فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 125727
ڈاؤنلوڈ: 6308


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125727 / ڈاؤنلوڈ: 6308
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بہت کم ہے اس لئے کہ یہ اختلاف اہل حدیث کے ایک گروہ کی طرف منسوب ہوتا ہے،جنہوں نے کمزور حدیثیں نقل کی ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ یہ حدیثیں ہیں ظاہر ہے ایسی حدیثوں کی طرف رجوع کرکے ایک یقینی بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے۔(1)

ابن حزم نے یہ تو اعتراف کیا ہے کہ شیعہ امامیہ تحریف کے قائل ہیں لیکن ان کی عبارت ملاحظہ ہو،وہ کہتے ہیں((امامیہ فرقہ چاہے قدیم ہو یا جدید ان کا قول ہے کہ قرآن بدلا ہوا ہے اس میں کچھ زیادتی بھی ہے اور بہت زیادہ کمی بھی ہے۔

سواعلی بن الحسن(الحسین)بن علی ابی طالب کے یہ امامی فرقے سے ہیں اور اعتزال کا مظاہرہ کرتے ہیں تحریف قرآن کے منکر ہیں اور اس کے قاءل کو کافر کہتے ہیں اس طرح ان کے دو ہم مذہب ابویعلی میلاد الطّوسی اور ابوالقاسم رازی ہیں۔(2)

سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ ابن حزم کہتے ہیں کہ جو تحریف قرآن کا قائل ہے اس کو سید مرتضی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اعلام شیعہ میں سے تھے اور سید مرتضی کہتے ہیں کہ تحریف قرآن کا ماننےوالا کافر ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ شیعوں کی طرف تحریف قرآن کو منسوب کیا جائے جب کہ ان کا مرجع دینی،تحریف قرآن والے کو کافر کہتا ہے۔

د:شیخ ابوجعفر طوسی آپ کا تذکرہ مصادر شیعہ کے ذیل میں گزرچکا ہے آپ اپنے دور میں حدیث اور اجتہاد کے جامع تھے،یعنی اہل حدیث اور اہل اجتہاد دونوں کے مرجع تھے آپ نے اپنی تفسیر کی شاندار کتاب التبیان کے مقدمہ میں عدم تحریف کی صراحت کی ہے آپ نے فرماتے ہیں((قرآن مجید میں زیادتی اور نقص کے بارے میں گفتگو کرنا ہماری اس کتاب تبیان کے شایان نہیں ہے اس لئے کہ زیادتی کے بطلان پر تو امت کا اجماع ہے اب رہ گیا نقصان کا سوال تو ظاہر یہ ہے کہ عام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع البیان ج:1ص:15

(2)الفصل فی الملل و النحل:ج:4ص:182

۱۸۱

مسلمان اس کے خلاف ہے اور ہمارا مذہب بھی قرآن میں نقصان کا قائل نہیں ہے اس کی تائید جناب سید مرتضی نے بھی فرمائی ہے اور روایات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ شیعہ سنی دونوں فرقوں میں بہت سی روایتیں ایسی پائی جاتی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کی بہت سی آیتیں کم ہوگئیں یا کسی آیت کا کوئی ٹکڑا دوسری آیت میں جوڑ دیا گیا لیکن یہ روایتیں احاد کے طریقہ سے نقل کی گئی ہیں جو نہ علم کا۔

سبب بنتی ہیں اس لئے ان کی طرف توجہ نہ دی جائے اور اپنا قیمتی وقت ان پر ضائع نہیں کیا جائے اس لئے کہ ایسی روایتوں کی تاویل ممکن ہے پھر ہماری وہ روایتیں جن کے ذریعہ قرآن کی قرات پر اور قرآن میں جو کچھ ہے اس کے تمسک پر اور خبروں کے اختلاف کی وجہ سے ان پر جو اعتراض کیا گیا ہے اور وہ ان سے تحریف کے خلاف ہیں خود سرکار دو عالم کی یہ متفق علیہ حدیث جس کو کسی نے بھی غلط نہیں کہا ہے۔

(انی تاریک فیکم الثّقلین ما ان تمسکمتم بهما لن تضلّوا بعد کتاب الله و اهل بیتی و انّهما لن یّفترقا حتی یرد علی الحوض)

ترجمہ حدیث:میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کے جارہا ہوں جب تک ان دونوں کو پکڑے رہوگے میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے یہ دونوں چیزیں اللہ کی کتاب اور میری عترت ہیں یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے ہرگز الگ نہیں ہوں گی،یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پہ ملاقات کریں گی۔

یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن ہر دور میں مکمل طور پر موجود رہا اس لئے کہ نبی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہمیں ایسی چیز کے تمسک کا حکم دیا جائے جس کے تمسک پر ہم قدرت نہیں رکھتے ہوں۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تفسیر تبیان:ج:1ص:3۔4

۱۸۲

ھ:شیخ ابوعلی فضل بن حسن طبرسی متوفی 548؁ آپ تفسیر مجمع البیان کے مقدمہ میں لکھتے ہیں اور قرآن میں زیادتی اور کمی کا موضوع تفسیر کے شایان نہیں ہے جہاں تک زیادتی کا سوال ہے تو امت کا اس کے بطلان پر اجماع ہے لیکن کمی کے بارے میں ہمارے علما نے اور اہل سنت کے فرقہ حشویہ نے کچھ روایتیں پیش کی ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے قرآن میں تغیر اور نقصان ہوا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ ہمارے علما کا مذہب اس کی مخالفت کرتا ہے اسی نظریہ کی تائید سید مرتضی نے فرمائی ہے اور بھر پور دلیلوں کے ساتھ تحریف کو غلط ثابت کیا ہے سید مرتضی مسائل طرابلسات کا جواب دے رہے ہیں اس کے بعد سید مرتضی کی مذکورہ عبارت پیش کی گئی ہے۔(1)

و:علامہ حلی جمال الدین بن حسن بن علی مطہر جن کا تذکرہ مصادر شیعہ میں ہوچکار ہے یہ اپنے دور میں نمایان شیعوں میں تھے ان سے سید مہنا نے کچھ سوالات کئے ہیں اس میں ایک سوال یہ بھی ہے۔

((کتاب عزیز کے بارے میں ہمارے سردار کا کیا قول ہے۔))

کیا ہمارے علما اس بات کو صحیح سمجھتے ہیں کہ قرآن میں نقص یا زیادتی ہوئی ہے یا یہ کہ اس کی ترتیب بدل دی گئی ہے یا ہمارے اس علما اس میں سے کسی بات کے قائل نہیں؟آپ مجھے فائدہ پہنچائیں خدا آپ کو اپنے فضل سے فائدہ پہنچائے اور آپ کے شایان سلوک آپ کے ساتھ کرے۔

علامہ نے جواب دیا،حق یہ ہے کہ قرآن میں تقدیم ہے اور نہ تاخیر زیادتی ہے نہ کمی میں اس طرح عقائد سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں،اس سے سرکار دو عالم کے معجزہ پر بات آتی ہے جو تواتر کے ذریعہ ثابت ہے۔(2)

ان حضرات کے بعد علما کی ایک کثیر جماعت ہے جو تحریف قرآن کی سختی سے منکر ہے جیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع البیان ج:1ص:15

(2)اجوبۃ المسائل المھناویہ المسلہ:13ص:121،نجفی تمرین قرآن شریف کے سلسلے میں جو کتاب المحقق میں نقل ہوا ہےص:15

۱۸۳

محقق کرکی،صاحب مقاصد،محقق اردبیلی متوفی993؁شیخ بہائی متوفی1031؁فیض کاشانی متوفی1090؁محدث حرعاملی متوفی1104؁،آپ کی کتاب وسائل الشیعہ کا تذکرہ ہوچکا ہے اور جناب کاشف الغطا متوفی1228؁،اس کے علاوہ بعد میں آنے والے علما میں ایک بڑی جماعت ہے جن کو طول کلام کی وجہ سے چھوڑا جارہا ہے،پھر ہمارے دور میں بھی بہت سے علما ہیں جن میں شیعہ فرقے کے مرجع اور ہمارے استاد ابوالقاسم الخوئی نے اپنی کتاب البیان فی تفسیر القرآن کے مقدمے میں دعوہ تحریف کو ایک لمبی بحث کرکے توڑ پھوڑ دیا ہے۔

علما کی ایک بڑی جماعت ہے جنہوں نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں اور عدم تحریف پر مضبوط دلیلیں دی ہیں ان خبروں پر تنقید کی ہے جو وقوع تحریف کی شہادت دیتی ہیں اور ان حدیثوں کی تاویل بھی بیان کی ہے،ظاہر ہے کہ ہم اس مختصر کتاب میں ان کے بیانات کی گنجائش نہیں پاتے،یوں بھی شیعہ قوم کے نمایان علما کے اقوال اور ان کے اساتذہ کی تصریحات جو میں آپ کی خدمت میں پیش کرچکا ہوں میرے دعوائے عدم تحریف کے لئے کافی ہے بلکہ میں یہ عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ اہل سنت کے علما نے اس کثرت سے عدم تحریف کی صراحت نہیں کی ہے جیسا کہ شیعوں کے یہاں پائی جاتی ہے،سنی علما نے عدم تحریف پر استدلال کرنے میں زیادہ زحمت بھی نہیں اٹھائی ہے جب کہ شیعوں نے کافی تحقیق اور تفصیل سے کام لیا ہے سنی علما کا نظریہ تو اس اجماع عملی سے ثابت ہوتا ہے جس میں شیعہ اور سنی مشترک ہیں۔

4۔ہم شیعوں کے پاس جتنی بھی روایتیں ہیں ان میں سے اکثر اہل سنت کے طریقوں پر مروی ہیں دونوں فرقے کے مصادر کو دیکھےگا وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ جائےگا اور یہ حدیثیں ایسی ہیں بھی نہیں جن سے قرآن شریف کی واقعیت پر بات آئے یا قرآن مجید کو مقام تشکیک میں ڈال دیا جائے جیسا کہ گذشتہ اور آئندہ بیان سے ثابت ہوگا،اس لئے اگر کسی کو اس طرح کی روایت ملتی بھی ہے تو ضروری ہے کہ یا تو اس کی تاویل کردی جائے یا پھر خاموش ہوجایا جائے اس لئے کہ ایسی روایت بدیہیات سے ٹکراؤ کا سبب ہے،یوں بھی اس طرح کی روایتیں یا بعض روایتیں تحریف کے

۱۸۴

نظریہ کی تائید بھی نہیں کرتیں یا اس لئے کہ جمع کرنےوالے نے تحریف پر استدلال کرنے کے لئے جمع بھی نہیں کیا ہے بلکہ اس کا مقصد حدیثوں کو جمع کرنا تھا اس نے تو وہ روایتیں بھی جمع کی ہیں جو تحریف کے خلاف ہیں یا جن کی تاویل لازم ہے جیسا کہ جناب شیخ صدوق کے بیان سے ظاہر ہورہا ہے اس لئے بھی کہ یہ روایتیں بداہت سے ٹکرا رہی ہیں یا بغیر بداہت کے پیش کی جا رہی ہیں۔

ہاں بعض شیعہ اور بعض سنی علما ان حدیثوں کی بنیاد پر تحریف کو صحیح قرار دیتے ہیں بلکہ کچھ لوگوں نے اپنے گذشتہ دلام میں اشارہ کیا ہے تو اسیے علما نے بنیادی غلطی یہ کی ہے کہ تحریف والی خبروں کو صحیح مانا ہے اور اس پر غور نہیں کیا ہے کہ کوئی بھی اس طرح کی کبریں پڑھ کے بداہت سے انکار نہیں کرسکتا حالانکہ شیعوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں،اتنے کم کہ انہیں مقام مثال میں نہیں لایا جاسکتا ہے ثابت ہوچکا ہے اور شیعوں کے بڑے بڑے علما اور شیوح جو شیعوں کے لئے نمونہ عمل ہیں عدم تحریف پر ان کی تصریحات پیش کی جاچکی ہیں۔

قائلین تحریف کے ساتھ کیا کیا جائے؟

میرا خیال ہے کہ قائلیں تحریف کے ساتھ سختی نہیں کرنی چاہئے اس لئے کہ وہ محض خطاکار ہیں اور یہ غلطی بھی ان سے غفلت کی بنیاد پر ہوئی ہے اس لئے وہ بےحرمتی کے مستحق نہیں ہیں اور نہ کافر ہیں خاص طور سے جب وہ اس بات پر تمام مسلمانوں سے متفق ہیں کہ قرآن مجید میں زیادتی یا نقصان نہیں ہوا ہے اس لئے کہ یہ بات یا تو تواتر سے ثابت ہے یا درجہ اعجاز تک پہنچی ہوئی ہے اس لئے کہ عدم زیادتی پر تو اجماع ثابت ہوچکا ہے،قائلین تحریف کے ساتھ احترام سے پیش آنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دیکھ رہے ہیں کہ شیعہ اور ایک سنی فرقہ کے درمیان بسم اللہ..کو لےکے اچھا خاصہ اختلاف ہے سنی یہ کہتے ہیں کہ بسم اللہ..ہر سورہ کا جز نہیں ہے جب کہ شیعہ اس کی جزئیت کے قائل ہیں ظاہر ہے کہ یہ معمولی اختلاف اس بات کی اجازت تو نہیں دیتا کہ جزئیت کے قائل کو عدم جزئیت کا قائل کافر کہے یا عدم جزئیت کے قائل کو جزئیت کا قائل کافر

۱۸۵

کہے تو پھر قائلین تحریف کو بھی ہمیں کافر کہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ویسے جناب عبداللہ بن مسعود جو قرآن کی قرات کی دنیا میں ایک قدآور شخصیت ہیں آپ خود معوذتین کو قرآن میں شامل نہیں سمجھتے لیکن ہم انہیں صرف اس بنیاد پر کافر نہیں کہہ سکتے،اگر اس قول کی نسبت ان کی طرف صحیح ہو۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اختلاف ہمیں سقوط حرمت کا حق نہیں دیتے اور نہ کسی کو کافر کہنے کی جازت دیتے ہیں زیادہ سے زیادہ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ ان کے شبہات کو رفع کردیں یا ان کی غلطیوں کی نشاندہی کردیں تا کہ دوسرے لوگ بھی ان کی طرح غلطی نہ کریں اس لئے کہ اسلام اس اللہ کا دین ہے جس نے اپنے بندوں کے لئے اس دین کو شریعت بناکے نافذ کیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم اسلام اور کفر کی حدیں معین کرنے سے پہلے اللہ کے حکم کو دیکھ لیں(دین اس کا،شریعت اس کی،جس کو وہ کافر کہےگا وہ کافر اور جس کو وہ مومن کہےگا وہ مومن)کسی کو حق نہیں پہونچتا کہ محض اپنے نظریہ اور مسلمات کا مخالف ہونے کی وجہ سے کسی کو کافر کہہ دے جب مخالف کا انکار،اصول اسلام اور ان حدود الہیہ کو نہ پہنچتا ہو جو اللہ نےقائم کی ہوں تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس طرح کے خیالات سے بچیں اور سختی سے پرہیز کریں۔

عدم تحریف کی تاکید

5۔ظاہر ہے کہ قرآن مجید اپنی حقانیت خود ثابت کرتا ہے،قرآن کوئی انسان کا انشا کیا ہوا نہیں ہے جیسا کہ خود قرآن کہتا ہے-(وَمَا كَانَ هَٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّهِ) (1)

ترجمہ آیت:ایسا نہیں ہے کہ یہ قرآن خدا کےسوا کوئی اور اپنی طرف سے جھوٹ بناڈالے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ تواتر سے مستغنی ہے اگر چہ قرآن کے بارے میں تواتر پایا جاتا ہے اور یہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورہ یونس آیت:37

۱۸۶

وجہ ہے کہ قرآن سرکار دو عالم کا معجزہ ہے جو آپ کی صداقت پر گواہی دیتا ہے،سرکار دو عالمؐ نے انفرادی طور پر قرآن کو اللہ کی طرف منسوب کیا ہے اور کسی کو اس نسبت کا گواہ نہیں بنایا اگر قرآن قرآن خود کو ثابت نہ کرتا ہوتا اور تواتر سے مستغی نہ ہوتا تو اس کے اندر صلاحیت اعجاز بھی نہیں ہوتی اس کی طرف وہ تمام آیتیں اشارہ کرتی ہیں جو قرآن میں تحدی کے طور پر آئی ہیں۔

ارشاد ہوتا ہے:قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْآنِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً (1)

ترجمہ آیت:اے رسول آپ کہہ دیں کہ اگر سارے دنیا و جہاں کے آدمی اور جن اس پر اکھٹے ہوں کہ اس قرآن کا مثل لےآئیں تو غیرممکن اس کے برابر نہیں لاسکتے اگر چہ اس کوشش میں ایک کا ایک مددگار بھی بنے۔

اب یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ خبریں جن سے تحریف کا وہم پیدا ہوتا ہے اگر زیادتی کی طرف اشارہ کرتی ہیں یعنی قرآن میں انسان کا کلام بھی شامل ہے اور دو دفتیوں کے بیچ جو کچھ ہے وہ سب کا سب کلام اللہ نہیں ہے یا اس کو بدل دیا گیا ہے تو خود قرآن ان کی مدد کرےگا اس لئے کہ قرآن کا لہجہ اور اس کا اسلوب کہیں پر بھی بدلا نہیں ہے تا کہ یہ تمیز کی جاسکے کہ یہاں تک کہ قائلین تحریف بھی اس کو کلام خدا مانتے ہیں۔

اور اگر تحریف کی خبرون سے وہ روایتیں مراد ہیں کہ جن میں قرآن کو ناقص بتایا گیا ہے یعنی دو دفتیوں کے درمیان جو کچھ ہے وہ مکمل قرآن نہیں ہے بلکہ اس میں سے کچھ ضائع ہوگیا ہے تو اس کو رد کرنے کے لئے سید مرتضی کی دلیل کافی ہے کہ صاحبان نظر جب غیراللہ کے کلام کو جمع کرنے کے لئے بہت زیادہ احتیاط اور دقت نظر سے کام لیتے ہیں تو پھر اللہ کے کلام کو جمع کرنے میں اتنی بے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ اسراءآیت:88

۱۸۷

احتیاطی کیسے کرسکتے ہیں کہ اس میں کا کچھ حصہ ضائع ہوجائے اور انہیں کبر تک نہ ہو،ایک مضبوط دلیل اور بھی ہے وہ یہ کہ اب تک کسی نے بھی کوئی ایسا جملہ نہیں پیش کیا جس میں آیات قرآن جیسی صلاحیت ہو اور اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ قرآن تھا جواب تک قرآن میں شامل نہیں ہوا تھا۔

صدر اول کے مسلمان اپنے کلام میں مقام احتجاج میں قرآن مجید کی آیتیں پیش کرتے تھے اس وقت کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ قرآن نہیں ہے،ظاہر ہے کہ قرآن کے باہر کے جملوں سے شہادت اور دلیل دینا اور مصحف کے اندر جملوں سے استدلال کرنا دونوں میں فرق ہے۔

مثلاً معصومہ کونینؐ نے دو خطبے ارشاد فرمائے دونوں ہی خطبوں میں استدلال کے لئے قرآنی آیات کا سہارا لیا،لیکن آپ نے جو آیتیں استعمال کی ہیں وہ مصحف شریف میں موجود ہیں حالانکہ مصحف شریف نسلاً بعد نسل ہم تک پہنچاہے لیکن حوالہ اسی مصحف کی آیتوں کا ہے جب کا معصومہ کا قرآن اس وقت کی بات ہے نبیؐ کی وفات کو زیادہ زمانہ نہیں گذرا تھا اور قرآن کے ضائع ہونے یا پوشیدہ رہنے کا کوئی بھی سبب نہیں تھا۔

اب رہ گئیں وہ روایتیں جو بعض کلمات اور عبارت اک طرف قرآن کے تحریف ہونے کا اشارہ کرتی ہیں تو ایسی روایتوں پر توجہ نہیں دینی چاہئیے اس لئے کہ اصلی بات یہ ہے کہ وہ عبارتیں قرآنی نہیں ہیں ان کا اسلوب لب و لہجہ اور ضعف بیان اس بات کا شاہد ہے کہ وہ قرآن نہیں ہیں اور عدم تحریف پر یہ کافی دلیل ہے اس لئے کہ خداوند عالم نے اپنے مخصوص لب و لہجہ سے قرآن کو کامل بنادیا ہے اور ایک معجزاتی کتاب کی حیثیت دے کے حجت تمام کی ہے۔

اس لئے یہ بات طے ہے کہ اگر تاویل ممکن نہ ہو تو ایسی روایتوں کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ اس طرح کی کمزور روایتیں قرآن مجید کی اصلیت اور اس کے تواتر اور اعجاز کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان روایتوں کو جھوٹا مانتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسی روایتوں کو اللہ کی طرف پلٹا دینا چاہئیے کہ خدا جانتا ہے اور ان روایتوں کا قائل جانتا ہے۔

اس لئے کہ یہ وہ اشکالی روایتیں ہیں جن کے بارے میں ہمارے اماموں نے وقوف کی ہدایت

۱۸۸

کی ہے اور اس کے اہل کی طرف اس کے علم کو پلٹانے کی ہدایت کی ہے اس لئے کہ کبھی بھی ماحول سے متاثر ہو کے بھی انسان ایسی باتیں کہہ دینا ہے کو وہ کہنا نہیں چاہتا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بات کی جھوٹی نسبت بھی کسی کی طرف دیدی جاتی ہے اور اس کا علم صرف خدا کو ہوتا ہے۔

تحریف قرآن کا موضوع ایک خطرناک موضوع

6۔ہم جس طرح خطرناک دور سے گذر رہے ہیں اس میں مسلمانوں کے لئے بہتر ہے کہ بجائے اس کے کہ ایک دوسرے پر کیچڑا اچھالیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں یا انہیں بدنام کریں،ہمیں چاہئے کہ ہم سب مل کر مندرجہ ذیل باتوں کی طرف زیادہ توجہ دیں۔

1۔دینی حقائق کی تحقیق کامل موضوعیت کے ساتھ تعصب اور جذبات سے دورہ کرکریں اور اس تحقیق میں ہمارا ہدف یہ ہو کہ ہم خدا کے نزدیک جواب دہی کے ذمہ دار ہیں اور دنیا میں اس کے خذلان اور آخرت میں اس کے عذاب سے محفوظ رہیں۔

2۔جن عقائد میں ہم مشرک ہیں اس میں اسلام کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو کر اتحاد کا ثبوت دیں اور کلمہ اسلام کو بلند کرنے کے لئے اور مشترک ہدف کی خدمت کرنے کے لئے متحد ہوجائیں۔

اس دور میں میری ان لوگوں سے پرزور گذارش ہے جو شیعوں پر تہمت رکھتے ہیں اور بدنام کرتے رہتے ہیں کہ برائے مہربانی صرف وہ تہمتیں رکھئے جو صرف شیعہ فرقہ کے لئے نقصان دہ ہوں اور اس طرح کی تہمتیں ہرگز مت رکھئے جو اسلام کو نقصان پہنچانےوالی ہوں اور جن کا لگاؤ اسلام کے مقدسات و رموز سے ہو مثلاً یہ الزام رکھنا کہ شیعہ غلو کرتے ہیں یہ ایک سنگدلانہ اور ظالمانہ الزام تو ہے لیکن اس کا نقصان صرف شیعوں کو پہنچتا ہے اب یہ شیعوں کی ذمہ داری ہے کہ یا تو وہ اس کی مدافعت کریں گے اور اس الزام کے نتیجوں سے خود کو نجات دینے کی کوشش کریں گے یا پھر اس کا جواب دینے سے عاجز ہوں گے،چاہے ان کا یہ ضعف صرف الزام دینےوالا ہی محسوس کرے،بہرحال الزام تراشی

۱۸۹

کرنےوالے کا مقصد تو حل ہوجائےگا اور اس کے غصہ کی آگ کو تشفی مل جائےگی۔

لیکن شیعوں پر یہ الزام کہ وہ تحریف قرآن کے قائل ہیں صرف شیعوں تک نہیں بلکہ قرآن مجید کے لئے بھی خطرناک ہے جو قرآن اسلام کا دائمی معجزہ ہے وہی قرآن پر عام مسلمانوں کا اجماع نہیں ہے اور وضاحت و ظہور میں اتنا کمزور ہے کہ ہر مسلمان اس کو کلام خدا نہیں مانتا بلکہ مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ اس کا اقرار نہیں کرتا اور اس میں تحریف کو مانتا ہے پھر یہ قرآن دوسری آسمانی کتابوں سے ممتاز کیوں کر ہوا جب کہ دوسری کتابوں کی طرح قرآن میں بھی تحریف ہوئی ہے،سوچئے کہ یہ بات کہاں تک پہنچی!آپ شیعہ دشمنی نے قرآن اور اسلام کے دشمنوں کو جو قرآن اور اسلام پر کسی مصیبت کے آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں انھیں کتنا بڑا ہتھیار دےدیا۔

جو لوگ اس طرح کے الزام شیعوں پر رکھتے ہیں اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے شیعوں کی شان کھٹ جائےگی اور شیعوں کو اسلام سے نکالا جائےگا تو ان کا خیال ہے اس لئے کہ شیعہ فرقہ تمام اسلامی فرقوں کے اندر بلکہ خود اسلام کے اندر اتنی اہمیت رکھتا ہے اور اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ اس فرقہ کو ہٹ دھرمی اور غلط الزام تراشی کے ذریعہ نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا ہے،شیعوں کی اپنی ایک مستقل حیثیت ہے اگر شیعہ اتنے مضبوط اور پائدار وجود کے حامل نہ ہوتے تو تمام مسلمان مل کے شیعوں پر یہ اعلامی حملے ہرگز نہیں کرتے اور شیعوں سے لوگوں کے دل میں وہ کینے اور عداوت ہرگز نہیں ہوتی جس کو ہم شیعہ آج جھیل رہے ہیں۔

یہ خدائی معجزہ ہے کہ بنی امیہ و بنی عباس کے دور سے شیعہ ظلم سہتے چلے آرہے ہیں(مترجم)مگر دشمنان اسلام کے لئے قرآن مجید اور اسلام عظیم کے اوپر اس طرح کے الزامات یقیناً ایک خوش خبری ہوں گی انہیں دیر سویر تو معلوم ہو ہی جائےگا کہ یہ مسلمان خود قرآن مجید کی واقعیت پر متحد نہیں ہیں تو شیعہ کے خلاف یہ کوشش در حقیقت اسلام اور قرآن کو کمزور کردےگی،آپ یقین کریں اس طرح کے الزامات شیعوں کے خلاف نہیں بلکہ براہ راست اسلام اور قرآن کو نقصان پہنچاتے ہیں اب تو یہ ہوگا کہ اگر شیعہ تحریف قرآن کے الزام سے خود کو الگ ثابت کرنے کے لئے اور جھوٹ کو

۱۹۰

جھوٹ ثابت کرنے کے لئے دلیلیں بھی دیں گے تو شیعہ سنی کا جو مشترک دشمن ہے وہ ان کی بات نہیں سنےگا اور اس الزام کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرےگا،بلکہ جہاں تک ممکن ہوگا اس جھوٹ کو مضبوط کرنے کی کوشش کرےگا،اب اگر شیعوں نے الزام کے جواب میں الزام رکھا اور جواباً کہہ دیا کہ سنی بھی تحریف قرآن کے قائل ہیں تو ظاہر ہے وہ سنی کتابوں سے دلیلیں دیں گے یہ اور برا ہوگا،اس لئے کہ دشمن کہےگا کہ تحریف قرآن کے اوپر تو سنی اور شیعوں کا اجماع ہوچکا ہے اس لئے کہ اس کی نسبت قرآن کی کرامت اور اسلام کی عظمت کو نقصان پہنچانا ہے اور پس وہ جان بوجھ کے اس اجماع عمل سے تجاہل برتےگا جو ابھی کچھ صفحات پہلے بیان کیا جاچکا ہے،بلکہ وہ اسلامی علما کی تصریحات اور تحریف قرآن کے خلاف جو شواہد پیش کئے گئے ہیں ان کی طرف بھی جان بوجھ کے توجہ نہیں دےگا اور مسلمانوں کے اختلاف کو مشہور کرکے اپنا گندا مقصد حاصل کرےگا،اب وہ وقت نہیں رہا کہ مسلمانوں کے فرقے آپس میں ایک دوسرے پر اندر ہی اندر الزام تراشی کریں اور اس کی خبر دشمنوں کو نہ ہو،آج تو میڈیا نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی خبر دشمنوں کو فوراً ہوجاتی ہے،جس طرح مسلمانوں کو آپسی اختلاف کی خبر رہتی ہے تو جب دشمن باخبر ہوجائےگا تو اس کے لئے اسلام کو کمزور کرنا اور اس کو بدنام کرنا بہت آسان ہوجائےگا۔

جن حضرات نے اپنے قلم کے نیزے شیعوں کو نشانہبانے کے لئے اٹھا رکھے ہیں اور شیعوں کے حساس پہلوؤں پر چوٹیں کررہے ہیں انہیں سمجھنا چاہئیے کہ اپنی اس حرکت سے وہ اسلام اور مقدسات اسلامی کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں۔میں تو عرض کرتا ہوں کہ تمام ملت اسلامیہ کو ایسے لوگوں کے خلاف متحد ہوجانا چاہئیے تا کہ ان کے دین اور مقدسات دین کو نقصان نہ پہنچانےوالوں سے سوال کیا جائے کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں اور بہتر طریقہ سے انہیں روک دیا جائے۔

تقریباً سات سال پہلے میرے سامنے ایک بہت خطرناک مسئلہ آیا تھا کچھ شیعہ نوجوان تحریف قرآن کے الزام سے تنگ آکے جوش میں آگئے تھے اور انہوں نے اہل سنت کے پاس تحریف قرآن کی جو روایتیں ہیں انہیں جواب میں پیش کرنے کی ٹھان لی تا کہ جواب بالمثل دیا جاسکے بلکہ انہوں

۱۹۱

نے سنی حدیثوں سے اس عجیب و غریب اور ناقابل گفتگو موضوع پر اچھا خاصہ مواد بھی اکٹھا کرلیا تھا،لیکن جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے ان کے جوش کو ٹھنڈا کیا اور انہیں سمجھایا کہ ہماری اس حرکت سے کتنی مشکلیں سامنے آئیں گی،ہم نے انہیں سمجھایا کہ جو کچھ آپ جانتے ہیں اسے وسیع پیمانے پر مشہور نہ کریں اور انفرادی طور پر صرف معترضین کو ان کی غلطی پر متوجہ کردیں بڑے پیمانے پر اس آپسی الزام تراشی اور طعن و تشنیع کے طریقے سے بچیں تا کہ اس حساس مسئلہ میں ان کے کسی طریقہ سے قرآن مجید کو شعوری یا لاشعوری طور پر کوئی نقصان نہ پہنچ سکے،ہم نے انہیں سمجھایا کہ شیعوں پر زیادتی اور حملے سے زیادہ بری بات قرآن مجید کی رفعت اور اس کی عظمت پر حملہ ہے،بات ان لوگوں کے سمجھ میں آگئی اور خدا ہی مکروہات کے معاملے میں بھی حمد کا مستحق ہے-(انا لله و انا الیه راجعون و العاقبة للمتقین) (1)

ہم تو بس خدا کے ہیں او اسی کی طرف واپس جانے والے ہیں اور عاقب تو صاحبان تقویٰ کا حق ہے۔

--------------

سورہ قصص : آیت 83

۱۹۲

سوال نمبر۔4

سنیوں کے امام مہدی جن کا انتظار کیا جارہا ہے دوسرے ہیں اور شیعوں کے دوسرے کیا دونوں رائے ایک ساتھ صحیح ہوسکتی ہے؟صحیح رائے کس کی ہے سنیوں کی یا شیعوں کی؟

جواب:اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل امور آپ کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں

1۔امام مہدیؑ وہی صاحب ہیں جن کی سرکار دو عالمؐ اور آئمہ ہدیٰؑ نے خبر دی ہے اور وہ تمام مسلمانوں کےنزدیک ایک ہی ہیں لیکن اختلاف کا موضوع دو باتیں ہیں۔

الف:حضرت کا نسب،شیعوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام مہدی ابوعبداللہ الحسینؑ کی اولاد میں سے ہیں آپ امام حسینؑ کی ذریت کے نویں اور شیعوں کے بارویں امام ہیں علما اہل سنت کی ایک جماعت بھی شیعوں کہ اس عقیدے سے متفق ہے اس عقیدے کی گواہ وہ بہت سی حدیثیں ہیں جو نبیؐ اور آپ کے آل اطہارؑ سے مروی ہیں یا کسی دوسری بات پات کی دلیل میں ضمیمہ کرکے پیش کی گئی ہیں۔

ب:دوسرا اختلاف آپ کی ولادت کے سلسلے میں ہے،یعنی یہ کہ آپ پیدا ہوچکے ہیں اور فعلاً

۱۹۳

موجود ہیں یا ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں،بلکہ اپنے قیام کے کچھ دن پہلے پیدا ہوں گے امامیہ فرقہ کا اجماع قول اول پر ہے یعنی آپ پیدا ہوچکے ہیں،ان کا عقیدہ ہے کہ آپ بہ حکم خدا غائب ہیں اور ظہور کے لئے خدا کی اجازت کا انتظار کررہے ہیں۔اہل سنت کی ایک جماعت بھی شیعوں کے اس قول سے متفق ہے لیکن علما اہل سنت کی ایک بڑی جماعت دوسرے قول کی قائل ہے یعنی آپ پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ ظہور سے قبل پیدا ہوں گے۔

شیعہ فرقہ اور وہ حضرات جو شیعوں سے معاملے میں متفق ہیں وہ آپ کی ولادت پر حدیثوں کے ذریعہ دلیلیں دیتے ہیں لیکن دوسرے فریق کے پاس ظاہر ہے کہ ایسی خبریں نہیں ہیں جو آپ کی ولادت کی نفی کرسکیں۔

بلکہ ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ شیعہ دلیلوں پر غور نہیں کرتے یا ان حدیثوں پر بھروسہ نہیں کرتے اور چونکہ ان کے نزدیک امام کی ولادت ثابت نہیں ہوسکی۔

اور آپ کی لمبی حیات کو وہ بعید از قیاس سمجھتے ہیں اس لئے انہوں نے گھبرا کے فیصلہ کردیا کہ ابھی آپ پیدا نہیں وہئے ہیں اور پھر چونکہ آپ کے متعلق وافر مقدار میں خبریں ہیں اس لئے انہوں نے مجبوری میں یہ فیصلہ کیا کہ آپ ظہور کے کچھ پہلے پیدا ہوں گے۔

2۔اب رہ گیا آپ کا یہ سوال کہ کیا سنی عقیدےوالے مہدی اور شیعہ عقیدے والے مہدی ایک ہوسکتے ہیں تو عرض ہے کہ ایک ہونے کی کوئی گنجائش نہیں،اس لئے کہ امام مہدی ایک واحد شخص کا نام ہے جس کے بارے میں نبی نے پیشن گوئی فرمائی ہے اور ظاہر ہے کہ شخص واحد کا دو مختلف حالتوں میں پایا جانا محال ہے دونوں میں سے کوئی ایک ہی قول صحیح ہوسکتا ہے۔یعنی یا تو یہ مان لیا جائے کہ پیدا ہونگے اس لئے کہ معاملہ انہیں دو باتوں کے درمیان محصوت ہے اور جب دونوں باتوں میں سے ایک بات ثابت ہوجائے گی تو دوسری خودبخود باطل ہوجائےگی۔

3۔اگر آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کون سے رائے صحیح ہے تو فطری طور پر میں یہی کہوں گا کہ میرے مذہب کی رائے صحیح ہے اس کی وجہ وہ ٹھوس دلیلیں ہیں جو میری بات کی حمایت میں مجھ حاصل

۱۹۴

ہیں ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک میری رائے کی خاص اہمیت نہیں ہوگی کہ آپ میری دلیلوں کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔

چونکہ امام غائب اثنا عشری شیعوں کے خاتم الائمہ ہیں اس عقیدہ سے امامت کی تکمیل ہوتی ہے اور امامت و خلافت کو ثابت کرنے میں بھی حدیثیں اہل سنت کے دعوائے خلافت و امامت کے خلاف بھی استعمال ہوتی ہیں۔

لیکن اس سلسلے میں کافی لمبی گفتگو کی ضرورت ہے جس کو میں اس مختصر سی بحث میں چھیڑنا نہیں چاہتا جو حقیقت کا طالب ہے اس کو چاہئیے کہ خود تلاش کرے۔

دونوں فرقوں(شیعہ اور سنی)کے علاوہ درمیان نظام حکومت کی تعریف

ایک بات عرض کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے درمیان جب امامت پر گفتگو ہو تو کسی شخص کا تقابل کرنے کےبجائے نظام حکومت کو سمجھ لیا جائے یعنی اس بات پر بحث نہ ہو کہ علیؑ مستحق خلافت تھے یا ابوبکر یا یہ کہ اہل بیت کو یا پھر قرشی اور مہاجرین صحابہ میں تقابل کردیا جائے اس طرح تو بحث محدود ہو کے شخصی ہوجائے گی اس لئے کہ اسلام دین خاتم ہے اور جب تک یہ زمین باقی رہےگی اس وقت تک یہ دین بھی باقی رہےگا اور یہ بھی طے ہے کہ اسلام ہی تا قیامت اس دنیا کے لئے ایک حکومت کا نظارہ رکھتا ہے تو پھر نظام حکومت کے نفاذ کے لئے اور اسلامی حکومت کی تشریع کے لئے ایک ایسا نظام چاہئیے جس کے اندر زمین میں استمرار کی صلاحیت ہو اگر اس نظام امامت و حکومت کو ہم کسی ایک شخص یا چند افراد سے مخصوص کردیں گے تو ظاہر ہے کہ جب وہ افراد دنیا میں رہیں گے تو نظام چلےگا اور اس کے بعد اسلام تو موجود رہےگا لیکن نظام اسلام کو نافذ کرنےوالا کوئی نہ ہوگا۔

اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ دونوں کے نظام حکومت و امامت میں مقارنت ہونی چاہئیے تو پھر یہ

۱۹۵

ضروری ہے کہ دونوں کے پاس ایک ایسا نظام صالح ہونا چاہئیے جس کے ذریعہ اسلامی حکومت کے قانون کا نفاذ اور اس کی تشریع ہوسکے اور اس کے اندر اتنا امتداد ہو کہ جب تک اس زمین کے سینے پر ایک بھی انسان ہے اس کے لئے تشریع اور تنظیم کے لئے کوئی ہو جو نظام حکومت اسلامی کے معیار پر پورا اترتا ہو اور جب ہم نظام حکومت کو معین کریں گے اور اس کی حقانیت پر شرعی دلیلیں قائم کریں گے تو پھر اس کے معیار پر حاکم بھی مل جائےگا اس لئے کہ اب ہم حاکم کی تلاش،شرعی اساس پر کریں گے اور جو ہماری نظام حکومت کی تعریف کی حدوں میں آئےگا وہی حاکم ہوگا باقی جو ان حدوں کے اندر نہیں آتا ہے خودبخود نکل جائےگا،حق کو پہچان لو اہل حق کو پہچان جاؤگے(1) البتہ اگر ہم شرعی نظام حکومت معین نہیں کریں گے اور پھر بھی حاکم شرعی بات کرنا چاہیں گے تو یہ گفتگو بےمعنی ہوگی اور یہ سوچنا ہی بے معنی ہے کہ کس کی حکومت شرعی تھی یا غیر شرعی اس لئے کہ ابھی تو ہم نے حکومت شرعیہ کو معین ہی نہیں کیا ہے۔اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ شیعوں کے نزدیک اسلامی نظام حکومت کا مطلب یہ ہے کہ امام کا تعین اللہ کی طرف سے ہو اس میں کسی سے مشورہ لینے،بیعت لینے یا اقرار لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

خداوند عالم کے لئے یہ ضروری ہے کہ امام کا تعیّن کرے اور اس کو مشخص کردے اس کے لئے ایسی دلیل دے کہ جو واضح ہو،تعین اللہ کی طرف سے یا تو نبی کے ذریعہ ہوتا ہے یا پھر اس امام کے ذریعہ ہوتا ہے جو نبی کی طرف سے معین کیا گیا ہو،اس لئے کہ نبی کا تعین کردہ امام نبی کے اشارہ پر ہی امام کو مشخص کرےگا اور نبی خدا کے اشارے پر۔

اس بنا پر عرض ہے کہ:

شیعوں کے نزدیک وہ امام جنہیں اللہ نے نبی کے بعد امامت کی ذمہ داری دی ہے اور جن کے ذریعہ اپنی تبلیغ مکمل کرتا ہے وہ بارہ امامؑ ہیں اور وہ سب کے سب نبیؐ کے اہل بیت میں سے ہیں

-------------

(1)تفسیر قرطبی،ج:1ص:340،آیت(ولاتلبسوا الحق بالباطل) کی تفسیر میں،فیض القدیر شرح جامع الصغیر،ج:1ص:272،28،حدیث،288،کی شرح میں،اسی طرح،ج:4،ص:2409،23حدیث کی شرح میں،ابجد العلوم،ج:1ص:126،الاعلام الثامن فی آداب المتعلم و المعلم فی الجمل السابقہ

۱۹۶

ان میں سب سے پہلے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ اسلام پھر حسن سبط الزکی علیہ السلام،پھر حسین سبط شہید علیہ السلام پھر نو امام سبط اصغر امام حسینؑ کی ذریت میں ہیں،جن کے نویں،امام ابن الحسن العسکری،الغائبہ المہدی،المنتظر ہیں بارہ حضرات ہیں جو خلافت و حکومت شرعی کے مالک ہیں،ان کے علاوہ کوئی کتان ہی بڑا آدمی ہو امام نہیں ہوسکتا شیعوں کے پاس اپنے اس عقیدے کے لئے بھر پور دلیلیں ہیں جن پر وہ بھروسہ کرتے ہیں اور جن کے ذریعہ وہ حجت قائم کرکے اپنے مخالف کو تسلی بخش جواب دیتے ہیں۔

لیکن افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ اہل سنت کے پاس نظام حکومت کا ایسا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ ان حضرات نے اب تک امت کو اندھرے میں رکھا ہے میرے لئے ممکن نہیں ہے کہ میں ان کے نظام حکومت و شریعت کی تعریف کرسکوں اس لئے کہ وہ شیعوں کے عقیدے سے بالکل الگ عقیدہ رکھتے ہیں اگر کوئی آدمی ان کے خلفاء کے واقعات کو دیکھے اور ان خلفاء کی خلافت کو شرعی حیثیت دینے کے لئے ان حضرات نے جو مفروضات قائم کئے ہیں ان پر غور کرے تو اس کی نظر میں بات خودبخود واضح ہوجائےگی یہ الگ بات ہے کہ بعض اہل سنت کی یہ کوشش رہی ہے کہ خلافت کا اختیار امت کو ہے،چاہے جس کو خلیفہ بنائے،حالانکہ اگر یہ بات مان لی جائے تو پھر نظام مکمل نہیں ہوگا اس لئے کہ جب ہم اس کی تحدید کرتےہیں تو مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

1۔امامت و خلافت کا انتظام کرنے کا حق کس کو ہے؟اس کا نسب اس کا سن اس کی دینی اور سماجی حیثیت کیا ہونی جاہئے؟

2۔خلافت کے لئے منتخب شخص کی اہلبیت کب ساقط ہوجائےگی اور وہ کون سے اسباب ہیں جو اس کو معزول کردیں گے؟

مثلاً فیصلے میں ظلم یا مطلق فسق،خرافات و مرض،عجز مطلق اور ضعف و غیرہ ان تمام باتوں کو بہت توجہ کے ساتھ واضح کرنا ضروری ہے تا کہ اختلافات کی کوئی صورت نہ پیدا ہو اس سلسلے میں عثمان کے معاملے میں جو کچھ ہوا اس سے امن بچانا بھی ضروری ہے،اس وقت عثمان کے مخالفین اس بات کا

۱۹۷

مطالبہ کررہے تھے کہ عثمان کو خلافت سے معزول کردیا جائے اس لئے کہ وہ اس کی اہلیت نہیں رکھتے اور عثمان کہہ رہے تھے کہ اللہ نے جو لباس پہنایا ہے،اس کو وہ نہیں اتاریں گے،اس طرح کے واقعات حکومت اموی اور عباسی میں بھی سامنے آئے۔

3۔خلیفہ منتخب کرنے کا اختیار کا حق کس کو ہے؟اس کی خاندانی،دینی اور سماجی حیثیت کیا ہونی چاہئے؟کس عمر میں اس کو یہ حق حاصل ہوتا ہے؟مردوں ہی کو یہ حق حاصل ہے یا عورتیں بھی حقدار ہیں و غیرہ۔

4۔ان امور کی نگرانی اور جانچ کیسے ہوگی؟یعنی کیسے پتہ چلےگا کہ کس کے اندر خلافت کی صلاحیت ہے؟اور کس کے اندر انتخاب و اختیار ہے؟منتخب شخص کے اندر کب تک وہ صلاحیتیں موجود ہیں اور کب ختم ہوجاتی ہیں کس طریقہ پر ہم ان امور کو ثابت کرسکیں گے۔

5۔امام اور خلیفہ کی صلاحیت کیا ہونی چاہئیے اس لئے کہ جب اہل سنت کا شیعوں سے اختلاف ہوا تو انہوں نے کہہ دیا کہ خلیفہ کا معصوم ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کرسکتا ہے،اپنے اجتہاد میں وہ خدا اور رسول کا پابند نہیں ہے،اس لئے خلیفہ کی صلاحیت کی حدیں کیا ہیں؟طے ہوجانا چاہئے اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اہل سنت کے خلفاء کے کردار میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔

جیسے اہل سنت اس بات کے قائ ہوگئے کہ نبی نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا تھا اور خلیفہ کے اختیار کا حق امت کو دےدیا تھا پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ابوبکر،عمر کو خلیفہ بناتے ہیں پھر عمر خلیفہ بنانےکا ایک الگ طریقہ اختیار کرتے ہیں،ان کے خیال میں خلافت کی صلاحیت چند افراد میں تھی اور خلیفہ بنانے کا اختیار بھی چند افراد کو تھا،پھر امیرالمومنینؑ کی بیعت عثمان کے بعد اجتماعی حیثیت سے کی جاتی ہے اور مہاجرین و انصار کے نمایان افراد امیرالمومنینؑ کی بیعت کرتے ہیں اور عام مسلمان آپ کی خلافت کو قبول کرتے ہیں جب کہ عثمان کے دور میں ایسا نہیں تھا۔پھر امام حسنؑ کی بیعت ہوتی ہے لیکن آپ کی خلافت پر امیرالمومنینؑ نص فرماتے ہیں یا بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عوام نے امام حسن کو خلیفہ مانا،

۱۹۸

واقعہ تحکیم میں معاویہ اپنے آپ کو خلیفہ شرعی ہونے کا اعلان کردیتے ہیں(یعنی انتخاب خلیفہ کا کوئی اصول نہیں ہے جس کو جیسے موقع ملا وہ خلیفہ بناتا چلا گیا،اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ)مترجم

اس کے بعد اکثر خلفاء کی نص پر مستحق قرار پائے پھر معیار خلافت قوت کو مان لیا گیا اور اب خلیفہ نے ایک سے زیادہ اور دوسری اسلامی حکومتوں میں بھی یہی سلسلہ اپنایا گیا جیسے کبھی کسی کو خلافت سے لگ کردیا گیا کبھی ولی عہد بنایا گیا،کبھی طاقت کے ذریعہ خلافت حاصل کی گئی اور کبھی دوسرے ذریعوں سے جس کی تفصیل مورخین نے پنی کتابوں میں بیان کی ہے۔

بلکہ اکثر بات اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے خلیفہ صرف اپنے بعد والے پر نص ہی نہیں کرتا بلکہ اپنے دور خلافت میں کچھ لوگوں کو خلافت کا حصہ دار بنانا چاہتا ہے،چنانچہ ابوبکر نے امیرالمومنین علیہ السالم کی قوت کو کمزور کرنے کے لئے عباس بن عبدالمطلب کو اپنے ساتھ ملانا چاہا اور انہیں خلافت میں ایک حصہ دینے کی پیش کش کی یہ الگ بات ہے کہ جناب عباس بن عبدالمطلب نے ابوبکر کی یہ پیش کش ایک تاریخی جملہ کہہ کے ٹھکرادی عباس بن عبدالمطلب نے فرمایا کہ تم ہمیں جو خلافت کا حصہ دار بنانا چاہتے ہو تو اگر خلافت تمہارا حق ہے تو ہم کیوں لیں؟اپنے حق کو اپنے پاس رکھو اور اگر مومنین کا حق ہے تو تمہیں اس میں حکم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور اگر ہمارا حق دے رہے ہو تو سب دو ورنہ ہم کچھ حصہ لےکے راضی نہیں ہوں گے۔(1) تو جناب والا اہل سنت کے نظریہ خلافت کے متعلق یہ ساری باتیں ہیں اور اب رہ گئے بقیہ دینی امور اور ان کی شرعی حیثیتیں تو خلفا نے اس میں بھی مداخلت کی ہے۔جیسا کہ ابھی ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:221 الامامۃ و السیاسۃ ج:1ص:18،علیؑ کی بیعت کس طرح ہوئی تھی،تاریخ یعقوبی ج:2ص:125۔126،سقیفہ بنی ساعدہ کی روایت اور بیعت ابی بکر کے باب میں۔

۱۹۹

آپ کے ساتویں سوال کے جواب میں عرض کریں گے کہ عمر اور ابوبکر کے دور خلافت میں سنت نبوی کو معطل کردیا گیا اور حدیث نبی بیان کرنے کا حق بھی مسلمانوں سے سلب کرلیا گیا صرف چند حدیثیں(جو بظاہر ان کے مفاد میں تھیں،مترجم)بیان کرنے کی اجازت دی گئی یہی حال معاویہ کے دور میں خلافت میں رہا،وہ مسلمانوں سے کہا کرتا تھا کہ اے لوگو!پیغمبرؐکی حدیثیں کم سے کم بیان کرو اگر تم حدیث بیان کرنا ہی چاہتے ہو تو صرف وہ حدیثیں بیان کرو جو عمر کے دور میں رائج تھیں(1) عمر نے مسلمانوں پر ہمیشہ پر ہمیشہ دینی امور میں اپنی رائے مسلط کی،جیسے متعۃ الحج اور متعۃ النساء کو حرام قرار دینا(اسلام پر ایسا بھی وقت پڑا ہے،مترجم)کہ لوگ فقہ،عقائد اور حدیث کی توجیہ کے وقت اس بات کا خیال رکتھے تھے کہ حکما وقت ان کی طرف متوجہ ہوں،بلکہ حکام اپنے مطلب کی توجیہ کرنے کے لئے علما کی پرورش کرتے تھے جیسے منصور عباسی نے امام مالک بن انس سے کہا کہ فقہ کی ایسی کتاب لکھیں جو لوگوں پر تحمیل کردی جائے اور مامون نے ارادہ کیا تھا کہ متعہ کو حلال کردے لیکن لوگوں کے ڈر سے خاموش رہا،مامون نے قرآن کے مخلوق ہونے کا نظریہ اور اللہ کی قیامت کے دن نفی رویت ہونے کے نظریہ کی مسلمانوں پر تحمیل کی۔

مامون،معتزلہ کے مذہب کی ترویج کرتا رہا،یہاں تک کہ متوکل نے آکے اس کو بدل ڈالا اور رویت کی حدیثوں کو عام کرنے کا حکم دیا۔پھر قرآن کے عدم خلقت کا نظریہ بھی رائج کیا اور معتزلہ کے مذہب کے خلاف نظریوں کی حوصلہ افزائی کی۔

سن408؁میں قادر نے حنفی معتزل اور شیعوں سے توبہ کرنے کو کہا،ان کے علاوہ بھی جو لوگ اس کے نظریوں کے مخالف تھے سب سے توبہ کرنے کو کہا اور مناظرہ کرنے کو منع کردیا،پھر بات یہاں تک پہنچی کہ صرف مذاہب اربعہ کے نظریات کے مطابق فیصلہ ہونے لگا،اس کی سختی سے پابندی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)کنزالعمال ج:10ص:291،حدیث29473،اور اسی طرح معجم الکبیرج:19ص:370،جس میں عبداللہ بن عامر الحصی التاری نے معاویہ سے روایت کی ہے

۲۰۰