فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ20%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 132544 / ڈاؤنلوڈ: 7184
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ترجمہ:اور اس کی خبر بھی بتادیجیے جس کو ہم نے اپنی نشانی دی تھی وہ اس کے ہاتھ سے نکل گئی اور شیطان اس کے پیچھے پڑگیا،پس وہ گمراہ ہوگیا اور ہم چاہتے تو اس کو اس کے ساتھ لیتے لیکن ہم نے اسے ہمیشہ کے لئے زمین ہی میں رہنے یا تو وہ اپنے خواہش نفس کی پیروی کرنےلگا،وہ تو کتّے جیسا ہوگیا کہ اس پر بار لادو جب بھی زبان نکالےگا اور چھوڑ دو جب بھی زبان نکالےگا،جیسے وہ قوم جو ہماری نشانیاں جھٹلاتی ہے تو آپ اسکے قصے بیان کردیں تا کہ یہ لوگ سوچیں۔یاد رکھئے مخلوقات کے سلسلے میں اللہ کی سنت ایک ہی ہے-(وَلَنتَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا) (۱) ترجمہ:اور کبھی تم اللہ کی سنت کو تبدیل ہوتا ہوا نہیں پاؤگے۔

میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں گمراہ کن فتنوں سے اور برے نتیجوں سے سوائے خدا کے کوئی بچانے والا بھی نہیں ہے اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنےوالا ہے۔صحابہ کے موضوع پر اہل سنت اور شیعوں کے درمیان ہر دور میں بحث ہوتی رہی ہے۔سب کا تذکرہ کرنے کی اس خط میں گنجائش نہیں ہے،اگر مزید معلومات چاہئے تو ان کتابوں کا مطالعہ کیجئے جو ساتویں صدی کے بعض علما نے لکھی ہیں اور ان کی تفصیل ابن ابی الحدید نے لکھی ہے(۲) اس موضوع پر وہ کتاب بہت فائدہ بخش ہوگی،لیکن ہم اس بات کی ذمہ داری نہیں لیتے کہ اس کتاب کی سب باتیں آپ کی خدمت میں پیش کردیں گے۔

گذشتہ بیانات کی روشنی میں شیعوں کا صحابہ کے بارے میں نظریہ

گذشتہ بیانات کو دیکھتے ہوئے شیعہ اس معاملے میں حق بجانب ہیں کہ وہ تمام صحابہ کو مقدس اور محترم نہیں سمجھتے اور صحابہ کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ قابل تنقید بات کرتے ہیں اور ان کے بارے میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فتح آیت:۲۳

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۲ص:۱۰،اور اس کے بعد

۱۶۱

ان کے اعمال اور سلوک کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں صحابہ کے بارے میں بولنے سے پہلے انہیں شریعت اور عقل کے ضابطوں پر پرکھتے ہیں تا کہ جو کچھ بولیں دلیل کے ساتھ بولیں اس لئے شیعوں کی نظر میں صرف وہی صحابہ قابل تعظیم ہیں جنہوں نے حق کو لازم سمجھا عقیدہ اور سلوک میں ثابت قدم رہے اور اپنے پروردگار کے امر کو کج فہمی کا شکار نہ بنایا بلکہ وجائے عہد کرتے رہے یہ وہ صحابہ ہین جن کی شیعہ تعظیم بھی کرتے ہیں تقدیس بھی کرتے ہیں اور ان پر فخر بھی کرتے ہیں،اس لئے کہ یہی لوگ وہ ہیں جن کے سہارے اسلام کی چکی چلتی ہے اور دین کا ستون کھڑا ہے،یہ لوگ موالات کے قابل ہیں بلکہ حق تو یہ ہے کہ یہی لوگ اللہ کے ولی ہیں،جیسا کہ خداوند عالم ان کی تعریف میں ارشاد ہوتا ہے: ( إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ-نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ-نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ) (۱) ترجمہ:بیشک وہ لوگ جنہوں نے یہ کہہ دیا کہ ہمارا پروردگار تو بس اللہ ہے اور اسی بار پر قائم رہے ان کے یہاں فرشتے نازل ہوتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ڈرو نہیں گھبراؤ نہیں اور اس جنّت کی بشارت حاصل کرو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ہم دنیا اور آخرت میں تمہارے سرپرست ہیں جنّت میں تم جو چاہوگے تمہیں ملےگا اور جو مانگوگے پاؤگے فرشتوں کا نزول خدائے غفور و رحیم کی طرف سے ہوتا ہے۔

اور جس نے عہد کو توڑا حق سے جدا ہوگیا عقیدہ بدلا پچھلے مذہب پر پلٹا وہ سزا وبال اور لعنت کا مستحق ہے چاہے وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ سورہ فتح میں ارشاد ہوتا: (فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فصلت آیت۳۲،۳۱،۳۰

۱۶۲

فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا)(۱)

ترجمہ:پس جو اپنے عہد کو توڑدے اس نے اپنے نفس ہی کے عہد کو توڑا ہے اور جو اللہ سے کئے ہوئے وعدے کو وفا کرتا ہے اس کو اللہ اجر عظیم دیتا ہے۔

سورہ رعد میں ارشاد ہوتا ہے:( وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِأُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ) (۲)

ترجمہ:جو لوگ اللہ سے عہد باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جہاں اللہ نے ملنے کا حکم دیا ہے وہ قطع تعلق کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے رہتے ہیں ان پر لعنت ہے اور ان کا بڑا ٹھکانہ ہے۔

خدا کی راہ میں محبت خدا کی راہ میں روشنی

قرآن مجید نے ان سے محبت کرنے کی بہت سخت تاکید کی ہے جو اللہ سے محبت کرتے ہیں اور ان کو دشمن رکھتے ہیں،حدیث نبوی اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ارشادات بھی اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ خدا کی راہ میں محبت کی جائے اور خدا ہی کی راہ میں دشمنی کی جائے۔

چنانچہ سورہ مجادلہ میں ارشاد ہوتا ہے: (لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْأُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ) (۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فتح آیت۱۰

(۲)سورہ رعد آیت۲۵

(۳)سورہ مجادلہ آیت:۲۲

۱۶۳

ترجمہ:جو لوگ اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں انہیں تم اللہ اور اللہ کے رسول کے دشمنوں سے محبت کرتا ہوا نہیں پاؤگے چاہے وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے ہوں ان کے بھائی ہوں،ان کے خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان بیٹھ گیا ہے اور ایمان کی روح ان کی تائید کرتی رہتی ہے۔

اور سورہ ہود میں ارشاد ہوتا ہے کہ:فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلاَ تَطْغَوْاْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌوَلاَ تَرْكَنُواْ إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ أَوْلِيَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ (۱)

ترجمہ:آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس پر قائم رہئے اور وہ بھی قائم رہیں جو آپ کے ساتھ توبہ کرتے ہیں اور تم لوگ طغیانی مت کرنا اس لئے کہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور ظالموں کا سہارا تو لینا ہی نہیں ورنہ آگ تم کو چھولےگی،یاد رکھو خدا کے علاوہ کوئی تمہارا ولی نہیں(اگر تم نے ظالموں کا سہارا لیا)تو پھر تمہاری مدد نہیں کی جائےگی۔

عمروبن مدرک طائی امام صادق علیہ السلام سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ سرکار نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ ایمان کے لئے سب سےزیادہ قابل اعتماد کیا پہچان ہے؟لوگوں نے کہا اللہ اور اللہ کا رسول بہتر جانتا ہے بعض لوگوں نے کہا کہ مومن نماز سے پہچانا جاتا ہے کسی نے کہا زکوٰۃ سے،کسی نے کہا روزے سے،کسی نے کہا حج اور عمرہ سے اور کسی نے کہا جہاد سے آپ نے فرمایا تم نے جن اعمال کا بھی ذکر کیا سب کی فضیلت اپنی جگہ پر ہے،لیکن یہ چیزیں ایمان کی قابل اعتماد نشانی نہیں بن سکتیں،البتہ قابل اعتماد سہارا ایمان کا اللہ کی راہ میں محبت اور اللہ کی راہ میں بغض ہے اور اللہ کے دوستوں سے محبت کرنا اور اللہ کے دشمنوں سے الگ رہنا۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ ہود آیت۱۱۲۔۱۱۳

(۲)الکافی ج:۲ص:۱۲۵۔۱۲۶کتاب الایمان و الکفر باب الحب فی اللہ و البغض فی اللہ چھٹی حدیث

۱۶۴

عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ سرکار نے کہا اے عبداللہ سب سے زیادہ قابل اعتماد سہارا اسلام کا کیا ہے؟میں نے کہا اللہ اور اللہ کا رسول بہتر جانتا ہے،آپ نے فرمایا خدا کی راہ میں ولا،خدا کی راہ میں محبت اور خدا کی راہ میں بغض۔(۱)

ابن عمر کی حدیث ہے کہ حضرت فرمایا خدا کی راہ میں محبت کرو خدا ہی کی راہ میں بغض کرو خدا کی راہ میں دوستی کرو خدا ہی کی راہ میں دشمنی کرو،تم اسی کے ذریعہ خدا کی ولایت کو پاسکتے ہو انسان ایمان کا مزہ پا ہی نہٰں سکتا جب تک محبت اور عداوت کا معیار خدا کی ذات کو نہ بنائے چاہے کتنا ہی روزہ دار ہو چاہے کتنا ہی نمازی ہو۔(۲)

اسحاق ابن عمار کی حدیث امام صادق علیہ السلام سے ہے حضرت نے فرمایا جو دین کی بنیاد پر محبت نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں(۳) اور اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جنھیں اہل سنت نے بھی روایت کی ہیں اور شیعوں نے بھی۔(۴)

شیعوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ کی آواز پر لبیک کہیں اس کے حکم کی پیروی کریں اور اس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)السنن الکبریٰ بیہقی ج:۱۰ص:۲۳۳۔کتاب الشہادت،اہل عصبیہ کے شہادات کے باب میں اور یہ روایت حدیث براد ابن عباس اور عائشہ سے بھی منقول ہے،مجمع الزوائدج:۱ص:۱۶۲کتاب العلم اس باب میں کہ سب سے زیادہ کون اعلم ہے،معجم الاوسط ج:۴ص:۳۷۶،اس کے علاوہ بھی کتابوں میں ہے

(۲)مجمع الزوائدج:۱ص:۹۰،کتاب الایمان اللہ کے لئے دوستی اور اللہ کے لئے دشمنی کے باب میں

(۳)الکافی ج:۲ص:۱۲۷کتاب الایمان و الکفر حب فی اللہ بغض فی اللہ کے باب میں حدیث۱۶

(۴)الکافی ج:۲ص:۱۲۴،کتاب الایمان و الکفر حب فی اللہ بغض فی اللہ کے باب میں،وسائل الشیعہ ج:۱۱ص:۴۳۱باب ۱۵ امر و نہی کے لئے جو مناسب ہے اس کے باب میں،اور یہ تمام کی تمام کتاب امر و نہی میں موجود ہے اس کے لئے دوسرے بھی بہت سارے مصادر شیعہ موجود ہیں،سنن کبریٰ نسائی ج:۶ص:۵۲۷،کتاب الایمان و شرائعہ،سنن کبری بیھقی ج:۱۰ص:۲۳۳کتاب الشہادات،مصنف بن شیبہ ج:۶ص:۱۶۴،کتاب الایمان،چھٹا باب،:ج:۷ص:۱۳۴،کتاب الزھد،سنن ابی داؤدج:۴ص:۱۹۸،کتاب الدیات،مجمع الزوائدج:۱ص:۸۹۔۹۰،کتاب الایمان،باب الایمان حب فی اللہ و البغض فی اللہ،تمھیدج:۱۷ص:۴۲۹۔۴۳۰۔۴۳۱

۱۶۵

کے فیصلہ پر سر جھکائیں اللہ کہتا ہے۔

(وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا)(۱)

ترجمہ:مومن اور مومنہ کے شایان شان ہرگز نہیں کہ جب اللہ اور اللہ کا رسول کوئی فیصلہ کردے تو پھر وہ خود کو بھی صاحب اختیار سمجھیں جو اللہ اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے وہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے۔

صحبت کا اثر اور اس کی اہمیت

جہاں تک صحبت پیغمبرؐ کا سوال ہے تو اگر صحابی نے حق صحبت کو ادا کیا ہے تو یقیناً صحبت پیغمبرؐ انسان کی رفعت و شاناور اس کے تقدس میں اضافہ ہی کرےگی اس لئے کہ پیغمبر کے اصحاب نے حرمت رسول کا خیال کیا ہے حق صحبت کی رعایت کی اور اللہ کا اس کی اس نعمت پر شکریہ ادا کیا ہے ہمارے لئے تو اصحاب پیغمبرؐ یوں بھی قابل احترام ہیں کہ وہ حضرات سابق الایمان ہیں اللہ کی دعوت کو انہیں نے ہم تک پہنچایا ہے اور یہی صحابہ ہمارے لئے ہدایت اور نجات کا سبب ہیں۔

ارشاد ہوتا ہے: (وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ) (۲)

ترجمہ آیت:اور وہ لوگ جو بعد میں آئے کہتے ہیں پالنے والے ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں کینہ مت چھوڑنا بیشک تو مہربان اور رحیم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ احزاب آیت:۳۶

(۲)سورہ حشر آیت:۱۰

۱۶۶

جیسا کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ان اصحاب کی تعریف کی ہے اور نبی کریمؐ اور آپ کے اہل بیت طاہرین علیہم السلام نے بھی حدیثوں کے ذریعہ ان حضرات کو سراہا ہے اگرچہ اس مختصر کتاب میں ان آیتوں اور حدیثوں کے بیان کی گنجائش نہیں ہے۔

البتہ اصحاب کی دوسری قسم وہ ہے جنہیں صحبت پیغمبرؐ کے غرور نے سرکش،مجرم،ملعون اور قابل سزا بنادیا ہے اس لئے کہ وہ صحبت پیغمبرؐ سے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھاسکے ان کے سامنے حجت ظاہر ترتھی جس کی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں زیادہ تھیں لیکن وہ مستقبل کے لوگوں کی گمراہی کا سبب بن گئے اور انہوں حق صحبت کو ضائع کردیا۔

ارشاد ہوتا ہے: ( أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ-جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَاوَبِئْسَ الْقَرَارُ) (۱)

ترجمہ آیت:آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمتوں کو کفر ان میں بدل دیا اور اپنی قوم کو سزا کے ٹھکانے پر لے گئے،وہ جہنم جس میں انہوں نے اپنی قوم کو پہنچادیا اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا: (إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ) (۲)

ترجمہ آیت:بیشک وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئی ان نشانیوں اور ہدایتوں کو چھپاتے ہیں جنہیں ہم نے قرآن میں واضح کردیا ہے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ ابراہیم:آیت:۲۸۔۲۹

(۲)سورہ بقرہ:آیت:۱۵۹

۱۶۷

سرکار دو عالم کے دور میں جو مرد اور عورتیں تھیں ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں اسی لئے خداوند عالم نے نبی کی عورتوں سے فرمایا: (يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ - وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا-يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ - إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا) (۱)

ترجمہ آیت:اے نبی کی عورتو!تم میں سے جو فاحشہ مبینہ(زنا)کی مرتکب ہوئیں اس کو دو گنا عذاب ملےگا اور اللہ کے لئے یہ آسان بات ہے جو اللہ اور اللہ کے رسول کی نافرماں برداری کرےگی اور نیک کام انجام دےگی ہم اس کو دہرا اجر دیں گے اور اس کے لئے عزت دار حلال رزق کا انتظام کردیں گے۔

پھر فرمایا اے شقر ان اچھائی تو کسی کی طرف سے بھی ہوا چھائی ہی ہوتی ہے،لیکن تم نیک کام کروگے تو زیادہ اچھا ہوگا،اس طرح برائی تو برائی ہے چاہے جو کرے لیکن لیکن اگر تم برائی کروگے تو زیادہ برا ہوگا اس لئے کہ شقر ان سرکار دو عالم کے غلاموں کی اولاد میں تھا اور بہت شراب پیتا تھا۔(۲)

صحابہ کو پرکھنے کے لئے ضروری ہے کہ دو باتوں کا لحاظ کیا جائے پہلی بات تو یہ ہے کہ عقلی دلیلوں اور شرعی دلیلوں کے مطابق استقامت کی ایک حد معین کی جائے جو صحیح راستے پر پہنچاسکے اور جب صحابہ کو پرکھا اور پہچانا جائے تو جذبات اور احساسات کے آئینے میں نہ پہچانا جائے۔

دوسرے یہ کہ یہ دیکھا جائے کہ اچھے اور پاک باز صحابہ کی جو حدیں معین کی گئی ہیں ان تمام باتوں کے بعد مناسب نظریے معین کئے جائیں ارادہ اور شجاعت کے سلسلے میں تا کہ کوئی نتیجہ سامنے آئے کیونکہ حق سے بلند و بالا کوئی چیز نہیں ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ احزاب:آیت:۳۰۔۳۱

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۸ص:۲۰۵،اسی طرح بحارالانوارج:۴ص:۳۴۹،العدد القویہ علامہ حلی:ص:۱۵۲

۱۶۸

(وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ)(۱)

صحابہ یا غیرصحابہ کے احترام کے لئے شیعوں کا یہی طرز فکر ہے اور شروع سے یہی طرز فکر رہاہے اس میں شیعہ کہیں سے کمزور نہیں پڑتا اور نہ کبھی کمزور پڑےگا انشاءاللہ،حالانکہ اس طرز فکر اور نظریہ پر قائم رہنے کے لئے شیعوں کو ہر دور میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے سخت مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور بڑے مشکل حالات سے گذرنا پڑا ہے لیکن ان پر جو بھی مصیبتیں اس سلسلے میں آئی ہیں سب سے خدا واقف ہے اور شیعوں نے ان حالات کو ابتلا سمجھ کے خوشی سےقبول کیا ہے۔

غیر شیعہ افراد کا شیعوں کے بارے میں مناسب نظریہ

میں نے شیعہ نظریات آپ کی خدمت میں پیش کردیئے،اگر یہ نظریات آپ کو اور آپ کے ہم مذہب بھائیوں کو اچھے لگیں تو کیا کہنا،الحمد اللہ ہم آپ ایک دوسرے سے متفق ہیں لیکن یہ نظریات آپ کو پسند نہیں آتے جب بھی آپ کو چاہئیے کہ شیعوں کو معذور سمجھ کے ان کے متعلق احترام و عزت کا اظہار کریں،اس لئے کہ ان کا نظریہ جو کچھ بھی ہے وہ بےدلیل نہیں ہےور دلیل کےاتھ بات کرنےوالے یہ کہہ کے معاف کیا جاسکتا ہے کہ اس نے کوشش تو کی لیکن اجتہاد میں غلطی کی ظاہر ہے کہ شیعوں کا نظریہ کسی تعصب،دشمنی یا بغض و عناد کا نتیجہ نہیں ہے کہ ان کی حرمت کو پامال کردیا جائے اور انہیں چاروں طرف بدنام کیا جائے یا ان کے اوپر طعن و تشنیع کیا جائے۔

مجھے نہیں معلوم کے دوسرے فرقے کے لوگ شیعوں کو ان کے نظریات و عقائد کی بنیاد پر کس دلیل سے برا بھلا کہتے ہیں جب کہ نظریاتی اختلاف کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ شیعوں کو برا بھلا کہا جائے اور مخالف کا نظریہ نہیں ماننے کی وجہ سے شیعوں کی حرمت پامال کردی جائے ان پر طعن و تشنیع کی جائے اور انہیں طرح طرح کی سزائیں دی جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورہ احزاب:آیت:۴

۱۶۹

دوسرے فرقوں سے شیعوں کا حسن معاشرت

خصوصاً شیعہ فرقہ دوسرے مسلمانوں سے معاشرت کرنے میں اپنے نبیؐ اور آئمہ اطہارؑ کی تعلیم پر عمل کرتا ہے انہوں نے شیعوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ ہر حال میں اپنے عقیدے کی حفاظت کرو اور ذاتی طور پر اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرتے رہو۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم دوسروں کے جذبات کو ٹھیں پہنچاؤ اور ان سے رواداری کرنا چھوڑ دو بلکہ تمہیں چاہئیے کہ غیروں سے حسن معاشرت کا اہتمام کرو خوش اخلاقی سے ملو اور ان کے حقوق کو ادا کردتا کہ قوم ہوشیار رہے اور نفاق کی برائی پیدا نہ ہو۔

سکونی کی حدیث ملاحظہ ہو:امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں سرکار دوعالمؐ نے فرمایا:جس کے اندر تین باتیں نہیں اس کا عمل مکمل نہیں۔

۱۔ورع:جو انسان کو خدا کی نافرمانی سے روکتا ہے۔

۲۔اخلاق:جس کے ذریعہ دوسرےلوگوں سے ملا جلا جاتا ہے۔

۳۔علم:جس کے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دیا جاتا ہے۔(۱)

مرازم چھٹے امامؑ سے روایت کرتے ہیں کہ تم پر واجب ہے کہ مسجدوں میں نماز پڑھو لوگوں کے ساتھ اچھے پڑوسیوں کی طرح رہو،شہادت قائم کرو اور جنازوں میں شرکت کرو اس لئے کہ جب تک انسان زندہ ہے دوسرے انسان سے بےنیاز نہیں ہوسکتا سماج کا ہر آدمی ایک دوسرے کے لئے ضروری ہے۔(۲)

اس سلسلہ آخری حدیث میں ملاحظہ ہو،معاویہ بن وہب کہتے ہیں کہ میں نے امام سے پوچھا کہ ہمارا سلوک ان لوگوں کے ساتھ کیا ہونا چاہئیے جو ہمارے آس پاس رہتے ہیں لیکن ہماری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الکافی ج:۲ص:۱۱۶،کتاب ایمان و کفر،باب مدارات حدیث۱

(۲)کافی ج:۲ص:۶۳۵،کتاب معاشرت جو چیز معاشرت میں محبوب ہے کے باب میں،حدیث:۱

۱۷۰

طرح شیعہ نہیں ہیں،آپ نے فرمایا تم اپنے اماموں کی سیرت پہ غور کرو جن کی تم اقتدا کرتے ہو،پس جیسے وہ کرتے ہیں تم بھی کرو،خدا کی قسم وہ غیروں کے مریضوں کی عیادت کرتے ہیں،ان کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں،ان کے لئے گواہیاں دیتے ہیں اور ان کی امانت کو ادا کرتے ہیں(۱) اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جن کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔

کتنا اچھا ہوتا کہ تمام مسلمان انہیں حدیثوں پر عمل کرتے اپنے عقیدوں کی حفاظت کے ساتھ بہترین طریقے سے لوگوں کو دعوت بھی دیتے رہتے اور دوسروں سے میل جول کے ساتھ اچھا سلوک اور محبت کا برتاؤ کرتے تا کہ مسلمان متحد رہیں بات ایک جگہ رہے اور آپس کی محبت دلوں میں باقی رہے پھر ہم سب مل جل کر عالم انسانیت کو اسلام عظیم کی طرف بلائیں اسلام کی آواز لوگوں کو سنائیں کلمہ طیبہ کو بلند کریں اور ظالموں کو منہ توڑ جواب دیں اور ایک مشترک ہدف کی خدمت کریں،نویں سوال کے جواب میں ہو باتیں پیش کروں گا جو وہاں پر نفع بخش ہوں،اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری مدد کرے اور ہمیں توفیق دے وہ سب سے زیادہ رحم کرنےوالا ہے مومنین کا سرپرست ہے وہ میرے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے،

والحمد اللہ رب العلمین

-----------

(۱)فی ج:۲ ص ۶۳۶ ،کتاب معاشرۃ حدیث ۴

۱۷۱

۱۷۲

سوال نمبر۔۳

کچھ اہل سنت حضرات یہ الزام لگاتے ہیں کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں،شیعوں پر الزام صحیح ہے؟حالانکہ میں نے علامہ شیخ محمد ابوزہرہ کتاب(الامام جعفر الصادقؑ)میں پڑھا ہے کہ محقق طوسیؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ قول صحیح نہیں ہے،آپ کی اس سلسلے میں کیا رائے ہے؟خداوند عالم آپ کی عمر میں اضافہ کرے۔

جواب:اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل امور آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

۱۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ہر سنی عالم تحریف قرآن کی نسبت شیعوں کی طرف دیتا ہے،بلکہ بعض علمائے سنت نے تو شیعوں کی طرف سے خود ہی صفائی پیش کی ہے یہاں شیعہ سے مراد امامیہ عدلیہ ہے۔

ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری متوفی۳۳۰؁ فرماتے ہیں،قرآن میں کمی اور زیادتی کے بارے میں رافضیوں کے درمیان اختلاف ہے،اس سلسلے میں تین فرقے ہیں ایک فرقہ کہتا ہے کہ قرآن میں کچھ کمی ہے زیادتی کا وہ بھی قائل نہیں،اس طرح وہ یہ بھی نہیں مانتا کہ قرآن کے اندر کچھ تبدیلی کی گئی ہے،لیکن اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن میں سے کچھ ضائع ہوگیا ہے اس کو صرف امام جانتے ہیں،شیعوں کا تیسرا فرقہ جو اعتزال اور امامت کا قائل ہے اس کا خیال ہے کہ نہ قرآن میں کچھ کمی ہوئی نہ کوئی زیادتی اللہ نے جیسا ہمارے نبی پہ اتارا تھا ویسا ہی ہے نہ بدلا گیا ہے نہ کوئی لفظ اپنی جگہ سے ہٹایا گیا ہے اور ہمیشہ قرآن ایسا رہےگا۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مقالات الاسلامیین ج:۱ص:۱۱۴۔۱۱۵

۱۷۳

شیخ رحمۃ اللہ ہندی اپنی کتاب اظہار الحق میں لکھتے ہیں کہ شیعہ اثنا عشری کے جمہور علما کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید تغییر و تبدیل سے محفوظ ہے قرآن میں وقوع نقصان کا قول مردود ہے۔(۱) اور شیعہ علما اسے قبول نہیں کرتے پھر شیخ نے شیعوں کے بعض اقوال کو مقام شہادت میں پیش کیا ہے۔

ہاں بعض سنی علما تحریف کو شیعوں کی طرف منسوب کرتے ہیں،جیسے ابن حزم ظاہری اپنی کتاب الفصل فی الملل و الںحل میں اور ایک جماعت متاخرین کی ہے،ان لوگوں نے اپنے قلم کو شیعوں کو بدنام کرنے کے لئے اور ان پر حملے کرنے کے لئے وقف کردیا ہے،سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے شیوں پر بہت سے بہتان باندھے ہیں،ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے،تاریخ کے ذمہ ہے اور ہر ذوق جستجو رکھنےوالا اگر منصف ہے تو وہ بھی ان کا حساب کرےگا۔

اہل سنت اور شیعوں کا عدم تحریف قرآن پر عملی اجماع

۲۔شیعہ ہوں یا سنی تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ دو دفتیوں کے درمیان مصحف ہے وہ پورا قرآن مجید ہے وہی قرآن تمام اسلامی ملکوں میں پھیلا ہوا ہے اور تمام مسلمانوں کے درمیان تلاوت کیا جاتا ہے جب اس قرآن کو مسلمان ختم کرلیتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس نے پورا قرآن پڑھ لیا،جس طرح جب ایک سورہ پڑھتا ہے جو سورہ اس قرآن میں موجود ہے تو اس میں نہ کسی ایک کلمہ کی زیادتی کرتا ہے نہ کمی اور اس کو پڑھ نے کے بعد کہتا ہے کہ ہم نے فلاں سورہ پڑھ لیا،یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ مسلمان چاہے سنی ہو یا شیعہ تحریف قرآن کا قائل بہرحال نہیں ہے یہ بات تمام مسلمانوں کی سیرت اور ان کے فقہا کے کلمات سے ظاہر ہے۔جب علما یہ کہتے ہیں کہ نماز میں سورہ کا کچھ حصہ یا فلاں سورہ پڑھنا مستحب ہے تو ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ سورہ جو مصحف پاک میں لکھا ہوا ہے بغیر کسی کمی و زیادی کے وہ یہ نہیں کہتے کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)اظہارالحق ص:۳۵۴،چوتھی فصل میں جو احادیث پر شبہوں کے جواب ہیں،اور یہ شبھہ اول کے جواب کے باب میں ہے

۱۷۴

اس سورہ کو پڑھنے کے وقت فلاں کلمہ کو زیادہ یا فلاں کلمہ کو کم کرلینا چاہئیے جب کہ اگر قرآن میں وہ کلمہ زیادہ ہوتا تو علما ضرور متنبہ کرتے کہ اس کلمہ کو حذف کردینا اس لئے کہ آدمی کا کلام نماز کے درمیان پڑھنا نماز کو باطل قرار دینا ہے اور اگر اس سورہ میں کچھ کم ہوتا تو علما ضرور ہدایت کرتے کہ سورہ کو مکمل کرنے کے لئے فلاں کلمہ ملا لینا اس لئے کہ خصوصا فرقہ امامیہ کے یہاں مشہور ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد ایک مکمل سورہ پڑھنا واجب ہے،علما کا سورہ پڑھنے پر خاموش ہنا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جو قرآن ہمارے سامنے ہے اسی کو وہ قرآن سمجھتے ہیں اور جو سورہ قرآن میں لکھے ہیں وہ سب کے سب مکمل سورہ ہیں۔

البتہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے معاملے میں سنی،شیعہ کے درمیان اختلافات ہے شیعہ کہتے ہیں کہ سورہ توبہ کے علاوہ بسم اللہ..ہر سورہ کا جز ہے لہذا وہ نماز میں تلاوت سورہ کے وقت بسم اللہ کہتے ہیں،لیکن بسم اللہ کے علاوہ کسی چیز میں بھی عملاً اختلاف نہیں ہے۔یہی اجماع عملی ہے جو تمام مسلمانوں کو قرآن مجید کے بارے میں ایک نظریہ پر قائم رکھتا ہے چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ کا یہ کہنا ہے کہ قرآن اپنی اصل صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے اور اس کے مقابلے میں یعنی اس کے خلاف کسی مسلمان کا کوئی نظریہ نہیں ہے اس لئے قرآن مجید کے حقیقت کی دلیل ہے اور قرآن اپنی حقیقت کو خود ثابت کرتا ہے تمام عالم اسلام نے اس حقیقت کو مانا ہے اور اس پر عمل کیا ہے اور ان شبہات کو قوت مل ہی نہیں سکتی ہے جن کی وجہ سے ملت اسلامیہ میں کوئی ٹیڑھاپن یا کجی پیدا ہو یا قرآن مجید کی حقانیت میں کسی شک کی گنجائش ہو۔

شیعہ علما عدم تحریف کے قائل ہیں

۳۔جن شیعہ علما نے صراحت فرمائی ہے کہ مصحف کی دودفتیوں کے درمیان جو(کچھ موجود ہے وہ کل کا کل قرآن ہے وہ حضرات شیعوں کے بڑے علما ہیں ار ہر دور میں شیعوں کے علما نے تحریف کا انکار کیا ہے صرف شیخ طوسی ہی پر یہ بات منحصر نہیں ہے بلکہ ان کے پہلے اور بعد کے تمام علما نے عدم

۱۷۵

تحریف کی تائید کی ہے۔

الف:شیخ صدوق محمد بن بابویہ قمی جن کی نیت ابوجعفر ہے اور آپ کے والد علی بن الحسن ہیں آپ شیعوں کے قدیم علما میں ہیں مدرسہ قم کے زعیم اور اہل حدیث کے استاد ہیں آپ کی کتاب اعتقادات کا تذکرہ مصادر شیعہ کے ذیل میں آچکا ہے،اسی کتاب میں آپ لکھتے ہیں۔

((ہمارا عقیدہ ہے کہ جو قرآن اللہ نے ہمارے نبی محمدؐ پر نازل کیا تھا وہ دودفتیوں کے درمیان موجود ہے یہ وہی قرآن ہے جو لوگوں کے پاس ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے اس میں(۱۱۴)ایک سو چودہ سورہ ہیں ہمارے نزدیک((الم نشرح)) اور((الضحی)) ایک ہی سورہ ہے اور((لایلاف)) اور((الم تر کیف)) بھی ایک ہی سورہ ہے اور جو ہماری یہ قول منسوب کرتا ہے کہ ہم قرآن مجید کو اس سے زیادہ مانتے ہیں وہ جھوٹا اور ہمارے یہاں جو روایتیں پائی جاتی ہیں جیسے ہر سورہ قرآن پڑھنے کے ثواب کے بارے میں ختم کرنے کے بارے میں نماز نافلہ میں دو سوروں کے پڑھنے کے بارے میں اور نماز میں دو سوروں کے درمیان نبی کے بارے میں یہ روایتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ ہم اسے قرآن سمجھتے ہیں جو لوگوں کے پاس موجود ہے اسی طرح ہمارے یہاں یہ روایتیں بھی ملتی ہیں جن میں ایک رات میں قرآن ختم کرنے کو منع کیا گیا ہے کم سے کم تین رات میں قرآن ختم کرنے کے ہدایت کی گئی ہے یہ روایتیں بھی قرآن کے بارے میں ہمارے عقیدے کی تصدیق کرتی ہیں بلکہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ جو کچھ وحی نازل ہوئی اگر سب کو قرآن میں شامل کرلیا جاتا تو قرآن میں کم سے کم۱۷،ہزار آیتیں ہوتیں۔

غیرقرآنی وحی کی مثال جیسے جبرئیل کا سرکار سے کہنا کہ اے محمد ہماری مخلوق کی مدارات کردیا لوگوں کی کینہ پروری اور ان کی عداوت سے پرہیز کرو یا یہ کہ جتنا ہے جی لو تم بہرحال میت ہو جس سے چاہو دل لگاؤ بہرحال اس سے جدا ہوجاؤگے،جو عمل چاہے انجام دو اپنے عمل سے تمہاری ملاقات ہوگی،مومن کا شرف نماز شب ہے اور اس کی عزت لوگوں کو تکلیف نہیں دینا ہے یا سرکار دوعالم کا یہ قول کہ جبرئیل مجھ کو مسواک کی ہدایت کرتے رہے قریب تھا کہ میں اپنے دانت توڑ لوں یا دانتوں کی

۱۷۶

جڑوں میں گڈھے کرلوں اور پڑوسی کے بارے میں اتنی حدیثں ہیں کہ میں سمجھا اب وہ پڑوسی کو میراث بھی دےدیں گے،عورت کے بارے میں اتنی حدیثیں ہیں کہ میں سمجھا اس کو طلاق دینا ہی نہیں چاہئے اور غلاموں کے بارے میں اتنی حدیثیں ہیں کہ میں سمجھا اب وہ ایک مدت معین کردیں گے جو اس کی آزادی کا وقت ہوگا۔

یا غزوہ خندق سے فارغ ہونے کے بعد جبرئیل کا یہ پیغام لانا کہ اے محمدؐ اللہ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ نماز عصر بن قریظہ ہی میں ادا کریں یا سرکار کا یہ کہنا میرا پروردگار مجھے حکم دیتا ہے کہ میں لوگوں سے حسن اخلاق برتوں ان کی عقلوں کے مطابق جیسا کہ اللہ نے مجھے فرائض کے ادا کرنے کا حکم دیا ہے سرکار کا یہ قول کہ میرے پروردگار کی طرف سے جبرئیل ایسا حکم لے کےآئے جس سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں اور میرا سینہ اور دل خوش ہوگیا پیغام یہ ہے کہ اللہ کہتا ہے بیشک علی امیرالمومنین ہیں اور روشن پیشانی والوں کے قائد ہیں۔

یا سرکار کا یہ کہنا کہ جبرئیل مجھ پر یہ پیغام لےکے نازل ہوئے ہیں کہ اے محمد اللہ نے علی سے فاطمہ کی تزویج عرش پر کردی ہے اور اس پر اپنے بہترین فرشتوں کو گواہ بنایا ہے آپ اس نیک کام کو زمین پر انجام دے کے اپنی مات کے بہترین اصحاب کو گواہ بنادیں،اس طرح کی بہت سی خبریں اور پیغامات ہیں جو وحی تو ہیں مگر قرآن نہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ جملے اگر قرآن ہوتے تو قرآن میں ملادیئے جاتے اور اس سے الگ نہ رکھے جاتے۔

جیسا امیرالمومنین نے قرآن کو جمع کیا اور مسلمانوں کے پاس لےکے آئے فرمایا:یہ تمہارے پروردگار کی کتاب ہے ٹھیک اس طرح جمع کی گئی ہے جیسی نازل ہوئی ہے اس میں نہ کمی ہے نہ زیادتی ایک حرف بھی زیادہ یا کم نہیں ہے مسلمانوں نے کہا ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے ویسا ہی قرآن ہمارے پاس بھی ہے آپ یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کہ انہوں نے اس کو پس پشت ڈال دیا اور چھوٹی قیمت پر اس کو خرید لیا،پس بری چیز خریدی ہے۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الاعتقادات:ص:۸۳۔۸۶

۱۷۷

ہم نے اس گفتگو کو طویل دیا اس لئے کہ اس میں دو خاص باتیں ہیں

۱۔پہلی بات تو یہ ہے کہ عدم تحریف کے اوپر میں نے تمام مسلمانوں کے اجماع عملی کا دعوی کیا لیکن دلیلیں شیعوں کی طرف سے پیش کیں مثلا ختم قرآن اور قرات سورہ و غیرہ کے مسائل میں میں نے صرف شیعہ علما کی طرف سے پیش کرکے مسلمانوں کے اجماع عملی پر صرف شیعوں کی طرف سے دلیل دی ہے۔

۲۔دوسری بات یہ ہے کہ میں نے ان روایتوں کی تاویل پیش کی ہے جس سے تحریف کا وہم پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ عرض کیا ہے کہ ہر وحی قرآن انہیں ہوتی لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ میں نے یہ تاویل اپنی طرف سے نہیں پیش کی ہے بلکہ جناب شیخ صدوق جیسے علما کا قول نقل کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں حو ائمہ ۃدی علیہم الصلوۃ و السلام کے زمانے سے بہت قریب تھے اور اہل حدیث کے شیخ اور استاد تھے جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے اس سے یہ بات ثابت ہے کہ اس طرح کی تاویلیں شیعوں کے یہاں زمانہ شروع میں پائی جاتی تھیں۔یعنی یہ تاویلیں متاخرین کی ایجاد نہیں ہیں اور شادی یہی وجہ ہے کہ قدیم علما ان روایتوں کی بنا پر تحریف اور نقص کے قائل نہیں تھے۔

ب:شیخ محمد بن لغمان آپ کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے

آپ قدیم علما میں ہیں بغداد کے مدرسہ کے زعیم ہیں اور اہل اجتہاد و نظر کے استاد ہیں شیخ مفید کے نام سے مشہور ہیں آپ اپنی کتاب(اوائل المقالات)میں فرماتےیں امامیہ فرقے کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ قرآن میں سے کوئی کلمہ کوئی آیت اور کوئی سورہ کم نہیں ہے لیکن مصحف امیرالمومنین میں آیتوں کی جو تاویل پیش کی گئی تھی اور حقیقت تنزیل کی بنیاد پر معانی کی جو تفسیریں پیش کی گئی تھیں وہ قرآن سے حذف کردیا گیا ہے۔

حالانکہ میرے نزدیک یہ قول نفس قرآن میں نقص کے قول سے زیادہ مشتبہ اور کمزور ہے میں ڈوند عالم سے دعا کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو اللہ حق و حقیقت کی توفیق عنایت فرمائے۔

۱۷۸

لیکن جہان تک قرآن میں زیادتی کا سوال ہے تو یہ قول میرے نزدیک ایک رخ سے تو بالکل ہی غلط ہے اور ایک رخ سے صحیح بھی ہے میں جس رخ سے اس کے غلط ہونے کا یقین رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ مخلوق کے لئے ممکن نہیں ہے کہ ایک سورہ کے برابر اضافہ کردے اور فصحا کے سامنے یہ بات ثابت نہ ہوسکے اس لئے کہ قرآن کا اپنا ایک لہجہ اور ایک انداز ہے جس کی نقل مخلوق کے بس کاروگ نہیں،جس رخ سے زیادتی جائز سمجھی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک کلمہ یا دو کلمہ ایک لفظ یا دو لفظ یا ایک دو حروف کلمات سے مشابہ ہو جس کی وجہ سے فصیحوں کے نزدیک تمیز نہ ہوسکی ہے حلانکہ اس میں بھی یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ اللہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ رہبری کردے کہ قرآن میں فلاں زیادتی ہے میرا کلام نہیں ہے مجھے اس طرح کی زیادتی کا یقین بھی نہیں ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ قول بھی مشتبہ ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اس طرح کی زیادتی قرآن میں سرے سے واقع نہیں ہوئی اس کے ساتھ ہی میرے پاس امام جعفر صادق علیہ السلام سے عدم تحڑیف کی حدیثیں ہیں۔(۱)

((اس کے علاوہ جناب شیخ نے اس سلسلے میں بہت سی باتیں کی ہیں۔))

ج:سید مرتضی علی بن الحسن الموسوی آپ اپنے استاد شیخ مفید کے جانشین تھے اور شیخ کی جہ مدرسہ بغداد کے زعیم تھے،اہل نظر و اجتہاد کے استاد تھے آپ نے اپنی کتاب مجمع البیان میں تحریف کے سلسلے میں کلام پیش کرنے کے بعد کہا،یہ وہ نظریہ ہے جس می مرتضی تائید کرتے ہیں اور یہ مکمل گفتگو انھوں نے مسائل طرابلس یات کے جواب میں لکھی ہے کہ نقل قرآن کی صحت کا علم اس طرح ہے جیسے کہ شہروں کے بارے میں بڑے بڑے واقعات کے بارے میں،عظیم حادثوں کے بارے میں،مشہور کتابوں کے بارے میں عرب کے اشعار کے بارے میں جاننا ہے،اس طرح کی چیزیں لکھنے کے وقت انسان بہت شدت سے توجہ دیتا ہے اور اپنے قلم کو بہت محتاط کرلیتا ہے اس طرح قرآن کو نقل کرنے میں قرآن جمع کرنےوالوں نے بہت احتیاط سے کام لیا ہے اس لئے نبوت کا معجزہ علوم شرعیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)اوائل المقالات ص:۸۱۔۸۲،تالیف قرآن کے اقوال کے بارے میں

۱۷۹

اور احکام دین کا ماخذ ہے اور مسلمان علما نے اس کو نقل کرنے میں تا حد امکان احتیاط سے کام لیا ہے یہاں تک کہ انہوں نے وہ اختلافات بھی نقل کردیئے ہیں جو قرآن کے اعراب،قرات حروف اور آیتوں کے سلسلے میں ہوتے ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نظر کے ساتھ اور کامل توجہ کے ساتھ جمع کیا ہوا کلام مغیر یا منقوص ہو،سید فرماتے ہیں کہ تفسیر قرآن یا لفظ قرآن کے نقل کی صحت کا علم ایسا ہی ہے جیسے من جملہ قرآن کا علم اس کے نقل کرنے میں وہی طریقہ اپنایا گیا ہے جو طریقہ کسی مصنف کی تصنیفات کو نقل کرنے میں استعمال ہوا ہے،جیسے سیبویہ اور مزنی کی کتابیں۔

صاحبان نظر جس طرح ان کتابوں کی تفصیل سے واقف ہیں اس طرح ان کتابوں کے اجمال سے بھی واقف ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی داخل کرنےوالا کوئی ایسا باب سیبویہ کی کتاب میں داخل کردیتا ہے،جو اس کی اصل کتاب میں نہ ہو تو صاحبان نظر و اجتہاد فوراً اس کو پہچان لیتے ہیں اور جان جاتے ہیں کہ یہ الحاق ہے اور اصل کتاب میں نہیں پایا جاتا ہے یہی بات کتاب مزنی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے ظاہر ہے کہ جب مسلمان کتاب سیبویہ اور شعرا کے دیوان کو نقل کرنے میں اتنی احتیاط اور دقت نظر سے کام لیتا ہے تو قرآن مجید کے بارے میں بےاحتیاطی کیسے کرےگا۔

جناب سید تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ قرآن تو دور پیغمبرؐ میں ہی جمع ہوچکا تھا ارو تالیف پاچکا تھا،وہی قرآن آج ہمارے سمانے ہے سید مقام استدلال میں فرماتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں عہد پیغمبرؐ میں قرآن پڑھا جاتا تھا اور لوگ قرآن کو حفظ کیا کرتے تھے،یہاں تک صحابہ کی ایک جماعت کو حفظ قرآن پر معین کیا گیا تھا،جنہیں پیغمبرؐ کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور یہ لوگ آپ کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے تھے کچھ صحابہ نے مثلاً عبداللہ بن مسعود اور ابی بن کعب نے تو پیغمبرؐ کے حضور میں کئی مرتبہ قرآن ختم کیا تھا۔

ان تصریحات کو دیکھتے ہوئے ہم تھوڑی سی توجہ دیں تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ درود پیغمبرؐ میں قرآن مجموعی طور پر موجود اور مرتب تھا نہ کہ بکھرا ہوا اور منتشر۔

سید فرماتے ہیں کہ امامیہ اور حشویہ میں جن لوگوں نے اس نظریہ کی مخالفت کی ہے ان کی تعداد

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

حيات وزندگى ۵;آخرت كى معنوى حيات و زندگى ۵

خدا تعالى :اسكى پاداش ۱۵;اسكے راضى ہونے كى اہميت ۱۷; اسكے راضى ہونے كى برترى ۸،۹; اسكے راضى ہونے كے آثار ۱۲; اسكے وعدے ۱،۱۷

خدا تعالى كى رضا:جن كو يہ حاصل ہوگى ۱۷

روايت ۱۶،۱۷

زكات :اسكى پاداش ۱۵

سعادت :اسكے عوامل ۱۲،۱۳

صالحين:انكى اخروى پاداش ۶

عمل صالح :اسكے آثار ۱۱

عورت :اسكى اخروى پاداش ۳; زن و مرد كا برابر ہونا ۳; مومن عورتوں كا انجام ۱

كاميابي:اسكے عوامل ۱۱،۱۲،۱۳

مرد:اسكى اخروى پاداش ۳

مومنين:انكا بہشت ميں ہميشہ رہنا ۱;انكى اخروى پاداش ۶;انكى بہترين لذتيں ۸; انكى پاداش ۱۵; ان كے فضائل ۱;مومنين اور خدا كى رضا ۸; مومنين صالح بہشت ميں ۶; مومنين كے ساتھ وعدہ ۱; يہ بہشت ميں ۱۵

نماز :اسے بر پاكرنے كى پاداش ۱۵

نہى از منكر :اسكى پاداش ۱۵

۲۰۱

آیت ۷۳

( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ )

پيغمبر كفار اور منافقين سے جہاد كيجئے اور ان پر سختى كيجئے كہ ان كا انجام جہنم ہے جو بدترين ٹھكانا ہے _

۱_ خدا تعالى كى طرف سے كافروں او ر منافقوں كے ساتھ بے امان جنگ كرنے، ان كے ساتھ سختى سے نمٹنے اور ان پر رحم نہ كرنے كا پيغمبر اكرم(ص) كو حكم_يا ايها النبى جاهدالكفار و المنافقين و اغلظ عليهم

۲_ كفار و منافقين كے ساتھ جہاد كرنا اور ان كے ساتھ مصالحت نہ كرنا ضرورى ہے_

جاهد الكفار و اغلظ عليهم

۳_ كفار و منافقين كے ساتھ جہاد كا فيصلہ كرنا اسلامى معاشرہ كے رہبر كے اختيار ميں سے ہے_

يا ايها النبى جاهدا لكفار

''يا ايہا الذين آمنوا '' كى بجائے '' يا ايہا النبي'' كى تعبير بتاتى ہے كہ كفار و منافقين كے ساتھ جنگ كا فيصلہ كرنا مومن معاشرہ كے رہبر كے اختيار ات ميں سے ہے _

۴_ حق دشمن كفار و منافقين كے ساتھ شديد اور بے رحمانہ رو يہ اپنا ناضرورى ہے_واغلظ عليهم

۵_ جہنم كفار و منافقين كا ٹھكانہ اور ان كيلئے سخت اور دردناك انجام ہے_و مأواهم جهنم و بئس المصير

۶_كفر و نفاق انسان كے جہنمى ہونے كا سبب ہے_جاهد الكفار و المنافقين مأواهم جهنم

۷_ امام محمد باقر (ع) سے اللہ تعالى كے فرمان ''كفار و منافقين كے ساتھ جہاد كر'' ( كى وضاحت ميں ) روايت كى گئي ہے:''جاهد الكفار والمنافقين''بالزام الفرائض ; اس سے مقصود انہيں فرائض كى انجام

۲۰۲

دہى پر مجبور كرنا ہے_(۱)

آنحضرت (ص) :آپ (ص) اور كفار۱ ; آپ(ص) اور منافقين ۱ ; آپ كى ذمہ دارى ۱

انجام:برا انجام ۵

جہاد:جہاد كفار كے ساتھ ۱،۲،۳،۷; جہاد منافقين كے ساتھ ۱،۲،۳،۷

جہنم:اسكے اسباب ۶

جہنمى لوگ ۵

خدا تعالى :اس كے اوامر ۱

دينى راہنما:انكى ذمہ دارى ۳

روايت:۷

كفار:ان پر سختى كرنا ۱،۲،۴; انكا انجام ۵; ان كے ساتھ رويہ ۴;يہ جہنم ميں ۵

كفر:اسكے آثار ۶

منافقت :اسكے آثار ۶

منافقين :ان پر سختى كرنا ۱،۲،۴;انكا انجام ۵; ان كے ساتھ كيسا رويہ ہو ۴; يہ جہنم ميں ۵

____________________

۱)تفسير قمى ج ۱ ص ۳۰۱_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۴۲ح ۲۴۰_

۲۰۳

آیت ۷۴

( يَحْلِفُونَ بِاللّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ فَإِن يَتُوبُواْ يَكُ خَيْراً لَّهُمْ وَإِن يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللّهُ عَذَاباً أَلِيماً فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الأَرْضِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ )

يہ اپنى باتوں پر اللہ كى قسم كھا تے ہيں كہ ايسا نہيں كہا حالا نكہ انھوں نے كلمہ كفر كہا ہے اور اپنے اسلام كے بعد كافر ہوگئے ہيں اور وہ ارادہ كيا تھا جو حاصل نہيں كرسكے اور ان كا غصّہ صرف اس بات پر ہے كہ اللہ اور رسول نے اپنے فضل و كرم سے مسلمانوں كو نواز ديا ہے _ بہر حال يہ اب بھى تو بہ كرليں تو ان كے حق ميں بہتر ہے اورمنھ پھير ليں تو اللہ ان پر دنيا اور آخرت ميں دردناك عذاب كرے گا اورروئے زمين پر كوئي ان كا سرپرست اور مددگار نہ ہوگا_

۱_ منافقين كا اپنى كفر آميز مخفى باتوں سے انكار كرنے كيلئے جھوٹى قسميں كھانا _

يحلفون بالله ما قالوا و لقد قالوا كلمة الكفر

۲_ منافقين كا مكتب اسلامى كى اقدار اور اسلامى معاشرہ كے اعتقادا ت سے سوء استفادہ كرنا _يحلفون بالله ما قالو

۳_ اسلامى معاشرہ ميں كسى شخص كى زبانى باتوں اور اقرار سے اس كاباقاعدہ كافر سمجھا جانا_

يحلفون بالله ما قالوا و لقد قالوا كلمة الكفر و كفروا بعد اسلامهم

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ منافقين اپنى كفر آميز باتوں كى نفى كركے اپنے آپ كو مسلمان ظاہر كرنا چاہتے ہيں اور خدا تعالى نے ان كے اقرار كو بے بنياد ظاہر كرنے كيلئے ان سے ان

۲۰۴

كافرانہ باتوں كے صادر ہونے پر تاكيد فرمائي ہے_

۴_ صدر اسلام كے منافقين كا انكى كفر آميز باتوں كے اظہار كے ساتھ كفر ثابت ہوگيا_

و لقد قالوا كلمة الكفر و كفروا بعد اسلامهم

۵_ كفر آميز كلمات كو زبان پر جارى كرنا ممنوع ہے_و لقد قالوا كلمة الكفر و كفروا

۶_ زبان پر كفر آميز باتيں جارى كرنا كفر كا سبب ہے_يحلفون بالله ما قالوا و لقد قالوا كلمة الكفر و كفروا

۷_ پيغمبر(ص) اوراسلام كے خلاف منافقين كى خفيہ كوششيں اور سازشيں _

و هموا بمالم ينالوا

۸_ اسلام و پيغمبر (ص) كے خلاف سازشوں ميں منافقين كو شكست اور برے اہداف تك پہنچنے كيلئے انہيں ناكامى كا سامنا_و هموا بمالم ينالوا

۹_ منافقين پر خدا و رسول كے فضل و كرم كے باوجود ان كى اسلام و پيغمبر(ص) كے خلاف خيانتكارانہ سرگرميوں پر انہيں توبيخ _و مانقموا الاان اغناهم الله و رسوله من فضله

۱۰_ صدر اسلام كے منافقين كے پاس مادى وسائل اور آسائش _و ما نقموا الاان اغناهم الله و رسوله

۱۱_ اسلامى حكومت كى بركات سب لوگوں پر ہوتى ہيں حتى كہ اسے قبول نہ كرنے والوں پر بھى _

و مانقموا الاان اغناهم الله و رسوله من فضله

۲ ۱_خدمت كے مقابلے ميں خيانت منافقين كى خصلت ہے_و ما نقموا الاان اغناهم الله و رسوله

۱۳_منافقين كى اسلام و پيغمبر (ص) كے خلاف سازشيں انكا مسلمانوں سے اس بات كا انتقام تھا كہ خدا و رسول كے فضل و كرم كے نتيجے ميں مسلمانوں كو مادى وسائل حاصل ہوگئے ہيں _

و مانقموا الاان اغناهم الله و رسوله من فضله

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ '' اغناہم '' كى ضمير كا مرجع مسلمان ہوں _

۱۴_ مسلمانوں كے مادى وسائل و آسائش صدر اسلام كے منافقين كيلئے ناقابل برداشت تھے اور انكى وجہ سے ان كے سينوں ميں كينے اور ظلم كى آگ بھڑك اٹھى _و مانقموا الاان اغناهم الله و رسوله من فضله

۱۵_ آسائش اور بے نيازى سركشى اور حق كے ساتھ دشمنى كاپيش خيمہ ہے_

۲۰۵

و ما نقموا الاان اغناهم الله و رسوله من فضله

۱۶_ پيغمبر(ص) فيض الہى كے اسلامى معاشرے تك پہنچنے كا ذريعہ ہيں _ان اغنيهم الله و رسوله من فضله

''اللہ '' كے بعد''ر سولہ'' كا ذكر كرنا اور پھر ''من فضلہ '' كى ضمير كا صرف خدا تعالى كى طرف پلٹانا ہو سكتا ہے اس بات كى طرف اشارہ ہو كہ فيض خدا تعالى كا ہے اور پيغمبر (ص) خدا كے فيض كے مخلوق تك پہنچنے ميں واسطہ ہيں _

۱۷_ صرف خدا تعالى ہى فيض و رحمت اور غنا و بے نيازى كا منبع اور سرچشمہ ہے _

ان اغناهم الله و رسوله من فضله

اگر چہ خدا تعالى نے اپنے نام كے ہمراہ پيغمبر (ص) كا بھى ذكر فرمايا ہے ليكن فضل كو صرف اپنى طرف نسبت دى ہے_

۱۸_ توبہ اورپلٹنے كا راستہ حتى سازشى منافقين كيلئے بھى كھلا ہے_فان يتوبوا يك خيراً لهم

۱۹_ خدا تعالى مرتد اور سازشيں كرنے والے منافقين كو توبہ كرنے اور دامن اسلام ميں پلٹ آنے كى دعوت ديتا ہے_

فان يتوبوا يك خيرا لهم

۲۰_اسلام كا زيادہ سے زيادہ انسانوں كو حق كى طرف ہدايت كرنے اور انكى راہنمائي كرنے كا اہتما م كرنا_

فان يتوبوا يك خيرا لهم

۲۱_ مرتد لوگوں كى توبہ بھى خدا تعالى قبول كرليتا ہے_و كفروا بعد اسلامهم فان يتوبوا يك خيرا لهم

۲۲_ توبہ كى دعوت دينا اور خدا تعالى كا انسان كى راہنمائي كرنا خود انسان كے فائدہ كيلئے ہے_

فان يتوبوا يك خيرا لهم

۲۳_ خدا تعالى كى طرف سے صدر اسلام كے منافقين كو توبہ سے امتناع كرنے اور اپنى كفر آميز سازشوں پر اصرار كرنے كى صورت ميں شديد دنيوى اور اخروى سزا كى دھمكى _فان يتوبوا و ان يتولوا يعذبهم الله عذاباً اليماً فى الدنيا و الآخرة

۲۴_مرتد اور الہى اقدار كى توہين كرنے والے كى توبہ اس سے خدا تعالى كے عذاب كے اٹھ جانے كا سبب ہے_

فان يتوبوا يك خيرا لهم و ان يتولوا يعذبهم الله

۲۵_ حق سے روگردانى كرنا اور كفر و ارتداد پر اصرار كرنا شديد دنيوى اور اخروى عذاب كا سبب ہے_

و ان يتولوا يعذبهم الله عذابا اليما فى الدنيا و الآخرة

۲۰۶

۲۶_ مرتد اور كفر آميز باتيں كرنے والوں كے ساتھ سخت رويہ ضرورى ہے_

و ان يتولوا يعذبهم الله عذاباً اليماً فى الدنيا

۲۷_ رحمت الہى كا اسكے غضب اور عذاب سے پہلے ہونا_فان يتوبوا يك خيراً لهم و ان يتولوا يعذبهم الله

۲۸_ جب منافقين دنيوى اور اخروى عذاب ميں مبتلا ہوں گے تو كسى ميں انكى امداد كرنے كى ہمت نہيں ہوگى _

يعذبهم الله و ما لهم فى الارض من وليّ ولا نصير

۲۹_ اسلام و مسلمين كے خلاف سازشيں كرنے اور كافرانہ موقف اپنانے ميں منافقين كا اپنے حاميوں پر بھروسہ اور ان كے ساتھ دل لگا نا_و ما لهم فى الارض من ولى ولانصير

خداتعالى كى طرف سے يہ دھمكى كہ منافقين كا كوئي حامى و مددگار نہيں ہوگا انكى اپنے حاميوں پر بھروسہ كرنے والى غلط فكر كو بيان كر رہى ہے كہ خداتعالى نے اس فكر كو ردكيا ہے _

۳۰_ خداتعالى كا خبر دينا كہ صدر اسلام كے منافقين آخر كار الگ تھلگ اور معاشرے ميں ذلت و رسوائي كا شكار ہوجائيں گے _و ما لهم فى الارض من ولى ولا نصير

اس بات كو مدنظر ركھتے ہوئے كہ يہ آيت شريفہ مستقبل كى خبر دے رہى ہے نيز ہوسكتا ہے'' فى الارض'' اسى دنياوى زندگى كى طرف اشارہ ہو ، مندرجہ بالا نكتہ حاصل ہوتا ہے _

۳۱_ كوئي بھى چيز ارادہ الہى كے عملى ہونے كو نہيں روك سكتى _

يعذبهم الله و ما لهم فى الارض من ولى ولانصير

آسائش :اسكے آثار ۱۵

آنحضرت(ص) :آپكا(ص) فضل و كرم ۱۳; آپكا(ص) مقام ۱۶;آپكا(ص) نقش ۱۶;آپكے(ص) خلاف سازشيں كرنا ۷،۸،۱۳; آپكے(ص) دشمن ۷; آپكے(ص) ساتھ خيانت كرنے والے ۹

احكام ۵، ۲۱

اسلام :اسكى بركات ۱۱;اسكى حاكميت كے آثار ۱۱;اس كے خلاف سازشيں كرنا ۷،۸،۱۳; اسكے دشمن ۷; اس كے ساتھ خيانت كرنے والے ۹;صدر اسلام كى تاريخ ۷،۸،۱۳

اقدار :

۲۰۷

ان سے سوء استفادہ كرنا۲

اقرار :كفر كا اقرار ۴;كفر كے اقرار كے آثار ۳

انسان:اسكى ہدايت كى اہميت ۲۰;اسكے مصالح كى اہميت ۲۲

برانگيختہ كرنا:اسكے عوامل۱۴

بے نيازي:اس كا سرچشمہ ۱۷;اسكے آثار ۱۵

توبہ:اس كا فلسفہ;۲۲; اسكى طرف دعوت ۱۹; اسكے ترك كرنے كى سزا ۲۳

توحيد:توحيد افعالى ۱۷

حق:اس سے روگردانى كرنے كے آثار ۲۵; حق دشمنى كا سرچشمہ ۱۵

خدا تعالى :اس كا علم غيب ۳۰; اس كا غضب ۲۷; اس كا فضل ۹،۱۳;اسكى خصوصيات ۷; اسكى دعوت ۱۹;اسكى دھمكياں ۲۳;اس كى رحمت كا مقدم ہونا ۲۷; اسكے ارادہ كا حتمى ہونا ۳۱; اسكے فيض كا واسطہ ۱۶

دين:اس سے سوء استفادہ كرنا ۲;اسكى اہانت كرنے والوں كى توبہ ۲۴

رحمت:اس كا سرچشمہ ۱۷

سركشى كرنا :اس كا پيش خيمہ۱۵

سزا:اسكى شدت كے عوامل ۲۳،۲۵

عذاب :اسكے اٹھنے كے عوامل ۲۴

فيض:اس كا سرچشمہ ۱۷

قرآن كريم :اسكى پيشين گوئياں ۳۰

كفار:ان پر سختى كرنا ۲۶

كفر:اس پر اصرار كى آخرت ميں سزا ۲۳; اس پر اصرار كى دنيوى سزا ۲۳;اس پر اصرار كے آثار ۲۵; زبانى كفر ۴،۶;زبانى كفر كا ممنوع ہونا ۵; كفر

۲۰۸

كے اسباب ۶

كيفر:اخروى سزا كے اسباب ۲۵; اسكے درجے ۲۳،۲۵; اسكے عوامل ۲۳;دنيوى سزا كے اسباب ۲۵

مرتد:اسكى توبہ كا قبول ہونا ۳۱;اسكى توبہ كے آثار ۲۴; اسكے احكام ۲۱; اسكے ساتھ سختى سے نمٹنا۲۶

مرتد ہونا :اس كا جرم ۲۵;اسكے آثار ۲۵

مسلمان :ان پر فضل و كرم ۱۳; صدر اسلام كے مسلمانوں كى آسائش ۱۴;صدر اسلام كے مسلمانوں كے مادى وسائل ۱۴

منافقين :ان پر فضل و كرم ۹;انكا اخروى عذاب ۲۸;انكا بھروسہ ۲۹; انكا پناہ كے بغير ہونا ۲۸; انكا حسد ۱۴ ; انكا دنيوى عذاب ۲۸; انكا سازشيں كرنا ۷،۱۳; انكا سوء استفادہ كرنا ۲; انكا كفر ۱;انكى انتقام جوئي ۱۳ ; انكى توبہ ۱۸; نكى جھوٹى قسم ۱; انكى خيانت ۹، ۱۲ ; انكى سازش كى ناكامى ۸;انكى صفات ۱۲; ان كے جھوٹ كا فلسفہ ۱; ان كے حامى ۲۹;سازشيں كرنے والے منافقين كو دعوت ۱۹;صدر اسلام كے منافقين ۷،۸; صدر اسلام كے منافقين كا انجام ۳۰; صدر اسلام كے منافقين كا كفر ۴;صدر اسلام كے منافقين كا معاشرے ميں تنہا رہ جانا ۳۰; صدر اسلام كے منافقين كو دھمكى ۲۳; صدر اسلام كے منافقين كى آسائش ۱۰; صدر اسلام كے منافقين كى رسوائي ۳۰; صدر اسلام كے منافقين كى سرزنش ۹; صدر اسلام كے منافقين كے كينے كا سرچشمہ ۱۴; صدر اسلام كے منافقين كے مادى وسائل ۱۰; مرتد ہوجانے والے منافقين كو دعوت ۱۹; منافقين اور مسلمان ۱۳،۱۴

آیت ۷۵

( وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللّهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ )

ان ميں وہ بھى ہيں جنھوں نے خدا سے عہد كيا كہ اگر نہ اپنے فضل وكر م سے عطا كرديگاتو اس كى راہ ميں صدقہ ديں گے انور نيك بندوں ميں شامل ہو جائيں گے_

۱_ صدر اسلام كے بعض منافقين كا خدا تعالى كے ساتھ عہد و پيمان باندھنا كہ اگر انہيں مال اور فضل الہى

۲۰۹

حاصل ہوجائے تو زكات و صدقات ادا كريں گے اور صالحين كى صف ميں شامل ہوجائيں گے_

و منهم من عاهد الله و لنكونن من الصالحين

۲_ مال ودولت اور مادى وسائل ، فضل الہى ہيں _لئن اتانا من فضله لنصدقنّ

۳_ زكات و صدقات ادا كرنا نيك لوگوں كى نشانى اور كام ہيں _لنصدقنّ و لنكونن ّ من الصالحين

۴_ فرائض كى انجام دہى اور نيك ہونے كو مال و دولت كے ساتھ مشروط كرنا منافقانہ خصلت ہے_

و منهم من عاهد الله لنكوننّ من الصالحين

۵_ منافقين مادى مزاج كے لوگ_و منهم من عاهدالله لئن آتانا لنكونن ّ من الصالحين

كيوں كہ منافقين نے اپنے صالح ہونے كو مال و دولت كے ساتھ مشروط كيا تھا_

۶_ صدر اسلام كے منافقين كا اپنے خالص اور صالح نہ ہونے كا اقرار _و منهم من عاهدالله لنكوننّ من الصالحين

۷_ انسان كا ضرورت كے وقت بارگاہ خداوندى كى طرف متوجہ ہونا اور اس كے ساتھ عہد و پيمان باندھنا_

و منهم من عاهد الله لئن آتانا من فضله

اخلاق:اخلاقى رذائل ۴

انسان:اس كى خصوصيات ۷

خدا تعالى :اسكے ساتھ عہد باندھنا ۱; اسكے ساتھ عہد كرنے كا پيش خيمہ۷; اسكے فضل كا پيش خيمہ ۱; اسكے فضل و كرم كے موارد ۲

خود:اپنے خلاف اقرار۶

ذكر:ذكر خدا كا پيش خيمہ۷

شرعى ذمہ دارى :اس پر عمل كرنے ميں بہانہ بنانا ۴

مادى وسائل ۲

مال:اس كا فضل ہونا ۲

۲۱۰

منافقين :انكا مزاج ۵; انكى دنيا پرستى ۵; انكى صفات ۴،۶;انكى مادہ پرستى ۵;صدر اسلام كے منافقين كا اقرار ۶; صدر اسلام كے منافقين كا عہد ۱; يہ اور اخلاص ۶; يہ اور زكات ۱;يہ اور صدقات ۱; يہ اور نيك لوگ ۱

نيازمندى :اسكے آثار ۷

صالحين:انكا عمل ۳; ان كى نشانياں ۳;يہ اور زكات ۳; يہ اور صدقہ ۳

آیت ۷۶

( فَلَمَّا آتَاهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُواْ بِهِ وَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ )

اس كے بعد جب خدا نے اپنے فضل سے عطا كرديا تو بخل سے كام ليا اور كنارہ كش ہو كر پلٹ گئے _

۱_ خدا تعالى كے ساتھ عہد و پيمان باندھنے كے باوجود منافقين كا مال و فضل الہى كو پالينے كے بعد صدقات ادا كرنے سے بخل كرنا _و منهم من عاهد الله فلما آتى هم من فضله بخلوا به

۲_ خدا تعالى كا منافقين كى مال و دولت كى درخواست كو قبول كرلينا _فلما آتاهم من فضله

۳_ مال و ثروت فضل الہى ہے_فلما آتاهم من فضله

۴_ منافقين كا خدا تعالى كے ساتھ مضبوط عہد كرنے كے باوجود عہد شكنى كرنا _

و منهم من عاهد الله فلما آتاهم من فضله بخلوا به

۵_عہد شكنى كرنا منافقت كى نشانى ہے_و منهم من عاهد الله فلما آتاهم من فضله بخلوا به

۶_ مال و فضل الہى كو پالينے كے بعد صدقات اداكرنے سے بخل كرنا ايك منفى اور منافقانہ خصلت ہے_

فلما آتاهم من فضله بخلوا به

۷_ صدر اسلام كے منافقين كا صدقات ادا كرنے سے بخل كرنا ان كى طرف سے صالحين كى صف ميں

۲۱۱

شامل ہونے والے معاہدے سے روگردانى تھي_و منهم من عاهد الله و تولوا و هم معرضون

۸_ منافقين كا مزاج ہى نيكى اور انجام فرائض سے روگردانى كرنا ہے_لنكوننّ من الصالحين و تولوا و هم معرضون

۹_ امام محمد باقر (ع) سے اللہ تعالى كے فرمان ( و منہم من عاہداللہ) كے بارے ميں روايت كى گئي ہے:''ہو ثعلبة بن خاطب بن عمروبن عوف كان محتاجاًفعاہد اللہ فلمّا آتاہ اللہ بخل بہ''; كہ جس نے محتاجى كى حالت ميں خدا تعالى كے ساتھ عہد كيا (كہ اگر مجھے فضل خدا حاصل ہوگيا تو صدقہ دوں گا) اور جب خدا تعالى نے اسے عطا كرديا تو بخل كرنے لگا يہ ثعلبہ بن خاطب بن عمرو بن عوف تھا_(۱)

اخلاق:اخلاقى رذائل ۶

ثعلبہ بن خاطب:اسكا بخل۹; اسكى عہد شكنى ۹

خدا تعالى :اسكى عطا ۲; اسكے ساتھ عہد ۱،۴; اسكے فضل كے موارد ۳

ذمہ دارى :اس سے فرار كرنا ۸

روايت:۹

صدقات:ان ميں بخل كرنے كى سرزنش ۶

عہد شكنى :اسكے آثار ۵

مال:اسكى اہميت۳

منافقت:اسكى نشانياں ۵

منافقين:انكا بخل ۱;انكا مزاج ۸;انكى دعا كا قبول ہونا ۲; انكى دنيا پرستى ۱;انكى صالحين سے روگردانى ۷; انكى عہد شكنى ۱،۴; انكے رذائل ۱;انہيں مال عطا كرنا ۲; صدر اسلام كے منافقين اور صدقات ۷;صدر اسلام كے منافقين كى عہد شكنى ۷;صدر اسلام كے منافقين كے بخل كے آثار ۷; منافقين اور ذمہ دارى ۸ ;منافقين اور صالح ہونا ۸; منافقين اور صدقات ۱

____________________

۱)تفسير قمى ج ۱ ص ۳۰۱_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۴۵ح ۲۴۸_

۲۱۲

آیت ۷۷

( فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقاً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُواْ اللّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُواْ يَكْذِبُونَ )

تو ان كے بخل نےان كے دلوں ميں نفاق راسخ كرديا اس دن تك كے لئے جب يہ خدا سے ملاقات كريں گے اس لئے كہ انھوں نے خدا سے كئے ہوئے وعدہ كى مخالفت كى ہے اور جھوٹ بولے ہيں _

۱_منافقين كے صدقات ادا كرنے سے بخل كرنے كا رد عمل انكا تا دم مرگ نفاق كے ديرينہ مرض كا شكار ہو جانا _

فاعقبهم نفاقاً فى قلوبهم الى يوم يلقونه

''فاعقبہم '' سابقہ جملے پر تفريع ہے يعنى منافقين خدا تعالى كے ساتھ عہدوپيمان باندھنے كے باوجود صدقات ادا نہ كرنے كى وجہ سے ايسے نفاق ميں مبتلا ہوگئے كہ جو انہيں مرتے دم تك نہيں چھوڑے گا _

۲_ كنجوس اور عہد شكنى كرنے والے منافقين كا ديرينہ نفاق ميں مبتلا ہوجانا خدا تعالى كى طرف سے ان كيلئے سزا_

فاعقبهم نفاقاً فى قلوبهم

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ ''اعقب'' كى ضمير كا مرجع سابقہ جملے ميں موجود لفظ ''اللہ'' ہو يعنى خدا تعالى نے منافقين كو ان كے خدا تعالى كے ساتھ كئے گئے معاہدے كى خلاف ورزى كرنے اور زكات ادانہ كرنے كى وجہ سے دائمى نفاق ميں مبتلا كرديا كہ جس سے قيامت تك چھٹكارا حاصل نہيں كرسكتے _

۳_ نفاق كے مختلف درجے _و منهم من عاهدالله فاعقبهم نفاقا

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ'' و منهم من عاهد الله '' ميں ''منہم ''كى ضمير كا مرجع منافقين ہيں ہوسكتا ہے جملہ '' فاعقبہم نفاقاً'' كا مطلب يہ ہو كہ يہ لوگ خدا تعالى كے ساتھ معاہدہ كرنے سے پہلے بھى منافق تھے ليكن پيمان شكنى كے بعد دائمى نفاق ميں مبتلا ہوگئے_

۴_ انسان كے خدا تعالى كے ساتھ كئے گئے اپنے معاہدوں كو توڑ دينے كى صورت ميں منافقت ميں مبتلا ہوجانے كا خطرہ _

فاعقبهم نفاقا

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ جملہ'' فاعقبهم نفاقاً'' خود نفاق كے پيدا ہونے كى طرف اشارہ ہو يعنى پہلے منافق نہ تھے اور اپنے عمل كے نتيجے ميں منافق ہوگئے_

۲۱۳

۵_ موت كا لمحہ انسان كے خدا تعالى كے ساتھ ملاقات كرنے اور اس كيلئے حق كے آشكار ہونے كا وقت ہے_

يوم يلقونه

ہو سكتا ہے '' يوم يلقونہ '' سے مراد موت ہو او ر ہو سكتا ہے قيامت ہو_ مندرجہ بالا نكتہ پہلے احتمال كى بنا پر ہے_

۶_قيامت، انسان كے خدا تعالى كے ساتھ ملاقات كرنے كا دن _يوم يلقونه

۷_ خدا تعالى كے ساتھ عہد شكنى كرنا اور جھوٹ بولنے كى عادت انسان كے دائمى نفاق ميں مبتلا ہوجانے كا سبب ہے_

بما اخلفوا الله ما وعدوه و بما كانوا يكذبون

''كانوا يكذبون'' اسمترار پر دلالت كرتا ہے كيونكہ فعل مضارع جب ''كان '' اور اسكى مثل كے ہمراہ ہو تو استمرار پر دلالت كرتا ہے_

۸_ جھوٹ بولنا منافقين كا دائمى شيوہ _و بما كانوا يكذبون

۹_ انسان كے اعمال كا اسكى فطرت اورروح پراثر_فاعقبهم نفاقاً بما اخلفوا الله

۱۰_ پيمان شكنى جھوٹ بولنے كا مصداق ہے_بما اخلفوا الله ما وعدوه و بما كانوا يكذبون

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ '' بما كانوا يكذبون'' '' بما اخلفوا اللہ ما وعدوہ '' كا بيان اور اس كا عطف تفسيرى ہونہ اس سے الگ كوئي چيز _

۱۱_ خدا تعالى كے ساتھ پيمان شكنى كرنا اور مسلسل جھوٹ بولنا منافقين كى نشانى ہے_

بما اخلفوا الله ما وعدوه و بما كانوا يكذبون

۱۲_ كنجوسى ، حق سے روگردانى كرنا ، پيمان شكنى اور جھوٹ بولنا يہ سب گناہ اور موجب سزا ہيں _

فلما آتاهم بخلوا به و تولوا بما اخلفوا الله و بما كانوا يكذبون

۱۳_ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے''المنافق اذا حدّث عن الله و عن رسوله كذب و اذا وعد الله ورسوله اخلف ...و ذلك قول الله عزوجل ''فاعقبهم نفاقاً فى قلوبهم ...بما اخلفوا الله ما وعدوه و بماكانوا يكذبون '' منافق جب بھى خدا و رسول كے

۲۱۴

بارے ميں بات كرتا ہے جھوٹ بولتا ہے او اگر خدا و رسول كے ساتھ وعدہ كرے تو خلاف ورزى كرتا ہے خدا تعالى فرماتا ہے '' پس خدا تعالى نے اپنى ملاقات كے دن تك ان كے دلوں ميں نفاق قراردے ديا ہے اس وجہ سے كہ انہوں نے خدا تعالى كے ساتھ عہد شكنى كى اور مسلسل جھوٹ بولتے تھے(۱)

۱۴_ اميرالمومنين عليہ السلام سے روايت كى گئي ہے :''واما قوله تعالي: ...''الى يوم يلقونه بما اخلفوا الله ما وعدوه ...يعنى البعث فسماه الله عزوجل لقائه ''آيت شريفہ ميں '' يوم يلقونہ'' سے مراد قيامت كا دن ہے كہ خدا تعالى نے اسے اپنى ملاقات كا دن قرار ديا ہے(۲)

بخل:اسكا گناہ ہونا ۱۲; اسكى سزا ۱۲;اسكے آثار ۱

جھوٹ:اس كا گناہ ۱۲; اسكى سزا ۱۲;اسكے آثار ۷; اسكے موارد ۱۰

حق:اس سے روگردانى كرنے كا گناہ ہونا ۱۲;اس سے روگردانى كرنے كى سزا ۱۲

خدا تعالى :اسكى سزائيں ۲

خدا تعالى كى ملاقات :اس كا وقت ۵،۶،۱۴

روايت:۱۳،۱۴

صدقات :صدقات نہ دينے كے آثار ۱

عمل:اسكے نفسياتى اور روحانى آثار ۹

عہد شكنى :اس كا گناہ ہونا ۱۲; اس كى سزا ۱۲; اسكے آثار ۴،۷،۱۰; خدا تعالى كے ساتھ عہد شكنى كرنا ۴،۷ ، ۱۱

قيامت :اسكى خصوصيات ۶;اسكے نام ۱۴

منافقين:انكا بخل ۱; انكا جھوٹ بولنا ۸،۱۱،۱۳;انكا دائمى نفاق ۱۳; انكا مبتلا ہونا ۲; انكى صفات ۸; انكى عہد شكنى ۱۱،۱۳;انكى نشانياں ۱۱; بخيل منافقين كى سزا ۲; عہد شكن منافقين كى سزا ۲

موت:

____________________

۱) تحف العقول ص ۳۶۸_ بحار الانوار ج ۷۵ ص ۲۵۲_

۲)توحيد صدوق ص ۲۶۷ح ۵_ بحار الانوار ج ۹۰ ص ۱۳۹ ح ۲_

۲۱۵

اسكے آثار ۵; اسكے بعد حقائق كا ظاہر ہونا ۵

نفاق :اس كا سبب ۴; اسكے دائمى ہونے كے عوامل ۱،۲،۷; اسكے مراتب ۱،۲،۳،۷

آیت ۷۸

( أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَأَنَّ اللّهَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ )

كيا يہ نہيں جانتے كہ خدا ان كے راز دل اور ان كى سرگوشيوں كو بھى جانتا ہے اور وہ سارے غيب كا جاننے والا ہے_

۱_ خدا تعالى كى طرف سے پيمان شكنى كرنے والے منافقين كى خدا تعالى كے انسانوں كے اعمال اور نيتوں سے مكمل آگاہى كے بارے ميں غلط فكر پر توبيخ_الم يعلموا ان الله يعلم

۲_ خدا تعالى كا انسان كى مخفى گفتار و كردار سے آگاہ ہونا_يعلم سرّهم و نجواهم

۳_ منافقين كا خدا تعالى كے انكى خفيہ گفتار اور پنہان اسرار سے مكمل آگاہ ہونے اور عالم الغيب ہونے سے غافل ہونا انكے خدا تعالى كے حضور اپنے فرائض كى عدم ادائيگى كا سبب ہے_

بما اخلفوا الله ما وعدوه الم يعلموا ان الله يعلم و ان الله علاّم الغيوب

۴_ خدا تعالى كے بارے ميں ناقص اور غلط شناخت غلط اعمال كا موجب ہے_

اخلفوا الله ما وعدوه الم يعلموا ان الله يعلم

''الم يعلموا'' بتا رہا ہے كہ اگر منافقين خدا تعالى كے وسيع علم سے آگاہ ہوتے تو اپنے فرائض سے كوتاہى نہيں كرتے_

۵_ صدر اسلام كے منافقين كى اسلام اور مسلمانوں كے خلاف اپنى خائنانہ سازشوں كو چھپانے كى كوشش_

الم يعلموا ان الله يعلم سرّ هم

۲۱۶

۶_ خدا تعالى كى طرف سے منافقين كو ان كے اسرار اور پنہان گفتار كے افشا كرنے كى دھمكى _الم يعلموا ان الله يعلم

اس نكتے كى وضاحت ميں كہا جاسكتا ہے كہ خدا تعالى كا منافقين كو يہ ياد دہانى كرانا كہ اسے انكے اسرا راور پنہان گفتار سے آگاہى ہے، انكے افشاء كے امكان كى دھمكى ہے_

۷_ خدا تعالى علّام الغيوب ( سب پوشيدہ چيزوں كا گہرا اور وسيع علم ركھنے والا) ہے_ان الله علام الغيوب

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۵

اسما و صفات :علّام الغيوب ۷

انسان :اسكى نيتيں ۱;اسكے راز ۲

خدا تعالى :اس كا علم غيب ۱،۲،۳،۷; اسكى دھمكياں ۶;اسكى طرف سے مذمتيں ۱; اسكى ناقص شناخت كے آثار ۴; اسكے علم كى خصوصيات ۷

عمل:پنہان عمل ۲; ناپسنديدہ عمل كے عوامل ۴

غفلت :خدا تعالى كے علم غيب سے غفلت ۳

منافقين :انكا سازشيں تيار كرنا ۵;انكو تنبيہ ۶;انكى غفلت كے آثار ۳; انكى فكر ۱;انكى نافرمانى كے عوامل ۳; انكے راز كا افشاء كرنا ۶;صدر اسلام كے منافقين اور اسلام ۵; صدر اسلام كے منافقين اور مسلمان ۵; صدر اسلام كے منافقين كى كوشش ۵; عہد شكنى كرنے والے منافقين كى سرزنش ۱;

نظريہ كائنات :نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۳،۴

۲۱۷

آیت ۷۹

( الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ إِلاَّ جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ )

جو لوگ صدقات ميں فراخدلى سے حصّہ لينے والے مومنين اور ان غريبوں پر جن كے پاس ان كى محنت كے علاوہ كچھ نہيں ہے الزام لگاتے ہيں اور پھران كا مذاق اراتے ہيں خدا ان كا بھى مذاق بنادے گا اور اس كے پاس بڑا دردناك عذاب ہے_

۱_ صدر اسلام كے منافقين كاان مومنين پر طعن و تشنيع كرنا جو اپنى خوشى اور رغبت كے ساتھ اورواجب مقدار سے زيادہ انفاق كرتے تھے_الذين يلمزون المطوّعين من المؤمنين فيسخرون منهم

( يلمزون )كے مصدر'' لمز '' كا معنى ہے عيب جوئي اور طعن و تشنيع كرنا اور ( يسخرون )كے مصدر ''سخرة'' اور ''سخرية'' كا معنى ہے مذاق اڑانا اور مسخرہ كرنا_

۲_ خوشى اور رغبت كے ساتھ انفاق كرنا سچے مومنين كى خصلت ہے_يلمزون المطوّعين من المؤمنين

( مطوّعين )كے مصدر تطوع كا معنى ہے اپنى خوشى اور رغبت كے ساتھ كچھ دينا _(المطوّعين فى الصدقات) يعنى جو لوگ اپنى خوشى اور رغبت كے ساتھ صدقات ادا كرتے ہيں _

۳_تہى دست ہونے كى حالت ميں انفاق كرنا غنا اور تونگرى كى حالت ميں انفاق كرنے سے زيادہ قدر و قيمت ركھتا ہے_

الذين يلمزون المطوّعين و الذين لا يجدون الاجهد هم

( مطوّع ) كا عنوان توانگر اور تہى دست دونوں كو شامل ہے لذا تہى دست لوگوں كا دوبارہ ذكر كرن

۲۱۸

ہو سكتا ہے انكے انفاق كى برتر اہميت كى طرف اشارہ ہو _

۴_ مالى وسائلى نہ ہونے كى صورت ميں معاشرہ كے حاجت مندوں كى ضروريات پورى كرنے كى عملى كوشش اور اپنى پورى توانائيوں كو خرچ كر دينا سچے مومنين كى ايك صفت ہے_و الذين لا يجدون الا جهدهم

۵_ صدر اسلام كے منافقين كا ايثار كرنے والے تہى دست مومنين كا مذاق اڑانا اور انكا تمسخر كرنا _

و الذين لايجدون الاجهدهم فيسخرون منهم

۶_ منافقين خود بخيل ہيں اور دوسروں كے انفاق كا بھى مذاق اڑاتے ہيں _فلما آتاهم من فضله بخلوا به الذين يلمزون المطوّعين من المؤمنين

۷_ انفاق كرنے والے مومنين پر طعن و تشنيع كرنا اور انكا مذاق اڑانا منافقين كى خصلت ہے_الذين يلمزون المطوّعين

۸_ خدا تعالى كا ان منافقين كا مذاق اڑانا جو انفاق اور ايثار كرنے والے مومنين پر طعن و تشنيع كرتے تھے اور ان كا مذاق اڑاتے تھے_سخر الله منهم

۹_ خدا تعالى كا دردناك عذاب ، مذاق اڑانے والے منافقين كى سزا_و لهم عذاب اليم

۱۰_ منافقين كى توانگر مومنين اور تہى دست مومنين كى عيب جوئي ميں دوغلى پا ليسى _

الذين يلمزون المطوّعين فيسخرون منهم

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ ''يلمز'' تونگر مومنين كے بارے ميں ہو اور ''يسخرون '' تہى دستوں كے بارے ميں ہو اور '' منہم '' كى ضمير كا مرجع '' الذين لايجدون '' ہو يعنى منافقين ، انفاق كرنے والے تونگر مومنين پر طعن و تشنيع كرتے ہيں اور انفاق كرنے والے تہى دست مومنين كا مذاق اڑاتے ہيں اور انكا تمسخر كرتے ہيں _

۱۱_ منافقين كے تمسخر كے مقابلے ميں خدا تعالى كا انفاق كرنے والے مومنين كى حمايت اور دلجوئي كرنا _

سخر الله منهم و لهم عذاب اليم

۱۲_ مومن كى خدا تعالى كى بارگاہ ميں بڑى عزت ہے_فيسخرون منهم سخر الله منهم و لهم عذاب اليم

۱۳_ مومن كا تمسخر كرنا اور اس پر طعن و تشنيع كرنا عظيم گناہ اور اس كا انجام خدا تعالى كا سخت عذاب ہے_

فيسخرون منهم سخر الله منهم و لهم عذاب اليم

۱۴_ انفاق كى قدر و قيمت كا معيار اسكى مقدار نہيں ہے_ و الذين لايجدون الاجهد هم و لهم عذاب اليم

۲۱۹

تہى دستوں كے تھوڑے سے انفاق كو خاص طور پر ذكر كرنے اور خدا تعالى كے اسے خصوصى اہميت دينے كا مطلب يہ ہے كہ انفاق كى قدر وقيمت كا معيار اس كا كم يا زيادہ ہونا نہيں ہے_

۱۵_ خدا تعالى گناہگاروں كو ان كے گناہ كى مناسب سزا ديتا ہے_فيسخرون منهم سخر الله

۱۶ _''عن الرضا (ع) فى قوله تعالي: '' سخر الله منهم'' قال: ان الله تعالى لا يسخر و لكنه تعالى يجازيهم جزاء السخرية ...'' امام رضا(ع) سے اللہ تعالى كے فرمان ( خدا انكا تمسخر كرتا ہے) كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ خدا تعالى كسى كا تمسخر نہيں كرتا ليكن منافقين كے مذاق اڑانے كے مقابلے ميں انہيں سزا ديتا ہے_(۱)

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۱،۵

اقدار:انكا معيار ۱۴

انفاق :اسكى قدر و قيمت ۳; اسكى قدر و قيمت كا معيار ۱۴;اسكے مراتب۳; انفاق بے نيازى ميں ۳;انفاق رغبت كے ساتھ ۲; انفاق فقر ميں ۳

انفاق كرنے والے:ان پر طعن كرنا ۷;انكا مذاق اڑانا ۶،۸; انكى حمايت ۱۱

ايثار كرنے والے لوگ:انكا مذاق اڑانا ۵; انكى دلجوئي ۱۱

بخيل لوگ :۶

حاجتمند لوگ :انكى حاجت روائي ۴

خدا تعالى :اس كا عذاب ۹،۱۳;اس كا مذاق اڑانا ۸،۱۶; اسكى سزائيں ۱۵

روايت:۱۶

سزا :اس كا جرم كے ساتھ تناسب ۱۵

صالحين:ان كا مذاق اڑانا ۷

عذاب :اس كے اسباب ۱۳;اس كے درجے ۹،۱۳; دردناك عذاب ۹

عيب جوئي :اس كا گناہ ہونا ۱۳;اسكى سزا ۱۳

____________________

۱)عيون اخبار الرضاج ۱ ص ۱۲۶ح ۱۹_ بحار الانوار ج ۳ ص ۳۱۹ ح ۱۵_

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296