فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ20%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 132517 / ڈاؤنلوڈ: 7175
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

مراد حضرت يعقوب كے پوتے و نواسے ہيں _ البتہ بعض مفسرين كے مطابق اسباط سے مراد اسحاقعليه‌السلام كے بيٹے ہيں _ واضح ر ہے كہ ''يعقوب'' كے بعد كلمہ ''الاسباط'' لانے سے پہلے نكتہ كى تائيد ہوتى ہے_

۶_ وحى اور انبياءعليه‌السلام كا مبعوث كياجانا تاريخ ميں مداوم اور مسلسل رہا ہے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده و آتينا داود زبوراً

۷_ وحي، پيغمبرى كے دعوے ميں حقانيت انبياءعليه‌السلام كى ضامن ہے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الي نوح والنبينمن بعده

۸_ ديگر انبيائے خداعليه‌السلام پر ايمان لانے كا لازمہ يہ ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لايا جائے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الي نوح و النبين خداوند متعال يہ نكتہ بيان كركے كہ وحى كے لحاظ سے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسرے انبياء ميں كوئي فرق نہيں ، انبياءعليه‌السلام پر ايمان كے دعويداروں كو يہ ياد دہانى كرا دينا چاہتا ہے كہ اگر ان كى نبوت پر ايمان ركھتے ہو تو پھر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھى ايمان لانا پڑے گا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انكار كرو گے تو در حقيقت تمام انبياءعليه‌السلام كا انكار كرر ہے ہو_

۹_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحى كے نزول كا انكار در اصل ديگر انبياءعليه‌السلام پر وحى كے نزول كا انكار ہے_انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده و اوحينا

۱۰_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والى وحى الہى ان تمام خصوصيات كى حامل ہے جو گذشتہ انبياءعليه‌السلام پر نازل ہونے والى وحى ميں پائي جاتى تھيں _انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح و النبين من بعده

چونكہ وحى كو گذشتہ تمام انبياءعليه‌السلام پر نازل ہونے والى وحى سے تشبيہ دى گئي ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والى وحى ميں گذشتہ تمام انبياءعليه‌السلام كى وحى والى خصوصيات پائي جاتى تھيں _

۱۱_ حضرت نوحعليه‌السلام وہ پہلے پيغمبر ہيں جنہيں كتاب اور شريعت سے نوازا گيا_انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده چونكہ حضرت نوحعليه‌السلام سے پہلے بھى پيغمبر موجود تھے لہذا ان سے پہلے كسى پيغمبرعليه‌السلام كا نام لئے بغير ان كا ذكر كرنے كى وجہ يہ ہوسكتى ہے كہ وہ پہلے پيغمبر تھے جنہيں شريعت عطا كى گئي_

۱۲_ حضرت نوحعليه‌السلام وہ پہلے نبى ہيں جن پر خدا نے وحى نازل فرمائي_

۲۰۱

كما اوحينا الى نوح والنبين من بعده چونكہ مورد بحث آيت نے نہ تفصيلى اور نہ اجمالى كسى بھى لحاظ سے حضرت نوحعليه‌السلام سے پہلے كسى پيغمبر پر وحى كے نزول كے بارے ميں كچھ نہيں كہا لہذا كہا جا سكتا ہے كہ حضرت نوحعليه‌السلام سے پہلے كوئي ايسا نبى موجود نہيں تھا جس پر وحى نازل ہوئي ہو_ بنابريں حضرت نوحعليه‌السلام وہ پہلے نبى ہيں جن پر وحى نازل ہوئي_

۱۳_ خدا وند عالم كى بارگاہ ميں حضرت عيسيعليه‌السلام كو خاص عظمت و احترام حاصل ہے_و اوحينا الى عيسي و ايوب و يونس و هارون و سليمان حضرت عيسيعليه‌السلام كے بعد ذكر شدہ انبياء زمانےعليه‌السلام كے لحاظ سے ان پر مقدم ہيں اور ان سے پہلے گذرے ہيں ليكن خدا وند متعال نے انہيں سب سے پہلے ذكر كيا ہے تا كہ ان كى خاص عظمت كى طرف اشارہ كرے_

۱۴_ حضرت نوحعليه‌السلام كے بعد آنے والے انبياءعليه‌السلام ميں سے ايك حضرت داؤدعليه‌السلام ہيں _ جنہيں خدا وند عالم كى جانب سے زبور نامى كتاب عطا كى گئي_و آتينا داود زبوراً

۱۵_ زبور گراں بہا اور خاص اہميت كى حامل كتاب ہے_و آتينا داود زبوراً

۱۶_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والى وحى الہى ميں وہ تمام خصوصيات موجود تھيں جو دوسرے انبياءعليه‌السلام پر نازل ہونے والى وحى ميں جدا طور پر پائي جاتى تھيں _انا اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح حضرت امام باقرعليه‌السلام اور امام صادقعليه‌السلام مذكورہ آيت كے مضمون كى طرف اشارہ كرنے كے بعد فرماتے ہيں ( فجمع لہ كل وحي)(۱) يعنى اس ميں تمام وحى كى خصوصيات اكٹھى كى گئي تھيں _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحى كا نزول ۱، ۹، ۱۰، ۱۶; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا برگزيدہ ہونا ۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت ۱

ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى نبوت ۴

اديان: اديان كى تاريخ ۳، ۱۱، ۱۴

اسحاقعليه‌السلام : حضرت اسحاقعليه‌السلام كى نبوت ۴

اسماعيل: حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى نبوت ۴

____________________

۱) تفسير عياشى ج۱ ص ۲۸۵ ح ۳۰۵; نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۳ ح ۶۷۰_

۲۰۲

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام پر وحى كا نزول ۳، ۴، ۵، ۹، ۱۰، ۱۶;انبياءعليه‌السلام كى بعثت ۳; انبياءعليه‌السلام كى بعثت كا تداوم ۶; انبياءعليه‌السلام كى حقانيت ۷;انبياءعليه‌السلام كى ہم آہنگى ۱۰;انبياءعليه‌السلام كے قصے ۳

ايمان: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۸ ;انبياءعليه‌السلام پر ايمان ۸ ; ايمان كا متعلق ۸

ايوبعليه‌السلام : حضرت ايوبعليه‌السلام كى نبوت ۴ برگزيدہ لوگ: ۱، ۲، ۵

عيسيعليه‌السلام : حضرت عيسيعليه‌السلام كا احترام ۱۳;حضرت عيسيعليه‌السلام كى عظمت ۳; حضرت عيسي كى نبوت ۴;حضرت عيسيعليه‌السلام كے فضائل ۱۳

داؤدعليه‌السلام : حضرت داؤدعليه‌السلام كى كتاب ۱۴;حضرت داؤدعليه‌السلام كى نبوت ۱۴

دين: پہلا دين ۱۱

روايت: ۱۶

زبور: زبور كاآسمانى كتاب ہونا ۱۴ ;زبور كى اہميت ۱۵;زبور كى قدر و قيمت ۱۵

سليمانعليه‌السلام : حضرت سليمانعليه‌السلام كى نبوت ۴

مقربين: ۱۳

نوحعليه‌السلام : حضرت نوحعليه‌السلام پر وحى كا نزول ۲، ۱۲ ;حضرت نوحعليه‌السلام كا چنا جانا ۲;حضرت نوحعليه‌السلام كا دين ۱۱ ; حضرت نوحعليه‌السلام كى كتاب ۱۱;حضرت نوحعليه‌السلام كى نبوت ۲، ۴

وحي: وحى كا تداوم ۶; وحى كا كردار ۷;وحى كو جھٹلانا ۹;وحى كى تاريخ ۱۲

وحى كے مخاطبين: ۴

ہارونعليه‌السلام : حضرت ہارونعليه‌السلام كى نبوت ۴

يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كى نبوت ۴

يعقوبعليه‌السلام كى اولاد: حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد كا چنا جانا ۵;حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد كى نبوت ۵

يونسعليه‌السلام : حضرت يونس كى نبوت ۴

۲۰۳

آیت ۱۶۴

( وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ وَكَلَّمَ اللّهُ مُوسَى تَكْلِيماً )

كچھ رسول ہيں جن كے قصے ہم آپ سے بيان كرچكے ہيں او ركچھ رسول ہيں جن كا تذكرہ ہم نے نہيں كيا ہے او رالله نے موسي سے باقاعدہ گفتگو كى ہے _

۱_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ديگر انبياءعليه‌السلام اور خدا كے بھيجے ہوئے پيغمبروں كى مانند رسول اور خدا كے بھيجے ہوئے پيغمبر ہيں _

و رسلاً قد قصصنا هم عليك من قبل و رسلا لم نقصصهم عليك ''رسلاً'' فعل محذوف ''ارسلنا'' كيلئے مفعول ہے يعنى و ارسلنا رسلا اور يہ جملہ ''اوحينا الى ...'' پر عطف ہے_ بنابرايں يہ بھى تشبيہ ميں اس كے ساتھ شريك ہے_ البتہ اس فرق كے ساتھ كہ مشبہ (انا اوحينا اليك)كے معنى كا لازمہ رسالت ہے اور اسى كا ارادہ كيا گيا ہے_ يعنى اے پيغمبر آپ ہمارے رسول ہيں جيسا كہ گذشتہ انبياءعليه‌السلام بھى ہمارے رسول تھے_

۲_ پيغمبر اكرمعليه‌السلام كى رسالت كا انكار دوسرے تمام انبياءعليه‌السلام كى رسالت كا انكار ہے_اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح و رسلا قد قصصناهم عليك مذكورہ بالا مطلب ميں گذشتہ مطلب كے بارے ميں دى گئي توضيح سے استفادہ كيا گيا ہے_

۳_ خداوند متعال نے صرف اپنے چند انبياءعليه‌السلام كے حالات كوپيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے بيان كيا ہے_

رسلا قد قصصنا هم عليك من قبل و رسلاً لم نقصصهم عليك

۴_ خداوند متعال نے قرآن كريم ميں بعض انبياء كے حالات بيان نہيں كئے_و رسلا لم نقصصهم عليك

۵_ خداوند متعال نے كسى واسطے كے بغير حضرت موسيعليه‌السلام سے گفتگو كي_و كلم الله موسي تكليماً

گذشتہ جملات ميں خدا وند عالم نے اپنے اسم ''الله '' كا ذكر نہيں فرمايابلكہ صرف (اوحينا)

۲۰۴

جيسے افعال استعمال كيے ہيں _ جبكہ اس جملہ ''كلم اللہ موسي'' ميں اسم جلالہ ''اللہ'' استعمال كيا ہے_ اس سے معلوم ہوتا ہے كہ خداوند متعال نے بذات خود حضرت موسيعليه‌السلام سے بات كى اور ان كے درميان كوئي واسطہ نہيں تھا_

۶_ خداوند متعال كا حضرت موسيعليه‌السلام سے كلام كرنا وحى كى ايك قسم ہے_اوحينا اليك كما اوحينا الى نوح و كلم الله موسي تكليماً اگر ''كلم اللہ'' ''اوحينا الى نوح'' پر عطف ہو تو جملہ يوں ہوگا ''اوحينا اليك كما كلم اللہ موسي تكليماً'' يعنى پيغمبر پر نازل ہونے والى وحى الہى كى مثال اس كلام كى سى ہے جو خدا نے حضرت موسيعليه‌السلام سے كيا_ بنابريں خدا كا كلام كرنا بھى ايك قسم كى وحى ہے_

۷_ بارگاہ خداوندى ميں حضرت موسيعليه‌السلام كو خاص عظمت حاصل ہے_و كلم الله موسي تكليماً حضرت موسيعليه‌السلام كا دوسرے انبياءعليه‌السلام سے جدا طور پر نام لينا اور انہيں ''كليم اللہ'' كہنا ان كے بلند و بالا مقام پر دلالت كرتا ہے_

۸_ حضرت موسيعليه‌السلام پر حقيقى ايمان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لانے كا باعث بنتا ہے_اوحينا اليك كما كلم الله موسي تكليماً مذكورہ مطلب اس مبنى پر استوار ہے كہ جب جملہ ''كلم اللہ ...'' گذشتہ آيت ميں جملہ ''اوحينا الى نوح'' پر عطف ہو_ يعنى اے رسول جس طرح ہم نے آپ پر وحى نازل كى اور موسي سے كلام كيا اور چونكہ يہ ان لوگوں سے خطاب كيا جارہا ہے جو حضرت موسيعليه‌السلام كى نبوت كا اقرار كرتے ہيں لہذا انہيں اس مشابہت كو مدنظر ركھتے ہوئے رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كا بھى اقرار كرنا چاہيئے_

۹_ حضرت آدمعليه‌السلام اور حضرت نوحعليه‌السلام كے درميان والى مدت ميں گذرنے والے بعض انبياءعليه‌السلام كا نام قرآن كريم ميں ذكر نہ كرنے كى وجہ ان كى رسالت كا مخفى ہونا ہے_و رسلا لم نقصصهم عليك

حضرت امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں :كان ما بين آدم و بين نوح من الانبياء مستخفين و مستعلنين و لذلك خفى ذكرهم فى القرآن فلم يسموا كما سمى من استعلن من الانبياء و هو قول الله_ ''رسلا لم نقصصهم عليك'' يعنى لم اسم المستخفين كما سميت المستعلنين من الانبياء (۱) يعنى حضرت آدمعليه‌السلام اور حضرت نوحعليه‌السلام كے درميان والے زمانے ميں بعض انبياءعليه‌السلام ايسے

__________________

۱) تفسير عياشى ج۱ ص ۲۸۵ ح۳۰۶; تفسير برھان ج۱ ص ۴۲۷ ح۴_

۲۰۵

بھى ہيں جنہيں پنہاں ركھا گيا اور اسى وجہ سے قرآن كريم ميں بھى ان كا ذكر نہيں آيا_ چنانچہ جس طرح بعض انبياءعليه‌السلام كا على الاعلان نام ليا گيا ہے اسى طرح بعض كا نام نہيں ليا گيا اور خدا وند عالم نے اسى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہا ہے: ''اے رسول: ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بعض انبياءعليه‌السلام كے حالاتنہيں سنائے'' يعنى جس طرح بعض ظاہر شدہ انبياءعليه‌السلام كا نام ليا ہے اسى طرح بعض پنہاں انبياءعليه‌السلام كا نام نہيں ليا_

۱۰_ خداوند متعال نے حضرت موسي سے تين دن اور رات ميں ايك لاكھ چوبيس ہزار كلمات كى تعداد ميں كلام كيا_

و كلم الله موسي تكليماً رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہيں :ان الله ناجي موسي بن عمران بمائة الف كلمة و اربعة و عشرين الف كلمة فى ثلاثة ايام و لياليهن .(۱) يعنى خداوند متعال نے حضرت موسيعليه‌السلام بن عمران كے ساتھ تين شب و روز ميں ايك لاكھ چوبيس ہزار كلمات كى تعداد ميں گفتگو كي_

۱۱_ خداوند متعال نے حضرت موسيعليه‌السلام سے طور سينا ميں درخت سے ايسى آواز پيدا كركے گفتگو كى جسے ہر طرف سے ان كے تمام ہمراہى سن سكتے تھے_و كلم الله موسي تكليماً امام رضاعليه‌السلام ، حضرت موسيعليه‌السلام سے خدا وند عالم كى گفتگو كے بارے ميں فرماتے ہيں :فخرج بهم الى طور سيناء فكلمه الله تعالى ذكره و سمعوا كلامه لان الله عزوجل احدثه فى الشجرة ثم جعله منبعثاً منها حتى سمعوه من جميع الوجوه (۲) يعنى وہ اپنے تمام ساتھيوں كے ہمراہ طور سينا كى طرف روانہ ہوئے ...پھر خداوند متعال نے ان سے كلام كيا جسے ان كے تمام ساتھيوں نے سنا كيونكہ خدائے عزوجل نے درخت ميں آواز ايجاد كى اور اسے چاروں طرف پھيلا ديا جس كى وجہ سے وہ تمام ساتھيوں كو سنائي دي_

۱۲_ خداوند متعال نے زبان اور دہن سے استفادہ كيے بغير كلام ايجاد كركے حضرت موسيعليه‌السلام سے گفتگو كي_

و كلم الله موسي تكليماً حضرت امام رضاعليه‌السلام ، حضرت موسيعليه‌السلام سے خدا كے كلام كے بارے ميں فرماتے ہيں :... كلام الخالق للمخلوق ليس ككلام المخلوق لمخلوق و لا يلفظ بشق فم و لسان و لكن يقول له ''كن'' فكان بمشيته ما خاطب به موسي من الامر والنهى من غير تردد فى نفس (۳) يعنى خالق كى مخلوق

_________________

۱) خصال صدوق ص ۶۴۱ ح۲۰ باب ما بعد الالف: نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۴ ح ۶۷۵_

۲) توحيد صدوق ص ۱۲۱ ح ۲۴ ب ۸:نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۴ ح ۶۷۶_

۳) احتجاج طبرسى ج۲ ص ۱۸۵; نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۵، ح۶۸۱_

۲۰۶

كے ساتھ كلام كى كيفيت ايسى نہيں ہے جيسے مخلوق كے كلام كى مخلوق كے ساتھ اور نہ ہى خالق كا كلام مخلوق كے كلام كى مانند منہ كے كھلنے اور زبان كے مخصوص انداز ميں ہلنے كى وجہ سے الفاظ كى صورت ميں ايجاد ہوتا ہے بلكہ وہ اسے ہوجانے كا حكم ديتا ہے تو وہ اس كى مشيئت سے ہوجاتا ہے

۱۳_ خداوند متعال كا كلام حادث ہے_و كلم الله موسي تكليماً حضرت امام صادقعليه‌السلام كلام خدا كے حادث يا قديم ہونے كے بارے ميں پوچھے گئے سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں :ان الكلام صفة محدثة ليس بازلية كان الله عزوجل و لا متكلم (۱) يعنى كلام ايك ازلى نہيں بلكہ محدث صفت ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو جھٹلانا ۲

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا حضرت موسيعليه‌السلام سے كلام ۵، ۶، ۱۰، ۱۱، ۱۲; اللہ تعالى كے كلام كا حادث ہونا ۱۳; اللہ تعالى كے كلام كى كيفيت ۱۲

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى مخفى رسالت ۹;انبياءعليه‌السلام كى نبوت ۱;انبياءعليه‌السلام كى نبوت كو جھٹلانا ۲; انبياءعليه‌السلام كے درميان ہم آہنگى ۸ ; انبياءعليه‌السلام كے قصے ۳، ۴، ۹

ايك لاكھ چوبيس ہزار كا عدد: ۱۰

ايمان: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۸;ايمان كا متعلق ۸;حضرت موسيعليه‌السلام پر ايمان ۸

درخت: درخت كا كلام كرنا ۱۱

روايت: ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۳

قرآن كريم: قرآن كريم كے قصے ۴

كوہ سينا: ۱۱

مقربين: ۷ موسيعليه‌السلام : حضرت موسيعليه‌السلام كا قصہ ۱۰، ۱۱;حضرت موسيعليه‌السلام كا مقام و مرتبہ۵، ۷، ۱۰;حضرت موسيعليه‌السلام كى عظمت ۷

وحي: وحى كى اقسام ۶

____________________

۱) كافى ج۱ ص ۱۰۷ ح۱; نور الثقلين ج۱ ص ۵۷۵ ح ۶۸۲_

۲۰۷

آیت ۱۶۵

( رُّسُلاً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزاً حَكِيماً )

يہ سارے رسول بشارت دينے والے اورڈرا نے والے اس لئے بھيجے گئے تا كہ رسولوں كے آنے كے بعد انسانوں كى حجت خدا پر قائم نہ ہونے پائے او رخدا سب پر غالب او رصاحب حكمت ہے _

۱_ انبياءعليه‌السلام رسالت كى تبليغ اور انسانوں كى تربيت كيلئے بشارت اور انذار جيسى روشوں سے استفادہ كرتے تھے_

رسلا مبشرين و منذرين

۲_ انسانوں كى ہدايت اور تربيت كيلئے تشويق كو تہديدپر مقدم كرناضرورى ہے_رسلا مبشرين و منذرين

۳_ انسانوں كى ہدايت اور تربيت كيلئے بشارت كى روش انذار سے زيادہ مؤثر ہوتى ہے_رسلاً مبشرين و منذرين

بشارت كو انذار پر مقدم كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ بشارت كانقش انسانوں كى ہدايت ميں زيادہ مؤثر ہوتا ہے_

۴_ ا نبياءعليه‌السلام روش ہدايت كے انتخاب ميں انسان ميں موجود منفعت طلبى اور خطرات سے بچنے كى خصلت كو مد نظر ركھتے تھے_رسلاً مبشرين و منذرين

۵_ انبياءعليه‌السلام كى بعثت كا مقصد لوگوں پر خدا وند متعال كى حجت تمام كرنا ہے_رسلاً مبشرين و منذرين لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۶_ انبياءعليه‌السلام لوگوں پر خدا وند متعال كى حجت تمام كرنے كا وسيلہ ہيں _رسلاً لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۷_ انسان كو ہدايت اور ہدف تك پہنچنے كيلئے ہميشہ انبياءعليه‌السلام كى ضرورت ہوتى ہے_

۲۰۸

رسلاً لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۸_ خداوند عالم كسى كو اتمام حجت كے بغير عذاب نہيں ديتا_رسلاً لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل

۹_ خداوند متعال ہميشہ عزيز (ناقابل شكست فاتح) اور حكيم (دانا) ہے_و كان الله عزيزاً حكيماً

۱۰_ انبياءعليه‌السلام كا بھيجا جانا، خداوند عالم كى عزت و حكمت كا تقاضا ہے_رسلاً مبشرين و منذرين و كان الله عزيزاً حكيماً

۱۱_ خداوندعالم، دليل و استدلال ميں قاہر اور غالب ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة و كان الله عزيزاً

اللہ تعالى كى عزت اور ناقابل شكست ہونے كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك مصداق وہى ہے جو جملہ ''لئلا يكون ...'' ميں بيان ہوا ہے_

۱۲_ خداوند عالم كے دليل و استدلال پر غلبہ اور تسلط كا منبع اس كى بے كراں حكمت ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة و كان الله عزيزاً حكيماً

۱۳_ خدا وند عالم كے سامنے لوگوں كے پاس كسى حجت كا نہ ہونا اس كى عزت كا ايك مصداق ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل و كان الله عزيزاً حكيماً عزيز اور اتمام حجت ميں پائے جانے والے ارتباط كو سامنے ركھنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اگر خداوند عالم اتمام حجت نہ كرتا تو لوگ اس كے سامنے دليل پيش كرتے اور يہ اس كى عزت كے ساتھ سازگار نہيں ہے_

اتمام حجت: ۵، ۶، ۸، ۱۳

اسماء و صفات: حكيم ۹;عزيز ۹

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا استدلال ۱۱، ۱۲;اللہ تعالى كى حكمت ۱۰، ۱۲;اللہ تعالى كى عزت ۱۰، ۱۳;اللہ تعالى كى قدرت ۱۱، ۱۲

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا انذار ۱; انبياءعليه‌السلام كا كردار ۶، ۷;انبياءعليه‌السلام كا ہدايت كرنا ۴; انبياءعليه‌السلام كى بشارت ۱;انبياءعليه‌السلام كى بعثت كا

۲۰۹

فلسفہ ۵; انبياءعليه‌السلام كى تبليغ ۱;انبياءعليه‌السلام كى نبوت ۱۰

انذار : انذار كى اہميت ۲

انسان: انسان كى معنوى ضروريات ۷;انسان كى منفعت طلبى ۴

تبليغ: تبليغ كى روش۱

تربيت: تربيت كى روش ۱، ۲، ۳; تربيت ميں انذار ۱، ۲، ۳; تربيت ميں بشارت ۳; تربيت ميں تشويق ۲

تشويق: تشويق كى اہميت ۲

سزا: بيانكيے بغير سزا دينا ۸

فقہى قواعد: ۸

نبوت: نبوت كى اہميت ۷

ہدايت: ہدايت كا طريقہ ۴;ہدايت ميں انذار ۲; ہدايت ميں تشويق ۲

آیت ۱۶۶

( لَّـكِنِ اللّهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَيْكَ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلآئِكَةُ يَشْهَدُونَ وَكَفَى بِاللّهِ شَهِيداً )

(يہ مانيں يانہ مانيں ) ليكن خدا نے جو كچھ آپ پر نازل كيا ہے وہ خود اس كى گواہى ديتا ہے كہ اس نے اسے اپنے علم سے نازل كيا ہے او رملائكہ بھى گواہى ديتے ہيں او رخدا خود بھى شہادت كے لئے كافى ہے _

۱_ خدا وند متعال اور اس كے فرشتے قرآن كى حقانيت اور رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر گواہ ہيں _

لكن الله يشهد بما انزل اليك و الملائكة يشهدون

۲۱۰

مذكورہ بالا مطلب ميں جملہ''و الملائكة يشهدون'' كو''الله يشهد'' پر عطف كيا گيا ہے اور اس كا نتيجہ يہ ہے كہ ''يشھدون'' كا متعلق بھى''بما انزل اليك'' ہوگا_

۲_ قرآن كريم كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر خداوند عالم نے نازل كيا ہے_يشهد بما انزل اليك انزله

۳_ خداوند متعال نے اہل كتاب كے انكار سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دل ميں پيدا ہونے والى رنجيدگى اور افسردگى دور كرنے كيلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى دى ہے_فلا يؤمنون الا قليلا لكن الله يشهد بما انزل اليك اكثر اہل كتاب كى جانب سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے انكار كا ذكر كرنے كے بعد خداوند متعال كا استدراك كے ساتھ حقانيت قرآن پر گواہى دينے كا مقصد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى دينا ہے_

۴_ قرآن كريم ;خدا وند عالم كے علم و دانش كا جلوہ ہے_انزله بعلمه مذكورہ بالا مطلب ميں ''بعلمہ'' كو ضمير مفعولى كيلئے حال قرار ديا گيا ہے اور اس ميں موجود ''بائ'' معيت كے معنى ميں ہے: يعنى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والے قرآن كريم كے ہمراہ علم الہى بھى تھا_

۵_ قرآن كريم ميں علم الہى كى تجلي، قرآن و پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر خداوند متعال كى گواہى ہے_

لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه جملہ ''انزلہ بعلمہ'' ''يشھد'' كيلئے تفسير ہوسكتا ہے_ يعنى خود نزول قرآن جو علم الہى كا ايك مظہر ہے قرآن كريم كى اور اس كے نتيجے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر خدا وند متعال كى گواہى ہے_

۶_ قرآن كا نزول خدا وند متعال كى نظارت ميں ہے اور شياطين كى دخالت سے محفوظ ہے_

لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه بعض مفسرين كا كہنا ہے كہ چونكہ يہاں پر علم خدا ، حفاظت و نگہبانى سے كنايہ ہے، لہذا جملہ ''انزلہ بعلمہ'' كا معنى يہ بنتا ہے كہ خداوند متعال نے قرآن كريم اس طرح سے نازل كيا كہ خود اس كى حفاظت اور نگہبانى فرمائي ہے تا كہ شياطين دخالت اور كمى بيشى نہ كرسكيں _

۷_ حقانيت قرآن كريم پر خداوند متعال كى گواہى كا منبع اس كا علم و آگاہى ہے_لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه

۸_ خداوند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اہليت سے آگاہ

۲۱۱

ہونے كى وجہ سے قرآن كريم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل فرمايا ہے_لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمه مذكورہ بالا مطلب ميں ''بعلمہ'' كو ''انزلہ'' كے فاعل كيلئے حال قرار ديا گيا ہے اور علم كا متعلق پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اہليت ہے_ جس كى وجہ سے قرآن كريم ان پر نازل ہوا يعنى''انزله عالماً بانك اهل لذلك'' خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرقرآن كريم نازل فرمايا كيونكہ وہ جانتا تھا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كى اہليت ركھتے ہيں _

۹_ ضرورى ہے كہ علم و آگاہى كى اساس پر گواہى دى جائے_و لكن الله يشهد انزله بعلمه

۱۰_ رسالت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر يقين كرنے كيلئے قرآن كريم بحيثيت دليل كافى ہے_

لكن الله يشهد بما انزل اليك انزله بعلمہ ممكن ہے ''بما انزل اليك'' ميں موجود ''بائ'' سببيت كيلئے ہو_ اس صورت ميں گذشتہ آيات كے قرينہ كى بناپر شہادت و گواہى كا متعلق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ہوگي_ اس مبنا كے مطابق جملہ ''يشھد بما انزل ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت پر خدا كى گواہى كا سبب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قرآن كا نزول ہے يعنى جو بھى قرآن كريم كو ملاحظہ كرے وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى حقانيت پر گواہى ديگا_

۱۱_ خدا كے فرشتے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نزول قرآن كے شاہد اور ناظر تھے_والملائكة يشهدون

جملہ ''و الملائكة يشھدون'' ميں ''واو'' حاليہ ہے اور ''يشھدون'' كا معنى ''وہ نظارت كرتے ہيں ''كيا گيا ہے_

۱۲_ مختلف امور كے اثبات و نفى پر خدا وند عالم كى شہادت كافى و مكمل ہے_و كفى بالله شهيداً

۱۳_ حقانيت قرآن كريم كے اثبات كيلئے خدا وند عالم كى گواہى كافى ہے_لكن الله يشهد بما انزل و كفي بالله شهيداً

۱۴_ قرآن كريم لوگوں پر خدا وند عالم كى طرف سے اتمام حجت ہے_لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل لكن الله يشهد بما انزل اليك

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا غم و اندوہ۳; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى ۳; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت ۵; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كى حقاينت ۱، ۱۰; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فضائل ۸

اتمام حجت: ۱۴

۲۱۲

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا علم ۷، ۸; اللہ تعالى كى گواہى ۱، ۵، ۷، ۱۲، ۱۳;اللہ تعالى كے افعال ۲; اللہ تعالى كے علم كى تجلى ۴، ۵

اہل كتاب: اہل كتاب اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳

قرآن كريم: قرآن كريم كا كردار ۱۰، ۱۴ ;قرآن كريم كا محفوظ

ہونا۶;قرآن كريم كا نزول ۲، ۶، ۸، ۱۱;قرآن كريم كى حقانيت ۱، ۵، ۷، ۱۳;قرآن كريم كى فضيلت ۴

گواہي: گواہى كى شرائط ۹; گواہى ميں علم ۹

ملائكہ: ملائكہ كى گواہى ۱،۱۱

آیت ۱۶۷

( إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِيلِ اللّهِ قَدْ ضَلُّواْ ضَلاَلاً بَعِيداً )

بيشك جن لوگوں نے كفراختيار كيا او رراہ خداسے منع كرديا وہ گمراہى ميں بہت دور تك چلے گئے ہيں _

۱_ راہ خدا سے روكنے والے كفار ، ايسے بھٹكے ہوئے لوگ ہيں جو سخت گمراہ ہيں _ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله قد ضلوا ضلالاً بعيداً كلمہ ''الذين'' كے تكرار كے بغير ''صدوا ...'' كو ''كفروا'' پر عطف كرنا اس پر دلالت كرتا ہے كہ كفر اختيار كرنا اور راہ خدا سے روكنا دونوں صفات مجموعى طور پر ضلالت بعيد ہے_

۲_ اہل كتاب; قرآن كريم اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے انكار اور لوگوں كو اسلام كى طرف آنے سے روكنے كى وجہ سے ايسے منحرف لوگ ہيں جو سخت بھٹكے ہوئے ہيں _ان الذين كفروا و صد وا عن سبيل الله قد ضلوا ضلالاً بعيداً گذشتہ (۱۵۳ سے بعد والي) آيات كے قرينہ كى بناپر''الذين كفروا ...'' كے مورد نظر

۲۱۳

مصاديق ميں سے اہل كتاب كا وہ گروہ ہے جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا انكار اور قرآن كريم كو وحى كے طور پر قبول نہيں كرتا تھا اور گذشتہ آيات كى روشنى ميں ''سبيل اللہ'' سے مراد دين اسلام ہے_

۳_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت اور قرآن كريم كے بارے ميں كفراور دوسروں كو راہ خدا پر گامزن ہونے سے روكنا بہت بڑى گمراہى ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله قد ضلوا ضلالاً بعيداً

گذشتہ آيات كے قرينہ كى بناپر ''كفروا'' كا متعلق قرآن كريم و پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں _

۴_ لوگوں كو راہ خدا كى طرف آنے سے روكنا كفر كى علامت ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله

مذكورہ بالا مطلب ميں جملہ''و صد وا'' كو جملہ ''كفروا'' كيلئے مفسر و مبين كے طور پر اخذ كيا گيا ہے يعنى راہ خدا سے روكنا كفر ہے_

۵_ انسان كے طرز عمل كا سرچشمہ اس كى آراء و افكار اور اعتقادات ہيں _ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله

مذكورہ مطلب اس اساس پر استوار ہے كہ جب ''صدوا'' كا ''كفروا'' پر عطف از باب عطف سبب بر مسبب ہو _

۶_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم پر ايمان راہ خدا ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله

اس چيز كو سامنے ركھتے ہوئے كہ ''كفروا'' كا متعلق قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہيں يہ كہا جا سكتا ہے كہ ''سبيل اللہ'' سے مراد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم پر ايمان لانا ہے_

۷_ گمراہى كے متعدد مراتب ہيں _قد ضلوا ضلالاً بعيداً

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا ۲; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو جھٹلانا ۳

اہل كتاب: اہل كتاب كى گمراہى ۲

ايمان: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۶;ايمان كا متعلق ۶;ايمان كے اثرات ۵;قرآن كريم پر ايمان ۶

راہ خدا: ۶

راہ خدا سے روكنا ۱، ۲، ۳، ۴

طرز عمل:

۲۱۴

طرز عمل كى بنياديں ۵

علم: علم كے اثرات ۵

كفار: كفار كى گمراہى ۱

كفر: قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۲،۳;كفر كي

علامت ۴;كفر كے اثرات ۲

گمراہ لوگ: ۱

گمراہي: گمراہى كے مراتب ۱، ۲، ۳، ۷;گمراہى كے موارد ۳

منحرف لوگ: ۱، ۲

نظريہ كائنات: نظريہ كائنات اور آئيڈيا لوجى ۵

آیت ۱۶۸

( إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَظَلَمُواْ لَمْ يَكُنِ اللّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلاَ لِيَهْدِيَهُمْ طَرِيقاً )

او رجن لوگوں نے كفراختيار كرنے كے بعد ظلم كيا ہے خدا انہيں ہرگز معاف نہيں كرسكتا او رنہ انہيں كسى راستہ كى ہدايت كرسكتا ہے _

۱_ ظالم كفار; خدا وند متعال كى مغفرت و ہدايت سے محروم ہيں _ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً جملہ ''و ظلموا'' ميں ''الذين'' كا تكرار نہ ہونا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ ''كفر اور ظلم'' دونوں صفات مجموعاً خدا وند عالم كى مغفرت اور ہدايت سے محروم ہونے كا باعث بنتى ہيں _

۲_ رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم كا انكار اور دوسروں كو راہ خدا وند عالم سے روكنا خداوند عالم كى مغفرت اور ہدايت سے محروم ہونے كا سبب بنتا ہے_ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

گذشتہ آيات كى روشنى ميں ''كفر'' سے مراد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم كا انكار اور ظلم سے مراد دوسروں كو راہ خدا سے روكنا ہے_

۲۱۵

۳_ ظالم كفار اور راہ خدا سے روكنے والوں كو ايمان لانے اور توبہ كرنے كى توفيق نہيں ہوگي_

ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم بديہى ہے كہ كفار، كفر كے جس مرتبہ پر بھى ہوں اگر ايمان لے آئيں تو وہ مغفرت و ہدايت الہى كے حقدار و مستحق ہوتے ہيں : بنابريں جملہ ''لم يكن ...'' سے مراد يہ ہے كہ انہيں ايمان لانے كى توفيق نصيب نہيں ہوگى جس كے نتيجے ميں وہ بخشے نہيں جائيں گے_

۴_ لوگوں كو راہ خدا پر گامزن ہونے سے روكنا ظلم ہے_ان الذين كفروا و صدوا عن سبيل الله ان الذين كفروا و ظلموا گذشتہ آيت شريفہ كے قرينہ كى بناپر ظلم سے مراد دوسروں كو راہ خدا سے روكنا ہے_

۵_ سعادت و خوشبختى كى تمام راہيں ظالم كفار پر بند ہيں _ان الذين كفروا و ظلموا و لا ليهديهم طريقاً

۶_ بعض اہل كتاب كا كفر اور ظلم ان كيلئے خدا كى مغفرت و ہدايت سے محروم ہونے كا باعث بنا_

ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً گذشتہ آيات كى روشنى ميں ''الذين كفروا و ظلموا'' كا مورد نظر مصداق بعض اہل كتاب ہيں _

۷_ بعض اہل كتاب كافر اور ستمگر لوگ ہيں _ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

۸_ ستمگر كفار كا مغفرت و ہدايت سے محروم ہونا، خدا وند عالم كى سنتوں ميں سے ہے_ان الذين كفروا و ظلموا لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

۹_ انسان كى مغفرت اور ہدايت خدا كے ہاتھ ميں ہے_لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

۱۰_ انسان كے گناہوں كى بخشش اس كيلئے ہدايت الہى سے بہرہ مند ہونے كا پيش خيمہ ہے_لم يكن الله ليغفر لهم و لا ليهديهم طريقاً

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت كو جھٹلانا ۲

اللہ تعالى: اللہ تعالى سے مختص امور ۹; اللہ تعالى كى بخشش ۹;اللہ تعالى كى سنتيں ۸; اللہ تعالى كى مغفرت سے

۲۱۶

محروم ہونا ۲;اللہ تعالى كى ہدايت ۹، ۱۰; اللہ تعالى كى ہدايت سے محروم ہونا۲

انسان: انسان كى مغفرت ۹;انسان كى ہدايت ۹

اہل كتاب: اہل كتاب كا ظلم ۶ ،۸; اہل كتاب كے گروہ ۷; كافر اہل كتاب ۶، ۷

ايمان: ايمان سے محروميت۳

توبہ: توبہ سے محروميت۳

راہ خدا: راہ خدا سے روكنا ۲، ۳;راہ خدا سے روكنے كا ظلم ۴

سعادت: سعادت سے محروم ہونا ۵

ظلم: ظلم كے اثرات ۶;ظلم كے موارد ۴

كفار: ظالم كفار كا محروم ہونا ۳، ۸; كفار كا ظلم۱، ۵;كفار كى شقاوت۵; كفار كى محروميت ۱

كفر: قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۲;كفر كے اثرات ۶

گناہ: گناہ كى بخشش كے اثرات۱۰

مغفرت: مغفرت سے محروم ہونا ۱، ۶، ۸

ہدايت: ہدايت سے محروم ہونا ۱، ۶، ۸;ہدايت كا پيش خيمہ۱۰

آیت ۱۶۹

( إِلاَّ طَرِيقَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيراً ) .

سوائے جہنم كے راستے كے جہاں ان كو ہميشہ ہميشہ رہنا ہے او ريہ خدا كے لئے بہت آسان ہے _

۱_ خداوند متعال، قيامت كے دن ظالم كفار كو صرف راہ جہنم كى طرف ہدايت كرے گا_

۲۱۷

و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم

مذكورہ بالامطلب ميں جملہ ''و لا ليھديھم ...'' ميں مذكور ہدايت كا زمانہ اور وقت قيامت كو قرار ديا گيا ہے يعنى خداوند عالم اس دن كفار كو صرف جہنم كى طرف راہنمائي كرے گا_

۲_ كفر، باطل اديان كى طرف رجحان اور ناروا اعمال دوزخ كى جانب جانے والا راستہ ہے_

و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم مذكورہ بالا مطلب اس اساس پر استوار ہے كہ جملہ ''و لا ليھديھم ...'' ميں مذكور ہدايت كا زمان اور وقت دنيا كى زندگى ہو اس مبني كے مطابق كفار كو راہ جہنم كى طرف ہدايت كرنے سے مراد ان كيلئے كفر كے ارتكاب اور ناروا اعمال كا پيش خيمہ فراہم كرنا ہے كہ جس كا انجام دوزخ ہوگا_

۳_ خداوندمتعال نے ظالم كفار كا تمسخر اڑايا ہے_و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم

ممكن ہے كہ كفار كو جہنم كى طرف لے جانےكيلئے ہدايت كا كلمہ ان كا تمسخر اڑانے كيلئے استعمال كيا گيا ہو_

۴_ بعض اہل كتاب اپنے كفر اور ظلم كى وجہ سے ہميشہ جہنم ميں رہيں گے_ان الذين كفروا و ظلموا و لا ليهديهم طريقاً_ الا طريق جهنم خالدين فيها گذشتہ آيات كى روشنى ميں مذكورہ آيت كا مورد نظر مصداق كافر اہل كتاب ہيں _

۵_ قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا انكار اور لوگوں كو دائرہ اسلام ميں آنے سے روكنا ہميشہ جہنم ميں رہنے كا سبب بنے گا_ان الذين كفروا و ظلموا خالدين فيها ابداً

۶_ ہميشہ جہنم ميں رہنا ظالم كفار كى سزا ہے_ان الذين كفروا و ظلموا خالدين فيها ابداً

۷_ جہنم ابدى اور ہميشگى ہے_الا طريق جهنم خالدين فيها ابداً

۸_ خداوند متعال كيلئے دوزخ اور دوزخيوں كو جاويدان اور ابدى بنانا بہت آسان كام ہے_الا طريق جهنم خالدين فيها ابداً_ و كان ذلك على الله يسيراً

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا ۵

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى جانب سے تمسخر اڑانا۳;اللہ تعالى

۲۱۸

كے افعال ۱، ۸

اہل كتاب: اہل كتاب كا ظلم ۴;اہل كتاب كا كفر ۴

جہنم: جہنم كا ہميشگى و ابدى ہونا ۷، ۸;جہنم كے موجبات ۲ ، ۴،۵; جہنم ميں ہميشہ كيلئے رہنا ۴، ۵، ۶

جہنمي: جہنميوں كا ہميشہ جہنم ميں رہنا ۸

رجحان: ناپسنديدہ رجحان۲

ظالمين: ۶

ظلم: ظلم كے اثرات ۴

عمل: ناپسنديدہ عمل ۲;

كفار: ظالم كفار ۳، ۶;كفار جہنم ميں ۱،۶; كفار قيامت ميں ۱;كفار كا مذاق اڑانا ۳;كفار كى سزا ۶

كفر: قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۵;كفر كے اثرات ۲، ۴،۵

آیت ۱۷۰

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُواْ خَيْراً لَّكُمْ وَإِن تَكْفُرُواْ فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَكَانَ اللّهُ عَلِيماً حَكِيماً )

اے انسانو تمہارے پاس پروردگار كى طرف سے حق لے كر رسول آگيا ہے لہذا اس پر ايمان لے آؤ اسى ميں تمہارى بھلائي ہے اور اگر تم نے كفراختيار كيا تو ياد ركھو كہ زمين و آسمان كى كل كائنات خداكے لئے ہے او روہى علم والا بھى ہے اور حكمت والابھى ہے _

۱_ پيغمبر اكرم، رسالت اور سراسر حق پر مبنى معارف كے ساتھ خدا وند عالم كى جانب سے بھيجے گئے _

۲۱۹

قد جاء كم الرسول بالحق مذكورہ بالا مطلب ميں ''بالحق'' ميں موجود ''بائ'' كو معيت كے معنى ميں ليا گيا ہے اور ہو سكتا ہے كہ اس سے مراد تعليمات اور معارف الہى ہوں كہ يہ وہى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ہے_

۲_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت سے پہلے اہل كتاب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے منتظر تھے_

يايها الناس قد جاء كم الرسول ''قد جاء كم'' ميں ''قد'' توقع كے معنى ميں اور ''الرسول'' ميں ال عہد ذہنى كيلئے ہے جو يہ مطلب ادا كررہا ہے كہ مخاطبين آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت كے منتظر تھے_

۳_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت عالمگير اور سب لوگوں كيلئے ہے_يا ايها الناس قد جاء كم الرسول

۴_ قرآن كريم خدا وند متعال كى جانب سے بھيجى گئي اور سراسر حق پر مبنى كتاب ہے_

قد جاء كم الرسول بالحق من ربكم مذكورہ بالا مطلب ميں كلمہ ''الحق'' سے مراد قرآن كريم اور ''من ربكم'' كو اس كيلئے حال قرار ديا گيا ہے_

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت اور قرآن كريم كا نزول ربوبيت الہى كا جلوہ ہے_قد جاء كم الرسول بالحق من ربكم

۶_ انبياءعليه‌السلام كى بعثت اور آسمانى كتب كے نزول كا مقصد تمام انسانوں كى ہدايت اور تربيت ہے_

يا ايها الناس قد جاء كم الرسول بالحق من ربكم

۷_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم پر ايمان بشريت كيلئے خير و سعادت كا باعث ہے_

يا ايها الناس قد جائكم الرسول بالحق فامنوا خيراً لكم مذكورہ مطلب اس اساس پر استوار ہے كہ جب ''خيرا'' محذوف فعل ''يكن'' كيلئے خبر ہو_ يعنى پورا كلام يوں ہے ''فامنوا ان تؤمنوا يكن خيراً لكم''_

۸_ انسان ايك ايسى مخلوق ہے جو خير كى طالب اور كمال كى متلاشى ہے_يا ايها الناس فامنوا خيراً لكم

جملہ ''خيراً لكم'' انسان ميں خير طلبى اور سعادت كى جستجو كى صفت كو طبيعى اور فطرى امر بتلارہا ہے اور اسے صرف حقيقى خيرو سعادت كے مصداق يعنى قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان كى طرف ہدايت و راہنمائي كررہا ہے_

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۶۔حافظ ابوالحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان ہیثمی(۱) ۷۔ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابوبکر شیبہ کوفی(۲)

۸۔حافظ ضیاءالدین ابوعبداللہ محمد بن عبدالواحد بن احمد حنبلی مقدسی(۳) ۹۔حافظ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم ضبی نیشاپوری(۴)

۱۰۔حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب طبرانی و غیرہ(۶)

بہت سے گوں نے((اللھم و آل من والاہ))کی دعا کے ساتھ((وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ))(مالک تو اس کی مدد کرنا جو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کرے)اس دعائیہ جملہ کی بھی روایت کی گئی ہے کہ سرکار نے حدیث من کنت میں یہ بھی فرمایا تھا بعض طرق حدیث سے اس کی روایت کی گئی ہے اور ایک جماعت نے اس کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے:

۱۔ابوالمحاسن یوسف بن موسیٰ حنفی(۷) ۲۔حنبلی فرقہ کے امام ابوعبداللہ احمد بن حنبلی شیبانی(۸)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مجمع الزوائدج:۹ص:۱۰۸،۱۰۷،۱۰۶،۱۰۵،۱۰۴،کتاب مناقب،باب مناقب علیؑ

(۲)مصنف ابن ابی شیبہ ج:۶ص:۳۶۸۔۳۶۹۔۳۷۲،کتاب فضائل،فضائل علیؑ

(۳)الاحادیث المختارہ ج:۲ص:۱۰۶،۱۰۵،فیما رواہ سعید بن وھب الھمدانی عن علیؑ

(۴)مستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۱۸،کتاب معرفت صحابہ،مناقب علیؑ،ص:۱۲۶،کتاب معرفت صحابہ ص:۴۱۹،کتاب معرفت صحابہ،فی ذکر مناقب طلحۃ بن عبیداللہ التیمی

(۵)مسند ابی عیلی ج:۱ص:۴۲۹،مسند علی بن ابی طالبؑ ج:۱۱ص:۳۰۸

(۶)معجم الصغیرج:۱ص:۱۱۹،باب من اسمہ احمد،معجم الکبیرج:۴ص:۱۶،ص:۱۷۳،ج:۵ص:۱۷۰،ص:۱۷۱،ص:۱۷۵،ص:۱۹۲،ص:۱۹۳،ص:۱۹۴ص:۱۹۵،عطیہ عوفی نے زید بن ارقم سے روایت کی ہے

(۷)معتصر المختصرج:۱ص:۳۰۷،کتاب النکاح:کراھۃ التزویج علی فاطمہ

(۸)مسند احمدج:۱ص:۱۱۹،مسند علی بن ابی طالب علیہما السلام میں

۲۴۱

۳۔حافظ ابوالحسن علی بن ابوبکر سلیمانی ہیثمی(۱)

۴۔علی بن برہان الدین شافعی حلبی(۲)

ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ہیں،یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ سرکارؐ نے جس خطبہ غدیر میں مولائے کائناتؑ کی ولایت پر نص فرمائی تھی اس خطبہ میں عترت و کتاب والی حدیث ثقلین بھی شامل ہے یا یہ کہ اسی خطبہ میں اعلان ولایت کے بعد حدیث ثقلین عنایت فرمائی۔

ممکن ہے کہ اختلافات نقل کی جہت سے بھی ہوسکتے ہیں یعنی نقل بالمعنی یا بہت زمانہ گذر جانے کی وجہ سے بھی ہوسکتے ہیں کہ راوی نظم کلام یا تسلسل بھول گیا یا یہ کہ خطبہ کے کچھ فقرے بھول گیا۔

بہرحال جو بھی وجہ ہو لیکن حدیث ثقلین بھی اس خطبہ میں ہے اس کی بعض طرق حدیث سے روایت کی گئی ہے اور ایک جماعت نے ذکر بھی کیا ہے ملاحظہ ہو..

۱۔حافظ ابوعبدالرحمٰن شعیب نسائی(۳) ۲۔حافظ ابوالحسن علی بن ابوبکر بن سلیمان ہیثمی(۴) ۳۔حافظ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم ضبی نیشاپوری(۵) ۴۔حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب طبرانی(۶) ۵۔ابوالحسن علی بن عمر بن حمددار قطنی(۷)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مجمع الزوائدج:۹ص:۱۰۵،کتاب المناقب:باب مناقب علی بن ابی طالبؑ فی باب قولہ((من کنت مولا فعلی مولاہ))

(۲)السیرۃ الحلبیۃج:۳ص:۳۰۸،حجۃ الوداع

(۳)سنن کبریٰ نسائی ج:۵ص:۳۰۸،کتاب المناقب:فضائل علیؑ مین

(۴)مجمع الزوائدج:۹ص:۱۶۴،کتاب المناقب:باب فضائل اہل بیت علیہم السلام میں

(۵)مستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۱۸،کتاب معرفۃ الصحابۃ:مناقب امیرالمومنینؑ میں

(۶)معجم الکبیرج:۵ص:۱۷۱

(۷)جزءابی طاہر،ص:۵۰

۲۴۲

۶۔حافظ عمادالدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر شافعی دمشقی(۱)

۷۔علی بن برہان الدین شافعی حلبی و غیرہ(۲)

خطبہ غدیر میں اور بھی بہت سے فقرے ہین جن کے بارے میں فی الحال ہم گفتگو کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔

واقعہ غدیر میں اکمال کا نزول

۶۔غدیر خم میں جب سرکار دو عالمؐ نے علیؑ کی ولایت کی تبلیغ فرمائی تو یہ آیت نازل ہوئی:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا) (۳)

ترجمہ:آج کے دن ہم نے تمہارے دین کو کامل کیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کیں اور تمہارے لئے دین اسلام پر راضی ہوا۔

شیعہ امامیہ کا یہی مسلک ہے اور انھوں نےاس سلسلے میں آئمہ اہل بیت علیہ السلام کو اپنا مرجع بنایا ہے اور انھیں حضرات علیہم السلام سے روایتیں لی ہیں۔

اہل سنت میں ابوسعید خدری،ابوہریرہ،زید بن ارقم اور مجاہد نے مانا ہے کہ یہ آیت غدیرخم میں اعلان ولایت کے بعد نازل ہوئی اور شیخ نے اس آیت کے ذیل میں اہل سنت کے علما کے بہت سے نام پیش کئے ہیں۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)البدایۃ و النہایۃ ج:۵ص:۲۰۹،فصل فی ایراد الحدیث...من حجۃ الوداع،اسی طرح،ج:۷ص:۳۴۸،(سنۃ اربعین من الہجرۃ النبویہ)باب ذکر شئی من فضائل امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ میں

(۲)السیرہ الحلبیۃج:۳ص:۳۰۸،حجۃ الوداع میں

(۳)سورہ مائدہ آیت:۳

(۴)الغدیر فی کتاب و السنۃ و الادب ج:۱ص:۲۳۸،۲۳۰،

۲۴۳

جو اس بات کے قائل ہیں کہ اس آیت کی شان نزول غدیر ہے ان علما میں ابونعیم اصفہانی ہیں آپ نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام((مانزل من القران فی علی))(یعنی قرآن میں جو علی کے بارے میں نازل ہوا)وہ اپنی اسناد سے ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالمؐ نے غدیرخم میں لوگوں کو علیؑ کی طرف بلایا ببول کے درختوں کے نیچے جو کانٹے و غیرہ تھے ڈال کر اٹھایا اور اتنا بلند کیا کہ لوگ پیغمبر کے بغل کی سفیدی دیکھنے لگے پھر لوگ ابھی متفرق نہیں ہوئے تھے کہ یہ آیہ((اکملت))نازل ہوئی پس سرکار نے فرمایا کہ:دین کے کامل ہونے،نعمت کے تمام ہونے،پروردگار کی میری رسالت کے پسند کرنے،اور علی کی ولایت پر راضی ہونے پر خدا کی تکبیر کرتا ہوں،پھر فرمایا:جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں،پالنےوالے تو اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے،اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کرے،پھر حسان بن ثابت کھڑے ہوئے اور پوچھا،کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ علیؑ کے سلسلہ میں چند شعر پڑھوں آپ سنیں گے آپ نے فرمایا:خدا کی برکت ہو،بسم اللہ،پڑھو،حسان کھڑے ہوئے اور بولے:

اے قریش کے سردارو!میں شہادت پیغمبرؐ کے ساتھ اس ولایت کا بھی قائل ہوں جو ابھی پیش کی گئی یعنی((اشھد ان محمداً رسول کے ساتھ علی ولی اللہ))بھی کہوں گا پھر آپ نے کچھ اشعار پڑھے جو پیش کئے جائیں گے۔(۱)

یوم غدیر کے بارے میں ابوہریرہ کی حدیث بھی پیش کی جائےگی۔

لیکن ابن کثیر کہتے ہیں کہ ابن مردویہ نے ہاروں عبدی سے اور انہوں نے ابوسعید خدری سے روایت کی ہے کہ آیہ((اکمال دین))غدیرخم میں نازل ہوئی جب حضورؐ نے علیؑ کے لئے فرمایا کہ میں جس کا مولا ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں پھر وہ ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ زی الحجہ کی۱۸تاریخ

-----------------

(۱)الغدیر فی الکتاب و النسۃ و الادب،ج:۱ص:۲۳۲

۲۴۴

تھی ابوہریرہ کی مراد یہ ہے کہ جب حضور حجۃ الوداع سے واپس ہورہے تھے اس وقت کا یہ واقعہ ہے لیکن صحیح تر جو ہے وہ یہ ہے کہ یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی اس کی روایت عمر بن خطاب اور علی ابن ابی طالبؑ نے کی ہے اور اسلام کے پہلے بادشاہ معاویہ اور ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس اور ثمرہ بن جندب نے بھی یہی روایت کی ہے۔(۱)

سیوطی کہتے ہیں کہ ضعف سندوں کے ساتھ ابن مرودویہ اور عساکر نے ابوسعید خدری سے نقل کیا ہے کہ:جب پیغمبرؐ نے علیؑ کو غدیرخم میں کھڑا کیا پس آپ نے علیؑ کی ولایت کا اعلان کیا تو جبرئیل یہ آیت لےکر نازل ہوئے۔

اور ابن مردویہ،خطیب اور ابن عساکر نے ضعیف اسناد کے ساتھ ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ جب غدیرخم کا دن آیا(وہ اٹھارہ ذی الحجہ تھی)تو آپ نے فرمایا:جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں،پس خداوند کریم نے آیہ اکمال دین نازل فرمائی۔( ۲ )

شیخ امینی نے ان دونوں راویوں کو بعد میں ذکر کر کے جواب بھی دیا ہے اور اہل سنت کے معیار جرح و تنقید پر اس حدیث کو صحیح ثابت کیا ہے۔(۳)

انشااللہ یہ گفتگو اس وقت پیش کی جائےگی جب یوم غدیر کے بارے میں خطیب بغدادی سے حدیث میں قوت کا رجحان حدیث ابوہریرہ میں پایا جاتا ہے۔

یہ باتیں پیش بھی نہیں کرنا چاہتا اس لئے کہ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ اہل سنت کے یہاں واقعہ غدیر کا تذکرہ شدت کیا گیا ہے اس بات کو میں آپ کے سامنے پیش کروں احادیث سے احتجاج میرا ہدف نہیں ہے۔

---------------

(۱)تفسیر ابن کثیر،ج:۲ص:۱۵،آیت کی تفسیر میں

(۲)الدر المنثورج:۲ص:۲۵۹،آیت کی تفسیر میں

(۳)الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب،ج:۱ص:۴۰۲

۲۴۵

ہادی اعظم نے علیؑ کے سر پر عمامہ باندھا

۷۔اس موقع پر حضور کائناتؐ نے علیؑ کے سر پر عمامہ باندھا۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ سرور کائناتؐ نے غدیر کے دن میرے سر پر عمامہ باندھ کر پیچھے کی طرف شملہ چھوڑ دیا پھر فرمایا:اللہ نے بدر و حنین کے دن جب فرشتوں سے میری مدد کی تھی وہ یہی عمامہ باندھے ہوئے تھے فرمایا عمامہ کفر اور ایمان کے درمیان حد فاصل ہے۔(۱)

حاضرین نے غدیرخم میں علیؑ کو مبارک باد دی

۸۔حدیث،تاریخ اور تفسیر کے بہت سے علما نے لکھا ہے کہ سرکار دو عالمؐ نے ولایت علیؑ کی نص فرمائی تو حاضرین نے مولائے کائناتؑ کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کیا اس بات کو لکھنےوالوں میں۔

۱۔ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی بکر شیبہ کوفی ہیں وہ براء بن عازب سے نقل کرتے ہیں کہ ہم سفر میں پیغمبرؐ کے ساتھ تو تھے پس جب ہم غدیرخم میں اترے تو حضورؐ نے نماز جماعت کا اعلان کرایا سرکار دو عالمؐ کے لئے درختوں کے نیچے صفائی کردی گئی آپ نے وہاں ظہر کی نماز پڑھائی اور علی کا ہاتھ تھام کر لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم لوگ نہیں مانتے کہ میں مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں انھوں نے کہا ہاں پھر پوچھا کہ کیا تم نہیں مانتے کہ میں ہر مومن پر اس کے نفس سے زیادہ حق رکھتا ہوں لوگوں نے کہا ہاں،آپ نے علی کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا جس کا میں مولا ہوں علی اس کے مولا ہیں،پالنےوالے تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سنن کبریٰ بیہقی ج:۱۰ص:۱۴،کتاب السبق و الرمایۃ:باب التحریض علی الرمی اور اسی طرح مسند الطیالسی ج:۲ص:۲۳،احادیث علی بن ابی طالبؑ میں،الکامل فی الضعفاءج:۴ص:۱۷۳،حالات عبدالبشر بن الشامی میں،الاصابۃج:۴ص:۲۵،حالات عبدالبشر بن الشامی میں،تحفۃ الاحوذی،ج:۵ص:۳۳۶،ابواب اللباس:باب فی سدل العمامۃ بین الکتفین

۲۴۶

براء نے کہا اس وقت عمر اٹھے اور علی کے پاس گئے اور کہنے لگے علی آپ کو مبارک ہو آپ ہر مومن و مومنہ کے مولا ہوگئے۔(۱) ۲۔امام حنابلہ،ابوعبداللہ احمد بن حنبل شیبانی ہیں،امام صاحب نے اس حدیث کو اسناد کے ساتھ براء بن عاذب سے لیا اور انہوں نے ابن شیبہ سے لیا ہے۔لیکن ان کی حدیث میں((اللھم و آل..))والا دعائیہ جملہ نہیں ہے۔(۲)

۳۔ابوبکر احمد بن خطیب بغدادی متوفی۴۶۳؁ہیں انہوں نے ابوہریرہ کے حوالہ سے روایت کی ہے(۳) اور اس کا بیان یوم غدیر کے بارے میں گفتگو تو لکھا جائےگا۔

۴۔حافظ شہاب الدین احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیثمی سعدی انصاری متوفی۹۷۴؁ہیں کہتے ہیں کہ:یہ وہ معنی ہے جس کو ابوبکر اور عمر نے سمجھا اور آپ کو مبارک باد دی۔اور میں ان حدیث تمہارے سامنے رکھتا ہوں جب ان لوگوں نے پیغمبر سے((من کنت مولاہ))کا جملہ سنا تو دونوں نے مولائے کائنات سے کہا اے علی آپ ہر مومن اور مومنہ کے مولا ہوگئے اس حدیث کو دارقطنی نے بھی روایت کیا ہے۔(۴) ۵۔حافظ عمادالدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر شافعی دمشقی(۵)

۶۔ابوعبداللہ محمد بن عمر بن حسن فخر الدین رازی شافعی متوفی۶۰۶؁نے لکھا ہے کہ اس آیتیا ایها الرسول بلغ کے نزول کے ذیل میں جو اقوال آئے ہیں انھیں اقوال میں سے دسواں قول یہ ہے۔(۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مصنف ابن ابی شیبہ ج:۶ص:۳۷۲،کتاب فضائل،فضائل علی بن ابی طالبؑ

(۲)مسند احمدج:۴ص:۲۸۱،حدیث براء بن عاذب میں

(۳)تاریخ بغدادج:۸ص:۲۹۰،حبثون بن موسیٰ بن ایوب کے حالات میں

(۴)الصواعق محرقہ ص:۴۲،گیارہویں شبہ کے جواب میں تیسری وجہ میں

(۵)البدایۃ و النھایۃج:۵ص:۲۲۹،ایسی حدیث کی فصل میں جو دلالت کرتی ہے کہ آنحضرتؐ نے مکہ اور مدینہ کے درمیان خطاب فرمایا حجۃ الوداع کے وقت ہے اور وادی جحفہ سے قریب ہے جیسے غدیرخم کہا جاتا ہے

(۶)سورہ مائدہ آیت:۶۷

۲۴۷

آیہ اکمال علی ابن ابی طالبؑ کی فضیلت میں نازل ہوئی کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سرکارؐ نے علی بن ابی طالبؑ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:میں جس کا مولا ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں پالنےوالے جو ان سے دوستی رکھے تو بھی اس سے دوستی رکھ اور جو ان سے دشمنی کرےتو بھی اس سے دشمنی رکھ،پس عمر نے حضرت علیؑ سے ملاقات کی اور کہا اے ابوطالب کے بیٹے آپ کو مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومنین و مومنات کے مولا ہوگئے اور یہی قول ابن عباس اور براء بن عازب اور محمد بن علی کا بھی ہے۔(۱)

شیخ امینی نے ساٹھ راویوں تک کا شمار کیا ہے لیکن مجھے اختصار اجازت نہیں دیتا کہ تفصیل میں جاؤں۔

واقعہ غدیر کے دن حسان بن ثابت کا معرکۃ الآراء قصیدہ

۹۔حسان بن ثابت اس تاریخی واقعہ کے پس منظر میں مندرجہ ذیل اشعار پڑھے۔

غدیرخم میں ان کا نبی انہیں آواز دے رہا تھا اور میں نبی کا اعلان سن رہا تھا میں نے بھی جواب دینے میں چشم پوشی نہیں کی اور کہا آپ کا خدا ہمارا مولا ہے اور آپ ہمارے ولی ہیں اور مقام ولا میں آپ ہمیں نافرمان نہیں پائیں گے۔

پس آپ نے فرمایا علی اٹھو،بیشک میں اپنے بعد تمہاری امامت اور رہبری پر راضی ہوں۔

پس جس کا میں مولا ہوں یہ بھی اس کا مولا ہے تم لوگ اس ک سچے ناصر اور چاہنےوالے بن جاؤ یہیں پہ سرکار دو عالمؐ نے دعا کی پالنےوالے تو اس محبت کر جو علی کا دوست ہے اور اسے دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔

تمام اہل حدیث اور دوسروں نے اس قصیدے کو نقل کیا ہے اگر چہ اشعار کی تعداد میں اختلاف ہے،جب کہ بعض الفاظ میں اختلاف ہے لیکن یہ اختلاف کچھ اہم نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تفسیر کبیرج:۱۲،ص:۵۰،۴۹

۲۴۸

۱۔حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی متوفی۴۳۰؁ہجری،اپنی کتاب مانزل من القرآن فی علی میں اس حدیث کے تتمہ میں لکھا ہے کہ اکمال دین کی آیت غدیر میں نازل ہوئی۔

۲۔موفق بن احمد بن محمد مکی خواررمی متوفی۵۶۸؁غدیر کا واقعہ لکھنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ حسان بن ثابت نے کہا کہ سرکار مجھے اجازت ہے کہ میں اشعار پڑھوں آپ نے فرمایا:خدا کی برکت ہے پڑھو،حسان کھڑے ہوئے اور کہا:اے قریش کے بزرگو!شہادت رسالت کے کلمہ کو سنو!پھر حسان نے مندرجہ بالا اشعار پڑھے۔(۱) ۳۔جمال الدین بن یوسف بن حسن زرندی،حنفی مدنی متوفی۷۵۰؁(۲) ۴۔حافظ عبداللہ المرزبانی محمد بن عمران خراسانی اپنی کتاب مرقاۃ الشعر میں حسان کے یہ اشعار غدیر کے دن کے حوالے سے شیخ امینی کے بیان کے مطابق لکھے ہیں۔(۳)

۵۔حافظ جلال الدین ابوالفضل عبدالرحمٰن بن ابوبکر سیوطی نے پنے رسالہ((الازدھار فیما عقد الشعراء من الاشعار))میں یہ اشعار تحریر کرتے ہیں اور غدیرخم ان اشعار کا تذکرہ کیا ہے جیسا کہ شیخ امینی نے لکھا ہے۔(۴) تو جناب عالی یہ ہے غدیر کے اہم واقعات اب کچھ اور باتیں رہ گئیں ہیں جن کا لگاؤ غدیر سے ہے۔

غدیر کا روزہ

۱۔شیعوں کے یہاں غدیر کا روزہ آئمہ اہل بیتؑ کی ہدایتوں کی بنیاد پر مستحب ہے(۵)

اہل سنت کے یہاں بھی ابوہریرہ کے حوالہ سے غدیر کے روزے کے بارے میں روایت ملتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مناقب خوارزمی ص:۱۳۶،حدیث۱۵۲(۲)نظم دررالسمطین ص:۱۱۳،۱۱۲(۳)الغدیرج:۲ص:۳۴

(۴)الغدیرج:۲ص:۳۶

(۵)وسائل الشیعہ:ج:۷ص:۳۲۲،کتاب الصوم،باب ۱۴،مستحب روزوں کے ابواب میں سے اور بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ یہ روزہ ساٹھ ماہ کے روزوں کے برابر ہے،حدیث۱۰،۲

۲۴۹

ابوہریرہ نے آیۂ اکمال کا تذکرہ کرتے ہوئے غدیر کے روزے کی صراحت کی ہے ابوہریرہ سے جن لوگوں نے صوم غدیر والی روایت نقل کی ہے ان میں خطیب بغدادی ہیں وہ اپنی سند کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ابوہریرہ نے کہا کہ اٹھارہ ذی الحجہ کا روزہ ساٹھ مہینوں کے روزوں کے برابر ہے جو غدیر کا روزہ رکھے اس کو ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب ملےگا۔

غدیر کا دن وہی دن ہے جب حضورؐ نے علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر مسلمانوں سے پوچھا تھا کہ کیا میں مومنین کا ولی نہیں ہوں لوگوں نے کہا ہاں اے خدا کے رسول آپ نے فرمایا:جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں پس عمر نے کہا اے ابوطالب کے بیٹے آپ کو مبارک ہو مبارک ہو آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ہوگئے پس یہ آیت نازل ہوئی: (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا) (۱)

اور جو۲۷/رجب کا روز رکھےگا اس کو ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب ملےگا۔

۲۷/رجب وہ پہلا دن ہے جب محمدؐ پر جبرئیل رسالت کا پہلا پیغام لائے تھے۔

پھر خطیب لکھتے ہیں کہ یہ حدیث جبثون کی روایتوں میں مشہور ہے اور وہ اس کا تنہا راوی ہے اس حدیث میں احمد بن عبداللہ بن نیری نے اس کی متابعت کی ہے اس روایت کو اس نے علی بن سعید سے بیان کیا ہے اس کی خبر مجھے ازہری نے دی ہے،مجھ سے محمد بن عبداللہ بن اخی میمی نے اس کو لکھوایا یا احمد بن عبداللہ بن احمد بن عباس بن سالم نے اس کو مہران سے جو ابن نیری کے نام سے مشہور ہیں اس سے علی ابن سعید شامی نے س سے ضمرہ بن ربیعہ نے اس سے ابن شوذم نے،اس سے مطرنے،اس سے شہر ابن شامی نے،اس سے ابوہریرہ نے کہ جو اٹھارہ ذی الحجہ کا روزہ رکھے اس کو ساٹھ مہینوں روزے کا ثواب ملےگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ مائدہ آیت:۳

۲۵۰

اکمال دین والی آیت پر جب گفتگو ہورہی تھی تو میں نے اشارتاً عرض کیا تھا کہ اس صوم غدیروالی حدیث کی صحت میں اختلاف ہے۔

حارث بن نعمان فہری کا واقعہ ((سئل سائل بعذاب واقع))

۲-(سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ-لِّلْكَافِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ-مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ)(۱)

ترجمہ:ایک سائل نے کافروں پر واقع ہونےوالے عذاب کا سوال کیا جو بلندیوں والے خدا کی طرف سے آتا ہے اور اس کو روکنےوالا کوئی نہیں۔اس آیت کی شان نزول ملاحظہ ہو جب غدیرخم کا واقعہ اور اس دن مولا علی کے سلسلہ میں سرکار نے جو کچھ فرمایا تھا وہ بات شہروں میں پھیل گئی تو یہ بات حارث بن نعمان فہری تک بھی پہونچی پس وہ حضور کی خدمت میں ایک ناقہ پر سوار ہو کر آیا اور ایک نالے میں اپنے ناقہ سے اترا اور اسے بٹھادیا،پھر حضور سے کہنے لگا،محمدؐ آپ نے ہمیں کلمہ شہادتیں کا حکم دیا تو ہم نے گواہی دی آپ نے ہمیں نماز پنجگانہ کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا پھر آپ نے ہمیں زکات نکالنے کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا آپ نے ہمیں ایک مہینہ روزہ رکھنے کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا آپ نے ہمیں حج کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا پھر آپ نے اتنے ہی پر اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے چچازاد بھائی کو بلند کرکے ہم سب پر اس کو افضل قرار دیا اور کہا:((میں جس کا مولا ہوں علیؑ اس کا مولا ہے))سچ بتایئےگا کہ یہ آپ نے اپنی طرف سے ہا ہے یا خدا کی طرف سے۔

سرکارؐ نے فرمایا:اس کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں یہ میں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے کہا ہے یہ سن کر حارث بن نعمان اپنی سواری کی طرف یہ کہتا ہوا مڑا:پالنےوالے اگر محمدؐ حق کہہ رہے ہیں تو مجھ پر آسمان سے پتھر برسادے یا ہمیں دردناک عذاب دیدے ابھی وہ اپنی سواری تک پہونچا نہیں تھا کہ اللہ نے اس پر ایک پتھر مارا جو اس کے سر پر لگا اور سر کو پھاڑتا ہوا نیچے سے نکل گیا اور خدا نےیہ آیت نازل فرمائی((سأل سائل..)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ معارج:آیت:۳،۲،۱

۲۵۱

مذکورہ بالا حدیث کی علماء اہل سنت کی ایک بڑی جماعت نے روایت کی ہے کچھ کے نام ذیل میں دیئے جارہے ہیں۔

۱۔جمال الدین محمد بن یوسف بن حسن بن محمد زرندی حنفی مدنی(۱) ۲۔سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی متوفی۱۲۹۴؁(۲)

۳۔محمد بن عبدالرؤف مناوی متوفی۱۳۳۱؁(۳) ۴۔علی بن برہان الدین شافعی حلبی۔(۴)

۵۔حافظ کبیر عبیداللہ بن عبداللہ بن احمد جو حاکم حسکانی کے نام سے مشہور ہیں۔(۵) ۶۔خطیب شربینی(۶)

۷۔ابوعبداللہ محمد بن ابوبکر قرطبی متوفی۶۸۱؁(۷) لیکن انہوں نے آیت کی وجہ بیان کرتے وقت کہا ہے کہ ایک قول یہ ہے کہ یہاں پر سائل نے کہا..۸۔قاضی القضاۃ امام ابوسعود محمد بن محمد عمادی متوفی۵۹۱؁(۸) انہوں نے اس روایت کے ذکر کے ساتھ اس کی تضعیف کی ہے جیسا قرطبی و غیرہ کا قول گذرچکا ہے۔

حدیث غدیر مقام احتجاج میں

۳۔حدیث غدیر کو دلیل بنا کر امیرالمومنینء،اہل بیت اطہارؑ اور شیعوں نے خلافت بلافصل پر احتجاج کیا ہے اس سلسلہ میں بہت سی باتیں ہیں اس لئے حدیث غدیر بذات خود بہت سے واقعات کی جامع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)نظم دررالسمطین ص:۹۳

(۲)ینابیع المودۃج:۲ص:۳۶۹،۳۹۸

(۳)فیض القدیر شرح جامع الصغیرج:۶ص:۲۸۲،من کنت مولا...کی شرح میں

(۴)سیرہ حلبیہ ج:۳ص:۳۰۹،۳۰۸،حجۃ الوداع میں

(۵)شواہد التنزیل ج:۲ص:۲۸۹،۲۸۶،آیت سال سائل کے ذیل میں

(۶)سراج المنیرج:۴ص:۳۶۴،آیت کی تفسیر میں

(۷)تفسیر قرطبی ج:۱۸ص:۲۷۹،۲۷۸آیت سال سائل کے ذیل میں

(۸)تفسیر ابی مسعود ج:۹ص:۲۹،آیت کی تفسیر میں

۲۵۲

ہے،شیخ امینی نےاس پر بھرپور اور مکمل بحث کی ہے،میں تو صرف اس واقعہ کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو کوفہ میں مقام رحبہ میں پیش آیا۔

رحبہ(کوفہ)میں امیرالمومنینؑ کا حدیث غدیر کےحوالہ سے مناظرہ اور مناشدہ

احمد بن حنبل نے حسین بن محمد اور ابونعیم معنی سے روایت کی ہے کہ ان دونوں نے کہا:ہم سے فطر نے کہا ہے اس نے ابوطفیل سے روایت کی ہے کہ وہ کہتا ہے امیرالمومنینؑ نے رحبہ میں ہم لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا:میں ہر اس مسلمان کو خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے پیغمبر کو غدیرخم میں سنا تھا وہ بتائے کہ کیا سنا تھا؟پس تیس آدمی کھڑے ہوگئے۔

ابونعیم کہتا ہے کہ بہت سے آدمی کھڑےہوئے اور انہوں نے گواہی دی کہ جب پیغمبر نے علی کا ہاتھ پکڑ کر تمام لوگوں سے کہ تھا((کیا میں مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ حق نہیں رکھتا انہوں نے کہا تھا:ہاں اے خدا کے رسولؐ،آپ نے فرمایا:جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے پالنےوالے جو علی کو دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور جو علی کو دشمن رکھے تو بھی اس کو دشمن رکھ،وہ کہتا ہے کہ پس میں اس مجلس سے اٹھا اس حال میں کہ یری دل میں پھانسی تھی کہ زید بن ارقم صحابی نل گئے میں نے علی سے جو کھ سنا تھا انہیں بتایا اور کہا علی ایسے ایسے کہہ رہے تھے زید نے کہا پھر تمہیں انکار کی جرات کیسے ہوئی؟میں نے خود پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو علی کے لئے یہ باتیں کہتے سنا تھا۔(۱)

ہیثمی اس حدیث کے تذکرہ کے بعد کہتے ہیں کہ اس حدیث کے رجال صحیح ہیں سوائے فطر بن خلیفہ کے حالانکہ وہ ثقہ ہے۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مسند احمدج:۴ص:۳۰،حدیث زید بن ارقم میں

(۲)مجمع الزوائدج:۹ص:۱۰۴،کتاب المناقب،مناقب علی بن ابی طالبؑ کے باب میں،من کنت مولا کے ضمن میں

۲۵۳

مولائے کائنات کا یہ منا شدہ مشہور ہے اور متعدد طریقوں سے اس کی روایت کی گئی ہے اگر چہ اس کی خصوصیات میں اختلاف ہے جس طرح ہر تفصیلی واقعہ میں ہوتا ہے۔اہل سنت و الجماعت کی ایک کثیر تعداد نے اس کا ذکر کیا ہے ان میں سے بعض کے نام حاضر ہیں۔

۱۔حافظ ابوعبدالرحمٰن بن احمد بن شعیب نسائی۔(۱) ۲۔حافظ ابوالحسن علی بن ابی بکر سلیمان ہیثمی۔(۲)

۳۔ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ کوفی۔(۳) ۴۔ابوالمحاسن یوسف یوسف بن موسیٰ حنفی۔(۴)

۵۔حافظ ضیاءالدین ابوعبداللہ محمد بن عبدالواحد بن احمد حنبلی مقدسی(۵) ۶۔حافظ ابوبکر احمد بن عمر بن ابی عاصم ضحاک مخلد شیبانی(۶)

۷۔حافظ ابویعلی احمد بن علی بن مثنیٰ موصلی تمیمی(۷)

۸۔امام حنابلہ ابوعبداللہ احمد بن حنبل شیبانی(۸)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سنن کبریٰ ج:۵ص:۱۳۱،کتاب الخصائص نبیؐ کے قول،من کنت مولاہ،ص:۱۳۴،کتاب الخصائص ترغیب محبت علی بن ابی طالبؑ اور عداوت سے پرہیز،اور کتاب خصائص ص:۹۶،۹۵،قول نبیؐ کی روایت ہوئی ہےص:۱۰۰،اور دعائے نبیؐ ص:۱۰۴،۱۰۳،پر جس میں علیؑ کے اور چاہنے والوں کے دعا کی ہے،اور دشمنوں کے لئے بددعا کی ہے

(۲)مجمع الزوائدج:۹ص:۱۰۸،۱۰۷،۱۰۶،۱۰۵،۱۰۴،کتاب،مناقب،مناقب علی بن ابی طالب،قول من کنت مولاہ کے ضمن میں

(۳)مصنف ابن ابی شیبہ ج:۶ص:۳۶۸،کتاب الفضائل،فضائل علی بن ابی طالب میں

(۴)معتصر المختصرج:۲ص:۳۰۱،کتاب جامع مما لیس فی الموطا،مناقب علیؑ

(۵)الاحادیث المختارۃج:۲ص:۱۰۶،۱۰۵،سعید بن وھب ہمدانی کے علی سے اس کی روایت کی ہے

(۶)السنۃ ابن ابی عاصم ج:۲ص:۶۰۷،من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے باب میں

(۷)مسند ابی یعلی ج:۱ص:۴۲۹،علی بن ابی طالب کے مسند میں

(۸)مسند احمدج:۱ص:۱۱۸،۸۴،علی بن ابی طالبؑ کے مسند میں

۲۵۴

۹۔حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب طبرانی(۱)

۱۰۔علی ابن محمد حمیری متوفی۳۲۳؁(۲)

۱۱۔حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی متوفی۴۳۰؁(۳)

۱۲۔علی بن برہان الدین شافعی حلبی(۴)

یہاں ایک دوسرا واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے جسے ایک جماعت نے دوسری ہی شکل میں پیش کیا ہے اور شاید یہ مذکورہ بالا مناشدہ کی مدافعت بھی کررہا ہے،یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل ہی الگ ہو۔

زیر نظر واقعہ کی جو صورتیں کی گئی ہیں ان میں ایک صورت واقعہ یہ ہے کہ احمد اپنی سند سے ریاح بن حارث سے روایت کرتے ہیں کہ مولائے کائناتؑ کے پاس ایک گروہ مقام رحبہ میں آیا اور بولا آپ پر سلام ہو میرے مولا،علیؑ نے فرمایا:میں تمہارا مولا کیسے ہوگیا؟

تم تو عرب ہو،انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے غدیرخم میں سرکار دو عالمؐ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا تھا:میں جس کا مولا ہوں یہ(علی)اس کا مولا ہے۔

ریاح کہتے ہیں کہ:جب وہ لوگ جانے لگے تو میں بھی ان کے پیچھے چلا اور میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟مجھے بتایا گیا کہ انصار کا ایک گروہ ہے ان میں ابوایوب انصاری بھی ہیں۔(۵)

ایک اور واقعہ اس طرح ہے کہ ابن کثیر نے ابن عقدہ کی کتاب((الموالات))کے حوالہ سے

-------------------------

(۱)معجم الصغیرج:۱ص:۱۱۹،باب الا نومن اسمہ احمد،معجم کبیرج:۵ص:۱۷۱جس میں زید بن وھب نے ارقم سے روایت کی ہے

(۲)جزءالحمیری ص:۳۳(۳)حلیۃ الاولیاءج:۵ص:۲۶،طلحہ بن مصرف کے حالات میں(۴)سیرۃ الحلبیہ،ج:۳ص:۳۰۸،حجۃ الوداع میں

(۵)مسند احمدج:۵ص:۴۱۹،ابوایوب انصاری کی حدیث میں،مجمع الزوائدج:۹ص:۱۰۴،۱۰۳،کتاب مناقب،باب مناقب علیؑ من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے قول کے ضمن میں،معجم کبیرج:۴ص:۱۷۳،ریاح بن حادث نے ابوایوب سے جو روایت کی ہے

۲۵۵

لکھا ہے کہ ابن عقدہ نے اپنی اسناد سے روایت کی ہے ابومریم زربن حبیش سے کہ وہ کہتے ہیں کہ مولائے کائناتؑ قصر سے باہر نکلے تو تلواروں کو آویزان کئے ہوئے کچھ سواروں نے آپ کا استقبال کیا اور کہا اے امیرالمومنین آپ پر سلام ہو،آپ پر سلام ہو اے ہمارے مولا،مولائے کائناتؑ نے فرمایا:یہاں پر نبی کے اصحاب کون لوگ ہیں؟وہاں بارہ آدمی کھڑے ہوئے ان میں قیس بن ثابت بن مشاس ہاشم بن عتبہ،حبیت بن بدیل بن ورقاء تھے انہوں نے شہادت دی کہ انہوں نے نبی کو یہ کہتے سنا ہے کہ:میں جس کا مولا ہوں علی اس کے مولا ہیں۔(۱)

جس نے غدیر کی گواہی دینے سے منع کیا اس لئے امیرالمومنین حضرت علیؑ کی بددعا

ان مناشدوں یا دونوں مناشدوں کے ذیل عرض ہے کہ بعض صحابہ نے جو غدیر میں حاضر تھے لیکن نبی سے حدیث((من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ))سننے کے باوجود غدیر کی گواہی دینے سے انکار کیا۔

مولائے کائنات نے انکار کرنےوالوں پر بددعا کی اور اس کا اثر بھی ظاہر ہوا،ملاحظہ ہو..

احمد بن حنبل نے احمد بن عمرو کیعی سے،انہوں نے ابن حباب سے،انہوں نے ولید بن عقبہ بن نزاد عبسی سے،انہوں نے سماک بن عبید بن ولید عبسی سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے مقام درحبہ میں علی کے بارے میں شہادت دی تھی،علی نے اس دن فرمایا میں ہر اس آدمی کو خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے غدیرخم میں رسول اکرمؐ سے حدیث سنی تھی کھڑا ہوجائے اور وہ کھڑا نہ ہو جس نے پیغمبر کو نہیں دیکھا تھا،یہ سنتے ہی بارہ آدمی کھڑے ہوگئے اور انہوں نے گواہی دی کہ ہم نے غدیرخم میں سنا بھی تھا اور دیکھا بھی تھا کہ سرکار نےعلی کا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا((پالنےوالے اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرے،اس سے محبت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)اسدالغابۃج:۱ص:۳۶۹،۳۶۸،حبیب بن بدیل بن ورقاء کے حالات میں

۲۵۶

کر جو علی سے محبت کرے اور اسے دشمن رکھ جو علی سے دشمنی رکھے اور اس کو رسوا کردے جو علی کو رسوا کرے،پس سب لوگ گواہی دینے کو کھڑے ہوگئے سوائے تین آدمیوں کے تو مولائے کائناتؑ نے انہیں بددعا دی اور آپ کی بددعا فوراً قبول ہوگئی۔(۱)

احمد بن حنبل کے علاوہ سنی علماء کی ایک بڑی جماعت نے لکھا ہے۔

کہ مولائے کائنات نے ان پر بددعا کی تھی جنہوں نے گواہی نہیں دی تھی اور آپ کی بددعا کا اثر بھی ہوا تھا،ان لوگوں میں:

۱۔حافظ ابوالحسن علی بن ابی بکر سلیمان ہیثمی ہیں۔(۲) ۲۔حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب طبرانی ہیں۔(۳)

۳۔حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی ہیں۔(۴) ۴۔علی بن برہان الدین شافعی حلبی ہیں۔(۵)

حدیث غدیر کی شہرت اور اشاعت پر اس مناشدہ کا اثر

ظاہر ہے کہ مناشدہ کا یا اس طرح کے مناشدوں کا خصوصاً مولائے کائنات کی دعا کے قبول ہونے کی شہرت کا حدیث غدیر کے ظہور اور اس کی شیاع نیز اس کو باقی رکھنے پر اچھا خاصا اثر پڑا اس لئے کہ عام مسلمان اس حدیث کو بلکہ فضائل اہل بیتؑ میں وارد بہت سی حدیثوں سے ناواقف تھے اس لئے کہ حکومت وقت کی طرف سے ایسی سنت نبوی پر جمود طاری کردیا تھا اور حکومت کو اپنے مطابق گھمارہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مسنداحمدج:۱ص:۱۱۹،مسند علی بن ابی طالبؑ

(۲)مجمع الزوائدج:۹ص:۱۰۶،کتاب مناقب،مناقب علیؑ من کنت مولا کے قول کے ضمن میں

(۳)معجم کبیرج:۵ص:۱۷۱،زید بن وجب نے زید بن ارقم سے روایت کی ہے

(۴)حلیۃ الاولیاءج:۵ص:۲۷،طلحہ بن مصرف کے حالات میں

(۵)سیرۃ الحلبیہ ج:۳ص:۳۰۸،حجۃ الوداع میں

۲۵۷

سنت نبوی کو جامد کرنے اور اس کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کے شواہد

کتابوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیرت نبوی کا اخفا اور اس کو ضائع کرنے کی کوشش حیات پیغمبرؐ میں ہی شروع ہوگئی تھی جب کہ طوعاً یا کرہاً بہت سے لوگ مسلمان ہونےوالوں نے دیکھا کہ نبی ان کی ذاتی مصلحتوں اور ان کی انانیت کی طرف متوجہ نہیں ہیں تو خاص طور سے علیؑ اور ان کے اہل بیتؑ اور اصحاب خاص کے لئے ان کے دلوں میں کینہ اور دشمنی بھری ہوئی تھیں جو اہل بیت کی اطاعت کو معیار حب و بغض نبوی کو قرار دیتے تھے۔

نمونہ کے طور پر ایک حدیث ملاحظہ ہو،عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں سرکار دو عالم سے جو کچھ سنا کرتا تھا اسے لکھ لیا کرتا تھا تا کہ حفظ کرسکوں تو قریش نے اس کام سے منع کیا انہوں نے کہا تم تو ہر چیز جو نبی سے سنتے ہو لکھے جارہے ہو پیغمبر تو ایک بشر ہیں کبھی غصہ میں بولتے ہیں کبھی خوش ہو کر بولتے ہیں عبداللہ بن عمر نے کہا پھر میں نے لکھنا چھوڑ دیا لیکن نبی سے اس کا تذکرہ کردیا حضورؐ نے فرمایا:تم لکھا کرو اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے مجھ سے حق کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔(۱)

(تاریخ کہتی ہے کہ سرکار کائناتؐ نے اس بات کا احساس کرلیا تھا آپ کی سنت اور حدیثوں کے خلاف سازشیں شروع ہوگئی ہیں)(مترجم)اس لئے حضورؐ نے ان کوشش پر اعتراض کیا تھا،حضرت فرماتے ہیں کہ میں نہیں چاہتا ایسا آدمی جو اپنے بستر پر مسند علم سے تکیہ لگائے بیٹھا رہے اور اس کے سامنے اوامر و نواہی آئیں تو یہ کہہ کر ٹال دے کہ میں نہیں جانتا کہ اس کا کیا حکم ہے اس لئے کہ کتاب خدا میں اس کے بارے میں کچھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مسنداحمدج:۲ص:۱۶۲،مسندعبداللہ بن عمرو بن العاص،اور اسی طرح ص:۱۹۲،مسند عبداللہ بن عمر بن العاص،سنن ابی داؤودج:۳ص:۳۱۸،اول کاتب العلم:باب کتاب العلم،سنن درامی ج:۱ص:۱۳۶،باب من رخص فی کتابہ العلم،مستدرک علی صحیحین ج:۱ص:۱۸۷،کتاب العلم،تحفۃ الاحوذی ج:۷ص:۳۵۷،فی شرح احادیث باب ماجاء فی الرخصۃ،المدخل السنن الکبریٰ ج:۲ص:۴۱۵،باب من رخص فی کتابہ العلم،الجامع الاخلاق الراوی و آداب السامع ج:۲ص:۳۶،الکتابۃ عن المحدث فی المذاکرۃ

۲۵۸

نہیں پاتا کہ اس کی پیروی کرسکوں۔(۱)

آثار پیغمبرگو نقصان پہونچانے کی کوششیں اس وقت اور تیز ہوگئی جب سرکار دو عالمؐ پر مرض کی حالت طاری ہوئی اور قریش کے لوگوں کی حرکتوں میں تیزی آگئی انہوں نے حضور سرور کائنات کو وہ تحریر دینے سے روک دیا جس میں وہ اپنی امت کو گمراہی سے بچانا چاہتے تھے اس سلسلے میں آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عمر کا قول گذرچکا ہے کہ انہوں نے یہ کہہ کہ پیغمبرؐ کی بات رد کردی کہ ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب قریش کے لوگ حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو آثار نبوی کو مٹانے کی کوشش کو کھل کر عملی شکل دیدی اس لئے کہ حضور سرور کائناتؑ اب اس دنیا میں موجود نہٰں تھے چنانچہ ابوبکر نے پانچ سو حدیثوں میں جنہیں انہوں نے خود لکھا تھا آگ لگادی(۲) اور خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ کوئی نبیؐ سے حدیث کو بیان نہ کرے،کہتے ہیں:تم لوگ نبی سے مختلف حدیثیں بیان کرتے ہو جس کی وجہ سے تمہارے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے اور تمہارے بعد آنےوالوں میں زیادہ اختلاف ہوگا،اس لئے تم نبی سے حدیثیں بیان مت کرو تم سے اگر کوئی پوچھے بھی تو کہہ دو کہ ہمارے درمیان کتاب خدا موجود ہے کتاب خدا میں جو حلال ہے اسے حلال سمجھو اور جو حرام ہے اسے حرام سمجھو۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)السنن الکبریٰ للبیہقی ج:۷ص:۷۶،کتاب النکاح:جماع ابواب ماخص بہ رسول اللہؐ،سنن ابی داؤودج:۴ص:۲۰۰،کتاب السنۃ:باب فی لزوم السنۃ،سنن ابن ماجہ ج:۱ص:۶،سنن ترمذی ج:۵ص:۳۷،کتاب العلم عن رسول اللہؐ باب ما نہی عنہ ان یقال عند حدیث النبیؐ مستدرک علی صحیحین ج:۱ص:۱۹۰،کتاب العلم،صحیح ابن حبان ج:۱ص:۱۹۱،ذکر الخبر المصر ح..اور اسی طرح تذکرۃ الحفاظ ج:۳ص:۱۱۹۰،حالات ابی اسماعیل عبداللہ بن محمد الانصاری

(۲)تذکرۃ الحفاظ ج:۱ص:۵،حالات ابی بکر میں،الریاض النضرۃج:۲ص:۱۴۴،ابوبکر کے ذکر میں،کنزالعمال ج:۱۰ص:۲۸۵،باب فی اداب العلم و العلماء:فصل فی روایۃ الحدیث

(۳)تذکرۃ الحفاظ ج:۱ص:۲۔۳،طبقہ اولی،حالات ابی بکر میں

۲۵۹

عمر نے اصحاب کو حکم دیا کہ جنہوں نے سرکار دو عالم کی حدیثیں لکھی ہیں وہ ان کے پاس لائیں بےچارے اصحاب سمجھے کہ عمر حدیث نبی کو جمع کرکے کتابی شکل دینا چاہتے ہیں ایک مہینہ تک عمر کے پاس لوگ وہ مکتوبات جمع کرتے رہے اس کے بعد عمر نے اس میں آگ لگادی(۱) قرظہ اور ان کے ساتھی جب عراق کے لئے جارہے تھےتو عمران کی مشایعت میں نکلے اور ان سے کہنے لگے تمہیں معلوم ہے میں تمہارے ساتھ کیوں چل رہا ہوں ان لوگوں نے کہا ہاں اس لئے کہ ہم اصحاب پیغمبر ہیں اس لئے تم ہماری مشایعت کررہے ہو،عمر نے کہا(نہیں بلکہ میں اس لئے چل رہاہوں کہ راستے میں میں تم سے کچھ وصیتیں کرسکوں)(مترجم)

تم اپنے شہر میں جارہے ہو جہاں قرآن مجید کی تلاوت کی آواز گونج رہی ہے(اس لئے کہ وہاں قرآن کے لئے ماحول سازگار ہے)اب تم وہاں حدیثیں مت پیش کرنا کہ وہ قرآن کو چھوڑ کر حدیثوں میں مشغول ہوجائیں قرآن کو حدیثوں سے الگ رکھو اور پیغمبر سے حدیثیں کم سے کم بیان کرو اس کام کو جاری رکھو میں تمہارا شریک ہوں اب جو قرظہ عراق میں پہونچے(تو مجمع سمجھا یہ اصحاب پیغمبر ہیں ہم سے کچھ محبوب و دیار محبوب کی باتیں کریں گے)تو لوگوں نے کہا پیغمبر کی حدیثیں سنایئے انہوں نے کہا کہ عمر نے ہمیں سختی سے منع کیا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ قرظہ نے کہا ہم پیغمبر کی کوئی حدیث نہیں سناسکتے۔(۲)

کچھ اصحاب کو تو صرف اس لئے قید کردیا گیا کہ وہ کثرت سے احادیث پیغمبرؐ بیان کرتے تھے جیسے عبداللہ بن مسعود،ابوذر و غیرہ۔(۳)

عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں کہ عمر اس وقت تک زندہ رہے کہ انھوں نے چاروں طرف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الطبقات الکبریٰ ج:۵ص:۱۸۸،سیرہ اعلام النبلاءج:۵ص:۵۹،حالات ابوالقاسم بن محمد بن ابی بکر میں

(۲)معتصر المختصرج:۲ص:۳۸۱،کتاب جامع ممالیس فی الموطا..،تذکرۃ الحفاظ ج:۱ص:۷،عمر بن خطاب کے حالات میں،مستدرک علی صحیحن ج:۱ص:۱۸۳،کتاب العلم

(۳)تذکرۃ الحفاظ ج:۱ص:۷،عمر بن خطاب کے حالات میں،معتصر المختصر،ج:۲ص:۳۸۰،کتاب جامع ممالیس فی الموطا

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296