امام زین العابدین کی سوانح حیات

امام زین العابدین کی سوانح حیات  0%

امام زین العابدین کی سوانح حیات  مؤلف:
زمرہ جات: امام علی بن حسین(علیہ السلام)
صفحے: 113

امام زین العابدین کی سوانح حیات

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: الشیعہ ڈاٹ او آر جی
زمرہ جات: صفحے: 113
مشاہدے: 27162
ڈاؤنلوڈ: 4260

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 113 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27162 / ڈاؤنلوڈ: 4260
سائز سائز سائز
امام زین العابدین کی سوانح حیات

امام زین العابدین کی سوانح حیات

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اس کی طرف لوگوں کے قلبی ایمان کو جذب کریں کیوں کہ اس وقت زمانہ صدر اسلام گزرے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے تھے لوگوں کے دلوں میں اسلام کا عقیدہ و ایمان باقی تھا اگر لوگوں کو یقین پیدا ہو جاتا کہ یہ جو ظالم کی انہوں نے بیعت کی ہے درست نہیں ہے

  یا یہ خلیفہ  رسول اللہ (ص) کی خلافت کے لائق نہیں ہے یقینا اپنے آپ کو ان کے حوالے نہ کرتے۔

  اور اگر یہ بات ہم سب کے لئے قبول نہ کریں تو بھی اسلامی معاشرے میں یقینا ایسے افراد کثرت سے پائے جاتے تھے جو پورے ایمان قلبی کے ساتھ خلفاء کے دربار کی غیر اسلامی صورت حال کو تحمل کر رہے تھے یعنی ان کا خیال تھا کہ یہی اسلامی شان ہے ۔

یہی وجہ تھی کہ خلفائے جور نے اپنے دور کے زیادہ سے زیادہ دینی علماء اور محدثین کے خدمات سے استفادہ کیا اور ان لوگوں کو جو کچہ وہ چاہتے تھے اس کے لئے آمادہ کیا اور پھر ان سے کہا کہ ان کی مرضی کے مطابق خود پیغمبر اسلام (ص (اور ان کے بزرگ اصحاب سے جعلی حدیثیں روایت کریں ۔

۸۱

  حدیث گڑھنے کے کچہ نمونے

اس سلسلہ میں مثالیں موجود ہیں جو انسان کو لرزا دیتی ہیں ،نمونہ کے طور پر ہم یہ حدیث نقل کرتے ہیں :- معاویہ کے زمانہ میں ایک شخص کی کعب الاحبار (2) سے مڈبھیڑ ہو گئی ، کعب الاحبار چوں کہ معاویہ نیز دیگر شاہی امراء کے ساتھ اچہے تعلقات رکہتا تھا ،اس لئے اس شخص سے سوال کیا ۔

کہاں سے تعلق رکہتے ہو؟ اہل شام سے ہوں ۔

  شاید تم ان لشکریوں میں سے ہو جن کے ستر ہزار افراد بغیر حساب کتاب کے وارد بہشت ہوں گے !۔ وہ کون لوگ ہیں ؟ وہ سب اہل دمشق ہیں ۔

  نہیں میں اہل دمشق نہیں ہوں ۔

  پس شاید تو ان لشکریوں میں سے ہے کہ خدا جن کی طرف ہر روز دو بار نگاہ (لطف) کرتا ہے !!۔ وہ کون لوگ ہیں ؟ اہل فلسطین ۔

--------------

(2)-کعب الاحبار ایک یہودی تھا جو دوسرے دور خلافت میں مسلمان ہو گیا ،اس کی ( بیان کردہ حدیثوں کے بارے میں بہت زیادہ شک و شبہ پایا جاتا ہے نہ صرف شیعوں کے درمیان بلکہ بہت سے اہل سنت حضرات بھی اس کی حدیثوں کے بارہ میں یہی گمان رکہتے ہیں البتہ بعض اہل سنت نے اس کو قبول بھی کیا ہے

۸۲

  اگر وہ آدمی کہہ دیتا میں اہل فلسطین سے نہیں ہوں ،تو شاید کعب الاحبار ایک ایک کرکے بعلبک طرابلس اور شام کے بقیہ تمام شہروں کے ساکنین کے لئے حدیثیں نقل کرتا رہتا اور ثابت کر دیتا کہ یہ سب نہایت ہی صالح و شائستھ افراد ہیں ! سب کے سب اہل بہشت ہیں !!کعب الاحبار یہ حدیثیں یا تو شامی امراء کی خوشامد اور چاپلوسی میں گڑہا کرتا تھا تاکہ وہ ان سے زیادہ سے زیادہ انعام و مدد حاصل کرکے ان کا محبوب و مقرب بن سکے یا یہ کہ اس کے اس عمل کی جڑیں اس کی اسلام دشمنی میں تلاش کرنی پڑیں گی جس کا مقصد احادیث اسلامی خلط ملط کرکے اقوال پیغمبر اسلام (ص) کو مشتبہ اور ناقابل شناخت بنانا رہا ہوگا۔

  تذکرہ اور رجال و حدیث کی کتابوں میں اس قسم کے بہت سے واقعات موجود ہیں ۔

  ان ہی میں سے ایک اس امیر کی داستان ہے جو اپنے فرزند کو ایک مکتب میں داخل کرتا ہے اور وہاںمہتمم متکب اس کی پڻائی کر دیتا ہے ،لڑکا روتا دہوتا گہر پہنچ کر جب باپ کو اپنی پڻائی کی خبر دیتا ہے تو باپ غصہ میں بپھرا ہو ا کہتا ہے : ابھی جاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اس مہتمم مکتب کے خلاف ایک حدیث وضع کرو تاکہ مکتب کا مہتمم دوبارہ اس قسم کی غلطی کرنے کی جرات نہ کرے !! اس واقعہ سے پتھ چلتا ہے کہ ان کے لئے حدیث گڑہ لینا اس قدر آسان ہو چکا تھا کہ بچوں کی آنکہوں سے ڈہلنے والے آنسوؤں کے قطرے ،خود مہتمم مکتب یا اس کے وطن و شہر کے خلاف ایک حدیث ڈہالنے کے لئے کافی ہوتے تھے ،بہر صورت یہی حالات اس بات کا سبب بنے کہ دنیا ئے اسلام میں ہی اسلام سےبرگشتہ ایک خودساختہ مخلوط و مجعول ذہنیت اور تھذیب و ثقافت پہلنے پہولنے لگی

۸۳

،اور اس غلط ذہنیت کو جنم دینے والے وہی علماء اور محدثین تھے جو اپنے زمانہ کے صاحبان اقتدار و منصب کے ہاتھوں بکے ہوئے تھے چنانچہ ،ایسے سخت ترین حالات میں اس گروہ سے ڻکر لینا بہت ہی اہم اور فیصلہ کن ہے ۔

  محمد زہری کی چند جعلی حدیثیں

  اب ہم اس کاایک نمونہ امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی سے نقل کرتے ہیں یہ نمونہ محمد بن شہاب زہری (1) کے ساتھ حضرت (ع) کے طرز عمل کی عکاسی کرتا ہے ۔

  محمد بن شہاب زہری شروع میں امام سجاد علیہ السلام کے شاگردوں اور ساتھ اڻہنے بیڻہنے والوں میں نظر آتا ہے یعنی یہ وہ شخص ہے جس نے حضرت (ع)سے علوم حاصل کئے ہیں اور حضرت (ع)سے حدیثیں بھی نقل کی ہیں پھر بھی رفتہ  رفتہ  ---اپنے اندر پائے جانے والی جسارت کے باعث ----یہ شخص دربار خلافت سے قریب ہو تا گیا اور پھر ان درباری علماء محدثین کے زمرہ میں شامل ہو گیا جو ائمہ علیہم السلام کے بالمقابل، کہڑے کئے گئے تھے ۔ محمد بن شہاب زہری کی افتاد طبع سے مزید آشنائی پیدا کرنے کے لئے پہلے ہم اس کے بارہ میں چند حدیثیں نقل کرتے ہیں ۔

--------------

(1)- بعض نے اس کا نام محمد بن مسلم زہری بھی نقل کیا ہے یعنی اس کے باپ کا ( نام کبھی شہاب اور کبھی مسلم ملتا ہے شاید ایک اس کے باپ کا نام اور ایک اس کے باپ کا لقب رہا ہوگا۔

۸۴

  ان میں ایک حدیث وہ ہے جس میں وہ خود کہتا ہے “ کنا نکره کتابُ العلم “حتی اکرهنا علیه هوٴ لاء الا مراء فراینا ان لا یمنعه احد من المسلمین (2) شروع میں علمی قلم نگار ی سے کام لینا ہمیں اچہا نہ لگتا تھا یہاں تک کہ امراء و حکام نے ہم کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ہم جو کچہ جانتے ہیں قلم بند کردیں تاکہ کتاب کی صورت میں آجائے اس کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ کسی بھی مسلمان کو اس کام سے منع نہ کریں اور ہمیشہ علم و دانش سپر و قلم ہوتے رہیں ۔ اس گفتگو سے پتھ چلتا ہے کہ اس وقت تک محدثینکے اس گروہ کے درمیان یہ دستور رواج نہیںپایا تھا کہ جو حدیثوں کو جانتے ہیں لکھ بھی ڈالیں ۔

اسی طرح محمد بن شہاب زہری کا امراء کی خدمت میں ہونا اور ان کا اس کو اپنے علم و خواہش کے تحت حدیث قلمبند کرنے پر ابہارنا بھی اسی عبارت سے ثابت ہے ۔

  ایک “ معمر ” نامی شخص کہتاہے :ہمارا خیال تھا کہ ہم نے زہری سے بہت زیادہ حدیثیں نقل کی ہیں یہاں تک کہ ولید مارا گیا ،ولید کے قتل ہوجانے کے بعد ہم نے دیکہا کہ دفتروں کا ایک انبار ہے جو چوپایوں پر لاد کر ولید کے خزانے سے باہر کیا جا رہا ہے اور لوگ کہہ رہے ہیں کہ : یہ سب زہری کا علم ہے ۔ (3) یعنی زہری نے ولید کی خواہش اورخوشامد میں اتنے دفاتر وکتب ،حدیثوں سے پر کر دیئے تھے کہ جب ولید کے خزانے سے ان کو نکالنے کی نوبت آئی تو چوپایوں پر بار کرنے کی احتیاج محسوس ہوئی ۔

--------------

(2)-طبقات ابن سعد ،ج/ 2ص/ 3 6 ۔ 13 5

( 3)- فاذا الدفاتر قد حملت علی الدواب من خزائنہ و یقال ہذا من علم الزہری

۸۵

یہ دفاتر و کتب جو ولید کے حکم سے ایک شخص کے ذریعہ حدیثوں سے پر ہوئے ظاہر ہے ان میں کس طرح کی حدیثیں ہو سکتی ہیں ؟ بلا شبہ ان میں ایک حدیث بھی ولید کی مذمت اور اسے متنبہ کرنے والی نہیں مل سکتیبلکہ اس کے بر خلاف یہ وہ حدیثیں ہیں جن کے ذریعہ ولید اور ولید جیسوں کے کرتوتوں پر مہر تصدیق ثبت کی گئی ہے ۔

  ایک دوسری حدیث زہری کے بارہ میں ہے جو بلا شبہ اس دور سے مربوط ہے جب زہری دربار خلافت سے وابستگی اختیار کر چکا تھا یعقوبی اپنی تاریخ میں لکھتا ہے: ۔

  ”ان الزهری نسب الیٰ رسول اللّٰه (ص) انه قال : لا تشدالرجال الا الیٰ ثلاثة مساجد : المسجد الحرام و مسجد المدینة و المسجد الاقصیٰ و ان الصخرة التی وضع “رسول اللّٰه قدمه علیها تقوم مقام الکعبة (4 ) یعنی زہری نے رسول خدا (ص) کی طرف نسبت دی ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے : صاحبان ایمان و تقدس سفر نہیں اختیار کرتے مگر یہ کہ تین مساجد ---- مسجد حرام ،مسجد مدینہ اور مسجد اقصیٰ ---- کی طرف اور وہ پتھر جس پر مسجد اقصیٰ میں ،رسول خدا (ص)اپنا قدم (مبارک) رکہا تھا اس) پتھر) کو کعبہ کی منزل حاصل ہے!! حدیث کا یہی آخری ڻکڑا میری توجہ کا مرکز ہے جس میں مسجد اقصیٰ کے ایک پتھر کو کعبہ کا مقام عطا کرتے ہوئے اس کے لئے اسی شرف و اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے جو کعبہ کو حاصل ہے ۔

--------------

( 4) ۔ تاریخ یعقوبی ج/ 2ص/ 8 ،نقل از کتاب “ دراسات من الصحیح و الکافی “

۸۶

  یہ حدیث اس زمانے کی ہے جب عبداللہ بن زبیر کعبہ پر مسلط تھے اور جب کبھی لوگوں کے دل میں حج (یا عمرہ) کے لئے جانے کی خواہش ہوتی وہ مجبور تھے کہ مکہ میں ---- ایک علاقہ جو عبداللہ ابن زبیر کے زیر نفوذ ہے ---- کچہ روز بسر کریں اور یہ عبد اللہ ابن زبیر کے لئے اپنے دشمنوں کے خلاف جن میں عبد الملک ابن مروان کا نام سر فہرست آتا ہے ،پروپیگنڈہ کا سنہرہ موقع ہوتا تھا چوں کہ عبد الملک کی کوشش تھی کہ عوام ان پر وپیگنڈوں سے متاثر نہ ہونے پائیں لہٰذا وہ ان کا مکہ جانا پسند نہ کرتا تھا چنانچہ اس نے اس کی بہترین اور آسان ترین راہ یہ دیکہی کہ ایک حدیث گڑہی جائے جس کے تحت مسجد اقصیٰ کو شرف و منزلت میں مکہ اور مدینہ کے برابر قرار دے دیا جائے حتی کہ وہ پتھر جو مسجد اقصیٰ میں ہے کعبہ کے برابر شرف ومنزلت کا حامل ہو !حالانکہ ہم جانتے ہیں اسلامی ثقافت و اصطلاح میں ،دنیا کا کوئی خطہ کعبہ کی قدر و منزلت کو نہیںپہنچ سکتا اور دنیا کا کوئی پتھر خانہ کعبہ کے پتھر ---- حجر اسود ---- کا مقام حاصل نہیں کر سکتا ۔

  اس اعتبار سے اس حدیث کے گڑہنے کی حاجت اسی لئے پڑی کہ عوام کو خانہ کعبہ نیز مدینہ منورہ کی طرف سامان سفر باندہنے سے منصرف کرکے فلسطین کی طرف جانے پر ابہارا جائے کیوں کہ کعبہ کی طرح مدینہ بھی غالبا عبد الملک کے دربار کے خلاف پروپیگنڈہ مہم کا مرکز رہا ہوگا اس کے برخلاف فلسطین شام کا ہی ایک جزو تھا اور وہاں عبدالملک کو پورا تسلط اور نفوذ حاصل تھا ۔

۸۷

اب یہ جعلی حدیث عوام الناس پر کس حد تک اثر انداز ہوئی اس کو اور اق تاریخ میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا کبھی ایسا اتفاق رونما ہوا کہ لوگ مکہ جانے کے بجائے بیت المقدس کی طرف “ صخرہ” کی زیارت کے لئے گئے ہوں یا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ؟ بہر حال اگر کبھی اس طرح کا اتفاق ہوا بھی تو اس کا اصل مجرم یا مجرمین میں سے ایک محمد بن شہاب زہری کوسمجھ نا چاہئے جس نے اس طرح کی حدیث وضع کرکے عوام الناس کو ایسے شک و شبہ میں مبتلا کیا جب کہ اس کا مقصد محض عبد الملک بن مروان کے سیاسی مقاصد کو تقویت پہنچاناتھا۔

  اب جب کہ محمد بن شہاب زہری در بار خلافت سےوابستہ ہو چکا تھا اس کے لئے امام زین العابدین علیہ السلام یا خاندان علوی سے متعلق تنظیم کے خلاف حدیثیں گڑہنے میں بہلا کیا باک ہو سکتا تھا ۔

چنانچہ اس سلسلہ میں مجہے دو حدیثیں سید عبد الحسین شرف الدین مرحوم کی کتاب “ اجوبة مسائل جار الله ” میں ملیں جن میں سے ایک روایت میں محمد بن شہاب دعویٰ کرتا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام “جبری ” تھے ! اور پیغمبر اسلام (ص) سے استناد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ قرآن کی آیت “ وکان الانسان اکثر شیئی جدلا ” میں ”انسان ” سے مراد امیر المومنین علیہ السلام ہیں ‘(العیاذباللہ)۔

۸۸

  دوسری روایت میں نقل کرتا ہے کہ سید الشہدا ء جناب حمزہ نے (معاذاللہ) شراب پی تھی ۔

یہ دونوںروایتیں برسر اقتدار سیاسی ڻولے بنو امیہ اور ان کے سربراہ عبد الملک بن مروان کو ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے مقابلہ میں تقویت و حمایت پہنچانے کے لئے گڑہی گئی ہیں تاکہ اس طرح خاندان پیغمبر اسلام (ص)کے اس سلسلۃ الذہب کو جو امویوں کے مقابلے میں ہمیشہ ثابت قدم رہا ہے مسلمانوں کی اعلیٰ ترین صف سے خارج کردیں اور ان کو اس طور پر پیش کریں کہ وہ احکام اسلام سے لگاؤ اور اس پر عمل کے لحاظ سے ایک متوسط درجہ کے قاصر و عاصی انسان یا بالکل ہی عوامی سطح کے حاملبلکہ اس سے بھی گئے گزرے افراد نظر آئیں ۔

  یہ روایت دربار خلافت سے وابستگی کے دوران محمد بن شہاب زہری کی صورت حال پر بھی روشنی ڈالتی ہے ،یقینا اگر زہری کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی فکری و سماجی پوزیشن کا مل طور پر مشخص ہو سکتی ہے میں یہاں اس کو رجال کی کتابوں کے حوالے کرتا ہوں جن میںاس کے حالات تفصیل کے ساتھ درج ہیں ۔

  بہر حال !ایک ایسا شخص جو دربار خلافت میں بہت زیادہ تقرب و منزلت کا حامل ہے اور عوام کے افکار پر بھی پورے جاہ و جلال کے ساتھ مسلط ہے ۔

  1 یقینا اسلامی تحریک کے لئے ایک خطرناک وجود شمار کیا جائے گا اور اس کے سلسلے میں کوئی دنداں شکن پالیسی اختیار کرنا فطری سی بات ہے ۔

۸۹

  چنانچہ اس شخص کے مقابلہ میں امام سجاد علیہ الصلوٰۃ و السلام نہایت ہی سخت طریقہ کا ر کا انتخاب کرتے ہیں اور آپ (ع) کی یہ سخت گیری ایک خط میں منعکس نظر آتی ہے البتہ ممکن ہے کوئی فکرکرے کہ بہلا ایک خط کے ذریعہ کس حد تک حضرت (ع)کے طرز عمل کا تعین کیا جاسکتا ہے پھر بھی اس حقیقت کے پیش نظر کہ اس خط کا لب و لہجہ خو دزہری کے سلسلہ میں بھی اور اس طرح بر سر اقتدار حکومتی مشینری کے خلاف بھی بہت ہی سخت اور شدید ہے اور یہ خط محمد بن شہاب تک محدودنہیں رہتا ،دوسروں کے ہاتھ میں بھی پڑتا ہے اور پھر رفتہ  رفتہ  ایک زبان سے دوسری زبان اور ایک منہ سے دوسرے منہ تک ہوتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دامن تاریخ پہ ثبت ہو کر تاریخ کا ایک جزوبن جاتا ہے اور آج تیرہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی ہم اس خط کے بارے میں بحث کررہے ہیں ---- ان امور پہ توجہ کرنے کے بعد ---- ہم بہ آسانیسمجھ سکتے ہیں کہ یہ خط زہری جیسے نام نہاد علماء کے شیطانی تقدس پر کیسی کاری ضرب وارد کرتا یقینا اس خط کا اصل مخاطب محمد بن شہاب زہری ہے لیکن یہ اپنی زد میں اس جیسے تمام ضمیر فروش افراد کو لئے ہوئے ہے ۔

ظاہر ہے جس وقت یہ خط مسلمانوں ،خصوصا اس زمانے کے شیعوں کے ہاتھ آیا ہوگا اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں پہنچا ہوگا ان کے درمیان اس قسم کے درباری افراد کے لئے کیسی سخت بے اعتمادی پیدا ہوئی ہوگی ۔

۹۰

  اب ہم اس خط کے کچہ حصے نقل کرتے ہیں: خط کی ابتدا ء ان الفاظ میں ہوتی ہے : “کفانا اللّٰہ و ایاک من الفتن ورحمک من النار” خدا وند عالم ہمیں اور تمہیں فتنوں سے محفوظ رکہے اور تم پر آتش جہنم سے رحم کرے ۔

دوسرے فقرے میں صرف اس کو مورد خطاب قرار دیا ہے کیوں کہ فتنوں سے دو چار ہونا سب کے لئے ہے اور ممکن ہے خود امام سجاد علیہ السلام بھی کسی اعتبار سے دوچار ہوں لیکن فتنہ میں غرق ہونا امام سجاد علیہ السلام کے لئے ناممکن ہے اس کے بر خلاف زہری فتنہ سے دو چاربلکہ فتنہ میں غرق ہے۔

دوسری طرف آتش جہنم امام سجاد علیہ السلام کے قریب نہیں آسکتی لہٰذا حضرت (ع) اس کی نسبت محمد بن شہاب کی طرف دیتے ہیں خط کا آغاز ہی ایسے لب و لہجہ میں کیا جانا جو نہ صرف مخالفانہبلکہ تحقیر آمیز بھی ہو زہری کے تئیں حضرت (ع)کے طرز عمل کی خود دلیل ہے ۔

  اس کے بعد فرماتے ہیں : “ فقد اصبحت بحال ینبغی لمن عرفک بہا ان یرحمک ”تم اس منزل پر کہڑے ہو کہ جو شخص بھی تمہاری حالت کوسمجھ لے وہ تمہارے حال زار پر رحم کرے ۔

غور فرمایئے کہ یہ کس شخصیت سے خطاب ہے ؟ یہ ایک ایسے شخص سے خطاب ہے جس پر لوگ غبطہ کرتے ہیں جس کا دربار حکومت میں بزرگ علمائے دین میں شمار ہوتا ہے ۔

پھر بھی امام علیہ السلام اس کو اس قدر حقیر و ناتواں خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں : تو اس قابل ہے کہ جو لوگ تجہے اس حال میں دیکہیں ،تیرے حال پر رحم کریں ۔

۹۱

  اس کے بعد اس کو مختلف الٰہی نعمتوں سے نوازے جانے اور خدا کی جانب سے ہر طرح کی حجتیں تمام ہونے کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے امام (ع) کہتے ہیں “ ان تمام نعمتوں کے باوجود جو تجہے خدا کی جانب سے ملی ہیں کیا تو خدا کے حضور کہہ سکتا ہے کہ کسی طرح تونے ان نعمتوں کا شکر ادا کیا ؟ یا نہیں ” پھر قرآن کی چند آیتوں کا ذکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں : خدا وند عالم تیرے قصور و گناہ سے ہر گز راضی نہیں ہو سکتا کیوں کہ خدا وند عالم نے علماء پر فرض کیا ہے کہ وہ حقائق کو عوام الناس کے سامنے بیان کریں اور کتمان حق سے کام نہ لیں : “ لتبیننه للناس ولا تکتمونه“ اس تمہید کے بعد جس وقت امام خط کے اصل مطلب پر آتے ہیں تو محمد بن شہاب کے حق میں خط کا انداز اور بھی سخت ہو جاتا ہے :۔

  ”واعلم ان ادنی ما کتمت واخف ما احتملت ان انست و حشه الظالم و سهلت له طریق العزبد نوک منه حین دنوت و اجابتک له حین دعیت“ یاد رکہ! وہ معمولی ترین چیز جس کے سلسلہ میں تونے کتمان سے کام لیا ہے اور وہ سبک ترین بات جو تونے برداشت کی ہے یہ ہے کہ ظالموں کے لئے جو چیز و حشت ناک تھی اس کو تونے راحت و انسیت کا سامان بناکر ان کے لئے گمراہی کے راستے مزید ہموار کر دیئے ۔ اور یہ کام تونے محض ان کا تقرب حاصل ہوجانے کے لئے کیا چنانچہ انہوں نے تجہ کو جب بھی (کسی امر کی (دعوت دی تو تیار ہوگیا ۔ یہاں حضرت (ع) اس کی دربار حکومت و خلافت کے ساتھ قربت و وابستگی کو اس طرح اس کے سامنے پیش کرتے ہیں گویا سر پہ تازیانہ مار رہے ہوں۔

۹۲

: ”انک اخذ ت مالیس لک ممن اعطاک“ ان لوگوں سے جو کچہ تجہ کو حاصل ہوا وہ تیرا حق نہ تھا پھر بھی تونے لے لیا۔

  ”ودنوت ممن لم یرد علی احد حقاو لم ترد باطلاحین ادناک “ اور توایک ایسے شخص کے قریب ہو گیا جس نے کسی کا کوئی حق واپس نہ کی ( یعنی خلیفہ ستمگر) اور جب اس نے تجہ کو اپنی قربت میں جگہ دی تو تونے ایک بھی باطل اس سے دور نہ کیا ۔

یعنی تو بہانہ نہیں بنا سکتا کہ میں اس لئے قریبہوا تھا کہ احقاق حق اور البطال باطل کر سکوں کیوں کہ تو جس وقت سے اس کے ساتھ ہے کسی بھی امر باطل کا خاتمہ نہ کر سکا جب کہ اس کادربار سراسر باطل سے معمور ہے ۔

  ”واحببت من عاد اللّٰه ” تونے دشمن خدا کو اپنی دوستی کے لئے منتخب کر لیا ۔

  اس تھدید نامہ میں امام (ع) کا وہ جملہ جو ذہن کو سب سے زیادہ جھنجھوڑتا ہے یہ ہے کہ امام فرماتے ہیں :۔

  ”او لیس بدعاه ایاک ----حین دعاک ---- جعلوک قطباً اداروابک رحی مظالمهم وجسر ایعبرون علیه الیٰ بلا یا هم و سلما الیٰ ضلالتهم د اعیا الیٰ غیهم سالکا سبیلهم یدخلون بک الشک علی العلماء و یقتا دون بک قلوب الجهال الیهم “ آیا ایسا نہیں ہے اور تو نہیں جانتا کہ انہوں نے جب تجہ کو خود سے قریب کر لیا تو تیرے وجود کو ایک ایسا قطب اور محور بنا دیا جس کے گرد مظالم کی چکی گردش کرتی رہے اور تجہ کو ایک ایسا پل قرار دے دیا

۹۳

  جس سے ان کی تمام غلط کاریوں کے کاردان عبور کرتے رہتے ہیں ۔

انہوں نے ایک ایسی سیڑہی تعمیر کر لی ہے جو انہیں ان کی ذلت و گمراہی تک پہنچنے میں سہارا دیتی ہے تو ان کی گمراہیوں کی طرف دعوت دینے والا اور ان ہی کی راہ پر چلنے والا بن گیا انہوں نے تیرے ذریعہ علماء میں شک و شبہ کی فضا پیدا کر دی اور جاہلوں کے قلوب اپنی جانب جذب کرلئے ۔

یعنی تو علما کے اندر یہ شک و شبہ پیدا کرنے کا سبب بنا کہ کیا حرج ہے کہ ہم بھی دربار حکومت سےوابستہ ہو جائیں ؟بلکہ بعض اس دہوکے میں آبھی گئے ( اس کے علاوہ ) تو اس بات کا بھی سبب بنا کہ جہلاء بڑے اطمینان کے ساتھ خلفا ء کی طرف مائل اور ان میں جذب ہوگئے ۔

اس کے بعد حضرت (ع) فرماتے ہیں: ”فلم یبلغ اخص و زرہم ولا اقوی اعوانہم الا دون ما بلغت من اصلاح فسادہم“ ان کے نزدیک ترین وزراء اور زبردست ترین احباب بھی ان کی اس طرح مدد نہ کر سکے جس طرح تونے ان کی برئیوں کو عوام کی نظروں میں اچہا بناکر پیش کرکے مدد کی ہے ۔

  یہ خط لب ولہجہ کے اعتبار سے نہایت ہی سخت اور مضامین کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔

۹۴

امام زین العابدین علیہ السلام نے اس خط کے ذریعہ سیاسی قدرت و اقتدار اور اجتماعی زمام و اختیار کے زیر سایہ پروان چڑہنے والی علمی و فکری اقتدار اور زمامداری کی لہر کو ذلیل و رسوا کر دیا اور وہ لوگ جو دربار کے ساتھ روابط استوار کرنے کے خواب دیکہ رہے تھے ان کی نیندیں اڑگئیں وہ معاشرہ میں ایک سوال بن کر رہ گئے ایک ایسا سوال جو ہمیشہ کے لئے اسلامی در و دیوار پہ ثبت ہو کر رہ گیا اس وقت کا معاشرہ بھی اس سوال سے دو چار تھا اور تاریخ کے ہر دور میں یہ سوال اپنی جگہ بر قرار رہے گا۔

  میری نظر میں یہ امام سجاد علیہ السلام کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے اور مجہے محسوس ہوتا ہے کہ حضرت (ع) نے اپنی جد جہد محض ایک محدود طبقہ میں علمی و تربیتی تحریک پیدا کرنے تک محدود نہیں رکہیبلکہ سیاسی تحریک تک میں اس پیمانے پر حصہ لیتے رہے ہیں ۔

  اس میدان میں امام علیہ السلام کی زندگی کا ایک اور رخ بھی ہے جو شعرو شاعری سے مربوط ہے اور انشاء اللہ اس پر آگے بحث ہو ہوگی ۔

  امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ آیا یہ عظیم ہستی ارباب خلافت اور ان کی مشینری سے متعرض ہو ئی ہے یا نہیں؟ گزشتھ مباحث میں اس موضوع پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی جا چکی ہے یہاں ذرا تفصیل اور وضاحت کے ساتھ ہم اس پہلو کا جائزہ لینا چاہتے

ہیں:

۹۵

ائمہ علیہم السلام کی تحریک کے تیسرے مرحلہ کے آغاز کی حکمت عملی

جہاں تک امام سجاد علیہ السلام کی زندگی کا میں نے مطالعہ کیا ہے

  اور میری یادداشت کا سوال ہے مجہے حضرت (ع) کی زندگی میں کوئی ایک موقع بھی ایسا نہ مل سکا جہاں حکومت سے آپ (ع) نے اس طرح سے صریحی طور پر تعرض کیا ہو جیسا کہ دیگر ائمہ علیہم السلام مثلا بنی امیہ کے دور میں امام جعفر صادق علیہ السلام یا بعد میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے یہاں نظر آتا ہے ۔اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کیوں کہ ائمہ معصومین علیہم اسلام کی امامت اور سیاسی تحریک کے وہ چار ادوار جس کے تیسرے مرحلہ کا آغاز امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی سے ہوتا ہے اگر اسی مرحلہ میں خلافت سے تعرض کی تحریک شروع کردی جاتی تو پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ خطروں سے معمور ذمہ داریوں کا یہ کارواں ، اہل بیت علیہم السلام جس منزل تک لے جانا چاہتے تھے نہیں پہنچ سکتا تھا وہ گلستان اہلبیت (ع) جس کی تربیت و آبیاری امام سجاد علیہ السلام جیسے ماہرانہ صلاحیت کا حامل باغباں کر رہا تھا ،ابھی اتنا زیادہ مستحکم اور پائدار نہیں ہو سکتا تھا اس باغ میں ایسے نورس نونہال بھی موجود تھے جن میں طوفانیجھک ڑوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی ۔ جیسا کہ ہم اس بحث کے آغاز میں اشارہ کر چکے ہیں ،امام علیہ السلام کے گردو پیش اہلبیت (ع) سے محبت و عقیدت رکہنے والے مومنین کی بہت ہی مختصر سی تعداد تھی اور اس زمانے میں ممکن نہیں تھا

۹۶

کہ اس قلیل تعداد کو جس کے کاندہوں پر شیعی تنظیم کو چلانے کی عظیم ذمہ داری بھی ہے ظالم تھپیڑوں کے حوالے کر کے ان کو موت کے گہاٹ اتر جانے پر مجبور کر دیں ۔

  اگر تشبیہ دینا چاہیں تو امام زین العابدین علیہ السلام کے دور کی مکہ میں پیغمبر اسلام (ص) کی دعوت کے ابتدائی دور سے تشبیہ دی جا سکتی ہے یعنی دعوت اسلام کے وہ چند ابتدائی سال جب علی الاعلان دعوت دینا بھی ممکن نہ تھا ۔

اسی طرح شاید امام محمد باقر علیہ السلام کے دور کی پیغمبر (ص) کی مکی تبلیغ کے دوسرے دور اور پھر اس کے ادوار کی دعوت اسلام کے بعد کے ادوار سے تشبیہ غلط نہ ہوگی ۔ لہٰذا تعرض اور مڈ بھیڑ کی حکمت عملی ابھی صحیح طور پر انجام نہ پاتی۔ یقین جانئے اگر وہی تیز و تند حکمت عملی ،جو امام صادق علیہ السلام،امام کاظم علیہ السلام اور امام رضا علیہ السلام کے بعض کلمات سے مترشح ہوتی ہے،امام سجاد علیہ السلام بھی اپنا لیتے تو عبد الملک بن مروان جس کا اقتدار پورے اوج پر نظر آتا ہے ،بڑی آسانی کے ساتھ تعلیمات اہلبیت (ع) کی پوری بساط الٹ کر رکہ دیتا اور پھر کام ایک نئے سرے سے شروع کرنا پڑتا اور یہ اقدام عاقلانہ نہ ہوتا ۔ اس کے باوجود امام زین العابدین علیہ السلام کے ارشادات و اقوال میں ،جو غالبا آپ کی زندگی اور طویل دور امامت کے آخر ی دنوں سے مربوط ہیں ،کہیں کہیں حکومتی مشینری کے ساتھ تعرض و مخالفت کے اشارے بھی مل جاتے ہیں ۔ (5)

--------------

  ( 5) ۔ یہاں اشارہ کر دوں کہ اس وقت میری بحث یزید اور خاندان ابو سفیان کی خلافت ( کے ساتھ امام کے طرز عمل سے نہیں ہے یہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر پہلے ہی روشنی ڈال چکا ہوں ۔

۹۷

  ائمہ علیہم السلام کی طرف سے مزاحمت کے چند نمونہ

ائمہ علیہم السلام کی تعرض آمیز روش کے جلوے مختلف شکلوں میں ظاہر ہوئے جن میں سے ایک شکل تو وہی تھی جو محمد بن شہاب زہری کے نام امام زین العابدین علیہ السلام کے خط میں آپ نے ملاحظہ فرمائی ،ایک شکل معمولی دینی مسائل او ر اسلامی تعلیمات کے پردے میں اموی خلفاء کی وضع و سرشت اور حقیقت و بنیاد پر روشنی ڈال دینے کی تھی چنانچہ ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ”ان بنی امیة اطلقوا للناس تعلیم الایمان ولم یطلقوا تعلیم الشرک لکی اذا حملوهم علیه لم یعرفوه“ یعنی بنی امیہ نے لوگوں کے لئے تعلیمات ایمانی کی راہیں کہلی چہوڑ رکہی تھیں ،لیکن حقیقت شرکسمجھ نے کی راہیں بند کر دی ہیں کیوں کہ اگر عوام (مفہوم) شرک سے نا بلد رہے تو شرک ( کی حقیقت ) نہسمجھ سکیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ بنی امیہ نے علماء اور متدین افراد منجملہ ان کے ائمہ معصومین علیہم السلام کو نماز ، روزہ ،حج زکوٰۃ نیز دیگر عبادات اور اسی طرح توحید و نبوت سے متعلق بحث و گفتگو کرنے کی چہوٹ دے رکہی تھی کہ وہ ان موارد میں احکام الٰہی بیان کریں لیکن ان کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ شرک کا مفہوم اور اس کے مصادیق نیز اسلامی معاشرے میں موجود اس کے جیسے جاگتے نمونوں کو موضوع بحث و تدریس قرار دیں

۹۸

اس لئے کہ اگر عوام الناس کو شرک سے متعلق ان معارف کا علم ہو گیا ،وہ مشرک چہروں کو پہچان لیں گے ،وہ فوراسمجھ جائیں گے کہ بنی امیہ جن اوصاف کے حامل ہیں اور جس کی طرف انہیں گہسیٹ لے جانا چاہتے ہیں

  ،در اصل شرک ہے ،وہ فورا پہچان لیں گے کہ عبد الملک بن مروان اور دیگر خلفا ئے بنو امیہ طاغوتی ہیں جنہوں نے خدا کے مقابل سر اڻہارکہا ہے گویا جس شخص نے بھی ان کی اطاعت اختیار کی در اصل اس نے شرک کے مجسموں کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ۔

  یہی وجہ تھی کہ عوام کے درمیان شرک سے متعلق حقائق و معارف بیان کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔

  جب ہم اسلام میں توحید کے موضوع پر بحث کرتے ہیں تو ہماری بحث کا ایک بڑا حصہ شرک اور مشرک کی شناخت سے مربوط ہے ۔

  بت کسے کہتے ہیں اور کون بت پرست ہے ۔

  علامہ مجلسی نے بحار الانوار کی 4 8و یں جلد میں بڑی اچھی بات کہی ہے وہ فرماتے ہیں: ”ان اٰیات الشرک ظاهر ها فی الاصنام الظاهرة و باطنها فی خلفاء الجور الذین ) اشرکوا مع ائمة الحق و نصبوا مکانهم ” (ج/ 48 ص/ 96 و 97

۹۹

یعنی قران میں شرک کی جو آیتیں بیان کی گئی ہیں بظاہر ،ظاہر ی بتوں سے مربوط ہیں لیکن بباطن اگر تاویل کی جائے تو ان کے مصداق خلفائے جو ر ہیں

جنہوں نے خلافت کے نام پر حکومت اسلامی کے ادعا اور اسلامی معاشرے پر حاکمیت کے حق میں خود کو ائمہ علیہم السلام کا شریک قرار دے لیا ، جب کہ ائمہ  حق کے ساتھ یہ شرک خود خدا کے ساتھ شرک ہے کیوں کہ ائمہ حق خدا کے نمائندے ہیں ان کے دہن میں خدا کی زبان ہوتی ہے وہ خدا کی باتیں کرتے ہیں اور چوں کہ خلفائے جور نے خود کو ان کی جگہ پر پہنچاکر دعوائے امامت میں ان کا شریک بنا دیا لہٰذا وہ سب طاغوتی بت ہیں اور جو شخص ان کی اطاعت اور تاسی اختیار کرے وہ در اصل مشرک ہو چکا ہے ۔

  علامہ مجلسی اس کے بعد مزید توضیح پیش کی ہے ۔ چنانچہ یہ بیان کرتے ہوئے کہ قرآنی آیات پیغمبر اسلام (ص)کے دور سے مخصوص نہیں ہیںبلکہ ہر عصر اور ہر دور میں جاری و ساری ہیں وہ فرماتے ہیں: ”فهو یجری فی اقوام ترکوا طاعة ائمة الحق واتبعوا ائمة الجور “ یہ شرک کی تعبیر ،ان قوموں پر بھی صادق آتی ہے جنہوں نے ائمہ حق کی اطاعت سے انکار کرتے ہوئے ائمہ جور سے الحاق اور پیروی اختیار کر لی “ ”لعدولهم عن لاٴدلة العقلیة و النقلیه و اتباعهم الا هو اء وعدولهم عن النصوص الجليّة “ کیوں کہ ان لوگوں نے ان عقلی و نقلی دلائل سے ( جو مثال کے طور پر عبد الملک کی مسلمانوں پر حکومت و خلافت کی نفی کرتی ہیں)

۱۰۰