فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 125831
ڈاؤنلوڈ: 6308


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125831 / ڈاؤنلوڈ: 6308
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

علیکم ان هداکم للایمان ان کنتم صادقین) (1)

ترجمہ:اے نبی!یہ لوگ آپ پر احسان رکھتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے آپ ان سے کہہ دیں مجھ پر اپنے مسلمان ہونے کا احسان مت رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہاری ایمان کی طرف رہنمائی کی اگر تم سچے دل سے مسلمان ہوئے ہو۔

ارشاد ہوا:(واعلموا انّ فیکم رسول الله لو یطیعکم فی کثیر من الامر لعنتّم )(2)

ترجمہ:مسلمانوں تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بہت سی باتوں میں تمہاری اطاعت کرے پھر تو تم بکھر جاؤگے۔

اور دوسری جگہ ارشاد ہوا:(الم تر الی الّذین نهوا عن النّجوی) الی آخر(3)

ترجمہ:آپ ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جنہیں راز کی گفتگو کرنے سے روکا گیا لیکن وہ باز نہیں آئے اور اب بھی کانا پھوسی کرتے رہتے ہیں ان کی یہ راز کی گفتگو گناہ سرکشی اور پیغمبر کی نافرمانی کے لئے ہے جب آپ کو سلام کرتے ہیں تو اللہ نے جن الفاظ سے سلام کیا ہے ان الفاظ کا استعمال نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہماری باتوں پر الللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا؟ان کے لئے جہنم کافی ہے جس میں وہ جھونکے جائیں گے اور وو(جہنم)ٹھکانہ ہے اے ایمان لانے والو!اگر آپس میں راز کی باتیں کرنا ہی ہیں تو گناہ عدوان اور معصیت پیغمبر کے لئے رازداری کی بات مت کرو بلکہنیکی اور تقویٰ کے لئے کرو اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف واپس جاکے تم سب کو ہمیشہ رہنا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ حجرات آیت:17

(2)سورہ حجرات آیت:7

(3)سورہ مجادلہ آیت:9،8

۱۴۱

اللہ نے یہ کہہ کر پیغبر کی حوصلہ افزائی کی ہے:(یاایها الرّسول لا یحزنک الّذین یسارعون فی الکفر من الّذین قالوا آمنّا بافواههم ولم تومن قلوبهم) (1)

ترجمہ:اے رسول جن لوگوں نے صرف اپنی زبان سے ایمان کا اقرار کیا ہے اور جلدی جلدی پھر کافر ہورہے ہیں ان کو دیکھ کے آپ کو رنجیدہ خاطر نہیں ہونا چاہئے اصل میں ان کے دل میں ایمان نہیں لائے تھے۔

جیسا کہ اللہ نے ان لوگوں کو پیغمبرؐ کی اذیت رسانی پر ڈرایا ہے اور آپ کی مخالفت پر تنبیہ کی ہے:(یاایّها الّذین آمنوا استجیبوا لله و للرّسول اذا دعاکم لما یحییکم واعلموا...) الی آخر(2)

ترجمہ:اے ایمان لانے والو!جب اللہ اور اس کا رسول تمہیں پکارتے تو ان کی آواز پر لبیک کہو،اس لئے کہ انہوں نے تمہیں حیات ایمان بخشی ہے اور یہ جان لو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حاءل ہوجاتا ہے اور تم اسی کی طرف واپس جانے والے ہو اور اس فتنہ سے ڈرو جو خاص ظالموں کے لئے مصیبت بنےگا اور یہ جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

عون بن قتادہ کہتے ہیں کہ زبیر بن عوام نے کہا ہمیں پیغمبرؐ نے ایسے فتنے سے ڈرایا جو ہم دیکھ کر نہ تو سمجھتے تھے اور نہ ہی دیکھتے تھے کہ ہم اسی فتنہ کے لئے پیدا ہوئے ہیں ارشاد ہوا۔

(واتّقوا فتنةً لاتصیبنّ الّذین ظلموا منکم خاصّةً)

ترجمہ:ایسا فتنہ جو خاص ظالموں کو پہنچےگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ مائدہ آیت:41

(2)سورہ انفال آیت:25،24

۱۴۲

ہم بہت مدت تک اس آیت کو پڑھتے رہے بعد میں پتہ چلا کہ جنگ جمل کے لئے کہنے لگے تجھ پروائےہو ہم سب جانتے تھے مگر صبر نہیں کرسکے۔(1)

اسی طرح خدا سورہ نور میں ارشاد فرماتا ہے:(لاتجعلوا دعاء الرّسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً قد) الی آخر(2)

ترجمہ:اے ایمان دارو!جس طرح سے تم سے ایک دوسرے کو نام لے کر بلایا کرتے ہو اس طرح آپس میں رسول کو بلایا نہ کرو خدا ان لوگوں کو خراب جانتا ہے جو تم میں سے آنکھ بچاکے(پیغمبرؐ کے پاس سے)کھسک جاتے ہیں اور جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو اس بات سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ مبادا ان پر کوئی مصیبت یا ان پر کوئی دردناک عذاب نازل ہو۔

پھر اس بھی اکتفا نہیں کی بلکہ انہیں دھمکایا کہ تم آزمائے جاؤگے بغیر آزمایش کے ہم ایمان کی سند نہیں دیتے۔

سورہ عنکبوت میں ارشاد ہوا:(أحسب النّاس ان یترکوا ان یقولوا آمنّا و هم لایفتنون-ولقد فتنّا الّذین من قبلهم فلیعلمنّ الله الّذین صدقوا ولیعلمنّ الکاذبین) (3)

ترجمہ:کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف یہ کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لائے ان کو چھوڑ دیا جائےگا اور آزمایا نہیں جائےگا پھر ہم نے تو ان لوگوں سے پہلے جو امتیں تھیں انہیں آزمایا اور کون جھوٹے اور سچے ہیں ان کا بھی پتہ لگا۔

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)السنن الواردۃ فی الفتن ج:1ص:204،باب قول اللہ عزّ و جل(واتّقوا فتنةً لاتصیبنّ الّذین) تفسیر ابن کثیرج:2ص:300،آیت کی تفسیر میں

(2)سورہ نور آیت:63

(3)سورہ عنکبوت آیت:3،2

۱۴۳

(ام حسب الّذین فی قلوبهم مّرض ان لم یخرج الله اضغانهم-ولو نشاء لارینا کهم فلعرفتهم...) الی آخر(1)

ترجمہ:کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں نفاق کا مرض ہے یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا دل کے کینوں کو کبھی ظاہر نہیں کرےگا اور اگر ہم چاہتے تو ہم تمہیں ان لوگوں کو دکھا دیتے تو تم ان کی پیشانی سے ہی ان کو پہچان لیتے اور تم انہیں ان کے انداز گفتگو سے ہی ضرور پہچان لوگے اور خدا تو تمہارے اعمال سے واقف ہے اور ہم تم لوگوں کو ضرور آزمائیں گےتا کہ تم میں جو لوگ جہاد کرنے والے اور تکلیف جھیلنے والے ہیں ان کو دیکھ لیں اور تمہارے حالات جانچ لیں۔

اور اللہ نے بتادیا کہ وہ مقام امتحان میں بہت کمزور ہیں اور مال خرچ کرنے میں بہت بخیل ہیں،دوسری جگہوں کو چھوڑ کے صرف نجوی ہی کے معاملے کو لے لیجئے اللہ نے انہیں حکم دیا کہ جب نبی سے کچھ راز کی بات کہنا چاہین تو کچھ صدقہ نکال دیں اس حکم کا آنا تھا کہ بھیڑ چھٹ گئی اور سوائے امیرالمومنین علیؑ کے نبیؐ سے راز کی بات کہنے کے لئے کوئی آگے نہیں بڑھا۔(2)

اس لئے کہ اب مال خرچ ہورہا تھا قرآن مجید نے مسلمانوں کی اس حرکت پر انہیں بری طرح ذلیل کیا ہے(یاایّها الّذین آمنوا ازا ناجیتم الرّسول فقدّموا بین یدی نجواکم صدقةً ذلک خیر لّکم و اطهر فان لّم تجدوا فانّ الله غفور رّحیم-ءاشفقتمان تقدّموا بین یدی نجواکم صدقات فاذلم تفعلوا و تاب الله علیکم فاقیموا الصّلوة و آتوا الزّکوة و اطیعوا الله و رسوله و الله خبیر بما تعملون) (3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ محمد آیت:31،30،29

(2)المستدرک علی صحیحین ج:2ص:524،کتاب التفسیر سورہ مجادلہ کی تفسیر میں،تفسیر ابن کثیرج:4ص:328،سورہ مجادلہ کی آیت نجوی کی تفسیر میں،تفسیر قرطبی ج:17ص:320 اس آیت نجوی کی تفسیر میں

(3)سورہ مجادلہ آیت:13،12

۱۴۴

ترجمہ:اے ایمان دارو!جب پیغمبر سے کوئی بات کان میں کہنی چاہو تو کچھ خیرات اپنی سر گوشی سے پہلے دےدیا کرو یہی تمہارے واسطے بہتر اور پاکیزہ بات ہے پس اگر تم اس پر مقدور نہ ہو تو بیشک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے(مسلمانوں)کیا تم اس بات سے ڈرگئے کہ(رسول کے)کان میں بات کہنے سے پہلے خیرات کرلو تو جب تم لوگ(اتنا)نہ کرسکے اور خدا نے تمہیں معاف کردیا تو پابندی سے نماز پڑھو اور زکوۃ دیتے رہو اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے باخبر ہے۔

بلکہ اللہ نے سورہ محمد میں ان کی کنجوسی کے اوپر بہت ذلیل ہے اور صاف صاف یہ کہہ دیا کہ اصحاب پیغمبرؐ بہت کنجوس ہیں،سورہ محمد میں ارشاد ہوتا ہے۔

إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ-إِن يَسْأَلْكُمُوهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا وَيُخْرِجْ أَضْغَانَكُمْ-هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنكُم مَّن يَبْخَلُ وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِوَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُوَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم(1)

ترجمہ:دنیاوی زندگی تو بس کھیل تماشہ ہے اور اگر تم(خدا پر)ایمان رکھو گے اور پرہیزگاری کروگے تو وہ تم کو تمہارا اجر عنایت کرےگا اور تم سے تمہارا مال طلب نہیں کرےگا اور وہ تم سے مال طلب،رحم سے چمٹ کے مانگے بھی تو(ضرور)بخیل لگو اور خدا تو تمہارے کینہ کو ضرور ظاہر کرکے رہےگا،دیکھو تم لوگ وہی تو ہو کہ خدا کی راہ میں خرچ کے لئے بلائے جاتے ہو تو بعض تم میں ایسے بھی ہیں جو بخل کرتے ہیں اور(یاد رہے کہ)جو بخل کرتا ہے تو خود اپنے ہی سے بخل کرتا ہے اور خدا تو بے نیاز ہے اور تم(اس کے)محتاج ہو اور اگر تم(خدا کے حکم سے)منہ پھیروگے تو خدا(تمہارے سوا)دوسروں کو بدل دےگا اور وہ تمہارے ایسے(بخیل)نہ ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ محمد آیت:38،37،36

۱۴۵

اور اللہ نے اصحاب پیغمبر کے انقلاب،ارتداد اور بدکرداری پر صاف اعتراض کیا ہے چنانچہ سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے۔﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُأَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْوَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًاوَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ﴾ (1)

ترجمہ:محمد تو صرف رسول ہیں ان سے پہلے اور بھی بہتر پیغمبر گذرچکے ہیں پھر کیا اگر محمد اپنی موت سے مرجائیں یا مارڈالیں تو تم الٹے پاؤں اپنے کفر کی طرف پلٹ جاؤگے اور جو الٹے پاؤں پھرےگا بھی تو ہرگز خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑےگا اور اللہ عنقریب شکر کرنےوالوں کو اچھا بدلہ دےگا۔

اور سورہ حج میں ارشاد ہوا- ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ﴾ (2)

ترجمہ:لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو ایک کنارے پر کھڑے ہوکے اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو اگر ان کو کوئی فائدہ پہنچ گیا تو اس کی وجہ سے وہ مطمئن ہوگئے اور کہیں ان کو کوئی مصیبت چھوبھی گئی تو فوراً منھ پھیر کے کفر کی طرف پلٹ پڑے انہوں نے گھاٹا اٹھایا دنیا و آخرت میں(صریح گھاٹا)

سورہ محمد میں ارشاد ہوا۔فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ آل عمران آیت:144

(2)سورہ حج آیت:11

۱۴۶

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ) (1)

ترجمہ:کیا تم سے کچھ دور ہے کہ اگر تم حاکم ہوتے تو روئے زمین مٰں فساد پھیلانے اور اپنے رشتہ ناتوں کو توڑنے لگو یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور اللہ نے ان کے کانوں کو بہرا اور آنکھوں کو اندھا کردیا۔

اللہ نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ صراحت سے بتادیا کہ اصحاب پیغمبرؐ میں کچھ لوگ طیب ہیں اور کچھ خبیث اور تمام چہرے جانے پہچانے ہیں کسی شک و شبیہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:

(مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ)(2)

ترجمہ:(منافقو)خدا ایسا نہیں کہ برے بھلے کی تمیز کئے بغیر جس حالت میں تم ہو اسی حالت پر مومنوں کو بھی چھوڑ دے اور خدا ایسا بھی نہیں غیب کی باتیں بتادے مگر ہاں خدا اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے غیب کی باتیں بتانے کے لئے چن لیتا ہے۔

ظاہر ہے کہ اللہ نے جنہیں غیب کی باتیں بتانے کے لئے چنا ہے وہ منافقین نہیں ہیں اس لئے منافقین تو اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے پہچانے جاچکے ہیں۔

صالح بندے بہت کم ہیں کہ جن کی طرف متنبہ کیا گیا ہے:

ارشاد ہوا:(وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ) (3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ محمد آیت:22/23

(2)سورہ آل عمران آیت:179

(3)سورہ سبا آیت:13

۱۴۷

میرے شکرگذار بندے بہت کم ہیں

سورہ واقعہ میں ارشاد ہوا: (ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ-وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ) (1)

ترجمہ:بے شک صالح لوگ کچھ گذشتہ امتوں سے تھے اور کچھ آنے والی امتوں میں اسی طرح اللہ نے متوجہ کیا ہے کہ مقام امتحان میں ثابت قدم رہنے والے بھی بہت کم ہیں سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے: (وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْوَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا) (2)

ترجمہ:اگر ان پر ہم واجب کردیں کہ اپنے نفسوں کو قتل کرڈالو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو یہ لوگ ایسا نہیں کریں گے سوائے چند افراد کے حالانکہ جن باتوں کو کرنے کے لئے ان سے کہا جارہا ہے ان میں انھیں کی بھلائی ہے اور شدید ثابت قدمی کا ثبوت ہے۔

کتاب عزیز میں اللہ نے منافقین کے بارے میں اور مریض دلوں کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے کبھی ان کی مذمت کی ہے کبھی انھیں برا کہا ہے،کبھی انہیں عذاب شدید سے ڈرایا ہے کبھی دنیا کی ذلت اور آخرت کے عذاب کی پیشین گوئی کی ہے ظاہر ہے کہ اس مختصر سے کتابچہ میں ان تمام باتوں کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

عام اصحاب کے بارے میں نبی کریمؐ کا نظریہ

وہ حدیثیں جو اصحاب کے بارے میں نبیؐ سے مروی ہیں ان آیتوں سے تعداد میں کم نہیں ہیں روایت ہے کہ سرکار دو عالم نے انھیں خطاب کرکے فرمایا تم ضرور گذشتہ امتوں کی پیروی کروگے،ہر قدم پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ واقعہ آیت:14،13

(2)سورہ نساءآیت:66

۱۴۸

پیروی کروگے ان کے قدموں سے قدم ملا کر چلوگے،یہاں تک کہ اگر وہ بچھو کے سوراخ میں بھی داخل ہوئے ہوں تو تم ان کے پیچھے پیچھے چلے جاؤگے،مجمع نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا گذشتہ امتوں سے مراد یہود و نصاری ہیں،آپ نے فرمایا پھر کون ہے؟(1) اسی طرح جناب حذیف کا قول ہے کہ تم بنواسرائیل کی قدم بقدم پیروی کروگے البتہ میں یہ نہیں جانتا کہ تم بنواسرائیل کی طرح بچھڑے کو پوجوگے یا نہیں؟(2) اور مام مالک کی موطا میں یہ حدیث ہے کہ امام مالک ابونضر سے جو عبداللہ ابن عمر کے غلام تھے یہ بات سنی کہ عبیداللہ ابن عمر کو بتایا کہ سرکارؐ نے فرمایا میں احد کے شہیدوں پر گواہ ہوں تو ابوبکر نے پوچھا یا رسول اللہؐ کیا ہم لوگ ان میں شامل نہیں ہیں ہم بھی انھیں کی طرح اسلام لائے اور ہم نے بھی انھیں کی طرح جہاد کیا حضورؐ نے فرمایا یقیناً تم اسلام لائے اور تم نے جہاد کیا لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میرے بعد تم کیا حرکتیں انجام دوگے؟ین سن کے ابوبکر رونے لگے اور بہت دیر تک روتے رہے پھر کہنے لگے کیا آپ کے بعد ہم کچھ برے کام کرنے والے ہیں؟(3)

حدیث حسن میں ہے کہ سرکار دو عالمؐ جنت البقیع کے قبرستان میں کھڑے ہوئے اور فرمایا اے قبروں میں سونے والے مومنو اور مسلمانوں تم پر سلام ہو کاش تم جان سکتے کہ اللہ نے تمہیں کن فتنوں سے نجات دی جو تمہارے بعد اٹھنے والے ہیں پھر آپ نے اپنے اصحاب کی طرف دیکھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:6ص:2669،کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ،نبی کا قول کے اپنے سے پہلےوالوں کے اتباع کے بارے میں،اسی طرح ج:3ص:1274،کتاب الانبیاء:باب ما ذکر عن بنی اسرائیل،سنن بن ماجہ ج:2ص:1322،کتاب الفتن،افتراق امم کے باب میں مجمع الزوائدج:7ص:261،کتاب الفتن،ماضی کے سنتوں پر عمل کرنے کے باب میں۔المستدرک علی صحیحین ج:1ص:92۔93کتاب الایمان،صحیح بن جبان ج:15ص:95،اس حدیث کے ذیل میں کہ جس میں کہا گیا ہے کہ امت فتن و حوادث کا شکار ہوگی،مسند احمدج:2ص:327،مسند ابی ھریرہ ج:3ص:89مسند سعید الخدری،مسند الطالسی ج:2ص:289جس میں ابوسعید خدری نے نبیؐ سے روایت کی ہے

(2)مصنف ابن ابی شیبہ ج:7ص:481،کتاب الفتن،جو فتنہ سے بھاگتے ہیں اور پناہ مانگتے ہیں

(3)موطا مالک ج:2ص:461۔کتاب الجھاد:باب الشہداء فی سبیل اللہ،التمھید بن عبدالبرج:21ص:228

۱۴۹

اور فرمایا قبروں میں سونے والے تم سے اچھے ہیں اصحاب کہنے لگے خدا کے رسولؐ وہ ہم سے اچھے کس وجہ سے ہوگئے ہماری طرح وہ بھی مسلمان ہوئے ہماری طرح انہوں نے بھی ہجرت کی اور ہماری طرح انہوں نے بھی راہ خدا میں خرچ کیا پھر وہ ہم سے اچھے کس طرح ہوگئے آپ نے فرمایا کہ انھوں نے محنت کی لیکن مزدوری میں سے کچھ کھایا نہیں میں ان پر گواہ ہوں اور تم نے جو محنت کی تو اس کی مزدوری کھارہے ہو اور مجھے نہیں معلوم کہ میرے بعد تم کیا کروگے۔(1)

اس طرح ہادی برحق نے آنےوالے فتنوں کے خطرے سے اپنے اصحاب کو آگاہ کردیا اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ سرکارؐ مدینہ کے ایک ٹیلے پر چڑھے اور فرمایا مسلمانوں کیا تم بھی وہ دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں میں تو تمہارے گھروں میں فتنوں کو گرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں جیسے بارش کے قطرے گرتے ہیں۔(2)

اور عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبرؐ عائشہ کے گھر سے نکلے اور کہا فتنہ کی جڑ یہاں ہے اور یہیں سے شیطان کی سینگ نکلےگی۔(3)

عبداللہ ابن عمر ہی کہتے ہیں کہ ایک دن سرکارؐ عائشہ کے حجرہ کا سہارا لےکر کھڑے تھے اور فرمارہے تھے فتنہ یہاں پر ہے فتنہ یہاں پر ہے یہیں سے شیطان کی سینگ نکلیں گے(4) پھر ان عمر ہی سے روایت ہے کہ حضرت نے منبر کی طرف بڑھتے ہوئے فرمایا فتنہ یہاں ہے اور یہیں سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ مدینہ منورہ ج:1ص:94،اسی طرح الزہد لابن مبارک ص:171،المصنف عبدالرزاق ج:3ص:575،کتاب الجنائز،قبروں پر سلام کے باب میں،تفسیر ثعلبی ج:4ص:154

(2)صحیح بخاری ج:2ص:871،کتاب المظالم:باب اماطۃ الاذی،صحیح مسلم ج:4ص:2211،کتاب الفتن و اشتراط الساعۃ:باب نزوالفتن کمواقع القطر،المستدرک علی صحیحین ج:4ص:553،کتاب الفتن و الملاحم،مسند احمدج:2ص:200،حدیث اسامہ بن زید

(3)مسند احمدج:2ص:23،اور اسی طرح مسند عبداللہ بن عمر بن خطاب میں ص:26

(4)السنن الواردہ فی الفتن ج:1ص:235،نبی کے قول کے باب میں،فتنہ شرق کی طرف سے ہوگا

۱۵۰

شیطان کے سینگ نکلیں گے۔(1)

نافع نے عبداللہ سے روایت کی ہے کہ پیغمبر ممنبر سے خطبہ دے رہے تھے کہ آپ نے عائشہ کے گھر کی طرف اشارہ کیا اور تین مرتبہ فرمایا کہ وہاں فتنہ ہے وہیں سے شیطان کے سینگ نکلیں گے۔(2)

ابی مویہبہ جو پیغمبرؐ کے غلام تھے کہتے ہیں کہ ایک دن سرکار جنت البقیع کے قبرستان میں داخل ہوئے اور فرمایا اے قبر میں سونےوالو تم پر سلام ہو جس حال میں تم ہو وہ زندہ لوگوں سے بہت بہتر ہے کاش تم جان سکتے کہ اللہ نے کن برے حالات سے تمہیں نجات دی ہے فتنے بڑھے چلے آرہے ہیں جیسے اندھیری رات آتی ہے،جس میں ایک فتنہ کے بعد دوسرا فتنہ آرہاہے اور دسرا فتنہ پہلے فتنہ سے بڑا ہے۔(3)

کعب بن عجرہ انصاری کہتے ہیں کہ ہم مسجد نبوی میں بیٹھے تھے اور ہم نو آدمی تھے کہ پیغمبرؐ مسجد میں داخل ہوئے اور تین بار فرمایا کہ کیا تم سن رہے ہو تمہارے اوپر کچھ لوگ امام ہونےوالے ہیں پس جوان کے جھوٹ کی تصدیق اور ان کے ظلم کی تائید کرےگا وہ مجھ سے نہیں ہے نہ میں اس سے ہوں وہ حوض کوثر پر مجھ سے نہیں ملےگا اورجوان کے پاس جاکر ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کرےگا اور ان کے ظلم میں اعانت نہیں کرےگا وہ مجھ سے اور میں اس سے ہوں وہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرےگا۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)فوائد للیث بن سعدص:70،گیارویں حدیث

(2)صحیح بخاری ج:3ص:1130،ازواج نبی کے بیوت کے باب میں

(3)مسند احمدج:3ص:489،حدیث ابی مویہبہ مولی رسول اللہ،المستدرک علی صحیحین ج:3ص:57،کتاب المغازی،مجمع الزوائدج:9ص:24،کتاب علامات النبوۃ،باب تخّیر بین الدنیا والآخرۃ،المعجم الکبیرج:22ص:346،اور اسی طرح سنن الدارمی ج:1ص:50،باب وفات النبیؐ طبقات الکبریٰ ج:2ص:204،فی ذکر خروج رسول اللہ

(4)السنن الکبریٰ بیہقی ج:8ص:165،کتاب قتال اہل البغی:جماع ابواب العاۃ...،مجمع الزوائدج:5ص:247،کتاب الخلافۃ:باب فیمن یصدق الامراء،المعجم الکبیرج:19ص:141،شعب الایمان ج:7ص:46،السادس و الستون من باب الایمان

۱۵۱

اور اسی طرح اس کے علاوہ بھی حدیث ہے(1)

ابومریم کی حدیث ہے کہ میں نے عماریاسر کو کہتے سنا کہ انہوں نے ابوموسیٰ سے کہا اے ابوموسی میں تمہیں خدا کی قسم دے کے پوچھ رہاہوں کہ پیغمبرؐ نے خاص کر تمہاری طرف متوجہ ہوکے نہیں کہا تھا کہ ہماری امت میں عنقریب فتنہ اٹھنےوالا ہے اے ابوموسیٰ اس وقت تم سوجاؤگے جب کہ اٹھ بیٹھنےوالا تم سے بہتر ہوگا اور تم بیٹھے ہوگے جب کہ کھڑا رہنےوالا تم سے بہتر ہوگا اور تم کھڑے ہوگے جب کہ چلنے والا تم سے بہتر ہوگا ابوموسیٰ پیغمبرؐ نے خاص تمہیں مراد لیا تھا اور لوگوں کو شامل نہیں کیا تھا،راوی کہتا ہے کہ یہ سن کے ابوموسیٰ بہت خاموشی سے کھسک گئے اور عمار کا کوئی جواب نہیں دیا۔(2)

حذیفہ کہتے ہیں ہم پیغمبرؐ کی خدمت میں تھے کہ آپ نے فرمایا جو لوگ اسلام کا اقرار کرتے ہیں انہیں شمار تو کرو ہم نے خدا کے رسول ہم لوگ چھ یا سات سال سو ہیں آپ کو ہمارے بارے میں کوئی خوف ہے کیا؟آپ نے فرمایا تمہیں معلوم نہیں ہے تم لوگ آزمائے جاؤگے حذیفہ کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی اور ہم لوگ ایسے آزمائش میں پڑے کہ چھپ کے نماز پڑھی پڑی(3) اور پیغمبرؐ کے دور کی نماز کو چھپاکے پڑھنا ہمیں ضروری ہوگیا ورنہ نمازیں ہمارے یہاں جماعت سے پڑھی جاتی تھیں لیکن نبی والی نماز نہیں تھی(ختم حدیث)مناسب معلوم ہوتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)السنن الکبریٰ بیھقی ج:8ص:165،کتاب قتال اہل البغی:جماع ابواب الرعاۃ،سنن الترمذی ج:4ص:525،کتاب الفتن،المستدرک علی صحیحین ج:1ص:151،کتاب الایمان،صحیح ابن حبان ج:1ص:513 اسی طرح،ص:517،کتاب البر و الاحسان:باب الصدق و الامر بالمعروف،اور ص:519،مسند احمدج:4ص:243،المعجم الکبیرج:19ص:135،134،اور اسی مضمون میں ص:41

(2)مجمع الزوائدج:7ص:246،کتاب الفتن:باب فی الحکمین،الکامل فی الضعفاءج:5ص:186حالات علی بن فیروز میں،تاریخ دمشق ج:32ص:92،حالات عبدالبر بن قیس بن سلیم میں

(3)مصنف بن ابی شیبہ ج:7ص:468،کتاب الفتن:باب من کرہ الخروج فی الفتنۃ...،صحیح ابن حبان ج:14ص:171کتاب التاریخ،باب

۱۵۲

ابتداءاسلام میں اسلام کا دعویٰ کرنےوالے،سنن للنسائی ج:5ص:267،الایمان لابن مسندہ ج:1ص:536،ایسی روایت کا ذکر جس میں پہلے اسلام لانےوالوں کو مقدم کیا گیا ہے

ہے کہ ایک بار پھر آپ کے گوش گذار کروں کہ انس کے بیان کے مطابق یا تو وہ نماز جو رسول کے ساتھ پڑھتے تھے بھول گئے یا جان بوجھ کے وہ نماز چھوڑ دی تھی۔

سرکار دو عالمؐ نے تو بعض صحابہ کے گمراہ ہونے کی یا منافق ہونے کی یا اسلام سے کل جانے کی صراحت کردی تھی،مثلاً آپ نے فرمایا تھا کہ عمار کو قتل کرنے والا آپ کا لباس چھیننےوالا جہنمی ہوگا۔(1)

یا یہ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرےگا۔(2)

اور آپ نے حکم دیا تھا کہ جب معاویہ کو منبر یا اس کی لکڑیوں پر دیکھنا تو اس کو قتل کردینا۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الطبقاب الکبریٰ ج:3ص:261،فی ذکر(و من خلفاء بنی مخزوم(عمار بن یاسر)المستدرک علی صحیحین ج:3ص:437،کتاب معرفۃ الصحابہ(عمار بن یاسر)کے مناقب میں،سیر اعلام نبلاءج:426،425،حالات عمار بن یاسر میں،الاصابۃ ج:7ص:312،حالات ابی الفادیہ جہنی میں،مجمع الزوائدج:7ص:244،کتاب الفتن:باب فما کان بینھم فی الصفین،مسند احمدج:4ص:198،عمر بن عاص نے رسولؐ سے حدیث نقل کی

(2)صحیح بخاری ج:1ص:172،کتاب الصلوٰۃ:باب المساجد،اور ج:3ص:1035،کتاب الجہاد و السیر:باب مسح الغبار عن الناس فی السبیل،صحیح مسلم ج:4ص:2236،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل..

(3)سیر اعلام النبلاء ج:3ص:149،حالات معاویہ میں اورج:6ص:105،حالات عمر بن عبید میں،تھذیب التھذیب ج:2ص:368،حالات الحکم بن ظہیر الفزاری میں،ج:5ص:95،حالات عباد بن یعقوب میں،ج:8ص:64،حالات عمر بن عبید میں،ج:7ص:284،حالات علی بن زید بن جدعان میں،الکافی فی الضعفاءج:2ص:146حالات جعفر بن سلیمان الضعبی میں،ص:209،حالات حکم بن ظہیر میں ج:5ص:98۔101۔103،حالات عمر بن عبید میں ص:200،حالات علی بن زید بن جدعان میں،ص:314،حالات عبدالرزاق بن ہمام میں،ج:6ص:422،حالات مجالد بن سعید بن عمیر میں،ج:7ص:83،حالات الولید بن قاسم بن الولید میں المجروحین لابن حبان ج:1ص:162،حالات احمد بن محمد بن مصعب میں،ص:250،حالات حکم بن ظھیر میں،ج:2ص:172،حالات عبادہ بن یعقوب میں،الضعفاءللعقیلی ج:3ص:280،حالات عمروبن عبید بن باب میں،العلل و معرفۃ الرجال ج:1ص:406،تاریخ دمشق ج:59ص:157،156،155،حالات معاویہ بن صخر ابی سفیان میں

۱۵۳

عبداللہ ابن زبیر کے بارے میں فرمایا تھا کہ مکہ میں ایک منیڈھا الحاد کرےگا جو قریشی ہوگا اور اس کا نام عبداللہ ہوگا وہ ساری دنیا کے گناہوں کے مقابلے میں اس کا آدھا گناہ ہوگا یا یہ مکہ کے حرم کو قریش کا ایک شخص حل سے بدل دےگا،اگر اس کے گناہوں کو تولا جائے تو ثقلین کے گناہوں سے بھاری پڑےگا۔(1) اور حضرت نے ناکثین قاسطین اور مارقین سے لڑنے کا حکم دیا تھا۔(2)

چنانچہ مخنف بن سلیم سے روایت ہے کہ ہم لوگ ابوایوب انصاری کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ ضعا میں اپنےکچھ گھوڑوں کو چرارہے تھے تو ہم نے کہا ابوایوب آپ نے پیغمبرؐ کی قیادت میں تو مشرکوں سے جنگ کی اب آپ مسلمانوں سے لڑنے نکلے ہیں ابوایوب نے فرمایا ہمیں پیغمبرؐ نے ناکثین،قاسطین اور مارقین سے لڑنے کا حکم دیا تھا ہم قاسطین اور ناکثین سے تو لڑچکے اور انشااللہ اب ہم مارقین سے نہروان میں لڑیں گے اور نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں۔(3) جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ میں نے سرکار سے پوچھا کہ حضورؐ کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمیں مکہ میں رہنے کی وجہ سے اجر نہیں ملےگا حضورؐ نے فرمایا ضرور اپنا اجر پاؤگے چاہے تم سخت پتھروں کے درمیان رہو وہ کہتا ہے کہ یہ سن کرکے میں آپؐ کی طرف جھکا آپؐ نے فرمایا میرے اصحاب کچھ منافق ہیں(4)اور ابومسعود کہتے ہیں کہ ایک دن سرکارؐ نے خطبہ میں خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع الزوائدج:3ص:284۔285،کتاب الحج:باب فی حرم مکۃ و النھی عن استحلالھا،اور اسی طرح تاریخ دمشق ج:28ص:218۔219،حالات عبدالبر بن الزبیر میں

(2)المستدرک علی صحیحین ج:4ص:150،کتاب معرفۃ الصحابہ،مجمع الزوائدج:5ص:186،کتاب الخلافۃ:باب الخلفاءوالاربعۃ،کتاب خلافت چاروں خلیفہ کے باب میں ج:7ص:238،کتاب الفتن:باب فیما کان بینھم فی صفین،مسند ابی یعلی ج:1ص:379،مسند علی بن ابی طالب میں،مسند البرازج:2ص:215ج:3ص:27،مسند شاشی ج:2ص:342،المعجم الکبیرج:4ص:91

(3)مجمع الزوائدج:6ص:235،کتاب قتال اہل البغی:باب ما جاء فی ذی الثدیۃ اور اسی طرح معجم الکبیرج:4ص:172،الکامل فی الضعفاءج:2ص:187،حالات الحارث بن حصیرۃ الازدی میں

(4)مجمع الزوائدج:5ص:252،کتاب الجہاد:باب ہجرۃ الباثہ و البادیۃ اور اسی طرح مسند احمدج:4ص:83،جبیر بن مطعم کی حدیث میں،مسند الطیاسی ج:2ص:128،جبیر بن مطعم کی حدیث میں

۱۵۴

مسلمانو!تمہارے درمیان بیٹھے ہیں تو میں جس کا نام لوں وہ کھڑا ہوجائے اس کے بعد آپ نے فرمایا اے فلان اٹھ جا،اے فلان اٹھ جا،اے فلان اٹھ جا،اس طرح آپ نے چھتیس آدمیوں کو اٹھایا پھر فرمایا تمہارے ہی اندر ہے ہاں تم ہی میں سے ہے،پس خدا سے ڈرو۔(1)

مسلم اپنی سند کے ساتھ حذیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا ہمارے اصحاب میں بارہ منافق ہیں ان میں تو آٹھ جنت میں داخل ہی نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ سوئی کے ناکے میں اونٹ داخل ہو۔(2)

مسلم کہتے ہیں کہ سرکار دو عالمؐ نے فرمایا میں اس آدمی جیسا ہوں جس نے آگ روشن کی اور جب آگ روشن ہوگئی تو اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے لیکن آگ میں اس کا سامان جل رہاہے یہی مثال ہماری اور تمہاری ہے میں نے تمہارے کمربند کو پکڑ رکھا ہے تا کہ آگ سے باہر کھینچ لوں پس آگ سے بچو آگ سے بچو،اگر تم مجھ سے بھاری پڑے تو آگ میں گرجاؤگے(3) اس طرح کی روایت جناب جابر سے ہے حضور نے فرمایا میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی تو آگ نے اس کا بستر اور ساز و سامان پکڑلیا وہ اپنے سامان کو بچا تو رہا ہے مگر میں نے تمہیں آگ سے بچانے کے لئے پکڑ رکھا ہے اور تم میرے ہاتھوں سے پھسلے جارہےہو۔(4)

زبیر بن عوام کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تمہارے جسم میں گذشتہ امتوں کی بیماریاں داخل ہوگئی ہیں یعنی حسد اور بغض اور بغض کو کاٹنےوالی ہیں سر کے بال کاٹنے والی نہیں دین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسند احمدج:5ص:273،حدیث ابی سعود عقبہ،مسند عبدبن حمیدص:106،المعجم الکبیرج:17ص:246،حدیث عیاض بن عیاص

(2)صحیح مسلم ج:4ص:2143،کتاب صفات المنافقین،سنن کبریٰ بیھقی ج:8ص:198،کتاب المرتد:باب ما یحرم بہ الدم،مسند احمدج:5ص:390،حدیث حذیفۃ بن الیمان

(3)صحیح مسلم ج:4ص:1789،کتاب الفضائل:باب شفقۃ،صحیح بخاری ج:5ص:2379،کتاب الرقاق:باب الانتھاءعن المعاصی،مسند احمدج:2ص:312،مسند ابی ہریرہ میں

(4)صحیح مسلم ج:4ص:1790،کتاب الفضائل:شفقتہ علی امتہ،تفسیر قرطبی ج:20ص:165،الترغیب و الترھیب ج:4ص:245، ،کتاب صفۃ الجنۃ و النار

۱۵۵

کا گلا اتارنےوالی،ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے جب تک تم آپس میں محبت نہیں کروگے اس وقت تک تمہارا ایمان ثابت نہیں ہوگا۔(1) ام سلمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں سرکارؐ نے کہا میرے اصحاب میں کچھ ایسے بھی اصحاب ہیں جو مجھے مرنے کے بعد نہیں دیکھیں گے اور نہ میں ان کو دیکھوں گا۔(2) عقبہ کہتے ہیں ایک دن سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی کی نماز جنازہ پڑھانے نکلے نماز کے بعد آپ منبر پر گئے اور آپ نے فرمایا مسلمانوں میں تم سے پہلے مرنےوالا ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں خدا کی قسم اس وقت میں اپنے حوض کو دیکھ رہاہوں مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں خدا کی قسم میں اس سے نہیں ڈرتا کہ میرے بعد شرک اختیار کروگے بلکہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا میں الجھ جاؤگے۔(3) انس کہتے ہیں سرکارؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر میرے دو صحابی لائے جائیں گے۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسند احمدج:1ص:163،مسند الذبیر بن العوام،سنن ترمذی ج:4ص:664،663،کتاب صفۃ القیامۃ و الرقائق:باب لم یعنونہ،مجمع الزوائدج:8ص:30،کتاب الادد:باب ماجاء فی الاسلام سنن الکبری بیھقی ج:10ص:232،کتاب الشہادات:جماع ابواب من تجوز شہادتہ..،مسند البرازج:6ص:192،مسند شناشی ج:1ص:114،فیما رواۃ یعیش بن الولید مولی ابن الزبیر عنہ،مسند الطیالسی ج:1ص:127،احادیث الزبیر بن عوام میں

(3)صحیح بخاری ج:5ص:2408،کتاب الرقاق:باب فہ الحوض،صحیح مسلم ج:4ص:1795،کتاب الفضائل:باب اثبات حوض نبینا ص وصفاتہ،سنن الکبریٰ بیہقی ج:4ص:14،جماع ابواب الشہید...،مسند احمدج:4ص:149،حدیث عقبۃ بن عامر الجہنی،صحیح ابن حبان ج:8ص:18،کتاب الزکوٰۃ:باب جمع المال من حلہ...،مسند رویانی ج:1ص:157،مسند مرثد بن عبداللہ،سیر اعلام النبلاءج:6ص:33،حالات یزید بن ابی حبیب

(4)مسند احمدج:3ص:140،مسند انس بن مالک میں

۱۵۶

ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے یہ کہتے ہیں پیغمبرؐ کے بعد پیغمبرؐ سے رشتہ داری لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچائےگی خدا کی قسم مجھ سے رشتہ داری دنیا اور آخرت دونوں جگہ فائدہ دےگی۔

اے لوگو!میں تم سے پہلے حوض پر پہنچوں گا،جب تم آؤگے تو تم میں سے ایک کہےگا اے خدا کے رسولؐ میں فلاں ہوں اور فلاں کا بیٹا ہوں میں کہوں گا جہاں تک خاندان کا سوال ہے وہ تو میں جانتا ہی ہوں لیکن تم نے میرے بعد بھی کچھ کارنامے انجام دیئے ہیں اور اپنے پچھلے مذہب پر پلٹ گئے۔(1)

ابوہریرہ کہتے ہیں حضور نے فرمایا کے میرے اصحاب میں سے کچھ لوگ قیامت کے دن میرے پاس آتئیں گے لیکن انہیں حوض کے پاس سے بھگا دیا جائےگا میں آواز دوں گا مالک یہ تو میرے اصحاب ہیں جواب ملےگا وہ تو ہیں لیکن انھوں نے آپ کے بعد بھی کچھ کانامے انجام دیئے ہیں جو آپ کو معلوم نہیں ہیں یہ لوگ اپنے پچھلے مذہب پر پلٹ گئے تھے۔(2)

دوسری حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا میں قیامت میں حوض کے کنارے کھڑا ہوں گا کہ اس وقت ایک گروہ میرے سامنے سے گذرےگا جس کو میں پہچانتا ہوں گا کہ میرے بعد ان کے درمیان ایک آدمی آکے کھڑا ہوجاےگا اور ان سے کہے چلو،میں پوچھوں گا کہاں جواب ملےگا جہنم میں پوچھوں گا ان کا قصور کیا ہے؟جواب ملےگا انہوں آپ کے بعد بہت سے کارنامے انجام دیئےہیں اور اپنےپچھلے مذہب پر واپس پلٹ گئے تھے پھر ایک گروہ آئےگا جن کو میں پہچان رہا ہوں گا کہ ایک آدمی میرے بعد ان کے درمیان آکے کہےگا چلو میں پوچھوں گا کہاں جواب ملےگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع الزوائدج:10ص:364،کتاب البعثت:باب ماجاءفی حوض النبیؐ اور اسی طرح مسند ابی یعلی ج:2ص:433،مسند ابی سعید خدری میں،مسند عبد بن حمیدج:1ص:304،مسند ابی سعید خدری میں،فتح الباری ج:11ص:386

(2)صحیح بخاری ج:5ص:2407،کتاب الرقاق:باب فی الحوض،تفسیر قرطبی ج:4ص:168،مسند عمر بن خطاب ص:86،تغلیق تعلیق ج:5ص:186،کتاب الرقاق:باب فی الحوض

۱۵۷

جہنم میں پوچھوں گا انہوں نے کیا کیا ہے؟جواب ملےگا آپ کے بعد اپنے پچھلے مذہب پر رجعت قہقری کی ہے تو میں ان میں سے کسی کو نجات یافتہ نہیں دیکھتا مگر جیسے بھولا بھٹکا کوئی اونٹ۔(1)

جابر بن عبداللہ انصاریؒ سے روایت ہے کہ پیغمبرؐ نے اپنی مسجد سے بہت سے لوگوں کو نکال دیا اور کہا مسجد میں سویا نہ کرو لوگ نکلنے لگے تو علیؑ بھی ان کے ساتھ نکلے آپ نے علیؑ سے کہا تم مسجد میں واپس جاؤ اس میں جو میرے لئے حلال ہے وہ تمہارے لئے بھی حلال ہے گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں تم ان لوگوں کو حوض کوثر سے ہٹا رہے ہو اور تمہارے ہاتھ میں ایک عصا اور عوسج ہے۔(2)

میں نے حدیثوں کے سمندر سے کچھ قطرے آپ کی خدمت میں پیش کردیئے ہیں اس لئے کہ گنجائش بہت کم تھی،ہم نے شیعوں کی دلیلں نہیں پیش کیں نہ ان کے نظریات پیش کئے اس لئے کہ ہم وہ نہیں چاہتے تھے۔اب ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ رضائے حق کا طالب ہو اور خدا کے غضب سے ڈرے اس کی سزا سے بچے اور خلوص کے ساتھ اپنی تحقیق کو مکمل کرے تا کہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہے ارشاد ہوتا ہے۔

(و من جاهد فانّما یجاهد لنفسه انّ الله لغنی عن العالمین)(3)

ترجمہ:جو کوشش کرتا ہے وہ اپنے نفس ہی کے لئے کوشش کرتا ہے اللہ تو تمام عالم سے بےنیاز ہے۔

جب خدا اس کے جذبہ خلوص اور تلاش و جستجو کے ارادوں کو جان جاےگا تو اس کی طرف سے مدد بھی ہوگی اور وہ حق کے راستے کی ہدایت بھی کردےگا ارشاد ہوتا ہے: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:5ص:2408،2407،2406،2404،کتاب رقاق،باب حوض میں

(2)تاریخ المدینۃ المنورہ ج:1ص:38

(3)سورہ عنکبوت:آیت6

(4)سورہ عنکبوت آیت69

۱۵۸

ترجمہ:جو ہماری راہ میں کوشش کرتا ہے ہم اسے اسے اپنے راستے کی ہدایت بھی کردیتے ہیں اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

ایک تنبیہ اس بات کے لئے کہ صحابہ طبیعت بشری پر تھے اور اس کے تقاضون کو پورا کرنے پر مجبور تھے

یہ بات زیادہ قابل توجہ ہے کہ صحابہ بہرحال انسان تھے اور انسانی طبیعت کے تقاضون کو پورا کرنے پر مجبور تھے،ایک انسان کے اندر خیر و شر کے دواعی موجود رہتے ہیں اور اس کا نفس خیر و شر کے درمیان الجھا رہتا ہے اس طرح صحابہ نے اپنی زندگی کے بہت سے سال ایام جاہلیت میں گذارے اور جاہلیت کی عادتیں ان کے اندر جڑ پکڑچکی تھیں اور اسلام بھی ایک اصلاحی دعوت ہے جس کے ذریعہ انہیں بلایا گیا اور اصلاح کی کوشش کی گئی پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ محض کلمہ پڑھ لینے سے اچانک ان کی طبیعتیں بدل گئیں اور نفس صاف ہوگئے جب کہ اسلام میں داخل ہونے کے وقت پر مسلمانوں کے حالات جدا جدا تھے،کوئی رغبت کے ساتھ مسلمان ہوا،کوئی خوف سے ان کے اسلام لانے کی بنیاد تک کہ اسلام کی طرف متوجہ کرنے کے لئے حضور کو ان کی تالیف قلب کرنی پڑی اور مال کے ذریعہ ان کو اپنی طرف راغب کرنا بڑا،حسن اخلاق کے ذریعہ اور کبھی تال میل اور غلطیوں سے چشم پوشی کرکے سرکارؐ نے انہیں مسلمان بنائے رکھا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

(فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْوَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ)(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ آل عمران آیت159

۱۵۹

ترجمہ:آپ خدا کی رحمت کی وجہ سے ان کے لئے بہت نرم ہیں اگر آپ بداخلاق اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے چلے جاتے پس آپ انہیں معاف کرتے رہیں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کے ساتھ ہی امور میں مشورہ بھی کرتے رہیں۔

بلکہ جو لوگ اسلام پر اعتماد کرکے یا بصیرت قلب کی بنیاد پر اسلام کو قبول کرچکے تھے ان کے بارے میں بھی یہ فرض نہیں کہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہ جائیں اور فتنوں کے دور میں استقامت سے کام لیں،اس لئے کہ نفس انسانی برائی کی طرف کھینچتا ہے اور شیطان اپنے ہاتھ سے موقع جانے نہیں دیتا،ہمارے لئے سامری کے واقعہ میں ایک بڑا مقام عبرت ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ایمان کے باوجود موسی کے اصحاب کس طرح راہ حق سے ہٹ گئے اور فتنہ میں گرفتار ہوگئے،قرآن مجید حکایت کرتا ہے: ( قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي) (1)

ترجمہ:سامری نے کہا میں نے وہ بات دیکھی جو آپ کے صحابہ نہ نہیں دیکھی تھی تو میں نے جبرائیل کے نشان قدم سے ایک مٹھی خاک اٹھائیپس میں نے اس کو ذخیرہ کرلیا اور میرے نفس نے مجھ سے یہی سوال کیا تھا۔

بلعم باعور کا واقعہ کم عبرت ناک نہیں جس کی تفصیل قرآن بیان کرتا ہے: (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ-وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ) (2)

-----------------

(1)سورہ طہ آیت:23

(2)سورہ اعراف 175،176

۱۶۰