پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 317415 / ڈاؤنلوڈ: 9851
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

سیوطی نے تاریخ الخلفاء ص۶۶ میں۔ ۹۔ ابن عبدالبر قرطبی متوفی سنہ۴۶۳ھ نے استیعاب جلد دوم ص۴۷۴ میں۔ ۱۰۔ سید مومن شبلنجی نے نور الابصار ص۷۳ میں۔ ۱۱۔ شہاب الدین احمد بن عبد القادر عجیلی نے ذخیرۃ الآمال میں۔ ۱۲۔ محمد بن علی الصبان نے اسعاف الراغبین ص۱۵۲ میں۔ ۱۳۔ نور الدین بن صباغ مالکی متوفی سنہ۸۵۵ھ نے فصول المہمہ ص۱۸ میں۔ ۱۴۔ نور الدین علی بن عبداللہ ہمودی متوفی سنہ۹۱۱ھ نے جواہر العقدین میں۔ ۱۵۔ ابن ابی الحدید معتزلی متوفی سنہ۶۵۵ھ نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۶ میں۔ ۱۶۔ علامہ قوشجی نے شرح تجرید ص۴۰۷ میں۔ ۱۷۔ خطیب خوارزمی نے مناقب ص۴۷، ص۶۰ میں۔ ۱۸۔ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ضمن فصل ششم ص۲۹ میں۔ ۱۹۔ امام احمد بن حنبل نے فضائل اور مسند میں۔ ۲۰۔ سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص۸۵، ص۸۷ میں۔ ۲۱۔ امام ثعلبی نے تفسیر کشف البیان میں۔ ۲۲۔ علامہ ابن قیم جوزی نے طرق الحکمہ میں ان حضرت کے تعدد قضایا نقل کرتے ہوئے ص۴۱ سے ص۵۳ تک ۔ ۲۳۔ محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی سنہ۶۵۸ھ نے کفایت الطالب باب ۵۷ میں۔ ۲۴۔ ابن ماجہ قزوینی نے سنن میں۔ ۲۵۔ ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں۔ ۲۶۔ ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد میں۔ ۲۷۔ محمد بن علی بن الحسن الحکیم ترمذی نے شرح فتح المبین میں۔ ۲۸۔ دیلمی نے فردوس میں۔ ۲۹۔ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب ۱۴میں۔ ۳۰۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء اور مانزل القرآن فی علی میں، اور آپ کے دوسرے بہت سے جلیل القدر علماء نے مختلف الفاظ و عبارات کے ساتھ خلیفہ عمر کے اقوال نقل کئے ہیں اور زیادہ تر ان قضیوں کے مواقع درج کرتے ہوئے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے : " لولاعلي لهلكعمر."

بعض وہ مواقع جہاں علی(ع) نے خلفاء کو نجات دلائی اور انہوں نے اقرار کیا کہ اگر علی (ع) نہ ہوتے تو ہم ہلاک ہوجاتے

منجملہ ان کے فقیہ گنجی شافعی نے کفایت الطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب(ع) باب۵۷ میں چند مستند روایتیں نقل کرنے کے بعد حذیفہ بن الیمان کی روایت نقل کی ہے جس کو آپ کے دوسرے علماء نے بھی درج کیا ہے کہ ایک روز عمر نے ان سے ملاقات کی اور پوچھا کہ تم نے کس حال میں صبح کی ؟ حذیفہ نے کہا :

" اصبحت والله اکره الحق و احب الفتنه و اشهد بما لم اره واحفظ غير المخلوق و اصلی علی غير وضوء ولی فی الارض ما ليس لله فی السماء"

یعنی میں نے اس حالت میں صبح کی کہ حق سے کراہت کرتا ہوں، فتنے کو دوست رکھتا ہوں، ایسی چیز کی گواہی دیتا ہوں جس کو دیکھا نہیں ہے، غیر مخلوق کو حفظ کرتا ہوں، صلوات بغیر وضو کے پڑھتا ہوں اور زمین میرے لیے وہ ہے جو خدا کے لیے آسمان میں نہیں۔

عمر ان الفاظ سے غضب ناک ہوئے اور ان کو سزا دینا چاہی، اتنے میں امیر المومنین علی علیہ السلام تشریف لائے اور عمر کے چہرے کے آثار دیکھ کر فرمایا تم کیوں غضب ناک ہو؟ انہوں نے واقعہ بیان کیا تو حضرت نے فرمایا یہ تو کوئی اہم معاملہ نہیں ہے، انہوں نے ساری باتیں سچ کہیں ہیں۔

۲۴۱

حق سے مراد موت ہے جس سے یہ کراہت کرتے ہیں ، فتنے سے مراد مال و اولاد ہے، جس کو دوست رکھتے ہیں، بن دیکھی چیز سے مراد ذات وحدہ لاشریک نیز موت ، قیامت ، بہشت ،دوزخ اور صراط ہے جن میں سے کسی کو نہیں دیکھا ہے پھر ان کی گواہی دیتے ہیں، غیر مخلوق سے مراد قرآن ہے جس کو حفظ کرتے ہیں، صلواۃ بغیر وضو سے مراد رسول(ص) پر درود بھیجنا ہے جس کے لیے وضو کی ضرورت نہیں اور یہ کہنا کہ زمین میں میرے لیے وہ ہے جو خدا کے لیے آسمان میں نہیں تو اس سے مراد زوجہ ہے کیونکہ خدا کے لیے زوجہ اور اولاد نہیں۔

عمر نے کہا : " کاد یہلک ابن خطاب لو لا علی ابن ابی طالب" یعنی قریب تھا کہ عمر ہلاک ہوجائے اگر علی(ع) نہ پہنچ جاتے۔ اس کے بعد مئولف گنجی کہتے ہیں کہ یہ بات ( یعنی خلیفہ کہتے تھے کہ اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا) اہل خبر کے نزدیک ثابت ہے اور ارباب میر کی ایک بڑی جماعت نے اس کو نقل کیا ہے۔

صاحب مناقب کہتے ہیں کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ بار بار کہتے تھے : " لا غشث فی امة لست فيها يا ابالحسن " یعنی میں زندہ نہ رہوں اس امت میں جس میں تم نہ ہو اے ابو الحسن ( کنیت علی علیہ السلام) نیز کہتے تھے " عقمات النساء ان ي لدن مثل علی ابن ابی طالب " یعنی عورتیں علی(ع) کی ایسی اولاد پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔

محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۱۴ میں ترمذی سے نقل کرتے ہوئے بسند ابن عباس ایک مفصل روایت لکھی ہے جس کے آخر میں کہتے ہیں :

" کانت الصحابة رضی الله عنهم يرجعون اليه فی احکام الکتاب و ياخذون عنه الفتاوی کما قال عمر بن الخطاب رضی الله عنه فی عدة مواطن لا لو علی لهلک عمر. و قال صلی الله عليه و آله اعلم امتی علی بن ابی طالب."

یعنی اصحاب رسول(ص) احکام قرآن میں علی علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان سے فتوی لیتے تھے، چنانچہ عمر ابن خطاب نے اکثر مواقع پر کہا ہے کہ اگر علی(ع) نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوجاتا۔ اور حضرت رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ امت میں سب سے بڑے عالم و دانا علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔

پس وقت کے لحاظ سے اس مختصر بیان پر غالبا آپ تصدیق کریں گے کہ مذہبی مناظروں اور علمی مباحثوں میں کبھی خلیفہ عمر کی کوئی شدت اور مضبوطی نہیں دیکھی گئی بلکہ وہ خود اپنی معذوری کا اقرار کرتے تھے اور اس بات کی تصدیق کرتے تھے کہ علی(ع) ان کے فریاد رس تھے اور خطرناک مراحل سے ان کو چھٹکارا دلاتے تھے ، یہاں تک کہ آپ کے متعصب علماء جیسے ابن حجر مکی صواعق محرقہ فصل سیم میں ابن سعد سے نقل کرتے ہیں کہ عمر کہتے تھے " اعوذ بالل ه من معضلةليس لها ابوالحسن يعنی عليا " یعنی میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں ایسے دشوار اور سخت مرحلے سے جس کے لیے ابو الحسن یعنی علی(ع) موجود نہ ہوں۔

۲۴۲

کسی میدان جنگ میں خلیفہ عمر کی کوئی شجاعت و پامردی نہیں دیکھی گئی

معرکوں اور لڑائی کے میدانوں میں بھی کوئی تاریخ ؟؟؟؟ دیتی کہ خلیفہ عمر نے بذات خود کسی شدت و شجاعت اور ثبات قدم کا ثبوت دیا ہو بلکہ اس کے برعکس تاریخ اور فریقین کے مورخین گواہ ہیں کہ جب کسی بڑے لشکر یا کسی طاقت ور کافر کا مقابلہ ہوجاتا تھا تو ان کے قدم اکھڑ جاتے تھے جس کے نتیجے میں دوسرے مسلمان بھی بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور لشکر اسلام کو شکست ہوجاتی تھی۔

حافظ : آپ نے آہستہ آہستہ بے لطفی میں شدت پیدا کردی اور خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ جیسے انسان کی جو مسلمانوں کے لیے باعث فخر تھے، ان کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں کو بڑے بڑے فتوحات نصیب ہوئے، اور ساری جنگوں میں انہیں کے وجود سے لشکر اسلام کو فتح حاصل ہوئی ہے توہین کی ہے، ایسی بزرگ ہستی کو بزدل اور بھگوڑا اور ان کی ذات کو مسلمانوں کی شکست کا ذمہ دار ثابت کرتے ہیں۔ آیا یہ مناسب ہے کہ آپ جیسا شریف انسان خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ جیسے بزرگ حضرات کی جو مسلمانوں کے لیے سرمایہ فخر و مباہات ہیں اس قدر اہانت کرے اور ہم بھی چپکے رہیں اور دم نہ ماریں۔

خیر طلب : آپ کو سخت غلط فہمی ہوئی۔ تعجب ہے کہ اتنی راتوں کے بعد بھی آپ نے مجھ کو صحیح طریقے سے نہیں پہچانا اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید میں اپنے جذبات اور جاہلانہ محبت و دشمنی کی بنا پر بغیر دلیل و برہان کے اشخاص کی تعریف یا مذمت کرتا ہوں بالخصوص ان افراد کی جا تاریخ کے اندر شہرت رکھتے ہیں، چاہئے جس طبقے کے ہوں، صرف ایک بڑا عیب جو اس طرح کے جلسوں میں پایا جاتا ہے اور جو صدیوں سے مسلمانوں کے درمیان بدبختی کا سبب بنا ہوا ہے غلط بینی اور بدگمانی ہے جس پر حکم قرآن کے خلاف مسلمانوں کا عمل ہے۔ باجودیکہ سورہ ۴۹ ( حجرات) آیت ۱۲ میں کھلا ہوا ارشاد ہے: " يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِنَ الظَّنِ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ " (یعنی اے ایمان والو ظن اور گمان بدسے پرہیز کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔

چونکہ یہ حملے جو میں نے عرض کئے ہیں ایک شیعہ کی زبان سے نکلے ہیں لہذا آپ نے بدنیتی سے کام لیتے ہوئے ان کو اہانت سمجھا، حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہے، کیونکہ جو کچھ آپ کے علماء مورخین نے لکھا ہے میں نے ایک لفظ اس سے زیادہ نہیں کہا۔ ظاہر ہے کہ ہم اور آپ گزشتہ زمانوں میں نہیں تھے لیکن عقل کہتی ہے کہ صفحات تاریخ کے روسے ہم کو اشخاص کے اچھے برے افعال کا فیصلہ کرنا چاہیے۔

۲۴۳

دوبارہ اظہار حقیقت

آپ نے جو یہ فرمایا کہ میں نے خلیفہ عمر کی توہین کی ہے تو معاف کیجئے گا اس مقام پر آپ کو مغالطہ ہوا ہے۔ یا پھر آپ نے اس جملے سے ہمارے مخالفین کر بھڑکانا چاہا ہے۔ حالانکہ خلیفہ کے بارے میں ہماری گفتگو اہانت کے پہلو سے نہیں تھی بلکہ میں نے تاریخ کا سچا واقعہ بیان کیا ہے اور خود آپ کے بڑے بڑے علماء مورخین نے جو کچھ لکھا ہے اس سے زیادہ نہ کچھ کہا ہے نہ کہتا ہوں ۔ اب میں مجبور ہوں کہ پردہ اٹھائوں اور مطلب کو زیادہ تشریح اور وضاحت سے بیان کروں تاکہ یہ بد گمانی دفع ہو۔ آپ نے فرمایا ہے کہ اسلام کے اہم فتوحات خلیفہ عمر کے مرہوں منت ہیں، تو کسی کو اس سے انکار نہیں کہ حکومت عمر کے زمانے میں اسلام کو بڑے بڑے فتوحات حاصل ہوئے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی نہ بھولنا چاہیئے کہ آپ کے اکابر علماء کہ شہادت اور اقرار کے مطابق جیسا کہ قاضی ابوبکر خطیب نے تاریخ بغداد میں، امام احمد حنبل نے مسند میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نیز دوسروں نے لکھا ہے، تمام ملکی اور انتظامی امور میں بالخصوص فوج کشی کے موقع پر خلیفہ عمر حضرت علی علیہ السلام سے مشورہ کرتے تھے اور انہیں کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے تھے۔

علاوہ ان چیزوں کے ہر دور اور زمانے کے اسلامی فتوحات میں فرق تھا۔ پہلی قسم اسلام کے ان ابتدائی فتوحات کی ہے جو خود حضرت خاتم الانبیاء(ص) کے عہد میں حاصل ہوئے اور جو امیرالمومنین علی علیہ السلام کی ذات والا صفات کے مرہون منت تھے بقول شاعر

سیاہی لشکر نباید بکار کہ یک مرد جنگی بہ از صد ہزار

جوانمرد انسان جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے سرمایہ فخر و مباہات اور جس کا وجود لشکر اسلام کی فتح و فیروزی کا ضامن تھا، امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے، کیونکہ اگر آپ کسی جنگ میں موجود نہ ہوتے تھے تو فتح بھی حاصل نہ ہوتی تھی، چنانچہ خیبر میں جب کہ آپ کو آشوب چشم تھا اور میدان میں جانا ممکن نہیں تھا مسلمانوں نے پے در پے شکست کھائی یہاں تک حضرت نے رسول اللہ کی دعا سے شفا پائی اور دشمن پر حملہ کر کے خیبر کے قلعے فتح کئے۔

غزوہ احد میں جب سارے مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے تو صرف حضرت علی (ع) ہی تھے جو پیغمبر(ص) کی نصرت میں ثابت قدم رہے یہاں تک کہ ہاتف غیب نے ندا دی لا سیف الا ذوالفقار لا فتی الا علی ( یعنی سوا ذوالفقار کے کوئی تلوار نہیں اور سوا علی(ع) کے کوئی جوانمرد نہیں۔)

اور دوسری قسم ان فتوحات کی ہے جو وفات پیغمبر(ص) کے بعد ہوئے اور وہ سب کے سب نامی بہادروں ، اسلام کے بڑے سرداروں اور ان کی تدبیر جنگ اور تجربہ کاری کے ممنون احسان تھے کیونکہ وہ میدان جنگ میں طاقت ور دشمنوں

۲۴۴

کے مقابل شجاعت و فداکاری اور جان بازی دکھا کر ان پر غلبہ حاصل کرتے تھے۔

لیکن ہماری گفتگو فتوحات اسلامی کے بارے میں نہیں تھی جو خلافت خلفاء اور بالخصوص خلیفہ عمر کے زمانہ میں ہوئے بلکہ خلیفہ عمر کی ذاتی شدت و شجاعت اور پامردی کے موضوع پر تھی جس کے متعلق میں نے عرض کیا کہ تاریخ میں اس کا وجود نہیں۔

حافظ : یہ اہانت نہیں ہے کہ آپ فرماتے ہیں خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ میدان جنگ سے بھاگے اور ان کا یہ عمل مسلمانوں کی شکست کا باعث ہوا؟

خیر طلب : اگر لوگوں کے تاریخی واقعات کا نقل کرنا اہانت ہے تو اس طرح کی اہانت کو خود آپ ہی کے بڑے برے علماء اور مورخین نے نقل کیا ہے اور میں نے بھی وہی کہا ہے جس کو آپ کے مورخین نے درج کیا ہے لہذا اگر آپ کا کوئی اعتراض یا اشکال ہے تو اپنے ہی علماء پر وارد کیجئے۔

حافظ : کس جگہ ہمارے علماء نے لکھا ہے کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ میدان جنگ سے بھاگے اور مسلمانوں کی شکست کا باعث بنے؟

خیبر میں ابوبکر و عمر کی شکست

خیر طلب : ان حضرات نے لڑائی کے بہت سے میدانوں میں شکست کھائی جن میں سے ایک خاص واقعہ جنگ خیبر کا ہے ۔ چونکہ حضرت علی علیہ السلام کی آنکھیں درد کررہی تھی لہذا پہلے روز حضرت رسول خدا(ص) نے فوج اسلام کا علم ابوبکر کو دیا، یہ مسلمانوں کے سردار لشکر بن کر یہودیوں کے مقابلے پر گئے اور مختصر سی لڑائی کے بعد شکست کھا کر واپس آگئے ، دوسرے روز نشان فوج عمر کو دیا گیا لیکن یہ ابھی یہودیوں کے مقابل بھی نہیں پہنچے تھے کہ ڈر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

حافظ : آپ کے یہ بیانات محض شیعوں کے گھڑے ہوئے ہیں ورنہ یہ حضرات بہت ہی دلیر اور بہادر تھے۔

خیر طلب : میں نے بار بار عرض کیا ہے کہ شیعہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے پیرو ہیں جو صادق و مصدق تھے۔ نہ ہم نے جھوٹ کہا ہے نہ کہتے ہیں کیونکہ جھوٹ کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور نہ ہم کو قطعا حدیث گھڑنے کی کوئی ضرورت ہی ہے۔ غزوہ خیبر خاتم الانبیاء(ص) کے دور زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے جس کو فریقین کے تمام علماء و مورخین نے لکھا ہے، چنانچہ جتنا اس وقت میرے پیش نظر ہے اس کو عرض کرتا ہوں۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی متوفی سنہ۴۳۰ھ نے حلیۃ الاولیاء جلد اول ص۶۳ میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص۴۰ میں سیرۃ ابن ہشام سے ، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب ۱۴ میں نیز آپ کے دوسرے اکابر علماء و مورخین نے لکھا ہے۔ لیکن سب کے اقوال نقل کرنے کا وقت نہیں ہے البتہ ان سارے اقوال سے زیادہ اہم اور آپ کے نزدیک محل وثوق و اطمینان دو بڑے عالموں کی تصدیق پیش کرتا ہوں۔ محمد بن اسماعیل

۲۴۵

بخاری نے اپنی صحیح جلد دوم مطبوعہ مصر سنہ ۱۳۲۰ھ ص۱۰۰ میں اور مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح جلد دوم مطبوعہ مصر سنہ۱۳۲۰ ص۳۲۴ میں صریحا لکھا ہے فرجع ایضا ضہزما " یعنی ( خلیفہ عمر) دو مرتبہ میدان جنگ سے بھاگ کر واپس آئے۔

اس مطلب کے واضح دلائل میں سے ابن الحدید معتزلی کے وہ کھلے ہوئے اشعار ہیں جو انہوں نے اپنے سات مشہور قصیدوں میں سے جو آیات سبع کے نام سے موسوم اور حضرت امیرالمومنین(ع) کے فضائل میں نظم کئے گئے ہیں قصیدہ بائیہ میں باب خیبر کا ذکر کرتے ہوئے کہے ہیں۔

الم تخبر الاخبار فی فتح خيبر نفيها الذی اللب الملب اعاجيب

وما انس لانس الذين تقد ماو فرهما والفرقد علما حوب

وللراية العظمی و قد ذهبا بهاملابس ذل نوقها و جلابيب

يشلهما من آل موسی شمر دل طويل نجا والسيف اجيد يعبوب

يمج منونا سيفه و سنانه و يلهب نارا عمده و الاقابيب

احضرهما ام حضرا خرج خاضب وذانهما ام فاعم الخد مخضوب

عذرتکما ان الحمام لمبغض وان لقاء النفس للنفس محبوب

ليکره طعم الموت والموت طالب فکيف يلذ الموت والموت مطلوب

( مطلب یہ کہ آیا تم نے فتح خیبر کی داستان نہیں سنی ہے جس میں عجیب عجیب نکات و رموز پوشیدہ ہیں، جن سے عقلمند حیران ہیں۔ چونکہ وہ دونوں ( ابوبکر و عمر) علم سے کوئی انس اور علمداری کی عادت نہیں رکھتے تھے لہذا بھاگ کھڑے ہوئے حالانکہ جانتے تھے کہ میدان جہاد سے بھاگنا ایک کفر آمیز گناہ ہے۔ اور جو با عظمت نشان فوج لے گئے تھے اس کو بھی ذلت و خواری کا جامہ پہنا دیا۔ کیونکہ یہودی سرداروں میں سے ایک بہادر اور بلند قامت جوان برہنہ تلوار لئے ہوئے ایک کوہ پیکر گھوڑے پر سوار پر شہوت نر شتر مرغ کی طرح جس کو موسم بہار کی ہوا اور سبزے نے قوی بنا دیا ہو ان پر حملہ آور ہوا۔ گویا وہ خوبصورت مہندی لگائے ہوئے معشوقوں کی طرف جارہا تھا۔ اس کی تلوار اور نیزے کی بجلی سے آتش مرگ کی شعاعین نکلتی دیکھ کر یہ دونوں ڈر گئے ( پھر ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ ) میں آپ دونوں صاحباں (ابوبکر و عمر) کی جگہ پر عذر خواہی کرتا ہوں ، موت ہر شخص کی نظر میں مکروہ اور زندگی محبوب ہے۔ لہذا آپ بھی موت سے بیزار تھے ، حالانکہ موت ہر شخص کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ پس کیونکر آپ موت چاہتے اور اس کا مزہ چکھتے) اب غالبا آپ تصدیق کریں گے کہ میں اہانت کا ارادہ نہیں رکھتا تھا بلکہ فقط یہ سمجھانے کے لیے تاریخی واقعات نقل کئے تھے کہ لڑائی کے میدانوں میں خلیفہ کے اندر کوئی ذاتی شدت و درشتی اور شجاعت نہیں تھی جس سے اشداء علی الکفار میں شامل ہوسکیں بلکہ طاقتور دشمن کے مقابلے میں جگہ چھوڑ کر جنگ سے منہ موڑ لیتے تھے آپ اگر غور و انصاف کی پوری نظر ڈالیں تو تصدیق کریں گے کہ اس بلند صفت کے حامل بھی علی(ع) تھے جو تمام معرکوں میں کفار پر شدید الغضب اور غالب رہتے چنانچہ خدائے تعالی سورہ نمبر۵ ( مائدہ) آیت نمبر۵۹ میں اس کی توثیق

۲۴۶

فرماتا ہے، ارشاد ہے:

" ياأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُوامَنْ يَرْتَدَّمِنْ كُمْ عَن ْدِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّه ُبِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍعَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍعَلَى الْكافِرِينَ يُجاهِدُونَ فِي سَبِيل ِاللَّهِ وَلايَخافُونَ لَوْمَةَلائِمٍ ذلِكَ فَضْل ُاللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشاءُوَاللَّه ُواسِعٌ عَلِيمٌ "

( یعنی اے ایمان لانے والو تم میں سے جو شخص اپنے دین سے مرتد ہوجائے تو عنقریب خدا ایسی قوم کو لائے گا جن کو وہ دوست رکھتا ہے اور وہ بھی خدا کو دوست رکھتے ہیں، مومنین سے نکسار اور فروتنی اور کافروں سے عظمت و اقتدار کے ساتھ پیش آتے ہیں( جیسے علی(ع) اور ان کے پیرو) خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور اس راستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ یہ خدا کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور خدا کی رحمت وسیع ہے، وہ ہر مستحق کی حالت سے خوب واقف ہے۔)

حافظ : تعجب ہے کہ آپ اپنی خوش بیانی سے اس آیت کو جو ان تمام مومنین کی شان میں ہے جن میں یہ صفتیں موجود تھیں اور خدا کا لطف و کرم جن کے شامل حال تھا زبردستی علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں ثابت کر رہے ہیں۔

خیر طلب : آپ نے مکرر تجربہ کیا ہے اور دیکھا ہے کہ میں نے اب تک بلا دلیل کوئی بات نہیں کہی ہے جیسا کہ آپ نے برابر ایراد کیا ہے اور ان کا جواب سنا ہے لیکن پھر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ بہتر یہ تھا کہ آپ سوال کے انداز میں فرماتے کہ اس دعوے پر دلیل کیا ہے تاکہ میں جواب عرض کردیتا۔ اب آپ کے ارشاد کا جواب پیش کرتا ہوں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر یہ آیت تمام مومنین کے لیے نازل ہوئی ہوتی اور وہ سب اس کے مصداق ہوتے تو میدان جنگ سے ہرگز فرار نہ کرتے۔

حافظ : آیا یہ انصاف ہے کہ مومنین اور اصحاب رسول (ص) کو جنہوں نے اس قدر جنگیں کیں اور فتوحات حاصل کئے آپ اہانت آمیز انداز میں فرار کرنے والے بتارہے ہیں؟

خیر طلب : اول تو میں نے کوئی اہانت کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ ان کی کیفیت بیان کی ہے۔ دوسرے ان کو میں نے فرار نہیں کہا ہے بلکہ تاریخ یہی بتاتی ہے۔ گویا آپ حضرات احد اور حنین کی لڑائیوں میں مومنین اور صحابہ کا فرار کرنا بھول ہی گئے جب کہ بالعموم حتی کہ کبار صحابہ بھی چل دیے تھے اور پیغبر اسلام کوکفار کے مقابلے میں تنہا چھوڑ دیا تھا، جیسا کہ طبری اور آپ کے دوسرے بڑے مورخین نے لکھا ہے۔

یہ کیونکر ممکن ہے کہ جن لوگوں نے میدان جنگ میں پیٹھ دکھائی، جہاد سے منہ موڑا اور رسول خدا(ص) کو دشمنوں کے سامنے اکیلا چھوڑ دیا وہ خدا و رسول(ص) کے محبوب ہوں۔

تیسرے اس آیت کا علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونا میں نے نہیں بتایا ہے بلکہ آپ ہی کے بڑے بڑے علماء جیسے ابواسحاق اما احمد ثعلبی جن کے متعلق آپ کا عقیدہ ہے کہ اصحاب حدیث کے امام تھے اپنی تفسیر کشف البیان میں کہتے ہیں، کہ یہ آیہ شریفہ علی ابن ابی طالب(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے کیونکہ تمام صفات مدرجہ آیت کا حامل سوا حضرت کے اور کوئی نہیں تھا۔

۲۴۷

اور ساری چھتیس لڑائیوں میں جو رسول اللہ(ص) کو پیش آئیں اپنے یا بیگانے کسی مورخ نے نہیں لکھا ہے کہ علی علیہ السلام نے ایک مرتبہ بھی میدان جنگ اور جہاد فی سبیل اللہ سے منہ موڑا ہو۔ یہاں تک کہ جنگ احد میں جب تمام اصحاب بھاگ گئے تو سخت جنگ مغلوبہ اور مسلمانوں پر دشمنوں کی پانچ ہزار سوار و پیادہ فوج کے حملے نیز رسول اللہ(ص) کے چچا جناب حمزہ سید الشہداء کی شہادت کے بعد جو تن تنہا انسان میدان میں جما رہا اور فتح و فیروزی کی آخری منزل تک ثابت قدم رہا وہ مولا امیرالمومنین علی علیہ السلام تھے باوجودیکہ تقریبا نوے زخم بدن مبارک پر لگے تھے، کثرت سے خون نکل جانے کی وجہ سے سارے اعضا نڈھال ہو رہے تھے، اور متعدد بار آپ زمین پر تشریف لائے لیکن ثابت قدمی کے ساتھ رسول اللہ (ص) کی حفاظت کی اور جنگ مسلمانوں کے حق میں تمام کی۔

حافظ : کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ آپ صحابہ کبار کو فرار کی نسبت دیں حالانکہ تمام اصحاب اور دونوں برحق خلیفہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پروانہ وار رسول اللہ (ص) کے گرد پھرتے تھے اور آں حضرت(ص) کی حفاظت کرتے تھے۔

خیر طلب : آپ تو ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ گویا تاریخ پڑھی ہی نہیں ہے۔ مورخین نے عام طورسے لکھا ہے احد و حنین اور خیبر کی جنگوں میں تمام صحابہ بھاگ گئے تھے خیبر کے متعلق اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے۔ حنین میں بھی مسلم ہے، کہ سب کے سب بھاگ کھڑے ہوئے تھے، چنانچہ حمیدی جمع بین الصحیحن میں اور حلبی سیرۃ الحلبیہ جلد سیم ص۱۲۳ میں کہتے ہیں ، کہ سوا چار نفر کے تمام اصحاب فرار کر گئے علی علیہ السلام اور عباس پیغمبر(ص) کے آگے، ابوسفیان بن حارث آں حضرت(ص) کے مرکب کی لگام تھامے ہوئے اور عبداللہ ابن مسعود آنحضرت(ص) کے بائیں جانب کھڑے ہوئے تھے۔ اور احد میں تو بالعموم سارے مسلمانوں کے بھاگنے سے کسی نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ بہتر ہے کہ سیر و تواریخ کا مطالعہ کیجئے تاکہ آپ پر حقیقت آشکار ہو جائے۔ خصوصیت کے ساتھ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص۲۱۶ میں حافظ ناصبی کی ہرزہ سرائیوں کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ " فرالمسلمون بأجمعهم ولم يبق معه إلاأربعةعلي والزبيروطلحةوأبودجانة "یعنی احد کے روز تمام مسلمان بھاگ گئے سوا ان چار نفر ( علی) ، زبیر، طلحہ اور ابو دجانہ) کے۔ پس جب سارے مسلمانوں میں صرف چار افراد کو مستثنی کیا، تو ظاہر ہے کہ ابوبکر ، عمر اور عثمان بھی بھاگنے والوں میں سے تھے۔ لہذا جبرئیل(ع) نے ندا دی " لا سيف الا ذوالفقار لا فتی الا علی " چنانچہ آپ کے اکابر علماء اور بزرگ مورخین مثلا ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، نور الدین مالکی نے فصول المہمہ ص۴۴ میں اور دوسروں نے درج کیا ہے کہ جیسا پہلے عرض کر چکا ہوں اس روز منادی کی آواز اور ہاتف کی ندا بلند ہوئی "لا سيف الا ذوالفقار لا فتی الا علی" یعنی نہیں ہے کوئی جوانمرد سوا علی(ع) کے اور نہیں ہے کوئی تلوار سوا ذالفقار کے جو حضرت علی(ع) کی تلوار تھی۔)

تمام لڑائیوں میں حضرت کو تائید الہی حاصل تھی اور ملائکہ آپ کی نصرت و نگہبانی پر آمادہ رہتے تھے، چنانچہ محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب بات۲۷ میں اپنے اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

" ما بعث علی فی سرية الا رائيت جبرئيل عن يمينه و ميکائيل عن يساره والسحابة تظله حتی يروقه الله الظفر"

۲۴۸

یعنی جب بھی کسی جنگ میں علی(ع) تنہا بھیجے گئے تو میں نے دیکھا کہ جبرئیل ان کے داہنی جانب میکائیل بائیں جانب اور ایک ابر ان پر سایہ کئے ہوئے ہے یہاں تک کہ اللہ نے ان کو فتح عنایت کی۔

اور امام ابو عبدالرحمن نسائی خصائص العلوی حدیث نمبر۲۰۲ میں نقل کرتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام سیاہ عمامہ پہنے ہوئے لوگوں کے سامنے آئے اور اپنے باپ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جنگ میں جس وقت حضرت علی(ع) قلعے کی طرف گئے تو " يقاتل جبرئيل عنيمينهوميكائيلعنيساره" (یعنی جبرئیل ان کے داہنی طرف اور مکائیل بائیں طرف جنگ کررہے تھے مترجم عفی عنہ) لہذا تمام لڑائیوں میں نصرت و ظفر حضرت کی تلوار کے زیر سایہ رہتی تھی، چنانچہ آپ انتہائی شدت و شجاعت کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرتے تھے یہاں تک کہ فتح یاب ہوتے تھے، خدا و رسول(ص) کے محبوب قرار پاتے تھے اور وہ مقرب فرشتے جبرئیل و میکائیل حاضر خدمت ہوکر آپ کے دونوں طرف جنگ کرتے تھے۔ حتی کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا اسلام صرف علی علیہ السلام کی تلوار سے مضبوط ہوا۔

علی(ع) خدا اور رسول(ص) کے محبوب تھے

چوتھے اسی آیت میں ارشاد ہے کہ جو لوگ ان صفات کے حامل ہیں خدا ان کو دوست رکھتا ہے اور وہ بھی خدا کو دوست رکھتے ہیں یہ محبوبیت کی صفت امیرالمومنین(ع) کے خصوصیات میں سے ہے اور اس مقصد پر دلائل بکثرت ہیں جن میں سے ایک روایت یہ ہے جس کو محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب ۷ میں اپنے اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ایک روز میں اپنے باپ عباس کےساتھ رسول اللہ(ص) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ علی علیہ السلام وارد ہوئے اور سلام کیا، رسول اللہ(ص) جواب سلام دینے کے بعد بشاشت کے ساتھ اپنی جگہ سے اٹھے، علی(ع) کو آغوش میں لے کر ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور اپنے داہنی جانب بٹھایا ۔ میرے باپ عباس نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) آیا آپ ان کو دوست رکھتے ہیں آں حضرت(ص) نے فرمایا اے چچا واللہ اشد حبا لہ منی ( یعنی خدا کی قسم مجھ سے زیادہ ان کو اللہ دوست رکھتا ہے۔)

فتح خیبر میں حدیث رایت

امیرالمومنین(ع) کے محبوب خدا اور میدان جنگ میں کرار غیر فرار ہونے پر سب سے بڑی دلیل حدیث رایت ہے جو آپ کے معتبر صحاح میں درج ہے اور سوا ناصبی یا متعصب مخالف کے اکابر علمائے اہلسنت میں سے کسی نے اس سے انکار نہیں کیا ہے۔

نواب : قبلہ صاحب حدیث رایت کیا ہے؟ متمنی ہوں کہ اگر زحمت نہ ہو تو اس کے اسناد کا سلسلہ بیان فرمائیے۔

۲۴۹

خیر طلب : فریقین ( شیعہ و سنی) کے اکابرعلماء و مورخین نے بالاتفاق حدیث رایت کو نقل کیا ہے۔ مثلا محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح جلد دوم کتاب الجہاد والسیر باب دعاء النبی نیز صحیح جلد سیم کتاب الغازی باب غزوہ خیبر میں، مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح جلد دوم ص۳۲۴ میں، امام عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں، ترمذی نے سنن میں ابن عسعقلانی نے اصابہ جلد دوم ص۵۰۸ میں، محدث شام نے اپنی تاریخ میں، احمد ابن حنبل نے مسند میں، ابن ماجد قزوینی نے سنن میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۶ میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ می، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۱۴ میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، حافظ ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں ابو القاسم طبرانی نے اوسط میں اور ابوالقاسم حسین بن محمد (راغب اصفہانی) نے محاضرات الادباء جلد دوسم ص۲۱۳ میں، غرضکہ عام طور پر آپ کے مورخین و محدثین نے اپنی معتبر کتابوں میں اس حدیث کو نقل کیا ہے یہاں تک کہ حاکم کہتے ہیں " هذا حديث دخل فی حد التواتر " ( یعنی یہ حدیث حد تواتر میں داخل ہے) اور طبرانی کہتے ہیں" فتح علی لخیبر ثبت بالتواتر" ( یعنی خیبر میں علی(ع) کی فتح تواتر سے ثابت ہے) روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس زمانے میں لشکر اسلام خیبر کے قلعوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھا تو ابوبکر اور عمر کی علمداری میں جیسا کہ میں اشارہ کرچکا ہوں لشکر اسلام کے تین مرتبہ شکست کھا کر بھاگنے کے بعد اصحاب ان پے در پے شکستوں سے ( جن کے مسلمان عادی نہیں تھے اور وہ بھی نا اہل یہود یوں کے مقابلے ہیں) متاثر اور دل تنگ ہوئے تو رسول اکرم(ص) نے اصحاب کی تقویت قلب اور فتح و فیروزی کی بشارت کے لیے فرمایا :

" واللّه لاعطين الرايةغدارجلاكراراغيرفراريحب اللّه ورسوله ويحبّه اللّه و رسوله يفتح اللّه على يديه ."

یعنی خدا کی قسم میں ضرور بالضرور کل ایسے مرد کو علم دوں گا جو دشمنوں پر بڑھ بڑھ کے حملہ کرنے والا ہوگا اور بھاگنے والا نہ ہوگا۔ خدا اس کے ہاتھوں پر فتح عنایت کرے گا۔وہ خدا و رسول(ص) کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسول (ص) اس کو دوست رکھتے ہیں۔

اس رات تمام اصحاب اس فکر میں جاکتے رہے کہ دیکھیں کا یہ فضل و شرف کس کو ملتا ہے، صبح ہوئی تو سب نے آلات حرب سچے اور اپنے کو پیغمبر(ص) کے سامنے نمایاں کرنا شروع کیا، اس وقت آں حضرت(ص) نے اصحاب کے اوپر ایک نظر ڈالی اور فرمایا " يا ابن اخی وابن عمی علی ابن ابی طالب " کہاں ہیں میرے بھائی اور چچا کے بیٹے علی ابن ابی طالب(ع)۔

علی (ع) کو کہ حلال ہر مشکل اوست علی (ع) کو کہ مفتاح قفل ولی اوست

لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) ان کو اتنا سخت آشوب چشم ہے کہ حرکت نہیں کرسکتے۔آں حضرت(ص) نے سلمان سے فرمایا کہ ان کو بلائو۔ سلمان گئے اور علی(ع) کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس حالت سے خدمت رسول میں حاضر ہوئے کہ آپ کی آنکھیں بند تھیں آپ نے سلام عرض کیا آں حضرت نے جواب سلام کے بعد فرمایا " کیف حالک یا ابالحسن" کیا حال ہے تمہارا اے ابوالحسن؟ عرض کیا " بحمد اللہ خیرا صداء براسی و رمد بعینی لا ابصر معہ" ( یعنی بحمداللہ خیریت ہے، میرے سر اور آنکھوں میں اتنا درد ہے کہ میں کچھ دیکھ نہیں سکتا) فرمایا ادن منی میرے پاس آئو آپ قریب آئے" فبصق في عينيه،ودعاله،فبرأحتّى كأن لم يكن به وجع " ( یعنی آں حضرت(ص) نے آپ کی دونوں آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی۔ فورا آنکھیں کھل گئیں اور مرض اس طرح سے دفع ہوا کہ گویا کبھی درد تھا ہی نہیں پھر اسلام کی فتح وفیروزی کا نشان عطا فرمایا، آپ نے خیبر کے قلعوں پر چڑھائی کی، یہودیوں سے جنگ کی، مرحب، حارث، ہشام اور علقمہ وغیرہ کے ایسے افسروں اور بہادروں کو قتل کیا اور خیبر کے قلعے فتح کئے۔

۲۵۰

ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص۲۱ میں یہ روایت صحاح ستہ سے نقل کی ہے۔ نیز محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب۱۴ میں روایتیں لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے مخصوص شاعر حسان بن ثابت موجود تھے انہوں نے حضرت علی(ع) کی مدح میں فی البدایہ یہ اشعار نظم کئے۔

وَكَانَ عَلِيٌ أَرْمَدَالْعَيْنِ يَبْتَغِي

دَوَاءًفَلَمَّالَمْ يُحِسَّمُ دَاوِياً

شَفَاهُ رَسُولُاللَّهِ مِنْهُ بِتَفْلِهِ

فَبُورِكَ مَرْقِيّاًوَبُورِكَ رَاقِياً

فَقَالَ:سَأُعْطِي الرَّايَةَالْيَوْمَ ضَارِباً

كَمِيّاًمُحِبّاًلِلرَّسُولِ موَالِياً

يُحِبُّالْإِلَهَ،وَالْإِلَهُ يُحِبُّهُ

بِهِ يَفْتَحُ اللَّه الْحُصُونَالْأَوَابِيَا

فَخَصَّبِهَادُونَالْبَرِيَّةِكُلِّهَا

عَلِيّاًوَسَمَّاهُ الْوَزِيرَالْمُؤَاخِيَا.

یعنی علی(ع) کو آشوب چشم تھا جس کے علاج کی ضرورت تھی لیکن جب کوئی معالج نہیں ملا تو رسول اللہ(ص) نے اپنے لعاب دہن سے شفا بخشی پس معالج اور مریض دونوں با برکت ہیں آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ آج میں ایسے شہسوار کو علم دوں گا جو بہت دلیر و شجاع اور جنگوں میں میرا مددگار ہے۔ وہ اللہ کو دوست رکھتا ہے اور اللہ اس کو دوست رکھتا ہے چنانچہ اس کے ذریعے دشمنوں کے قلعوں پر فتح دے گا۔ اس کے بعد ساری دنیا کو چھوڑ کر صرف علی(ع) کو منتخب کیا اور ان کو اپنا وصی اور بھائی قرار دیا۔ ۱۲ مترجم عنی عنہ)

ابن صباغ مالکی نے صحیح مسلم سے نقل کیا ہے کہ عمر ابن خطاب نے کہا میں نے کبھی علمداری کی تمنا نہیں کی لیکن اس روز مجھ کو اس کی ہوس تھی اور میں بار بار اپنے کو پیغمبر(ص) کے سامنے نمایاں کر رہا تھا کہ شاید بلالیں اور یہ شرف مجھی کو نصیب ہوجائے لیکن اس کے باوجود علی(ع) کو طلب فرمایا اور یہ فخر ان کے حصے میں آیا۔

سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص۱۵ میں اور امام ابو عبدالرحمن احمد بن علی نسائی نے خصائص العلوی می بارہ روایتیں اور حدیثیں نقل کرنے کے بعد خیبر میں علمداری علی(ع) کے موضوع پر یہی عمر کی روایت اور ان کی آرزوئے علمداری اٹھارہویں حدیث میں نقل کی ہے نیز جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء میں، ابن حجر مکی صواعق محرقہ میں اور ابن شیرویہ فردوس الاخبار میں نقل کرتے ہیں کہ عمر ابن خطاب کہتے تھے، علی(ع) کو تین چیزیں ایسی دی گئیں کہ اگر ان یں سے ایک بھی مجھ کو مل جاتی تو میں اس سے زیادہ پسند کرتا تھا کہ سرخ بالوں کے اوںٹ میرے قبضے میں ہوں(۱) علی(ع) کے ساتھ فاطمہ(س) کی تزویج (۲) ہر حالت میں مسجد کے اندر سکونت ، اور یہ امر سوا علی(ع) کے اور کسی کےلیے حلال نہیں تھا۔ (۳) اور فتح خیبر میں آپ کی علمداری ۔ خلاصہ یہ کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام امت کے درمیان تنہا جو شخص خدا و رسول(ص) کا محبوب قرار پایا وہ علی علیہ السلام تھے۔ اور حدیث طیر بھی جو گذشتہ شب میں ذکر ہوچکیہے خدا و رسول (ص) کے نزدیک حضرت کی محبوبیت پر دوسری دلیل ہے اور یہ باتیں سوا جاہل و بے خبر یا ہٹ دھرمی اور متعصب

۲۵۱

لوگوں کے کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔

آپ کے موثق راویوں کے نقل کئے ہوئے ان دلائل کے بعد جن میں سے کچھ نمونے کے طور پر پیش کئے گئے ثابت ہوا کہ تمام صفات حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ کے مجموعہ اور آیہ شریفہ میں " یحبہم و یحبونہ کے مصداق امیرالمومنین علیہ السلام تھے نہ کہ دوسرے مومنین یا صحابہ۔ اب آپ حضرات کو معلو ہوگیا ہوگا کہ میرا مقصد اہانت نہیں تھا بلکہ اصل واقعہ اور تاریخی حقیقت عرض کی گئی تھی جس کو خود آپ کے علماء صریحی دلیلوں سے ثابت کرتے ہیں اور واضح ہوتا ہے کہ لڑائی کے میدانوں اور علمی مباحثوں میں آیہ شریعہ " أَشِدَّاءُعَلَى الْكُفَّارِ" سے مراد علی علیہ السلام تھے۔

علاوہ میری گفتگو کے آپ کے بڑے بڑے علماء اقرار کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی(ع) ہی کی تعریف میں نازل ہوئی، چنانچہ اس وقت جس قدر میرے پیش نظر ہے عرض کرتا ہوں ، محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی سنہ۶۵۸ھ کفایت الطالب باب۱۳ میں رسول اکرم(ص) کی حدیث نقل کرنے کے بعد کہ جو شخص آدم (ع) و نوح(ع) اور ابراہیم(ع) کو دیکھنا چاہتا ہے وہ علی(ع) کو دیکھے کچھ اور باتیں بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ کہتے ہیں علی(ع) وہ شخص ہیں جن کی تعریف خدا نے قرآن میں اس آیت کے ساتھ کی ہے " وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُعَلَى الْكُفَّارِرُحَماءُبَيْنَهُمْ" ( چنانچہ اسی کتاب میں تفصیل سے اس کا بیان ہوچکا ہے۔) اور خدائے تعالی آیہ شریفہ میں گواہی دیتا ہے کہ علی علیہ السلام کفار پر غالب اور سخت تھے، کیونکہ اگر بڑے بڑے معرکوں میں حضرت کی شجاعت و شمشیر مناظروں اور مباحثوں میں ان بزرگوار کے علمی دلائل اور مشکل مسائل میں آپ کے منطقی جوابات نہ ہوتے تو اسلام کے اندر کوئی رونق اور مسلمانوں کا کوئی اقتدار نہ ہوتا۔

چنانچہ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا اسلام نے فقط علی(ع) کی شمشیر اور خدیجہ کے مال سے طاقت پکڑی۔ لہذا علی علیہ السلام اس مقام و مرتبہ کے لیے ہر ایک سے زیادہ اولی و اہل اور مستحق تھے اور جو آپ نے یہ فرمایا کہ " رُحَماءُبَيْنَهُمْ" عثمان ابن عفان کی شان میں ہے اور تیسرےنمبر پر ان کے منصب خلافت کا اشارہ ہے کیونکہ وہ بہت رقیق القلب اور رحم دل تھے۔ تو افسوس ہے کہ یہ عقیدہ بھی تاریخی شہادت کی روشنی میں ان کے حالات و اخلاق سے میل نہیں کھاتا۔ اس مقصد پر دلائل بہت ہیں لیکن دل یہاں پہنچ کے ٹھہر گیا۔ آپ حضرات سے گذارش ہے کہ اسی قدر گفتگو پر اکتفا کیجئے اور اس موضوع سے چشم پوشی فرمائے۔ ورنہ میں ڈرتا ہوں کہ آپ کو رنج پہنچ جائے گا۔

حافظ : جب آپ دلائل و براہین اور اسناد صحیحہ بیان کیجئے گا۔ تو رنجش کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لہذا اگر فحش باتوں کے علاوہ کچھ دلیلیں ہیں تو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : اول تو یہ کہ میں فحش بولنے والا انسان نہیں ہوں، چنانچہ حاضرین جلسہ گواہ ہیں کہ ان راتوں میں مجھ کو خود فحش باتیں سننا پڑیں لیکن ان کا جواب بھی میں نے صرف دلیل و برہان سے دیا۔

دوسرے دلائل اس کثرت سے ہیں کہ اگر میں ان سب سے استدلال کرنا چاہوں تو ہماری نشست کا یہ مختصر وقت

۲۵۲

کافی نہیں ہے لیکن چونکہ آپ نے حکم دیا ہے لہذا ان میں سے بعض کا خلاصہ پیش کرتا ہوں تاکہ آپ حضرات خود ہی انصاف سے فیصلہ فرمائیں اور اپنی جگہ پر رحم و عطوفت اور رقت قلب کا اندازہ کریں۔

ابوبکرو عمرکے برخلاف عثمان کا طرز عمل

ہمارے اور آپ کے تمام مورخین مثلا ابن خلدون، ابن خلسکان اور ابن اعثم کوفی کا اتفاق ہے صحاح ستہ اور آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہے، نیز مسعودی نے مردج الذہب جلد اول ص۴۳۵ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں اور آپ کے دوسرے علماء نے لکھا ہے کہ عثمان ابن عفان جب عہدہ خلافت پر پہنچے تو سنت رسول(ص) اور سیرت شیخین ( ابوبکر و عمر) کے خلاف عمل کرنے لگے۔

حالانکہ فریقین اور تمام مورخین متفق ہیں کہ مجلس شوری میں عبدالرحمن ابن عوف نے ان سے کتاب خدا، سنت رسول(ص) اور طریقہ شیخین پر بیعت کی تھی اور یہ شرط تھی کہ بنی امیہ کو دخیل نہ کریں گے اور نہ ان لوگوں پر مسلط کریں گے۔ لیکن جب معاملہ پختہ ہوگیا تو ان حضرات کی سیرت کے بالکل خلاف چلنے لگے اور کھلم کھلا وعدے کے برعکس کیا۔ آپ خود جانتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے حکم سے عہد و پیمان کو توڑنا گناہ کبریہ ہے اور آپ کے اکابر علماء ومورخین کی صراحت و شہادت کی بناء پر خلیفہ عثمان نے عملا نقض عہد کی،سارے دور خلافت میں طریقہ شیخین ( ابوبکر و عمر) کے بر خلاف عمل کرتے رہے، بنی امیہ کو لوگوں کے جان و مال اور عزت پر مسلط کیا اور یہ پہلا بہت بڑا داغ تھا جس نے ان کے دامن کو آلودہ کیا۔

حافظ : کیونکر سنت رسول (ص) اور سیرۃ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف عمل کیا؟

خیر طلب : پہلا قدم جو سنت رسول(ص) اور طریقہ شیخین کے برخلاف اٹھایا وہ جیسا کہ مورخین نے تفصیل سے لکھا ہے اور مشہور و مقبول فریقین محدث و مورخ مسعودی نے مروج الذہب جلد اول ص۴۳۳ میں مختصرا ذکر کیا ہے کہ پتھر کا ایک نقش و نگار والا مکان تعمیر کرایا جن میں ساگون اور سرو کے دروازے لگوائے کثیر مال و دولت جمع کیا اور اس کے علاوہ جب تک زندہ رہے بنی امیہ وغیرہ پر بے جا بخش و انعام کی بارش کرتے رہے( مثلا بلاد آرمینیہ کا خمس جو ان کے زمانے میں فتح ہوا تھا بغیر کسی شرعی جواز کے) مروان ملعون کو بخش دیا نیز بیت الامال سےایک لاکھ درہم دیے، چالاکھ درہم عبداللہ بن خالد کو، ایک لاکھ درہم ملعون و طرید رسول حکم ابن ابی العاص کو اور دو لاکھ درہم ابوسفیان کو بیت المال سے عنایت کئے( جیسا کہ ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۲۸ میں لکھا ہے) اور جس روز وہ قتل کئے گئے ہیں ان کے ذاتی خزانچی کی تحویل میں ایک لاکھ پچاس ہزار دینار اور دو کڑوڑ درہم نقد موجود تھے علاوہ ان کی اس جائداد کے جو وادی القری اور حنین میں تھی جس میں ایک لاکھ دینار اور صحرائوں کے اندر بے شمار گائیں بھیڑیں اور اونٹ تھے۔

۲۵۳

ان کے اسی عمل کا نتیجہ تھا کہ بنی امیہ وغیرہ کے تمام بڑے لوگوں نے جن کو وہ برسر اقتدار لے آئے تھے ان سے زیادہ دولت جمع کی اور لوگوں کے اموال کو لوٹنے میں مشغول ہوئے۔ انتہی۔

کیونکہ مشہور ہے " الناس على دين ملوكهم " یعنی لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں۔ شیخ فرماتے ہیں۔

اگر زباغ رعیت ملک خورد سیبے برآورند غلامان او درخت زبیخ

اس دور میں اس طرح کے افعال اور کثیر دولت کی فراہمی علاوہ اس کے کہ اس زمانے کے محتاج و تہی دست لوگوں کے مقابلے میں خلیفہ رسول کے لیے عقلی و نقلی حیثیت سے بہت بری بات تھی، ان کے رفقاء ابوبکر و عمر کے رویہ اور طریقے کے بھی برخلاف تھی جب کہ وہ شوری کے روز عہد و پیمان کرچکے تھے کہ ان دونوں کے قدم بہ قدم چلیں گے۔

مسعودی مروج الذہب جلد اول ضمن حالات عثمان میں لکھتے ہیں کہ خلیفہ عمر اپنے بیٹے عبداللہ کے ساتھ حج کرنے گئے تو آنے جانے میں راستے کا خرچ سولہ دینار ہوا ۔ انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا کہ ہم نے اپنے اخراجات میں اسراف کیا۔ اب آپ حضرات خلیفہ عمر کے طریقہ زندگی اور عثمان کی فضول خرچیوں اور زیادتیوں کے درمیان موازنہ کیجئے۔ تو تصدیق کیجئے گا کہ عثمان کا طریقہ کار عہد و میثاق کےبالکل برعکس تھا۔

عثمان کا بنی امیہ کے بدکاروں کو ترقی دینا

دوسرے یہ کہ بنی امیہ کے فاسق و فاجر لوگوں کو جاہ ومنصب دے دے کر لوگوں کے جان و مال اور آبرو پر مسلط کیا چنانچہ بلاد مسلمین میں بنی امیہ کی حکومتوں سے ایک ابتری پھیل گئی تھی اور رسول خدا(ص) و شیخین ( ابوبکر و عمر) کے خلاف مرضی اشخاص کو عہدوں پر معین کر دیا جیسے اپنے ملعون چچا حکم بن ابی العاص اور اس کے بیٹے مروان ابن حکم کو جن کے لیے تاریخ گواہ ہے کہ یہ دوںوں رسول اللہ(ص) کے راندہ درگاہ، دھتکارے ہوئے۔ شہر بدر کئے ہوئے اور آں حضرت(ص) کے ارشاد سے مردود و ملعون تھے۔

حافظ : خصوصیت سے ان لوگوں کے مردود و ملعون ہونے پر آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟

بنی امیہ ، حکم بن ابی العاص اور مروان خدا و رسول(ص) کے ملعون تھے

خیر طلب : لعنت کی دلیلیں دو قسم کی ہیں۔ ایک عمومی حیثیت رکھتی ہے جس میں خدائے تعالی نے بنی امیہ کو صریحا شجرہ ملعونہ فرمایا ہے، سورہ نمبر۱۷( بنی اسرائیل) آیت نمبر " وَالشَّجَرَةَالْمَلْعُونَةَفِي الْقُرْآنِ " ( یعنی قرآن

۲۵۴

میں لعنت کیا ہوا درخت ۔ چنانچہ امام فخر الدین رازی، طبری، قرطبی، نیشاپوری ، سیوطی، شوکانی، آلوسی ابن ابی حاتم ، خطیب بغداد، ابن مردویہ، حاکم، مقریزی، بیہقی اور آپ کے دوسرے مفسرین وعلماء نے اس آیت مذمت کے ذیل میں ابن عباس ( خیر امت) رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے یہ قرآن میں شجرہ ملعونہ سے مراد بنی امیہ تھے، کیونکہ رسول اکرم(ص) نے ان لوگوں کو خواب میں دیکھا کہ بندروں کی شکل میں آپ کے محراب و منبر کو اپنی اچھل کود کا تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں، بیدار ہونے کے بعد جبرئیل یہ آیت لے کر نازل ہوئے اور خبر دی کہ یہ بندر بنی امیہ ہیں جو آپ کے بعد خلافت غصب کریںگے اور آپ کے محراب و منبر ایک ہزار مہینے تک ان کے تصرف میں رہیں گے۔

امام فخر الدین رازی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ تمام بنی امیہ میں رسول حکم بن ابی العاص کا نام خاص طور پر سے لیتے تھے پس بحکم قرآن مجید حکم بن ابی العاص ملعون ہے اس لیے کہ شجرہ ملعونہ میں سے ہے اور پیغمبر(ص) بالخصوص اس کا نام لعنت کے ساتھ زبان پر جاری فرماتے تھے اور فریقین ( شیعہ و سنی) کے معتبر راویوں سے ان لوگوں کے مردود و ملعون ہونے پر کثرت سے حدیثیں مروی ہیں لیکن چونکہ ہم نے پہلی شب میں طے کر لیا ہے کہ احادیث شیعہ سے استدلال نہ کریں گے۔ لہذا فی الحال جن قدر آپ کےعلماء نے لکھا ہے اورمیرے پیش نظر ہے اسی میں سے بعض اقوال عرض کرتا ہوں تاکہ حقیقت ظاہر ہوجوئے۔

حاکم نیشاپوری مستدرک جلد چہارم ص۴۸۷ میں اور ابن حجر مکی صواعق محرقہ میں حاکم سے نقل کرتے ہیں کہ یہ صحیح حدیث رسول خدا(ص) سے منقول ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

" إنّ أهلبيتي سيلقون من بعدي من أمّتي قتل اوتشريداوإنّ أشدّقوم لنابغضابنواميّةوبنوالمغيرةوبنومخزوم و مروان بن الحکم کان طفلا قال له النبی صلی الله عليه وسلم و الوزغ والملعون بن الملعون"

یعنی یقینا میرے اہل بیت عنقریب میری امت کے ہاتھوں قتل اور پراگندگی میں مبتلا ہوں گے اور در حقیقت بنی امیہ بنی مغیرہ اور بنی مخزوم ہماری عداوت میں سب سے زیادہ سخت ہیں۔ مروان ابن حکم اس زمانے میں بچہ تھا تو آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ یہ چھپکلی کا بچہ چھپکلی اور ملعون پسر ملعون ہے۔

نیز ابن حجر نے ایک حدیث کے فاصلے سے عمر بن مرقا الجہتی سے، حلبی نے سیرۃ الحلبیہ جلد اول ص۳۳۷ میں، بلاذری نے انساب جلد پنچم ص۱۲۶ میں، سلیمان بلخی نے ینابیع المودۃ میں، حاکم نے مستدرک جلد چہارم ص۴۸۱ میں، دمیری نے حیات الحیوان جلد دوم ص۲۹۱ میں ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں، امام الحرم نے ذخائر العقبی میں اور دوسروں نے بھی عمر بن مرہ سے نقل کیا ہے کہ :

"أَنَ الْحَكَمَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ ص فَعَرَفَ صَوْتَهُ فَقَال َائْذَنُوالَهُ عَلَيْهِ لَعْنَةُاللَّهِ وَعَلَى مَنْ يَخْرُجُ مِنْ صُلْبِهِ إِلَّاالْمُؤْمِنَ مِنْهُمْ وَقَلِيلٌ"

یعنی حکم بن العاص نے خدمت رسول میں آنے کی اجازت چاہی، آں حضرت(ص) نے اس کی آواز پہچانی تو فرمایا اس کو اجازت دے دو اس پر اور اس کے صلب سے پیدا ہونے والی اولاد پر خدا کی لعنت ہو علاوہ ان کے جو ان میں سے مومن ہوں اور وہ بہت کم ہوں گے۔

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد پنجم میں آیہ " وَالشَّجَرَةَالْمَلْعُونَةَ" اور اس کے مفہوم کے ذیل میں ام المومنین

۲۵۵

عائشہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مروان سے کہا " لعن الله اياک وانت فی صلبه فانت بعض من لعنه الله " یعنی خدا نے تیرے باپ پر لعنت فرمائی در آنحالیکہ تو اس کے صلب میں موجود تھا لہذا تو بھی اس کا جز ہے جس پر خدا نے لعنت کی ہے۔

علامہ مسعودی مروج الذہب جلد اول ص۴۳۵ میں کہتے ہیں کہ مروان بن حکم رسول اللہ(ص) کا طرید اور راندہ درگاہ تھا جو مدینے سے شہر بدر کردیا گیا تھا۔ خلافت ابوبکر و عمر کے زمانے میں اس کو مدینے کی آنے کی اجازت نہیں ملی لیکن جب عثمان خلیفہ ہوئے تو رسول اکرم(ص) اور ابوبکر و عمر کی سیرت و عمل کے خلاف اس کو آنے کی اجازت ۔۔۔۔۔۔ دی، تمام بنی امیہ کے ساتھ اس کو بھی اپنے پاس رکھا اور ان لوگوں پر حد سے زیادہ مہربانی کرتے تھے۔

نواب : قبلہ صاحب حکم ابن ابی العاص کون تھا اور کس وجہ سے پیغمبر (ص) نے اس کو دھتکار دیا تھا۔

حکم بن ابی العاص

خیر طلب :حکم بن ابی العاص خلیفہ عثمان کا چچا تھا، جیسا کہ طبری ، اثیر اور بلاذری نے انساب جلد پنجم ص۱۷ میں لکھا ہے زمانہ جاہلیت میں یہ رسول اللہ(ص) کا ہمسایہ تھا اور آںحضرت(ص) کو بہت اذیت پہنچاتا تھا خصوصا بعثت کے بعد، یہ فتح مکہ کے بعد مدینے میں آیا اور ظاہری اسلام قبول کیا لیکن برابر لوگوں میں آںحضرت(ص) کی توہین کیا کرتا تھا۔جس وقت آں حضرت(ص) چلتے تھے تو یہ ساتھ انگلی سے آںحضرت(ص) کی طرف اشارہ کرتا تھا چنانچہ آںحضرت(ص) کی نفرین سے مستقل اسی طرح تشنج کی حالت پر قائم رہا۔ اس کے علاوہ فاتر العقل اور نیم مجنون بھی ہوگیا تھا۔ ایک روز آںحضرت(ص) کے گھر پر گیا۔ آپ حجرے سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کوئی شخص اس کی طرف سے سفارش نہ کرے اب اس کو اور اس کے بیٹوں مروان وغیرہ کو مدینے سے نکل جانا چاہئیے، چنانچہ آںحضرت(ص) کے حکم سے فورا مسلمانوں نے اس کو طائف کی طرف نکال باہر کیا۔ ابوبکر وعمر کے زمانے میں عثمان نے سفارش کی کہ حکم میرا چچا ہے۔ لہذا آپ اجازت دیجئے کہ وہ مدینے واپس آجائے لیکن ان دونوں صاحبان نے منظور نہیں کیا اور کہا کہ وہ رسول اللہ(ص) کا نکالا ہوا اور شہر بدر کیا ہوا ہے ہم اس کو واپس نہیں بلاسکتے جب عثمان خود منصب خلافت پر پہنچے تو ان لوگوں کو بلالیا ، ہر چند مسلمانوں اور اصحاب رسول(ص) نے اعتراض کیا لیکن انہوں نے کوئی اعتنا نہیں کی بلکہ ان پر انعام و اکرام اور ؟؟؟؟؟؟؟؟ کی بارش کرتے رہے، مروان کو اپنا پیشکار اور دربار خلافت کا افسر بنایا، تمام اشرار بنی امیہ کو اپنے گرد جمع کیا ان کو بڑے بڑے منصب اور نمایاں عہدے سپرد کئے یہاں تک کہ خلیفہ دوم عمر کی پیش گوئی کے مطابق وہی لوگ ان کو بدبختی کا سبب بنے۔

۲۵۶

ولید فاسق نے نشے کی حالت میں نماز پڑھائی

من جملہ ان کے ولید بن عقبہ بن ابی العیط بھی تھا جس کو کوفے کی ولایت و امارت پر بھیجا۔ ولید وہ شخص ہے کہ بنابر روایت مسعودی مروج الذہب جلد اول ذیل حالات عثمان، پیغمبر(ص) نے اس کے بارے میں فرمایا تھا " انهمن ا ه ل النار " یعنی وہ یقینا اہل جہنم میں سے ہے۔ وہ فسق وفجور میں انتہائی بے باک تھا چنانچہ مسعودی مروج الذہب میں، ابوالفداء اپنی تاریخ میں سیوطی تاریخ الخلفاء ص۱۰۴ میں ابو الفرج اغاتی جلد چہارم ص۱۲۸ میں امام احمد ابن حنبل مسند جلد اول ص۱۴۴ میں طبری اپنی تاریخ جلد پنجم ص۶۰ میں، بیہقی سنن جلد ہشتم ص۳۱۸ میں، ابن اثیر کامل جلد سیم ص۴۳ میں، یعقوبی اپنی تاریخ جلد دوم ص۱۴۲ ، ابن اثیر اسدالغایہ جلد پنجم ص۹۱ میں، اور دوسرے لوگ لکھتے ہیں کہ امارت کوفہ کے زمانے میں ایک مرتبہ رات بھر محفل عیش و عشرت گرم رہی، صبح کو جب موذن کی آواز آئی تو نشے کی حالت میں مسجد پہنچ گیا اور لوگوں کو صبح کی نماز چار رکعت پڑھائی اس کے بعد کہا کہ اگر تم لوگوں کی خواہش ہو تو اور پڑھا دوں۔

ان میں سے بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ محراب کے اندر قے کردی جس سے تمام لوگ پریشان ہوئے اور عثمان کے پاس شکایت لے گئے ۔ من جملہ ان کے مشہور و معروف آدمی معاویہ بھی تھا اس کو شام کا گورنر بنایا۔ اور ولید کے بعد سعید بن عاص کو کوفے بھیجا ان دونوں کے حرکات سے تمام بلاد مسلمین ظلم و فساد سے بھر گئے، فریادیں بلند ہوئیں اور جو شخص جہاں سے آیا ایک فریادی تحریر ساتھ لایا لیکن اس کو دربار خلافت سے دھتکار دیا گیا۔

عثمان کی غلط کاریاں ان کے قتل کا باعث ہوئیں

جب رسول اللہ(ص) کی سنت و سیرت حتی کہ ابوبکر و عمر کے طور طریقے کے برخلاف ان کے یہ چال چلن مشہور ہوئے تو نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے خون میں جوش پیدا ہوا اور ایک متحدہ محاذ قائم ہوگیا، پھر جو ہونا تھا ہوا۔

اپنے قتل اور بدنصیبی کے ذمہ دار وہ خود تھے کیونکہ انہوں نے اپنے کاموں پر نظر ثانی نہیں کی۔ امیرالمومنین علیہ السلام کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرے اور اپنے حاشیہ نشین بنی امیہ کی چکنی چپڑی باتوں میں بھونے رہے یہاں تک کہ ان کی محبت میں اپنی جان سے ہاتھ دھوئے۔ جیسا کہ خلیفہ عمر نے اس کی پیشین گوئی کر رہی تھی اس لیے کہ وہ عثمان کی خصلتوں سے واقف تھے) چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص۱۸۶ میں ابن عباس سے عمر کی گفتگو نقل کی ہے۔ یہاں تک کہ کہتے ہیں خلیفہ عمر نے چھ نفر اصحاب شوری میں سے ہر ایک کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہا اور کسی نہ کسی عیب کی گرفت کی۔ جب عثمان کا نام آیا

" أوه ثلاثاوالله لئنوليهاليحملنبنيأبيمعيطعل رقاب الناس ثم لتنهض العرب إليه فقت له ."

یعنی اگر مرتبہ آہ کھینچنے کے بعد کہا کہ اگر زمام حکومت

۲۵۷

عثمان کے ہاتھوں میں پہنچے گی تو وہ ( بڑے بڑے عہدے دے کر) بنی ابی معیط کو لوگوں کی گردنوں پر سوار کریں دیں گے پھر یقینا عرب ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان کو قتل کردیں گے۔

نیز ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۶۶ میں جملہ مذکورہ نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ عمر کا اندازہ صحیح اترا کیونکہ جب عثمان خلیفہ ہو تو( جیسا عمر پیشن گوئی کرچکے تھے) بنی امیہ کو اپنے گرد جمع کو لیا ان کو لوگوں کی گردنوں پر سوار کر دیا اور ولایتوں کی گورنری عطا کی جس سے ان لوگوں نے وہ کچھ کیا جو نہ کرنا چاہیئے تھا۔ باوجودیکہ یہ ایسا کرسکتے تھے کہ ان کو معزول کردیں، تبادلہ کردیں اور مروان ملعون کو اپنے سے الگ کردیں لیکن نہیں کیا یہاں تک کہ لوگوں میں ناراضگی پھیل گئی اور شورش و قتل تک نوبت پہنچی۔ ان کے سرپر یہ تمام آفتیں اور ؟؟؟؟ مروان اور ان کے دوسرےحاشیہ نشینوں کی لائی ہوئی تھیں۔ اور امت کی درخواستوں سے بے اعتنائی ان کے قتل تک منجر ہوئی صاحبان اںصاف بہتر ہے کہ آپ تیسری صدی ہجری کے اپنے بزرگ اور معتمد علیہ عالم محمد بن جریر طبری کی تاریخ ص۳۵۷ کی طرف رجوع کیجئے جس میں لکھا ہے۔

"رأى رسول اللّه اباسفيان مقبلاعلى حمارومعاويةيقودبه،ويزيدابنه يسوق به قال: لعن اللّه القائدوالراكب والسائق"

یعنی پیغمبر(ص) نے دیکھا کہ ابوسفیان اپنے گدھے پر سوار آرہا ہے، معاویہ اس کو آگے سے کھینچ رہا اور اس کا دوسرا بیٹا یزید پیچھے سے ہنکا رہا ہے تو فرمایا کہ سوار کھینچنے والے اور ہنکانے والے تینوں پر خدا لعنت کرے۔

اس کے بعد فیصلہ کیجئے کہ خلیفہ عثمان نے پیغمبر(ص) کے ملعون اور راندہ درگاہ اشخاص کو کس لیے عزت و احترام کے ساتھ اپنے آغوش محبت میں لیا بلکہ ان کو امارت و حکومت بھی عطا کی تاکہ وہ دین اسلام کے اندر انقلاب برپا کریں۔

خلیفہ کے ان افعال اور بے فکری پر صرف ہم ہی تعجب نہیں کررہے ہیں بلکہ طبری اور ابی اعثم کوفی جیسے آپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی حیرت کا اظہار کیا ہے اور اپنی تاریخوں میں درج کیا ہے کہ جس وقت ابوسفیان نے خلافت عثمان کے شروع میں سرور بار اسلام اور نزول وحی وجبرئیل کا انکار کیا تو خلیفہ نے اس کو قتل کیوں نہیں کیا فقط معمولی سی ناراضگی پر بات ختم کردی، حالانکہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ایسا ملعون واجب القتل تھا۔ "فَاعْتَبِرُواياأُولِي الْأَبْصارِ"

لوگوں میں غم وغصہ پھیلانا قتل عثمان تک منجر ہوا

جو کچھ عرض کیا جاچکا اس کے علاوہ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر۱۶۳ اور اسی طرح اس روایت پر توجہ کیجئے جو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ( مطبوعہ مصر) ص۴۸۲ میں خطبے کی شرح کرتے ہوئے طبری کی تاریخ بزرگ سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ(ص) کے بعض اصحاب نے مختلف صوبوں میں خطوط لکھ کر مدینے کے اندر عثمان کی سر پرستی میں بنی امیہ کے ظلم نہ جور کے خلاف دعوت جہاد دی۔ اور سنہ۳۴ھ میں عثمان کے عالموں سے ناراض لوگوں کی ایک بڑی جماعت مدینے پہنچ کر خدمت امیرالمومنین(ع) میں حاضر ہوئی

۲۵۸

اور حضرت کو درمیان میں ڈالا، آپ خلیفہ کے پاس تشریف لے گئے اور جہاں تک ممکن تھا ان کو نصیحت کی کہ عمال کے تبادلے اور طرز عمل پر نظر ثانی کریں، ان کے حالات کے نتائج سے آگاہ کیا اور سمجھایا کہ یہ جان جو کھوں کا معاملہ ہے، یہاں تک کہ فرمایا :

"وَإِنِّي أَنْشُدُكَ اللَّهَ أَنْ أَلَّاتَكُونَ إِمَامَ هَذِهِ الْأُمَّةِالْمَقْتُولَ فَإِنَّهُ كَانَ يُقَالُ ُقْتَلُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِإِمَامٌ يَفْتَحُ عَلَيْهَ االْقَتْلَوَالْقِتَالَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"

یعنی میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اس امت کے مقتول پیشوا نہ بنو کیونکہ اس سے قبل؛ کہا جاچکا ہے کہ اس امت میں ایک ایسا پیشوا قتل کیا جائے گا جس کے مارے جانے سے روز قیامت تک قتل و خون ریزی کا دروازہ کھل جائے گا۔

لیکن مروان اور اموی مصاحبین نے حضرت کی سچی نصیحتوں کا اثر نہ ہونے دیا۔ چنانچہ حضرت کی واپسی کے بعد عثمان نے حکم دیا کہ لوگ مسجد میں جمع ہوں، پھر منبر پر جاکر بجائے اس کے کہ شکایت کرنے والوں کی تالیف قلوب اور دلدہی کریں اور کہیں کہ متعین عمال اس وقت سے معزول کئے گئے، اس طرح کی باتیں کہیں رنجیدہ دلوں کو اور صدمہ پہنچا اور انجام خلیفہ عمر کی پیشن گوئی تک پہنچا یعنی عثمان ناراض جماعت کے ہاتھو مارے گئے۔

پس قتل عثمان کا سبب ان کی نادانیان تھیں کہ بزرگوں کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرے حتی کہ اپنے پاداش عمل کو پہنچے، بر خلاف ابوبکر وعمر کے کہ وہ امیرالمومنین علیہ السلام کے نصائح کو سن کر اثر لیتے تھے اور قدر دانی کر کے پورا فائدہ اٹھاتے تھے۔

اصحاب رسول(ص) پر عثمان کی زد و کوب

دوسرے یہ کہ وہ چند اصحاب رسول(ص) جو ناصح وخیر خواہ اور ان کے غلط رویے پر معترض تھے ان کے حکم سے اس قدر مارے پیٹے گئے کہ اکثر انہیں چوٹوں کے اثر سے مرگئے اور جو زندہ رہے وہ علیل و ناتوان ہوگئے۔

منجملہ ان کے عبداللہ ابن مسعود تھے جو حافظ و قاری ، محافظ بیت المال، کاتب قرآن اور رسول خدا(ص) کے خاص صحابی تھے یہاں تک کہ ابوبکر و عمر کے نزدیک بھی قابل احترام اور ان کے مشیر کار تھے۔

خصوصیت سے ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ خلیفہ ثانی عمر اپنے زمانہ خلافت میں کوشش کرتے تھے کہ عبداللہ ان سے جدا نہ ہوں اس لیے کہ یہ قرآن اور احکام دین سے پوری واقفیت رکھتے تھے اور رسول اللہ(ص) نے ان کی بہت تعریف فرمائی تھی چنانچہ ابن ابی الحدید اور دوسروں نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

ابن مسعود کی زد و کوب اور ان کی موت

آپ کے علماء و مورخین نے بالعموم لکھا ہے کہ جب عثمان نے قرآن کو جمع کرنا چاہا تو کاتبوں سے تمام نسخے حاصل

۲۵۹

کئے من جملہ ان کے عبداللہ ابن مسعود سے بھی جو کاتبین وحی میں سے اور رسول خدا(ص) کے معتمد علیہ تھے ان کا قرآن طلب کیا لیکن انہوں نے نہیں دیا عثمان خود ان کے گھر پر گئے اور زبردستی ان سے قرآن وصول کیا۔ جس وقت عبداللہ نے سنا کہ دوسرے قرآنیوں کی طرح ان کا قرآن بھی جلا دیا گیا تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ چنانچہ مجالس و محافل میں جو حدیثیں ان کو قدح عثمان میں یاد تھیں بیان کرتے تھے اصلیت سے پردے اٹھاتے تھے اور ارشارات سے لوگوں کو حقائق سمجھاتے تھے، جب یہ خبریں عثمان کو پہنچیں تو ان کے حکم سے غلاموں نے جاکر عبداللہ کو اس قدر مارا کہ ضربات کی شدت سے ان کے دانت ٹوٹ گئے اور وہ بستر سے لگے گئے یہاں تک کہ تین دن کے بعد دنیا سے چل بسے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ( مطبوعہ مصر) ص۶۷ و ص۴۲۶ ضمن طعن ششم میں ان واقعات کو تفصیل سے لکھا ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں عثمان عبداللہ کی عیادت کو گئے اور دونوں میں کافی بات چیت ہوئی تا اینکہ عثمان نے کہا: " استغفرلي ياأباعبدالرحمن قال أسأل الله أني أخذلي منك حقي. "( یعنی اے عبدالرحمن ( کنیت عبداللہ ابن مسعود) میرے لیے استغفار کرو۔ عبداللہ نے کہا کہ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ تم سے میرا حق وصول کرے( یعنی میں ہرگز تم سے راضی نہ ہوں گا۔)

نیز نقل کیا ہے کہ جس وقت ابوذر کو ربذہ کی طرف جلا وطن کیا گیا تو ان کی مشایعت کے جرم میں عبداللہ کے جسم پر چالیس تازیانے لگائے لہذا عبداللہ نے عمار یاسر کو وصیت کی کہ عثمان کو میرے جنازے پر نماز نہ پڑھنے دینا، عمار نے بھی اس کو منطور کیا اور عبداللہ کی وفات کے بعد اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ ان کے جنازے پر نماز پڑھ کے دفن کیا۔

جس وقت عثمان کو اس کی اطلاع دی گئی تو عبداللہ کی قبر پر آئے اور عمار سے کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا میں ان کی وصیت سے مجبور تھا ( عمار کا یہی عمل اس کینے کا سبب ہوا جو بعد کو ان کے ساتھ برتا گیا۔)

واقعا خلیفہ عثمان کے حرکات جیسا کہ آپ کے اکابر علماء و مورخین نے لکھا ہے حیرت انگیز ہیں، خصوصا وہ برتاوے جو وہ رسول اللہ(ص) کے خاص اور پاکباز صحابہ کے ساتھ عمل میں لاتے تھے کیونکہ ابوبکر اور عمر نے بھی ہرگز ایسے کام نہیں کئے بلکہ وہ عثمان کے طریقے کے خلاف اصحاب رسول(ص) کا پورا احترام کرتے تھے۔

عثمان کے حکم سے عمار کی زد و کوب

عثمان کے جو اعمال ان کی رحم دلی پر دلالت کرتے ہیں ان میں سے پیغمبر(ص) کے خاص صحابی جناب عمار یاسر کی توہین اور زد و کوب بھی ہے۔ چنانچہ فریقین کے علماء و مورخین نے لکھا ہے کہ جب بلاد اسلام میں عمال بنی امیہ کا ظلم و تعدی بہت بڑھ گیا تو اصحاب رسول(ص) نے جمع ہو کر عثمان کو ایک خط لکھا جس میں ان کے مظالم یاد دلائے اور مشفقانہ نصیحتیں گوش گذار کیں کہ اگر آپ ظالم اموی عمال کے رویے کی پیروی اور حمایت کرتے رہئے گا اور نیز اپنے مصاحبین کے طور طریقے پر نظر ثانی نہ

۲۶۰

کیجئے گا تو اس سے جو کچھ آپ اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں اس سے زیادہ خود آپ کو اس کے نتائج اور خمیازہ بھگتنا پڑے گا اس کے بعد مشورہ کیا کہ یہ خط کون لے جائے۔ بالاخرہ طے پایا کہ عمار کا لے جانا مناسب ہوگا اس لیے کہ ان کے فضل و تقوی اور عظمت کے خود عثمان بھی قائل ہیں اور ان کو بارہا یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہے کہ ایمان عمار کے خون اور گوشت میں پیوست ہے۔ نیز آن حضرت(ص) سے یہ بھی نقل کرتے تھے کہ فرمایا، بہشت تین اشخاص کی مشتاق ہے، علی ابن ابی طالب(ع) سلمان اور عمار یاسر۔ لہذا اصحاب کی درخواست پر جناب عمار وہ کاغذ لے کر عثمان کے گھر گئے عثمان گھر سے نکل رہے تھے ، دروازے پر عمار کو دیکھا تو پوچھا یا ابا یقظان ( کنیت عمار) کیا کام ہے؟ کہا میرا کوئی ذاتی کام نہیں ہے بلکہ اصحاب رسول(ص) کی ایک جماعت نے اس خط میں آپ کی نیکی اور خیر خواہی کی کچھ باتیں درج کی ہیں اور میرے ذریعے سے بھیجا ہے لہذا اس کو پڑھ کر جواب دے دیجئے۔ انہوں نے خط لیا اور جو نہی چند سطریں پڑھیں بپھر گئے اور لال پیلے ہو کر خط کو زمین پر ٹپک دیا جناب عمار نے فرمایا آپ نے اچھا نہیں کیا، اصحاب رسول(ص) کے خط کا احترام کرنا چاہیے تھا اسی کو زمین پر کیوں ٹپک دیا دیا چاہئیے تو یہ تھا کہ اس کو با قاعدہ پڑھتے اور جواب دیتے انہوں نے انتہائی غصے کے ساتھ کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو اس کے بعد اپنے غلاموں کو حکم دیا جنہوں نے جناب عمار کو سختی سے مارا پیٹا ۔ ان کو زمین پر گرا کر مارتے رہے یہاں تک کہ خود عثمان نے بھی ان کے پیٹ پر گئی لاتیں ماریں جن کی چوٹوں سے یہ بزرگوار مرض فتق میں مبتلا ہوگئے اور بے ہوش ہوگئے، ان کے عزہ آکر ان کو ام المومنین ام سلمہ کے گھر اٹھا لے گئے جہاں یہ ظہر کے وقت سے لے کر آدھی رات تک بے ہوش پڑے رہے یہاں تک کہ چار نمازوں کا وقت گزر گیا۔ جب ہوش میں آئے تو ان کی قضا پڑھی۔

آپ کی معتبر کتابوں میں ان قضیوں کی پوری تفصیل موجود ہے۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور مسعودی مروج الذہب جلد اول ص427 میں مطاعن عثمان کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ قبیلہ بذیل اور بنی مخزوم کا عثمان سے برگشتہ ہوجانا عبداللہ ابن مسعود اور عمار یاسر کے ساتھ ان کے سخت برتائو اور مار پیٹ کی وجہ سے تھا۔

اب فیصلہ آپ حضرات کے انصاف پر چھوڑتا ہوں تاکہ ان کی رقت قلب اور رحمدلی کی جانچ کرسکیں۔

ابوذر کی ایذا اور جلا وطنی اور صحرائے ربذہ میں ان کی وفات

چوتھے رسول اللہ(ص) کے خاص اور محبوب صحابی جندب بن جنادہ ابوذر عفاری کے ساتھ جو صحابہ میں اسلام کے دوسرے بڑے عالم تھے ان کا طرز عمل ہر آزاد منش انسان کو متاثر کرتا ہے۔

فریقین کے تمام ارباب حدیث اور بڑے بڑے مورخین کو اعتراف ہے کہ نوے سال کے مرد بزرگ کس قدر ذلت و اذیت کے ساتھ شام کو اور وہاں سے مدینے اور مدینے سے اپنی لڑکی کے ہمراہ بے کجادہ اونٹ پر ربذہ کے

۲۶۱

بے آب و گیاہ صحرا کی طرف جلا وطن کئے گئے یہاں تک ہاسی بیابان یں ابوذر کی وفات ہوئی اور ان کی یتیم بچی اس خوفناک وادی میں بے سرپرست اور تنہا رہ گئی، آپ کے بڑے بڑے علماء و مورخین جیسے ابن سعد نے طبقات جلد چہارم ص168 میں بخاری نے اپنی صحیح کتاب زکوۃ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص240 نیز جلد دوم ص375 تا ص387 میں، یعقوبی نے اپنی تاریخ جلد دوم ص148 میں، چوتھی صدی کے مشہور ومعروف محدث ومورخ ابو الحسن علی ابن الحسین مسعودی متوفی سنہ346ھ نے مروج الذہب جلد اول ص438 میں اور دوسروں نے بھی جن کے مفصل تذکرے کا وقت نہیں ہے اس مرد بزرگ، مومن پاک نفس اور محبوب رسول(ص) کے ساتھ عثمان اور معاویہ و مروان وغیرہ جیسے اموی عمال کے سخت برتائو نیز ابوذر کی مشایعت کرنے کے جرم میں امیرالمومنین علیہ السلام کی اہانتیں اور اسی جرم میں حافظ و کاتب وحی عبداللہ ابن مسعود کو چالیس کوڑے مارنے کا حال درج کیا ہے۔

حافظ : اگر ابوذر کو کوئی تکلیف پہنچی تو نا اہل عالموں کے طرز عمل سے پہنچی ورنہ خلیفہ عثمان تو بہت ہی رحم دل اور رقیق القلب تھے اور ایسی حرکتوں سے قطعا نا واقف تھے۔

خیر طلب : مثل مشہور ہے کہ " ماں سے زیادہ دائی مہربان" جناب عالی خلیفہ عثمان کی طرف سے جو صفائی پیش کر رہے ہیں وہ حقیقت اور واقعے کے بالکل خلاف ہے۔ اگر آپ اپنی معتبر تاریخی کتابوں کی طرف رجوع کیجئے تو ماننا پڑیگا کہ جتین تکلیفیں اور اذیتیں جناب ابوذر کو پہنچیں وہ خود خلیفہ کے صریح حلم سے پہنچیں۔

اس بات پر آپ کے اکابر علماء کی معتبر کتابیں گواہ ہیں، میری درخواست ہے کہ نمونے کے لیے نہایہ ابن اثیر جلد اول تاریخ یعقوبی اور بالخصوص شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ( مطبوعہ مصر) جلد اول ص241 کو ملاحظہ فرمائیے جن میں معاویہ کے نام خلیفہ کے خط درج کیا گیا ہے کہ جب معاویہ نے شام سے ابوذر کی بدگوئی کی تو خلیفہ عثمان نے ان کو لکھا کہ ان کو سختی کے ساتھ مدینے روانہ کرو۔ اصلی خط یہ ہے۔

"فكتب عثمان إلى معاوية: أمّابعدفاحمل جندباعلى أغلظ مركب وأوعره. فوجّه به مع من ساربه الليل والنهاروحمله على شارف ليس عليهاإلّاقتب حتّى قدم به المدينةوقدسقط لحم فخذيه من الجهد."

یعنی عثمان نے معاویہ کو لکھا کہ جندب ( ابوذر کا نام) کو ایک بوڑھے اور بے کجادہ اونٹ پر بٹھا کر ایک بد مزاج انسان کے ہمراہ جو رات دن اس کو دوڑاتا ہوا میرے پاس لائے روانہ کرو ( چنانچہ انکے حکم کے مطابق اس عابد و زاہد اور محبوب خدا و رسول(ص) صحابی کو اسی طریقے سے لایا گیا) جس وقت یہ مدینے پہنچے ہیں تو ان کی رانوں کا گوشت کٹ کٹ کر گر گیا تھا۔

خدا کے لیے انصاف کیجئے کیا عطوفت و مہربانی اور رحم و رقت قلب کے یہی معنی ہیں؟

۲۶۲

ابوذر محبوب خدا اور رسول(ص) اور امت کےسب سے سچے انسان تھے

کیا ابوذر کے بارے میں خدائے تعالی اور پیغمبر اسلام کی طرف سے کافی ہدایتیں صادر نہیں ہوئی ہیں اور ان مفصل روایات کو آپ کے بڑے علماء نے اپنی مبسوط کتابوں میں درج نہیں کیا ہے۔

چنانچہ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء جلد اول ص172 میں، ابن ماجہ قزوینی نے سنن جلد اول ص66 میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب 59 میں صواعق محرقہ ابن حجر مکی سے ان چالیس حدیثوں میں سے پانچواں حدیث جو انہوں نے فضائل امیرالمومنین(ع) میں ترمذی و حاکم سے نقل کی ہیں۔ شرط صحت کے ساتھ بریدہ سے، اور انہوں نے اپنے باپ سے، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد سیم ص455 میں، ترمذی نے صحیح جلد دوم ص213 میں، ابن عبدالبر نے اسیتعاب جلد دوم ص557 میں، حاکم نے مستدرک جلد سیم ص130 میں اور سیوطی نے جامع الصغیر میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ۔

"إِنَ اللَّهَ أَمَرَنِي بِحُبِّ أَرْبَعَةِوَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُحِبُّهُمَْقِيلَ: يَارَسُولَاللَّهِ سمهم لنا َقَالَ: عَلِيٌّ منهم يقول ذالک ثلاثاء أَبُوذَرٍّوَالْمِقْدَادُ سَلْمَانُ ."

یعنی خدانے مجھ کو چار شخصوں کی محبت کا حکم دیا ہے اور خبر دی ہے کہ وہ بھی ان کو دوست رکھتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ(ص) ہمارے لیے ان کے نام بیان فرمائیے تو فرمایا ان میں سے علی(ع) ہیں، اور ابوذر و مقداد و سلمان۔

پس معلوم ہوا کہ یہ چاروں حضرات خدا و رسول اللہ(ص) کے محبوب ہیں۔ آیا آپ حضرات کا انصاف اس کی اجازت دیتا ہے کہ خدا و رسول(ص) کے محبوب سے ایسا غیر منصفانہ برتائو کیا جائے اور اس کا نام رحمدلی اور رقت قلب رکھا جائے؟ ابوبکر و عمر کو یہ الزام کیوں نہیں دیا گیا؟ چونکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا لہذا نہ تاریخ میں آیا نہ ہم نے کہا۔

حافظ : جیسا کہ مورخین ن لکھا ہے ابوذر ایک ہنگامہ پسند انسان تھے شام کے اندر علی کرم اللہ وجہہ کے نام پر سخت پروپیگنڈا کررہے تھے اور شامیوں کو علی(ع) کی طرف ترغیب دے رہے تھے، کہتے تھے کہ میں نے پیغمبر(ص) سے سنا ہے کہ فرمایا : علی(ع ) میرے خلیفہ ہیں۔ چونکہ یہ دوسروں کو غاصب اور علی(ع) کو خلیفہ منصوص ظاہر کرتے تھے لہذا خلیفہ عثمان رضی اللہ مجبور تھے کہ اتحاد کی حفاظت اور فساد کی روک تھام کے لیے ان کو شام سے بلا لیں۔

جس وقت کوئی شخص لوگوں کو اجتماعی مصلحت کے خلاف اکسائے تو خلیفہ وقت پر واجب ہے کہ اس کو محل انقلاب سے نکال دے۔

خیر طلب : اول یہ کہ اگر کوئی شخص حق بات کہے تو کیا یہی چاہیئے کہ اس کو جلا وطن اور مبتلائے مصیبت بنا دیا جائے کہ تم کیوں اپنے سچے معلومات کو ظاہر کرتے ہو؟ فرض کیجئے کہ ایک معمولی مسلمان ہو تو کیا بلا تحقیق اور بغیر چغلی کھانے والے کی بات کا جھوٹ سچ پرکھے ہوئے اس کو شہر بدر یا دار الخلافت کو روانہ کرنے کا حکم دے دیا جائے؟ آیا اسلام کا

۲۶۳

مقدس قانون یہی حکم دیتا ہے کہ ایک نحیف اور ضعیف انسان کو بوڑھے اور بے کجادہ اونٹ پر سوار کر کے ایک تند غلام کے شکنجے میں دے کہ بھیجنے کی تاکید کی جائے جو رات دن نہ سونے دے نہ ٹھہرنے دے اور جب منزل پر پہنچے تو اس کے پائوں کا گوشت اڑچکا ہو؟ کیا یہی ہیں رقت القلب اور رحم و مروت کے معنی؟

اس کے علاوہ خلیفہ کے پیش نطر اتحاد کی حفاظت اور فساد کی روک تھام ہی تھی تو فسادی امویوں کو جیسے رسول خدا(ص) کے طرید و راندہ درگاہ مروان اور علی الاعلان فسق و فجور کرنے والے بے دین ولید کو جو نشے کی حالت میں نماز پڑھتا تھا اور مسجد کی محراب میں قے کرتا تھا نیز اسی طرح کے اور لوگوں کو کیوں نہیں اپنے پاس سے نکال باہر کیا تاکہ ان کے طور طریقے جماعت کے اندر فساد اور خلیفہ کے قتل کا باعث نہ بنیں؟

حافظ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ ابوذر سچ کہتے تھے اور صحیح معلومات کا اظہار کرتے تھے اور رسول خدا(ص) کے نام سے حدیث نہیں گھڑتے تھے؟

اںصاف سے فیصلہ کرنا چاہیئے تاکہ جہالت کے پردے چاک ہوں

یہاں سے معلوم ہوا کہ خاتم الانبیاء(ص) نے خود ان کی صداقت اور سچائی کی تصدیق فرمائی ہے، چنانچہ معتبر روایات میں وارد ہے اور آپ کے اکابر علماء نے درج کیا ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا میری امت کے اندر ابوذر صداقت و راستی اور زہد و تقوی میں ایسے ہیں جیسے بنی اسرائیل کے اندر حضرت عیسی۔

چنانچہ محمد بن سعد نے جو آپ کے اکابر علماء محدثین میں سےہیں طبقات جلد چہارم ص67، ص168 میں، ابن عبدالبر نے استیعاب جلد اول باب جذب ص84 میں، ترمذی نے صحیح جلد دوم ص241 میں، حاکم نے مستدرک جلد سیم ص342 میں ، ابن حجر نے اصابہ جلد سیم ص622 می، متقی ہندی نے کنز العمال جلد ششم ص169 میں، امام احمد بن حنبل نے مسند جلد دوم ص163 و ص175 میں، ابن الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص241 میں واحدی سے، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیہ میں اور صاحب لسان العرب و ینابیع المودۃ نے اخبار ابوذر عفاری میں ۔۔۔۔ متعدد سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا : "ماأقلّت الغبراءولاأظلّت الخضراءاصدق لهجةمن أبي ذر" یعنی زمین نے کسی ایسے مرد کو نہیں اٹھایا اور آسمان نے کسی ایسے مرد پر سایہ نہیں ڈالا جو ابوذر سے زیادہ سچ بولنے والا ہو۔

بدیہی بات ہے کہ آپ کے علماء کی شہادت کے مطابق پیغمبر(ص) نے جس کی راست گوئی کی تصدیق کی ہو وہ جو کچھ کہتا تھا یقینا سچ کہتا تھا اور خدا کسی جھوٹے جعلساز اور حدیث گھڑنے والے کو ہرگز اپنا محبوب نہیں بناتا۔ بہتر ہوگا کہ انصاف کی نگاہوں سے دیکھئے تاکہ حق اور حقیقت سامنے آجائے۔ اگر ابوذر کے جھوٹ بولنے کی کوئی مثال ہوتی تو آپ کے علمائے

۲۶۴

متقدمین قطعا اس کو نقل کرتے جیسا کہ ابوہریرہ وغیرہ کا کچا چٹھا نقل کیا ہے۔

آپ کو خدا کا واسطہ تھوڑا غور کیجئے اور ذرا انصاف سے کام لیجئے کہ جو شخص رسول اللہ(ص) کا خاص صحابی، خدا اور رسول(ص) کا محبوب اور امت کا صادق و راست گو ہو وہ اگر اپنے دینی فرض پر عمل کرتے ہوئے امر بالمعروف اور اشاعت حق کرے تو اس کی اس خطا پر کہ رسول اللہ(ص) کی حدیثیں کیوں بیان کیں اس قدر توہین اور زجر و توبیخ کریں، یہاں تک کہ وہ ایک بے آب و گیاہ بیابان میں دنیا سے کوچ کرے۔ کیا رحم و مروت اور رقت قلب کے معنی یہی ہیں؟

اور وہ بھی ایسے شخص کے بارے میں کہ جب رسول اللہ(ص) ان کی آنے والی مصیبتوں کی خبر دے رہے تھے تو ان کی پرہیزگاری کی گواہی بھی دی تھی، چنانچہ حافظ ابونعیم اصفہانی حلیۃ الاولیاء جلد اول ص162 میں اپنے اسناد کے ساتھ ابوذر غفاری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں خدمت رسول(ص) می کھڑا ہوا تھا کہ آں حضرت(ص) نے مجھ سے فرمایا :

"أنت رجل صالح وسيصيبك بلاءبعدي. قال أبوذر: في اللّه؟قال: «في اللّه»فقال أبوذر: مرحبابأمراللّه."

( یعنی تم ایک مرد صالح ہو اور عنقریب میرے بعد تم پر بلائیں نازل ہوں گی میں نے عرض کیا کہ خدا کی راہ میں ؟ تو فرمایا ہاں خد کی راہ میں۔ میں نے کہا میں امر الہی کو خوش آمدید کہتا ہوں) ( آیا معاویہ اور عثمان کے مقرب بارگاہ بنی امیہ کے ہاتھوں ان دونوں کے حکم سے بزرگ صحابی ابوذر کا ابتلا و بے آب و گیاہ صحرا میں ان کی جلا وطنی اور شدید تکلیفیں وہ عظیم بلا نہیں تھی جس کی خبر رسول خدا(ص) دے چکے تھے کہ وہ خدا کے لیے اس آفت میں مبتلا ہوں گے؟ "فَاعْتَبِرُواياأُولِي الْأَبْصارِ "

آپ حضرات کے متضاد حالات سے سخت تعجب ہوتا ہے کہ ایک طرف تو یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہے میرے سارے اصحاب ستاروں کے مثل ہیں ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پائو گے، اور دوسری طرف جب ایک بزرگ ترین صحابی رسول(ص) کو اس جرم میں کہ علی(ع) کی طرفداری کیوں کی اس قدر ظلم و تشدد کر کے مار ڈالتے ہیں تو آپ ظالمون کی طرف سے صفائی دینے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔

اب یا تو آپ اپنے تمام بزرگ علماء کو جھٹلائیے جنہوں نے ان واقعات اور احادیث کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے یا تصدیق کیجئے کہ صفات آیہ مذکورہ کے حامل وہ لوگ نہیں تھے جنہوں نے رسول خدا(ص) کے پاک صحابہ پر ایسے مظالم کئے۔

ربذہ کی طرف ابوذر(رض) کا زبردستی اخراج

حافظ : یہ تو مسلم ہے کہ ابوذر نے اپنی خواہش اور اختیار سے ربذہ کو قبول کیا اور اس طرف روانہ ہوئے۔

خیر طلب : آپ کی یہ گفتگو ان بے جا کوششوں کا اثر ہے جو آپ کے متعصب متاخرین علماء نے اسلاف کی حرکتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کی ہیں، ورنہ جناب ابوذر کا زبردستی نکالا جانا عام طور پر مسلم ہے۔ نمونے کے لیے ایک روایت

۲۶۵

پر اکتفا کرتا ہوں جس کو امام احمد بن حنبل نے مسند جلد پنجم ص156 میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص241 میں اور واقدی نے اپنی تاریخ میں ابوالاسود دئوئلی سے ( جو آپ کے علماءے رجال کے نزدیک ثقات میں سے ہیں) نقل کیا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ ربذہ میں ابوذر سے ملاقات کر کے ان کی جلا وطنی کا سبب دریافت کروں لہذا میں گیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا مجھ کو زبردستی شہر بدر کر کے اس بے آب و گیاہ صحرا میں بھیجا گیا ہے اور رسول اللہ(ص) مجھ کو اس کی خبر بھی دے چکے تھے ایک روز مسجد میں سوگیا تھا، آںحضرت(ص) تشریف لائے اور پائوں مار کر فرمایا مسجد میں کیوں سور رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ مجھ کو بے اختیار نیند آگئی، تو فرمایا کہ اس وقت تم کیا کرو گے جب مدینے سے نکال دیے جائو گے؟ میں نے عرض کیا کہ شام کی مقدس سرزمین پر چلا جائوں گا فرمایا اس وقت کیا کرو گے جب وہاں سے بھی تم کو نکال دیں گے؟ میں نے عرض کیا پھر مسجد کی طرف واپس آجائوں گا۔فرمایا اس وقت کیا کرو گے جب یہاں سے بھی نکالے جائو گے؟ میں نے عرض کیا تلوار کھینچ کر جنگ کروں گا فرمایا آیا میں تم کو ایسی بات بتائوں جس میں تمہاری بھلائی ہو؟ میں نے عرض کیا ہاں، تو فرمایا :" انسق معهم حيث ساقوك (1) وتسمع وتطيع" (یعنی پس میں نے سنا اور اطاعت کی، اس وقت فرمایا : " والله ليلقين الله عثمان وهوآثم في جنبي." ( یعنی خدا کی قسم عثمان اس حالت میں خدا کے سامنے جائیں گے کہ وہ میرے معاملہ میں گنہگار ہوںگے۔

علی ابن ابیطالب (ع) کا رحم و کرم

اگر غور و اںصاف اور غیر جانبداری کی نظر سے دیکھئے تو تصدیق کیجئے گا کہ اس رحم و کرم اور شفقت و عطوفت میں سب سے اولی واہل اور احق حضرت امیرالمومنین علیہ السلام تھے کیونکہ جب آپ خلافت ظاہری کی مسند پر بیٹھے تو جیسا کہ آپ کے تمام مورخین بالخصوص ابن ابی الحدید نے تفصیل سے لکھا ہے۔ بدعتوں کو برطرف کیا۔ حکام و عمال جور و فساد اور فاسقین بنی امیہ وغیرہ کو جو زمانہ خلافت عثمان میں اسلامی ممالک کی حکومتوں پر مسلط کردیے گئے تھے، معزول کردیا۔

بعض ظاہربین سیاستدانوں اور دلچسپی رکھنے والے دوستوں نے اس جامع و مانع ذات کے سامنے یہ مشورہ رکھا کہ چند روز ان معاویہ جیسے حکام کو ان کی جگہوں پر رہنے دیجئے تاکہ آپ کی حکومت مضبوط ہوجائے، اس کے بعد ان کو معزول کرنے میںکوئی حرج نہ ہوگا۔ حضرت نے فرمایا : " واللّه لاادهن في ديني،ولااعطي الرياءفي أمري. "( یعنی خدا کی قسم میں دین کے معاملے میں چاپلوسی اور اپنے کام میں ریاکاری نہیں کرتا۔)

تم مجھ کو روا داری پر مجبور کرتے ہو لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ جتنی مدت تک وہ میری طرف سے حکومت پر بر قرار رہیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ۔یعنی و ہجد ھر جائی ںچل ےجانا ۔12 باقری

۲۶۶

بہ دستور ظلم و تعدی میں مشغول رہیں گے اور مجھ کو خدائے عزوجل کی بارگاہ میں جواب دینا ہوگا

جس کو مجھ میں طاقت نہیں چنانچہ یہی حکام جور کی معزولی چند معاویہ جیسے جاہ طلب لوگوں کی مخالفت کا سبب اور جمل کی لڑائیوں کا پیش خیمہ بنی جس وقت طلحہ اور زبیر کوفے اور مصر کی حکومت مانگنے آئے تھے اگر حضرت ان کو حاکم بنا دیتے تو وہ مخالفت پر آمادہ نہ ہوتے اور بصرے کا فتنہ اور جنگ برپا نہ کرتے۔

بعض کوتاہ فہم اور ظاہر بین لوگ حضرت کی مستحکم سیاست پر اعتراض کرتے ہیں، حالانکہ آپ سیاست عادلانہ کے مرکز تھے۔ عام معنی میں سیاست جس پر دنیاداروں کا عمل ہے یعنی دوزخی پالیسی ، ریاکاری، چاپلوسی، جھوٹ، دشمنوں کی خوشامدی اور ظاہری منفعتوں کے لیے ان کو فریب دینا وغیرہ تو یہ البتہ حضرت سے کوسوں دور تھی کیونکہ آپ عدل ، اںصاف اور خوف الہی کے مجسمہ اور روز جزا کے معتقد تھے۔

جس وقت آپ نے بالائے منبر اپنے خطبوں کے درمیان گریہ فرمایا اور لوگوں نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا میں نے سنا ہے کہ معاویہ کی فوجوں نے ایک گائوں پر چھاپہ مار کر یہودی کی لڑکی کے پائوں سے پا زیب اتار لی حالانکہ وہ جزیہ اور اسلام کی پناہ میں ہے ان حضرت کی رحمدلی دوست و دشمن سب کے ساتھ یکسان تھی۔ باوجودیکہ عثمان نے حضرت کے ساتھ اس قدر بد سلوکیاں کی تھیں ( جس قدر ابوبکر و عمر نے بھی علاوہ خلافت ابوبکر کے ابتدائی زمانے کے ظاہر بظاہر کبھی نہیں کی تھیں۔) پھر بھی جس وقت ان کا محاصرہ کیا گیا ہے اور انہوں نے اپنے مکان کی چھت پر سے حضرت کو یہ پیغام دیا کہ ہم پر کھانا پانی بند کردیا گیا ہے تو حضرت نے فورا آپ و طعام مہیا کرکے اپنے دونوں فرزندوں حسن و حسین علیہما السلام کے ذریعے ان کے پاس بھیجا ، چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور دوسروں نے بھی اس کی تفصیل لکھی ہے۔

دوست و دشمن کے ساتھ حضرت کی عنایت و مہربانی سے کسی کو انکار نہیں تھا، بے بس عورتوں اور بیکس یتیموں سے اس قدر ہمدردی فرمائی کہ " ابوال أرامل والأيتام والمساكين ." ( یعنی بیوائوں، یتیموں اور مسکینوں کے باپ) مشہور ہوگئے تھے۔ خلافت ظاہری کے زمانے میں ایک عورت کو دیکھا کہ راستے میں پانی کی مشک لیے بہت پریشان اور تھکی ہوئی ہے آپ نے بغیر اپنے کو ظاہر کئے ہوئے مشک اس سے لے کر اپنے کاندھے پر رکھی اور اس کے گھر پہنچا دی۔ اس کے لیے خرمے لے گئے، اس کے یتیم بچوں پر شفقت فرمائی اور تنور میں ان کے لیے روٹیاں پکا کر ان کی تسکین کا سامان فرمایا۔

خلیفہ عثمان نے بھی سخاوت اور بخشش میں نام پیدا کیا لیکن صرف اپنے گھرانے والوں کے ساتھ ، چنانچہ ابوسفیان ، حکم ابن ابی العاص اور مروان ابن حکم وغیرہ مسلمانوں کے بیت المال سے بغیر کسی شرعی حق کے لا تعداد دولت سمیٹتے تھے۔

زیادہ امداد مانگنے پر عقیل کی تنبیہ

لیکن امیرالمومنین علیہ السلام اپنے قریبی خاندان کو بھی ضرورت کی کم سے کم مقدار دیتے تھے، جس وقت حضرت کے

۲۶۷

بڑے بھائی جنا عقیل نے حاضر خدمت ہو کر معمولی حقوق سے زیادہ امداد طلب کی تو آپ نے کوئی توجہ نہیں فرمائی انہوں نے حد سے زیادہ اصرار کیا کہ آپ چونکہ آج خلیفہ اور سارے نظم و نسق کے مالک ہیں لہذا ہماری حاجب روائی اور امداد زیادہ ہونا چاہیئے۔ حضرت نے اپنے بھائی کو متنبہ کرنے کے لیے چپکے سے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں گرم کیا اور عقیل کے جسم سے قریب لے گئے

" فضج ضجيج ذيدنف من ألمها،وكادأن يحترق من ميسمها."

(یعنی انہوں نے اس کی تکلیف سے دردناک چیخ ماری اور قریب تھا کہ اس کے اثر سے جل جائیں حضرت(ع) نے فرمایا :

"ثكلت كالثواكل ياعقيل،أتئن من حديدةأحماهاانسان هاللعب هوتجرّني الىنارسجّرهاجباره الغضبه،أتئن من الاذىولاأإن من لظى"

( یعنی رونے والیاں تمہارے سوگ میں بیٹھیں اے عقیل آیا تم اس لوہے کے ٹکڑے سے فریاد کرتے ہو جس کو انسان نے کھیل کے طور پر گرم کیا ہے اور مجھ کو اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہو جس کو خدائے قہار نے اپنے غضب سے بھڑکایا کیا تم اس معمولی سی تکلیف سے فریاد کرو اور میں آتش جہنم سے پناہ نہ مانگوں؟

اب یہ آپ حضرات کے انصاف پر ہے کہ ان دونوں خلیفہ کی حالت اور طرز عمل کا موازنہ کر کے حقیقت کو پرکھیں اور حق کی پیروی کریں۔ آپ کی شفقت و مہربانی دوستوں سے مخصوص نہ تھی بلکہ اس لطف و کرم کے برتائو میں حضرت کے نزدیک دوست دشمن سب برابر تھے۔

مروان ، عبداللہ ابن زبیر اور عائشہ کے ساتھ حضرت کی عنایتیں

آپ جس وقت دشمنوں پر غالب آتے تھے تو ایسی مہربانی فرماتے تھے کہ لوگ حیران رہ جاتے تھے حضرت کا ایک جانی دشمن جس کا بغض و عداوت آپ سے ضرب المثل بن گیا تھا، ملعون ابن ملعون مروان بن حکم شقی تھا لیکن جب آپ جنگ جمل میں اس پر غالب ہوئے تو فصفع عنہ اس سے در گزر فرمائی اور بخش دیا۔

من جملہ حضرت کے بڑے دشمنوں کے عبداللہ بن زبیر بھی تھے جو " يَشْتِمُهُ عَلَى رُءُوس الْأَشْهَادِوَخَطَبَ يَوْمَ الْبَصْرَةِفَقَالَ قَدْأَتَاكُمُ الْوَغْبُ اللَّئِيمُ عَلِيُّ بْنُ أ َبِي طَالِبٍ" ( یعنی علانیہ اور کھلم کھلا آپ کو گالی دیتے تھے اور جب بصرے میں خطبہ پڑھا تو لوگوں سے کہا کہ تمہاری طرف بے وقوف کمینہ ذلیل اور بخیل علی ابن ابی طالب آئے ہیں)( معاذ اللہ) اس کے باوجود جس وقت آپ نے جنگ جمل ختم کی اور یہ قید کر کے حضرت کے سامنے لائے گئے تو آپ نے کوئی سخت لفظ استعمال کیا نہ غصہ دکھایا ، بلکہ درگزر کرتےہوئے اپنا منہ پھیر لیا اور اس کو بخش دیا۔

اور اسب سے بالاتر ام المومنین عائشہ کے ساتھ آپ کا سلوک تھا جس نے عقلوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپ کے شروع زمانہ خلافت میں جس طریقے سے فتنہ انگیزی کی، آپ کے مقابلے میں صف آرائ ہوئیں اور آپ کو بدنام کیا

۲۶۸

یہ انسان کو اتنا برافروختہ کردیتا ہے کہ جب ایسے شخص پر قابو پاتا ہے تو اس کا بھیجا نکال دیتا ہے، اور سخت سزائیں دیتا ہے لیکن جب حضرت ان پر غالب ہوئے تو ان کی کوئی ہلکی اہانت بھی نہیں کی، بلکہ ان کے بھائی محمد بن ابی بکر کو ان کی خدمت کے لیے معین فرمایا۔ کاموں سے فارغ ہونے کے بعد غصے اور بے مروتی کے عوض رحم و کرم سے پیش آئے اور آپ کے حکم سے قبیلہ عبدالفیس کی بیس(20) عدد تندرست عورتیں مردانہ لباس پہنے تلواریں کمر سے لگائے اور چہروں پر نقاب دالے ہوئے تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ یہ عورتیں ہیں عائشہ کے ہمراہ مدینے روانہ ہوئیں۔ جس وقت یہ زنان مدینہ اور ازواج رسول(ص) کے سامنے حضرت علی(ع) کے لیے تشکر و اتمنان کا اظہار کررہیں تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ میں زندگی بھر کا علی(ع) کا ممنون احسان رہوں گی، مجھ کو یہ خیال نہیں تھا کہ علی(ع) اس قدر عالی فطرت ہوں گے کہ باوجود میری اس قدر دشمنی اور فتنہ انگیزیوں کے مجھ کو ایک کلمہ بھی نہیں کہیں گے بلکہ انتہائی مہربانی اور رحم و کرم سے کام لیں گے۔ لیکن اس سے ایک شکایت ہے کہ مجھ کو اجنبی مردوں کے ساتھ مدینے کیوں بھیجا۔ ان کنیزوں نے آکر فورا مردانہ لباس اتار دیا اور چہرے کھول دیے تب معلوم ہوا کہ یہ سب کنیزیں تھیں جو مردانہ لباس میں ہمراہ تھیں تاکہ ایک طرف تو راستے کے لوگ یہ سمجھیں کہ مردانہ دستہ ے۔ لہذا رہزنی کی ہمت نہ کریں اور دوسری طرف عائشہ کی روانگی بھی مردوں کے ساتھ نہ ہو۔ ٹھیک ہے۔

چنین کنند بزرگان چہ کرد باید کار

معاویہ کا پانی روکنا اور علی(ع) کا ان پر مہربانی کرنا

جنگ صفین میں معاویہ کا لشکر پہلے پہنچ کے نہر فرات پر قابض ہوگیا اور بارہ ہزار سپاہی اس کی نگرانی پر مقرر کردیے جب امیرالمومنین(ع) کی فوج پہنچی تو ان لوگوں نے پانی لینے سے روکا حضرت نے معاویہ کو پیغام دیا کہ ہم لوگ یہاں پانی پر جنگ کرنے نہیں آئے ہیں۔ اپنے آدمیوں سے کہہ دو کہ پانی بند نہ کریں تاکہ دونوں لشکر آزادی سے سیراب ہوں۔ معاویہ نے کہا کہ میں ہرگز پانی نہیں دوں گا یہاں تک علی(ع) مع اپنی فوج کے پیاس سے دم توڑ دیں۔ جس وقت حضرت نے یہ جواب سنا مالک اشتر کو سواروں کے ایک دستے کے ساتھ بھیجا جنہوں نے ایک ہی حملے میں معاویہ کے لشکر کو پراگندہ کردیا اور فرات پر قبضہ کر لیا۔

اصحاب نے عرض کیا کہ یا امیرالمومنین(ع) اگر اجازت ہوتو ہم بھی انتقام لیں اور ان پر پانی بند کر دیں تاکہ وہ لوگ پیاس سے ہلاک ہوجائیں پھر لڑائی جلد ختم ہوجائے۔ حضرت نے فرمایا :" لاوالله لاأكافئ هم بمثل فعله مافسحواله مع نبعضالشريعة" یعنی نہیں کدا کی قوسم میں انہیں کی ایسی حرکت کر کے بدلا نہیں لوں گا ان کے یے نہر کا ایک حصہ چھوڑ دو ( یعنی ادھر کا کنارہ ان کو دے دو، اس طرف کا پانی تمہارے لیے کافی ہے، میں نے جلسہ کا وقت دیکھتے ہوئے دشمنوں پر حضرت کی عنایت و مہربانی کے مفصل حالات سے مشتے نمونہ از خردارے چند مختصر باتیں پیش کی ہیں، لیکن آپ کے

۲۶۹

بڑے بڑے علماء نے ان سارے مطالب کو تشریح و تفصیل سے درج کیا ہے۔ جیسے طبری نے اپنی تاریخ تاریخ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب 51 میں اور مسعودی نے مروج الذہب میں، نیز دوسرے مورخین نے بھی حوالہ دیا ہے تاکہ روشن خیالی اور منصف مزاج حضرات دونوں خلیفہ ( عثمان و علی علیہ السلام) کے حالات کا الگ الگ جائزہ لیں اور عقل سلیم سے غور کریں کہ ان دونوں میں سے کون خلیفہ آیہ شریفہ و رحماء بینہم کا مصداق ہے پس اگر غور و انصاف سے دیکھیں گے تو تصدیق کریں گے کہ آیہ شریفہ کے معنی اس طرح ہوتے ہیں محمد رسول اللہ مبتداء والذین معہ معطوف بر مبتداء اور اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے خبر بعد از خبر ہے اور یہ ساری صفتیں ایک ہی شخص کی ہیں۔ یعنی پیغمبر(ص) کے ساتھ ہونا، میدان جنگ اور علمی و مذہبی مباحثوں میں کفار پر سخت و درشت ہونا اور دوست و دشمن پر مہربان و رحمدل ہونا یہ تمام صفات اسی شخصیت سے وابستہ ہیں جو دم بھر رسول خدا(ص) سے جدا نہ رہا ہو بلکہ جدائی کا خیال بھی نہ کیا ہو( جیسا کہ ہم پہلے ثابت کرچکے ہیں) اور وہ صرف علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے۔چنانچہ میں عرض کرچکا ہوں کہ علامہ فقیہہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں کہ اہے کہ خدا نے اس آیہ شریفہ سے علی علیہ السلام کی تعریف کی ہے۔

شیخ : آپ کے بیانات کے جوابات بہت ہیں، لیکن اگر آیت کے معنی یہی ہیں جو آپ کہہ رہے ہیں تو والذین معہ کے ساتھ درست نہیں ہوتے کیونکہ والذین معہ جمع ہے اور خود یہ عبارت بتاتی ہے کہ آیت ایک شخص کے بارے میں نازل نہیں ہوئی ہے کیونکہ اگر یہ صفات ایک ہستی کے لیے تھے تو جمع کی لفظ کیوں ذکر ہوئی۔

خیر طلب : اول تو آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ تمہارے بیانات کے جوابات بہت ہیں تو آخر آپ حضرات وہ جوابات کیوں نہیں دیتے تاکہ بات صاف ہوجائے؟ پس آپ حضرات کی خاموشی خود اس کی دلیل ہے کہ میرے دلائل منطقی ہیں( یہ دوسری بات ہے کہ ہٹ دھرمی اور مغالطہ بازی کا دروازہ ہر وقت کھلا ہوا ہے) اور آپ حضرات چونکہ اںصاف پسند ہیں لہذا میرے معقول جوابات کے مقابلے میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔

آیت میں جمع کی لفظ تعظیم و تکریم کے لیے ہے

دوسرے جناب عالی کا یہ بیان محض کج بخثی ہے کیونکہ اول تو آپ خود جانتے ہیں کہ کلام عرب و عجم میں تعظیم و تکریم یا دوسرے اسباب کی بنا پر جمع کا اطلاق واحد پر عام طور سے رائج اور مستعمل ہے۔

باتفاق جمہور آیہ ولایت کا نزول علی(ع) کی شان میں

چنانچہ قرآن مجید جو ہمارے لیے مضبوط آسمانی سند ہے اس کے اندر ایسی مثالیں بکثرت ہیں، مثلا آیہ مبارکہ ولایت

۲۷۰

سورہ نمبر5 ( مائدہ) آیت نمبر60 میں ارشاد ہے۔

"إِنَّماوَلِيُّ كُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواالَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَوَيُؤْتُونَ الزَّكاةَوَهُمْ راكِعُونَ "

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تمہارے ولی امر اور اولی بالتصرف صرف خدا اور رسول(ص) اور وہ مومنین ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔

جس پر جملہ مفسرین و محدثین کا اتفاق ہے جیسے1۔ امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر جلد سیم ص431 میں۔ 2۔ امام ابواسحق ثعلبی نے اپنی کشف البیان میں۔ 3۔ جار اللہ زمخشری نے تفسیر کشاف جلد اول ص422 میں۔ 4۔ طبری نے اپنی تفسیر جلد ششم ص186 میں۔ 5۔ ابو الحسن ربانی نے اپنی تفسیر میں۔ 6۔ ابن ہوازن نیشاپوری نے اپنی تفسیر میں۔ 7۔ ابن سعید قرطبی نے اپنی تفسیر جلد ششم ص221 میں۔ 8۔ نسفی حافظ نے اپنی تفسیر ص452 ( برحاشیہ تفسری خازن بغدادی) میں۔ 9۔ فاضل نیشاپوری نے غرایب القرآن جلد اول ص461 میں۔ 10۔ ابو الحسن واحدی نے اسباب النزول ص148 میں۔ 11۔ حافظ ابوبکر جصاس نے تفسیر احکام القرآن ص542 میں۔ 12۔ حافظ ابوبکر شیرازی نے فیما نزل من القرآن فی امیرالمومنین میں۔ 13۔ ابو یوسف شیخ عبدالسلام قزوینی نے اپنی تفسیر کبیر میں۔ 14۔ قاضی بیضاوی نے انوار التنزیل جلد اول ص245 میں۔ 15۔ جلال الدین سیوطی نے در المنثور جلد دوم ص264 میں۔ 16۔ قاضی شوکانی صنعائی نے تفسیر فتح القدیر میں۔ 17۔ سید محمد آلوی نے اپنی تفسیر جلد دوم ص349 میں۔ 18۔ حافظ ابن ابی شیبہ کوفی نے اپنی تفسیر میں۔ 19 ۔ ابوالبرکات نے اپنی تفسیر جلد اول ص496 میں۔ 20۔ حافظ بغوی نے معالم التنزیل میں۔ 21۔ امام ابوعبدالرحمن نسائی نے اپنی صحیح میں۔ 22۔ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص23 میں۔ 23۔ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص275 میں۔ 24۔خازن علاء الدین بغدادی نے اپنی تفسیر جلد اول ص496 میں۔ 25۔ سلیمان حنفی نے ینابیع المودۃ ص212 میں۔ 26۔ حافظ ابوبکر بیہقی نے کتاب مصنف میں۔ 27۔ زرین عبدری نے جمع بین الصحاح الستہ میں۔ 28۔ ابن عساکر مشقی نے تاریخ شام میں ۔ 29۔ سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص9میں ۔ 30۔ قاضی عبدالحی نے مواقف ص256 میں۔ 31۔ سید شریف جرجانی نے شرح مواقف میں۔ 32۔ ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص123 میں۔ 33۔ حافظ ابوسعد سمعانی نے فضائل الصحابہ میں۔ 34۔ ابوجعفر اسکافی نے نقض العثمانیہ میں۔ 35۔ طبرانی نے اوسط میں۔ 36۔ ابن مغازلی فقیہہ شافعی نے مناقب میں۔ 37۔ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں۔ 38۔ مولوی علی قوشجی نے شرح تجرید میں۔39۔ سید محمد مومن شبلنجی نے نور الابصار ص77 میں۔ 40۔ محب الدین طبری نے ریاض النفرہ جلد دوم ص227 میں۔ نیز اور آپ کے اکثر ارباب علم و دانش نے سدی ، مجاہد، حسن بصری ، اعمش، عتبہ بن ابی حکیم، غالب بن عبداللہ ، قیس بن ربیعہ ، عبابہ بن ربیعی، عبداللہ ابن عباس ( خیر امت و ترجمان القرآن ) ابو ذر غفاری ، جابر ابن عبداللہ انصاری، عمار، ابو رافع اور عبداللہ بن سلام وغیرہ سے نقل کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ یہ آیت مبارکہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور ہر ایک نے مختلف عبارتوں کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ جس وقت حضرت نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی راہ خدا میں سائل کو دی تو یہ آیت شریفہ نازل ہوئی حالانکہ اس میں بھی جمع کا لفظ استعمال ہوا ہے جو صرف منصب ولایت کی تعظیم و تکریم اور حضرت کی امامت و خلافت کو ثابت کرنے کے لیے ہے کیونکہ کلمہ حصر ( انما) کے ساتھ ارشاد ہوا ہے

۲۷۱

کہ امت کے امور میں خدا و رسول کے بعد اولی بالتصرف وہی شخص ہے جس نے بحالت رکوع خدا کی راہ میں صدقہ اور خیرات دی ہے اور وہ علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔

شیخ : یقینا آپ کو ماننا پڑے گا کہ یہ مطلب اتنا محکم نہیں ہے جتنا آپ نے فرمایا ہے کیونکہ اس آیت کی شان نزول میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں انصار کی شان میں نازل ہوئی، کچھ کہتے ہیں کہ عبادہ بن صامت کی شان میں آئی اور بعض نے عبداللہ بن سلام کے لیے لکھا ہے۔

خیر طلب : آپ جیسے صاحبان علم سے تعجب ہے کہ ( علاوہ تواتر علمائے شیعہ کے) خود اپنے جمہور مفسرین اور اکابر علماء کے خیالات و عقائد کے خلاف جنہوں نے اس آیہ شریفہ کو شان امیرالمومنین(ع) میں نازل ہونے کی تائید و تصدیق کی ہے۔ چند متعصب اور مجہول و ضعیف القول افراد کے اختلافات کا جو شاذ و مردود اور ناقابل قبول ہیں سہارا ڈھونڈھتے ہیں، حالانکہ آپ کے محققین و اکابر فضلاء نے اس معنی پر اتفاق کا دعوی کیا ہے۔ مثلا فاضل تفتازانی اور مولوی قوشجی جو شرح تجرید میں کہتے ہیں۔

" انما نزلت بلاتفاق المفسرين في حق علی ابن ابی طالب عليه السّلام حين أعطى السّائل خاتمه وهوراكع في صلاته "

یعنی بہ اتفاق مفسرین یہ آیت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حق میں نازل ہوئی جب کہ آپ نماز کے اندر رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی سائل کو عطا کی۔

آیا ایک مںصف اور عالم انسان کی عقل اجازت دیتی ہے کہ اہل سنت کے جمہور مفسرین اور اکابر علماء کے اقوال کو نظر انداز کر کے بچے کچے خوارج و نواصب میں سے چند متعصب بلکہ معاند اشخاص کے مہمل و بے معنی اکا دکا اقوال پر بھروسا کرے؟

آیہ ولایت میں شبہات و اشکالات اور ان کے جوابات

شیخ : جناب عالی نے اپنے بیان میں کوشش کی ہے کہ اس آیت کو نقل کرتےہوئے اپنی چابکدستی سے علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت بلافصل اور امامت ثابت کردیں حالانکہ اس آیت میں ولی کا لفظ محب اور دوست دار کے معنی میں ہے نہ کہ امام اور خلیفہ بلافصل کے معنی میں۔ اگر آپ کا یہ مرفانان صحیح ہو کہ ولی سے خلیفہ اور امام مراد ہے العبرۃبعموم اللفظ لا بخصوص السبب کے قاعدے سے یہ صرف ایک ذات پر مشتمل نہ ہوگا بلکہ دوسرے افراد بھی اس میں شامل ہوں گے جن میں سے ایک علی کرم اللہ وجہہ بھی ہیں۔ نیز کلمہ ولیکم اللہ اور کلمہ الذین میں جمع کا صیغہ عموم کے لیے ہے اور جمع کا جمل واحد پر بغیر کسی دلیل کے اور کلام خدا کی تاویل اور بلا تجوز کے جائز نہیں ہے۔

خیر طلب : پہلی چیز تو یہ کہ آپ کو کلمہ ولیکم میں دھوکا ہوا ہے اس لیے کہ " ولی " مفرد" ہے اور کم " جمع ہے جس تعلق امت سے ہے لہذا یہاں واحد پر اطلاق نہیں ہے جس میں آپ اشکال وارد کرسکیں۔ البتہ ولی فرد واحد ہے

۲۷۲

جس کو ہر زمانے میں امت پر ولایت حاصل ہے۔ دوسرے یہ کہ جن کلمات جمع میں بعض متعصبین اور خوارج و نواصب اعتراض و اشکال وارد کرنے کی کوشش کرتےہیں اور کہتے ہیں کہ واحد پر حمل نہیں ہوسکتے ہیں۔

اس اشکال کا جواب بھی اس مطلب کے اندر میں اپنی گفتگو میں دلیل کی حیثیت سے عرض کرچکا ہوں کہ اہل علم و ادب کے یہاں رائج اور ثابت ہے اور ادباء و فضلا کے بیانات میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ تعظیم وتکریم یا دوسرے اسبابکی بنا پر جمع کو واحد پر حمل کیا ہے علاوہ اس کے جیسا کہ آپ دعوی کررہے ہیں عموم لفظ کے لحاظ سے ہم بھی کلمہ حصر انما کے مطابق اس آیہ شریفہ کا نزول حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں سمجھتے ہیں لیکن اس کے مخصوص ہونے کا دعوی نہیں کرتے بلکہ دوسرے افراد معصومین(ع) کو بحِ اس میں شامل سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے معتبر اخبار و احادیث میں مروی ہے کہ عترت طاہرہ(ع) میں سے باقی ائمہ بھی اس آیت میں داخل ہیں، اور ہر امام منزل امامت کے قریب پہنچ کے اس فضیلت اور خصوصیت پر فائز ہوتا ہے ( یہی ہیں وہ افراد جنکے لیے آپ کا دعوی ہے کہ ان کو امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ اس آیت میں شامل ہونا چاہئیے)۔

چنانچہ جار اللہ زمخشری کشا میں کہتے ہیں کہ اگر چہ اس آیہ شریفہ میں حصر ہے۔ اور یہ علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے لیکن جمع کے ساتھ ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے بھی ان حضرت کی پیروی پر راغب ہوں۔

تیسرے یہ کہ آپ نے دعوی کو شبہے میں ڈالنے کے لیے اپنے بیان میں ایک بہت بڑا مغالطہ دیا ہے کہ شیعوں نے اس آیت کو تاویل کر کے علی علیہ السلام سے مخصوص کیا ہے حالانکہ ( سوا گنے چنے معاندین و مبغضین کے ، فریقین ( شیعہ و سنی) کے تمام مفسرین و محدثین کا اتفاق ہے کہ جیسا پہلے عرض کرچکا ہوں۔ اس آیت کی تنزیل ہی امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں ہوئی ہے نہ یہ کہ شیعوں کی تاویل سے یہ منصب ان حضرت کی طرف منسوب کردیا گیا ہو۔

شیخ : اس آیت میں "ولی" قطعا ناصر کے معنی میں ہے کیونکہ اگر اولی بالتصرف کے معنی میں ہوتا جو خلافت و امامت کی منزل ہے تو رسول اللہ(ص) کی زندگی میں بھی اس عہدے پر فائز ہونا چاہئیے تھا حالانکہ یہ بات صریحی طور پر باطل ہے۔

خیر طلب : یہ صرف یہ کہ اس عقیدے کے باطل ہونے پر آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ آیت کا ظاہری قرینہ بھی ان حضرت کے لیے اس مقام و منصب کے دوام کو ثابت کرتا ہے کیونکہ جملہ اسمیہ کی دلالت اور یہ کہ " ولی" صفت مشبہ ہے دونوں اس بلند منزلت کے ثبات و دوام کی دلیل ہیں اور پیغمبر(ص) کا غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ کے اندر حضرت علی(ع) کو اپنا خلیفہ بنانا اور پھر مرتے دم تک معزول نہ کرنا اس مقصد کی تائید کرتا ہے، نیز حدیث منزلت بھی اس مطلب کی موئد ہے کہ رسول اللہ(ص) نے بارہا فرمایا علی منی بمنزلۃ ہارون من موسی( جس کی ہم گذشتہ شبوں میں پوری تشریح کرچکے ہیں) اور رسول اللہ(ص) کے زمانہ حیات میں اور بعد وفات ان حضرت کی ولایت پر بجائے خود یہ بھی ایک دوسری دلیل ہے۔

شیخ : میرا خیال ہے کہ اگر تھوڑا غور کیجئے تو ہمارے لیے یہی کہنا مناسب ہوگا کہ یہ آیت ان جناب کی شان میں نازل نہیں ہوئی کیونکہ علی کرم اللہ وجہہ کی منزل اس سے بلند ہے کہ اس آیت سے ان کے لیے کوئی فضیلت ثابت کی جائے،

۲۷۳

قطع نظر اس سے کہ یہ کوئی فضیلت ثابت کرتی ان جناب کے فضائل پر ضرب بھی لگاتی ہے۔

خیر طلب : اول تو ہم اور آپ بلکہ امت کی کوئی فرد یہاں تک صحابہ کبار بھی اس کا حق نہیں رکھتے کہ آیتوں کی شان نزول میں دخل دیں، کیونکہ آیات کی شان نزول دل کی خواہش پر نہیں ہوتی، بلکہ اگر کچھ اشخاص اپنی مرضی سے معانی اور نزول آیات میں تصرف کریں تو یقینا وہ لوگ بے دین ہوں گے۔ جیسے بکرتنین جنہوں نے مشہور جعلسا ز عکرمہ کے قول پر اس آیت کا نزول ابوبکر کے بارے میں بتایا ہے۔

دوسرے جناب عالی جب بولنے پر آتے ہیں تو واقعا رموز و اسرار کا انکشاف کرتے ہیں اس لیے کہ یہ پہلا موقع ہے جب میں آپ سے ایسی بات سن رہا ہوں، حقیقتا آپ کا دماغ بلند ہے اور خوب نکتہ نکالا ہے۔ بہتر ہے فرمائیے کس پہلو سے یہ آیت حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے مرتبہ ولایت پر ضرب لگاتی ہے۔

شیخ : مولانا علی کرم اللہ وجہہ کے درجات عالیہ میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نماز کے وقت خدا کی طرف ایسی توجہ رکھتے تھے کہ کبھی کسی نے اپنی طرف متوجہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا اور ہمارے نزدیک ثابت ہے کہ ایک لڑائی میں آپ کے جسم پر چند تیر ایسے لگے تھے کہ ان کا نکلنا سخت تکلیف کا باعث تھا لہذا جب آپ نماز پر کھڑے ہوئے تو وہ تیر نکال لئے گئے اور انتہائی خضوع و خشوع اور رحمت الہی میں استغراق کی وجہ سے آپ کو بالکل توجہ اور درد کا احساس نہیں ہوا۔ پس اگر یہ واقعہ صحیح ہو کہ ان جناب نے نماز میں سائل کو انگوٹھی دی تو اس سے آپ کی نماز پر بہت بڑی ضرب لگتی ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ جو شخص بارگاہ خداوندی میں انتہائی حضور قلب کی وجہ سے نماز میں درد و الم کی طرف توجہ نہ کرے جو ہر انسان کی فطرت ہے وہ ایک سائل کی آواز پر اس طرح متوجہ ہوجائے کہ رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی اس کودیدے؟

اس کے علاوہ عمل خیر اور وہ بھی ادائے زکوۃ میں نیت ضروری ہے لہذا حالت نماز میں جب کہ سرتا پا خدا کی طرف متوجہ رہنا چاہئے نیت نماز سے دوسری نیت کی طرف عدول اور مخلوق کی طرف توجہ کیونکر کی جاسکتی ہے؟ چونکہ ہم ان جناب کی منزل بلند سمجھتے ہیں، لہذا اس مفہوم کی تصدیق نہیں کرتے ۔ اگر سائل کو کچھ عطا بھی ہوا تو ہرگز حالت نماز میں نہیں ہوا۔ اس لیے کہ رکوع کا مطلب خشوع و تواضع ہے یعنی آپ نے خشوع و تواضع کے ساتھ انگشتری سائل کو دی نہ کہ حالت نماز میں۔

خیر طلب : عزیز من " آپ نے درد تو اچھا سیکھا لیکن دعا کا راستہ بھول گئے" آپ کا یہ اشکال تو مکڑی کے جالے بھی زیادہ کمزور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ عمل آں حضرت کے مرتبے پر کوئی ضرب نہیں لگاتا بلکہ سائل کی طرف توجہ کرنا اس کو صدقہ دینا اور اس کا دل خوش کرنا تو موجب کمال ہے، اس لیے کہ حضرت علی علیہ السلام ہر وقت اور ہر حال میں خدا اور اس کی رضا کی طرف متوجہ رہتے تھے اور اس عمل میں بھی عبادت جسمانی و روحانی کو عبادت مالی( یعنی راہ خدا میں مال دینا) میں اتفاق کے ساتھ جمع کردیا تھا۔

عزیز گرامی : جس التفات کے لیے آپ نے سنا ہے کہ نماز کے خشوع کو دھچکا پہنچاتا ہے اور عبادت کو کمزور بناتا ہے وہ امور دنیا اور اغراض نفسانی کی طرف ملتفت ہونا ہے، ورنہ عمل خیر کی طرف جو خود عبادت ہے دوسری عبادت کے اندر توجہ

۲۷۴

کرنا موجب کمال ہے مثلا اگر کوئی شخص نماز کے اندر اپنے اعزہ کے لیے گریہ کرے چاہے وہ عزیز ترین مخلوق یعنی خاندان محمد و آل محمد سلام اللہ علیہم اجمعین ہی کے لیے ہو تو اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے لیکن اگر کوئی حالت نماز میں اشتیاق حق یا خوف خداوندی سے روئے تو انتہائی فضیلت کا باعث ہے۔

دوسرے جو آپ نے فرمایا کہ رکوع خشوع و تواضع کے معنی میں ہے تو یہ کسی مقررہ موقع پر صحیح ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر رکوع نماز کے حکم کو جو ایک معین اور واجب فعل ہے آپ لغوی حیثیت سے خشوع پر عمل کرنا چاہیں تو صاحبان عقل و علم اور اہل دین آپ کا مضحکہ اڑائیں گے۔

اس آیہ شریفہ میں بھی آپ نے ظاہر کے خلاف نظر دوڑائی ہے اور لفظ کو قطعا اپنے حقیقی اور عرفی معنی سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے، اس لیے کہ آپ خود جانتے ہیں کہ اصطلاح شرعی میں رکوع کا اطلاق ارکان میں سے ایک رکن پر ہوتا ہے جس کا مطلب اس حد تک خم ہونا ہے کہ ہاتھ کی ہتھیلیاں زانو تک پہنچ جائیں۔ اور اس معنی کی تصدیق خود آپ کے اکابر علما نے بھی کی ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ، چنانچہ فاضل قوشجی شرح تجرید میں جمہور مفسرین کے اقوال کی توضیح کرتے ہیں کہ آپ ہی نماز کے اندر رکوع کر رہے تھے یعنی ان حضرت نے رکوع نماز کی حالت میں انگشتری عطا کی۔

اور ان تمام باتوں سے قطع نظر یہ فرمائیے کہ کلمہ حصر کے ساتھ یہ آیت شریفہ مدح میں نازل ہوئی یا مذمت میں؟

شیخ : ظاہر ہے کہ مدح کے موقع پر آئی ہے۔

خیر طلب : پس جب کہ فریقین ( شیعہ وسنی) کے جملہ اکابر علماء و مفسرین اور محققین و محدثین نے یہ طے کر دیا کہ آیت علی علیہ السلام کی شان نازل ہوئی اور من جانب پروردگار مدح وتمجید کی حامل ہے تو اب آپ جیسے حضرات کے اس قسم کے اختلافات و ایرادات کی کیا گنجائش رہ گئی جن کا سہارا لے کر اہل عناد تعصب اور خوارج و نواصب آپ کے ایسے صاف دل اشخاص کے دماغوں میں بچپنے ہی سے یہ باتیں راسخ کردیں اور آپ بغیر سوچے سمجھے ایسے با قاعدہ جلسے میں انتہائی شان کے ساتھ یہ فرمادیں کہ ہم اس واقعے کی تصدیق نہیں کرتے۔

شیخ : حضرت معاف کیجئے گا جناب عالی چونکہ خطیب و ذاکر اور تقریر میں مشاق ہیں۔ لہذا کبھی کبھی اپنے ارشادات کے تحت میں اس کے کنایے استعمال کر جاتے ہیں جو ناواقف لوگوں میں ایسے خیالات پیداکر سکتے ہیں جن کے نتائج اچھے نہ ہوں لہذا بہتر ہے کہ اپنے بیانات میں ان باتوں کا لحاظ رکھئیے۔

خیر طلب : میرے بیانات میں حقائق کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا ۔ خدا شاہد ہے کہ میں نے کسی کنایے کا قصد نہیں کیا اور نہ اس کی کوئی ضرورت ہی تھی اس لیے کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں صاف صاف کہتا ہوں نہ کہ کنایہ ممکن ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی یا عیب جوئی کے جذبے میں ایسا خیال پیدا ہوا ہو لہذا فرمائیے کہ وہ کنایہ کون سا ہے؟

شیخ : ابھی ابھی گفتگو کے دوران میں صفات مندرجہ آیت محمد رسول اللہ کو بیان کرتے ہوئے آپ

۲۷۵

نے فرمایا کہ یہ صفتیں علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے مخصوص ہیں جن کے ایمان میں اول سے آخر تک شک اور ارتداد پیدا نہیں ہوا۔ یہ جملہ اس بات کا کھلا ہوا کنایہ ہے کہ آپ دوسروں کے شک اور ارتداد کے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کیا خلفائے راشدین یا دوسرے صحابہ اپنے ایمان میں شک و ارتداد رکھتے تھے؟ قطعا سارے اصحاب کلہم اجمعین علی کرم اللہ وجہہ کے مانند ایمان لانے کے اول وقت سے آخر تک تک بغیر شک و ارتداد کے اپنے عقیدے میں ثابت قدم رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے انحراف اور جدائی اختیار نہیں کی۔

خیرطلب : اول تو میں نے اس عبارت کے ساتھ جو آپ نے فرمائی کچھ کہا ہی نہیں ہے، دوسرے آپ خود جانتے ہیں کہ کسی شے کا اثبات اس کے ماسوا کی نفی نہیں کرتا، تیسرے اگرچہ آپ نکتہ چینی کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن دوسروں نےغالبا ایسا نہ کیا ہوگا۔ آپ نے یقینا اپنے اس بیان میں ( معاف فرمائیے گا) مغالطہ دینے کی سعی کی ہے، خدا گواہ ہے کہ نہ میں نے کنایے سے کام لیا اور نہ ایسا خیال رکھا جیسا آپ کا ہے، فرض کیجئے کہ کوئی خیال آپ کے ذہن میں آیا بھی تھا ( اگر مغالطہ بازی اور شبہ سازی کا مقصد نہ رہا ہو) تو بہتر تھا کہ اس جملے کو آہستہ مجھ سے دریافت کر لیے تاکہ میں اثبات یا نفی میں جواب عرض کردیتا۔

شیخ : آپ کے انداز گفتگو سے پتہ چل رہا ہے کہ کوئی بات ہے، البتہ جواب سے خاموشی خود اس قسم کے خیالات پیدا کرتی ہے التماس ہے کہ جو کچھ آپ کی نظر میں ہو صحح سند کے ساتھ بیان فرمائیے۔

خیر طلب : خیالات پیدا کرنے کے باعث تو آپ ہی ہوئے کہ یہ سوال قائم کیا، میں پھر عرض کرتا ہوں کہ بہتر ہے اس مسئلے کو نظر انداز ہی کر دیجئے اور اصرار نہ فرمائیے۔

خیر طلب : میں اپنی طرف سے کبھی سوء ادب نہیں کرتا لیکن آپ کا اصرار نیز آپ نے دوسری عبارت میں مجھ کو جو دھمکی دی ہے وہ اس کا باعث ہوئی کہ حقائق کا انکشاف ہو، روز اول ہی سے اس طرح کے حقائق کا اظہار خود آپ کے علماء کی طرف سے ہوا کیا ہے جنہوں نے حقیقتوں کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، چنانچہ اس موضوع میں بھی سب کا اتفاق ہے کہ اکثر صحابہ جن کا ایمان ابھی کامل نہیں ہوا تھا۔ کبھی کبھی شک اور ارتداد میں گرفتار ہوا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض اسی شک و ارتداد کی حالت پر باقی رہتے تھے اور ان کی مذمت میں آیتیں نازل ہوتی تھیں، مثلا منافقین جن کی مذمت میں پورا ایک سورہ قرآن مجید کے اندر موجود ہے۔

لیکن اخلاقا مناسب نہیں ہے کہ اس قسم کے سوالات علانیہ ہوں، تاکہ سادہ لوح اشخاص جاہلانہ محبت و عداوت

۲۷۶

کے ماتحت خوردہ گیری نہ کریں، میں پھر درخواست کرتا ہوں کہ اس موضوع سے چشم پوشی کیجئے یا اجازت دیجئے کہ اس کا جواب کسی مناسب موقع پر خود ہی آہستہ عرض کردوں۔

شیخ : یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم شک کرنے والوں میں سے تھے؟

خیر طلب : آپ واقعی غلط فہمی پھیلا رہے ہیں اور جذبات کو بھڑکار ہے ہیں، اب جب آپ کا اصرار ہی ہے تو میں بھی آپ کو بغیر جواب دیئے نہیں چھوڑوں گا۔ البتہ اگر نا فہم عوام کے اندر اس کا کوئی رد عمل ہوتو اس کی ذمہ داری آپ کے سر ہوگی۔ آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ تم کہتے ہو تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے یا جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں کیونکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے اس کو نقل کیا ہے اور تاریخ میں درج کیا ہے۔

شیخ : کس موقع پر لکھا ہے؟ کہاں پر ان کو شک ہوا ہے؟ اور کن اشخاص نے شک کیا ہے؟ مہربانی کر کے بیان فرمائیے۔

خیر طلب: جہاں تک کتب اخبار و تواریخ اور سیر سے پتہ چلتا ہے کچھ اشخاص ایک مرتبہ نہیں بلکہ باربار شک کرتے تھے اور حقیقت کھلنے کے بعد پلٹ آتے تھے، لیکن بعض اسی شک پر قائم رہتے تھے اور غضب الہی کے مستحق قرار پاتے تھے۔

حدیبیہ میں عمر(رض) کا نبوت پیغمبر(ص) میں شک کرنا

چنانچہ مشہور معروف فقیہ شافعی ابن مغازل نے مناقب میں اور حافظ ابو عبداللہ محمد بن ابی نصر حمیدی نے جمع بین الصحیحن بخاری و مسلم میں لکھا ہے " قال عمر ابن الخطاب رضی الله عنه ماشککت فی نبوة محمد قط کشکی يوم الحديبية " یعنی عمر ابن خطاب نے کہا کہ میں نے محمد(ص) کی نبوت میں کبھی ایسا شک نہیں کیا تھا، جیسا شک حدیبیہ کے روز کیا۔)

خلیفہ کا انداز کلام بتاتا ہے کہ آنحضرت(ص) کو نبوت میں شک تو کئی مرتبہ کر چکے تھے لیکن حدیبیہ میں سب سے بڑا شک ہوا۔

نواب : معاف فرمائیے گا قبلہ صاحب حدیبیہ میں کیا ہوا تھا جس کو وجہ سے امر نبوت میں شک پیدا ہوا؟

خیر طلب : اس واقعے کو تفصیل تو بہت ہے لیکن میں وقت کے لحاظ سے اس کا خلاصہ پیش کئے دیتا ہوں۔

واقعہ حدیبیہ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک شب خواب میں دیکھا کہ اصحاب کے ہمراہ مکہ تشریف لے گئے اور

۲۷۷

عمرہ بجالائے۔ صبح کو اصحاب کے سامنے بیان فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ آپ خود ہمارے خوابوں کی تعبیریں دیتے ہیں لہذا اس خواب کی تعبیر بھی ارشاد فرمائیے، آں حضرت(ص) نے فرمایا انشاء اللہ ہم مکے جائیں گے اور یہ عمل بجالائیں گے ( لیکن اس کی کامیابی کا وقت نہیں معین فرمایا۔)

پیغمبر(ص) زیارت بیت اللہ کے اشتیاق میں اصحاب کے ہمراہ اسی سال مکہ معظمہ ک طرف روانہ ہوئے، کفار قریش کو معلوم ہوا تو حدیبیہ پر ( یہ مکہ معظمہ کے نزدیک ایک کنواں ہے جس کا نصف حرم کے اندر اور نصف حرم سے خارج ہے) اپنے سازو سامان کےساتھ آپہنچے اور مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے روکا۔ چونکہ پیغمبر(ص) جنگ کے قصد سے تشریف نہیں لائے تھے بلکہ آپ کا مقصدصرف زیارت تھا لہذا کفار مکہ سے صلح فرما لی اور صلح نامہ لکھ کر اسی مقام سے واپس ہوگئے

یہی وہ موقع تھا جب عمر کو خود انہیں کے قول کے مطابق شک پیدا ہوا، چنانچہ آپ کےبڑے بڑے علماء نے لکھا ہے کہ آن حضرت(ص) کی اصل نبوت ہی میں شک کیا اور خدمت رسول (ص) آکر عرض کیا یا رسول اللہ(ص) کیا آپ پیغمبر(ص) اور سچے انسان نہیں ہیں؟ کیا آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم مکے جائیں گے، عمل عمرہ بجالائیں گے اور اسی جگہ حلق راس اور تقصیر کرینگے ؟ اب کیوں اس کے برخلاف ہوا؟

آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ کیا میں نے وقت مقرر کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ اسی سال جائیں گے؟ عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ حضرت نے فرمایا پس جو کچھ میں کہہ چکا ہوں صحیح ہے، ہم انشاء اللہ جائیں گے اور خواب کی تعبیر ہوگی۔ البتہ خواب کی تعبیر میں مشیت خداوندی سے دیر یا جلدی ہوا کرتی ہے، پھر تصدیق رسول کے لیے جبرئیل نازل ہوئے اور سورہ نمبر48 ( فتح ) کی آیت نمبر27 لائے کہ :

"لَقَدْصَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيابِالْحَقِّ- لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَالْحَرامَ إِنْشاءَاللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لاتَخافُونَ- فَعَلِمَ مالَمْ تَعْلَمُوا- فَجَعَلَ مِن ْدُونِ ذلِكَ فَتْحاًقَرِيباً"

یعنی یقینا خدائے تعالی نے اپنے رسول(ص) کے خواب کی صداقت ثابت کر دی کہ تم لوگ ضرور بالضرور امن و اطمینان کے ساتھ انشاء اللہ بلا خوف مسجد الحرام میں داخل ہوگے اعمال حج کے بعد سر تراشی اور تقصیر کرو گے اور خدا ہر وہ بات جانتا ہے جو تم کو نہیں معلوم ہے، پس اس کے بعد عنقریب تم کو فتح عنایت کرے گا۔ ( جس سے فتح خیبر مراد ہے)

یہ تھا قضیہ حدیبیہ کا خلاصہ جو ثابت قدم مومنین اور متزلزل اشخاص کے لیے ایک امتحان تھا۔

جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو مولوی صاحبان نے گھڑیوں پر نظر ڈالی اور قہقہ لگا کر کہا کہ مطلب اتناء دلچسپ اور شیرین ہے کہ ہم بالکل بے خود ہوجاتے ہیں، واقعی ہماری وجہ سے اہل جلسہ کو کافی زحمت ہوئی۔ کل کی شب آپ حضرات کا بہت وقت صرف ہوا، اور آج بھی آدھی رات سے کہیں زیادہ گزر چکی ہے، اخلاقا یہ بات اچھی نہیں ہے لہذا بہتر ہے کہ جلسہ برخاست کیا جائے ۔ اسی دوران میں چائے اور شیرینی وغیرہ آگئی اور ہم لوگ مزاح و تفریح میں مصروف ہوگئے تاکہ مولوی صاحبان کی افسردگی دور ہوجائے۔

۲۷۸

خلاف امید باتیں

حافظ : قبلہ صاحب ہم لوگ آپ کی ملاقات اور خصوصا آپ کے اخلاق سےبہت خوش ہوئے، ہمارے خواہش تھی کہ آپ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں۔ کیون کہ آپ کے اندر اس قدر جذب و کشش ہے کہ جس شخص کو آپ کی ہم نشینی و ہم کلامی حاصل ہو وہ ہمہ تن محو اور ساکت ہوجاتا ہے اور کوئی بات کہنا بھی چاہتا ہے تو وہ اس کے دل ہی میں رہجاتیہے، چنانچہ میرے دماغ میں بھی بہت سی باتیں تھیں اور ہیں جو کہنے سے رہ گئیں، لیکن کیا کیا جائے کہ اب وطن کی واپسی لازمی ہے اس لیے کہ وہاں بھی ہم کو بہت سے اہم ذاتی اور قومی کام در پیش ہیں جن کا حرج ہو رہا ہے، لہذا امید ہے کہ جناب عالی مہربانی فرما کر ہمارے گھر پر تشریف لائیں گے تاکہ آپ کی صحبت سے ہم پورا فائدہ اٹھا سکیں۔

نواب : ( حافظ صاحب سے ) ہم لوگ آپ کو جانے نہیں دیں گے کیونکہ اب معاملہ بہت نازک منزلوں سے گزر رہا ہے اور بات میں یکسوئی پیدا ہونا ضروری ہے اس لیے کہ آپ حضرات ہمیشہ ہم وگوں سے کہا کرتے تھے کہ رافضی صاحبان ( شیعہ فرقہ) کے پاس قطعا کوئی دلیل و برہان نہیں ہے اور وہ تنہائی میں خوب باتیں بناتے ہیں، اگر ہمارے سامنے آجائیں تو بہت جلد لا جواب ہوجائیں گے۔ لیکن اس دعوے کے برعکس ان جلسوں میں ہم آپ ہی کو بالکل لا جواب اور زبوں حال پارہے ہیں لہذا ضرورت اس کی ہے کہ پختہ طور سے حقیقت معلمو ہو جائے تاکہ ہم حاضرین جلسہ اور با فہم سامعین جس طریقے کو حق پائیں اس کی پیروی کریں۔

حافظ : ( نواب سے ) یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ ہم کو لا جواب اور مغلوب سمجھ رہے ہیں، بلکہ فاضل مقرر کی اخلاقی کشش ، زبان آوری اور حسن بیان نے ہم کو خاموش کر دیا ہے کیونکہ ہم ادب کا لحاظ کرتے ہوئے عزیز مہمان کو تکلیف نہیں دینا چاہتے۔ ورنہ ابھی تو ہ نے بنیادی گفتگو شروع ہی نہیں کی ہے۔ اور اگر ہم پوری طرح بحث کرنے پر آجائیں گے تو مدلل بیانات کے ذریعے آپ دیکھیں گے کہ حق ہمارے ہی ساتھ ہے اور ہمارے ہی دلائل سے حقیقت ثابت ہوتی ہے۔

نواب : ( حافظ صاحب سے) ہم نے آج کی شب تک جو کچھ آقائی قبلہ سلطان الواعظین صاحب سے سنا ہے سب کا سب مطابق عقل اور دلیل و برہان کے ساتھ اور آپ کو اس منطق اور دلیل کے مقابلے میں بے بس پایا۔ پھر بھی اگر آپ فرماتے ہیں کہ کچھ دلائل ہیں تو قطعا آپ کو ٹھہرنا چاہیے اور وہ دلیلیں قائم کرنا چاہئیے۔ میں آپ سے صاف صاف کہہ دیتا ہوں اور خطرے سے آگاہ کئے دیتا ہوں کہ انراتوذں کی گفتگو اور رسائل و اخبارات میں اس کی اشاعت سے اکثر لوگوں کے عقیدے پلٹ گئے ہیں۔ اور اگر کما حقہ حق کا اظہار نہ کیجئے گا تو قطعا آپ کی بانی شریعت کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔

( اس وقت جلسے پر ایک حیرت انگیز سکوت طاری ہوگیا۔ پھر تھوڑی خاموشی کے بعد)

۲۷۹

حافظ : ( اترے ہوئے چہرے کے ساتھ نواب سے) آپ ان مہمان عزیز مولانا صاحب ہی کا کچھ خیال کیجئے کہ وہ جیسا خود فرما چکے ہیں، مشہد مقدس کو جارہے ہیں، ان کا وقت بھی عزیز ہے گویا وہ روانگی پر بالکل تیار تھے محض ہماری خاطر سے ٹھہر گئے ہیں لہذا یہ ادب و اخلاق کے خلاف ہے کہ ہم ان کو اور زیادہ زحمت دیں۔

خیر طلب: میں آپ کی عنایت کا بہت ممنون ہوں، میری روانگی کے متعلق جو آپ نے فرمایا درست ہے لیکن اس وقت چاہے جتنا اہم کام در پیش ہو دینی خدمات کے مقابلے میں میں اس کو ہیچ سمجھتا ہوں، میری طرف سے کوئی عذر نہیں ہے۔ اگر آپ حضرات پورے سال بھر بھی تشریف رکھیں تو میں حاضر رہوں گا اس لیے کہ ہمارا فرض یہی ہے ہے کہ جب حق بے نقاب نہ ہو جائے برابر اپنی ذمہ داری پوری کرتے رہیں۔ اس فریضے کے علاوہ مجھ کو اہل علم کی صحبت سے بھی خوشی ہوتی ہے کیونکہ اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ خصوصا جناب عالی نے تو اپنے اخلاق سے مجھ کو گردیدہ بنالیا ہے۔ فقط میں محترم میزبان جناب مرزا یعقوب علی خان سے ضرور کافی شرمندہ ہوں کہ ہماری وجہ سے ان کو زحمت اٹھانا پڑی۔

( برادران محترم مرزا یعقوب علی خان، ذوالفقار علی خان اور عدالت علی خان نے جو سر برآوردہ قزلباش حضرات میں سے ہیں ایک ساتھ بے چین ہو کر آواز بلند کی کہ ہم کو آپ سے ایسی باتون کی امید نہیں تھی، ہم مکان کے مالک نہیں ہیں بلکہ آپ کے خدمت گزار ہیں اگر جناب عالی زندگی بھر اس مکان میں قیام فرمائیں تو ہم کوئی زحمت نہ ہوگی بلکہ آپ کا وجود ہمارے لیے باعث فخر ہوگا۔

( پشاور کے مژفاء میں سے جناب آقا سید محمد شاہ اور علمائے شیعہ میں سے جناب مولوی سید عدیل اختر صاحب نے فرمایا کہ اگر ممکن ہو تو چند شب اس دینی بزم سے ہمارے گھر کو سرفراز فرمائیے۔)

( آقا مرزا یعقوب علی خان نے فرمایا یہ ناممکن ہے، جب تک قبلہ سلطان الواعظین پشاور میں ہیں اور یہ جلسے قائم ہیں اسی جگہ رہنا چاہئیے۔)

خیر طلب : میں تمام حضرات کا عموما اور محترم میزبانوں کا خصوصا انتہائی شکر گزار اور ممنون ہوں۔

حافظ : تھوڑے سکوت کے بعد، کوئی حرج نہیں ہے، جب آپ حضرات کی یہی خواہش ہے تو ہم چند روز اور ٹھہر جائیں گے۔ لیکن جیسا کہ قبلہ صاحب نے فرمایا ہر شب یہاں مجمع کا اکٹھا ہونا باعث رحمت ہے، بہتر ہوگا کہ اب ہماری قیام گاہ کو مباحثات کا مرکز قرار دیجئے تاکہ پوری ہم آہنگی حاصل ہوجائے۔

خیر طلب : مجھ کو کوئی اصرار نہیں ہے کہ آپ حضرات ضرور ہی یہاں تشریف لائیں۔ چونکہ اس مکان میں کافی وسیع عمارت اور باغ موجود ہے جو اس مجمع کے لحاظ سے بہت مناسب ہے۔ ۔لہذا آپ ہی حضرات نے اس کو منتخب کیا تھا،ورنہ میری طرف سے کوئی عذر نہیں ہے۔ آپ جس جگہ کے لیے حکم دیں میں خوشی سے حاضری دوں گا۔

میرزا یعقوب علی خان : اس مکان اور جماعت قزلباش کی طرف سے کوئی مانع نہیں ہے۔ اگرچہ جناب حافظ صاحب تازہ وارد میں اور ہمارے حال سے واقفیت نہیں رکھتے، لیکن یہاں کے تمام باشندے جانتے ہیں کہ قزلباش لوگ بالعموم

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369