پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316605 / ڈاؤنلوڈ: 9810
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ

خورشید خاور ترجمہ شبہائے پشاور

مصنف

حجة الاسلام وسلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی

مترجم

الحاج مولانا سید محمد باقر صاحب باقری رئیس جوارس ضلع بارہ نیکی

تجدید نظر

سید اعجاز محمد ( فاضل)

۱

باسمہ سبحانہ،

من لم یشکر الناس لم یشکر اﷲ

ہم ان سطور میں محسن ملت، مبلغ مذہب ، مروج شیعیت ناشر حقائق دین اسلام، ناصر اہل بیت طاہرین علیہم السلام ، فخر المحققین، سید المدققین علامہ سید محمد باقر صاحب نقوی مد اﷲ ظلہ علی رؤوس الموالی بدوام الایا وللیالی کے اعماق قلب سے شکر گزار ہیں کہ آپ نے اپنے مطیع اصلاح کھجوا کی مطبوعات قیمہ و تصنیفات ثمینہ بلکہ بے بہا جواہر و لئالی میں سے حقیقت مذہب شیعہ میں نادر روز گار عظیم الشان تحقیقی شاہکار کتاب مستطاب خورشید خاور ترجمہ شبہائے پشاور کی جلد اول کی نشر و اشاعت اور طباعت کے جملہ حقوق مکتبہ الہمدانی سرگودھا کو مرحمت فرماکر ہم پر احسان عظیم فرمایا جس کے لیے ہم ہمیشہ آپ کے ممنون احسان رہیں گے۔ بے شک جو شخص کسی محسن کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ منعم حقیقی کے شکر کی سعادت سے بھی محروم رہتا ہے۔ اس کتاب میں ایران کے عالم متبحر آقائے سلطان الواعظین اور ہندوستان و کابل کے جلیل القدر علماء کی شہر پشاور میں مذہب شیعہ سے متعلق دلچسپ اور دوستانہ گفتگو ، جس کا سلسلہ دس راتوں تک رہا اور جس میں مذہب شیعہ کے تمام اصول و فروع پر محققانہ بحثین ہوئیں ۔ ہر مسئلہ پر سلطان الواعظین نے مذہب شیعہ کی حقیقت ایسے دلائل ساطعہ و براہین قاطعہ سے ثابت کی کہ علمائے اسلام بھی اعتراف پر مجبور ہوگئے۔انہی مباحثوں کو سلطان الواعظین نے شبہائے پشاور کے نام سے مرتب فرمایا جس کا اردو میں ترجمہ فخرالحجاج والزائرین جناب مولانا الحاج سید محمد باقر صاحب رئیس جوارس ضلع بارہ نیکی نے کیا اور ادارہ اصلاح کھجوا نے بڑے اہتمام سے شائع کیا۔

چونکہ پاکستان کے اکثر لوگ اس کتاب کی افادیت ، انفرادیت، اہمیت دندرت سے ناواقف تھے اس لیے ہم نے مکرم و محترم علیجناب علامہ سید محمد باقر صاحب مدﷲ ظلہ وہ فقہ سے اس کی نشر و اشاعت و طباعت کے لیے اجازت حاصل کی۔

چنانچہ علامہ موصوف مدظلہ نے بڑی وسعت قلبی کیساتھ اجازت مرحمت فرمائی۔ جیسا کہ حقائق مذہبیہ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ان کا شعار اور معارف دینیہ کا زیادہ سے زیادہ پرچار ان کا وثار ہے۔

مهتمم مکتبة الهمدانی سرگودھا

۲

اشارہ

بسم اﷲ والحمد ﷲ علی نواله والصلوٰة والسلام علی محمد وآله

میں اپنے حبیب لبیب جناب مولانا سید محمد باقر صاحب مدیر اصلاح اور مکرمی جناب سید محمد صاحب کنز رویٹر فار لیسٹ پٹنہ کی فرمایش کی بنا پر برادرانِ ایمانی کی خدمت میں زیر نظر ترجمہ پیش کرتے ہوئے بجا طور پر فخر محسوس کرتا ہوں کیونکہ اس کا تعلق شب ہائے پشاور ایسی مبسوطہ اور جامع و مانع کتاب سے ہے اور جو آقائے سلطان الواعظین دام ظلہ کے ان بے نظیر اور ایمان افروز مذاکرات علمیہ کا مجموعہ ہے جن کو نگاہ حق و انصاف سے مطالعہ کرلنے کے بعد کوئی شخص مذہب حق کی تلاش میں گمراہی اور دھوکے کا شکار نہیں ہوسکتا ۔ مجھ کو یقین ہے کہ یہ کتاب باطل کی تاریکی کو دور کرنے اور منزل حقیقت کو روشن کرنے میں انشاء اﷲ آفتاب نصف النہار کا کام کرے گی چنانچہ اسی خیال کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے اس ترجمہ کا نام “ خورشید خاور” تجویز کیاہے۔

تھوڑے سے افسوس کیساتھ یہ بھی عرض کرودوں کی اختصار کا لحاظ رکھتے ہوئے مجبورا آقائے موصوف کے مقدمات دیباچہ اور درمیان کتاب سے کچھ مضامین مفید ہونے کے باوجود حذف کردینا پڑے ہیں۔ پھر بھی اس بات کا پورا خیال رکھا گیا ہے کہ اصل کتاب کا کوئی ایسا جز کم نہ کیا جائے جس سے مباحثے کی افادیت و جامعیت پر کوئی مضر اثر پڑے ۔ امید ہے کہ ناظرین اس قہری کوتاہی کو نگاہ در گذر سے دیکھتے ہوئے خیال خاکسار مترجم محترم مدیر اصلاح اور مکرمی جناب سید محمد صاحب نیز سلطان الواعظین دام ظلہم کے لیے دعائے خیر میں بخل نہ فرمائیں گے۔ والسلام

عاصی

محمد باقرالباقری الجواسی عفی عنہ

۳

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

آغازِ سفر

ماہ ربیع الاول سنہ۱۳۴۵ہجری میں جب میں اپنی زندگی کی تیسویں منزل طے کر رہا تھا زیارت عتبات عالیات سے مشرف ہوکر ہندوستان کے راستے سے ضامن ثامن حضرت امام رضا علیہ السلام کی عتبہ بوسی کے لیے روانہ ہوا کراچی اور ببئی پہنچنے کے بعد خلاف امید خاص خاص جرائد اور اخبارات نے میری آمد کی خبر شائع کی۔ میرے پرانے دوستوں اور خلوص احباب ایمانی نے مطلع ہوکر اطراف ملک سے دعوت نامے بھیجنا شروع کیے مجبورا تعمیل حکم کرتے ہوئے دہلی ، آگرہ، سیالکوٹ ، کشمیر، حیدر آباد ، بہاول پور، کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں حاضر ہوا۔ اور جہاں بھی وارد ہوا ۔ بلا تفریق قوم، ملت پوری تعظیم و تکریم کیساتھ استقبال ہوا اور اکثر شہروں میں دوسرے مذاہب کے علماء کی طرف سے باب مناظرہ باز رہا۔ مخصوص جلسوں میں سے ایک وہ مناظرہ تھا۔ جو ہندوستان کے قومی پیشوا گاندھی جی کے سامنے علمائے اہل ہنود اور برہمنوں سے منعقد ہوا۔ اور اخبارات و رسائل میں اس کی تفصیل شائع ہوئی ۔ چنانچہ توفیق الہی اور حضرت خاتم الانبیاء کی تائید خاص سے میں کامیابی کیساتھ مقدس دین اسلام اور مذہب حقہ جعفریہ کی حقانیت ثابت کردی۔ پھر زیر صدارت جناب ابوالبشر سید عنایت علی شاہ مدیر محترم اخبار ہفتہ وار اردو در نجف، انجمن اثنا عشریہ “ شہر سیالکوٹ کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا، اور میں اس طرف روانہ ہوگیا۔ حسن اتفاق سے میرے قدیم و صمیم دوست جناب سردار محمد سرور خان رسالدار فرزند رسالدار محمد اکرم خاں مرحوم و برادر کرنل محمد افضل خان نے جو پنچاب میں ہندوستان کے خاندان قزلباش کے نامی سرداروں میں سے تھے۔ سنہ۱۳۳۹ و سنہ۱۳۴۰ ہجری میں کربلا و کاظمین اور بغداد میں افسر رہ چکے تھے۔ خاندان قزلباش کے شریف و مشہور، مومن و محوش عقیدہ اور پاکدامن افراد میں سے تھے اور شہر سیالکوٹ میں رئیس ادارہ عالیہ اور عام طورپر احترام و بندگی کے مالک تھے مختلف طبقوں کے کثیر مجمع کیساتھ میرا شاندار استقبال کیا اور میں ان کے دولتکدہ پر مہمان ہوا ۔ جب اخبارات کے ذریعہ پنجاب میں میرے آنے کی خبر پھیلی تو باوجودیکہ میں ایران کی طرف روانہ ہونے کے لیے کوشش اور اصرار کر رہا تھا چاروں طرف سے مسلسل دعوت نامے

۴

پہنچنے لگے۔ بالخصوص حجة الاسلام جناب مولانا سید علی الحائری ، صاحب تفسیر لوامع التنزیل شہر لاہور کی طرف سے جو پنجاب کے نامور علمائے شیعہ میں سے تھے مجبورا میں برابر سفر اور زیارت برادرانِ ایمانی میں مصروف رہا ۔ من جملہ مومنین و برادران خاندان قزلباش کے جو پنجاب کے مخصوص شیعہ روسا میں سے ہیں افغانستان کے قریب آخری بڑے سرحدی شہر پشاور میں بھی مدعو ہوا۔ چنانچہ جناب محمد سرور خان کے اصرار سے اس کو منظور کر کے چودھویں رجب کو ادھر روانہ ہوا ۔ وہاں پہنچنے پر انتہائی اکرام و احترام کے بعد وعظ و تقریر کا تقاضا کیا گیا ۔ ( چونکہ میں ہندوستانی زبان سے بخوبی واقف نہیں ہوں۔ لہذا ہندوستان کے کسی شہر می منبر پر نہیں گیا۔ لیکن اہل پشاور عموما فارسی زبان سے اچھی طرح سے جانتے ہیں اس لیے میں نے قبول کر لیا اور ایک مدت تک مرحوم عادل بیگ رسالدار کے امامباڑے میں مخصوص طور پر مجالس کی تشکیل ہوتی رہی اور میں مختلف ادیان و مذاہب والوں کے کثیر مجمع کے سامنے اپنا فریضہ ادا کرتا رہا۔ چنانچہ ان لوگوں کے محترم علماء نے جو تبلیغی مجالس میں شریک ہوتے تھے خصوص نشست کی فرمائش کی گئی راتوں تک وہ حضرات میری قیام گاہ پر تشریف لاتے رہے اور گھنٹوں بحث و مباحثہ ہوتا رہا ۔ ایک روز جب میں منبر سے اترا تو معلوم ہوا کہ اکابر علمائے کابل میں سے دو عالم حافظ محمد رشید اور شیخ عبدالسلام ضلع ملتان سے تشریف لائے ہیں اور ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے وقت دیا اور وہ حضرات پے در پے در راتوں تک نماز مغرب کے بعد تشریف لاتے رہے ، ہر شب کا فی دیر تک جو غالبا چھ اور سات گھنٹہ کی مدت ہوتی تھی، اور بعض راتوں میں طلوع صبح کے قریب تک، ہمارا وقت مباحثوں اور مناظروں میں گذرتا تھا، یہاں تک کہ آخری شب کے خاتمے پر اہل سنت کے بزرگان و رؤسا اور اعناف محترم میں سے چھ افراد نے مذہب حقہ، شیعہ اختیار فرمایا۔

چونکہ اخبارات و رسائل کے نامہ نگاروں میں سے چار اشخاص ، فریقین ( شیعہ و سنی ) کی تقریبا دو سو نمایاں شخصیتوں کے سامنے طرفین کے مناظرات اور مقالات کو لکھتے تھے اور سدوسرے دن اخبارات و رسائل میں شائع کرتے تھے۔میں ان اشاعتوں سے ہر شب کے مقالات اور بحثیں جمع کرتا رہا اور اب سای مجموعے کو قارئین کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے اس کتاب کا نام، شبہائے پیشاور، رکھا جو کچھ صاحبان علم و ادب کے سامنے پیش ہو رہا ہے اس میں اس خیرا اندیش پر خور دہ گیری نہ فرمائیں۔ کیونکہ مناظرے کے موقع پر کوئی شخص الفاظ اور زیبائش کلام کی طرف توجہ نہیں رکھتا بلکہ ساری توجہ مطالبات اور حقائق کی طرف رہتی ہے جس طرح سے رسالوں میں چھپ چکا ہے اس میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ بعینہ وہ عبارتیں آپ کے سامنے پیش کی جارہی ہیں۔

ان مناظروں میں جن مطالب پر بحث و گفتگو ہے وہ آیات قرآن مجید ، معتبر احادیث و اخبار ، محققین و اساتذة کلام و علماء بزرگ اور پیشوایان دین کے بیانات اور تائیدات غیبی سے مستنبط ہیں۔

من بسر منزل عتقا نہ بخو و بروم راہ قطع این مرحلہ یا مرغ سلیمان کردم

۵

مجلسِ مناظرہ

پیشاور کے سربرآوردہ رئیس اور میرے میزبان عالیجناب مرزا یعقوب سب علی خان قزلباش کا دولت خانہ چونکہ وسیع تھا اور اس میں ایک بڑے مجمع کے لحاظ سے ہر طرح کی سہولتیں مہیا تھیں لہذا مجلس مناظرہ کے لیے اسی کو تجویز کیا گیا جہاں پوری دس راتوں تک جلسہ منعقد رہا اور انہوں نے انتہائی خلوص کیساتھ اس پورے مجمع کی خاطر تواضع کی۔

پہلی نشست

شب جمعہ ۲۳ رجب سنہ۱۳۴۵ہج

مولانا حافظ محمد رشید ، شیخ عبدالسلام ، سید عبدالحق اور مختلف طبقوں میں سے ان کے چند دوسرے علماء و بزرگان ملت رات کی پہلی ساعت میں وارد ہوئے ہیں ان حضرات سے انتہائی گرم جوشی اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملا، اگرچہ وہ لوگ بہت دل گرفتہ اور ناخوش تھے لیکن چونکہ میں جاہلانہ تعصب و عناد کی نظر نہیں رکھتا تھا لہذا اپنے اخلاقی فریضے پر عمل کرتا رہا۔ فریقین کے محترم افراد کی کثیر جماعت کے سامنے مذاکرات شروع ہوئے ۔ رسی طور پر فریق صحبت جناب حافظ محمد رشید تھے لیکن کبھی دوسرے بھی اجازت لے کر داخل گفتگو ہوجاتے تھے۔ رسالوں اور اخباروں میں مجھ کو “ قبلہ و کعبہ کے عام سے تعبیر کیا ہے جو ہندوستان کے کے اندر روحانیت کے اہم مروجہ القاب میں سے ہے لیکن یا دواشت کے ان صفحات میں میں اس کلمے کو بدل کر اپنے لیے “ خیر طلب” اور حافظ محمد رشید صاحب کےلیے “ حافظ ” کا لفظ استعمال کرتا ہوں۔

حافظ : قبلہ صاحب ! آپ کے پیشاور تشریف لانے کے وقت سے اور برسر منبر تقریر کرنے سے اب تک بحث و مناظرہ اور اختلاف کے کافی جلسے ہوچکے ہیں۔ چونکہ ہم لوگوں پر لازم ہے کہ رفع اختلاف کے لیے کھڑے ہوں۔۔۔۔۔۔ لہذا شبہات کے دفع کرنے کے لیے مسافت طے کر کے پیشاور آئے اور آج امام باڑے میں آپ کے کلمات اور بیانات پورے طور سے سنے آپ کا سحر بیان جیسا سنا تھا۔ اس سے زیادہ پایا۔ آج کی رات بھی ہم آپ کی ملاقات سے فیض حاصل کرنے آئے چنانچہ اگر آپ اگر آپ کی مرضی ہوتو شامل صحبت ہو کر آپ کے ساتھ کچھ بنیادی گفتگو کریں۔

۶

خیر طلب : میں بہت خوشی کیساتھ آپ کے کلمات و ارشادات سننے کے لیے حاضر ہوں۔ لیکن ایک شرط کیساتھ کہ براہ کرم دیدہ تعصب و عادت کو بند رکھیں ہم لوگ وہ بھائیوں کو طرح انصاف اور علم و منطق کا نگاہ سے شبہات کوحل کرنے کے لیے گفتگو کریں اور مجادلات و تعصبات قومی کو الگ رکھ دیں۔

حافظ : آپ کا ارشاد بالکل بجا ہے میں بھی ایک شرط رکھتا ہوں، امید ہے کہ آپ قبول کیجئے گا ۔ اور وہ یہ کہ با ہمی بات چیت میں ہم قرآنی دلائل سے تجاوز نہ کریں۔

خیر طلب : آپ کا یہ تقاضا عقلا اور علماء کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے یعنی علمی اور عقلی حیثیت سے غلط ہے کیونکہ کہ قرآن مجید ایک ایسی مجمل و مختصر مقدس کتاب ہے جس کے بلند مطالب مفسر کی تشریح کے محتاج ہیں۔ اور ہم مجبور ہیں کہ قرآنی کلیات کے ذیل میں معتبر اخبار و احادیث کے ذریعے ثبوت پیش کریں۔

حافظ : یہ درست ہے یہ ایک سلجھی ہوئی فرمایش ہے لیکن میرا تقاضا ہے کہ جب ایسا کرنا ضروری ہو تو ہم متفق علیہ اخبار و احادیث سے ہی استدلال کریں اور عوام کے کلمات اور سنی سنائی باتوں سے پر ہیز کریں اور غصہ اور تعصب سے الگ رہیں تاکہ دوسروں کے لیے مضحکہ نہ بن جائیں۔

خیر طلب : بسر وچشم ، آپ نے بہت صحیح فرمایا ۔ صاحبان علم و عقل اور بالخصوص میرے لیے جس کو سیادت اور رسول اﷲ(ص) سے انتساب کا فخر حاصل ہے قطعی مناسب نہیں کہ اپنے جد بزرگوار رسول خدا(ص) کی سیرت اوع سنت سے اںحراف کرے جو پورے حسن اخلاق پر فائز اور آیہ مبارکہ و إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (۱) کے مخاطب تھے اور قرآنی ہدایات کے خلاف عمل کرے جیسا کہ ارشاد ہے:

"ادْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ- وَ جادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ " (۲)

حافظ :- معاف فرمائے گا چونکہ آپ نے آپنی تقریر کے ضمن میں رسول اللہ(ص)کے ساتھ اپنی نسبت ظاہر کی۔اور اسی طرح سے مشہور بھی ہے ،کیا یہ ممکن ہے کہ میری گزاش قبول کرتے ہوئے ہماری مزید واقفیت کیلئے اپناشجرہ نسب بیان فرمائیے تاکہ ہم دیکھیں کہ آب کا نسب کس سلسلے سے پیغمبر تک ملتی ہے ۔

خاندانی نسب کا تعین

خیرطلب:- میرے خاندان کا نسب حضرت امام موسی کاظم کے ذریعے اس سلسلے سے رسول

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ـ یعنی یقینا تم صاحب خلق عظیم ہو۔

۲ ـ یعنی (ائے میرے رسول (ص)) خلق کو حکمت برہان اور اچھے موعظے کیساتھ راہ خدا کی طرف دعوت دو اور ان سے بہترین طریقے اور اچھے انداز سے مجادلہ کرو۔ ( آیہ ۱۲۶ سورہ نجل)

۷

اللہ (ص)تک منتہی ہوتا ہے ۔

محمد ابن علی اکبر(اشرف الواعظین)بن قاسم(بحرالعلوم)بن حسن ابن اسماعیل مجتہد الواعظ بن ابرہیم بن صالح بن ابی علی محمد(معروف بہ مروان)بن ابی القاسم محمد تقی بن (مقبول الدین)حسین بن ابی علی حسن بن محمد فتح اللہ بن اسحاق بن ہاشم بن ابی محمد بن ابراہیم بن ابی الفتیان بن عبد اللہ بن الحسن بن احمد(ابی الطیّب)بن ابی علی حسن بن ابی جعفر محمد الحائری(نزیل کرمان بن ابراہیم (معروف بہ مجاب)بن امیر محمد العابدین امام موسی الکاظم بن امام جعفر الصادق بن امام محمد الباقر بن امام علی زین العابدین بن امام ابی عبداللہ الحسین (سید الشہدا)الشہید بالطف بن امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیھم السلام ۔

حافظ:- یہ جو شجرہ آپ نے بیان فرمایا ہے امیر المؤمنین علی کرّم اللہ وجھہ تک منتہی ہوتا ہے درانحالیکہ آپ نے اپنے کو رسول خدا(ص)سے منسوب کیا تھا ۔ حق تو یہ ہے اس سلسلہ نسب سے آپ کو چاہیئے تھا کہ اپنے آپ کو اقربائے رسول(ص)سے کہتے نہ کہ آں حضرت(ص)کی اولاد ،کیونکہ اولاد وہی ہے جو رسول اللہ (ص)کی ذریت سے ہو۔

خیرطلب:- ہمارا نسب رسول اللہ تک صدّیقہ کبرای فاطمہ زہرا(س)کی طرف سے پہنچتا ہے کہ جو جضرت امام حسین علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہے ۔

حافظ :- تعجب ہے آپ کے اوپر کہ اہل علم وخبر ہوکر بھی ایسی بات منہ سے نکالتے ہیں ،حالانکہ خود جانتے ہیں کہ آدمی کہ سلسلہ نسب اور نسل اولاد ذکور کی طرف سے ہے نہ کہ اناث کی طرف سے ، اور حضرت رسول خدا(ص)کا بیٹوں سے کوئی سلسلہ نہیں لہذا آپ رسول اللہ کے نواسے اور دخترزادے ہیں نہ آنحضرت(ص)کی اولاد ۔

خیرطلب :- مجھ کو یہ خیال نہیں تھا کہ آپ حضرات اس بات میں اتنی ضد کریں گے ورنہ میں جواب ہی نہ دیتا ۔

حافظ:- آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ، میری گفتگو میں کوئی ضد نہیں تھی بلکہ میری رائے یہی ہےجیسا کہ بہت سے علما ء بھی میرے ہم خیال ہیں کہ نسل اورذریّت اولاد ذکورسےچلتی ہے اناث سے نہیں ۔

چنا نچہ شاعر کہتاہے :-

بنونا بنو ابنائنا و بنا تنا ----بنو هن ابناء الرّجال الاباعد (۱)

اگر آپ اس بات کے خلاف اس بات پر کوئی دلیل رکھتے ہوں کہ رسول (ص)کی بیٹی کی اولاد آں حضرت (ص)ہی کی اولاد شمار ہوتی ہے، تو بیان کیجئے ۔ اگر آپ کا استدلال مکمل ہوگا تو یقینا ہم لوگ مان لیں گے ،بلکہ ممنون بھی ہوں گے ۔

خیر طلب قرآن مجید اور فریقین کے اخبار معتبرہ سے بہت قوی دلیلیں موجود ہیں ۔

-----------------

(۱):- (ہمارے بیٹوں کے بیٹے بیٹیاں ہم سے ہیں لیکن ہماری بیٹیوں کے بیٹے بیٹیاں دور کے مردوں سے ہیں)(یعنی ہم سے نہیں ہیں)

۸

حافظ :- میں متمنّی ہوں کہ بیا ن کیجئے تاکہ ہم مستفیض ہوں ۔

خیرطلب :-یہ آپ کی گفتگو کے ضمن میں مجھ کو وہ مناظرہ یاد آیا جو اسی موضوع پر ہارون رشید خلیفہ عباسی اور حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے درمیان واقع ہوا تھا ۔اور حضرت نے ہارون رشید کو ایسا کافی جواب دیا تھ کہ خود اس نے بھی اس کی تصدیق کی تھی ۔

حافظ:- وہ مناظرہ کیونکر ہوا ہے ؟!بیان کیجئے میں مشتاق ہوں ۔

ذریت رسول (ص)کے بارے میں بارون رشید اور امام موسی کاظم (ع)کا سوال وجواب

خیر طلب:- ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن موسی بن بابویہ قمی ملقب بہ صدوق نے جو چوتھی صدی ہجری می اکابر علماء ،فقہائے شیعہ میں سے تھے ،علم حدیث کے نقّاد اور حالات رجال کے ماہر تھے ،علمائے قم اور خراسان کے درمیان حافظے اور کثرت علم میں ان کا مثل پیدا نہیں ہوا ۔ تین سو تصا نیف کے مالک تھے جن میں سے ایک کتاب "من لا یحضرہ الفقیہ "شیعوں کی ان چار کتابوں میں سے ہے جن پ ر ہر زمانے میں انحصار رہا ہے ۔ سنہ ۳۸۱ ھ میں ایران کے موجودہ پائتخت طہران کے قریب رے میں وفات پائی اورآپ کی قبر شریف اب تک اہل طہران اور باہر سے آنے والوں کے کی زیارت گاہ ہے ۔ اپنی معتبر کتاب "عیون اخبار الرضا"میں ابو منصور احمد بن علی طبرسی نے کتاب "احتجاج"میں مناظرے کی مفصّل کیفیت لکھی ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ایک روز ہارون رشید کے دربار میں تشریف لے گئے ،اس نے چند سوالاد کئے اور ان کے جوابات سنے ۔۔الی آخر ۔من جملہ اس کے سوالوں کے یہ سوال بھی تھا کہ اس نے کہا ۔

"کیف قلتم انا ذرّیة النّبی والنّبی لم یعقب وانّما العقب للذّکر لا للا نثی وانتم ولد البنت ولا یکون له عقب " (۱)

حضرت نے اس کے جواب میں سورہ انعام کی یہ آیت نمبر ) ۸۴-۸۵) تلاوت فرمائی: -ومن ذرّیته دا‎‎ؤد وسلیمان وایّوب ویوسف وموسی وهارون وکذالک نجزی المحسنین وذکریا ویحیی وعیسی والیاس کل من الصالحین "(۲)

--------------

(۱):- تم یہ کیوں کر کہتے ہو کہ ہم اولاد رسول ہیں ؛ حالانکہ پیغمبر (ص)کوئی نسل نہیں رکھتے تھے اور یہ مسلّم ہے کہ نسل لڑکے سی چلتی ہے ،لڑکی سے نہیں ۔تم بیٹی کی اولاد ہو اور آں حضرت (ص)نے کوئی نسل نہیں چھوڑی (یعنی اولاد ذکور سے)۔

(۲):- اور پھر ابراہیم علیہ السّلام کی اولاد میں داؤدعلیہ السّلام ,سلیمان علیہ السّلام ایوب علیہ السّلامً یوسف علیہ السّلام,موسٰی علیہ السّلام ,اور ہارون علیہ السّلام قرار دئیے اور ہم ا ِسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں ۔ اور زکریا علیہ السّلام,یحیٰی علیہ السّلام,عیسٰی علیہ السّلام اور الیاس علیہ السّلام کو بھی رکھا جو سب کے سب نیک کرداروں میں تھے ۔

۹

اور اس سے استدلال فرماتے ہوئے ہارون رشید سے کہا کہ من ابو عیسٰی ؟یعنی عیسٰی کا باپ کون ہے ،ہارون رشید نے جواب دیا کہ لیس لعیسٰی اب یعنی عیسٰی کا کوئی باپ نہیں تھا ۔حضرت نے فرمایا "انّما الحقه بذراری الانبیاء علیهم السلام من طریق مریم ولذالک الحقنا بذراری النّبی من قبل امّنا فاطمة"

یعنی سوا اس کے کوئی بات نہیں کہ خدائے تعالی نے ان کو مریم کے سلسلے سے انبیاء کی ذریّت میں داخل فرمایا اور اسی طرح سے ہم کو ہماری ماں جناب فاطمہ (س)کی طرف سے رسول خدا (ص)کی ذریّت میں قراردیا ۔ امام فخر الدّین رازی بھی تفسیر کبیر جلد چہارم میں صفحہ نمبر۱۲۴میں اس آیت کے ماتحت مسئلہ پنجم میں کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن او رحسین (ع) رسول اللہ(ص)کی ذریّت ہیں کیونکہ خدانے اس آیت میں عیسٰی کو جناب ابراہیم (ع)کی ذریّت سے قرار دیا ہے ،درانحالیکہ عیسٰی کا کوئی باپ نہیں تھا ؛ یہ انتساب ماں کی طرف سے ہے چنانچہ حسنین(ع)بھی اسی طرح سے ماں کی جانب سے ذریّت رسول(ص) ہوتے ہیں ۔جیسا کہ حضرت باقر العلوم امام پنجم نے بھی حجّاج کے سامنے اسی آیت سے استدلال فرمایا ہے۔

پھر حضرت(امام موسی کاظم علیہ السلام نے ہارون رشید کو)نے فرمایا کہ کیا تمہارے لئے کوئی اور دلیل بیان کروں ؟ہارون رشید نے عرض کیا کہ بیا ن کیجئے تو آپ نے آیت مباہلہ پڑھی جو سورہ مبارکہ آل عمران کی آیت ۶۱ ہے ۔

"فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ " (۱)

اور فرمایا کہ کسی شخص نے یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ مباہلے کے موقع پر پیغمبر (ص)نے نصاری کے مقابلے میں حکم خدا سے سوا علی ابن ابی طالب ،فاطمہ ، حسن اورحسین علھیم السلام کے کسی اور کو کساء کے نیچے داخل کیا لہذا مطلب یہی نکلتا ہے کہ انفسنا سے علی ابن ابی طالب ،نسائنا سے فاطمہ زہراء اور ابنا ئنا سے حسن حسین (ع)مراد ہیں جن کو خدا نے اپنے رسول کے فرزند فرمایا ہے ۔ جوں ہی ہارون نے یہ واضح دلیل سنی بے اختیار بول اٹھا "احسنت یا ابا الحسن " چنانچہ ہارون کے مقابلے میں امام موسی کاظم کے اس استدلال سے" حسنین (ع)فرزند رسول خدا(ص)ہیں "ثابت ہوتا ہے ۔

--------------

(۱)پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ۔

۱۰

اس بات پر کافی دلائل کہ اولاد فاطمہ (س)اولاد رسول(ص)ہیں

چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی جوآپ کے سربرآوردہ علماء میں سے ہے شرح نہج البلاغہ میں اور ابو بکررازی اپنی تفسیر میں عیسٰی کو ان کی ماں مریم کی طرف سے اولاد جناب ابراہیم میں داخل فرمایا ۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب میں ،ابن حجر مکی صواعق محرقہ صفحہ ۷۴-۹۳ میں طبرانی سے اور وہ جابر بن عبداللہ انصاری سے اور خطیب خوارزمی مناقب میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص)نے فرمایا "انّ الله عزّوجلّ جعل ذریة کل نبی فی صلبه وجعل ذریتی فی صلب علی ابن ابی طالب " یعنی خدائے عزوجل نے ہر پیغمبر کی ذریت خود اسے کے صلب میں قرار دیا اور میری ذریت علی ابن ابی طالب میں رکھی ہے ۔

خطیب خوارزمی مناقب میں ،میر سید علی ہمدانی شافعی مودۃ القربی میں ،امام احمد بن حنبل جو آپ کے کبار علماء میں سے ہیں اور سلیمان حنفی بلخی نے ینا بیع المودۃ میں نقل کرتے ہیں کہ (الفاظ کی تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ)کہ رسول اکرم(ص)نے فرمایا "هذان ریحانتان من الدنیا ابنای لهذان امامان قاما او قعدا" یعنی میرے یہ دونوں فرزند( حسن اور حسین)دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔ اور میرے یہ دونوں فرزند امام ہیں خواہ امر امامت پر قائم ہوں یا خاموش اور قاعد ۔ اورشیخ سلیمان بلخی نے ینا بیع المودۃ کا باب ۵۷ اسی موضوع کیلئے مخصوص قراردیا ہے ۔اور مختلف طریقوں سے بکثرت حدیثیں اپنے جلیل القدر علماء جیسے طبرانی، حافظ عبدالعزیز ،ابن ابی شبیہ ،خطیب بغدادی،حاکم، بیقہی،بغوی، اورطبری وغیرہ سے مختلف الفاظ اور عبارت کے ساتھ نقل کی ہیں کہ حسن اور حسین(ع)رسول خدا(ص)کے فرزند ہیں ۔ اسی باب کے آخر میں ابو صالح ،حافظ عبد العزیز الاخضر،ابو نعیم اور طبری سے ،اور ابن حجر مکّی صواعق محرقہ صفحہ ۱۱۲ میں محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے سو بابوں کے بعد فصل اوّل کے آخر میں اور طبری نے ترجمہ حالات حضرت امام حسن علیہ السلام میں، خلیفہ ثانی عمر بن خطّاب سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا "انّی سمعت رسول الله یقول کل حسب ونسب فمنقطع یو م القیامة ما خلا حسبی و نسبی وکل بنی انثی عصبتهم لابیهم ما خلا بنی فاطمة فانی انا ابو هم و انا عصبتهم " یعنی میں نے رسول خدا(ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا "ہر حسب ونسب قیامت کے دن منقطع ہو جائے گا سوائے میرے حسب ونسب کے اور ہر دختری اولاد کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ہے سوائے اولاد فاطمہ (س)کے کہ

۱۱

میں ان کا باپ اورنسب ہوں ۔ شیخ محمد بن محمد عامر شبیراوی شافعی نے کتاب "الاتحاف لجب الاشراف "میں اس حدیث کو بیہقی سے اور دار قطنی نے عبداللہ ابن عمر سے اور انہوں نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے ۔جلا ل الدین سیوطی نے اپنی کتاب "احیاء اہلبیت بفضائل اہلبیت "میں اوسط طبرانی سے نقل کرتے ہوئے خلیفہ عمر سے نقل کرتے ہیں اور سید ابو بکر شہاب الدین علوی نے "رشقتہ الصاد من بحر فضائل النبی الہادی" مطبوعۃ مطبع اعلامیۃ مصر سنہ ۱۳۰۳ ھ کے صفحہ ۲۱ باب ۳ میں صفحہ ۴۳ تک نقل واستشہاد کیا ہے کہ اولاد فاطمہ(س) اولاد رسول (ص)ہیں لہذا شاعر کا شعر جو آپ نے پیش کیا ہے وہ تمام مضبوط دلائل کے سامنے مہمل ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے سویں باب کے بعد فصل کو اسی شعر کے جواب میں اس مطلب سے مخصوص کیا ہے کہ پیغمبر(ص)کے دخترزادے آں حضرت (ص)کے فرزند ہیں ۔ اور یہ شعر زمانہ کفر کے شاعر کا ہے جس نے اس کو اسلام سے قبل نظم کیا ہے ۔ جیسا کہ صاحب جامع الشواہد نے نقل کیا ہے اسی قبیل سے کثرت کے ساتھ ایسی دلیلیں ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ فرزندان فاطمہ صدیقہ سلام اللہ علیہا فرزندان رسول اللہ (ص)ہیں لہذا جب ہمارا سلسلہ نسب حضرت امام حسین علیہ السلام تک ثابت ہوگیا تو ہم بیان کرچکے معتبر دلائل کی بنا پر ثابت ہے کہ ہم لوگ فرزندان و اولاد رسول خدا ہیں اور ہمارا سب سے فخر اسی بات پر ہے کہ اور کسی شخص کو سو اذریت رسول (ص)کے ایسا افتخار حاصل نہیں ہے کیا خوب کہا ہے فرزدق شاعر نے ؟

اولئک آبائی فجئنی بمثلهم ----اذاجمعتنا یا جریر الجامع (۱)

خلاصہ یہ کہ ابنائے زمانہ اور اہل دنیا میں سے کوئی شخص اپنے اجداد کی بزرگی پر فخر مباہات نہیں کرسکتا ہے ، سوا شرفاءاور سادات کے جن کی نسبت خاتم الانبیا اور علی المرتضی صلوات اللہ وسلامہ علیھما تک منتہی ہوتی ہے ۔

حافظ :- آپ کے دلائل بہت تسکین بخش اور مکمّل تھے جن سے ضدّی اور متعصّب اشخاص کے قطعا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا میں ممنون ہوں کہ آپ نے حقیقت کو بے نقاب کرکے ہم لوگوں کو مستفیض فرمایا جس سے بڑا شبہ رفع ہوگیا

اتنے میں مسجد سے نماز عشاء کے لیے موذن کی اذان کی آواز بلند ہوئی کیونکہ برادران اہل سنت بصورت نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ایک دوسرے سے الگ اور اس کے وقت فضیلت پر بجالاتے ہیں ۔ بر خلاف شیعوں کے جو رسول خدا(ص) اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی جمع اور تفریق کے درمیان مختار ہیں) وہ حضرات

--------------

(۱) (یعنی یہ ہیں میرے آباء واجداد پس لاؤ میرے سامنے ان کی مثل جس وقت محفلوں اور انجمنوں میں ہم اکھٹے ہوں۔)

۱۲

مسجد جانے اور فریضہ ادا کرنے کے لیے آمادہ ہوئے لیکن بعض صاحبان نے کہا کہ اگر واپس آنے اور مباحثہ جاری رکھنے کا قصد ہے تو مسجد جانے اور آنے میں نشست کا کافی وقت نکل جائیگا۔ لہذا بہتر یہ ہےکہ جب تک اس صحبت کا سلسلہ ہے نماز عشاء اسی جگہ ادا کی جائے فقط مولوی سید عبدالحی امام جماعت مسجد چلے جائیں اور مسجد میں لوگوں کو نماز پڑھا کر واپس آئیں ۔ یہ رائے سب حضرات نے قبول کی لہذا ساری مدت مناظرہ میں یعنی دس راتوں تک اسی مقام پر نماز عشاء ہوتی رہی چنانچہ وہ حضرات ایک دوسرے بڑے ہال میں چلے گئے اور نماز پڑھ کر مناظرے والے کمرے میں واپس آئے۔

نواب:- نواب عبد القیوم خان نے جو ا ہ ل تسنن ک ے شرفاءاور رؤساء م یں سے اور بال ک ی کھ ال نکالن ے اور جستجو کرن ے وال ے انسان ت ھے ، ک ہ ا ک ہ قبل ہ صاحب اگر آپ اجازت د یں تو جب تک حضرات چائے نوش فرمائ یں میرے دل موضوع بحث سے خارج ا یک سوال ہے اس کو عرض کرو ں۔

خیر طلب:- فرمایئے میں سننے ک یلئے تیار ہ و ں ۔

نواب :- میرا سوال بہ ت مختصر ہے چونک ہ مدتو ں س ے م یرے دل میں تھ ا ک ہ باخبر ش یعہ حضرات سے پوچ ھ و ں گا ، ل یکن کوئی موقع ہ ات ھ ن ہ آ یا اور اب اس کا مناسب محل آگیا ہے ل ہ ذا عرض کرنا چا ہ تا ہ و ں ک ہ حضرات ش یعہ سنت رسول خدا (ص)کے خلاف نماز ظ ہ ر وعصر ا ور مغرب وعشاء کو ملا کر کس لئے پ ڑ ھ ت ے ہیں ؟ ۔

پیغمبر(ص)نماز ظہ ر ین و مغربین جمع وتفریق دونوں طرح س ے پ ڑھ ت ے ت ھے

خیر طلب :- اول یہ کہ آپ حضرات (علمائ ے جلس ہ ک ی طرف اشارہ ) جانت ے ہیں کہ فروع ی مسائل میں علماء کے درم یان بہ ت اختلاف ہے ج یسا کہ آپ ک ے چارو ں امام ب ھی آپس میں بہ ت ز یادہ اختلاف رکھ ت ے ہیں دوسرے یہ کہ آپ ن ے فرما یا "شیعوں کا عمل سنت رسول کے خلاف ہے "تو اس امر میں آپ کو اشتباہ ہ وا ہے ک یونکہ آں حضرت (ص) نماز یں کبھی یکجا اور کبھی الگ الگ ادا فرماتے ت ھے ۔

نواب :- (اپنے علماء ک ی طرف رخ کرکے ) ک یا یہ صحیح ہے ک ہ رسول الل ہ (ص)جمع اورتفر یق دونوں طرح س ے نماز بجا لات ے ت ھے ؟-

حافظ:- فقط سفر اور ،عذر کے مواقع ج یسے بارش وغیرہ میں اسی طرح سے عمل فرمات ے ت ھے ۔ تاک ہ امت تعصب اور مشقت م یں مبتلا نہ ہ و،ورن ہ حضر م یں ہ م یشہ الگ الگ پڑھ ت ے ت ھے م یرا خیا ل ہے ک ہ قبل ہ صاحب ن ے غلط ی سے سفر کو حضر سمج ھ ل یا ہے ۔

خیرطلب :- نہیں مجھ کو مغالط ہ ن ہیں ہ وا ،بلک ہ یقین رکھ تا ہ و ں یہ ا ں تک کہ آپ حضرات ک ی روایتوں میں

۱۳

بھی موجود ہے ک ہ کب ھی حضر میں اور بغیر کسی عذر کے ب ھی بصورت جمع ادافرماتے ت ھے ۔

حافظ:- میں خیال کرتا ہ و ں ک ہ آپ ن ے غلط ف ہ م ی سے ش یعہ روایات کو ہ مار ی روایات سمجھ ل یا ہے ۔

خیر طلب :- شیعہ راوی تو اس مقصد پر متفق ہی ہیں گفتگو ہ و ر ہی ہے آپ ک ے راو یوں پر ،اس بارے م یں میں متعدد صحیح روایتیں صحاح اور آپ کی معتبر کتا بوں م یں وارد ہیں ۔

حافظ:- ممکن ہے آپ ک ی نظر میں ہ و ں تو ان کا حوال ہ ب یان کیجئے

خیر طلب :-مسلم ابن حجاج نے اپن ی صحیح کے اندر "باب الجمع بین الصلواتین فی الحضر " میں روایوں کا سلسلہ نقل کرت ے ہ و ئ ے ابن عباس س ے روا یت کی ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "صلّ ی رسول اللہ الظ ھ ر و العصر جمعا والمغرب والعشاء جمعا ف ی غیر خوف ولا سفر " (یعنی رسول خدا(ص) نماز ظہ ر و عصر اور مغرب وعشا ءکو بغ یر خوف اور سفر کے ملا کر ادا فرماتے ت ھے ) ۔

اور پھ ر ابن عباس س ے نقل ک یا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا " صلّیت مع النّبی ثمانیا جمعا و سبعا " (یعنی میں نے رسول خدا (ص) ک ے سات ھ آ ٹھ رکعت (نماز ظ ہ ر وعصر)اور سات رکعت (مغرب وعشاء) کو ملا کر پ ڑھ تا ت ھ ا ۔ اور اس ی حدیث کو اما م احمد بن جنبل نے اپن ی مسند کے جز ء اول صفحہ نمبر ۲۲۱م یں نقل کیا ہے ۔ علاو ہ اس دوسر ی حدیث کے ابن عباس ن ے ک ہ ا " صلّی رسول الله فی المدینة مقیما غیر مسافر سبعا وثما نیا " (یعنی رسول خدا(ص) نے مد ینے کے اندر حالت اقامت م یں بغیر مسافرت کے سات رکعت اور آ ٹھ رکعت یعنی مغرب وعشاء اور ظہ ر وعصر کو ملا ک ے نماز پ ڑھی )۔

امام مسلم اسی طرح کی کئی حدیثیں نقل کرتے ہیں یہ ا ں تک کہ لک ھ ت ے ہیں کہ عبد الل ہ بن شف یق نے ک ہ ا ک ہ ا یک روز عبد اللہ ابن عباس عصر ک ے بعد ہ مار ے سامن ے خطب ہ پ ڑھ ر ہے ت ھے اور شریک صحبت تھے یہ ا ں تک کہ آفتاب ن ے غروب ک یا ستارے ظا ہ ر ہ و گئ ے لوگ وں نے " الصّلواة الصّلواة " کی آواز دینا شروع کی لیکن ابن عباس نے اعتنا ن ہ ک ی اسی وقت بنی تمیم میں سے ا یک شخص نے بلند آواز م یں کہ ا " الصّلواة الصّلواة " ابن عباس نے ک ہ ا " اتعلّمنی بالسنّة لا ام ّ لک رایت رسول الله یجمع بین الظهر و العصر والمغرب والعشاء " (یعنی تم مجھ کو سنت ک ی یاد دلاتے ہ و حالانک ہ م یں نے خودد یکھ ا ہے ک ہ رسول الل ہ (ص) ن ے نماز ظ ہ ر عصر اور مغرب وعشاء کو جمع فرما یا ) عبد اللہ ک ہ تا ہے ک ہ اس کلام س ے م یرے دل میں خدشہ پ یدا ہ وا اور م یں نے جاکر ابو ہ ر یرہ سے در یافت کیا تو انہ و ں ن ے ب ھی تصدیق کی اور کہ ا حق یقت وہی ہے جو ابن عباس ن ے ب یان کی ۔

اور دوسرے طر یقے سے ب ھی عبداللہ بن شف یق عقیل سے نقل کرت ے ہیں کہ ا یک مرتبہ منبر پر عبد الل ہ ابن عباس ک ی تقریر نے طول ک ھینچی یہ ا ں تک کہ اند ھیرا پھیل گیا ،ایک شخص نے پ ے در پ ے ت ین بار " الصّلواة الصّلواة " کی آواز دی ۔ ابن عباس ج ھ نج ھ لا گئ ے اور کہ ا "لا امّ لک اتعلّمنا بالصلواة وکنّا نجمع بین الصلواتین علی عهد رسول الله "

۱۴

( یعنی ۔۔۔ مج ھ کو نماز ک ی تعلیم دیتا ہے ؟حالانک ہ ہ م زمان ہ رسو ل خدا (ص) م یں دو نمازوں کو ملا کر پ ڑھ ا کرت ے ت ھے یعنی ظہ ر کو عصر ک ے سات ھ اور مغرب کو عشاء ک ے سات ھ ۔

زرقانی بھی جو آپ کے اکابر علماء م یں سے ہیں ،شرح موطاء مالک کے جزء اول "باب جمع ب ین الصلواتین "میں صفحہ ۳۶۳ پر نسائ ی سے بطر یق عمرو بن ہ رم اب ی شعشاء سے نقل کرت ے ہیں کہ ابن عباس بصر ہ م یں نماز ظہ ر وعصراور مغرب وعشاء پ ڑھ ت ے ت ھے بغ یر اسکے ک ہ ان ک ے درم یان کوئی فاصلہ یا کوئی چیز حا ئل ہ وت ی ہ و اور ک ہ ت ے ت ھے ک ہ رسول خدا (ص) اس ی طرح نماز ادا فرماتے ت ھے ( یعنی ظہ ر کو عصر ک ے سات ھ اور مغرب کو عشاء ک ے سات ھ جمع فرمات ے ت ھے ) ۔

نیز مسلم نے صح یح میں ، مالک نے موطاء "باب جمع ب ین الصلا تین میں امام احمد بن جنبل نے مسند سلسل ہ روا یات کو نقل کرتے ہ وئ ے س عید ابن جبیر کرے ذر یعے ابن عباس سے روا یت کی ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "صلّی رسول الله الظهر و العصر جمعا بالمدینة فی غیر خوف و لا مطر " (یعنی رسو ل اللہ مد ینے میں نماز ظہ ر اور عصر کو ملا کر پ ڑھی بغیر خوف اور بارش کے ) ابو زب یر کہ تا ہے ک ہ م یں نے ابو سع ید سے سوال ک یا کہ پ یغمبر (ص)کس وجہ س ے نماز جمع فرمات ے ت ھے " تو ابو سع ید نے ک ہ ا ک ہ یہی سوال میں نے ابن عباس س ے ک یا تھا تو انہ و ں ن ے جواب د یا کہ "اراد ان لا یحرج احدا من امته" ( یعنی اسلئے جمع فرمات ے ت ھے ک ہ آ ں حضرت (ص)ک ی امت میں سے کوئ ی شخص سختی اور مشقت میں نہ پ ڑے اور چند دوسر ی روایتوں میں بھی نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس ن ے ک ہ ا "جمع رسول الله بین الظهر والعصر والمغرب والعشاء فی غیر خوف ولا مطر"( یعنی رسول اللہ (ص)ن ے ظ ہ ر وعصر اور مغرب وعشاء ک ے درم یان جمع فرمایا بغیر اسکے ک ہ کوئ ی خوف ہ و یا بارش ہ وت ی ہ و) ۔ اس بار ے م یں میں روایتیں کثرت سے نقل ک ی ہیں لیکن جمع بین الصلاتین کے جواز پر سب س ے واضح دل یل یہی جمع بین الصلواتین کے نام ک ے سات ھ ابواب ک ی تعیین اور اسی باب میں احادیث جمع کرنا ہے تا ک ہ یہ مطلقا جمع کے جائز ہ ون ے کی دلیلیں بنیں ۔ ورن ہ ا یک مخصوص باب میں حضر میں اور ایک باب سفر میں نمازوں کو جمع کرن ے پر قائم کرت ے ،چنانچ ہ یہ منقولہ روائت یں صحاح اور آپ کی دوسری معتبر کتابو ں م یں سفر وحضر دونوں م یں اس کے جائز ہ ون ے س ے تعلق رک ھ ت ی ہیں ۔

حافظ:- ایسا کوئی باب یا نقل روایات صحیح بخاری میں موجود نہیں ہے ۔

خیرطلب :-اولا جب سارے ارباب صحاح ج یسے مسلم، نسائی، احمد ابن حنبل ،صحیحین مسلم وبخاری کے شارح ین اور آپ کے دوسر ے ب ڑے علماء ن ے نقل ک یا ہے تو یہی ہ مار ے مطلب اور مقصد ک ے لئ ے کاف ی ہے ۔

دوسرے امام بخاری نے ب ھی انہیں روایات کو جنہیں دوسروں ن ے نقل ک یا ہے اپن ی صحیح میں درج کیا ہے ل یکن پوری چالاکی کے سات ھ ان ک ے محل یعنی جمع بین الصلواتین سے دوسر ے محل پر منتقل کرد یا ہے ،چنانچ ہ

۱۵

"باب تاخ یر الظھ ر ال ی العصر من کتاب مواقیت الصلواۃ" "باب ذکرالعشاء والعمتہ "اورباب "وقت المغرب " کا مطالع ہ ک یجیئے اور ان کا جائزہ ل یجیئے تویہ جمع بین الصلواتین کی ساری حدیثیں نظر آجائیں گی نتیجہ یہ کہ جمع ب ین الصلواتین کی اجازت اور رخصت کے عنوان ک یساتھ ان احادیث کا نقل کرنا بتا تا ہے ک ہ یہ جمہ ور علمائ ے فر یقین کا عقیدہ ہے ۔ ا یسی صورت میں کہ اپن ے صحاح ک ے اندر ان حد یثوں کی صحت کا اقرار بھی کیا ہے چنانچ ہ علاّم ہ نوو ی نے شرح صح یح مسلم میں عسقلانی اور قسطلانی ،زکریا رازی نے ان شرحو ں م یں جو انہ و ں ن ے صح یح بخاری کی لکھی ہیں ،زرقانی نے شرح موطاء مالک میں اور آپ کے دوسر ے علماءن ے یہ احادیث اورخصوصا حدیث ابن عباس کو نقل کرنے ک ے بعد ان ک ی صحت اور اس کا اعتراف کیا ہے ک ہ یہ حدیثیں حضر میں جمع بین الصلاتین کی اجازت ورخصت کی دلیل ہیں تا کہ امت وال ے حرج اور مشقت م یں مبتلا نہ ہ و ں ۔

نواب :- یہ کیونکر ممکن ہے ک ہ زمان ہ رسول خدا(ص)س ے یہ حدیثیں جمع کے عمل پر مرو ی ہ و ں ل یکن علماء حکم اور عمل میں ان کے خلاف راست ہ اخت یار کریں ؟۔

خیرطلب :- یہ صرف اسی موضوع سے مخصوص ن ہیں ہے ،بعد کو آپ ک ی سمجھ م یں آئے گا اس ک ی مثالیں بہ ت ہیں ۔ خاص اس موضوع م یں بھی حضرات فقہ اء ا ہ ل تسنن ن ے یا تو غور وفکر کے تصور س ے یا کسی اور سبب سے جو مج ھ کو معلوم ن ہیں ہے ان معتبر حد یثوں کی ان کے ظا ہ ر ی کے خلاف م ہمل تاویلیں کی ہیں۔ ج یسا کہ ک ہ ت ے ہیں "شاید یہ حدیثیں عذرکے مواقع س ے تعلق رک ھ ت ی ہ و ں مثلا خوف وب یم ، بارش اور آندھی وغیرہ چنانچہ آپ ک ے اکابر متقدم ین میں سے ا یک جماعت جیسے امام مالک ،امام شافعی ، اور مدینے کے چند فق یہ و ں نے اس ی تاویل کے سات ھ فتو ی دیا حالانکہ اس عق یدے کو ابن عباس کی حدیث رد کررہی ہے جو صاف صاف ک ہ ت ے ہیں کہ "من غ یر خوف ولا مطر"یعنی بغیر خوف اور نزول باراں ک ے نماز کو جمع پ ڑھ ت ے ت ھے ۔

بعض دوسروں ن ے یہ خیال آرائی کی ہے ک ہ غالبا ابر گ ھ را ہ وا ت ھ ا اس وج ہ س ے وقت کو ن ہیں پہ چانا اور ج یسے ہی نماز ظہ ر تمام ک ی ابر چھٹ گ یا تو دیکھ ا کہ عصر کا وقت ہے ل ہ ذا عصر ب ھی پڑھ لی اور اس طرح سے ظ ہ ر عصر با ہ م جمع ہ وگئ یں ۔

میں نہیں سوچ سکتا کہ اس س ے ز یادہ کمزور تاویل بھی گھڑی جاسکتی ہے گو یا تاویل کرنے والو ں ن ے غور ہی نہیں کیا کہ نماز پ ڑھ ن ے وال ے رسول الل ہ (ص) ت ھے اور رسول خدا(ص) ک یلئے ابر کا ہ ونا ن ہ ہ ونا کوئ ی فرق نہیں رکھ تا ت ھ ا ۔ ک یونکہ آنحضرت (ص)کا علم اسباب ظاہ ر ی کا محتاج نہیں تھ ا ،بلک ہ اسباب و آثار پر حاو ی تھ ا اس س ے قطع نظر ک ہ یہ کم فہ م جماعت ا یسی صورت حال پید ہ ون ے پر کوئ ی دلیل اپنے پاس ن ہیں رکھ ت ی اور علاوہ اس ک ے ک ہ یہ بات احادیث کے ک ھ ل ے ہ وئ ے مطالب کے خلاف ہے اس تاو یل کا باطل ہ ونا نماز مغ رب وعشاء کو جمع کرنے س ے

۱۶

ب ھی ثابت ہ وتا ہے ک یونکہ اس وقت ابر کے موجود ہ ون ے اور بر طرف ہ ون ے س ے کوئ ی اثر نہیں پڑ تا ۔

جیسا کہ م یں نے عرض ک یا حدیث ابن عباس (خیر امت) میں اس کی صراحت موجود ہے ک ہ ان ک ے خطب ے ن ے اتنا طول ک ھینچا کہ سامع ین نے کئ ی مرتبہ " الصّلوا ۃ الصّلواۃ "کی آوازبلند کی یعنی یاد دلایا کہ ستار ے ظا ہ ر ہ وگئ ے ہیں اور نماز کا وقت ہ وگ یا ہے اس ک ے باوجود وہ نماز مغرب م یں عمدا تاخیر کرتے ر ہے یہ ا ں تک کہ نماز عشاء کا وقت آگ یا اور دونوں کو ملا ک ے ادا ک یا اور ابو ہ ر یرہ نے ب ھی اس کی تصدیق کی رسول اللہ (ص) اس ی طرح عمل فرماتے ت ھے ۔یقینا اس طرح کی تاویلیں ہ مار ے نزد یک باطل ہیں ، بلکہ آپ ک ے ب ڑے بڑے علماء نے ب ھی ان کو رد کیا ہے اور تاو یلات کو ظواہ ر احاد یث کے برخلاف جان ا ہے ج یسا کہ آپ ک ے اکابر علماء م یں سے ش یخ الاسلام انصاری نے "تحف ۃ الباری فی شرح صحیح البخاری " باب الصلواۃ الظھ ر مع العصر والمغرب والعشاء"آخرصفح ہ ۲۹۲ جزءدوم م یں اسی طرح علّامہ قسطان ی نے "ارشاد السار ی فی شرح صحیح بخاری"صفحہ ۲۹۳ جزءدوم م یں اور صحیح بخاری کے دوسر ے شارح ین اور آپ کے علماء محقق ین کے ا یک جم غفیر نے لک ھ ا ہے ک ہ اس قسم ک ی تاویلیں ظواہ ر احاد یث کیخلاف ہیں اور اس بات کی قید لگانا کہ ہ ر نماز حتم ی طور پر الگ الگ پڑھ نا چائ یئے ترجیح بلا مرجح اور تخصیص بلا مخصص ہے ۔

نواب :- پھ ر یہ اختلاف کہ ا ں س ے آ یا کہ مسلما ں ب ھ ائ یوں کے دوگرو ہ آپس م یں ایک دوسرے ک ی جان کے درپ ے ہ وگئ ے با ہ م عداوت ک ی نظر سے د یکھ ت ے ہیں او راعمال کی مذمت اور قدح کرتے ہیں ؟۔

خیر طلب :- اولا ! یہ کہ آپ ن ے فرما یا ہے مسلمان دو گرو ہ آپس م یں ایک دوسرے کو عداوت ک ی نگاہ س ے د یکھ ت ے ہیں ، تو میں مجبور ہ و ں ک ہ ش یعیان اہ ل ب یت طہ ارت وخاندان رسالت ک ی طرف سے دفاع کرو ں ک ہ ہ م ش یعوں کی جماعت برادران اہ ل تسنن ک ے علماء اور عوام م یں کسی ایک کو بھی حقارت یا عداوت کی نگاہ س ے ن ہیں دیکھ ت ی ہے بل کہ ان کو اپن ے مسلمان ب ھ ائ ی سمجھ ت ی ہے البت ہ ہ م کو ب ہ ت افسوس ہے ک ہ غ یروں ،خارجیوں ، ناصبیوں اور امویوں کے غلط پروپ یگنڈے اور شیاطین جن وانس کی تحریکیں برادران اہ ل سنت ک ے دلو ں م یں کس لئے گ ھ ر کر ل یتی ہیں ؟ یہ ا ں تک کہ اپن ے ش یعہ بھ ائ یوں کو جو قبلہ ، کتاب ، نبوت ، تمام احکام اور واجبات و مستحبات پر عمل اور کبائر ومعاص ی کے ترک م یں ان کے سات ھ شر یک ہیں رافضی ،مشرک اور کافر جانتے ہیں ۔ اپن ے س ے جدا قرارد یتے ہیں اور بغض وعداوت کی نظر سے ان ک ی طرف دیکھ ت ے ہیں ۔

ثانیا ! آپ نے فرمایا ہے ک ہ " یہ اختلاف کہ ا ں س ے آ یا ؟" تو میں سوز دل کے عرض کرتا ہ و ں :-

آتش بجاں شمع فتد ک یں بنا نہ اد

ابھی یہ عرض کرنے کا وقت ن ہیں ہے ک ہ اس قسم ک ے اختلاف کا چشم ہ ک ہ ا ں س ے پ ھ و ٹ ا ۔ شا ید انشا اللہ آ یندہ راتوں م یں موقع محل کی مناسبت سے اس ک ی نقاب کشائی ہ و جائ ے اور آپ خود اصل حق یقت کی طرف متوجہ ہ و جائ یں ۔

۱۷

ثالثا ! نماز جمع و تفریق کے بار ے م یں حضرات فقہ اء ا ہ ل تسنن ن ے مذکور ہ روا یتوں کو جو مطلقا نماز ظہ ر وعصر ومغرب وعشاء کو ملا کر پ ڑھ ن ے ک ی اجازت اور جواز پر دلالت کرتی ہیں ، امت کی سہ ولت و راحت اور سخت ی ومشقت و حرج سے بچان ے ک ے لئ ے نقل ک یا ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ کس وج ہ س ے فضول تاو یلیں کرتے ہیں اور بغیر عذر کے نمازو ں کو اک ھٹ ا پ ڑھ ن ے کو جائز ن ہیں جانتے بلک ہ ان م یں سے بعض ج یسے ابو حنیفہ اور ان کے تاب عین مطلقا جمع کرنے کو منع کرت ے ہیں چاہے عذر ک یساتھ ہ و یا بغیر عذر کے ،سفر م یں ہ و یا حضر میں لیکن دوسرے شافع ی ،مالکی ، اور جنبلی علماء نے باوجود سار ے اصول و فروع م یں باہ م ی اختلافات کے سفر مباح کر ے اندر ج یسے حج ،عمرہ اور جنگ وغ یرہ میں اس کی اجازت دی ہے ۔

البتہ شیعہ فقہ اء ائم ہ طا ہ ر ین آل محمد علیھ م السلام کی پیروی میں جو ارشاد رسول (ص) کی بنا پر حق وباطل کے درم یان فرق کرنے وال ے اور عد یل قرآن ہیں مطلقا اس کے جواز کا حکم د یتے ہیں ،خواہ سفر م یں یا حضر میں ،عذرکے سات ھ یا بغیر عذر کے ، چا ہے تقد یم کے ساتھ جمع کرے یا تاخیر کے سات ھ اور یہ جواز اختیار مصلی کے سات ھ ہے یعنی نماز گزار اگر چاہے تو نماز ظ ہ ر وعصر اورمغرب وعشاء چارو ں کو س ہ ولت اور آرام ک ے لئ ے ا یک نشست میں پڑھے یا ظہ ر ومغرب کو اول وقت فض یلت میں پڑھے اور نماز عصر وعشاء کو بھی انہیں کے اول وقت فض یلت میں ادا کرے اس کو اخت یار ہے ہ ا ں ہ ر ا یک کو الگ الگ اور اپنے اپن ے وقت فض یلت میں بجا لانا جمع کرنے س ے افضل ضرور ہے ج یسا کہ فق ہ اء ش یعہ کی استدلالی کتابوں اور عمل یہ رسالوں م یں اس کا مکمل ذکر کیا گیا ہے ۔ ل یکن چونکہ لوگ اکثر مشاغل اور بہ ت س ی پریشانیوں میں گرفتار رہ ت ے ہیں اور ممکن ہے ک ہ ت ھ و ڑی سی غفلت میں نماز ان سے فوت ہ و جائ ے ل ہ ذا س ہ ولت اور رفع زحمت وحرج ک ے لئ ے (جو شارع مقدس کا مقصد ہے ) ش یعہ تقدیم یا تاخیر کے سات ھ جمع پ ڑھ ت ے ہیں میرا خیا ل ہے ک ہ حضرات محترم کا ذہ ن روشن ہ ون ے اور دوسر ے برادران ا ہ ل سنت ک ے لئ ے جو ہ م کو غ یض وغضب ک ی نگاہ س ے د یکھ ت ے ہیں اسی قدر جواب کافی ہ وگا چونک ہ دوسر ے ا ہ م بن یادی مطالب پیش نظر ہیں ۔ ل ہ ذا ب ہ تر ہے ک ہ ہ م لوگ سابق اصل مذاکرات ک ی طرف واپس ہ و ں ک یوں کہ جب خاص خاص اصول ی مطالب حل ہ وجائ ینگے تو ان کے سات ھ فروعات خود بخود واضح ہ و جائ ینگے ۔

حافظ:-مجھ کو ب ہ ت مسرت ہے ک ہ م یں نے پ ہ ل ی ہی نشست میں قبلہ صاحب ک ے معلومات کا پت ہ لگال یا اور یہ جان لیا کہ م یرافریق صحبت وہ شخص ہے جو ز یادہ محدود نہیں اور ہ مار ی کتابوں س ے پور ی طرح باخبر ہے ج یسا کہ آپ ن ے فرما یا بلکل بجا ہے ک ہ ہ م اس ی پہ ل ی گفتگو کی طرف رجوع کریں ۔

آپ کی اجازت سے میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ جب آپ نے فصیح و بلیغ بیان سے ثابت کردیا کہ آپ حجازی و ہاشمی اور ایسے پاک نسب کے حامل ہیں تو یہ کیونکر ہوا کہ جو سنیوں کے مرکز ایران میں آبسے چنانچہ اس ہجرت کا سبب اور تاریخ بیان فرمائیے۔

۱۸

ہم لوگ مسرور ہوں گے۔

( اس محل پر قبلہ سلطان الواعظین نے اپنے اجداد کی ہجریت کا سبب اور مفصل تاریخ بیان فرمائی ہے۔ جو اختصار کا لحاظ رکتے ہوئے حذف کی جاتی ہے۔ لیکن اسی سلسلے میں ضمنا ظہور قبرامیرالمومنین (ع) کا بھی ذکر آگیا ہے جس کے بارے میں گفتگو کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے۔ ۱۲ مترجم)

حافظ : لیکن امیرالمومنین علی کرم اﷲ وجہ کی قبر اس زمانہ تک کس حال میں تھی کہ ڈیڑھ سو سال کے بعد ظاہر ہوئی۔

خیر طلب : چونکہ امیرالمومنین علیہ السلام کی شہادت ،خلافت معاویہ اور بنی امیہ کی فتنہ انگیزی کے زمانے میں واقع ہوئی لہذا حضرت نے وصیت فرما دی تھی کہ آپ کا جسد مبارک رات کے وقت پوشیدہ طریقہ پر دفن کیا جائے یہاں تک کہ کوئی علامت بھی قبر پر باقی نہ رہے ۔ صرف چند اصحاب خاص اور ان حضرت کے فرزند دفن کے موقع پر حاضر تھے اور اکیسویں رمضان کے صبح کو اس لیے کہ دشمنوں پر معاملہ مشتبہ ہوجائے اور وہ قبر مبارک کی جگہ معلوم نہ کرسکیں دو محملیں تیار کی گئیں۔ ایک کو مدینہ کی طرف اور ایک کو مکہ کی جانب روانہ کیا گیا اسی وجہ سے ان حضرت (ع) کی قبر مبارک برسوں پوشیدہ رہی اور سوا حضرت کے فرزندوں اور خاص خاص اصحاب کے کوئی شخص ان جناب کے مدفن اور قبر سے واقف نہ تھا۔

حافظ : اس وصیت اور قبر کو پوشیدہ رکھنے کی کیا وہ تھی؟

خیر طلب : غالبا بنی امیہ بے دین کے خوف سے ایسا ہوا چونکہ یہ لوگ ظالم و باغی اور مخصوص طور پر آل محمد علیہم السلام کے شدید دشمن تھے لہذا ممکن تھا کہ قبر مبارک کے ساتھ بے ادبی کریں اور یہ ظلم سارے مظالم سے سخت ہوتا ۔

حافظ : یہ آپ کیا فرمارہے ہیں ؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ مرنے اور میت کے قبر میں دفن ہونے کے بعد کوئی مسلمان چاہے وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو ایسا قبیح عمل انجام دے؟

بنی امیہ کے دلدوز حرکات

خیر طلب : غالبا آپ نے بنی امیہ کی رسوائے زمانہ تاریخ اور ان کے شرمناک اور دلدوز حرکات کا مطالعہ نہیں فرمایا ہے کہ اس شجرہ ملعونہ اور جماعت خبیثہ نے جس روز سے خلافت اور امارت مسلمین کی لجام ہاتھ میں لی۔ اسی دن سے مسلمانوں کے اندر ظلم و تعدی اور فساد کا دروازہ کھل گیا کیا کیا ظلم انہوں نے نہیں کیئے

۱۹

کتنے کتنے خون نہیں بہائے کیس کیسی عزتیں برتباد نہیں کیں، یہ رسوا بے وقعت قوم کسی چیز کی پابند نہیں تھی چنانچہ ان کی بد اعمالوں کو آپ کے بڑے بڑے علماء اور مورخین انتہائی خجالت کے ساتھ ضبط تحریر میں لائے ہیں۔

واقعہ شہادت زیدبن علی علیہ السلام

خصوصیت کیساتھ علامہ صفر یزی ابوالعباس احمد بن علی شافعی نے جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں اپنی کتاب ، مقریزی النزاع والتخاصم فیما بنی بنی ہاشم و بنی امیہ میں ان کی دل سوز حرکتوں اور بد اعمالیوں کو تفصیل کے ساتھ درج کیا ہے کہ وہ زندہ اور مردہ میں بھی فرق نہیں کرتے تھے نمونہ کے لیے اس بدنام زمانہ قوم (بنی امیہ) کے دل دوز اعمال کی نشانیاں اور وہ اہم تاریخی واقعے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ آپ حضرات تعجب نہ کریں۔ اور یہ سمجھ لیں کہ جو کچھ میں عرض کررہا ہوں سند اور بنیاد کے ساتھ ہے وہ اہم واقعے حضرت زید بن علی بن الحسین علیہما السلام اور ان کے فرزدن یحیٰ کی شہادتیں ہیں جن کو فریقین کے جملہ مورخین نے لکھا ہے ۔ کہ جب ہشام بن عبد الملک ابن مروان سنہ۱۱۵ہ میں تخت خلافت پر بیٹھا ہے اور یہ بہت قصی القلب اور مغلوب الغضب شخص تھا۔ ) تو اس نے ظلم و تعدی شروع کی اور مخصوص طور پر بنی ہاشم کے حق میں تو خود اس نے اور اس کے پیروں نے تکلیف دہی اور ایذا رسانی کی انتہا کر دی آخر کار یکتائے زمانہ سخی شریف عالم عابد و زاہد فقیہ اور متقی جناب زید بن علی خلیفہ کے پاس فریاد کے لیے تشریف لے گئے اور زصافہ میں ہشام سے ملاقات کی قبل اس کے کہ آپ اپنے آنے کی غرض بیان فرمائیں وہ بجائے اس کے کہ اپنے تازہ وارد مہمان اور وہ بھی رسول اﷲ(ص) کے پارہ تن کی امداد و دادرسی اور خاطر داری کرتا پہنچتے ہی سخت توہین کے ساتھ پیش آیا اور ایسی فحش گالیوں کیساتھ جن کو میں اپنی زبان پر جاری نہیں کرسکتا ۔ آپ کو دربار خلافت سے نکال دیا چنانچہ ہمارے اور آپ کے بڑے بڑے مورخین جیسے امام مسعودی مروج الذہب جلد دوم ص۱۸۱ میں ، علامہ مقریزی النزاع و التخاصم فیما بین بنی ہاشم و بنی امیہ میں ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ میں اور دوسرے لوگ تفصیل کے ساتھ لکھتے ہیں کہ شدید گالیاں اور شدید چوٹیں کھانے اور خلیفہ کے پاس سے نکالے جاتے کے بعد آپ مجبورا شام سے کوفہ تشریف لے گئے اور دفع ظلم کے لیے ہویوں کے خلاف ایک پارٹی تیار کی حاکم کوفہ یوسف بن عمر ثقفی ایک بڑے لشکر کے ساتھ مقابلہ پر آیا وہ جناب ہاشمی شجاعت اور دلیری کے ساتھ جنگ کر رہے تھے اور رجز میں یہ اشعار پڑھتے تھے۔

اذل الحیات و عز الممات و کلا اراه طعاما وبیلا

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

طرف اشارہ كرتاہے كہ روز قيامت انسان كے لئے وقايہ وہى قرآن پر ايمان اور ہوگا _

۴_ مختلف طرح كے عذاب اور قيامت كى ہولناكيوں سے بچنے كے لئے كارآمد اور مفيد اسباب نماز كا قيام ،زكوة كى ادائيگى اور نماز با جماعت ميں شركت ہے_واقيموا الصلوة و اتقوا يوماً

۵ _ قيامت كے دن كوئي شخص بھى كسى دوسرے كا ذرہ برابر عذاب اپنے ذمے نہيں لے گا اور نہ اسكا متحمل ہوسكے گا _

واتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس شيئاً

۶_ قيامت كے دن كسى كى كسى اور كے بارے ميں شفاعت قبول نہ كى جائے گى _و لا يقبل منها شفاعة

'' منھا'' كى ضمير ممكن ہے دوسرے '' نفس'' كى طرف لوٹتى ہو يعنى مورد مؤاخذہ شخص اگر شفيع لائے تو اس كى شفاعت قبول نہيں كى جائے گى _ ہوسكتاہے يہ ضمير پہلے '' نفس'' كى طرف لوٹتى ہو اور اس سے مراد دوست ، عزيز، رشتہ دار و غيرہ ہيں يعنى يہ كہ دوست اپنے دوستوں كا عذاب اپنے ذمہ نہ ليں گے اگر شفاعت بھى كريں تو قبول نہيں كى جائے گي_

۷ _ قيامت كے دن كسى سے كوئي عوض جس سے وہ فرد خود كو اسيرى و عذاب سے نجات دلاسكے قبول نہيں كيا جائے گا _و لا يؤخذ منها عدل لفظ ''عدل'' كا معنى فديہ اور عوض ہے جسكو كوئي اپنى يا كسى اور كى آزادى كے لئے ادا كرے تا كہ اسارت سے آزاد ہوجائے _

۸ _ قيامت كے دن كوئي كسى كا دفاع نہيں كرے گا اور نہ كسى كى كوئي مدد كرے گا _و لا هم ينصرون

۹_ روز قيامت قرآن كے كافروں كے لئے كوئي راہ نجات نہ ہوگى _آمنوا بما انزلت و اتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس قيامت كى اسطرح تعريف كرناكہ اس دن كسى سے كوئي فديہ يا عوض قبول نہيں كيا جائے گا اسكا مقصد عذاب كے مستحقين كو مايوس كرنا ہے _ كہيں ايسا نہ ہو كہ لوگ ايمان اور كے علاوہ اپنے لئے كوئي اور راہ نجات كى اميد لگائے بيٹھے ہوں يا كسى خيال سے خوش فہمى ميں مبتلا ہوں _

۱۰_ قيامت كے دن وہ لوگ جواحكامات الہى ( نماز قائم كرنا اورزكوة ادا كرنا ) كى مخالفت كرتے ہيں اور محرمات ( دين فروشى ، حق پر پردہ ڈالنا اور ...) كا ارتكاب كرتے ہيں ان كے لئے كوئي راہ نجات نہ ہوگى _لا تشتروا بآياتى و اقيمو ا الصلوة و اتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس

۱۱ _ يہ تو ہم كہ قيامت كے روز انسان كو اس كے دوست عذاب قيامت سے نجات دلائيں گے يا اسكے گناہ اپنے ذمہ لے ليں گے بنى اسرائيل كے باطل

۱۶۱

خيالات تھے _واتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس شيئاً و لا هم ينصرون

۱۲ _ اس خيال سے گناہ كرنا كہ شفاعت ہوجائے گى يا يہ كہ عذاب قيامت سے رہائي كے لئے عوض يا ہديہ قبول كرليا جائے گا بنى اسرائيل كا وہم و گمان اور باطل خيال تھا_واتقوا يوماً و لا يقبل منها شفاعة و لايؤخذ منها عدل

اطاعت: اللہ كى اطاعت كے نتائج ۳

انسان: قيامت كے روز انسا ن۱; انسان كا انجام ۱

ايمان: قرآن پر ايمان كے نتائج ۳

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا عقيدہ ۱۱،۱۲

حق : قيامت كے دن حق كى پردہ پوشى كرنے والے ۱۰

دين فروش: قيامت كے دن دين فروش ۱۰

زكوة: زكوة كے اثرات و نتائج ۴

سزا: سزا كا نظام ۵،۷،۸

سزائيں : سزاؤں كا انفرادى ہونا ۵; سزاؤں كى خصوصيات ۵

عذاب: اخروى عذاب سے نجات كے عوامل ۳ ، ۴; اخروى عذاب سے نجات ۱۱،۱۲

عقيدہ: باطل عقيدہ ۱۱،۱۲

قرآن حكيم : قرآن كے كافر ۹

قيامت : قيامت كے روز امداد ۸; قيامت كى ہولناكياں ۲،۳،۴; قيامت ميں شفاعت ۶،۱۱،۱۲; قيامت ميں ہديہ و فديہ ۷،۱۲; قيامت ميں سزا كا نظام ۵،۶،۷،۸; قيامت كى خصوصيات ۲،۷،۸

كفار: كفار كے لئے حتمى عذاب ۹; كفار قيامت ميں ۹

محرمات : محرمات سے اجتناب كے نتائج ۳; محرمات كا ارتكاب كرنے والوں كيلئے حتمى عذاب ۱۰

نافرمان: نافرمانوں كے لئے حتمى عذا ب ۱۰;نافرمان قيامت ميں ۱۰

نماز: نماز قائم كرنے كے نتائج و نتائج ۴;با جماعت نماز كے نتائج ۴; قيامت كے دن نماز ترك كرنيوالے ۱۰

۱۶۲

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوَءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاء مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ ( ۴۹ )

اور جب ہم نے تم كو فرعون والوں سے بچاليا جو تمھيں بدترين دكھ دے رہے تھے ، تمھارے بچوں كو قتل كررہے تھے اور عورتوں كو وزندہ ركھتے تھے اور اس ميں تمھارے لئے بہت بڑا امتحان تھا_

۱ _ بنى اسرائيل مدتوں سے مسلسل خاندان اور لشكر فرعون كے سخت شكنجوں ميں گرفتا ر رہے _و اذ نجينكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب ''يسومون'' كا مصدر ''سوم'' ہے جس كا معنى ہے تكليف ميں ڈالنا يا ذليل كرنا _ ''سوئ'' كا ''العذاب'' كى طرف اضافہ صفت كا موصوف كى طرف اضافہ ہے يعنى''العذاب السوئ'' _

۲_ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت كے ذريعے بنى اسرائيل كو فرعونيوں كے شديد شكنجوں اور تسلط سے نجات دلائي _و اذ نجينكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب ان جملوں ''انعمت عليكم'' اور ''انى فضلتكم'' ميں نعمت عطا كرنے اور برترى عنايت كرنے كى نسبت اللہ تعالى كى طرف دي گئي ہے جبكہ ''نجيناكم_ ہم نے تمہيں نجات دى '' ميں نجات كو ضمير '' نا _ ہم '' كى طرف نسبت دى گئي ہے _ يہاں سے يہ مطلب سمجھا جاسكتاہے كہ نجات دينے ميں خداوند متعال كى نظر اسباب پر بھى ہے جنكا قرينہ بعد كى آيات ميں موجود ہے لہذا كہا جاسكتاہے كہ وہ سبب حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت تھي_

۳ _ فرعونيوں كے شكنجوں اور سختيوں كے چنگل سے نجات ايك ايسا اہم واقعہ تھا جو اس قابل تھا كہ بنى اسرائيل اس كو ہميشہ ہميشہ كے لئے ياد ركھتے *و اذ نجينكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب ''اذ نجينكم'' ، ''نعمتي'' (آيت ۴۸) پر عطف ہے جبكہ در حقيقت '' اذكروا'' كے لئے مفعول ہے_

۴ _ لشكر فرعون بنى اسرائيل كے بيٹوں كا سركاٹتا اور ان كى

۱۶۳

عورتوں كو زندہ رہنے ديتا_يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم '' ذبح'' كا معنى سر كاٹنا ہے اور '' يذبحون'' كا مصدر تذبيح ہے جو سر كاٹنے كے معاملے ميں كثرت پر دلالت كرتاہے _ '' يستحيون'' كا مصدر '' استحيائ'' ہے جسكا معنى ہے زندگى پر باقى ركھنا _

۵_ بنى اسرائيل كے بيٹوں كا وسيع سطح پر كشت و كشتار اور ان كى عورتوں كو زندہ چھوڑدينا فرعونيوں كى طرف سے شديدترين شكنجے تھے_يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم جملہ'' يذبحون ...'' ممكن ہے ماقبل جملے كى تفسير ہو يعنى '' سوء العذاب'' سے مراد بنى اسرائيل كے فرزندوں كے سر كاٹنا اور ان كى عورتوں كو زندہ چھوڑدينا تا ہم يہ بھى ممكن ہے كہ اسكا واضح مصداق ہو گويا فراعنہ بنى اسرائيل پر جو ظلم و ستم روا ركھتے تھے ان ميں سے ايك ان كے فرزندوں كے سر كاٹنا تھا_ بنابريں يہ جو مخصوص عذاب كا بالخصوص ذكر كيا گيا ہے يہ غالباً شدت كى خاطر ہے _

۶ _ فراعنہ كے تسلط اور زمانہ حكمرانى ميں بنى اسرائيل كى خواتين بھى انتہائي سختيوں ، شكنجوں اور موت كے منہ ميں مبتلا تھيں _يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم

۷ _ بنى اسرائيل كى عورتيں اپنے بچوں كے فراعنہ كے ہاتھوں بے تحاشا قتل كى بناپر لذت حيات كھوچكى تھيں اسطرح ان كا خود زندہ رہنا بھى عذاب تھا_يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم عورتوں كا زندہ رہنا بنى اسرائيل كے لئے ايك عذاب كے طور پر بيان ہوا ہے _ جبكہ قتل نہ كرنا تو عذاب نہيں ہوتا_ پس جملہ '' يستحيون نساء كم'' چونكہ جملہ ''يذبحون ابناء كم'' كے بعد ذكر ہوا ہے كہا جاسكتاہے كہ عورتيں اپنے بچوں كے ا نتہائي فجيع قتل اور اپنے زندہ رہنے سے انتہائي شديد عذاب كى حالت ميں تھيں _ اس مطلب كى اس نكتہ سے تائيد ہوتى ہے كہ بيٹوں كے مقابل لڑكيوں كا ذكر نہيں كيا گيا بلكہ عورتوں كا ذكر ہوا ہے_

۸ _ يہ جو فراعنہ بنى اسرائيل كى عورتوں كو زندہ چھوڑ ديتے تھے اس كا ہدف عورتوں سے استفادہ كرنا تھا*يسومونكم سوء العذاب و يستحيون نساء كم عورتوں كو زندہ چھوڑنا ايك عذاب كے طور پر كيوں بيان ہوا ہے؟ اسكى ايك اور توجيہ عورتوں سے استفادہ كرنا ہے _

۹_ اگر اللہ تعالى بنى اسرائيل كو فراعنہ كے تسلط سے نجات عنايت نہ فرماتا تو ان كے شكنجو ں اور فرزندوں كے كشت و كشتار ميں تسلسل رہتا_يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابنا ء كم و يستحيون نساء كم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''يسومون'' ،

۱۶۴

''يذبحون'' ، '' يستحيون'' سب كے سب فعل مضارع استعمال ہوئے ہيں _

۱۰_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو فراعنہ كے مختلف طرح كے شديد عذاب سے ايك بہت بڑى آزمائش ميں مبتلا كيا _

و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم لغت ميں ''بلائ'' كا معنى آزمائش اور نعمت دونوں آيا ہے_''ذلكم'' كا مشار اليہ ''عذاب''ہے يا پھر عذاب سے نجات ''نجيناكم'' ہے _ مذكورہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ بلاء كا معنى آزمائش اور '' ذلكم'' كا اشارہ عذاب كى طرف ہو_

۱۱ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو فراعنہ كے شديد شكنجوں سے نجات عنايت كركے انہيں ايك بہت بڑى آزمائش ميں مبتلا فرمايا _و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ بلاء كا معنى آزمائش ہو اور ذلكم كا اشارہ عذاب سے نجات اور رہائي '' نجيناكم'' كى طرف ہو_

۱۲ _ فراعنہ كے شكنجوں سے نجات بنى اسرائيل كے لئے اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے تھا_و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم اس مفہوم ميں ''بلائ'' كا معنى نعمت ہے اور ''ذلكم'' عذاب سے رہائي كى طرف اشارہ ہے_

۱۳ _ انسان سختيوں ، نعمتوں اور اللہ تعالى كى عنايات سے الہى آزمائش و امتحان ميں مبتلا كيا جاتاہے _و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۱۴ _ انسانوں كى سختيوں نيز نعمتوں اور آسائشوں سے آزمائش اللہ تعالى كے مقام ربوبيت سے ہے اور انسانوں كى تربيت اور رشد و ہدايت كى خاطر ہے _و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' رب '' كا معنى مربي، مدير و مدبر ہو_

۱۵ _ اللہ تعالى تاريخ اور اس كے واقعات پر حاكم ہے _و اذ نجيناكم و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۱۶ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے : ''... اما مولد موسى عليه‌السلام فان فرعون لما وقف على ان زوال ملكه على يده فلم يزل يأمر اصحابه بشق بطون الحوامل من نساء بنى اسرائيل حتى قتل فى طلبه نيف و عشرون الف مولود (۱) ليكن حضرت موسىعليه‌السلام كى ولادت كا واقعہ پس جب فرعون كو پتہ چلا كہ اسكى سلطنت كا زوال موسىعليه‌السلام كے ہاتھوں ہوگا پس مسلسل اپنے اطرافيوں كو حكم ديتا كہ بنى اسرائيل كى حاملہ عورتوں كے شكم پارہ كردو _ يہاں تك كہ بيس ہزار سے زيادہ بچے حضرت موسىعليه‌السلام كى تلاش ميں قتل كرديئے گئے _

____________________

۱) غيبت شيخ طوسى ص ۱۶۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۰ ح ۱۹۴_

۱۶۵

آل فرعون:آل فرعون اور بنى اسرائيل ۱; آل فرعون كے جرائم ۱; آل فرعون كے شكنجے ۱

اللہ تعالى : الہى امتحانات ۱۳; حاكميت الہى ۱۵; ربويت الہى ۱۴; الہى نعمتيں ۱۲

امتحان: امتحان كے ذرائع ۱۳; سختيوں كے ساتھ امتحان ۱۳،۱۴; نعمتوں كے ساتھ امتحان ۱۳،۱۴;امتحان كا فلسفہ ۱۴

انسان: انسان كا امتحان ۱۳

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى آزمائش ۱۰; عورتوں سے استفادہ ۸;بنى اسرائيل كى عورتوں كو زندہ چھوڑنا ۴،۵ ، ۸; بنى اسرائيل كا امتحان ۱۰، ۱۱; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۴،۹،۱۰،۱۱،۱۲;بنى اسرائيل كو شكنجے ۱،۵، ۹، ۱۰، ۱۱; بنى اسرائيل كى عورتوں كو شكنجے ۶،۷; بنى اسرائيل كے فرزندوں كا قتل ۴،۵،۷،۹،۱۶; بنى اسرائيل كى نجات ۲،۹،۱۱،۱۲; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۱۲

تاريخ: تاريخ كے تغيرات و تحولات كا سرچشمہ ۱۵

تربيت : تربيت ميں مؤثر عوامل ۱۴

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت كے نتائج۲

ذكر: بنى اسرائيل كى نجات كا ذكر ۳

رشد و تكامل: رشد و تكامل كے عوامل۱۴

روايت:۱۶

فراعنہ: فراعنہ كے جرائم ۴،۵،۶،۷،۹،۱۱،۱۲; فراعنہ كے شكنجے ۶،۱۰،۱۱،۱۲; فراعنہ اور بنى اسرائيل ۲،۴،۵،۹; فراعنہ اور بنى اسرائيل كى عورتيں ۶; فراعنہ كے قتل ۴،۵،۹; فراعنہ كے اجتماعى قتل ۷

فرعون: فرعون كى خون ريزى ۱۶

۱۶۶

وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ( ۵۰ )

ہمارا يہ احسان بھى ياد كرو كہ ہم نے دريا كو شگافتہ كركے تمھيں بچا ليا اور فرعون و الوں كو تمھارى نگاہوں كے سامنے ڈبوديا_

۱_ بنى اسرائيل درياے نيل كے كنارے فرعونى فوج كے محاصرے ميں تھے_و اذ فرقنا بكم البحر

''البحر'' ميں الف لام عہد ذكرى ہے جو دريائے مذكور كى طرف اشارہ ہے بہت سے مفسرين كے مطابق يہ دريائے نيل ہے _ بنى اسرائيل كى نجات اور دريا كے پھٹ جانے كے باعث فرعونيوں كے غرق ہونے كا ذكر اس بات پر دلالت كرتاہے كہ فرعونى لشكر دريا كے كنارے بنى اسرائيل پر حملہ كرنے كے در پے تھا_

۲ _ دريائے نيل كو پار كرنے كے لئے اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كے لئے دريا كو پاٹ ديا _و اذ فرقنا بكم البحر ''فرقنا'' كا مصدر ''فرق'' ہے جسكا معنى ہے شگاف ڈالنا اور فاصلہ پيدا كرنا _

۳ _ بنى اسرائيل دريا كو عبور كركے نجات پاگئے اور فرعون اپنى فوج سميت دريا ميں غرق ہوگيا _فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون

۴ _ اللہ تعالى بنى اسرائيل كو نجات بخشنے والا اور فرعونيوں كو ہلاك كرنے والا ہے _فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون

۵ _ دريا كا پھٹنا فرعون اور اسكى فوج كے غرق ہونے اور ہلاك ہونے كا باعث بنا _و اذ فرقنا بكم البحر فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون ''انجيناكم'' كى حرف ''فائ'' كے ذريعے ''فرقنا'' پر تفريع اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ دريا كا شگافتہ ہونا بنى اسرائيل كى نجات كا وسيلہ بنا اور اس لئے كہ ''اغرقنا'' ، ''انجيناكم'' پر عطف ہے پس دريا كايہى شگافتہ ہونا فرعون اور اسكى فوج كے غرق ہونے كا ذريعہ قرار پايا _ فرعون اور اسكى فوج نے دريا ميں عبور كے رستے كو ديكھتے ہوئے بنى اسرائيل كا تعاقب كيا تو دريا كا شگاف برابر ہوگيا اور يہ لوگ ہلاك ہوگئے _

۱۶۷

۶ _ عالم طبيعات كے اسباب پر اللہ تعالى كى حاكميت ہے_و اذ فرقنا بكم البحر

۷ _ دريا كے پھٹ جانے ميں بنى اسرائيل كا كردار اہم تھا_و اذ فرقنا بكم البحر يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''بكم'' كى باء سببيت كے لئے ہے _

۸ _ اللہ تعالى كى آزمائش كے دور ان بنى اسرائيل كا سختياں اور مشكلات برداشت كرنا اور ان ميں كامياب ہونا ان كے لئے اللہ تعالى كى نصرت اور نجات كا سبب بنا _يسومونكم سوء العذاب و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم و اذ فرقنا بكم البحر اس سے ماقبل آيہ مجيدہ ميں بنى اسرائيل كى الہى آزمائش كا بيان تھا جس ميں انہوں نے سختيوں اور مشكلات كو برداشت كيا يہى چيز سبب بنى كہ بنى اسرائيل كے لئے دريا پھٹ گيا گويا كہ بنى اسرائيل نے چونكہ اسطرح عمل كيا كہ جو ان كى اس لياقت كا باعث بنا اور اللہ تعالى نے دريا كو شگافتہ كركے بنى اسرائيل كو نجات عطا فرمائي اور ان كے دشمنوں كو ہلا ك كرديا _

۹ _ انسان كا عمل اللہ تعالى كے تدبير امور كى كيفيت كو معين كرنے ميں بہت اہميت كا حامل ہے _يسومونكم سوء العذاب فى ذلكم بلاء و اذ فرقنا بكم البحر

۱۰_ بنى اسرائيل نے فرعون اور اسكى فوج كے غرق ہونے اور ہلاكت كے منظر كا نظارہ كيا _ ''نظر'' كامعنى ہے ديكھنا اور نظارہ كرنا ما قبل جملے كے قرينے سے تنظرون كا مفعول فرعون اور اسكى فوج كى ہلاكت ہے _

۱۱ _ فرعون اور اسكى فوج كى نابودى كا نظارہ كرنا بنى اسرائيل كے لئے اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ايك تھا_و اذ فرقنا بكم البحر و اغرقنا آل فرعون و انتم تنظرون ان آيات ميں چونكہ ان نعمتوں كا ذكر ہورہا ہے جو اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو عنايت فرمائيں _ اس اعتبار سے كہا جاسكتاہے كہ ''و انتم تنظرون'' كو بھى نعمت كے طور پر بيان فرمايا گيا ہے _

۱۲ _ ظالموں اور ستم گروں سے مظلوموں كے سامنے انتقام ايك پسنديدہ اور اچھا عمل ہے _و اغرقنا آل فرعون و انتم تنظرون

۱۳ _ دريا كے شگافتہ ہونے سے بنى اسرائيل كى نجات اور فرعون اور اسكے لشكر و خاندان كى نابودى ايك عبرت آموز اور ياد ركھنے والا واقعہ ہے _و اذ فرقنا بكم البحر و انتم تنظرون ''اذ فرقنا'' نعمتى (آيت ۴۷) پر عطف ہے پس ''اذفرقنا'' ،''اذكروا'' كے لئے مفعول ہے_

۱۶۸

اللہ تعالى : افعال الہى ۲،۴; اللہ تعالى كى مدد و نصرت ۲،۴; تدبير الہى ۹; اللہ تعالى كى حاكميت ۶; اللہ تعالى كى نصرت كے عوامل ۸; اللہ تعالى كا نجات عطا كرنا ۴

انتقام: پسنديدہ انتقام ۱۲; مظلوموں كى موجودگى ميں انتقام ۱۲

انسان: انسان كى تقدير يا سرنوشت ۹; انسان كے تدبير امور كا سرچشمہ ۹

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى كاميابى كے نتائج ۸; بنى اسرائيل كا امتحان ۸; بنى اسرائيل كى امداد ۸; بنى اسرائيل دريائے نيل ميں ۲; بنى اسرائيل اور دريا كا پھٹنا ۷;بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۱۰، ۱۳; بنى اسرائيل كا دريا عبور كرنا ۳; بنى اسرائيل كى نجات كے اسباب ۸; بنى اسرائيل كا امتحان ميں كامياب ہونا ۸; بنى اسرائيل كا محاصرہ ۱; بنى اسرائيل كى نجات ۳،۴،۱۳; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۱۱

تاريخ : تاريخ سے عبرت ۱۳

تقدير: تقدير ميں مؤثر عوامل ۹

دريا : دريائے نيل ۱; دريا كے پانى ميں شگاف ۲،۵

ذكر: تاريخ كا ذكر ۱۳

ظالمين : ظالمين سے انتقام ۱۲

عالم طبيعات كے عوامل : طبعى عوامل كا عمل ۶

عبرت : عبرت كے عوامل ۱۳

عمل: عمل كے نتائج ۹

لشكر فرعون: لشكر فرعون كى ہلاكت كے اسباب ۵; لشكر فرعون كا غرق ہونا ۳، ۵، ۱۰، ۱۳; لشكر فرعون اور بنى اسرائيل ۱; لشكر فرعون كى ہلاكت ۴، ۱۱ ، ۱۳

۱۶۹

وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ ( ۵۱ )

اور ہم نے موسى سے چاليس راتوں كا وعدہ ليا تو تم نے ان كے بعد گوسالہ تيار كرليا كہ تم بڑے ظالم ہو _

۱ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو فرعون اور اسكے لشكر كے تسلط سے نجات دلانے كے بعد حضرت موسىعليه‌السلام كو عبادت اور خاص مناجات كے لئے دعوت دي_و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة ''ليلة'' كا معمولاً استعمال شب و روز كے لئے اور '' يوم'' كا استعمال دن كے لئے ہوتاہے _ يہاں '' ليلة'' كا استعمال اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ اللہ تعالى كا حضرت موسىعليه‌السلام سے وعدہ عبادت اورمناجات كے لئے تھا_ يہ جو حضرت موسىعليه‌السلام بنى اسرائيل كے درميان عبادات انجام ديتے تھے معلوم ہوتاہے كہ آپعليه‌السلام كو خاص عبادت و مناجات كے لئے دعوت دى گئي _

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام اللہ تعالى كے ہاں عظيم مقام و منزلت ركھتے ہيں _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى خاص عبادت اور مناجات كے لئے چاليس (۴۰) شب كا تعين ہوا _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۴ _ الہى رہبروں اور قائدين كا معاشرے سے كچھ محدود مدت تك اللہ تعالى كى عبادت كے لئے كنارہ كشى كرنا ايك پسنديدہ اور اچھا عمل ہے _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۵ _ رات كى عبادت و مناجات كى ايك خاص اہميت ہے_واذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۶ _ چاليس رات لوگوں سے دور ہوكر عبادت و مناجات كرنے كا ايك خاص اثر ہے _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۷ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل نے بچھڑے كى پوجا كرنا شروع كردى _

ثم اتخذتم العجل من بعده

'' من بعدہ'' يعنى حضرت موسىعليه‌السلام كے دور چلے جانے كے بعد _ ''اتخذتم'' ان افعال ميں سے ہے جو '' تصيير'' كا مفہوم ركھتے ہيں اسكا پہلا مفعول '' العجل '' ہے اور دوسرا مفعول '' الہاً'' ہے جو بہت واضح ہونے كى بناپر كلام ميں ذكر نہيں ہوا _ گويا مطلب يوں ہے ''ثم جعلتم العجل الهاً لكم''

۱۷۰

۸ _ تاريخى اور معاشرتى واقعات ميں شخصيات كا نقش اور كردار اہم ہوتاہے _ثم اتخذتم العجل من بعده

''من بعدہ'' جس سے مراد حضرت موسىعليه‌السلام كى عدم موجودگى ہے اس كا استعمال اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے جب تك حضرت موسىعليه‌السلام ان كے درميان تھے تو انہوں نے شرك كى طرف تمايل اختيار نہيں كيا _ پس تاريخ كے اہم واقعات ميں شخصيات بھى اہميت كى حامل ہيں _

۹ _ انبياءعليه‌السلام اور الہى قائدين كى عدم موجودگى سے امتوں ميں انحراف كا خطرہ رہتاہے _ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون

۱۰ _ بنى اسرائيل نے بچھڑے كى پوجا كى طرف رغبت دريا سے عبور اور فرعونى لشكر سے نجات كے بعد اختيار كى _

و اذ فرقنا بكم البحر و اذ واعدنا ثم اتخذتم العجل من بعده

۱۱ _ بنى اسرائيل كے پا س گوسالہ پرستى كى طرف رغبت و تمايل كا كوئي بہانہ يا عذر نہ تھا_ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون ''انتم ظالمون _ در آں حاليكہ تم ظالم تھے'' يہ جملہ حاليہ اس معنى ميں ظہور ركھتاہے كہ ظالم ہونا ايك ايسى حالت تھى جو گوسالہ پرستى كے ہمراہ تھى يعنى يہ كہ بنى اسرائيل كى شرك كى طرف رغبت ظلم كى وجہ سے تھى جبكہ جہالت يا اسطرح كا كوئي اور عذر يا بہانہ درميان ميں نہ تھا_

۱۲ _ اللہ تعالى كى نعمتوں كے مقابل بنى اسرائيل انتہائي ناشكرى قوم ہے _فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون بنى اسرائيل پر عظيم الہى نعمتوں كے ذكر كے بعد ان كے غير خدا كى پرستش كى طرف رجحان كا بيان كرنا اس بات كى نشاندہى ہے كہ يہ قوم انتہائي ناشكرى ہے _

۱۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كا اپنى قوم سے دور چلے جانے اور اس قوم كا گوسالہ پرستى اختيار كرلينا انتہائي عبرت ناك ، سبق آموز اور ياد ركھنے كے قابل واقعہ ہے_و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة ثم اتخذتم العجل من بعده

۱۴_ ظلم و ستم كرنا بنى اسرائيل كى عادت اور راہ و روش ہے _و انتم ظالمون

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''و انتم ظالمون'' جملہ معترضہ ہونہ كہ حاليہ يعنى تم لوگ ستمگر ہو جس كا ايك پہلو گوسالہ پرستى ہے _

۱۵ _بچھڑے كى پوجا بنى اسرائيل كى ستم كاريوں ميں سے

۱۷۱

ايك تھي_ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون

۱۶ _ غير خدا كى پرستش ظلم ہے_ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون

۱۷_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''واذ واعدنا موسى اربعين ليلة'' قال كان فى العلم و التقدير ثلاثين ليلة ثم بدأ لله فزاد عشراً فتم ميقات ربه للاوّل والآخر اربعين ليلة (۱) اللہ تعالى كے اس فرمان''و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة'' كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ علم و تقدير الہى ميں تيس راتيں تھيں پھر اللہ تعالى كے لئے بدا حاصل ہو اتو دس دنوں كا اضافہ كرديا گيا پس حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنے رب كے ميقات كو اول و آخر چاليس شب ميں پورا كيا

اعداد: چاليس كا عدد ۳،۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے لئے بداء ۱۷ اللہ تعالى كى دعوتيں ۱

امتيں : امتوں كے انحراف كى بنياد۹

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى عدم موجودگى كے نتائج ۹

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل حضرت موسىعليه‌السلام كى عدم موجودگى ميں ۷; بنى اسرائيل كى تاريخ ۷،۱۰،۱۲; بنى اسرائيل كا ظلم ۱۴،۱۵; بنى اسرائيل كا دريا سے عبور كرنا ۱۰; بنى اسرائيل كا كفر ان ۱۲; بنى اسرائيل كى گوسالہ پرستى ۷،۱۰،۱۱،۱۳،۱۵; بنى اسرائيل كى نجات ۱،۱۰

تاريخ: تاريخ سے عبرت ۱۳; تاريخى تغيرات اور تحولات كے عوامل ۸; تاريخ كا محرك ۸; شخصيات كا تاريخ ميں كردار و اہميت ۸

چلہ نشيني: چلہ نشينى كے آثارو نتائج۶

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى چلہ نشينى ۳،۱۷; حضرت موسىعليه‌السلام كو دعوت ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كى عبادت ۱; بنى اسرائيل كے درميان سے حضرت موسىعليه‌السلام كى غيبت ۱۳; حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳;حضرت موسىعليه‌السلام كى عبادت كى مدت ۳; حضرت موسىعليه‌السلام كى مناجات كى

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۴ ح ۴۶، تفسير برہان ج/۱ ص ۹۸ ح ۲_

۱۷۲

مدت ۳; حضرت موسىعليه‌السلام كے درجات و مقامات ۲; حضرت موسىعليه‌السلام كى مناجات ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كا ميقات (يعنى خدا كا حضرت موسىعليه‌السلام سے وعدہ جس كيلئے مدت معين كى گئي )۱۷

دينى رہبر: دينى قائدين كى عدم موجودگى كے نتائج ۹ دينى رہبروں كى پسنديدہ كنارہ كشى ۴

ذكر : تاريخ كے ذكر كى اہميت ۱۳

روايت:۱۷

شرك: عبادتى شرك كا ظلم ۱۶

ظالمين : ۱۴

ظلم : ظلم كے موارد ۱۵،۱۶

عبادت: غير خدا كى عبارت ۱۶

عمل: پسنديدہ عمل ۴

قدريں : ۵

كفران: كفران نعمت ۱۲

كنارہ كشي: پسنديدہ كنارہ كشى ۴

معاشرتى تبديلياں : معاشرتى تبديليوں كے عوامل ۸

مقربين : ۲

نماز تہجد: نماز تہجد كى اہميت ۵

۱۷۳

ثُمَّ عَفَوْنَا عَنكُمِ مِّن بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ( ۵۲ )

پھر ہم نے تمھيں معاف كرديا كہ شايد شكر گذار بن جاؤ_

۱ _ بنى اسرائيل كا بچھڑے كى پوجا و الا گناہ اللہ تعالى نے معاف فرماديا _ثم عفونا عنكم من بعد ذلك

۲ _ انسانوں كے گناہوں كى بخشش و آمرزش اللہ تعالى كے دست قدرت اور اختيار ميں ہے _ثم عفونا عنكم

۳ _ مرتد ہونے كا گناہ اللہ تعالى كے ہاں قابل عفو و بخشش ہے _ثم اتخذتم العجل ثم عفونا عنكم

۴ _ بنى اسرائيل كے ارتداد اور گوسالہ پرستى كے گناہ كى بخشش اللہ تعالى كى جانب سے بنى اسرائيل پر عظيم نعمتوں ميں سے تھي_ ثم عفونا عنكم من بعد ذلك اس حصے كى آيات مباركہ چونكہ بنى اسرائيل پر اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں كو بيان كررہى ہيں اس لئے ''عفونا عنكم'' سے بھى مراد نعمت كا ذكر ہے جبكہ يہ مطلب '' ثم'' كےساتھ دوسرى نعمتوں پر عطف ہوا ہے يہ اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ معافى اور بخشش كى نعمت دوسرى نعمتوں سے بالاتر اور والاتر ہے _

۵ _ گوسالہ پرستى كے گناہ كى معافى سے اللہ تعالى نے بنى اسرائيل پر احسان فرمايا_ثم عفونا عنكم من بعد ذلك

واضح ہے كہ معافى گناہ كے ارتكاب كے بعد ہوتى ہے بنابريں''من بعد ذلك ''معافى كے وقت و زمان كو بيان نہيں كررہاہے بلكہ اس مفہوم كى طرف اشارہ ہے كہ بنى اسرائيل بخشش كا استحقاق تو نہ ركھتے تھے اس كے باوجود اللہ تعالى نے ان پر فضل و كرم كيا اور ان كا گناہ بخش ديا _

۶_ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں شكر و سپاس گذارى كرنا لازم و ضرورى ہے _لعلكم تشكرون

۷ _ بنى اسرائيل ناشكرى قوم تھي_ثم عفونا عنكم من بعد ذلك لعلكم تشكرون

۱۷۴

۸ _ بنى اسرائيل ميں شكر و سپاس گذارى كى زمين كو ہموار كرنا ان كے مرتد ہونے كے گناہ كو معاف كرنے كے اہداف ميں سے تھا_ثم عفونا عنكم من بعد ذلك لعلكم تشكرون

۹ _ اللہ تعالى كى بارگاہ اقدس ميں سپاس و شكر گزارى اور شاكرين كے مقام تك پہنچنے كى راہ ميں گناہان كبيرہ ركاوٹ بنتے ہيں _ثم عفونا عنكم من بعد ذلك لعلكم تشكرون

۱۰ _ گناہ كا معاف ہونا ايك ايسى نعمت ہے جس كا شكر ادا كيا جانا چاہيئے _ثم عفونا عنكم لعلكم تشكرون

ارتداد (مرتد ہونا ) : ارتداد كى معافى ۳; ارتداد كا گنا ہ ۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بخشش ۲; اللہ تعالى سے مختص امور ۲; اللہ تعالى كا احسان ۵; اللہ تعالى كى معافى ۱،۳

بخشش: بخشش كى نعمت ۴ ، ۱۰

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا ارتداد ۴،۸; بنى اسرائيل كے شكر كى زمين ہموار ہونا ۸; بنى اسرائيل كى بخشش ۱،۴،۵; بنى اسرائيل كى بخشش كا فلسفہ ۸; بنى اسرائيل كا كفران ۷; بنى اسرائيل كى گوسالہ پرستى ۱،۴،۵; بنى اسرائيل پر احسان ۵; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۴

شاكرين: شاكرين كے درجات و مقامات ۹

شكر: شكر خدا كى اہميت ۶; بخشش كى نعمت ۱۰; شكر كے موانع ۹

گناہ : گناہان كبيرہ كے نتائج ۹; گناہ كى معافى ۱۰;گناہ كى بخشش كا سرچشمہ ۲

۱۷۵

وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( ۵۳ )

اور ہم نے موسى كو كتاب اور حق و باطل كو جدا كرنے والا قانون ديا كہ شايد تم ہدايت يافتہ بن جاؤ_

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام صاحب كتاب و شريعت انبياءعليه‌السلام ميں سے تھے_و اذ آتينا موسى الكتاب

۲ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كو تورات عطا فرمائي _و اذ آتينا موسى الكتاب '' الكتاب'' ميں الف لام عہد ذہنى ہے جو تورات كى طرف اشارہ ہے _

۳ _ اللہ تعالى نے تورات كے علاوہ بھى حقائق عنايت فرمائے جو حق و باطل كے مابين امتياز كا وسيلہ ہيں _ و اذ آتينا موسى الكتاب و الفرقان '' الفرقان '' كا '' الكتاب'' پر عطف ممكن ہے صفت كا صفت پر عطف ہو اور ہر ايك تورات كے پہلوؤں ميں سے ايك پہلو ہو _ يعنى يہ كہ ہم نے موسىعليه‌السلام كو ايك ايسى چيز عطا كى جو كتاب بھى ہے اور فرقان بھى يہ بھى ممكن ہے كہ كتاب اور فرقان دو مختلف چيزيں ہوں يعنى ہم نے موسى كو كتاب ( تورات) دى اور فرقان بھى عطا كيا _ اس اعتبار سے فرقان سے مراد معجزات ، دلائل و براہين يا اس طرح كے امور ہوسكتے ہيں _ (تفسير الكشاف سے اقتباس )_

۴ _ تورات حق و باطل كے مابين تشخيص كا بہترين وسيلہ ہے _و اذ آتينا موسى الكتاب والفرقان

'' فرقان'' يعنى تشخيص و امتياز كا ذريعہ اور اس سے يہاں مراد احكام و معارف الہى كى حدود ميں رہتے ہوئے حق كو باطل سے تميز دينا ہے _

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كو جو تورات عطا كى گئي وہ بنى اسرائيل پر اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ايك تھى _اذ آتينا موسى الكتاب والفرقان

آيت نمبر ۴۷ سے معلوم ہوتاہے كہ آيات كا يہ حصہ اللہ تعالى كى بنى اسرائيل پر عظيم اور گراں قدر نعمات كو بيان كررہاہے پس اس آيہ مباركہ ميں تورات اور فرقان بھى عظيم نعمت كے طور پر بيان ہوئے ہيں _

۶_ كتب سماوى اور انسانوں كى ہدايت كے اسباب بنى

۱۷۶

اسرائيل پر اللہ تعالى كى عظيم نعمات ميں سے تھے_و اذ آتينا موسى الكتاب و الفرقان لعلكم تهتدون

۷ _ تورات كے نزول كا ہدف بنى اسرائيل كا ہدايت پانا ہے_واذآتينا موسى الكتاب والفرقان لعلكم تهتدون

۸ _ سماوى كتابوں كے نزول كا ہدف انسانوں كا ہدايت پاناہے _و اذ آتينا موسى الكتاب والفرقان لعلكم تهتدون

۹ _ ہدايت اور گمراہى كے قبول كرنے كا اختيار ،انسان تكوينى طور پر ركھتاہے_لعلكم تهتدون

۱۰_ تورات كے حقائق كو بنى اسرائيل تك پہنچانا حضرت موسىعليه‌السلام كے بنيادى فرائض ميں سے تھا_واذآتيناموسى الكتاب والفرقان لعلكم تهتدون حضرت موسىعليه‌السلام كو كتاب عطا اور بنى اسرائيل كى ہدايت كے درميان رابطے (آتينا موسى لعلكم تہتدون) كا مطلب يہ ہے كہ يہ جملہ تقدير ميں ہو '' ہم نے ان كو حكم ديا كہ كتاب كو تمہارے لئے تلاوت كرے اور احكام و معارف كى تمہيں تعليم دے '' يہ معنى بہت واضح ہونے كے باعث اور اختصار كو مدنظر ركھتے ہوئے بيان نہيں كيا گيا _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى عنايات ۲،۳،۵; اللہ تعالى كى نعمتيں ۶

انبياءعليه‌السلام : اولو العزم انبياءعليه‌السلام ۱

انسان: انسان كا تكوينى اختيار ۹; انسانوں كى ہدايت ۸

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى ہدايت كا سرچشمہ ۷; بنى اسرائيل كى نعمات ۵

تورات: تورات كى تبليغ ۱۰; تورات اور حق كى تشخيص ۳،۴; تورات كے نزول كا فلسفہ ۷; تورات كى نعمت ۵;تورات كى اہميت و كردار ۴،۷

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى تبليغ ۱۰; حضرت موسىعليه‌السلام كى تورات ۲; حضرت موسىعليه‌السلام كى شريعت ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كا فرقان ۳; حضرت موسىعليه‌السلام كى كتاب ۱;حضرت موسىعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۱۰; حضرت موسىعليه‌السلام كى نبوت ۱

حق : حق كى تشخيص كے وسائل ۳،۴; حق اور باطل ۴

۱۷۷

كتب سماوى : كتب سماوى كے نزول كا فلسفہ ۸; كتب سماوى كى نعمت ۶; كتب سماوى كى اہميت و كردار۸

گمراہي: گمراہى كا اختيار۹

ہدايت: ہدايت كا اختيار ۹; ہدايت كے اسباب ۶،۸

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( ۵۴ )

اور وہ وقت بھى ياد كرو جب موسى نے اپنى قوم سے كہا كہ تم نے گوسالہ بناكر اپنے اوپر ظلم كيا ہے _ اب تم خالق كى بارگاہ ميں توبہ كرو اور اپنے نفسوں كو قتل كرڈالو كہ يہى تمھارے حق ميں خير ہے_ پھر خدا نے تمھارى توبہ قبول كرلى كہ وہ بڑا توبہ قبول كرنے والا مہربان ہے _

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے بچھڑے كى پوجا كركے خود پر ظلم كيا اور سزا كے مستحق قرار پائے _يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل

۲_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كى ستمگرى كے بيان كے ساتھ ہى ان كو فرمان ديا كہ اللہ كى بارگاہ ميں توبہ كرو _

و اذ قال موسى لقومه فتوبوا الى بارئكم

۳ _ انسان شرك اختيار كرنے اور غير خدا كى عبادت كرنے سے خود پر ظلم اور ستم كا ارتكاب كرتا ہے_انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل

۴ _ شرك اختيار كرنے اور غير خدا كى پرستش كرنے سے خداوند متعال كو كوئي ضرر يا نقصان نہيں ہوتا_

انكم ظلمتم أنفسكم باتخذكم العجل

۵ _ گناہ انسان كى اللہ تعالى سے دورى كا سبب بنتاہے _

فتوبوا الى بارئكم

۱۷۸

'' توبوا '' كا مصدر توب اور توبہ ہے جسكا معنى ہے رجوع كرنا اور لوٹنا _ اس سے يہ مطلب نكلتا ہے كہ گناہ كے سبب انسان اللہ تعالى سے دور ہوجاتا ہے اور فاصلہ پيدا كرليتاہے _

۶ _ گناہگاروں كى ضرورى اور اہم ذمہ دارى ہے كہ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ كے ذريعے بازگشت كريں _انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل فتوبوا الى بارئكم

۷ _ بنى اسرائيل كے گوسالہ پرستوں كى توبہ ايك دوسرے كو قتل كرنا معين كى گئي _فتوبوا الى بارئكم فاقتلوا أنفسكم

'' فاقتلوا'' ميں '' فائ'' تفسير يہ ہے يعنى ''فاقتلوا أنفسكم'' اور يہ''توبوا ...'' كى تفسير ہے _ اس جملہ '' فاقتلوا أنفسكم'' كے بارے ميں دو طرح كى تفسير بيان ہوئي ہے ۱ _ فاقتلوا بعضكم بعضاً _ ايك دوسرے كو قتل كرو ۲ _ ہر كوئي خود كو قتل كرے_

۸ _ گناہوں سے توبہ كا طريقہ كار اس گناہ كى نوعيت كے اعتبار سے مختلف ہوتاہے_انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل فتوبوا الى بارئكم فاقتلوا أنفسكم

۹_ بنى اسرائيل كے مرتدوں كى فكرى و نفسياتى آمادگى كے بعد حضرت موسىعليه‌السلام نے انہيں امر الہى ( ايك دوسرے كو قتل كرنے) كے اجراء اور قبوليت پر آمادہ كيا _يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم يہ جو حضرت موسىعليه‌السلام نے قوم كو اپنے ساتھ نسبت دى ( اے ميرى قوم ) يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام نے قوم كو توبہ كى دعوت سوز دل كے ساتھ دى اور ان سے چاہا كہ حكم الہى كے سامنے گردن جھكا ديں _يہ جو صراحت كى گئي ہے كہ بنى اسرائيل نے گوسالہ پرستى كے ذريعے خود پر ستم كيا ہے يہ بھى اسى معنى كے اعتبار سے ہے _

۱۰_ گناہگاروں ميں حدود الہى كى قبوليت كے لئے روحى اور فكرى آمادگى پيدا كرنا ايك اچھا اور بہتر عمل ہے_يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم فتوبوا الى بارئكم

۱۱_ تنقيد اور نصيحت سے پہلے مہربانى اور محبت سے پيش آنا ايك اچھا اور بہت بہتر عمل ہے _يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم

۱۲ _ الہ يا معبود ہونے كى لياقت و استعداد فقط خالق انسان ميں ہے _انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل فتوبوا الى بارئكم

'' بارء '' اللہ تعالى كے اسماء اور صفات ميں سے ہے جسكا معنى خالق ہے _ جملہ ''توبوا الى بارئكم'' ميں حضرت موسىعليه‌السلام كا اس اسم اور صفت كا انتخاب كرنا جبكہ آپعليه‌السلام كے ;مخاطبين وہ لوگ تھے جو غير خدا كى پرستش اختيار كرچكے تھے يہ مطلب اس طرف اشارہ ہے كہ انسان كا خالق ہى

۱۷۹

معبود بننے كى صلاحيت ركھتاہے لہذا تم نے غير كى طرف كيوں رجوع اور رجحان پيدا كيا ؟ پس تو بہ كرو _

۱۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى شريعت ميں مرتدوں كو قتل كرنا سزاؤں كے قوانين ميں سے تھا_ *فتوبوا الى بارئكم فاقتلوا أنفسكم

۱۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كے مرتدوں كى خيرو سعادت كو انكى توبہ اور ايك دوسرے كے قتل ميں جانا _

فاقتلوا أنفسكم ذلكم خير لكم عند بارئكم

۱۵ حضرت موسيعليه‌السلام نے مرتدوں كو اللہ تعالى كى خالقيت كى طرف متوجہ كرنے كے ساتھ ان كے قتل كى سزا كو انكے لئے ايك مفيد امرسمجھا_ذلكم خير لكم عند بارئكم حكم قتل كے اجراء كے وقت '' بارء '' كا انتخاب اس مفہوم كى طرف اشارہ ہے اگر چہ قتل ہونا ظاہراً ختم ہونا اور نابود ہوناہے ليكن در حقيقت دوبارہ زندگى پانا اور خلق ہونا ہے _ '' بارئكم'' كا جملہ ''توبوا الى بارئكم'' اور '' ذلكم خير لكم عند بارئكم'' ميں تكرار قابل توجہ ہے گويا ايك خاص ہدف كے لئے ايسا كيا گيا ہے _

۱۶ _ اللہ تعالى ہى انسانوں كا خالق ہے _فتوبوا الى بارئكم ذلكم خير لكم عند بارئكم

۱۷ _ اديان الہى ميں سزاؤں كے احكام و قوانين ، اگر چہ وہ سزا قتل ہونے كى ہو ،يہ سب گناہگاروں اور خطاكاروں كے لئے فلاح و سعادت كى ضمانت فراہم كرتے ہيں _فاقتلوا أنفسكم ذلكم خير لكم عند بارئكم

۱۸_ اديان الہى كے احكام و فرامين كى بنياد انسانوں كى مصلحت ہے_ذلكم خير لكم

۱۹_ بنى اسرائيل كے مرتدوں ( گوسالہ پرستوں ) نے حضرت موسىعليه‌السلام كے فرمان كے بعد ايك دوسرے كو قتل كرنا شروع كيا _فاقتلوا أنفسكم فتاب عليكم جملہ '' تاب عليكم'' ايك مقدر جملے پر عطف ہے يعنى ''ففعلتم ما امرتم بہ فتاب عليكم پس تم نے جسكا حكم ديا گيا تھا اس پر عمل كردكھا يا تو خداوند عالم نے تمہارى توبہ كو قبول فرماليا'' قابل توجہ ہے كہ '' تاب '' كى ضمير ما بعد جملے كے قرينہ سے '' بارئكم _ تمہارا خالق'' كى طرف لوٹتى ہے_

۲۰_ بنى اسرائيل كے گوسالہ پرستوں كى توبہ كى قبوليت اللہ تعالى كى ان پر نعمتوں ميں سے ايك تھي_و اذ قال موسى فتاب عليكم اس سورہ مباركہ جيسا كہ آغاز ميں آياہے'' يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى ...'' اس سے پتہ چلتاہے كہ آيات كے اس حصے ميں ان نعمتوں كا ذكر ہے جو اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو عنايت فرمائي تھيں _

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369