فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 125678
ڈاؤنلوڈ: 6308


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125678 / ڈاؤنلوڈ: 6308
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

1۔اچھے اخلاق۔2۔عیب و حضور میں اللہ سے ڈرنا۔

3۔لڑائی جھگڑے سے پرہیز اگر چہ حق پر ہی کیوں نہ ہو۔(1)

اسماعیل بن ابی زیاد کی حدیث میں امام صادق علیہ السلام اپنے آباء طاہرین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ سردار دو عالمؐ نے فرمایا:جو لڑائی جگھڑے کو ترک کردیتا ہے اس کے لئے میں جنت کے بلندترین درجے میں،درمیانی درجے میں اور جنت کے باغ میں ایک گھر دینے کا وعدہ کرتا ہوں(2)

یہی حدیث جبلہ سے بھی وارد ہے مگر اس اضافے کے ساتھ کہ جو جھوٹ کو چھوڑدے اگر چہ وہ جھوٹ مزاحاً بولتا ہو اور جس کے اخلاق اچھے ہوں۔(3)

ابوامامہ کی حدیث میں ہے کہ سرکار دو عالمؐ نے فرمایا جو جھگڑا چھوڑ دے اگر چہ وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو تو میں جنت میں اس کو ایک گھر دوں گا اور جو جھوٹ چھوڑ دے چاہے وہ مزاحاً بولتا ہو اس کو میں جنت کے وسط میں ایک گھر دوں گا اور جو اچھے اخلاق کا ہے اس کو میں جنت کے سب سے بلند درجہ میں ایک گھر دوں گا۔(4)

ابوہرپرہ کی حدیث میں ہے،کہتے ہیں سرکار دو عالمؐ نے فرمایا:بندہ اس وقت تک کلّی طور پر مؤمن نہیں ہوتا جب تک وہ جھوٹ بولنا چھوڑے،اگر چہ مزاحاً ہی کیوں نہ ہو اور جھگڑا نہ چھوڑے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔الوسائل ج:8ص:567۔باب135۔دسویں احکام کے ابواب میں۔حدیث2۔

2۔ الوسائل ج:8ص:567۔باب135۔دسویں احکام کے ابواب میں۔حدیث7۔

3۔ الوسائل ج:8ص:567۔باب135۔دسویں احکام کے ابواب میں۔حدیث8۔

4۔سنن ابی داؤدج:4ص:253،کتاب الادب،حسن خلق کے باب میں۔اور اسی طرح سنن ابن ماجہ ج:1ص:19،بدعت اور جدل کے اجتناب کے باب میں،سنن الکبری بیھقی ج:10ص:249،کتاب الشھادات باب المزاح،سنن ترمذی ج:4ص:358،کتاب البروالصلۃ

۲۱

چاہے وہ سچائی پر ہی کیوں نہ ہو۔(1)

مسعدہ ابن صدقہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایادیکھو لڑائی جھگڑے اور دشمنی سے بچو یہ دونوں چیزیں بھوئیوں کے خلاف دلوں میں بغض اور نفاق پیدا کرتی ہیں۔(2)

لیکن چونکہ آپ کے خط سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ خواہ مخواہ کی بحث اور جھگڑا کرنا نہیں چاہتے بلکہ آپ حقیقت کی تلاش میں مخلص ہیں اس لئے سوالوں کا جواب نہ دینا اور آپ سے سلسلہ منقطع کرنا بہتر نہیں سمجھتا بلکہ آپ کے سوالوں کے جواب میں خاموشی آپ پر ظلم اور حقیقت پر پردہ پوشی ہے،میں نے سوچا کہ آپ کا جواب دینا مجھ پر لازم ہے،خدا کی ذات سے امید ہے کہ وہ ہمیں اور آپ کو حقیقت تک پہنچنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین

نتیجہ خیز گفتگو کے لئے مناسب ماحول کا ہونا ضروری ہے

یہ بات آپ کو مان کے چلنا چاہئے کہ کوئی حق ایسا نہیں ہے جس میں شبہ نہ پیدا کیا گیا ہو بلکہ حق ہی کا انکار کیا جاتا ہے حق ہی کے بارے میں جھگڑے اٹھائے جاتے ہیں اسی طرح کوئی دلیل اشکال سے خالی نہیں اور دلیل کے خلاف ہی جواب دلیل دیا جاتا ہے،مثال کے لئے وجود باری تعالیٰ کا موضوع کافی ہے۔

ہر صاحب عقل کے سامنے یہ بات واضح ہے کہ کائنات کی ہر شئ میں علت بہرحال موجود ہے اور ہر موجود اپنے وجود میں ایجاد کرنے والے کا محتاج ہے،اس بدیہی دلیل کے باوجود ذات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسند احمدج:2ص:352،مسند ابوہریرہ میں۔اسی طرح مجمع الزوائد ج:1ص:92،کتاب الایمان،سچائی ایمان سے ہے کے باب میں،المعجم الاوسط ج:5ص:208۔

(2) الوسائل ج:8ص:567۔باب135۔دس احکام کے باب میں حدیث1۔

۲۲

باری تعالی کا وجود ہر دور میں شک و انکار اور جنگ و جدل کا موضوع رہا،حد تو یہ ہے کہ ہمارا یہ دور جسے روشن اور ترقی یافتہ دور کہا جاتا ہے،اس دور میں بھی اللہ کو سب لوگ نہیں مانتے،ان تمام برائیوں کا سبب صرف یہ ہے کہ خواہشات نفسانی،جذبات اور میراث میں ملے ہوئے مسلمات اور انہی مسلمات کی پیروی کرتے ہوئے مفروضے صداقت کو دیکھے سے روکتے ہیں اور انسان کو حقیقت کا اقرار و یقین نہیں کرنے دیتے،کسی دلیل کو قبول نہیں کرنے دیتے،ہر محکم دلیل کی تردید کے لئے تیار رہتے ہیں اور اس کے برخلاف شیعہ باتوں اور موضوعات کو حقیقی دلیلوں کے مقابلے میں ماننے پر مجبور کردیتے ہیں۔

چونکہ آپ نے حقیقت تک پہنچنے کا ارادہ کیا ہے اس لئے میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ خدا پر توکل اور اس سے مدد و نصرت مانگنے کے بعد پہلے اپنے فکر کے ماحول کو مفروضات و مسلمات موروثی سےآزاد کرلیں اور پھر مفروضات پر غیر جانب دارانہ نظر ڈالیں جو آپ کو حقیقت تک پہنچانے میں معاون ہو،پھر ہمارے درمیان جو گفتگو ہو رہی ہے اسے آپ اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش کریں اگر آپ کے مفروضوں کے خلاف میری طرف سےکوئی دلیل دی جائے اور آپ کا نفس اس کو نہیں مانتا ہو تو آپ فرض کرلیں کہ آپ کے پاس اس دلیل کا جواب موجود ہے اور جب آپ کا وجدان ایسا جواب دے جو آپ کے لئے حجت بن جائے تو آپ سمجھ لیں کہ میرے لئے بھی وہی حجت ہے اور آپ پر اس کا یقین کرنا واجب ہے اور یہ کہ میں نے آپ کو حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور حجت آپ پر لازم ہوگئی ہے۔

اور اگر آپ کا وجدان کوئی ایسی دلیل نہیں پیش کرسکے جو آپ کے لئے حجت ہو تو برائے مہربانی آپ مجھے بتادیں کہ اس دلیل میں کیا کمزوری ہے اور کون سی بات قابل

۲۳

گرفت ہے پھر ہم آپ کے اعتراضات پر غور کریں گے اور آپ کے زاویہ نگاہ سے واقف ہونے کے بعد اس کی کمزوری کا ازالہ کریں گے، اس طرح اگر ہم بحث کریں تو انشاء اللہ یہ بحث نتیجہ خیز ہوگی اور ہمارا قیمتی وقت ضائع نہیں ہوگا۔

میں خداوند عالم سے مدد کا خواستگار ہوں اور اس کی توفیق کا طالب ہوں کہ وہ ہمارے لئے کافی ہے اور ہمارا بہترین وکیل ہے۔

۲۴

سوال نمبر۔1

ہم مسلمانوں کے لئے جن میں شیعہ سنی دونوں ہی شامل ہیں،ضروری ہے کہ ہم اسلامی میراث سے واقف ہوں کہ دونوں فرقوں کی میراث علمی کیا ہے؟خاص طور سے اہل سنت اپنی میراث سے غافل ہیں اور شیعوں کے بھی قلمی کارناموں سے غافل ہیں،برائے مہربانی تحریر فرمائیں کہ آپ شیعہ حضرات کے نزدیک وہ کونسی کتابیں ہیں جن پر آپ عقائد،فقہ،حدیث اور سیرت کے سلسلے میں اعتماد کرتے ہیں؟خداوند عالم آپ کے فضل کو ہمیشگی عنایت فرمائے۔

جواب:

شیعہ علماء اور ذوق تجسّس رکھنے والے شیعہ شروع سے اب تک ان کتابوں سے باخبر ہیں یہ حضرات اپنی علمی میراث اور اہل سنت کے علمی کارناموں سے بھی بخوبی واقف ہین یہ لوگ اہل سنت کی کتابوں ان کے علمی میراث ہونے کی وجہ سے نہیں پڑھتے بلکہ اُن کتابوں سے باخبر ہونا وہ اپنی ثقافت کی تکمیل سمجھتے ہیں۔

اس کے علاوہ اہل سنت کی کتابوں میں انھیں اپنے مذہب کی حمایت میں بہت سی دلیلں ملتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اہل سنت کی کتابوں میں شیعہ فرقے کی حمایت میں دلیل اہل سنت کے لئے بہترین حجت ہے چونکہ شیعہ،صاحب حجت و استدلال ہوتے ہیں اور حجت اُس وقت تک تمام نہیں ہوسکتی

۲۵

جب تک کہ غیروں کی کتابوں میں کیا کچھ لکھا ہے،صاحبان حجت کو معلوم نہ ہوجائے۔

شیوں کے اس سے باخبر ہونے کا ثبوت،دو باتیں ہیں:شیعوں کے کتب خانے چاہے عمومی ہوں یا ذاتی،سنی کتابوں سے بھر پڑے ہیں کتب خانوں کی فہرست میں ان تمام کتابوں کے نام ہیں جو طلب کرنے والا طلب کرتا ہے۔

شیعوں کے اکثر صاحبان تصنیف و تالیف،ان حوالوں کی طرف اشارہ کردیتے ہیں جہاں سے انھوں نے حدیثیں لی ہیں اور ان کے زیادہ تر حوالے سنی کتابوں سے ہوتے ہیں بلکہ اکثر تو یہ ہوتا ہے کہ وہ شیعہ کتابوں کے حوالے کم دیتے ہیں اور سنی کتابوں کے حوالے زیادہ دیتے ہیں۔

علم حدیث میں شیعوں کی کتابیں

مذکورہ بالا مفروضات کے بعد عرض ہے کہ شیعوں کی تالیفکردہکتابیںبہتزیادہہیںانکےپاسکتابوں کا ایک ذخیرہ ہے فی الحال آپ کی خدمت میں حدیث کی کتابوں کے نام پیش کئے جارہے ہیں:

الکافی:یہ ثقۃ الاسلام ابوجعفر جناب شیخ محمد بن یعقوب ابن اسحاق کلینی رازی کی تالیف ہے،آپکی وفات328؁یا329؁ھمیں ہوئی،یہ کتاب حضورسرورکائنات اورائمہ اہلبیت علیہم السلام کی حدیثوں پر مشتمل ہے،عمدہ طریقہ سے ابواب قائم کئے گئے ہیں،پہلے اصول عقائد،اخلاق اور آداب کے باب ہیں پھر فروع دین کا بیان کتابوں کی شکل میں ہے کتاب الفقہ کے بہت ابواب ہیں اوریہ کتاب کتاب روضہ پر ختم ہوتئی ہے جس میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہے۔

اصول و فروع میں اس کتاب کو تو جامعیت حاصل ہی ہے اس کے علاوہ بھی اس کی دو خصوصیات ہیں:

صرف یہ کتاب جو مکمل اور وسیع معلومات پر مشتمل ہے،ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے بہت قریبی دور میں لکھی گئی ہے،یہ کتاب غیبت صغریٰ کے آخری دور میں لکھی گئی ہے،غیبت صغری کی تعبیر ائمہ علیہم

۲۶

السلام کے دور سے کی گئی ہے،اس لئے کہ اس دور میں امام کی طرف آپ کے نواب خاص کے ذریعہ رجوع ممکن تھا،نواب کا سلسلہ دور غیبت صغریٰ میں امام سے ملا ہوا تھا گویا کہ وہ دور ایسا تھا جس میں شیعوں کے عقائد و فقہ کی تکمیل ہو رہی تھی اور دینی ثقافت کو مکمل کیا جا رہا تھا۔ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے ایک طویل مدت سیاست کے شکنے میں قید و بند کی حالت میں گذٓری لیکن اس پر آشوب دور میں بھی اپنی تعلیمات کے قافلے کو آہستہ آہستہ آگے بڑھاتے رہے تا کہ علوم اہل بیت علیہم السلام کو ایک ارتکاز حاصل ہوجائے اور غیبت کے بعد علمی مراکز اس کے نشر و اشاعت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لیں۔

اس لئے حضرات ائمہ علیہم السلام نے اس میراث کو ضائع ہونے اور تحریف سے بچایا ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے اس میراث کو حوزہ علمیہ تک پہنچا دیا تو پھر ان کی غیبت کبریٰ ممکن ہوئی 329؁ھ میں شیعوں کا اپنے امام سے ظاہری رابطہ منقطع ہوگیا،اس لئے کہ یہ کتاب ان کے لئے کافی تھی جو ان کے ائمہ علیہم السلام کی تعلیم پر مشتمل تھی یہ کتاب شیعوں کے لئے حجت بھی ہے اور شیعوں کے مخالفین پر بھی حجت ہے تا کہ جو ہلاک ہو دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل کےساتھ زندہ رہے۔

لیهلک من هلک عن بینة و یحیی من حیّ عن بینة (1)

اس کتاب کی دوسری خصوصیت مؤلف نے مقدمہ میں بیان کی ہے کہ ہم نے اس کتاب میں معصومین علیہم السلام سےجو صحیح خبریں ملی ہیں،انہیں جمع کردیا ہے۔اخبار صحیحہ سے مؤلف کی مراد طرق نہیں ہے اس صحیحہ سے مراد یہ ہے کہ مؤلف نے اس کتاب میں ان مکتوبات سے روایت لی ہے جو ائمہ علیہم السلام کے دور میں مشہور تھے اور اس دور کے اس کتاب میں ان مکتوبات سے روایت لی ہے جو ائمہ علیہم السلام کے دور میں مشہور تھے اور اس دور کے شیعوں کے نزدیک قابل اعتبار تھے اس لئے کہ ائمہ علیہم السلام انھیں دیکھ چکے تھے اور سن چکے تھے بلکہ بعض کتابوں کے بارے میں یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ لوگوں نے انہیں امام کےسامنےپیش کیا اور امام نے ان کی تصحیح فرمائی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ انفال:آیت:42۔

۲۷

مؤلف کے دعویٰ کی صداقت کا ثبوت خود مؤلف کا حسن انتخاب ہے،اس کے علاوہ بعد کے علماء کی اس کتاب اور مؤلف کی مدح و ثنا بھھی ہے،بعد کے علما نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مؤلف ایک جلیل القدر عالم اور حدیثوں کے عارف ہیں،حدیث میں سب سے زیادہ قابل اعتماد اور صحیح ترین ہیں،یہاں تک کہ علما شیعہ کے درمیاں آپ ثقۃ الاسلام کے لقب سے مشہور ہیں۔

میں یہ تو نہیں کہتا کہ مؤلف نے کافی میں جتنی حدیثیں لکھی ہیں،سب بالکل صحیح ہیں،اس لئے کہ یہ امر مشکل ہے،زمانہ گذر گیا صحت کے قرینے مخفی ہیں،شواہد ہمارے سامنے نہیں،انسان سے غلطیاں اور بھول چوک بھی ہوتی ہے لیکن یہ ضرور عرض کروں گا کہ اصول کافی اہل بیت علیہم السلام کے مفاہیم اور ان کی تعلیمات کا ایک اجمالی عکس ضرور پیش کرتی ہے اور اس راستے پر نظر اتھا کے دیکھے کی دعوت دیتی ہے جس کی طرف اس نے اشارہ کیا ہے۔

البتہ ہم اس کتاب میں وارد شدہ ان خبروں پر اعتبار نہیں کریں گے جو کسی علت کی وجہ سے صادر ہوئیں مثلاً تقیہ یا وجود معارض و غیرہ جس کو اہل نظر جانتے ہیں،چاہے ان کا صدور قابل اعتبار طریقوں سے ہوا ہو۔

من لایحضر الفقیہ: یہ تالیف جناب ابوجعفر محمد بن علی ابن الحسین بابویہ القمی کی ہے،شیعوں کے نزدیک آپ صدوق کے نام سے مشہور ہیں،آپ کی وفات381؁ھ میں ہوئی ہے،اس کتاب میں بھی سرکار دو عالم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی حدیثیں جمع کی گئی ہیں یہ حدیثیں فقہ کے ابواب کا احاطہ کرتی ہیں اور مؤلف نے اکثر ان حدیثوں کو لیا ہے جو آپ کے فقہی مختارات کی دلیل ہیں۔

تہذیب الاحکام: یہ تالیف جناب شیخ الطائفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسی کی ہے،آپ کی وفات 460؁ھ میں ہوئی، اس کتاب میں بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے حدیثیں لی گئی ہیں اور فقہ کے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔

الاستبصار: یہ کتاب بھی جناب شیخ الطائفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسی کی ہے اس کتاب میں بھی

۲۸

حدیثﷺں سے فقہ کے ابواب کا احاطہ کیا گیا ہے اور شیخ نے کئی جگہ متعارض حدیثوں میں جمع کی صورت نکالنے کی کوشش کی ہے،کہیں کہیں اس سلسلے میں تکلف سے بھی کام لیا ہے،اس لئے کہ آپ کا مذہب ہے کہ متعارض حدیثوں کو چھوڑ دینے سے بہتر ہے کہ تا حد امکان جمع کی صورت نکال لی جائے،اس کتاب کو آپ نے اپنی کتاب تہزیب ہی سےاستخراج کیا ہے اس لئے یہ کتاب تہذیب سے مختصر ہے۔مندرجہ بالا کتابیں وہ ہیں جو شیعوں کے نزدیک بہت اہم ہیں اور ان کی بڑی حیثیت ہے ان کتابوں کو اصول اربعہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشرئعہ: جناب محمد بن حسن الحر عاملی کی تالیف ہے،آپ کی وفات1104؁ھ میں ہوئی،مؤلف نے اس کتاب میں سابق کتابوں کی حدیثیں بھی جمع کی ہیں اور بہت سی حدیثیں ان دوسری کتابوں سے بھی لی ہیں جو مذکورہ بالا کتابوں تک درجہ شہرت نہیں پاسکتی ہیں،مؤلف نے اس کتاب میں فقہ کے ابواب کا احاطہ کیا ہے۔

بحارالانوار: شیخ محمد باقر بن شیخ محمد تقی مجلسی کی تالیف ہے،آپ کی وفات1111؁ھ میں ہوئی،آپ نے بہت سی کتابوں سے اس میں حدیثیں جمع کی ہیں،آپ نے اس کتاب میں عقیدہ کے اصول آسمان،عالم،معاد،قصص انبیاء،انبیاء کی سیرت،سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی سریت،فقہ،دعائیں،اخلاق اور دوسری بہت سی چیزوں کا احاطہ کیا ہے،اس کتاب میں شیخ ہر باب کی ابتدا اس باب کی مناسبت سے قرآن مجدی کی آیت سے کرتے ہیں پھر آیت پر بحث کرتے ہیں،اس باب کی مناسبت سے حدیثیں پیش کرتے ہیں اور جہاں شرح کی ضرورت محسوس کرتے ہیں وہاں شرح بھی کرتے ہیں۔شیخ نے اس کتاب میں صرف معتبر حدیثوں ہی پر اکتفا نہیں کی ہے بلکہ شاذ روایتوں کو یہاں تک کہ غریب واقعات کو بھی بیان کیا ہے اور عجیب و غریب واقعات کی غرابت پر متوجہ بھی کیا ہے،یہ بہت بڑی کتاب ہے ماضی قریب میں دوسری بار چھپی ہے اور اس کی تقریباً 110۔جلدیں ہیں،ان کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں ہیں جن کا احصا ممکن نہیں ہے یہ کتابیں مختلف علم و فن میں لکھی گئی ہیں مثلاً عقائد،فقہ،سیرت،علل احکام اور حالات ائمہ علیہم السلام و غیرہ کے سلسلے میں۔

۲۹

شیعوں کی فقہ کی کتابیں

فقہی کتابوں کی دو قسمیں ہیں:فقہی متون:ان کتابوں میں صاحبان کتب کے فتوؤں پر اختصٓر کیا گیا ہے اور مسائل کے بارے میں مختلف لوگوں کی رائیں بیان کی گئی ہیں،ان میں سے بعض کے نام رقم کر رہے ہیں۔

1۔مقنع۔

2۔ہدایہ: دونوں کتابیں جناب شیخ صدوق کی ہیں،جن کا تذکرہ پہلے آچکا ہے۔

3۔مقنعہ: شیخ مفید کی کتاب ہے،شیخ مفید کا نام محمد بن محمد بن نعمان ہے،آپ کی وفات413؁ھ میں ہوئی۔

4۔نہایہ: جناب شیخ طوسی کی کتاب ہے جن کا تذکرہ پہلے بھی آچکا ہے۔

5۔مراسم: حمزہ عبدالعزیز دیلمی کی کتاب ہے،آپ سلّار کے نام سے مشہور ہیں،آپ کی وفات448؁ھ یا 463؁ھ ہوئی۔

6۔وسیلہ: ابن حمزہ کی کتاب ہے،جو پانچویں صدی ہجری کے علماء میں ہیں۔

شرائع الاسلام: ابوالقاسم نجم الدین جعفر بن الحسن حلی کی کتاب ہے،آپ علماء کے درمیان محقق کے لقب سے مشہور ہیں،آپ کی وفات 676؁ھ میں ہوئی، آپ کی اس کتاب پر بہت سے فقہا نے شرحیں اور تعلیقات لکھی ہیں،یہ وہ کتاب ہے جو حوزات علمیہ میں پڑھائی جاتی رہی ہے یہاں تک کہ دور حاضر میں بھی پڑھائی جاتی ہے۔

8۔مختصر نافع:یہ بھی محقق حلی کی کتاب ہے،بعض فقہاء نے اس کو بھی شرح کی ہے اور تعلیقات بھی لکھی ہیں یہ وہی کتاب ہے جسے مصر میں التقریب بین المذاہب الاسلامیہ،نام کے ادارے نے 1376؁ھ میں چھپوایا ہے۔

9۔قواعد الاحکام: شیخ جمال الدین حسن ابن علی ابن مطہر حلی کی کتاب ہے،آپ علامہ کے

۳۰

نام سے مشہور ہے،آپ کی وفات 726؁ھ میں ہوئی،اس کی بھی بہت سے فقہاء نے شرح و تعلیق لکھی ہیں۔

10۔الدروس الشرعیہ،11۔اللمعۃ الدمشقیہ: یہ دونوں کتابیں شیخ ابوعبداللہ محمد بن مکی کی ہیں،آپ شہید کے نام سے مشہور ہیں،آپ کو 786؁ھ میں شہید کیا گیا۔اس کے علاوہ بھی متقدمیں و متاخرین علماءکےفقہی متوں ہیں جنھوں نےہردورکااحاطہ کررکھاہےاورہمارےاس دورمیں بھی مسلسل فقہی کتابیں تالیف ہو رہی ہیں،اس لئے کہ فقہاء کے درمیان رسالہ عملیہ لکھنے کا چلن ہے جس میں وہ اپنے فتاویٰ لکھتے ہیں تا کہ اپنے مقلدین کو اپنے فتوے سے آگاہ کرسکیں،مقلدین دینی مسائل میں ان ہی حضرات کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کے عملیہ پر عمل کر کے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

فقہ کی استدلالی کتابیں:

یہ وہ کتابیں ہیں جن میں مؤلفین اپنے فتوے پر دلیلیں قائم کرتے ہیں اور کتاب و سنت کے مآخذ کی وضاحت کرتے ہیں،ساتھ میں ان طریقوں کی بھی وضاحت کرتے ہیں جو کتاب و سنت کے علاوہ مقام استدلال مٰں برتے جاتے ہیں چونکہ قدیم و جدید علمائے شیعہ باب اجتہاد کو کھولنا ضروری سمجھتے ہیں یعنی کوئی شخص اس وقت تک فقیہ نہیں ہوسکتا جب تک فقہ میں اپنے تلاش کردہ مسائل کو اختیار نہ کرے اور ان مسائل پر استدلال کی صلاحیت نہ رکھتا ہو یہ الگ بات ہے کہ وہ دلائل و ماخذ کو اپنی کتابوں میں بیان کرتے ہیں ہم جن میں سے بعض کو ذکر کر رہے ہیں۔

1۔من لایحضر الفقیہ: اس کتاب کا ذکر پہلے بھی ہوچکا ہے،اس میں شیخ نے ان حدیثوں کو بیان کیا ہے جو ان کے فقہی مختارات پر دلالت کرتی ہیں۔

2۔کتاب المسبوط: شیخ الطائفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسی کی کتاب ہے۔ان کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے،اس کتاب میں شیخ نے فقہی فروع کے مختلف شعبوں پر توجہ دی ہے اور کثرت سے انھیں بیان

۳۱

کیا ہے،اس کے علاوہ دوسرے مذہبوں کے بھی کچھ نظریات بیان کئے ہیں۔

3۔الخلاف:یہ بھی شیخ طوسی کی کتاب ہے یہ بھی فقہ میں ہے اور عالم اسلام کے مذاہب سے ملتے جلتے مسائل اس میں بیان کئے گئے ہیں۔

4۔کتاب الغنّیہ فی اصول الفقہ و فروعہ: یہ جناب ابوالمکارم عزالدین حمزہ بن علی ابن زہرہ اطینی کی تالیف،آپ کی وفات585؁ھ میں ہوئی۔

5۔المعتبر: محقق حلی کی کتاب ہے،محقق نے اپنی کتاب مختصر نافع کی شرح میں لکھی ہے لیکن مکمل نہیں کرپائے۔

6۔تذکرۃ الفقھاء7۔منتھی المطلب 8۔مختلف الشیعہ:

یہ تینوں کتابیں شیعہ فقہ میں اور علامہ حلی کے مقارن ہیں۔

9۔جامع المقاصد فی شرح کتاب قواعد:کتاب قواعد،علامہ حلی کی ہے،جامع المقاصد اسی کی شرح ہے جو محقق ثانی شیخ علی ابن الحسین بن عبدالعالی العاملی الکرکی نے تالیف کی ہے،آپ کی وفات قول مشہور کی بنا پر 940؁ھ میں ہوئی۔

10۔مالک الافھام فی شرح شرائع الاسلام۔

11۔کتاب الروضۃ البھیہ فی شرح اللمعۃ الدمشقیہ:دونوں کتابیں شیخ زین الدین بن نور الدین علی کی ہیں آپ شہید ثانی کے نام سے مشہور ہیں،آپ کو 945؁ھ یا 966؁ھ میں شہید کیا گیا۔

12۔کتاب مدارک الاحکام فی شرح الشرائع الاسلام:یہ جناب السید محمد بن علی الموسوی العاملی کی تالیف ہے،آپ کی وفات1009؁ھ میں ہوئی۔

13۔کشف اللثام:قواعد کی شرح میں لکھی گئی یہ شیخ محمد بن حسن اصفہانی کی تالیف ہے،آپ 1137؁ھ میں وفات پاگئے،آپ فاضل ہندی کے نام سے مشہور ہیں۔

۳۲

14۔مفتاح الکرامہ فی شرح قواعد العلامہ:سید محمد جواد الحسین العاملی کی تالیف ہے،آپ کی وفات 1226؁ھ کے آس پاس ہوئی،یہ کتاب کئی جلدوں میں چھپی ہے،اس کتاب میں مولف نے علماء امامیہ فقہی مسائل پر اقوال بیان کئے ہیں،بعض موقعوں پر مختصر استدلال بھی کیا ہے۔

15۔ریاض المسائل:یہ کتاب محقق کی مختصر نافع کی شرح میں لکھی گئی ہے،جناب سید علی طباطبائی کی تالیف ہے،آپ کی وفات1231؁ھ میں ہوئی۔

16۔جواھر الکلام:جو شرائع الاسلام کی شرح ہے،اپنے دور کے مرجع جناب شیخ محمد حسن الشیخ باقر کی تالیف ہے،آپ کی وفات 1226؁ھ میں ہوئی،اس کتاب میں بڑے پیمانے پر فقہی استدلال پیش کئے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ علماء کی توجہ کا مرکز رہی ہے یہاں تک کہ ہمارے دور میں بھی یہ کتاب بہت مقبول ہے،پہلے یہ چھ جلدوں میں چھپی تھی لیکن دوسری بار43 جلدوں میں چھپی ہے۔

17۔مستمسک العروۃ الوثقیٰ:ہمارے سید استاد اور جد امجد جناب سید محسن الحکیم طباطبائی کی تالیف ہے،آپ نے اپنے دور میں ملت شیعہ کے مرجع تھے،آپ کی وفات1390؁ھ میں ہوئی۔

ان کتابوں کے علاوہ بھی ہر دور میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں اور ہمارے دور میں بھی لکھی جارہی ہیں۔

سیرت کے موضوع پر شیعہ تالیفات

سیرت کی اکثر کتابیں شیعوں کے نزدیک عقائد کی کتابوں کی حیثیت رکھتی ہیں،اس لئے کہ شیعہ حضرات نے یہ کتابیں سیرۃ النبی یا سیرت ائمہ کے عنوان سے لکھی ہیں،ان کتابوں میں نبوت و امامت کی دلیلیں اور ان کے شواہد کے ساتھ نبی و آل نبی علیہم السلام کے فضائل و مناقب بیان کئے گئے ہیں ہم جن میں سے بعض کتابوں کے نام بطور مثال ذکر کر رہے ہیں:

۳۳

1۔الارشاد:شیخ مفید علیہ الرحمہ کی تالیف ہے،اس کا تذکرہ ہوچکا ہے،آپ نے اس کتاب میں ائمہ اثنا عشر علیہم السلام کی سوانح حیات کے ساتھ ان حضرات کے فضائل اور ان کی امامت کے شواہد بیان کئے ہیں۔

2۔اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ:جناب ابوعلی فضل بن حسن طبرسی کی تالیف ہے آپ کی وفات548؁ھ میں ہوئی،آپ نے اس کتاب میں چودہ معصومین علیہم السلام یعنی بارہ امام اور جناب صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا کے ساتھ سرکار نبی اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت لکھی ہے،اس کتاب میں معصومین کی عصمت پر دلیلوں کے ساتھ سرکار دو عالم کی نبوت اور ہر امام کی امامت ثابت کی گئی ہے۔

3۔اثبات الوصیۃ:ابوالحسن علی بن الحسین بن علی المسعودی الہدیٰ کی تالیف ہے آپ کی ایک تالیف مروج الذہب بھی ہے،آپ چوتھی صدی ہجری کے علما میں ہیں۔

4۔کفایہ الا شرفی نص الائمۃ الاثنا عشر:علی بن محمد بن علی خزاز رازی کی تالیف ہے آپ چوتھی ہجری کے علماءمیں ہیں۔

5۔مناقب آل ابی طالب:حافظ رشید الدین بن علی بن ابوعبداللہ محمد بن علی بن علی شہر آشوب السروی المازندرانی کی تالیف ہے،آپ کی وفات588؁ھ میں ہوئی،اس کتاب میں سیرت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور سیرت ائمہ اثنا عشر علیہم السلام کی امامت کے ثبوت دیئے گئے ہیں،نیز ان حضرات کے فضائل و مناقب بھی بیان کئے گئے ہیں۔

6۔کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ:ابوالحسن علی بن عیسی ابن ابوالفتح الاردبلی کی کتاب ہے،آپ ساتویں صدی ہجری کے علماءمیں ہیں،اس کتاب ہے،آپ ساتویں صدمی ہجری کے علما میں ہیں،اس کتاب میں ائمہ اثنا عشر علیہم السلام کے علاوہ صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت کے ساتھ ان حضرات کی نبوت و امامت کے متعلق بھی بہت سی باتیں لکھی گئی ہیں،اس کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں ہیں جن کے تذکرہ کی گنجائش نہیں ہے۔

۳۴

عقائد شیعوں کی کتابیں

عقائد کی کتابوں کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم:جن کتابوں میں عقائد کا بغیر استدلال کے محض اجمالی تذکرہ ہے یا مختصر دلیلیں دی گئی ہیں،ہم ان میں سے بعض کتابوں کے نام رقم کر رہے ہیں۔

1۔الاعتقاد:شیخ صدوق کی تالیف ہے۔

2۔تصحیح الاعتقاد:شیخ صدوق کی تالیف ہے،اس کتاب میں شیخ صدوق کی کتاب الاعتقاد کی شرح کے ساتھ اس پر چو اعتراضات ہوئے ہیں ان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

3۔اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات:شیخ مفید کی تالیف ہے۔

4۔جمل العلم و العمل:شریف المرتضی علی بن الحسین الموسوی کی تالیف ہے،آپ کا انتقال 436؁ھ میں ہوا۔

5۔الاقتصاد:شیخ طوسی کی کتاب ہے۔

6۔العقائد الجعفریہ:شیخ طوسی کی کتاب ہے۔

7۔عقائد الامامیہ:شیخ محمد رضا مظفر کی کتاب ہے،آپ کی وفات 1384؁ھ میں ہوئی،اس کتاب میں آپ نے عقائد امامیہ کو مختصر طور پر جمع کردیا ہے،اندر تحریر بالکل نیا ہے یہ کتاب ہمارے دور میں بہت رائج اور مشہور ہے۔دوسری قسم:وہ کتابیں ہیں جن میں عقائد پر استدلال کیا گیا ہے اس طرح کی بہت سی کتابیں ہیں جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

1۔الشافی:سید مرتضی کی تالیف ہے۔

2۔تلخیص الشافی:شیخ طوسی کی تالیف ہے،آپ نے کتاب کافی کی تلخیص کی ہے

3۔کتاب الالفین:علامہ حلی کی تالیف ہے،آپ نے اس کتاب میں امامت پر کثرت سے

۳۵

دلیلیں بیان کی ہیں۔

4۔نہج الحق:علامہ حلی کی کتاب ہے جس پر فضل بن روز بیان نے اعتراضات کئے تھے اور اس کے رد میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ابطال الباطل ہے۔

5۔منہاج الکرامۃ:قاضی نوراللہ بن شریف الدین الحسینی المرعشی کی کتاب ہے،آپ کو گیارہویں صدی ہجری میں آگرہ میں شہید کیا گیا،یہ کتاب فضل بن روز بیان کی کتاب ابطال الباطل کے جواب میں ہے اس سے پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ ابطال الباطل علامہ حلی کی کتاب((نہج الحق))کے جواب میں لکھی گئی تھی،احقاق الحق کو تعلیمات اور اضافوں کے ساتھ دوبارہ چھاپا ہے یہ کارنامہ سید شہاب الدیں المرعشی نے انجما دیا،ان کی وفات 1410؁ھ میں ہوئی۔

7۔دلائل الصدق:شیخ محمد حسن مظفر کی تالیف ہے،یہ((ابطال الباطل))کے جواب میں لکھی گئی ہے،بعض مناسب موقعوں پر ابن تیمیہ کا جواب بھی دیا گیا ہے۔

8۔حق الیقین فی معرفۃ اصول الدین:سید عبداللہ کی تالیف ہے،آپ تیرہویں صدی ہجری کے علماء میں سے تھے۔

9۔صراط الحق فی اصول الدین:صراط الحق فی اصول الدین:شیخ محمد آصف محسنی کی کتاب ہے جو ہمارے معاصر ہیں۔

1۔التوحید:شیخ صدوقؒ کی کتاب ہے،یہ کتاب یوں تو حدیث میں ہے،لیکن مؤلف نے اس کتاب میں باری تعالیٰ کی تجسیم،تشبیہ اور جبر سے تنزیہ کی ہے ظاہر ہے کہ اس موضوع کا لگاؤ عقیدہ سے ہے۔

11۔تنزیہ الانبیاء:شریف المرتضی کی تالیف ہے،آپ نے اس میں عصمت انبیا کو ثابت کرتے ہوئے انبیائے کرام کو گناہوں سے پاک ثابت کیا ہے۔

۳۶

12۔الغدیرفی الکتاب و السنتہ و الادب:شیخ عبدالحسین کی شاندار کتاب ہے آپ کی وفات1390؁ھ میں ہوئی،آپ نے اس کتاب میں حدیث غدیر کے بارے میں لکھا ہے،ان طریقوں پر جن سے غدیر کی روایت آئی ہے بحث کی گئی ہے،ان شعرائ کے حالات لکھے گئے ہیں جنھوں نے اپنے کلام میں غدیر کا تذکرہ کیا ہے،مناقب کے ساتھ امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل بیان کئے گئے ہیں،مذہب اہل بیت علیہم السلام کے متعلق بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں،مذہب اہل بیت علیہم السلام پر حملوں کا جواب دیا گیا ہے اور کثرت سے حوالے بیان کئے گئے ہیں،عقیدہ اور تاریخ میں یہ کتاب بڑی اہمیت رکھتی ہے اور اپنی ضحامت کے اعتبار سے بہت وسیع ہے(اس کا اردو ترجمہ فاضل ہندی السید علی اختر گوپال پوری نے فرمایا ہے،آپ کی وفات 1423؁ھ میں ہوئی ہے)مترجم

13۔اکمال الدین و اتمام النعمۃ:شیخ صدوق علیہ الرحمۃ کی تالیف ہے،حضرت حجت بن الحسن المہدی علیہ السلام کی غیبت کو اس کتاب میں موضوع بنایا گیا،غیبت پر بہت سی دلیلیں دی گئی ہیں اور غیبت پر اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔

اس کتاب کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں اور رسالے ہیں جو جناب شیخ مفید اور جناب شیخ طوسی نے تحریر فرمائے ہیں دونوں حضرات نے اسی فقیہ غیبت کو موضوع بنایا ہے اور بھی بہت سے علماء نے اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں جن کے ذکر کی گنجائش نہیں ہے۔

14۔المراجعات:سید عبدالحسین شرف الدین الموسوی کی کتاب ہے۔

اس کتاب میں کچھ اعتقادی مسائل پر گفتگو کی گئی ہے یعنی شیخ سلیم البشری جو جامعہ از ہر مصر کے شیخ تھے اور سید عبدالحسین کے در میان ایک نتیجہ خیز بحث کا بیان ہے،یہ کتاب بہت فائدہ مند اور مشہور ہے۔

15۔الغصول المہمہ فی تالیف الامہ:سید عبدالحسن شرف الدین موسوی کی کتاب ہے

۳۷

اس میں شیعہ سنی اتحاد کی کوشش کی گئی ہے۔

ایک ضروری گزارش یہ بھی ہے کہ جو مصادر شیعہ کے جاننا چاہتا ہے اس کو دو باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔

فرقہ شیعہ کی طرف سے لکھی ہوئی ہر کتاب متفق علیہ نہیں ہے

شیعہ تصنیفات میں ہر کتاب متفق علیہ نہیں ہے،شیعہ علماء کے درمیان صرف اصول اور عقیدہ پر اتفاق ہے،جیسے توحید اور متعلقات توحید یعنی ذات باری کو ظلم و جبر و تشبیہ اور مکان و زمان سے منزہ ماننا،نبوت اور پھر ائمہ اثنا عشر علیہم السلام کو امام بر حق سمجھنا اور امامت کے سلسلے میں جو باتیں ضروری ہیں جیسے انبیاءاور ائمہ کی عصمت اور معاد جسمانی،اس طرح شیعہ علماءکچھ دوسرے معاملات میں بھی متفق ہیں،جیسے نصوص متواترہ،اجماع اور عقل کو دلیل قطعی ماننا،مذکورہ باتوں کا لگاؤ فقہ و سیرت اور مابعد الموت سے ہے لیکن بہت سے امور میں شیعوں کے درمیان اختلاف ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک اجتہاد کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور مجتہد اپنے استنباط کردہ مسائل کا مکلف ہے یہی وجہ سے کہ ان کے یہاں فرعی مسائل میں اختلاف اب بھی جاری ہے یہاں تک کہ احادیث میں بھی وہ ہر حدیث پر اتفاق نہیں کرتے نہ ہر حدیث کے مضمون پر یقین کرتے ہیں بلکہ بہت سی حدیثیں ایسی ہیں جنہیں متروک قرار دیا گیا ہے۔

حدیثوں کے قابل عمل ہونے کے لئے بھی انہیں پر کھے کا اپنا ایک معیار اور ضابطہ ہے جس کے بیان کی گنجائش نہیں ہے،کچھ حدیثیں اختلافی ہیں اور معیار اور ضابطے کے اعتبار سے بھی مختلف فیہ ہیں۔

اہم ترین یہ بات ہے کہ مذکورہ کتابوں کے مندرجات کو مان لینے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے خواہ وہ حدیث کی باتیں ہوں یا علماء کے اقوال،یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ تمام شیعوں کا یہی مسلک ہے جب تک اس بات کی تحقیق نہ ہوجائے کہ کتابوں میں لکھی ہوئی باتیں

۳۸

شیعوں کے نزدیک متفق علیہ ہیں اور تمام شیعوں کا اس پر اجماع ہے ورنہ پھر تمام شیعوں پر کسی ایک کے لکھے ہوئے مندرجات کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی البتہ مذکورہ بالا کتابیں عام شیعہ نظریات و مسلمات کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان کی طرز زندگی اور ثقافت کی آئینہ دار ضرور ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ جس نے اب تک کسی شیعہ کتاب کا مطالعہ نہیں کیا ہے اور سنی کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا ہے دھکا تو لگے گا خصوصاً مذہب کے حساس پہلوؤں پر جب اس کی نظر پڑے گی جنہیں اب تک وہ اپنے دل میں محترم اور مقدس سمجھتا رہا ہے لیکن اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ شیعہ کتابوں میں جو بھی لکھا گیا ہے اگر چہ وہ متفرق جگہوں سے لیا گیا ہے لیکن وہ سب اہل سنت کی کتابوں مٰں موجود ہے یا کم سے کم سنی کتابیں ان مندرجات کی شہادت دیتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ ایک سنی مسلمان اپنے عظیم ذخیرے کا مطالعہ کرنے کے وقت ان حقائق کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اس لئے شیعہ کتابوں کو پڑھتے وقت ضروری ہے کہ آدمی حوصلہ سے کام لے انکار میں جلدی نہ کرے اور وہ بھی کسی انکشاف کے وقت اس لئے کہ کتابوں میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ بے بنیاد نہیں ہوتا شیعوں نے ان دلیلوں کو تلاش کرنے میں زحمتیں اٹھائی ہیں اس لئے کہ غیروں کی کتاب میں سے اپنی حمایت میں دلیلیں یکجا کرنا بہت محنت طلب کام ہے جو مذکورہ بالا مشورہ پر عمل کرے گا اور مصنفین کی زحمتوں پر نظر کرے گا اس کے لئے اپنی ہی کتابوں میں اپنے مفروضات و مسلمات کے خلاف بیانات پڑھنا آسان ہوجائے گا اور وہ اس صدمہ کو آسانی سے جھیل جائے گا۔

میری مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ شیعوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ سب کچھ صحیح ہے اس لئے کہ وقت سے پہلے فیصلہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فیصلہ میں جلدی نہ کی جائے اور بدمزگی سے اس وقت تک گریز کیا جائے جب تک شیعوں کے اصول و عقائد کا بغور مطالعہ نہ کر لیا جائے اور ان کی دلیوں پر غائزانہ نظر نہ ڈال لی جائے اس کے بعد صاحب انصاف خود یہ دیکھے کہ اس کا وجدان کیا کہتا ہے اور اللہ کے

۳۹

سامنے خود کو مطمئن پاتا ہے یا نہیں،اللہ کے سامنے اس کے پاس کوئی عذر ہے یا نہیں؟یعنی اپنی دلیلوں سے وہ خدا کو راضی کرسکے گا یا نہیں اور اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوسکے گا یا نہیں؟اس لئے کہ خدا ہی بہترین نگراں ہے اور بہترین حساب لینے والا،انسان کی رضا حاصل کرنا اور انہیں لاجواب کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا جس طرح اپنے خواہشات کو تسکین دینا اور اپنے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس لئے کہ خدا کے علاوہ جو کچھ ہے چاہے کتنا ہی زیادہ اور کم ہے سب کچھ زوال پانے والا ہے اور اسکے بعد انسان سخت حساب سے گزرتا ہے جنت میں جائے یا جہنم میں جہاں بھی رکھا جائے ہمیشہ رہنا ہے۔

۴۰