فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ13%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 132480 / ڈاؤنلوڈ: 7167
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ترجمہ:اور اس کی خبر بھی بتادیجیے جس کو ہم نے اپنی نشانی دی تھی وہ اس کے ہاتھ سے نکل گئی اور شیطان اس کے پیچھے پڑگیا،پس وہ گمراہ ہوگیا اور ہم چاہتے تو اس کو اس کے ساتھ لیتے لیکن ہم نے اسے ہمیشہ کے لئے زمین ہی میں رہنے یا تو وہ اپنے خواہش نفس کی پیروی کرنےلگا،وہ تو کتّے جیسا ہوگیا کہ اس پر بار لادو جب بھی زبان نکالےگا اور چھوڑ دو جب بھی زبان نکالےگا،جیسے وہ قوم جو ہماری نشانیاں جھٹلاتی ہے تو آپ اسکے قصے بیان کردیں تا کہ یہ لوگ سوچیں۔یاد رکھئے مخلوقات کے سلسلے میں اللہ کی سنت ایک ہی ہے-(وَلَنتَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا) (۱) ترجمہ:اور کبھی تم اللہ کی سنت کو تبدیل ہوتا ہوا نہیں پاؤگے۔

میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں گمراہ کن فتنوں سے اور برے نتیجوں سے سوائے خدا کے کوئی بچانے والا بھی نہیں ہے اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنےوالا ہے۔صحابہ کے موضوع پر اہل سنت اور شیعوں کے درمیان ہر دور میں بحث ہوتی رہی ہے۔سب کا تذکرہ کرنے کی اس خط میں گنجائش نہیں ہے،اگر مزید معلومات چاہئے تو ان کتابوں کا مطالعہ کیجئے جو ساتویں صدی کے بعض علما نے لکھی ہیں اور ان کی تفصیل ابن ابی الحدید نے لکھی ہے(۲) اس موضوع پر وہ کتاب بہت فائدہ بخش ہوگی،لیکن ہم اس بات کی ذمہ داری نہیں لیتے کہ اس کتاب کی سب باتیں آپ کی خدمت میں پیش کردیں گے۔

گذشتہ بیانات کی روشنی میں شیعوں کا صحابہ کے بارے میں نظریہ

گذشتہ بیانات کو دیکھتے ہوئے شیعہ اس معاملے میں حق بجانب ہیں کہ وہ تمام صحابہ کو مقدس اور محترم نہیں سمجھتے اور صحابہ کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ قابل تنقید بات کرتے ہیں اور ان کے بارے میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فتح آیت:۲۳

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۲ص:۱۰،اور اس کے بعد

۱۶۱

ان کے اعمال اور سلوک کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں صحابہ کے بارے میں بولنے سے پہلے انہیں شریعت اور عقل کے ضابطوں پر پرکھتے ہیں تا کہ جو کچھ بولیں دلیل کے ساتھ بولیں اس لئے شیعوں کی نظر میں صرف وہی صحابہ قابل تعظیم ہیں جنہوں نے حق کو لازم سمجھا عقیدہ اور سلوک میں ثابت قدم رہے اور اپنے پروردگار کے امر کو کج فہمی کا شکار نہ بنایا بلکہ وجائے عہد کرتے رہے یہ وہ صحابہ ہین جن کی شیعہ تعظیم بھی کرتے ہیں تقدیس بھی کرتے ہیں اور ان پر فخر بھی کرتے ہیں،اس لئے کہ یہی لوگ وہ ہیں جن کے سہارے اسلام کی چکی چلتی ہے اور دین کا ستون کھڑا ہے،یہ لوگ موالات کے قابل ہیں بلکہ حق تو یہ ہے کہ یہی لوگ اللہ کے ولی ہیں،جیسا کہ خداوند عالم ان کی تعریف میں ارشاد ہوتا ہے: ( إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ-نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ-نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ) (۱) ترجمہ:بیشک وہ لوگ جنہوں نے یہ کہہ دیا کہ ہمارا پروردگار تو بس اللہ ہے اور اسی بار پر قائم رہے ان کے یہاں فرشتے نازل ہوتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ڈرو نہیں گھبراؤ نہیں اور اس جنّت کی بشارت حاصل کرو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ہم دنیا اور آخرت میں تمہارے سرپرست ہیں جنّت میں تم جو چاہوگے تمہیں ملےگا اور جو مانگوگے پاؤگے فرشتوں کا نزول خدائے غفور و رحیم کی طرف سے ہوتا ہے۔

اور جس نے عہد کو توڑا حق سے جدا ہوگیا عقیدہ بدلا پچھلے مذہب پر پلٹا وہ سزا وبال اور لعنت کا مستحق ہے چاہے وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ سورہ فتح میں ارشاد ہوتا: (فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فصلت آیت۳۲،۳۱،۳۰

۱۶۲

فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا)(۱)

ترجمہ:پس جو اپنے عہد کو توڑدے اس نے اپنے نفس ہی کے عہد کو توڑا ہے اور جو اللہ سے کئے ہوئے وعدے کو وفا کرتا ہے اس کو اللہ اجر عظیم دیتا ہے۔

سورہ رعد میں ارشاد ہوتا ہے:( وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِأُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ) (۲)

ترجمہ:جو لوگ اللہ سے عہد باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جہاں اللہ نے ملنے کا حکم دیا ہے وہ قطع تعلق کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے رہتے ہیں ان پر لعنت ہے اور ان کا بڑا ٹھکانہ ہے۔

خدا کی راہ میں محبت خدا کی راہ میں روشنی

قرآن مجید نے ان سے محبت کرنے کی بہت سخت تاکید کی ہے جو اللہ سے محبت کرتے ہیں اور ان کو دشمن رکھتے ہیں،حدیث نبوی اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ارشادات بھی اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ خدا کی راہ میں محبت کی جائے اور خدا ہی کی راہ میں دشمنی کی جائے۔

چنانچہ سورہ مجادلہ میں ارشاد ہوتا ہے: (لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْأُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ) (۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ فتح آیت۱۰

(۲)سورہ رعد آیت۲۵

(۳)سورہ مجادلہ آیت:۲۲

۱۶۳

ترجمہ:جو لوگ اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں انہیں تم اللہ اور اللہ کے رسول کے دشمنوں سے محبت کرتا ہوا نہیں پاؤگے چاہے وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے ہوں ان کے بھائی ہوں،ان کے خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان بیٹھ گیا ہے اور ایمان کی روح ان کی تائید کرتی رہتی ہے۔

اور سورہ ہود میں ارشاد ہوتا ہے کہ:فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلاَ تَطْغَوْاْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌوَلاَ تَرْكَنُواْ إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِنْ أَوْلِيَاء ثُمَّ لاَ تُنصَرُونَ (۱)

ترجمہ:آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس پر قائم رہئے اور وہ بھی قائم رہیں جو آپ کے ساتھ توبہ کرتے ہیں اور تم لوگ طغیانی مت کرنا اس لئے کہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور ظالموں کا سہارا تو لینا ہی نہیں ورنہ آگ تم کو چھولےگی،یاد رکھو خدا کے علاوہ کوئی تمہارا ولی نہیں(اگر تم نے ظالموں کا سہارا لیا)تو پھر تمہاری مدد نہیں کی جائےگی۔

عمروبن مدرک طائی امام صادق علیہ السلام سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ سرکار نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ ایمان کے لئے سب سےزیادہ قابل اعتماد کیا پہچان ہے؟لوگوں نے کہا اللہ اور اللہ کا رسول بہتر جانتا ہے بعض لوگوں نے کہا کہ مومن نماز سے پہچانا جاتا ہے کسی نے کہا زکوٰۃ سے،کسی نے کہا روزے سے،کسی نے کہا حج اور عمرہ سے اور کسی نے کہا جہاد سے آپ نے فرمایا تم نے جن اعمال کا بھی ذکر کیا سب کی فضیلت اپنی جگہ پر ہے،لیکن یہ چیزیں ایمان کی قابل اعتماد نشانی نہیں بن سکتیں،البتہ قابل اعتماد سہارا ایمان کا اللہ کی راہ میں محبت اور اللہ کی راہ میں بغض ہے اور اللہ کے دوستوں سے محبت کرنا اور اللہ کے دشمنوں سے الگ رہنا۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ ہود آیت۱۱۲۔۱۱۳

(۲)الکافی ج:۲ص:۱۲۵۔۱۲۶کتاب الایمان و الکفر باب الحب فی اللہ و البغض فی اللہ چھٹی حدیث

۱۶۴

عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ سرکار نے کہا اے عبداللہ سب سے زیادہ قابل اعتماد سہارا اسلام کا کیا ہے؟میں نے کہا اللہ اور اللہ کا رسول بہتر جانتا ہے،آپ نے فرمایا خدا کی راہ میں ولا،خدا کی راہ میں محبت اور خدا کی راہ میں بغض۔(۱)

ابن عمر کی حدیث ہے کہ حضرت فرمایا خدا کی راہ میں محبت کرو خدا ہی کی راہ میں بغض کرو خدا کی راہ میں دوستی کرو خدا ہی کی راہ میں دشمنی کرو،تم اسی کے ذریعہ خدا کی ولایت کو پاسکتے ہو انسان ایمان کا مزہ پا ہی نہٰں سکتا جب تک محبت اور عداوت کا معیار خدا کی ذات کو نہ بنائے چاہے کتنا ہی روزہ دار ہو چاہے کتنا ہی نمازی ہو۔(۲)

اسحاق ابن عمار کی حدیث امام صادق علیہ السلام سے ہے حضرت نے فرمایا جو دین کی بنیاد پر محبت نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں(۳) اور اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جنھیں اہل سنت نے بھی روایت کی ہیں اور شیعوں نے بھی۔(۴)

شیعوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ کی آواز پر لبیک کہیں اس کے حکم کی پیروی کریں اور اس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)السنن الکبریٰ بیہقی ج:۱۰ص:۲۳۳۔کتاب الشہادت،اہل عصبیہ کے شہادات کے باب میں اور یہ روایت حدیث براد ابن عباس اور عائشہ سے بھی منقول ہے،مجمع الزوائدج:۱ص:۱۶۲کتاب العلم اس باب میں کہ سب سے زیادہ کون اعلم ہے،معجم الاوسط ج:۴ص:۳۷۶،اس کے علاوہ بھی کتابوں میں ہے

(۲)مجمع الزوائدج:۱ص:۹۰،کتاب الایمان اللہ کے لئے دوستی اور اللہ کے لئے دشمنی کے باب میں

(۳)الکافی ج:۲ص:۱۲۷کتاب الایمان و الکفر حب فی اللہ بغض فی اللہ کے باب میں حدیث۱۶

(۴)الکافی ج:۲ص:۱۲۴،کتاب الایمان و الکفر حب فی اللہ بغض فی اللہ کے باب میں،وسائل الشیعہ ج:۱۱ص:۴۳۱باب ۱۵ امر و نہی کے لئے جو مناسب ہے اس کے باب میں،اور یہ تمام کی تمام کتاب امر و نہی میں موجود ہے اس کے لئے دوسرے بھی بہت سارے مصادر شیعہ موجود ہیں،سنن کبریٰ نسائی ج:۶ص:۵۲۷،کتاب الایمان و شرائعہ،سنن کبری بیھقی ج:۱۰ص:۲۳۳کتاب الشہادات،مصنف بن شیبہ ج:۶ص:۱۶۴،کتاب الایمان،چھٹا باب،:ج:۷ص:۱۳۴،کتاب الزھد،سنن ابی داؤدج:۴ص:۱۹۸،کتاب الدیات،مجمع الزوائدج:۱ص:۸۹۔۹۰،کتاب الایمان،باب الایمان حب فی اللہ و البغض فی اللہ،تمھیدج:۱۷ص:۴۲۹۔۴۳۰۔۴۳۱

۱۶۵

کے فیصلہ پر سر جھکائیں اللہ کہتا ہے۔

(وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا)(۱)

ترجمہ:مومن اور مومنہ کے شایان شان ہرگز نہیں کہ جب اللہ اور اللہ کا رسول کوئی فیصلہ کردے تو پھر وہ خود کو بھی صاحب اختیار سمجھیں جو اللہ اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے وہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے۔

صحبت کا اثر اور اس کی اہمیت

جہاں تک صحبت پیغمبرؐ کا سوال ہے تو اگر صحابی نے حق صحبت کو ادا کیا ہے تو یقیناً صحبت پیغمبرؐ انسان کی رفعت و شاناور اس کے تقدس میں اضافہ ہی کرےگی اس لئے کہ پیغمبر کے اصحاب نے حرمت رسول کا خیال کیا ہے حق صحبت کی رعایت کی اور اللہ کا اس کی اس نعمت پر شکریہ ادا کیا ہے ہمارے لئے تو اصحاب پیغمبرؐ یوں بھی قابل احترام ہیں کہ وہ حضرات سابق الایمان ہیں اللہ کی دعوت کو انہیں نے ہم تک پہنچایا ہے اور یہی صحابہ ہمارے لئے ہدایت اور نجات کا سبب ہیں۔

ارشاد ہوتا ہے: (وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ) (۲)

ترجمہ آیت:اور وہ لوگ جو بعد میں آئے کہتے ہیں پالنے والے ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں کینہ مت چھوڑنا بیشک تو مہربان اور رحیم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ احزاب آیت:۳۶

(۲)سورہ حشر آیت:۱۰

۱۶۶

جیسا کہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ان اصحاب کی تعریف کی ہے اور نبی کریمؐ اور آپ کے اہل بیت طاہرین علیہم السلام نے بھی حدیثوں کے ذریعہ ان حضرات کو سراہا ہے اگرچہ اس مختصر کتاب میں ان آیتوں اور حدیثوں کے بیان کی گنجائش نہیں ہے۔

البتہ اصحاب کی دوسری قسم وہ ہے جنہیں صحبت پیغمبرؐ کے غرور نے سرکش،مجرم،ملعون اور قابل سزا بنادیا ہے اس لئے کہ وہ صحبت پیغمبرؐ سے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھاسکے ان کے سامنے حجت ظاہر ترتھی جس کی وجہ سے ان کی ذمہ داریاں زیادہ تھیں لیکن وہ مستقبل کے لوگوں کی گمراہی کا سبب بن گئے اور انہوں حق صحبت کو ضائع کردیا۔

ارشاد ہوتا ہے: ( أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ-جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَاوَبِئْسَ الْقَرَارُ) (۱)

ترجمہ آیت:آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمتوں کو کفر ان میں بدل دیا اور اپنی قوم کو سزا کے ٹھکانے پر لے گئے،وہ جہنم جس میں انہوں نے اپنی قوم کو پہنچادیا اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا: (إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ) (۲)

ترجمہ آیت:بیشک وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئی ان نشانیوں اور ہدایتوں کو چھپاتے ہیں جنہیں ہم نے قرآن میں واضح کردیا ہے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ ابراہیم:آیت:۲۸۔۲۹

(۲)سورہ بقرہ:آیت:۱۵۹

۱۶۷

سرکار دو عالم کے دور میں جو مرد اور عورتیں تھیں ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں اسی لئے خداوند عالم نے نبی کی عورتوں سے فرمایا: (يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ - وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا-يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ - إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا) (۱)

ترجمہ آیت:اے نبی کی عورتو!تم میں سے جو فاحشہ مبینہ(زنا)کی مرتکب ہوئیں اس کو دو گنا عذاب ملےگا اور اللہ کے لئے یہ آسان بات ہے جو اللہ اور اللہ کے رسول کی نافرماں برداری کرےگی اور نیک کام انجام دےگی ہم اس کو دہرا اجر دیں گے اور اس کے لئے عزت دار حلال رزق کا انتظام کردیں گے۔

پھر فرمایا اے شقر ان اچھائی تو کسی کی طرف سے بھی ہوا چھائی ہی ہوتی ہے،لیکن تم نیک کام کروگے تو زیادہ اچھا ہوگا،اس طرح برائی تو برائی ہے چاہے جو کرے لیکن لیکن اگر تم برائی کروگے تو زیادہ برا ہوگا اس لئے کہ شقر ان سرکار دو عالم کے غلاموں کی اولاد میں تھا اور بہت شراب پیتا تھا۔(۲)

صحابہ کو پرکھنے کے لئے ضروری ہے کہ دو باتوں کا لحاظ کیا جائے پہلی بات تو یہ ہے کہ عقلی دلیلوں اور شرعی دلیلوں کے مطابق استقامت کی ایک حد معین کی جائے جو صحیح راستے پر پہنچاسکے اور جب صحابہ کو پرکھا اور پہچانا جائے تو جذبات اور احساسات کے آئینے میں نہ پہچانا جائے۔

دوسرے یہ کہ یہ دیکھا جائے کہ اچھے اور پاک باز صحابہ کی جو حدیں معین کی گئی ہیں ان تمام باتوں کے بعد مناسب نظریے معین کئے جائیں ارادہ اور شجاعت کے سلسلے میں تا کہ کوئی نتیجہ سامنے آئے کیونکہ حق سے بلند و بالا کوئی چیز نہیں ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ احزاب:آیت:۳۰۔۳۱

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۸ص:۲۰۵،اسی طرح بحارالانوارج:۴ص:۳۴۹،العدد القویہ علامہ حلی:ص:۱۵۲

۱۶۸

(وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ)(۱)

صحابہ یا غیرصحابہ کے احترام کے لئے شیعوں کا یہی طرز فکر ہے اور شروع سے یہی طرز فکر رہاہے اس میں شیعہ کہیں سے کمزور نہیں پڑتا اور نہ کبھی کمزور پڑےگا انشاءاللہ،حالانکہ اس طرز فکر اور نظریہ پر قائم رہنے کے لئے شیعوں کو ہر دور میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے سخت مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور بڑے مشکل حالات سے گذرنا پڑا ہے لیکن ان پر جو بھی مصیبتیں اس سلسلے میں آئی ہیں سب سے خدا واقف ہے اور شیعوں نے ان حالات کو ابتلا سمجھ کے خوشی سےقبول کیا ہے۔

غیر شیعہ افراد کا شیعوں کے بارے میں مناسب نظریہ

میں نے شیعہ نظریات آپ کی خدمت میں پیش کردیئے،اگر یہ نظریات آپ کو اور آپ کے ہم مذہب بھائیوں کو اچھے لگیں تو کیا کہنا،الحمد اللہ ہم آپ ایک دوسرے سے متفق ہیں لیکن یہ نظریات آپ کو پسند نہیں آتے جب بھی آپ کو چاہئیے کہ شیعوں کو معذور سمجھ کے ان کے متعلق احترام و عزت کا اظہار کریں،اس لئے کہ ان کا نظریہ جو کچھ بھی ہے وہ بےدلیل نہیں ہےور دلیل کےاتھ بات کرنےوالے یہ کہہ کے معاف کیا جاسکتا ہے کہ اس نے کوشش تو کی لیکن اجتہاد میں غلطی کی ظاہر ہے کہ شیعوں کا نظریہ کسی تعصب،دشمنی یا بغض و عناد کا نتیجہ نہیں ہے کہ ان کی حرمت کو پامال کردیا جائے اور انہیں چاروں طرف بدنام کیا جائے یا ان کے اوپر طعن و تشنیع کیا جائے۔

مجھے نہیں معلوم کے دوسرے فرقے کے لوگ شیعوں کو ان کے نظریات و عقائد کی بنیاد پر کس دلیل سے برا بھلا کہتے ہیں جب کہ نظریاتی اختلاف کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ شیعوں کو برا بھلا کہا جائے اور مخالف کا نظریہ نہیں ماننے کی وجہ سے شیعوں کی حرمت پامال کردی جائے ان پر طعن و تشنیع کی جائے اور انہیں طرح طرح کی سزائیں دی جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورہ احزاب:آیت:۴

۱۶۹

دوسرے فرقوں سے شیعوں کا حسن معاشرت

خصوصاً شیعہ فرقہ دوسرے مسلمانوں سے معاشرت کرنے میں اپنے نبیؐ اور آئمہ اطہارؑ کی تعلیم پر عمل کرتا ہے انہوں نے شیعوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ ہر حال میں اپنے عقیدے کی حفاظت کرو اور ذاتی طور پر اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرتے رہو۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم دوسروں کے جذبات کو ٹھیں پہنچاؤ اور ان سے رواداری کرنا چھوڑ دو بلکہ تمہیں چاہئیے کہ غیروں سے حسن معاشرت کا اہتمام کرو خوش اخلاقی سے ملو اور ان کے حقوق کو ادا کردتا کہ قوم ہوشیار رہے اور نفاق کی برائی پیدا نہ ہو۔

سکونی کی حدیث ملاحظہ ہو:امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں سرکار دوعالمؐ نے فرمایا:جس کے اندر تین باتیں نہیں اس کا عمل مکمل نہیں۔

۱۔ورع:جو انسان کو خدا کی نافرمانی سے روکتا ہے۔

۲۔اخلاق:جس کے ذریعہ دوسرےلوگوں سے ملا جلا جاتا ہے۔

۳۔علم:جس کے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دیا جاتا ہے۔(۱)

مرازم چھٹے امامؑ سے روایت کرتے ہیں کہ تم پر واجب ہے کہ مسجدوں میں نماز پڑھو لوگوں کے ساتھ اچھے پڑوسیوں کی طرح رہو،شہادت قائم کرو اور جنازوں میں شرکت کرو اس لئے کہ جب تک انسان زندہ ہے دوسرے انسان سے بےنیاز نہیں ہوسکتا سماج کا ہر آدمی ایک دوسرے کے لئے ضروری ہے۔(۲)

اس سلسلہ آخری حدیث میں ملاحظہ ہو،معاویہ بن وہب کہتے ہیں کہ میں نے امام سے پوچھا کہ ہمارا سلوک ان لوگوں کے ساتھ کیا ہونا چاہئیے جو ہمارے آس پاس رہتے ہیں لیکن ہماری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الکافی ج:۲ص:۱۱۶،کتاب ایمان و کفر،باب مدارات حدیث۱

(۲)کافی ج:۲ص:۶۳۵،کتاب معاشرت جو چیز معاشرت میں محبوب ہے کے باب میں،حدیث:۱

۱۷۰

طرح شیعہ نہیں ہیں،آپ نے فرمایا تم اپنے اماموں کی سیرت پہ غور کرو جن کی تم اقتدا کرتے ہو،پس جیسے وہ کرتے ہیں تم بھی کرو،خدا کی قسم وہ غیروں کے مریضوں کی عیادت کرتے ہیں،ان کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں،ان کے لئے گواہیاں دیتے ہیں اور ان کی امانت کو ادا کرتے ہیں(۱) اس کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جن کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔

کتنا اچھا ہوتا کہ تمام مسلمان انہیں حدیثوں پر عمل کرتے اپنے عقیدوں کی حفاظت کے ساتھ بہترین طریقے سے لوگوں کو دعوت بھی دیتے رہتے اور دوسروں سے میل جول کے ساتھ اچھا سلوک اور محبت کا برتاؤ کرتے تا کہ مسلمان متحد رہیں بات ایک جگہ رہے اور آپس کی محبت دلوں میں باقی رہے پھر ہم سب مل جل کر عالم انسانیت کو اسلام عظیم کی طرف بلائیں اسلام کی آواز لوگوں کو سنائیں کلمہ طیبہ کو بلند کریں اور ظالموں کو منہ توڑ جواب دیں اور ایک مشترک ہدف کی خدمت کریں،نویں سوال کے جواب میں ہو باتیں پیش کروں گا جو وہاں پر نفع بخش ہوں،اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری مدد کرے اور ہمیں توفیق دے وہ سب سے زیادہ رحم کرنےوالا ہے مومنین کا سرپرست ہے وہ میرے لئے کافی ہے اور بہترین وکیل ہے،

والحمد اللہ رب العلمین

-----------

(۱)فی ج:۲ ص ۶۳۶ ،کتاب معاشرۃ حدیث ۴

۱۷۱

۱۷۲

سوال نمبر۔۳

کچھ اہل سنت حضرات یہ الزام لگاتے ہیں کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں،شیعوں پر الزام صحیح ہے؟حالانکہ میں نے علامہ شیخ محمد ابوزہرہ کتاب(الامام جعفر الصادقؑ)میں پڑھا ہے کہ محقق طوسیؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ قول صحیح نہیں ہے،آپ کی اس سلسلے میں کیا رائے ہے؟خداوند عالم آپ کی عمر میں اضافہ کرے۔

جواب:اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل امور آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

۱۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ہر سنی عالم تحریف قرآن کی نسبت شیعوں کی طرف دیتا ہے،بلکہ بعض علمائے سنت نے تو شیعوں کی طرف سے خود ہی صفائی پیش کی ہے یہاں شیعہ سے مراد امامیہ عدلیہ ہے۔

ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری متوفی۳۳۰؁ فرماتے ہیں،قرآن میں کمی اور زیادتی کے بارے میں رافضیوں کے درمیان اختلاف ہے،اس سلسلے میں تین فرقے ہیں ایک فرقہ کہتا ہے کہ قرآن میں کچھ کمی ہے زیادتی کا وہ بھی قائل نہیں،اس طرح وہ یہ بھی نہیں مانتا کہ قرآن کے اندر کچھ تبدیلی کی گئی ہے،لیکن اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن میں سے کچھ ضائع ہوگیا ہے اس کو صرف امام جانتے ہیں،شیعوں کا تیسرا فرقہ جو اعتزال اور امامت کا قائل ہے اس کا خیال ہے کہ نہ قرآن میں کچھ کمی ہوئی نہ کوئی زیادتی اللہ نے جیسا ہمارے نبی پہ اتارا تھا ویسا ہی ہے نہ بدلا گیا ہے نہ کوئی لفظ اپنی جگہ سے ہٹایا گیا ہے اور ہمیشہ قرآن ایسا رہےگا۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مقالات الاسلامیین ج:۱ص:۱۱۴۔۱۱۵

۱۷۳

شیخ رحمۃ اللہ ہندی اپنی کتاب اظہار الحق میں لکھتے ہیں کہ شیعہ اثنا عشری کے جمہور علما کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید تغییر و تبدیل سے محفوظ ہے قرآن میں وقوع نقصان کا قول مردود ہے۔(۱) اور شیعہ علما اسے قبول نہیں کرتے پھر شیخ نے شیعوں کے بعض اقوال کو مقام شہادت میں پیش کیا ہے۔

ہاں بعض سنی علما تحریف کو شیعوں کی طرف منسوب کرتے ہیں،جیسے ابن حزم ظاہری اپنی کتاب الفصل فی الملل و الںحل میں اور ایک جماعت متاخرین کی ہے،ان لوگوں نے اپنے قلم کو شیعوں کو بدنام کرنے کے لئے اور ان پر حملے کرنے کے لئے وقف کردیا ہے،سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے شیوں پر بہت سے بہتان باندھے ہیں،ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے،تاریخ کے ذمہ ہے اور ہر ذوق جستجو رکھنےوالا اگر منصف ہے تو وہ بھی ان کا حساب کرےگا۔

اہل سنت اور شیعوں کا عدم تحریف قرآن پر عملی اجماع

۲۔شیعہ ہوں یا سنی تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ دو دفتیوں کے درمیان مصحف ہے وہ پورا قرآن مجید ہے وہی قرآن تمام اسلامی ملکوں میں پھیلا ہوا ہے اور تمام مسلمانوں کے درمیان تلاوت کیا جاتا ہے جب اس قرآن کو مسلمان ختم کرلیتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس نے پورا قرآن پڑھ لیا،جس طرح جب ایک سورہ پڑھتا ہے جو سورہ اس قرآن میں موجود ہے تو اس میں نہ کسی ایک کلمہ کی زیادتی کرتا ہے نہ کمی اور اس کو پڑھ نے کے بعد کہتا ہے کہ ہم نے فلاں سورہ پڑھ لیا،یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ مسلمان چاہے سنی ہو یا شیعہ تحریف قرآن کا قائل بہرحال نہیں ہے یہ بات تمام مسلمانوں کی سیرت اور ان کے فقہا کے کلمات سے ظاہر ہے۔جب علما یہ کہتے ہیں کہ نماز میں سورہ کا کچھ حصہ یا فلاں سورہ پڑھنا مستحب ہے تو ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ سورہ جو مصحف پاک میں لکھا ہوا ہے بغیر کسی کمی و زیادی کے وہ یہ نہیں کہتے کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)اظہارالحق ص:۳۵۴،چوتھی فصل میں جو احادیث پر شبہوں کے جواب ہیں،اور یہ شبھہ اول کے جواب کے باب میں ہے

۱۷۴

اس سورہ کو پڑھنے کے وقت فلاں کلمہ کو زیادہ یا فلاں کلمہ کو کم کرلینا چاہئیے جب کہ اگر قرآن میں وہ کلمہ زیادہ ہوتا تو علما ضرور متنبہ کرتے کہ اس کلمہ کو حذف کردینا اس لئے کہ آدمی کا کلام نماز کے درمیان پڑھنا نماز کو باطل قرار دینا ہے اور اگر اس سورہ میں کچھ کم ہوتا تو علما ضرور ہدایت کرتے کہ سورہ کو مکمل کرنے کے لئے فلاں کلمہ ملا لینا اس لئے کہ خصوصا فرقہ امامیہ کے یہاں مشہور ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد ایک مکمل سورہ پڑھنا واجب ہے،علما کا سورہ پڑھنے پر خاموش ہنا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جو قرآن ہمارے سامنے ہے اسی کو وہ قرآن سمجھتے ہیں اور جو سورہ قرآن میں لکھے ہیں وہ سب کے سب مکمل سورہ ہیں۔

البتہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے معاملے میں سنی،شیعہ کے درمیان اختلافات ہے شیعہ کہتے ہیں کہ سورہ توبہ کے علاوہ بسم اللہ..ہر سورہ کا جز ہے لہذا وہ نماز میں تلاوت سورہ کے وقت بسم اللہ کہتے ہیں،لیکن بسم اللہ کے علاوہ کسی چیز میں بھی عملاً اختلاف نہیں ہے۔یہی اجماع عملی ہے جو تمام مسلمانوں کو قرآن مجید کے بارے میں ایک نظریہ پر قائم رکھتا ہے چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ کا یہ کہنا ہے کہ قرآن اپنی اصل صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے اور اس کے مقابلے میں یعنی اس کے خلاف کسی مسلمان کا کوئی نظریہ نہیں ہے اس لئے قرآن مجید کے حقیقت کی دلیل ہے اور قرآن اپنی حقیقت کو خود ثابت کرتا ہے تمام عالم اسلام نے اس حقیقت کو مانا ہے اور اس پر عمل کیا ہے اور ان شبہات کو قوت مل ہی نہیں سکتی ہے جن کی وجہ سے ملت اسلامیہ میں کوئی ٹیڑھاپن یا کجی پیدا ہو یا قرآن مجید کی حقانیت میں کسی شک کی گنجائش ہو۔

شیعہ علما عدم تحریف کے قائل ہیں

۳۔جن شیعہ علما نے صراحت فرمائی ہے کہ مصحف کی دودفتیوں کے درمیان جو(کچھ موجود ہے وہ کل کا کل قرآن ہے وہ حضرات شیعوں کے بڑے علما ہیں ار ہر دور میں شیعوں کے علما نے تحریف کا انکار کیا ہے صرف شیخ طوسی ہی پر یہ بات منحصر نہیں ہے بلکہ ان کے پہلے اور بعد کے تمام علما نے عدم

۱۷۵

تحریف کی تائید کی ہے۔

الف:شیخ صدوق محمد بن بابویہ قمی جن کی نیت ابوجعفر ہے اور آپ کے والد علی بن الحسن ہیں آپ شیعوں کے قدیم علما میں ہیں مدرسہ قم کے زعیم اور اہل حدیث کے استاد ہیں آپ کی کتاب اعتقادات کا تذکرہ مصادر شیعہ کے ذیل میں آچکا ہے،اسی کتاب میں آپ لکھتے ہیں۔

((ہمارا عقیدہ ہے کہ جو قرآن اللہ نے ہمارے نبی محمدؐ پر نازل کیا تھا وہ دودفتیوں کے درمیان موجود ہے یہ وہی قرآن ہے جو لوگوں کے پاس ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے اس میں(۱۱۴)ایک سو چودہ سورہ ہیں ہمارے نزدیک((الم نشرح)) اور((الضحی)) ایک ہی سورہ ہے اور((لایلاف)) اور((الم تر کیف)) بھی ایک ہی سورہ ہے اور جو ہماری یہ قول منسوب کرتا ہے کہ ہم قرآن مجید کو اس سے زیادہ مانتے ہیں وہ جھوٹا اور ہمارے یہاں جو روایتیں پائی جاتی ہیں جیسے ہر سورہ قرآن پڑھنے کے ثواب کے بارے میں ختم کرنے کے بارے میں نماز نافلہ میں دو سوروں کے پڑھنے کے بارے میں اور نماز میں دو سوروں کے درمیان نبی کے بارے میں یہ روایتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ ہم اسے قرآن سمجھتے ہیں جو لوگوں کے پاس موجود ہے اسی طرح ہمارے یہاں یہ روایتیں بھی ملتی ہیں جن میں ایک رات میں قرآن ختم کرنے کو منع کیا گیا ہے کم سے کم تین رات میں قرآن ختم کرنے کے ہدایت کی گئی ہے یہ روایتیں بھی قرآن کے بارے میں ہمارے عقیدے کی تصدیق کرتی ہیں بلکہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ جو کچھ وحی نازل ہوئی اگر سب کو قرآن میں شامل کرلیا جاتا تو قرآن میں کم سے کم۱۷،ہزار آیتیں ہوتیں۔

غیرقرآنی وحی کی مثال جیسے جبرئیل کا سرکار سے کہنا کہ اے محمد ہماری مخلوق کی مدارات کردیا لوگوں کی کینہ پروری اور ان کی عداوت سے پرہیز کرو یا یہ کہ جتنا ہے جی لو تم بہرحال میت ہو جس سے چاہو دل لگاؤ بہرحال اس سے جدا ہوجاؤگے،جو عمل چاہے انجام دو اپنے عمل سے تمہاری ملاقات ہوگی،مومن کا شرف نماز شب ہے اور اس کی عزت لوگوں کو تکلیف نہیں دینا ہے یا سرکار دوعالم کا یہ قول کہ جبرئیل مجھ کو مسواک کی ہدایت کرتے رہے قریب تھا کہ میں اپنے دانت توڑ لوں یا دانتوں کی

۱۷۶

جڑوں میں گڈھے کرلوں اور پڑوسی کے بارے میں اتنی حدیثں ہیں کہ میں سمجھا اب وہ پڑوسی کو میراث بھی دےدیں گے،عورت کے بارے میں اتنی حدیثیں ہیں کہ میں سمجھا اس کو طلاق دینا ہی نہیں چاہئے اور غلاموں کے بارے میں اتنی حدیثیں ہیں کہ میں سمجھا اب وہ ایک مدت معین کردیں گے جو اس کی آزادی کا وقت ہوگا۔

یا غزوہ خندق سے فارغ ہونے کے بعد جبرئیل کا یہ پیغام لانا کہ اے محمدؐ اللہ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ نماز عصر بن قریظہ ہی میں ادا کریں یا سرکار کا یہ کہنا میرا پروردگار مجھے حکم دیتا ہے کہ میں لوگوں سے حسن اخلاق برتوں ان کی عقلوں کے مطابق جیسا کہ اللہ نے مجھے فرائض کے ادا کرنے کا حکم دیا ہے سرکار کا یہ قول کہ میرے پروردگار کی طرف سے جبرئیل ایسا حکم لے کےآئے جس سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں اور میرا سینہ اور دل خوش ہوگیا پیغام یہ ہے کہ اللہ کہتا ہے بیشک علی امیرالمومنین ہیں اور روشن پیشانی والوں کے قائد ہیں۔

یا سرکار کا یہ کہنا کہ جبرئیل مجھ پر یہ پیغام لےکے نازل ہوئے ہیں کہ اے محمد اللہ نے علی سے فاطمہ کی تزویج عرش پر کردی ہے اور اس پر اپنے بہترین فرشتوں کو گواہ بنایا ہے آپ اس نیک کام کو زمین پر انجام دے کے اپنی مات کے بہترین اصحاب کو گواہ بنادیں،اس طرح کی بہت سی خبریں اور پیغامات ہیں جو وحی تو ہیں مگر قرآن نہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ جملے اگر قرآن ہوتے تو قرآن میں ملادیئے جاتے اور اس سے الگ نہ رکھے جاتے۔

جیسا امیرالمومنین نے قرآن کو جمع کیا اور مسلمانوں کے پاس لےکے آئے فرمایا:یہ تمہارے پروردگار کی کتاب ہے ٹھیک اس طرح جمع کی گئی ہے جیسی نازل ہوئی ہے اس میں نہ کمی ہے نہ زیادتی ایک حرف بھی زیادہ یا کم نہیں ہے مسلمانوں نے کہا ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے ویسا ہی قرآن ہمارے پاس بھی ہے آپ یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کہ انہوں نے اس کو پس پشت ڈال دیا اور چھوٹی قیمت پر اس کو خرید لیا،پس بری چیز خریدی ہے۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الاعتقادات:ص:۸۳۔۸۶

۱۷۷

ہم نے اس گفتگو کو طویل دیا اس لئے کہ اس میں دو خاص باتیں ہیں

۱۔پہلی بات تو یہ ہے کہ عدم تحریف کے اوپر میں نے تمام مسلمانوں کے اجماع عملی کا دعوی کیا لیکن دلیلیں شیعوں کی طرف سے پیش کیں مثلا ختم قرآن اور قرات سورہ و غیرہ کے مسائل میں میں نے صرف شیعہ علما کی طرف سے پیش کرکے مسلمانوں کے اجماع عملی پر صرف شیعوں کی طرف سے دلیل دی ہے۔

۲۔دوسری بات یہ ہے کہ میں نے ان روایتوں کی تاویل پیش کی ہے جس سے تحریف کا وہم پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ عرض کیا ہے کہ ہر وحی قرآن انہیں ہوتی لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ میں نے یہ تاویل اپنی طرف سے نہیں پیش کی ہے بلکہ جناب شیخ صدوق جیسے علما کا قول نقل کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں حو ائمہ ۃدی علیہم الصلوۃ و السلام کے زمانے سے بہت قریب تھے اور اہل حدیث کے شیخ اور استاد تھے جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے اس سے یہ بات ثابت ہے کہ اس طرح کی تاویلیں شیعوں کے یہاں زمانہ شروع میں پائی جاتی تھیں۔یعنی یہ تاویلیں متاخرین کی ایجاد نہیں ہیں اور شادی یہی وجہ ہے کہ قدیم علما ان روایتوں کی بنا پر تحریف اور نقص کے قائل نہیں تھے۔

ب:شیخ محمد بن لغمان آپ کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے

آپ قدیم علما میں ہیں بغداد کے مدرسہ کے زعیم ہیں اور اہل اجتہاد و نظر کے استاد ہیں شیخ مفید کے نام سے مشہور ہیں آپ اپنی کتاب(اوائل المقالات)میں فرماتےیں امامیہ فرقے کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ قرآن میں سے کوئی کلمہ کوئی آیت اور کوئی سورہ کم نہیں ہے لیکن مصحف امیرالمومنین میں آیتوں کی جو تاویل پیش کی گئی تھی اور حقیقت تنزیل کی بنیاد پر معانی کی جو تفسیریں پیش کی گئی تھیں وہ قرآن سے حذف کردیا گیا ہے۔

حالانکہ میرے نزدیک یہ قول نفس قرآن میں نقص کے قول سے زیادہ مشتبہ اور کمزور ہے میں ڈوند عالم سے دعا کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو اللہ حق و حقیقت کی توفیق عنایت فرمائے۔

۱۷۸

لیکن جہان تک قرآن میں زیادتی کا سوال ہے تو یہ قول میرے نزدیک ایک رخ سے تو بالکل ہی غلط ہے اور ایک رخ سے صحیح بھی ہے میں جس رخ سے اس کے غلط ہونے کا یقین رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ مخلوق کے لئے ممکن نہیں ہے کہ ایک سورہ کے برابر اضافہ کردے اور فصحا کے سامنے یہ بات ثابت نہ ہوسکے اس لئے کہ قرآن کا اپنا ایک لہجہ اور ایک انداز ہے جس کی نقل مخلوق کے بس کاروگ نہیں،جس رخ سے زیادتی جائز سمجھی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک کلمہ یا دو کلمہ ایک لفظ یا دو لفظ یا ایک دو حروف کلمات سے مشابہ ہو جس کی وجہ سے فصیحوں کے نزدیک تمیز نہ ہوسکی ہے حلانکہ اس میں بھی یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ اللہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ رہبری کردے کہ قرآن میں فلاں زیادتی ہے میرا کلام نہیں ہے مجھے اس طرح کی زیادتی کا یقین بھی نہیں ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ قول بھی مشتبہ ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اس طرح کی زیادتی قرآن میں سرے سے واقع نہیں ہوئی اس کے ساتھ ہی میرے پاس امام جعفر صادق علیہ السلام سے عدم تحڑیف کی حدیثیں ہیں۔(۱)

((اس کے علاوہ جناب شیخ نے اس سلسلے میں بہت سی باتیں کی ہیں۔))

ج:سید مرتضی علی بن الحسن الموسوی آپ اپنے استاد شیخ مفید کے جانشین تھے اور شیخ کی جہ مدرسہ بغداد کے زعیم تھے،اہل نظر و اجتہاد کے استاد تھے آپ نے اپنی کتاب مجمع البیان میں تحریف کے سلسلے میں کلام پیش کرنے کے بعد کہا،یہ وہ نظریہ ہے جس می مرتضی تائید کرتے ہیں اور یہ مکمل گفتگو انھوں نے مسائل طرابلس یات کے جواب میں لکھی ہے کہ نقل قرآن کی صحت کا علم اس طرح ہے جیسے کہ شہروں کے بارے میں بڑے بڑے واقعات کے بارے میں،عظیم حادثوں کے بارے میں،مشہور کتابوں کے بارے میں عرب کے اشعار کے بارے میں جاننا ہے،اس طرح کی چیزیں لکھنے کے وقت انسان بہت شدت سے توجہ دیتا ہے اور اپنے قلم کو بہت محتاط کرلیتا ہے اس طرح قرآن کو نقل کرنے میں قرآن جمع کرنےوالوں نے بہت احتیاط سے کام لیا ہے اس لئے نبوت کا معجزہ علوم شرعیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)اوائل المقالات ص:۸۱۔۸۲،تالیف قرآن کے اقوال کے بارے میں

۱۷۹

اور احکام دین کا ماخذ ہے اور مسلمان علما نے اس کو نقل کرنے میں تا حد امکان احتیاط سے کام لیا ہے یہاں تک کہ انہوں نے وہ اختلافات بھی نقل کردیئے ہیں جو قرآن کے اعراب،قرات حروف اور آیتوں کے سلسلے میں ہوتے ہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نظر کے ساتھ اور کامل توجہ کے ساتھ جمع کیا ہوا کلام مغیر یا منقوص ہو،سید فرماتے ہیں کہ تفسیر قرآن یا لفظ قرآن کے نقل کی صحت کا علم ایسا ہی ہے جیسے من جملہ قرآن کا علم اس کے نقل کرنے میں وہی طریقہ اپنایا گیا ہے جو طریقہ کسی مصنف کی تصنیفات کو نقل کرنے میں استعمال ہوا ہے،جیسے سیبویہ اور مزنی کی کتابیں۔

صاحبان نظر جس طرح ان کتابوں کی تفصیل سے واقف ہیں اس طرح ان کتابوں کے اجمال سے بھی واقف ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی داخل کرنےوالا کوئی ایسا باب سیبویہ کی کتاب میں داخل کردیتا ہے،جو اس کی اصل کتاب میں نہ ہو تو صاحبان نظر و اجتہاد فوراً اس کو پہچان لیتے ہیں اور جان جاتے ہیں کہ یہ الحاق ہے اور اصل کتاب میں نہیں پایا جاتا ہے یہی بات کتاب مزنی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے ظاہر ہے کہ جب مسلمان کتاب سیبویہ اور شعرا کے دیوان کو نقل کرنے میں اتنی احتیاط اور دقت نظر سے کام لیتا ہے تو قرآن مجید کے بارے میں بےاحتیاطی کیسے کرےگا۔

جناب سید تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ قرآن تو دور پیغمبرؐ میں ہی جمع ہوچکا تھا ارو تالیف پاچکا تھا،وہی قرآن آج ہمارے سمانے ہے سید مقام استدلال میں فرماتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں عہد پیغمبرؐ میں قرآن پڑھا جاتا تھا اور لوگ قرآن کو حفظ کیا کرتے تھے،یہاں تک صحابہ کی ایک جماعت کو حفظ قرآن پر معین کیا گیا تھا،جنہیں پیغمبرؐ کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور یہ لوگ آپ کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے تھے کچھ صحابہ نے مثلاً عبداللہ بن مسعود اور ابی بن کعب نے تو پیغمبرؐ کے حضور میں کئی مرتبہ قرآن ختم کیا تھا۔

ان تصریحات کو دیکھتے ہوئے ہم تھوڑی سی توجہ دیں تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ درود پیغمبرؐ میں قرآن مجموعی طور پر موجود اور مرتب تھا نہ کہ بکھرا ہوا اور منتشر۔

سید فرماتے ہیں کہ امامیہ اور حشویہ میں جن لوگوں نے اس نظریہ کی مخالفت کی ہے ان کی تعداد

۱۸۰

بہت کم ہے اس لئے کہ یہ اختلاف اہل حدیث کے ایک گروہ کی طرف منسوب ہوتا ہے،جنہوں نے کمزور حدیثیں نقل کی ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ یہ حدیثیں ہیں ظاہر ہے ایسی حدیثوں کی طرف رجوع کرکے ایک یقینی بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے۔(1)

ابن حزم نے یہ تو اعتراف کیا ہے کہ شیعہ امامیہ تحریف کے قائل ہیں لیکن ان کی عبارت ملاحظہ ہو،وہ کہتے ہیں((امامیہ فرقہ چاہے قدیم ہو یا جدید ان کا قول ہے کہ قرآن بدلا ہوا ہے اس میں کچھ زیادتی بھی ہے اور بہت زیادہ کمی بھی ہے۔

سواعلی بن الحسن(الحسین)بن علی ابی طالب کے یہ امامی فرقے سے ہیں اور اعتزال کا مظاہرہ کرتے ہیں تحریف قرآن کے منکر ہیں اور اس کے قاءل کو کافر کہتے ہیں اس طرح ان کے دو ہم مذہب ابویعلی میلاد الطّوسی اور ابوالقاسم رازی ہیں۔(2)

سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ ابن حزم کہتے ہیں کہ جو تحریف قرآن کا قائل ہے اس کو سید مرتضی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اعلام شیعہ میں سے تھے اور سید مرتضی کہتے ہیں کہ تحریف قرآن کا ماننےوالا کافر ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ شیعوں کی طرف تحریف قرآن کو منسوب کیا جائے جب کہ ان کا مرجع دینی،تحریف قرآن والے کو کافر کہتا ہے۔

د:شیخ ابوجعفر طوسی آپ کا تذکرہ مصادر شیعہ کے ذیل میں گزرچکا ہے آپ اپنے دور میں حدیث اور اجتہاد کے جامع تھے،یعنی اہل حدیث اور اہل اجتہاد دونوں کے مرجع تھے آپ نے اپنی تفسیر کی شاندار کتاب التبیان کے مقدمہ میں عدم تحریف کی صراحت کی ہے آپ نے فرماتے ہیں((قرآن مجید میں زیادتی اور نقص کے بارے میں گفتگو کرنا ہماری اس کتاب تبیان کے شایان نہیں ہے اس لئے کہ زیادتی کے بطلان پر تو امت کا اجماع ہے اب رہ گیا نقصان کا سوال تو ظاہر یہ ہے کہ عام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع البیان ج:1ص:15

(2)الفصل فی الملل و النحل:ج:4ص:182

۱۸۱

مسلمان اس کے خلاف ہے اور ہمارا مذہب بھی قرآن میں نقصان کا قائل نہیں ہے اس کی تائید جناب سید مرتضی نے بھی فرمائی ہے اور روایات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ شیعہ سنی دونوں فرقوں میں بہت سی روایتیں ایسی پائی جاتی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کی بہت سی آیتیں کم ہوگئیں یا کسی آیت کا کوئی ٹکڑا دوسری آیت میں جوڑ دیا گیا لیکن یہ روایتیں احاد کے طریقہ سے نقل کی گئی ہیں جو نہ علم کا۔

سبب بنتی ہیں اس لئے ان کی طرف توجہ نہ دی جائے اور اپنا قیمتی وقت ان پر ضائع نہیں کیا جائے اس لئے کہ ایسی روایتوں کی تاویل ممکن ہے پھر ہماری وہ روایتیں جن کے ذریعہ قرآن کی قرات پر اور قرآن میں جو کچھ ہے اس کے تمسک پر اور خبروں کے اختلاف کی وجہ سے ان پر جو اعتراض کیا گیا ہے اور وہ ان سے تحریف کے خلاف ہیں خود سرکار دو عالم کی یہ متفق علیہ حدیث جس کو کسی نے بھی غلط نہیں کہا ہے۔

(انی تاریک فیکم الثّقلین ما ان تمسکمتم بهما لن تضلّوا بعد کتاب الله و اهل بیتی و انّهما لن یّفترقا حتی یرد علی الحوض)

ترجمہ حدیث:میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کے جارہا ہوں جب تک ان دونوں کو پکڑے رہوگے میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے یہ دونوں چیزیں اللہ کی کتاب اور میری عترت ہیں یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے ہرگز الگ نہیں ہوں گی،یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پہ ملاقات کریں گی۔

یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن ہر دور میں مکمل طور پر موجود رہا اس لئے کہ نبی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہمیں ایسی چیز کے تمسک کا حکم دیا جائے جس کے تمسک پر ہم قدرت نہیں رکھتے ہوں۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تفسیر تبیان:ج:1ص:3۔4

۱۸۲

ھ:شیخ ابوعلی فضل بن حسن طبرسی متوفی 548؁ آپ تفسیر مجمع البیان کے مقدمہ میں لکھتے ہیں اور قرآن میں زیادتی اور کمی کا موضوع تفسیر کے شایان نہیں ہے جہاں تک زیادتی کا سوال ہے تو امت کا اس کے بطلان پر اجماع ہے لیکن کمی کے بارے میں ہمارے علما نے اور اہل سنت کے فرقہ حشویہ نے کچھ روایتیں پیش کی ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے قرآن میں تغیر اور نقصان ہوا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ ہمارے علما کا مذہب اس کی مخالفت کرتا ہے اسی نظریہ کی تائید سید مرتضی نے فرمائی ہے اور بھر پور دلیلوں کے ساتھ تحریف کو غلط ثابت کیا ہے سید مرتضی مسائل طرابلسات کا جواب دے رہے ہیں اس کے بعد سید مرتضی کی مذکورہ عبارت پیش کی گئی ہے۔(1)

و:علامہ حلی جمال الدین بن حسن بن علی مطہر جن کا تذکرہ مصادر شیعہ میں ہوچکار ہے یہ اپنے دور میں نمایان شیعوں میں تھے ان سے سید مہنا نے کچھ سوالات کئے ہیں اس میں ایک سوال یہ بھی ہے۔

((کتاب عزیز کے بارے میں ہمارے سردار کا کیا قول ہے۔))

کیا ہمارے علما اس بات کو صحیح سمجھتے ہیں کہ قرآن میں نقص یا زیادتی ہوئی ہے یا یہ کہ اس کی ترتیب بدل دی گئی ہے یا ہمارے اس علما اس میں سے کسی بات کے قائل نہیں؟آپ مجھے فائدہ پہنچائیں خدا آپ کو اپنے فضل سے فائدہ پہنچائے اور آپ کے شایان سلوک آپ کے ساتھ کرے۔

علامہ نے جواب دیا،حق یہ ہے کہ قرآن میں تقدیم ہے اور نہ تاخیر زیادتی ہے نہ کمی میں اس طرح عقائد سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں،اس سے سرکار دو عالم کے معجزہ پر بات آتی ہے جو تواتر کے ذریعہ ثابت ہے۔(2)

ان حضرات کے بعد علما کی ایک کثیر جماعت ہے جو تحریف قرآن کی سختی سے منکر ہے جیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع البیان ج:1ص:15

(2)اجوبۃ المسائل المھناویہ المسلہ:13ص:121،نجفی تمرین قرآن شریف کے سلسلے میں جو کتاب المحقق میں نقل ہوا ہےص:15

۱۸۳

محقق کرکی،صاحب مقاصد،محقق اردبیلی متوفی993؁شیخ بہائی متوفی1031؁فیض کاشانی متوفی1090؁محدث حرعاملی متوفی1104؁،آپ کی کتاب وسائل الشیعہ کا تذکرہ ہوچکا ہے اور جناب کاشف الغطا متوفی1228؁،اس کے علاوہ بعد میں آنے والے علما میں ایک بڑی جماعت ہے جن کو طول کلام کی وجہ سے چھوڑا جارہا ہے،پھر ہمارے دور میں بھی بہت سے علما ہیں جن میں شیعہ فرقے کے مرجع اور ہمارے استاد ابوالقاسم الخوئی نے اپنی کتاب البیان فی تفسیر القرآن کے مقدمے میں دعوہ تحریف کو ایک لمبی بحث کرکے توڑ پھوڑ دیا ہے۔

علما کی ایک بڑی جماعت ہے جنہوں نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں اور عدم تحریف پر مضبوط دلیلیں دی ہیں ان خبروں پر تنقید کی ہے جو وقوع تحریف کی شہادت دیتی ہیں اور ان حدیثوں کی تاویل بھی بیان کی ہے،ظاہر ہے کہ ہم اس مختصر کتاب میں ان کے بیانات کی گنجائش نہیں پاتے،یوں بھی شیعہ قوم کے نمایان علما کے اقوال اور ان کے اساتذہ کی تصریحات جو میں آپ کی خدمت میں پیش کرچکا ہوں میرے دعوائے عدم تحریف کے لئے کافی ہے بلکہ میں یہ عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ اہل سنت کے علما نے اس کثرت سے عدم تحریف کی صراحت نہیں کی ہے جیسا کہ شیعوں کے یہاں پائی جاتی ہے،سنی علما نے عدم تحریف پر استدلال کرنے میں زیادہ زحمت بھی نہیں اٹھائی ہے جب کہ شیعوں نے کافی تحقیق اور تفصیل سے کام لیا ہے سنی علما کا نظریہ تو اس اجماع عملی سے ثابت ہوتا ہے جس میں شیعہ اور سنی مشترک ہیں۔

4۔ہم شیعوں کے پاس جتنی بھی روایتیں ہیں ان میں سے اکثر اہل سنت کے طریقوں پر مروی ہیں دونوں فرقے کے مصادر کو دیکھےگا وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ جائےگا اور یہ حدیثیں ایسی ہیں بھی نہیں جن سے قرآن شریف کی واقعیت پر بات آئے یا قرآن مجید کو مقام تشکیک میں ڈال دیا جائے جیسا کہ گذشتہ اور آئندہ بیان سے ثابت ہوگا،اس لئے اگر کسی کو اس طرح کی روایت ملتی بھی ہے تو ضروری ہے کہ یا تو اس کی تاویل کردی جائے یا پھر خاموش ہوجایا جائے اس لئے کہ ایسی روایت بدیہیات سے ٹکراؤ کا سبب ہے،یوں بھی اس طرح کی روایتیں یا بعض روایتیں تحریف کے

۱۸۴

نظریہ کی تائید بھی نہیں کرتیں یا اس لئے کہ جمع کرنےوالے نے تحریف پر استدلال کرنے کے لئے جمع بھی نہیں کیا ہے بلکہ اس کا مقصد حدیثوں کو جمع کرنا تھا اس نے تو وہ روایتیں بھی جمع کی ہیں جو تحریف کے خلاف ہیں یا جن کی تاویل لازم ہے جیسا کہ جناب شیخ صدوق کے بیان سے ظاہر ہورہا ہے اس لئے بھی کہ یہ روایتیں بداہت سے ٹکرا رہی ہیں یا بغیر بداہت کے پیش کی جا رہی ہیں۔

ہاں بعض شیعہ اور بعض سنی علما ان حدیثوں کی بنیاد پر تحریف کو صحیح قرار دیتے ہیں بلکہ کچھ لوگوں نے اپنے گذشتہ دلام میں اشارہ کیا ہے تو اسیے علما نے بنیادی غلطی یہ کی ہے کہ تحریف والی خبروں کو صحیح مانا ہے اور اس پر غور نہیں کیا ہے کہ کوئی بھی اس طرح کی کبریں پڑھ کے بداہت سے انکار نہیں کرسکتا حالانکہ شیعوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں،اتنے کم کہ انہیں مقام مثال میں نہیں لایا جاسکتا ہے ثابت ہوچکا ہے اور شیعوں کے بڑے بڑے علما اور شیوح جو شیعوں کے لئے نمونہ عمل ہیں عدم تحریف پر ان کی تصریحات پیش کی جاچکی ہیں۔

قائلین تحریف کے ساتھ کیا کیا جائے؟

میرا خیال ہے کہ قائلیں تحریف کے ساتھ سختی نہیں کرنی چاہئے اس لئے کہ وہ محض خطاکار ہیں اور یہ غلطی بھی ان سے غفلت کی بنیاد پر ہوئی ہے اس لئے وہ بےحرمتی کے مستحق نہیں ہیں اور نہ کافر ہیں خاص طور سے جب وہ اس بات پر تمام مسلمانوں سے متفق ہیں کہ قرآن مجید میں زیادتی یا نقصان نہیں ہوا ہے اس لئے کہ یہ بات یا تو تواتر سے ثابت ہے یا درجہ اعجاز تک پہنچی ہوئی ہے اس لئے کہ عدم زیادتی پر تو اجماع ثابت ہوچکا ہے،قائلین تحریف کے ساتھ احترام سے پیش آنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دیکھ رہے ہیں کہ شیعہ اور ایک سنی فرقہ کے درمیان بسم اللہ..کو لےکے اچھا خاصہ اختلاف ہے سنی یہ کہتے ہیں کہ بسم اللہ..ہر سورہ کا جز نہیں ہے جب کہ شیعہ اس کی جزئیت کے قائل ہیں ظاہر ہے کہ یہ معمولی اختلاف اس بات کی اجازت تو نہیں دیتا کہ جزئیت کے قائل کو عدم جزئیت کا قائل کافر کہے یا عدم جزئیت کے قائل کو جزئیت کا قائل کافر

۱۸۵

کہے تو پھر قائلین تحریف کو بھی ہمیں کافر کہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ویسے جناب عبداللہ بن مسعود جو قرآن کی قرات کی دنیا میں ایک قدآور شخصیت ہیں آپ خود معوذتین کو قرآن میں شامل نہیں سمجھتے لیکن ہم انہیں صرف اس بنیاد پر کافر نہیں کہہ سکتے،اگر اس قول کی نسبت ان کی طرف صحیح ہو۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اختلاف ہمیں سقوط حرمت کا حق نہیں دیتے اور نہ کسی کو کافر کہنے کی جازت دیتے ہیں زیادہ سے زیادہ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ ان کے شبہات کو رفع کردیں یا ان کی غلطیوں کی نشاندہی کردیں تا کہ دوسرے لوگ بھی ان کی طرح غلطی نہ کریں اس لئے کہ اسلام اس اللہ کا دین ہے جس نے اپنے بندوں کے لئے اس دین کو شریعت بناکے نافذ کیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم اسلام اور کفر کی حدیں معین کرنے سے پہلے اللہ کے حکم کو دیکھ لیں(دین اس کا،شریعت اس کی،جس کو وہ کافر کہےگا وہ کافر اور جس کو وہ مومن کہےگا وہ مومن)کسی کو حق نہیں پہونچتا کہ محض اپنے نظریہ اور مسلمات کا مخالف ہونے کی وجہ سے کسی کو کافر کہہ دے جب مخالف کا انکار،اصول اسلام اور ان حدود الہیہ کو نہ پہنچتا ہو جو اللہ نےقائم کی ہوں تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس طرح کے خیالات سے بچیں اور سختی سے پرہیز کریں۔

عدم تحریف کی تاکید

5۔ظاہر ہے کہ قرآن مجید اپنی حقانیت خود ثابت کرتا ہے،قرآن کوئی انسان کا انشا کیا ہوا نہیں ہے جیسا کہ خود قرآن کہتا ہے-(وَمَا كَانَ هَٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّهِ) (1)

ترجمہ آیت:ایسا نہیں ہے کہ یہ قرآن خدا کےسوا کوئی اور اپنی طرف سے جھوٹ بناڈالے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ تواتر سے مستغنی ہے اگر چہ قرآن کے بارے میں تواتر پایا جاتا ہے اور یہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورہ یونس آیت:37

۱۸۶

وجہ ہے کہ قرآن سرکار دو عالم کا معجزہ ہے جو آپ کی صداقت پر گواہی دیتا ہے،سرکار دو عالمؐ نے انفرادی طور پر قرآن کو اللہ کی طرف منسوب کیا ہے اور کسی کو اس نسبت کا گواہ نہیں بنایا اگر قرآن قرآن خود کو ثابت نہ کرتا ہوتا اور تواتر سے مستغی نہ ہوتا تو اس کے اندر صلاحیت اعجاز بھی نہیں ہوتی اس کی طرف وہ تمام آیتیں اشارہ کرتی ہیں جو قرآن میں تحدی کے طور پر آئی ہیں۔

ارشاد ہوتا ہے:قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْآنِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً (1)

ترجمہ آیت:اے رسول آپ کہہ دیں کہ اگر سارے دنیا و جہاں کے آدمی اور جن اس پر اکھٹے ہوں کہ اس قرآن کا مثل لےآئیں تو غیرممکن اس کے برابر نہیں لاسکتے اگر چہ اس کوشش میں ایک کا ایک مددگار بھی بنے۔

اب یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ خبریں جن سے تحریف کا وہم پیدا ہوتا ہے اگر زیادتی کی طرف اشارہ کرتی ہیں یعنی قرآن میں انسان کا کلام بھی شامل ہے اور دو دفتیوں کے بیچ جو کچھ ہے وہ سب کا سب کلام اللہ نہیں ہے یا اس کو بدل دیا گیا ہے تو خود قرآن ان کی مدد کرےگا اس لئے کہ قرآن کا لہجہ اور اس کا اسلوب کہیں پر بھی بدلا نہیں ہے تا کہ یہ تمیز کی جاسکے کہ یہاں تک کہ قائلین تحریف بھی اس کو کلام خدا مانتے ہیں۔

اور اگر تحریف کی خبرون سے وہ روایتیں مراد ہیں کہ جن میں قرآن کو ناقص بتایا گیا ہے یعنی دو دفتیوں کے درمیان جو کچھ ہے وہ مکمل قرآن نہیں ہے بلکہ اس میں سے کچھ ضائع ہوگیا ہے تو اس کو رد کرنے کے لئے سید مرتضی کی دلیل کافی ہے کہ صاحبان نظر جب غیراللہ کے کلام کو جمع کرنے کے لئے بہت زیادہ احتیاط اور دقت نظر سے کام لیتے ہیں تو پھر اللہ کے کلام کو جمع کرنے میں اتنی بے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ اسراءآیت:88

۱۸۷

احتیاطی کیسے کرسکتے ہیں کہ اس میں کا کچھ حصہ ضائع ہوجائے اور انہیں کبر تک نہ ہو،ایک مضبوط دلیل اور بھی ہے وہ یہ کہ اب تک کسی نے بھی کوئی ایسا جملہ نہیں پیش کیا جس میں آیات قرآن جیسی صلاحیت ہو اور اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ قرآن تھا جواب تک قرآن میں شامل نہیں ہوا تھا۔

صدر اول کے مسلمان اپنے کلام میں مقام احتجاج میں قرآن مجید کی آیتیں پیش کرتے تھے اس وقت کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ قرآن نہیں ہے،ظاہر ہے کہ قرآن کے باہر کے جملوں سے شہادت اور دلیل دینا اور مصحف کے اندر جملوں سے استدلال کرنا دونوں میں فرق ہے۔

مثلاً معصومہ کونینؐ نے دو خطبے ارشاد فرمائے دونوں ہی خطبوں میں استدلال کے لئے قرآنی آیات کا سہارا لیا،لیکن آپ نے جو آیتیں استعمال کی ہیں وہ مصحف شریف میں موجود ہیں حالانکہ مصحف شریف نسلاً بعد نسل ہم تک پہنچاہے لیکن حوالہ اسی مصحف کی آیتوں کا ہے جب کا معصومہ کا قرآن اس وقت کی بات ہے نبیؐ کی وفات کو زیادہ زمانہ نہیں گذرا تھا اور قرآن کے ضائع ہونے یا پوشیدہ رہنے کا کوئی بھی سبب نہیں تھا۔

اب رہ گئیں وہ روایتیں جو بعض کلمات اور عبارت اک طرف قرآن کے تحریف ہونے کا اشارہ کرتی ہیں تو ایسی روایتوں پر توجہ نہیں دینی چاہئیے اس لئے کہ اصلی بات یہ ہے کہ وہ عبارتیں قرآنی نہیں ہیں ان کا اسلوب لب و لہجہ اور ضعف بیان اس بات کا شاہد ہے کہ وہ قرآن نہیں ہیں اور عدم تحریف پر یہ کافی دلیل ہے اس لئے کہ خداوند عالم نے اپنے مخصوص لب و لہجہ سے قرآن کو کامل بنادیا ہے اور ایک معجزاتی کتاب کی حیثیت دے کے حجت تمام کی ہے۔

اس لئے یہ بات طے ہے کہ اگر تاویل ممکن نہ ہو تو ایسی روایتوں کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ اس طرح کی کمزور روایتیں قرآن مجید کی اصلیت اور اس کے تواتر اور اعجاز کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان روایتوں کو جھوٹا مانتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسی روایتوں کو اللہ کی طرف پلٹا دینا چاہئیے کہ خدا جانتا ہے اور ان روایتوں کا قائل جانتا ہے۔

اس لئے کہ یہ وہ اشکالی روایتیں ہیں جن کے بارے میں ہمارے اماموں نے وقوف کی ہدایت

۱۸۸

کی ہے اور اس کے اہل کی طرف اس کے علم کو پلٹانے کی ہدایت کی ہے اس لئے کہ کبھی بھی ماحول سے متاثر ہو کے بھی انسان ایسی باتیں کہہ دینا ہے کو وہ کہنا نہیں چاہتا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بات کی جھوٹی نسبت بھی کسی کی طرف دیدی جاتی ہے اور اس کا علم صرف خدا کو ہوتا ہے۔

تحریف قرآن کا موضوع ایک خطرناک موضوع

6۔ہم جس طرح خطرناک دور سے گذر رہے ہیں اس میں مسلمانوں کے لئے بہتر ہے کہ بجائے اس کے کہ ایک دوسرے پر کیچڑا اچھالیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں یا انہیں بدنام کریں،ہمیں چاہئے کہ ہم سب مل کر مندرجہ ذیل باتوں کی طرف زیادہ توجہ دیں۔

1۔دینی حقائق کی تحقیق کامل موضوعیت کے ساتھ تعصب اور جذبات سے دورہ کرکریں اور اس تحقیق میں ہمارا ہدف یہ ہو کہ ہم خدا کے نزدیک جواب دہی کے ذمہ دار ہیں اور دنیا میں اس کے خذلان اور آخرت میں اس کے عذاب سے محفوظ رہیں۔

2۔جن عقائد میں ہم مشرک ہیں اس میں اسلام کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو کر اتحاد کا ثبوت دیں اور کلمہ اسلام کو بلند کرنے کے لئے اور مشترک ہدف کی خدمت کرنے کے لئے متحد ہوجائیں۔

اس دور میں میری ان لوگوں سے پرزور گذارش ہے جو شیعوں پر تہمت رکھتے ہیں اور بدنام کرتے رہتے ہیں کہ برائے مہربانی صرف وہ تہمتیں رکھئے جو صرف شیعہ فرقہ کے لئے نقصان دہ ہوں اور اس طرح کی تہمتیں ہرگز مت رکھئے جو اسلام کو نقصان پہنچانےوالی ہوں اور جن کا لگاؤ اسلام کے مقدسات و رموز سے ہو مثلاً یہ الزام رکھنا کہ شیعہ غلو کرتے ہیں یہ ایک سنگدلانہ اور ظالمانہ الزام تو ہے لیکن اس کا نقصان صرف شیعوں کو پہنچتا ہے اب یہ شیعوں کی ذمہ داری ہے کہ یا تو وہ اس کی مدافعت کریں گے اور اس الزام کے نتیجوں سے خود کو نجات دینے کی کوشش کریں گے یا پھر اس کا جواب دینے سے عاجز ہوں گے،چاہے ان کا یہ ضعف صرف الزام دینےوالا ہی محسوس کرے،بہرحال الزام تراشی

۱۸۹

کرنےوالے کا مقصد تو حل ہوجائےگا اور اس کے غصہ کی آگ کو تشفی مل جائےگی۔

لیکن شیعوں پر یہ الزام کہ وہ تحریف قرآن کے قائل ہیں صرف شیعوں تک نہیں بلکہ قرآن مجید کے لئے بھی خطرناک ہے جو قرآن اسلام کا دائمی معجزہ ہے وہی قرآن پر عام مسلمانوں کا اجماع نہیں ہے اور وضاحت و ظہور میں اتنا کمزور ہے کہ ہر مسلمان اس کو کلام خدا نہیں مانتا بلکہ مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ اس کا اقرار نہیں کرتا اور اس میں تحریف کو مانتا ہے پھر یہ قرآن دوسری آسمانی کتابوں سے ممتاز کیوں کر ہوا جب کہ دوسری کتابوں کی طرح قرآن میں بھی تحریف ہوئی ہے،سوچئے کہ یہ بات کہاں تک پہنچی!آپ شیعہ دشمنی نے قرآن اور اسلام کے دشمنوں کو جو قرآن اور اسلام پر کسی مصیبت کے آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں انھیں کتنا بڑا ہتھیار دےدیا۔

جو لوگ اس طرح کے الزام شیعوں پر رکھتے ہیں اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے شیعوں کی شان کھٹ جائےگی اور شیعوں کو اسلام سے نکالا جائےگا تو ان کا خیال ہے اس لئے کہ شیعہ فرقہ تمام اسلامی فرقوں کے اندر بلکہ خود اسلام کے اندر اتنی اہمیت رکھتا ہے اور اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ اس فرقہ کو ہٹ دھرمی اور غلط الزام تراشی کے ذریعہ نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا ہے،شیعوں کی اپنی ایک مستقل حیثیت ہے اگر شیعہ اتنے مضبوط اور پائدار وجود کے حامل نہ ہوتے تو تمام مسلمان مل کے شیعوں پر یہ اعلامی حملے ہرگز نہیں کرتے اور شیعوں سے لوگوں کے دل میں وہ کینے اور عداوت ہرگز نہیں ہوتی جس کو ہم شیعہ آج جھیل رہے ہیں۔

یہ خدائی معجزہ ہے کہ بنی امیہ و بنی عباس کے دور سے شیعہ ظلم سہتے چلے آرہے ہیں(مترجم)مگر دشمنان اسلام کے لئے قرآن مجید اور اسلام عظیم کے اوپر اس طرح کے الزامات یقیناً ایک خوش خبری ہوں گی انہیں دیر سویر تو معلوم ہو ہی جائےگا کہ یہ مسلمان خود قرآن مجید کی واقعیت پر متحد نہیں ہیں تو شیعہ کے خلاف یہ کوشش در حقیقت اسلام اور قرآن کو کمزور کردےگی،آپ یقین کریں اس طرح کے الزامات شیعوں کے خلاف نہیں بلکہ براہ راست اسلام اور قرآن کو نقصان پہنچاتے ہیں اب تو یہ ہوگا کہ اگر شیعہ تحریف قرآن کے الزام سے خود کو الگ ثابت کرنے کے لئے اور جھوٹ کو

۱۹۰

جھوٹ ثابت کرنے کے لئے دلیلیں بھی دیں گے تو شیعہ سنی کا جو مشترک دشمن ہے وہ ان کی بات نہیں سنےگا اور اس الزام کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرےگا،بلکہ جہاں تک ممکن ہوگا اس جھوٹ کو مضبوط کرنے کی کوشش کرےگا،اب اگر شیعوں نے الزام کے جواب میں الزام رکھا اور جواباً کہہ دیا کہ سنی بھی تحریف قرآن کے قائل ہیں تو ظاہر ہے وہ سنی کتابوں سے دلیلیں دیں گے یہ اور برا ہوگا،اس لئے کہ دشمن کہےگا کہ تحریف قرآن کے اوپر تو سنی اور شیعوں کا اجماع ہوچکا ہے اس لئے کہ اس کی نسبت قرآن کی کرامت اور اسلام کی عظمت کو نقصان پہنچانا ہے اور پس وہ جان بوجھ کے اس اجماع عمل سے تجاہل برتےگا جو ابھی کچھ صفحات پہلے بیان کیا جاچکا ہے،بلکہ وہ اسلامی علما کی تصریحات اور تحریف قرآن کے خلاف جو شواہد پیش کئے گئے ہیں ان کی طرف بھی جان بوجھ کے توجہ نہیں دےگا اور مسلمانوں کے اختلاف کو مشہور کرکے اپنا گندا مقصد حاصل کرےگا،اب وہ وقت نہیں رہا کہ مسلمانوں کے فرقے آپس میں ایک دوسرے پر اندر ہی اندر الزام تراشی کریں اور اس کی خبر دشمنوں کو نہ ہو،آج تو میڈیا نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی خبر دشمنوں کو فوراً ہوجاتی ہے،جس طرح مسلمانوں کو آپسی اختلاف کی خبر رہتی ہے تو جب دشمن باخبر ہوجائےگا تو اس کے لئے اسلام کو کمزور کرنا اور اس کو بدنام کرنا بہت آسان ہوجائےگا۔

جن حضرات نے اپنے قلم کے نیزے شیعوں کو نشانہبانے کے لئے اٹھا رکھے ہیں اور شیعوں کے حساس پہلوؤں پر چوٹیں کررہے ہیں انہیں سمجھنا چاہئیے کہ اپنی اس حرکت سے وہ اسلام اور مقدسات اسلامی کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں۔میں تو عرض کرتا ہوں کہ تمام ملت اسلامیہ کو ایسے لوگوں کے خلاف متحد ہوجانا چاہئیے تا کہ ان کے دین اور مقدسات دین کو نقصان نہ پہنچانےوالوں سے سوال کیا جائے کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں اور بہتر طریقہ سے انہیں روک دیا جائے۔

تقریباً سات سال پہلے میرے سامنے ایک بہت خطرناک مسئلہ آیا تھا کچھ شیعہ نوجوان تحریف قرآن کے الزام سے تنگ آکے جوش میں آگئے تھے اور انہوں نے اہل سنت کے پاس تحریف قرآن کی جو روایتیں ہیں انہیں جواب میں پیش کرنے کی ٹھان لی تا کہ جواب بالمثل دیا جاسکے بلکہ انہوں

۱۹۱

نے سنی حدیثوں سے اس عجیب و غریب اور ناقابل گفتگو موضوع پر اچھا خاصہ مواد بھی اکٹھا کرلیا تھا،لیکن جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے ان کے جوش کو ٹھنڈا کیا اور انہیں سمجھایا کہ ہماری اس حرکت سے کتنی مشکلیں سامنے آئیں گی،ہم نے انہیں سمجھایا کہ جو کچھ آپ جانتے ہیں اسے وسیع پیمانے پر مشہور نہ کریں اور انفرادی طور پر صرف معترضین کو ان کی غلطی پر متوجہ کردیں بڑے پیمانے پر اس آپسی الزام تراشی اور طعن و تشنیع کے طریقے سے بچیں تا کہ اس حساس مسئلہ میں ان کے کسی طریقہ سے قرآن مجید کو شعوری یا لاشعوری طور پر کوئی نقصان نہ پہنچ سکے،ہم نے انہیں سمجھایا کہ شیعوں پر زیادتی اور حملے سے زیادہ بری بات قرآن مجید کی رفعت اور اس کی عظمت پر حملہ ہے،بات ان لوگوں کے سمجھ میں آگئی اور خدا ہی مکروہات کے معاملے میں بھی حمد کا مستحق ہے-(انا لله و انا الیه راجعون و العاقبة للمتقین) (1)

ہم تو بس خدا کے ہیں او اسی کی طرف واپس جانے والے ہیں اور عاقب تو صاحبان تقویٰ کا حق ہے۔

--------------

سورہ قصص : آیت 83

۱۹۲

سوال نمبر۔4

سنیوں کے امام مہدی جن کا انتظار کیا جارہا ہے دوسرے ہیں اور شیعوں کے دوسرے کیا دونوں رائے ایک ساتھ صحیح ہوسکتی ہے؟صحیح رائے کس کی ہے سنیوں کی یا شیعوں کی؟

جواب:اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل امور آپ کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں

1۔امام مہدیؑ وہی صاحب ہیں جن کی سرکار دو عالمؐ اور آئمہ ہدیٰؑ نے خبر دی ہے اور وہ تمام مسلمانوں کےنزدیک ایک ہی ہیں لیکن اختلاف کا موضوع دو باتیں ہیں۔

الف:حضرت کا نسب،شیعوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام مہدی ابوعبداللہ الحسینؑ کی اولاد میں سے ہیں آپ امام حسینؑ کی ذریت کے نویں اور شیعوں کے بارویں امام ہیں علما اہل سنت کی ایک جماعت بھی شیعوں کہ اس عقیدے سے متفق ہے اس عقیدے کی گواہ وہ بہت سی حدیثیں ہیں جو نبیؐ اور آپ کے آل اطہارؑ سے مروی ہیں یا کسی دوسری بات پات کی دلیل میں ضمیمہ کرکے پیش کی گئی ہیں۔

ب:دوسرا اختلاف آپ کی ولادت کے سلسلے میں ہے،یعنی یہ کہ آپ پیدا ہوچکے ہیں اور فعلاً

۱۹۳

موجود ہیں یا ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں،بلکہ اپنے قیام کے کچھ دن پہلے پیدا ہوں گے امامیہ فرقہ کا اجماع قول اول پر ہے یعنی آپ پیدا ہوچکے ہیں،ان کا عقیدہ ہے کہ آپ بہ حکم خدا غائب ہیں اور ظہور کے لئے خدا کی اجازت کا انتظار کررہے ہیں۔اہل سنت کی ایک جماعت بھی شیعوں کے اس قول سے متفق ہے لیکن علما اہل سنت کی ایک بڑی جماعت دوسرے قول کی قائل ہے یعنی آپ پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ ظہور سے قبل پیدا ہوں گے۔

شیعہ فرقہ اور وہ حضرات جو شیعوں سے معاملے میں متفق ہیں وہ آپ کی ولادت پر حدیثوں کے ذریعہ دلیلیں دیتے ہیں لیکن دوسرے فریق کے پاس ظاہر ہے کہ ایسی خبریں نہیں ہیں جو آپ کی ولادت کی نفی کرسکیں۔

بلکہ ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ شیعہ دلیلوں پر غور نہیں کرتے یا ان حدیثوں پر بھروسہ نہیں کرتے اور چونکہ ان کے نزدیک امام کی ولادت ثابت نہیں ہوسکی۔

اور آپ کی لمبی حیات کو وہ بعید از قیاس سمجھتے ہیں اس لئے انہوں نے گھبرا کے فیصلہ کردیا کہ ابھی آپ پیدا نہیں وہئے ہیں اور پھر چونکہ آپ کے متعلق وافر مقدار میں خبریں ہیں اس لئے انہوں نے مجبوری میں یہ فیصلہ کیا کہ آپ ظہور کے کچھ پہلے پیدا ہوں گے۔

2۔اب رہ گیا آپ کا یہ سوال کہ کیا سنی عقیدےوالے مہدی اور شیعہ عقیدے والے مہدی ایک ہوسکتے ہیں تو عرض ہے کہ ایک ہونے کی کوئی گنجائش نہیں،اس لئے کہ امام مہدی ایک واحد شخص کا نام ہے جس کے بارے میں نبی نے پیشن گوئی فرمائی ہے اور ظاہر ہے کہ شخص واحد کا دو مختلف حالتوں میں پایا جانا محال ہے دونوں میں سے کوئی ایک ہی قول صحیح ہوسکتا ہے۔یعنی یا تو یہ مان لیا جائے کہ پیدا ہونگے اس لئے کہ معاملہ انہیں دو باتوں کے درمیان محصوت ہے اور جب دونوں باتوں میں سے ایک بات ثابت ہوجائے گی تو دوسری خودبخود باطل ہوجائےگی۔

3۔اگر آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کون سے رائے صحیح ہے تو فطری طور پر میں یہی کہوں گا کہ میرے مذہب کی رائے صحیح ہے اس کی وجہ وہ ٹھوس دلیلیں ہیں جو میری بات کی حمایت میں مجھ حاصل

۱۹۴

ہیں ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک میری رائے کی خاص اہمیت نہیں ہوگی کہ آپ میری دلیلوں کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔

چونکہ امام غائب اثنا عشری شیعوں کے خاتم الائمہ ہیں اس عقیدہ سے امامت کی تکمیل ہوتی ہے اور امامت و خلافت کو ثابت کرنے میں بھی حدیثیں اہل سنت کے دعوائے خلافت و امامت کے خلاف بھی استعمال ہوتی ہیں۔

لیکن اس سلسلے میں کافی لمبی گفتگو کی ضرورت ہے جس کو میں اس مختصر سی بحث میں چھیڑنا نہیں چاہتا جو حقیقت کا طالب ہے اس کو چاہئیے کہ خود تلاش کرے۔

دونوں فرقوں(شیعہ اور سنی)کے علاوہ درمیان نظام حکومت کی تعریف

ایک بات عرض کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے درمیان جب امامت پر گفتگو ہو تو کسی شخص کا تقابل کرنے کےبجائے نظام حکومت کو سمجھ لیا جائے یعنی اس بات پر بحث نہ ہو کہ علیؑ مستحق خلافت تھے یا ابوبکر یا یہ کہ اہل بیت کو یا پھر قرشی اور مہاجرین صحابہ میں تقابل کردیا جائے اس طرح تو بحث محدود ہو کے شخصی ہوجائے گی اس لئے کہ اسلام دین خاتم ہے اور جب تک یہ زمین باقی رہےگی اس وقت تک یہ دین بھی باقی رہےگا اور یہ بھی طے ہے کہ اسلام ہی تا قیامت اس دنیا کے لئے ایک حکومت کا نظارہ رکھتا ہے تو پھر نظام حکومت کے نفاذ کے لئے اور اسلامی حکومت کی تشریع کے لئے ایک ایسا نظام چاہئیے جس کے اندر زمین میں استمرار کی صلاحیت ہو اگر اس نظام امامت و حکومت کو ہم کسی ایک شخص یا چند افراد سے مخصوص کردیں گے تو ظاہر ہے کہ جب وہ افراد دنیا میں رہیں گے تو نظام چلےگا اور اس کے بعد اسلام تو موجود رہےگا لیکن نظام اسلام کو نافذ کرنےوالا کوئی نہ ہوگا۔

اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ دونوں کے نظام حکومت و امامت میں مقارنت ہونی چاہئیے تو پھر یہ

۱۹۵

ضروری ہے کہ دونوں کے پاس ایک ایسا نظام صالح ہونا چاہئیے جس کے ذریعہ اسلامی حکومت کے قانون کا نفاذ اور اس کی تشریع ہوسکے اور اس کے اندر اتنا امتداد ہو کہ جب تک اس زمین کے سینے پر ایک بھی انسان ہے اس کے لئے تشریع اور تنظیم کے لئے کوئی ہو جو نظام حکومت اسلامی کے معیار پر پورا اترتا ہو اور جب ہم نظام حکومت کو معین کریں گے اور اس کی حقانیت پر شرعی دلیلیں قائم کریں گے تو پھر اس کے معیار پر حاکم بھی مل جائےگا اس لئے کہ اب ہم حاکم کی تلاش،شرعی اساس پر کریں گے اور جو ہماری نظام حکومت کی تعریف کی حدوں میں آئےگا وہی حاکم ہوگا باقی جو ان حدوں کے اندر نہیں آتا ہے خودبخود نکل جائےگا،حق کو پہچان لو اہل حق کو پہچان جاؤگے(1) البتہ اگر ہم شرعی نظام حکومت معین نہیں کریں گے اور پھر بھی حاکم شرعی بات کرنا چاہیں گے تو یہ گفتگو بےمعنی ہوگی اور یہ سوچنا ہی بے معنی ہے کہ کس کی حکومت شرعی تھی یا غیر شرعی اس لئے کہ ابھی تو ہم نے حکومت شرعیہ کو معین ہی نہیں کیا ہے۔اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ شیعوں کے نزدیک اسلامی نظام حکومت کا مطلب یہ ہے کہ امام کا تعین اللہ کی طرف سے ہو اس میں کسی سے مشورہ لینے،بیعت لینے یا اقرار لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

خداوند عالم کے لئے یہ ضروری ہے کہ امام کا تعیّن کرے اور اس کو مشخص کردے اس کے لئے ایسی دلیل دے کہ جو واضح ہو،تعین اللہ کی طرف سے یا تو نبی کے ذریعہ ہوتا ہے یا پھر اس امام کے ذریعہ ہوتا ہے جو نبی کی طرف سے معین کیا گیا ہو،اس لئے کہ نبی کا تعین کردہ امام نبی کے اشارہ پر ہی امام کو مشخص کرےگا اور نبی خدا کے اشارے پر۔

اس بنا پر عرض ہے کہ:

شیعوں کے نزدیک وہ امام جنہیں اللہ نے نبی کے بعد امامت کی ذمہ داری دی ہے اور جن کے ذریعہ اپنی تبلیغ مکمل کرتا ہے وہ بارہ امامؑ ہیں اور وہ سب کے سب نبیؐ کے اہل بیت میں سے ہیں

-------------

(1)تفسیر قرطبی،ج:1ص:340،آیت(ولاتلبسوا الحق بالباطل) کی تفسیر میں،فیض القدیر شرح جامع الصغیر،ج:1ص:272،28،حدیث،288،کی شرح میں،اسی طرح،ج:4،ص:2409،23حدیث کی شرح میں،ابجد العلوم،ج:1ص:126،الاعلام الثامن فی آداب المتعلم و المعلم فی الجمل السابقہ

۱۹۶

ان میں سب سے پہلے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ اسلام پھر حسن سبط الزکی علیہ السلام،پھر حسین سبط شہید علیہ السلام پھر نو امام سبط اصغر امام حسینؑ کی ذریت میں ہیں،جن کے نویں،امام ابن الحسن العسکری،الغائبہ المہدی،المنتظر ہیں بارہ حضرات ہیں جو خلافت و حکومت شرعی کے مالک ہیں،ان کے علاوہ کوئی کتان ہی بڑا آدمی ہو امام نہیں ہوسکتا شیعوں کے پاس اپنے اس عقیدے کے لئے بھر پور دلیلیں ہیں جن پر وہ بھروسہ کرتے ہیں اور جن کے ذریعہ وہ حجت قائم کرکے اپنے مخالف کو تسلی بخش جواب دیتے ہیں۔

لیکن افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ اہل سنت کے پاس نظام حکومت کا ایسا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ ان حضرات نے اب تک امت کو اندھرے میں رکھا ہے میرے لئے ممکن نہیں ہے کہ میں ان کے نظام حکومت و شریعت کی تعریف کرسکوں اس لئے کہ وہ شیعوں کے عقیدے سے بالکل الگ عقیدہ رکھتے ہیں اگر کوئی آدمی ان کے خلفاء کے واقعات کو دیکھے اور ان خلفاء کی خلافت کو شرعی حیثیت دینے کے لئے ان حضرات نے جو مفروضات قائم کئے ہیں ان پر غور کرے تو اس کی نظر میں بات خودبخود واضح ہوجائےگی یہ الگ بات ہے کہ بعض اہل سنت کی یہ کوشش رہی ہے کہ خلافت کا اختیار امت کو ہے،چاہے جس کو خلیفہ بنائے،حالانکہ اگر یہ بات مان لی جائے تو پھر نظام مکمل نہیں ہوگا اس لئے کہ جب ہم اس کی تحدید کرتےہیں تو مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

1۔امامت و خلافت کا انتظام کرنے کا حق کس کو ہے؟اس کا نسب اس کا سن اس کی دینی اور سماجی حیثیت کیا ہونی جاہئے؟

2۔خلافت کے لئے منتخب شخص کی اہلبیت کب ساقط ہوجائےگی اور وہ کون سے اسباب ہیں جو اس کو معزول کردیں گے؟

مثلاً فیصلے میں ظلم یا مطلق فسق،خرافات و مرض،عجز مطلق اور ضعف و غیرہ ان تمام باتوں کو بہت توجہ کے ساتھ واضح کرنا ضروری ہے تا کہ اختلافات کی کوئی صورت نہ پیدا ہو اس سلسلے میں عثمان کے معاملے میں جو کچھ ہوا اس سے امن بچانا بھی ضروری ہے،اس وقت عثمان کے مخالفین اس بات کا

۱۹۷

مطالبہ کررہے تھے کہ عثمان کو خلافت سے معزول کردیا جائے اس لئے کہ وہ اس کی اہلیت نہیں رکھتے اور عثمان کہہ رہے تھے کہ اللہ نے جو لباس پہنایا ہے،اس کو وہ نہیں اتاریں گے،اس طرح کے واقعات حکومت اموی اور عباسی میں بھی سامنے آئے۔

3۔خلیفہ منتخب کرنے کا اختیار کا حق کس کو ہے؟اس کی خاندانی،دینی اور سماجی حیثیت کیا ہونی چاہئے؟کس عمر میں اس کو یہ حق حاصل ہوتا ہے؟مردوں ہی کو یہ حق حاصل ہے یا عورتیں بھی حقدار ہیں و غیرہ۔

4۔ان امور کی نگرانی اور جانچ کیسے ہوگی؟یعنی کیسے پتہ چلےگا کہ کس کے اندر خلافت کی صلاحیت ہے؟اور کس کے اندر انتخاب و اختیار ہے؟منتخب شخص کے اندر کب تک وہ صلاحیتیں موجود ہیں اور کب ختم ہوجاتی ہیں کس طریقہ پر ہم ان امور کو ثابت کرسکیں گے۔

5۔امام اور خلیفہ کی صلاحیت کیا ہونی چاہئیے اس لئے کہ جب اہل سنت کا شیعوں سے اختلاف ہوا تو انہوں نے کہہ دیا کہ خلیفہ کا معصوم ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کرسکتا ہے،اپنے اجتہاد میں وہ خدا اور رسول کا پابند نہیں ہے،اس لئے خلیفہ کی صلاحیت کی حدیں کیا ہیں؟طے ہوجانا چاہئے اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اہل سنت کے خلفاء کے کردار میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔

جیسے اہل سنت اس بات کے قائ ہوگئے کہ نبی نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا تھا اور خلیفہ کے اختیار کا حق امت کو دےدیا تھا پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ابوبکر،عمر کو خلیفہ بناتے ہیں پھر عمر خلیفہ بنانےکا ایک الگ طریقہ اختیار کرتے ہیں،ان کے خیال میں خلافت کی صلاحیت چند افراد میں تھی اور خلیفہ بنانے کا اختیار بھی چند افراد کو تھا،پھر امیرالمومنینؑ کی بیعت عثمان کے بعد اجتماعی حیثیت سے کی جاتی ہے اور مہاجرین و انصار کے نمایان افراد امیرالمومنینؑ کی بیعت کرتے ہیں اور عام مسلمان آپ کی خلافت کو قبول کرتے ہیں جب کہ عثمان کے دور میں ایسا نہیں تھا۔پھر امام حسنؑ کی بیعت ہوتی ہے لیکن آپ کی خلافت پر امیرالمومنینؑ نص فرماتے ہیں یا بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عوام نے امام حسن کو خلیفہ مانا،

۱۹۸

واقعہ تحکیم میں معاویہ اپنے آپ کو خلیفہ شرعی ہونے کا اعلان کردیتے ہیں(یعنی انتخاب خلیفہ کا کوئی اصول نہیں ہے جس کو جیسے موقع ملا وہ خلیفہ بناتا چلا گیا،اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ)مترجم

اس کے بعد اکثر خلفاء کی نص پر مستحق قرار پائے پھر معیار خلافت قوت کو مان لیا گیا اور اب خلیفہ نے ایک سے زیادہ اور دوسری اسلامی حکومتوں میں بھی یہی سلسلہ اپنایا گیا جیسے کبھی کسی کو خلافت سے لگ کردیا گیا کبھی ولی عہد بنایا گیا،کبھی طاقت کے ذریعہ خلافت حاصل کی گئی اور کبھی دوسرے ذریعوں سے جس کی تفصیل مورخین نے پنی کتابوں میں بیان کی ہے۔

بلکہ اکثر بات اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے خلیفہ صرف اپنے بعد والے پر نص ہی نہیں کرتا بلکہ اپنے دور خلافت میں کچھ لوگوں کو خلافت کا حصہ دار بنانا چاہتا ہے،چنانچہ ابوبکر نے امیرالمومنین علیہ السالم کی قوت کو کمزور کرنے کے لئے عباس بن عبدالمطلب کو اپنے ساتھ ملانا چاہا اور انہیں خلافت میں ایک حصہ دینے کی پیش کش کی یہ الگ بات ہے کہ جناب عباس بن عبدالمطلب نے ابوبکر کی یہ پیش کش ایک تاریخی جملہ کہہ کے ٹھکرادی عباس بن عبدالمطلب نے فرمایا کہ تم ہمیں جو خلافت کا حصہ دار بنانا چاہتے ہو تو اگر خلافت تمہارا حق ہے تو ہم کیوں لیں؟اپنے حق کو اپنے پاس رکھو اور اگر مومنین کا حق ہے تو تمہیں اس میں حکم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور اگر ہمارا حق دے رہے ہو تو سب دو ورنہ ہم کچھ حصہ لےکے راضی نہیں ہوں گے۔(1) تو جناب والا اہل سنت کے نظریہ خلافت کے متعلق یہ ساری باتیں ہیں اور اب رہ گئے بقیہ دینی امور اور ان کی شرعی حیثیتیں تو خلفا نے اس میں بھی مداخلت کی ہے۔جیسا کہ ابھی ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:221 الامامۃ و السیاسۃ ج:1ص:18،علیؑ کی بیعت کس طرح ہوئی تھی،تاریخ یعقوبی ج:2ص:125۔126،سقیفہ بنی ساعدہ کی روایت اور بیعت ابی بکر کے باب میں۔

۱۹۹

آپ کے ساتویں سوال کے جواب میں عرض کریں گے کہ عمر اور ابوبکر کے دور خلافت میں سنت نبوی کو معطل کردیا گیا اور حدیث نبی بیان کرنے کا حق بھی مسلمانوں سے سلب کرلیا گیا صرف چند حدیثیں(جو بظاہر ان کے مفاد میں تھیں،مترجم)بیان کرنے کی اجازت دی گئی یہی حال معاویہ کے دور میں خلافت میں رہا،وہ مسلمانوں سے کہا کرتا تھا کہ اے لوگو!پیغمبرؐکی حدیثیں کم سے کم بیان کرو اگر تم حدیث بیان کرنا ہی چاہتے ہو تو صرف وہ حدیثیں بیان کرو جو عمر کے دور میں رائج تھیں(1) عمر نے مسلمانوں پر ہمیشہ پر ہمیشہ دینی امور میں اپنی رائے مسلط کی،جیسے متعۃ الحج اور متعۃ النساء کو حرام قرار دینا(اسلام پر ایسا بھی وقت پڑا ہے،مترجم)کہ لوگ فقہ،عقائد اور حدیث کی توجیہ کے وقت اس بات کا خیال رکتھے تھے کہ حکما وقت ان کی طرف متوجہ ہوں،بلکہ حکام اپنے مطلب کی توجیہ کرنے کے لئے علما کی پرورش کرتے تھے جیسے منصور عباسی نے امام مالک بن انس سے کہا کہ فقہ کی ایسی کتاب لکھیں جو لوگوں پر تحمیل کردی جائے اور مامون نے ارادہ کیا تھا کہ متعہ کو حلال کردے لیکن لوگوں کے ڈر سے خاموش رہا،مامون نے قرآن کے مخلوق ہونے کا نظریہ اور اللہ کی قیامت کے دن نفی رویت ہونے کے نظریہ کی مسلمانوں پر تحمیل کی۔

مامون،معتزلہ کے مذہب کی ترویج کرتا رہا،یہاں تک کہ متوکل نے آکے اس کو بدل ڈالا اور رویت کی حدیثوں کو عام کرنے کا حکم دیا۔پھر قرآن کے عدم خلقت کا نظریہ بھی رائج کیا اور معتزلہ کے مذہب کے خلاف نظریوں کی حوصلہ افزائی کی۔

سن408؁میں قادر نے حنفی معتزل اور شیعوں سے توبہ کرنے کو کہا،ان کے علاوہ بھی جو لوگ اس کے نظریوں کے مخالف تھے سب سے توبہ کرنے کو کہا اور مناظرہ کرنے کو منع کردیا،پھر بات یہاں تک پہنچی کہ صرف مذاہب اربعہ کے نظریات کے مطابق فیصلہ ہونے لگا،اس کی سختی سے پابندی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)کنزالعمال ج:10ص:291،حدیث29473،اور اسی طرح معجم الکبیرج:19ص:370،جس میں عبداللہ بن عامر الحصی التاری نے معاویہ سے روایت کی ہے

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296