امام زین العابدین کی سوانح حیات

امام زین العابدین کی سوانح حیات  0%

امام زین العابدین کی سوانح حیات  مؤلف:
زمرہ جات: امام علی بن حسین(علیہ السلام)
صفحے: 113

امام زین العابدین کی سوانح حیات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: الشیعہ ڈاٹ او آر جی
زمرہ جات: صفحے: 113
مشاہدے: 27160
ڈاؤنلوڈ: 4260

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 113 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27160 / ڈاؤنلوڈ: 4260
سائز سائز سائز
امام زین العابدین کی سوانح حیات

امام زین العابدین کی سوانح حیات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

  جب کہ اس کے بالمقابل وہ مادی طرز فکر ہے جس نے اس دور کے مسلمانوں کو اپنا شکار بنا رکہا تھا ۔

  بہر حال صرف نمونہ کے طور پر ہم نے ایک بات یہاںذکر کردی ورنہ امام سجاد علیہ السلام نے اس طرح کے بے انتھا امور انجام دیئے ہےں جس کے نتیجہ میں صحیح اسلامی طرز فکر اپنے اصل خد و خال کے ساتھ اسلامی معاشرہ میں باقی رہ جائے اور اس کو امام زین العابدین علیہ السلام کا اولین کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔

  2۔ اسلام ی حکومت کی تشکیل کے لئے حقدار افراد کی طرف عوام کی رہنمائی کرنا ۔

  ان حالات میں جب کہ دسیوں سال سے پیغمبر اسلام (ص) کی ذریت طاہرہ کے خلاف پروپیگنڈہ کا بازار گرم رہا ہو اور تقریبا پورا عالم اسلام اس شورو غوغا سے لبریز ہو ۔

  پیغمبر اسلام (ص) کی طرف سے منسوب کرکے ایسی جعلی حدیثوں کا انبار لگا دیا ہو جو اہل بیت علیہم السلام کی تحریک کے سو فیصد خلاف ہوں حتیٰ کہ بعض حدیثوں میں اہل بیت علیہم السلام کو مورد سب ولعن قرار دے دیا گیا ہو ،اور یہ حدیثیں عوام کے درمیاں نشر بھی ہو چکی ہوں لوگوں کو اہلبیت(ع) کی صحیح معرفت اور ان کی معنوی حیثیت اور مقام کا علم ہی نہ ہو ۔

تو بہلا بتایئے اہلبیت علیہم السلام کے ہاتھوں حکومت کی تشکیل کیسے ممکن ہو سکتی ہے ؟ اسی لئے امام زین العابدین علیہ السلام کا ایک اہم ترین مقصد یہ بھی تھا

۴۱

کہ لوگوں کے درمیان اہلبیت علیہم السلام کی حقانیت کو واضح و آشکار کریں انہیں بتائیں کہ ولایت و امامت اور خلافت و حکومت ان کا حق ہے یہی حضرات پیغمبر ختمی مرتبت (ص (کے حقیقی جانشین ہیں ۔

ساتھ ساتھ لوگوں کو اس مسئلہ کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا جائے چنانچہ اگر یہ مسئلہ اسلامی نظریات اور آئیڈیولو جی سے تعلق رکہتا ہے پھر بھی اس کا سیاست سے بڑا گہرا ربط ہے دوسرے لفظوں میں موجودہ سیاسی نظام کے خلاف ایک سیاسی تحریک ہے ۔

  3۔امام سجاد عل یہ السلام کی تیسری اہم ذمہ داری یہ تھی کہ ایک ایسی تنظیم تشکیل دی جائے جو آئندہ کے لئے ہر طرح کی سیاسی و اسلامی تحریک کا اصل محور قرار پا سکے لیکن ایک ایسے معاشرہ میں جہاں لوگ گہڻن ،فقر مالی ، و معنوی فشار کے زیر اثر افرا تفری اور پراگندگی کی زندگی گزار نے کے عادی ہو چکے ہوں حتٰی کہ خود شیعہ حضرات ایسے سخت دباؤ اور فشار میں مبتلا کر دیئے گئے ہوں کہ ان کی تنظیمیں درہم برہم ہو کر رہ گئی ہوں بہلا امام زین العابدین علیہ السلام کے لئے کس طرح ممکن تھا کہ تن تنہا یا اپنے چند گنے چنے نا منظم مخلصین کے ساتھ اپنا کام شروع کر سکیں؟ چنانچہ کسی تحریک کے آغاز سے پہلے امام کے لئے ضروری تھا کہ وہ شیعوں کو منظم کریں اور باقاعدہ ان کی تنظیمیں تشکیل دیں ۔

۴۲

اور یہ جہاں تک میری نظر ہے ، امیر المومنین علیہ السلام کے دور میں موجود تھی البتہ بعد میں کربلا کے المناک سانحہ ،مدینہ میں حرہ کے حادثہ اور کوفہ میں مختار کے واقعہ نے تقریبا ان کی بنیادیں متزلزل کرکے رکہ دی تھیں اب ضرورت تھی کہ ان کو دوبارہ منظم کرکے ان میں ایک نئی روح پہونک دی جائے ۔

  مختصر یہ کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام کو اپنی تحریک آگے بڑھانے کے لئے بنیادی نوعیت کے حامل تین اہم کام انجام دینے تھے ۔

  اول۔ منزل من اللّٰہ ،صحیح اسلامی افکار و نظریات کی تدوین و تربیت ، جو ایک مدت سے تحریف یا فراموشی کی نذر کر دیئے گئے تھے ۔

  دوم ۔ اہلبیت علیہم السلام کی حقانیت اور خلافت و امامت و ولایت پر ان کے استحقاق کا اثبات ۔

  سوم۔ شیعایان آل محمد (ص (کو ایک نقطہ پر جمع کرکے ان کی ایک باقاعدہ تنظیم کی تشکیل ۔

  یہی وہ تین بنیادی کام ہیں جن کا ہمیں تفصیل سے جائزہ لینا ہے اور یہ دیکہنا ہے کہ ان میں سے کون سا کام امام سجاد علیہ السلام کے زمانہ انجام پایا ۔ اگر چہ ان تین امور کے علاوہ اور بھی بہت سے کام انجام پانے تھے مگر ان کو ضمنی و ثانوی حیثیت حاصل ہے ۔

۴۳

منجملہ اس کے کبھی کبھی خود امام علیہ السلام یا آپ کے ساتھیوں کے ذریعہ ایسے اقدامات عمل میں آئیں یا ایسے افکار و خیالات پیش کئے جائیں جو اس گہڻن کے ماحول میں کسی حدتک تبدیلی لا سکیں۔

  چنانچہ ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جہاں مجمع عام میں امام) ع)کے ہمنوا یا خود امام علیہ السلام کچہ ایسے خیالات کا اظہار فرماتے نظر آتے ہیں جس کا مقصد محض اس گہڻن کی فضا کو توڑ کر اس منجمد ماحول میں ہوا کا ایک تازہ جہونکا پیدا کرنا تھا ( البتہ اس طرح کے واقعات بھی اس دور کے ہیں جب تحریک میں کچہ استحکام پیدا ہوچلا تھا ) ۔

  بہر حال یہ وہ ضمنی اقدامات ہیں جس کے چند نمونے یا د دہانی کے طور پر آگے چل کر ہم پیش کریں گے ۔

اسی طرح کا ایک اور ضمنی کام براہ راست موجودہ سیاسی مشینری یا اس کے لواحقین کے ساتھ معمولی طور پنجے نرم کرنا بھیہے چنانچہ اس طرح کے قضیئے امام علیہ السلام اور عبد الملک بن مروان کے درمیان بار بار پیش آتے رہے ہیں اس کے علاوہ اسی ضمن میں حضرت (ع)اور عبدالملک سےوابستہ ) محمدبن شہاب زہری جیسے ) منحر ف علماء کے درمیان پیش آنے والے معاملات بھی شامل ہیں ۔

۴۴

  امام علیہ السلام کے دوستوں اور خلفائے وقت کے مابین ہونے والی بعض معرکہ آرائیاں بھی اسی فہرست میں آتی ہیں ۔

  اور ان سب کا ہدف و مقصد کسی حد تک اس حبساور گہڻن کے ماحول سے لوگوں کو نجات دلانا تھا ۔انشاء اللہ آگے ان جزئیات پر تفصیلی بحث کی جائے گی ۔

  اگر کوئی شخص صرف اسی حد تک میرے تمام معروضات کو اچھی طرح درک کرلے تو ساری کی ساری اخلاقی روایات موعظانہ گفتگو اور پیغامات ، عارفانہ اور دعائیں نیز دیگر بے بہا اقوال و ارشادات جو امام چہارم علیہ السلام سے مروی ہیں یا امام علیہ السلام کی زندگی میں واقع ہوتے رہے ہیں خود بخود ایک معنی پیدا کر لیں گے یعنی وہ شخص اس بات کو محسوس کرنے پر مجبور ہو جائے گا کہ امام علیہ السلام کے تمام اقدامات و ارشادات ان ہی تینوں خطوط کے ارد گردگہومتے نظر آئیں گے جن کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا ہے اور مجموعی طور پر ان تمام امور کا ایک ہی مقصد و ہدف یعنی ایک اسلامی حکومت کی تشکیل ہے ۔

  البتہ یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ امام سجاد علیہ السلام کو ہر گز اس بات کی فکر اور جلدی نہیں تھی کہ مطلوبہ اسلامی حکومت خود آپ (ع) کے زمانے میں ہی تشکیل پاجائےبلکہ آپ (ع) جانتے تھے کہ یہ کام مستقبل قریب میں آپ (ع) کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہاتھوں انجام پانا مقرر ہو چکا ہے ( جو آئندہ پیش آنے والے حادثات کی بنا پر دوبارہ معرض التوا میں پڑ گیا )

۴۵

  ہماری گزشتھ بحث اس منزل تک پہنچی تھی کہ اسلامی حکومت کی تشکیل ہمارے تمام ائمہ معصومین علیہم السلام منجملہ ان کے امام زین العابدین علیہ السلام کا بنیادی مقصد و ہدف تھا چنانچہ اس سلسلہ میں امام (ع) کی تین اہم ترین امور انجام دینے تھے کیوں کہ ان مقداماتی منزلوں کو طے کئے بغیر اسلامی حکومت کی تشکیل ممکن ہی نہیں تھی ۔

  پہلا کام

  لوگوں میں صحیح اسلامی طرز فکر پیدا کرنا تھا جو گزشتھ حاکمان جور کے ہاتھوں ایک مدت سے خود فراموشی یا تحریف کی نذر ہو چکا تھا چنانچہ اس کو اپنی اصلی و ابتدائی شکل و صورت میں واپس لانے کے لئے پورے اسلامی معاشرہ میں ہر خاص وعام کو جس حد تک بھی ممکن ہو سکے اور جہاں جہاں تک بھی امام (ع) کی تبلیغ و تعلیم کی آواز پہنچ سکے اسلامی اصول و حقائق سے آشنا کرنا بے حد ضروری تھا ۔

۴۶

  دوسرا کام

مسئلہ امامت کی حقیقت سے لوگوں کو واقف بنانا تھا یعنی عوام کے درمیان اسلامی حکومت یا اسلامی حاکمیت اور اسلامی حاکمیت کو قائم کرنے کے لئےمستحق و موزوں افراد کی نشان دہی کرنی تھی ۔

  ان کو یہ بتانا تھا کہ اس وقت جو لوگ خلافت و حکومت پر براجمان ہیں حاکمان کفر و استبداد اور مربیان فسق و نفاق ہیں ۔

  اور آج اسلامی معاشرہ میں عبدالملک بن مروان جیسوں کی حکومت ، وہ حاکمیت نہیں ہے جو اسلام اپنے معاشرہ کے لئے چاہتا ہے کیوں کہ جب تک عوام ان مسائل سے آگاہ و ہوشیار نہ ہوں گے اور اپنے آپ میں نہ آئیں گے رفتار زمانہ کے ہاتھوں ان پر جو بے حسی طاری ہوگئی ہے اس کے گرد و غبار جب تک ذہنوں سے صاف نہ ہو جائیں گے امام علیہ السلام کی نگاہ میں حاکمیت کا جو تصور ہے ان کے لئے کبھی قابل قبول نہ ہوگا ۔

  تیسرا کام

  ایک ایسی جماعت اور تنظیم تشکیل دینا جس سےوابستہ افراد دست امامت کے تربیت یافتھ مرکزی ارکان ہوں ۔

۴۷

  ان تینوں بنیادی کاموں کے انجام پاجانے کا مطلب یہ ہے کہ اب اسلامی حکومت یا علوی نظام کے لئے زمین ہموار ہو چکی ہے ۔

  البتہ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں اور یہاں پھر یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے برخلاف امام زین العابدین علیہ السلام کے پیش نظر یہ بات ہرگز نہیں تھی کہ خود ان کے زمانہ میں ہی یہ حاکمیت تبدیل ہو کر حکومت اسلامی قائم ہو جائے کیوں کہ معلوم تھا کہ امام زین العابدین علیہ السلام کے زمانہ میں اس کے لئے زمین ہموار نہیں ہو سکے گی ۔

  ظلم و زیادتی حبس اور گہڻن کا ماحول کچہ اتنا زیادہ تھا کہ محض 30سال ک ی مدت میں اس کا برطرف ہو جانا ممکن نہ تھا چنانچہ امام سجاد علیہ السلام مستقبل کے لئے زمین ہموار کر رہے تھے ۔

حتٰی کہ ایسے بھی متعدد قرآئن ملتے ہیں جس کے مطابق امام محمد باقر علیہ السلام کا بھی اپنی زندگی کے دوران ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ خود اپنے دور میں ہی اسلامی حکومت تشکیل دے دیں یعنی 6 1ہ سے 9 5 ہ ئتک جب کہ امام سجاد علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی اور پھر 9 5 ہجری سے 11 4 ہ تک جو امام محمد باقر علیہ السلام کا دور امامت ہے ان سے کوئی بھی خود اپنے زمانے میں ہی حکومت اسلامی تشکیل دے دینے کی فکر میں نہیں تھا لہٰذا ان کی نظر یں ایک مدت دراز کے بعد ظاہر ہونے والے نتائج پر تھیں چنانچہ جیسا کہ میں نے اشارتاً عرض کیا امام سجاد علیہ السلام کا طریقہ کار طویل المدت کے لئے تھا ۔

۴۸

  اب ہم امام زین العابدین علیہ السلام کے ارشادات عالیہ کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے معروضات کا ثبوت ،خود امام علیہ السلام کے اقوال میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ امام سجاد (ع)کی زندگی کے بارہ میں کوئی تحقیقی جائزہ پیش کرتے وقت ہمارے بنیادی مصادر و ماخذ خود امام علیہ السلام کے کلمات مبارکہ ہی ہونے چاہئیں ۔

  اور یہی طریقہ و روش دیگر ائمہ علیہم السلام کے سلسلہ میں بھی ہم نے اختیار کیا ہے کیوں کہ ہماری نظر میں کسی بھی امام (ع) کی زندگی سے متعلق صحیح معرفت و آشنائی کے لئے خود اس امام (ع)کی زبان مبارک سے جاری ہونے والے بیانات یا روایتیں بہترین منبع و مدرک ہیں ۔

لیکن ہم اس سے قبل بھی یہ اشارہ کر چکے ہیں کہ ہم امام (ع) کے بیانات کو صرف اس وقت صحیح طور پرسمجھ سکتے ہیں جب موقف و مقصد ، راہ عمل اور تلاش و جستجو سے آشنا ہوں ور نہ ہم جوبھی تفسیر کریں گے وہ غلط ہوگی اور خود یہ آشنائی بھی ان کے کلمات کی برکت سے ہی حاصل ہوئی ہے تو آپ دیکہیں گے کہ ائمہ علیہم السلام کے کلمات سے کتنے صحیح نتائج اس سلسلہ میں ہم کو حاصل ہوں گے ۔

  قبل اس کے کہ ہم اس بحث میں وارد ہوں ایک اہمنکتہ کی طرف بطور اختصار اشارہ کر دینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ امام علیہ السلام چوں کہ انتھائی گہڻن کے ماحول میں زندگی بسر کر رہے تھے اور آپ (ع) کے لئے ممکن نہیں تھا کہ کہل کر صریحی طور سے اپنے موقف اور نظر یات بیان کر سکیں لہٰذا آپ (ع)نے دعا اور موعظہ کو اپنے اظہار کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔

۴۹

دعا صحیفہ سجادیہ ،سے مربوط ہے جس کا ہم آئندہ ذکر کریں گے البتہ موعظہ کا تعلق ان اقوال و روایات سے ہے جو حضرت (ع) سے نقل ہوتی ہیں ۔

  امام علیہ السلام کے زیادہ تر ارشادات یا شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ تمام کے تمام بیانات موعظہ کے لب و لہجہ میں ہیں ۔

چنانچہ اسی موعظہ اور نصیحت کے ضمن میں وہ باتیں جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے ، امام علیہ السلام نے بیان فرما دی ہیں ۔

  جس وقت آپ ان بیانات کا نگاہ غائر سے مطالعہ کریں گے تو دیکہیں گے کہ امام علیہ السلام نے کتنا حکیمانہ اور مدبرانہ طریقہ کار منتخب کیا ہے بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ امام علیہ السلام لوگوں کو وعظ و نصیحت کر رہے ہیں لیکن اسی ضمن میں جوباتیں لوگوں کے ذہن میں بیڻہانا چاہتے ہیں غیر محسوس طور پر لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں اور یہ افکار و نظریات کے ابلاغ کا بہترین طریقہ ہے ۔

  یہاں ہم امام علیہ السلام کے ان کلمات کی تحقیق و تشریح کرنا چاہتے ہیں جو کتاب“ تحف العقول ” میں حضرت (ع) سے نقل کئے گئے ہیں ،اسی میں وہ مطالب جو امام سجاد علیہ السلام سے نقل ہوئے ہیں ہمیں چند نوعیت کے حامل نظر آتے ہیں جو ان ہی مذکورہ جہات کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

  ان میں بعض بیانات وہ ہیں جن میں عام لوگوں سے خطاب ہے جیسا کہ خود بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے سننے اور پڑہنے والے امام علیہ السلام کے خاص الخاص افراد نہیں ہیں

۵۰

  چنانچہ عام لوگوں سے خطاب کرتے وقت ہمیشہ قرآنی آیات سند کے طور پر پیش کی گئی ہیں کیوں کہ عوام الناس امام(ع) کو امام کی حیثیت سے نہیں پہچانتے وہ تو ہر بات کے لئے دلیل و استدلال چاہتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ امام یا تو براہ راست آیات سے استدلال پیش کرتے ہیں یا آیات سے مدد لیتے ہیں ۔

  اس روایت میں تقریبا پچاس یا اس سے بھی زائد موارد میں قرآنی آیات کا براہ راست یا استعارہ کے طور پر استعمال نظر آتا ہے ۔

  لیکن بعد کے بیان میں جہاںجہاں مومنین سے خطاب ہے ایسا نہیں ہے کیوں کہ وہ امام کی معرفت رکہتے ہیں اور ان سے امام اپنی گفتگو کے دوران چوں کہ وہ امام کی بات قبول کرتے ہیں ،قرآن سے استدلال پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیںکرتے ۔

  چنانچہ اگر شروع سے آخر تک جائزہ لیں تو قرآنی آیات بہت کم نظر آتی ہیں ۔

  امام سے ایک مفصل روایت نقل کرتے ہوئے ” صاحب تحف العقول ” فرماتے ہیں: ”موعظتھ لسائر اصحابہ و شیعتھ و تذکیرہ ا یاہم کل یوم جمعة “ یعنی یہ موعظہ اس لئے تھا کہ حضرت (ع) کے شیعہ اور حضرت (ع)کے دوست ہر جمعہ کے دن اپنو کے مجمع میں یا تنہا انفرادی طور پر اسے پڑہا کریں ۔

  یہاں مخاطبین کا دائرہ کافی وسیع ہے اور یہنکتہ خود اس تفصیلی روایت میں پائے جانے والے قرآئن سے استنباط کیا جا سکتا ہے

۵۱

  کیوں کہ اس روایت میں خطاب ایها المومنین ایها الاخوة یا اسی کے مثل کسی اور عنوان سے نہیں ہےبلکہ ایها الناس، سے خطاب ہے جو عمومیت پر دلالت کرتا ہے جب کہ بعض دوسری روایتوں میں خود خطاب کا انداز مومنین سے خطاب ہونے کی نشان دہی کرتا ہے لہٰذا یہاں عمومی خطاب ہونا ثابت ہے ۔

  اس کے علاوہ اس روایت میں موجودہ نظام کو صاف او ر صریحی انداز سے مورد مواخذہ و عتاب قرار دیئے جانے کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی صرف عقائد یا وہ باتیں بیان کی گئی ہیں جن کا جاننا انسان کے لئے ضروری ہے دوسرے لفظوں میں محض اعتقاد ات و معارف اسلامی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے جیسا کہ ہم نے عرض کیا پورا خطاب موعظہ کے لب و لہجہ میں ہے جس کی ابتدا ان الفاظ میں ہوتی ہے: ”ایها الناس اتقوا اللّٰه و اعلموا انکم الیه راجعون“ گفتگوہی موعظہ سے شروع ہوتی ہے کہ اے لوگو ! تقوائے الٰہی اختیار کرو اور یا د رکہو کہ آخر خدا کو منہ دکہانا ہے ۔ اس کے بعد عقائد اسلامی کی طرف لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمہارا فرض ہے کہ اسلام کو صحیح طور پرسمجھ نے کی کوشش کرو جس کا مطلب و مفہوم یہ ہے کہ تم اسلام کو صحیح طور پر نہیںسمجھ سکے ہو گویا اس پیان کے ذیل میں لوگوں کے اندر اسلام کی صحیح شناخت کا جذبہ بیدار کر رہے ہیں ۔ اسی طرح ذرادیکھئے کہ کتنے حسین انداز میں امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں:

۵۲

  ”الاوان اول مایسالا نک عن ربک الذی کنت تعبده“ اسی موعظانہ تقریر میں ذیل میں آگے بڑھ کر فرماتے ہیں : اس وقت سے ڈرو جب تم کو لوگ تن تنہا قبر کے حوالے کر دیں گے اور منکر و نکیر تمہارے پاس آئیں گے اور پہلی چیز جس کے بارہ میں تم سے سوال کریں گے ، تمہارے خدا سے متعلق ہوگی جس کی تم پر ستش و عبادت کرتے ہو یعنی سننے والوں کے ذہن میں توحید کا مفہوم اتار کر معرفت خدا کی لہر پیدا کر رہے ہیں ۔

  ”و عن نبیک الذی ارسل الیک ” اور تم سے اس نبی کے بارے میں سوال کریں گے جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا ۔ گویا مسئلہ نبوت اور حقیقت محمدی (ص)کے عرفان کا جذبہ زندہ کر رہے ہیں ۔

  ”و عن دینک الذی کنت تدین به ” اور اس دین کے بارے میں پوچہیں گے جس کی تم نے پیروی کی ہے ۔

  ”وعن کتابک الذی کنت تتلوه ” اور تمہاری اس کتاب کے سلسلہ میں خبر لیں گے جس کی تم تلاوت کیا کرتے تھے ۔

  اور پھر مذہب اسلام کے ان ہی بنیادی و اساسی مسائل و عقائد یعنی توحید ،نبوت ،قرآن اور دین کے ساتھ ہی ساتھ اپنے مد نظراصلینکتہ کی طرف بھی لوگوں کو متوجہ کر دیتے ہیں ۔

  ”و عن امامک الذی کنت تتولاه ” اور اس امام کے بارہ میں بھی سوال ہوگا جس کی ولایت کا تم دم بہرتے رہے ہو ۔

۵۳

  یہاں امام علیہ السلام مسئلہ امامت کو واضح کر رہے ہیں در اصل اہمہ علیہم السلام کے یہاں مسئلہ امامت مسئلہ حکومت سے الگ نہیں ہے ائمہ کے نزدیک مسئلہ ولایت اور مسئلہ امامت میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔

  اگر چہ ممکن ہے ولی اور امام کے معنی آپس میں کچہ تفاوت رکہتے ہوں لیکن یہ دونوں مسئلہ ----مسئلہ امامت ومسئلہ ولایت ----ائمہ کی زبان میں ایک ہیں اور ان سے ایک ہی معنی مراد ہیں اس جگہ حضرت (ع)اسی امام کے بارہ میں سوال کی بات کر رہے ہیں جو دینی طور پر لوگوں کی ہدایت و اگاہی کا بھی متکفل و ذمہ دار بنایا گیا ہے اور دنیوی اعتبار سے ان کے امور زندگی کا بھی نگراں اور ذمہ دار قرار دیا گیا ہے یعنی پیغمبر اسلام (ص) کا جانشین ۔

  یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں ،لوگ امام کا مطلب اچھی طرحسمجھ نے لگے ہیں ۔

  گزشتھ زمانہ میں عوام اس کا صحیح مفہوم درک کرنے سے قاصر تھے ۔

  آج ہم جانتے ہیں امام یعنی معاشرہ کا رہبر و قائد ۔

  امام یعنی وہ جس سے ہم دین بھی حاصل کرتے ہیں اور دنیا بھی اسی کے ہاتھ میں ہے جس کی اطاعت ہم پر دینی امور میں بھی واجب ہے ار دنیوی معاملات میں بھی فرض ہے ۔

  خوش قسمتی سے دور حاضر میں لفظ امام نے ہمارے ذہنوں میں اپنا صحیح مقام حاصل کر لیا ہے

۵۴

ورنہ آپ ملاحظہ فرمائیں صدیوں سے دنیا ئے تشیع میں یہ مسئلہ کتنی غلط فہمی کا شکار رہا ہے لوگ خیال کرنے لگے تھے کہ ایک شخص وہ ہے جو معاشرہ پر حکومت کر رہا ہے نظم زندگی سے متعلق امور اس کے ہاتھ میں ہیں بندش و آزادی سے لے کر جنگ و صلح تک سب کچہ اسی کے اختیار میں ہے وہی مالیات ( ڻیکس) مقرر کرتا ہے اور وہی ہمارے اچہے اور برے کا مالک و ذمہ دار ہے اور اسی کے بالمقابل ایک شخص اور بھی ہے جس کا کام لوگوں کا دین درست کرنا ہے پہلے کو حاکم کہتے ہیں دوسرے کو غیبت کے زمانہ میں عالم اور قبل از غیبت امام کہتے ہیں یعنی ائمہ علیہم السلام کے زمانہ میں ایک امام کی منزل ہم وہی تصور کرنے لگے تھے جو غیبت امام کے زمانے میں ایک عالم دین کی ہوتی ہے ظاہر ہے یہ تصور قطعا غلط ہے ۔

  در اصل امام، پیشوا اور ہادی کو کہتے ہیں جیسا کہ ہم صادق آل محمد علیہ السلام کے حالات زندگی کے ذیل میں اشارہ کر چکے ہیں کہ جس وقت امام منیٰ یا عرفات میں پہنچتے ہیں ایک مرتبہ یہ آواز بلند ارشاد فرماتے ہیں ۔

  ”یا ایها الناس ان رسول اللّٰه وهو الامام“ یعنی پیغمبر اسلام (ص) امام تھے ، امام اس کو کہتے ہیں جو لوگوں کے دین اور دنیا کا ذمہ دار ہوتا ہے ، چنانچہ امام سجاد علیہ السلام کے دور میں بھی جس وقت اسلامی معاشرہ کی حکومت و فرمانروائی عبد الملک بن مروان کے ہاتھ میں تھی ،لوگ امام کا مفہوم غلطسمجھ بیڻہے تھے ۔

۵۵

معاشرہ کی امامت کا مطلب ہی لوگوں کے مسائل حیات نیز تمام بندش و آزادی کے نظام کی نگرانی و تحفظ کرنا ہے اور یہ امامت کا ایک بڑا ہی اہم شعبہ ہے

یہ منصب اہل سے لے کر نااہلوں کے سپرد کر دیا گیا تھا ---- اور وہ نااہل خود کو امام سمجھتا بھی تھا وہی نہیںبلکہ عرصہ تک عوام بھی اس کو امام ہیسمجھ ا کرتے تھے ۔

  چنانچہ لوگ عبد الملک سے پہلے مروان بن حکم اور اس سے پہلے یزید اور اس کے پیش رووں کو اسی طرح عبدالملک کے بعد اس کی جگہ پر آنے والے دوسرے لوگوں کو اپنا امام تصور کرتے رہے ان کو معاشرہ کا رہبر نیز لوگوں کے اجتماعی مسائل پر حاکم کے عنوان سے قبول کرتے تھے ۔

  اور یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں بیڻہ چکی تھی۔

  جس وقت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں :قبر میں تم سے امامت کے بارے میں سوال کیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امام(ع) متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ فیصلہ کر لو کہ جب نکیرین سوال کریں گے کہ آیا تم نے جس کو اپنا امام منتخب کیا تھا وہ واقعی امام تھا ؟ وہ شخص جو تم پر حکومت کر رہا تھا ، معاشرہ کی رہبری جس کے ہاتھ میں تم نے دے رکہی تھی کیا وہ حقیقتاً امام ہونے کا مستحق تھا؟ کیا وہ وہی شخص تھا جس کی امامت پر خدا راضی تھا ؟ اس کا کیا جواب دوگے ؟ یعنی اس طرح حضرت (ع) لوگوں کو اس مسئلہ کی نزاکت کا احساس دلا کر انہیں بیدار کر رہے تھے گویا بالکل غیر محسوس طور پر مسئلہ امامت جس کے سلسلہ میں بنو امیہ کی پوری مشینری کسی طرح کی کوئی بات سننے پر قطعی تیار نہ تھی

۵۶

امام علیہ السلام اس کو موعظہ میں ڈہال کر ایک عمومی خطاب کے ضمن میں پیش کر کے لوگوں کے ذہن و احساس کو زندہ وبیدار کر رہے تھے ۔

  ہاں امام علیہ السلام کی روش اور طریقہ کار میں ٹہراؤ پایا جاتا ہے کسی طرح کی عجلت نظر نہیں آتی ۔

آگے چل کر جہاں امام (ع) نے ذرا سختی اور تیز ی سے کام لیا ہے ہم اس کا بھی ذکر کریں گے ۔

  مختصر یہ کہ عوام الناس سے مربوط اپنے عمومی خطاب میں امام علیہ السلام موعظہ کی زبان میں اسلامی معارف منجملہ وہ حقائق جن پر حضرت (ع)کی خاص توجہ بھی ، لوگوں کے ذہنوں میں زندہ کر رہے ہیں آپ (ع)کی کوشش ہے کہ عوام ان چیزوں کو یاد رکہیں ۔

اس قسم کے خطابات میں دو نکتے خاص طور پر توجہ کے مستحق ہیں ۔

  اولاً یہ کہ عوام الناس سے کئے جانے والے یہ خطاب تعلیمی نقطہ نظر سے نہیں پیش کئے گئے ہیںبلکہ ان کی نوعیت تذکر و یاد دہانی کی ہے یعنی یہاں امام علیہ السلام بیڻہ کر عوام کے سامنے مسئلہ توحید کے دریچے کہولنے یا مسئلہ نبوت کی گہتیاں سلجہانے کی کوشش نہیں کرتےبلکہ محض تذکر و یاددہانی مقصود ہے ۔

۵۷

  مثلا مسئلہ نبوت کو لے لیجئے ۔

  ظاہر ہے امام سجاد علیہ السلام جس معاشرہ اور جس زمانہ میں زندگی بسر کررہے تھے ابھی پیغمبر اسلام (ص) کو گزرے ہوئے اتنی زیادہ مدت نہیں ہوگئی تھی کہ مکمل طور اعتقادات اسلامی انحراف یاتحریف کا شکار ہوچکے ہوں اس زمانہ میں بہت سے ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے پیغمبر اسلام (ص) کو اپنی آنکہوں سے دیکہا تھا ،اور ائمہ اطہار علیہم السلام میں سے ۔

امیرالمومنین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام اورامام حسین علیہ السلام کو دیکہنے والے بھی موجود تھے اور اجتماعی نظام کے اعتبار سے ابھی وہ نوبت نہیں پہنچی تھی کہ لوگ مسئلہ توحید ونبوت کے سلسلے میں یا مسئلہ معاد وقرآن کے بارے میں کسی بنیادی واصولی شک وشبہ اور تحریف سے دوچار ہوں۔

ہاں یہ ضرور کہاجا سکتا ہے کہ اکثریت ان کو بہلا بیڻہی تھی ۔

مادی زندگی اس بات کی موجب ہوئی کہ لوگ اسلام ،اسلامی ،اعتقادات اور ان کی عظمت واہمیت کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے ۔

  معاشرہ میں دنیوی ومادی طمع نے اس شدت کے ساتھ لوگو ں کواپنا اسیر بنالیا تھا کہ اصلاًیہ فکر کہ انسانی زندگی میں معنویات وخیرات کے سلسلہ میں تقابل و موازنہ کا بھی کوئی میدان موجود ہے لوگوں کے ذہنوں سے بالکل نکل چکا تھا اور کسی کو اس میدان میں آگے بڑھنے کی کوئی فکر نہ تھی

۵۸

اور اگر اس طرف کوئی قدم بڑھاتابھی تو اس میں ظاہر داری اور سطحیت کا عمل دخل ہوتا توحید کے وہ آثار و فواید جو پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں یا اس سے متصل قریبی زمانہ میں لوگوں پر مرتب ہوتے تھے اور اس سلسلے میں وہ احساس و ادراک اور وہ ذمہ داری اب مفقود ہو چکی تھی لہٰذا فقط تذکر و یاد دہانی کی ضرورت تھی تاکہ لوگوں میں ادراک پیدا ہوجائے ورنہ دین میں ابھی کوئی ایسی تحریف نہیں ہوئی تھی جس کی تصحیح ضروری ہو اس کے برخلاف بعد کے زمانوں میں مثال کے طور پر امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور کو لے لیجئے یہ بات اپنی حد سے آگے بڑھ چکی تھی اس وقت خود مسلمانوں کے درمیان بہت سے متکلمین یا دوسرے لفظوں میں بہت سے فلسفی اور منطقی پیدا ہو گئے تھے جو طرح طرح کے ناموں سے بڑی بڑی مسجدوں ۔

  مسجد مدینہ ،مسجد شام ،حتیٰ کہ خود مسجد الحرام میں آکر بیڻہ جاتے تھے اور غلط افکار و عقائد کی باقاعدہ تعلیم و تدریس فرماتے تھے ۔

  وہاں ابن ابی العوجا جیسے افراد بھی موجود تھے جو زندیقیت و دہریت ےعنی وجود خدا سے انکار کا درس دیا کرتے تھے اور اس پر استدلال بھی پیش کرتے تھے ےہی وجہ ہے کہ جب امام جعفر صادق علیہ السلام کے بیانات کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو دیکہتے ہیں کہ حضرت (ع)توحید و نبوت یا اسی کے مثل دوسرے مسائل باقاعدہ استدالال کے ساتھ بیان فرماتے ہیں ،ظاہر ہے دشمن کے استدلال کے خلاف استدلال کی ہی ضرورت ہوتی ہے ۔

۵۹

جب کہ امام زین العابدین علیہ السلام کے بیانات میں یہ چیزیں نہیں ملتی ۔

حضرت (ع) اسلامی مطالب پیش کرتے وقت منطقی استدلال عوام کے سامنے پیش نہیں کرتےبلکہ صرف تذکر و یاد دہانی کے طور پر اشار ہ کر دیتے ہیں ۔

دیکہو !قبر میں تم سے توحید و نبوت کے سلسلہ میں سوالات کئے جائیں گے ۔

آپ نے ملاحظہ فرمایا یہ صرف ذہن کو ایک ڻہوکا دینے کے لئے ہے کہ انسان ان مسائل پر سوچنے کے لئے مجبور ہو جائے اور وہ چیزیں جو غفلت و فراموش کی نذر ہو چکی ہے ذہن دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہو جائے، خلاصہ بحث یہ کہ امام سجاد علیہ الصلوٰة و السلام کے دور میں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جو اس بات پر دلالت کرے کہ لوگ حتی کہ ارباب حکومت و سلطنت بھی، اسلامی فکر و نظر سے کہل کر بغاوت و برگشتگی پر آمادہ ہو ں ہاں صرف ایک موقع مجہے نظر آیا اور اس کا اظہار یزید کے اس شعر سے ہوتا ہے جواس نے غرور ومستی میں ڈوب کر اس وقت پڑہا تھا جب خانوادہ رسول اکرم (ص) کو اسیر کرکے اس کے دربار میں پیش کیا گیا ۔

وہ کہتا ہے: لعبت ہاشم باملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل

(معاذ اللہ)بنی ہاشم نے حکومت و سلطنت کے لئے ایک کہیل کہیلا تھا نہ کوئی خبر آئی اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی

۶۰