس أو قال: أكذب الاحياء على رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و آله أبو هريرة الدوسيّ."

( یعنی آگاہ ہو کہ رسول خدا(ص) پر آدمیوں میں سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والا یا یہ فرمایا کہ زندوں میں سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والا ابو ہریرہ دوسی ہے ( دوسی یمن میں ایک قبیلہ ہے)

ابن قتبیہ تاویل مختلف الحدیث میں، حاکم مستدرک جلد سیم میں، ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اور مسلم اپنی صحیح جلد دوم فضائل ابوہریرہ میں سب کے سب نقل کرتے ہیں کہ عائشہ نے بار بار ان کی تردید کی اور کہتی تھیں کہ ابوہریرہ بہت بڑا جھوٹا ہے اور رسول اللہ(ص) سے منسوب کر کے بہت حدیثیں گھڑتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ بوہریرہ کو تنہا میں نے مردود نہیں کہا ہے بلکہ خلیفہ عمر، مولانا امیرالمومنین ، ام المومنین عائشہ اور صحابہ و تابعین کے نزدیک بھی یہ مردود تھے چنانچہ شیوخ معتزلہ اور ان کے بعد حنفیوں کے علماء بالعموم ابوہریرہ کی حدیثوں کو مردود جانتے ہیں اور جس حکم کی سند ابوہریرہ تک منتہی ہوتی ہے اس کو باطل سمجھتے ہیں، چنانچہ نووی نے شرح صحیح مسلم میں بالخصوص جلد چہارم کے اندر اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔

آپ کی جماعت کے بڑٰے پیشوا امام اعظم ابو حنیفہ کہتے تھے کہ صحابہ رسول عام طور پر ثقہ اور عادل تھے، میں ہر ایک سے ہر سند کے ساتھ حدیث لے لیتا ہوں لیکن جس حدیث کی سند ابوہریرہ ، انس ابن مالک اور سمرہ بن جندب تک منتہی ہوتی ہو اس کو قبول نہیں کرتا ۔ پس آپ حضرات ہم پہ یہ اعتراج نہ کیجیئے کہ ابوہریرہ صحابی پر کیوں نکتہ چینی کرتے ہو؟ ہم انہیں ابوہریرہ پر نقد و تبصرہ کرتے ہیں جن کو خلیفہ ثانی عمر نے تازیانے مارے اور بیت المال کو چور اور کذاب کہا ہے۔ ہم انہیں ابو ہریرہ کی گرفت کرتے ہیں جن پر ام المومنین عائشہ، امام اعظم ابوحنیفہ، کبار صحابہ ، تابعین اور بڑے بڑے معتزلی اور حنفی شیوخ و علماء نے تنفقید کی ہے اور مردود کہا ہے۔

خلاصہ یہ کہ ہم انہیں ابوہریرہ کی تنقید کرتے ہیں جن کو مولانا و مولی المدحدین امیرالمومنین (ع) اور ائمہ اہل بیت طاہرین علیہم السلام نے جو عدیل قرآن ہیں کذاب اور مردود فرمایا ہے۔ہم انہیں ابو ہریرہ کی عیب گیری کرتے ہیں جو پیٹ کے بندے تھے۔ اور

۱۹۴

امیرالمومنین(ع) کی افضلیت سے واقف ہوتے ہوئے ان حضرت سے کنار کشی کر کے معاویہ کے چرب و نرم دسترخوان کے حاشیہ نشین بنے تاکہ لوگ ان کی حدیث سازی کے بل پر امام المتقین اور خلیفہ المسلمین کو ( جن کو آپ بھی خلفائے راشدین میں سے مانتے ہیں) سب و شتم اور لعنت کریں۔

اب اس سے زیادہ جلسے کا وقت لینے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔ نیز اس کی معافی چاہتا ہوں کہ آپ کا اتنا وقت صرف کیا۔ چونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ ہم بے لطفی کرتے ہیں لہذا میں نے چاہا کہ یہ ثابت کردوں کہ ہم تنہا نہیں ہیں بلکہ خلفا وصحابہ اور خود آپ کے بڑے بڑے علماء بھی ان کی مردودیت کے مقر اور معترف ہیں۔ پس جب ایسے جعلساز اور وضاع افراد نے جاہ و منصب تک پہنچنے اور اپنی دنیا آباد کرنے کے لیے رسول اللہ(ص) کے نام سے حدیثیں گھڑ گھڑ کے صحیح احادیث میں مخلوط کر دی ہیں تو ایسی صورت میں ہر حدیث پر کیونکر اعتماد کیا جاسکتا ہے، چنانچہ اسی وجہ سے آنحضرت نے فرمایا ہے " کلما حدثتم بحديث منّی فاعرضوه على كتاب اللّه ،"( ترجمہ گذر چکا 12 مترجم)

( چونکہ ہم ایک خاص موضوع میں سرگرم بحث تھے ۔ لہذا مولوی صاحبان کی نماز میں قدرے تاخیر ہوگئی۔ جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو وہ حضرات اٹھ گئے نماز عشاء اور چائے کے بعد بات چیت شروع ہوئی۔)

خیر طلب : سابق بیانات کے پیش نظر اب ہم اور آپ مجبور ہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول احادیث میں سے کوئی حدیث سامنے آئے تو پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع کریں، اگر قرآن کی کسی اصل سے مطابق ہوتو قبول کریں ورنہ رد کریں۔

اس فرضی حدیث کا جواب کہ خدا نے فرمایا میں ابوبکر سے راضی ہوں، وہ بھی مجھ سے راضی ہیں، یا نہیں

یہ حدیث جو آپ نے نقل کی ہے ( اگرچہ یک طرفہ ہے پھر بھی ) ہم قرآن مجید سے اس کی مطابقت کرتے ہیں اگر کوئی نقص مانع نہ ہوگا تو ہم قطعا مان لیں گے۔ چنانچہ ایک جماعت نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ خدائے تعالی سورہ نمبر50 (ق) آیت نمبر15 میں فرماتا ہے:

" وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ وَ نَعْلَمُ ما تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ"

( یعنی ہم نے انسان کو خلق کیا ہے۔ اس کے نفس میں جو وسوسے آتے ہیں ان سے اچھی طرح واقف ہیں اور رگ گردن سے زیادہ اس سے قریب ہیں) آپ حضرات واقف ہیں کہ حبل الورید ایک مشہور مثل ہے جو انتہائی قربت کے معنی میں مستعمل ہے اور اس کا اضافہ بیانی ہے اور ممکن ہے کہ اضافہ لامی زینت کے لیے ہو۔ اور اس آیہ شریفہ کا اصل مفہوم

۱۹۵

اس طرف راجع ہے کہ خدائے تعالی کاعلم انسان کے حالات پر اس طرح حاوی ہے کہ سینوں کے اندر چھپی ہوئی باتوں اور دلوں کے اسرار میں سے کوئی شئے اس کی ذات اقدس پر مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے۔

اور سورہ نمبر10 (یونس) آیت نمبر62 میں ارشاد ہے

" وَ ما تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَ ما تَتْلُوا مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَ لا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُوداً إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ وَ ما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَ لا فِي السَّماءِ وَ لا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَ لا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتابٍ مُبِينٍ "

( یعنی اے ہمارے رسول(ص) ) تم کسی حال میں ہو، قرآن کی کوئی آیت تلاوت کرو اور تم اور تمہاری امت کوئی عمل بھی بجالاو ہم اسی وقت اس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور زمین و آسمان میں کوئی ذرہ بھی تمہارے خدا سے پوشیدہ نہیں ہے اور اس میں سے ہر چھوٹا بڑا ذرہ جو کچھ بھی ہے کتاب مبین ( اور لوح علم الہی ( میں درج ہے۔)

ان آیات شریفہ کے حکم اور عقلی دلائل کی تائید کے پیش نظر کوئی قول و فعل خدا سے مخفی نہیں رہتا اور پروردگار عالم اپنے علم حضوری کے ساتھ بندوں کے تمام اعمال و افعال اور اقوال کا عالم ہے۔ اب ذرا اس حدیث کو ملاحظہ فرمائیے جو آپ نے بیان کی کہ ان دونوں آیتوں اور دوسری آیات شریفہ کے ساتھ ہم اس کو کس طرح مطابق کریں اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ ابوبکر کی رضا مندی اور نا رضامندی خدا سے پوشیدہ ہو یہاں تک کہ وہ خود ان سے دریافت کرنے کا محتاج ہو۔ علاوہ اس کے حق تعالی کی خوشنودی خوشنودی خلق سے وابستہ ہے، بندہ جب تک رضا کی منزل تک نہ پہنچے قطعا خدا کا محبوب نہیں ہوسکتا، پس خدا کیونکر ابوبکر سے رضامندی کا اعلان کررہا ہے حالانکہ ابھی اس کو یہ نہیں معلوم کہ ابوبکر مقام رضا پر پہنچے اور خدا سے راضی ہیں یا نہیں۔

ابوبکر اور عمر کی فضیلت میں احادیث اور ان کا رد

شیخ : اب اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

" إنّ اللّه يتجلّى للناس عامّة و يتجلّى لأبی بكر خاصّة"

( یعنی خدا تمام انسانوں کے لیے عام طور پر اور ابوبکر کے کیے خاص طور پر جلوہ دکھائے گا۔) نیز فرمایا ہے : "ما صبّ اللّه شيئا فى صدرى إلّا و صبّه فى صدر أبى بكر،" ( یعنی خدا نے میرے سینے میں جوئی چیز نہیں ڈالی لیکن یہ کہ وہی چیز ابوبکر کے سینے میں بھی ڈالی) نیز فرمایا " انا و ابوبکر کفرسی ؟؟؟ " ( یعنی میں اور ابوبکر ان دو گھوڑوں کی مثل ہیں جو گھوڑ دوڑ میں ایک دوسرے کے برابر ہوں) نیز فرمایا :

" ان فی السماء الدنيا ثمانين الف ملک يستغفرون لمن احب ابابکر و عمر و فی السماء الثانيه ثمانين الف ملک يلعنون من البغض ابابکر وعمر"

( یعنی آسمانی دنیا میں اسی ہزار فرشتے اس شخص کے لیے استغفار کرتے ہیں جو ابوبکر و عمر کو دوست رکھے

۱۹۶

اور دوسرے آسمان میں اسی فرشتے لعنت کرتے ہیں اس شخص پر جو ابوبکر و عمر کو دشمن رکھے) نیز فرمایا ہے : " ابوبکر و عمر خير الاولين والآخرين " (یعنی ابوبکر و عمر اولین و آخرین میں سب سے بہتر ہیں۔) اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی عظمت منزلت اس حدیث سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے کہ فرمایا :

" خلقنی الل ه من نوره و خلق ابابکر من نوری و خلق عمر من نور ابی بکر و خلق امتی من نور عمر و خمر سراج اهل الجنة "

( یعنی خدا نے مجھ کو اپنے نور سے ا بوبکر کو میرے نور سے عمر کو ابوبکر کے نور سے اور میری امت کو عمر کے نور سے پیدا کیا اور عمر اہل جنت کے چراغ ہیں۔)

اس طرح کی حدیثین ہماری معتبر کتابوں میں بہت وارد ہیں جن میں سے نمونے کے طور پر میں نے بعض کی طرف اشارہ کر دیا ہے تاکہ آپ مقام خلفاء کی حقیقت واضح اور روشن ہوجائے۔

خیر طلب : سب سے پہلے تو ان احادیث کے نمایاں مطالب خود ہی ان کے فساد ور کفر پر پوری دلالت کررہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک سے ایسے مضامین صادر نہیں ہوئے اس لیے کہ پہلی حدیث تجسم کو ثابت کررہی ہے اور خدائے تعالی کی جسمانیت پر عقیدہ رکھتا قطعا کھلا ہوا کفر ہے۔ دوسری حدیث بتاتی ہے کہ رسول اللہ(ص) پر جو کچھ نازل ہوتا تھا ابوبکر اس میں شریک تھے۔ تیسری حدیث کا یہ مطلب ہے کہ خاتم الانبیاء(ص) کو ابوبکر پر کوئی فوقیت حاصل نہ تھی کیونکہ دونوں آپس میں مساوی تھے۔ چوتھی اور پانچویں دونوں حدیثیں ان بے شمار حدیثوں کے خلاف پڑتی ہیں جن پر فریقین کا اجماع ہے کہ اہل عالم میں سب سے بہتر محمد و آل محمد سلام اللہ علیہم اجمعین ہیں۔ اور آخری حدیث قرآن مجید کی مخالف ہے۔ کیونکہ سورہ نمبر73 (دہر) آیت نمبر13 میں ارشاد ہے " لا يَرَوْنَ فِيها شَمْساً وَ لا زَمْهَرِيراً" ( یعنی بہشت آفتاب و ماہتاب کی جگہ نہیں ہے بہشت کے شجر و حجر مکانات اور در دیوار سب روشن اور نورانی ہیں، یہ دنیا والے ہیں جو چراغ کے محتاج ہیں ورنہ اہل جنت کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔

علاوہ ان کھلی باتوں کے خود آپ کے بڑے بڑے علمائے درایت و رجال جیسے عالم جلیل القدر مقدسی نے تذکرۃ الموضوعات میں، فیروز آبادی شافعی نے کتاب سفرالسعادات میں، حسن بن کثیر ذہبی نے میزان الاعتدال میں، ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں، ابوالفرج ابن جوزی نے کتاب الموضوعات میں اور جلال الدین سیوطی نے الئالی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ میں ان احادیث کے موضوع اور فرضی ہونے کا فتوی دیا ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں صاف صاف کہتے ہیں کہ سلسلہ روایت و اسناد کے لحاظ سے یہ حدیثیں جعلی اور گھڑی ہوئی ہیں اس لیے کہ علاوہ ان نا اہل ، جعلساز اور جھوٹے افراد کے جو ان کے راویوں کے سلسلے میں موجود ہیں ان کا باطل ہونا عقلی قواعد و قرآنی آیات سے بھی ظاہر اور واضح ہے۔

شیخ : اچھا اس حدیث میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا

" أبو بكر و عمر سيّد الكهول

۱۹۷

أهل الجنّة"

( یعنی ابوبکر اور عمر دونوں جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں۔

اس حدیث کا جواب کہ ابوبکر و عمر دونوں جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں

خیر طلب : اس حدیث میں بھی اگر ہم تھوڑا غور و فکر کریں تو قطع نظر اس سے کہ خود آپ کے علمائے درایت و رجال اس کو وضعی احادیث میں سے سمجھتے ہیں، اس کی عبارت بھی یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ رسول کا ارشاد نہیں ہوسکتا اسی لیے کہ یہ چیز مسلمات میں سے ہے کہ جنت ضعیفوں اور بوڑھوں کی جگہ نہیں ہے اور وہاں دنیا کی طرح تدریجی ارتقاء نہیں ہے کہ آدمی جوانی سے پیری کی عمر کو پہنچے تاکہ کمال سیادت پر فائز ہو۔

ہماری اور آپ کے روایات میں اس مطلب کی تصدیق کرنے والے کافی اخبار موجود ہیں جن میں سے ایک اشجعیہ کا واقعہ ہے کہ ایک بوڑھی عورت خدمت رسول(ص) میں حاضر ہوئی آں حضرت نے دوران گفتگو میں فرمایا " أنّ الجنّة لا تدخلها العجائز" (یعنی بوڑھی عورتیں بہشت میں داخل نہ ہوں گی، وہ عورت بہت متاثر ہوئی اور رو رک عرض کیا یا رسول اللہ(ص) پھر تو میں جنت میں نہ جاوں گی۔ یہ کہہ کر باہر گئی تو آنحضرت(ص) نے فرمایا " اخبروہا انہا لیست یومئذ بعجوز۔" یعنی اس کو اطلاع دے دو کہ اس روز وہ بوڑھی نہ ہوگی بلکہ سارے بوڑھوں کو خلعت جوانی سے آراستہ کر کے بہشت میں داخل کریں گے۔ اس کے بعد سورہ نمبر56 (واقعہ) کی آیت نمبر36 تلاوت فرمائی کہ خدا فرماتا ہے :

" إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْكاراً عُرُباً أَتْراباً. لِأَصْحابِ الْيَمِينِ "

( انشاء صیغہ ماضی میں تحقیق وقوع کی جہت سے ہے یعنی ہم نے بہشت کی عورتوں کو انتہائی حسن و زیبائی کے ساتھ پیدا کیا ہے جن کو ہمیشہ کے لیے باکرہ اور دوشیزہ ، اپنے شوہروں کی عاشق و وفا دار ، ناز --- والی، شیرین کلام ، ہمسن اور اصحاب یمین کے لیے مخصوص قرار دیا ہے) اور ہمارے اور آپ کے طریقوں سے مروی حدیث میں وارد ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا

" يدخل أهل الجنّة الجنّة جردا مردا بيضا جعادا مكحّلين، أبناء ثلاث و ثلاثين."

( یعنی اہل بہشت جب بہشت میں داخل ہوں گے تو ہمیشہ کے لیے بے ریش و بروت نو جوان، سفید فام گھونگھریالے بالوں والے آنکھوں میں سرمہ لگا ہوئے تیس بتیس سال کی عمر میں ہوں گے۔)

شخ : آپ کے یہ بیانات اپنی جگہ پر صحیح ہیں لیکن اہل بہشت کے لیے یہ ایک حدیث محض ہے۔

خیر طلب : میں جناب عالی کے ارشاد کا مطلب نہیں سمجھا ۔ یہ حدیث مخصص کیا چیز ہے یعنی خدا ایک جماعت کو جنت میں بورھا ہی داخل کرے گا تاکہ ابوبکر و عمر کو ان کا سردار بنائے حالانکہ اگر فرض کیا جائے کہ ابوبکر وعمر جنت میں داخل ہوں گے تو خدا ان کو بھی جوان بنادے گا نہ یہ کہ دوسروں کو بوڑھا بنائے تاکہ ان دونوں کی سرداری ثابت ہو۔ اس کے علاوہ میں نے عرض کیا کہ خود آپ کے اکابر علمائ نے اس حدیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے اور رسول اکرم(ص) نے ہماری رہنمائی کے لیے

۱۹۸

ایک معیار معین فرمایا ہے تاکہ ہمارے خیال کو یکسوئی حاصل ہوجائے جیسا پہلے عرض کرچکا ہوں کہ جو حدیث بھی قرآن سے مطابقت نہ کرے وہ مردود ہے، لہذا ہمارے علمائے رجال اور صاحبان درایت بھی ایسی بہت سی حدیثوں کو جو رسول ائمہ طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین کے نام سے خود ہمارے طریق سے وارد ہوئی ہیں آن حضرت کے اس حکم کے ماتحت کہ :

" إذا روي لکم عني حديث فاعرضوه على كتاب الله فإن وافقه فاقبلوه و إلا فردوه."

( یعنی جس وقت مجھ سے کوئی حدیث تمہارے لیے روایت کی جائے تو اس کو قرآن مجید کے سامنے پیش کرو اگر اس کے موافق ہوتو قبول کرو ورنہ رد کرو) رد کردیتے ہیں اور قبول نہیں کرتے ۔

اور اس سے قبل عرض کرچکا ہوں کہ خود آپ کے بڑے بڑے ارباب جرح و تعدیل علماء نے بھی موضوع احادیث کی رد میں مبسوط کتابیں تالیف و تصنیف کی ہیں۔ مثلا شیخ مجدالدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی ( صاحب قاموس) نے کتاب سفر السعادۃ میں) جلال الدین سیوطی نے کتاب الئالی میں، ان جوزی نے موضوعات میں، مقدسی نے تذکرۃ الموضوعات میں اور شیخ محمد بن درویش مشہور بہ حوت بیروتی نے کتاب اسنی المطالب ص123 میں لکھا ہے کہ حدیث " أبو بكر و عمر سيّد الكهول أهل الجنّة" کی سند میں یحی بن عتبہ بھی ہے اور ذہبی کہتے ہیں کہ یحی ضعیف راویوں میں سے ہے۔ اور ابن حبان نے کہا ہے کہ یحی حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ پس علاوہ ان دلائل کے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے خود آپ کے نقاد علماء کے بیان سے بھی جو ارباب جرح و تعدیل ہیں یہ حدیث موضوع ثابت ہوتی ہے۔ در حقیقت قوی احتمال یہی ہے کہ یہ بکری یا اموی گروہ کی گھڑی ہوئی ہے کیونکہ وہ بنی ہاشم اور عترت طاہرہ و اہل بیت رسول (ص) کو حقیر بنانے کے لیے ان احادیث میں سے جو خاندان رسالت کی مدح اور عظمت میں فریقین کے نزدیک ثابت ہیں ہر حدیث کے مقابلے میں ایک فرضی حدیث تیار کر دیتے تھے اور ابوہریرہ جیسے لوگ بھی بنی امیہ کے باطل اقتدار کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرنے کے لیے برابر اس کام میں کوشش کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ اس کینے اور عداوت کی بنا پر جو لوگ آل محمد(ص) سے رکھتے تھے اس معتبر حدیث شریف کے مقابلے میں جس کو علاوہ اجماع علمائے شیعہ کے آپ کے اکابر علماء نے بھی نقل کیا ہے یہ حدیث بھی وضع کی گئی ہے۔

نواب : وہ مسلم حدیث کون سی ہے جس کے مقابلے میں یہ حدیث گھڑی گئی؟

اس حدیث کا ذکر کہ حسن(ع) و حسین(ع) دونوں جوانان اہل جنت کے سردار ہیں

خیر طلب: وہ معتبر اور مسلم حدیث شریف یہ ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا :

" الحسن و الحسين سيدا شباب اهل الجنة و ابوهما خير منهما"

اور آپ کے بہت سے علماء نے اس کو نقل کی اہے جیسے خطیب خوارزمی نے مناقب میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودت ہشتم میں، الامام ابو عبدالرحمن نسائی نے تین حدیثیں خصائص العلوی میں،

۱۹۹

ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص159 میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب 54 میں ترمذی ، ابن ماجہ اور احمد ابن حنبل سے سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص124 میں، امام احمد حنبل نے مسند میں، ترمذی نے سنن میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب14 میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ امام اہل حدیث ابو القاسم طبرانی نے معجم الکبیر کے اندر شرح حال امام حسن علیہ السلام میں بہت سے صحابہ پیغمبر سے اس حدیث شریف کے سارے طرق کو جمع کیا ہے مثلا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب خلیفہ ثانی عمر بن خطاب ، حذیفہ یمانی، ابو سعید خدری، جابر ابن عبداللہ انصاری، ابو ہریرہ، اسامہ بن زید اور عبداللہ بن عمر اس کے بعد محمد بن یوسف نےتبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک حسن حدیث ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا

" الحسن و الحسين سيدا شباب اهل الجنة و ابوهما خير منهما"

اور بعض روایتوں میں ہے افضل منہما ( یعنی حسن(ع) و حسین(ع) دونوں جوانان اہل جنت کے سردار ہیں، اور ان کے باپ ان سے بہتر و افضل ہیں) اور اس حدیث کے اسناد کا باہمی تسلسل اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ نیز حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیہ میں، ابن عساکر نے تاریخ کبیر جلد چہارم ص206 میں حاکم نے مستدرک میں، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ ص82 میں، غرضیکہ آپ کے اکابر علماء نے بالاتفاق کہا ہے کہ یہ حدیث رسول خدا(ص) کی زبان مبارک پر جاری ہوئی ہے۔

شیخ : اچھا اس حدیث سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا " لا ينبغي لقوم فيهم أبو بكر أن يتقدّم عليه غيره" یہ حدیث خود عام حیثیت سے امت پر ابوبکر کی فوقیت کی دلیل ہے اس لیے کہ فرمایا کسی قوم کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ ابوبکر اس کے درمیان موجود ہوں اور وہ دوسرے کو ان پر مقدم کرے۔

خیر طلب : مجھ کو افسوس ہے کہ آپ حضرات ہر ایک حدیث کو بغیر غور و فکر کے کیوں قبول کر لیتے ہیں۔ اگر یہ حدیث رسول اللہ(ص) کی فرمائی ہوئی تھی تو اس پر خود کیوں عمل نہیں فرماتے تھے کہ ابوبکر کی موجودگی میں علی علیہ السلام کو مقدم رکھتے تھے ؟ معاملے کے موقع پر کیا ابوبکر موجود نہیں تھے جو علی کو ان پر مقدم فرمایا ؟ جنگ تبوک میں ابوبکر کے ایسے تجربہ کار بوڑھے کی موجودگی میں کس لیے علی(ع) کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا ؟ سفر مکہ میں ابلاغ رسالت اور سورہ برائت کی قرائت کے لیے کس واسطے ابوبکر کو معزول کر کے علی(ع) کو نصب فرمایا ؟ مکے میں ابوبکر کے ہوتے ہوئے کس وجہ سے بت شکنی کے لیے علی(ع) کو اپنے ساتھ لے گئے یہاں تک کہ اپنے شانے پر سوار کیا اور ہبل بت کو توڑنے کا حکم دیا۔ ابوبکر کی موجودگی میں اہل یمن کی حکومت وہدایت کے لیے علی(ع) کو کیوں بھیجا؟ اور ان سب کے علاوہ ابوبکر کے ہوتے ہوئے علی(ع) کو اپنا وصی کس واسطے بنایا؟

شیخ : ایک بہت مضبوط حدیث رسول اللہ(ص) سے مروی ہے جس کا ہرگز انکار نہیں ہوسکتا کہ عمرو بن عاص نے کہا ایک روز میں نے پیغمبر(ص) سے عرض کیا یا بنی اللہ(ص) دنیا کی عورتوں میں آپ سب سے زیادہ کس کو چاہتے ہیں؟ فرمایا عائشہ کو، میں نے عرض کیا مردوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے فرمایا عائشہ کے باپ ابوبکر۔ پس اس لحاظ سے کہ آپ پیغمبر کے محبوب ہیں تمام امت پر فوقیت کا حق رکھتے یں اور یہ خود خلافت ابوبکر رضی اللہ پر ایک قاطع دلیل ہے۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369