پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 317306 / ڈاؤنلوڈ: 9837
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

کیجئے گا تو اس سے جو کچھ آپ اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں اس سے زیادہ خود آپ کو اس کے نتائج اور خمیازہ بھگتنا پڑے گا اس کے بعد مشورہ کیا کہ یہ خط کون لے جائے۔ بالاخرہ طے پایا کہ عمار کا لے جانا مناسب ہوگا اس لیے کہ ان کے فضل و تقوی اور عظمت کے خود عثمان بھی قائل ہیں اور ان کو بارہا یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہے کہ ایمان عمار کے خون اور گوشت میں پیوست ہے۔ نیز آن حضرت(ص) سے یہ بھی نقل کرتے تھے کہ فرمایا، بہشت تین اشخاص کی مشتاق ہے، علی ابن ابی طالب(ع) سلمان اور عمار یاسر۔ لہذا اصحاب کی درخواست پر جناب عمار وہ کاغذ لے کر عثمان کے گھر گئے عثمان گھر سے نکل رہے تھے ، دروازے پر عمار کو دیکھا تو پوچھا یا ابا یقظان ( کنیت عمار) کیا کام ہے؟ کہا میرا کوئی ذاتی کام نہیں ہے بلکہ اصحاب رسول(ص) کی ایک جماعت نے اس خط میں آپ کی نیکی اور خیر خواہی کی کچھ باتیں درج کی ہیں اور میرے ذریعے سے بھیجا ہے لہذا اس کو پڑھ کر جواب دے دیجئے۔ انہوں نے خط لیا اور جو نہی چند سطریں پڑھیں بپھر گئے اور لال پیلے ہو کر خط کو زمین پر ٹپک دیا جناب عمار نے فرمایا آپ نے اچھا نہیں کیا، اصحاب رسول(ص) کے خط کا احترام کرنا چاہیے تھا اسی کو زمین پر کیوں ٹپک دیا دیا چاہئیے تو یہ تھا کہ اس کو با قاعدہ پڑھتے اور جواب دیتے انہوں نے انتہائی غصے کے ساتھ کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو اس کے بعد اپنے غلاموں کو حکم دیا جنہوں نے جناب عمار کو سختی سے مارا پیٹا ۔ ان کو زمین پر گرا کر مارتے رہے یہاں تک کہ خود عثمان نے بھی ان کے پیٹ پر گئی لاتیں ماریں جن کی چوٹوں سے یہ بزرگوار مرض فتق میں مبتلا ہوگئے اور بے ہوش ہوگئے، ان کے عزہ آکر ان کو ام المومنین ام سلمہ کے گھر اٹھا لے گئے جہاں یہ ظہر کے وقت سے لے کر آدھی رات تک بے ہوش پڑے رہے یہاں تک کہ چار نمازوں کا وقت گزر گیا۔ جب ہوش میں آئے تو ان کی قضا پڑھی۔

آپ کی معتبر کتابوں میں ان قضیوں کی پوری تفصیل موجود ہے۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور مسعودی مروج الذہب جلد اول ص۴۲۷ میں مطاعن عثمان کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ قبیلہ بذیل اور بنی مخزوم کا عثمان سے برگشتہ ہوجانا عبداللہ ابن مسعود اور عمار یاسر کے ساتھ ان کے سخت برتائو اور مار پیٹ کی وجہ سے تھا۔

اب فیصلہ آپ حضرات کے انصاف پر چھوڑتا ہوں تاکہ ان کی رقت قلب اور رحمدلی کی جانچ کرسکیں۔

ابوذر کی ایذا اور جلا وطنی اور صحرائے ربذہ میں ان کی وفات

چوتھے رسول اللہ(ص) کے خاص اور محبوب صحابی جندب بن جنادہ ابوذر عفاری کے ساتھ جو صحابہ میں اسلام کے دوسرے بڑے عالم تھے ان کا طرز عمل ہر آزاد منش انسان کو متاثر کرتا ہے۔

فریقین کے تمام ارباب حدیث اور بڑے بڑے مورخین کو اعتراف ہے کہ نوے سال کے مرد بزرگ کس قدر ذلت و اذیت کے ساتھ شام کو اور وہاں سے مدینے اور مدینے سے اپنی لڑکی کے ہمراہ بے کجادہ اونٹ پر ربذہ کے

۲۶۱

بے آب و گیاہ صحرا کی طرف جلا وطن کئے گئے یہاں تک ہاسی بیابان یں ابوذر کی وفات ہوئی اور ان کی یتیم بچی اس خوفناک وادی میں بے سرپرست اور تنہا رہ گئی، آپ کے بڑے بڑے علماء و مورخین جیسے ابن سعد نے طبقات جلد چہارم ص۱۶۸ میں بخاری نے اپنی صحیح کتاب زکوۃ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۲۴۰ نیز جلد دوم ص۳۷۵ تا ص۳۸۷ میں، یعقوبی نے اپنی تاریخ جلد دوم ص۱۴۸ میں، چوتھی صدی کے مشہور ومعروف محدث ومورخ ابو الحسن علی ابن الحسین مسعودی متوفی سنہ۳۴۶ھ نے مروج الذہب جلد اول ص۴۳۸ میں اور دوسروں نے بھی جن کے مفصل تذکرے کا وقت نہیں ہے اس مرد بزرگ، مومن پاک نفس اور محبوب رسول(ص) کے ساتھ عثمان اور معاویہ و مروان وغیرہ جیسے اموی عمال کے سخت برتائو نیز ابوذر کی مشایعت کرنے کے جرم میں امیرالمومنین علیہ السلام کی اہانتیں اور اسی جرم میں حافظ و کاتب وحی عبداللہ ابن مسعود کو چالیس کوڑے مارنے کا حال درج کیا ہے۔

حافظ : اگر ابوذر کو کوئی تکلیف پہنچی تو نا اہل عالموں کے طرز عمل سے پہنچی ورنہ خلیفہ عثمان تو بہت ہی رحم دل اور رقیق القلب تھے اور ایسی حرکتوں سے قطعا نا واقف تھے۔

خیر طلب : مثل مشہور ہے کہ " ماں سے زیادہ دائی مہربان" جناب عالی خلیفہ عثمان کی طرف سے جو صفائی پیش کر رہے ہیں وہ حقیقت اور واقعے کے بالکل خلاف ہے۔ اگر آپ اپنی معتبر تاریخی کتابوں کی طرف رجوع کیجئے تو ماننا پڑیگا کہ جتین تکلیفیں اور اذیتیں جناب ابوذر کو پہنچیں وہ خود خلیفہ کے صریح حلم سے پہنچیں۔

اس بات پر آپ کے اکابر علماء کی معتبر کتابیں گواہ ہیں، میری درخواست ہے کہ نمونے کے لیے نہایہ ابن اثیر جلد اول تاریخ یعقوبی اور بالخصوص شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ( مطبوعہ مصر) جلد اول ص۲۴۱ کو ملاحظہ فرمائیے جن میں معاویہ کے نام خلیفہ کے خط درج کیا گیا ہے کہ جب معاویہ نے شام سے ابوذر کی بدگوئی کی تو خلیفہ عثمان نے ان کو لکھا کہ ان کو سختی کے ساتھ مدینے روانہ کرو۔ اصلی خط یہ ہے۔

"فكتب عثمان إلى معاوية: أمّابعدفاحمل جندباعلى أغلظ مركب وأوعره. فوجّه به مع من ساربه الليل والنهاروحمله على شارف ليس عليهاإلّاقتب حتّى قدم به المدينةوقدسقط لحم فخذيه من الجهد."

یعنی عثمان نے معاویہ کو لکھا کہ جندب ( ابوذر کا نام) کو ایک بوڑھے اور بے کجادہ اونٹ پر بٹھا کر ایک بد مزاج انسان کے ہمراہ جو رات دن اس کو دوڑاتا ہوا میرے پاس لائے روانہ کرو ( چنانچہ انکے حکم کے مطابق اس عابد و زاہد اور محبوب خدا و رسول(ص) صحابی کو اسی طریقے سے لایا گیا) جس وقت یہ مدینے پہنچے ہیں تو ان کی رانوں کا گوشت کٹ کٹ کر گر گیا تھا۔

خدا کے لیے انصاف کیجئے کیا عطوفت و مہربانی اور رحم و رقت قلب کے یہی معنی ہیں؟

۲۶۲

ابوذر محبوب خدا اور رسول(ص) اور امت کےسب سے سچے انسان تھے

کیا ابوذر کے بارے میں خدائے تعالی اور پیغمبر اسلام کی طرف سے کافی ہدایتیں صادر نہیں ہوئی ہیں اور ان مفصل روایات کو آپ کے بڑے علماء نے اپنی مبسوط کتابوں میں درج نہیں کیا ہے۔

چنانچہ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء جلد اول ص۱۷۲ میں، ابن ماجہ قزوینی نے سنن جلد اول ص۶۶ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب ۵۹ میں صواعق محرقہ ابن حجر مکی سے ان چالیس حدیثوں میں سے پانچواں حدیث جو انہوں نے فضائل امیرالمومنین(ع) میں ترمذی و حاکم سے نقل کی ہیں۔ شرط صحت کے ساتھ بریدہ سے، اور انہوں نے اپنے باپ سے، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد سیم ص۴۵۵ میں، ترمذی نے صحیح جلد دوم ص۲۱۳ میں، ابن عبدالبر نے اسیتعاب جلد دوم ص۵۵۷ میں، حاکم نے مستدرک جلد سیم ص۱۳۰ میں اور سیوطی نے جامع الصغیر میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ۔

"إِنَ اللَّهَ أَمَرَنِي بِحُبِّ أَرْبَعَةِوَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُحِبُّهُمَْقِيلَ: يَارَسُولَاللَّهِ سمهم لنا َقَالَ: عَلِيٌّ منهم يقول ذالک ثلاثاء أَبُوذَرٍّوَالْمِقْدَادُ سَلْمَانُ ."

یعنی خدانے مجھ کو چار شخصوں کی محبت کا حکم دیا ہے اور خبر دی ہے کہ وہ بھی ان کو دوست رکھتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ(ص) ہمارے لیے ان کے نام بیان فرمائیے تو فرمایا ان میں سے علی(ع) ہیں، اور ابوذر و مقداد و سلمان۔

پس معلوم ہوا کہ یہ چاروں حضرات خدا و رسول اللہ(ص) کے محبوب ہیں۔ آیا آپ حضرات کا انصاف اس کی اجازت دیتا ہے کہ خدا و رسول(ص) کے محبوب سے ایسا غیر منصفانہ برتائو کیا جائے اور اس کا نام رحمدلی اور رقت قلب رکھا جائے؟ ابوبکر و عمر کو یہ الزام کیوں نہیں دیا گیا؟ چونکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا لہذا نہ تاریخ میں آیا نہ ہم نے کہا۔

حافظ : جیسا کہ مورخین ن لکھا ہے ابوذر ایک ہنگامہ پسند انسان تھے شام کے اندر علی کرم اللہ وجہہ کے نام پر سخت پروپیگنڈا کررہے تھے اور شامیوں کو علی(ع) کی طرف ترغیب دے رہے تھے، کہتے تھے کہ میں نے پیغمبر(ص) سے سنا ہے کہ فرمایا : علی(ع ) میرے خلیفہ ہیں۔ چونکہ یہ دوسروں کو غاصب اور علی(ع) کو خلیفہ منصوص ظاہر کرتے تھے لہذا خلیفہ عثمان رضی اللہ مجبور تھے کہ اتحاد کی حفاظت اور فساد کی روک تھام کے لیے ان کو شام سے بلا لیں۔

جس وقت کوئی شخص لوگوں کو اجتماعی مصلحت کے خلاف اکسائے تو خلیفہ وقت پر واجب ہے کہ اس کو محل انقلاب سے نکال دے۔

خیر طلب : اول یہ کہ اگر کوئی شخص حق بات کہے تو کیا یہی چاہیئے کہ اس کو جلا وطن اور مبتلائے مصیبت بنا دیا جائے کہ تم کیوں اپنے سچے معلومات کو ظاہر کرتے ہو؟ فرض کیجئے کہ ایک معمولی مسلمان ہو تو کیا بلا تحقیق اور بغیر چغلی کھانے والے کی بات کا جھوٹ سچ پرکھے ہوئے اس کو شہر بدر یا دار الخلافت کو روانہ کرنے کا حکم دے دیا جائے؟ آیا اسلام کا

۲۶۳

مقدس قانون یہی حکم دیتا ہے کہ ایک نحیف اور ضعیف انسان کو بوڑھے اور بے کجادہ اونٹ پر سوار کر کے ایک تند غلام کے شکنجے میں دے کہ بھیجنے کی تاکید کی جائے جو رات دن نہ سونے دے نہ ٹھہرنے دے اور جب منزل پر پہنچے تو اس کے پائوں کا گوشت اڑچکا ہو؟ کیا یہی ہیں رقت القلب اور رحم و مروت کے معنی؟

اس کے علاوہ خلیفہ کے پیش نطر اتحاد کی حفاظت اور فساد کی روک تھام ہی تھی تو فسادی امویوں کو جیسے رسول خدا(ص) کے طرید و راندہ درگاہ مروان اور علی الاعلان فسق و فجور کرنے والے بے دین ولید کو جو نشے کی حالت میں نماز پڑھتا تھا اور مسجد کی محراب میں قے کرتا تھا نیز اسی طرح کے اور لوگوں کو کیوں نہیں اپنے پاس سے نکال باہر کیا تاکہ ان کے طور طریقے جماعت کے اندر فساد اور خلیفہ کے قتل کا باعث نہ بنیں؟

حافظ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ ابوذر سچ کہتے تھے اور صحیح معلومات کا اظہار کرتے تھے اور رسول خدا(ص) کے نام سے حدیث نہیں گھڑتے تھے؟

اںصاف سے فیصلہ کرنا چاہیئے تاکہ جہالت کے پردے چاک ہوں

یہاں سے معلوم ہوا کہ خاتم الانبیاء(ص) نے خود ان کی صداقت اور سچائی کی تصدیق فرمائی ہے، چنانچہ معتبر روایات میں وارد ہے اور آپ کے اکابر علماء نے درج کیا ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا میری امت کے اندر ابوذر صداقت و راستی اور زہد و تقوی میں ایسے ہیں جیسے بنی اسرائیل کے اندر حضرت عیسی۔

چنانچہ محمد بن سعد نے جو آپ کے اکابر علماء محدثین میں سےہیں طبقات جلد چہارم ص۶۷، ص۱۶۸ میں، ابن عبدالبر نے استیعاب جلد اول باب جذب ص۸۴ میں، ترمذی نے صحیح جلد دوم ص۲۴۱ میں، حاکم نے مستدرک جلد سیم ص۳۴۲ میں ، ابن حجر نے اصابہ جلد سیم ص۶۲۲ می، متقی ہندی نے کنز العمال جلد ششم ص۱۶۹ میں، امام احمد بن حنبل نے مسند جلد دوم ص۱۶۳ و ص۱۷۵ میں، ابن الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۲۴۱ میں واحدی سے، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیہ میں اور صاحب لسان العرب و ینابیع المودۃ نے اخبار ابوذر عفاری میں ۔۔۔۔ متعدد سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا : "ماأقلّت الغبراءولاأظلّت الخضراءاصدق لهجةمن أبي ذر" یعنی زمین نے کسی ایسے مرد کو نہیں اٹھایا اور آسمان نے کسی ایسے مرد پر سایہ نہیں ڈالا جو ابوذر سے زیادہ سچ بولنے والا ہو۔

بدیہی بات ہے کہ آپ کے علماء کی شہادت کے مطابق پیغمبر(ص) نے جس کی راست گوئی کی تصدیق کی ہو وہ جو کچھ کہتا تھا یقینا سچ کہتا تھا اور خدا کسی جھوٹے جعلساز اور حدیث گھڑنے والے کو ہرگز اپنا محبوب نہیں بناتا۔ بہتر ہوگا کہ انصاف کی نگاہوں سے دیکھئے تاکہ حق اور حقیقت سامنے آجائے۔ اگر ابوذر کے جھوٹ بولنے کی کوئی مثال ہوتی تو آپ کے علمائے

۲۶۴

متقدمین قطعا اس کو نقل کرتے جیسا کہ ابوہریرہ وغیرہ کا کچا چٹھا نقل کیا ہے۔

آپ کو خدا کا واسطہ تھوڑا غور کیجئے اور ذرا انصاف سے کام لیجئے کہ جو شخص رسول اللہ(ص) کا خاص صحابی، خدا اور رسول(ص) کا محبوب اور امت کا صادق و راست گو ہو وہ اگر اپنے دینی فرض پر عمل کرتے ہوئے امر بالمعروف اور اشاعت حق کرے تو اس کی اس خطا پر کہ رسول اللہ(ص) کی حدیثیں کیوں بیان کیں اس قدر توہین اور زجر و توبیخ کریں، یہاں تک کہ وہ ایک بے آب و گیاہ بیابان میں دنیا سے کوچ کرے۔ کیا رحم و مروت اور رقت قلب کے معنی یہی ہیں؟

اور وہ بھی ایسے شخص کے بارے میں کہ جب رسول اللہ(ص) ان کی آنے والی مصیبتوں کی خبر دے رہے تھے تو ان کی پرہیزگاری کی گواہی بھی دی تھی، چنانچہ حافظ ابونعیم اصفہانی حلیۃ الاولیاء جلد اول ص۱۶۲ میں اپنے اسناد کے ساتھ ابوذر غفاری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں خدمت رسول(ص) می کھڑا ہوا تھا کہ آں حضرت(ص) نے مجھ سے فرمایا :

"أنت رجل صالح وسيصيبك بلاءبعدي. قال أبوذر: في اللّه؟قال: «في اللّه»فقال أبوذر: مرحبابأمراللّه."

( یعنی تم ایک مرد صالح ہو اور عنقریب میرے بعد تم پر بلائیں نازل ہوں گی میں نے عرض کیا کہ خدا کی راہ میں ؟ تو فرمایا ہاں خد کی راہ میں۔ میں نے کہا میں امر الہی کو خوش آمدید کہتا ہوں) ( آیا معاویہ اور عثمان کے مقرب بارگاہ بنی امیہ کے ہاتھوں ان دونوں کے حکم سے بزرگ صحابی ابوذر کا ابتلا و بے آب و گیاہ صحرا میں ان کی جلا وطنی اور شدید تکلیفیں وہ عظیم بلا نہیں تھی جس کی خبر رسول خدا(ص) دے چکے تھے کہ وہ خدا کے لیے اس آفت میں مبتلا ہوں گے؟ "فَاعْتَبِرُواياأُولِي الْأَبْصارِ "

آپ حضرات کے متضاد حالات سے سخت تعجب ہوتا ہے کہ ایک طرف تو یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہے میرے سارے اصحاب ستاروں کے مثل ہیں ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پائو گے، اور دوسری طرف جب ایک بزرگ ترین صحابی رسول(ص) کو اس جرم میں کہ علی(ع) کی طرفداری کیوں کی اس قدر ظلم و تشدد کر کے مار ڈالتے ہیں تو آپ ظالمون کی طرف سے صفائی دینے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔

اب یا تو آپ اپنے تمام بزرگ علماء کو جھٹلائیے جنہوں نے ان واقعات اور احادیث کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے یا تصدیق کیجئے کہ صفات آیہ مذکورہ کے حامل وہ لوگ نہیں تھے جنہوں نے رسول خدا(ص) کے پاک صحابہ پر ایسے مظالم کئے۔

ربذہ کی طرف ابوذر(رض) کا زبردستی اخراج

حافظ : یہ تو مسلم ہے کہ ابوذر نے اپنی خواہش اور اختیار سے ربذہ کو قبول کیا اور اس طرف روانہ ہوئے۔

خیر طلب : آپ کی یہ گفتگو ان بے جا کوششوں کا اثر ہے جو آپ کے متعصب متاخرین علماء نے اسلاف کی حرکتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کی ہیں، ورنہ جناب ابوذر کا زبردستی نکالا جانا عام طور پر مسلم ہے۔ نمونے کے لیے ایک روایت

۲۶۵

پر اکتفا کرتا ہوں جس کو امام احمد بن حنبل نے مسند جلد پنجم ص۱۵۶ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۲۴۱ میں اور واقدی نے اپنی تاریخ میں ابوالاسود دئوئلی سے ( جو آپ کے علماءے رجال کے نزدیک ثقات میں سے ہیں) نقل کیا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ ربذہ میں ابوذر سے ملاقات کر کے ان کی جلا وطنی کا سبب دریافت کروں لہذا میں گیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا مجھ کو زبردستی شہر بدر کر کے اس بے آب و گیاہ صحرا میں بھیجا گیا ہے اور رسول اللہ(ص) مجھ کو اس کی خبر بھی دے چکے تھے ایک روز مسجد میں سوگیا تھا، آںحضرت(ص) تشریف لائے اور پائوں مار کر فرمایا مسجد میں کیوں سور رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ مجھ کو بے اختیار نیند آگئی، تو فرمایا کہ اس وقت تم کیا کرو گے جب مدینے سے نکال دیے جائو گے؟ میں نے عرض کیا کہ شام کی مقدس سرزمین پر چلا جائوں گا فرمایا اس وقت کیا کرو گے جب وہاں سے بھی تم کو نکال دیں گے؟ میں نے عرض کیا پھر مسجد کی طرف واپس آجائوں گا۔فرمایا اس وقت کیا کرو گے جب یہاں سے بھی نکالے جائو گے؟ میں نے عرض کیا تلوار کھینچ کر جنگ کروں گا فرمایا آیا میں تم کو ایسی بات بتائوں جس میں تمہاری بھلائی ہو؟ میں نے عرض کیا ہاں، تو فرمایا :" انسق معهم حيث ساقوك (۱) وتسمع وتطيع" (یعنی پس میں نے سنا اور اطاعت کی، اس وقت فرمایا : " والله ليلقين الله عثمان وهوآثم في جنبي." ( یعنی خدا کی قسم عثمان اس حالت میں خدا کے سامنے جائیں گے کہ وہ میرے معاملہ میں گنہگار ہوںگے۔

علی ابن ابیطالب (ع) کا رحم و کرم

اگر غور و اںصاف اور غیر جانبداری کی نظر سے دیکھئے تو تصدیق کیجئے گا کہ اس رحم و کرم اور شفقت و عطوفت میں سب سے اولی واہل اور احق حضرت امیرالمومنین علیہ السلام تھے کیونکہ جب آپ خلافت ظاہری کی مسند پر بیٹھے تو جیسا کہ آپ کے تمام مورخین بالخصوص ابن ابی الحدید نے تفصیل سے لکھا ہے۔ بدعتوں کو برطرف کیا۔ حکام و عمال جور و فساد اور فاسقین بنی امیہ وغیرہ کو جو زمانہ خلافت عثمان میں اسلامی ممالک کی حکومتوں پر مسلط کردیے گئے تھے، معزول کردیا۔

بعض ظاہربین سیاستدانوں اور دلچسپی رکھنے والے دوستوں نے اس جامع و مانع ذات کے سامنے یہ مشورہ رکھا کہ چند روز ان معاویہ جیسے حکام کو ان کی جگہوں پر رہنے دیجئے تاکہ آپ کی حکومت مضبوط ہوجائے، اس کے بعد ان کو معزول کرنے میںکوئی حرج نہ ہوگا۔ حضرت نے فرمایا : " واللّه لاادهن في ديني،ولااعطي الرياءفي أمري. "( یعنی خدا کی قسم میں دین کے معاملے میں چاپلوسی اور اپنے کام میں ریاکاری نہیں کرتا۔)

تم مجھ کو روا داری پر مجبور کرتے ہو لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ جتنی مدت تک وہ میری طرف سے حکومت پر بر قرار رہیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ۔یعنی و ہجد ھر جائی ںچل ےجانا ۔۱۲ باقری

۲۶۶

بہ دستور ظلم و تعدی میں مشغول رہیں گے اور مجھ کو خدائے عزوجل کی بارگاہ میں جواب دینا ہوگا

جس کو مجھ میں طاقت نہیں چنانچہ یہی حکام جور کی معزولی چند معاویہ جیسے جاہ طلب لوگوں کی مخالفت کا سبب اور جمل کی لڑائیوں کا پیش خیمہ بنی جس وقت طلحہ اور زبیر کوفے اور مصر کی حکومت مانگنے آئے تھے اگر حضرت ان کو حاکم بنا دیتے تو وہ مخالفت پر آمادہ نہ ہوتے اور بصرے کا فتنہ اور جنگ برپا نہ کرتے۔

بعض کوتاہ فہم اور ظاہر بین لوگ حضرت کی مستحکم سیاست پر اعتراض کرتے ہیں، حالانکہ آپ سیاست عادلانہ کے مرکز تھے۔ عام معنی میں سیاست جس پر دنیاداروں کا عمل ہے یعنی دوزخی پالیسی ، ریاکاری، چاپلوسی، جھوٹ، دشمنوں کی خوشامدی اور ظاہری منفعتوں کے لیے ان کو فریب دینا وغیرہ تو یہ البتہ حضرت سے کوسوں دور تھی کیونکہ آپ عدل ، اںصاف اور خوف الہی کے مجسمہ اور روز جزا کے معتقد تھے۔

جس وقت آپ نے بالائے منبر اپنے خطبوں کے درمیان گریہ فرمایا اور لوگوں نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا میں نے سنا ہے کہ معاویہ کی فوجوں نے ایک گائوں پر چھاپہ مار کر یہودی کی لڑکی کے پائوں سے پا زیب اتار لی حالانکہ وہ جزیہ اور اسلام کی پناہ میں ہے ان حضرت کی رحمدلی دوست و دشمن سب کے ساتھ یکسان تھی۔ باوجودیکہ عثمان نے حضرت کے ساتھ اس قدر بد سلوکیاں کی تھیں ( جس قدر ابوبکر و عمر نے بھی علاوہ خلافت ابوبکر کے ابتدائی زمانے کے ظاہر بظاہر کبھی نہیں کی تھیں۔) پھر بھی جس وقت ان کا محاصرہ کیا گیا ہے اور انہوں نے اپنے مکان کی چھت پر سے حضرت کو یہ پیغام دیا کہ ہم پر کھانا پانی بند کردیا گیا ہے تو حضرت نے فورا آپ و طعام مہیا کرکے اپنے دونوں فرزندوں حسن و حسین علیہما السلام کے ذریعے ان کے پاس بھیجا ، چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور دوسروں نے بھی اس کی تفصیل لکھی ہے۔

دوست و دشمن کے ساتھ حضرت کی عنایت و مہربانی سے کسی کو انکار نہیں تھا، بے بس عورتوں اور بیکس یتیموں سے اس قدر ہمدردی فرمائی کہ " ابوال أرامل والأيتام والمساكين ." ( یعنی بیوائوں، یتیموں اور مسکینوں کے باپ) مشہور ہوگئے تھے۔ خلافت ظاہری کے زمانے میں ایک عورت کو دیکھا کہ راستے میں پانی کی مشک لیے بہت پریشان اور تھکی ہوئی ہے آپ نے بغیر اپنے کو ظاہر کئے ہوئے مشک اس سے لے کر اپنے کاندھے پر رکھی اور اس کے گھر پہنچا دی۔ اس کے لیے خرمے لے گئے، اس کے یتیم بچوں پر شفقت فرمائی اور تنور میں ان کے لیے روٹیاں پکا کر ان کی تسکین کا سامان فرمایا۔

خلیفہ عثمان نے بھی سخاوت اور بخشش میں نام پیدا کیا لیکن صرف اپنے گھرانے والوں کے ساتھ ، چنانچہ ابوسفیان ، حکم ابن ابی العاص اور مروان ابن حکم وغیرہ مسلمانوں کے بیت المال سے بغیر کسی شرعی حق کے لا تعداد دولت سمیٹتے تھے۔

زیادہ امداد مانگنے پر عقیل کی تنبیہ

لیکن امیرالمومنین علیہ السلام اپنے قریبی خاندان کو بھی ضرورت کی کم سے کم مقدار دیتے تھے، جس وقت حضرت کے

۲۶۷

بڑے بھائی جنا عقیل نے حاضر خدمت ہو کر معمولی حقوق سے زیادہ امداد طلب کی تو آپ نے کوئی توجہ نہیں فرمائی انہوں نے حد سے زیادہ اصرار کیا کہ آپ چونکہ آج خلیفہ اور سارے نظم و نسق کے مالک ہیں لہذا ہماری حاجب روائی اور امداد زیادہ ہونا چاہیئے۔ حضرت نے اپنے بھائی کو متنبہ کرنے کے لیے چپکے سے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں گرم کیا اور عقیل کے جسم سے قریب لے گئے

" فضج ضجيج ذيدنف من ألمها،وكادأن يحترق من ميسمها."

(یعنی انہوں نے اس کی تکلیف سے دردناک چیخ ماری اور قریب تھا کہ اس کے اثر سے جل جائیں حضرت(ع) نے فرمایا :

"ثكلت كالثواكل ياعقيل،أتئن من حديدةأحماهاانسان هاللعب هوتجرّني الىنارسجّرهاجباره الغضبه،أتئن من الاذىولاأإن من لظى"

( یعنی رونے والیاں تمہارے سوگ میں بیٹھیں اے عقیل آیا تم اس لوہے کے ٹکڑے سے فریاد کرتے ہو جس کو انسان نے کھیل کے طور پر گرم کیا ہے اور مجھ کو اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہو جس کو خدائے قہار نے اپنے غضب سے بھڑکایا کیا تم اس معمولی سی تکلیف سے فریاد کرو اور میں آتش جہنم سے پناہ نہ مانگوں؟

اب یہ آپ حضرات کے انصاف پر ہے کہ ان دونوں خلیفہ کی حالت اور طرز عمل کا موازنہ کر کے حقیقت کو پرکھیں اور حق کی پیروی کریں۔ آپ کی شفقت و مہربانی دوستوں سے مخصوص نہ تھی بلکہ اس لطف و کرم کے برتائو میں حضرت کے نزدیک دوست دشمن سب برابر تھے۔

مروان ، عبداللہ ابن زبیر اور عائشہ کے ساتھ حضرت کی عنایتیں

آپ جس وقت دشمنوں پر غالب آتے تھے تو ایسی مہربانی فرماتے تھے کہ لوگ حیران رہ جاتے تھے حضرت کا ایک جانی دشمن جس کا بغض و عداوت آپ سے ضرب المثل بن گیا تھا، ملعون ابن ملعون مروان بن حکم شقی تھا لیکن جب آپ جنگ جمل میں اس پر غالب ہوئے تو فصفع عنہ اس سے در گزر فرمائی اور بخش دیا۔

من جملہ حضرت کے بڑے دشمنوں کے عبداللہ بن زبیر بھی تھے جو " يَشْتِمُهُ عَلَى رُءُوس الْأَشْهَادِوَخَطَبَ يَوْمَ الْبَصْرَةِفَقَالَ قَدْأَتَاكُمُ الْوَغْبُ اللَّئِيمُ عَلِيُّ بْنُ أ َبِي طَالِبٍ" ( یعنی علانیہ اور کھلم کھلا آپ کو گالی دیتے تھے اور جب بصرے میں خطبہ پڑھا تو لوگوں سے کہا کہ تمہاری طرف بے وقوف کمینہ ذلیل اور بخیل علی ابن ابی طالب آئے ہیں)( معاذ اللہ) اس کے باوجود جس وقت آپ نے جنگ جمل ختم کی اور یہ قید کر کے حضرت کے سامنے لائے گئے تو آپ نے کوئی سخت لفظ استعمال کیا نہ غصہ دکھایا ، بلکہ درگزر کرتےہوئے اپنا منہ پھیر لیا اور اس کو بخش دیا۔

اور اسب سے بالاتر ام المومنین عائشہ کے ساتھ آپ کا سلوک تھا جس نے عقلوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپ کے شروع زمانہ خلافت میں جس طریقے سے فتنہ انگیزی کی، آپ کے مقابلے میں صف آرائ ہوئیں اور آپ کو بدنام کیا

۲۶۸

یہ انسان کو اتنا برافروختہ کردیتا ہے کہ جب ایسے شخص پر قابو پاتا ہے تو اس کا بھیجا نکال دیتا ہے، اور سخت سزائیں دیتا ہے لیکن جب حضرت ان پر غالب ہوئے تو ان کی کوئی ہلکی اہانت بھی نہیں کی، بلکہ ان کے بھائی محمد بن ابی بکر کو ان کی خدمت کے لیے معین فرمایا۔ کاموں سے فارغ ہونے کے بعد غصے اور بے مروتی کے عوض رحم و کرم سے پیش آئے اور آپ کے حکم سے قبیلہ عبدالفیس کی بیس(۲۰) عدد تندرست عورتیں مردانہ لباس پہنے تلواریں کمر سے لگائے اور چہروں پر نقاب دالے ہوئے تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ یہ عورتیں ہیں عائشہ کے ہمراہ مدینے روانہ ہوئیں۔ جس وقت یہ زنان مدینہ اور ازواج رسول(ص) کے سامنے حضرت علی(ع) کے لیے تشکر و اتمنان کا اظہار کررہیں تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ میں زندگی بھر کا علی(ع) کا ممنون احسان رہوں گی، مجھ کو یہ خیال نہیں تھا کہ علی(ع) اس قدر عالی فطرت ہوں گے کہ باوجود میری اس قدر دشمنی اور فتنہ انگیزیوں کے مجھ کو ایک کلمہ بھی نہیں کہیں گے بلکہ انتہائی مہربانی اور رحم و کرم سے کام لیں گے۔ لیکن اس سے ایک شکایت ہے کہ مجھ کو اجنبی مردوں کے ساتھ مدینے کیوں بھیجا۔ ان کنیزوں نے آکر فورا مردانہ لباس اتار دیا اور چہرے کھول دیے تب معلوم ہوا کہ یہ سب کنیزیں تھیں جو مردانہ لباس میں ہمراہ تھیں تاکہ ایک طرف تو راستے کے لوگ یہ سمجھیں کہ مردانہ دستہ ے۔ لہذا رہزنی کی ہمت نہ کریں اور دوسری طرف عائشہ کی روانگی بھی مردوں کے ساتھ نہ ہو۔ ٹھیک ہے۔

چنین کنند بزرگان چہ کرد باید کار

معاویہ کا پانی روکنا اور علی(ع) کا ان پر مہربانی کرنا

جنگ صفین میں معاویہ کا لشکر پہلے پہنچ کے نہر فرات پر قابض ہوگیا اور بارہ ہزار سپاہی اس کی نگرانی پر مقرر کردیے جب امیرالمومنین(ع) کی فوج پہنچی تو ان لوگوں نے پانی لینے سے روکا حضرت نے معاویہ کو پیغام دیا کہ ہم لوگ یہاں پانی پر جنگ کرنے نہیں آئے ہیں۔ اپنے آدمیوں سے کہہ دو کہ پانی بند نہ کریں تاکہ دونوں لشکر آزادی سے سیراب ہوں۔ معاویہ نے کہا کہ میں ہرگز پانی نہیں دوں گا یہاں تک علی(ع) مع اپنی فوج کے پیاس سے دم توڑ دیں۔ جس وقت حضرت نے یہ جواب سنا مالک اشتر کو سواروں کے ایک دستے کے ساتھ بھیجا جنہوں نے ایک ہی حملے میں معاویہ کے لشکر کو پراگندہ کردیا اور فرات پر قبضہ کر لیا۔

اصحاب نے عرض کیا کہ یا امیرالمومنین(ع) اگر اجازت ہوتو ہم بھی انتقام لیں اور ان پر پانی بند کر دیں تاکہ وہ لوگ پیاس سے ہلاک ہوجائیں پھر لڑائی جلد ختم ہوجائے۔ حضرت نے فرمایا :" لاوالله لاأكافئ هم بمثل فعله مافسحواله مع نبعضالشريعة" یعنی نہیں کدا کی قوسم میں انہیں کی ایسی حرکت کر کے بدلا نہیں لوں گا ان کے یے نہر کا ایک حصہ چھوڑ دو ( یعنی ادھر کا کنارہ ان کو دے دو، اس طرف کا پانی تمہارے لیے کافی ہے، میں نے جلسہ کا وقت دیکھتے ہوئے دشمنوں پر حضرت کی عنایت و مہربانی کے مفصل حالات سے مشتے نمونہ از خردارے چند مختصر باتیں پیش کی ہیں، لیکن آپ کے

۲۶۹

بڑے بڑے علماء نے ان سارے مطالب کو تشریح و تفصیل سے درج کیا ہے۔ جیسے طبری نے اپنی تاریخ تاریخ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب ۵۱ میں اور مسعودی نے مروج الذہب میں، نیز دوسرے مورخین نے بھی حوالہ دیا ہے تاکہ روشن خیالی اور منصف مزاج حضرات دونوں خلیفہ ( عثمان و علی علیہ السلام) کے حالات کا الگ الگ جائزہ لیں اور عقل سلیم سے غور کریں کہ ان دونوں میں سے کون خلیفہ آیہ شریفہ و رحماء بینہم کا مصداق ہے پس اگر غور و انصاف سے دیکھیں گے تو تصدیق کریں گے کہ آیہ شریفہ کے معنی اس طرح ہوتے ہیں محمد رسول اللہ مبتداء والذین معہ معطوف بر مبتداء اور اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے خبر بعد از خبر ہے اور یہ ساری صفتیں ایک ہی شخص کی ہیں۔ یعنی پیغمبر(ص) کے ساتھ ہونا، میدان جنگ اور علمی و مذہبی مباحثوں میں کفار پر سخت و درشت ہونا اور دوست و دشمن پر مہربان و رحمدل ہونا یہ تمام صفات اسی شخصیت سے وابستہ ہیں جو دم بھر رسول خدا(ص) سے جدا نہ رہا ہو بلکہ جدائی کا خیال بھی نہ کیا ہو( جیسا کہ ہم پہلے ثابت کرچکے ہیں) اور وہ صرف علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے۔چنانچہ میں عرض کرچکا ہوں کہ علامہ فقیہہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں کہ اہے کہ خدا نے اس آیہ شریفہ سے علی علیہ السلام کی تعریف کی ہے۔

شیخ : آپ کے بیانات کے جوابات بہت ہیں، لیکن اگر آیت کے معنی یہی ہیں جو آپ کہہ رہے ہیں تو والذین معہ کے ساتھ درست نہیں ہوتے کیونکہ والذین معہ جمع ہے اور خود یہ عبارت بتاتی ہے کہ آیت ایک شخص کے بارے میں نازل نہیں ہوئی ہے کیونکہ اگر یہ صفات ایک ہستی کے لیے تھے تو جمع کی لفظ کیوں ذکر ہوئی۔

خیر طلب : اول تو آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ تمہارے بیانات کے جوابات بہت ہیں تو آخر آپ حضرات وہ جوابات کیوں نہیں دیتے تاکہ بات صاف ہوجائے؟ پس آپ حضرات کی خاموشی خود اس کی دلیل ہے کہ میرے دلائل منطقی ہیں( یہ دوسری بات ہے کہ ہٹ دھرمی اور مغالطہ بازی کا دروازہ ہر وقت کھلا ہوا ہے) اور آپ حضرات چونکہ اںصاف پسند ہیں لہذا میرے معقول جوابات کے مقابلے میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔

آیت میں جمع کی لفظ تعظیم و تکریم کے لیے ہے

دوسرے جناب عالی کا یہ بیان محض کج بخثی ہے کیونکہ اول تو آپ خود جانتے ہیں کہ کلام عرب و عجم میں تعظیم و تکریم یا دوسرے اسباب کی بنا پر جمع کا اطلاق واحد پر عام طور سے رائج اور مستعمل ہے۔

باتفاق جمہور آیہ ولایت کا نزول علی(ع) کی شان میں

چنانچہ قرآن مجید جو ہمارے لیے مضبوط آسمانی سند ہے اس کے اندر ایسی مثالیں بکثرت ہیں، مثلا آیہ مبارکہ ولایت

۲۷۰

سورہ نمبر۵ ( مائدہ) آیت نمبر۶۰ میں ارشاد ہے۔

"إِنَّماوَلِيُّ كُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواالَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَوَيُؤْتُونَ الزَّكاةَوَهُمْ راكِعُونَ "

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تمہارے ولی امر اور اولی بالتصرف صرف خدا اور رسول(ص) اور وہ مومنین ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔

جس پر جملہ مفسرین و محدثین کا اتفاق ہے جیسے۱۔ امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر جلد سیم ص۴۳۱ میں۔ ۲۔ امام ابواسحق ثعلبی نے اپنی کشف البیان میں۔ ۳۔ جار اللہ زمخشری نے تفسیر کشاف جلد اول ص۴۲۲ میں۔ ۴۔ طبری نے اپنی تفسیر جلد ششم ص۱۸۶ میں۔ ۵۔ ابو الحسن ربانی نے اپنی تفسیر میں۔ ۶۔ ابن ہوازن نیشاپوری نے اپنی تفسیر میں۔ ۷۔ ابن سعید قرطبی نے اپنی تفسیر جلد ششم ص۲۲۱ میں۔ ۸۔ نسفی حافظ نے اپنی تفسیر ص۴۵۲ ( برحاشیہ تفسری خازن بغدادی) میں۔ ۹۔ فاضل نیشاپوری نے غرایب القرآن جلد اول ص۴۶۱ میں۔ ۱۰۔ ابو الحسن واحدی نے اسباب النزول ص۱۴۸ میں۔ ۱۱۔ حافظ ابوبکر جصاس نے تفسیر احکام القرآن ص۵۴۲ میں۔ ۱۲۔ حافظ ابوبکر شیرازی نے فیما نزل من القرآن فی امیرالمومنین میں۔ ۱۳۔ ابو یوسف شیخ عبدالسلام قزوینی نے اپنی تفسیر کبیر میں۔ ۱۴۔ قاضی بیضاوی نے انوار التنزیل جلد اول ص۲۴۵ میں۔ ۱۵۔ جلال الدین سیوطی نے در المنثور جلد دوم ص۲۶۴ میں۔ ۱۶۔ قاضی شوکانی صنعائی نے تفسیر فتح القدیر میں۔ ۱۷۔ سید محمد آلوی نے اپنی تفسیر جلد دوم ص۳۴۹ میں۔ ۱۸۔ حافظ ابن ابی شیبہ کوفی نے اپنی تفسیر میں۔ ۱۹ ۔ ابوالبرکات نے اپنی تفسیر جلد اول ص۴۹۶ میں۔ ۲۰۔ حافظ بغوی نے معالم التنزیل میں۔ ۲۱۔ امام ابوعبدالرحمن نسائی نے اپنی صحیح میں۔ ۲۲۔ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص۲۳ میں۔ ۲۳۔ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص۲۷۵ میں۔ ۲۴۔خازن علاء الدین بغدادی نے اپنی تفسیر جلد اول ص۴۹۶ میں۔ ۲۵۔ سلیمان حنفی نے ینابیع المودۃ ص۲۱۲ میں۔ ۲۶۔ حافظ ابوبکر بیہقی نے کتاب مصنف میں۔ ۲۷۔ زرین عبدری نے جمع بین الصحاح الستہ میں۔ ۲۸۔ ابن عساکر مشقی نے تاریخ شام میں ۔ ۲۹۔ سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص۹میں ۔ ۳۰۔ قاضی عبدالحی نے مواقف ص۲۵۶ میں۔ ۳۱۔ سید شریف جرجانی نے شرح مواقف میں۔ ۳۲۔ ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص۱۲۳ میں۔ ۳۳۔ حافظ ابوسعد سمعانی نے فضائل الصحابہ میں۔ ۳۴۔ ابوجعفر اسکافی نے نقض العثمانیہ میں۔ ۳۵۔ طبرانی نے اوسط میں۔ ۳۶۔ ابن مغازلی فقیہہ شافعی نے مناقب میں۔ ۳۷۔ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں۔ ۳۸۔ مولوی علی قوشجی نے شرح تجرید میں۔۳۹۔ سید محمد مومن شبلنجی نے نور الابصار ص۷۷ میں۔ ۴۰۔ محب الدین طبری نے ریاض النفرہ جلد دوم ص۲۲۷ میں۔ نیز اور آپ کے اکثر ارباب علم و دانش نے سدی ، مجاہد، حسن بصری ، اعمش، عتبہ بن ابی حکیم، غالب بن عبداللہ ، قیس بن ربیعہ ، عبابہ بن ربیعی، عبداللہ ابن عباس ( خیر امت و ترجمان القرآن ) ابو ذر غفاری ، جابر ابن عبداللہ انصاری، عمار، ابو رافع اور عبداللہ بن سلام وغیرہ سے نقل کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ یہ آیت مبارکہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور ہر ایک نے مختلف عبارتوں کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ جس وقت حضرت نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی راہ خدا میں سائل کو دی تو یہ آیت شریفہ نازل ہوئی حالانکہ اس میں بھی جمع کا لفظ استعمال ہوا ہے جو صرف منصب ولایت کی تعظیم و تکریم اور حضرت کی امامت و خلافت کو ثابت کرنے کے لیے ہے کیونکہ کلمہ حصر ( انما) کے ساتھ ارشاد ہوا ہے

۲۷۱

کہ امت کے امور میں خدا و رسول کے بعد اولی بالتصرف وہی شخص ہے جس نے بحالت رکوع خدا کی راہ میں صدقہ اور خیرات دی ہے اور وہ علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔

شیخ : یقینا آپ کو ماننا پڑے گا کہ یہ مطلب اتنا محکم نہیں ہے جتنا آپ نے فرمایا ہے کیونکہ اس آیت کی شان نزول میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں انصار کی شان میں نازل ہوئی، کچھ کہتے ہیں کہ عبادہ بن صامت کی شان میں آئی اور بعض نے عبداللہ بن سلام کے لیے لکھا ہے۔

خیر طلب : آپ جیسے صاحبان علم سے تعجب ہے کہ ( علاوہ تواتر علمائے شیعہ کے) خود اپنے جمہور مفسرین اور اکابر علماء کے خیالات و عقائد کے خلاف جنہوں نے اس آیہ شریفہ کو شان امیرالمومنین(ع) میں نازل ہونے کی تائید و تصدیق کی ہے۔ چند متعصب اور مجہول و ضعیف القول افراد کے اختلافات کا جو شاذ و مردود اور ناقابل قبول ہیں سہارا ڈھونڈھتے ہیں، حالانکہ آپ کے محققین و اکابر فضلاء نے اس معنی پر اتفاق کا دعوی کیا ہے۔ مثلا فاضل تفتازانی اور مولوی قوشجی جو شرح تجرید میں کہتے ہیں۔

" انما نزلت بلاتفاق المفسرين في حق علی ابن ابی طالب عليه السّلام حين أعطى السّائل خاتمه وهوراكع في صلاته "

یعنی بہ اتفاق مفسرین یہ آیت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حق میں نازل ہوئی جب کہ آپ نماز کے اندر رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی سائل کو عطا کی۔

آیا ایک مںصف اور عالم انسان کی عقل اجازت دیتی ہے کہ اہل سنت کے جمہور مفسرین اور اکابر علماء کے اقوال کو نظر انداز کر کے بچے کچے خوارج و نواصب میں سے چند متعصب بلکہ معاند اشخاص کے مہمل و بے معنی اکا دکا اقوال پر بھروسا کرے؟

آیہ ولایت میں شبہات و اشکالات اور ان کے جوابات

شیخ : جناب عالی نے اپنے بیان میں کوشش کی ہے کہ اس آیت کو نقل کرتےہوئے اپنی چابکدستی سے علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت بلافصل اور امامت ثابت کردیں حالانکہ اس آیت میں ولی کا لفظ محب اور دوست دار کے معنی میں ہے نہ کہ امام اور خلیفہ بلافصل کے معنی میں۔ اگر آپ کا یہ مرفانان صحیح ہو کہ ولی سے خلیفہ اور امام مراد ہے العبرۃبعموم اللفظ لا بخصوص السبب کے قاعدے سے یہ صرف ایک ذات پر مشتمل نہ ہوگا بلکہ دوسرے افراد بھی اس میں شامل ہوں گے جن میں سے ایک علی کرم اللہ وجہہ بھی ہیں۔ نیز کلمہ ولیکم اللہ اور کلمہ الذین میں جمع کا صیغہ عموم کے لیے ہے اور جمع کا جمل واحد پر بغیر کسی دلیل کے اور کلام خدا کی تاویل اور بلا تجوز کے جائز نہیں ہے۔

خیر طلب : پہلی چیز تو یہ کہ آپ کو کلمہ ولیکم میں دھوکا ہوا ہے اس لیے کہ " ولی " مفرد" ہے اور کم " جمع ہے جس تعلق امت سے ہے لہذا یہاں واحد پر اطلاق نہیں ہے جس میں آپ اشکال وارد کرسکیں۔ البتہ ولی فرد واحد ہے

۲۷۲

جس کو ہر زمانے میں امت پر ولایت حاصل ہے۔ دوسرے یہ کہ جن کلمات جمع میں بعض متعصبین اور خوارج و نواصب اعتراض و اشکال وارد کرنے کی کوشش کرتےہیں اور کہتے ہیں کہ واحد پر حمل نہیں ہوسکتے ہیں۔

اس اشکال کا جواب بھی اس مطلب کے اندر میں اپنی گفتگو میں دلیل کی حیثیت سے عرض کرچکا ہوں کہ اہل علم و ادب کے یہاں رائج اور ثابت ہے اور ادباء و فضلا کے بیانات میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ تعظیم وتکریم یا دوسرے اسبابکی بنا پر جمع کو واحد پر حمل کیا ہے علاوہ اس کے جیسا کہ آپ دعوی کررہے ہیں عموم لفظ کے لحاظ سے ہم بھی کلمہ حصر انما کے مطابق اس آیہ شریفہ کا نزول حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں سمجھتے ہیں لیکن اس کے مخصوص ہونے کا دعوی نہیں کرتے بلکہ دوسرے افراد معصومین(ع) کو بحِ اس میں شامل سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے معتبر اخبار و احادیث میں مروی ہے کہ عترت طاہرہ(ع) میں سے باقی ائمہ بھی اس آیت میں داخل ہیں، اور ہر امام منزل امامت کے قریب پہنچ کے اس فضیلت اور خصوصیت پر فائز ہوتا ہے ( یہی ہیں وہ افراد جنکے لیے آپ کا دعوی ہے کہ ان کو امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ اس آیت میں شامل ہونا چاہئیے)۔

چنانچہ جار اللہ زمخشری کشا میں کہتے ہیں کہ اگر چہ اس آیہ شریفہ میں حصر ہے۔ اور یہ علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے لیکن جمع کے ساتھ ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے بھی ان حضرت کی پیروی پر راغب ہوں۔

تیسرے یہ کہ آپ نے دعوی کو شبہے میں ڈالنے کے لیے اپنے بیان میں ایک بہت بڑا مغالطہ دیا ہے کہ شیعوں نے اس آیت کو تاویل کر کے علی علیہ السلام سے مخصوص کیا ہے حالانکہ ( سوا گنے چنے معاندین و مبغضین کے ، فریقین ( شیعہ و سنی) کے تمام مفسرین و محدثین کا اتفاق ہے کہ جیسا پہلے عرض کرچکا ہوں۔ اس آیت کی تنزیل ہی امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں ہوئی ہے نہ یہ کہ شیعوں کی تاویل سے یہ منصب ان حضرت کی طرف منسوب کردیا گیا ہو۔

شیخ : اس آیت میں "ولی" قطعا ناصر کے معنی میں ہے کیونکہ اگر اولی بالتصرف کے معنی میں ہوتا جو خلافت و امامت کی منزل ہے تو رسول اللہ(ص) کی زندگی میں بھی اس عہدے پر فائز ہونا چاہئیے تھا حالانکہ یہ بات صریحی طور پر باطل ہے۔

خیر طلب : یہ صرف یہ کہ اس عقیدے کے باطل ہونے پر آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ آیت کا ظاہری قرینہ بھی ان حضرت کے لیے اس مقام و منصب کے دوام کو ثابت کرتا ہے کیونکہ جملہ اسمیہ کی دلالت اور یہ کہ " ولی" صفت مشبہ ہے دونوں اس بلند منزلت کے ثبات و دوام کی دلیل ہیں اور پیغمبر(ص) کا غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ کے اندر حضرت علی(ع) کو اپنا خلیفہ بنانا اور پھر مرتے دم تک معزول نہ کرنا اس مقصد کی تائید کرتا ہے، نیز حدیث منزلت بھی اس مطلب کی موئد ہے کہ رسول اللہ(ص) نے بارہا فرمایا علی منی بمنزلۃ ہارون من موسی( جس کی ہم گذشتہ شبوں میں پوری تشریح کرچکے ہیں) اور رسول اللہ(ص) کے زمانہ حیات میں اور بعد وفات ان حضرت کی ولایت پر بجائے خود یہ بھی ایک دوسری دلیل ہے۔

شیخ : میرا خیال ہے کہ اگر تھوڑا غور کیجئے تو ہمارے لیے یہی کہنا مناسب ہوگا کہ یہ آیت ان جناب کی شان میں نازل نہیں ہوئی کیونکہ علی کرم اللہ وجہہ کی منزل اس سے بلند ہے کہ اس آیت سے ان کے لیے کوئی فضیلت ثابت کی جائے،

۲۷۳

قطع نظر اس سے کہ یہ کوئی فضیلت ثابت کرتی ان جناب کے فضائل پر ضرب بھی لگاتی ہے۔

خیر طلب : اول تو ہم اور آپ بلکہ امت کی کوئی فرد یہاں تک صحابہ کبار بھی اس کا حق نہیں رکھتے کہ آیتوں کی شان نزول میں دخل دیں، کیونکہ آیات کی شان نزول دل کی خواہش پر نہیں ہوتی، بلکہ اگر کچھ اشخاص اپنی مرضی سے معانی اور نزول آیات میں تصرف کریں تو یقینا وہ لوگ بے دین ہوں گے۔ جیسے بکرتنین جنہوں نے مشہور جعلسا ز عکرمہ کے قول پر اس آیت کا نزول ابوبکر کے بارے میں بتایا ہے۔

دوسرے جناب عالی جب بولنے پر آتے ہیں تو واقعا رموز و اسرار کا انکشاف کرتے ہیں اس لیے کہ یہ پہلا موقع ہے جب میں آپ سے ایسی بات سن رہا ہوں، حقیقتا آپ کا دماغ بلند ہے اور خوب نکتہ نکالا ہے۔ بہتر ہے فرمائیے کس پہلو سے یہ آیت حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے مرتبہ ولایت پر ضرب لگاتی ہے۔

شیخ : مولانا علی کرم اللہ وجہہ کے درجات عالیہ میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نماز کے وقت خدا کی طرف ایسی توجہ رکھتے تھے کہ کبھی کسی نے اپنی طرف متوجہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا اور ہمارے نزدیک ثابت ہے کہ ایک لڑائی میں آپ کے جسم پر چند تیر ایسے لگے تھے کہ ان کا نکلنا سخت تکلیف کا باعث تھا لہذا جب آپ نماز پر کھڑے ہوئے تو وہ تیر نکال لئے گئے اور انتہائی خضوع و خشوع اور رحمت الہی میں استغراق کی وجہ سے آپ کو بالکل توجہ اور درد کا احساس نہیں ہوا۔ پس اگر یہ واقعہ صحیح ہو کہ ان جناب نے نماز میں سائل کو انگوٹھی دی تو اس سے آپ کی نماز پر بہت بڑی ضرب لگتی ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ جو شخص بارگاہ خداوندی میں انتہائی حضور قلب کی وجہ سے نماز میں درد و الم کی طرف توجہ نہ کرے جو ہر انسان کی فطرت ہے وہ ایک سائل کی آواز پر اس طرح متوجہ ہوجائے کہ رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی اس کودیدے؟

اس کے علاوہ عمل خیر اور وہ بھی ادائے زکوۃ میں نیت ضروری ہے لہذا حالت نماز میں جب کہ سرتا پا خدا کی طرف متوجہ رہنا چاہئے نیت نماز سے دوسری نیت کی طرف عدول اور مخلوق کی طرف توجہ کیونکر کی جاسکتی ہے؟ چونکہ ہم ان جناب کی منزل بلند سمجھتے ہیں، لہذا اس مفہوم کی تصدیق نہیں کرتے ۔ اگر سائل کو کچھ عطا بھی ہوا تو ہرگز حالت نماز میں نہیں ہوا۔ اس لیے کہ رکوع کا مطلب خشوع و تواضع ہے یعنی آپ نے خشوع و تواضع کے ساتھ انگشتری سائل کو دی نہ کہ حالت نماز میں۔

خیر طلب : عزیز من " آپ نے درد تو اچھا سیکھا لیکن دعا کا راستہ بھول گئے" آپ کا یہ اشکال تو مکڑی کے جالے بھی زیادہ کمزور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ عمل آں حضرت کے مرتبے پر کوئی ضرب نہیں لگاتا بلکہ سائل کی طرف توجہ کرنا اس کو صدقہ دینا اور اس کا دل خوش کرنا تو موجب کمال ہے، اس لیے کہ حضرت علی علیہ السلام ہر وقت اور ہر حال میں خدا اور اس کی رضا کی طرف متوجہ رہتے تھے اور اس عمل میں بھی عبادت جسمانی و روحانی کو عبادت مالی( یعنی راہ خدا میں مال دینا) میں اتفاق کے ساتھ جمع کردیا تھا۔

عزیز گرامی : جس التفات کے لیے آپ نے سنا ہے کہ نماز کے خشوع کو دھچکا پہنچاتا ہے اور عبادت کو کمزور بناتا ہے وہ امور دنیا اور اغراض نفسانی کی طرف ملتفت ہونا ہے، ورنہ عمل خیر کی طرف جو خود عبادت ہے دوسری عبادت کے اندر توجہ

۲۷۴

کرنا موجب کمال ہے مثلا اگر کوئی شخص نماز کے اندر اپنے اعزہ کے لیے گریہ کرے چاہے وہ عزیز ترین مخلوق یعنی خاندان محمد و آل محمد سلام اللہ علیہم اجمعین ہی کے لیے ہو تو اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے لیکن اگر کوئی حالت نماز میں اشتیاق حق یا خوف خداوندی سے روئے تو انتہائی فضیلت کا باعث ہے۔

دوسرے جو آپ نے فرمایا کہ رکوع خشوع و تواضع کے معنی میں ہے تو یہ کسی مقررہ موقع پر صحیح ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر رکوع نماز کے حکم کو جو ایک معین اور واجب فعل ہے آپ لغوی حیثیت سے خشوع پر عمل کرنا چاہیں تو صاحبان عقل و علم اور اہل دین آپ کا مضحکہ اڑائیں گے۔

اس آیہ شریفہ میں بھی آپ نے ظاہر کے خلاف نظر دوڑائی ہے اور لفظ کو قطعا اپنے حقیقی اور عرفی معنی سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے، اس لیے کہ آپ خود جانتے ہیں کہ اصطلاح شرعی میں رکوع کا اطلاق ارکان میں سے ایک رکن پر ہوتا ہے جس کا مطلب اس حد تک خم ہونا ہے کہ ہاتھ کی ہتھیلیاں زانو تک پہنچ جائیں۔ اور اس معنی کی تصدیق خود آپ کے اکابر علما نے بھی کی ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ، چنانچہ فاضل قوشجی شرح تجرید میں جمہور مفسرین کے اقوال کی توضیح کرتے ہیں کہ آپ ہی نماز کے اندر رکوع کر رہے تھے یعنی ان حضرت نے رکوع نماز کی حالت میں انگشتری عطا کی۔

اور ان تمام باتوں سے قطع نظر یہ فرمائیے کہ کلمہ حصر کے ساتھ یہ آیت شریفہ مدح میں نازل ہوئی یا مذمت میں؟

شیخ : ظاہر ہے کہ مدح کے موقع پر آئی ہے۔

خیر طلب : پس جب کہ فریقین ( شیعہ وسنی) کے جملہ اکابر علماء و مفسرین اور محققین و محدثین نے یہ طے کر دیا کہ آیت علی علیہ السلام کی شان نازل ہوئی اور من جانب پروردگار مدح وتمجید کی حامل ہے تو اب آپ جیسے حضرات کے اس قسم کے اختلافات و ایرادات کی کیا گنجائش رہ گئی جن کا سہارا لے کر اہل عناد تعصب اور خوارج و نواصب آپ کے ایسے صاف دل اشخاص کے دماغوں میں بچپنے ہی سے یہ باتیں راسخ کردیں اور آپ بغیر سوچے سمجھے ایسے با قاعدہ جلسے میں انتہائی شان کے ساتھ یہ فرمادیں کہ ہم اس واقعے کی تصدیق نہیں کرتے۔

شیخ : حضرت معاف کیجئے گا جناب عالی چونکہ خطیب و ذاکر اور تقریر میں مشاق ہیں۔ لہذا کبھی کبھی اپنے ارشادات کے تحت میں اس کے کنایے استعمال کر جاتے ہیں جو ناواقف لوگوں میں ایسے خیالات پیداکر سکتے ہیں جن کے نتائج اچھے نہ ہوں لہذا بہتر ہے کہ اپنے بیانات میں ان باتوں کا لحاظ رکھئیے۔

خیر طلب : میرے بیانات میں حقائق کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا ۔ خدا شاہد ہے کہ میں نے کسی کنایے کا قصد نہیں کیا اور نہ اس کی کوئی ضرورت ہی تھی اس لیے کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں صاف صاف کہتا ہوں نہ کہ کنایہ ممکن ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی یا عیب جوئی کے جذبے میں ایسا خیال پیدا ہوا ہو لہذا فرمائیے کہ وہ کنایہ کون سا ہے؟

شیخ : ابھی ابھی گفتگو کے دوران میں صفات مندرجہ آیت محمد رسول اللہ کو بیان کرتے ہوئے آپ

۲۷۵

نے فرمایا کہ یہ صفتیں علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے مخصوص ہیں جن کے ایمان میں اول سے آخر تک شک اور ارتداد پیدا نہیں ہوا۔ یہ جملہ اس بات کا کھلا ہوا کنایہ ہے کہ آپ دوسروں کے شک اور ارتداد کے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کیا خلفائے راشدین یا دوسرے صحابہ اپنے ایمان میں شک و ارتداد رکھتے تھے؟ قطعا سارے اصحاب کلہم اجمعین علی کرم اللہ وجہہ کے مانند ایمان لانے کے اول وقت سے آخر تک تک بغیر شک و ارتداد کے اپنے عقیدے میں ثابت قدم رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے انحراف اور جدائی اختیار نہیں کی۔

خیرطلب : اول تو میں نے اس عبارت کے ساتھ جو آپ نے فرمائی کچھ کہا ہی نہیں ہے، دوسرے آپ خود جانتے ہیں کہ کسی شے کا اثبات اس کے ماسوا کی نفی نہیں کرتا، تیسرے اگرچہ آپ نکتہ چینی کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن دوسروں نےغالبا ایسا نہ کیا ہوگا۔ آپ نے یقینا اپنے اس بیان میں ( معاف فرمائیے گا) مغالطہ دینے کی سعی کی ہے، خدا گواہ ہے کہ نہ میں نے کنایے سے کام لیا اور نہ ایسا خیال رکھا جیسا آپ کا ہے، فرض کیجئے کہ کوئی خیال آپ کے ذہن میں آیا بھی تھا ( اگر مغالطہ بازی اور شبہ سازی کا مقصد نہ رہا ہو) تو بہتر تھا کہ اس جملے کو آہستہ مجھ سے دریافت کر لیے تاکہ میں اثبات یا نفی میں جواب عرض کردیتا۔

شیخ : آپ کے انداز گفتگو سے پتہ چل رہا ہے کہ کوئی بات ہے، البتہ جواب سے خاموشی خود اس قسم کے خیالات پیدا کرتی ہے التماس ہے کہ جو کچھ آپ کی نظر میں ہو صحح سند کے ساتھ بیان فرمائیے۔

خیر طلب : خیالات پیدا کرنے کے باعث تو آپ ہی ہوئے کہ یہ سوال قائم کیا، میں پھر عرض کرتا ہوں کہ بہتر ہے اس مسئلے کو نظر انداز ہی کر دیجئے اور اصرار نہ فرمائیے۔

خیر طلب : میں اپنی طرف سے کبھی سوء ادب نہیں کرتا لیکن آپ کا اصرار نیز آپ نے دوسری عبارت میں مجھ کو جو دھمکی دی ہے وہ اس کا باعث ہوئی کہ حقائق کا انکشاف ہو، روز اول ہی سے اس طرح کے حقائق کا اظہار خود آپ کے علماء کی طرف سے ہوا کیا ہے جنہوں نے حقیقتوں کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، چنانچہ اس موضوع میں بھی سب کا اتفاق ہے کہ اکثر صحابہ جن کا ایمان ابھی کامل نہیں ہوا تھا۔ کبھی کبھی شک اور ارتداد میں گرفتار ہوا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض اسی شک و ارتداد کی حالت پر باقی رہتے تھے اور ان کی مذمت میں آیتیں نازل ہوتی تھیں، مثلا منافقین جن کی مذمت میں پورا ایک سورہ قرآن مجید کے اندر موجود ہے۔

لیکن اخلاقا مناسب نہیں ہے کہ اس قسم کے سوالات علانیہ ہوں، تاکہ سادہ لوح اشخاص جاہلانہ محبت و عداوت

۲۷۶

کے ماتحت خوردہ گیری نہ کریں، میں پھر درخواست کرتا ہوں کہ اس موضوع سے چشم پوشی کیجئے یا اجازت دیجئے کہ اس کا جواب کسی مناسب موقع پر خود ہی آہستہ عرض کردوں۔

شیخ : یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم شک کرنے والوں میں سے تھے؟

خیر طلب : آپ واقعی غلط فہمی پھیلا رہے ہیں اور جذبات کو بھڑکار ہے ہیں، اب جب آپ کا اصرار ہی ہے تو میں بھی آپ کو بغیر جواب دیئے نہیں چھوڑوں گا۔ البتہ اگر نا فہم عوام کے اندر اس کا کوئی رد عمل ہوتو اس کی ذمہ داری آپ کے سر ہوگی۔ آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ تم کہتے ہو تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے یا جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں کیونکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے اس کو نقل کیا ہے اور تاریخ میں درج کیا ہے۔

شیخ : کس موقع پر لکھا ہے؟ کہاں پر ان کو شک ہوا ہے؟ اور کن اشخاص نے شک کیا ہے؟ مہربانی کر کے بیان فرمائیے۔

خیر طلب: جہاں تک کتب اخبار و تواریخ اور سیر سے پتہ چلتا ہے کچھ اشخاص ایک مرتبہ نہیں بلکہ باربار شک کرتے تھے اور حقیقت کھلنے کے بعد پلٹ آتے تھے، لیکن بعض اسی شک پر قائم رہتے تھے اور غضب الہی کے مستحق قرار پاتے تھے۔

حدیبیہ میں عمر(رض) کا نبوت پیغمبر(ص) میں شک کرنا

چنانچہ مشہور معروف فقیہ شافعی ابن مغازل نے مناقب میں اور حافظ ابو عبداللہ محمد بن ابی نصر حمیدی نے جمع بین الصحیحن بخاری و مسلم میں لکھا ہے " قال عمر ابن الخطاب رضی الله عنه ماشککت فی نبوة محمد قط کشکی يوم الحديبية " یعنی عمر ابن خطاب نے کہا کہ میں نے محمد(ص) کی نبوت میں کبھی ایسا شک نہیں کیا تھا، جیسا شک حدیبیہ کے روز کیا۔)

خلیفہ کا انداز کلام بتاتا ہے کہ آنحضرت(ص) کو نبوت میں شک تو کئی مرتبہ کر چکے تھے لیکن حدیبیہ میں سب سے بڑا شک ہوا۔

نواب : معاف فرمائیے گا قبلہ صاحب حدیبیہ میں کیا ہوا تھا جس کو وجہ سے امر نبوت میں شک پیدا ہوا؟

خیر طلب : اس واقعے کو تفصیل تو بہت ہے لیکن میں وقت کے لحاظ سے اس کا خلاصہ پیش کئے دیتا ہوں۔

واقعہ حدیبیہ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک شب خواب میں دیکھا کہ اصحاب کے ہمراہ مکہ تشریف لے گئے اور

۲۷۷

عمرہ بجالائے۔ صبح کو اصحاب کے سامنے بیان فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ آپ خود ہمارے خوابوں کی تعبیریں دیتے ہیں لہذا اس خواب کی تعبیر بھی ارشاد فرمائیے، آں حضرت(ص) نے فرمایا انشاء اللہ ہم مکے جائیں گے اور یہ عمل بجالائیں گے ( لیکن اس کی کامیابی کا وقت نہیں معین فرمایا۔)

پیغمبر(ص) زیارت بیت اللہ کے اشتیاق میں اصحاب کے ہمراہ اسی سال مکہ معظمہ ک طرف روانہ ہوئے، کفار قریش کو معلوم ہوا تو حدیبیہ پر ( یہ مکہ معظمہ کے نزدیک ایک کنواں ہے جس کا نصف حرم کے اندر اور نصف حرم سے خارج ہے) اپنے سازو سامان کےساتھ آپہنچے اور مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے روکا۔ چونکہ پیغمبر(ص) جنگ کے قصد سے تشریف نہیں لائے تھے بلکہ آپ کا مقصدصرف زیارت تھا لہذا کفار مکہ سے صلح فرما لی اور صلح نامہ لکھ کر اسی مقام سے واپس ہوگئے

یہی وہ موقع تھا جب عمر کو خود انہیں کے قول کے مطابق شک پیدا ہوا، چنانچہ آپ کےبڑے بڑے علماء نے لکھا ہے کہ آن حضرت(ص) کی اصل نبوت ہی میں شک کیا اور خدمت رسول (ص) آکر عرض کیا یا رسول اللہ(ص) کیا آپ پیغمبر(ص) اور سچے انسان نہیں ہیں؟ کیا آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم مکے جائیں گے، عمل عمرہ بجالائیں گے اور اسی جگہ حلق راس اور تقصیر کرینگے ؟ اب کیوں اس کے برخلاف ہوا؟

آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ کیا میں نے وقت مقرر کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ اسی سال جائیں گے؟ عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ حضرت نے فرمایا پس جو کچھ میں کہہ چکا ہوں صحیح ہے، ہم انشاء اللہ جائیں گے اور خواب کی تعبیر ہوگی۔ البتہ خواب کی تعبیر میں مشیت خداوندی سے دیر یا جلدی ہوا کرتی ہے، پھر تصدیق رسول کے لیے جبرئیل نازل ہوئے اور سورہ نمبر۴۸ ( فتح ) کی آیت نمبر۲۷ لائے کہ :

"لَقَدْصَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيابِالْحَقِّ- لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَالْحَرامَ إِنْشاءَاللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لاتَخافُونَ- فَعَلِمَ مالَمْ تَعْلَمُوا- فَجَعَلَ مِن ْدُونِ ذلِكَ فَتْحاًقَرِيباً"

یعنی یقینا خدائے تعالی نے اپنے رسول(ص) کے خواب کی صداقت ثابت کر دی کہ تم لوگ ضرور بالضرور امن و اطمینان کے ساتھ انشاء اللہ بلا خوف مسجد الحرام میں داخل ہوگے اعمال حج کے بعد سر تراشی اور تقصیر کرو گے اور خدا ہر وہ بات جانتا ہے جو تم کو نہیں معلوم ہے، پس اس کے بعد عنقریب تم کو فتح عنایت کرے گا۔ ( جس سے فتح خیبر مراد ہے)

یہ تھا قضیہ حدیبیہ کا خلاصہ جو ثابت قدم مومنین اور متزلزل اشخاص کے لیے ایک امتحان تھا۔

جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو مولوی صاحبان نے گھڑیوں پر نظر ڈالی اور قہقہ لگا کر کہا کہ مطلب اتناء دلچسپ اور شیرین ہے کہ ہم بالکل بے خود ہوجاتے ہیں، واقعی ہماری وجہ سے اہل جلسہ کو کافی زحمت ہوئی۔ کل کی شب آپ حضرات کا بہت وقت صرف ہوا، اور آج بھی آدھی رات سے کہیں زیادہ گزر چکی ہے، اخلاقا یہ بات اچھی نہیں ہے لہذا بہتر ہے کہ جلسہ برخاست کیا جائے ۔ اسی دوران میں چائے اور شیرینی وغیرہ آگئی اور ہم لوگ مزاح و تفریح میں مصروف ہوگئے تاکہ مولوی صاحبان کی افسردگی دور ہوجائے۔

۲۷۸

خلاف امید باتیں

حافظ : قبلہ صاحب ہم لوگ آپ کی ملاقات اور خصوصا آپ کے اخلاق سےبہت خوش ہوئے، ہمارے خواہش تھی کہ آپ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں۔ کیون کہ آپ کے اندر اس قدر جذب و کشش ہے کہ جس شخص کو آپ کی ہم نشینی و ہم کلامی حاصل ہو وہ ہمہ تن محو اور ساکت ہوجاتا ہے اور کوئی بات کہنا بھی چاہتا ہے تو وہ اس کے دل ہی میں رہجاتیہے، چنانچہ میرے دماغ میں بھی بہت سی باتیں تھیں اور ہیں جو کہنے سے رہ گئیں، لیکن کیا کیا جائے کہ اب وطن کی واپسی لازمی ہے اس لیے کہ وہاں بھی ہم کو بہت سے اہم ذاتی اور قومی کام در پیش ہیں جن کا حرج ہو رہا ہے، لہذا امید ہے کہ جناب عالی مہربانی فرما کر ہمارے گھر پر تشریف لائیں گے تاکہ آپ کی صحبت سے ہم پورا فائدہ اٹھا سکیں۔

نواب : ( حافظ صاحب سے ) ہم لوگ آپ کو جانے نہیں دیں گے کیونکہ اب معاملہ بہت نازک منزلوں سے گزر رہا ہے اور بات میں یکسوئی پیدا ہونا ضروری ہے اس لیے کہ آپ حضرات ہمیشہ ہم وگوں سے کہا کرتے تھے کہ رافضی صاحبان ( شیعہ فرقہ) کے پاس قطعا کوئی دلیل و برہان نہیں ہے اور وہ تنہائی میں خوب باتیں بناتے ہیں، اگر ہمارے سامنے آجائیں تو بہت جلد لا جواب ہوجائیں گے۔ لیکن اس دعوے کے برعکس ان جلسوں میں ہم آپ ہی کو بالکل لا جواب اور زبوں حال پارہے ہیں لہذا ضرورت اس کی ہے کہ پختہ طور سے حقیقت معلمو ہو جائے تاکہ ہم حاضرین جلسہ اور با فہم سامعین جس طریقے کو حق پائیں اس کی پیروی کریں۔

حافظ : ( نواب سے ) یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ ہم کو لا جواب اور مغلوب سمجھ رہے ہیں، بلکہ فاضل مقرر کی اخلاقی کشش ، زبان آوری اور حسن بیان نے ہم کو خاموش کر دیا ہے کیونکہ ہم ادب کا لحاظ کرتے ہوئے عزیز مہمان کو تکلیف نہیں دینا چاہتے۔ ورنہ ابھی تو ہ نے بنیادی گفتگو شروع ہی نہیں کی ہے۔ اور اگر ہم پوری طرح بحث کرنے پر آجائیں گے تو مدلل بیانات کے ذریعے آپ دیکھیں گے کہ حق ہمارے ہی ساتھ ہے اور ہمارے ہی دلائل سے حقیقت ثابت ہوتی ہے۔

نواب : ( حافظ صاحب سے) ہم نے آج کی شب تک جو کچھ آقائی قبلہ سلطان الواعظین صاحب سے سنا ہے سب کا سب مطابق عقل اور دلیل و برہان کے ساتھ اور آپ کو اس منطق اور دلیل کے مقابلے میں بے بس پایا۔ پھر بھی اگر آپ فرماتے ہیں کہ کچھ دلائل ہیں تو قطعا آپ کو ٹھہرنا چاہیے اور وہ دلیلیں قائم کرنا چاہئیے۔ میں آپ سے صاف صاف کہہ دیتا ہوں اور خطرے سے آگاہ کئے دیتا ہوں کہ انراتوذں کی گفتگو اور رسائل و اخبارات میں اس کی اشاعت سے اکثر لوگوں کے عقیدے پلٹ گئے ہیں۔ اور اگر کما حقہ حق کا اظہار نہ کیجئے گا تو قطعا آپ کی بانی شریعت کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔

( اس وقت جلسے پر ایک حیرت انگیز سکوت طاری ہوگیا۔ پھر تھوڑی خاموشی کے بعد)

۲۷۹

حافظ : ( اترے ہوئے چہرے کے ساتھ نواب سے) آپ ان مہمان عزیز مولانا صاحب ہی کا کچھ خیال کیجئے کہ وہ جیسا خود فرما چکے ہیں، مشہد مقدس کو جارہے ہیں، ان کا وقت بھی عزیز ہے گویا وہ روانگی پر بالکل تیار تھے محض ہماری خاطر سے ٹھہر گئے ہیں لہذا یہ ادب و اخلاق کے خلاف ہے کہ ہم ان کو اور زیادہ زحمت دیں۔

خیر طلب: میں آپ کی عنایت کا بہت ممنون ہوں، میری روانگی کے متعلق جو آپ نے فرمایا درست ہے لیکن اس وقت چاہے جتنا اہم کام در پیش ہو دینی خدمات کے مقابلے میں میں اس کو ہیچ سمجھتا ہوں، میری طرف سے کوئی عذر نہیں ہے۔ اگر آپ حضرات پورے سال بھر بھی تشریف رکھیں تو میں حاضر رہوں گا اس لیے کہ ہمارا فرض یہی ہے ہے کہ جب حق بے نقاب نہ ہو جائے برابر اپنی ذمہ داری پوری کرتے رہیں۔ اس فریضے کے علاوہ مجھ کو اہل علم کی صحبت سے بھی خوشی ہوتی ہے کیونکہ اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ خصوصا جناب عالی نے تو اپنے اخلاق سے مجھ کو گردیدہ بنالیا ہے۔ فقط میں محترم میزبان جناب مرزا یعقوب علی خان سے ضرور کافی شرمندہ ہوں کہ ہماری وجہ سے ان کو زحمت اٹھانا پڑی۔

( برادران محترم مرزا یعقوب علی خان، ذوالفقار علی خان اور عدالت علی خان نے جو سر برآوردہ قزلباش حضرات میں سے ہیں ایک ساتھ بے چین ہو کر آواز بلند کی کہ ہم کو آپ سے ایسی باتون کی امید نہیں تھی، ہم مکان کے مالک نہیں ہیں بلکہ آپ کے خدمت گزار ہیں اگر جناب عالی زندگی بھر اس مکان میں قیام فرمائیں تو ہم کوئی زحمت نہ ہوگی بلکہ آپ کا وجود ہمارے لیے باعث فخر ہوگا۔

( پشاور کے مژفاء میں سے جناب آقا سید محمد شاہ اور علمائے شیعہ میں سے جناب مولوی سید عدیل اختر صاحب نے فرمایا کہ اگر ممکن ہو تو چند شب اس دینی بزم سے ہمارے گھر کو سرفراز فرمائیے۔)

( آقا مرزا یعقوب علی خان نے فرمایا یہ ناممکن ہے، جب تک قبلہ سلطان الواعظین پشاور میں ہیں اور یہ جلسے قائم ہیں اسی جگہ رہنا چاہئیے۔)

خیر طلب : میں تمام حضرات کا عموما اور محترم میزبانوں کا خصوصا انتہائی شکر گزار اور ممنون ہوں۔

حافظ : تھوڑے سکوت کے بعد، کوئی حرج نہیں ہے، جب آپ حضرات کی یہی خواہش ہے تو ہم چند روز اور ٹھہر جائیں گے۔ لیکن جیسا کہ قبلہ صاحب نے فرمایا ہر شب یہاں مجمع کا اکٹھا ہونا باعث رحمت ہے، بہتر ہوگا کہ اب ہماری قیام گاہ کو مباحثات کا مرکز قرار دیجئے تاکہ پوری ہم آہنگی حاصل ہوجائے۔

خیر طلب : مجھ کو کوئی اصرار نہیں ہے کہ آپ حضرات ضرور ہی یہاں تشریف لائیں۔ چونکہ اس مکان میں کافی وسیع عمارت اور باغ موجود ہے جو اس مجمع کے لحاظ سے بہت مناسب ہے۔ ۔لہذا آپ ہی حضرات نے اس کو منتخب کیا تھا،ورنہ میری طرف سے کوئی عذر نہیں ہے۔ آپ جس جگہ کے لیے حکم دیں میں خوشی سے حاضری دوں گا۔

میرزا یعقوب علی خان : اس مکان اور جماعت قزلباش کی طرف سے کوئی مانع نہیں ہے۔ اگرچہ جناب حافظ صاحب تازہ وارد میں اور ہمارے حال سے واقفیت نہیں رکھتے، لیکن یہاں کے تمام باشندے جانتے ہیں کہ قزلباش لوگ بالعموم

۲۸۰

قوم کے خادم ہیں اورمہمانوں کی خاطر و تواضع اور خدمت سے گریز نہیں کرتے، پھر یہ مکان ہمیشہ سے آنے والوں کا مرکز رہا ہے، الخصوص جب سے اس کو یہ رونق عطا کی گئی ہے، علمی صحبت اور دینی و مذہبی بحث ومناظرہ سب کو زیادہ سے زیادہ مسرور متشکر کہ رہا ہے۔

حافظ : باوجودیکہ میرے لیے پشاور میں ٹھہرنا بہت دشوار ہے کیونکہ وطن میں بہت سے کام معطل پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن آپ حضرات کی تعمیل ارشاد کے لیے منظور کرتا ہوں۔ پس اب ہم لوگ انشاء اللہ کل شب تک کےلیے رخصت ہوتے ہیں۔

ساتویں نشست

( شب پنجشنبہ 29 رجب سنہ1345 ہجری)

(شام کے بعد سب حضرات تشریف لائے اور معمولی بات چیت اور چائے نوشی کے بعد مولوی صاحبان کی طرف سے گفتگو شروع ہوئی۔)

سید عبدالحی : ( امام جماعت اہل سنت) قبلہ صاحب چند راتیں قبل آپ نے کچھ بیانات فرمائے تھے۔ جن پر قبلہ جناب حافظ صاحب نے آپ سے دلیل مانگی تھی لیکن آپ نے یا تو حیلہ سازی سے کام لیا یا علمی اصطلاحات سے ہم کو مغالطے میں ڈال دیا اور مطلب خبط ہوگیا۔

خیر طلب : فرمائیے کون سامطلب تھا اور آپ کو کون سا سوال بغیر جواب کے رہ گیا؟ میری نظر میں نہیں ہے آپ یاد دلا دیجئے۔

سید : کیا آپ نے چند شب قبل یہ نہیں فرمایا تھا کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ رسول خدا(ص) کے ساتھ اتحاد نفسانی رکھتے تھے لہذا تمام انبیاء سے افضل تھے؟

خیر طلب: صحیح ہے۔ میرا بیان اور عقیدہ یہی تھا اور ہے۔

سید : پھر آپ نے ہمارے اشکال کا جواب کیوں نہیں دیا؟

خیر طلب : آپ کو سخت غلط فہمی ہے۔ آپ سے تعجب ہے کہ تمام راتوں میں ہمہ تن گوش رہے پھر بھی مجھ کو جلد سازی اور مغالطہ بازی کا الزام دے رہے ہیں۔ کوئی حیلہ اور مغالطہ قطعا نہیں تھا بلکہ بمقتضائے الکلام یجر الکلام بات سے بات نکل آئی تھی۔ اگر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ میں نے کوئی غیر متعلق بات نہیں کہی تھی مولوی صاحبان نے کچھ سوالات کئے

۲۸۱

تھے جن کا جواب دینا میرا فرض تھا۔ اب آپ کا جو سوال ہو بیان فرمائیے میں بتائید الہی جواب کے لیے حاضر ہوں۔

سید : ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ دو ذاتوں کا ؟؟؟ میں متحد ہونا کیونکر ممکن ہے؟ اور پھر ان کے درمیان ایسا نفسانی اتحاد پیدا ہوجائے کہ دونوں ایک ہوجائیں۔

اتحاد مجازی و حقیقی میں فرق

خیر طلب : ظاہر ہے کہ دو ذاتوں کےدرمیان حقیقی اتحاد محال اور باطل ہے ۔ اس کا ناممکن ہونا اپنیجگہ پر ثابت بلکہ بدیہیات اولیہ میں سے ہے۔ پس اتحاد کا دعوی صرف مجاز اور مبالغہ کلام کی حیثیت سے ہے۔

اس لیے کہ دو شخص جب آپس میں شدید محبت یا کسی جہت سے مشابہت رکھتے ہیں تو اکثر اتحاد کا دعوی کرتے ہیں عرب و عجم کے بڑے بڑے۔۔۔۔ ادیبوں اور شاعروں کے کلام میں اس طرح کے مبالغے بہت ہیں یہاں تک کہ اولیائے خدا کے کلمات میں بھی کافی نظر آتے ہیں ۔ من جملہ ان کے حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی طرف منسوب دیوان کے اندر ارشاد ہے۔

هُمُومُ رِجَالٍ فِي أُمُورٍكَثِيرَةٍوَهَمِّي مِنَ الدُّنْيَاصَدِيقٌ مُسَاعِدٌ

يَكُونُ كَرُوحٍ بَيْن َجِسْمَيْنِ قُسِّمَتْ فَجِسْمُهُمَاجِسْمَانِوَالرُّوحُوَاحِدٌ

یعنی مردان عالم کہ ہمتیں بہت سے مختلف امور میں ہوتی ہیں اور میرا مقصد صرف ایک ہمدرد دوست ہے جو دو جسموں میں ایک روح کے مانند ہو۔ پس ہمارے جسم دو ہیں اور روح ایک ہو۔

مجنون عامری کے حالات میں مشہور ہے کہ جب اس کی فصد کھولنا چاہی تو اس نے کہا میری فصد نہ کھولو اور نہ مجھ کو خوف ہے کہ نشر میری لیلی کو لگ جائے گا کیونکہ وہ میری ہر رگ دپے میں پیوست ہے۔ چنانچہ ادیبوں نے اس مطلب کو نظم بھی کیا ہے۔

گفت مجنون من نمی ترسم زینش صبر من از کوہ سنگین است و بیش

لیک از لیلی وجود من پر است این صدف پر از صفات آن در است

وندآن عقلی کہ آن دل روشنی استدرمیان لیلی و من فرق نیست

ترسم اے فصاد چون فصدم کنی نیش را ناگاہ بر لیلی زنی

من کیم لیلی و لیلی کیست من مایکی روحیم اندر دو بدن

روحہ روحی و روحی روحہ من یری الروحین عاشافی البدن

۲۸۲

عربی شعر کا مطلب یہ ہے کہ اس کی روح میری روح اور میری روح اس کی روح ہے۔ کس نے دیکھا ہے کہ دو روحیں ایک ایک بدن میں زندگی بسر کرتی ہوں۔ یعنی در حقیقت ایک روح ہے جو دو بدنوں میں مقیم ہے۔

اگر ارباب ادب کی کتابیں ملاحظہ فرمائیے تو مبالغے کی حیثیت سے مجازا اس قسم کے تعبیرات بکثرت ملیں گے۔ چنانچہ ایک شیرین بیان ادیب اور شاعر نے نظم کیا ہے۔

أنامن أهوى ومنأهوىأنانحنروحانحللنابدنا

فإذاأبصرتنى أبصرته وإذاأبصرته كان أنا

یعنی میں اور میرا معشوق دونوں ایک ہیں۔ ہماری درود ہیں ایک جسم میں حلول کئے ہوئے ہیں۔ لہذا اگر تم نے مجھ کو دیکھا تو اس کو دیکھ لیا اور اگر اس کو دیکھا تو وہ میں ہی ہوں۔

پیغمبر علی(ع) کا اتحاد نفسانی

تمہید میں اس سے زیادہ آپ حضرات کا وقت نہیں لوںگا۔ اب نتیجہ یہ اخذ کرتا ہوں کہ اگر میں نے یہ عرض کیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اتحاد نفسانی رکھتے تھے تو آپ کا خیال اتحاد حقیقی کی طرف نہ جانا چاہئیے کیونکہ کسی نے حقیقی اتحاد کا دعوی نہیں کیا ہے اور اگر کوئی ایسے اتحاد کا قائل ہو تو یہ قطعا غلط اور درجہ اعتبار سے ساقط ہوگا۔ پس یہ اتحاد مجاز کی حیثیت سے ہے نہ کہ حقیقتا اور اس سے روح وکمالات کی شرکت مراد ہے۔ نہ کہ جسم کی اور یہ مسلم ہے کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام تمام فضائل و کمالات اور صفات میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شریک تھے۔ الا ما خرج بالنص والدلیل ( سوا ان چیزوں کے جو نص اور دلیل کے ساتھ مستثنی ہیں۔)

حافظ : پس اس قاعدے کی رو سے محمد(ص) و علی(ع) دونوں کو پیغمبر ہونا چاہئیے اور آپ کی یہ گفتگو ثابت کررہی ہے کہ علی(ع) بھی پیغمبری میں شریک تھے اور لازمی طور سے دونوں پر برابر وحی بھی نازل ہوتی تھی۔

خیر طلب : یہ آپ نے کھلا ہوا مغالطہ دیا ہے۔ جو آپ کہہ رہے ہیں ایسا نہیں ہے۔ ہم یا کوئی شیعہ ہرگز یہ عقیدہ نہیں رکھتا۔ آپ سے یہ امید نہیں تھی کہ کٹ حجتی کر کے جلسے کا وقت ضائع کریں گے تاکہ کہی ہوئی باتیں پھر دہرائی جائیں میں نے ابھی ابھی عرض کیا ہے کہ تمام کمالات میں متحد ہیں الا ما خرج بالنص و الدلیل سوا اس چیز کے جو نص اور دلیل سے مستثنی ہیں اور وہ یہی نبوت خاصہ اور اس کے شرائط کا مقام ہے جس میں احکام اور وحی کانزول بھی ہے۔ غالبا آپ گذشتہ راتوں کے بیانات بھول چکے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو رسائل و اخبارات کی اشاعتیں ملاحظہ فرمالیجئے نظر آجائے گا کہ گذشتہ شبوں میں ہم نے حدیث منزلت کے ضمن میں ثابت کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام منصب نبوت کے اہل تھے

۲۸۳

لیکن خاتم الانبیاء کے دین و شریعت کے پیرو اور پابند تھے لہذا حضرت پر وحی کا نزول نہیں ہوتا تھا اور آپ کی منزلت وہ تھی جو حضرت موسی کے زمانے میں ہارون کو حاصل تھی۔

حافظ : جب آپ جملہ فضائل و کمالات میں شرکت اور برابری کے قائل ہوگئے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نبوت اور شرائط نبوت میں بھی مساوات کا عقیدہ ہونا چاہیئے۔

خیر طلب : بظاہر ممکن ہے ایسا معلوم ہوتا ہو لیکن تھوڑا غور کیجئے گا تو ظاہر ہوجائے گا کہ مطلب اس کے علاوہ ہے جیسا کہ پچھلی راتوں میں ہم ثابت کرچکے ہیں کہ آیات قرآنی کے حکم سے نبوت کے بھی مختلف درجے ہیں اور انبیاء و مرسلین اپنے مراتب کے لحاظ سے ایک دوسرے پر افضلیت رکھتے ہیں چنانچہ قرآن مجید میں صریحا ارشاد ہے " تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنابَعْضَهُمْ عَلى بَعْضٍ " ( یعنی ہم نے انبیاء و مرسلین میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اور تمام مراتب انبیاء سے اکمل نبوت خاصہ محمدیہ کا مرتبہ ہے اس وجہ سے آیت نمبر40 سورہ نمبر 32 ( احزاب) میں ارشاد ہے۔

"ماكانَ مُحَمَّدٌأَباأَحَدٍمِنْ رِجالِكُمْ وَلكِنْ رَسُولَ اللَّه ِوَخاتَمَ النَّبِيِّينَ " ( یعنی محمد(ص) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن خدا کے رسول اور پیغمبروں کے خاتم ہیں۔)

یہی نبوت خاصہ کا کمال ہے جو خاتمیت کا سبب بنا پس اس کمال خصوصی میں کسی اور کو دخل نہیں ہے، لیکن دوسرے کمالات میں شریک یا مساوات پائی جاتی ہے جس کے ثبوت میں بے شمار دلائل و براہین موجود ہیں۔

سید : آیا اس دعوے کے ثبوت میں آپ کے پاس قرآن مجید سے بھی کوئی دلیل ہے؟

آیہ مباہلہ سے استدلال

خیر طلب : کھلی ہوئی بات ہے، البتہ ہماری پہلی دلیل قرآن مجید سے ہے جو ایک مضبوط آسمانی سند ہے۔ اور قرآن مجید میں سب سے بڑی دلیل آیہ مباہلہ ہے جس میں صریحی ارشاد ہے:

"فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِماجاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْانَدْعُ أَبْناءَناوَأَبْناءَكُمْ وَنِساءَناوَنِساءَكُمْ وَأَنْفُسَناوَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبِينَ "

( یعنی پس جو شخص وحی کے ذریعے تمہارے پاس علم آجانے کے بعد عیسی کے بارے میں تم سے مجادلہ کرے تو اس سے کہدو کہ آئو ہم اور تم اپنے بیٹوں اپنی عورتوں اور اپنے اقربا کو جو جان کے برابر ہیں، جمع کر کے آپس میں مباہلہ کریں۔ ( یعنی ایک دوسرے کے لیے نفرین اور بد دعا کریں) تاکہ جھوٹوں کو عذاب خدا میں گرفتار کریں۔)

آیت نمبر54 سورہ نمبر3 ( آل عمران) آپ کے خاص خاص اور بزرگ علماء و مفسرین جیسے امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں، امام ابو اسحق ثعلبی نے تفسیر کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں، قاضی بیضاوی نے انوار التنزیل میں، جار اللہ زمخشری نے کشاف میں، مسلم بن حجاج نے صحیح میں، ابو الحسن فقیہہ نے ابن مغازلی شافعی واسطی نے مناقب

۲۸۴

میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاء میں، نوالدین مالکی نے فصول المہمہ میں، شیخ الاسلام حموینی نے فرائد میں، ابولمئوئد خوارزمی نے مناقب میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں، محمد بن طلحہ نے مطالب السئول می، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں اور دوسروں نے بھی الفاظ اور عبارت کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ اس آیت کا نزول مباہلے کے روز لکھا ہے جو ذوالحجہ کی چوبیس(24) یا پیچیس (25) تاریخ تھی۔

نصارائے نجران سے پیغمبر(ص) کا مباحثہ

جب خاتم الانبیاء نے نجران کے عیسائیوں کو اسلام کی دعوت دی تو ان کے بڑے بڑے علماء جیسے سید عاقب جاثلیق اور علقمہ وغیرہ جو ستر سے بھی زیادہ تھے اپنے تقریبا تین سو پیروئوں کے ساتھ مدینے آئے اور متعدد نشستون میں پیغمبر(ص) کے ساتھ علمی مناظرے کئے لیکن آنحضرت(ص) کے مفصل اور مضبوط دلائل کے سامنے لا جواب ہوگئے اس لیے کہ آنحضرت(ص) نے ان کی معتبر کتابوں سے اپنی حقانیت اور اس بات پر کہ حضرت عیسی نے آثار اور علامات کے ساتھ آں حضرت(ص) کے آنے کی خبر دی ہے اور نصاری ان اخبار کی روسے ایسے ظہور کے منتظر ہیں کہ اونٹ پر سوار ہو کر ( مکے میں ) فاران کے پہاڑوں سے ظاہر ہو کر عیر اور احد کے ( جو مدینے میں ہے) درمیان ہجرت کریں گے ایسی قوی دلیلیں دین کہ سوا سپر انداختہ ہوجانے کے اور کوئی چارہ نہ تھا لیکن مسند اور اقتدار کی محبت نے قبول نہ کرنے دیا۔ جب انہوں نے اسلام اور معقولیت سے روگردانی کی تو رسول خدا(ص) نے بحکم الہی ان کے سامنے مباہلے کی تجویر رکھی تاکہ سچے اور جھوٹے میں امتیاز ہوجائے، نصاری نے اس کو مان لیا اور یہ امر دوسرے دن پر رکھا گیا۔

مباہلے کے لیے نصاری کی تیاری

حسب وعدہ دوسرے روز عیسائیوں کی ساری جماعت انے ستر نفر سے زیادہ علماء کےساتھ دروازہ مدینہ کے باہر پہاڑ کے کے دامن میں ایک طرف کھڑی ہوئی منظر تھِی کہ رسول اللہ(ص) ان کو مرعوب کرنے کے لیے لازمی طور پر انتہائی شان و شوکت و پورے سازو سامان اور کثیر مجمع کے ساتھ تشریف لائیں گے۔

اتنے میں قلعہ مدینہ کا دروازہ کھلا اور خاتم الانبیاء(ص) اس حالت سے باہر آئے کہ ایک جوان داہنی طرف ایک با وقار برقع پوش عورت بائیں طرف اور دو بچے آگے آگے تھے یہاں تک کہ نصاری کے مقابل ایک درخت کے

۲۸۵

نیچے قیام فرمایا ( اور کوئی دوسرا شخص ان کے ساتھ نہیں آیا تھا) سب سے بڑے نصرانی عالم اسقف نے مترجمین سے پوچھا کہ محمد(ص) کے ہمراہ یہ کون لوگ آئے ہیں؟ انہوں نے کہا وہ جوان ان کا داماد اور پسر عم علی ابن ابی طالب ، وہ عورت ان کی بیٹی فاطمہ(س) اور وہ دو بچے ان کے نواسے حسن (ع) و حسین(ع) ہیں۔

اسقف نے نصرانی عالموں سے کہا کہ دیکھ محمد(ص) کس قدر مطمئن ہیں کہ اپنے فرزندوں اور قریب ترین خاص عزیزوں کو مباہلے میں لاکر معرض بلا میں ڈال دیا ہے قسم خدا کی اگر ان کو اس بارے میں ذرا بھی شک و شبہ یا خوف ہوتا تو ہرگز ان کو منتخب نہ کرتے اور حتما مباہلے سے گریز کرتے یا کم از کم اپنے اعزہ کو اس خطرے سے الگ رکھتے۔، اب ان سے مباہلہ کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔ اگر قیصر روم کا خوف نہ ہوتا تو ہم ایمان لے آتے۔ پس مصلحت اسی میں ہے کہ ہم لوگ جن شرائط پر وہ چاہیں ان سے صلح کر لیں اور اپنے وطن کو پلٹ جائیں۔ سب نے کہا کہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ چنانچہ اسقف نے آںحضرت(ص) کے پاس پیغام بھیجا کہ " انا لا يباهلک يا اباالقاسم " ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ صلح چاہتے ہیں۔ آنحضرت(ص) نے بحی اس کو منظور فرمایا امیرالمومنین(ع) کے قلم سے اس شرط پر صلح نامہ لکھا کہ وہ لوگ دو ہزار اورانی حلے جن میں سے ہر ایک کی قیمت چالیس (40) درہم ہو اور ایک ہزار مثقال سونا ادا کریں، اس مطالبے کا نصف محرم میں اور نصف رجب میں پورا کریں۔ اس کے بعد طرفین کے دستخط ہوئے اور وہ لوگ واپس ہوئے راستے میں ان کے عالم عاقب نے اپنے ہمرہیوں سے کہا کہ قسم خداکی ہم اور تم جانتے ہیں کہ یہ محمد(ص) وہی پیغمبر(ص) موعود ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں خدا کی طرف سے کہتے ہیں ( اللہ جن لوگوں نے بھی کسی پیغمبر سے مباہلہ کیا ہے وہ ہلاک ہوئے ہیں اور ان کا کوئی چھوٹا بڑا زندہ نہیں بچا ہے۔ اگر ہم لوگ بھی مباہلہ کرتے تو قطعا سب کے سب ہلاک ہوجاتے اور روئے زمین پر کوئی عیسائی باقی نہ رہتا۔ خدا کی قسم جب میں نے ان لوگوں پر نظر ڈالی تو ایسی صورتیں دیکھیں کہ اگر خدا سے دعا کر دیتے تو پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جاتے۔

حافظ : جو کچح آپ نے بیان فرمایا سب درست ہے اور سارے مسلمان اس کو مانتے ہیں۔ لیکن ان باتوں کو ہمارے موضوع بحث سے کیا ربط ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ رسول خدا(ص) کے ساتھ اتحاد نفسانی رکھتے ہیں؟

خیر طلب : اس آیت میں ہپمارا استدالل جملہ انفسنا سے ہے کیونکہ اس قضیہ میں کئی اہم مطالب ظاہر ہوتے ہیں ۔ اولا حقانیت رسول خدا(ص) کا اثبات ہے کہ اگ حق پر نہ ہوتے تو مباہلے کی جرائت نہ فرماتے اور بڑے بڑے مسیحی علماء میدان مباہلہ سے فرار نہ کرتے ۔ دوسرے یہ کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام حسن و امام حسین علیہما السلام رسول اللہ(ص) کے فرزند ہیں ( جیسا کہ ہم پہلی شب میں اشارہ کرچکے ہیں) تیسرے اس آیہ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ علی (ع) و فاطمہ(س) اور حسن(ع) و حسین علیہم السلام حضرت ختمی مرتبت کے بعد سارے مخلوقات سے افضل اور آن حضرت(ص) کے نزدیک تمام انسانوں میں عزیز ترین تھے۔ جیسا کہ آپ کے سارے متعصب علماء جیسے زمخشری بیضاوی اور فخر الدین رازی وغیرہ نے بھی لکھا ہے اور خصوصیت سے جار اللہ زمخشری نے اس آیہ شریفہ کے ذیل میں مذکورہ بالا تفصیل کے ساتھ اس پنجتن

۲۸۶

آل عبا(ع) کے اجتماع سے کئی حقیقتوں کا تذکرہ کیا ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں یہ آیت اتنی زبردست دلیل ہے کہ پیغمبر(ص) کے ساتھ جادر کے نیچے جمع ہونے والے پنچ تن پاک (ع) کی افضلیت پر اس سے قوی دلیل اور کوئی نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام جملہ اصحاب رسول(ص) سے بلند اور افضل تھے۔ اس دلیل سے کہ خدائے تعالی نے آیہ شریفہ میں ان کو نفس رسول(ص) قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انفسنا سے خود حضرت خاتم الانبیاء(ص) کا ذاتی نفس مراد نہیں ہے۔ کیونکہ بلانا کسی دوسری ہستی کو چاہتا ہے اور انسان کو ہرگز یہ حکم نہیں دیا جاتا کہ خود اپنے کو بلائے۔ پس ضروری ہے کہ کسی اور کو دعوت دینا مقصود ہو جو پیغمبر(ص) کے لیے بمنزلہ نفس ہو۔ چونکہ فریقین ( شیعہ و سنی) کے موثق مفسرین ، محدثین کا اتفاق ہے کہ مباہلے میں آنحضرت(ص) کے ہمراہ علی، حسن و حسین اور فاطمہ علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور موجود نہ تھا لہذا جملہ ابناء نا و ابناءکم سے حسنین علیہم السلام اور نساءنا و نساءکم سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا خارج ہوجاتے ہیں اور دوسرا شخص جو انفسنا سے مراد لیا جائے اس مقدس گروہ میں سوا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کےکوئی نہیں تھا پس اس جملہ انفسنا سے محمد(ص) علی علیہما السلام کے درمیان اتحاد نفسانی ثابت ہوتا ہے کہ حق تعالی نے علی(ع) کو نفس محمد(ص) فرمایا ہے اور چونکہ دو نفسوں میں اتحاد حقیقی محال ہے لہذا قطعا مجازی اتحاد مراد ہے۔

آپ حضرات بہتر جانتے ہیں کہ علم اصول میں لفظ کو مجاز بعید کے مقابلے میں قریب تر مجاز پر حمل کرنا اولی ہے اور قریب تر مجاز جملہ امور اور سارے کمالات میں شرکت ہے سوا اس کے جو دلیل سے خارج ہوجائے اور ہم پہلے ہی بیان کرچکے ہیں کہ جو چیز دلیل اور اجماع سے خارج ہے وہ آنحضرت(ص) کی نبوت خاتمہ اور نزول وحی ہے لہذا ہم علی علیہ السلام کو اس خصوصیت میں پیغمبر(ص) کا شریک نہیں جانتے ہیں لیکن بحکم آیہ شریفہ دیگر کمالات میں شریک ہیں، اور قطعا مبدا فیاض سے پیغمبر(ص) کے ذریعے علی(ع) کو علی الاطلاق فیض پہنچا اور یہ خود اتحاد نفسانی کی دلیل ہے جو ہمارا مدعا ہے۔

حافظ : آپ کہاں سے کہہ رہے ہیں کہ اپنے نفس کو مجازا دعوت دینا مراد نہیں ہے اور یہ مجاز دوسرے مجاز سے اولی نہیں ہے؟

خیر طلب : میری درخواست ہے کہ خواہ مخواہ اختلاف کر کے جلسے کا وقت ضائع نہ کیجئے اور اںصاف کے راستے سے نہ ہٹئے۔ حق پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ جب کوئی بات اپنی منزل تک پہنچ جائے تو اس کو چھوڑ کر آگے بڑھئے آپ جیسے جلیل القدر اور منصف عالم سے ہم قطعا مجادلے اور کٹ حجتی کی امید نہیں رکھتے ۔ کیونکہ آپ خود جانتے ہیں اور صاحبان علم و فضل کے نزدیک ثابت ہے کہ مجازا نفس کا اطلاق دوسرے مجاز سے زیادہ مستعمل ہے اور عرب و عجم کے فضلاء و ادباء اور شعراء کی زبان اور کلام میں کافی رواج ہے کہ مجازا اتحاد کا دعوی کرتے ہیں جیسا کہ پہلے عرض کرچکا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ تم میری جان کی جگہ پر ہو اور خصوصیت سے اخبار و احادیث کی زبان میں یہ بات حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے بارے میں کثرت سے وارد ہوئی ہے جو مقصد کے اثبات میں الگ الگ ایک مستقل دلیل ہے۔

۲۸۷

اتحاد پیغمبر(ص) و علی(ع) پر اخبار و احادیث کے شواہد

من جملہ امام احمد ابن حنبل مسند میں، ابن مغازلی فقیہہ شافعی نے مناقب میں اور موفق بن احمد خطیب خوارزم مناقب میں نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) مکرر فرماتے تھے:

" عليّ منّي وأنامنه من أحبه فقدأحبني ومن أحبني فقدأحب اللّه"

یعنی علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں جو شخص ان کو دوست رکھے اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جو شخص مجھ کو دوست رکھے اس نے خدا کو دوست رکھا۔

ابن ماجہ نے سنن جزو اول ص92 میں، ترمذی نے صحیح میں، ابن حجر نے ان چالیس حدیثوں میں سے جو صواعق میں فضائل امیرالمومنین (ع) میں نقل کی ہیں چھٹی حدیث میں امام احمد و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ سے۔ امام احمد ابن حنبل نے مسند جلد چہارم ص164 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب 68 میں ، مسند بن ہماک جز چہارم اور معجم کبیر طبرانی سے ، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص میں اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب 7 میں مشکوۃ سے سب نے جیش بن جنادہ سلونی سے روایت کی ہے کہ سفر حجتہ الوداع میں عرفات کے اندر رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

"عليّ منّي وأنامن علی،ولايؤدّي عنّي إلّاأناأوعليّ"

یعنی علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سےہوں اور میری طرف سے کوئی ادا نہیں کرتا ہے ( یعنی میرے فرض تبلیغ کو انجام نہیں دیتا ہے) سوا میرے یا علی(ع) کے۔

سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب7 میں زوائد مسند عبداللہ بن احمد بن حنبل سے بسند ابن عباس نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے ( ام المومنین) ام سلمی رضی اللہ عنہا سے فرمایا :

"عَلِيٌ مِنِّي ،وَأَنَامِنْ عَلِيٍ ،لَحْمُهُ لَحْمِي،وَدَمُهُ دَمِي،وَهُوَمِنِّي بِمَنْزِلَةِهَارُونَ مِنْ مُوسَى،يَاأُمَّ سَلَمَةَ،اسْمَعِي وَاشْهَدِي،هَذَاعَلِيٌّ سَيِّدُالْمُسْلِمِينَ."

یعنی علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں ان کا گوشت اور خون میرے گوشت اور خون سے ہے اور وہ مجھ سے بمنزلہ ہارون(ع) ہیں موسی سے اے ام سلمہ سنو اور گواہ رہو کہ یہ علی(ع) مسلمانوں کے سید و آقا ہیں۔

حمیدی نے جمع بین الصحیحن میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا

"علي مني وأنامنه و علی منی بمنزلة الراس من البدن من اطاعه فقد اطاعنی و من اطاعنی فقد اطاع الله "

یعنی علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں علی(ع) مجھ سے بمنزلہ سر ہیں بدن سے۔ جس نے ان کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی۔

محمد بن جریر طبری اپنی تفسیر میں اور میر سید ہمدانی فقیہ شافعی مودۃ القربی ہشتم میں رسول اکرم(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا :

"ان الله تبارک و تعالی اسد هذا الذين بعلی و انه منی و انا منه و فيه انزل أَفَمَنْ كانَ

۲۸۸

عَلى بَيِّنَةٍمِنْ رَبِّه ِوَيَتْلُوهُ شاهِدٌمِنْهُ "

یعنی در حقیقت خدائے تعالی نے اس دین کی علی(ع) کے ذریعے تائید فرمائی ہے کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں اور ان کے بارے میں آیہ شریفہ نمبر20 سورہ نمبر11 ( ہود) نازل ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر خدا(ص) کی طرف سے قرآن جیسی روشن دلیل رکھتے ہیں اور ان کا ( علی جیسا) سچا گواہ ہے( جو اپنے ہر قول و فعل سے رسالت کی سچائی ثابت کرتا ہے ) اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ کے باب 7 کو اسی موضوع سے مخصوص کیا ہے اس عنوان کےساتھ کہ

" الباب السابع فی بيان ان علیا کرم الله وجهه کنفس رسول الله صلی الله عليه و آله وسلم و حديث علی منی و انا منه "

یعنی ساتوان باب اس بیان میں کہ علی کرم اللہ وجہہ رسول اللہ(ص) کے نفس کے مانند ہیں اور اس حدیث میں کہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی(ع) سے ہوں۔

اس باب میں مختلف طریقوں اور متفاوت الفاظ کے ساتھ رسول خدا(ص) سے چوبیس حدیثیں نقل کرتے ہیں کہ فرمایا علی(ع) میرے نفس کی جگہ پر ہیں اور آخر باب میں مناقب سے بروایتجابر ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ فرمایا علی(ع) میں ایسی خصلتیں ہیں کہ اگر کسی شخص کے لیے ان میں سے ایک بھی ہوتی تو اس کے فضل و شرف کےلیے کافی تھی اور ان خصلتوںسے مراد علی(ع) کے بارے میں رسول اللہ(ص) کے ارشادات ہیں مثلا :

" من كنت مولاه فعلى مولاه -يا علی منی کهارون من موسی، يا علی منی و انا منه.يا علی منی کنفسی طاعته طاعتی و معصيتهمعصيتی يا حرب علی حرب الله و سلم علی سلم الله.يا ولی علی ولی الله وعدو علی عدو الله.يا. علی حجت الله علی عباده.يا حب علی ايمان و بغضه کفر –يا- حزب علی حزب الله و حزب اعدائه حزب الشيطان -يا- علی مع الحق و الحق معه لا يفترقان -يا - علی قسيم الجنة و النار-يا - من فارق عليا فقد فارقنی و من فارقنی فقد فارق الله-يا-شيعه علی هم الفائزون يوم القيمة."

یعنی جس شخص کا میں مولا ہوں پس علی(ع) بھی اس کے مولا ( اس کے امر میں اولی بتصرف ) ہیں۔ علی(ع) مجھ سے مثل ہارون کے ہیں موسی(ع) سے ۔ علی(ع) مجھ سے اور میں علی(ع) سے ہوں۔ علی(ع) مجھ سے مثل میرے نفس کے ہیں ان کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کی نا فرمانی میری نافرمانی ہے۔ علی(ع) کےساتھ جنگ خدا کےساتھ جنگ ہے اور علی (ع) کے ساتھ صلح و آشتی خدا کے ساتھ صلح و آشتی ہے۔ علی(ع) کا دوست خدا کا دوست اور علی کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ علی(ع) خدا کی حجت ہیں اس کے بندوں پر ، علی(ع) کی محبت ایمان اور ان کی عداوت کفر ہے۔ علی(ع) کا گروہ خدا کا گروہ اور ان کے دشمنوں کا گروہ شیطان کا گروہ ہے۔ علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کےساتھ ہے۔دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے ، علی(ع) بہشت و دوزخ کےتقسیم کرنے والے ہیں جو شخص علی(ع) سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوا او جو شخص مجھ سے جدا ہوا وہ خدا سے جدا ہوا۔ علی(ع) کے شیعہ قیامت کے روز رستگار ہیں۔

آخر میں مناقب سے ایک اورمفصل حدیث نقل کرتے ہیں جس کے خاتمے میں ارشاد ہے:

" اقسم بالله الذی

۲۸۹

بعثنی بالنبوة و جعلنی خير البريه انک لحجة الله علی خلقه و امينه علی سره و خليفة الله علی عباده"

یعنی قسم اس خدا کی جس نے مجھ کو نبوت کےساتھ مبعوث کیا اور مجھ کو بہترین خلق قرار دیا۔ در حقیقت تم( اے علی) خدا کی حجت ہو اس کی مخلوق پر اور اس کے امانت دار ہو اس کے راز پر اور خلیفہ خدا ہو اس کے بندوں پر۔

اس قسم کے اخبار و احادیث صحاح اور آپ کی معتبر کتابوں میں بکثرت وارد ہوئے ہیں جو آپ کی نظرسے گذر چکے ہوں گے یا آئندہ ان کا مطالعہ کریں گے تو تصدیق کریں گے کہ یہ سب اس مجاز کا قرینہ ہیں، پس کلمہ انفسنا نسبی و حسبی ظاہری و باطنی اور علمی و عملی کمالات میں حضرت علی علیہ السلام کے انتہائی ارتباط و اتحاد پر واضح دلالت کرتا ہے۔ آپ چونکہ صاحب علم وعقل ہیں لہذا امید ہے کہ انشاء اللہ ضد اور ہٹ دھرمی سے الگ رہ کر تسلیم کریں گے کہ یہ آیہ شریفہ مطلب و مقصود کے اثبات میں، ایک قاطع دلیل ہے۔ اور اسی آیت سے آپ کے دوسرے سوال کا جواب بھی دیا جاتا ہے جب ہم ثابت کرچکے علی علیہ السلام سوا نبوت خاصہ اور نزول وحی کے بحکم آیہ انفسنا خاتم الانبیاء(ص) کےساتھ تمام کمالات میں شریک تھے تو معلوم ہوا کہ آپ کے کمالات مراتب اور خصائص میں سے جملہ صحابہ اور امت پر افضل ہونا بھی ہے اور نہ صرف صحابہ و امت پر افضل تھے بلکہ اسی آیہ مبارکہ کی دلیل اور عقل کے حکم سے انبیاء پر بھی بلا استثناء افضل ہونا چاہئیے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام انبیاء و امت پر افضل تھے۔

چونکہ پیغمبر(ص) انبیاء پر افضل ہیں لہذا علی(ع) بھی ان سے افضل ہیں

اگر آپ اپنی معتبر کتابیں جیسے احیاء العلوم امام غزالی، شرح نہج البلاغہ ابی ابی الحدید ، معتزلی تفسیر امام فخر رازی، تفسیر جار اللہ زمخشری و بیضاوی و نیشاپوری وغیرہ مطالعہ فرمائیے تو دیکھئے گا کہ رسول اکرم (ص) سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ علماء امتی کانبیاء بنیا اسرائیل یعنی میری امت کے علماء انبیائے بنی اسرائیل کے مثل ہیں اور دوسری حدیث میں ارشاد ہے علماء امتی افضل من انبیاء بنی اسرائیل یعنی میری امت کے علماء انبیائے بنی اسرائیل سے افضل و بہتر ہیں۔ اس وقت از روئے انصاف کہنا پڑے گا کہ جب اس امت کے علماء محض اس وجہ سے کہ ان کا علم سر چشمہ علم محمدی کا فیض ہے انبیائے بنی اسرائیل کے مثل یا ان سے بہتر قرار پائے تو علی بن ابی طالب علیہ السلام تو یقینا ان سے افضل ہوں گے کیونکہ ان کے لیے قول رسول (ص) کی یہ نص موجود ہے جس کو آپ کے بڑے علماء نے نقل کیا ہے کہ " انا مدينة العلم وعلی بابها و انا دار الحکمة و علی بابها" یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کے دروازہ ہیں اور میں حکمت کا گھر ہوں اور علی(ع) اس کے دروازہ ہیں۔ اور اس میں ہرگز کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا خود حضرت علی علیہ السلام سے جب اس موضوع پر سوال کیا گیا تو آپ نے افضلیت کے بعض پہلو ظاہر فرمائے۔

۲۹۰

انبیاء سے افضل ہونے کے سبب میں صعصعہ کے سوالات اور حضرت علی(ع) کے جوابات

ماہ رمضان المبارک سنہ40 ھ کی بیسویں تاریخ جب شقی ترین اولین و آخرین ( جیسا کہ رسول اللہ(ص) نے خبر دی تھی) عبدالرحمن ابن ملجم مرادی ملعون کی زہر آلود تلوار کے زخم سے حضرت پر موت کے آثار طاری ہوئے تو اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام سے فرمایا کہ جو شیعہ دروازے پر مجتمع ہیں ان کو اندر بلا لو تاکہ مجھ سے ملاقات کر لیں۔ جب وہ لوگ آئے تو چاروں طرف سے بستر کو گھیر لیا اور حضرت کی حالت پر چپکے چپکے رونے لگے۔ حضرت نے انتہائی ناتوانی کے ساتھ فرمایا : " سلونی قبل ان تفقدونی ولکن خففوا مسائلکم "( یعنی مجھ سے جو چاہو پوچھ لو قبل اس کے کے مجھ کو نہ پائو لیکن سبک اور مختصر سوالات کرو۔ )چنانچہ اصحاب نے باری باری سوال کرتے تھے اور جواب سنتے تھے۔

من جملہ صعصعہ بن صوحان بھی تھے۔ جو ایک سر برآوردہ شیعہ ، کونے کے مشہور خطیب اور بزرگ راویوں میں سے ہیں جن کی روایتوں کو علاوہ شیعہ کے آپ کے بڑے بڑے علماء یہاں تک کہ صاحبان صحاح نے بھی علی علیہ السلام اور ابن عباس سے نقل کیا ہے۔ ان کی سیرت نقل کرنے میں آپ کے کبار علماء جیسے ابن عبدالبر نے استیعاب میں، ابن سعد نے طبقات میں، ابن قتیبہ نے معارف میں اور دوسروں نے بھی کافی تفصیل سے کام لیا ہے اور ان کی توثیق کی ہے کہ ایک عالم و فاضل اور صادق و متدین انسان اور علی علیہ السلام کے اصحاب خاص میں سے تھے۔ صعصعہ نے عرض کیا۔ " اخبرنی انت افضل ام آدم " مجھ کو خبر دیجئے کہ آپ افضل ہیں یا آدم؟ حضرت نے فرمایا " تزکية المرء لنفسهقب ي ح " انسان کے لیے خود اپنی تعریف کرنا اچھا نہیں ہے لیکن بفحوائے و اما بنعمۃ ربک فحدث" ( یعنی اپنے خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو بیان کرو۔)میں کہتا ہوں کہ انا افضل من آدم میں آدم سے افضل ہوں۔ عرض کیا ولم ذالک یا امیرالمومنین کس دلیل سے ایسا ہے؟ حضرت نے مفصل تقریر کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آدم کے لیے بہشت میں رحمت اورنعمت کے سارے وسائل مہیا تھے صرف ایک درخت گندم سے روکے گئے تھے لیکن وہ باز نہ رہے۔ اور اس شجرہ ممنوعہ میں سے کھایا جس کی وجہ سے بہشت اور اللہ کے جوار رحمت سے خارج ہوئے۔ لیکن باوجودیکہ خدا نے مجھ کو گندم کھانے سے منع نہیں فرمایا تھا میں نے چونکہ دنیا کو قابل توجہ نہیں سمجھتا لہذا اپنی مرضی اور ارادے سے گیہوں نہیں کھایا مطلب یہ ہے کہ خدا کے نزدیک انسان کی فضیلت و بزرگی ، زہد و ورع اور تقوی سے ہے۔ دنیا اور متاع دنیا سے جس شخص کی پرہیزگاری جتنی زیادہ ہے یقینا خدا کی بارگاہ میں اس کا قرب و منزلت بھی زیادہ ہے اور زہد کی انتہا یہ

۲۹۱

ہے کہ غیر ممنوع مباح سے بھی پرہیز کرے۔

عرض کیا انت افضل ام نوح آپ افضل ہیںیا نوح؟ قال انا افضل من نوح فرمایا میں نوح سے افضل ہوں عرض کیا لم ذالک کس وجہ سے؟ فرمایا نوح نے اپنی قوم کو خدا کی طرف دعوت دی تو ان لوگوں نے قبول نہیں کیا بلکہ ان بزرگوار کو بہت تکلیفیں پہنچائیں یہاں تک کہ انہوں نے بد دعا کی " رب لا تذر علی الارض من الکافرين ديارا ." ( یعنی پروردگارا روئے زمین میں کافروں مِیں سے کسی باشندے کو زندہ نہ چھوڑ) لیکن مجھ کو خاتم الانبیاء کے بعد امت نے باوجودیکہ اس قدر صدمات اور بے شمار اذیتیں پہنچائیں لیکن میں نے بد دعا نہیں کی بلکہ مکمل صبر اختیار کیا ( جیسا کہ خطبہ شقشقیہ کے ضمن میں فرمایا ہے "صبرت وفی العين قذی و فی الحلق شجی" ( یعنی میں نے صبر کیا در آنحالیکہ آنکھ میں تنکا اور حلق میں ہڈی تھی) کنایہ اس طرف ہے کہ خدا کی طرف سب سے زیادہ قریب وہ ہے جس کا صبر بلا پر سب سے زیادہ ہو۔

عرض کیا انت افضل ام ابراهیم آپ افضل ہیں یا ابراہیم ؟ فرمایا "انا افضل من ابراهیم " عرض کیا لم ذالک؟ ایسا کس لیے ہے؟ فرمایا ابراہیم نے عرض کیا :

" رَبّ ِأَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتى قالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قالَ بَلى وَلكِنْ لِيَطْمَئِنّ َقَلْبِي"

یعنی پروردگارا مجھ کو دکھا دے کہ تو کیوں کر مردوں کو زندہ کرے گا، خدا نے فرمایا کیا تم ایمان نہیں رکھتے عرض کیا ایمان تو رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ ( مشاہدہ کر کے) اطمینان قلب حاصل کروں۔

لیکن میرا ایمان اس منزل پر پہنچا ہوا ہے کہ میں نے کہا " لو کشف الغطا ما ازددت يقينا " یعنی یقینا اگر پردے ہٹا دے جائیں جب بھی میرے یقین میں زیادتی کی گنجائش نہیں۔ مقصد یہ کہ انسان کی رفعت اس کے یقین کے مطابق ہے یہاں تک کہ حق الیقین کی منزل پر پہنچ جائے عرض کیا انت افضل ام موسی آپ افضل ہیں یا موسی؟ قال انا افضل من موسی فرمایا میں موسی سے افضل ہوں عرض کیا۔ کس سبب سے ؟ فرمایا جس وقت خدا نے ان کو مامور کیا کہ مصر جا کر فرعون کو حق کی دعوت دیں تو انہوں نے عرض کیا :

"رَبِ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْساًفَأَخافُ أَنْ يَقْتُلُونِ* وَأَخِي هارُونُ هُوَأَفْصَحُ مِنِّي لِساناًفَأَرْسِلْهُ مَعِي رِدْءاًيُصَدِّقُنِي إِنِّي أَخافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ*"

یعنی خداوندا میں نے ان میں سے ایک شخص کو قتل کیا ہے لہذا ڈرتا ہوں کہ وہ مجھ کو قتل کردیں گے اور میرے بھائی ہارون چونکہ مجھ سے زیادہ خوش بیان ہیں لہذا ان کو میرا شریک کار بنا کر بھیج دے تاکہ وہ میری تصدیق کریں۔ مجھ کو خوف ہے کہ وہ لوگ میری رسالت کو جھٹلائیں گے۔

لیکن جب مجھ کو من جانب خدا رسول اکرم(ص) نے مامور کیا کہ مکہ معظمہ پہنچ کر خانہ کعبہ کی چھت سے سورہ برائت ک شروع کی آیتیں کفار قریش کے سامنے پڑھوں تو باوجودیکہ بہت کم ایسے لوگ تھے جن کے بھائی یا باپ یا چچا یا ماموں یا دوسرے عزیز و قریب میرے ہاتھ قتل نہ ہوچکے ہوں لیکن میں نے قطعا خوف نہیں کیا اور تعمیل حکم کرتے ہوئے تنہا جا کر اپنا فرض انجام دیا اور سورہ برائت ان کوسنا کر واپس آیا۔

اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ انسان کی فضیلت توکل علی اللہ سے ہے جس کا توکل سب سے زیادہ ہے اس کا مرتبہ بھی سب سے زیادہ ہے موسی(ع) نے اپنے بھائی پر بھروسا کیا لیکن امیرالمومنین علیہ السلام نے ذات الہی اور اس کے لطف و کرم پر

۲۹۲

کامل اعتماد رکھا۔

قال انت افضل ام عيسی عرض کیا آپ افضل ہیں یا عیسی ؟ قال انا افضل من عيسی فرمایا میں عیسی سے افضل ہوں۔ قال لم ذالک عرض کیا ایسا کیوں ہے؟ فرمایا جب مریم کے گریباں میں جبرئیل کے دم کرنے سے وہ بقدرت خدا حاملہ ہوگئیں اور وضع حمل کا وقت قریب آیا تو مریم کو وحی ہوئی کہ " اخرجی عن البيت فان هذهبيت العبادة لا بيت الولادة" بیت المقدس سے باہر چلی جائو کیونکہ یہ عبادت کا گھر ہے زچہ خانہ نہیں ہے چنانچہ وہ بیت المقدس سے نکل کر صحرا میں ایک خشک درخت خرما کے نیچے گئیں اور وہیں عیسی(ع) کی ولادت ہوئی۔

لیکن میں جس وقت مسجد الحرام کے اندر میری ماں فاطمہ بن اسد کو درد زہ عارض ہوا تو مستجار کعبہ سے متمسک ہو کر دعا کی خداوندا اس گھر اور اس گھر کے بنانے والے کا واسطہ اس درد کو مجھ پر آسان فرما۔ اس وقت دیوار خانہ کعبہ شگاف پیدا ہوا اور میری ماں فاطمہ کو غیب سے آواز آئی کہ یا فاطمہ ادخلی البیت ۔ ( یعنی اے فاطمہ خانہ کعبہ میں داخل ہو جائو) فاطمہ اندر گئیں اور وہیں میری ولادت ہوئی۔

مراد یہ ہے کہ شرافت انسانی کا پہلا درجہ حسب و نسب اور طہارت مولد ہے۔ جس کی روح ، نفس اور جسم پاکیزہ ہے وہ افضل ہے ( خانہ کعبہ میں داخل ہونے کے لیے فاطمہ کو حکم خدا ہونے اور مریم کو بیت المقدس میں وضع حمل سے منع کرنے سے نیز بیت المقدس پر مکہ معظمہ کی فضیلت کے پیش نظر مریم پر فاطمہ کی اور حضرت عیسی(ع) پر حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت ثابت ہوتی ہے۔)

علی (ع) تمام انبیاء کے آئینہ تھے

نماز کا وقت آگیا لہذا مولوی صاحبان اٹھ گئے۔ ادائے فریضہ اور چائے نوشی وغیرہ کے بعد میں نے سلسلہ کلام شروع کیا) جو کچھ عرض کرچکا اس کے علاوہ خود آپ کے علماء کی معتبر اور موثق کتابوں میں موجود ہے۔ کہ علی علیہ السلام کو تمام انبیاء کے صفات کا آئینہ اور اان کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص449 میں، حافظ ابوبکر فقیہ شافعی احمد بن الحسین بیہقی نے مناقب میں، امام احمد ابن حنبل ے مسند میں، امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں آیہ مباہلہ کے ذیل میں، محی الدین عربی نے کتاب یواقیت و جواہر کے مبحث نمبر32 ص173 میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ شروع باب 40 میں مسند احمد، صحیح بیہقی اور شرح المواقف والطریقہ المحمدیہ سے، نورالدین مالکی نے فصول المہمہ ص121 میں بیہقی سے، محمد طلحہ شافعی نے مطال بالسئول ص22 میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب23 میں الفااظ و عبارات کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ روایت کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

" مَنْ أَرَادَأَنْ يَنْظُرَإِلَى آدَمَ فِي عِلْمِهِ،وَإِلَى نُوحٍ فِي تَقْوَاهُ،(فی حکمته)وَإِلَى

۲۹۳

إِبْرَاهِيمَ فِي خلته(فی حِلْمِهِ)وَإِلَى مُوسَى فِي هَيْبَتِهِ،وَإِلَى عِيسَى فِي عِبَادَتِهِ: فَلْيَنْظُرْإِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِيطَالِبٍ."

یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ آدم کو ان کے علم میں و نوح کو ان کے تقوی یا حکمت میں، ابراہیم کو ان کی خلت یا حلم میں، موسی کو ان کی ہیبت میں اور عیسی کو ان کی عبادت میں دیکھے تو وہ علی ابن ابی طالب(ع) کو دیکھے۔

اور میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت ہشتم میں اس حدیث مبارک کو چند انسانوں کے ساتھ نقل کیا ہے ان کے آخر میں جابر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"فان فيه تسعين خصلة من خصال الانبياء جمعها الله فيه ولم يجمعها فی احد غيره. "

یعنی در حقیقت خدا نے علی(ع) کے اندر انبیاء کی نوے خصلتیں جمع کی ہیں جو دوسرے کو نہیں دیں۔

حدیث تشبیہ کے بارے میں گنجی شافعی کا بیان

شیخ فقیہ محدث شام صدر الفاظ محمد بن یوسف گنجی شافعی یہ حدیث نقل کرنے کے بعد بعنوان قلب ( میرا قول ہے) مزید بیان دیتے ہیں کہ آدم(ع) کے ساتھ ان کے علم میں علی کو تشبیہ اس وجہ سے دی گئی کہ خدا نے آدم کو ہر چیز کا علم اور صفت تعلیم کی تھی جیسا کہ سورہ بقر میں فرماتا ہے: " وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَكُلَّها " (یعنی خدا نے آدم کو سارے اسماء کی تعلیم دی۔ آیت نمبر29 سورہ نمبر4 ( بقرہ) اور اسی طرح کوئی چیز یا حادثہ و واقعہ ایسا نہیں ہے جس کا علم اور اس کے مقصد کا ادراک و استنباط علی(ع) کے پاس نہ ہو اسی علم الہی کا نتیجہ تھا کہ ھضرت آدم خلعت خلافت سے سر فراز ہوئے جیسا کہ آیت نمبر28 سورہ نمبر4 ( بقرہ) میں خبر دیتا ہے کہ " إِنِّي جاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً " ( یعنی میں زمین میں خلیفہ مقرکرنے والا ہوں) پس ہر باذوق انسان آں حضرت(ص) کی اس تشبیہ سے سمجھ سکتا ہے کہ جب یہ علم آدم افضلیت و برتری ، مسجودیت ملائکہ اور منصب خلافت کا سبب بنا تو علی(ع) بھی تمام مخلوقات سے افضل و برتر اور خاتم الانبیاء کے بعد عہدہ خلافت پر فائز ہیں۔

نوح کے ساتھ ان کی حکمت میں تشبیہ دینے سے گویا یہ مراد ہے کہ علی علیہ السلام کفار پر سخت اور مومنین پر مہربان تھے جیسا کہ خدا نے قرآن مجید میں ان کی تعریف فرمائی ہے کہ : " وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُعَلَى الْكُفَّارِرُحَماءُبَيْنَهُمْ "( یہ بات بھی ایک دلیل ہے اس بات پر کہ یہ آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے۔)کیونکہ نوح کفار کے لیے بہت سخت تھے چنانچہ قرآن مجید خبر دے رہا ہے " رب لا تذر علی الارض من الکافرين ديارا ."(یعنی نوح نے عرض کیا کہ خداوندا زمین پر کافروں میں سے کسی باشندے کو نہ چھوڑ) آیت نمبر27 سورہ نمبر71 ( نوح) اور ابراہیم کے ساتھ حلم میں علی(ع) کی تشبیہ دینے سے یہ مقصد ہے کہ قرآن میں ابراہیم علی نبینا و آلہ وعلیہ السلام کا اس صفت کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے " إِنَّإِبْراهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ " ( یعنی درحقیقت ابراہیم یقینا آہ و زاری کرنے

۲۹۴

والے برد بار تھے آیت نمبر115 سورہ نمبر9 (توبہ) یہ تشبیہات ثابت کرتی ہیں کہ علی علیہ السلام اخلاق انبیاء سے آراستہ اور صفات اصفیاء سے متصف تھے۔ انتہی۔

اب آپ حضرات اگر ذرا اںصاف سے غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس فریقین ( شیعہ و سنی) کی متفق علیہ حدیث شریف سے واضح ہوتا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام جملہ ممکن صفات عالیہ کے جامع ہیں جن میں سے ہر صفت انبیاء کی بہترین صفت کے برابر ہے لہذا قاعدے کے روسے ضروری ہے کہ ان سب صفات کے جامع ہونے کی حثیت سے آپ کے سارے انبیاء میں ہرایک سے افضل ہوں اور یہ حدیث ( باستثنائے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) انبیائے عظام پر علی علیہ السلام کی افضلیت کی دوسری دلیل ہے کیونکہ جب آپ ہر نبی کی مخصوص فضیلت و خصلت میں ان کے مساوی ہیں اور دوسروں کے فضائل و خصائل کے بھی حامل ہیں تو لازمی طور پر ہر ایک سے افضل ہوں گے۔ چنانچہ خود محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد اس مطلب کی وضاحت کی ہے اور صاف صاف کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اس حدیث سے علی علیہ السلام کے لیے آدم کا ایسا علم نوح کا ایسا تقوی ابراہیم کا ایسا حلم موسی کی ایسی ہیبت اور عیسی کی ایسی عبادت ثابت فرمائی ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں " و تعلوا هذه الصفات الی اوج العلی حيث شبهها بهولا والانبياء المرسلين من الصفات المذکوره" یعنی یہ اوصاف حمیدہ علی علیہ السلام کو انتہائی بلندی پر فائز کرتے ہیں اس لیے کہ پیغمبر(ص) نے آپ کو صفات مذکورہ میں انبیائے مرسلین سے تشبیہ دی ہے، کیا آپ آمت مرحومہ کے صحابہ و تابعین وغیرہ میں امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے علاوہ کوئی ایسی فرد دکھا سکتے ہیں جو انبیاء عظام کے تمام صفات حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ کی حامل ہو اور آپ کے سر برآوردہ علماء اس کے اس مرتبے کو تسلیم بھی کرتے ہوں؟

چنانچہ شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب 40 میں مناقب خوارزمی سے بسلسلہ محمد بن منصور نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے امام احمد ابن حنبل کو کہتے ہوئے سنا کہ " ماجاءلاحدمن الصحابةمنالفضائلمثل ماجاءلعليبنأبيطالب" (یعنی جیسی فضیلتیں علی ابن ابی طالب(ع) کے لیے ہیں ویسی ایک بھی اصحاب میں سے کسی کے لیے نہیں آئی ہے) اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب3 میں بسند محمد منصور طوسی امام احمد سے اس طرح نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا " ماجاءلاحدمن اصحاب رسول اللَّه منالفضائلماجاءلعلىّ (عليهالسلام)"

یعنی اصحاب رسول(ص) میں سے کسی کے لیے وہ چیز وارد نہیں ہوئی ہے جو علی ابن ابی طالب(ع) کے لیے آئی ہے۔

فضیلت امیرالمومنین(ع) کا قول صرف امام احمد ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ کے اکثر اںصاف پسند علماء نے ؟؟؟ چیز کی تصدیق کی ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص46 میں کہتے ہین کہ :

"إنّه عليه السّلام كان أولى بالأمروأحقّ لاعلى وجه النّصّ بل على وجه الأفضليّة،فانّه أفضل البشربعدرسول اللّه صلّى اللّه عليه وآله وأحقّ بالخلافةمن جميع المسلمين"

یعنی علی علیہ السلام امر میں اولی اور احق تھے نص کی جہت سے نہیں بلکہ افضلیت کی وجہ سے اس لیے کہ وہ رسول خدا(ص) ک بعد تمام انسانوں سے افضل اور سارے مسلمانوں سے زیادہ خلافت کے حقدار تھے۔

۲۹۵

آپ کو پروردگار عالم کی بزرگ ذات کی قسم ذرا اںصاف کی نظر سے دیکھئے ، آیا یہ بے انصافی نہیں ہے کہ محض عادت کی بنا پر اور اپنے اسلاف کی تقلید کرتے ہوئے بغیر غور و فکر اور دلیل و برہان کے ایسی بزرگ شخصیت کے مقابلے میں ان لوگوں کو مقدم کردیا جائے جو ان صفات سے محروم تھے۔

آیا صاحبان عقل و دانش پچھلے لوگوں کے فہم و شعور کا مذاق نہ اڑائیں گے کہ انہوں نے سیاست اور گروہ بندی کی بنا پر امت کے افضل انسان کو خانہ نشینی پر مجبور کیا اور ہر حیثیت سے مفضول ( کم رتبہ) شخص کو مسند خلافت پر بٹھا دیا اور کم سے کم اتنا بھی نہ کیا کہ سقیفہ کے اندر خلافت جیسے امر عظیم میں مشورہ کرنے کے لیے ان بزرگوار کو بھی خبر کر دیتے ۔ تاکہ یہ ذات بالکل ہی نظر انداز ہوجائے۔

حافظ : بے انصاف ہم ہیں یا جناب عالی؟ جو یہ فرمارہے ہیں کہ اصحاب رسول (ص) نے بغیر دلیل و برہان کے دوسروں کو مقدم قرار دیا اور خلافت غصب کر لی۔ واقعی آپ نے ہم سب کو بے عقل و نادان اور بے سر و پا مقلد فرض کر لیا ہے ۔ کون سی دلیل اجماع کی دلیل سے بالاتر ہوگی جب کہ تمام صحابہ و امت نے حتی کہ مولان علی کرم اللہ وجہہ نے بھی اجماع کر کے ابوبکر کی خلافت قائم کی اور اس پر راضی ہوئے؟

مخالفین کا قول کہ اجماع برحق ہے

بدیہی چیز ہے کہ امت کا اجماع حجت اور اس کی اطاعت واجب ہے کیونکہ رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے :

"لاتجتمع أمتي على الخطإلاتجتمع أمّتي على الضلالة." ( یعنی میری امت خطا پر یا میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوتی) چنانچہ ہم نے اپنے اسلاف کی اندھی تقلید نہیں کی ہے بلکہ جب وفات پیغمبر(ص) کے بعد پہلے ہی روز تمام امت نے اجماع کر کے خلافت ابوبکر کا فیصلہ کر دیا اور ایک طے شدہ امر ہمارے سامنے آیا تو عقلا ہم کو صرف پیروی کرنا چاہئیے ۔

خیر طلب : سچ بتائیے رسول اکرم(ص) ک بعد حقانیت خلافت کی کیا دلیل ہے؟ یعنی خلافت کس دلیل سے ثابت ہوتی ہے؟

حافظ : ظاہر ہے کہ رسول خدا (ص) کے بعد وجود خلیفہ کے اثبات پر سب سے بڑی دلیل تمام امت کا اجماع ہے اس کے علاوہ جس دلیل کے سامنے ہر صاحب عقل و دانش کو گھٹنے ٹیکنا پڑتے ہیں وہ عمر کی زیادتی اور بڑھاپا ہے جس نے ابوبکر و عمر کو تقدم کا حق دیا اور علی کرم اللہ وجہہ باوجود انتہائی فضل و کمال اور قرابت رسول(ص) کے جس کو ساری امت مانتی ہے

۲۹۶

کم سنی اور جوانی کی وجہ سے پچھے رہ گئے اور از روئے اںصاف ایک نو عمر جوان کو بزرگ صحابہ سے آگے بڑھںے کا حق بھی نہیں تھا۔

خلافت کی حیثیت سے علی کرم اللہ وجہہ کے اس پیچھے رہ جانے کو ہم نقض نہیں سمجھتے کیونکہ ان جناب کی افضلیت سب کے نزدیک ثابت ہے۔ نیز خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ جو حدیث نقل کی ہے کہ فرمایا :

"لَايَجْتَمِعُ النُّبُوَّةُوَالْمُلْكُ فِي أَهْلِبَيْتٍ وَاحِدٍ" ( یعنی نبوت او سلطنت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی۔) اس نے بھی علی کرم اللہ وجہہ کو منصب خلافت سے بر طرف کردیا۔ چونکہ علی اہل بیت رسول(ص) میں سے تھے لہذا خلافت کا عہدہ پا ہی نہیں سکتے تھے۔

خیر طلب : جب آپ کے ایسے ذی علم اور ہوشمند انسانوں سے اس قسم کی دلیلیں سننے میں آتی ہیں تو سخت حیرت اور تعجب ہوتا ہے کہ آپ لوگ اپنی عادت کے کس قدر پابند ہوچکے ہیں کہ بغیر سوچے سمجھے آںکھ بند کر کے حق کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور ایسی دلیلیں بیان کرتے ہیں جن پر پسر مردہ عورتیں بھی ہنس پڑیں۔ اگر آپ تھوڑا سا بھی غور کر لیں تو سمجھ میں آجائے کہ اس طرح کے دلائل بالکل مہمل اور تنکنے کا سہارا ہیں۔ لیکن افسوس تو اس کا ہے کہ آپ حضرات ایک لمحے کے لیے بھی اس پر تیار نہیں ہوتے کہ ذرا تعصب اور سنیت کی عینک اتار کے اپنے بے سرو پا دلائل کے مقابل شیعہ علماء کی دلیلیں پر اںصاف اور غور و فکر کی نظر ڈالیں۔

صرف آپ کے عوام ہی ان دلائل سے ناواقف نہیں ہیں بلکہ جہاں جہاں میں نے آپ کے علماء سے گفتگو کی ، ان کو بھی شیعوں کے دلائل و براہین سے بے خبر اور تعصب میں غرق پایا۔ یہ سب محض اس وجہ سے ہے کہ اکابر متکلمین و محدثین اور علمائے شیعہ کی معتبر کابیں آپ کے کتب خانوں میں مطالعے کے لیے رکھی ہی نہیں جاتیں بلکہ ان کو کتب ضلال کہہ کے ایک دوسرے کو ان کے مطالعے سے منع کیا جا تا ہے۔

میں نے خود بصرہ ، بغداد ، شام، بیروت اور حلب وغیرہ بلاد اہل سنت کے بازارون میں کتب فروشوں سے علمائے شیعہ کی معتبر کتابوں میں سے ایک ایک کا نام پوچھا لیکن انہوں نے یہی کہا کہ ہم کو معلوم نہیں ۔ بلکہ وہ خا ص خاص کتابیں بھی جو علمائے اہل سنت نے اہل بیت طہارت اور عترت رسول(ص) کی تعریف اور منزل ولایت کے اثبات میں لکھی ہیں اور شائع بھی ہوچکی ہیں دو کانوں میں نہیں بگاتے۔

اگر آپ حضرات کبھی اتفاقیہ طور پر شیعوں کی کوئِ کتاب دیکھ بھی لیتے ہیں تو چونکہ کینے اور عداوت کی نظر سے دیکھتے ہیں لہذا اس قدر برانگیختہ اور مشتعل ہوجاتے ہیں کہ اںصاف اور علم و منطق کے ترازو پر اس کو تولنا ہی نہیں چاہتے جس سے انکشاف حقیقت ہو کر صحیح نتیجہ برآمد ہو لیکن اس کے برعکس ہماری شیعہ جماعت کی طرف سے آپ کے علماء کی کتابیں نشر کرنے میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ بلکہ انہوں ن جو معتبر کتابیں حدیث ، تفسیر ، یا ادب میں سپرد قلم کی ہیں وہ شیعوں کے بازار میں فروخت کے لیے موجود رہتی ہیں اور مکانوں یا ذاتی اور عمومی کتب خانوں میں ان کے مطالعے سے

۲۹۷

نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔

اب میں اپنی اہم ذمہ داری کے خیال سے مجبور ہوں کہ آپ حضرات کو متوجہ کرنے کے لیے وقت کے لحاظ سے مختصر جواب عرض کروں تاکہ آپ کو یہ غلط فہمی نہ رہ جائے کہ واقعی آپ کی دلیلیں مضبوط اور ناقابل تردید ہیں۔

اجماع کے رد میں دلائل

پہلے آپ نے حدیث پیش کر کے فرمایا ہے کہ امت کا جماع حجت اور مضبوط دلیل ہے۔

یقینا آپ بہتر جانتے ہیں کہ یائے متکلم کے ساتھ امت کا لفظ عموم کا فائدہ دیتا ہے ۔ پس حدیث کے معنی ( اگر صحیح فرض کر لی جائے) یہ ہوتے ہیں کہ میری تمام امت خطا اور گمراہی پر جمع نہیں ہوتی۔ یعنی جس وقت پیغمبر (ص) کی ساری امت کسی امر پر متفق ہو جائے تو ہو غلط نہین ہوتا ہم بھی اس مطلب کو قبول کرتے ہیں کہ بغیر کسی ایک فرد کو مستثنی کئے ہوئے تمام امت کا اجتماع صحیح نتیجہ پیدا کرے گا، اس لیے کہ خدا نے اس امت کے خصوصیات میں سے قرار دیا ہے کہ ہمیشہ اس کے اندر کچھ ایسےافراد موجود رہیں گے جن کے ساتھ حق ہوگا اور وہ حق کے ساتھ ہوں گے یعنی حتمی طور پر حجت خدا اور الہی نمائندہ موجود رہے گا، اور ساری امت کے مجتمع ہو جانے کی صورت میں وہ اہل حق اور حجت خدا بھی اس کے درمیان ہوگا جو امت کو غلط کاری اور گمراہی سے منع کرے گا۔اگر آپ سنجیدگی کےساتھ غور کیجئے تو ثابت ہوگا کہ یہ حدیث ( بہ فرض صحت) ہرگز اس بات کا ثبوت نہیں دیتی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تعین خلافت کے حق سے ( خود دستبردار ہو کر) امت کو سرفراز کردیا تھا۔

اگر آُ کا یہ قول اور عقیدہ صحیح ہو کہ صاحب دین کامل پیغمبر(ص) " لاتجتمع أمتي على الخطإلاتجتمع أمّتي على الضلالة. " فرما کر تعیین خلافت کا حق اپنے سے الگ کر کے امت کے قبضے میں دیدیا تھا ( حالانکہ قطعا اس کی کوئی دلیل نہیں ہے) تو یقینا یہ پوری امت کا حق ہے یعنی چونکہ جملہ مسلمان امر خلافت سے فائدہ اٹھاتے ہِں لہذا خلافت کی رائے اور مشورے میں بھی سب کو دخل ہونا چاہئیے اور وفات رسول (ص) کے بعد کل امت کا جمع ہونا ضروری تھا تاکہ مشورہ کر کے سب کے رائے سے ایک کامل فرد کو خلیفہ مقرر کردیا جاتا۔

اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آیا وفات رسول(ص) کےبعد ان چند دنوں میں ایک سقیفہ نام کے چھوٹے سے چھتے کے اندر جس وقت خلافت ابوبکر کی آواز اٹھی تو ایسا اجماع جس میں تمام مسلمانوں نے متفقہ رائے دی ہو واقع ہوا تھا یا نہیں؟

حافظ : آپ تو ایک انوکھی بات کہہ رہے ہیں۔ دو سال سے کچھ زائدہ مدت کے اندر جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ

۲۹۸

مسئلہ خلافت پر بر قرار رہے عام طور پر مسلمانوں نے ان کی اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار کیا اور یہی اجماع کے منعی ہیں جو حقانیت کی دلیل ہے۔

خیر طلب : در اصل آپ نے جواب میں مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے، میرا سوال خلافت ابوبکر کے پورے دور کے متعلق نہیں تھا بلکہ میں نے عرض کیا تھا کہ سقیفہ (1) بنی ساعدہ میں خلافت ابوبکر کی رائے دینے کے وقت امت کا با قاعدہ اجماع ہوا تھا یا فقط چند اشخاص نے جو ایک چھوٹا سا گروہ بنائے ہوئے تھے اس چھوٹے سے چھتے کے اندر رائے دے کر بیعت کر لی۔

حافظ : یہ تو بدہی بات ہے کہ وہ کبار صحابہ میں سے چند نفر تھے لیکن بعد کو رفتہ رفتہ اجماع واقع ہوگیا۔

خیرطلب : میں بہت ممنون ہوں کہ آپ نے بات کو گھمایا نہیں اور حقیقت بیان کر دی۔ خدا کے لیے انصاف کیجئے کیا رسول خدا(ص) نے جو اس کے لیے اولی اور احق تھے کہ امت کے سامنے صراط مستقیم اور راہ راست کو واضح کریں اس عظیم ذمہ داری کو اپنی گردن سے اتار کر امت کے سر ڈال دیا کہ صرف چند افراد سیاسی گوئیں چلیں اور ان

میں سے ایک دوسرے کی بیعت کرے نیز تھوڑے سے ساتھی باراتی بھی بیعت کر لیں اور قبیلہ اوس دالے اس عداوت کی بنا پر جو وہ ہمیشہ سے قبیلہ خزرج کےساتھ رکھتے تھے اور اس خوف کی وجہ سے بیعت کر لیں کہ ایسا نہ ہو وہ لوگ پیش قدمی کر جائیں (اور سعد بن عبادہ امیر بن جائیں) بعدک رفتہ رفتہ لوگ خوف یا لالچ میں فرمانبردار بنیں اورایک حکومت ہو جائے تاکہ آج کی رات جناب عالی ان چند اشخاص کا نام اجماع رکھ دیں؟ آیا بلاد مکہ، یمن، جدہ، طائف، حبشہ اور دوسرے شہروں اور دیہات میں پھیلے ہوئے باقی مسلمان امت مرحومہ میں نہ تھے اور خلافت کے معاملے میں ان کو رائے دینے کا حق نہ تھا ؟ اگر کوئی سازش نہیں کی گئی تھی، پہلے سے کچھ قرار دادیں اور سیاسی چالیں پیش نظر نہ تھیں اور آپ کی یہ دلیل سچ تھی تو اتنا صبر کیوں نہیں کیا کہ خلافت جیسے اہم کام میں سارے مسلمانوں کا نقطہ نظر معلوم کر لیا جائے تاکہ تمام امت کا حقیقی اجماع صادق آجائے اور اس میں کسی غلطی یا گمراہی کی گنجائش نہ رہ جائے؟

چنانچہ دنیا کی ساری ترقی یافتہ قوموں کا دستور ہے کہ جمہوری حکومت قائم کرنے یا اپنا قائد چننے کے لیے عام اعلان کیا جاتا ہے اور پوری قوم کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اکثریت کی تجویز پر عملدر آمد ہوتا ہے۔ تاریخ عالم کو چھان ڈالئے ایسی بے بنیاد تشکیل اور ایسے رئیس کا تقرر تھوڑے سے لوگوں کے ہاتھوں کا کرشمہ ہو ڈھونڈھے نہ ملے گا۔ بلکہ متمدن فرمانبردار اور صاحبان عقل و ہوش اس عمل کی ہنسی اڑاتے ہیں۔ پھر تعجب بالائے تعجب یہ کہ ایک چھوٹے سے چھتے کے اندر ایسے مختصر سے مجمع کا نام اجماع رکھا جائے اور متعصب لوگ ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد اب بھی اس بے محل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ سقیفہ انصار کے قبیلہ بنی ساعدہ کا ایک چھتہ تھا جس میں وہ لوگ مخصوس موقعوں پر صلاح و مشورہ کیا کرتے تھے۔

۲۹۹

لفظ اور بے سرو پا عمل پر خواہ مخواہ اڑے رہیں اور کہیں کہ امت کا اجماع حقانیت خلافت کی دلیل ہے یعنی کچھ آدمیوں کی مٹھی بھر جماعت نے ایک گوشے میں اکٹھا ہو کر پوری ملت اور امت کے سیاہ و سفید کا اختیار ایک شخص کے ہاتھ میں دیدیا لہذا یہ برحق ہے اور لامحالہ اس کی اطاعت میں سر جھکانا ہی چاہئیے۔

حافظ : آپ کیوں بے لطفی کی بات کرتے ہیں۔ اجماع سے مراد صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ کا اجماع تھا جو سقیفے کے اندر واقع ہوا۔

خیر طلب : آپ کا یہ فرمانا کہ اجماع سے مراد صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ کا اجماع تھا محض زبردستی اور بغیر دلیل کی منطق ہے اس لیے کہ آپ کے پاس سوا اس حدیث کے اور کچھ نہیں ہے فرمائیے جس حدیث پر آپ کا سارا دار و مدار ہے اس میں صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ کی بات کہاں سے نکلتی ہے ؟ آپ اپنی منشاء کے مطابق حدیث کے ایسے معنی کرتے ہیں کہ عقلمند اور اہل علم حیران رہ جاتے ہیں۔

حالانکہ میں عرض کرچکا ہوں کہ امتی میں یائے نسبت عمومیت کا پتہ دیتی ہے نہ کہ چند نفر صحابہ کا چاہے وہ عاقل و فاضل ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیا جائے کہ آپ کا فرمانا ( کہ عقلا ، کبار اصحاب کا اجماع مراد ہے) درست ہے تو کیا صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ صرف وہی گنے چنے افراد تھے جنہوں نے سقیفہ کے مختصر سے چھتے میں ابوبکر و عمر اور ابو عبیدہ جراح ( گورکن) کی پیشوائی کے لیے رائے دی اور بیعت کی۔

آیا مسلمانوں کے دوسرے شہروں میں صاحبان عقل اور بزرگان صحابہ نہیں رہتے تھے؟ آیا قوم کے سارے عقلمند اور کبار اصحاب وفات رسول (ص) کے وقت مدینے کے اندر اور وہ بھی ایک چھوٹے سے چھتے میں جمع تھے اور سب نے مل کر اس امر پر اجماع کیا تھا تاکہ آج کی شب وہ آپ کے لیے دلیل بنے؟

حافظ : چونکہ خلافت کا معاملہ اہم تھا اور ممکن تھا کہ کوئی فتنہ اٹھ کھڑا ہو لہذا اس کا موقع نہیں تھا کہ دیگر مقامات کے مسلمانوں کو اطلاع کی جائے۔ چنانچہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے جس وقت یہ سنا کہ کچھ انصار وہاں جمع ہیں تو فورا خود بھی پہنچے اور بات چیت کی۔ عمر چونکہ ایک سیاست دان انسان تھے لہذا انہوں نے امت کی بھلائی اسی میں دیکھی کہ ابوبکر کی بیعت کر لیں۔ چند اور اشخاص نے بھی ان کی پیروی میں بیعت کی لیکن انصار کی ایک جماعت اور قبیلہ خزرج نے سعد بن عبادہ کا ساتھ دیتے ہوئے بیعت نہیں کی اور سقیفے سے چلے گئے۔ یہ تھا جلدی کرنے کا سبب۔

خیر طلب : تو جیسا کہ آپ کے سارے مورخین اور اکابر علماء تصدیق کر چکے ہیں آپ نے بھی تصدیق کردی ہے کہ سقیفے کی بنیادی کاروائی میں کوئی اجماع واقع نہیں ہوا۔ ابوبکر نے سیاسی مصلحت سے عمر اور ابوعبیدہ جراح کو پیش کیا، اور ان لوگوں نے بھی پیش کش کو پلٹتے ہوئے کہا کہ آپ سب سے زیادہ لائق اور اولی ہیں، از روئے سیاست فورا بیعت کر لی اور قبیلہ اوس کے کچھ لوگوں نے بھی جو وہاں موجود تھے خزرج والوں سے اپنی سابقہ عداوت کے

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369