پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 369
مشاہدے: 298033
ڈاؤنلوڈ: 8914

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 298033 / ڈاؤنلوڈ: 8914
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کو (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=379&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں

کیجئے گا تو اس سے جو کچھ آپ اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں اس سے زیادہ خود آپ کو اس کے نتائج اور خمیازہ بھگتنا پڑے گا اس کے بعد مشورہ کیا کہ یہ خط کون لے جائے۔ بالاخرہ طے پایا کہ عمار کا لے جانا مناسب ہوگا اس لیے کہ ان کے فضل و تقوی اور عظمت کے خود عثمان بھی قائل ہیں اور ان کو بارہا یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہے کہ ایمان عمار کے خون اور گوشت میں پیوست ہے۔ نیز آن حضرت(ص) سے یہ بھی نقل کرتے تھے کہ فرمایا، بہشت تین اشخاص کی مشتاق ہے، علی ابن ابی طالب(ع) سلمان اور عمار یاسر۔ لہذا اصحاب کی درخواست پر جناب عمار وہ کاغذ لے کر عثمان کے گھر گئے عثمان گھر سے نکل رہے تھے ، دروازے پر عمار کو دیکھا تو پوچھا یا ابا یقظان ( کنیت عمار) کیا کام ہے؟ کہا میرا کوئی ذاتی کام نہیں ہے بلکہ اصحاب رسول(ص) کی ایک جماعت نے اس خط میں آپ کی نیکی اور خیر خواہی کی کچھ باتیں درج کی ہیں اور میرے ذریعے سے بھیجا ہے لہذا اس کو پڑھ کر جواب دے دیجئے۔ انہوں نے خط لیا اور جو نہی چند سطریں پڑھیں بپھر گئے اور لال پیلے ہو کر خط کو زمین پر ٹپک دیا جناب عمار نے فرمایا آپ نے اچھا نہیں کیا، اصحاب رسول(ص) کے خط کا احترام کرنا چاہیے تھا اسی کو زمین پر کیوں ٹپک دیا دیا چاہئیے تو یہ تھا کہ اس کو با قاعدہ پڑھتے اور جواب دیتے انہوں نے انتہائی غصے کے ساتھ کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو اس کے بعد اپنے غلاموں کو حکم دیا جنہوں نے جناب عمار کو سختی سے مارا پیٹا ۔ ان کو زمین پر گرا کر مارتے رہے یہاں تک کہ خود عثمان نے بھی ان کے پیٹ پر گئی لاتیں ماریں جن کی چوٹوں سے یہ بزرگوار مرض فتق میں مبتلا ہوگئے اور بے ہوش ہوگئے، ان کے عزہ آکر ان کو ام المومنین ام سلمہ کے گھر اٹھا لے گئے جہاں یہ ظہر کے وقت سے لے کر آدھی رات تک بے ہوش پڑے رہے یہاں تک کہ چار نمازوں کا وقت گزر گیا۔ جب ہوش میں آئے تو ان کی قضا پڑھی۔

آپ کی معتبر کتابوں میں ان قضیوں کی پوری تفصیل موجود ہے۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور مسعودی مروج الذہب جلد اول ص427 میں مطاعن عثمان کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ قبیلہ بذیل اور بنی مخزوم کا عثمان سے برگشتہ ہوجانا عبداللہ ابن مسعود اور عمار یاسر کے ساتھ ان کے سخت برتائو اور مار پیٹ کی وجہ سے تھا۔

اب فیصلہ آپ حضرات کے انصاف پر چھوڑتا ہوں تاکہ ان کی رقت قلب اور رحمدلی کی جانچ کرسکیں۔

ابوذر کی ایذا اور جلا وطنی اور صحرائے ربذہ میں ان کی وفات

چوتھے رسول اللہ(ص) کے خاص اور محبوب صحابی جندب بن جنادہ ابوذر عفاری کے ساتھ جو صحابہ میں اسلام کے دوسرے بڑے عالم تھے ان کا طرز عمل ہر آزاد منش انسان کو متاثر کرتا ہے۔

فریقین کے تمام ارباب حدیث اور بڑے بڑے مورخین کو اعتراف ہے کہ نوے سال کے مرد بزرگ کس قدر ذلت و اذیت کے ساتھ شام کو اور وہاں سے مدینے اور مدینے سے اپنی لڑکی کے ہمراہ بے کجادہ اونٹ پر ربذہ کے

۲۶۱

بے آب و گیاہ صحرا کی طرف جلا وطن کئے گئے یہاں تک ہاسی بیابان یں ابوذر کی وفات ہوئی اور ان کی یتیم بچی اس خوفناک وادی میں بے سرپرست اور تنہا رہ گئی، آپ کے بڑے بڑے علماء و مورخین جیسے ابن سعد نے طبقات جلد چہارم ص168 میں بخاری نے اپنی صحیح کتاب زکوۃ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص240 نیز جلد دوم ص375 تا ص387 میں، یعقوبی نے اپنی تاریخ جلد دوم ص148 میں، چوتھی صدی کے مشہور ومعروف محدث ومورخ ابو الحسن علی ابن الحسین مسعودی متوفی سنہ346ھ نے مروج الذہب جلد اول ص438 میں اور دوسروں نے بھی جن کے مفصل تذکرے کا وقت نہیں ہے اس مرد بزرگ، مومن پاک نفس اور محبوب رسول(ص) کے ساتھ عثمان اور معاویہ و مروان وغیرہ جیسے اموی عمال کے سخت برتائو نیز ابوذر کی مشایعت کرنے کے جرم میں امیرالمومنین علیہ السلام کی اہانتیں اور اسی جرم میں حافظ و کاتب وحی عبداللہ ابن مسعود کو چالیس کوڑے مارنے کا حال درج کیا ہے۔

حافظ : اگر ابوذر کو کوئی تکلیف پہنچی تو نا اہل عالموں کے طرز عمل سے پہنچی ورنہ خلیفہ عثمان تو بہت ہی رحم دل اور رقیق القلب تھے اور ایسی حرکتوں سے قطعا نا واقف تھے۔

خیر طلب : مثل مشہور ہے کہ " ماں سے زیادہ دائی مہربان" جناب عالی خلیفہ عثمان کی طرف سے جو صفائی پیش کر رہے ہیں وہ حقیقت اور واقعے کے بالکل خلاف ہے۔ اگر آپ اپنی معتبر تاریخی کتابوں کی طرف رجوع کیجئے تو ماننا پڑیگا کہ جتین تکلیفیں اور اذیتیں جناب ابوذر کو پہنچیں وہ خود خلیفہ کے صریح حلم سے پہنچیں۔

اس بات پر آپ کے اکابر علماء کی معتبر کتابیں گواہ ہیں، میری درخواست ہے کہ نمونے کے لیے نہایہ ابن اثیر جلد اول تاریخ یعقوبی اور بالخصوص شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ( مطبوعہ مصر) جلد اول ص241 کو ملاحظہ فرمائیے جن میں معاویہ کے نام خلیفہ کے خط درج کیا گیا ہے کہ جب معاویہ نے شام سے ابوذر کی بدگوئی کی تو خلیفہ عثمان نے ان کو لکھا کہ ان کو سختی کے ساتھ مدینے روانہ کرو۔ اصلی خط یہ ہے۔

"فكتب عثمان إلى معاوية: أمّابعدفاحمل جندباعلى أغلظ مركب وأوعره. فوجّه به مع من ساربه الليل والنهاروحمله على شارف ليس عليهاإلّاقتب حتّى قدم به المدينةوقدسقط لحم فخذيه من الجهد."

یعنی عثمان نے معاویہ کو لکھا کہ جندب ( ابوذر کا نام) کو ایک بوڑھے اور بے کجادہ اونٹ پر بٹھا کر ایک بد مزاج انسان کے ہمراہ جو رات دن اس کو دوڑاتا ہوا میرے پاس لائے روانہ کرو ( چنانچہ انکے حکم کے مطابق اس عابد و زاہد اور محبوب خدا و رسول(ص) صحابی کو اسی طریقے سے لایا گیا) جس وقت یہ مدینے پہنچے ہیں تو ان کی رانوں کا گوشت کٹ کٹ کر گر گیا تھا۔

خدا کے لیے انصاف کیجئے کیا عطوفت و مہربانی اور رحم و رقت قلب کے یہی معنی ہیں؟

۲۶۲

ابوذر محبوب خدا اور رسول(ص) اور امت کےسب سے سچے انسان تھے

کیا ابوذر کے بارے میں خدائے تعالی اور پیغمبر اسلام کی طرف سے کافی ہدایتیں صادر نہیں ہوئی ہیں اور ان مفصل روایات کو آپ کے بڑے علماء نے اپنی مبسوط کتابوں میں درج نہیں کیا ہے۔

چنانچہ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء جلد اول ص172 میں، ابن ماجہ قزوینی نے سنن جلد اول ص66 میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب 59 میں صواعق محرقہ ابن حجر مکی سے ان چالیس حدیثوں میں سے پانچواں حدیث جو انہوں نے فضائل امیرالمومنین(ع) میں ترمذی و حاکم سے نقل کی ہیں۔ شرط صحت کے ساتھ بریدہ سے، اور انہوں نے اپنے باپ سے، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد سیم ص455 میں، ترمذی نے صحیح جلد دوم ص213 میں، ابن عبدالبر نے اسیتعاب جلد دوم ص557 میں، حاکم نے مستدرک جلد سیم ص130 میں اور سیوطی نے جامع الصغیر میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ۔

"إِنَ اللَّهَ أَمَرَنِي بِحُبِّ أَرْبَعَةِوَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُحِبُّهُمَْقِيلَ: يَارَسُولَاللَّهِ سمهم لنا َقَالَ: عَلِيٌّ منهم يقول ذالک ثلاثاء أَبُوذَرٍّوَالْمِقْدَادُ سَلْمَانُ ."

یعنی خدانے مجھ کو چار شخصوں کی محبت کا حکم دیا ہے اور خبر دی ہے کہ وہ بھی ان کو دوست رکھتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ(ص) ہمارے لیے ان کے نام بیان فرمائیے تو فرمایا ان میں سے علی(ع) ہیں، اور ابوذر و مقداد و سلمان۔

پس معلوم ہوا کہ یہ چاروں حضرات خدا و رسول اللہ(ص) کے محبوب ہیں۔ آیا آپ حضرات کا انصاف اس کی اجازت دیتا ہے کہ خدا و رسول(ص) کے محبوب سے ایسا غیر منصفانہ برتائو کیا جائے اور اس کا نام رحمدلی اور رقت قلب رکھا جائے؟ ابوبکر و عمر کو یہ الزام کیوں نہیں دیا گیا؟ چونکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا لہذا نہ تاریخ میں آیا نہ ہم نے کہا۔

حافظ : جیسا کہ مورخین ن لکھا ہے ابوذر ایک ہنگامہ پسند انسان تھے شام کے اندر علی کرم اللہ وجہہ کے نام پر سخت پروپیگنڈا کررہے تھے اور شامیوں کو علی(ع) کی طرف ترغیب دے رہے تھے، کہتے تھے کہ میں نے پیغمبر(ص) سے سنا ہے کہ فرمایا : علی(ع ) میرے خلیفہ ہیں۔ چونکہ یہ دوسروں کو غاصب اور علی(ع) کو خلیفہ منصوص ظاہر کرتے تھے لہذا خلیفہ عثمان رضی اللہ مجبور تھے کہ اتحاد کی حفاظت اور فساد کی روک تھام کے لیے ان کو شام سے بلا لیں۔

جس وقت کوئی شخص لوگوں کو اجتماعی مصلحت کے خلاف اکسائے تو خلیفہ وقت پر واجب ہے کہ اس کو محل انقلاب سے نکال دے۔

خیر طلب : اول یہ کہ اگر کوئی شخص حق بات کہے تو کیا یہی چاہیئے کہ اس کو جلا وطن اور مبتلائے مصیبت بنا دیا جائے کہ تم کیوں اپنے سچے معلومات کو ظاہر کرتے ہو؟ فرض کیجئے کہ ایک معمولی مسلمان ہو تو کیا بلا تحقیق اور بغیر چغلی کھانے والے کی بات کا جھوٹ سچ پرکھے ہوئے اس کو شہر بدر یا دار الخلافت کو روانہ کرنے کا حکم دے دیا جائے؟ آیا اسلام کا

۲۶۳

مقدس قانون یہی حکم دیتا ہے کہ ایک نحیف اور ضعیف انسان کو بوڑھے اور بے کجادہ اونٹ پر سوار کر کے ایک تند غلام کے شکنجے میں دے کہ بھیجنے کی تاکید کی جائے جو رات دن نہ سونے دے نہ ٹھہرنے دے اور جب منزل پر پہنچے تو اس کے پائوں کا گوشت اڑچکا ہو؟ کیا یہی ہیں رقت القلب اور رحم و مروت کے معنی؟

اس کے علاوہ خلیفہ کے پیش نطر اتحاد کی حفاظت اور فساد کی روک تھام ہی تھی تو فسادی امویوں کو جیسے رسول خدا(ص) کے طرید و راندہ درگاہ مروان اور علی الاعلان فسق و فجور کرنے والے بے دین ولید کو جو نشے کی حالت میں نماز پڑھتا تھا اور مسجد کی محراب میں قے کرتا تھا نیز اسی طرح کے اور لوگوں کو کیوں نہیں اپنے پاس سے نکال باہر کیا تاکہ ان کے طور طریقے جماعت کے اندر فساد اور خلیفہ کے قتل کا باعث نہ بنیں؟

حافظ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ ابوذر سچ کہتے تھے اور صحیح معلومات کا اظہار کرتے تھے اور رسول خدا(ص) کے نام سے حدیث نہیں گھڑتے تھے؟

اںصاف سے فیصلہ کرنا چاہیئے تاکہ جہالت کے پردے چاک ہوں

یہاں سے معلوم ہوا کہ خاتم الانبیاء(ص) نے خود ان کی صداقت اور سچائی کی تصدیق فرمائی ہے، چنانچہ معتبر روایات میں وارد ہے اور آپ کے اکابر علماء نے درج کیا ہے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا میری امت کے اندر ابوذر صداقت و راستی اور زہد و تقوی میں ایسے ہیں جیسے بنی اسرائیل کے اندر حضرت عیسی۔

چنانچہ محمد بن سعد نے جو آپ کے اکابر علماء محدثین میں سےہیں طبقات جلد چہارم ص67، ص168 میں، ابن عبدالبر نے استیعاب جلد اول باب جذب ص84 میں، ترمذی نے صحیح جلد دوم ص241 میں، حاکم نے مستدرک جلد سیم ص342 میں ، ابن حجر نے اصابہ جلد سیم ص622 می، متقی ہندی نے کنز العمال جلد ششم ص169 میں، امام احمد بن حنبل نے مسند جلد دوم ص163 و ص175 میں، ابن الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص241 میں واحدی سے، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیہ میں اور صاحب لسان العرب و ینابیع المودۃ نے اخبار ابوذر عفاری میں ۔۔۔۔ متعدد سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا : "ماأقلّت الغبراءولاأظلّت الخضراءاصدق لهجةمن أبي ذر" یعنی زمین نے کسی ایسے مرد کو نہیں اٹھایا اور آسمان نے کسی ایسے مرد پر سایہ نہیں ڈالا جو ابوذر سے زیادہ سچ بولنے والا ہو۔

بدیہی بات ہے کہ آپ کے علماء کی شہادت کے مطابق پیغمبر(ص) نے جس کی راست گوئی کی تصدیق کی ہو وہ جو کچھ کہتا تھا یقینا سچ کہتا تھا اور خدا کسی جھوٹے جعلساز اور حدیث گھڑنے والے کو ہرگز اپنا محبوب نہیں بناتا۔ بہتر ہوگا کہ انصاف کی نگاہوں سے دیکھئے تاکہ حق اور حقیقت سامنے آجائے۔ اگر ابوذر کے جھوٹ بولنے کی کوئی مثال ہوتی تو آپ کے علمائے

۲۶۴

متقدمین قطعا اس کو نقل کرتے جیسا کہ ابوہریرہ وغیرہ کا کچا چٹھا نقل کیا ہے۔

آپ کو خدا کا واسطہ تھوڑا غور کیجئے اور ذرا انصاف سے کام لیجئے کہ جو شخص رسول اللہ(ص) کا خاص صحابی، خدا اور رسول(ص) کا محبوب اور امت کا صادق و راست گو ہو وہ اگر اپنے دینی فرض پر عمل کرتے ہوئے امر بالمعروف اور اشاعت حق کرے تو اس کی اس خطا پر کہ رسول اللہ(ص) کی حدیثیں کیوں بیان کیں اس قدر توہین اور زجر و توبیخ کریں، یہاں تک کہ وہ ایک بے آب و گیاہ بیابان میں دنیا سے کوچ کرے۔ کیا رحم و مروت اور رقت قلب کے معنی یہی ہیں؟

اور وہ بھی ایسے شخص کے بارے میں کہ جب رسول اللہ(ص) ان کی آنے والی مصیبتوں کی خبر دے رہے تھے تو ان کی پرہیزگاری کی گواہی بھی دی تھی، چنانچہ حافظ ابونعیم اصفہانی حلیۃ الاولیاء جلد اول ص162 میں اپنے اسناد کے ساتھ ابوذر غفاری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں خدمت رسول(ص) می کھڑا ہوا تھا کہ آں حضرت(ص) نے مجھ سے فرمایا :

"أنت رجل صالح وسيصيبك بلاءبعدي. قال أبوذر: في اللّه؟قال: «في اللّه»فقال أبوذر: مرحبابأمراللّه."

( یعنی تم ایک مرد صالح ہو اور عنقریب میرے بعد تم پر بلائیں نازل ہوں گی میں نے عرض کیا کہ خدا کی راہ میں ؟ تو فرمایا ہاں خد کی راہ میں۔ میں نے کہا میں امر الہی کو خوش آمدید کہتا ہوں) ( آیا معاویہ اور عثمان کے مقرب بارگاہ بنی امیہ کے ہاتھوں ان دونوں کے حکم سے بزرگ صحابی ابوذر کا ابتلا و بے آب و گیاہ صحرا میں ان کی جلا وطنی اور شدید تکلیفیں وہ عظیم بلا نہیں تھی جس کی خبر رسول خدا(ص) دے چکے تھے کہ وہ خدا کے لیے اس آفت میں مبتلا ہوں گے؟ "فَاعْتَبِرُواياأُولِي الْأَبْصارِ "

آپ حضرات کے متضاد حالات سے سخت تعجب ہوتا ہے کہ ایک طرف تو یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہے میرے سارے اصحاب ستاروں کے مثل ہیں ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پائو گے، اور دوسری طرف جب ایک بزرگ ترین صحابی رسول(ص) کو اس جرم میں کہ علی(ع) کی طرفداری کیوں کی اس قدر ظلم و تشدد کر کے مار ڈالتے ہیں تو آپ ظالمون کی طرف سے صفائی دینے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔

اب یا تو آپ اپنے تمام بزرگ علماء کو جھٹلائیے جنہوں نے ان واقعات اور احادیث کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے یا تصدیق کیجئے کہ صفات آیہ مذکورہ کے حامل وہ لوگ نہیں تھے جنہوں نے رسول خدا(ص) کے پاک صحابہ پر ایسے مظالم کئے۔

ربذہ کی طرف ابوذر(رض) کا زبردستی اخراج

حافظ : یہ تو مسلم ہے کہ ابوذر نے اپنی خواہش اور اختیار سے ربذہ کو قبول کیا اور اس طرف روانہ ہوئے۔

خیر طلب : آپ کی یہ گفتگو ان بے جا کوششوں کا اثر ہے جو آپ کے متعصب متاخرین علماء نے اسلاف کی حرکتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کی ہیں، ورنہ جناب ابوذر کا زبردستی نکالا جانا عام طور پر مسلم ہے۔ نمونے کے لیے ایک روایت

۲۶۵

پر اکتفا کرتا ہوں جس کو امام احمد بن حنبل نے مسند جلد پنجم ص156 میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص241 میں اور واقدی نے اپنی تاریخ میں ابوالاسود دئوئلی سے ( جو آپ کے علماءے رجال کے نزدیک ثقات میں سے ہیں) نقل کیا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ ربذہ میں ابوذر سے ملاقات کر کے ان کی جلا وطنی کا سبب دریافت کروں لہذا میں گیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا مجھ کو زبردستی شہر بدر کر کے اس بے آب و گیاہ صحرا میں بھیجا گیا ہے اور رسول اللہ(ص) مجھ کو اس کی خبر بھی دے چکے تھے ایک روز مسجد میں سوگیا تھا، آںحضرت(ص) تشریف لائے اور پائوں مار کر فرمایا مسجد میں کیوں سور رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ مجھ کو بے اختیار نیند آگئی، تو فرمایا کہ اس وقت تم کیا کرو گے جب مدینے سے نکال دیے جائو گے؟ میں نے عرض کیا کہ شام کی مقدس سرزمین پر چلا جائوں گا فرمایا اس وقت کیا کرو گے جب وہاں سے بھی تم کو نکال دیں گے؟ میں نے عرض کیا پھر مسجد کی طرف واپس آجائوں گا۔فرمایا اس وقت کیا کرو گے جب یہاں سے بھی نکالے جائو گے؟ میں نے عرض کیا تلوار کھینچ کر جنگ کروں گا فرمایا آیا میں تم کو ایسی بات بتائوں جس میں تمہاری بھلائی ہو؟ میں نے عرض کیا ہاں، تو فرمایا :" انسق معهم حيث ساقوك (1) وتسمع وتطيع" (یعنی پس میں نے سنا اور اطاعت کی، اس وقت فرمایا : " والله ليلقين الله عثمان وهوآثم في جنبي." ( یعنی خدا کی قسم عثمان اس حالت میں خدا کے سامنے جائیں گے کہ وہ میرے معاملہ میں گنہگار ہوںگے۔

علی ابن ابیطالب (ع) کا رحم و کرم

اگر غور و اںصاف اور غیر جانبداری کی نظر سے دیکھئے تو تصدیق کیجئے گا کہ اس رحم و کرم اور شفقت و عطوفت میں سب سے اولی واہل اور احق حضرت امیرالمومنین علیہ السلام تھے کیونکہ جب آپ خلافت ظاہری کی مسند پر بیٹھے تو جیسا کہ آپ کے تمام مورخین بالخصوص ابن ابی الحدید نے تفصیل سے لکھا ہے۔ بدعتوں کو برطرف کیا۔ حکام و عمال جور و فساد اور فاسقین بنی امیہ وغیرہ کو جو زمانہ خلافت عثمان میں اسلامی ممالک کی حکومتوں پر مسلط کردیے گئے تھے، معزول کردیا۔

بعض ظاہربین سیاستدانوں اور دلچسپی رکھنے والے دوستوں نے اس جامع و مانع ذات کے سامنے یہ مشورہ رکھا کہ چند روز ان معاویہ جیسے حکام کو ان کی جگہوں پر رہنے دیجئے تاکہ آپ کی حکومت مضبوط ہوجائے، اس کے بعد ان کو معزول کرنے میںکوئی حرج نہ ہوگا۔ حضرت نے فرمایا : " واللّه لاادهن في ديني،ولااعطي الرياءفي أمري. "( یعنی خدا کی قسم میں دین کے معاملے میں چاپلوسی اور اپنے کام میں ریاکاری نہیں کرتا۔)

تم مجھ کو روا داری پر مجبور کرتے ہو لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ جتنی مدت تک وہ میری طرف سے حکومت پر بر قرار رہیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ۔یعنی و ہجد ھر جائی ںچل ےجانا ۔12 باقری

۲۶۶

بہ دستور ظلم و تعدی میں مشغول رہیں گے اور مجھ کو خدائے عزوجل کی بارگاہ میں جواب دینا ہوگا

جس کو مجھ میں طاقت نہیں چنانچہ یہی حکام جور کی معزولی چند معاویہ جیسے جاہ طلب لوگوں کی مخالفت کا سبب اور جمل کی لڑائیوں کا پیش خیمہ بنی جس وقت طلحہ اور زبیر کوفے اور مصر کی حکومت مانگنے آئے تھے اگر حضرت ان کو حاکم بنا دیتے تو وہ مخالفت پر آمادہ نہ ہوتے اور بصرے کا فتنہ اور جنگ برپا نہ کرتے۔

بعض کوتاہ فہم اور ظاہر بین لوگ حضرت کی مستحکم سیاست پر اعتراض کرتے ہیں، حالانکہ آپ سیاست عادلانہ کے مرکز تھے۔ عام معنی میں سیاست جس پر دنیاداروں کا عمل ہے یعنی دوزخی پالیسی ، ریاکاری، چاپلوسی، جھوٹ، دشمنوں کی خوشامدی اور ظاہری منفعتوں کے لیے ان کو فریب دینا وغیرہ تو یہ البتہ حضرت سے کوسوں دور تھی کیونکہ آپ عدل ، اںصاف اور خوف الہی کے مجسمہ اور روز جزا کے معتقد تھے۔

جس وقت آپ نے بالائے منبر اپنے خطبوں کے درمیان گریہ فرمایا اور لوگوں نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا میں نے سنا ہے کہ معاویہ کی فوجوں نے ایک گائوں پر چھاپہ مار کر یہودی کی لڑکی کے پائوں سے پا زیب اتار لی حالانکہ وہ جزیہ اور اسلام کی پناہ میں ہے ان حضرت کی رحمدلی دوست و دشمن سب کے ساتھ یکسان تھی۔ باوجودیکہ عثمان نے حضرت کے ساتھ اس قدر بد سلوکیاں کی تھیں ( جس قدر ابوبکر و عمر نے بھی علاوہ خلافت ابوبکر کے ابتدائی زمانے کے ظاہر بظاہر کبھی نہیں کی تھیں۔) پھر بھی جس وقت ان کا محاصرہ کیا گیا ہے اور انہوں نے اپنے مکان کی چھت پر سے حضرت کو یہ پیغام دیا کہ ہم پر کھانا پانی بند کردیا گیا ہے تو حضرت نے فورا آپ و طعام مہیا کرکے اپنے دونوں فرزندوں حسن و حسین علیہما السلام کے ذریعے ان کے پاس بھیجا ، چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور دوسروں نے بھی اس کی تفصیل لکھی ہے۔

دوست و دشمن کے ساتھ حضرت کی عنایت و مہربانی سے کسی کو انکار نہیں تھا، بے بس عورتوں اور بیکس یتیموں سے اس قدر ہمدردی فرمائی کہ " ابوال أرامل والأيتام والمساكين ." ( یعنی بیوائوں، یتیموں اور مسکینوں کے باپ) مشہور ہوگئے تھے۔ خلافت ظاہری کے زمانے میں ایک عورت کو دیکھا کہ راستے میں پانی کی مشک لیے بہت پریشان اور تھکی ہوئی ہے آپ نے بغیر اپنے کو ظاہر کئے ہوئے مشک اس سے لے کر اپنے کاندھے پر رکھی اور اس کے گھر پہنچا دی۔ اس کے لیے خرمے لے گئے، اس کے یتیم بچوں پر شفقت فرمائی اور تنور میں ان کے لیے روٹیاں پکا کر ان کی تسکین کا سامان فرمایا۔

خلیفہ عثمان نے بھی سخاوت اور بخشش میں نام پیدا کیا لیکن صرف اپنے گھرانے والوں کے ساتھ ، چنانچہ ابوسفیان ، حکم ابن ابی العاص اور مروان ابن حکم وغیرہ مسلمانوں کے بیت المال سے بغیر کسی شرعی حق کے لا تعداد دولت سمیٹتے تھے۔

زیادہ امداد مانگنے پر عقیل کی تنبیہ

لیکن امیرالمومنین علیہ السلام اپنے قریبی خاندان کو بھی ضرورت کی کم سے کم مقدار دیتے تھے، جس وقت حضرت کے

۲۶۷

بڑے بھائی جنا عقیل نے حاضر خدمت ہو کر معمولی حقوق سے زیادہ امداد طلب کی تو آپ نے کوئی توجہ نہیں فرمائی انہوں نے حد سے زیادہ اصرار کیا کہ آپ چونکہ آج خلیفہ اور سارے نظم و نسق کے مالک ہیں لہذا ہماری حاجب روائی اور امداد زیادہ ہونا چاہیئے۔ حضرت نے اپنے بھائی کو متنبہ کرنے کے لیے چپکے سے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں گرم کیا اور عقیل کے جسم سے قریب لے گئے

" فضج ضجيج ذيدنف من ألمها،وكادأن يحترق من ميسمها."

(یعنی انہوں نے اس کی تکلیف سے دردناک چیخ ماری اور قریب تھا کہ اس کے اثر سے جل جائیں حضرت(ع) نے فرمایا :

"ثكلت كالثواكل ياعقيل،أتئن من حديدةأحماهاانسان هاللعب هوتجرّني الىنارسجّرهاجباره الغضبه،أتئن من الاذىولاأإن من لظى"

( یعنی رونے والیاں تمہارے سوگ میں بیٹھیں اے عقیل آیا تم اس لوہے کے ٹکڑے سے فریاد کرتے ہو جس کو انسان نے کھیل کے طور پر گرم کیا ہے اور مجھ کو اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہو جس کو خدائے قہار نے اپنے غضب سے بھڑکایا کیا تم اس معمولی سی تکلیف سے فریاد کرو اور میں آتش جہنم سے پناہ نہ مانگوں؟

اب یہ آپ حضرات کے انصاف پر ہے کہ ان دونوں خلیفہ کی حالت اور طرز عمل کا موازنہ کر کے حقیقت کو پرکھیں اور حق کی پیروی کریں۔ آپ کی شفقت و مہربانی دوستوں سے مخصوص نہ تھی بلکہ اس لطف و کرم کے برتائو میں حضرت کے نزدیک دوست دشمن سب برابر تھے۔

مروان ، عبداللہ ابن زبیر اور عائشہ کے ساتھ حضرت کی عنایتیں

آپ جس وقت دشمنوں پر غالب آتے تھے تو ایسی مہربانی فرماتے تھے کہ لوگ حیران رہ جاتے تھے حضرت کا ایک جانی دشمن جس کا بغض و عداوت آپ سے ضرب المثل بن گیا تھا، ملعون ابن ملعون مروان بن حکم شقی تھا لیکن جب آپ جنگ جمل میں اس پر غالب ہوئے تو فصفع عنہ اس سے در گزر فرمائی اور بخش دیا۔

من جملہ حضرت کے بڑے دشمنوں کے عبداللہ بن زبیر بھی تھے جو " يَشْتِمُهُ عَلَى رُءُوس الْأَشْهَادِوَخَطَبَ يَوْمَ الْبَصْرَةِفَقَالَ قَدْأَتَاكُمُ الْوَغْبُ اللَّئِيمُ عَلِيُّ بْنُ أ َبِي طَالِبٍ" ( یعنی علانیہ اور کھلم کھلا آپ کو گالی دیتے تھے اور جب بصرے میں خطبہ پڑھا تو لوگوں سے کہا کہ تمہاری طرف بے وقوف کمینہ ذلیل اور بخیل علی ابن ابی طالب آئے ہیں)( معاذ اللہ) اس کے باوجود جس وقت آپ نے جنگ جمل ختم کی اور یہ قید کر کے حضرت کے سامنے لائے گئے تو آپ نے کوئی سخت لفظ استعمال کیا نہ غصہ دکھایا ، بلکہ درگزر کرتےہوئے اپنا منہ پھیر لیا اور اس کو بخش دیا۔

اور اسب سے بالاتر ام المومنین عائشہ کے ساتھ آپ کا سلوک تھا جس نے عقلوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپ کے شروع زمانہ خلافت میں جس طریقے سے فتنہ انگیزی کی، آپ کے مقابلے میں صف آرائ ہوئیں اور آپ کو بدنام کیا

۲۶۸

یہ انسان کو اتنا برافروختہ کردیتا ہے کہ جب ایسے شخص پر قابو پاتا ہے تو اس کا بھیجا نکال دیتا ہے، اور سخت سزائیں دیتا ہے لیکن جب حضرت ان پر غالب ہوئے تو ان کی کوئی ہلکی اہانت بھی نہیں کی، بلکہ ان کے بھائی محمد بن ابی بکر کو ان کی خدمت کے لیے معین فرمایا۔ کاموں سے فارغ ہونے کے بعد غصے اور بے مروتی کے عوض رحم و کرم سے پیش آئے اور آپ کے حکم سے قبیلہ عبدالفیس کی بیس(20) عدد تندرست عورتیں مردانہ لباس پہنے تلواریں کمر سے لگائے اور چہروں پر نقاب دالے ہوئے تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ یہ عورتیں ہیں عائشہ کے ہمراہ مدینے روانہ ہوئیں۔ جس وقت یہ زنان مدینہ اور ازواج رسول(ص) کے سامنے حضرت علی(ع) کے لیے تشکر و اتمنان کا اظہار کررہیں تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ میں زندگی بھر کا علی(ع) کا ممنون احسان رہوں گی، مجھ کو یہ خیال نہیں تھا کہ علی(ع) اس قدر عالی فطرت ہوں گے کہ باوجود میری اس قدر دشمنی اور فتنہ انگیزیوں کے مجھ کو ایک کلمہ بھی نہیں کہیں گے بلکہ انتہائی مہربانی اور رحم و کرم سے کام لیں گے۔ لیکن اس سے ایک شکایت ہے کہ مجھ کو اجنبی مردوں کے ساتھ مدینے کیوں بھیجا۔ ان کنیزوں نے آکر فورا مردانہ لباس اتار دیا اور چہرے کھول دیے تب معلوم ہوا کہ یہ سب کنیزیں تھیں جو مردانہ لباس میں ہمراہ تھیں تاکہ ایک طرف تو راستے کے لوگ یہ سمجھیں کہ مردانہ دستہ ے۔ لہذا رہزنی کی ہمت نہ کریں اور دوسری طرف عائشہ کی روانگی بھی مردوں کے ساتھ نہ ہو۔ ٹھیک ہے۔

چنین کنند بزرگان چہ کرد باید کار

معاویہ کا پانی روکنا اور علی(ع) کا ان پر مہربانی کرنا

جنگ صفین میں معاویہ کا لشکر پہلے پہنچ کے نہر فرات پر قابض ہوگیا اور بارہ ہزار سپاہی اس کی نگرانی پر مقرر کردیے جب امیرالمومنین(ع) کی فوج پہنچی تو ان لوگوں نے پانی لینے سے روکا حضرت نے معاویہ کو پیغام دیا کہ ہم لوگ یہاں پانی پر جنگ کرنے نہیں آئے ہیں۔ اپنے آدمیوں سے کہہ دو کہ پانی بند نہ کریں تاکہ دونوں لشکر آزادی سے سیراب ہوں۔ معاویہ نے کہا کہ میں ہرگز پانی نہیں دوں گا یہاں تک علی(ع) مع اپنی فوج کے پیاس سے دم توڑ دیں۔ جس وقت حضرت نے یہ جواب سنا مالک اشتر کو سواروں کے ایک دستے کے ساتھ بھیجا جنہوں نے ایک ہی حملے میں معاویہ کے لشکر کو پراگندہ کردیا اور فرات پر قبضہ کر لیا۔

اصحاب نے عرض کیا کہ یا امیرالمومنین(ع) اگر اجازت ہوتو ہم بھی انتقام لیں اور ان پر پانی بند کر دیں تاکہ وہ لوگ پیاس سے ہلاک ہوجائیں پھر لڑائی جلد ختم ہوجائے۔ حضرت نے فرمایا :" لاوالله لاأكافئ هم بمثل فعله مافسحواله مع نبعضالشريعة" یعنی نہیں کدا کی قوسم میں انہیں کی ایسی حرکت کر کے بدلا نہیں لوں گا ان کے یے نہر کا ایک حصہ چھوڑ دو ( یعنی ادھر کا کنارہ ان کو دے دو، اس طرف کا پانی تمہارے لیے کافی ہے، میں نے جلسہ کا وقت دیکھتے ہوئے دشمنوں پر حضرت کی عنایت و مہربانی کے مفصل حالات سے مشتے نمونہ از خردارے چند مختصر باتیں پیش کی ہیں، لیکن آپ کے

۲۶۹

بڑے بڑے علماء نے ان سارے مطالب کو تشریح و تفصیل سے درج کیا ہے۔ جیسے طبری نے اپنی تاریخ تاریخ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب 51 میں اور مسعودی نے مروج الذہب میں، نیز دوسرے مورخین نے بھی حوالہ دیا ہے تاکہ روشن خیالی اور منصف مزاج حضرات دونوں خلیفہ ( عثمان و علی علیہ السلام) کے حالات کا الگ الگ جائزہ لیں اور عقل سلیم سے غور کریں کہ ان دونوں میں سے کون خلیفہ آیہ شریفہ و رحماء بینہم کا مصداق ہے پس اگر غور و انصاف سے دیکھیں گے تو تصدیق کریں گے کہ آیہ شریفہ کے معنی اس طرح ہوتے ہیں محمد رسول اللہ مبتداء والذین معہ معطوف بر مبتداء اور اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے خبر بعد از خبر ہے اور یہ ساری صفتیں ایک ہی شخص کی ہیں۔ یعنی پیغمبر(ص) کے ساتھ ہونا، میدان جنگ اور علمی و مذہبی مباحثوں میں کفار پر سخت و درشت ہونا اور دوست و دشمن پر مہربان و رحمدل ہونا یہ تمام صفات اسی شخصیت سے وابستہ ہیں جو دم بھر رسول خدا(ص) سے جدا نہ رہا ہو بلکہ جدائی کا خیال بھی نہ کیا ہو( جیسا کہ ہم پہلے ثابت کرچکے ہیں) اور وہ صرف علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے۔چنانچہ میں عرض کرچکا ہوں کہ علامہ فقیہہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں کہ اہے کہ خدا نے اس آیہ شریفہ سے علی علیہ السلام کی تعریف کی ہے۔

شیخ : آپ کے بیانات کے جوابات بہت ہیں، لیکن اگر آیت کے معنی یہی ہیں جو آپ کہہ رہے ہیں تو والذین معہ کے ساتھ درست نہیں ہوتے کیونکہ والذین معہ جمع ہے اور خود یہ عبارت بتاتی ہے کہ آیت ایک شخص کے بارے میں نازل نہیں ہوئی ہے کیونکہ اگر یہ صفات ایک ہستی کے لیے تھے تو جمع کی لفظ کیوں ذکر ہوئی۔

خیر طلب : اول تو آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ تمہارے بیانات کے جوابات بہت ہیں تو آخر آپ حضرات وہ جوابات کیوں نہیں دیتے تاکہ بات صاف ہوجائے؟ پس آپ حضرات کی خاموشی خود اس کی دلیل ہے کہ میرے دلائل منطقی ہیں( یہ دوسری بات ہے کہ ہٹ دھرمی اور مغالطہ بازی کا دروازہ ہر وقت کھلا ہوا ہے) اور آپ حضرات چونکہ اںصاف پسند ہیں لہذا میرے معقول جوابات کے مقابلے میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔

آیت میں جمع کی لفظ تعظیم و تکریم کے لیے ہے

دوسرے جناب عالی کا یہ بیان محض کج بخثی ہے کیونکہ اول تو آپ خود جانتے ہیں کہ کلام عرب و عجم میں تعظیم و تکریم یا دوسرے اسباب کی بنا پر جمع کا اطلاق واحد پر عام طور سے رائج اور مستعمل ہے۔

باتفاق جمہور آیہ ولایت کا نزول علی(ع) کی شان میں

چنانچہ قرآن مجید جو ہمارے لیے مضبوط آسمانی سند ہے اس کے اندر ایسی مثالیں بکثرت ہیں، مثلا آیہ مبارکہ ولایت

۲۷۰

سورہ نمبر5 ( مائدہ) آیت نمبر60 میں ارشاد ہے۔

"إِنَّماوَلِيُّ كُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواالَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَوَيُؤْتُونَ الزَّكاةَوَهُمْ راكِعُونَ "

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تمہارے ولی امر اور اولی بالتصرف صرف خدا اور رسول(ص) اور وہ مومنین ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔

جس پر جملہ مفسرین و محدثین کا اتفاق ہے جیسے1۔ امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر جلد سیم ص431 میں۔ 2۔ امام ابواسحق ثعلبی نے اپنی کشف البیان میں۔ 3۔ جار اللہ زمخشری نے تفسیر کشاف جلد اول ص422 میں۔ 4۔ طبری نے اپنی تفسیر جلد ششم ص186 میں۔ 5۔ ابو الحسن ربانی نے اپنی تفسیر میں۔ 6۔ ابن ہوازن نیشاپوری نے اپنی تفسیر میں۔ 7۔ ابن سعید قرطبی نے اپنی تفسیر جلد ششم ص221 میں۔ 8۔ نسفی حافظ نے اپنی تفسیر ص452 ( برحاشیہ تفسری خازن بغدادی) میں۔ 9۔ فاضل نیشاپوری نے غرایب القرآن جلد اول ص461 میں۔ 10۔ ابو الحسن واحدی نے اسباب النزول ص148 میں۔ 11۔ حافظ ابوبکر جصاس نے تفسیر احکام القرآن ص542 میں۔ 12۔ حافظ ابوبکر شیرازی نے فیما نزل من القرآن فی امیرالمومنین میں۔ 13۔ ابو یوسف شیخ عبدالسلام قزوینی نے اپنی تفسیر کبیر میں۔ 14۔ قاضی بیضاوی نے انوار التنزیل جلد اول ص245 میں۔ 15۔ جلال الدین سیوطی نے در المنثور جلد دوم ص264 میں۔ 16۔ قاضی شوکانی صنعائی نے تفسیر فتح القدیر میں۔ 17۔ سید محمد آلوی نے اپنی تفسیر جلد دوم ص349 میں۔ 18۔ حافظ ابن ابی شیبہ کوفی نے اپنی تفسیر میں۔ 19 ۔ ابوالبرکات نے اپنی تفسیر جلد اول ص496 میں۔ 20۔ حافظ بغوی نے معالم التنزیل میں۔ 21۔ امام ابوعبدالرحمن نسائی نے اپنی صحیح میں۔ 22۔ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص23 میں۔ 23۔ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص275 میں۔ 24۔خازن علاء الدین بغدادی نے اپنی تفسیر جلد اول ص496 میں۔ 25۔ سلیمان حنفی نے ینابیع المودۃ ص212 میں۔ 26۔ حافظ ابوبکر بیہقی نے کتاب مصنف میں۔ 27۔ زرین عبدری نے جمع بین الصحاح الستہ میں۔ 28۔ ابن عساکر مشقی نے تاریخ شام میں ۔ 29۔ سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص9میں ۔ 30۔ قاضی عبدالحی نے مواقف ص256 میں۔ 31۔ سید شریف جرجانی نے شرح مواقف میں۔ 32۔ ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص123 میں۔ 33۔ حافظ ابوسعد سمعانی نے فضائل الصحابہ میں۔ 34۔ ابوجعفر اسکافی نے نقض العثمانیہ میں۔ 35۔ طبرانی نے اوسط میں۔ 36۔ ابن مغازلی فقیہہ شافعی نے مناقب میں۔ 37۔ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں۔ 38۔ مولوی علی قوشجی نے شرح تجرید میں۔39۔ سید محمد مومن شبلنجی نے نور الابصار ص77 میں۔ 40۔ محب الدین طبری نے ریاض النفرہ جلد دوم ص227 میں۔ نیز اور آپ کے اکثر ارباب علم و دانش نے سدی ، مجاہد، حسن بصری ، اعمش، عتبہ بن ابی حکیم، غالب بن عبداللہ ، قیس بن ربیعہ ، عبابہ بن ربیعی، عبداللہ ابن عباس ( خیر امت و ترجمان القرآن ) ابو ذر غفاری ، جابر ابن عبداللہ انصاری، عمار، ابو رافع اور عبداللہ بن سلام وغیرہ سے نقل کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ یہ آیت مبارکہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور ہر ایک نے مختلف عبارتوں کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ جس وقت حضرت نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی راہ خدا میں سائل کو دی تو یہ آیت شریفہ نازل ہوئی حالانکہ اس میں بھی جمع کا لفظ استعمال ہوا ہے جو صرف منصب ولایت کی تعظیم و تکریم اور حضرت کی امامت و خلافت کو ثابت کرنے کے لیے ہے کیونکہ کلمہ حصر ( انما) کے ساتھ ارشاد ہوا ہے

۲۷۱

کہ امت کے امور میں خدا و رسول کے بعد اولی بالتصرف وہی شخص ہے جس نے بحالت رکوع خدا کی راہ میں صدقہ اور خیرات دی ہے اور وہ علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔

شیخ : یقینا آپ کو ماننا پڑے گا کہ یہ مطلب اتنا محکم نہیں ہے جتنا آپ نے فرمایا ہے کیونکہ اس آیت کی شان نزول میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں انصار کی شان میں نازل ہوئی، کچھ کہتے ہیں کہ عبادہ بن صامت کی شان میں آئی اور بعض نے عبداللہ بن سلام کے لیے لکھا ہے۔

خیر طلب : آپ جیسے صاحبان علم سے تعجب ہے کہ ( علاوہ تواتر علمائے شیعہ کے) خود اپنے جمہور مفسرین اور اکابر علماء کے خیالات و عقائد کے خلاف جنہوں نے اس آیہ شریفہ کو شان امیرالمومنین(ع) میں نازل ہونے کی تائید و تصدیق کی ہے۔ چند متعصب اور مجہول و ضعیف القول افراد کے اختلافات کا جو شاذ و مردود اور ناقابل قبول ہیں سہارا ڈھونڈھتے ہیں، حالانکہ آپ کے محققین و اکابر فضلاء نے اس معنی پر اتفاق کا دعوی کیا ہے۔ مثلا فاضل تفتازانی اور مولوی قوشجی جو شرح تجرید میں کہتے ہیں۔

" انما نزلت بلاتفاق المفسرين في حق علی ابن ابی طالب عليه السّلام حين أعطى السّائل خاتمه وهوراكع في صلاته "

یعنی بہ اتفاق مفسرین یہ آیت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حق میں نازل ہوئی جب کہ آپ نماز کے اندر رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی سائل کو عطا کی۔

آیا ایک مںصف اور عالم انسان کی عقل اجازت دیتی ہے کہ اہل سنت کے جمہور مفسرین اور اکابر علماء کے اقوال کو نظر انداز کر کے بچے کچے خوارج و نواصب میں سے چند متعصب بلکہ معاند اشخاص کے مہمل و بے معنی اکا دکا اقوال پر بھروسا کرے؟

آیہ ولایت میں شبہات و اشکالات اور ان کے جوابات

شیخ : جناب عالی نے اپنے بیان میں کوشش کی ہے کہ اس آیت کو نقل کرتےہوئے اپنی چابکدستی سے علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت بلافصل اور امامت ثابت کردیں حالانکہ اس آیت میں ولی کا لفظ محب اور دوست دار کے معنی میں ہے نہ کہ امام اور خلیفہ بلافصل کے معنی میں۔ اگر آپ کا یہ مرفانان صحیح ہو کہ ولی سے خلیفہ اور امام مراد ہے العبرۃبعموم اللفظ لا بخصوص السبب کے قاعدے سے یہ صرف ایک ذات پر مشتمل نہ ہوگا بلکہ دوسرے افراد بھی اس میں شامل ہوں گے جن میں سے ایک علی کرم اللہ وجہہ بھی ہیں۔ نیز کلمہ ولیکم اللہ اور کلمہ الذین میں جمع کا صیغہ عموم کے لیے ہے اور جمع کا جمل واحد پر بغیر کسی دلیل کے اور کلام خدا کی تاویل اور بلا تجوز کے جائز نہیں ہے۔

خیر طلب : پہلی چیز تو یہ کہ آپ کو کلمہ ولیکم میں دھوکا ہوا ہے اس لیے کہ " ولی " مفرد" ہے اور کم " جمع ہے جس تعلق امت سے ہے لہذا یہاں واحد پر اطلاق نہیں ہے جس میں آپ اشکال وارد کرسکیں۔ البتہ ولی فرد واحد ہے

۲۷۲

جس کو ہر زمانے میں امت پر ولایت حاصل ہے۔ دوسرے یہ کہ جن کلمات جمع میں بعض متعصبین اور خوارج و نواصب اعتراض و اشکال وارد کرنے کی کوشش کرتےہیں اور کہتے ہیں کہ واحد پر حمل نہیں ہوسکتے ہیں۔

اس اشکال کا جواب بھی اس مطلب کے اندر میں اپنی گفتگو میں دلیل کی حیثیت سے عرض کرچکا ہوں کہ اہل علم و ادب کے یہاں رائج اور ثابت ہے اور ادباء و فضلا کے بیانات میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ تعظیم وتکریم یا دوسرے اسبابکی بنا پر جمع کو واحد پر حمل کیا ہے علاوہ اس کے جیسا کہ آپ دعوی کررہے ہیں عموم لفظ کے لحاظ سے ہم بھی کلمہ حصر انما کے مطابق اس آیہ شریفہ کا نزول حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں سمجھتے ہیں لیکن اس کے مخصوص ہونے کا دعوی نہیں کرتے بلکہ دوسرے افراد معصومین(ع) کو بحِ اس میں شامل سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے معتبر اخبار و احادیث میں مروی ہے کہ عترت طاہرہ(ع) میں سے باقی ائمہ بھی اس آیت میں داخل ہیں، اور ہر امام منزل امامت کے قریب پہنچ کے اس فضیلت اور خصوصیت پر فائز ہوتا ہے ( یہی ہیں وہ افراد جنکے لیے آپ کا دعوی ہے کہ ان کو امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ اس آیت میں شامل ہونا چاہئیے)۔

چنانچہ جار اللہ زمخشری کشا میں کہتے ہیں کہ اگر چہ اس آیہ شریفہ میں حصر ہے۔ اور یہ علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے لیکن جمع کے ساتھ ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے بھی ان حضرت کی پیروی پر راغب ہوں۔

تیسرے یہ کہ آپ نے دعوی کو شبہے میں ڈالنے کے لیے اپنے بیان میں ایک بہت بڑا مغالطہ دیا ہے کہ شیعوں نے اس آیت کو تاویل کر کے علی علیہ السلام سے مخصوص کیا ہے حالانکہ ( سوا گنے چنے معاندین و مبغضین کے ، فریقین ( شیعہ و سنی) کے تمام مفسرین و محدثین کا اتفاق ہے کہ جیسا پہلے عرض کرچکا ہوں۔ اس آیت کی تنزیل ہی امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں ہوئی ہے نہ یہ کہ شیعوں کی تاویل سے یہ منصب ان حضرت کی طرف منسوب کردیا گیا ہو۔

شیخ : اس آیت میں "ولی" قطعا ناصر کے معنی میں ہے کیونکہ اگر اولی بالتصرف کے معنی میں ہوتا جو خلافت و امامت کی منزل ہے تو رسول اللہ(ص) کی زندگی میں بھی اس عہدے پر فائز ہونا چاہئیے تھا حالانکہ یہ بات صریحی طور پر باطل ہے۔

خیر طلب : یہ صرف یہ کہ اس عقیدے کے باطل ہونے پر آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ آیت کا ظاہری قرینہ بھی ان حضرت کے لیے اس مقام و منصب کے دوام کو ثابت کرتا ہے کیونکہ جملہ اسمیہ کی دلالت اور یہ کہ " ولی" صفت مشبہ ہے دونوں اس بلند منزلت کے ثبات و دوام کی دلیل ہیں اور پیغمبر(ص) کا غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ کے اندر حضرت علی(ع) کو اپنا خلیفہ بنانا اور پھر مرتے دم تک معزول نہ کرنا اس مقصد کی تائید کرتا ہے، نیز حدیث منزلت بھی اس مطلب کی موئد ہے کہ رسول اللہ(ص) نے بارہا فرمایا علی منی بمنزلۃ ہارون من موسی( جس کی ہم گذشتہ شبوں میں پوری تشریح کرچکے ہیں) اور رسول اللہ(ص) کے زمانہ حیات میں اور بعد وفات ان حضرت کی ولایت پر بجائے خود یہ بھی ایک دوسری دلیل ہے۔

شیخ : میرا خیال ہے کہ اگر تھوڑا غور کیجئے تو ہمارے لیے یہی کہنا مناسب ہوگا کہ یہ آیت ان جناب کی شان میں نازل نہیں ہوئی کیونکہ علی کرم اللہ وجہہ کی منزل اس سے بلند ہے کہ اس آیت سے ان کے لیے کوئی فضیلت ثابت کی جائے،

۲۷۳

قطع نظر اس سے کہ یہ کوئی فضیلت ثابت کرتی ان جناب کے فضائل پر ضرب بھی لگاتی ہے۔

خیر طلب : اول تو ہم اور آپ بلکہ امت کی کوئی فرد یہاں تک صحابہ کبار بھی اس کا حق نہیں رکھتے کہ آیتوں کی شان نزول میں دخل دیں، کیونکہ آیات کی شان نزول دل کی خواہش پر نہیں ہوتی، بلکہ اگر کچھ اشخاص اپنی مرضی سے معانی اور نزول آیات میں تصرف کریں تو یقینا وہ لوگ بے دین ہوں گے۔ جیسے بکرتنین جنہوں نے مشہور جعلسا ز عکرمہ کے قول پر اس آیت کا نزول ابوبکر کے بارے میں بتایا ہے۔

دوسرے جناب عالی جب بولنے پر آتے ہیں تو واقعا رموز و اسرار کا انکشاف کرتے ہیں اس لیے کہ یہ پہلا موقع ہے جب میں آپ سے ایسی بات سن رہا ہوں، حقیقتا آپ کا دماغ بلند ہے اور خوب نکتہ نکالا ہے۔ بہتر ہے فرمائیے کس پہلو سے یہ آیت حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے مرتبہ ولایت پر ضرب لگاتی ہے۔

شیخ : مولانا علی کرم اللہ وجہہ کے درجات عالیہ میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نماز کے وقت خدا کی طرف ایسی توجہ رکھتے تھے کہ کبھی کسی نے اپنی طرف متوجہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا اور ہمارے نزدیک ثابت ہے کہ ایک لڑائی میں آپ کے جسم پر چند تیر ایسے لگے تھے کہ ان کا نکلنا سخت تکلیف کا باعث تھا لہذا جب آپ نماز پر کھڑے ہوئے تو وہ تیر نکال لئے گئے اور انتہائی خضوع و خشوع اور رحمت الہی میں استغراق کی وجہ سے آپ کو بالکل توجہ اور درد کا احساس نہیں ہوا۔ پس اگر یہ واقعہ صحیح ہو کہ ان جناب نے نماز میں سائل کو انگوٹھی دی تو اس سے آپ کی نماز پر بہت بڑی ضرب لگتی ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ جو شخص بارگاہ خداوندی میں انتہائی حضور قلب کی وجہ سے نماز میں درد و الم کی طرف توجہ نہ کرے جو ہر انسان کی فطرت ہے وہ ایک سائل کی آواز پر اس طرح متوجہ ہوجائے کہ رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی اس کودیدے؟

اس کے علاوہ عمل خیر اور وہ بھی ادائے زکوۃ میں نیت ضروری ہے لہذا حالت نماز میں جب کہ سرتا پا خدا کی طرف متوجہ رہنا چاہئے نیت نماز سے دوسری نیت کی طرف عدول اور مخلوق کی طرف توجہ کیونکر کی جاسکتی ہے؟ چونکہ ہم ان جناب کی منزل بلند سمجھتے ہیں، لہذا اس مفہوم کی تصدیق نہیں کرتے ۔ اگر سائل کو کچھ عطا بھی ہوا تو ہرگز حالت نماز میں نہیں ہوا۔ اس لیے کہ رکوع کا مطلب خشوع و تواضع ہے یعنی آپ نے خشوع و تواضع کے ساتھ انگشتری سائل کو دی نہ کہ حالت نماز میں۔

خیر طلب : عزیز من " آپ نے درد تو اچھا سیکھا لیکن دعا کا راستہ بھول گئے" آپ کا یہ اشکال تو مکڑی کے جالے بھی زیادہ کمزور ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ عمل آں حضرت کے مرتبے پر کوئی ضرب نہیں لگاتا بلکہ سائل کی طرف توجہ کرنا اس کو صدقہ دینا اور اس کا دل خوش کرنا تو موجب کمال ہے، اس لیے کہ حضرت علی علیہ السلام ہر وقت اور ہر حال میں خدا اور اس کی رضا کی طرف متوجہ رہتے تھے اور اس عمل میں بھی عبادت جسمانی و روحانی کو عبادت مالی( یعنی راہ خدا میں مال دینا) میں اتفاق کے ساتھ جمع کردیا تھا۔

عزیز گرامی : جس التفات کے لیے آپ نے سنا ہے کہ نماز کے خشوع کو دھچکا پہنچاتا ہے اور عبادت کو کمزور بناتا ہے وہ امور دنیا اور اغراض نفسانی کی طرف ملتفت ہونا ہے، ورنہ عمل خیر کی طرف جو خود عبادت ہے دوسری عبادت کے اندر توجہ

۲۷۴

کرنا موجب کمال ہے مثلا اگر کوئی شخص نماز کے اندر اپنے اعزہ کے لیے گریہ کرے چاہے وہ عزیز ترین مخلوق یعنی خاندان محمد و آل محمد سلام اللہ علیہم اجمعین ہی کے لیے ہو تو اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے لیکن اگر کوئی حالت نماز میں اشتیاق حق یا خوف خداوندی سے روئے تو انتہائی فضیلت کا باعث ہے۔

دوسرے جو آپ نے فرمایا کہ رکوع خشوع و تواضع کے معنی میں ہے تو یہ کسی مقررہ موقع پر صحیح ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر رکوع نماز کے حکم کو جو ایک معین اور واجب فعل ہے آپ لغوی حیثیت سے خشوع پر عمل کرنا چاہیں تو صاحبان عقل و علم اور اہل دین آپ کا مضحکہ اڑائیں گے۔

اس آیہ شریفہ میں بھی آپ نے ظاہر کے خلاف نظر دوڑائی ہے اور لفظ کو قطعا اپنے حقیقی اور عرفی معنی سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے، اس لیے کہ آپ خود جانتے ہیں کہ اصطلاح شرعی میں رکوع کا اطلاق ارکان میں سے ایک رکن پر ہوتا ہے جس کا مطلب اس حد تک خم ہونا ہے کہ ہاتھ کی ہتھیلیاں زانو تک پہنچ جائیں۔ اور اس معنی کی تصدیق خود آپ کے اکابر علما نے بھی کی ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ، چنانچہ فاضل قوشجی شرح تجرید میں جمہور مفسرین کے اقوال کی توضیح کرتے ہیں کہ آپ ہی نماز کے اندر رکوع کر رہے تھے یعنی ان حضرت نے رکوع نماز کی حالت میں انگشتری عطا کی۔

اور ان تمام باتوں سے قطع نظر یہ فرمائیے کہ کلمہ حصر کے ساتھ یہ آیت شریفہ مدح میں نازل ہوئی یا مذمت میں؟

شیخ : ظاہر ہے کہ مدح کے موقع پر آئی ہے۔

خیر طلب : پس جب کہ فریقین ( شیعہ وسنی) کے جملہ اکابر علماء و مفسرین اور محققین و محدثین نے یہ طے کر دیا کہ آیت علی علیہ السلام کی شان نازل ہوئی اور من جانب پروردگار مدح وتمجید کی حامل ہے تو اب آپ جیسے حضرات کے اس قسم کے اختلافات و ایرادات کی کیا گنجائش رہ گئی جن کا سہارا لے کر اہل عناد تعصب اور خوارج و نواصب آپ کے ایسے صاف دل اشخاص کے دماغوں میں بچپنے ہی سے یہ باتیں راسخ کردیں اور آپ بغیر سوچے سمجھے ایسے با قاعدہ جلسے میں انتہائی شان کے ساتھ یہ فرمادیں کہ ہم اس واقعے کی تصدیق نہیں کرتے۔

شیخ : حضرت معاف کیجئے گا جناب عالی چونکہ خطیب و ذاکر اور تقریر میں مشاق ہیں۔ لہذا کبھی کبھی اپنے ارشادات کے تحت میں اس کے کنایے استعمال کر جاتے ہیں جو ناواقف لوگوں میں ایسے خیالات پیداکر سکتے ہیں جن کے نتائج اچھے نہ ہوں لہذا بہتر ہے کہ اپنے بیانات میں ان باتوں کا لحاظ رکھئیے۔

خیر طلب : میرے بیانات میں حقائق کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا ۔ خدا شاہد ہے کہ میں نے کسی کنایے کا قصد نہیں کیا اور نہ اس کی کوئی ضرورت ہی تھی اس لیے کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں صاف صاف کہتا ہوں نہ کہ کنایہ ممکن ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی یا عیب جوئی کے جذبے میں ایسا خیال پیدا ہوا ہو لہذا فرمائیے کہ وہ کنایہ کون سا ہے؟

شیخ : ابھی ابھی گفتگو کے دوران میں صفات مندرجہ آیت محمد رسول اللہ کو بیان کرتے ہوئے آپ

۲۷۵

نے فرمایا کہ یہ صفتیں علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے مخصوص ہیں جن کے ایمان میں اول سے آخر تک شک اور ارتداد پیدا نہیں ہوا۔ یہ جملہ اس بات کا کھلا ہوا کنایہ ہے کہ آپ دوسروں کے شک اور ارتداد کے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کیا خلفائے راشدین یا دوسرے صحابہ اپنے ایمان میں شک و ارتداد رکھتے تھے؟ قطعا سارے اصحاب کلہم اجمعین علی کرم اللہ وجہہ کے مانند ایمان لانے کے اول وقت سے آخر تک تک بغیر شک و ارتداد کے اپنے عقیدے میں ثابت قدم رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے انحراف اور جدائی اختیار نہیں کی۔

خیرطلب : اول تو میں نے اس عبارت کے ساتھ جو آپ نے فرمائی کچھ کہا ہی نہیں ہے، دوسرے آپ خود جانتے ہیں کہ کسی شے کا اثبات اس کے ماسوا کی نفی نہیں کرتا، تیسرے اگرچہ آپ نکتہ چینی کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن دوسروں نےغالبا ایسا نہ کیا ہوگا۔ آپ نے یقینا اپنے اس بیان میں ( معاف فرمائیے گا) مغالطہ دینے کی سعی کی ہے، خدا گواہ ہے کہ نہ میں نے کنایے سے کام لیا اور نہ ایسا خیال رکھا جیسا آپ کا ہے، فرض کیجئے کہ کوئی خیال آپ کے ذہن میں آیا بھی تھا ( اگر مغالطہ بازی اور شبہ سازی کا مقصد نہ رہا ہو) تو بہتر تھا کہ اس جملے کو آہستہ مجھ سے دریافت کر لیے تاکہ میں اثبات یا نفی میں جواب عرض کردیتا۔

شیخ : آپ کے انداز گفتگو سے پتہ چل رہا ہے کہ کوئی بات ہے، البتہ جواب سے خاموشی خود اس قسم کے خیالات پیدا کرتی ہے التماس ہے کہ جو کچھ آپ کی نظر میں ہو صحح سند کے ساتھ بیان فرمائیے۔

خیر طلب : خیالات پیدا کرنے کے باعث تو آپ ہی ہوئے کہ یہ سوال قائم کیا، میں پھر عرض کرتا ہوں کہ بہتر ہے اس مسئلے کو نظر انداز ہی کر دیجئے اور اصرار نہ فرمائیے۔

خیر طلب : میں اپنی طرف سے کبھی سوء ادب نہیں کرتا لیکن آپ کا اصرار نیز آپ نے دوسری عبارت میں مجھ کو جو دھمکی دی ہے وہ اس کا باعث ہوئی کہ حقائق کا انکشاف ہو، روز اول ہی سے اس طرح کے حقائق کا اظہار خود آپ کے علماء کی طرف سے ہوا کیا ہے جنہوں نے حقیقتوں کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، چنانچہ اس موضوع میں بھی سب کا اتفاق ہے کہ اکثر صحابہ جن کا ایمان ابھی کامل نہیں ہوا تھا۔ کبھی کبھی شک اور ارتداد میں گرفتار ہوا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض اسی شک و ارتداد کی حالت پر باقی رہتے تھے اور ان کی مذمت میں آیتیں نازل ہوتی تھیں، مثلا منافقین جن کی مذمت میں پورا ایک سورہ قرآن مجید کے اندر موجود ہے۔

لیکن اخلاقا مناسب نہیں ہے کہ اس قسم کے سوالات علانیہ ہوں، تاکہ سادہ لوح اشخاص جاہلانہ محبت و عداوت

۲۷۶

کے ماتحت خوردہ گیری نہ کریں، میں پھر درخواست کرتا ہوں کہ اس موضوع سے چشم پوشی کیجئے یا اجازت دیجئے کہ اس کا جواب کسی مناسب موقع پر خود ہی آہستہ عرض کردوں۔

شیخ : یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم شک کرنے والوں میں سے تھے؟

خیر طلب : آپ واقعی غلط فہمی پھیلا رہے ہیں اور جذبات کو بھڑکار ہے ہیں، اب جب آپ کا اصرار ہی ہے تو میں بھی آپ کو بغیر جواب دیئے نہیں چھوڑوں گا۔ البتہ اگر نا فہم عوام کے اندر اس کا کوئی رد عمل ہوتو اس کی ذمہ داری آپ کے سر ہوگی۔ آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ تم کہتے ہو تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے یا جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں کیونکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے اس کو نقل کیا ہے اور تاریخ میں درج کیا ہے۔

شیخ : کس موقع پر لکھا ہے؟ کہاں پر ان کو شک ہوا ہے؟ اور کن اشخاص نے شک کیا ہے؟ مہربانی کر کے بیان فرمائیے۔

خیر طلب: جہاں تک کتب اخبار و تواریخ اور سیر سے پتہ چلتا ہے کچھ اشخاص ایک مرتبہ نہیں بلکہ باربار شک کرتے تھے اور حقیقت کھلنے کے بعد پلٹ آتے تھے، لیکن بعض اسی شک پر قائم رہتے تھے اور غضب الہی کے مستحق قرار پاتے تھے۔

حدیبیہ میں عمر(رض) کا نبوت پیغمبر(ص) میں شک کرنا

چنانچہ مشہور معروف فقیہ شافعی ابن مغازل نے مناقب میں اور حافظ ابو عبداللہ محمد بن ابی نصر حمیدی نے جمع بین الصحیحن بخاری و مسلم میں لکھا ہے " قال عمر ابن الخطاب رضی الله عنه ماشککت فی نبوة محمد قط کشکی يوم الحديبية " یعنی عمر ابن خطاب نے کہا کہ میں نے محمد(ص) کی نبوت میں کبھی ایسا شک نہیں کیا تھا، جیسا شک حدیبیہ کے روز کیا۔)

خلیفہ کا انداز کلام بتاتا ہے کہ آنحضرت(ص) کو نبوت میں شک تو کئی مرتبہ کر چکے تھے لیکن حدیبیہ میں سب سے بڑا شک ہوا۔

نواب : معاف فرمائیے گا قبلہ صاحب حدیبیہ میں کیا ہوا تھا جس کو وجہ سے امر نبوت میں شک پیدا ہوا؟

خیر طلب : اس واقعے کو تفصیل تو بہت ہے لیکن میں وقت کے لحاظ سے اس کا خلاصہ پیش کئے دیتا ہوں۔

واقعہ حدیبیہ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک شب خواب میں دیکھا کہ اصحاب کے ہمراہ مکہ تشریف لے گئے اور

۲۷۷

عمرہ بجالائے۔ صبح کو اصحاب کے سامنے بیان فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ آپ خود ہمارے خوابوں کی تعبیریں دیتے ہیں لہذا اس خواب کی تعبیر بھی ارشاد فرمائیے، آں حضرت(ص) نے فرمایا انشاء اللہ ہم مکے جائیں گے اور یہ عمل بجالائیں گے ( لیکن اس کی کامیابی کا وقت نہیں معین فرمایا۔)

پیغمبر(ص) زیارت بیت اللہ کے اشتیاق میں اصحاب کے ہمراہ اسی سال مکہ معظمہ ک طرف روانہ ہوئے، کفار قریش کو معلوم ہوا تو حدیبیہ پر ( یہ مکہ معظمہ کے نزدیک ایک کنواں ہے جس کا نصف حرم کے اندر اور نصف حرم سے خارج ہے) اپنے سازو سامان کےساتھ آپہنچے اور مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے روکا۔ چونکہ پیغمبر(ص) جنگ کے قصد سے تشریف نہیں لائے تھے بلکہ آپ کا مقصدصرف زیارت تھا لہذا کفار مکہ سے صلح فرما لی اور صلح نامہ لکھ کر اسی مقام سے واپس ہوگئے

یہی وہ موقع تھا جب عمر کو خود انہیں کے قول کے مطابق شک پیدا ہوا، چنانچہ آپ کےبڑے بڑے علماء نے لکھا ہے کہ آن حضرت(ص) کی اصل نبوت ہی میں شک کیا اور خدمت رسول (ص) آکر عرض کیا یا رسول اللہ(ص) کیا آپ پیغمبر(ص) اور سچے انسان نہیں ہیں؟ کیا آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم مکے جائیں گے، عمل عمرہ بجالائیں گے اور اسی جگہ حلق راس اور تقصیر کرینگے ؟ اب کیوں اس کے برخلاف ہوا؟

آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ کیا میں نے وقت مقرر کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ اسی سال جائیں گے؟ عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ حضرت نے فرمایا پس جو کچھ میں کہہ چکا ہوں صحیح ہے، ہم انشاء اللہ جائیں گے اور خواب کی تعبیر ہوگی۔ البتہ خواب کی تعبیر میں مشیت خداوندی سے دیر یا جلدی ہوا کرتی ہے، پھر تصدیق رسول کے لیے جبرئیل نازل ہوئے اور سورہ نمبر48 ( فتح ) کی آیت نمبر27 لائے کہ :

"لَقَدْصَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيابِالْحَقِّ- لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَالْحَرامَ إِنْشاءَاللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لاتَخافُونَ- فَعَلِمَ مالَمْ تَعْلَمُوا- فَجَعَلَ مِن ْدُونِ ذلِكَ فَتْحاًقَرِيباً"

یعنی یقینا خدائے تعالی نے اپنے رسول(ص) کے خواب کی صداقت ثابت کر دی کہ تم لوگ ضرور بالضرور امن و اطمینان کے ساتھ انشاء اللہ بلا خوف مسجد الحرام میں داخل ہوگے اعمال حج کے بعد سر تراشی اور تقصیر کرو گے اور خدا ہر وہ بات جانتا ہے جو تم کو نہیں معلوم ہے، پس اس کے بعد عنقریب تم کو فتح عنایت کرے گا۔ ( جس سے فتح خیبر مراد ہے)

یہ تھا قضیہ حدیبیہ کا خلاصہ جو ثابت قدم مومنین اور متزلزل اشخاص کے لیے ایک امتحان تھا۔

جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو مولوی صاحبان نے گھڑیوں پر نظر ڈالی اور قہقہ لگا کر کہا کہ مطلب اتناء دلچسپ اور شیرین ہے کہ ہم بالکل بے خود ہوجاتے ہیں، واقعی ہماری وجہ سے اہل جلسہ کو کافی زحمت ہوئی۔ کل کی شب آپ حضرات کا بہت وقت صرف ہوا، اور آج بھی آدھی رات سے کہیں زیادہ گزر چکی ہے، اخلاقا یہ بات اچھی نہیں ہے لہذا بہتر ہے کہ جلسہ برخاست کیا جائے ۔ اسی دوران میں چائے اور شیرینی وغیرہ آگئی اور ہم لوگ مزاح و تفریح میں مصروف ہوگئے تاکہ مولوی صاحبان کی افسردگی دور ہوجائے۔

۲۷۸

خلاف امید باتیں

حافظ : قبلہ صاحب ہم لوگ آپ کی ملاقات اور خصوصا آپ کے اخلاق سےبہت خوش ہوئے، ہمارے خواہش تھی کہ آپ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں۔ کیون کہ آپ کے اندر اس قدر جذب و کشش ہے کہ جس شخص کو آپ کی ہم نشینی و ہم کلامی حاصل ہو وہ ہمہ تن محو اور ساکت ہوجاتا ہے اور کوئی بات کہنا بھی چاہتا ہے تو وہ اس کے دل ہی میں رہجاتیہے، چنانچہ میرے دماغ میں بھی بہت سی باتیں تھیں اور ہیں جو کہنے سے رہ گئیں، لیکن کیا کیا جائے کہ اب وطن کی واپسی لازمی ہے اس لیے کہ وہاں بھی ہم کو بہت سے اہم ذاتی اور قومی کام در پیش ہیں جن کا حرج ہو رہا ہے، لہذا امید ہے کہ جناب عالی مہربانی فرما کر ہمارے گھر پر تشریف لائیں گے تاکہ آپ کی صحبت سے ہم پورا فائدہ اٹھا سکیں۔

نواب : ( حافظ صاحب سے ) ہم لوگ آپ کو جانے نہیں دیں گے کیونکہ اب معاملہ بہت نازک منزلوں سے گزر رہا ہے اور بات میں یکسوئی پیدا ہونا ضروری ہے اس لیے کہ آپ حضرات ہمیشہ ہم وگوں سے کہا کرتے تھے کہ رافضی صاحبان ( شیعہ فرقہ) کے پاس قطعا کوئی دلیل و برہان نہیں ہے اور وہ تنہائی میں خوب باتیں بناتے ہیں، اگر ہمارے سامنے آجائیں تو بہت جلد لا جواب ہوجائیں گے۔ لیکن اس دعوے کے برعکس ان جلسوں میں ہم آپ ہی کو بالکل لا جواب اور زبوں حال پارہے ہیں لہذا ضرورت اس کی ہے کہ پختہ طور سے حقیقت معلمو ہو جائے تاکہ ہم حاضرین جلسہ اور با فہم سامعین جس طریقے کو حق پائیں اس کی پیروی کریں۔

حافظ : ( نواب سے ) یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ ہم کو لا جواب اور مغلوب سمجھ رہے ہیں، بلکہ فاضل مقرر کی اخلاقی کشش ، زبان آوری اور حسن بیان نے ہم کو خاموش کر دیا ہے کیونکہ ہم ادب کا لحاظ کرتے ہوئے عزیز مہمان کو تکلیف نہیں دینا چاہتے۔ ورنہ ابھی تو ہ نے بنیادی گفتگو شروع ہی نہیں کی ہے۔ اور اگر ہم پوری طرح بحث کرنے پر آجائیں گے تو مدلل بیانات کے ذریعے آپ دیکھیں گے کہ حق ہمارے ہی ساتھ ہے اور ہمارے ہی دلائل سے حقیقت ثابت ہوتی ہے۔

نواب : ( حافظ صاحب سے) ہم نے آج کی شب تک جو کچھ آقائی قبلہ سلطان الواعظین صاحب سے سنا ہے سب کا سب مطابق عقل اور دلیل و برہان کے ساتھ اور آپ کو اس منطق اور دلیل کے مقابلے میں بے بس پایا۔ پھر بھی اگر آپ فرماتے ہیں کہ کچھ دلائل ہیں تو قطعا آپ کو ٹھہرنا چاہیے اور وہ دلیلیں قائم کرنا چاہئیے۔ میں آپ سے صاف صاف کہہ دیتا ہوں اور خطرے سے آگاہ کئے دیتا ہوں کہ انراتوذں کی گفتگو اور رسائل و اخبارات میں اس کی اشاعت سے اکثر لوگوں کے عقیدے پلٹ گئے ہیں۔ اور اگر کما حقہ حق کا اظہار نہ کیجئے گا تو قطعا آپ کی بانی شریعت کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔

( اس وقت جلسے پر ایک حیرت انگیز سکوت طاری ہوگیا۔ پھر تھوڑی خاموشی کے بعد)

۲۷۹

حافظ : ( اترے ہوئے چہرے کے ساتھ نواب سے) آپ ان مہمان عزیز مولانا صاحب ہی کا کچھ خیال کیجئے کہ وہ جیسا خود فرما چکے ہیں، مشہد مقدس کو جارہے ہیں، ان کا وقت بھی عزیز ہے گویا وہ روانگی پر بالکل تیار تھے محض ہماری خاطر سے ٹھہر گئے ہیں لہذا یہ ادب و اخلاق کے خلاف ہے کہ ہم ان کو اور زیادہ زحمت دیں۔

خیر طلب: میں آپ کی عنایت کا بہت ممنون ہوں، میری روانگی کے متعلق جو آپ نے فرمایا درست ہے لیکن اس وقت چاہے جتنا اہم کام در پیش ہو دینی خدمات کے مقابلے میں میں اس کو ہیچ سمجھتا ہوں، میری طرف سے کوئی عذر نہیں ہے۔ اگر آپ حضرات پورے سال بھر بھی تشریف رکھیں تو میں حاضر رہوں گا اس لیے کہ ہمارا فرض یہی ہے ہے کہ جب حق بے نقاب نہ ہو جائے برابر اپنی ذمہ داری پوری کرتے رہیں۔ اس فریضے کے علاوہ مجھ کو اہل علم کی صحبت سے بھی خوشی ہوتی ہے کیونکہ اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ خصوصا جناب عالی نے تو اپنے اخلاق سے مجھ کو گردیدہ بنالیا ہے۔ فقط میں محترم میزبان جناب مرزا یعقوب علی خان سے ضرور کافی شرمندہ ہوں کہ ہماری وجہ سے ان کو زحمت اٹھانا پڑی۔

( برادران محترم مرزا یعقوب علی خان، ذوالفقار علی خان اور عدالت علی خان نے جو سر برآوردہ قزلباش حضرات میں سے ہیں ایک ساتھ بے چین ہو کر آواز بلند کی کہ ہم کو آپ سے ایسی باتون کی امید نہیں تھی، ہم مکان کے مالک نہیں ہیں بلکہ آپ کے خدمت گزار ہیں اگر جناب عالی زندگی بھر اس مکان میں قیام فرمائیں تو ہم کوئی زحمت نہ ہوگی بلکہ آپ کا وجود ہمارے لیے باعث فخر ہوگا۔

( پشاور کے مژفاء میں سے جناب آقا سید محمد شاہ اور علمائے شیعہ میں سے جناب مولوی سید عدیل اختر صاحب نے فرمایا کہ اگر ممکن ہو تو چند شب اس دینی بزم سے ہمارے گھر کو سرفراز فرمائیے۔)

( آقا مرزا یعقوب علی خان نے فرمایا یہ ناممکن ہے، جب تک قبلہ سلطان الواعظین پشاور میں ہیں اور یہ جلسے قائم ہیں اسی جگہ رہنا چاہئیے۔)

خیر طلب : میں تمام حضرات کا عموما اور محترم میزبانوں کا خصوصا انتہائی شکر گزار اور ممنون ہوں۔

حافظ : تھوڑے سکوت کے بعد، کوئی حرج نہیں ہے، جب آپ حضرات کی یہی خواہش ہے تو ہم چند روز اور ٹھہر جائیں گے۔ لیکن جیسا کہ قبلہ صاحب نے فرمایا ہر شب یہاں مجمع کا اکٹھا ہونا باعث رحمت ہے، بہتر ہوگا کہ اب ہماری قیام گاہ کو مباحثات کا مرکز قرار دیجئے تاکہ پوری ہم آہنگی حاصل ہوجائے۔

خیر طلب : مجھ کو کوئی اصرار نہیں ہے کہ آپ حضرات ضرور ہی یہاں تشریف لائیں۔ چونکہ اس مکان میں کافی وسیع عمارت اور باغ موجود ہے جو اس مجمع کے لحاظ سے بہت مناسب ہے۔ ۔لہذا آپ ہی حضرات نے اس کو منتخب کیا تھا،ورنہ میری طرف سے کوئی عذر نہیں ہے۔ آپ جس جگہ کے لیے حکم دیں میں خوشی سے حاضری دوں گا۔

میرزا یعقوب علی خان : اس مکان اور جماعت قزلباش کی طرف سے کوئی مانع نہیں ہے۔ اگرچہ جناب حافظ صاحب تازہ وارد میں اور ہمارے حال سے واقفیت نہیں رکھتے، لیکن یہاں کے تمام باشندے جانتے ہیں کہ قزلباش لوگ بالعموم

۲۸۰