پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 369
مشاہدے: 298126
ڈاؤنلوڈ: 8914

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 298126 / ڈاؤنلوڈ: 8914
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کو (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=379&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں

5۔ ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص134 مطبوعہ مصر میں جوہری کی کتاب سقیفہ سے سقیفہ بنی ساعدہ کا قضیہ تفصیل سے نقل کیا ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں، بن ہاشم علی علیہ السلام کے گھر میں جمع ہوئے اور زبیر بھی ان کے ساتھ تھے اس لیے کہ وہ اپنے کو بنی ہاشم میں شمار کرتے تھے( حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے تھے کہ زبیر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے یہاں تک کہ ان کے لڑکے بڑے ہوئے اور ان کو ہم سے برگشتہ کردیا) پس عمر ایک گروہ لے کر سید اور سلمہ کے ہمراہ حضرت فاطمہ(ع) کے گھر پر گئے اور کہا باہر نکل کے بیعت کرو، ان لوگوں نے انکار کیا اور زبیر تلوار کھینچ کر باہر نکل آئے۔ عمر نے کہا اس کتے کو پکڑ لو سلمہ بن اسلم نے ان کی تلوار پکڑ کر دیوار پر دے ماری اس کے بعد علی(ع) کو جبر و تشدد کے ساتھ کھینچتے ہوئے ابوبکر کی طرف لے چلے بنی ہاشم بھی ان کے ساتھ ساتھ آرہے تھے اور دیکھ رہے تھے کہ آپ کیا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ علی(ع) کہتے تھے کہ میں خدا کا بندہ اور اس کے رسول(ص) کا بھائی ہوں لیکن کوئی ان کی بات پر کان نہیں دھرتا تھا یہاں تک کہ ان کو ابوبکر کے پاس لے گئے انہوں نے کہا بیعت کرو آپ نے فرمایا کہ میں اس منصب کا سب سے زیادہ حقدار ہوں اور تمہاری بیعت نہیں کروں گا البتہ تمہارا فرض ہے کہ میری بیعت کرو۔ تم نے قرابت رسول(ص) کی دلیل سے یہ عہدہ انصار سے لیا ہے اور میں بھی اسی دلیل سے تمہارے مقابلے میں احتجاج کرتا ہوں۔ پس اگر تم خدا سے ڈرتے ہو تو انصاف سے کام لو اور میرے حق کا اعتراف کرو جس طرح انصار نے تمہارے حق میں انصاف کیا ، ورنہ اس کا اقرار کرو کہ جان بوجھ کر مجھ پر ظلم کر رہے ہو۔

عمر نے کہا جب تک بیعت نہ کروگے میں تم کو نہیں چھوڑوں گا۔ حضرت نے فرمایا خوب تم لوگوں نے آپس میں سازباز کر رکھا ہے، آج تم ان کے لیے کام کر رہے ہوتا کہ کلی وہ تمہاری طرف پلٹائیں ( اس عہدے کہ) خدا کی قسم میں تمہاری بات نہیں مانوں گا اور ان کی بیعت نہیں کروں گا اسلیے کہ ان کو میری بیعت کرنا چاہیئے پھر لوگوں کی طرف رخ کر کے فرمایا، اے گروہ مہاجرین خدا سے ڈرو۔ محمدی سلطنت اور اقتدار کو ان کے گھرانے سے جہان اس کو خدا نے قرار دیا ہے باہر نہ لے جائو اور اس کے اہل کو اس کے منصب اور حق سے الگ نہ کرو۔ خدا کی قسم ہم اہل بیت(ع) اس امر میں تم سے کہیں زیادہ حقدار ہیں جب تک ہمارے درمیان کوئی کتاب خدا و سنت رسول(ص) کا عالم اور دین کا فقیہہ موجود رہے۔ خدا کی قسم یہ تمام صفتین ہمارے اندر لہذا اپنے نفس کی پیروی نہ کرو جس سے حق سے دور ہوجائو۔ اس کے بعد علی علیہ السلام بغیر بیعت کئے ہوئے گھر واپس گئے اور خانہ نشین ہوگئے یہاں تک کہ حضرت فاطمہ(ع) نے رحلت فرمائی اور آپ نے بے بس ہوکر بیعت کی۔

6۔ ابو محمد عبداللہ بن مسلم ن قتیبہ بن عمرو الباہلی الدینوری متوفی سنہ376ھ جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں اور مدتوں شہر دینور میں باقاعدہ قاضی رہے ہیں اپنی مشہور کتاب تاریخ الخلفاء الراشدین و دولت بنی امیہ معروف بہ الامامہ والسیاسہ (مطبوعہ مصر) جلد اول ص13 میں سقیفے کا قضیہ تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور اس عبارت سے مضمون شروع کرتے ہیں۔

"وإنّ أبابكررضى اللّه عنه تفقّدقوماتخلّفواعن بيعته عندعليّ كرّماللّه وجهه فبعث إليهم

۳۲۱

عمرفجاءفناداهم وهم في دارعليّ،فأبواأن يخرجوافدعابالحطب وقال: والّذي نفس عمربيده لتخرجنّ أولأحرقّنهاعليكم على من فيها،فقيل له: ياأباحفص،إنّ فيهافاطمةفقال: وإن فخرجوا فبايعوا الا عليا الخ."

خلاصہ یہ کہ جب ابوبکر کو معلوم ہوا کہ امت کی ایک جماعت ان کی بیعت سے انحراف کر کے علی علیہ السلام کے گھر میں جمع ہوئی ہے تو عمر کو ان کی طرف بھیجا، عمر نے آکر ان کو آواز دی لیکن ان لوگوں نے گھر سے باہر نکلنا گوارا نہیں کیا، عمر نے لکڑی منگوائی اور کہا اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے یا تم باہر آئو گے یا میں گھر کو گھر والوں سمیت جلائے دیتا ہوں۔ لوگوں نے کہا اے ابو حفص ( کنیت عمر) اس گھر میں فاطمہ(ع) بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کچھ پرواہ نہیں، وہ ہیں تب بھی جلا دوں گا۔ پس سب لوگ باہر آگے اور بیعت کی سوا علی علیہ السلام کے کہ انہوں نے فرمایا میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک قرآن جمع نہ کرلوں گا نہ باہر نکلوں گا نہ عباپہنوں گا، عمر نے قبول نہیں کیا لیکن فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نالہ و زاری اور لوگوں کی ملامت سے مجبور ہو کر ابوبکر کے پاس واپس گئے اور ان کو حضرت سے بیعت لینے پر ابھارا ابوبکر نے حضرت کو بلانے کے لیے کئی مرتبہ قنفذ کو بھیجا لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ بالآخر عمر ایک مجمع کے ساتھ فاطمہ(ع) کے دروازے پر گئے اور دق الباب کیا، فاطمہ(ع) نے ان لوگوں کی صدا سنی تو با آواز بلند فرماد کی۔

"ياأبت يارسول اللّه ،ماذالقينابعدك من ابن الخطّاب وابن أبي قحافة؟!!."

یعنی اے بابا رسول اللہ (ص) آپ کے بعد ہم کو عمر ابن خطاب اور ابوبکر ابن ابو قحافہ کی طرف سے کیا کیا مصیبتیں پہنچ رہی ہیں۔

جب لوگوں نے فاطمہ(ع) کی گریہ و زاری کی آواز سنی تو اس حالت سے پلٹے کہ آنسو بہ رہے تھے اور کلیجے بھن رہے تھے۔لیکن چند اشخاص کےساتھ عمر ٹھہر گئے یہاں تک کہ علی (ع) کو جبرا گھر سے نکال کے ابوبکر کے پاس لے گئے اور ان سے کہا کی ابوبکر کی بیعت کرو حضرت نے فرمایا کہ اگر بیعت نہ کروں تو کیا کرو گے؟ " قالوااذاواللَّه الّذى لااله الّاهونضرب عنقك " ( کہا خدا کی قسم ہم تمہاری گردن ماردیں گے۔ علی علیہ السلام نے فرمایا تو کیا بندہ خدا اور برادر رسول(ص) کو قتل کروگے؟ عمر نے کہا تم رسول خدا(ص) کے بھائی نہیں ہو۔ ابوبکر یہ سارے واقعات اور گفتگو خاموشی سے دیکھ رہے تھے اور کچھ نہیں کہتے تھے۔ عمر نے ابوبکر سے کہا کہ آیا یہ سب کام میں تمہارے حکم سے نہیں کر رہا ہوں ؟ ابوبکر نے کہا جب تک فاطمہ(ع) ہیں میں ان کو مجبور نہیں کروں گا۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے کو قبر رسول (ص) تک پہنچایا اور نالہ و فریاد کے ساتھ آنحضرت(ص) سے وہی بات عرض کی جو ہارون نے اپنے بھائی موسی(ع) سے کہی تھی اور خدا نے قرآن میں اس کی خبر دی ہے کہ:

" ياابنأمّ إنالقوم استضعفوني وكادوايقتلونني" ( یعنی اے میری مان کے فرزند قوم نے مجھ کو ضعیف بنا دیا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کردیں۔)

اس قضیے کی مفصل شرح نقل کرنے کے بعدکہتے ہیں کہ علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی اور گھر واپس چلے آئے۔ بعد کو ایک مرتبہ ابوبکر و عمر فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر پر آئے تاکہ ان کی خوشنودی حاصل کریں۔ آپ نے فرمایا میں خدا کو گواہ کرتی ہوں کہ

۳۲۲

تم دونوں نے مجھ کو اذیت پہنچائی ہے، میں ہر نماز میں تم پر نفرین کرتی ہوں یہاں تک کہ اپنے باپ کے پاس پہنچوں اور تمہاری شکایت کروں۔ انتہی۔

بے لاگ فیصلہ کرنا چاہیئے

حضرات آپ کو خدا کیا واسطہ دے کے انصاف چاہتا ہوں، کیا اجماع کے یہی معنی ہیں کہ اصحاب پیغمبر(ص) کو اہانت ، زد و کوب اور زبردستی کےساتھ قتل اور گھر پھونکنے کی دھمکیاں دے کر بیعت کے لیے لے جائیں۔ اس کا نام اجماع رکھیں؟ ارباب انصاف اگر آپ حضرات تعصب سے ہٹ کر ذرا سنجیدگی کے ساتھ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس روز کی شعبدہ بازی بھی آج ہی کے مانند تھی جس کی مثالیں اکثرملتی ہیں کہ چند اشخاص ایک آدمی کا ساتھ پکڑ کے شور و شغب اور ہنگامہ برپا کر کے اس کو ریاست یا سلطنت کی کرسی تک پہنچا دیتے ہیں اور بعد کو کہتے ہیںکہ قوم نے اس کو منتخب کیا ہے۔ اس روز بھی چند بازیگروں نے پارٹی بناکر ایک نفر کا انتخاب کر لیا اور بعد کو شور و غوغا اہانت ، آتش زنی اور قتل و خون کی دھمکی سے دبائو ڈال کر بقیہ لوگوں کو بیعت کے لیے تیار کیا جس کا آج کی شب آپ حضرات نام رکھتے ہیں، اجماع، اور اس کند حربے کو اپنی حقانیت کی دلیل بناتے ہیں۔

پھر تعجب یہ کہ ہم سے بھی فرمائش ہے کہ اندھے بہرے اور نادان بن جائو، پچھلی تاریخ پر قطعی دھیان نہ دو دین میں کوئی تحقیق نہ کرو، چاہے جو کچھ بھی کیا ہو لیکن سب کے نیک سمجھو اور اندھا دھند تصدیق کردو کہ اجماع واقع ہوا اور یہ خلافت برحق ہے اس لیے کہ اجماع کے ذریعے قائم ہوئی ہے۔

خدا کی قسم اگر آپ حضرات غیر جانبداری اور عدل و باریک بینی کی نظر سے دیکھیں تو خود تصدیق کریں گے کہ ان لوگوں کی جتھہ بندی اور پارٹی بازی اس روز سیاسی تھی برخلاف جماعت شیعہ کے جنہوں نے ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق آں حضرت(ص) کی عترت طاہرہ(ع) کا ساتھ اختیار کیا اور کہا کہ جب خود پیغمبر(ص) کی ہدایت ہے کہ قرآن اور میرے اہل بیت(ع) سے متمسک رہو تو ہم بھی تعمیل کرتے ہوئے ان سے جدا نہیں ہوتے ہیں اور کسی غیر کی نہیں بلکہ صرف انہیں کی پیروی کرتے ہیں۔

7۔ احمد بن عبدالعزیز جوہری جو آپ کے ثقات علماء میں سے ہیں جیسا کہ ابن ابی الحدید نے اس عبارت کے ساتھ ان کی توثیق کی ہے کہ

" هو عالم محدث کثير الادب ثقة ورع اثنی عليه المحدثون رووا عنه فی مصنفاتهم "

یعنی وہ عالم، محدث ، بہت بڑے ادیب، ثقہ اور صاحب ورع تھے، محدثین نے ان کی مدح و ثناء کی ہے اور اپنے تصنیفات میں ان سے روایت کی ہے، انہوں نے کتاب سقیفہ میں روایت کی ہے اور ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص19 مطبوعہ مصر میں بسند ابواسود اس سے نقل کیا ہے کہ اصحاب کی ایک

۳۲۳

جماعت اور سربرآوردہ مہاجرین نے ابوبکر کی بیعت میں غیظ و غضب کا اظہار کیا کہ ان مشورہ کیوں نہیں کیوں نہیں لیا گیا۔ نیز علی(ع) اور زبیر بھی غضبناک ہوکر بیعت سے کنارہ کش ہوئے اور خانہ جناب فاطمہ(ع) میں آگئے۔ عمر نے اسید بن غضیر اور سلمہ بن سلامہ بن قریش ( جو دوںوں بنی عبدالاشہل سے تھے) اور لوگوں کا ایک گروہ لے کر خانہ فاطمہ(ع) پر چڑھائی کردی فاطمہ(ع) نے ہر چند فریاد کی اور ان لوگوں کو قسم دی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ علی(ع) و زبیر کی تلواریں لے کر دیوار پر مار مار کے توڑ ڈالیں اور ان کو جبر و تشدد کے ساتھ کھینچ کے بیعت کے لیے مسجد میں لے گئے۔

8۔ نیز جوہری نے سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ جب ابوبکر منبر پر بیٹھے اور سنا کہ علی(ع) و زبیر اور بنی ہاشم ایک جماعت خانہ فاطمہ(ع) میں جمع ہوئے ہیں اور عمر کو بھیجا کہ ان کو لے آئو، عمر فاطمہ(ع) کے گھر پر آکر چیخے کہ باہر آئو ورنہ خدا کی قسم میں تم کو اور تمہارے گھر کو جلائے دیتا ہوں۔

9۔ نیز جوہری نے جیسا کہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص19 مطبوعہ مصر میں لکھا ہے، اسناد کے ساتھ شعبی سے روایت کی ہے کہ جس وقت ابوبکر کو خانہ علی علیہ السلام میں بنی ہاشم کے اجتماع کی خبر ملی تو عمر سے کہا کہ خالد کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا موجود ہیں۔ ابوبکر نے کہا تم دوںوں جا کر علی(ع) اور زبیر کو نکال کے لائو تاکہ بیعت کریں، پس عمر فاطمہ(ع) کے گھر میں داخل ہوئے اور خالد دروازے پر کھڑے ہوئے عمر نے زبیر سے کہا یہ تلوار کیسی ہے ؟ انہوں نے کہا میں نے اس کو بیعت علی(ع) کے لیے مہیا کیا ہے۔ عمر نے وہ تلوار کھینچ کر گھر کے اندر ہی ایک پتھر پر مار کر توڑ ڈالی، اس کے بعد زبیر کا ہاتھ پکڑ کے اٹھایا اور باہر لاکر خالد کے قبضے میں دیا۔ پھر مکان کے اندر واپس گئے وہاں کافی لوگ جمع تھے، جیسے مقداد اور جملہ بنی ہاشم عمر نے علی علیہ السلام سے کہا اٹھو اور چل کر ابوبکر کی بیعت کرو۔ حضرت نے انکار کیا تو حضرت کا ہاتھ پکڑکے کھینچا، اور خالد کے ہاتھ میں دیا خالد کے ساتھ کثیر مجمع تھا جو ابوبکر نے مدد کے لیے بھیجا تھا۔ خالد اور عمر مل کے حضرت کو جبر اور سختی کےساتھ کھینچ رہے تھے۔ تمام گلیوں میں لوگ بھرے ہوئے تھے اور یہ منظر دیکھ رہے تھے، حضرت فاطمہ(ع) نے جس وقت عمر کی یہ بدسلوکیاں دیکھیں تو بنی ہاشم وغیرہ کی بہت سی عورتوں کے ساتھ ( جو جناب فاطمہ(ع) کو تسکین دینے کے لیے جمع ہوئی تھیں) باہر آگئیں اور ان کے نالہ و شیون اور فریاد و فغان کی آوازیں بلند تھیں، یہاں تک کہ حضرت فاطمہ(ع) نے مسجد کے اندر ابوبکر کو آواز دے کر فریاد کی کہ کتنی جلدی تم لوگوں نے اہل بیت رسول اللہ(ص) کے گھر پر ڈاکہ ڈال دیا۔ قسم ہے خدا کی کہ میں عمر سے بات بھی نہیں کروں گی یہاں تک کہ اپنے خدا سے ملاقات کروں( معصومہ اپنی قسم اور عہد کی پابند رہیں اور زندگی بھر ان لوگوں سے بات نہیں کی) چنانچہ بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحین میں لکھا ہے۔

"فغضبت فاطمةعلى ابى بكرفهجرته فلم تكلّمه حتّى توفّيت"

یعنی فاطمہ سلام اللہ علیہا ابوبکر پر غضبناک ہوئیں اور وفات کے وقت تک ان سے بات نہیں کی۔ جیسا کہ صحیح بخاری کے جزء پنجم و ہفتم میں نقل ہوا ہے۔

10۔ ابو ولید محب الدین محمد بن الشختہ الحنفی متوفی سنہ815ھ جو آپ کے اکابر علماء میں سے اور حلب میں برسوں حنفی

۳۲۴

مذہب کے قاضی رہے تھے۔ اپنی تاریخ کی کتاب روضتہ المناظر فی اخبار الاوائل والاواخر میں قضیہ سقیفہ کی تشریح کرتے ہوئے آگ والا واقعہ ان الفاظ میں لکھتے ہیں۔

"ان عمر جاء الی بيت علی ليحرقه علی من فيه فلقيته فاطمة فقال ادخلوا فيما دخلت الامة"

یعنی عمر علی(ع) کے گھر پر آئے تاکہ اس کو مع گھر والوں کے جلا دیں پس فاطمہ(ع) نے ان سے گفتگو کی تو عمر نے کہا جس چیز میں امت داخل ہوئی ہے تم بھی داخل ہو) اور آخر تک یہ واقعہ نقل کرتے ہیں۔

11۔ طبری نے اپنی تاریخ جلد دوم ص443 میں زیاد ابن کلب سے نقل کیا ہے کہ طلحہ و زبیر اور مہاجرین کی ایک جماعت علی(ع) کے گھر میں تھی، عمر ابن خطاب آئے اور کہا بیعت کے لیے باہر نکلو ورنہ سب کو آگ سے جلائے دیتا ہوں۔

12۔ مشہور مورخ ابن شحنہ حاشیہ کامل ابن اثیر جلد یا زدہم ص112 ضمن واقعہ سقیفہ میں لکھتے ہیں کہ جس وقت اصحاب اور بنی ہاشم کی ایک جماعت جیسے زبیر ، عتبہ بن ابی لہب، خالد بن سعید بن عاص، ،مقداد ابن اسود کندی، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عماریاسر، براء بن عازب اور ابی بن کعب نے بیت ابوبکر سے اختلاف کیا اور علی علیہ السلام کی طرف میلان ہونے کی وجہ سے سب آپ کے گھر میں جمع تھے تو عمر ابن خطاب آئے تاکہ اس مکان میں جو بھی ہو آگ سے اس کو جلا دیں، فاطمہ سلام اللہ علیہا نے احتجاج کیا تو عمر نے کہا کہ اس کام میں شامل ہو جس میں اورلوگ شامل ہوئے ہیں۔ ( یعنی بیعت کرنے والے اشخاص کی پیروی کرتے ہوئے بیعت کرو۔)

ان مطالب کا شاید مقبول فریقین مورخ اور جلیل القدر فاضل ابوالحسن علی ابن الحسین مسعودی کا قول ہے جو تاریخ مروج الذہب جلد دوم ص100 میں واقعات عبداللہ ابن زبیر کو جنہوں نے مکے میں ریاست و خلافت کا دعوی کیا تھا۔ نقل کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ جس وقت بنی ہاشم مع فرزند امیرالمومنین محمد ابن حنفیہ کے شعب ابوطالب میں جمع تھے اور عبداللہ کا لشکر ان کا محاصرہ کئے ہوئے تھا تو وہ لوگ بہت سی لکڑی لائے تاکہ سب کو جلادیں اور آگ کے شعلے بھی بلند ہوئے لیکن پھر بھی بنی ہاشم نے اطاعت قبول نہیں کی یہاں تک کہ مختار کے لشکر نے پہنچ کر ان کو نجات دلائی۔

کہتے ہیں کہ نوفلی نے اپنی کتاب میں روایت کیا ہے کہ ایک جلسے میں محاصرہ ثعب ابوطالب کا قضیہ زیر بحث تھا اور لوگ اس آتش زنی کی ملامت کررہے تھے تو وہ عروہ بن زبیر اپنے بھائی عبداللہ کی طرف سے لوگوں کے سامنے یہ عذر پیش کررہے تھے کہ میرے بھائی عبداللہ قصور وار نہیں تھے اس لیے کہ آگ اور لکڑی لانے اور آگ روشن کرنے سے بنی ہاشم کو ڈرانا مقصود تھا:

" إنّماأرادبذلك إرهابهم ليدخلوافي طاعته كماأرهب بنوهاشم وجمع لهم الحطب لإحراقهم اذهم أبواالبيعةفيماسلف"

مطلب یہ کہ عبد اللہ ابن زہیر کا شعب ابو طالب میں ہاشم کیلے آگ لے جانا ان کو خوف زدہ کرنے کیلے تھا تاکہ وہ ان کی اطاعت کریں ٹھیک اسی طرح جیسے (عمر اور اصحاب ابو بکر نے)بنی ہاشم اور بزرگان قوم کو اس وقت ڈرایا دھمکایا تھا اور ان کو

۳۲۵

جلانے کیلے لکڑی جمع کی تھی جب وہ بیعت پر تیار نہیں ہورہے تھے (تاکہ کسی طرح اجماع کا نام ہوجاے اور آج آپ کے لیے دلیل محکم بنے )یہ روایتیں اور مورخین کا بیان ان کثیر اخبار و بیانات میں سے صرف ایک نمونہ ہے جو آپ کے موثق راویوںنے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے۔انصاف پسند علماءکے نزدیک یہ واقعہ اس قدر مشہور تھا کہ شعراء اس کو اپنے اشعار میں نظم کرتے تھے۔

ہاں آپ کے بعض علماء احتیاطاًاس خیال سے کہ اگر ہم ان معاملات کو بیان کریںگے تو عقیدہ اجماع کے باطل ہونےپر ایک دلیل ہوجا ےگی اس واقعہ کو نقل کرنے سے پرہیزکرتے تھے ورنہ اصلیت سب کے سامنے ظاہر تھی۔آپ کے مشہورومعروف شعراءمیںسے ایک بزرگ عالم حافظ ابراہیم مصری قصیدہ عمریہ میں خلیفہ کی مدح وتمھید کرتے ہوے کہتےہیں

وقولة لعلي قالها عمر

أكرم بسامعها أعظم بملقيها

حرقت دارك لا أبقي عليك بها

إن لم تبايع وبنت المصطفى فيها

ما كان غير أبي حفص يفوه بها

أمام فارس عدنان وحاميها

مطلب یہ کہ سو ابوحفص(کنیت عمر)کے شہسوار قبیلہ عدنان،علی اور ان کے حامیوں سے کوئی اور یہ نہیں کہ سکتا تھا کہ اگر بیعت نہ کروگے تو تمہارا گھر پُھونک دوںگا اور اُس میں سے کسی کو زندہ نہ چھورں گا چاہے یہاں رسول کی بیٹی ہی ہو۔

حافظ: یہ روایتیں بتاتی ہیںکہ ڈرانے دھمکانے اور مخالفین خلافت کا مجمع منتشر کرنے کےلئےآگ لائے تھے حلانکہ شیعوں نے یہ گھڑا ہے کہ گھر میں آگ لگادی اور دروازےاور دیوار کے درمیاں محسن کا ششماہہ حمل ساقط ہوگیا۔

جناب فاطمہ کے اسقاط حمل کی روایتیں

خیرطلب: میں نے عرض کیا تھا کہ تنگی وقت کی وجہ سے اختصار کی کوشش کررہاہوں اوراسی وجہ سے میں نے مفصّل روایتیں نقل کرنے سے گریز کیا ورنہ اس بارے میں بھی بہت ہے نمونے کے طور پر اور یہ ثابت کرنے کیلے کہ ہم موّحد اورروز جزا پر ایمان رکھنے والے شیعہ دروغ اورجعلسازی سے کام نہیں لیتے اور نہ کسی سے ذاتی پر خاش رکھتےے ہیں۔بہتر ہوگا کہ آپ مقبول فریقین(شیعہ و سنی )مشہور عالم فاضل موّرخ ابوالحسن علی ابن حسین سعودی صاحب مروج الذہب متوفی سنہ346ھ کی تالیف کتاب اثبات الوصیہ کی طرف رجوع فرمائیے، جس میں اس روز کے مفصل واقعات درج کئے ہیں یہاں تک کہ کہتے ہیں۔

"اللّه عليه وآله فوجهواالى منزله فهجمواعليه ،وأحرقوابابه،واستخرجوه

۳۲۶

منه كرها،وضغطواسيّدةالنساءبالبابحتىاسقطت محسنا"

پس علی علیہ السلام پر ہجوم کر لیا ان کا دروازہ جلا ڈالا، ان کو زبردستی گھر سے باہر نکالا اور سیدہ زنان جناب فاطمہ(ع) کو دروازے اور دیوار کے درمیان اس طرح سے دبایا کہ محسن کا حمل ساقط ہوگیا۔

اس سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ شیعوں کی گھڑی ہوئی باتین نہیں ہیں بلکہ جو کچھ ہوا ہے وہ تاریخ کے اندر محفوظ ہے۔ تاریخ ہرگز گم نہ ہوگی، اگر بعض جانب داری سے کام لیں گے اور اس کو تحریر کرنے سے پرہیز کریں گے تو دوسرے انصاف پسند حضرات بھی ہیں جو درج کر کے رہیں گے۔

اسقاط حمل کا سانحہ تو تاریخ کے اندر اظہر من الشمس ہے۔ یہاں تک کہ بعض علماء نے اپنے خلفاء کی محبت میں پردہ پوشی اور سکوت سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھی یہ حقیقت بے اختیار ان کی زبان قلم پر آگئی ہے اور ہمارے دعوے کے ثبوت میں ایک سچا گواہ بن گئی ہے۔

ملاحظہ فرمائیے شرح نہج البلاغہ مطبوعہ مصر جلد سیم ص351 تاکہ مطلب آپ کے سامنے واضح ہوجائے، ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ جب میں نے اپنے استاد ابو جعفر نقیب شیخ معتزلہ کےسامنے یہ روایت نقل کی کہ جس وقت سول خدا(ص) کو یہ اطلاع دی گئی کہ ہبار ابن اسود نے آپ کی دختر زینب کی عماری پر نیزے سے حملہ کیا جس کے خوف سے زینب کا حمل ساقط ہوگیا (1) تو حضرت نے اس کا خون مباح فرمادیا تو ابوجعفر نے کہا :

"لوكان رسول اللّه حيّالأباحدممن روّع فاطمةحتّى ألقت ذابطنها."

یعنی اگر رسول اللہ (ص) زندہ ہوتے تو یقینا اس شخص کا خون بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ رسول اللہ(ص) کی ربیبہ زینب اپنے خالہ زاد بھائی ابوالعاص بن ربیع بن عبدالعز کو بیاہی ہوئی تھیں جنگ بدر میں کفار کے بہت سے قیدیوں کے ساتھ ابوالعاص بھی اسیر ہوا۔ طے یہ پایا کہ مشرکین فدیہ دے دے کر اپنے کو رہا کرائیں۔ ابوالعاص نے زینت کے پاس کہلا بھیجا کہ میرے لیے فدیہ بھیج دو۔ ان بی بی نے کچھ مال مہیا کیا اور اس کے ساتھ ایک مروارید کا گلو بند جو عقیق یمنی اور یاقوت رمانی سے موصع تھا اور جناب خدیجہ سے ان کو ملا تھا۔ پیغمبر(ص) کی خدمت میں بھیجا۔ رسول اللہ(ص) اس کو دیکھ کر غمگین ہوگئے تو امت نے آنحضرت(ص) کے لحاظ سے فدیہ چھوڑ دیا اور ابوالعاص کو آزاد کردیا۔ پیغمبر(ص) نے ابوالعاص سے فرمایا کہ زینب چونکہ تجھ پر حرام ہے لہذا ان کو مدینے بھیج دے۔ اس نے منظور کیا آں حضرت(ص) نے زینب کو لانے کے لیے اس کے ہمراہ مرد پیر حضرت زید بن حارث کو روانہ فرمایا۔ جب مشرکین کو معلوم ہوا کہ زینب کی روانگی ہوگئی تو ابوسفیان کےساتھ ایک گروہ نے تعاقب کیا اور ذی طوی میں ان تک پہنچ گئے ہبار ابن اسود نے زینب کی عماری میں نیزہ مارا اور نیزے کی انی ان کی پشت میں لگی جس سے وہ گھبرا گئیں اور دہشت کی وجہ سے حمل ساقط ہوگیا جس وقت زینب مدینے پہنچیں اور رسول اللہ(ص) سے واقعہ بیان کیا تو آں حضرت(ص) کو بہت صدمہ ہوا اور ہبار کا خون حلال فرما دیا نیز حکم دیا کہ اس کے ہاتھ پائوں کاٹ کے اس کو قتل کیا جائے۔

۳۲۷

حلال کردیتے جس نے فاطمہ(ع) کو خوف زدہ کیا یہاں تک کہ ان کا حمل ( محسن) ساقط ہوگیا۔

نیز صلاح الدین خلیل بن ابیک الصعدی نے وافی الوفیات ضمن حرف الف میں ابراہیم بن سیار بن باقی بصری معروف بہ نظام معتزلی کے کلمات عقائد نقل کئے ہیں، یہاں تک کہ کہتے ہیں کہ نظام نے کہا ہے۔

"إنّ عمرضرب بطن فاطمةعليهاالسّلام يومال بيعةحتّى ألقت المحسن من بطنها."

یعنی عمر نے بیعت کے روز حضرت فاطمہ(ع) کے بطن پر ایسی ضرب لگائی کہ محسن ان کے شکم سے ساقط ہوگئے۔

وافی الوفیات کی یہ قلمی جلد حاجی حسین آقا ملک کے کتب خانہ ملی تہران میں موجود ہے۔ لہذا آپ حضرات اپنے بزرگوں کی پیروی میں بلا وجہ شیعہ قوم کو بدنام نہ کیجئے اور ناواقف عوام کے سامنے ہم کو قصور وار مشہور نہ کیجئے جس

سے ان کو دھوکا ہو کہ واقعی یہ روایتیں شیعون نے وضع کی ہیں۔ اور پھر آپ ان میں غلط فہمی پھیلائیں اور کہیں کہ ہمارے خلفاء نے علی(ع) و فاطمہ(ع) کو کوئی ایذا نہیں پہنچائی بلکہ یہ خود ان کی خلافت پر راضی تھے۔ آتش زنی، جبرو تشدد ، بیعت کے لیے علی(ع) و بنی ہاشم کی توہین و تذلیل اور اسقاط کے واقعات نیز دوسرے مظالم آپ کے منصف مزاج علماء کی معتبر کتابوں میں مندرج ہیں۔ اگر آپ کو کوئی اعتراض کرنا ہے تو بلاذری، طبری، ابن خزابہ، ابن عبدربہ، جوہری، مسعودی، نظام، ابن ابی الحدید ، ابن قتیبہ، ابن شخبہ اور حافظ ابراہیم وغیرہ پر کیجئے کہ انہوں نے کیوں اپنی کتابون میں لکھا اور کیوں اپنے اشعار میں نظم کیا۔ ہم تو جو کچھ کہتے ہیں مضبوط اور مسلم سند کے ساتھ کہتے ہیں۔ جذبات اور جاہلانہ تعصب سے روایتیں نہیں گھڑتے۔

حافظ : آخر اس قسم کی روایتیں نقل کرنے سے نتیجہ کیا ہے؟ سوا باہمی نفاق و عداوت اور اختلاف پیدا ہونے کے قطعا ان سے کوئی فائدہ نہیں نکلتا۔

نصرت حق اور اثبات مظلومیت ضروری ہے

خیر طلب : اولا بہتر تویہ ہے کہ اپنے علماء مورخین پر یہ اعتراض کیجئے کہ انہوں نے لکھا کیوں؟ ورنہ حق چھپا نہیں رہتا۔" فَلِلَّهِ الْحُجَّةُالْبالِغَةُ،" اور تاریخ محو نہیں ہوتی۔ آخر کار ہر قوم و ملت میں کچھ پاک نفس، انصاف پسند اور بے لوث افراد پیدا ہوتے ہیں جو حقائق پیش کرتے ہیں۔ جیسے آپ کے منصف مزاج علماء کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں درج کر کے حقیقتوں کو ظاہر کردیا۔

دوسرے آپ کا یہ فرمانا کہ تم کیوں کہتے ہو اور کیوں لکھتے ہو؟ تو بدیہی چیز ہے کہ ہمارا یہ کہنا اور لکھنا آپ کے ان کج فہم مطلب پرست اور افترا پرداز مقررین و مصنفین کے حملوں اور تہمتوں کے جواب میں دفاعی حیثیت رکھتا ہے جو مسلمانوں کے اندر تفرقہ ڈالنے کے لیے ہمارے ناواقف بھائیوں کو بہکاتے ہیں، مومن و موحد شیعہ

۳۲۸

جماعت کو کافر و مشرک اور ملحد مشہور کرتے ہیں اور اس قسم کے حالات اور تاریخی واقعات کو شیعون کی من گھڑت بتا کے سادہ طبیعتوں کو غلط الزامات کے ذریعہ مکدر بناتے ہیں۔

ہم مجبور ہیں کہ اپنے مظلومانہ حق سے دفاع کریں اور اطراف عالم میں پھیلے ہوئے اپنے روشن دماغ مسلمان بھائیوں پر واضح کریں کہ شیعیان اہل بیت رسالت(ص) یعنی علی(ع) اور اولاد علی(ع) کے پیرو " لاإله إلّااللّه ،محمّدرسولاللّه " کے کہنے والے ہیں اور علی علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہتے چنانچہ ہم نے گزشتہ شبوں میں عقلی و نقلی دلائل و براہین کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ ہم علی(ع) کو خدا کا بندہ صالح رسول اللہ(ص) کا وصی و خلیفہ منصوص اور بھائی سمجھتے ہیں، اور ہر اس عمل کے مخالف ہیں جو غیر خدا کے لیے ہو۔

آپ فرماتے ہیں کہ تم کیوں کہتے ہو؟ حقائق بیان کرنے سے کیا نتیجہ ہے؟ تو ہم بھی آپ سے کہتے ہیں کہ آپ نہ کہئے تاکہ ہم بھی نہ کہیں، آپ نہ لکھئے تاکہ ہم بھی نہ لکھیں، حق اور واجبی حقوق کی حمایت فرض ہے۔ ہم خود نہیں کہتے ہیں آپ ہم کو کہنے پر مجبور کرتے ہیں، اب اسی رات میں اگر آپ یہ نہ فرماتے کہ یہ شیعہ عوام کے عقائد ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں، تو میں پردہ اٹھانے پر مجبور نہ ہوتا اور حضرات حاضرین جلسہ کو یہ نہ بتاتا کہ جیسا آپ نے سنا ہے، یہ شیعہ عوام کے عقائد نہیں ہیں بلکہ حق گو علمائے اہلسنت والجماعت کے اعتقادات ہیں۔ چنانچہ ان میں سے نمونے کے طور پر کچھ عرض بھی کرنا پڑا۔ ہم شیعہ لوگ خاص موحد ہیں۔ اور کتاب وسنت اور عقل و اجماع کی روشنی میں صرف صحیح عقائد کے حامل ہیں۔

حافظ : آپ کی ان باتوں پر حیرت اور تعجب ہے، اس لیے کہ علمائے شیعہ کی خاص کتابوں میں ایسی روایتیں موجود ہیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہیں اور پورے پورے شیعوں کی جسارت اور گناہوں میں ان کی بے پروائی کا باعث ہوتی ہیں۔ اس قسم کے روایات قطعا موضوع ہیں۔ اور ان سے امت کے اخلاق بگڑنے کے علاوہ اور کوئی نتیجہ نہیں۔ آپ لوگ بھی ان سے منع نہیں کرتے۔

خیر طلب : سخت تعجب ہے کہ جناب عالی مطالب کو بے ربط بیان فرماتے ہیں۔

بہتر ہے، جو روایتیں آپ کی نظر میں غلط و موضوع اور موجب فساد ہیں ان کو بیان فرمائیے تاکہ مطلب واضح ہو۔

۳۲۹

حدیث حب علی حسنہ و من بکی علی الحسین

میں اشکال اور اس کا جواب

حافظ : آخوند ملا محمد باقر مجلسی اصفہانی جو آپ کے بزرگ علماء میں سے بحارالانوار کی اکثر جلدوں میں ایسی روایتیں درج کرتے ہیں جن میں سے فی الحال ایک تعجب خیز حدیث میرے پیش نظر ہے جس کو رسول خدا(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا " حبّ علىّ حسنةلاتضرّمعهاسيّئة" یعنی علی علیہ السلام کی محبت ایسی نیکی ہے کہ اس کے ساتھ کوئی گناہ (صغیرہ) نقصان نہیں پہنچاتا، نیز نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا " من بكى على الحسين وجبتلهالجنة" ( یعنی جو شخص حسین علیہ السلام پر روئے بہشت اس کے لیے واجب ہے)۔ اور اس طرح کے بہت سے روایات میں نے دیکھے ہیں جن سے امت میں فساد پیدا ہوتا ہے اور انہی کی وجہ سے شیعوں میں جسارت اور گناہوں کی طرف سے بے پروائی پیدا ہوتی ہے کہ چاہے جیسا گناہ کریں ان کو یہ امید ہے کہ چونکہ علی(ع) کو دوست رکھتے ہیں ان معاصی سے ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچے گا یا اس خیال سے ہر گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے لیے ایک قطرہ آنسو ہمارے گناہوں کو دھو دے گا اور ہم جنت میں چلے جائیں گے جب لوگوں میں یہ بے قاعدہ امید کافی بڑھ جاتی ہے تو رفتہ رفتہ بدکاری اور بد اخلاقی پھیل جاتی ہے۔ چنانچہ ہم شیعوں کے اکثر ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو سال بھر گناہوں میں غرق رہنے کے بعد ایام عاشورہ میں عزاداری میں مشغول ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ دس دن ختم ہونے کے بعد عزاداری کے اثر سے ہم اس طرح گناہوں سے باہر آجاتے ہیں جیسے پیدائش کے روز تھے۔

بلاد اہل تسنن میں گناہوں کی گرم بازاری

خیر طلب : اول تو آپ حضرات نے بہت بڑا دھوکا کھایا ہے کہ بعض شیعوں میں بدکاری یا لا ابالی پن کا رواج پایا تو اس قسم کی روایتوں پر عقیدہ رکھنے کا نتیجہ سمجھ لیا۔ اگر بعض شیعہ عوام کا ارتکاب گناہ اس طرح کی حدیثوں سے وابستہ ہے تو فرمائیے برادران اہل سنت جن کے اعتقادات آپ جیسے حضرات کی رہنمائی کے باعث ان احادیث کے برخلاف ہیں کس لیے گناہوں اور بدکاریوں میں غرق بلکہ علی الاعلان معاصی میں مبتلا رہتے ہیں؟ بلاد اہل تسنن اور ان کے خاص خاص شہروں جیسے مصر، اسکندریہ، شام، بیت المقدس، بیروت، عمان، حلب، بغداد، بصرہ عشار اور بہت سے چھوٹے چھوٹے

۳۳۰

قصبوں میں جن کو میں نے دیکھا ہے اور جہاں اکثریت بلکہ بعض بعض شہروں اور قصبوں میں پوری پوری آبادی، اہل سنت کی ہے۔ تمام چھوٹے بڑے عمومی قہوہ خانوں میں مختلف اقسام کا جو ارائج ہے جو ان کی عادت اور طبیعت ثانیہ بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے گناہ اور بد اعمالیاں جس قدر بعض شیعہ عوام میں پائی جاتی ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ ان لوگوں کے اندر رائج ہیں۔ تمام پارکوں اور راستوں میں قمار بازی، شراب نوشی رقص و سرود، باقاعدہ حرامکاری کے اڈے اور دوسرے فحش حرکات جن کے ذکر سے بھی شرم آتی ہے ہر جگہ موجود ملیں گے۔ اگر ہم بھی آپ کی طرح نکتہ چینی اور حیلہ سازی کرتے اور کہدیتے کہ برادران اہل تسنن میں بدکاری، زنا، لواطہ، شراب اور حوئے وغیرہ کا اس قدر رواج اور احکام دین میں ان کی اس قدر جسارت اور لا ابالی پن ان کے اماموں اور فقیہوں کے بے جا فتوی کی وجہ سے ہے۔ مثلا کتے کی طہارت کا حکم اس کا گوشت حلال جاننا، منی و سکرات اور حرام سے ؟؟؟؟؟ ہونے والے کا پسینہ پاک سمجھنا، سفر میں اطفال کےساتھ مقاربت اور ریشم یا کوئی اور چیز آلہ تناسل پر لپیٹ کے محرم عورتوں سے مباشرت کا جواز اور اسی قسم کے دیگر مسائل نے عوام کو گناہوں میں جری اور بے پروا بنا دیا ہے۔

لیکن شیعہ فقہاء ان تمام باتوں کو حرام سمجھتے ہیں اور ان کے مرتکب سے بیزاری اختیار کرتے ہیں۔

حافظ : یہ جھوٹے الزامات محض افسانہ ہیں۔ آپ کے پاس اپنی گفتگو پر دلیل کیا ہے؟

اہل تسنن میں سے زمخشری کا اعتراف اور تنقید

خیر طلب : آپ خود ہی جانتے ہیں لیکن بیچارگی میں عمدا مدعی سست گواہ چست کا مصداق بنتے ہیں۔ ورنہ آپ کی فقہی کتابوں میں آپ کے فقہاء کے یہ فتاوی موجود ہیں۔ وقت میں اتنی گنجائش نہیں کہ سب کو نقل کرسکوں لیکن یہ اتنی واضح اور بدیہی چیز ہے کہ خود آپ کے اکابر علماء نے بھی اس کی تنقید کی ہے۔ نمونے کے لیے آخر تفسیر کشاف جلد سیم ص301 میں جار اللہ زمخشری کا یہ قول آپ کے ملاحظے کے قابل ہے۔

إذا سألوا عن مذهبي لم أبح به*وأكتمه كتمانه لي أسلم

فإن حنفيا قلت قالوا بأنني * أبيح الطلا وهو الشراب المحرم

وإن مالكيا قلت قالوا بأنني * أبيح لهم أكل الكلاب وهم هم

وإن شافعيا قلت قالوا بأنني* أبيح نكاح البنت والبنت محرم

وإن حنبليا قلت قالوا بأنني * ثقيل حلولي بغيض مجسم

وإن قلت من أهل الحديث وحزبه* يقولون تيس ليس يدري ويفهم

۳۳۱

تعجبت من هذا الزمان وأهله*** فما أحد من ألسن الناس يسلم

وأخرني دهري وقدم معشرا** على أنهم لا يعلمون وأعلم

ومذ أفلح الجهال أيقنت أنني * أنا الميم والأيام أفلح أعلم"

یعنی اگر مجھ سے میرا مذہب دریافت کریں تو میں اس کو ظاہر نہیں کروں گا۔ کیوں کہ اس کے پوشیدہ رکھنے میں سلامتی ہے۔ اس لیے کہ اگر میں کہوں حنفی ہوں تو کہتے ہیں کہ تم حرام شراب کو حلال جانتے ہو۔ اگر کہوں مالکی ہوں تو کہتے ہیں کہ تم کتے کا گوشت حلال سمجھتے ہو۔ اگر کہوں شافعی ہوں تو کہتے ہیں کہ تمہارے یہاں اپنی لڑکی سے نکاح جائز ہے حالانکہ لڑکی حرام ہے۔ اگر کہوں حنبلی ہوں تو کہتے ہیں کہ تم حلولی اور مجسمہ مذہب کے ہو۔ اگر کہوں اہل حدیث ہوں تو کہتے ہیں کہ یہ بکرا ہے کچھ جانتا بوجھتا نہیں ہے۔ ( مطلب یہ ہے کہ یہ فقہائے مذاہب اربعہ کے فتاوی ہیں بلکہ مشتے نمونہ از خروارے ہیں) اس زمانے اور زمانے والوں سے مجھ کو تعجب ہے کہ کوئی شخص لوگوں کی زبان سے محفوظ نہیں ہے۔ میں کیا کروں کہ زمانے نے مجھ کو پیچھے ڈال دیا ہے کیونکہ میں جانتا ہوں اور اس گروہ کو آگے بڑھا دیا ہے جو نافہم ہے جب میں نے دیکھا کہ جاہلوں نے ترقی کی ہے تو میں نے یقین کر لیا کہ مجھ کو شمع کی طرح جلتا ہے اور زمانے کے لیے کامیابی ہے۔

ایک ایسا عالم جلیل اور مفسر نبیل کہہ رہا ہے کہ مجھ کو مذاہب اربعہ کے فاسد فتاوی اور غلط عقائد کی بناء پر شرم آتی ہے کہ اپنے کو انہیں میں سے ظاہر کروں۔ اس کے بعد بھی آپ حضرات امید کرتے ہیں کہ ہم ایسے عجیب و غریب مذاہب کی پیروی اختیار کریں گے۔

اچھا اب اس کو چھوڑ کر اصل مطلب پر آتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جیساآپ کہہ رہے ہیں۔ اس کے برخلاف اس قسم کے روایات دو وجہوں سے شیعوں کے گڑھے ہوئے نہیں ہوسکتے۔ اول یہ کہ میں بار بار عرض کرچکا ہوں کہ شیعوں کو حدیثیں وضع کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ دوم یہ کہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء کی اکثر معتبر کتابوں میں اس طرح کی روایتیں کثرت سے مروی ہیں۔ صرف علامہ مجلسی علیہ الرحمہ ہی کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ شیعوں نے بالعموم نقل کیا ہے، چونکہ میں وعدے کے خلاف نہیں کرنا چاہتا۔ لہذا علمائے شیعہ کے اقوال چھوڑتا ہوں اور علمائے اہل سنت کے اقوال پیش کرتا ہوں۔

کتب اہل تسنن سے حدیث حب علی حسنہ کے اسناد اور اس کے معنی

یہی روایت جو آپ نے علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کی بحار الانوار سے نقل کی ہے۔ امام احمد بن حنبل نے مسند میں خطیب

۳۳۲

خوارزمی نے مناقب کے آخر فصل ششم میں، سلیمان قندوزی حنفی نے ینابیع المودۃ باب42 میں نیز ضمن باب 56 ص180 میں کنز الدقائق شیخ عبدالرئوف المنادی المصری ص239 سے اور وہ مناقب السبعین سے حدیث نمبر49 اور وہ فردوس دیلمی سے بروایت معاذ بن جبل، میر سید علی ہمدانی فقیہ شافعی نے مودۃ القربی مودت ششم میں، امام الحرم، شافعی محب الدین ابوجعفر احمد بن عبداللہ طبری نے ان ستر حدیثوں میں سے جو اہل بیت طہارت(ع) کے فضائل میں نقل کی ہیں حدیث نمبر59 ذخائز العقبی میں محمد طن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں اور آپ کے دوسرے علماء نے انس بن مالک اور معاذ ابن جبل سے اور انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ فرمایا:

"حب على حسنة لايضرمعهاسيئةوبغض على سيئةلاتنفع معه احسنة"

یعنی علی علیہ السلام کی محبت وہ نیکی اور کار ثواب ہے کہ اس کے ساتھ کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچاتا اور علی(ع) کی دشمنی وہ گناہ ہے جس کی موجودگی میں کوئی عمل خیر فائدہ نہیں پہنچاتا۔

نیز امام الحرم احمد بن عبداللہ طبری شافعی نے ذخائر العقبی میں، ابن حجر نے ص215 میں ملا سے نقل کرتے ہوئے سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ ص247 ضمن باب56 میں حدیث ص33 مناقب السبعین سے اور اس میں فردوس دیلمی سے اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ جلد چہارم ص159 میں نسائی سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

"حب علي ابن ابی طالب يأكل الذنوب كماتأكلالنارالحطب"

یعنی علی (ع) کی محبت گناہوں کو اس طرح کھالیتی ہے جس طرح آگ ایندھن کو کھا جاتی ہے۔

تیسرے جو لوگ روایات میں سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ پوری طرح غور و فکر کرتے ہیں تاکہ انکشاف حقیقت ہو جائے اور گتھی سلجھ جائے، نہ یہ کہ جہاں کوئی حدیث سمجھ میں نہ آئی یا اس کی تہ تک نہ پہنچ سکے بس فورا طعن و تشنیع شروع کردی اور ؟؟؟ اس کو موضوع کہتے۔ مخالفانہ پروپیگنڈا کرنا آسان ہے لیکن خدا کی اطاعت بھی تو ضروری ہے جو قرآن مجید سورہ نمبر21 ( انبیاء) آیت نمبر7 میں ہم کو ہدایت دے رہا ہے کہ" فَسْئَلُواأَهْلَ الذِّكْرِإِنْكُنْتُمْ لاتَعْلَمُونَ " ( یعنی سوال کرو اہل ذکر سے ( مراد قرآن ہے یا رسول اللہ(ص) ) اگر تم کو معلوم نہیں ہے) چنانچہ اس متفق علیہ فریقین حدیث کے معنی جو آپ کی اور اکثر سطحی نظر رکھنے والے اشخاص کی نگاہوں میں معما معلوم ہوتی ہے۔ اتفاق سے بہت سہل الحصول ہیں، اس لیے کہ جب ہم قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں تو گناہوں کی تقسیم دو حصوں میں نظر آتی ہے۔ کبیرہ اور صغیرہ اور بعض آیات میں کبیرہ کے مقابل صغیرہ کو سیئہ سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ سورہ نمبر4(نساء) آیت نمبر35 میں صریح ارشاد ہے۔

"إِنْ تَجْتَنِبُواكَبائِرَماتُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْعَنْكُمْ سَيِّئاتِكُم ْوَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًاكَرِيماً."

(یعنی اگر تم لوگ منہیات میں سے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو تو ہم تمہارے دوسرے گناہوں سے ( جو چھوٹے ہیں) درگزر کریں گے اور تم کو بلند منزل تک پہنچائیں گے)

پس اس آیت کے حکم سے اگر بندہ گناہان کبیرہ کا ارتکاب نہ کرے تو اس کے

۳۳۳

سیئات اور گناہان صغیرہ سے چشم پوشی کی جاتی ہے اور وہ بخش دیا جاتا ہے۔

اور اس حدیث میں بھی یہی ارشاد ہے کہ علی(ع) کی محبت ایسا نیک عمل ہے کہ کوئی سئیہ اور گناہ صغیرہ اس کے سامنے ضرر نہیں پہنچاتا۔

حافظ : مگر کیا خداوند عالم صریحا ارشاد نہیں فرماتا ہے کہ " إِنَّ اللَّهَ َغْفِرُالذُّنُوبَ جَمِيعاً" ( یعنی حقیقتا خدا تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے) کوئی گنہگار بندہ چاہے اس کا گناہ کبیرہ ہو یا صغیرہ جس وقت نادم ہو کہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے تو قطعا بخش دیا جاتا ہے۔ لہذا کبیرہ اور صغیرہ کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

انکشاف حقیقت

خیر طلب: گویا آپ نے آیہ مبارکہ پر کوئی دھیان ہی نہیں دیا ورنہ اس ایراد کو ہمت نہ کرتے اول تو کبیرہ اور صغیرہ کے درمیان میں نے فرق نہیں قائم کیا ہے بلکہ پروردگار عالم نے فرمایا ہے۔ دوسرے آپ کی طرح مجھ کو بھی اعتراف ہے کہ جو گنہگار مومن بندہ خداوند کریم کی عفاریت کا معتقد ہوتا ہے وہ جس وقت نادم ہو کہ اس کی طرف لو لگائے تو خدائے غفار اس کو بخش دیتا ہے لیکن اگر دینا سے توبہ کے چلائے تو ؟؟؟؟ کے بعد کی دشوار منزلوں میں حساب کے موقع پر اس کو بخش دیا جاتا ہے اور اگر اس کے اعمال بد اور گناہان کبیرہ زیادہ ثابت ہوئے تو اس کو جہنم میں لے جائیں گے اور اس کی نافرمانی کے مطابق عذاب کرنے کے بعد نجات دیں گے۔

لیکن سئیات اور گناہان صغیرہ میں اگر بغیر توبہ کے بھی دینا سے چلا جائے اور علی علیہ السلام کا چاہنے والا ہو تو خدا اس کو معاف فرما دیتا ہے اور موت کے بعد کی منزلوں میں اس پر سختیاں نہیں کی جاتیں۔ وہ جہنم میں نہیں بھیجا جاتا بلکہ بہشت میں داخل کیا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے" وَنُدْخِلْ كُمْ مُدْخَلًا كَرِيماً " میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ نے اس حدیث کو کس رخ سے جسارت اور بے پروائی کا سبب سمجھ لیا۔ آیا حدیث شریف میں سئیات یا گناہان کبیرہ وصغیرہ کا حکم دیا گیا ہے جس سے آپ نے اس کو شیعوں کی جرات اور لا ابالی پن کا باعث قرار دیا ظاہر ہے کہ جواب نفی ہوگا۔ اب اسکو سوا بد گمانی اور عصیبت کے اور کیا کہا جائے۔ حالانکہ یہ حدیث انسان کو صرف مایوسی سے روکتی ہے۔ حد سے زیادہ امیدوار نہیں بناتی۔ اس لیے کہ لوگوں کو یقین ہے کہ ہم ہوائے نفس میں گرفتار ہیں اور جب وہ گناہان صغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں تو شیاطین جن و انس ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالتے ہیں کہ اب وہ رحمت الہی کے مستحق نہیں رہے۔ چونکہ اکثر جوان وجاہل اور نادان ہوتے ہیں لہذا اس فریب میں آکر امید ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہم بخشے ہی نہیں

۳۳۴

جائیں گے تو پھر اپنی نفسانی خواہشوں کا خون کیوں کریں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ ان میں بغاوت اور سرکشی پیدا ہوتی ہے اور صغائر سے آگے بڑھ کے کبائر میں غرق ہوجاتے ہیں لیکن اس طرح کی حدیثیں دلوں میں امید کا دروازہ کھولتی ہیں اور سمجھاتی ہے کہ انسان چونکہ جائز لخطا ہے لہذا اگر اس سے کچھ گناہ سرزد ہوگئے ہیں اور حقیقتا وہ علی علیہ السلام کا سچا دوست ہے تو اس کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا۔

چونکہ خدائے تعالے نے آیہ شریفہ میں بخشش کا وعدہ فرمایا ہے اور مغفرت کے لیے کچھ وسائل قرار دیئے ہیں لہذا علی علیہ السلام کی محبت بھی ان میں سے ایک وسیلہ ہے جو گناہوں سے معافی دلاتا ہے۔ ورنہ شیعہ جب تشیع کے معنی سمجھ لے گا تو ہرگز لا ابالی نہ ہوگا۔ وہ دیکھے گا کہ شیعہ علی(ع) یعنی علی(ع) کا پیرو وہ شخص ہے جو رفتار و گفتار میں حضرت کے قدم بہ قدم چلے پھر اسی کی نجات بھی یقینی ہے کیوں کہ آپ کے علماء کی تمام تفسیروں اور معتبر کتابوں میں مختلف الفاظ و عبارت کے ساتھ وارد ہے جس کے ایک جزو کو ہم گزشتہ راتوں میں پیش کرچکے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے" يَاعَلِيُ أَنْتَ وَشِيعَتُكَ هُمُ الفَائِزُون فِيالْجَنَّةِ" ( یعنی اے علی(ع) تم اور تمہارے شیعہ جنت میں رستگار ہیں۔ ملاحظہ ہوں اسی کتاب کے صفحات) پس اگر آپ اعتراض کرنا چاہیں تو اس طرح کے اکثر احادیث پر بھی اعتراض کرسکتے ہیں کہ جب شیعہ یہ سمجھ لے گا کہ رسول اللہ(ص) نے اس کو رستگار اور جنتی فرمایا ہے تو اس میں جرائت اور جسارت پیدا ہوجائے گا اور ہر طرح کا گناہ کرنے لگے گا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

معرفت خدا اور رسول(ص) کےبعد ایک مکلف شیعہ کا پہلا فرض یہ ہے کہ تشیع کے معنی سمجھے جب یہ سمجھ لے گا کہ شیعہ سے مراد علی(ع) اور آل علی(ع) کا پیرو ہے تو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ علی(ع) کا پیرو وہ شخص ہے جو علم و عمل قول و فعل اور کردار و گفتار میں حضرت کا نمونہ ہو اور حضرت کے نقش قدم پر چلے۔ یعنی جو کچھ علی(ع) نے کیا ہے یہ بھی کرے اور جو کچھ علی علیہ السلام نے نہیں کیا یہ بھی نہ کرے۔ پس شیعہ علی(ع) جس وقت یہ جانے گا کہ علی علیہ السلام کسی کبیرہ یا صغیرہ گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے بلکہ کوئی مکروہ عمل بھی ان سے صادر نہیں ہوا تو وہ پوری کوشش کرے گا کہ اپنے مولا کے مانند صفات حمیدہ سے متصف ہو اور اخلاق و عادات رذیلہ سے علیحدگی اختیار کرے، چونکہ یہ عصمت کی قوت سے جو نبوت و امامت کی ایک مخصوص منزل ہے، محروم ہے اور ہر پہلو سے علی(ع) بن جانا مشکل بلکہ محال ہے لہذا سعی کرے گا کہ کم از کم کبائر کا مرتکب قطعا نہ ہو اور صغائر پر اصرار نہ کرے تاکہ علی علیہ السلام کا محبوب رہے اور اس کا نام شیعوں کے زمرے میں شمار ہو۔ غیر معصوم اور جائز الخطا ہونے کی وجہ سے اگر کوئی سئیہ یا گناہ صغیرہ اس سے صادر بھی ہوجائے تو امیرالمومنین علیہ السلام کی محبت و دوستی کے وسیلے سے معافی اور چشم پوشی کا مستحق قرار پائے گا۔ اگر خدا نخواستہ اس دنیا سے بغیر توبہ کئے اٹھا ہے تو اس محبت کے طفیل صغائر و سئیات کی باز پرس اس سے نہ ہوگی۔

رہے حدیث " من بكى على الحسين وجبت له الجنة" کے معنی تو یہ بہت سادہ اور ہر عالم وجاہل کی سمجھ میں آنے والے ہیں۔ اور انہیں کے ساتھ ایک جواب بھی ہے جو فی الحال اکثر حضرات حاضرین جلسہ کے حسب دلخواہ

۳۳۵

ہوگا کیونکہ ان کی طرف سے مکرر جواب میں سادگی کی فرمائش کی جاچکی ہے میں عرض کرتا ہوں کہ اس حدیث شریف کے صاف صاف اور تحت اللفظ معنی یہ ہے کہ جو شخص ( کس) گریہ کرے حسین(ع) پر واجب ہوتی ہے اس کے لیے بہشت جس الٹا مفہوم یہ ہوا کہ اگر ناکس گریہ کرے تو بہشت اس پر واجب نہیں ہوتی بلکہ اس کو اس گریہ سے کوئی فائدہ ہی نہیں۔

حافظ : کس اور ناکس میں کیا فرق ہے کہ گریہ کس کے لیے تو نتیجہ بخش ہو لیکن ناکس کے لیے بے سود ہو۔

کس اور ناکس میں فرق

خیر طلب : اگرچہ کلمہ موصولہ میں کس اور ناکس کا سوال نہیں ہے لیکن فارسی معنی میں کس اور ناکس آتا ہے ( ملحوظ رہے کہ گفتگو فارسی ہی زبان میں ہوئی ہے 12 مترجم عفی عنہا لہذا عرض کرتا ہوں کہ کس اس مومن کو کہتے ہیں جو موحد اور خدا پرست ہو، اصول عقائد کو استدلال یا یقین کے ساتھ مانتا ہو۔ از آدم(ع) تا خاتم (ص) انبیائے کرام کی نبوت کا معتقد ہو اور اپنے کو نبی آخر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہدایت پر پابند سمجھتا ہو، معاد جسمانی وجود بہشت و دوزخ اور ولایت آل محمد و عترت رسول(ص) پر عقیدہ رکھتے ہوئے حضرت علی(ع) اور ان کے گیارہ فرزند بزرگوار کو بندگان صالح، امام برحق اور رسول خدا(ص) کے مقرر کئے ہوئے نائب جانتا ہو، حضرت کے گیارہویں فرزند یعنی پیغمبر(ص) کے بارہویں خلیفہ کو زندہ و قائم اور عالم کا امام مانتا ہو، کتب سماویہ پر اعتقاد رکھتے ہوئے قرآن مجید کو برحق اور منجانب خدا سمجھتا ہو، اس کے مضامین کا معتقد اور اس کے ہدایات اور اوامر و نواہی پر عمل پیرا ہو۔

اور ناکس اس مسلمان کو کہتے ہیں جو صورت اور نام سے مسلمان اور تمام احکام دین کا قائل ہو لیکن مقام عمل میں صالح نہ ہو یا بالکل تارک ہو یا بعض پر عمل پیرا ہو اور بعض سے منحرف ہو یا بعض کبائر کا مرتکب ہو جیسے قتل، شراب نوشی، زنا، لواطہ سود خوری یا کم فروشی وغیرہ ایسا آدمی چاہے جس قدر گریہ کرے اس کے لیے بے سود ہے اور ترک واجبات جیسے نماز و روزہ حج خمس زکوۃ وغیرہ بدل نہیں ہوسکتا۔ البتہ اگر اعمال زشت سے توبہ کرے ، تلافی مافات کا عہد کرے ، انسانی حقوق کو ادا کرے اور حقداروں کو رضا مند کرے یا وہ اگر مرچکے ہیں تو ان کے وارثوں کو پہنچائے تو اس وقت گریہ اور خاندان رسالت کی محبت اس کے لیے بخشش اور خامیوں کو پورا کرنے کا وسیلہ ہوگی۔

لیکن اگر مثلا نماز نہیں پڑھی ہے یا روزہ نہیں رکھا ہے یا مستطیع ہونے کے بعد حج بیت اللہ نہیں بجالایا ہے یا خمس و زکوۃ عائد ہونے کے بعد اس کو ادا نہیں کیا ہے یا حرامکاریاں کی ہیں یا سود کھایا ہے یا لوگوں کا مال ناجائز طور سے ہضم کیا ہے اور حرام طریقوں سے روزی حاصل کی ہے یا سودا کم دیا ہے یا ظلم و تعدی اور قتل وخونریزی کی ہے اور پھر

۳۳۶

اس خیال سے گریہ کرے کہ اس کےگناہ رونے سےمعاف ہوجائیں گے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ آل محمد علیہ السلام ایسے لوگوں سے بیزار ہیں اور ان کے لیے گریہ سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ جیسا کہ ہم نے اکثر محافل و مجالس اور مذہبی جلسوں میں اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

ورنہ اگر یہ غلط عقیدہ صحیح ہو کہ آدمی چاہے جو زشت عمل کرے، گناہان کبیرہ اس سے صادر ہوں اور واجبات کو ترک کرے اس کے بعد خیال کرے کہ گریہ یا زیارت آل محمد علیہم السلام سے تلافی مافات ہو کہ نجات حاصل ہوگی تو دشمنان آل محمد کو بھی جنتی ہونا چاہیئے کیونکہ ان میں سے اکثر لوگوں نے اہلبیت(ع) کی مظلومی پر گریہ کیا ہے۔ چنانچہ ارباب مقاتل نے واقعہ کربلا میں لکھا ہے " واللَّه بکت و ابكت كلّ عدوّوصديق " دوست دشمن بھی اس مصیبت عظمی میں روئے۔ فرزند رسول(ص) اور ان کے اعزہ و اصحاب یہاں تک کہ کمسن اور شیر خوار بچوں کو بھی قتل کیا لیکن مصائب اہلبیت(ع)دیکھ کر گریہ بھی کرتے تھے۔ پس آپ قطعا یہ سمجھ لیجئے کہ ایسے ناکس مسلمانوں کو جن کے پاس صورت تو ہے لیکن سیرت نہیں کوئی نفع اور نتیجہ نہیں۔ جب تک مومن نہ ہوں یہ رونا بیکار ہے۔

حافظ : اگر کوئی مسلمان شخص اصول عقائد کا معتقد اور احکام شرعیہ پر عامل ہو تو خود ہی نجات یافتہ ہے گریہ سے اس کو کیا فائدہ ہوگا۔ اور مجالس عزا کی تشکیل سے کیا نتیجہ مد نظر ہے کہ ہر سال ایسی مجلسوں پر زر کثیر صرف کیا جائے تاکہ مومن گریہ کریں؟

گریہ اور مجالس عزا کا اثر اورنتیجہ

خیر طلب: بدیہی چیزہے کہ مسلمان چاہے جتنا نیک عمل اور معیاری ہو معصوم نہ ہوگا۔ آخر انسان ہے اور جائز الخطا ہے لہذا اگر اس سے کچھ لغزش اور خطائیں سرزد ہوئی ہیں اور وہ غافل رہا ہے تو خدائے تعالی جو اپنے بندوں پر انتہائی لطف و مہربانی رکھتا ہے اپنے فضل و کرم سے چند وسائل و اسباب کے ذریعے اس کو بخش دیتا ہے۔ کبھی علی ابن ابی طالب(ع) کی محبت کو وسیلہ قرار دیتا ہے، کبھی حضرت سید الشہداء(ع) اور خاندان رسالت کی مظلومیت پر رونے اور آنحضرت(ص) و اہلبیت طاہرین (ع) کی زیارت کے ذریعے سے رحم و کرم فرماتا ہے اور اس کے آنسوئوں کو آب توبہ قرار دے کر گناہووں کو دھوکہ دیتا ہے۔

اگر مومن و عادل ہے اور کوئی صغیرہ و کبیرہ گناہ اس سے سرزد نہیں ہوا ہے تو علی(ع) و اہلبیت رسالت(ع) کی محبت و مودت اور ان حضرات کے مصائب پر رونا جو اس جلیل القدر خاندان سے مہرو محبت کی علامت ہے۔ اس کی رفعت منزلت کا وسیلہ بنتا ہے۔

اور آپ نے جو یہ فرمایا کہ آل محمد(ع) کی عزاداری میں مجالس کے انعقاد اور کثیر اخراجات سے کیا فائدہ ہے تو محترم حضرات

۳۳۷

چونکہ آپ سے علیحدہ ہیں لہذا ان مجالس کے جو اثرات و نتائج مرتب ہوتے ہیں ان سے بھی بے خبر رہتے ہیں اول تو اپنی عادت اور اس مسلسل غلط پروپیگنڈے کے تحت کہ یہ مجلس بدعت ہیں۔ آپ حضرات ان میں شریک ہی نہیں ہوتے یا اگر کبھی کسی وجہ سے شرکت بھی ہوگئی تو بری نظر سے دیکھنے کے باعث پوری توجہ سے غور نہیں کرتے تاکہ ان کے اثرات نظر آئیں۔ اگر آپ حضرات اس طرح کی مجلسوں میں تشریف لے جائیں اور اںصاف و محبت کی نگاہ سے مطالعہ کریں تو تصدیق کریں گے کہ یہ مجالس آل محمد علیہم السلام کی بہت بڑی درسگاہیں ہیں کیونکہ انہیں حضرات کے نام پر ان کی تشکیل کی جاتی ہے اور اس بزرگ خانوادے کی کشش میں ہر طبقے کے مسلمان افراد یہاں تک کہ غیر مذاہب کے لوگ بھی حاضر ہوتے ہیں جن کے سامنے ذاکرین و واعظین ، متکلمین و محدیثین اور ذی علم مقررین توحید، نبوت، معاد اور فروع دین کے متعلق مذہبی حقائق اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے اصول بیان کرتے ہیں۔ ان کو اخلاق رذیلہ اور بد اعمالیوں کے مفاسد اور نقصانات سے آگاہ کرتے ہیں اور دیگر مذاہب کے مقابلے میں مقدس دین اسلام کی حقانیت پر دلیلیں پیش کرتے ہیں جس سے کافی بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جب انہیں مجالس اور دینی تبلیغات کی وجہ سے کچھ غیر افراد اسلام قبول نہ کرتے ہوں۔ اور بکثرت گمراہ اشخاص ان تبلیغی بیانات سے متاثر ہوکر اور اپنے گزشتہ اعمال سے توبہ کر کے صحیح راستے پر نہ آجاتے ہوں ہر سال ان اجتماعات اور مجالس عزا میں شرکت کے سبب سے اور آیات و احادیث کے ذریعے وعظ و تبلیغ کے اثر سے بہترے لا ابالی اور بدکردار لوگ توبہ کر کے پرہیزگار اور نیک بخت بن جاتے ہیں۔

یہ ہے رسول خدا صلعم کے ارشاد کا ایک رخ جس کو علمائے فریقین نے نقل کیا ہے کہ " حسين مني وأنامن حسين" حسین(ع) مجھ سے ہیں اور میں حسین(ع) سے ہوں یعنی میرا دین حسین(ع) کے ذریعے زندہ ہوگا۔ جنہوں نے اپنے زمانہ حیات میں ایسی جانبازی دکھائی کہ مطلومیت کی طاقت سے بنی امیہ کے ظلم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اس لیے کہ وہ دین کی جڑ کو کھودنا چاہتے تھے اور اب ہزار سال سے زیادہ ہوگئے۔ ان بزرگوار کے نام سے خفیہ اور ظاہری طور پر شاندار مجلسیں منعقد ہوتی ہیں جن میں لوگ حاضر ہو کر مبلغین وذاکرین کے ذریعے دینی حقائق سے واقفیت حاصل کرتے ہیں اور صراط مستقیم پر گامزن ہوتے ہیں۔ یہ ہے مجالس عزا کے اثرات و نتائج کا مختصر نمونہ جو آل محمد علیہم السلام کی درسگاہیں کہی جاسکتی ہیں۔

مزید وضاحت کے لیے یہ بھی عرض کردوں کہ حقیقتا علی علیہ السلام کے دوست اور شیعہ حسین ابن علی علیہ السلام کے زائر اور عزادار اور حضرت کے سچے غلام اور چاہنے والے نہ واجبات کو ترک کرتے ہیں نہ گناہان کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں کیوںکہ وہ جانتے ہیں اور ان کو بتایا جاتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام شہید راہ خدا ہیں اور آپ نے شعائر دین کی ترویج کے لیے شربت شہادت نوش فرمایا ہے ، جیسا کہ زیارت وارثہ اور دیگر زیارات میں وارد ہے اور ہم پڑھتے ہیں کہ :

"أشهدأنّك قدأقمت الصّلوةواتيت الزّكاةوامرت بالمعروف ونهيت عن المنكرواطعت الله

۳۳۸

و رسوله حتی اتاک اليقين "

یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے ( اے ابو عبداللہ ) در حقیقت نماز کو قائم کیا، زکوۃ ادا کی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرمایا اور زندگی کی آخری سانسوں تک خدا و رسول کی اطاعت کی۔

فریقین کی معتبر روایتوں میں ام المومنین عائشہ، جابر ابن عبداللہ اور انس وغیرہ سے منقول ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :" مَنْ زَارَالْحُسَيْنَ ععَارِفاًبِحَقِّهِ و َ جَبَت لَه الَجنَّة" (یعنی جو شخص حسین علیہ السلام پر ان کا حق پہچانتے ہوئے روئے اس پر جنت واجب ہے، جس طرح سے واجب اور مستحب عبادتین معرفت خدا کی فروع ہیں اگر کماحقہ خدا کی معرفت نہیں ہے تو قصد قربت پیدا نہیں ہوتا ہے لہذا اس کے عبادات چاہے جس قدر کامل ہوں بیکار اور باطل ہیں۔

گریہ اور زیارت بھی پیغمبر(ص) اور امام کی معرفت کی فرع ہے یعنی چاہئیے کہ ان بزرگوار کو فرزند رسول امام برحق اور رسول اللہ (ص) کا تیسرا جانشین سمجھے جو حق پر قائم رہے اور حق ہی کے لیے قتل ہوئے اور یزید سے آپ کی مخالفت اس بناء پر تھی کہ وہ احکام دین کو پامال کر کے واجبات کا تارک اور محرمات پر عامل تھا اور بد اخلاقیوں کو رواج دے رہا تھا۔ ایسا زائر و عزادار اپنے مولا کے طور طریقے کے خلاف ہرگز عمل نہیں کرتا۔

نواب : قبل صاحب اگرچہ ہمارا اعتقاد ہے کہ حسین (ع) شہید حق پر تھے اور حق کے لیے عمال بنی امیہ کے ہاتھوں ناحق قتل کئے گئے لیکن ہم لوگوں میں ایک گروہ اور ہے بالخصوص وہ نوجوان افراد جو جدید مدرسوں اور اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں کہتے کہ کربلا کی جنگ دنیاوی جنگ تھی۔ یعنی حسین بن علی (ع) کو حکومت و خلافت کی خواہش کوفے کی طرف لے گئی اور ہر صاحب اقتدار سلطنت کا فرض ہے کہ خطرات کا سد باب کرے لہذا یزید اور اس کے عمال نے مجبورا اس فتنے کا مقابلہ کیا اور ان جناب کے سامنے ( بلاشرط) بیعت اور خلیفہ یزید کی اطاعت کی پیشکش کی اس لیے کہ اس کی فرمانبرداری واجب تھی اور خواہش کی کہ آپ شام چلے جائیں تاکہ خلیفہ کے پاس عزت سے رہیں یا اپنے وطن پلٹ جائیں لیکن ان جناب نے نہ مانا یہاں تک کہ قتل ہوگئے پس ایسے دینا طلب انسان کے لیے جو جاہ و سلطنت کی محبت میں قتل ہوا ہو عزاداری فضول بلکہ بدعت ہے۔ آیا آپ کے پاس کوئی ایسا صحیح جواب ہے کہ ان کو خاموش کر دیجئے تاکہ وہ اس عقیدے سے دستبردار ہوجائیں اور جان لیں کہ جنگ کربلا دنیاوی جنگ نہیں تھی بلکہ وہ جناب فقط خدا کے لیے اور دین خدا کی حفاظت کے لیے اٹھے اور مقابلہ کر کے شہید ہوئے؟

خیر طلب : چونکہ وقت کافی گزر چکا ہے لہذا سوچنتا ہوں کہ اگر اس مسئلے کو چھیڑوں گا تو دیر لگے گی جس سے نکان اور بڑھے گا۔

۳۳۹

نواب : نہیں نہیں ہم کو بالکل تکان نہیں ہے کہ بلکہ ہم انتہائی اشتیاق کے ساتھ اس موضوع کو سننے اور حقیقت معلوم کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ مخالفین کے مقابلے میں جواب دہی پر قادر ہوں۔ آپ یقین کیجئے کہ اس قوم کو جواب دینا چاہئیے وہ مختصر ہو کیوں نہ ہو بہت بڑی دینی خدمت ہے۔ مہربانی کر کے ارشاد فرمائیے۔

امام حسین (ع) جاہ و منصب کے خواہاں نہیں تھے

خیر طلب : میں نے پہلے ہی عرض کیا کہ ہر نیک و بد عمل معرفت کی بنیاد پر ہے۔ معترضین کو چاہئیے کہ پہلے اپنے خدا کو پہچانیں اور اس کے بعد آسمانی کتاب( قرآن) کی تصدیق کریں جو خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے خاتم الانبیاء(ص) پر نازل ہوئی ہے اور تصدیق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو کچھ اس کتاب میں ہے اس کو بہتر اور قابل قبول سمجھا جائے۔ اگر معترضین اہل مادہ اور محسوسات کے قائل ہیں اور دلائل محسوسہ چاہتے ہیں تو ان کا جواب بہت سہل ہے۔ اب میں وقت کا لحاظ کرتے ہوئے مختصرا دونوں پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔

خمسہ نجباء ہرگندے عمل سے مبراء تھے

اولا جو مسلمان قرآن کا تابع اس کا ریحانہ رسول حسین بن علی علیہما السلام کی طرف دنیا طلبی اور حب جاہ و ریاست کی نسبت دینا حق و حقیقت کے خلاف اور در اصل قرآن و رسول خدا(ص) کا انکار کرنا ہے اس لیے کہ خدائے تعالی نے سورہ نمبر33 ( احزاب) آیت نمبر33 میں ان جناب کی طہارت پر گواہی دی ہے اور ان کو نانا ماں باپ او بھائی کی طرح ہر رجس و پلیدی سے معرا و مبرا قرار دیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے۔

"إِنَّمايُرِيدُاللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْل َالْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً."

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ خدا کا ارادہ ہے کہ تم سے اے اہلبیت رسول(ص) ہر رجس و ناپاکی کو دور رکھے اور تم کو ہر عیب سے پاک و منزہ قرار دے۔

آپ کے جمہور اکابر علماء جیسے مسلم ، ترمذی، ثعلبی، سجستانی، ابونعیم اصفہانی، ابوبکر شیرازی، سیوطی، حموینی، احمد بن حنبل، زمخشری بیضاوی، ابن اثیر ، بیہقی ، طبرانی، ابن حجر، فخر الدین رازی، نیشاپوری، عسقلانی اور ابن عساکر وغیرہ بالاتفاق معتقد ہیں اور تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت پنجتن آل عبا محمد، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہ آیت شریفہ ان پنجتن پاکی کی عصمت اور ہر رجس و پلیدی سے طہارت پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ ظاہر ہے کہ سب سے بڑی پلیدی جاہ و منصب کی محبت اور دنیائے وفی کی طرف رغبت ہے کیوںکہ اس دنیا یعنی امراء و سلاطین کے مانند

۳۴۰