پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۱

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 369

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 369
مشاہدے: 298858
ڈاؤنلوڈ: 8943

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 369 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 298858 / ڈاؤنلوڈ: 8943
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDFڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی دوسری جلد (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےاس پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=379&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں

نوع بشر کے ہادی و رہنما تھے۔ نوح(ع) شیخ الانبیاء ابراہیم (ع) خلیل الرحمن، موسی (ع) کلیم اﷲ، عیسی(ع) روح اﷲ، اور پیغمبر آخرالزمان خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جن کا دین اور شریعت تا روز قیامت باقی اور برقرار ہے۔

جماعت شیعہ کا اعتقاد ہے کہ : "حلال محمّد حلال إلى يوم القيامة، و حرامه حرام إلى يوم القيامة و شريعته مستمرة الی يوم الق ي م ه "

( یعن ی حلال محمد(ص) حلال ہے روز قیامت تک اور حرام آں حضرت(ص) حرام ہے روز قیامت تک اور آپ کی شریعت باقی رہنے والی ہے روز قیامت تک۔)

خدائے تعالی نے سارے نیک و بد اعمال کے لیے ایک جزا اور سزا معین فرمائی ہے جو بہشت یا دوزخ میں بندوں کو دی جائے گی۔

اعمال کی سزا و جزا کے لیے جو دن مقرر ہوا ہے اس کو یوم الجزاء کہتے ہیں کیونکہ دنیا کی عمر ختم ہونے کے بعد خدا اولین و آخرین میں سے تمام نیک و بد مخلوقات کو اسی بدن عںصری جسمانی کیساتھ زندہ کر کے صحرائے محشر میں جمع کرے گا اور حساب و کتاب اور جانچ پڑتال کے بعد ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا۔

چنانچہ آسمانی کتابوں میں بالعموم اور توریت و انجیل و قرآن مجید میں بالخصوص خبر دی گئی ہے اور ہماری ثابت و محکم اور محقق سند یہی قرآن مجید ہے جو بغیر تحریف و ترمیم کے زمانہ رسول(ص) سے متواتر سند کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے ہم اس کے احکام پر حامل ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ عنداﷲ ماجور ہوں گے ہم ان تمام احکام واجبہ کے معتقد ہیں جو اس کتاب مقدس میں درج ہیں جیسے نماز روزہ، زکوة ، خمس اور جہاد وغیرہ۔

اسی طرح جو واجبات و فروعات اور مستحبات و ہدایات رسول خدا(ص) کے ذریعہ ہم کو پہنچے ہیں، ان کے معترف ہیں اور توفیقات الہی سے ان پر عمل کرنے کا عزم بالجزم رکھتے ہیں اور جملہ معاصی اور گناہاں کبیرہ وصغیرہ سے جیسے شراب نوشی، قمار بازی ، زنا ، لواط، سود خوری قتل اور ظلم وغیرہ جن سے قرآن مجید اور احادیث و اخبار میں منع کیا گیا ہے پرہیز کرتے ہیں۔

ہم سب شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس طرح خدائی احکام و ہدایات کا ایک لانے والا ہوتا ہے جس کو خدا نے منتخب کیا ہو اور آدمیوں کے درمیان پہنچایا ہو اسی طرح وصی و خلیفہ اور دین کا محافظ بھی خدا کی طرف سے منتخب ہونا چاہئیے جو پیغمبر (ص) کے ذریعہ امت میں پہچنوایا جائے چنانچہ سارے انبیاء نے خدائے تعالی کے حکم سے اپنے ؟؟؟؟؟ تعارف کرایا اور پیغمبر خاتم (ص) نے بھی جو ان سب سے زیادہ اکمل و افضل تھے فساد و اختلاف سے بچانے کے لیے امت کو اس حال پر نہیں چھوڑا بلکہ سنت جاریہ کے مطابق پروردگار کے حکم سے امت والوں کے درمیان اپنے اوصیاء کا اعلان فرما دیا۔

رسول اکرم(ص) کے ان منصوص اوصیاء کی تعداد جو خدا کی طرف سے معین ہوئے ، بارہ ہے۔

۶۱

یعنی ان میں اول سید الاوصیا علی ابن ابی طالب(ع) دوسرے حسن(ع) تیسرے حسین(ع) چوتھے علی زین العابدین(ع) پانچویں محمد باقر(ع) چھٹے جعفر صادق(ع) ساتویں موسی کاظم (ع) آٹھویں علی رضا(ع) نویں محمد تقی (ع) دسویں علی نقی(ع) گیارہویں حسن عسکری(ع) اور بارہویں محمد مہدی(عج) جو حجتہ قائم ہیں آپ نگاہوں سے غائب ہیں لیکن دنیا موجود ہیں اور اﷲ ان کے ذریعہ زمین کو اس طرح عدل و داد سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی۔(مترجم)

شیعہ امامیہ کا اعتقاد یہ ہے کہ یہ بارہ امام برحق خدا کی جانب سے پیغمبر(ص) کے ذریعہ ہم کو پہنچنوائے گئے ہیں جن سے بارہویں امام نے واضح اور متواتر اخبار کی بنا پر جو آپ کے علماء سے بھی بکثرت منقول ہیں۔ غیبت اختیار فرمائی جیسا کہ دوسرے انبیاء و اوصیاء کے زمانوں میں بھی غیبت واقع ہوتی رہی ہے۔ اس مقدس وجود کو خدا نے رفع ظلم اور اشاعت عدل کے لیے محفوظ رکھا ہے۔ یہ وہ مصلح کل ہے کہ سارے اہل عالم ایسے مصالح کے ظہور کا انتظار کر رہے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ جماعت شیعہ ان جملہ احکام کی جو قرآن مجید میں موجود ہیں اور ان اخبار صحیحہ کی معتقد ہے جو معتبر راویوں کے ذریعہ اہل بیت طہارت(ع) و عترت رسول(ص) اور آں حضرت کے نیک سیرت اور مومن اصحاب خاص کے سلسلے سے اس کو پہنچے ہیں اول باب طہارت سے لےکر آخر باب دیات تک میں خدائے تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھ کو اس کی توفیق عطا فرمائی کہ ماں باپ کی تقلید میں نہیں بلکہ تحقیق و منطق اور برہان کے ذریعہ ان مقدس عقائد کا معتقد ہوں اور اس دین و مذہب پر فخر کرتا ہوں جو شخص اس دین و مذہب میں کلام رکھتا ہو --- شک و شبہ اور فریب میں مبتلا ہو تو میں خدا کی مدد سے شبہات کو دور کرنے و حقائق کو ثابت کرنے کے لیے -- اتنےمیں موذن کی آواز بلند ہوئی اور نماز کا وقت آگیا نماز سے فراغت اور چائے نوشی کے بعد جناب حافظ صاحب نے سلسلہ کلام شروع کیا۔)

حافظ : قبلہ صاحب میں بہت ممنون ہوا کہ آپ نے شیعہ فرقوں کے حالات کی تشریح فرمائی لیکن آپ کی کتب اخبار و ادعیہ میں ایسے مطالب وارد ہوئے ہیں جو بظاہر آپ کی گفتگو کے بر خلاف خاص طور پر اثناء عشری شیعوں کے کفر و الحاد کو ثابت کرتے ہیں۔

۶۲

خیر طلب : بہتر ہے کہ وہ اخبار و ادعیہ اور اشکال کے مواقع بیان فرمائیے تاکہ حق ظاہر ہو جائے۔

حدیث معرفت پر اعتراض

حافظ :- میں نے ب ہ ت س ی حدیثیں دیکھی ہیں لیکن جو اس وقت پیش نظر ہے ک ہ و ہ یہ ہے ک ہ تفس یر صافی میں جو آپ کے ا یک جلیل القدر عالم اور مفسر فیض کاشانی کی لکھی ہ وئ ی ہے ۔ ا یک حدیث نقل کرتے ہیں کہ ا یک روز حضرت حسین شہید کربلا اپنے اصحاب ک ے سامن ے ک ھڑے ہ وئ ے اور فرما یا ۔ "ا یھ ا الناس ان اللہ تعال ی جل ذکرہ ما خلق العباد الا ل یعرفوہ فاذا عرفوہ عبدو ہ واذا عبدو ہ استغنو بعبا دت ہ عن عباد ۃ من سواہ قال رجل من اصحاب ہ باب ی انت واخی یابن رسول اللہ فما معرف ۃ اللہ ؟قال معرف ۃ اھ ل کل زمان امام ھ م الذ ی تجب علیھ م طاعتہ " ۔ ( یعنی اے لوگو خداوند عالم جلّ ذکرہ ن ے خلق ن ہیں کیا ہے بندو ں کو ل یکن اپنی معرفت کے لئ ے اور جب بندو ں ن ے اس کو پ ہ چان ل یا تو اس کی عبادت کی اور جب اس کی عبادت کی تو اس کی عبادت کی وجہ س ے اس ک ے ما سوا ک ی عبادت سے مستغن ی ہ وگئ ے آپ کے اصحاب م یں سے ا یک شخص نے عرض ک یا کہ م یرے باپ بھ ائ ی آپ پر فدا ہ و ں ا ے فرزند رسول (ص) ،معرفت ال ہی کی حقیقت کیا ہے ؟ فرما یا ہ ر زمان ے والو ں کا اپن ے اس امام کو پ ہ چاننا جس ک ی اطاعت ان پر فرض ہے ۔

اعترض کا جواب

خیر طلب:- سب سے پ ہ ل ے تو حد یث کے سلسل ہ اسناد ک ی طرف توجہ کرنا چائ یے کہ آ یا یہ حدیث صحیح ہے یا موثق ومعتبر ،حسن ہے یا ضعیف ،قابل توجہ ہے یا مردود ؟ اگر فرض کر لیا جائے ک ہ صح یح ہے تو توح ید کے بار ے م یں آیات قرآن مجید اورآل اطہ ار وائم ہ ہ د ی علیھ م السلام کے سلسل ے میں احادیث متواترہ ک ے نصوص صر یحہ کو خبر واحد کی وجہ س ے اپن ے ک ھ ل ے ہ وئ ے مطلب س ے پ ھیرا تو نہیں جاسکتا ۔

آپ توحید کے بار ے ان سار ے اخباروآحاد یث ،ائمہ د ین کے ارشادات اور ان ک ے مناظرو ں جو ہ مار ے بزرگان د ین اور ائمہ اثناعشر ن ے مناسب موقعو ں پر مادّ یین اور دہ ر یین سے فرمائ ے ہیں اور خالص توحید کو ثابت فرمایا ہے ک یونکہ نہیں دیکھ ت ے اور ان پر پرتوجہ ک یوں نہیں دیکھ ت ے ؟ اور ان پر توجہ ک یوں نہیں فرماتے ؟ درآنحال یکہ شیعوں کی تمام خاص خاص

۶۳

تفسریں اور کتب اخبار جیسے توحید مفضل وتو حید صدوق اوربحار الانوار علامہ مجلس ی علیہ الرحمۃ کی کتاب توحید اور دیگر بڑے ب ڑے علمائ ے ش یعہ امامیہ کی کتب توحید یہ اہ ل ب یت طاہ ر ین(ص)کی متواتر حدیثوں سے چ ھ لک ر ہی ہیں ۔

آپ چوتھی صدی کے مفاخر علمائ ے ش یعہ میں سے ابو عبد الل ہ محمد بن نعمان معروف ب ہ "مف ید" متوفی سنہ 413 ھ کا رسال ہ "النّکت الاعتقاد یۃ"اور انہیں بزرگوار کی تالیف "اوائل المقالات فی المذاھ ب والمختاران"کا مطالع ہ ک یوں نہیں فرماتے ن یز ہ مار ے ش یخ اجل ابو منصور احمد بن علی ابن ابی طالب الطبرسی کی کتاب "احتجاج"کی طرف کیوں رجوع نہیں کرتے تاک ہ آپ کو پت ہ چل ے ک ہ امام برحق حضرت امام رضا عل یہ السلام نے مخالف ین ومنکرین توحید کے مقابل ے م یں کس طرح خالص توحید کو ثابت فرمایا ہے ن ہ ک ہ آپ اس ی فکر میں پڑے ہ وئ ے ہیں کہ کچ ھ واحدو متشابہ خبر یں ڈھ ون ڈ نکال یں اور انہیں کا سہ ارا ل ے کر ش یعوں پر لعن طعن کریں ۔

کیا خوب کہ تا ہے شاعر عرب :

اتبصر فی العین منی القذی ----- وفی عینک الجذع لاتبصر

(یعنی آیا میری آنکھ کاتنکا ڈھ ون ڈھ ت ے ہ و اور اپن ی آنکھ کا ش ہ ت یر نہیں دیکھ ت ے ؟کنایہ یہ ہے ک ہ م یرا چھ و ٹ ا ع یب دیکھ ت ے ہ و اور اپنا ب ڑ ا ع یب نظر نہیں آتا یہ مثل اس لئے پ یش کر رہ ا ہ و ں ک ہ آپ اپن ی کتابوں پر غور ن ہیں فرماتے تاک ہ ان ک ے اندر ا یسے خرافات ومو ہ وما ت بلکہ کفر یات نظر آئیں ۔ " یضحک بہ الثکل ی" (یعنی جس پر پسر مردہ عورت ب ھی ہ نس د ے :مترجم) اورپ ھ ر شرم ک ی وجہ س ے سر ن ہ ا ٹھ ائ یں یہ ا ں تک کہ آپ ک ی معتبر صحاح کے اندر ب ھی اس قدر مضحکہ خ یز روایتیں منقول ہیں کہ عقل مب ہ وت اور ح یران ہ وجات ی ہے ۔

حافظ:- مضحکہ خ یز در اصل آپ کے الفاظ ہیں کہ ا یسی کتابوں پر ع یب لگارہے ہیں جو عظمت وبزرگی میں اپنا جواب نہیں رکھ ت ی ہیں خصوصیت کیساتھ صحیح بخاری اور صحیح مسلم جن کے بار ے م یں عام طور سے ہ مار ے علماء کا اتفاق ہے ک ہ ان ک ے اندر جتن ی حدیثیں ہیں وہ سب قطعی طور پر صحیح ہیں ۔ اوراگر کوئ ی شخص ان دونوں کتابو ں کا اوران ک ے اندر مندرج ہ اخبار کا انکار کر ے اور ان کو غلط بتائ ے تو درحق یقت اس نے اصل مذ ھ ب سنت وجماعت کا انکار ک یا ،کیونکہ قرآن مجید کے بعد ا ہ ل سنت ک ے اعتبار کا دارومدار ان ہیں دونوں بزرگ کتابو ں پر ہے جیسا کہ اگر آپ ک ی نظرسے گزرا ہ و تو ابن حجر مک ی نے صواعق محرق ہ ک ے شروع م یں لکھ ا ہے ۔ "الفصل ف ی بیان کیفیتھ ا رای کیفیۃ خلافۃ ابی بکر روی الشیخان البخاری ومسلم فی صحیحھ ا الذین ھ ما اصح الکتب بعد القرآن اجماع من یعتد بہ "(فصل اس ک یفیت کے ب یان میں (یعنی کیفیت خلافت ابی بکر)شیخین یعنی بخاری ومسلم نے اپن ی صحیحین میں جو با اجماع امت قرآن کے بعد تمام کتابو ں م یں سے سب س ے ز یادہ صحیح ہیں کیونکہ امت نے ان ک ی قبولیت پر اجماع کیا ہے

۶۴

اور جس چ یز پر امت کا اجماع ہ و و ہ قطع ی ہے ل ہ ذا بخار ی اور صحیح مسلم میں جتنی حدیثیں درج ہیں وہ قطع ی طور پر صادر ہ وئ ی ہیں ۔ ل ہ ذا کوئ ی شخص یہ کہ ن ے ک ی جرات کیونکر کر سکتا ہے ک ہ ان دونو ں کتابو ں م یں کفریات اور خرافات وموہ ومات موجود ہیں ؟

صحیحین بخاری ومسلم میں خلاف عقل روایتیں

خیرطلب :- اول تو آپ کے ب یان میں اس جملے پر ک ہ دونو ں کتاب یں ساری امت کی نظر میں قابل قبول ہیں ،علمی اعتراضات قائم ہیں اور ابن حجر کے حوال ے س ے آپ کا یہ دعوی دس کروڑ صاحبان علم وعمل مسلمانو ں ک ے نزد یک علمی عملی ،منطقی طور سے بلکل ب ے وقعت ہے ل ہ ذا اس موقع پر امت کا اجماع ویسا ہی ہے اجماع ہے جس ک ے آپ صدر اسلام م ین امر خلافت کے لئ ے قائل ہیں ۔

دوسرے جو کچھ م یں کہہ ر ہ ا ہ و ں دل یل اور برہ ان ک ے سات ھ ہے ۔ آپ حضرات ب ھی اگر خوش عقیدگی کی آنکھ س ے ن ہیں بلکہ حق یقت ہیں نگاہ س ے ان کتابو ں کو ملاحض ہ فرمائ یں تو جو کچھ م یں دیکھ رہ ا ہ و ں و ہی آپ کو بھی نظر آئے گا ۔ اور ہ مار ے اور سار ے ا ہ ل عقل ک ی طرح ان کے مندرجات س ے متح یر ومتبسم ہ و ں گ ے ۔ ج یسا کہ آپ ک ے ب ہ ت س ے اکابر علماء ج یسے دار قطنی و ابن حزم اور شہ اب الد ین احمد بن محمد قسطلانی" ارشاد الساری"میں ، علامہ ابو الفضل جعفر بن ثعلب شافعی "کتاب الامتاع فی احکام السماع " میں ، شیخ عبد القادر بن محمد قریشی حنفی" جواہ ر المض یۃ فی طبقات الخفیہ " میں ،شیخ الاسلام ابو زکریا ئے نوو ی" شرح صحیح" میں شمس الدین علقمی" کوکب منیر شرح جامع الصغیر" میں اور ابن القیم "زاد المعاد فی ہ د ی خیر العباد " میں بلکہ سار ے حنف ی علماء اور دوسرے سن ی اکابر صحیحین کی بعض احادیث پر تنقید اور نکتہ چ ینی کر چکے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ صح یحین کے اندر ب ہ ت س ی ضعیف اور غیر صحیح حدیثیں موجود ہیں چونکہ بخار ی اور مسلم کا مطمع نظر حدیثوں کو جمع کرنا تھ ا ن ہ ک ہ ان ک ی صحت پر غور وخوص کرنا ۔ آپ ک ے ب عض محقق علماء جیسے کما ل الدین جعفری ثعلب نے صح یحین کی روائتوں ک ے فضائح و قبائح ب یان کرنے اور ان ک ے مثالب ومعائب ظا ہ ر کرن ے م یں سعی بلیغ کی ہے اور اس بار ے م یں روشن اور آشکار دلائل وبراہین قائم کئے ہیں ۔

لہ ذا تنہ ا ہ م ہی مطالب کی تحقیق نہیں کرتے ہیں بلکہ آپ ک ے نشان ہ ملامت ن ہیں بلکہ آپ ک ے اکابر علماء ن ے ب ھی جو حقیقتوں کی جانچ کرتے ہیں اسی طرح کے ب یانات دیئے ہیں۔

حافظ :- بہ تر ہے اپن ے دلائل وبرا ہین حاضرین جلسہ ک ے سامن ے ب یان کیجیئے تاکہ صح یح فیصلہ کر سکیں ۔

۶۵

خیر طلب :- اگر چہ اس وقت ہ مار ی بحث کا موضوع یہ نہیں تھ ا اور اگرم یں اس بحث میں پڑ نا چا ہ و ں تو آپ ک ے سوال کا سلسل ہ چ ھ و ڑ نا پ ڑے گا ل یکن مقصد ثابت کرنے ک ے لئ ے مختصر طور پر چند نمونو ں ک ی طرف اشارہ کئ ے د یتا ہ و ں ۔

رویت باری تعالی کے بار ے م یں اہ ل سنت ک ی چند روایتیں

اگر آپ حلول واتحاد کے کفر آم یز روایات اور خدائے تعال ی کی جسمانیت اور رویت کا عقیدہ کہ و ہ باختلاف عقائد دن یا میں دیکھ ا جاتا ہے یا آخرت میں دیکھ ا جائے گا ۔ (ج یسا کہ جنبل ی اور اشعری سنیوں کا ایک گروہ اس کا قائل ہے )مطالع ہ کرنا چا ہیں تو اپنی معتبر کتابوں ک ی طرف رجوع کیجیئے خصوصا صحیح بخاری جلد اول "باب فضل السجود من کتاب الاذان "صفحہ 175 پر آپ کو کاف ی ذخیرہ ملے گا ۔ م یں نمونے ک ے طور پر ان ہیں ابواب میں سے دو روا یتیں آپ کے سامن ے پ یش کرتا ہ و ں ۔ ابو ہ ر یرہ سے روا یت کرتے ہیں "ان النّار تذف وتتقظ تقیظا شدیدا فلا تسکن حتی یضع الرب قدمہ ف یھ ا فتقول قظ قظ حسبی حسبی" ۔ ( یعنی جہ نم ک ے شعلو ں ک ی آواز اور جوش وخروش بڑھ تا جاتا ہے اور اس م یں سکون نہ ہ وگا یہ ا ں تک کہ خدا اس م یں اپنا پاؤں ڈ ال د ے گا تو ج ہ نم ک ہے گا بس بس م یرے لئے کاف ی ہے م یرے لئے ک افی ہے ۔

نیز ابوہ ر یرہ نے روا یت کی ہے ک ہ لوگو ں ک ی ایک جماعت نے رسو ل الل ہ س ے سوال ک یا "هل تری ربنا یوم القیمة قال نعم هل تضارون فی رو یة الشمس بالظههیرة صحوا لیس معها سحاب قالوا لا یا رسو ل الله وهل تضارون فی رویة القلم لیلة البدر صحوا لیس فیها سحاب قالوا لا یا رسول الله قال ما تضارون فی رویة الله یو م القیامة الا کما تضارون فی رویة احدهما اذا کان یو م القیامة اذن مؤذن لتبع کل امة ما کانت تعبد فلا یبقی احد کان یعبد غیر الله من الاصنام الانصاب الا یتسا فظون فی النار حتی اذا لم یبق الا من کان یعبد الله من برونا جر اتاهم رب العالمین فی ادنی صورة من التی را ‎‎ ؤه فیها فیقول انا ربّکم فیقولون نعوذ بالله منک لا نشرک با الله شیئا بینکم وبینه ایة فتعرفون فیها فیقول انا ربکم فیقولون نعم فیکشف الله عن ساق ثم یرفعون روؤسهم وقد تحول فی صورة التی راؤه فیها اول مرّة فقال انا ربکم فیقولون انت ربنا "

(یعنی کیا ہ م لوگ ق یامت کے روز اپن ے پرور دگار کو د یکھیں گے ؟ فرما یا ہ ا ں ،ک یا ظہ ر ک ے وقت جس روزآسمان پر ابر ن ہ

۶۶

ہ و آفتاب کو د یکھ ن ے سے تم کو کوئ ی نقصان پہ نچتا ہے ؟لوگو ں ن ے عرض ک یا نہیں ، فرمایا جن راتوں م یں آسمان پر بادل نہ ہ و ک یا ماہ کامل د یکھ ن ے سے تم ہ ا را کوئی ضرر ہ وتا ہے ۔ عرض ک یا نہیں ،فرمایا تو قیامت کے دن الل ہ کو د یکھ ن ے سے ب ھی تم کو کوئی ضرر نہیں پہ نچ ے گا ج یسا کہ ان دونو ں ک ے د یکھ ن ے سے تم ہ ارا کوئ ی نقصان نہیں ہ وتا ۔ جب ق یامت کا دن ہ وگا تو خدا ک ی طرف سے اعلان ہ وگا ک ہ ہ ر گرو ہ اپن ے معبود کی پیروی کرے ،پس الل ہ ک ے سوا بتو ں ک ی پرستش کرنے والا کوئ ی شخص ایسا باقی نہ ر ہے گا جو ج ہ نم م یں نہ ج ھ ونک د یا جائے ۔ یہ ا ں تک کہ ن یک و بد لوگوں م یں سے سوا ان افراد ک ے جن ہ و ں ن ے الل ہ ک ی پرستش کی ہ وگ ی اور کوئی جہ نم س ے با ہ ر ن ہیں رہے گا ، اس وقت پروردگار عالمین ایک خاص صورت میں ان کے پاس آئ ے گا ک ہ و ہ سب اس کو د یکھیں پھ ر فرمائ ے گا ک ہ م یں تمہ ارا خدا ہ و ں مومن ین عرض کریں گے ک ہ ہ م ت یری خدائی سے خدا ک ی طرف پناہ مانگت ے ہیں ۔ہ م و ہ لوگ ن ہیں ہیں جو خدا کے سوا کس ی اور کی عبادت کریں خدا کہے گا کہ آیا تمہ ار ے اور خدا ک ے درم یان کوئی ایسی نشانی ہے جس کو د یکھ کر تم اسے پ ہ چان لو ؟ و ہ ک ہیں گے ہ ا ں اس وقت الل ہ اپن ے پاؤ ں ک ی پنڈ ل ی کھ ول د ے گا( یعنی اپنے پاؤ ں کو عر یان کرکے نشان د ہی کے گا)اور مومن ین اپنے سر ا ٹھ ائ یں گے تو الل ہ کو اس ی صورت میں دکھیں گے جس میں پہ ل ی بار دیکھ ا تھ ا پ ھ ر و ہ ک ہے گا ک ہ م یں تمہ ارا پروردگار ہ و ں اور و ہ سب ب ھی اقرارکریں گے ک ہ تو ہ مارا خدا ہ و ۔

آپ کو خدا کا واسطہ انصاف ک یجئے کیا اس طرح کی باتیں کفر انگیز نہیں ہیں ۔ ک ہ خدا اپن ے کو مجسم اور عنصر ی صورت میں انسان کے سامن ے پ یش کرے اور اپن ی پنڈ ل ی کھ ول ے ؟ ہ مار ی گفتگو کے ثبوت م یں سب سے ب ڑی دلیل یہ ہے ک ہ مسلم ابن حجاج ن ے اپن ی صحیح میں رویت باری تعالی کے اثبات م یں ایسے با ب کا افتتاح کیا ہے ۔ اور ابو ہ ر یرہ ،زید ابن اسلم، سوید ابن سعید وغیرہ سے ا یسی گھڑی ہ وئ ی روائتیں نقل کی ہیں کہ آپ ک ے ب ڑے ب ڑے علماء ج یسے ذہ ب ی نے " م یڑ ان الاعتدال "میں ،سیوطی نے کتاب" اللئال ی المصنوعۃ فی احادیث الموضوعۃ ّ "میں ، سبط ابن جوزی نے "الموضوعات " م یں ان کے وضع ی ہ ون ے کو دلائل ک ے سات ھ ثابت ک یا ہے ۔ اگر ان لوگو ں ک ے روا یات کو باطل ثابت کرنے وال ی دلیلیں نہ ب ھی ہ وت یں ،تو قرآن مجید کی بکثرت آئتیں صریحی طور پر رویت کی نفی کر چکی ہیں مثلا سورہ 6 (انعام) آیت 103 میں ارشاد ہے "لا تدرکوا الابصار وهو یدرک الابصار وهو اللطیف الخبیر" ( یعنی اس کو کوئی آنکھ درک ن ہیں کرتی ہے اور و ہ سب آنک ھ و ں کا مشا ہ د ہ فرماتا ہے اور و ہ لط یف وغیرمرئی اور ہ رچ یز سے آگا ہ ہے ) ن یز سورہ 7(اعراف)آ یت 139 میں قصّہ موس ی علیہ السلام و بنی اسرائیل کے سلسل ے م یں نقل فرماتا ہے ک ہ جس وقت بن ی اسرائیل کے دباؤ س ے مجبور ہ وکر حضرت موس ی علیہ السلام نے مقام مناجات م یں عرض کیا "ربّ ارنی انظر الیک قال لن ترانی " (یعنی خداوندا اپنے کو م یرے سامنے تاک ہ ظا ہ ر فرما د ے تاک ہ م یں تجھ کو مشاہ د ہ کرو ں ، تو خدا ن ے جواب م یں ارشاد فرمایا کہ تم مج ھ کو ہ ر گز ابد تک ن ہیں دیکھ و گے ۔

۶۷

سید عبد الحی :- (امام جماعت اہ ل تسنن)ک یا مولا علی کرم اللہ وج ہ س ے منقول ن ہیں ہے ک ہ آپ ن ے فرما یا "لم اعبد ربا لم ارہ "( یعنی میں ایسے خدا کی عبادت نہیں کرتا ہ و ں جس کو د یکھ ا نہ ہ و، ل ہ ذا معلوم ہ وتا ہے ک ہ خدا د یکھ ن ے کے قابل ہے ک ہ عل ی ایسا فرما رہے ہیں ۔

اللہ تعالی کے عدم رو یت پر دلائل اخبار

خیر طلب:- جناب نے حد یث کے صرف ا یک جملے ک ی طرف اشارہ فرما یا ہے ، م یں آپ حضرات کی اجازت سے پور ی حدیث پڑھ ر ہ ا ہ و ں ۔ جس س ے آپ کو خود ہی اپنا جواب معلوی ہ وجائ ے گا ۔ اس حد یث کو شیخ بزرگ ثقۃ الاسلام محمد بن یعقوب کلینی نے "اصول کافی" کتاب توحید "باب ابطال الروئۃ ا للہ "م یں امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے اس طرح نقل ک یا ہے ک ہ آپ ن ے فرما یا ۔ "جاء حبر الی امیر المومنین فقال یا امیر المومنین هل رایت ربک حین عبدته ؟ فقال ماکنت اعبد ربا لم اره ،قال وکیف ریته؟ قال لا تدرکه العیور فی مشاهدة الابصار ولکن راته القلوب بحقائق الایمان " ( یعنی ایک(یہ ود ی)عالم نے ام یر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ یا امیر المومنین آیا عبادت کے وقت آپ ن ے خدا کو د یکھ ا ہے ؟ حضرت ن ے فرما یا میں ایسے خدا کی عبادت نہیں کرتا جس کو دیکھ ا نہ ہو۔ اس ن ے عرض ک یا آپ نے اس کو ک یون کر دیکھ ا ؟ فرمایا اس کو ظاہ ر ی اور مادی آنکھیں نہیں دیکھ ت ی ہیں دل اس کو حقائق ایمان کے نور س ے د یکھ ت ے ہیں ) چنانچہ ام یر المومنین کے اس جواب س ے ظا ہ ر ہ وتا ہے ک ہ عنصر ی اور جسمانی آنکھ س ے ن ہیں بلکہ ا یما ن قلبی کے نور س ے د یکھ نا مراد ہے اور یہی مطلب خود کلمہ "لن" س ے ظا ہ ر ہے ک یونکہ جیسا آپ کو معلوم ہے "لن" نف ی ابدی کے لئ ے استعمال ہ وتا ہے اور اس آ یہ شریفہ میں تاکید ہے ک ہ "لا تدرک ہ الابصار "ک ے سات ھ یعنی خدا ہ رگز د نیا و آخرت میں کسی صورت سے د یکھ ا نہیں جاتا ۔

اس مقصد پر اتنے عقل ی اور نقلی دلائل وبراہین قائم ہیں کہ علاو ہ علمائ ے محقق ین اور مفسرین شیعہ کے خود آپ ک ے اکابر علماء ج یسے قاضی بیضاوی اور جار اللہ زمخشر ی نے اپن ی تفسیر میں ثابت کیا ہے ک ہ الل ہ تعال ی کو دیکھ نا محال عقلی ہے ۔

اور جو شخص کیا وہ دن یا اور کیا آخرت میں خدا کی رویت کا معتقد ہ و اس ن ے قطعا خدا کو اپن ی نظر میں محدود قرار دیا اور

۶۸

اس کی ذات بابرکات کے لئ ے جسمان یت کا قائل ہ وا ک یونکہ جب تک جسم عنصری نہ ہ و ظا ہ ر ی اور عنصری آنکھ و ں س ے د یکھ ا نہیں جا سکتا اور اس طرح کا عقیدہ قطعی کفر ہے ج یسا کہ ہ مار ے اور آپ ک ے ب ڑے ب ڑے علماء ن ے اپن ی تفسیروں اور علمی کتابوں م یں ذکر کیا ہے ، ل یکن چونکہ اس وقت یہ ہ مار ی بحث کا موضوع نہیں لہ ذا بطور ثبوت چند جمل ے عرض کر دئ ے گئ ے ہیں ۔

البتہ ان ڈھیروں خرافات وموہ ومات ک ے سلسل ے م یں جو آپ کی معتبر کتابوں م یں درج ہیں میں نے نمون ے ک ے طور پر دو روا یتوں کا خلاصہ نقل کرتا ہ و ں تاک ہ آپ حضرات بعض واحد خبرو ں ک ے ذر یعے جو تشریح وتاویل کے قابل ہیں شیعوں کی کتابوں س ے ا یراد نہ فرمائ یں ۔

آپ کا خیال ہے ک ہ صحاح ست ہ اور بالخصوص صح یح بخاری اور صحیح مسلم کتاب وحی کے مانند ہیں لیکن میں التماس کرتا ہ و ں ک ہ آپ حضرات ت ھ و ڑی دیر کے لئ ے تعصب س ے ہٹ کر نگا ہ انصاف س ے ان ک ی احادیث وروایات پر غور فرمائیں تاکہ اس قدر غلو ک ی نوبت نہ آئ ے ۔

خرافات صحیحین کی طرف اشارہ

بخاری نے اپن ی صحیح کتاب غسل "باب من اغتسل عریانا "میں ،مسلم نے اپن ی صحیح جزء دوم "باب فضائل موسی "میں ،امام احمد بن حنبل نے اپن ی مستند جزء دوم صفحہ 315 م یں اور آپ کے دوسرے علماء ن ے ابو ہ ر یرہ سے نقل ک یا ہے ک ہ بن ی اسرائیل کے درم یان یہ رسم تھی کہ سب لوگ مل کر برہ ن ہ پان ی میں جاتے ت ھے اور اس حالت س ے ن ہ ات ے ت ھے ک ہ آپس م یں ایک دوسرے ک ی شرمگا ہ ک ی طرف بھی نظر کر تے ت ھے یہ عمل ان کے یہ ا ں معیوب نہ ت ھ ا البت ہ ان م یں صرف حضرت موسی علیہ السلام تن تنہ ا پان ی میں اترتے ت ھے تا ک ہ کوئ ی شخص ان کی شرمگاہ کو نہ د یکھے ۔ بن ی اسرائیل کہ ت ے ت ھے ک ہ موس ی اس وجہ س ے اک یلے نہ ان ے ک ے لئ ے جات ے ہیں اور ہ م لوگو ں س ے عل یحدہ رہ ت ے ہیں عکہ ان ک ے اندر نقص ہے او ر قطعی طور پر وہ فتق(فتق ،خص یہ بڑ ا ہ ون ے ک ی بیماری ۔ہ رن یا )کے عارض ے م یں مبتلا ہیں ،لہ ذا یہ نہیں چاہ ت ے ک ہ ہ م لوگ ان کو د یکھیں ایک روز حضرت موسی غسل کرنے ک ے لئ ے در یا کے کنار ے گئ ے کپ ڑے اتار کر ا یک پتھ ر پر رک ھ د یئے اور پانی میں اتر گئے "ففرّ الحجر بثوب ہ فجمع موس ی باثرہ یقول ثوبی حجر ،ثوبی حجر حتی نظر بنو اسرائیل الی سواۃ موسی فقالوا واللہ ما بمو سی من باس فقام الحجر بعد حتی نظر فاخذ موسی ثوبہ فطفق بالحجر ضربا فوالل ہ ان بالحجر ندبا ست ۃ او سبعۃ "(یعنی پتھ ر موس ی کے کپ ڑے ل ے ب ھ اگ ک ھڑ ا ہ وا ،موس ی اس کے پ یچھے جھ پ ٹے اور یہ کہ ت ے جار ہے ت ھے ا ے پت ھ ر م یرے کپڑے ،ا ے پت ھ ر م یرے کپڑے ( یعنی میرا لباس کہ ا ں لئ ے ب ھ اگا جاتا ہے ؟) و ہ پت ھ ر اتنا ب ھ اگا اور موس ی اس قدر برہ ن ہ دو ڑے ک ہ بن ی اسرائیل نے ان ک ی شرمگاہ د یکھ لی اور کہ ا خدا کا ک ی

۶۹

قسم موسی کے اندر کوئ ی عیب نہیں ہے یعنی فتق نہیں ہے اس ک ے بعد پت ھ ر ک ھڑ ا ہ وگ یا ، اور جناب موسی نے اپن ے کپڑے ل ے لئ ے پ ھ ر کو ڑے س ے اس کو انتا مارا ک ہ خدا ک ی قسم وہ چ ھے یا سات مرتبہ چ یخ چیخ کے رو یا ۔

آپ کو خدا کی قسم ذرا انصاف کیجئے کہ اگر اس ی طرح کا کوئی عمل آپ حضرات میں سے کس ی کے سات ھ پ یش آئے تو کس قدر ذلت ک ی بات ہے ک ہ آپ لوگو ں ک ے درم یان اس طرح سے بر ہ ن ہ اپن ے لباس ک ے پ یچھے دوڑیں کہ سب آپ ک ی شرمگاہ د یکھ لیں۔ فرض ک یجئے کہ اگر ا یسا اتفاق پیش آجائے تو آدمی کہیں کنارے ب یٹھ جاتا ہے تاک ہ لوگ جا کر اس کا لباس ل ے آئ یں نہ یہ کہ بغ یر کسی ستر پوش کے آدم یوں کے ب یچ میں گھ س پ ڑے تاک ہ سب اس ک ی شرمگاہ د یکھیں ۔ آ یا عقل باور کرتی ہے ک ہ موس ی کلیم اللہ ا یسے انسان سے ا یسی حرکت سرزد ہ وئ ی ہ و ۔ کیا یہ یقین آتا ہے ک ہ ک ہ ب ے زبان پت ھ ر حرکت کر ے اور موس ی کے کپ ڑے ل ے ب ھ اگ ے ؟

سید عبد الحی :- آیا پتھ ر ک ی حرکت زیادہ اہ م ہے یا عصا کا اژدہ ا ہ و جانا ؟ پت ھ ر ک ی حرکت بڑی چیز ہے یا وہ نو معجز ے جن ک ی خدا خبر دے ر ہ ا ہے ؟

خیر طلب :-مثل مشہ و ر ہے "خوب ورد ی آموختہ ا ید، لیک سوراخ دعا گم کردہ ا ید"(یعنی آپ نے ورد خوب س یکھ ا ہے ل یکن دعا کا سوراخ کھ و د یا ہے ) جناب محترم ! م یں معجزات انبیاء علیھ م السلام کا منکر نہیں ہ و ں بلک ہ قرآن مج ید کے حکم س ے معجزات او ر خرق عادت پر ا یمان رکھ تا ہ و ں ل یکن آپ تصدیق کریں گے ۔ ک ہ معجزات او رخرق عادات کا ظ ہ ور مقام تحد ی پر ہ وتا ہے تاک ہ اس مظا ہ ر ہ عمل ک ے مقابل ے م یں فریق مخالف کو عاجز اور حق کو ظاہ ر کرد یا جائے تو اس عمل م یں کون سی تحدی کا یاحق کا ظہ ور ت ھ ا ؟ سوا اس ک ے ک ہ رسوائ ی کا سامنا ہ وا اور خدا ک ے رسول ک ی شرمگاہ خلقت ک ے درم یان عریان ہ وئ ی ۔

سید عبد الحی :- اس سے ب ڑھ کر کون سا حق ت ھ ا ک ہ حضرت موس ی کی صفائی پیش کی جائے تاک ہ لوگ سمج ھ ل یں کہ آپ فتق ن ہیں ہے ۔

خیرطلب :-فرض کر لیا جائے ک ہ جناب موس ی علیہ السلام کو فتق ہی تھ ا اس س ے آپ ک ے منصب نبوت کو ک یا نقصان پہ نچ ر ہ ا ت ھ ا پ یغمبروں کے لئ ے جو چ یز عیب ہے و ہ ذات ی نقائص ہیں جیسے اندھ ا ،ب ہ ر ہ ،چ ھ انگل یوں والا،چار انگلیوں والا ، فحش گو ،مفلوج یا مادر زاد مثل ہ ونا وغ یرہ ورنہ جسمان ی نقائص جو عوارض کی وجہ س ے پ یدا ہ وت ے ہیں جیسے کثرت گریہ کے نت یجے میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کا نابینا ہ وجانا ،حضرت ا یوب علیہ السلام کے جسم پر زخم ، جنگ احد م یں حضرت خاتم الانبیاء (ص) کے سر ودندان ک ی شکستگی اور اس طرح کی دو سری چیزیں منصب نبوت کو کوئی ضرر نہیں پہ نچا ت ی ہیں ۔

فتق بھی ایک جسمانی مرض ہے جو بعد کو عارض ہ وتا ہے ل ھ ذا اس م یں کون سی اہ م یت تھی کہ کس ی ایسے معجز ے

۷۰

اور خرق عادات کے ذر یعہ اس سے برات ثابت ک ی جائے جو پ یغمبر کی ہ تک حرمت اور کشف عورت تک منجر ہ و،تا ک ہ بن ی اسرائیل ان کی شرمگاہ پر نظر کر یں۔ آیا ایسی روایات خرافات و موہ ومات م یں سے ن ہیں کہ جناب موس ی علیہ السلام بغیر ساتر عورتین کے لباس ک ے پ یچھے دوڑیں ، اس قدر غصّہ م یں بھ ر جائ یں اور پتھ ر کو اس طرح س ے مار یں کہ و ہ چ ھ یا سات مرتبہ فر یاد کرے ؟ کتن ے تعجب ک ی بات ہے ک ہ پ یغمبر خدا (ص) کو اتنا بھی نہ معلوم ہ و ک ہ پت ھ ر آنک ھ ، کان اور تاثر ک ی حس نہیں رکھ تا ہے ک ہ اس کو زد وکوب کر یں اور جما د سے نال ہ بلند کرآئ یں۔ نعوذ بالل ہ من ھ ذ ہ الخرافات

ملک الموت کے چ ہ ر ے پر موس ی علیہ السلام کا تھ پ ڑ مارنا

اس خیال سے ک ہ جناب مولو ی سید عبد الحی ابو ہ ر یرہ یا بخاری اور مسلم کی طرف سے جن ہ و ں ن ے اس طرح ک ی گھڑی ہ وئ ی مہ مل روا یتیں نقل کی ہیں ، دفاع اور صفائی کی کوشش نہ فرمائ یں ،ایک اس سے ز یادہ مضحکہ خ یز روایت کی طرف اشارہ کرتا ہ و ں تاک ہ آپ حضرات یقین کر لیں کہ صحاح ک ے بار ے م یں جس طرح غلو کیا گیا ہے و ہ ا یسی میں نہیں ۔

بخاری نے اپن ی صحیح جلد اول صفحہ 158 اور جلد دوم صفح ہ 163 پرا یک تو "باب من احب الدفن فی الارض المقدسۃ من ابواب الجنائز" میں دوسرے "باب وفات موس ی "جلد دوم میں اپنے عق یدے کیمطابق صحیح اسناد کے سات ھ ابو ہ ر یرہ سے ن یز مسلم نے اپن ی صحیح جلد دوم صفحہ 309 ابو ہ ر یرہ سے ا یک عجیب مہ مل خبر نقل ک ی ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "جاء ملک الموت ال ی مو سی علیہ السلام فقال لہ اجب ربک ،قال ابو ہ ر یرہ فلطم موسی عین ملک الموت فقفاھ ا ،فرجع الملک ال ی اللہ تعال ی فقال انک ارسلتنی الی عبد لک لا یرید الموت فقفا عینی ، قال فردّ اللہ ع ینہ و قال ارجع الی عبدی فقل الحیاۃ ترید فان کنت ترید الحیواۃ فضع یدک علی متن ثور فما توارت بیدک من شعرہ فانک تع یش بھ ا سن ۃ"۔ ( یعنی ملک اللموت موسی علیہ السلام کے پاس آئ ے اور ک ہ ا ک ہ اپن ے پروردگار ک ی دعوت قبول کیجئیے ! اس پر حضرت موسی نے ان ک ی آنکھ پر ا یسا تھ پ ڑ لگا یا کہ ان ک ی آنکھ پ ھ و ٹ ہی گئی اور وہ کا ن ے ہ وگئ ے ۔ چنانچ ہ ملک اللموت خدا ک ے پاس واپس گئ ے اور ک ہ ا ک ہ ت و نے مج ھ کو اپن ے ا یسے بندے ک ے پا س ب ھیجا جو مرنا ہی نہیں چاہ تا اور م یری آنکھ الگ پ ھ و ڑ د ی ۔ خدا ن ے ان ک ی آنکھ پ ھ ر پل ٹ ا د ی اور فرمایا کہ م یرے بندے ک ے پاس واپس جاؤ اور ک ہ و ک ہ اگر زندگ ی چاہ ت ے ہ و تو ب یل کی پیٹھ پر اپنا ہ ات ھ رک ھ و جتن ے بال تم ہ ار ے بات ھ م یں آجائیں گے ہ ر با ل ک ے عوض ا یک سال زندہ ر ہ وگ ے ۔)

۷۱

اور امام احمد بن حنبل نے اپن ی مسند جلد دوم صفحہ 315 م یں اور محمد ابن جریر طبری نے اپن ی تاریخ کی جلد اول "تذکرہ وفات موس ی " کے ضمن م یں ابو ہ ر یرہ سے یہی روایت اتنی زیادتی کے سات ھی نقل کی ہے ک ہ زمان ہ حضرت موس ی تک ملک الموت بندوں ک ی روح قبض کرنے کے لئے ظا ہ ر بظا ہ ر اور ک ھ لم ک ھ لا آت ے ت ھے ل یکن جب سے موس ی نے ان ک ے چ ہ ر ے پر ت ھ پ ڑ مارا اور ان ک ی ایک آنکھ پ ھ و ٹ گئ ی اس کے بعد س ے پوش یدہ اور چھ پ کر ک ے آن ے لگ ے (غالبا اس خوف س ے ک ہ جا ہ ل لوگ ک ہیں ان کی دو آنکھیں نہ پ ھ و ڑ د یں ) اس پر مجمع کے اندر ب ہ ت س ے لوگ قہ ق ہ لگا کر ہ نس پ ڑے ۔

اب آپ حضرات سے انصاف چا ہ تا ہ و ں ک ہ ک یا یہ روایت خرافات اور موہ ومات م یں سے ن ہیں ہے ؟جس کو سن کر آپ ہ نس ر ہے ہیں مجھ کو تو ا یسی خبر کے لک ھ ن ے والو ں اور نقل کرن ے والو ں پر تعجب ہ وتا ہے جن ہ و ں ن ے بغ یر سوچے سمج ھے ان ب یہ ود ہ اور موہ وم مطالب کو سپرد قلم کیا ہے ۔

انصاف موجب معرفت اور سبب سعادت ہے

آیا کسی صاحب عقل یہ قبول کر تی ہے ک ہ موس ی کلیم اللہ ج یسا کوئی اولو العزم پیغمبر معاذا اللہ اس قدر ب ے معرفت او ر بد مزاج ہ و ک ہ حکم خدا ک ی اطا عت کے بد ل ے اس ک ے قاصد کو اتنا زور دار ت ھ پ ڑ لگائ ے ک ہ اس ک ی آنکھ ہی جاتی رہے ؟

خدا کے لئ ے بتائ یے کہ اگر کوئ ی شخص یہ کہے ک ہ جناب حافظ صاحب کو ا یک بزرگ شخص نے م ہ مان ی کی دعوت دی ہے اور ان ہ و ں ن ے بجائ ے دعوت قبول کرن ے ک ے پ یغام لا نے وال ے کو ت ھ پ ڑ مار ک ے اس ک ی آنکھ پ ھ و ڑ ڈ ال ی تو کیا آپ کو ہ نس ی نہیں آئیگی اور حافظ صاحب یہ نہیں فرمائیگے کہ ا یسا کہ نا م یری تو ہین ہے ک یونکہ تحصیل علم اور تزکیہ نفس میں ایک عمر صر کردینے کے بعد ک یا میرے اندر اتنا سمجھ ن ے ک ی صلاحیت بھی پیدا نہیں ہ وئ ی کہ پ یغام لا نے وال ے ک ی کوئی خطاء نہیں ہ وت ی ! بلکہ اس ن ے تو م یرا احترام کرتے ہ و ے ایک بزرگ شخصیت کی طرف سے دعوت نام ہ پ یش کیا ۔ جب کس ی کمینے جاہ ل اور سنگدل انسان س ے ب ھی ایسی حرکت سرزد نہیں ہ وت ی تو اولوالعزم پیغمبر کلیم اللہ ن ے جو معرفت ال ہی میں کہیں اولی اور اعلی تھے ک یونکر ممکن ہے ک ہ خدا ک ے طلب کو ناقابل توج ہ سمجھیں بلکہ پ یغام لا نے وال ے فرشت ے کو جس ک ی سوا اپنا فرض ادا کرنے کے اور کوئ ی خطا نہ ت ھی ،تھ پ ڑ مار یں اور کانا بنائیں ۔

پیغمبر وں کو مبعوث کرن ے کا مقصد تو یہ ہے ک ہ و ہ لوگو ں ک ی ہ دا یت کریں اور ان کو حیوانی حرکتوں س ے باز رک ھیں تاکہ و ہ نفس ب ہیمی کے قابو م یں نہ آجائ یں اور ان سے درندگ ی کے آثار ظا ہ ر ن ہ ہ و ں ظلم وتعد ی تو جانوروں پر ب ھی ایک جاہ ل اور ب یوقوف آدمی کی طرف سے ب ھی بری چیز ہے ۔ ن ہ ک ہ اولو العزم پ یغمبر کی طرف سے ا یک ملک مقرب پر جو خدا

۷۲

کا فرستادہ اور پ یام لانے والا ہ و ۔

ہ ر سننے والا سمج ھ ل ے گا ک ہ ا یسی روایت سراسر جھ و ٹ اور ب ہ تان ہے اور علا و ہ منصب نبوت ک ے عدم معرفت اور ا ہ انت ک ے یا انبیاء عظام کو سارے انسانو ں ک ی نظروں م یں حقیر وذلیل بنانے ک ے قطعا اس ک ے گ ھڑ ن ے والو ں ک ی اور کوئی غرض نہ ت ھی ۔

میں ابو ہ ر یرہ کے ا یسے لوگوں س ے تعجب ن ہیں کرتا ہ و ں ک یونکہ یہ وہ آدم ی تھے جن ک ے متعلق خود آپ ک ے علماء ن ے لک ھ ا ہے ک ہ معاو یۃ کے روغن ی اور لذیذ دسترخوان سے اپنا پ یٹ بھ رن ے ک ے لئ ے حد یثیں وضع کرتا تھ ا اور خل یفہ عمر نے اس ی طرز عمل پر ان کو ایسا تازیانہ لگایا کہ پ یٹھ لہ و ل ہ ان ہ وگئ ی لیکن مجھ کو ح یرت تو ان اشخاص پر ہے جو علم ودانش ک ی بلند منزل پر فائز تھے ک ہ ان ہ و ں ن ے بغ یر سوچے سمج ھے ک یونکر اس طرح کی بے تک ی رویتیں اپنی کتا بوں م یں درج کردیں ۔

اور پھ ر جناب حافظ صاحب ک ے ا یسے دوسرے علماء نس ان کتابو ں کوکلام خدا ک ے قدم ب ہ قدم قرارد یدیا اور بغیر غور و مطالعہ ک ے ک ہ ت ے ہیں "ھ ما اصح الکتب بعد القرآن " یہ دونوں یعنی صحیح بخاری و صحیح مسلم قرآن کے بعد سار ی کتابوں س ے ز یادہ صحیح ہیں (مترجم)) لہ ذا جب آپ ک ی سب سے اونچ ی کتابوں م یں ایسی مہ مل روا یتیں درج ہیں تو آپ کو شیعوں کی کتابوں اور ان اخبار ک ے متعلق جو ان م یں درج ہیں ،اور زیادہ تر توجہیہ و تاویل کے قابل ہیں زبان اعتراض کھ ولن ے کا کوئ ی حق نہیں ہے ۔

میں معذرت کرتا ہ و ں ک ہ ضمن ی باتو ں م یں کافی وقت لگ گیا کیونکہ "الکلام یجر الکلام" بات میں بات نکلتی ہے (مترجم )۔

اب پھ ر اصل مقصد ک ی طرف رجوع کرتا ہ و ں جو حد یث آپ نے نقل ک ی ہے اس ک ے بار ے م یں بحث کرتا ہ و ں اور د یکھ تا ہ و ں ک ہ آ یا یہ خبر قابل حل ہے یا نہیں ۔ بد یہی بات یہ ہے ک ہ اگر کوئ ی نیک اور منصف مزاج عالم اس طرح کی واحد اور مبھ م حد یثوں کو دیکھ تا ہے (جو ہ مار ی،آپ کی کتابوں م یں بکثرت ہیں) تو ہ زارو ں صح یح السند اور صریح خبروں ک ے پ یش نظر اگر یہ قابل اصلاح ہیں ،تو اصلاح کردیتا ہے ورن ہ رد کرد یتا ہے یا کم ازکم خاموشی ہی اختیار کر لیتا ہے ن ہ یا کہ ان کو تکف یر کاحربہ بنا کر اپن ے د ینی بھ ائ یوں پر حملہ ک رے۔

اب اس حدیث کے بار ے م یں چونکہ یہ ا ں تفسیر صافی موجود نہیں ہے ہ م اس ک ے سلسل ہ اسناد س ے ب ھی واقف نہیں ہیں ،نہ یہ معلوم ہے ک ہ کس مقام پر اور کس صورت س ے نقل ک یا ہے ، اور آ یا خود اس کے اوپر کوئ ی نوٹ د یا ہے یا نہیں ہ م کو غور کرنا چائیے کہ قا بل اصلاح ہے یا نہیں ؟ میں تو اپنی کمزور عقل کے مطابق اس حد یث کے لئ ے یہی سمجھ ر ہ ا ہ و ں ک ہ ان حضرات کا ارشاد یا تو متکلمین کے درم یان اس مشہ ور قائد ے پر محمول ہے ک ہ معلول کا پورا علم کو یا علّت کا پورا علم ہے ۔یعنی جب امام کو بحیثیت امام پہ چان ل یا گیا ۔ تو یقینا خدا کو بھی پہ چ ہ ان ل یا ۔

۷۳

یا مبالغے پر محمول ہے ج یسے کوئی شخص کہے ک ہ جو شخص وز یر اعظم کو پہ چان ل ے گو یا اس نے بادشا ہ کو پ ہ چان ل یا ۔

اور اس مبالغے ک ے لئ ے ا یک قرینہ سورہ توح ید ،ودیگر قرآنی آیات اور وہ اخبار کث یرہ میں جو خود حضرت امام حسین علیہ السلام اور دوسرے ائم ہ معصوم ین علیھ م السلام سے خالص توح ید کے اثبات م یں مروی ہیں لہ ذا ک ہ ا جاسکتا ہے ک ہ اس حد یث سے مراد یہ ہے ک ہ ام ام کی معرفت ان جلیل القدر عبادتوں م یں سے ہے جو جن و انس ک ی غرض خلقت ہیں اور ائمہ معصوم ین علیھ م السلام تے ماثور ز یارات جامعہ م یں "محال معرفۃ اللہ " ک ے یہی معنی ہیں ۔

ہ م ایک دوسرے طر یقے سے ب ھی اس کے معن ی کو بیان کرسکتے ہیں ،جیسا کہ محقق ین نے اس ی طرح کے امور م یں مطلب بیان کیا ہے ک ہ ہ ر فعل کا فاعل اور ہ ر بنا ک ے استحکام س ے پہ چانا جا سکتا ہے چنانچ ہ اس ک ی ہ ر بنا اور ہ ر اثر اسک ے حالات ک ے کس ی پہ لو ک ے لئ ے کامل دل یل ہے چونکہ رسو ل خدا(ص) اور آپ ک ی آل پاک صلوات اللہ عل یھ م اجمعین امکان کے سار ے بلند منازل پر فائز ت ھے ،ل ہ ذا ان س ے ز یادہ محکم اثر اور ان سے ز یادہ جامع مخلوق کوئی اور نہیں تھ ا ۔ نت یجہ یہ کہ معرفت ال ہی کے لئ ے ان س ے ز یادہ واضح اور جامع راستہ کوئ ی اور موجود نہ ت ھ ا ۔ ل ہ ذا محل معرفت خدا یعنی جن بندوں ک ے لئ ے معرفت ممکن ہے ،ان ک ے سوا کوئ ی دوسرا نہیں ہے ۔ اب جس شخص نس ان کو پ ہ چانا گو یا خدا کو پہ چانا ۔ چنانچ ہ ان حضرات ن ے خود فرما یا ۔ "بنا عرف الل ہ بنا عبد الل ہ " یعنی ہ مار ے ذر یعے سے خدا کو پ ہ چانا گ یا اور ہ مار ے ہی ذریعے سے اس ک ی عبادت کی گئی ہے ) یعنی حق تعالی کی معرفت وعبادت کا راستہ ہ مار ے قبض ہ م یں ہے خلاص ہ یہ ہے ک ہ خدا ئ ے تعال ی کی معرفت کے لئ ے واحد اور آخر ی ذریعہ یہی جلیل القدر خاندان ہے اگر بغ یر اس خانوادے ک ی رہ بر ی کے انسان کوئ ی راہ پ یدا کرے تو وادی ضلالت میں حیران و سرگرداں ہ وگا ۔ اور ب ہ ت دشوار ہے یہ بات کہ واد ی ضلالت و حیرت میں بھٹ کا ہ و شحص بغ یر ہ دا یت کے منزل سعادت تک پ ہ نچ جائ ے یہی وجہ ہے ک ہ فر یقین کی متفق علیہ حدیث میں وارد ہے ک ہ رسول اکرم(ص)ن ے فرما یا "یا ایھ ا النّاس انی تارک فیکم الثقلین ما ان اخذتم بھ ما لن تضلوا کتاب الل ہ عزو جل و عترت ی اھ ل ب یتی" (یعنی اے لوگو م یں تمہ ار ے درم یان دوچیزیں چھ و ڑ تا ہ و ں اگر ان دو نو ں س ے حاصل کروگ ے ( یعنی ضرورت کی باتیں) تو ہ رگز گمرا ہ ن ہ ہ وگ ے ،ا یک عزوجل کی کتاب اور ایک میری عترت اور اہ ل ب یت علھیم السلام ہیں)۔

حافظ :-کچھ اس ی حدیث پر انحصار نہیں ہے ک ہ آپ اس ک ی اصلاح کی کوشش کریں بلکہ آپ ک ی کتابوں وارد تمام دعاؤ ں ک ے اندر کفر وشرک ک ے نمون ے ملت ے ہیں جیسے بغیر ذات پرور دگار عالم یک طرف توجہ کئ ے ہ وئ ے امامو ں س ے حاجت یں طلب کرنا اور یہ غیرخدا ہے حاجت طلب کرنا خود ہی شرک کی ایک مکمل دلیل ہے ۔

خیرطلب :-آپ کی ذات سے یہ بات بہ ت بع ید تھی کہ اپنے اسلاف ک ی پیروی کرتے ہ وئ ے ا یسی فضول اور بے جا بات من ہ س ے نکال یں ،واقعی آپ بہ ت ب ے انصاف ی کرتے ہیں یا پھ ر اس پر توج ہ ن ہیں کرتے ہیں کہ ک یا فرما رہے

۷۴

ہیں یا بغیر شرک کے معن ی پر غور کئے ہ وئ ے ب یان کرتے ہیں میں متمنی ہ و ں پ ہ ل ے شرک اور مشرک ک ے معن ی بیان فرما یئے تا کہ حق یقت ظاہ ر ہ و ۔

شیعوں کی طرف شرک کی نسبت دینا

حافظ:- مطلب اتنا واضح ہے ک ہ م یرے خیال میں تشریح کی ضرورت ہی نہیں ، بدیہی چیز ہے ک ہ خدائ ے بزرگ کا اقرار کرت ے ہ وئ ے غ یر خدا کی طرف توجہ کرنا شرک ہے اور مشرک و ہ شخص ہے جو غ یر خدا کی طرف رخ کرے اور اس س ے حاجت طلب کر ے ۔

جماعت شیعہ جیسا کہ مشا ہ د ہ ہے کب ھی خدا کی طرف توجہ ن ہیں رکھ ت ی ہے اور بغ یر خدا کا نام لئے ہ وئ ے اپن ے سار ے مقاصد اپن ے امامو ں س ے عرض کرت ی ہے یہ ا ں تک کہ م یں دیکھ تا ہ و ں کہ ش یعہ فقراء گزرگاہ و ں اور دروازو ں ا ور دکانوں پر آت ے ہیں ، تو کہ ت ے ہیں ۔ یا علی ، یا امام حسین یا امام رضائے غر یب یا حضرت عباس اور ایک مرتبہ ب ھی نہیں سنا گیا کہ یا اللہ ک ہیں ۔یہ باتیں خود شرک کی دلیل ہیں کیونکہ جماعت شیعہ کبھی خدا کی طرف توجہ ن ہیں کرتی بلکہ اپن ی تمام تر توجہ غ یر خدا سے وابست ہ رک ھ ت ی ہے ۔

خیر طلب:- میری سمجھ م یں نہیں آتا کہ آپ ک ی اس طرح باتوں کا ک یا مقصد سمجھ و ں ،آ یا ان کو ہٹ د ھ رم ی کی دلیل سمجھ و ں ک ہ قصدا تجا ہ ل عارفان ہ کر ر ہے ہیں یا حقائق کی طرف توجہ ن ہ کرن ے کا نت یجہ ہے ؟ م یں امید کرتا ہ و ں ک ہ آپ ہٹ د ھ رم ی کرنے والو ں م یں سے ن ہ ہ و ں گ ے ۔

چونکہ ایک عالم باعمل کے شرائط م یں سے انصاف ب ھی ہے ل ہ ذا جو شخص حق س ے واقف ہ و اور اپن ی مطلب برآوری کے لئ ے حق کش ی کرے و ہ انصاف س ے دور ہے اور جس ک ے پاس انصاف ن ہیں وہ عالم بلا عمل ہے ، حد یث رسول میں ارشاد ہے "العالم بلا عمل کا الشجر بلا ثمر"( یعنی عالم بے عمل بغ یر میوے کے درخت ک ی مثل ہے )آپ جو بار بار اپن ے جملو ں م یں شرک اور مشرک کے الفاظ زبان پر جار ی کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اپن ے لغو اور ب ے مغز دلائل س ے موحد ش یعوں کو مشرک ثابت کریں تو ممکن ہے ک ہ آپ ک ے ب یانات بے خبر سن ی عوام پر اثر انداز ہ و جائ یں اور وہ ش یعوں کو مشرک سمجھ ل یں (جیسا کہ اب تک ان پر غلط اثر پ ڑ تا ر ہ ا ہے ۔ ) ل یکن یہ محترم حاضرین جلسہ ش یعہ حضرات آپ کی تقریر سے سخت ناراض اور ناخوش ہیں اور آپ کو ایک مطلب پرست اور افترا پرداز عالم سمجھ ر ہے ہیں کیونکہ یہ اپنے عقائ د سے واقف ہیں اورسمجھ ت ے ہیں کہ آپ ن ے ان الزامات م یں سے ا یک بھی ان کے اندر موجود ن ہیں ہے ۔ ل ہ ذا اپن ے الفاظ اور ب یانات میں ایسے جملے ادا ن ہ کرن ے ک ی کوشش فرمائیے کہ ان پر سچ ی بات واضح ہ و اور ان ک ے دل آپ ک ی طرف کشش محسوس کریں۔

۷۵

میں مجبو ر ہ و ں ک ہ آپ اجازت د یں تو حاضر و غائب بردران اہ ل سنت ک ے ساد ہ ذ ہ نو ں کو روشن کرن ے ک ے لئ ے وقت ک ے لحاظ س ے مختصر طور پر شرک اور مشرک ک ے بار ے م یں اسلام کے بزرگ محقق ین حکماء وفقہ اء اور علماء ج یسے علامہ حل ی ، محقق طوسی ،علامہ مجلس ی علیھ م الرحمۃ جو اکابر و مفاخر علمائے ش یعہ میں سے ہیں ،اور دوسرے حکماء اورصاحبان تحق یق جیسے صدر المتالہین شیرازی ،ملا نوروز علی طالقانی ،ملا ہ اد ی سبزواری اور جناب صدر کے دونو با عظمت خوش مرحوم ف یض کاشانی و فیاض لاہیجانی رحھ م الل ہ کا آ یات قرآنی اور ارشادات ائمہ طا ہرین علیھ م السلام کی روشنی میں جو کچھ عق یدہ ہے و ہ آپ ک ے سامن ے پ یش کروں تاک ہ حاضر ین جلسہ یہ نہ سمج ھ ل یں کہ شرک ک ے معن ی وہی ہیں جو آپ مغالطہ د ے کر ب یان کررہے ہیں ۔

حافظ:- غصے ک ے سات ھ فرمائ یے ۔

نواب :-قبلہ اس جلس ہ ک ی بنا چونکہ ب ے سواد لوگو ں ک ے سمج ھ ن ے ک ے لئ ے ہے ل ہ ذا پ ہ ل ے ب ھی عرض کر چکا ہ و ں ، متمن ی ہ و ں ک ہ اپن ے ارشادات م یں انتہ ائ ی سادگی کا لحاظ رکھ ئ ے آپ ک ی نظر صرف حضرات علماء اور ان کی عقل کے مطابق جواب د ینے پر نہ ر ہ نا چائ یے بلکہ ا ہ ل مجلس کی اکثیریت با الخصوص ہ ند اور پ یشاور کے باشندو ں ک ی رعایت ضروری ہے جو ا ہ ل زبان ن ہیں ہے گزارش ہے ک ہ پ یچیدہ اور مشکل مطالب بیان نہ فرمائ یے گا ۔

خیر طلب :- جناب نواب صاحب آپ کی یاد دھ ان یاں میرے پیش نظر ہیں ،اور کچھ اس ی صحبت پر منحصر نہیں ہے بلک ہ ج یسا کہ پ ہ ل ے عرض کرچکا ہ و ں م یری عادت ہی یہ ہے ک ہ جس مجمع م یں کچھ عوام اور ب ے خبر افراد موجود ہ وت ے ہیں وہ ا ں قطعا اپنا روئ ے سخن خواص پر موقو ف نہیں رکھ تا ہ و ں ،اس لئ ے ک ہ پ یغمبروں کی بعثت اور کتابوں ک ے نزول ک ی غرض بے خبر لوگو ں کو متنب ہ کرنا ت ھ ا اور یہ نظریہ ہ ر گز عمل ی جامہ ن ہیں پہ ن سکتا جب تک حقائق جس طرح س ے آپ ن ے فرما یا سادہ طور پر اور قوم ک ی زبان میں بیان نہ ہ و ں چنانچ ہ حد یث میں رسول اللہ (ص) کا ارشاد ہے ک ہ "نحن معاشر الا نب یاء نکلم النّاس علی قدر عقولھ م"( یعنی ہ م پ یغمبروں کی جماعت لوگوں س ے ان ک ے عقلو ں ک ے مطابق گفتگو کرت ی ہے ) یقینا آپ کی خواہ ش اصول ی اور برابر میرے پیش نظر ہے ۔ ام ید کرتا ہ و ں ک ہ آپ ک ی منشاء کے مطابق پ ہ ل ے س ے زیادہ عمل کرسکوں گا اور متمن ی ہ و ں ک ہ جس مقام پر س ہ وا غفلت ہ وجائ ے و ہ ا ں آپ حضرات توج ہ فرماد یجئے گا ۔

شرک کے اقسام

خیر طلب :- جہ ا ں تک آ یات قرآنی کے خلاص ے ، اخبار کث یرہ اور محققین علماء کی تحقیقات کا ملہ س ے اور بالخصوص ان ا ہ م تشر یحات سے جو صدر المتال ہین اور فاضل طالقانی نے فرمائ ی ہیں معلوم ہ وتا ہے شرک ک ی دو قسمیں ہیں اور دوسرے

۷۶

اقسام شرک ان ہیں دونوں قسمو ں م یں پوشیدہ ہیں ۔ اول جل ی اور آشکار ،دوسرے شرک خف ی و پو شیدہ ۔

شرک جلی

شرک در ذات

شرک جلی کا مطلب کا مطلب یہ ہے ک ہ آدم ی ذات یا صفات یا افعال یا عبادت میں خدائے تعال ی کا کوئی شریک قراردے۔ شرک در ذات یہ ہے ک ہ حق تعال ی کے مرتب ہ الو ہیت اور ذات میں شریک قرار دے اور زبان س ے اس کا اعتراف کر ے ج یسے (بت پرست)اور مجوس جو اصل ومبداء،نوروظلمت ،یزداں اوراہ رمن ک ے قائل ہیں اور نصاری جو اقانیم ثلاثہ ک ے قائل ہ وئ ے اور ذات خداوند ی کو تین اجزا یعنی باپ بیٹ ا اور روح القدس میں تقسیم کیا ،ان میں سے بعض کا عق یدہ یہ ہے ک ہ روح القدس ک ے عوض مر یم ہیں۔ ان ت ینوں میں سے ہ ر ا یک کے لئ ے ا یک خاصیت کے معتقد ہ وئ ے جو باق ی دو میں موجود نہیں ہے ۔ اور جب تک یہ تینوں اکھٹ ا ن ہ ہ و ں ذات خداوند ی کی حقیقت مکمل نہیں ہوتی جیسا کہ سور ہ نمبر 5(مائد ہ )آ یت نمبر77 میں خدا نے ان ک ے قول ک ی تردید اور اپنی وحدانیت کا اثبات فرمایا ہے "لقد کفر الذین قالوا ان الله ثالث ثلاثة وما من اله الا اله واحد" ( یعنی یقینا وہ لوگ کافر ہ وگئ ے جن ہ و ں ن ے خدا کو ت ین میں سے ا یک جانا (یعنی تین خدا کے قائل ہ وئ ے باپ ب یٹ ا ،روح القدس) حالانکہ سوائ ے خدا ئ ے واحد ک ے اور کوئ ی خدا نہیں)۔

عقائد نصاری

اس آیہ مبارکہ م یں نصاری کے فرقو ں م یں نسطوریہ ،ملکائیہ اور یعقوبیہ کا بیان کیا گیا ہے جن ہ و ں ن ے ثنو یہ اور بت پرستوں س ے یہ عقیدہ حاصل کیا (کتاب الوثنیہ فی الدیانیۃ النصرانیۃ ۔ مؤلف تنیر بیرونی کی طرف رجوع کیا جائے ) خلاص ہ یہ کہ نصار ی ثنویہ اور مجوس کی طرح مشرک ہیں کیونکہ اقانیم ثلاثہ ک ے قائل ہیں اس میں سے ز یادہ واضح الفاظ میں وہ لوگ ک ہ ت ے ہیں کہ الو ہیت خدا،مریم اور عیسی کے درم یان مشترک ہے ان م یں سے بعض کا عق یدہ ہے ک ہ خدا ،ع یسی اور روح میں سے ہ ر ا یک خدا ہے ۔ اور الل ہ جل جلا ل ہ ان ت ین میں سے ایک ہے ،و ہ ک ہ ت ے ہیں کہ پ ہ ل ے س ے خدا ت ین تھے ۔ اقنوم الاب ، اقنوم الابن ،روح القدس(سر یانی زبان میں اقنوم کے معن ی وجود ہ ست ی ہیں) اس کے بعد یہ تینوں اقنوم ایک ہ وگئ ے اور و ہ مس یح ہیں اس میں کوئی شبہ ن ہیں کہ عقل ی ،نقلی دلائل سے دلائل اتحاد کا باطل ہ و نا ثابت ہے ۔ اور اس معن ی سے اتحاد حق یقی محال ہے حت ی کہ غ یر ذات واجب الوجود میں بھی اسی وجہ س ے آخرت م یں فرماتا ہے ۔ "وما من ال ہ الا ال ہ واحد" ( یعنی کوئی ایسی ذات واجب جو عبادت کی مستحق ہ و سواخدا ئ ے

۷۷

یکتا کے موجود ن ہیں ہے جو وحدان یت محض سے موصوف ہے ۔ شرکت کے و ہ م س ے بالاتر ہے اور سار ے ممکن موجودات کا مبداء و ہی ذات وحدہ لا شر یک ہے ۔

شرک درصفات

شرک درصفات یہ ہے ک ہ خدائ ے تعال ی کے صفات ج یسے حکمت ،قدرت اورحیات وغیرہ کو قدیم لیکن زائد ذات سمجھیں جیسے اشعری جو ابو الحسن علی ابن اسماعیل اشعری بصری کے اصحاب م یں جیسا کہ آپ ک ے اکابر علماء مثلا عل ی ابن احمد بن حزم الظاہ ر ی نے کتاب فصل جزء چ ہ ارم صفحہ نمبر 207 میں اور مشہ ور فلسف ی ابن رشد محمد بن احمد اندلسی نے کتاب "الکشف من منا ہ ج الادق ۃ فی عقائد الملۃ"صفحہ نمبر 58 م یں نقل کیا ہے ک ہ یہ لوگ معتقد ہیں کہ الل ہ ک ے صفات زائد بر ذات اور قد یم ہیں ۔ چنانچ ہ جو شخص صفات خداوند ی کو حقیقتا اس کی ذات اجل پرزائد سمجھے یعنی اس کو صفت عالمیت ،وہ مشترک ہے ا س لئے ک ہ اس ن ے قدم م یں اس کے لئ ے کفو وقر ین اور ہ مسر ثابت ک یا حالانکہ سوا حق تعال ی کی ذات ازلی کے کائنات م یں کسی قدیم کا وجود نہیں ہے اور صفات خداوند ی اس کی عین ذات ہیں جیسے شیرینی اور چکنا ہٹ الگ ک ی کی چیزیں نہیں ہیں جو شکر اور روغن کی ذات پر وارد ہ وئ ی ہ و ں بلک ہ جس وقت خدا ن ے شکر اور روغن کو پ ید کیا ، تو پھ ر و ہ شکر اور روغن ہی نہ ر ہیں گے ۔ "تلک الامثال نضرب ھ ا للناس وما یعقلھ ا الا العالمون" یہ مثالیں ذہ نو ں کو ملتفت کرن ے ک ے لئے ہیں تاکہ ہ م جس وقت بو ل یں خدا یعنی عالم ،حی ،قادر، حکیم، وغیرہ تو یہ سمجھ ل یں کہ صفات خداوند ی اس کی ذات پر زائد نہیں ہیں۔

شرک در افعال

افعال میں شرک یہ ہے ک ہ خدا کو حق یقی طو رپر متوحد اور متفرد با لذات نہ سمج ھے ،اس صورت س ے ک ہ مخلوقات م یں سے کس ی ایک فرد یا افراد کو خدا کے افعال اور تدب یروں میں مؤثر یا مؤثر کا جزء سجھے یا یہ کہ خلقت ک ے بعد امور کو مخلوق ک ے سپرد جان ے جس ک ے یہ ود ی قائل تھے ک ہ خدان ے مخلوقات کو خلق ک یا اس کے بعد امور ک ی تدبیر سے بازر ہ ا ۔

۷۸

سارا کام خلق ک ے ذم ہ چ ھ و ڑ د یا اور خود علیحدگی اختیار کر لی ۔

چنانچہ ان لوگوں ک ی مذمت میں سورہ نمبر 5 (مائد ہ )آ یت نمبر26 میں ارشاد ہے "وقالت ال یھ ود یداللہ مغلولۃ غلت ایدیھ م ولعنوا بما قالوا بل یداہ مبسوطتان ینفق کیف یشاء"(یعنی یہ ود یوں نے ک ہ ا ک ہ خدا ک ے ہ ات ھ بند ھے ہ وئ ے ہیں( اب وہ خلقت م یں کوئی تغیر نہیں کرے گا او ر نہ کوئ ی چیز پید کرے گا اس ج ھ و ٹی بات کی وجہ س ے )ان ک ے ہ ات ھ بند ھ گئ ے اور و ہ خدا ک ی لعنت میں گرفتار ہ وئ ے ۔ بلک ہ خدا ک ے دونو ں ہ ات ھ ( یعنی اس کی قدرت اوررحمت)کھ ل ے ہ وئ ے ہیں وہ جس طرح چا ہ تا ہے نفق ہ د یتا ہے )

اور مشرکین غلات جن کو مفوضہ ب ھی کہ ت ے ہیں قائل ہیں کہ خدا ن ے امامو ں کو امور تفویض کردیئے ۔ و ہی پیدا کرتے ہیں اور روزی دیتے ہیں ۔یہ بدیہی چیزیں ہیں کہ جو شخص افعال خداوند ی میں کسی طریقے سے کس ی کودخیل سمجھے ،جز مؤثر ک ی صورت سے یا انبیاء یا امتوں یا اماموں کو تفویض امور کی حیثیت سے قطعا شرک ہے ۔

شرک در عبادت

اور شرک در عبادت یہ ہے ک ہ عبادت ک ے موقع پر ظا ہ ر ی توجہ یا دل کی نیت غیر حق کی طرف رکھے مثلا نماز م یں خلق کی طرف توجہ کر ے یا اگر نذر کرتا ہے تو خلق ک ے لئ ے کر ے اور اس طرح عبادتو ں م یں نیت کی ضرورت ہے اگر عمل ک ے وقت ن یت غیر خدا کے لئ ے ہ و تو و ہ مشرک ہے کیونکہ سورہ نمبر81(ک ہ ف)آ یت نمبر110 میں صریحی طور پر اس طرح کے عمل (شرک )س ے منع ک یا گیا ہے ۔ قول ہ "فمن کان یرجو لقاآربہ فل یعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا "( یعنی جو شخص لقائے رحمت پروردگار کا ام ید وار ہے اس کو چائ یے کہ و ہ ن یکو کار بنے ( یعنی پاک اور پسندیدہ عمل کرے )اور اپن ے خدا ک ی عبادت میں ہ رگز کس ی کو اس کا شریک نہ بنائ ے ۔

عمل اور عبادت کے وقت چائ یے ک ہ غیر خدا کی طرف توجہ ن ہ کر ے ،پ یغمبر یا امام یا مرشد کی صورت نظر کے سامن ے ن ہ رک ھے اس طر یقے سے ک ہ نماز ،روز ہ ، حج، خمس، زکا ۃ اور نذر وغیرہ ہ ر قسم ک ی واجب یامستحب عبادت کا ظاہ ر عمل خدا ک ے لئ ے ہ و ل یکن دل اور باطن میں توجہ غ یر خدا کی طرف رہ ے یعنی شہ رت اور لوگو ں کو اپن ی طرف مائل کرنے ک ے لئ ے یا کسی اور مقصد سے ۔

اس لئے ک ہ عمل م یں ریا حدیث کی زبان میں شرک اصغر کہ ا گ یا ہے جو ہ ر عامل کو برباد کرن ے والا ہے چنان چہ

۷۹

حضرت رسول(ص) الل ہ خدا س ے منقول ہے ک ہ "اتقوا الشرک الاصغر" یعنی پرہیز کرو چھ و ٹے شرک س ے لوگو ں ن ے عرض ک یا یا رسول اللہ چ ھ و ٹ ا شرک کون ہے ؟فرما یا "الریاء والسمعۃ"ریا اور سمعہ ( یعنی دکھ ان ے اور سنان ے ک ے لئ ے عبادت کرنا (مترجم) )شرک اصغر ہے ۔

نیزآنحضرت (ص)سے مرو ی ہے ک ہ فرما یا " ان اخوف ما اخاف علیکم الشرک الخفی ایا کم والشرک السر فان الشرک اخفی فی امتی من دبیب النمل علی الصفا فی اللیلة الظلماء" (یعنی بد ترین چیز جس سے م یں تمھ ار ے لئ ے ڈ رتا ہ و ں و ہ پوش یدہ شرک ہے ۔ ل ہ ذا مخف ی شرک سے دور ر ہ و ک یونکہ میری امت میں شرک اندھیری رات میں سخت پتھ ر پر چون ٹی کے ر ینگنے سے ب ھی زیادہ پو شیدہ ہے پ ھ ر فرما یا جو شخص ریا کے سات ھ نمازپ ڑھے و ہ مشرک ہے ۔ جو شخص ر یا سے روز ہ رک ھے یا ریا سے صدق ہ د ے یا ریا سے حج کر ے یا ریا سے غلام آزاد ک ے و ہ ب ھی شرک ہ وگا ۔ اور یہ آخری قسم چونکہ قلب ی امور سے متعلق ہے ل ہ ذا شرک خف ی میں شامل کی گئی ہے ۔

حافظ:- ہ م آپ ہی کے ب یان سے سند ل ے ر ہے ہیں کیونکہ آپ نے فرما یا ہے ک ہ اگر کوئ ی شخص خلق کے لئ ے نذر کر ے تو و ہ مشرک ہے ل ہ ذا ش یعہ بھی مشرک ہیں ،اس لئے ک ہ ہ م یشہ امام اور امام زادے ک ے لئ ے نذر کرت ے ہیں اور چونکہ یہ نذر غیر خدا کے لئ ے ہے ل ہ ذا یقینا شرک ہے ۔

نذر کے بار ے م یں

خیرطلب :- عقل اور علم منطق کا قاعدہ یہ ہے ک ہ اگر کس ی قوم وملت کے عقائد م یں فیصلہ کرنا چائیں تو جاہ ل اور ب ے خبر لوگو ں ک ے اقوال یا افعال پر فیصلہ نہیں کیا کرتے بلک ہ اس قوم ک ے قوان ین اور ان کی معتبر کتابوں پر پورا تبصر ہ کرت ے ہیں ۔

حضرات محترم اگر آپ شیعوں کے عقائد ک ی تہ تک پ ہ نچنا چا ہ ت ے ہیں تو بے خبر ش یعہ عوام کے اقوال وافعال پر توج ہ ن ہ کرنا چا ہ ئ یے کہ اگر ب ے پ ڑھے لک ھے فق یروں نے راستو ں م یں یا علی یا امام رضا کی صدا لگادی تو آپ ان الفاظ کو ان کے یا تمام شیعوں کے شرک ک ی دلیل قرار دیں یا اگر ایک جاہ ل محض نا واقف یت میں امام یا امام زادے ک ے لئ ے نذر کر ے تو آپ اس کو اپن ے مقابل کو ز یر کرنے ک ے لئ ے حرب ہ بنا ل یں ۔ اس لئ ے ک ہ جا ہ ل اور لا ابال ی افراد تو ہ ر قوم ک ے عوام م یں پیدا ہ وت ے ہیں ۔

البتہ آپ کی نیت خالص ہے ،ب ہ ان ہ ساز ی اور عیب جوئی کے درپ ے ن ہیں ہیں اور عقلمندی کے سات ھ سمج ھ نا چا ہ ت ے ہیں تو شیعوں کی فقہی کتابوں ک ی طرف رجوع کیجئیے جو عام طور پر دستیاب ہ وت ی ہیں اور ہ ر کتب

۸۰